Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Love Story کاش تم واپس آسکتے

Joined
Nov 24, 2024
Messages
492
Reaction score
34,538
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
میں نے تو کبھی تم سے ملنے کی خواہش بھی نہیں کی۔ میرے لیے تو یہی کافی تھا کہ تم اپنی زندگی میں خوش ہو۔ مجھے بس یہ آس تھی کہ کبھی کبھار ہی سہی، تمہاری صورت دکھائی دے جائے گی۔تمہاری بے وفائی کے باوجود، اٹھارہ سال گزرنے کے بعد بھی، تمہاری محبت میرے دل سے کم نہیں ہوئی۔ اور نہ جانے کیوں، مجھے یہ یقین ہے کہ تم بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتے تھے۔کیوں تمہاری آنکھیں مجھے دیکھتے ہی روشن ہو جایا کرتی تھیں؟ تمہاری ایک نظر سے میں تمہارے دل کا حال جان لیتی تھی، اور جب ہم جدا ہوتے، تو تمہارے دل کی اداسی مجھے دنوں تک بے قرار رکھتی تھی۔تم تو کہتے تھے کہ میرے بغیر مر جاؤ گے… پھر؟ کیوں تم نے راستہ بدلا؟ میری انا نے اجازت ہی نہیں دی کہ تم سے سوال کروں، ورنہ میں بھی تمہارا گریبان پکڑ سکتی تھی۔تم مجھ سے سامنا کرنے سے ڈرنے لگے، مگر لوگوں سے میرا حال ضرور پوچھتے رہے۔کبھی مجھ سے تو پوچھا ہوتا کہ تمہاری بے وفائی کے بعد میں کیسے زندہ ہوں۔تم تو کہا کرتے تھے کہ تمہاری سانسیں میرے دم سے چلتی ہیں… تو اب تم کیسے جی رہے ہو؟دنیا کو دکھانے کے لیے میں نے اپنے کرچی کرچی دل کو ہزار پردوں میں چھپا لیا۔ایک ہنستی مسکراتی، خوش باش لڑکی کا کردار نبھایا — ایک اچھی بیٹی، اچھی بہن، پھر ایک اچھی بہو، بیوی اور ماں بھی بن گئی۔مگر میرا دل آج بھی تمہاری محبت کے چراغ سے روشن ہے، اور اس کی لو آج تک مدھم نہیں ہوئی۔سارا دن تھک ہار کر جب میں بستر پر لیٹتی ہوں، تو تمہاری یادیں میرے آس پاس چراغاں کرتی ہیں۔اور میں اُن یادوں میں کھو جاتی ہوں… جیسے کہ آج۔
☆☆☆

السلام علیکم!رویحہ اپنی امی کے ساتھ بہن کے گھر آئی تو سب کو مشترکہ سلام کیا۔ چھٹی کا دن تھا، سب گھر پر ہی موجود تھے۔تائی امی رو پڑیں، بچہ آ گیا تھا! بھانجا بھانجیاں خوشی سے چلا اٹھے اور دوڑ کر نانی اور خالہ سے لپٹ گئے۔ سب بڑے کمرے میں جمع تھے۔ خوشی کی فضا تھی کیونکہ نانیاں، خالائیں شبنم باجی کے گھر بہت کم آتی تھیں — گھر کافی دور جو تھا۔کچھ دیر بعد شاہ میر بھی خالہ (رویحہ کی امی) سے سلام دعا کرکے بیٹھ گیا۔ وہ کن اکھیوں سے مسلسل رویحہ کو دیکھے جا رہا تھا۔بظاہر بھانجا، بھانجیوں سے باتوں میں مصروف رویحہ کا دھیان بھی درحقیقت شاہ میر کی طرف ہی تھا۔دونوں محبت کی ڈور میں بندھے ہوئے تھے اور جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھنے والے تھے۔شاہ میر کی محبت بھری نظروں سے رویحہ کی نظریں شرم سے جھکنے لگیں۔ اس کے چہرے پر ایک شریک مسکراہٹ تھی۔چلو رویحہ! کچن میں چلتے ہیں۔رویحہ کی ہم عمر بھانجی منزہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔رویحہ، چائے بنا دو، تمہارے ہاتھ کی چائے سب کو پسند ہے۔رویحہ چائے کا پانی چولہے پر رکھ کر وہیں کھڑے کھڑے منزہ سے باتیں کرنے لگی۔رویحہ کے ماموں کے بچوں کی شادی تھی، اور وہ اپنے اور اپنی بہن کے کپڑے کڑھائی کے لیے لائی تھی کیونکہ اس کی بھانجیاں — منزہ، نزہت، اور شاکرہ — کڑھائی کا کام کرتی تھیں۔وہ سب آپس میں کپڑوں کے ڈیزائن اور شادی کی تیاریوں پر بات کر رہی تھیں کہ اتنے میں شبنم نے منزہ کو آواز دے کر پانی لانے کو کہا۔منزہ ابھی پانی لانے ہی والی تھی کہ شاہ میر کچن میں آ گیا۔رویحہ، شاہ میر کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ جلدی سے اسے پانی دیا، لیکن اسی دوران دودھ اُبل گیا تو وہ اسے دیکھنے مڑ گئی۔دودھ کی طرف دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ چولہے سے ٹکرا گیا اور ایک دم “سی” کی آواز کے ساتھ وہ کراہ اٹھی۔تم مجھے دیکھ کر اتنا گھبرا جاتی ہو، جیسے میں تمہیں کھا جاؤں گا!شاہ میر مسکراتے ہوئے بولا۔ آپ جائیں نا یہاں سے، سب کیا سوچیں گے۔رویحہ نے نرمی مگر سنجیدگی سے کہا۔ارے سب سمجھ دار ہیں، یہی سوچیں گے کہ اپنی منگیتر سے باتیں کر رہا ہے۔مجھے اچھا نہیں لگتا… بس، آپ جائیں۔رویحہ اب کی بار قدرے سنجیدہ ہو گئی۔اچھا جا رہا ہوں، چلو چہرے کے زاویے تو درست کر لو!شاہ میر ہنستے ہوئے واپس پلٹ گیا۔شاہ میر کے جانے کے بعد رویحہ کی جان میں جان آئی۔ اس نے گہری سانسیں لے کر خود کو سنبھالا، چائے نکالی، اور میزہ کو آواز دی، چائے لے آتی تو!منزہ کچن میں آتے ہوئے بولی، میرے ہاتھ پاؤں کپکپا رہے ہیں۔کیوں؟ کیا شاہ میر چاچو آئے تھے؟منزہ نے شرارت سے پوچھا۔
ایک تھپڑ لگے گا نا، سارے دانت باہر آ جائیں گے رویحہ نے مصنوعی غصے سے کہا اور کچن سے نکل گئی اچھا رُک نا، اب نانی کے پاس جا کے نہ بیٹھ جانا، چل برابر والے کمرے میں بیٹھتے ہیں میں وہیں ٹھیک ہوں رویحہ نے سنجیدگی سے کہا چلیں تائیں، رویحہ آئی ہے، ہمیں اپنے کپڑے دکھائے اور آپ سے باتیں بھی کرے دوسری بھانجیاں بھی بولیں رویحہ بادل نخواستہ کمرے میں آئی تو دیکھا، شاہ میر بیٹھا چائے پی رہا تھا وہ فوراً پلٹنے لگی تو شاہ میر نے آواز دے دی بیٹھ جاؤ رویحہ، میں چائے پی کر باہر جا رہا ہوں یب (یعنی بچوں) کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے شاہ میر کی مسکراتی، محبت لٹاتی نظریں مسلسل رویحہ کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں رویحہ اس کی نظروں سے زردی ہو رہی تھی، شرم سے چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا مجھے نہیں بلاؤ گے اپنی شادی پر؟ شاہ میر نے شرارت سے پوچھا نہیں بھئی! مجھے شادیاں انجوائے کرنی ہوتی ہیں، اور آپ تو…وہ کہتے کہتے رُک گئی میں تو کیا؟ شاہ میر نے سوالیہ انداز میں کہا آپ تو بس مجھے نروس کرتے رہتے ہیں ارے یار! تم تو کسی زمانے میں دور ہی ہو یہ ‘یار’ وغیرہ مجھے مت کہا کریں، مجھے اچھا نہیں لگتا تو ‘جان’ کہہ دیا کروں؟ شاہ میر نے شرارت سے کہا آپ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے رویحہ چڑ کر اُٹھتے ہوئے بولی قصور تو تمہاری ناک پر دھرا رہتا ہے شاہ میر نے ہنستے ہوئے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر کہا اور کمرے سے نکل گیا دروازے سے نکلتے ہوئے پلٹ کر دیکھا، جیسے اُس کی نظر کہہ رہی ہو جلدی آ جانا، ہم چلیں گےمیں باہر ہی ہوں شاہ میر نے اطمینان دلایا رویحہ کو ایسا لگا جیسے کمرے کی ساری روشنیاں اس کے ساتھ ہی باہر چلی گئی ہوں – تم پاس ہوتے ہو تو گھبراہٹ ہوتی ہے، چلے جاتے ہو تو بے چینی یا اللہ! میں کہاں کھو گئی ہوں؟میں کیا کر رہی ہوں؟کیا ہو گیا ہے مجھے؟وہ بےاختیار دل میں بولی ہم تم سے نظریں چرائیں تو گھبراہٹ، تم سامنے آؤ تو شرمندگی یہ کیا ہو رہا ہے… ہمیں کیا ہو رہا ہے؟اس کے ہاتھ میں بندھی چوڑی نے ہلکی سی جھنکار دی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی
☆☆☆

اب تو صرف تمہاری یادیں ہی ہیں، یادیں ہی رہ گئی ہیں۔رات کو آنکھیں بند کرتے ہیں تو نم ہو جاتی ہیں۔پہلے تو تمہارا پیغام مل جاتا تھا، کہیں اک جھلک دیکھ لیتی تھی،اب تو دل جیسے سن ہو گیا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں میرے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔دنیا بالکل خالی ہو گئی ہے،ساری رعنائیاں تم اپنے ساتھ لے گئے۔تم تو ایسے چلے گئے جیسے وہ لوگ جو وہاں جاتے ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ تمہارے جانے کے بعد تم سے وابستہ لوگ کیسے رہیں گے؟تمہاری زندگی کے آخری دنوں میں جب میں تم سے ملنے آئی تھی،تو میری آنکھوں کے آنسو دیکھ کر تم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا: روتی ہو؟ میں جا رہا ہوں، مگر تمہیں چھوڑ کر نہیں۔ تمہیں پہنچا کر جاؤں گا۔”تم نے یہ بات دی تھی، اور میں نے تمہاری بات پر قرار کیا تھا۔اب کوئی نہیں جو سچے دل سے میرے حال کا خیال رکھے۔اللہ جب دکھ دیتا ہے تو صبر کی طاقت بھی دیتا ہے،مگر کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے صبر کا نام لینا بھی بوجھ لگتا ہے۔رات سب سے بڑا مرہم ہے،مگر کچھ راتیں ایسی ہوتی ہیں جو مرہم نہیں، زخم بن کر رہ جاتی ہیں۔نومبر کیوں نہیں جاتا؟کیوں میرے دل و دماغ سے نکلتا ہی نہیں؟کیوں میں تمہیں بھول نہیں پاتی؟بظاہر میں خوش ہوں، متحرک ہوں،مگر اندر سے میرا دل ویران ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ دنیا چھوڑ کر تمہارے پاس آ جاؤں،اور ہم ڈھیر ساری باتیں کریں،کاش تم ایک بار آ سکو،میں وہ سب کچھ سنوں جو تم کہنا چاہتے تھے،اور وہ سب کچھ کہہ سکوں جو تم سننا چاہتے تھے۔کاش ایک بار وقت پلٹ سکتا۔اپنی انا کے ہاتھوں ہم اُن لوگوں کو کھو دیتے ہیں جو ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ساری عمر نارسائی کی تڑپ میں جینے سے بہتر ہے کہ محبت میں تھوڑی سی شراکت ہی برداشت کر لی جائے۔ ورنہ زندگی میں صرف “کاش” ہی رہ جاتے ہیں۔
☆☆☆
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat