Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Funny News بھارت میں تین دہائیوں تک ’حاملہ‘ رہنے والے مرد کی حیران کن کہانی منظر عام پر آگئی

Master Mind

Premium
Joined
Dec 25, 2022
Messages
1,185
Reaction score
21,543
Location
Australia
Offline
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں تین دہائیوں تک ’حاملہ‘ رہنے والے ایک مرد کی حیران کن کہانی منظرعام پر آئی ہے۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگ پور کے رہائشی اس 60سالہ شخص کا نام بھگت بتایا گیا ہے، جو انتہائی نایاب عارضے کا شکار رہا۔ اس عارضے کو ’Fetus in fetu‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں ماں کے پیٹ میں جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں تاہم ان میں ایک بچہ دوسرے بچے کے جسم کے اندر چلا جاتا ہے اور اسی حالت میں دوسرے بچے کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ اپنے جڑواں بہن بھائی کو اپنے پیٹ میں لیے پیدا ہوتا ہے۔تاہم یہ انتہائی نایاب صورتحال ہے۔

بھگت بھی اسی طرح پیدا ہوا تھا کہ اس کا جڑواں بھائی اس کے جسم کے اندر تھا۔ لگ بھگ آئندہ تیس سال بھگت نے اسی حالت میں گزارے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا پیٹ بڑھتا چلا گیا ۔ ایک وقت آیاکہ اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کی وجہ سے وہ دوسروں سے بالکل الگ نظر آتا تھا اور مقامی لوگوں نے اس کا نام ’حاملہ مرد‘ رکھ دیا تھا۔

بار ہا بھگت کے ماں باپ نے اسے ڈاکٹروں کو دکھایا تاہم وہ اس کے عارضے کی تشخیص کرنے میں ناکام رہے۔ 1999ءمیں بھگت کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی اور اسے ممبئی کے ایک ہسپتال لیجایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے سکین وغیرہ کرکے اس کے عارضے کی حقیقت معلوم کی۔ ابتدائی طور پر انہوں نے بھی بھگت کے پیٹ میں موجود بچے کو کینسر کا بہت بڑا ٹیومر سمجھا ، تاہم بعد ازاں بھگت کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اجے مہتا نے انکشاف کیا کہ اس کے پیٹ میں ٹیومر نہیں بلکہ اس کا جڑواں بچہ ہے۔

ڈاکٹر اجے مہتا نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بھگت کے پیٹ میں موجود بچے کے اعضاءالگ الگ ہو چکے تھے، جنہیں ہم نے بھگت کے جسم سے ایک ایک کرکے نکالا۔ اس کے جسم سے بچے کے تمام اعضاءجبڑے کی ہڈیاں، بازو، جنسی اعضاءاور بال وغیرہالگ الگ نکالے گئے۔ہم یہ اعضاءنکالتے ہوئے خوفزدہ بھی تھے اور حیران بھی۔ یہ ہماری زندگی کا اپنی نوعیت کا واحد کیس تھا۔ واضح رہے کہ اس نوعیت کے کیس پوری دنیا میں اب تک 100سے بھی کم رپورٹ ہوئے ہیں۔
 
Requires account upgrade to view this reply.
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat