JavaScript is disabled. For a better experience, please enable JavaScript in your browser before proceeding.
You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser .
روئیں نہ ابھی اہلِ نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
آوارہ ومجنُوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ
مِلنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ
اسرارالحق مجاز
نِگاہ مِلتے ہی ماہر میں ہوگیا غافل
پھر اُس کے بعد کو کیا کچھ ہُوا، خدا معلوم
ماہرالقادری
فسانہ اُن کی نِگاہوں کا کیا کہُوں ماہر
ابھی وہ تِیر کلیجے میں پائے جاتے ہیں
ماہرالقادری
ماضی شریکِ حال ہے، کوشِش کے باوجود
دُھندلے سے کچھ نقُوش ابھی تک نظر میں ہیں
لِلہ اِس خلُوص سے پُرسِش نہ کیجئے
طُوفان کب سے بند مِری چشمِ ترمیں ہیں
اقبال عظیم
تاکیدِ ضبْط ، عہدِ وفا، اذنِ زندگی
کتنے پیام اِک نگہہ مُختصر میں ہیں
اقبال عظیم
حالِ دل کہہ دیں کسی سے، بارہا سوچا مگر
اِس اِرادے کو ہمیشہ مُلتوی کرتے رہے
خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلّق کا فریب
اور درپردہ ، کسی کو یاد بھی کرتے رہے
اقبال عظیم
تشبیہہ دے کے قامتِ جاناں کو سَرْو سے
اونچا ہرایک سَرْو کا قد ہم نے کر دیا
سراج الدین ظفر
آیا، جوتذکرے میں جہنّم کے میرا نام
حُوروں کو آرزُوئے مُلاقات ہوگئی
سراج الدین ظفر
جادُو ہے یا طِلسْم تُمھاری زبان میں
تم جُھوٹ کہہ رہے تھے، مجھے اعتبارتھا
بیخود دہلوی
میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا مگر اُن کی راہ میں ہُوں فِدا
مُجھے خاک میں وہ مِلا چکے، مگر اب بھی دل میں غُبار ہے
اکبر الٰہ آبادی
Create an account or login to comment
You must be a member in order to leave a comment
Create account
Create an account on our community. It's easy!
Log in
Already have an account? Log in here.
New posts