کیا قیامت ہے ذرا اے اہلِ محشر دیکھنا
اُن کی یہ نیچی نگاہیں ۔۔۔ میرا اُوپر دیکھنا
گنبد چرخ کہن میں اب تو جی لگتا نہیں
دوسری دنیا میں ۔۔۔ کوئی دوسرا گھر دیکھنا
وہ خفا بے سبب نہ ہو جائے
کہیں ایسا غضب نہ ہو جائے
بے تکلف تو کر دیا تم نے
اب یہ دل بے ادب نہ ہو جائے
عشق پیشہ تو ہم ہوئے کیفی!
یہ بھی اُن کا لقب نہ ہو جائے
یہ پتا ہے مرے ٹھکانے کا
برق تنکا ہے ۔۔ آشیانے کا
ہم جو روٹھے تو وہ بگڑتے ہیں
یہ نیا ڈھنگ ہے ۔۔ منانے کا
ایسے آنے سے تو نہ آنا تھا
آتے ہی تذکرہ ہے جانے کا
گرچہ کیفی ہے ۔۔۔ خانہ آوارہ
آدمی ہے مگر ۔۔۔۔ ٹھکانے کا