Offline
- Thread Author
- #121
ہم زاد
امجد اسلام امجد
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے
مڑ کے دیکھوں تو نہ دیکھا جائے
میری تنہائی کی وحشت سے ہراساں ہو کر
میرا سایہ میرے قدموں میں سمٹ آیا ہے
کون ہے پھر جو مرے ساتھ چلا آتا ہے
میرا سایہ تو نہیں!!
کس کی آہٹ کا گماں
یوں مرے پاؤں کی زنجیر بنا جاتا ہے
دور تا حد نظر شہر کے آثار نہیں
اور دشمن کی طرح
شام تلوار لیے سر پہ چلی آتی ہے
بولتا ہوں تو اچانک کوئی
میری آواز میں آواز ملا دیتا ہے
مجھ کو خود میرے ہی لفظوں سے ڈرا دیتا ہے
کون ہے جس نے مرے قلب کی دھڑکن دھڑکن
اپنے احساس کی سولی پہ چڑھا رکھی ہے
میری رفتار کے پر خوف و خطر رستے میں
کس نے آواز کی دیوار بنا رکھی ہے
سنگ آواز کی دیوار گراؤں کیسے
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے
مڑ کے دیکھوں تو نہ دیکھا جائے