Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Love Story تم میرا نصیب نہ تھے

Joined
Nov 24, 2024
Messages
356
Reaction score
23,739
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
وہ دونوں انگلینڈ کے ایک دور دراز ساحل سمندر پر چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔سامنے اُن کے بچے پانی میں کھیل رہے تھے۔ سیاحوں کے لیے وہ دونوں بھی توجہ کا مرکز تھے۔ جوزف گورا چٹا، نیلی آنکھوں اور لمبے قد والا کسرتی بدن کا مالک، آدھی آستینوں والی سفید شرٹ اور جینز میں پاؤں پھیلائے اپنی کہنیوں پر ٹکا ہوا نیم دراز تھا۔ اس کے ساتھ نور تھی۔ پوری آستینوں کی ڈھیلی ڈھالی شرٹ، ساتھ میں لمبا سکرٹ اور اپنا پورا سر سکارف میں چھپائے ہوئے تھی۔ اس نے بڑی سن گلاسز لگائی ہوئی تھیں اور جوزف کے سامنے سمٹ کر ایک طرف چٹائی پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”نائس کپل!” (اچھی جوڑی ہے) ایک معمر جوڑے نے نزدیک سے گزرتے ہوئے انہیں دیکھ کر کہا اور مُسکرا کر آہستہ آہستہ آگے چل دیئے۔
”تھینک یو!” جوزف نے مسکرا کر کہا۔
”وہ ہمارے بچے ہیں۔” اُس نے معمر جوڑے کو بچوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔ وہ دونوں بڑی حیرت سے اُن چار بچوں کو دیکھنے لگے۔ دو لڑکے اور دو لڑکیاں، لیکن ایک لڑکا اور لڑکی بالکل گورے جب کہ دوسرے دو گندمی رنگت کے مگر بے حد خوب صورت بھوری آنکھوں والے بچے تھے اور گورے تو کالی اور بھوری آنکھوں پر مر مٹتے ہیں۔
”خوش رہو!” عورت نے انہیں دعا دی اور اپنے بوڑھے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ ریت پر ان سے دور چل دی۔
”اب بھی کہتا ہوں، شادی کر لو مجھ سے، ہم دونوں ہی خوش رہیں گے اور ہمارے بچے بھی۔” جوزف نے نور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”جوزف! تم باز نہیں آؤ گے۔”
نور نے قدرے خفگی سے کہا۔
اس نے بچوں کو آواز دی اور قریب پڑے باسکٹ سے سینڈوچز اور جوس کے ڈبے نکالنے لگی۔ بچے چیختے ہوئے اکٹھے جوزف کے اوپر دور سے دوڑتے ہوئے چڑھ دوڑے اور وہ ”ہائے میں مر گیا” اور ”بچاؤ بچاؤ اِن چھوٹے شیطانوں سے مجھے بچاؤ” چلاتے ہوئے ایک ایک کو پکڑنے لگا۔
نور مسکراتے ہوئے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ سب کچھ کتنا مکمل اور اچھا لگ رہا تھا مگر اس کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی کہ یہ تو بالکل اُلٹ تھا۔ کچھ بھی تو مکمل نہیں تھا اُس کی زندگی میں۔


دور سمندر پار سورج ایک بہت بڑے سونے کے تھال کی مانند دکھائی دے رہا تھا جو آہستہ آہستہ پانی میں اُترنے کی تیاری کررہا تھا۔ نور نے سامان سمیٹا، چٹائی لپیٹی اور جوزف نے بچوں کو اپنے آپ کو خشک کرنے کے لیے الگ الگ تولیے دیئے اور انہیں جوتے پہنانے میں مدد کرنے لگا۔
وہ لوگ ساحل سمندر سے پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر رہتے تھے۔ یہ انگلینڈ کا ایک خوب صورت اور پُرسکون قصبہ تھا۔ یہ علاقہ زیادہ تر ریٹائرڈ اور عمر رسیدہ لوگوں کا مسکن تھا جو ساری عمر بڑے شہروں کے شور و غل میں مشینی زندگی گزارنے کے بعد اپنے آخری ایام آرام و سکون سے گزارنے کی خواہش میں یہاں رہتے تھے۔ بچے ان کے گھونسلوں سے اُڑ چکے تھے اور اُسی مشینی زندگی کے سائیکل میں جتے ہوئے تھے، جس میں اُن کے والدین عمر گزار چکے تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنے بوڑھے والدین کو سال گرہ، کرسمس پر شکل دکھا جاتے تھے ورنہ تو کونسل کی طرف سے صفائی والا، دوائی دینے والی نرس اور یہاں تک کہ تین وقت کا کھانا بھی انہیں کوئی آکر دے جاتا تھا۔ ایسے قصبے میں رہنے کا فیصلہ اُس نے اِسی لیے کیا تھا کہ اپنے ہم وطنوں سے دور رہ سکے اور اُس کے خاندان والے اُس تک پہنچ نہ پائیں۔ وہ سب سے ناطہ توڑ کر، پاکستان سے بڑی رازداری سے اور چھپ کر بچوں کے ساتھ انگلینڈ آئی تھی اور یہاں اس نے پناہ کے لیے درخواست دی جو منظور ہوگئی تھی۔ اس کی ڈگریاں اُس کے بہت کام آئی تھیں۔ اس نے جس سکول میں بچوں کو داخل کروایا تھا، اُس کی پرنسپل نے از راہِ ہم دردی اُسے ”ٹیچنگ اسسٹنٹ” کے طور پر رکھ لیا تھا۔ وہ کلاس ٹیچر کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ کبھی بچوں سے سبق سنتی تو کبھی ڈرائنگ کی کلاس کے لیے بچوں کو پنسل کاغذ پکڑاتی، کلاس روم کے چھوٹے چھوٹے کام اس کے ذمہ تھے۔ تنخواہ کم تھی مگر گزارہ ہو رہا تھا۔ گھر اُسے کونسل نے دیا تھا۔بچوں کی تعلیم مفت تھی تو صرف کھانے پینے کا خرچہ ہی تھا۔ جوزف سے ملاقات بھی بڑی یادگار تھی۔
٭…٭…٭
جیسے ہی ٹیکسی اُس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچی، وہ اور بچے اُتر کر سامنے چھوٹے سے گھر کو دیکھنے لگے۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا گھر بالکل چھوٹا سا ”گڑیا کا گھر” معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے سامنے چھوٹا سا سبزے کا پلاٹ تھا جس کی گھاس کافی بڑھ چکی تھی۔ سامنے سرخ دروازہ تھا۔ ٹیکسی والے نے اُس کے دو بڑے سوٹ کیس نکالے اور نور نے اُسے کرائے کے پیسے پکڑائے۔ اس نے ٹیکسی والے سے نزدیکی بازار کا پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ چھوٹا سا قصبہ ہے۔ تقریباً دس بارہ منٹ کی مسافت پر چھوٹا سا بازار ہے جب کہ ساتھ والی گلی کے نکڑ پر ایک چھوٹا سا سٹور ہے جس میں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرکے سوٹ کیس دروازے کے پاس لانے لگی۔ بچوں کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ جتنے پیسے پاکستان سے لائی تھی وہ اُس نے ایئرپورٹ سے پاؤنڈ میں تبدیل کروا لیے تھے جو بڑی تیزی سے ختم ہورہے تھے۔ برمنگھم ایئرپورٹ سے نکل کر وہ اپنی ایک سکول کی سہیلی کے گھر گئی تھی جہاں دس بارہ دن گزارنے کے دوران اُس نے خاندانی دشمنی اور اپنی اور بچوں کی جان کو خطرہ بتا کر انگلینڈ میں پناہ کے لیے درخواست دی تھی۔ جب اُسے اس دور دراز علاقے میں گھر کی آفر کی گئی تو اُس کی درخواست پر کام آسانی سے ہوگیا اور اب برمنگھم سے پانچ گھنٹے ٹرین کی مسافت کے بعد اور ٹرین سٹیشن سے ٹیکسی میں گھر آنے کے بعد بچوں کو زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ دروازے پر ہی چیخ رہے تھے۔ پرس میں سے گھر کی چابیاں نکالتے ہوئے اُس نے غصے سے بچوں کو پشتو میں ڈانٹا۔ وہ غصے میں انہیں گھر کے اندر داخل ہونے کو کہہ رہی تھی اور ساتھ ہی اپنی بھی تھکاوٹ اور بھوک سے اُن کو آگاہ کررہی تھی۔
”میرا دماغ خراب نہ کرو تم دونوں، کچھ کرتی ہوں میں، پہلے گھر میں تو داخل ہونے دو۔ تنگ کرکے رکھ دیا ہے تم دونوں نے مجھے تم لوگوں کے لیے ہی تو یہ سب کچھ کررہی ہوں۔” وہ رو دینے کو تھی جب اچانک خوف سے اُس کے اوسان خطا ہوگئے۔ کوئی بے حد قریب سے پشتو ہی میں اُس کو مخاطب کررہا تھا۔ اُس نے تیزی سے مُڑ کر دیکھا تو اور بھی حیران و پریشان ہوگئی۔ سامنے لمبے قد کا، نیلی آنکھوں والا ایک گورا کھڑا تھا جس کی ایک ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا تھا اور وہ چھڑی کے سہارے کھڑا تھا۔
”ہیلو! ذَما نُوم جوزف دے۔ ماشو مانو نہ غصہ مہ کوہ” (ہیلو! میرا نام جوزف ہے، بچوں پر غصہ مت ہو۔)
نور کچھ بول ہی نہ سکی۔ آدھے گھنٹے بعد وہ گھر کے اندر تھی اور بچے خوشی خوشی پنیر اور ٹماٹر کے سینڈوچز کھا رہے تھے جو جوزف اپنے گھر سے بناکر لایا تھا۔ سیب کے جوس کا بڑا ڈبہ اور ساتھ میں چاکلیٹ کیک کے چار چھوٹے ٹکڑے ایک پلیٹ میں رکھے ہوئے تھے۔ اُس کے دو بچے جو نور کے بچوں کے ہم عمر لگ رہے تھے، ان دونوں بچوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جو سینڈوچز اور جوس پر ٹوٹ پڑے تھے۔ جوزف خاموشی سے اُس کو تکے جارہا تھا۔ اُسے بے چینی سی ہونے لگی۔ وہ صوفے پر پہلو بدل کر بچوں سے پانی کا پوچھ رہی تھی۔ مگر وہ کہاں اُس کی سن رہے تھے، سینڈوچز کے بعد وہ لوگ اب چاکلیٹ پر ہاتھ صاف کررہے تھے۔
”میں ابھی آیا۔” یہ کہتے ہوئے جوزف اُٹھا اور اپنے دونوں بچوں کو بھی اُٹھنے کا شارہ کیا۔ اپنی چھڑی سنبھالتے ہوئے وہ باہر کے دروازے کی طرف بڑھا۔
نور کو حیرت ہوئی کہ وہ اچانک اُٹھ کر کیوں چلا گیا۔ اُس نے جلدی سے دروازہ لاک کیا اور پہلی دفعہ اُس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگی۔ نیچے چھوٹا سا لاؤنج تھا جس میں دو سیٹوں والے دو صوفے پڑے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں چھوٹا سا چوکور میز اور چار کرسیوں والی ڈائیننگ ٹیبل تھی۔ دو کافی ٹیبل بھی پڑی ہوئی تھیں۔
اس نے ساتھ والا دروازہ کھولا تو اسے چھوٹا سا کچن نظر آیا۔ اُسے حیرت ہوئی کہ وہاں واشنگ مشین اور فریج بھی پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف دیوار کے ساتھ کوکنگ رینج بھی موجود تھا۔ اوپر دیوار میں چھوٹی چھوٹی الماریاں نصب تھیں۔ اُس نے الماریاں جلدی جلدی کھول کر سرسری سی نگاہ ڈالی تو اسے کچھ برتن نظر آئے۔ اوپر کے پورشن میں دو بیڈ روم اور ایک باتھ روم تھا۔ بڑے بیڈ روم میں ایک ڈبل بیڈ اور کپڑوں کی الماری جب کہ چھوٹے کمرے میں دو سنگل بیڈز پڑے ہوئے تھے۔ بچے بھی گھر میں اوپر نیچے پھر رہے تھے مگر اب انہیں نیند آنے لگی تھی انہیں۔
اُس نے اپنے سوٹ کیس میں سے اپنی دو گرم چادریں نکالیں اور ڈبل بیڈ کے گدے پر ڈال دیں۔ بچوں کو سویٹر اور جرابیں پہنا کر بیڈ پر لیٹنے کی تاکید کی کیوں کہ اُس کے پاس تو کمبل وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ دن بھی اُس کے بچوں نے دیکھنے تھے۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ بچوں کے سامنے کم زور نہیں پڑنا چاہتی تھی، سو جلدی سے کمرے سے نکل آئی۔
اُسے اپنا گرم کوٹ یاد آیا جو نیچے صوفے پر پڑا ہوا تھا۔
”چلو یہی اوڑھا دیتی ہوں۔ کل جا کر ضروری چیزیں لے آؤں گی۔”
وہ نیچے پورشن میں آئی تو دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی۔ اُسے یاد آیا جوزف نے آنے کا کہا تھا۔ اُس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کمبل اور دوسرے ہاتھ میں چھڑی تھی جب کہ اُس کی بیٹی ساتھ میں کارن فلیکس کا ڈبہ اور ایک لیٹر دودھ کے ٹیٹرا پیک ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔
”سوری! تھوڑی دیر ہوگئی۔ یہاں قریب ہی چھوٹی سی دکان ہے ہم وہاں سے یہ چیزیں لینے گئے تھے۔” نور دروازے پر ہی کھڑی رہی۔
”اندر آنے دو بھئی ایک دو اور بھی کام ہیں۔” جوزف نے کہا تو نور جلدی سے پیچھے ہوئی اور انہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔
جوزف کی آواز سُن کر دونوں بچے بھی نیچے آگئے۔ جوزف کی بیٹی اُن سے ان کے بارے میں پوچھنے لگی جب کہ جوزف کچن کی طرف بڑھ گیا۔ کمبل اُس نے وہیں صوفے پر رکھ دیا تھا۔اُس نے فریج کا سوئچ آن کیا اور کچن کے ایک کونے میں لگے ہوئے شیلف کی طرف بڑھا۔
”اِدھر آؤ! یہ بٹن دیکھ رہی ہو۔ اِس کو آن کرنے سے تمہارے گھر میں سنٹرل ہیٹنگ آن ہوجائے گی۔ تمہارے سارے کمروں میں جو دیواروں کے ساتھ لوہے کی بنی ہوئی بڑی بڑی گرل سی لگی ہوئی ہیں، اِن میں سے گرم پانی گزرنے لگے گا اور کمروں کو گرم کرنے کا کام شروع ہو جائے گا۔” وہ انگریزی میں بڑی روانی کے ساتھ اُسے سمجھا رہا تھا۔
”اور ہاں نلکوں میں بھی گرم پانی آنے لگے گا۔” وہ اب بھی باتیں کرتے کرتے کچھ بٹنوں کو دبا رہا تھا۔
”بس ہوگیا! میں نے اِس میں ٹائم بھی سیٹ کر دیا ہے۔ اب رات کودس بجے کے قریب یہ ہیٹر بند ہو جایا کریں گے اور صبح پانچ بجے دوبارہ خود ہی آن ہو جایا کریں گے۔ تم لوگ جب تک اٹھو گے تو گھرگرم ہوگیا ہوگا۔ اچھا میں چلتا ہوں تم لوگ تھکے ہوگے۔ وہ سامنے پینتیس نمبر گھر ہے میرا، صبح بات ہوگی۔”
نور ممنونیت سے اسے دیکھنے لگی۔ غیب سے کوئی فرشتہ ہی اُتر آیا تھا اُس کی مدد کرنے کو۔ وہ دروازے پر پہنچا تو نور کو یاد آیا کہ اُس نے پہلی بات پشتو میں کی تھی۔ اُس کے بعد تو وہ دونوں انگریزی میں ہی بات کرتے رہے تھے۔
”سنو! پشتو کیسے سیکھی ہے تم نے؟” نور نے پوچھا۔
”میں سوچ رہا تھا کہ تم کب پوچھو گی مجھ سے؟” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”میں برٹش آرمی میں تھا اور دو سال افغانستان میں سروس کرتا رہا ہوں۔ چھ مہینے پہلے یہ سوغات لے کر آیا ہوں وہاں سے۔” اس نے اپنی پلاسٹر لگی ٹانگ کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
”اور وہاں کے مقامی لوگوں سے کچھ نہ کچھ پشتو سیکھی ہے، مگر تم افغانی نہیں ہو۔ تمہارا لہجہ بارڈر کے اُس طرف کا ہے، یعنی پاکستان کا۔” نور حیرت سے اُس کو دیکھتی رہی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
”کسی بھی قسم کی مدد چاہیے ہو تو سامنے ہی میرا گھر ہے۔ دروازے وغیرہ اچھی طرح سے بند کرلینا۔ شب بہ خیر۔” یہ کہہ کر وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ سڑک کے پار بنے ہوئے اسی طرح کے چھوٹے سے ایک سرخ اینٹوں والے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
شروع کے دن بہت کٹھن تھے۔ اپنی سہیلی کے گھر رہتے ہوئے وہ صرف برطانوی دفتر کے چکر ہی لگاتی تھی جہاں اُس کا انٹرویو ہوا تھا۔ اُسے اپنا آپ پناہ گزین بننے کا اہل ثابت کرنے کے لیے کچھ سچ، کچھ جھوٹ کا سہارا لے کر افسران کو قائل کرنا تھا۔ بچے گھر پر اس کی سہیلی کے پاس ہوتے تھے۔ جیسے ہی اُسے کونسل نے یہ چھوٹا سا گھر الاٹ کیا، اُس نے دوسرے ہی دن اپنے بیگ پیک کیے اور یہاں آگئی۔ اُس نے اپنی سہیلی کو بھی غلط پتا بتایا تھا۔ وہ کسی بھی جاننے والوں سے بہت دور چلے جانا چاہتی تھی۔
اور اب یہاں بچوں کے ساتھ اس گھر میں، جب کہ آدھی سے زیادہ رات گزر چُکی تھی اور ڈبل بیڈ پر دونوں بچوں کے درمیان لیٹے ہوئے اور جوزف کے دیئے ہوئے کمبل اوڑھے ہوئے اسے مستقبل کی فکروں نے آگھیرا تھا۔ وہ کیا کرے گی؟ پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ کرنے سے لے کر آج اِس وقت تک اُسے کوئی چیز یاد نہیں تھی۔ بس وہ خود کو اور بچوں کو پشاور سے، اپنے شوہر سے، اپنے والدین سے، اپنی فیملی سے سب سے دور، بہت دور لے جا کر چھپ جانا چاہتی تھی۔ مگر اب اُسے نئے نئے اندیشوں نے آ گھیرا تھا۔ کیا وہ اکیلے اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کر پائے گی؟ کیا انگلینڈ آنے کا فیصلہ اُس نے صحیح کیا یا نہیں؟ کیا وہ ہمیشہ اپنے وطن، اپنے شہر اور خاندان کے لوگوں سے چھپ کر رہ سکے گی؟ اور انہیں سوچوں میں غلطاں نور کی آنکھ پتا نہیں کس وقت لگی۔
اگلے کئی دن کافی مصروف رہے تھے۔ دوسرے ہی دن جوزف نے اسے بازار سے جاکر ضروری سامان خریدنے میں مدد کی۔ وہ ایسے نور کے سارے کاموں میں مدد کررہا تھا جسے وہ برسوں سے اُسے جانتا ہو۔ کچھ ہی دنوں میں وہ سرخ اینٹوں والا مکان گھر کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ پردے لگ گئے، تکیے، بیڈ شیٹ وغیرہ آگئے۔ جوزف کے مشورے پر نور نے چھوٹا کمرہ بچوں کے لیے سیٹ کیا۔ ڈرائنگ روم کے لیے کُشن اور ایک دو پینٹنگز وغیرہ لیں۔ کافی سامان تو جوزف یہ کہہ کر خود ہی لے آیا تھا کہ اُس کے گھر میں ویسے ہی یہ چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔
”میری بیوی جب مجھے چھوڑ کر گئی تو سب کچھ یہیں چھوڑ گئی تھی، یہ کہہ کر وہ مجھ سے جُڑی ہوئی کوئی چیز ساتھ نہیں رکھناچاہتی۔” ایک دن نور کے پوچھنے پر جوزف نے اسے بتایا۔
”مگر وہ کیوں چھوڑ کر گئی تمہیں؟” نور نے تجسس سے پوچھا۔
”جب تک میں پیسے بنانے کی مشین بنا رہاوہ خوش تھی، مگر جب زخمی ہوکر واپس آیا تو اُس نے کوئی اور ڈھونڈ لیا۔” اُس نے تلخ لہجے میں بتایا۔
”اور بچے؟” نور نے سراسیمگی کے عالم میں اگلا سوال کیا۔
”شکر ہے بچے بھی خود چھوڑ کر گئی ہے ورنہ میں تو اِن کے بغیر جینے کا تصورہی نہیں کرسکتا۔ میری زندگی اِن دونوں کے دم سے ہے۔” یہ کہتے ہوئے جوزف کی آنکھوں میں نمی کی سی آگئی۔ نور کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں۔ اُسے جوزف بالکل اپنے جیسے ہی تو لگا تھا۔ دونوں اپنے بچوں پر دل و جان سے فدا تھے اور اُن کی زندگی کا محور اُن کے بچے ہی تھے۔
”چلو بھئی! بہت جذباتی سین ہوگئے۔” جوزف اپنی ہتھیلیوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔
”میں نے بچوں کو سکول سے لینے جانا ہے، یہاں نزدیک ہی ہے۔ پیدل ہی اُن کو لاچھوڑ آتا ہوں اور لے آتا ہوں۔ تم بھی بچوں کو سکول میں ڈال لو۔ اگر چاہو تو کل سکول اکٹھے جاکر پرنسپل سے بات کرلیتے ہیں۔” وہ اٹھتے ہوئے اور چھڑی سیدھی کرتے ہوئے بولا۔
”ہاں! ضرور چلوں گی۔” نور نے جلدی سے کہا۔
”ٹھیک ہے! کل تیار رہنا۔ بچوں کو بھی لے جائیں گے۔”
”جوزف!” نور نے اچانک اسے آواز دی۔
”ہاں”۔ جوزف جواب اٹھ کر کھڑا ہوچکا تھا، اس کی آواز پر بولا۔
”تھینک یو۔”
”کس لیے؟”
”اُس سب کے لیے جو تم نے میرے لیے کیا۔”
”ارے! میں نے اتنا کچھ کیا اور تم صرف تھینک یو کہہ کر جان چھڑا رہی ہو۔”جوزف نے مایوس ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
نور کو ہنسی آگئی۔ اب اتنے دنوں جوزف کے ساتھ ہوتے ہوئے اتنا تو اُسے معلوم ہوچکا تھا کہ وہ بے لاگ اور لگی لپٹی بغیر بات کرنے والا بندہ تھا اور اُسے پہلے ہی اندازہ تھا کہ وہ ”کوئی بات نہیں” یا اس قسم کا کوئی رسمی جملہ تو بولے گا ہی نہیں۔
”اچھا بتاؤ! اب تمہارے احسانات کیسے چکاؤں؟” نور نے ہنسی روکتے ہوئے پوچھا، ”بھئی کبھی کبھی اچھا سا کھانا بنا کر کھلا دیا کرو۔”

”بھئی میں تو افغانی پلاؤ اور کڑاہی گوشت کا دیوانہ ہوں، اور ہاں! ”ثوبت” کا بھی۔”جوزف دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
”مگر”! نور کے لیے یہ سب مشکل نہ تھا۔ کیوں کہ یہ سب تو اُس کے گھر میں بنتا ہی تھا۔ گاؤں اُن کا جنوبی وزیرستان کے خشک پہاڑوں میں تھا مگر وہ پیدا اور پلی بڑھی پشاور میں تھی۔ دادا ابا کاروبار کرنے پشاور آئے تھے اور بچے اُن کے پڑھ لکھ کر سرکاری نوکریوں پر لگ گئے تھے۔ مگر عید، شادی، یہاں تک کے گرمیوں، سردیوں کی چھٹیوں میں بھی گاؤں جانا لازمی ہوتا تھا۔ تو یہ سب ڈشز اسے بہترین بنانی آتی تھیں۔
”مگر!”
نور نے ایک دم کہا۔
”اب کیا؟” جوزف نے کہا۔
”مجھے حلال گوشت کہاں ملے گا یہاں؟” وہ واقعی مایوس ہوگئی تھی۔
”اس کا بھی بندوبست میں کرچکا ہوں۔” جوزف مسکرا رہا تھا۔ جب کہ نور ناسمجھی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
”یہاں نزدیک ہی ایک بڑا شہر ہے جس میں کافی مسلمان رہتے ہیں۔ زیادہ تر عربی کمیونٹی ہے۔ وہاں ایک دو حلال گوشت کی دکانیں ہیں۔ بھئی حلال گوشت کا تو اپنا ہی مزہ ہے۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد تو میں نے ایک دفعہ بھی اپنی دکانوں سے مرغی، مٹن وغیرہ نہیں لیا۔ بجلی کا شاک دے کر جان داروں کا گوشت بغیر خون بہائے بیچتے ہیں۔ میں اُن دکانوں سے تین چار ہفتوں کا گوشت اکٹھے لے آتا ہوں اور فریز کرلیتا ہوں۔ اگلی دفعہ تمہیں بھی لے کر جاؤں گا۔”
”نہیں نہیں!” بس میں لسٹ دے دوں گی، تم لے آنا۔ نور بے اختیار بولی۔
”اچھا!” ”برا مت ماننا مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم وہاں جانا کیوں نہیں چاہتی؟” جوزف حیرت سے بولا۔
”بس ایسے ہی، بچوں کو سبزی گوشت وغیرہ کی شاپنگ سے چِڑ ہے۔ اس لیے ویسے ہی اُن دونوں کا موڈ خراب ہو جائے گا۔” نور نے گول مول سا جواب دیا تو جوزف خاموش ہوگیا۔
٭…٭…٭


جوزف کا پلاسٹر اُتر چکا تھا۔ وہ اب بھی تھوڑا سا لنگڑا کر چلتا تھا مگر چھڑی کی ضرورت اتنی نہیں پڑتی تھی۔ پتا نہیں دونوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ غیرمحسوس طریقے سے ہوگیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ماضی کو نہیں کریدیں گے۔ سارے جہاں کی باتیں وہ کرلیتے تھے۔سیاست کی سپورٹس کی بچوں کی تعلیم کے بارے میں، سکول کے فنکشن وغیرہ کی لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کے بارے میں کبھی سوال نہیں اٹھایا تھا۔
جوزف کے بچے میری اور ڈیوڈ تھے اور نور کے بچے ابراہیم اور آمنہ۔ وہ ایک ہی سکول میں آگے پیچھے کی کلاسوں میں پڑھتے تھے۔ چوں کہ نور بھی اسی سکول میں کام کرتی تھی تو صبح چاروں بچے اُس کے ساتھ آ جاتے تھے جب کہ چھٹی کے ٹائم جوزف بچوں کو لینے آتا تھا کیوں کہ سکول کا تمام سٹاف ہیڈ مسٹریس کے ساتھ بیٹھ کر سکول میں ہونے والے تمام دن کی رپورٹس دیتا اور دوسرے دن کے لیے ایکٹی ویٹیز ترتیب دیتے۔ جس کی وجہ سے وہ کچھ دیر بعد سکول سے نکلتی۔ بچوں کی طرف سے اُسے تسلی رہتی۔ جوزف کے ہاں وہ کھانا کھا کر میری اور ڈیوڈ کے ساتھ کھیلتے تھے۔
سکول سے نکل کر وہ پہلے جوزف کے گھر جاتی اور بچوں کو لے کر اپنے گھر آجاتی۔ پھر گھر کے کام شام کا کھانا بنانا اور ساتھ میں بچوں کو ہوم ورک کروانا اور قرآن ناظرہ پڑھانا، ان سب باتوں میں ایسے وقت گزر جاتا کہ وہ رات کو عشا پڑھتے ہی بے خبر سو جاتی۔ صبح پھر ناشتہ، بچوں کو تیار کرانا، ساتھ ہی ساتھ اپنے لیے اور بچوں کے لیے لنچ باکس تیار کرنا وہ ذرا جلدی بھی نکلتے تھے کیوں کہ جوزف کے بچوں کو بھی ساتھ لے کر جانا ہوتا تھا۔
ابراہیم تھوڑا قد نکال رہا تھا۔ وہ اگلے مہینے دس سال کا ہونے والا تھا۔ اُس کی جینز اور جوتے وغیرہ اُسے چھوٹے ہو رہے تھے۔ نور بازار جانا چاہ رہی تھی مگر ٹائم ہی نہیں مل رہا تھا۔ جمعے کو سکول سے آکر جب وہ جوزف کی طرف بچوں کو لینے گئی تو جوزف سے بھی یہی بات کی۔
چوڑے چکلے جوزف نے سفید اور نیلا دھاری دار اَپرن پہناہوا تھا۔ وہ شاید کچن میں کام کررہا تھا مگراپنی وضع قطع سے بے خبر وہ نور کی بات ایسے سُن رہا تھا جیسا کہ نور کوئی بہت ہی اہم معاملہ اُس کے ساتھ ڈسکس کررہی ہو۔
”ارے بھئی نو پرابلم! کل ہفتہ ہے۔ تمہاری سکول سے چھٹی ہے اور بچوں کی بھی۔ میں تو ویسے ہی گھر پر ہی رہتا ہوں، میرا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ تو اِن کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مجھے بھی کچھ گھر کے لیے چیزیں لینی ہیں۔ وہاں بچوں کو شاپنگ کرواکر پاس ہی میں ایک نئی جگہ کھلی ہے” فن ٹاؤن وہاں لے جائیں گے۔ سنا ہے ٹکٹ خرید کر وہ بچوں کا ایک گھنٹہ تک خیال رکھتے ہیں اور کچھ گیمز وغیرہ میں بچوں کو مصروف رکھتے ہیں۔ ذرا ہم دونوں کو بھی بچوں کے بغیر ٹائم گزارنے کا موقع مل جائے گا۔ ”جوزف شرارت سے مسکراتے ہوئے بولا۔
نور کو ہنسی آگئی۔ یہ بھی ایک چیز تھی جو دونوں میں یکساں تھی۔ وہ بچوں کو کسی بھی قیمت پر گھر پر اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ چاہے کتنی بھی بور جگہ جانا ہو، بچے کتنا ہی چیخیں چلائیں مگر وہ اُن کو اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے۔ نور بچوں کو گھر لے آئی اور جوزف سے صبح بات کرنے کا سوچی۔
صبح کے آٹھ بج چکے تھے۔ پورے ہفتے بھاگ دوڑ کر گزارنے کے بعد وہ ہفتے کے دن کا بڑی بے تابی سے انتظار کرتی۔ آرام سے اُٹھتی اور ناشتے پر اہتمام کرتی۔ باقی دنوں میں تو بس ٹوسٹ جام یا پھر کارن فلیکس سے ناشتہ ہوتا مگر ویک اینڈ پر بچوں کی فرمائش پر کبھی آلو کے پراٹھے بنتے تو کبھی حلوہ پوری۔ آج بھی یہی ہوا۔ ابراہیم کو پراٹھا آملیٹ کے ساتھ چاہیے تھا جب کہ آمنہ نے میٹھے پراٹھے کی فرمائش کی۔ وہ کچن میں ناشتہ بناتے بناتے بچوں سے بات بھی کررہی تھی۔
اُس کی عادت تھی کہ صبح سویرے نیوز چینل لگا کر خاص خاص خبریں ضرور دیکھتی۔ آملیٹ پلیٹ میں ڈالتے ہوئے اُس نے نیوز کاسٹر کی آواز سُنی۔ وہ پھر کسی دہشت گردی کے واقعے کو زور و شور سے بیان کررہا تھا۔ وہ جلدی سے بچوں کو ٹیبل پر ناشتے کے لیے بٹھا کر ٹی وی کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ پچھلی رات لندن کے کچھ معروف نائٹ کلبوں کے سامنے چھوٹے موٹے دھماکے ہوئے تھے۔ کوئی مرا تو نہیں تھا مگر بار بار ٹی وی پر لوگوں کو خوف زدہ حالت میں بھاگتے ہوئے دکھایا جارہا تھا۔ ہائی الرٹ بھی جاری کردیا گیا تھا۔
”ہونہہ!” ہمارے ہاں تو دھماکوں میں ڈیڑھ دو سو مارے جائیں تب بھی ”رات گئی بات گئی” والی بات ہوتی ہے اور یہاں اب ہفتوں یہ معاملہ میڈیا میں اچھالا جائے گا۔” اُس کا دل بالکل اُچاٹ ہوگیا تھا۔ اس طرح کے واقعات سے نور کے جیسے لاکھوں مسلمانوں کا تاثر باہر کے ملکوں میں خراب ہو جاتا ہے۔ بے چارے روزی روٹی کمانے کے لیے اپنے ملکوں کو چھوڑ کر پردیس میں بستے ہیں۔ تنگی ترشی سے گزر بسر کرتے ہیں تاکہ پیچھے چھوڑ کر آئے ہوئے اپنے پیاروں کی زندگیاں سنوار سکیں۔ مگر ان واقعات کی وجہ سے اِن کے لیے اور بھی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ پوچھ گچھ زیادہ ہونے لگتی ہے۔ کام مشکل سے ملتا ہے۔ کام والی جگہ پر بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نور کو بھی فکر ہونے لگی۔ وہ جس سکول میں کام کرتی تھی وہاں پر بھی ایک دو سٹاف ممبرز کے روئیے سے اُسے معلوم ہوچکا تھا کہ وہ نور کو ناپسند کرتے ہیں۔ اب تو اُن کو موقع مل جائے گا کھلم کھلا سٹاف روم میں اُس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف بولنے کا۔
اُس نے فون اٹھایا تاکہ جوزف کو کوئی بہانہ کرسکے۔ وہ آج بازار نہیں جانا چاہتی تھی۔ اگر کسی نے اُسے ”پاکی” کہہ دیا یا مسلمان کے خلاف کوئی غلیظ لفظ اُس پر کسا تو وہ کیا کرے گی۔ اُسے اپنے آپ سے زیادہ اپنے بچوں کی فکر تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کے بچے اتنی سی عمر میں دنیا کے اس بھیانک روپ کو دیکھیں جس میں لوگ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے میل جول رکھتے ہیں اور دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ وہ نمبر ملانے ہی لگی تھی کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ دروازے تک پہنچتے پہنچتے اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ کون ہے۔ جوزف اور اس کے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اُس نے دروازہ کھولا تو جوزف کا بیٹا اپنے باپ کے کندھوں پر سوار تھا اور ساتھ میں بیٹی کھڑی تھی۔ دروازہ کھول کر وہ پلٹ آئی۔ بچے چیختے ہوئے کچن میں چلے گئے جہاں نور کے بچے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔ جوزف دروازہ بند کرکے نور کے پیچھے پیچھے ٹی وی لاؤنج میں آگیا۔ سامنے نیوز چینل ابھی بھی لگا ہوا تھا۔
”میں اسی لیے آگیا تاکہ تم نیوز دیکھ کر ارادہ بدل نہ دو۔” جوزف نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں! میں فون کرنے ہی والی تھی تمہیں۔” نور نے مرجھائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
”بچے رات سے بے حد خوش تھے۔ تمہیں یاد ہے آخری دفعہ ہم تقریباً چار ہفتے پہلے بچوں کو سمندر پر لے کر گئے تھے۔ میں ان کی خوشی برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔” جوزف نے اسے منانے والے انداز میں کہا۔
”اگلے ہفتے چلے چلیں گے۔ اُس وقت تک یہ نیوز تھوڑی پرانی ہوچکی ہوگی۔” نور نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”اور اگلے ہفتے تک کوئی اور واقعہ ہو گیا تو؟” جوزف اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
جواب دیئے بغیر وہ ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی بند کرنے لگی۔
”تم شتر مرغ کی طرح گردن زمین میں دے کر یہ نہیں کہہ سکتیں کہ سب ٹھیک ہے۔ ٹی وی یا ریڈیو نہیں سنوگی، باہر نہیں جاؤ گی، لوگوں کا سامنا نہیں کروگی، تمہارے خیال میں اس طرح تم اس ملک میں زندگی گزار سکتی ہو؟” جوزف کی آواز میں دبا دبا غصہ تھا۔ جس کی وجہ سے بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں سرزنش تھی۔
”تو کیا کروں؟ آج یہ واقعہ ہوا ہے اور آج ہی تمہارے ملک کے بازاروں میں سکارف باندھ کر پھروں تو یہاں کے لوگوں کو برا نہیں لگے گا؟ اپنے ملک میں مجھے خطرہ تھا اور یہاں میں آرام سے آزادی سے پھر سکتی ہوں مگر میرے ہی لوگ اِن کو بھی چین سے جینے نہیں دے رہے۔” نور جیسے پھٹ ہی پڑیاور آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہوگئے۔
”تمہیں نہیں پتا جوزف، کیا جذبات ہوتے ہیں، وہ ڈر ڈر کر باہر نکلنا اور نظریں جھکائے رکھنا تاکہ کسی گورے کی شکل پر نفرت اور بے زاری نہ دیکھ لوں جو مجھے دیکھتے ہی ان کے چہروں پر آجاتی ہے۔ لوگ آپس میں بات کررہے ہوں تو میرے کان مسلسل الرٹ رہتے ہیں کہ شاید مجھ پر آوازیں کس رہے ہیں۔ میں ذہنی مریض بنتی جارہی ہوں جوزف۔” نور یہ سب کہتے ہوئے چہرے کو ہاتھوں سے چھپائے ہوئے بولی آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔
جوزف کچھ لمحے خاموش رہا۔ پھر بولا:
”مگر ہم تو جارہے ہیں۔ ہمارا پروگرام کوئی کینسل نہیں کرا سکتا۔”
جوزف بہت بلند آواز میں بولا تاکہ کچن میں بچے بھی سن لیں۔ نور کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ ایک دم سمجھ گئی کہ جوزف نے کیا کردیا۔
اور دوسرے ہی لمحے چاروں بچے چیختے ہوئے لاؤنج میں آگئے۔انہوں نے ”پروگرام کینسل” کا لفظ صاف صاف سن لیا تھا اور ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر اپنے ماں اور باپ سے پوچھ رہے تھے کہ کیوں کینسل ہوگیا ہے۔
”وہ مجھے کچھ ضروری کام کرنا ہے سکول کا۔” نور نے کم زور سے لہجے میں بچوں کو توجیہہ پیش کی۔
”کل اتوار ہے آپ کل کر لیں نا اپنا کام۔” آمنہ ضد کرتے ہوئے بولی۔
”چلیں آنٹی۔ بہت دن ہوگئے ہم ابراہیم اور آمنہ کے ساتھ آؤٹنگ پر نہیں گئے۔” ڈیوڈ اور میری نے بھی ضد کی۔
”اوکے! جیسے تم لوگوں کی مرضی بھئی۔” میں اپنا بیگ لے کر آتی ہوں۔ تم لوگ جوتے پہن لو۔ اُس نے جوزف کو خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے بچوں سے کہا اور اوپر اپنا سکارف اور بیگ لینے چلی گئی۔
مارکیٹ پہنچ کر سب سے پہلے نور نے ابراہیم کے لیے جوتے اور دو تین جینز اور شرٹیں خریدیں۔ آمنہ نے بھی ایک دو جیولری اور ایک لمبی ٹی شرٹ لی۔ شروع میں وہ تھوڑا جھجکی مگر اُسے لگا کہ سب روزمرہ کی روٹین کی طرح ہی بازار میں کام کررہے ہیں۔
”چلو بھئی! تم لوگ بے حد شریف بنے رہے جب تک ہم نے شاپنگ کی، اب تم لوگوں کو ٹریٹ دینے کی باری ہے۔” جوزف شاپنگ بیگز سنبھالتے ہوئے بولا۔
بچے فن ٹاؤن کے ٹکٹ لے کر تو خوشی سے پاگل ہوگئے تھے۔ نور نے تھوڑا سکھ کا سانس لیا جب اُس نے ایک انڈین فیملی کو وہاں پر اپنے دو بچوں کو ٹکٹ لیتے ہوئے دیکھا۔ واقعی پردیس میں آپ کو اپنے جیسے جو بھی ملے اچھا لگتا ہے۔ چاہے وہ انڈین ہوں جن سے آپ کی زبان اور کلچر ملتا ہے، یا پھر عربی جو مسلمان ہیں۔
بچوں کو چھوڑ کر وہ دونوں پھر بازار کی طرف نکل آئے۔ جوزف اُسے زبردستی ایک کافی شاپ لے گیا۔ کافی کے ساتھ اس نے کافی والنٹ کیک کے دو سلائس آرڈر کیے۔ نور کو یہ کیک بے حد پسند تھا ورنہ جوزف اخروٹ کو دیکھتا ہی نہیں تھا۔
جب ویٹر نے کافی ٹیبل پر رکھی تو نور نے کیک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے معلوم ہے کہ دوسرا سلائس میں نے کیوں منگوایا۔ یہی پوچھنا چارہی ہو نا تم؟” جوزف مسکراتے ہوئے بولا۔
”بھئی میں ایک خوش خبری شیئر کرنا چاہتا ہوں تمہارے ساتھ، ابھی بچوں کو بھی نہیں بتایا۔ اس خوشی میں میں نے سوچا کہ اگر نور یہ کیک شوق سے کھا لیتی ہے تو میں کیوں نخرے کروں۔” جوزف مزے سے بولا۔
”وہ تو ٹھیک ہے مگر تم اپنی پسند کا کیک منگوا لو اور یہ واپس کردو، اور ہاں خوش خبری کیا ہے؟” نور کو شاید یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ کیک کا ٹکڑا اس نے کانٹے کی مدد سے منہ میں رکھا اور کافی کے گھونٹ کے ذریعے اُسے جلدی سے حلق سے اتارا۔ نور کو یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ دوسرا ٹکڑا اُس نے آرام سے کھا لیا۔
”بھئی زبردست ہے۔ ایسے ہی تو نہیں تمہیں یہ کیک پسند۔” جوزف اس دفعہ آرام سے کافی کا گھونٹ لے کر بولا۔
نور کی جان میں جان آئی ورنہ وہ بہت خفت محسوس کررہی تھی۔
”مجھے نوکری مل گئی ہے۔” جوزف نے اچانک کہا۔
”واقعی؟” نور واقعی بے حد خوش ہوئی۔ اُسے معلوم تھا کہ فوج میں پانچ چھ سال سخت زندگی اور اس کے بعد افغانستان میں دو سال گزارنے کے بعد جس طرح ایک دم سے وہ دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں اپنی معذوری کے ساتھ پچھلے ایک سال سے رہ رہا تھا، وہ کسی بھی شخص کو شدید ڈپریشن میں ڈال سکتی تھی۔ مگر وہ جوزف تھا۔
”اپنے کمیونٹی سنٹر میں منیجر کی پوسٹ خالی ہوئی تھی۔ انٹرویو میں ہی انہوں نے کہہ دیا کہ انہیں فوجیوں جیسا نظم و ضبط اور ڈسپلن والا بندہ چاہئے۔ بس اگلی یکم سے کام شروع کردوں گا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ بعد وہ بچوں کو لینے کافی شاپ سے نکلے تو نور بہت پرسکون محسوس کررہی تھی۔ واقعی جوزف کی بات صحیح تھی۔ بچے، گھر، جاب ان سب میں گھِر کر وہ خودکے لیے وقت نکالنا بھول گئی تھی۔
موسم خوش گوار تھا اور پھر چھٹی کا دن تو لوگوں کا رش کچھ بڑھ گیا تھا۔ وہ جوزف کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ابھی وہ کافی شاپ سے کچھ ہی قدم آگے چلے تھے۔ کہ اچانک چیخنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی نور کے سر پر کوئی وزنی چیز گری۔ دو تین نوجوان جو سولہ، سترہ سال سے زیادہ کے نہیں لگ رہے تھے وہ بھرے بازار میں نور کی طرف دیکھتے ہوئے انگریزی میں اُسے ”دہشت گرد دہشت گرد” پکار رہے تھے۔
"Just leave our country…. You Paki Terrorist.”
یہ کہتے ساتھ ہی ایک نے زور سے نور کا اسکارف کھینچ لیا۔ نور کو لگا وہ بھرے بازار میں برہنہ ہوگئی ہے۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ بے عزتی، خفت، شرمندگی، تذلیل جیسے سب احساسات کو پوری زور کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اسے اپنے کانوں سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوا اور چہرہ اتنا سرخ کہ تپش سے اُسے اپنی روح تک جلتی محسوس ہوئی۔
لوگ اردگرد اپنی جگہ پر سُن ہوکر رہ گئے جیسے کسی نے وقت کو روک دیا ہو۔ جوزف کہیں نہیں تھا۔ اُسے اپنا آپ سنبھالنے میں دو منٹ ہی لگے۔ نظریں جھکائے جھکائے اُس نے سکارف واپس باندھا اور کپڑے ٹھیک کیے اور بس سٹیشن کی طرف چل دی۔ اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ بس چلتی جارہی تھی۔ بازار سے نکل کر، بس سٹیشن سے گزر کر وہ بس چلتی ہی جارہی تھی۔ اُسے نہ جوزف یاد رہا نہ بچے۔ وہ ایک ڈر جو اُس کے اندر چھپا تھا آج ایک عفریت کی طرح حقیقت کا روپ دھار کر اُس کے سامنے آگیا تھا۔ اور اس پر ایسے وار کر گیا تھا جیسے کہ وہ موقع کے انتظار میں تھا۔

وہ ناک کی سیدھ میں چلتی گئی، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف۔ اپنی جائے پناہ کی طرف۔ جہاں پر وہ دنیا کی نظروں سے چھپ کر بیٹھ سکتی تھی۔ وہ پیدل گھر پہنچی اور میکانکی انداز میں دروازہ کھولا۔ چابیاں اور پرس کچن ٹیبل پر رکھیں۔ اسکارف اتارا، کافی بنانے کے لیے کیتلی میں پانی رکھا اور واش روم چلی گئی۔ شیشے کے سامنے اسکارف اتارتے ہوئے اُس نے اپنے آپ کو دیکھا اور ایک دم دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔
اس پندرہ سیکنڈ کے واقعے کے دو گھنٹے بعد وہ اب روئی تھی۔ اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی۔ اُس نے دروازہ کھولا تو سامنے بچے کھڑے تھے۔ شاپنگ بیگز اُن کے ہاتھوں میں تھے۔
”ممی کہاں چلی گئی تھیں آپ؟ جوزف لینے آیا تھا ہمیں۔ اُس کی شرٹ پھٹی ہوئی تھی اور ناک سے خون بھی بہہ رہا تھا۔ وہ ہمیں گاڑی میںبٹھا کر آپ کو مختلف سڑکوں پرتلاش کرتا رہا ۔ بار بار فون بھی کررہا تھا۔” آمنہ نے گھبراہٹ کے عالم میں جلدی جلدی اپنی ماں سے پوچھا۔
”کہیں نہیں، میں گھر جلدی آگئی تھی۔ تھوڑی طبیعت خراب ہوگئی تھی بس۔ آجاؤ تم لوگ۔ اس نے بچوں سے اپنی حالت چھپانے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کام یاب بھی رہی تھی۔
اور پھر اتوار کی صبح ہوگئی۔ دن چڑھا، گھر کے کام، بچوں کا ہوم ورک، استری، پورے ہفتے کا کھانے کا مینیو بناتے شام ہوگئی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ قدرت کا قانون چلتا ہی رہتا ہے چاہے کسی پر قیامت ہی گزر جائے مگر وہ کسی کی پرواہ ہی نہیں کرتا۔ روشن دن کے بعد رات ہوتی ہے، ایک نئی روشن صبح کا استقبال کرنے کے لیے۔ سیاہی سے روشنی کو جنم دینے کے لیے۔
پیر کے دن صبح ہی صبح جوزف بچوں کو جلدی جلدی سکول کے لیے تیار کر رہا تھا کہ دروازے پر ابراہیم اور آمنہ کی آوازیں آنے لگیں۔ ہر صبح یہی معمول تھا۔ نور چاروں بچوں کو سکول لے کر جاتی تھی جب کہ چھٹی کے ٹائم جوزف کی ڈیوٹی ہوتی تھی کیوں کہ نور کو سکول میں ٹیچرز کے ساتھ رُکنا پڑتا تھا۔
جوزف کو اس بات کی توقع نہیں تھی۔ اُس کے بچے اپنے بیگ اور لنچ باکس سنبھالتے ہوئے باہر نکل گئے۔ وہ بھی پیچھے پیچھے ہولیا۔ اُس کا دل بے ترتیب انداز میں دھڑک رہا تھا۔ نور کا سامنا کرتے ہوئے اس نے پہلے کبھی بھی خود کو اتنا کم زور محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ سامنے کھڑی تھی۔ سفید شرٹ کے ساتھ لمبی بلیک سکرٹ، اور بلیک اینڈ وائٹ لکیروں والا اسکارف پہنے۔ چھوٹا سا ہینڈ بیگ ہاتھ میں اٹھائے وہ جوزف کے بچوں کو بڑی خوش دلی سے ”گڈ مارننگ” کہہ رہی تھی۔ جب بچے فٹ پاتھ پر آگے بڑھے تو پہلی دفعہ اُس نے نظر اُٹھا کر جوزف کی طرف دیکھا اور زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اُس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اس نے ہوا میں ہاتھ لہرایا اور بلند آواز میں کہا ”شکریہ میرے ہیرو۔” اور جلدی جلدی سے بچوںکے پیچھے ہولی۔
جوزف حیران پریشان کھڑا رہ گیا۔ پھر دروازے پر پڑا اخبار اٹھا کر اندر چلا گیا۔ پہلے صفحے پر ہی اُسے نور کی مسکراہٹ کا جواب مل گیا۔ یہ مقامی اخبار تھا جو ہر پیر کو شائع ہوتا تھا۔ ہفتہ وار اخبار میں اس چھوٹے سے قصبے کی تمام خبریں شائع ہوتی تھیں اور اگلے ہفتے ہونے والے ایگزی بیشن کوئی سپورٹس ڈے، کسی چرچ میں خاص سروسز وغیرہ کے بارے میں بھی شائع ہوتا تھا۔
ایک خبر میں جوزف کو ہیرو کے نام سے بلایا گیا تھا۔ جس نے ایک مسلمان لڑکی کو ہراساں کرنے والے تین لڑکوں کی ٹھکائی کی تھی۔
٭…٭…٭


زندگی پھر معمول پر آگئی تھی۔ زندگی ہمیشہ معمول پر آجاتی ہے۔ چاہے کسی پر کچھ بھی گزر جائے لیکن زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ کبھی دوسرے ہی دن، کبھی دو تین مہینے بعد یا پھر کچھ سالوں بعد، مگر ایک بات طے ہے، زندگی آپ کو معمول پر لے آتی ہے۔ جوزف نے ایک دو دفعہ اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی مگر نور نے صاف منع کردیا۔ البتہ اُس نے جوزف کو بتایا کہ وہ اب کتنا بے خوف محسوس کرتی ہے۔ وہ ان دیکھا ڈر، وہ خوف اس واقعے کے بعد بالکل ختم ہوگیا ہے اور جوزف نے بھی محسوس کیا کہ وہ اب ڈر ڈر کر یا جھجھک جھجھک کر بچوں کے ساتھ باہر نہیں جاتی تھی، بلکہ اس کے اندر اب ایک اعتماد آگیا تھا۔
اس واقعے کو ابھی ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ ایک شام بڑی سی کالی گاڑی اُس کے گھر کے سامنے آکر رکی۔ دو مرد فارمل بلیک سوٹ میں گاڑی سے اُترے، اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نور کے کھولنے پر بے حد سرد انداز میں اپنے کارڈ دکھائے۔ وہ اندر آئے اور نور سے پوچھ گچھ کرنے لگے۔ نور بے حد گھبرا گئی اور ایکسکیوز کرکے لاؤنج سے اوپر چلی آئی اور جوزف کو فون کیا۔ کچھ لمحوں میں جوزف بھی لاؤنج میں اُن کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھا تھا، جب کہ نور نے بچوں کو جوزف کے گھر بھیج دیا تھا۔
”مسز نور خان زد گئی! ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مسٹر جوزف گڈ وِل کے ساتھ آپ کا کیا تعلق ہے؟” ان مردوں میں سے ایک نے سرد اور سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”ہم پڑوسی ہیں اور ہمارے بچے ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں تو ہم بڑے اچھے ”تعلقات” رکھنے والے پڑوسی ہیں۔” نور نے بے حد پُرسکون انداز میں کہا۔ وہ شاید جوزف کے ہونے سے خود کو بہت محفوظ محسوس کررہی تھی۔
”ہم نے آپ کے بارے میں معلومات کرائی ہیں اور ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ پاکستان میں ایک بہت اثر و رسوخ والے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ تو پھر یہاں اس دور دراز قصبے میں گم نام زندگی بسر کرنے کی وجہ؟” دونوں مردوں میں سے جو تھوڑا فربہ اور بڑی عمر کا لگ رہا تھا، نے پوچھا۔
”جب آپ کو سب پتا ہے تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟” نور نے سرد مہری سے جواب دیا۔
”جو وجہ آپ نے پناہ لینے کے لیے بیان کی ہے، اُس کے مطابق آپ کا شوہر، سسرال اور آپ کے اپنے گھر والے سب آپ کی جان لینے کے در پر ہیں۔ ایسا کیا کیا ہے آپ نے کہ نہ آپ کے والدین اور نہ ہی آپ کا شوہر آپ کو قبول کرنے پر راضی ہیں؟” اسی شخص نے اسی سرد مہری سے اگلا سوال کیا۔
”میں وجہ بیان کرنے کی مجاز نہیں۔ مجھے لگا کہ انہیں میری کوئی ضرورت نہیں۔ میں محض ایک شوپیس ہوں جس کو وہ اپنے گھروں میں اپنی مرضی کے مطابق سجا کر رکھیں اور ایسے رکھیں کہ جو بھی آئے وہ ان کو داد دے۔ میرا نہیں خیال کہ میرا بتانا ضروری ہے۔” نور کے لہجے میں اب تلخی آگئی تھی۔
”او کے ڈیئر! اب ہم چلتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں دوبارہ آنا پڑے۔آپ سمجھ رہی ہیں نا؟ ایک جبراً ریٹائرڈ برٹش آفیسر اور ایک دہشت گردوں کی آماج گاہ ملک کی پشتون خاتون ایک ساتھ نظر آئیں تو……” اب کی بار نسبتاً جوان نظر آنے والے آفیسر نے بات کی تھی۔
”چلیے میں آپ کو باہرتک چھوڑ آتا ہوں۔ جوزف نے سرد لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا اور انہیں باہر کے دروازے کی طرف ہاتھ پھیلا کر اشارہ کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ تینوں گھر سے نکلے، نور نے جلدی سے دروازہ لاک کیا۔ اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ دوپٹے سے اس نے چہرہ خشک کیا اور بھاگ کر اوپر بیڈروم کی کھڑکی میں پردے کی اوٹ میں کھڑی ہوکر باہر کا منظر دیکھنے لگی۔ وہ دونوں کالے سوٹ والے مرد گاڑی کے قریب کھڑے تھے اور جوزف اُن سے بات کررہا تھا۔ اُس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ سخت غصے میں بات کررہا تھا۔ نور کو بڑا عجیب لگا کہ وہ کالے سوٹ والے مرد اُس کے لاؤنج میں جتنے کرخت چہروں کے ساتھ بیٹھے تھے، باہر جوزف کے سامنے اُن کے چہروں پر کچھ پریشانی کے تاثرات نظر آرہے تھے۔ جوزف دونوں ہاتھ ہوا میں ہلاتے ہوئے اُن سے کچھ کہہ رہا تھا۔ اُن دونوں کے چلے جانے کے بعد جوزف سیدھا اپنے گھر چلا گیا۔
نور کچھ دیر کھڑکی کے پاس کھڑی رہی۔ دماغ نے ابھی ابھی کام کرنا شروع کیا تھا۔ یہ انٹیلی جنس کے بندے تھے جو اُس کے ماضی اور اُس کے خاندان کے بارے میں سب جانتے تھے۔ اُسے یہ فکر نہیں تھی کہ جوزف کے ساتھ اُس کو زبردستی نتھی کیا جارہا تھا بلکہ اسے یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ کہیں وہ لوگ پشاور میں اُس کے والدین یا شوہر سے رابطہ نہ کریں۔وہ تقریباً ایک سال سے اس چھوٹے سے قصبے میں رہ رہی تھی اور خود کو بہت محفوظ سمجھ رہی تھی۔ مگر اب اُسے معلوم ہوگیا تھا کہ اِن انٹیلی جنس والوں سے کوئی روپوش نہیں ہے۔ یہ سب کے بارے میں پوری خبر رکھتے ہیں اور جب ان کو کوئی شبہ ہونے لگتا ہے تو صحیح ٹائم پر بندے کو آ گھیرتے ہیں۔
وہ جلدی سے نیچے اتری اور جوزف کے گھر پہنچی۔ اوپر کے کمرے سے بچوں کے کھیلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ جوزف لاؤنج میں بیٹھا وہ اپنے لیپ ٹاپ پر جلدی جلدی کچھ ٹائپ کررہا تھا۔ نور اس کے گھر میں داخل ہوئی تو اس کی طرف دیکھے بنا ہی وہ کہنے لگا۔
”آؤ! آؤ! میں سوچ ہی رہا تھا کہ تم ابھی تک مجھ سے تفتیش کرنے کیوں نہیں آئی۔”
”کون تھے وہ لوگ؟ مجھ سے کیا چاہتے تھے؟”نور نے سیدھا مدعا پر آئی۔
”جاسوس تھے، اس ملک کے خیر خواہ! میرے اور تمہارے بیچ کی نزدیکی سے انہیں ڈر لگنے لگا تھا۔” جوزف قدرے پرسکون لہجے میں بولا۔
”مگر ہمارا کسی تنظیم سے، کسی شدت پسند گروپ سے تو کوئی تعلق نہیں۔” نور کے لہجے سے فکرمندی کے آثار جھلک رہے تھے۔
”مجھے نہیں معلوم نور! یہاں ہزاروں کی تعداد میں گورے لڑکے لڑکیوں نے کسی پاکستانی، انڈین یا کسی اور ملک کے لڑکے لڑکی سے تعلقات رکھے ہوئے ہیں یا پھر شادیاں کی ہوئی ہیں۔ مگر شاید ہم جیسا دل چسپ کیس اُن کے سامنے پہلی بار آیا ہے۔” جوزف کے چہرے پر مسکراہٹ صاف نظر آرہی تھی۔
”جوزف مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ دیکھو ہمارے درمیان تو کچھ نہیں ہے، مگر مجھے لگتا ہے وہ میرے خاندان والوں سے رابطہ نہ کرلیں۔ میں واپس نہیں جانا چاہتی۔” نور روہانسی ہوکر بولی۔
”نہیں کریں گے وہ ایسا۔” جوزف نے اطمینان سے کہا۔
”کیا مطلب نہیں کریں گے؟ اور تم انہیں غصے میں کیا کہہ رہے تھے؟” دفعتاً نور کو یاد آیا۔
”میں اُن سے یہی کہہ رہا تھا کہ دوبارہ اگر انہوں نے تمہیں تنگ کیا تو میں میڈیا پر وہ سب کچھ بتا دوں گا جو کچھ تم لوگ افغانستان، عراق اور فلسطین جیسے ممالک میں کررہے ہو۔ عینی گواہ ہوں اور میری طرح اور بھی بہت سارے بندے ملٹری میں ہیں جو انسانیت کا جذبہ رکھتے ہیں اور ان چیزوں کے خلاف ہیں جو اُن کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کررہے ہیں۔” جوزف بڑے سکون سے بولا۔
”کیا؟ جوزف یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں پتا ہے اب تمہاری جان کو بھی خطرہ ہے؟ وہ تم جیسے لوگوں کو راستے سے ہٹانے میں دیر نہیں کریں گے۔” نورکی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا۔
”نہیں! ایسی غلطی وہ نہیں کریں گے۔ کیوں کہ میں نے وہ شواہد اکٹھے کیے ہیں اور کئی جگہوں پر چھپا کر رکھے ہیں جو صرف ایک بٹن دبانے سے دنیا کے کئی بڑے نیوز چینلز کے پاس پہنچ سکتے ہیں۔ بلکہ اپنے جیسے کچھ اور فوجیوں کو بھی بھیج رکھے ہیں۔” جوزف کے لہجے سے اب بھی سکون عیاں تھا۔
”پھر انہوں نے کیا کہا۔ کوئی دھمکی دی ہوگی یقینا۔” نور اب بھی پریشان تھی۔
”ہونہہ! دھمکی نہیں آفر کی ہے کہ کچھ بھی مانگ لو ہم سے۔ میرے چُپ رہنے کی قیمت دینے کو تیار ہیں وہ۔” جوزف بولا۔
”پھر تم نے کیا کہا؟”
”میں نے اُن سے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ ہاں میرے چپ رہنے کی قیمت میں یہی چاہتا ہوں کہ نور اور اُس کے بچوں کو دوبارہ کوئی تنگ نہ کرے اور اگر ایسا ہوا تو پھر نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔” جوزف نے اسے بتایا۔
”نہیں جوزف! تم ایسا نہیں کرسکتے۔” نور ایک دم سے بول پڑی۔
” تم ان سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہو۔ یہی تو موقع ہے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی سنوارنے کا۔” نور حیرت سے اس لالچ اور طمع سے پاک بندے کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”میرا بہت کچھ ”تم” ہو نور۔” جوزف اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا اور نور اُسے دیکھتی ہی رہ گئی۔
”میں بچوں کو دیکھ لوں۔” نور نے جوزف سے آنکھیں چراتے ہوئے کہا اور اوپر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔
”تمہیں کوئی کچھ کہے مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں تمہیں خوش دیکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ ساری دنیا سے لڑ سکتا ہوں۔” جوزف اب قدرے اونچی آواز میں بولا تھا اور نور پہلی سیڑھی پر ہی جم کر رہ گئی اور دوسرے ہی لمحے اُس کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جوزف کے گھر سے بھاگ کر نکل آئی۔
جوزف نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور صوفے پر ڈھے گیا۔
”آہ میرے خدا! یہ میں نے کیا کردیا۔ کیا کہہ دیا اُسے۔” جوزف نے آنکھیں بند کرلیں۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ نور کے دروازے پر کھڑا دستک دے رہا تھا۔نور نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
”میں بچوں کو پارک لے کر جارہا ہوں۔ تم بھی چلو۔” جوزف نظریں چراتا ہوا بولا۔
”ہاں آتی ہوں۔” نور سکارف ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔
جوزف نے کچھ ہی دن پہلے قسطوں پر ایک سکینڈ ہینڈ لینڈ کروز لی تھی اور سب کو اس میں بٹھا کر لانگ ڈرائیو پر لے کر گیا تھا اور سب کو ٹریٹ بھی دی تھی۔
”نور! آئی ایم سوری مجھے اس طرح بات نہیں”… جوزف نے جھکے ہوئے سر اور دھیمی آواز میں نور سے کہا۔
”اِٹس اوکے!” نور نے جلدی سے اُسے پوری بات ختم کیے بنا ٹوک دیا۔
”نہیں میں نے بہت غلط کیا۔” وہ اب بھی شرمندہ تھا۔
”ٹھیک ہے بابا! کہہ دیا نا اِٹس اوکے۔ اب چلیں! بچے گاڑی میں انتظار کررہے ہیں۔” نور کا لہجہ ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
”تم نے واقعی برا نہیں منایا؟” جوزف حیرانی کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
”تمہاری بات کا میں کبھی بُرا نہیں مناتی کیوں کہ تم ایک سر پھرے اور جذباتی مرد ہو اور اب تو میں بھی عادی ہوگئی ہوں تمہاری الٹی سیدھی باتیں سننے کی۔” نور نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا۔
”تھینک گاڈ! ایک بڑا بوجھ سر سے اُترا میرے۔ رئیلی پھر کبھی اتنا جذباتی سین نہیں کروں گا۔” جوزف کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔
”پرامس؟” نور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”پرامس، پکا پرامس!” جوزف نے جیسے ہی حامی بھری، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتے۔
٭…٭…٭
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوگئی تھیں۔ کچھ دن تو بچے کافی خوش رہے لیکن پھر بوریت نے انہیں گھیر لیا۔ نور کبھی انہیں پارک لے جاتی، کبھی لائبریری۔ جوزف دن میں اب اپنی جاب پر ہوتا تھا تو میری اور ڈیوڈ اُسی کے پاس ہوتے تھے۔ جوزف کے گھر کی چابی نور کے پاس ہی ہوتی تھی۔ بچے دونوں گھروں کے درمیان سارا دن بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے۔ گلی میں رہنے والے کچھ بوڑھے لوگ بھی باہر سائے میں بیٹھنے لگے تھے۔ ان چاروں بچوں نے کا فی رونق لگا دی تھی محلے میں۔
پھر ایک دن ابراہیم ضد کرنے لگا کہ ڈیوڈ اُس کے گھر رات گزارے۔ نور نے منع کیا تو وہ معصومیت سے بولا کہ اس کے سکول میں سب بچے اپنی نانی دادی کے گھر رات گزارنے جاتے ہیں یا پھر اُن کے کزنز ان کے گھر آجاتے ہیں۔ لیکن ہمارا ایسا کوئی نہیں ہے یہاں پر۔ نور اس کی بات سن کر کافی رنجیدہ ہوگئی اور اس نے جوزف سے اس سلسلے میں باتی کی۔
”زبردست! ہم تینوں آئیں گے تمہارے گھر ابراہیم۔” جوزف نے کہا۔
”بولو کب آنا ہے؟ اور ہاں ہم کیمپنگ ٹینٹ بھی لائیں گے۔ تمہارے گھر کے پیچھے والے صحن میں رات کو لگائیں گے۔ رات دیر تک اُس میں مزے کریں گے اور ہاں بون فائر بھی کریں گے۔” جوزف پُر جوش انداز میں اپنا پلان بتا رہا تھا۔
”ہائے! جوزف انکل دی گریٹ” ابراہیم اُس سے لپٹ کر بولا۔
”ممی آپ ہاٹ چاکلیٹ بنانا اور میری ٹارچ کہاں ہے وہ بھی ہم کیمپ میں رکھیں گے۔” اس لیے ابراہیم خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا وہ دوسرے بچوں کو بتانے کے لیے دوڑا۔
”جوزف کیا کررہے ہو؟ بچے نے ایسے ہی بات کردی اور تم اِن سے بھی چھوٹے بچے بن گئے ہو۔” نور نے جوزف کے ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔
”میرے پاس بہت زیادہ پیسہ نہیں ہے۔ میں مہنگی چیزیں نہیں خرید سکتا مگر ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو پوری طرح سے منانے کا حق میں رکھتا ہوں۔” جوزف جتنا چوڑا چکلا اور لمبا تھا اتنا ہی دل کا نرم اور بچوں کے معاملے میں سب سے بڑا بچہ تھا۔
”جو جی میں آئے تم لوگ کرو، میری بات کہاں سنو گے۔” نور نے کہا اور منہ بناتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
اگلے جمعے کو جوزف کام سے آیا تو اُس کے بچے ابراہیم اور آمنہ کے ساتھ باہر کھیل رہے تھے۔ جوزف نے ان کو اکٹھا کیا اور اپنے گھر سے نور کے گھر میں چیزیں منتقل کرنے لگا۔ ایک بڑا سا ٹینٹ، چھوٹا سا اسٹو، رسیاں، واٹر پروف کارپٹ کا ٹکڑا وغیرہ وغیرہ…
بچے تو دیوانے ہوئے جارہے تھے۔ جوزف اُن کو کیلیں لگانے اور رسیوں کی مدد سے ٹینٹ لگانے میں جتا ہوا تھا۔ نور نے کچن میں پاستہ بنایا۔ تقریباً دو گھنٹے کی مشقت کے بعد ٹینٹ لگ گیا تھا۔ کارپٹ ڈالنے کے بعد سب اپنا اپنا سیپلنگ بیگ لے آئے۔ کچھ کتابیں اور اپنے اپنے ٹارچ بھی انہوں نے اندر رکھ لئے۔ نور نے سب کو الگ الگ پلیٹس میں پاستہ دیا اور بچے خوشی خوشی کھانا کھانے لگے۔ اُس کے بعد جوزف نے باہر اسٹو پر کیتلی میں پانی گرم کرکے سب کے لیے ہاٹ چاکلیٹ بنائی۔ باہر موسم میں خنکی زیادہ ہوگئی تھی تو نور بچوں کے لیے کمبل لے آئی۔ ٹینٹ کے اندر بیٹھ کر سب نے اپنے اپنے چاکلیٹ کے مگ پکڑے ہوئے تھے اور زور و شور سے صبح ہونے والے فٹ بال میچ کا حال جوزف سے بیان کررہے تھے۔
رات گئے جب سب بچے تھک گئے اور نیند سے بے حال ہونے لگے تو نور نے انہیں ٹارچ بند کرکے سونے کے لیے کہا مگر اُسے یہ دیکھ کر ہنسی آگئی کہ کوئی بھی وہاں رات گزارنے کو تیار نہیں تھا۔ سب بیڈ روم میں سونے کی فرمائش کرنے لگے۔ نور نے بچوں کو اپنے اپنے کشن اور کمبل وغیرہ اوپر بیڈ روم میں لے جانے کی ہدایت کی۔ ابراہیم اور ڈیوڈ ایک کمرے میں جب کہ میری اور آمنہ نور کے کمرے میں ڈبل بیڈ پر سو گئے۔ اب نور نے جوزف کی طرف دیکھا۔
”میں یہیں نیچے لاؤنج میں صوفے پر سو جاؤں گا۔ تم میری فکر مت کرو۔” جوزف نے اس کی بات بھانپتے ہوئے کہا تو نور اسے گھورنے لگی۔
”اچھا بھئی دیکھو۔ میں بچوں کے بغیر نہیں سو سکتا اور اب اپنے گھر میں اکیلا تو بالکل نہیں۔ بس چپ چاپ یہاں صوفے پر سو جاؤں گا۔”
نور کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی، مگر کیا وہ کرتی؟ جوزف کے بچے سونے چلے گئے تھے ورنہ وہ ان کو جوزف کے ساتھ گھر ہی روانہ کردیتی۔
”اچھا ٹھیک ہے۔” نور نے بے دلی سے کہا اور اوپر چلی گئی۔
رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب نور کی آنکھ کھلی۔ اُسے لگا جیسے قریب میں کوئی رو رہا ہو۔ اُس نے بیڈ پر لیٹی لڑکیوں کو دیکھا تو وہ آرام سے سو رہی تھیں۔ دوبارہ اُس نے سسکی کی آواز سُنی تو وہ ٹھٹھک گئی۔ دوسرے کمرے میں لڑکے بھی بے خود سوئے ہوئے تھے۔ وہ بے آواز چلتی ہوئی نیچے اُتر آئی۔ اُس کے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے اور دل کنپٹی میں زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں چھری تھی جو وہ رات کو اپنے کمرے میں رکھتی تھی۔ وہ لاؤنج کی طرف آئی تو دروازہ کھلا تھا۔ اُسے جوزف کی آواز سنائی دی جیسے کہ وہ بہت تکلیف میں ہو۔ وہ لاؤنج میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئی اور چھری پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
سامنے صوفے پر جوزف آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا اور چہرے پر تکلیف کے اثرات تھے۔ وہ کچھ بڑ بڑا رہا تھا مگر نور کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔
”شاید کوئی برا خواب دیکھ رہا ہے جوزف۔” نور نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اسے لگا وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہے۔
”جوزف! جوزف!” نور نے وہیں سے کھڑے کھڑے اُسے آواز دی مگر وہ بے خبر تیز تیز آواز میں کچھ کہنے لگا۔
”میں نے کیا ہے، میں قصور وار ہوں۔ مجھے معاف کردو۔ بچے، بچے کہاں ہیں؟ وہ بچے کہاں ہیں؟” جوزف اب باقاعدہ رو رہا تھا۔


نور نے جلدی سے میز پر پڑی پانی کی بوتل سے اُس پر کچھ چھینٹے مارے تو جوزف ایک دم سے ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ وہ تیز تیز سانسیں لے رہا تھا۔پھر اس نے نور کو دیکھا اور ہاتھوںمیں منہ چھپا کر رونے لگا۔ نور گھبرا گئی۔ اسے کچھ نہ سوجھا وہ تو جوزف کے قریب دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس نے پانی کا گلاس اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”جوزف، کچھ نہیں ہے۔ صرف خواب تھا۔ تم برا سپنا دیکھ رہے تھے۔ لو پانی پی لو۔” نور جو خود بھی ڈری ہوئی تھی، جوزف کو حوصلہ دیتے ہوئی بولی۔
جوزف نے ایک ہی سانس میں سارا گلاس ختم کردیا۔ اُس کے اوسان بحال ہو رہے تھے، وہ خواب کی کیفیت سے نکل رہا تھا۔ ارد گرد نظر دوڑانے کے بعد اس نے نور کی طرف دیکھا۔
”کل رات بچوں نے باہر کیمپنگ کی فرمائش کی تھی اور اب سارے آرام سے اوپر سو رہے ہیں۔ ” نور نے سکون سے جوزف کو بتایا جو بڑی تیزی سے اپنی حالت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
”تم کافی پیو گے؟ میں اپنے لیے بنانے جارہی ہوں۔” نور نے کہا اور اُٹھ کر کچن کی طرف چل دی۔ اُس نے دو مگ لیے اور پانی گرم کرنے کے لیے رکھ دیا۔ وہ الماری سے کافی اور چینی نکال رہی تھی کہ پیچھے سے جوزف کے کھنکھارنے کی آواز آئی، وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور ڈائیننگ ٹیبل پر دونوں ہاتھ ٹکا کر سر جھکائے اپنی انگلیوں کو مروڑنے لگا۔ نور نے کافی کا مگ اُس کے سامنے رکھا اور اپنا مگ لے کر اس کے سامنے والی کرسی پر براجمان ہوگئی۔
”کیا تم مجھے اپنا خواب بتانا چاہو گے؟” نور نے جوزف سے پوچھا جس کے جواب میں وہ خاموش رہا۔
”کوئی ایسی بات جو تم سمجھتے ہو کہ مجھ سے شیئر کرسکتے ہو؟” نور نے ہمت نہ ہاری۔ اُسے جوزف ایک چھوٹے بچے کی طرح لگا جس کے دل میں کوئی خوف ہوتا ہے اور جو اُس ڈر کی وجہ سے بے حد پریشان ہوتا ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ جوزف کھل کر اپنا ڈر بیان کرے یا پھر وہ بات جو وہ دل میں دبائے بیٹھا ہے تاکہ اُس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔
جوزف نے کافی کا ایک چھوٹا سا گھونٹ لیا اور پھر بات شروع کی۔
٭…٭…٭
میں کابل سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک گاؤں میں اپنے ٹینٹ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ایک دہشت گرد آج رات اپنے گھر والوں سے ملنے چوری چھپے آئے گا۔ میں نے اپنے ساتھ تقریباً دس بارہ آدمیوں کو تیاری کا حکم دیا۔ میرا ترجمان جس کا نام حلیم جان تھا میرے ساتھ تھا۔ وہ ہر پٹرولنگ پر میرے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ دن کے وقت ہمارے ساتھ منہ ڈھانپ کر چلتا تھا تاکہ کوئی اُسے پہچان نہ لے۔ وہ بہت شریف انسان تھا۔ رات کے تقریباً سوا ایک بجے ہم اپنی جیپ میں نکلے اور مخبر کے بتائے ہوئے گھر سے تھوڑی دور اُتر گئے۔ رات کی تاریکی میں بے آواز چلتے ہوئے ہم نے مذکورہ گھر کا گھیراؤ کیا۔ اندر سے تیز تیز باتوں کی آواز آرہی تھی۔ کوئی عورت تھی جو روتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی۔ حلیم جان کو جتنی سمجھ آرہی تھی وہ مجھے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ترجمہ کرکے بتائے جارہا تھا۔ وہ عورت شاید اُس شخص کو منع کررہی تھی کہ معذوروں جیسی زندگی چھوڑ دے۔ اپنے بچوں اور بوڑھی ماں کا خیال کرے جو ہر روز جیتے ہیں اور مرتے ہیں۔ ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اُس کے مرنے کی خبر اب آئی کہ اب آئی۔
”نیک بختِ! موت نہیں شہادت کہو شہادت۔” اچانک ایک مرد کی بھاری بھرکم آواز آئی۔
مگر وہ عورت کچھ نہیں سن رہی تھی۔ میں نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا کہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو جائے۔ ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو سامنے کمرے بنے ہوئے تھے، جس میں ایک کمرے کے دروازے پر وہ مرد ہاتھ میں ایک پوٹلی لیے جانے کے لیے تیار کھڑا تھا جب کہ اُس کی بیوی اُسے بچوں اور بوڑھی ماں کا واسطہ دے کر اسے وہیں رُکنے پر اصرار کررہی تھی۔
”ہمارا کیا ہوگا کبھی سوچا ہے تم نے میں کیا کروں گی؟ بچوں کی طرف دیکھو اور نہیں تو کم از کم اس عمر میں اپنی ماں کا ہی خیال کرلو۔ سنو دونوں کام کریں گے اور جو بھی تھوڑا بہت محنت سے کمائیں گے اس میں چین و سکون سے زندگی گزاریں گے۔” حلیم جان مجھے مسلسل ترجمہ کرکے بتا رہا تھا۔
”ہمارے اندر داخل ہوتے ہی وہ دوڑ کر دیوار پھلانگنے کی کوشش کرنے لگا اور اسی اثناء میں میرے ایک سپاہی نے فائر کھول دیا جس سے وہ شخص اور اس کی بیوی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ ساتھ ہی میں نے ایک دل دوز چیخ سنی، پیچھے دیکھا تو دوسرے کمرے کے دروازے پر ایک کمزور سی بوڑھی عورت دو بچوں کو لے کر کھڑی تھی۔ بچے شاید سو کر اٹھے تھے اس لیے آنکھیں مسلنے کے ساتھ ساتھ رو رہے تھے۔ وہ بوڑھی عورت بچوں کو چھوڑ کر اس سپاہی پر چڑھ دوڑی جس کی فائرنگ سے اس کا بیٹا اور بہو مارے جاچکے تھے۔۔ وہ ناتواں عورت تھی، فوجی نے اپنے مضبوط جوتے سے اسے پرے دھکیل دیا۔ وہ درد سے کراہ اٹھی اور پھر اپنے بیٹے اور بہو کی لاش پر بین کرنے لگی۔ وہ چھوٹے بچے بھی اب اس سے لگ کر رو رہے تھے۔ نور میں اس جگہ پر بت کی طرح ساکت ہوگیا تھا۔ سارے فوجی ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے جیپ کی طرف چل دیئے۔ جب کہ میرے پیروں سے جان نکل چکی تھی۔”
حلیم جان مجھے کھینچنے لگا مگر میں گھٹنوں کے بل گر گیا۔ وہ بوڑھی عورت اب بالکل خاموش تھی مگر اس کی آنکھوں سے چنگاریاں برس رہی تھیں۔ وہ اٹھی میرے قریب آئی اور مجھ پر تھوکا۔
”حلیم جان یہ کیا کہہ رہی ہے؟” میں نے حلیم جان سے پوچھا مگر وہ مجھے زبردستی اٹھا کرباہر لے جانے لگا۔
”کچھ نہیں سر! کچھ نہیں کہہ رہی۔” وہ منہ میں پشتو میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔حلیم جان مجھے اٹھاکر باہر لے جانے لگا۔ میری ٹانگوں نے بالکل جواب دے دیا تھا۔ میں مڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا تھا جہاں دو لاشیں پڑی تھیں اور ان کے سامنے دو معصوم بچے۔ ایک بزرگ خاتون کو میری وجہ سے اس عمر میں اپنے جوان بیٹے کی لاش دیکھنا پڑی۔ وہ بچے جن کو کھلونوں، پھولوں، کتابوں اور تتلیوں سے کھیل کر بڑا ہونا تھا وہ میری وجہ سے ایک اندوہ ناک بچپن کے تجربے سے گزرنے لگے۔ بندوق، خون، خوف جیسی چیزوں سے روش ناس ہونے لگے۔ اپنے کیمپ تک آتے آتے میری بری حالت ہوگئی تھی۔ تین چار دن میں بخار میں تپتا رہا۔ کچھ ہوش نہ رہا مگر سکون بھی نہ تھا۔جب تھوڑی حالت سنبھلی تو حلیم جان کی منت کی کہ مجھے ان بچوں کے گھر لے چلے۔ کچھ پس و پیش کے بعد وہ مجھے جیپ میں بٹھا کر لے گیا۔ اس گھر کے سامنے پہنچ کر اس رات ہونے والے خوف ناک حادثے نے مجھے پھر سے بری طرح سے گھیر لیا۔ میں نے دل کو مضبوط کیا اور اندر داخل ہوا۔ میرے ہاتھ لرز رہے تھے۔ میں ایک فٹ بال، ایک گڑیا اور کچھ کھانے کا سامان لے کر اندر داخل ہوا۔ گھر ویسے کا ویسا ہی تھا۔ ہاں صحن کے ایک کونے میں دیوار کے سائے میںچارپائی ڈالے وہ عورت لیٹی ہوئی تھی اور دونوں بچے اس کے پاؤں کی طرف سہمے ہوئے اس سے چپک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میرا دل ایک دم سے بند ہونے لگا۔ میں مر جانا چاہتا تھا۔ کہیں دور بھاگ جانا چاہتا تھا۔
میں آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھا۔ بچے اور بھی اپنی دادی سے لپٹ گئے تھے۔ وہ آج چیخ نہیں رہی تھی۔ بس مجھے خالی خالی آنکھوں سے دیکھے جارہی تھی۔ میں گھٹنوں کے بل چارپائی کے قریب بیٹھ گیا۔
”سوویت لڑائی نے مجھ سے میرا شوہر اور بھائی چھین لیے تھے۔ تم لوگوں نے میرا بیٹا اور بہو چھین لیے۔ ابھی سے بتا دو میرے پوتے پوتی کو چھیننے کون سا ملک انتظار کررہا ہے اپنی باری کا۔” اس نے لیٹے لیٹے ہی پوچھا۔ اس کی آواز میں کسی قسم کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔ نہ شکوہ، نہ شکایت نہ طنز نہ ڈر۔ شاید جنگوں کے درمیان پلتے ہوئے وہ ان سب احساسات سے عاری ہوگئی تھی۔ میں سر جھکائے بیٹھا رہا، کچھ کہہ نہ سکا۔ ہاں بچوں کی دبی دبی آوازیں آرہی تھی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کھلونوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے جیسے ہی وہ چیزیں ان کی طرف بڑھائیں، ان کی دادی ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور چیزوں کو دور پھینک دیا۔
”چلے جاؤ یہاں سے! اب ان چیزوں سے بہلاؤ گے؟ ماں باپ چھین کر اب بے جان چیزوں سے مداوا کرو گے؟ تم کیا جانو۔ اے گوروں کے پالتو کتوں! لے جاؤ اس صاحب کو۔” اس نے حلیم جان کی طرف دیکھ کر کہا۔
نور بے حد خاموشی سے اسے سنتی رہی۔ درمیان میں اس نے اسے کہیں نہیں ٹوکا، کوئی چھوٹا سا لفظ تک نہیں کہا۔ اُسے معلوم تھا کہ اصلی جوزف جو ابھی اُس کے سامنے بیٹھا ہے اس کی ایک چھوٹی سے جنبش سے واپس اپنے لا ابالی، لاپروا جوزف کے خول میں چلا جائے گا۔ مگر وہ خود ہی بولتا رہا جیسے اُسے ڈر ہو کہ نور کہیں اُسے ٹوک نہ دے۔
”مگر میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں دوسرے دن اپنے کام نپٹا کر دوبارہ ان کے پاس گیا۔ اب کی بار میں ٹافیاں اوربچوں کے لیے ٹوپیاں لے کر گیا۔ ان کی دادی نے پھر مجھے سنائیں۔ مگر مجھے سکون ملتا تھا جب وہ مجھے بُرا بھلا کہتیں۔ پھر وہاں جانا میرا معمول بن گیا۔ ہر تین چار دن بعد میں اُن کی طرف چکر لگاتا تھا۔ گھر کی چھوٹی موٹی چیزیں لے جاتا۔ ڈبل روٹی، پنیر، خشک فروٹ۔ اب ان کو بھی میری عادت ہوگئی تھی۔ اب وہ لوگ بھی میرا انتظار کرتے۔ پھر ایک دن میں ان کے ہاں گیا تو اس کی بیٹی اور داماد آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے بھائی اور بھابھی کی موت کا سن کرپشاور سے آئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہمنہ پھیر کر کمرے کے اندر چلے گئے۔ حلیم جان سے مجھے پتا چلا کہ وہ دونوں پشاور میں رہتے ہیں اور اب ان تینوں کو لے جانے آئے ہیں۔ دادی نہیں جانا چاہتی تھی، وہ بیٹے کے قریب دفن ہونا چاہتی تھی مگر بچوں کو اس کے ساتھ بھیجنے پر راضی ہوگئی تھی کہ اس کے بعد بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔”
”مجھے اس کا داماد ٹھیک آدمی نہیں لگا تھا مگر میں کیا کرتا، وہ ان بچوں کا رشتہ دار تھا۔ اُس کا حق زیادہ تھا۔ اور پھر میں کون تھا؟ ایک غیر مذہب کا بندہ جو زبردستی ان کے ملک میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں وہاں سے واپس آگیا مگر دل کو قرار نہیں آیا۔ حلیم جان کی زبانی مجھے پتا چلا کہ وہ بچے چلے گئے ہیں۔ میں ان کی دادی کی طرف جانا چاہتا تھا مگر اچانک ایک بڑے آپریشن کے لیے ہمارے یونٹ کو بلا لیا گیا اور میں ان سے مل نہ سکا۔
اُسی آپریشن کے دوران مجھے تین گولیاں ٹانگ پر لگیں اور لڑکھڑا کر گرنے سے ایک جگہ سے ہڈی ٹوٹ گئی۔ مجھے اپنے کیمپ میں ابتدائی طبی امداد دے کر پشاور بہ ذریعہ ہیلی کاپٹر روانہ کردیا گیا۔ جہاں دو دن ہسپتال میں رہ کر میرے انگلینڈ جانے کا انتظام کیا گیا۔ یہاں میرا علاج ہوا اور ہسپتال سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ جاب سے بھی فارغ کردیا گیا۔
لندن کے ایک خوب صورت اور مہنگے علاقے میں میرا گھر تھا مگر میرا گھر ایک جہنم بن گیا۔ میں پلاسٹر لگے ٹانگ کے ساتھ اپنے بیڈ پر چت پڑا رہتا اور نیچے میری بیوی برتن پٹختی رہتی اور زور زور سے دل جلانے والی باتیں کرتی۔ اُسے اب میں ایک بوجھ لگنے لگا تھا۔ کیوں کہ اب صرف اس کی جاب سے ہی گھر چل رہا تھا۔ بچے بھی خوف زدہ سے رہتے۔ اُسے فکر ہونے لگی کہ شاید اب ساری زندگی ایک بیڈ پر بڑے معذور شوہر کی خدمت کرتے ہوئے گزر جائے گی۔ بچوں پر چیخنا چلانا، مجھ سے بدتمیزی سے بات کرنا اس کا ایک معمول بن گیا تھا۔ بچوں کے سکول سے آنے کے بعد شام کو میری بیوی کے گھر میں داخل ہونے تک کا ٹائم میرے اور میرے بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ جس میں ہم جی بھر کر باتیں کرتے اور اچھا وقت گزارتے، مگر پھر اُس نے حد کردی۔ وہ کسی اور کو گھر لانے لگی اور راتیں بھی باہر گزارنے لگی۔ بچوں پر اس کا بے حد برا اثر پڑ رہا تھا۔ اس نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ مجھ جیسے معذور اور بے کار شخص کے ساتھ اپنی زندگی برباد نہیں کرسکتی۔
میری فزیو تھراپی جاری تھی جس کی وجہ سے میں مجبور تھا اور اس گھر میں رکا ہوا تھا۔ وہ چند مہینے میں نے بڑے عذاب میں گزارے، مگر جیسے ہی میں تھوڑا چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو میں نے بھی تمہاری طرح کونسل کے گھر کے لیے اپلائی کردیا۔ چوں کہ میں ایکس آرمی (Ex-Army) بندہ تھا تو کونسل والوں نے بھی تھوڑی خاطر کی اور جب دو تین مختلف علاقوں میں گھر کی آفر کی تو میں نے یہ والا منتخب کرلیا۔ بچوں سے وہ خود جان چھڑانا چاہتی تھی تو پھر میں بچوں کے ساتھ یہاں آگیا۔ اس سارے عرصے میں وہ دو بچے بالکل میرے ذہن سے نکلے ہوئے تھے۔ مگر جب زندگی معمول پر آئی تو اُن دو بچوں کا خیال کسی آسیب کی طرح مجھ سے چمٹ کر رہ گیا۔ میں جو سارا سارا دن اپنے آپ کو بے حد مصروف رکھتا ہوں وہ اسی لیے تاکہ بے خبر سو سکوں اور وہ بچے مجھے یاد نہ آئیں۔”
”ہو سکتا ہے وہ پشاور میں اچھی زندگی گزار رہے ہوں۔” نور پہلی دفعہ بولی۔
”نہیں! بالکل نہیں۔ میں نے یہاں آکر ایک دفعہ حلیم جان سے فون پر بات کی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ جو لوگ پشاور سے آتے جاتے ہیں ان میں سے کسی کی زبانی اسے معلوم ہوا کہ ان بچوں کا پھوپھا ان سے پشاور کی معروف شاہ راہوں پر بھیک منگواتا ہے۔” جوزف کی آواز میں درد تھا۔
”یا اللہ!” نور منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
دونوں کچھ لمحے اسی طرح خاموشی سے اپنی اپنی سوچوں میں ڈوبے رہے۔
”اب تم کیا چاہتے ہو؟” آخر کار نور نے اس سے پوچھا۔
”میں ان بچوں کو ڈھونڈ کر یہاں لانا چاہتا ہوں، ایڈاپٹ کرنا چاہتا ہوں انہیں۔” جوزف نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نور کو بتایا۔
”مگر کیسے؟” نور نے حیرانی سے پوچھا۔
”حلیم جان بتا رہا تھا کہ پشاور میں کوئی افغان کالونی کے نام سے جگہ ہے جہاں پر اُس شخص کا گھر اور کرائے پر لیا گیا ایک جنرل سٹور۔ بس اب کوئی ایسا مل جائے جو وہاں جا کر ان سے بات کرے۔ وہ لالچی شخص ہے اور مجھے معلوم ہے کچھ پیسوں کا لالچ دے کر وہ بچے اس کے حوالے کردے گا۔” جوزف نے اسے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا۔
”تو اب رکاوٹ کیا ہے؟” نور نے قدرے دھیمے لہجے میں اس سے پوچھا۔
”ہماری گورنمنٹ! شاید وہ مجھے افغانی بچے ایڈاپٹ کرنے نہ دیں۔ مبادا ہر دوسرا فوجی ہی کام نہ کرنے لگے۔” جوزف نے تلخ لہجے میں کہا۔
”تم فکر نہ کرو۔ ہم کوئی راستہ ڈھونڈ لیں گے۔” نور نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ مگر اُسے خود معلوم نہ تھا کہ وہ کیسے جوزف کی مدد کرے گی۔
”کافی کے لیے شکریہ!” جوزف اب کچھ ہلکا محسوس کررہا تھا۔
کمرے میں صبح کی روشنی آہستہ آہستہ ابھرتی چلی جارہی تھی۔ وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں غلطاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک نے اپنا دکھ درد بیان کردیا تھا مگر دوسرے نے ابھی تک اپنے آپ کو خول میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ شاید وہ چوٹ زیادہ کھائے ہوئے تھا یا پھر واقعی ایک پرانی کہاوت کے مطابق عورت ایک سمندر کی مانند ہوتی ہے جس میں کتنے ہی رازد فن ہوتے ہیں، مگر اوپر سے وہ پرسکون لہروں کی طرح دکھائی دیتی ہے۔
نور کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ جوزف کی مدد کیسے کرے۔ یہ اس کے لیے بہت آسان تھا۔ صرف ایک فون کرکے ہی اُس کے خاندان والے اُن بچوں کو ڈھونڈ سکتے تھے، مگر مشکل یہی تھی کہ وہ کسی کو بھی فون نہیں کرسکتی تھی۔ بہت سوچنے کے بعد ایک ہی حل اُسے نظر آیا۔
”معلوم نہیں کام یابی ملے گی یا نہیں مگر کوشش کرتی ہوں۔”نور نے سوچا۔
اُس نے سکول کے زمانے میں اُس کے ساتھ پڑھنے والے دو تین افغان لڑکے لڑکیوں کے نام فیس بک پر نکالے اور جس جس اسے کوئی اشارہ ملا ہوا، ان کو میسج کردیئے۔ ارغوان، دویا، مژگان، شاہ پور یہ کچھ نام تھے جو اس کے ذہن میں آئے تھے اور کسی زمانے میں اس کے ساتھ پڑھتے تھے۔ میسج کے بعد وہ بڑی بے تابی سے جواب کا انتظار کرنے لگی اور ہر پندرہ بیس منٹ بعد اپنا فیس بک کھولتی۔ دو تین دنوں میں اسے کافی میسجز آئے۔ جن میں زیادہ تر معذرت کے تھے۔ وہ بڑی مایوس ہوئی مگر رات گئے ایک میسج نے امید کا راستہ دکھایا۔ ”مژدہ لطیف” کے نام سے کسی نے اسے ٹیکسٹ کیا تھا اور بتایا کہ اُس کی کسی افغان سہیلی نے نور کا میسج اُسے فارورڈ کیا تھا۔ مژدہ افغانی پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی گئی ایک بین الاقوامی این جی او سے منسلک تھی۔ چند میسجز کے تبادلوں میں نور نے اسے جوزف اور اس کی ساری کہانی سنائی۔ چوں کہ وہ پشاور میں پلی بڑھی تھی اور مژدہ بھی ان علاقوں کو جانتی تھی جہاں پر کثیرتعداد میں افغانی کمیونٹی رہتی تھی تو نور کو لگا کہ جلد ہی اُن بچوں کا پتا مل جائے گا۔ اُسے اب صبح کا انتظار تھا تاکہ جوزف کو خوش خبری سنا سکے۔ مژدہ واقعی ہی ان کے لیے میں خوش خبری کا باعث بنی تھی۔
صبح بچوں کو سکول کے لیے لے جاتے وقت نور نے جلدی جلدی جوزف کو ساری بات بتائی اور مژدہ کا نمبر دیا تاکہ جوزف تفصیل سے اس سے بات کرے۔
مژدہ نے جوزف سے ان بچوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ جوزف کے پاس کچھ تصویریں تھیں جن میں وہ زمین پر فوجیوں کے لباس میں بیٹھا ہوا تھا اور دو بچے اس کے آس پاس کھڑے تھے۔ اس نے وہ تمام تصویریں بھی مژدہ کو ای میل کردیں۔ ساتھ میں اُن کے پھوپھا کا ایڈریس بھی۔
اب جوزف ہر روز مژدہ کے فون یا ای میل کا انتظار کرنے لگا۔ بار بار فون پر ای میل چیک کرتا، بار بار نور سے پوچھتا کہ وہ اتنا ٹائم کیوں لے رہی ہے۔ آخر کار خدا خدا کرکے تقریباً دو ہفتے بعد مژدہ کی ایک ای میل آئی۔ جوزف ہانپتا کانپتا نور کے گھر پہنچا تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیسے پڑھوں۔ معلوم نہیں کیا لکھا ہوگا۔ تم پڑھ کر سناؤ نور۔” جوزف نے فون کپکپائے ہاتھوں سے نور کی طرف بڑھایا۔
”ارے اچھی خبر ہوگی۔ چلو خود ہی کھولو۔” نور نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔


جوزف نے لرزتے ہاتھوں سے ای میل پڑھنی شروع کی۔
”ڈیئر جوزف!
دیر سے رابطہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ ہم اپنے طریقے سے ان بچوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے تھے۔ ہم نے تمہارے ارسال کردہ پتے کی جانچ کرائی تو وہی شخص نکلا۔ پھر ہم نے خاموشی سے اُس کی نگرانی شروع کی۔ صبح پہلے وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا اور پھر گھر آکر اُن دونوں بچوں کو کسی مصروف شاہ راہ یا چوک پر چھوڑ جاتا ہے اور پھر رات گئے ان کو لینے آجاتا۔ ہم نے کئی دنوں تک اس کے اِس معمول کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ اور پھر ایک ہفتہ پہلے اُسے گھیر لیا۔ پہلے پہل تو وہ نہ مانا اور دھمکیاں دینے لگا کہ وہ پاکستانی پولیس یا کورٹ وغیرہ جائے گا، مگر ثبوت دیکھ کر وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ تمہارے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ بچے ہماری تحویل میں ہیں اور ہمارے شیلٹر ہوم (shelter home) میں دوسرے بچوں کے ساتھ ہیں۔ ایڈاپشن کے کاغذات، جو میں آج آپ کو بھجوا دیتی ہوں اس پر دستخط کردیں تو آگے کارروائی شروع کردی جائے گی۔ شکریہ
نوٹ: بچوں کو جب میں نے تصویریں دکھائیں تو انہوں نے فوراً تمہیں پہچان لیا اور خوشی سے چھلانگیں لگانے لگے۔ ہر وقت تمہارا پوچھتے ہیں کہ کب ہمیں لینے آئے گا۔ بچے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔”
ای میل ختم کرتے ہی جوزف پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تو نور بے ساختہ ہنس پڑی۔
”جوزف کیا کررہے ہو؟ ساڑھے چھے فٹ سے نکلتے قد کے ساتھ یہ تم کیا بھاں بھاں کرکے رونے لگتے ہو۔ بچے نہیں تھے تو بھی رو رہے تھے۔ اب مل گئے تو بھی رو رہے ہو۔ ذرا کنٹرول کرو۔ گھر میں ڈیوڈ تم سے کیا سیکھے گا؟ میری تو چلو لڑکی ہے روتے ہوئے بری نہیں لگتی۔” نور اپنی ہنسی قابو کرتے ہوئے بولی۔
”میں میری اور ڈیوڈ سے یہی کہوں گا کہ پہلے اپنے حق کے لیے لڑو اور جب کام یابی ملے تو اُسے دل کھول کر اپنے سٹائل میں مناؤ۔” جوزف نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”اچھا بابا ٹھیک ہے! اب یہ بتاؤ کہ بچوں کے لیے وہ لوگ تمہیں پاکستان بلائیں گے یا پھر بچے ادھر ہی بھیج دیں گے۔” نور نے پوچھا۔
”بس اب مژدہ سے بات کروں گا کہ جلد از جلد بچے پہنچ جائیں۔ خواہ مجھے جانا پڑے یا کوئی اور طریقہ اپنانا پڑے۔” جوزف نے جواب دیا۔
٭…٭…٭
اور پھر وہ دن آگیا جب بچوں نے جوزف کے گھر پہنچنا تھا۔ جوزف کو بس لندن میں اس این جی او کے دفتر کچھ ضروری ڈاکومنٹس کے ساتھ ایک دو چکر لگانا پڑے۔ مگر اسے پاکستان نہیں جانا پڑا تھا۔ ہاں البتہ اس این جی اونے بچوں کو ڈھونڈنے اور اب ٹکٹ کے خرچے کی مد میں ٹھیک ٹھاک پیسے لیے جوزف سے مگر جوزف کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے اپنا بیڈ روم لڑکیوں کے لیے سیٹ کیا اور دوسرا لڑکوں کے لیے، خود اپنے لیے اس نے نیچے لاؤنج میں بیڈ ڈال لیا۔ گھر کو اس نے غباروں سے سجایا اور فریج بچوں کی کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا۔ نور نے بچوں کے لیے اپنی ڈشز یعنی کابلی پلاؤ اور چکن کا سالن بنایا۔
جب گاڑی محلے میں داخل ہوئی تو سب دم بہ خود اسے دیکھنے لگے۔ گاڑی میں سے پہلے ایک مرد نکلا اور پھر اس نے دروازہ کھول کر دو بچوں کو نکالا۔ وہ بچے تیز تیز نظریں گھما گھما اِدھر اُدھر کر دیکھ رہے تھے اور جوزف کو دیکھتے ہی وہ چیخ پڑے۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے انہیں مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس لمحے تو سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے جب وہ دونوں جوزف سے لپٹ گئے۔ کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کے بعد وہ مرد چلا گیا اور جوزف، نور اور اُن کے بچے سب گھر کے اندر چلے گئے ان کے آنے پر کافی ہلا گلا کیا گیا اور سب نے ان بچوں کو گفٹس وغیرہ بھی دیئے وہ بچے بے حد خوش لگ رہے تھے۔
٭…٭…٭
نور سکول سے ابھی ابھی گھر آئی تھی۔ بچوں کا کوئی سالانہ فنکشن قریب تھا تو اسے تھوڑا لیٹ گھر جانا پڑتا تھا۔ وہ ابھی کپڑے تبدیل کرکے کچن میں آئی ہی تھی دروازے پر کہ دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو جوزف آدھے درجن بچوں کے گھیرے میں کھڑا تھا۔
”بھئی راستہ دو۔ ان بچوں نے تو پاگل کرکے رکھ دیا ہے۔” چیختے چلاتے بچے بھی اندر داخل ہوئے اور پھر نور کو پتا چلا کہ جوزف کی حالت واقعی خراب تھی۔
”ڈیوڈ! تم میز سے ہٹ کر چھلانگیں لگاؤ، وہ گل دان ٹوٹ جائے گا۔”
”آمنہ! آمنہ کیا کررہی ہو۔ جاؤ ہاتھ پہلے دھوؤ۔ ابھی گارڈن میں مٹی میں کھیل رہی تھی۔”
”اور تم ابراہیم… نہیں، نہیں عزیزہ اُترو صوفے سے۔ یہ کوئی پارک تو نہیں۔
ان سب باتوں کے درمیان ببرک اس کے کندھوں پر چڑھا ہوا تھا اور اس کے سر پر ڈھول بجا رہا تھا۔
نور کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ جوزف نے مصنوعی غصے سے اُس کی طرف دیکھا۔ نور کو پتہ تھا کہ وہ اس ایک لمحے کو کتنا انجوائے کرتا تھا۔ وہ ان بچوں کے ساتھ ایک ایک پل کو بھرپور طریقے سے جینا چاہتا تھا۔ وہ بچے اُس کی کل کائنات تھے۔ خود اس نے کہا تھا کہ ایسے ٹائم گزر جائے گا اوریہ سب شادی، جاب، سٹڈیز کے سلسلے میں ایسے مصروف ہو جائیں گے اور پھر اس ٹائم کو اچھی یادوں کی شکل میں وہ یاد کیا کرے گا۔
”اچھا بس بس بہت ہوگیا، سب جاؤ اور اچھی طرح سے ہاتھ دھوکر آؤ۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔ آج سب یہاں کھانا کھائیں گے۔” نور نے اعلان کیا۔ تو سب بچے خوشی سے شور مچاتے ہوئے ہاتھ منہ دھونے کے لاؤنج سے چلے گئے۔
جیسے ہی بچے نکلے، لاؤنج میں ایک دم سناٹا ہوگیا اور جوزف نے سکون کا سانس لیا۔
”پھر کہہ رہا ہوں شادی کرلو مجھ سے۔ یہ شیطان مجھ سے اکیلے نہیں سنبھالے جاتے۔” جوزف نے نور کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
”شادی کی کیا ضرورت ہے، ابھی بھی تو سنبھال رہی ہوں نا۔ ایسے ہی چلتے رہنے دو۔ کچھ سالوں کی بات ہے پھر اپنی اپنی زندگیوں میں یہ لوگ مگن ہو جائیں گے۔” نور بھی آج موڈ میں تھی۔
”چلو ٹھیک ہے، مگر ان کے جانے کے بعد کیا خیال ہے؟ پھر تو ہم دونوں اپنے اپنے گھروں میں بوڑھے اکیلے اور بیمار پڑے ہوں گے۔ کیا پھر شادی کرو گی مجھ سے؟” جوزف نے مذاق مذاق میں ایک تلخ حقیقت سامنے رکھی تھی۔ نور خاموش رہی۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا تھا۔
٭…٭…٭
نور نے آج بریانی بنائی تھی۔ اس نے بریانی ایک ڈش میں نکالی اور اوپر ڈھکن رکھ دیا۔
”آج مجھے جوزف سے صاف صاف بات کرلینی چاہیے۔” نور نے گندے برتن سنک میں رکھتے ہوئے سوچا۔ وہ کئی دنوں سے جوزف سے بات کرنے کا سوچ رہی تھی مگر اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جوزف سے اس بارے میں کیسے بات کرے۔ اب اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ لہٰذا آج اس نے جوزف سے دوٹوک بات کرنے کی ٹھانی۔
آج ہفتے کا دن تھا۔ گلی میں ایک اور نوجوان جوڑا کچھ ہفتے پہلے شفٹ ہوکر آیا تھا۔ ان کے دو بچے بھی تھے۔ بہت ملن سار کی فیملی تھی۔ آج ان کے چھوٹے بچے کی سالگرہ تھی تو نور اور جوزف کے بچوں سمیت انہوں نے گلی میں رہنے والے تمام بچوں کو دعوت دی تھی۔ سو بچوں کی غیر موجودگی میں جوزف سے بات کرنے کا نور کے پاس یہ اچھا موقع تھا۔
وہ بریانی کی ڈش لے کر باہر نکلی اور گھر کا لاک لگا کر جوزف کے گھر کی طرف چل دی۔ اسے پانچ چھ گھر چھوڑ کر اسی نوجوان اور نئے آنے والے پڑوسیوں کے گھر سے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس گھر کے دروازے پر رنگ برنگے غبارے لگے ہوئے تھے اور "happy birthday” کا بڑا سا بینر بھی چسپاں تھا۔ پیچھے گارڈن میں انہوں نے بچوں کے لیے کافی گیمز انتظام کیا ہوا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی ان کی نئی پڑوسن کیرن نے فون کرکے اس سے بچوں کی خوراک کے بارے میں پوچھا تھا۔ حالاں کہ نور نے بہت بتا دیا تھا کہ اس کے بچے صرف سبزی والا پیزا، چپس اور مچھلی کھا سکتے ہیں، مگر وہ بہت احتیاط پسند تھی اور نور کو فون کرکے ایک آئس کریم کا نام لے کر پوچھا کہ اس کے بچوں کو وہ کھانے کے بعد دے سکتی ہے یا نہیں؟ نور کو معلوم تھا کہ اس آئس کریم میں کوئی حرام چیز یا الکحل کی آمیزش نہیں ہوگی اس لیے اس نے کیرن کو اجازت دے دی کہ بچوں کو کھلا سکتی ہے۔ نور اب جوزف کے گھر کے سامنے پہنچ چکی تھی۔
اس نے جوزف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جوزف دروازے پر ایک دم جن کی طرح نمودار ہوا۔ وہ شاید کہیں جارہا تھا کیوں کہ اس نے کوٹ پہنا ہوا تھا۔ ”زبردست خوشبو ہے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ ویک اینڈ پر تم ضرور کچھ نہ کچھ بنا کر بھیجتی ہو اور آج تو میں انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا۔” اس نے پلیٹ نور سے لی اور گھر کے اندر چلا گیا۔ نور کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ بات کہاں سے شروع کرے؟ کیسے شروع کرے؟ جوزف ایک بار پھر دروازے پر حاضر ہوگیا۔
”کوئی کام نہ ہو اور فارغ ہو تو ذرا واک کرنے چلیں؟ بچوں کے آنے میں ابھی گھنٹہ باقی ہے۔” جوزف نے اس سے پوچھا تو نور نے ہاں میں سر ہلایا۔ وہ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اپنی گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئے۔ سڑک کراس کرکے ایک چھوٹا سا پارک تھا جو صرف سبزے اور ایک واکنگ ٹریک پر مشتمل تھا۔
”تو پھر تم نے کیا سوچا ہے جوزف؟” نور نے اچانک پوچھا۔
”میرے خیال سے مارچ ٹھیک رہے گا۔ موسم کافی اچھا ہوتا ہے اور بچوں کی بھی سکول میں ایک ہفتے کی چھٹیاں ہوں گی۔” جوزف نے جواب دیا۔
”مارچ…؟ کس لیے…؟ میرا مطلب مارچ میں کیا کرنا ہے تم نے؟”نور نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”بھئی ہماری شادی کے لیے مارچ ٹھیک رہے گا۔ ہاں تمہاری کوئی اور پلاننگ ہو تو بتاؤ۔” جوزف ویسے ہی سیریس چہرہ بنائے اس سے پوچھ رہا تھا۔
”اوہ میرے خدایا!” نور نے سر کو دائیں بائیں جھٹکتے ہوئے کہا۔
”میں بچوں کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔ اب تم نے انہیں ایڈاپٹ کرلیا ہے مگر کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ…” نور کو پھر سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے۔
”کہ وہ مسلمان رہیں گے یا عیسائی بنیں گے۔ یہی پوچھنا چاہ رہی ہو تم؟” جوزف نے ایک دم سے اس کی مشکل آسان کردی تھی۔
”ہاں!” نور اور کچھ نہیں بولی۔
”نور ایک بات بتاؤ مجھے، تمہارے سکول میں ایک بچہ ہے ولیم۔ جس کا باپ نشئی ہے اور جو ہر دوسرے مہینے چھوٹی موٹی چوریوں کے الزام میں جیل چلا جاتا ہے۔ اس کی ماں ہے کسی بار میں کام کرتی ہے اور چوں کہ ساری رات کام کرکے گھر آتی ہے اور دن چڑھنے تک سوتی رہتی ہے تو اس بچے کا خیال کون رکھتا ہے؟” جوزف نے یک دم بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
”جوزف! بچے تو بچے ہوتے ہیں مگر ولیم کا ذکر یہاں کہاں سے آگیا؟” نور کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔ جوزف رک گیا اور نور کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:
”ولیم کو دوپہر کو لنچ سکول میں مل جاتا ہے جس طرح دوسرے بچوں کو ملتا ہے، مگر ہر روز بلاناغہ بغیر کچھ بتائے اس کے بیگ میں چھٹی کے وقت کھانے کا ڈبہ کون رکھتا ہے؟” نور کو جھٹکا لگا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کام وہ بڑی راز داری سے کررہی ہے کیوں کہ آج تک نہ تو کسی سٹاف ممبر نے پوچھ گچھ کی اور نہ ہی ولیم کے گھر سے کسی نے اس ڈبے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے یہ سب کچھ؟” نور نے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔
”بچوں نے، ولیم میری کے ساتھ پڑھتا ہے اور میری نے کئی بار تمہیں اس کے بیگ میں کچھ ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب اس نے ولیم سے پوچھا تو اس نے سب کچھ بتا دیا مگر ساتھ میں سختی سے منع کردیا تھا کہ وہ کسی اور کو نہ بتائے کیوں کہ ہوسکتا ہے یہ کھانے کا ڈبہ اس سے چھین لیا جائے اور پھر وہ دوبارہ اسی طرح بھوکا رہنے لگے گا جس طرح کچھ مہینوں پہلے تھا۔” جوزف اسے تفصیلات سنا رہا تھا۔
نور کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نور کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”جوزف وہ بچہ ہے۔ اس کا حق ہے اچھا کھانا، اچھا پہننا، ایک اچھی زندگی گزارنا۔ مجھ سے اس کی حالت نہیں دیکھی جاتی۔ وہ ڈرا سہما سا بچہ منہ سے ایک لفظ نہیں بولتا مگر مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔”
تو مت کھاؤ اس پر ترس۔ وہ تو عیسائی ہے کوئی مسلمان تھوڑی ہے۔ تم اتنا اس کا خیال رکھتی ہو۔” جوزف نے اب کی بار سخت لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
نور پہلے تو سمجھی نہیں۔ وہ یک ٹک جوزف کو دیکھے گئی مگر چند لمحوں بعد جیسے اسے ہوش آنے لگا۔ مگر وہ بھی اتنی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں تھی۔ ”نہیں جوزف! تم بات کو کوئی اور رنگ دے رہے ہو۔ وہ انسانیت ہے جس کے ناطے ہم سب انسان ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ انسانیت کو مذہب کے ساتھ مکس نہ کرو۔” اس نے جوزف کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”فرض کرو ولیم تمہارے ساتھ رہنے لگے تو تم کیا کرو گی؟” وہ ایک دم اس کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔
”میں اسے ایک اچھی زندگی دینے کی کوشش کروں گی۔” نور اس اچانک سوال پر ایک دم گھبرا گئی۔
”اچھی زندگی سے تمہارا مطلب کیا ہے؟”
”وہی جو ایک عام انسان کی زندگی ہوتی ہے یعنی اچھا پہننا، اچھی خوراک، اچھی تعلیم، اچھائی اور برائی کا فرق وغیرہ۔”
”اور مذہب اچھی زندگی میں کہاں پر ہے۔” جوزف نے اس کے چہرے پر نگاہیں ٹکائے سوال کیا۔
”میں اس پر پابندی نہیں لگاؤں گی، اس کو اپنے مذہب کی پوری آزادی ہوگی۔ ہاں میرے ساتھ رہتے ہوئے وہ اسلام میں دل چسپی لینے لگے تو میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس کا ساتھ دوں گی۔” نور نے ایک اعتماد کے ساتھ جوزف کو جواب دیا۔
”کمال ہے ہمارے خیالات کتنے ملتے جلتے ہیں۔” جوزف مسکرا دیا۔ اس نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے ایک لفافہ نکالا اور نور کی طرف بڑھا دیا۔
”کیا ہے یہ؟” نور نے اس سے سوال کیا۔
”خود ہی دیکھ لو۔” جوزف نے کندھے اچکا کرکہا۔
سرسری سی نظر ان صفحات پر دوڑاتے ہوئے نور کو ایک اور خوش گوار حیرت کا جھٹکا لگا۔ یہ انگلینڈ کے بڑے بڑے شہروں میں موجود ”اسلامک سکولز” کے وہ خطوط تھے جنہیں جوزف نے ای میل یا ڈاک کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے جوابی خطوط میں اپنے سکول میں بچوں کے داخلے کے فارم اور انٹری ٹیسٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔
”جوزف یہ…!!!” اس نے حیرت سے جوزف کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں تم نے کچھ دنوں پہلے جب بات کی تھی تو اس وقت میں نے سوچا کہ ایڈایشن تک تو مجھے یہ مذہب وغیرہ کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ بس میں بچوں کو ایک اچھی زندگی کا حق دینا چاہتا تھا جو اس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا ہے، چاہے وہ انگلینڈ میں ہو، افریقہ میں ہو، افغانستان یا پاکستان میں ہو، مگر تمہارے پوچھنے پر مجھے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ان بچوں کا مذہب میں ان سے چھیننے کا حق نہیں رکھتا۔” جوزف اب قدرے پرسکون انداز میں اسے بتانے لگا۔
”مگر یہ تو بہت دور ہیں؟ برمنگھم، مانچسٹر، لیڈز اور یہ ڈیوزر وغیرہ تو یہاں سے کافی دور ہیں؟” نور نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”ارے بھئی میں نے بھی صرف وہاں اپلائی کیا ہے جہاں پر ہاسٹل کی سہولت موجود ہو، تاکہ دونوں بچے آرام سے اپنے مذہب اور اس دنیا سے روشناس ہوسکیں۔ چھٹیوں میں آجایا کریں گے میرے پاس۔” جوزف کے لہجے سے اطمینان صاف جھلک رہا تھا۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے بینچ پر بیٹھے رہے۔ کبھی کبھی بالکل خاموشی بھی کتنا سکون دیتی ہے۔ ایک دوسرے کے قریب بیٹھنا بھی آپ کو ایک مکمل زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ سچ کہتے ہیں اگر دنیا کی لالچ، طمع اور حرص سے انسان منہ موڑ لے تو چھوٹے سے پارک کے ایک بینچ پر بیٹھے بیٹھے جو سکون راحت نصیب ہوتی ہے وہ بہت کم لوگوں نے محسوس کی ہوتی ہے۔
”چلو اٹھو! چلتے ہیں۔ بچوں کو لینے کا وقت ہو گیا ہے۔” جوزف نے ایک جھٹکے سے اس روحانی سحر کو توڑا جس میں نور پوری طرح ڈوبی ہوئی تھی۔
ہاں! ہاں چلتے ہیں۔” اس نے آہستگی سے کہا اور جوزف کے ساتھ گیٹ کی طرف چل دی۔
”کتنی بے غرض محبت کرتے ہو تم، چاہے ایک فوجی کے روپ میں اپنے وطن سے ہو۔ یا باپ کے روپ میں اپنے بچوں سے یا پھر وہ جو میں سمجھنا نہیں چاہ رہی، جو تمہاری آنکھوں میں مجھے صرف میرے لیے نظر آتی ہے۔” ایک دم اس کا دل بھر آیا اور وہ ہتھیلیوں سے جلدی جلدی آنکھیں پونچھتی ہوئی جوزف کے پیچھے دوڑی، جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اس سے کافی آگے نکل گیا تھا۔
ان کی زندگی بہت خوب صورت ہوگئی تھی۔ جوزف نے ایک نینی رکھ لی تھی جو صبح آتی اور شام کو جوزف کے آفس سے آنے کے بعد گھر چلی جاتی۔ وہ پکی عمر کی عورت تھی جو گھر کی صفائی کرتی کپڑے دھوتی، استری کرتی اور سکول سے بچوں کو لاتی اور جوزف کے آنے تک ان کا خیال رکھتی۔
عزیزہ اور ببرک بھی نور کے سکول میں داخل کروا دیئے گئے تھے۔ زندگی ایک نپے تلے ڈگر پر چلنے لگی تھی مگر پھر وہ ہوا جس کے خیال سے ہی نور کی راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی تھیں۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ نور نے بچوں کو جوزف کی طرف بھجوا دیا تھا کیوں کہ اسے گرمیوں کے کپڑے رکھنے تھے اور سردیوں کے نکالنے تھے۔ بچے ہوں تو آدھے گھنٹے کا کام میں بھی آدھا دن لگ جاتا ہے۔ ہاں بچے کوئی سنبھال لے تو سارا کام جیسے جادو کی چھڑی سے ہو جاتا ہے۔وہ جلدی جلدی چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھ رہی تھی کہ دفعتاً کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ حیران ہوئی کے اتوار کے دن اس کے یہاں کون آسکتا ہے۔ جوزف بچوں کو باہر لے گیا تھا اور ان کے آنے میں ابھی ٹائم تھا۔ وہ نیچے اتری اور دروازے کے پاس کھڑی ہوکر پوچھا۔
"who’s there?” (کون ہے؟)

”میں ہارون! نوری دروازہ کھولو۔” باہر سے ایک کرخت بھاری بھرکم آواز آئی۔
اور نور کو لگا جیسے دروازے پر ہارون نہیں بلکہ وقت سے پہلے ہی قیامت آگئی ہے۔
”نور! نور! دروازہ کھولو۔ دیکھو میں نے بہت مشکلوں سے تمہیں ڈھونڈ ہے۔ خدا کے لیے مجھے اور عذاب میں مت ڈالو۔” باہر کھڑا ہوا شخص ملتجی لہجے میں کہہ رہا تھا۔
نور نے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ وہ تقریباً تین سال بعد اُسے دیکھ رہی تھی۔ ہارون والہانہ انداز میں آگے بڑھا اور نور کے گلے لگ گیا، نور بدک کر پیچھے ہٹی۔
”اندر آئیں آپ۔” نور جلدی سے بولی، گھبراہٹ اس کے لہجے سے صاف عیاں تھی۔
دونوں اب لاؤنج میں آمنے سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان کی ٹیبل پر پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ، ایک چاکلیٹ کا ڈبہ اور ساتھ میں کچھ اور گفٹ بیگز پڑے ہوئے تھے۔ ہارون اپنی جگہ سے اٹھا اور نور کے قدموں میں جا کر بیٹھ گیا۔ نور نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں جلدی سے دوپٹے سے صاف کیں۔
”تمہیں یاد ہے جب تم آٹھویں میں تھی اور میں سیکنڈ ایئر میں تھا، ایک دن چچی جان ہمارے گھر آئیں اور برآمدے میں امی سے بات کرنے لگیں۔ میں قریب ہی بیٹھا امتحانات کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ چچی اپنے کسی دور پرے کے رشتہ دار کا بتا رہی تھیں جن کا بیٹا نیا نیا کاکول گیا تھا۔ انہوں نے تمہارا ہاتھ مانگا تھا۔ چچی جان امی سے مشورہ کرنا چاہتی تھیں کہ کیا کریں۔ اچھے رشتے بھی تو بار بار نہیں آتے وہ لوگ خود بھی چاہ رہے تھے کہ منگنی کردیتے ہیں اور تین چار سال بعد جب لڑکا کمیشن لے لے گا تو پھر شادی کردی جائے گی۔ اس وقت تک نور بھی ایف اے کرلے گی۔ اور پتا ہے نور مجھے لگا جیسے میرے بدن سے سارا خون نچڑ گیا۔” ہارون ماضی میں کہیں کھوئے ہوئے بولتا چلا جارہا تھا۔
”آپ ایسا نہیں کرسکتیں چچی جان، نور پر پہلا حق میرا ہے۔ میں اس کے تایا کا بیٹا ہوں۔ پشتونوں میں لڑکیاں اس وقت باہر دی جاتی ہیں جب گھر میں لڑکے نہ ہوں اور میرے ہوتے ہوئے آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہیں؟ میں لال بھبھو کا ہورہا تھا۔ چچی کچھ نہ بولیں اور اُٹھ کر اپنے پورشن کی طرف چل دیں۔ مجھے ایک دم خیال آیا کہ یہ میں نے کیا کردیا۔ کتنی بے شرمی سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ اماں کی طرف ڈر ڈر کر دیکھا تو وہ مسکرائے جارہی تھیں۔ وہ اٹھ کر آئیں اور میرا ماتھا چوم کر بولیں:
پشتون مرد ایسے غیرت مند ہی اچھے لگتے ہیں۔ وہ بولیں اور مجھے دعائیں دیتی ہوئی اندر چلی گئیں۔ سارے گھر میں خبر پھیل گئی تھی۔ مجھے یاد ہے تم مجھ سے چھپنے لگی تھیں۔ ہمارے پورشن میں بھی نہیں آتی تھیں اور جب میں آتا تو تم اپنے کمرے سے نہ نکلتی تھیں مگر کب تک؟ ایک ہی گھر میں رہتے تھے ہم۔ صبح ایک ہی گاڑی میں ڈرائیور گھر کے بچوں کو سکول اور کالج لے کر آتا جاتا تھا۔ مجھے بہت اچھا لگتا تھا جب تم سیڑھیوں پر بیٹھی اپنا ہوم ورک کرتیں اور میں تمہاری چٹیا زور سے کھینچتا۔ تم غصے سے مڑ کر دیکھتیں مگر مجھے دیکھتے ہی دوپٹہ سر پر سنبھالنے لگتیں۔ ہم دونوں بہت اُلٹ تھے۔ تم خاموش سی، اپنے کام سے کام رکھنے والی اور میں سارے خاندان میں منہ پھٹ مشہور تھا۔ سیکنڈ ایئر کے بعد میں بزنس ایڈمنسٹریشن کرنے امریکہ چلا گیا۔ وہاں چھ سال گزارنے کے بعد آیا تو تم بھی بی اے کرچکی تھیں۔ اس واقعے کے بعد غیررسمی طور پر تم میرے نام ہوگئی تھیں۔ اگر کوئی رشتہ آتا بھی تو چچا چچی انکار کردیتے تھے۔ پاکستان واپس آکر میں نے اپنا بزنس شروع کرنے کی سوچی۔ تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ تم یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہو۔ اتنا پڑھ لکھ کر، باہر وقت گزار کر آنے کے بعد بھی میرے اندر کا پشتون مرد یہ گوارا نہ کرسکا کہ تم یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھو، ان دنوں تمہاری حالت مجھ سے چھپی نہ تھیں۔ تم بلاوجہ بات بات پر رونا شروع کردیتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ تمہیں یونیورسٹی میں داخلہ نہ لینے کا قلق ہے مگر مجھے اپنی انا پیاری تھی۔ میں سوچتا تھا کہ جب میں دنیا جہاں کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا تو تم یہ سب کچھ بھلا دو گی اور پھر میں نے شادی کے لیے اماں ابا کو راضی کیا۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ چچا نے تھوڑی پس و پیش کی کہ میری کوئی نوکری وغیرہ ابھی نہیں لگی مگر میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں بزنس ہی کرنا چاہتا ہوں، لگی بندھی تنخواہ والی نوکری نہیں۔” ہارون کسی فلم کو دہرانے والے انداز میں کہے جارہا تھا۔
”اور پھر تم میری زندگی میں آئی۔” ہارون نے اپنے دونوں ہاتھ نور کے ہاتھوں پر رکھ دیئے جو اس کے گود میں پڑے ہوئے تھے۔
”نور میں بیان نہیں کرسکتا وہ شب و روز، مجھے لگا میں دنیا کا امیر ترین، خوش قسمت ترین شخص ہوں۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت کے دیئے جلتے دیکھے۔ میں گھر میں داخل ہوتا تو تمہارے ہونٹوں پر پھیلنے والی مسکراہٹ پر میں اپنی جان فدا کرنے کو تیار تھا۔”
”آپ دور سے آئے ہیں، کچھ کھانے کو لاؤں یا پھر آپ آرام کرنا چاہتے ہیں؟” نور شاید بات بدلنا چاہ رہی تھی۔ مگر ہارون نے ان سنی کردی۔
”پھر میں اپنے بزنس پر توجہ دینے لگا، صرف تمہارے لیے! میں اتنا مصروف ہوا کہ راتوں کو دیر سے آنے لگا مگر تم میرا انتظار کرتیں۔ ان دنوں تمہیں آرام کی ضرورت تھی کیوں کہ ابراہیم آنے والا تھا ہماری زندگی میں، میں دبئی میں تھا جب ابا نے فخر سے مجھے فون پر بتایا کہ وہ دادا بن گئے ہیں اور وہ بھی پوتے کے، میں تقریباً ایک ہفتہ بعد آیا تھا۔ ابراہیم کو گود میں لے کر میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ نور کے ساتھ ساتھ اب مجھے اپنے بچے کے لیے بھی دنیا کی ساری نعمتیں ان کے قدموں میں ڈھیر کرنی ہیں۔” اس کی آواز فرطِ جذبات سے بھرا گئی تھی۔
نوری میں بھول گیا تھا کہ تمہیں پیسے کی ضرورت نہیں، میری ضرورت ہے۔ یاد ہے ایک دفعہ تم نے مجھ سے گلہ بھی کیا تھا۔ تم بیڈ پر بیٹھی میرے فارغ ہونے کا انتظار کررہی تھیں جب کہ میں پیرس میں ہونے والی قیمتی پتھروں کی نمائش کے لیے اپنی فرم کا نام بھجوانا چاہتا تھا اور مسلسل ای میلز کے ذریعے ان سے رابطے میں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ میری فرم کا نام کنفرم ہو جائے تو پھر میں سب سے اچھے اور نایاب پتھر منتخب کرکے پیرس لے جاؤں ۔ میرے قیمتی پتھروں کا کاروبار اب بین الاقوامی سطح پر پہنچنے والا تھا۔ اور تم نے پہلی دفعہ سخت احتجاج کیا تھا۔ ہماری شادی کے اڑھائی سال بعد جب آمنہ بھی ہماری زندگی میں آگئی تھی۔ وہ کچھ ہی مہینوں کی تھی اور تم روتے ہوئے مجھ سیشکایت کررہی تھی۔ تم اور بیویوں کی طرح مجھے بچوں کی باتیں بتانا چاہتی تھیں، فیملی میں کس کی منگنی کس سے طے ہوئی، کس ساس بہو نے پھر جھگڑا کیا، ابراہیم نے کون کون سے الفاظ سیکھ لیے تھے اور میں دل ہی دل میں تمہاری بے وقوفانہ باتوں پر ہنس رہا تھا۔ ہارون مکمل طور پر ماضی میں کھویا ہوا تھا اور نور نم آنکھوں سے اس کی باتیں سُن رہی تھی۔
”شکر کرو تم کہ جو چاہو خرید سکتی ہو اپنے لیے، بچوں کے لیے، سب سے بہترین چیز۔ تمہیں ان بیویوں کی طرح دو دفعہ سوچنا نہیں پڑتا کہ یہ چیز لے لوں یا نہیں۔ میں نے تمہیں سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ اور تم مجھے خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگی تھیں۔ مجھے بہت عرصہ بعد احساس ہوا کہ تم پر اس وقت کیا گزری ہوگی جب میں نے یہ بات کی تھی تم سے۔ ہاں میں مانتا ہوں کہ اونچی سوسائٹی میں جگہ بنانے کے لیے میں نے ان کے طور طریقے اپنانا شروع کردیئے تھے۔ اپنے پتھروں کی نمائش کے لیے کبھی مجھے فیشن شوز اٹینڈ کرنے پڑتے، کبھی میرے فرم سے وابستہ جیولرز جو مجھ سے پتھر خریدتے ان کے پروگرام اٹینڈ کرنے پڑتے ہے۔ جن میں شراب وغیرہ سب چلتا ہے مگر بہ خدا! میں ان چیزوں سے حتی الامکان اپنے آپ کو بچاتا تھا۔
مگر یہ دنیاوی نعمتیں ایک دلدل کی مانند انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ مجھے اب مزہ آتا تھا۔ ہاں تمہارے بارے میں اب بھی ویسا ہی تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور میں تمہیں دیکھے یا ان پارٹیوں میں تمہیں لے کر جاؤں۔ میں اس مصنوعی چکا و چوند اور گلیمر کی دنیا سے جب اپنے گھر تمہارے پاس اور بچوں کے پاس آتا تھا تو ایک روحانی سکون کا احساس ہوتا تھا۔ میں بہت خود غرض تھا نوری، بہت خودغرض۔ صرف اپنی خوشی چاہتا رہا اور ہمارے راستے بہ تدریج ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ میں اپنی غلطی مانتا ہوں مگر ایسا بھی کیا کردیا تھا میں نے کہ تم گھر ہی چھوڑ کر چلی گئیں۔ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے اتنا بڑا قدم اٹھاؤ گی کہ اپنا شہر تو کیا، ملک ہی چھوڑ کر چلی جاؤ گی۔” نور نے ہارون کی طرف دیکھا اور ماضی کے دریچے کھول کر رکھنے لگی۔
٭…٭…٭
میں اُن دنوں بہت چڑ چڑی ہوگئی تھی۔ بچے سکول جانے لگے تھے اور ساس سسر کبھی گاؤں ہوتے اور کبھی میرے ساتھ۔ گھر میں سب کچھ تھا، چوکی دار، ڈرائیور، خانساماں، مالی، کام والی ماسی، ملک کے بہترین فرنیچر کمپنی کا فرنیچر سب کچھ، مگر میرے اندر خالی پن تھا۔ میں ہر وقت تمہاری کی تصویریں انٹرنیٹ پر دیکھتی جن میں تم بڑے اور مشہور و معروف لوگوں کے ساتھ نظر آتے۔ کبھی کبھی تو خواتین کے کندھوں پر ہاتھ رکھے تصویر کے لیے پوز دیتے تو مجھے اپنا آپ بڑا حقیر نظر آتا۔ وہ شخص جو بچپن سے مجھے چاہتا تھا، آج وہ گھر آتا ہے تو صرف کپڑے بدلنے اور ایک موٹا چیک کاٹ کر دینے کے لیے۔ وہ اب بھی بڑے والہانہ انداز میں مجھے اپنے قریب کرتا مگر مجھے یہ سب کچھ دکھاوا لگتا۔ اور پھر مشکل سے دو تین دن گزار کر پھر اپنی موج مستیوں میں مصروف ہو جاتا۔ بچے سکول، ٹیوشن اور قاری صاحب سے پڑھنے کی سخت روٹین میں تھے۔ ایسے میں، میں بولائی بولائی پھرتی تھی۔ ہاں تم سے چھپ کر ٹیچنگ کے میں نے کافی آن لائن کورس کرلیے تھے۔ کچھ بدخواہوں نے بھی میرے کان بھرنے شروع کردیئے۔ اور ایک دفعہ تو حد ہوگئی جب ایک جاننے والی نے فون کرکے استہزائیہ انداز میں بتایا کہ ہارون سپین جارہا ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، جہاں پول پارٹی دی جارہی ہے۔ میں نہیں سمجھی مگر جب اس نے بتایا کہ پول پارٹی کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا کیا ہوتا ہے تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ پھر اس نے تلخ لہجے میں مجھے کہا کہ اس کا شوہر بھی جارہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کے لیے میں اپنی جان مارتا ہوں تو مجھے بھی کچھ انجوائے منٹ کا حق ہے۔ اور اس دفعہ وہ ہارون کو بھی لے کر جارہا ہے۔ بس اب تم بھی میری طرح اپنے آپ کو ان چیزوں کا عادی کرلو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو شاہانہ زندگی ہم دونوں گزار رہے ہیں، وہ اب اپنے شوہروں کی ان کرتوتوں کی وجہ سے چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ جو عیش و آرام انہوں نے ہمیں دیا ہوا ہے اس کے عوض وہ جو چاہے کریں، ہمیں پوچھنے کا کوئی حق نہیں۔
میں فون ہاتھ میں لیے سن ہوگئی تھی۔ ہارون مجھے اپنے آپ سے گھن آنے لگی کہ جب جب تم میرے قریب آئے تو کیا اس کے درمیان کوئی اور بھی تھا یا نہیں۔ اور پھر میں نے فیصلہ کرلیا۔ کہ مجھے عیش و آرام نہیں چاہیے تھا۔ مجھے اپنی عزتِ نفس پیاری تھی۔ میں اپنے بچوں کو اس قسم کی غلیظ باتیں اپنے باپ کے بارے میں سننے کا موقع کسی کو نہیں دینا چاہتی تھی۔” نور بھرائی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی جب کہ ہارون ساکت بیٹھا اس کی باتیں سُن رہا تھا۔
”ہاں ہارون! اس فون نے میری زندگی بدل دی۔ میں جو گھر کی چار دیواری میں تمہاری جس ناموس کی حفاظت کیے بیٹھی تھی تم اس کی دھجیاں اڑاتے پھر رہے تھے۔ اور پھر میں نے فیصلہ کیا اور میرا خدا میرے ساتھ تھا۔ تم نہیں جانتے کتنی راز داری سے میں نے برٹش کونسل تک رسائی حاصل کی۔ ڈرائیور کو بازار کی پارکنگ میں کھڑا کرکے میں دوسری طرف ٹیکسی لے کر برٹش کونسل جاتی اور پھر واپسی میں دو تین چیزیں ویسے ہی خرید کر گھر آجاتی۔ جب گھر کے لوگ بھی مجھے صبر کی تلقین کرتے اور گزارہ کرنے کو کہتے تو میرا چیخ چیخ کر کہنے کو دل کرتا کہ میں اگر اس طرح کروں تو کوئی ہارون کو گزارہ کرنے کے لیے کہتا؟ کوئی اسے صبر کی تلقین کرتا؟ نہیں! نا تو پھر ٹھیک ہے میں بھی ہارون سمیت سب کو بتا دوں گی کہ عورت جب کچھ کرنے پر آجائے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔” نور اب رو نہیں رہی تھی۔ اس کی آواز میں غصہ تھا۔ وہ رکی اور ہارون کی طرف دیکھا جو مضبوطی سے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑے سر جھکائے بیٹھا رو رہا تھا۔
”نور میں بہک گیا تھا، شیطانی سرور مجھ پر چھایا ہوا تھا۔ مجھے تمہاری قسم کہ یہ سب صرف تصویروں کی حد تک تھا، صرف پارٹی کی حد تک۔ بہ خدا میں نے کبھی خیانت نہیں کی کہ میں صرف تمہارا تھا۔ مگر اس دفعہ میں کھائی میں گرنے والا تھا۔ میں بڑے سرور میں سپین گیا تھا۔ شام کو پارٹی شروع ہوئی تو میں بھی شامل ہوگیا۔ تھرکتے بدن، میوزک، شراب، بس لگتا تھا کہ یہ ہی تو زندگی ہے۔ میں اب تک اس کو کیوں نظر انداز کرتا رہا تھا۔ میں دانستہ تمہیں یا بچوں کو سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ میں پول میں اترا تو دو تین قیامت ڈھاتی حسینائیں میری طرف بڑھیں۔ میں والہانہ انداز میں ہاتھ پھیلا کر انہیں خوش آمدید کہنے ہی والا تھا کہ اچانک کچھ ہی فاصلے پر پانی میں مجھے تم نظر آئیں، کسی غیرمرد کی بانہوں میں وہ پانی کے چھینٹے اڑا رہا تھا اور تم ہنس ہنس کر دوہری ہورہی تھیں۔ میں غیض و غضب کے عالم میں ان حسیناؤں کو جھٹک کر تمہاری طرف لپکا اور پوری قوت سے تمہیں ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف گھمایا اور تمہارے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا۔ سارے پول میں خاموشی چھا گئی جیسے وہاں کوئی موت ہوگئی ہو۔ میں اپنے حواسوں میں آیا تو دیکھا وہ کوئی اور لڑکی تھی جس کے بال تمہاری طرح لمبے تھے۔ اسی وقت سکیورٹی آئی اور مجھے پارٹی سے باہر لے گئی۔ میں دو دن جیل میں رہا۔ اس عورت نے پورا پورا معاوضہ لینے کے بعد مجھے معاف کیا۔ جیل میں رہتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ کل میرا بیٹا میرے نقشِ قدم پر چلے گا۔ میری بیٹی بھی یہی کچھ کرے گی جو نام نہاد بے باک اور اسٹرونگ لڑکیاں کررہی ہیں۔ نوری اس واقعے نے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔ جیسے ہی میں جیل سے چھوٹا، میں نے فلائٹ لی اور پاکستان آگیا اور یہاں ایک بری خبر میری منتظر تھی۔ تم گھر چھوڑ کر جاچکی تھیں اور کچھ بھی نہیں لیا تھا ساتھ میں تم نے سوائے بچوں اور کپڑوں کے، وہاںتمہارا خط پڑا تھا کہ مجھے ڈھونڈھنے کی کوشش کوئی نہ کرے۔ ایک شوپیس کی طرح زندگی گزارنے سے اچھا ہے کہ میں اپنے بچوں کو مضبوط اور خودمختار ماں کے روپ میں نظر آؤں۔ میں بلک بلک کر رویا تھا۔ نوری اُس دن زندگی میں پہلی بار میں رویا تھا میں۔ اس دن سے لے کر آج تک دیوانوں کی طرح تمہیں ڈھونڈھتا رہا۔” وہ اب بھی بلک بلک کر رو رہا تھا۔
”مگر آپ کو یہاں کا پتا کس نے دیا؟” نور کو ایک دم سے یاد آیا۔
”کچھ ہفتے پہلے ایک فون کال آئی تھی میری سیکرٹری کے پاس، وہ میرے آفس آئی اور یہاں کا ایڈریس دیا کہ کسی شخص نے میسج دیا ہے کہ آپ اپنا سب سے قیمتی پتھر اس پتے پر پائیں گے۔ یہاں پر آپ کو دو نایاب چھوٹے پتھر بھی ملیں گے جن کا زندگی میں کوئی نعم البدل نہیں۔ میں ایک دم ہی سمجھ گیا اور ضروری کارروائی کرنے کے بعد یہاں آگیا۔ میں دو دن سے یہاں تھا ہوٹل میں لیکن تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی مجھ میں۔ مگر آج میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ میں آج اس پتے پر ضرور تم سے ملنے آؤں گا۔”
”بچے کہاں ہیں نور۔” ہارون نے پہلی دفعہ بچوں کا پوچھا۔
”ہاں؟” نور جیسے کہیں اور ہی تھی۔ اس نے ہارون کی بات نہیں سنی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جوزف نے ایسا کیوں کیا اس کے ساتھ؟ کیوں ہارون کو اس کا پتا بتایا۔
”بچے! ہمارے بچے نور۔” ہارون نے بھیگی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
”ہاں وہ پڑوس میں گئے ہیں، ابھی آتے ہوں گے۔ بلکہ آپ بیٹھیں میں ان کو بلاتی ہوں۔ وہ جلدی سے جوزف کے گھر کی طرف بھاگی۔ اس کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ لوگ شاید ابھی ہی آئے تھے۔
”جوزف!” نور سے اور کچھ نہ بولا گیا۔
”ہاں وہ آگیا ہے شاید، تمہارے گھر کے باہر گاڑی کھڑی ہوئی میں نے دیکھی ابھی۔” جوزف سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
”تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا جوزف؟ میں نے تو ابھی جینا سیکھا تھا۔” نور شکست خور وہ لہجے میں پوچھ رہی تھی۔
”تم جی نہیں رہی تھیں۔ تم اس کے بغیر پل پل مر رہی تھیں۔” جوزف کی آواز کہیں اندر سے آرہی تھی۔
”جوزف کیا تمہیں واقعی مجھ سے محبت ہوگئی ہے؟” نور اس پر نگاہیں ٹکائے پوچھ رہی تھی۔
”اسی شام جب تم دو سوٹ کیس رکھے گھر کا دروازہ کھول رہی تھیں۔” جوزف اب سنجیدہ نظر آرہی تھی۔
”جب کہ تمہیں پتا تھا کہ میں کسی اور…”
”مجھے خود پر اختیار نہیں رہا تھا۔”
”اور کیا تمہیں معلوم تھا کہ میں اُس کے پاس لوٹ جاؤں گی؟” نور کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح اس سے پوچھ رہی تھی۔
”تمہارے دیس کی لڑکیاں ہمیشہ لوٹ ہی جاتی ہیں۔” اس کے لہجے سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ صدیوں کا تھکا ہوا ہو۔
”مت کرو ایسا ورنہ ساری عمر اذیت میں رہو گے۔” نور اب خود ہار جانا چاہتی تھی۔
”ارے نہیں! اب تو ان حسین یادوں کے سہارے زندگی گزارنا آسان ہو جائے گا۔” اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔
”مگر میں…”
”جاؤ تم۔ میں الوداع نہیں کہوں گا۔ بچوں کو لے جاؤ۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ سب روتے ہوئے ایک دوسرے سے الگ ہوں۔” اب جوزف کی آنکھوں میں بھی ننھے قطرے چمکنے لگے تھے۔
”میں تم سے کوئی ناطہ نہیں رکھوں گی۔ ہاں البتہ نئے سال پر کارڈ بھجواؤں گی تاکہ تمہیں میری خیریت معلوم ہوتی رہے۔” نور کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی تھی۔
اور پھر وہ چلی گئی اس گھر سے، اس شہر سے، اس ملک سے، اس کی زندگی سے… سب سے دور
جنوری کی پانچ تاریخ کو جوزف کو ڈاک کے ذریعے کارڈ ملا تھا۔ سادہ سا کارڈ جس پر سفید پھولوں سے ”ہیپی نیو ایئر” لکھا ہوا تھا۔ اور اندر چار نام درج تھے۔
ازطرف
نور
ابراہیم
آمنہ
یوسف
اور جوزف کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ نور نے اُسے اپنی زندگی میں پھر سے شامل کرلیا تھا۔

ختم شد
 
ہائےےےے
کہا کہانی ہے یار
اس قدر جذباتی
اس قدر اپنائیت
 
واہ
تعریف کےلئے الفاظ نہیں ہیں میرے پاس
کمال لکھتے ہیں
جیتے رہو
شاد و آباد رہو
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat