ہم کیوں یہ مُبتلائے بے تابیِ نظر ہیں
تسکینِ دل کی یا رب، وہ صُورتیں کدھر ہیں
غم خانۂ جہاں میں وُقعت ہی کیا ہماری
اِک نا شُنِیدہ اُف ہیں، اِک آہِ بے اثر ہیں
اکبرالٰہ آبادی
اُڑتے ہی رنگِ رُخ مِرا، نظروں سے تھا نہاں
اُس مُرغِ پَرشِکسْتہ کی پرواز دیکھنا
ترکِ صنم بھی کم نہیں سَوزِ جَحِیم سے
مومن غمِ مآل کا آغاز دیکھنا
مومن خاں مومن
ضیائے بزْمِ جہاں بار بار مانْد ہوئی
حدیثِ شعلہ رُخاں باربارکرتے رہے
اِنھیں کے فیض سے بازارِعقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنُوں اِختیار کرتے رہے
فیض احمد فیض