Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

احمد فراز

جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
احمد فراز


جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکوں ہو
یہ چوٹ کسی صاحب محفل سے لگی تھی
اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامن قاتل سے لگی تھی
اترا بھی تو کب درد کا چڑھتا ہوا دریا
جب کشتیٔ جاں موت کے ساحل سے لگی تھی

بہت عمدہ شاعری ہے
مزید کا انتظار رہے گا
 
تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
احمد فراز


تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دوں
ترے بدن میں دھڑکنے لگا ہوں دل کی طرح
یہ اور بات کہ اب بھی تجھے سنائی نہ دوں
خود اپنے آپ کو پرکھا تو یہ ندامت ہے
کہ اب کبھی اسے الزام بے وفائی نہ دوں
مری بقا ہی مری خواہش گناہ میں ہے
میں زندگی کو کبھی زہر پارسائی نہ دوں
جو ٹھن گئی ہے تو یاری پہ حرف کیوں آئے
حریف جاں کو کبھی طعن آشنائی نہ دوں
مجھے بھی ڈھونڈ کبھی محو آئنہ داری
میں تیرا عکس ہوں لیکن تجھے دکھائی نہ دوں
یہ حوصلہ بھی بڑی بات ہے شکست کے بعد
کہ دوسروں کو تو الزام نارسائی نہ دوں
فرازؔ دولت دل ہے متاع محرومی
میں جام جم کے عوض کاسۂ گدائی نہ دوں

Wah boht Kamal nazam
 
احمد فراز اردو زبان کے بہت عظیم شاعر ہے ۔میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک
 
دل بدن کا شریک حال کہاں
احمد فراز




دل بدن کا شریک حال کہاں
ہجر پھر ہجر ہے وصال کہاں
عشق ہے نام انتہاؤں کا
اس سمندر میں اعتدال کہاں
ایسا نشہ تو زہر میں بھی نہ تھا
اے غم دل تری مثال کہاں
ہم کو بھی اپنی پائمالی کا
ہے مگر اس قدر ملال کہاں
میں نئی دوستی کے موڑ پہ تھا
آ گیا ہے ترا خیال کہاں
دل کہ خوش فہم تھا سو ہے ورنہ
تیرے ملنے کا احتمال کہاں
وصل و ہجراں ہیں اور دنیائیں
ان زمانوں میں ماہ و سال کہاں
تجھ کو دیکھا تو لوگ حیراں ہیں
آ گیا شہر میں غزال کہاں
تجھ پہ لکھی تو سج گئی ہے غزل
آ ملا خواب سے خیال کہاں
اب تو شہہ مات ہو رہی ہے فرازؔ
اب بچاؤ کی کوئی چال کہاں
 
فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا
احمد فراز



فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا
کہ اس سے مل کے مزاج اور کافرانہ ہوا
ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
وہ رات بھول چکو وہ سخن نہ دہراؤ
وہ رات خواب ہوئی وہ سخن فسانہ ہوا
کچھ اب کے ایسے کڑے تھے فراق کے موسم
تری ہی بات نہیں میں بھی کیا سے کیا نہ ہوا
ہجوم ایسا کہ راہیں نظر نہیں آتیں
نصیب ایسا کہ اب تک تو قافلہ نہ ہوا
شہید شب فقط احمد فرازؔ ہی تو نہیں
کہ جو چراغ بکف تھا وہی نشانہ ہوا
 
کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
احمد فراز


کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں
ہم کہ ہیں لذت آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں
ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں
ساقیا مسجد و مکتب تو نہیں مے خانہ
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں
قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں
اب فرازؔ آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
 
ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں
احمد فراز


ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں
تجھ کو بھولے ہیں تو دل داریٔ فن یاد نہیں
دل سے کل محو تکلم تھے تو معلوم ہوا
کوئی کاکل کوئی لب کوئی دہن یاد نہیں
عقل کے شہر میں آیا ہے تو یوں گم ہے جنوں
لب گویا کو بھی بے ساختہ پن یاد نہیں
اول اول تو نہ تھے واقف آداب قفس
اور اب رسم و رہ اہل چمن یاد نہیں
ہر کوئی ناوک و ترکش کی دکاں پوچھتا ہے
کسی گاہک کو مگر اپنا بدن یاد نہیں
وقت کس دشت فراموشی میں لے آیا ہے
اب ترا نام بھی خاکم بدہن یاد نہیں
یہ بھی کیا کم ہے غریب الوطنی میں کہ فرازؔ
ہم کو بے مہرئ ارباب وطن یاد نہیں
 
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
احمد فراز


جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکوں ہو
یہ چوٹ کسی صاحب محفل سے لگی تھی
اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامن قاتل سے لگی تھی
اترا بھی تو کب درد کا چڑھتا ہوا دریا
جب کشتیٔ جاں موت کے ساحل سے لگی تھی
 
تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
احمد فراز


تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دوں
ترے بدن میں دھڑکنے لگا ہوں دل کی طرح
یہ اور بات کہ اب بھی تجھے سنائی نہ دوں
خود اپنے آپ کو پرکھا تو یہ ندامت ہے
کہ اب کبھی اسے الزام بے وفائی نہ دوں
مری بقا ہی مری خواہش گناہ میں ہے
میں زندگی کو کبھی زہر پارسائی نہ دوں
جو ٹھن گئی ہے تو یاری پہ حرف کیوں آئے
حریف جاں کو کبھی طعن آشنائی نہ دوں
مجھے بھی ڈھونڈ کبھی محو آئنہ داری
میں تیرا عکس ہوں لیکن تجھے دکھائی نہ دوں
یہ حوصلہ بھی بڑی بات ہے شکست کے بعد
کہ دوسروں کو تو الزام نارسائی نہ دوں
فرازؔ دولت دل ہے متاع محرومی
میں جام جم کے عوض کاسۂ گدائی نہ دوں
 
سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
احمد فراز


سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہنر یار کے رکھ دیتے ہیں
شاید آ جائیں کبھی چشم خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں
تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں
اب کسے رنج اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گل و گلزار کے رکھ دیتے ہیں
ذکر جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسئلے بے کار کے رکھ دیتے ہیں
وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہل دل بھی
طاق نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں
زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں
ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھ دیتے ہیں
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat