Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

احمد فراز

سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
احمد فراز

سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہنر یار کے رکھ دیتے ہیں
شاید آ جائیں کبھی چشم خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں
تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں
اب کسے رنج اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گل و گلزار کے رکھ دیتے ہیں
ذکر جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسئلے بے کار کے رکھ دیتے ہیں
وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہل دل بھی
طاق نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں
زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں
ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھ دیتے ہیں
 
خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
احمد فراز


خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
جو چھوڑ گیا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
میری طرح تو نے شب ہجراں نہیں کاٹی
میری طرح اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا
تو دشنۂ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے
تو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
تھے کوچۂ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا
اب یاد نہیں مجھ کو فرازؔ اپنا بھی پیکر
جس روز سے بکھرا ہوں سمٹ کر نہیں دیکھا

بہت کمال غزل
عمدہ اپڈیٹ
 
گماں یہی ہے کہ دل خود ادھر کو جاتا ہے
احمد فراز



گماں یہی ہے کہ دل خود ادھر کو جاتا ہے
سو شک کا فائدہ اس کی نظر کو جاتا ہے
حدیں وفا کی بھی آخر ہوس سے ملتی ہیں
یہ راستہ بھی ادھر سے ادھر کو جاتا ہے
یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے
سو جائے بھی تو پہر دو پہر کو جاتا ہے
یہ حال ہے کہ کئی راستے ہیں پیش نظر
مگر خیال تری رہگزر کو جاتا ہے
تو انوریؔ ہے نہ غالبؔ تو پھر یہ کیوں ہے فرازؔ
ہر ایک سیل بلا تیرے گھر کو جاتا ہے
Boht behtareen phar kye maza a raha ha
 
تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
احمد فراز


تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دوں
ترے بدن میں دھڑکنے لگا ہوں دل کی طرح
یہ اور بات کہ اب بھی تجھے سنائی نہ دوں
خود اپنے آپ کو پرکھا تو یہ ندامت ہے
کہ اب کبھی اسے الزام بے وفائی نہ دوں
مری بقا ہی مری خواہش گناہ میں ہے
میں زندگی کو کبھی زہر پارسائی نہ دوں
جو ٹھن گئی ہے تو یاری پہ حرف کیوں آئے
حریف جاں کو کبھی طعن آشنائی نہ دوں
مجھے بھی ڈھونڈ کبھی محو آئنہ داری
میں تیرا عکس ہوں لیکن تجھے دکھائی نہ دوں
یہ حوصلہ بھی بڑی بات ہے شکست کے بعد
کہ دوسروں کو تو الزام نارسائی نہ دوں
فرازؔ دولت دل ہے متاع محرومی
میں جام جم کے عوض کاسۂ گدائی نہ دوں
 
خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
احمد فراز
خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
جو چھوڑ گیا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
میری طرح تو نے شب ہجراں نہیں کاٹی
میری طرح اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا
تو دشنۂ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے
تو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
تھے کوچۂ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا
اب یاد نہیں مجھ کو فرازؔ اپنا بھی پیکر
جس روز سے بکھرا ہوں سمٹ کر نہیں دیکھا
 
تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
احمد فراز


تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دوں
ترے بدن میں دھڑکنے لگا ہوں دل کی طرح
یہ اور بات کہ اب بھی تجھے سنائی نہ دوں
خود اپنے آپ کو پرکھا تو یہ ندامت ہے
کہ اب کبھی اسے الزام بے وفائی نہ دوں
مری بقا ہی مری خواہش گناہ میں ہے
میں زندگی کو کبھی زہر پارسائی نہ دوں
جو ٹھن گئی ہے تو یاری پہ حرف کیوں آئے
حریف جاں کو کبھی طعن آشنائی نہ دوں
مجھے بھی ڈھونڈ کبھی محو آئنہ داری
میں تیرا عکس ہوں لیکن تجھے دکھائی نہ دوں
یہ حوصلہ بھی بڑی بات ہے شکست کے بعد
کہ دوسروں کو تو الزام نارسائی نہ دوں
فرازؔ دولت دل ہے متاع محرومی
میں جام جم کے عوض کاسۂ گدائی نہ دوں
 
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
احمد فراز


جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکوں ہو
یہ چوٹ کسی صاحب محفل سے لگی تھی
اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامن قاتل سے لگی تھی
اترا بھی تو کب درد کا چڑھتا ہوا دریا
جب کشتیٔ جاں موت کے ساحل سے لگی تھی
 
ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں
احمد فراز

ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں
تجھ کو بھولے ہیں تو دل داریٔ فن یاد نہیں
دل سے کل محو تکلم تھے تو معلوم ہوا
کوئی کاکل کوئی لب کوئی دہن یاد نہیں
عقل کے شہر میں آیا ہے تو یوں گم ہے جنوں
لب گویا کو بھی بے ساختہ پن یاد نہیں
اول اول تو نہ تھے واقف آداب قفس
اور اب رسم و رہ اہل چمن یاد نہیں
ہر کوئی ناوک و ترکش کی دکاں پوچھتا ہے
کسی گاہک کو مگر اپنا بدن یاد نہیں
وقت کس دشت فراموشی میں لے آیا ہے
اب ترا نام بھی خاکم بدہن یاد نہیں
یہ بھی کیا کم ہے غریب الوطنی میں کہ فرازؔ
ہم کو بے مہرئ ارباب وطن یاد نہیں
 
کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
احمد فراز

کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں
ہم کہ ہیں لذت آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں
ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں
ساقیا مسجد و مکتب تو نہیں مے خانہ
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں
قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں
اب فرازؔ آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
 
نہیت ہی عمدہ شاعری ہے فراز کی بہت بہترین شاعر ہیں
کمال کے الفاظ لکھے ہیں
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat