Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!
  • اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ

    اردو اسٹوری ورلڈ ممبرشپ ریٹس

    ٭یہ ریٹس 31 دسمبر 2025 تک کے لیے ہیں٭

    فری رجسٹریشن

    مکمل طور پر مفت

    رجسٹریشن بالکل مفت ہے، اور فورم کے عمومی سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    پرو پیڈ ممبرشپ

    فیس: 1000 روپے (1 ماہ)

    اس پیکج میں آپ کو صرف پرو پیڈ سیکشنز تک رسائی حاصل ہوگی۔

    وی آئی پی ممبرشپ

    فیس: 3000 روپے (3 ماہ)

    وی آئی پی ممبرشپ میں پرو اور وی آئی پی اسٹوریز سیکشنز تک رسائی حاصل کریں۔

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    فیس: 5000 روپے (6 ماہ)

    وی آئی پی پلس ممبرشپ کے ذریعے پرو، وی آئی پی اور وی آئی پی پلس سیکشنز وزٹ کریں۔

    پریمیم ممبرشپ

    فیس: 50 ڈالر (6 ماہ)

    پریمیم ممبرشپ میں پرو، وی آئی پی، وی آئی پی پلس اور خصوصی پریمیم سیکشنز شامل ہیں۔

    رابطہ کریں

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    Email: [email protected]

    © 2025 اردو اسٹوری ورلڈ۔ تمام حقوق محفوظ ہیں۔

Funny News بھارت میں تین دہائیوں تک ’حاملہ‘ رہنے والے مرد کی حیران کن کہانی منظر عام پر آگئی

Master Mind

Premium
Joined
Dec 25, 2022
Messages
1,185
Reaction score
21,514
Location
Australia
Offline
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں تین دہائیوں تک ’حاملہ‘ رہنے والے ایک مرد کی حیران کن کہانی منظرعام پر آئی ہے۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگ پور کے رہائشی اس 60سالہ شخص کا نام بھگت بتایا گیا ہے، جو انتہائی نایاب عارضے کا شکار رہا۔ اس عارضے کو ’Fetus in fetu‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں ماں کے پیٹ میں جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں تاہم ان میں ایک بچہ دوسرے بچے کے جسم کے اندر چلا جاتا ہے اور اسی حالت میں دوسرے بچے کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ اپنے جڑواں بہن بھائی کو اپنے پیٹ میں لیے پیدا ہوتا ہے۔تاہم یہ انتہائی نایاب صورتحال ہے۔

بھگت بھی اسی طرح پیدا ہوا تھا کہ اس کا جڑواں بھائی اس کے جسم کے اندر تھا۔ لگ بھگ آئندہ تیس سال بھگت نے اسی حالت میں گزارے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا پیٹ بڑھتا چلا گیا ۔ ایک وقت آیاکہ اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کی وجہ سے وہ دوسروں سے بالکل الگ نظر آتا تھا اور مقامی لوگوں نے اس کا نام ’حاملہ مرد‘ رکھ دیا تھا۔

بار ہا بھگت کے ماں باپ نے اسے ڈاکٹروں کو دکھایا تاہم وہ اس کے عارضے کی تشخیص کرنے میں ناکام رہے۔ 1999ءمیں بھگت کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی اور اسے ممبئی کے ایک ہسپتال لیجایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے سکین وغیرہ کرکے اس کے عارضے کی حقیقت معلوم کی۔ ابتدائی طور پر انہوں نے بھی بھگت کے پیٹ میں موجود بچے کو کینسر کا بہت بڑا ٹیومر سمجھا ، تاہم بعد ازاں بھگت کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اجے مہتا نے انکشاف کیا کہ اس کے پیٹ میں ٹیومر نہیں بلکہ اس کا جڑواں بچہ ہے۔

ڈاکٹر اجے مہتا نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بھگت کے پیٹ میں موجود بچے کے اعضاءالگ الگ ہو چکے تھے، جنہیں ہم نے بھگت کے جسم سے ایک ایک کرکے نکالا۔ اس کے جسم سے بچے کے تمام اعضاءجبڑے کی ہڈیاں، بازو، جنسی اعضاءاور بال وغیرہالگ الگ نکالے گئے۔ہم یہ اعضاءنکالتے ہوئے خوفزدہ بھی تھے اور حیران بھی۔ یہ ہماری زندگی کا اپنی نوعیت کا واحد کیس تھا۔ واضح رہے کہ اس نوعیت کے کیس پوری دنیا میں اب تک 100سے بھی کم رپورٹ ہوئے ہیں۔
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top