Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Hardcore جگ تجھ پہ وار دیا


Episode, 32#

" کیا بات ہے شاہ۔۔۔ میں شام سے دیکھ رہی ہوں آپ کچھ پریشان ہیں۔۔۔کوئی بات ہوئی ہے کیا۔۔۔کہیں نازو کی کوئی خبر۔۔۔"؟
ہائمہ خاتون روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہو کر رات کو اپنے روم میں آئیں اور نماز ادا کرکے سونے کے لیے بیڈ پہ لیٹیں تو شاہ سائیں کو گم صم چھت کو تکتے پا کر فکرمندی سے انکے قریب لیٹتے ہوئے انکے چہرے کا رخ ہاتھ بڑھا کر اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھنے لگیں۔۔۔
" ہائم وہ جان گیا ہے۔۔۔"
شاہ سائیں نے کھوئے کھوئے لہجے میں ہائمہ خاتون کی طرف کروٹ لیتے کہا۔۔۔
" کون جان گیا ہے۔۔۔کیا جان گیا ہے۔۔۔کس کی بات کر رہے ہیں شاہ۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"
شاہ سائیں کے چہرے اور آنکھوں سے جھلکتے کرب کو محسوس کرتے ہائمہ خاتون پریشان ہو کر اٹھ بیٹھیں اور حیرانگی سے پوچھا۔۔۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ شاہ سائیں کیا کہ رہے اور کس کی بات کر رہے ہیں
" احتشام کو پتہ چل گیا ہے نازو کے اور میرے بارے میں۔۔۔"
شاہ سائیں نے کرب میں ڈوبے گہرے لہجے میں کہا
" یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔اسے کیسے پتہ چلا۔۔۔"
ہائمہ خاتون کو حیرانگی ہوئی تھی کہ آج تک جس بات کو سب سے چھپاتے آئے اس کا بھید کیسے کھل گیا۔۔۔
" صبح جب میں نے مردان خانے میں بیٹھے اس سے سکول کی فائل منگوائی تھی تو تب میری الماری میں پڑی نازو کی فائل دیکھی اس نے۔۔۔"
شاہ سائیں نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
" یہ آپ کا وہم بھی تو ہوسکتا ہے۔۔۔آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ اس نے فائل دیکھی ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے بے یقینی سے حیران ہوتے کہا۔۔۔
" جب میں نے اس سے سکول کی فائل لانے کا کہا اس کے بعد وہ نہ مردان خانے واپس آیا نہ مجھ سے ملا پھر اس نے اچانک سے واپسی کا پروگرام بنا لیا۔۔۔جبکہ اس نے خود کہا تھا کہ فجر کے نکاح تک وہ یہیں ہے۔۔۔
پہلی بار۔۔۔۔ہائم پہلی بار جب وہ جاتے وقت مجھ سے ملا تو اس کی نظروں میں اک شکوہ تھا۔۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھ سے مل تو رہا ہے مگر بس رسمی سا جیسے بس فرض ادا کر رہا ہو۔۔۔اسکے انداز میں کسی قسم کی گرمجوشی نہیں تھی۔۔۔
پھر جب میں اپنے کمرے میں فائل واپس الماری میں رکھنے آیا تو یہ فائل سب سے اوپر پڑی ہوئی تھی۔۔۔جبکہ میں ہمیشہ اسے سب سے نیچے رکھتا تھا۔۔۔یہی نہیں اس میں موجود سبھی تصویریں الٹ پلٹ ہوئی پڑی تھیں۔۔۔اور ایک تصویر نیچے گری ہوئی تھی۔۔۔ جلدی جلدی واپس رکھنے کے چکر میں یقیناً تصویر نیچے گری ہوگی۔۔۔اور احتشام کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔"
شاہ سائیں نے پریشانی سے کہا۔۔۔
" ہمممممم۔۔۔۔تو یہ وجہ تھی۔۔۔آپ ٹھیک کہ رہے ہیں۔۔۔مجھے بھی وہ کچھ پریشان لگا تھا جب میں نے پوچھا تو بزنس کا کہ کر ٹال گیا۔۔۔اور کہا کہ اس کا فوری واپس جانا بہت ضروری ہے اگر نہیں گیا تو بہت نقصان ہو جائے گا۔۔۔
اسی وجہ سے میں آپ سے کہتی تھی کہ اپنے بچوں کو سب بتا دیں مگر آپ نہیں مانے۔۔۔
خیر آپ پریشان نہ ہوں ایک نہ ایک دن تو انکو پتہ چلنا ہی تھا۔۔۔"
ہائمہ خاتون کو احتشام کا پریشان چہرہ یاد آیا تو انھوں نے شاہ سائیں کی بات سے اتفاق کرتے پھر انکو تسلی دیتے کہا۔۔۔
" ہائم میں اس بات سے پریشان نہیں ہوں کہ احتشام کو سب پتہ چل گیا۔۔۔مجھے پریشانی اس بات سے ہو رہی ہے کہ وہ آدھا سچ جان پایا ہے۔۔۔وہ میرے بارے میں میرے کردار کے بارے میں کیا سوچتا ہوگا کہ اس کا باپ کیسا انسان تھا ساری عمر ہمیں بلند اخلاق کے بلند کردار کے سبق پڑھاتا رہا اور خود۔۔۔۔کاش کہ وہ مجھ سے پوچھتا۔۔۔مجھ سے سوال کرتا۔۔۔اس کا یوں خاموشی سے چلے جانا مجھے مار رہا ہے ہائم۔۔۔
اس پہ سچ عیاں ہونے کے بعد بھی میں اس کی نظروں میں کہیں اپنا وقار اپنا بھرم نہ کھو دوں۔۔۔مجھے اس بات سے ڈر لگ رہا ہے ہائم۔۔۔
اپنی ہی اولاد کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونے سے مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔"
شاہ سائیں کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ انکے ہر لفظ سے عیاں ہو رہی تھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے کرتے انکی آنکھوں میں نمی ہلکورے لینے لگی۔۔۔
" شاہ پلیز۔۔۔ایسے دلگرفتہ مت ہوں ہمارے بچے ہمارا فخر ہیں ہمارا غرور ہیں۔۔۔وہ آپ سے بے انتہا پیار کرتے ہیں
اچانک سچ سامنے آنے پہ احتشام پریشان ضرور ہوا ہے مگر وہ کبھی بھی آپکو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرے گا۔۔۔اور نہ ہی اس کے اور ہمارے باقی بچوں کے دل میں آپکی عزت کم ہوگی۔۔۔الّٰلہ پہ بھروسہ رکھیں۔۔۔نہ آپ کل غلط تھے نہ آج۔۔۔ اس لیے آپ فکر مت کریں احتشام صبح آپکے سامنے ہوگا اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ سچ فجر اور صارم کو بھی بتا دیں کہ یہی بہتر ہوگا۔۔۔"
ہائمہ خاتون سے شاہ سائیں کا یوں ٹوٹنا پریشان ہونا دیکھا نہیں گیا تو محبت سے شاہ سائیں کا ہاتھ پکڑ کر انکو تسلی و تشفی دینے لگیں۔۔۔ہائمہ خاتون کی حوصلہ ہمت دیتی باتوں سے شاہ سائیں کافی حد تک پرسکون ہو چکے تھے اور یونہی باتیں کرتے کرتے انکی آنکھ لگ گئ۔۔۔ایک اچھی بیوی ایک اچھی دوست اور ایک اچھی ہمسفر کے سارے فرائض ہائمہ خاتون آج تک باخوبی نبھاتی آئی تھیں۔۔۔قدم قدم پر انھوں نے ہر دکھ سکھ میں اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔۔۔اور آج بھی اپنے دل کے خلفشار کو چھپاتے وہ پھر سے اپنے شوہر کو تو حوصلہ دے گئ تھیں مگر انکے اندر کی بے چینی بڑھ گئ تھی۔۔۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد ایک گہرا سانس خارج کرتے انھوں نے اپنے سرہانے رکھا موبائل اٹھا کر دیکھا تو رات کے 2 بج رہے تھے۔۔۔پھر کچھ سوچ کر وہ آہستہ سے اٹھیں اور اپنی گرم چادر اچھی طرح سے اپنے وجود پہ لپیٹ کر اپنا موبائل اٹھایا اور بنا آہٹ کیے چپکے سے دوازہ کھول کر روم سے باہر نکل آئیں۔۔۔

احتشام واپس شہر تو آ گیا تھا مگر اس کا دل اور اس کے دھیان کی سبھی سوچیں گاؤں میں ہی رہ گئیں تھیں۔۔۔اپنے بابا کا ماضی سامنے آتے ہی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ فائل لے جا کر انکے سامنے رکھ کر ان سے پوچھے کہ کون ہے یہ جس کی گود میں آپ نے میری ماں کا حق ڈال دیا۔۔۔جس وقت پہ جن لمحوں پہ میری ماں کا حق تھا وہ کیسے کسی اور کو دے سکتے ہیں ہمیں عزت اور ذلت کے سبق پڑھا کر خود ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔مگر چاہ کر بھی وہ کچھ نہ کہ سکا اور خاموشی سے شہر لوٹ آیا جس کی ایک بڑی وجہ اسکے ماں باپ کا ایک دوسرے کے ساتھ مثالی زندگی گزارنا تھا۔۔۔
بچپن سے لے کر آج تک کوئی ایک لمحہ کوئی ایک بات کوئی ایک واقعہ بھی اسکے ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ نہیں تھا جب اس نے اپنے ماں باپ کو لڑتے دیکھا ہو یا کسی تھرڈ پرسن کی وجہ سے انکے بیچ میں لڑائی ہوئی ہو۔۔۔اس نے ہمیشہ اپنے ماں باپ کو ایک دوسرے سے انتہائی محبت اور عزت سے بات کرتے دیکھا تھا۔۔۔اپنی ماں کی بڑی سے بڑی ضرورت سے لے کر چھوٹی چھوٹی ضرورت کا بھی اس کے بابا ہمیشہ دھیان رکھا کرتے۔۔۔اگر کبھی وہ بیمار پڑ جاتیں تو ساری دنیا بھول کر اس کے بابا بس اس کی ماں کی فکر کرتے۔۔۔
اور اسی سب کی وجہ سے وہ اپنے بابا سے نہ کوئی سوال کر سکا نہ کچھ پوچھ سکا۔۔۔اس کے اچانک واپسی کے پروگرام پہ ہر کوئی حیران تھا مگر وہ سب کو حیران اور سوال پہ سوال کرتا چھوڑ کر اپنے اندر کے اٹھتے طوفان کو سب سے چھپائے چپ چاپ شہر چلا آیا جب سے وہ واپس آیا تھا کمرہ بند ہوا بیٹھا تھا۔۔۔اس نے اپنے بابا کو بہت بلند مقام پہ بٹھایا ہوا تھا اس کے بابا کی زندگی اس کے سامنے ہمیشہ کھلی کتاب کی طرح رہی مگر یہ کونسا صفحہ تھا جو اس کی نظروں سے اوجھل رہا جسے وہ پڑھ نہ سکا۔۔۔اور جب پڑھا تو وہ اسے اندر تک زخمی کر گیا تھا۔۔۔ اس نے اپنا سارا غصّٰہ سارا غبار اپنے روم کی چیزوں پہ اتارا تھا سب تہس نہس کرنے کے بعد بھی سکون نہ ملا تو خود سے لڑتے لڑتے اپنے بابا سے کیا وعدہ توڑ ڈالا۔۔۔
آج پھر اس نے حرام چیز کو منہ لگایا تھا۔۔۔ابھی اس نے چند پیگ ہی لیے تھے کہ فون کی بیل نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ہاتھ بڑھا کر دیکھا تو سکرین پہ میری جنت یعنی ہائمہ خاتون کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔آدھی رات کو اپنی والدہ کی کال دیکھ کر اس کا سارا نشہ ہرن ہوگیا۔۔۔اس نے جلدی سے پریشان ہو کر فوراً کال اٹینڈ کی
" ا ا می جان۔۔۔سس سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔کک کیا ہوا ہے۔۔۔"
خود پہ قابو پانے کی ہزار کوشش کے باوجود بھی پینے کی وجہ سے اس کے منہ سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔۔۔
" احتشاااااام۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔تم نے پی ہے کیا...۔"
ہائمہ خاتون نے احتشام شاہ کی زبان کی لڑکھڑاہٹ پہ حیران و پریشان ہو کر دل میں آئے خدشے کو زبان پہ لاتے سوال کیا۔۔۔
" نن نئ تو۔۔۔میں تو۔۔۔سو رہا تھا۔۔۔آپ نے۔۔۔اس وقت کال کی۔۔۔سس سب ٹھیک ہیں ناں گھر پہ۔۔۔"
احتشام شاہ نے صاف انکار کیا تھا۔۔۔مگر ہائمہ خاتون کا دل کٹ کر رہ گیا احتشام شاہ نے زندگی میں پہلی بار ان سے جھوٹ بولا تھا اسکے لہجے اور لفظوں میں لڑکھڑاہٹ کسی پریشانی کی وجہ ہرگز نہیں تھی اور نہ ہی وہ لہجہ نیند کا خمار لیے ہوئے تھا۔۔۔
" احتشام شاہ مجھے صبح آپ یہاں حویلی میں چاہیے۔۔۔صبح کا مطلب صبح۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے دو ٹوک حکمیہ انداز میں کہا۔۔۔احتشام شاہ لفظ احتشام شاہ پہ گنگ رہ گیا ہائمہ خاتون ہمیشہ اپنے بچوں کو پکارتے وقت انکے نام کے ساتھ لفظ بیٹا لگاتی تھیں مگر آج انھوں نے اسے احتشام شاہ کہ کر مخاطب کیا تھا۔۔۔جس کا مطلب وہ اس سے سخت خفا تھیں۔۔۔اور وہ ایسا تبھی کرتیں تھیں جب وہ اپنے بچوں سے کسی بات پہ ناراض ہوتیں۔۔۔
" جی بہتر۔۔۔"
اس کا دل چاہا کہ وہ کوئی بہانہ کردے فلحال وہ گھر سے دور رہنا چاہ رہا تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں اپنے بابا سے آمنا سامنا ہونے پہ اس کی زبان پہ شکوہ نہ در آئے انکے بیچ میں جو ایک بھرم ایک فخر کا رشتہ تھا کہ اس کے بابا جیسا دنیا میں کوئی نہیں ہے احتشام شاہ کو اس بھرم کے ٹوٹ جانے سے خوف آ رہا تھا۔۔۔ مگر ہائمہ خاتون کے لب و لہجے پہ وہ کچھ بھی نہ کہ سکا۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


" بیٹا ڈر تو نہیں لگا مجھے بہت فکر ہو رہی تھی تمہاری۔۔۔شکر ہے کہ باہر چوک پہ ایک رکشہ موجود تھا ورنہ اکثر مغرب تک سب رکشے والے چلے جاتے ہیں
" سچ کہوں تو تھوڑا لگا تھا خالہ مگر پھر خود کو سنبھال لیا تھا۔۔۔خالہ آپ منہ ہاتھ دھو لیں میں تب تک کھانا لگا دیتی ہوں۔۔۔"
مہدیہ نے رضوانہ خاتون سے مسکراتے ہوئے کہا جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی فاطمہ کو لے کر آئیں تھیں۔۔۔
رضوانہ خاتون اور فاطمہ اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پہ اکرام صاحب کے بنگلے پہ کُک کا کام کرتی تھیں۔۔۔اکرام صاحب کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں بیٹیوں کی شادی کر چکے تھے جبکہ انکے بیٹے فلحال اپنی زندگی کو انجوائے کرنا چاہتے تھے اس لیے بار بار انکے انکار پر اب انھوں نے بھی اپنے بیٹوں کو انکے حال پہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔اکرام صاحب کافی بردبار اور سوبر قسم کے انسان تھے جبکہ انکی بیگم فرحین کافی ماڈرن خاتون تھیں۔۔۔انکے دونوں بیٹے قاسم اور طلحہ اور دو بیٹیاں زویا اور عدن بلکل اپنی ماں کا پرتو تھیں۔۔۔مگر ایک بیٹی ایمان نہ صرف شکل بلکہ سیرت میں بھی اپنے باپ پہ گئ تھی اس کی دونوں بہنیں اپنی آزادانہ سوچ اور نک چڑھی طبیعت کی وجہ سے شادی کے چند ماہ بعد ہی طلاق لے کر آ گئ تھیں جس کا نہ تو رتی بھر انکو دکھ تھا نہ انکی ماں کو۔۔۔
رضوانہ خاتون اور فاطمہ کو انکی ایک جاننے والی نے ہی نہ صرف اپنے آبائی گھر میں رہائش دی بلکہ سیٹھ اکرام کے گھر ملازمت کا بندوبست بھی کروا کر دیا تھا۔۔۔
" خالہ نہیں بیٹا جیسے فاطمہ مجھے ماں کہتی ہے آپ بھی مجھے امی کہا کرو۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے مسکرا کر کہا۔۔۔
" امی۔۔۔۔۔۔"
مہدیہ نے شش و پنج کا شکار ہوتے کہا۔۔۔
" ہاں بلکل امی۔۔۔لیکن بیٹا اگر آپکا دل نہیں مانتا آپکو پسند نہیں تو جو آپکا دل کرتا ہے بلا لیا کرو۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے مہدیہ کو عجیب سی گھبراہٹ کا شکار ہوتے دیکھ کر کہا ان کا بھی دل نہیں کیا کہ زبردستی اس کے منہ سے ماں کہلوائیں۔۔۔
" نہیں۔۔۔ایسی بات نہیں ہے اصل میں آج تک کبھی کسی کو ایسے بلایا نہیں تو۔۔۔۔۔بس اسی لیے تھوڑا عجیب لگ رہا بولنا اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپکو ماسو ماں کہ لیا کروں۔۔۔"
مہدیہ نے فوراً تیزی سے کہا وہ نہیں چاہتی تھی کہ رضوانہ خاتون کا دل توڑے یا وہ یہ سوچیں کہ اپنے گھر میں پناہ دی اور اتنی سی بات نہیں مان سکتی۔۔۔اسی لیے فوراً اپنی بات اپنی سوچ ان پہ واضح کی۔۔۔
مگر مہدیہ کے منہ سے ماسو ماں کا سن کر جہاں رضوانہ خاتون کو جھٹکا لگا وہیں فاطمہ نے بھی حیرانی و پریشانی سے پہلے مہدیہ کی طرف اور پھر اپنی ماں کی طرف دیکھا جنکے چہرے پہ ایک تاریک سایہ لہرایا تھا۔۔۔رضوانہ خاتون مہدیہ کو کو کچھ دیر یونہی کی ٹک تکتی رہیں پھر کوئی جواب دئیے بنا خاموشی سے سر جھکائے منہ ہاتھ دھونے چل دیں۔۔۔
" آپی کیا میں نے کچھ غلط بولا ہے۔۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میری بات سے انکو تکلیف پہنچی ہے۔۔۔"
مہدیہ نے حیران ہو کر فاطمہ کو پیچھے سے مخاطب کرتے پوچھا جو اپنی ماں کے پیچھے جانے کے لیے مڑی تھی رضوانہ خاتون کے چہرے پہ اچانک سے چھا جانے والی اداسی اور کرب کے اثرات نے مہدیہ کو پریشان کر دیا تھا۔۔۔
" نہیں مہدیہ تم پریشان مت ہو تمہاری بات بری نہیں لگی انکو۔۔۔اس لفظ کے ساتھ ہماری بہت یادیں جڑی ہیں آج سالوں بعد پھر سے یہ لفظ اپنے لیے سن کر وہ سہن نہیں کر پائیں۔۔۔خیر تم کھانا لگاؤ میں ہاتھ منہ دھو کر ابھی آئی۔۔۔"

فاطمہ نے مہدیہ کو تسلی دیتے کہا اور باہر نکل گئ۔۔۔
" مجھے معاف کردیں میں نہیں جانتی تھی کہ میری بات آپ کو تکلیف دے جائے گی اگر پتہ ہوتا تو۔۔۔"
تینوں نے بہت خاموشی سے کھانا کھایا مہدیہ کو بہت افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے یہ لفظ کیوں بولا اور اس کی وجہ سے وہ فرشتہ صفت خاتوں اداس ہو گئیں۔۔۔مہدیہ کو ایسے لگ رہا تھا جیسے اس سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہو کھانا کھانے کے بعد دستر خواں سمیٹ کر مہدیہ آہستہ سے آ کر رضوانہ خاتون کے پاس بیٹھ گئ اور بہت ہمت کر کے رضوانہ خاتون سے اپنے بولے لفظ پہ سوری کرنے لگی۔۔۔
" اوہو بیٹا آپ ابھی تک اس بات کو لے کر بیٹھے ہوئی ہو میں آپ سے ہرگز ناراض نہیں ہوں اور نہ ہی آپکی بات سے مجھے تکلیف ہوئی۔۔۔بس بہت عرصے بعد کسی نے پھر سے یہ لفظ بولا تو اس لفظ کے ساتھ جڑا سب یاد آ گیا۔۔۔آپ پریشان نہ ہو اور جو آپ کا دل کرتا ہے آپ مجھے بلا لیا کرو۔۔۔"
رضوانہ خاتون مہدیہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے اسے اس مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔
" مہدیہ بیٹا ایک بات کی سمجھ نہیں آئی مجھے۔۔۔ تم نے کہا کہ تمہارا تعلق لاہور سے ہے اور رحمو بابا تمہیں فیصل آباد کی بس پہ بٹھا کر گئے پھر تم یہاں اتنی دور کیسے۔۔۔میرا مطلب صادق آباد بلکل الگ سائیڈ ہے تم یہاں کیسے پہنچی۔۔۔"؟
رضوانہ خاتون کے دماغ میں صبح سے جو سوال کلبلا رہا تھا آخر وہ اسے زبان پہ لے ہی آئیں۔۔۔
" خالہ جب۔۔۔۔"
" بیٹا آپ مجھے ماسو ماں بلا سکتی ہو۔۔۔سچ پوچھو تو مجھے اچھا لگے گا کان ترس گئے ہیں میرے یہ لفظ سننے کو۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے بیچ میں ہی مہدیہ کو ٹوکتے ہوئے شفقت سے کہا۔۔۔ فاطمہ بھی منتظر نظروں سے یہ جاننے کے لیے مہدیہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
ماسو ماں جب رحمو بابا مجھے بس پہ بٹھا کر گئے تو کچھ دیر بعد بس خراب ہو گئ۔۔۔سب لوگ بس ٹھیک ہونے کے انتظار میں بس سے باہر نکل کر کھڑے ہو گئے مگر مسلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈرائیور نے سب کے کرائے واپس کر دئیے کہ وہ کسی اور بس پہ چلے جائیں۔۔۔
بس کے سبھی مسافر مختلف بسوں میں سوار ہو کر چلے گئے۔۔۔بس کچھ لوگ تھے جو وہاں کھڑے رہ گئے۔۔۔پھر کچھ دیر بعد ایک بس وہاں آ کر کھڑی ہو گئ تو وہ باقی کے لوگ بھی اس پہ سوار ہو گئے۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں جب سے ہوش سنبھالا تھا میں کبھی ایسے باہر نہیں نکلی تھی نہ کبھی کہیں گئ تھی۔۔۔جب وہ لوگ بس میں سوار ہوئے تو میں بھی انکے پیچھے پیچھے ہی بس میں یہ سوچ کر بیٹھ گئ کہ ہم سب ایک ہی بس میں بیٹھے تھے تو یہ بھی ادھر ہی جا رہے ہیں جدھر مجھے جانا ہے۔۔۔اکیلے ہونے کی وجہ سے میں نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا مجھے وہاں اکیلے رہ جانے کی وجہ سے بھی اور رستوں سے انجان ہونے کی وجہ سے بھی ڈر لگ رہا تھا اور اسی خوف کی زیر اثر یہ بھی نہ دیکھا کہ بس کے فرنٹ پہ رکھی تختی پہ کیا لکھا ہوا ہے۔۔۔میں یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو ہلکا سا بھی شک ہو کہ میں رستوں سے انجان ہوں۔۔۔اس لیے بنا سوچے سمجھے بس میں سوار ہو گئ۔۔۔پھر جس بس میں وہ لوگ بیٹھتے گئے میں بھی انکے پیچھے پیچھے اسی بس میں سوار ہو جاتی۔۔۔لاسٹ ٹائم جس بس میں سوار ہوئی تھکاوٹ کی وجہ سے کب آنکھ لگ گئ پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔کنڈیکٹر کے شور مچانے پہ جب آنکھ کھلی تو مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔۔۔ ساری بس خالی ہو چکی تھی چند لوگوں کے علاوہ دو تین لڑکے اس میں سوار تھے میرے اکیلے ہونے کی وجہ سے وہ میری طرف عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔میں جیسے ہی بس سے اتری وہ بھی اتر گئے۔۔۔میں جدھر جدھر جاتی وہ میرے پیچھے پیچھے رہے۔۔۔میں بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئ تھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کروں کدھر جاؤں...
پہلے پہلے تو وہ کچھ فاصلے پہ میرے پیچھے پیچھے رہے مگر جیسے ہی اندھیرا گہرا ہوا ان میں سے ایک نے میرے قریب آ کر میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ چلو ہم چھوڑ دیتے ہیں جہاں جانا ہے۔۔۔مجھے کچھ نہ سوجھا تو خود کو بچانے کے لیے دوڑ لگا دی اور جو سامنے گلی نظر آئی اس میں گھس گئ کہ شائد کوئی چھپنے کی جگہ مل جائے۔۔۔مگر مختلف گلیوں میں دوڑتے بھاگتے نہ تو کوئی جگہ چھپنے کو ملی اور نہ کوئی دروازہ کھلا ملا وہ لوگ بھی میرے پیچھے پیچھے دوڑتے ہوئے میرے بہت قریب پہنچ گئے اس سے پہلے کہ وہ مجھے پکڑتے کہ اسی وقت میں نے الّٰلہ کا نام لے کر آپکے دروازے پہ دستک دے ڈالی اور پہلی ہی دستک پہ آپ نے دروازہ کھول دیا۔۔۔اور اس سے پہلے کا سب آپکو پہلے ہی بتا چکی ہوں۔۔۔"
مہدیہ نے ایک گہرا سانس لے کر ساری بات سے انکو آگاہ کیا۔۔۔سب بتاتے ہوئے اس کی پھر سے آنکھیں نم ہو گئ تھیں۔۔۔
الّٰلہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے بیٹا جس نے تمہیں ہر آفت سے محفوظ رکھا اور تمہاری حفاظت فرمائی۔۔۔کل رات کو میں دروازے پہ تالا لگانے آئی تھی اور اتفاق سے اسی وقت تم نے دستک دے ڈالی۔۔۔
جب بندہ ہدائیت کے رستے پہ چلنا چاہے اور گناہوں سے بچنا چاہے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ الّٰلہ اسکی مدد نہ فرمائے تم وہاں سے کسی غلط ارادے سے نہیں نکلی تھی بلکہ اپنی زندگی کو گناہ آلود ہونے سے بچانے کے لیے بھاگی تھی۔۔۔اسی لیے الّٰلہ نے بھی تمہاری مدد فرمائی اگر تمہارے بھاگنے کے پیچھے تمہاری غلط نیت غلط مقصد ہوتا تو سب کی طرح میرا دروازہ بھی تمہیں بند ہی ملتا۔۔۔
الّٰلہ کا شکر ادا کرو میری بچی جس نے تمہاری حفاظت فرمائی اور تمہیں غلط ہاتھوں میں نہیں جانے دیا۔۔۔
اٹھو اور نماز ادا کرو کہ الّٰلہ کے شکر کا یہی طریقہ ہے کہ ہم اس کے آگے سربسجود ہو جائیں۔۔۔باقی باتیں بعد میں کریں گے اٹھو شاباش۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے بہت محبت اور شفقت سے مہدیہ کی پلکوں کی باڑ پہ ٹھہری نمی کو صاف کرتے کہا۔۔۔انکی بات سن کر مہدیہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا اور اضطرابی کیفیت میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑنے لگی۔۔۔
" کیا بات ہے بیٹا۔۔۔کچھ کہنا ہے کیا۔۔۔"؟
رضوانہ خاتون نے مہدیہ کے چہرے پہ چھائی پزمردگی محسوس کرتے کہا۔۔۔
" وہ۔۔۔مم۔مجھے نماز پڑھنا نہیں آتی۔۔۔"
مہدیہ نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔۔۔
" بیٹا آپ نے کہا کہ آپ نے بی اے کیا ہے۔۔۔ٹیوٹر پڑھانے آتا تھا آپکو پھر۔۔۔۔"؟
رضوانہ خاتون مہدیہ کی بات سن کر حیران ہوئی تھیں۔۔۔
" کوٹھوں پہ اگر الّٰلہ کی پہچان کروائی جاتی دین سمجھایا جاتا تو کوٹھے کو کوٹھا کون کہتا۔۔۔ کوٹھوں پہ نماز روزے کا کیا کام۔۔۔وہاں تو بس دنیا ہوتی ہے اور دن رات جسموں کے سودے ہوتے ہیں۔۔۔
میرا ٹیوٹر بھی مجھے دین پڑھانے نہیں بلکہ دنیا پڑھانے آتا تھا۔۔۔اس لیے نماز کا لفظ بس کتابوں میں پڑھا مگر یہ نہیں پڑھا کہ کیسے پڑھی جاتی ہے۔۔۔"
مہدیہ کے لہجے میں گھلے کرب و اذیت نے رضوانہ خاتون اور فاطمہ کو بے طرح اداس کر دیا۔۔۔
" میری بچی کوئی بات نہیں تم دل چھوٹا مت کرو۔۔۔نماز کا کیا ہے وہ بندہ عمر کے کسی بھی حصے میں سیکھ سکتا ہے۔۔۔بات تو بس احساس کی ہے فکر کی ہے۔۔۔نہ جانے کتنے مسلمان ہیں جو دین دار گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں مگر ساری عمر الّٰلہ کے سامنے نہ تو جھکنے کی توفیق ہوتی ہے نہ اپنے گناہوں کا احساس کر کے توبہ کی توفیق ہوتی ہے۔۔۔
چلو آؤ میرے ساتھ میں تمہیں وضو کرنا بھی سیکھاؤں گی اور نماز ادا کرنا بھی۔۔۔
فاطمہ بیٹا آپ بھی آ جاؤ۔۔۔آج ہم تینوں ایک ساتھ الّٰلہ کے سامنے جھکیں گی۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے بے اختیار مہدیہ کو گلے سے لگا کہا اور پھر فاطمہ سے مخاطب ہوئیں۔۔۔رضوانہ خاتون کے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہی فاطمہ اور مہدیہ بھی انکے ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


" رشید احمد اب تمہیں 20 لاکھ نہیں چاہیں کیا۔۔۔ایک ماہ سے اوپر ہوگیا مگر تم نے دوبارہ تقاضا نہیں کیا۔۔۔"
مہرالنساء نے اپنے روم میں آ کر دروازہ بند کیا پھر رشید احمد سے تھوڑا فاصلہ بنا کر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے جانچتی نِظروں سے رشید احمد کی طرف دیکھ کر نرم لہجے میں کہا۔۔۔
رشید احمد کا بدلا ہوا روپ ان سے کسی طور ہضم نہیں ہو ریا تھا۔۔۔اس لیے سچ جاننے کے لیے مہرالنساء نے نہ کوئی تلخ بات کی اور نہ کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔
تم لوگ یقین کیوں نہیں کر رہے کہ میں بدل گیا ہوں۔۔۔میں اب وہ پہلے والا رشید احمد نہیں رہا۔۔۔اجالا کی موت نے مجھے بدل دیا ہے میں ایسا نہیں چاہتا تھا لیکن میں نے اب سوچ لیا ہے کہ میں اپنی بچیوں کا ٹھیک معنوں میں باپ بن کر دکھاؤں گا۔۔۔بہت اچھی جگہ انکی شادیاں کروں گا تم دیکھ لینا۔۔۔"
رشید احمد نے مہرالنساء کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھنا چاہا مگر مہرالنساء نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔۔رشید احمد کو دل ہی دل میں بعا تو بہت لگا مگر پھر نظر انداز کر کے مہرالنساء کو اپنی سچائی کا یقین دلانے لگا۔۔۔مگر بچیوں کی شادی کا سن کر مہرالنساء کا ماتھا ٹھنکا تھا۔۔۔
" تم نے تو کہا تھا کہ تم نے پیسے کسی کو دینے ہیں اگر نہ دئیے تو وہ تمہاری جان کو آ جائے گا اور اسی سب میں اجالا کی جان گئ۔۔۔پھر اب کیا۔۔۔اب کیسے اس بندے نے اتنی بڑی رقم معاف کردی تمہیں۔۔۔
اور رہی بچیوں کی شادی کی بات تو بچیاں پہلے پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں اپنے پیروں پہ کھڑی ہو جائیں پھر کوئی مناسب رشتہ ملا تو کردیں گے شادی۔۔۔"
مہرالنساء نے اصل بات کی طرف آتے ہوئے تھوڑا تلخی سے کہا۔۔۔
" کیا بات کر رہی ہو مہر بیگم۔۔۔واہ تمہارا مطلب ہے کہ بچیوں کو بوڑھا کر کے انکی شادیاں کرنی ہیں۔۔۔اور پڑھ لکھ کر بھی ہانڈی چولہا ہی کرنا ہے ناں۔۔۔کوئی ملک کا صدر نہیں لگ جانا انھوں نے۔۔۔تم ماں ہو تمہیں مجھ سے زیادہ پتہ ہونا چاہیے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں فرق ہوتا ہے لڑکوں کی شادی میں دیر سویر چل جاتی ہے مگر لڑکیوں کی شادی اگر مناسب عمر میں نہ کی جائے تو پھر ڈھنگ کے رشتے نہیں ملتے اور میں اپنی بچیوں کے ساتھ یہ ظلم نہیں کروں گا۔۔۔"
رشید احمد نے قطیعت سے جواب دیا۔۔۔اور جوتے اتار کر اپنی ٹانگیں سمیٹ کر بیڈ پہ نیم دراز ہو گیا۔۔۔جبکہ مہرالنساء کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں اس کا شک ٹھیک نکلا تھا رشید احمد اس کی بچیوں کا تو سودا کر چکا تھا یا شادی کے نام پہ پیسوں کے لالچ میں کسی کے حوالے کرنے والا تھا۔۔۔
" تم کیوں پریشان ہو رہی ہو فکر مت کرو تم دیکھنا میری بیٹیاں راج کریں گی راج۔۔۔
آ جاؤ اب آ کے سو جاؤ۔۔۔کتنے دن ہو گئے ہیں ہم نے اپنی کوئی بات ہی نہیں کی۔۔۔اب تو تم بلکل ٹھیک ہو ۔۔۔"
رشید احمد نے مہرالنساء کے چہرے پر فکر کی پرچھائیاں دیکھتے ہوئے اسے تسلی دی بات کرتے کرتے اس کی یکدم ٹیون بدلی تھی اس نے مہرالنساء کے نکھرے نکھرے سراپے کا بھوپور جائزہ لیتے تھوڑا سا آگے کو کھسکتے ہوئے مہرالنساء کے لیے اپنے پاس جگہ بنائی اور اسکے بازو کو پکڑ کر اپنی طرف کھنیچتے خمار آلود لہجے میں کہا۔۔۔مگر مہرالنساء اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلی۔۔۔
" کتنے میں سودا کیا ہے اپنی بیٹی کا تم نے۔۔۔"
مہرالنساء نے اپنی جگہ پہ ہی بیٹھے بیٹھے رشید احمد کے ہاتھ سے اپنا بازو ایک جھٹکے سے چھڑواتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے انتہائی غصے سے ہر لفظ چبا چبا کر کہا۔۔۔
" دماغ خراب ہے تمہارا۔۔۔کوئی سودا نہیں کیا میں نے بلکہ بہت امیر گھر میں اپنی بیٹی کا رشتہ تہ کیا ہے میں نے۔۔۔صبح آ رہا ہے وہ۔۔۔دیکھ لینا تم بھی۔۔۔
اور ایک بات یاد رکھنا مجھے کوئی تماشہ نہیں چاہیے کیونکہ ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا۔۔۔لائیٹ بند کردو مجھے صبح جلدی اٹھ کر سارے انتظامات بھی دیکھنے ہیں۔۔۔"
رشید احمد یکدم اپنی پرانی جون میں واپس آیا تھا اور اپنا فیصلہ سنا کر کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔مہرالنساء کو جتانے کے لیے کہ وہ مزید کوئی بات نہیں سننا چاہتا...
" جو تم چاہتے ہو وہ میں ہونے نہیں دوں رشید احمد۔۔میری ایک بیٹی تمہاری حیوانیت کی بھینٹ چڑھ گئ مگر اب بس۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔"
رشید احمد کی بات سن کر مہرالنساء کے دماغ میں جھکڑ چلنے لگے تھے۔۔۔وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور دوٹوک انداز میں اپنا فیصلہ بھی سنا دیا۔۔۔
" ہاہاہاہاہا۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔یہ تمہاری بھول ہے کچھ نہیں کر سکتی تم مہر بیگم۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔بلکہ کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا اب۔۔۔یہاں تک کہ اگر میں خود بھی اپنی بات سے پیچھے ہٹنا چاہوں تو نہیں ہٹ سکتا۔۔۔کیونکہ بات زبانی کلامی تہ نہیں ہوئی باقاعدہ لکھت پڑھت ہوئی ہے۔۔۔اور اس پہ سائن کیے ہیں میں نے خود۔۔۔"
رشید احمد اپنی جگہ سے اٹھ کر بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے زور زور سے اونچی آواز میں قہقہے لگانے لگا پھر مسکراتی اور مزاق اڑاتی نظروں سے مہرالنساء کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔اسکی بات پہ مہرالنساء بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتی اپنے سینے پہ ہاتھ رکھتی وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 

Episode, 33#

" اَسْلْام عَلیْکُم وَ رَحَمۃُ الّٰلِہ وَ بارَکَتہُ..."
احتشام شاہ نے گھر کی دہلیز پار کی تو سامنے ہی دالان میں اپنی والدہ اور خالہ کو عورتوں کے مجمع میں بیٹھے دیکھ کر ذرا فاصلے سے ہی انکو دھیرے سے سلام کیا۔۔۔
" وَ عَلیکم اسْلَام وَ رَحمۃُ الّٰلہ وَ برَکَاتہُ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے ذرا کی ذرا سر اٹھا کر اسکے سلام کا جواب دیا جبکہ آئمہ سلطان نے سر تا پیر اس کا بھرپور جائزہ لیتے جواب دیا تھا سلوٹ زدہ ملگجے سے کپڑے پہنے وہ انھیں اس وقت چہرے سے کوئی تھکا ہارا مسافر لگ رہا تھا۔۔۔
پھر اپنی آپا کی طرف دیکھا جن کے چہرے پہ بیٹے کو دیکھ کر خوشی کی بجائے بہت سرد قسم کے تاثرات تھے آئمہ سلطان کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تو احتشام شاہ کو اشارے سے آگے آ کر ماں سے ملنے کا کہا۔۔۔مگر احتشام شاہ نے ہاتھ اور آنکھوں سے وہاں بیٹھی عورتوں کی طرف ہلکے سے اشارے کیا۔۔۔
گاؤں کی عورتوں کو انکے کافی قریب بیٹھا دیکھ کر احتشام شاہ کو مناسب نہیں لگا کہ وہ انکے بیچ میں گھستا ہوا رستہ بنا کر اپنی والدہ اور خالہ کے قریب جا کر سلام کرتا۔۔۔اس لیے ذرا دور سے ہی مشترکہ طور پہ سب کو کہ کر اور بدلے میں انکے جواب دینے کے بعد وہ سر جھکائے اندر کی طرف بڑھ گیا جبکہ آئمہ سلطان کی نظروں نے آخر تک اس کا تعاقب کیا تھا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا اک عجیب سی پریشانی نے ان کے دل دماغ کو آ گھیرا تھا۔۔۔اب انکو عورتوں کے جلد از جلد جانے کا انتظار تھا تاکہ ہائمہ خاتون سے بات کر سکیں۔۔۔
صبح کے آٹھ بج چکے تھے شاہ سائیں صارم شاہ کے ساتھ گاؤں میں سکول کے لیے سلیکٹ کی گئ جگہ دیکھنے گئے ہوئے تھے۔۔۔جبکہ آئمہ خاتون اور ہائمہ خاتون باہر دالان میں بیٹھی گاؤں سے ہی آئی ہوئی کچھ عورتوں کے مسلے مسائل سن رہی تھیں۔۔۔کوئی عورت اپنے شوہر کی شکایت لگانے آئی تھی۔۔۔کسی کو اپنی بیٹی کی شادی پہ انکی مالی مدد چاہیے تھی۔۔۔تو کوئی عورت اپنی ہمسائی کی شکایت لگانے آئی تھی۔۔۔
تو کوئی عورت گاؤں کے کمپوڈر کی شکایت لگا رہی تھی کہ وہ دو دن کی دوائی کے بہت زیادہ پیسے لینے لگا ہے۔۔۔
آئمہ سلطان کا تو سر دکھنے لگا تھا سب کی باتیں سن سن کر۔۔۔
" آپا میں اندر جا رہی ہوں کمر تھک گئ ہے بیٹھے بیٹھے میری تو۔۔۔"
آئمہ سلطان نے اٹھنے کے لیے پر تولے تو ہائمہ خاتون نے انکے ہاتھ پہ اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈال کر انکو وہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ دیا۔۔۔
کچھ دیر عورتوں کے مسلے مسائل سننے اور انکو جلد از جلد حل کرنے کا یقین دلانے کے بعد تقریباً 10 بجے کے قریب ہائمہ خاتون اٹھ کھڑی ہوئیں انکو اٹھتا دیکھ کر سب عورتوں نے بھی ان سے اجازت چاہی اور باری باری سب رخصت ہو گئیں۔۔۔
" آئمہ گاؤں کے سب لوگ جانتے ہیں کہ تم ہماری بہن ہو یہ لوگ بہت سادہ ہیں ہمارے گھر سے وابستہ ہر شخص کو ہی وہ بہت احترام اور عزت دیتے ہیں اور بہت محبت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے گھر سے وابسطہ ہر شخص کو ہی انکی بہت فکر بہت پرواہ ہے۔۔۔اس وقت اگر تم سب کے بیچ میں سے اٹھ کر چلی جاتی تو وہ سمجھتے کہ تم بہت گھمنڈی عورت ہو جسے کسی کے دکھ سکھ سے کوئی واسطہ نہیں۔۔۔اور میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میری بہن کے لیے ایسی سوچ رکھیں۔۔۔اسی لیے تم سے وہاں بیٹھے رہنے کو کہا تھا۔۔۔"
یائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
" اوہ۔۔۔میرا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا اصل میں بہت تھک گئ تھی بیٹھے بیٹھے بس اسی لیے۔۔۔
آپا یہ احتشام کو کیا ہوا ہے کل تو کہ رہا تھا کہ اسکی بہت ضروری میٹنگ ہے اور اب صبح صبح ہی پھر واپس آ گیا۔۔۔چہرے سے بھی کافی پریشان اور نڈھال سا لگ رہا ہے۔۔۔
ان بچوں کی بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی کل شرجیل اور شہریار بھی بنا کچھ بتائے چلے گئے کہ بہت ضروری کام ہے۔۔۔شرجیل بھی کچھ پریشان لگ ریا تھا مجھے فکر ہو رہی کہ کہیں انکی آپس میں کسی بات پہ ان بن تو نہیں ہو گئ۔۔۔"؟
آئمہ سلطان نے اپنی بات کی وضاحت کرنے کے بعد اصل بات کی طرف آتے اپنے دل میں پیدا ہونے والے خدشات کا ہائمہ خاتون کے ساتھ اندر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اظہار کیا۔۔۔ شہریار اور شرجیل کے کل اچانک واپسی کے پروگرام نے ذہنی طور پہ ان کو پریشان کیا ہوا تھا اور اب احتشام شاہ کو دیکھ کر وہ مزید پریشان ہو گئیں تھیں۔۔۔
" شرجیل اور شہریار کا تو نہیں پتہ کہ واقع انکو کوئی ضروری کام تھا یا کوئی اور بات ہے۔۔۔مگر احتشام کا پتہ ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اداسی بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
" آپا کیا بات ہے۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔"؟
آئمہ سلطان اپنی بہن کے چہرے پہ تفکر کے سائے دیکھ کر مزید پریشان ہوتے بولیں۔۔۔
" آئمہ مجھے لگتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بچوں کو نازو کے بارے میں سب پتہ چل جائے احتشام آدھا سچ جان چکا ہے اور اگر اب اس سے یا باقی بچوں سے سچائی چھپائی گئ تو مجھے ڈر ہے کہ میرا گھر بکھر جائے گا شاہ اپنے بچوں کے دل میں اپنے مقام و مرتبے کو کھو دیں گے اور میں ایسا کبھی ہونے نہیں دوں گی۔۔۔اگر بچوں کے بارے میں ہر بات جاننے کا ماں باپ کا حق ہوتا ہے تو اپنے ماں باپ کی زندگی کے چھپے ہوئے رازوں کو جاننے کا بھی اولاد کا حق ہوتا ہے۔۔خاص کر ایسے راز جو حقیقت کا روپ دھار کر کسی بھی وقت سامنے آ سکتے ہوں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے رسانیت سے کہا۔۔۔
" مگر آپا اب اچانک سے اس کا خیال کیوں آیا۔۔۔نازو کا چیپٹر تو کب کا بند ہو چکا۔۔۔اور احتشام سے کس نے ذکر کیا۔۔۔"؟
آئمہ سلطان کو یہ بات سن کر جھٹکا لگا تھا اس لیے حیران ہوتے بولیں۔۔۔
" آئمہ نازو کا چیپٹر میرے تمہارے لیے بند ہوا تھا جبکہ شاہ جی کے لیے تو وہ ہمیشہ سے ہی کھلا رہا ہے۔۔۔خیر ساری بات میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی پہلے مجھے احتشام سے ملنا ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے احتشام کے روم کے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔۔۔شاہ جی کے گھر لوٹنے سے پہلے انکو احتشام شاہ سے اپنے کچھ سوالوں کے جواب چاہیے تھے اس لیے وہ آئمہ سے اس موضوع پہ ابھی مزید بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔۔
" ٹھیک ہے آپا آپ کریں بات اگر میری کسی ہیلپ کی ضرورت ہو اس معاملے میں تو ضرور بتائیے گا۔۔۔مجھے بہت تھکاوٹ ہو رہی ہے میں تھوڑا ریسٹ کرنا چاہ رہی ہوں۔۔۔اور عائلہ کی طرف جانے کا جو بھی پروگرام ہو مجھے بتا دیجیئے گا۔۔۔"
آئمہ سلطان اتنا کہ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔ہائمہ خاتون نے انکی بات پہ اثبات میں سر ہلایا اور احتشام شاہ کے دروازے پہ ہلکی سی دستک دی۔۔۔
" امی جان۔۔۔آپ۔۔۔آ جائیے۔۔۔آپکو ایسے دستک دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔"
احتشام شاہ نے دستک کی آواز پہ جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے اپنی والدہ کو دیکھ کر کہا اور پورا دروازہ کھولتے ہوئے انکے اندر آنے کے لیے سائیڈ پہ ہو گیا ہائمہ خاتون خاموشی سے بنا اسکی بات کا جواب دئیے اندر آ کر اسکے بیڈ پہ بیٹھ گئیں۔۔۔احتشام شاہ بھی دروازہ بند کر کے انکے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔
" جب اولاد بڑی ہو جائے ماں باپ سے جھوٹ بولنے لگے اور غلط رستوں پہ چلتے ہوئے ماں باپ کی سالوں کی تربیت پہ لات مار دے تو ماں باپ کو بچوں کے موڈ کو دیکھ کر چلنا پڑتا ہے احتشام شاہ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے ہر لفظ چبا چبا کر کہا۔۔۔انکے ہر لفظ سے واضح طور پہ ناراضگی جھلک رہی تھی۔۔۔
" امی جان پلیز۔۔۔آپ میری بوٹی بوٹی بھی کر ڈالیں گی تو قسم خدا کی میں اف بھی نہیں کروں گا۔۔۔مگر اس طرح سے مجھے مت پکاریں۔۔۔نہیں جانتا آپ میری کس بات سے خفا ہیں یا میری کس بات نے آپکو ہرٹ کیا ہے جو بھی ہے خدا کے لیے مجھے معاف کردیں۔۔۔آپکو ناراض کرنے یا دکھ دینے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔پلیز۔۔۔امی جان۔۔۔"
احتشام شاہ نے ہائمہ خاتون کی بات پہ تڑپ کر انکی طرف دیکھا تھا پھر بے اختیار انکے قدموں میں بیٹھ کر سسک اٹھا۔۔۔
" کیا واقع سچ میں تمہیں نہیں پتہ احتشام شاہ کہ میں نے نہ کہ کر بھی کیا کہا ہے۔۔۔کیا سچ میں میں تمہں نہیں پتہ کہ تم نے کیا کیا ہے۔۔۔"؟
مجھے آج تک یہی گمان رہا کہ میں اپنے بچوں کی تربیت میں کامیاب رہی۔۔۔میرے بچے میرا فخر تھے۔۔۔
جانتے ہو احتشام جب گاؤں کے لوگ تم لوگوں کے بارے میں کہتے تھے کہ اگر اولاد ہو تو شاہ سائیں کے بچوں جیسی۔۔۔تو تمہارے بابا کا سینہ چوڑا ہو جاتا تھا وہ سر اٹھا کر چلتے تھے۔۔۔اور سب لوگ انکے سامنے سر جھکا کر رکھتے تھے۔۔۔
اور جب تمہارے بابامجھ سے کہتے تھے ہائم ان بچوں کی صورت میں آپ نے ہمیں دنیا کے سب سے قیمتی اور بہترین تحفے دئیے ہیں۔۔۔آپ نے ان بچوں کی بہترین اور اچھی تربیت کر کے الّٰلہ کے سامنے ہمیں سرخرو کر دیا ہے تو میرا دل خوشی سے لبریز ہو جاتا تھا کہ آپکے بابا کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں۔۔۔شاہ کہتے تھے کہ ہائم ہمارے بچے صرف ہمارے بچے نہیں ہیں بلکہ یہ ہمارے چراغ ہیں۔۔۔وہ چراغ جو مرنے کے بعد ہماری قبروں میں ہمارے لیے روشنی کی وجہ بنیں گے۔۔۔زندہ بھٹکے ہوئے لوگوں کے اندھرے راستوں میں امید کی کرن ثابت ہوں گے۔۔۔
مگر۔۔۔مگر یہ سب تو ہمارا خواب نکلا احتشام شاہ۔۔۔صرف ہمارا خواب۔۔۔جس حقیقت سے مجھے سامنا ہوا ہے اس نے میری روح کو چھلنی کر دیا ہے۔۔۔
مجھے اب پتہ چلا کہ میں ایک ناکام عورت ہوں۔۔۔ایسی عورت جو ساری دنیا کو نیکی اور بھلائی کی باتیں بتاتی ہے مگر اپنی اولاد کی ٹھیک سے تربیت تو دور کی بات انکو صحیح غلط کا فرق تک نہ سمجھا سکی۔۔۔مجھے لگتا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے کیسی ہی بات ہو میرے بچے مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے مجھ سے کبھی کچھ چھپا نہیں سکتے کبھی غلط رستے کا انتخاب نہیں کرسکتے۔۔۔
مگر میں غلط تھی۔۔۔آج تک میں بیوقوف بنتی آئی۔۔۔
میں خود اپنی ہی نظروں میں گر گئ ہوں احتشام جب سے مجھے علم ہوا ہے کہ میرا بیٹا حرام چیز کو منہ لگاتا ہے مجھ سے سب کہنے کی بجائے مجھ سے سچ چھپاتا ہے۔۔۔
میرا بیٹا ایک بزدل انسان ہے جو حالات کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے فرار حاصل کرتا ہے۔۔۔مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہیں کر سکی۔۔۔"
بولتے بولتے ہائمہ خاتون کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے احتشام شاہ کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


" بیٹا کیا ہو گیا ہے۔۔۔آپ کو بتانا چاہیے تھا کہ آپکو انڈے کی خوشبو سے الرجی ہے۔۔۔"
فاطمہ نے جیسے ہی ناشتے کے لیے انڈہ فرائی کرنے کے لیے فرائی پین میں توڑ کر ڈالا تو پاس ہی روٹیاں بناتی مہدیہ اباک لینے لگی۔۔۔پھر وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر تیزی سے باتھ روم کی طرف بھاگی تو اسکے پیچھے پیچھے رضوانہ خاتون بھی تیزی سے اس کی طرف بڑھیں۔۔۔الٹی کرنے کی وجہ سے اس کے چہرے کی رنگت انتہائی حد تک زرد پڑ چکی تھی رضوانہ خاتون نے اس کو بازو سے پکڑ کر سہارا دے کر کھڑا کرتے ہوئے بولیں پھر ایسے ہی پکڑے پکڑے اسے لا کر کمرے میں بچھی چارپائی پہ بٹھا دیا...اور مہدیہ کی کمر دھیرے دھیرے سے سہلانے لگیں۔۔۔
" ماسو ماں میں خود نہیں جانتی تھی آج پہلی بار ایسا ہوا ہے دودھ کی سمیل مجھے اچھی نہیں لگتی تھی مگر انڈے کی سمیل کا نہیں پتہ تھا۔۔۔"
مہدیہ نے نقاہت بھرے لہجے میں کہا اور آہستہ سے چارپائی پہ کروٹ لے کر لیٹ گئ۔۔۔
" کونسا منتھ چل رہا ہے بیٹا تمہارا۔۔۔پہلے کسی ڈاکٹر کو دکھایا کیا۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے پوچھا۔۔۔
" تھرڈ منتھ ہے۔۔۔سٹارٹ میں خالہ نے ایک بار دکھایا تھا پھر موقع ہی نہیں ملا۔۔۔"
مہدیہ نے جواب دیا۔۔۔
" چلو کوئی بات نہیں یہاں پاس میں ہی ایک کلینک ہے وہاں ایک لیڈی ڈاکٹر بیٹھتی ہے شام کو اس کو دکھا لیں گے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے کہا
" ماسو اسکی ضرورت نہیں ہے میں ٹھیک ہوں آپ فکرمند نہ ہوں ابھی کچھ دیر تک طبیعت سنبھل جائے گی۔۔۔"
مہدیہ رضوانہ خاتون کے گھر کے حالات کا کچھ کچھ اندازہ لگا چکی تھی اس لیے اسکا دل نہیں مانا کہ بلاوجہ کا مزید بوجھ ان پہ ڈالے۔۔۔
" ضرورت کیوں نہیں ہے بیٹا بہت ضروری ہے یہ کہ ایسی حالت میں ڈاکٹر سے رابطہ رکھا جائے۔۔۔"
" بیٹا تمہیں رحمو بابا کا نمبر یاد ہے کیا۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے کچھ دیر بعد پوچھا۔۔۔
" جی خالہ یاد ہے۔۔۔"
ٹھیک ہے بیٹا آپ مجھے نمبر لکھوا دو۔۔۔میں ان سے بات کرتی ہوں تاکہ ان سے تمہارے بابا کا ایڈریس معلوم ہوسکے تو ان سے رابطہ کیا جا سکے تمہارا سامان تمہارے پاس ہوتا تو ہمیں ان سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔
مجھے غلط مت سمجھنا بیٹا اور نہ ہی یہ سوچنا کہ تم مجھ پہ بوجھ ہو ایسا ہرگز نہیں ہے تمہارے بابا کو ڈونڈھ کر ایک بار ان سے ملنا بہت ضروری ہے اگر وہ تمہیں اپنے سایہ شفقت میں لیتے ہیں تو یہ تمہارے لیے بہت خوش قسمتی کی بات ہوگی۔۔۔اور اگر اس کے الٹ ہوا۔۔۔تو تمہاری اس ماسو ماں کے گھر میں بھی اور دل میں بھی بہت جگہ ہے تمہارے لیے۔۔۔میں بس اپنے ضمیر کے سامنے سرخرو ہونا چاہتی ہوں کہ حقدار تک اس کا حق پہچانے کی میں نے اپنی کوشش کی تھی۔۔۔
خیر تم اب آرام کرو فاطمہ تمہارا ناشتہ ادھر ہی دے دے گی۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے اسے آرام کرنے اور پھر اس کا ناشتہ کمرے میں ہی اس کو دینے کا فاطمہ سے کہتے ہوئے روم سے باہر نکل گئیں۔۔۔
" امی جان کل تو جیسے تیسے کر کے میں نے بات سنبھال لی تھی آنٹی رضیہ نے آپکی جگہ سارا کام بھی دیکھ لیا تھا مگر روز روز تو یہ ممکن نہیں اور مہدیہ کو بھی ایسے گھر پہ اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں۔۔۔
کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔۔۔"
مہدیہ کو روم میں ہی ناشتہ دے کر پھر جلدی جلدی گھر کی صفائی ستھرائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ منہ ہاتھ دھو کر اپنی والدہ کے پاس آ بیٹھی جو کہ ناشتے سے تقریباً فارغ ہو چکی تھیں۔۔۔
فاطمہ نے اپنی والدہ کے تھوڑا قریب ہو کر اتنی آہستہ آواز میں کہا کہ مہدیہ تک اس کی آواز نہ جائے۔۔۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ مہدیہ اس کی بات سن کر سمجھے کہ وہ شائد انکے لیے بوجھ بن رہی ہے۔۔۔
" بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔۔۔میں سوچ رہی تھی کہ آج سیٹھ صاحب سے بات کرتی ہوں انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ اگر ہم لوگ سرونٹ کوارٹر میں شفٹ ہونا چاہیں تو وہ انتظام کروا دیتے ہیں اس وقت میرا دل نہیں مانا مگر لگتا ہے کہ اب ان سے بات کرنی پڑے گی ہم ادھر شفٹ ہو جاتے ہیں اس طرح سے مہدیہ کی بھی فکر نہیں رہے گی۔۔۔آج ہم مہدیہ کو اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں اسے ڈاکٹر کو بھی دکھا لیں گے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔۔۔
" ٹھیک ہے امی جان جیسے آپکو بہتر لگے آپ ویسے ہی کریں۔۔۔مگر اسکے بابا کا پتہ چلنے کے بعد وہ اسے لے گئے تو ہم پھر بھی انیکسی میں ہی رہیں گے کیا۔۔۔مجھے مہدیہ کے لیے بھی ڈر لگ رہا ہے امی جان۔۔۔جانے اسکی فیملی میں کون کون ہے۔۔۔باپ بھائی اگر اسکو اپنے ساتھ لے گئے تو نہ جانے کیسا سلوک کریں اس کے ساتھ اور اگر اس کے ساتھ ان لوگوں نے کچھ برا کیا تو ساری عمر پھر یہ پچھتاوہ رہے گا کہ کاش ہم اس کے گھر والوں سے رابطہ نہ کرتے۔۔۔
سچ پوچھیں تو مجھے مہدیہ اتنی اچھی لگی ہے کہ دل کرتا ہے وہ کہیں نہ جائے یہیں رہے ہمارے پاس۔۔۔"
فاطمہ نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے کرتے اپنے دل کی خواہش کا بھی اظہار کیا تو رضوانہ خاتون اس کی بات سن کر مسکرا دیں۔۔۔
" فاطمہ تمہارے یہ خدشات بلا وجہ نہیں ہیں اس سب کے بارے میں سوچ کر میرا دل بھی پریشان ہوتا ہے ابھی چند دن ہوئے ہیں اس بچی کو آئے مگر ایسا لگتا ہے وہ میرے ہی وجود کا حصّٰہ ہے۔۔۔
اس کے بابا کو میں تلاش کروں گی بس ایک بار انکا پتہ معلوم ہو جائے پھر بہت دیکھ بھال کر اگر وہ لوگ بھروسے لائق لگے تو مہدیہ کا انکو بتا دیں گے نہیں تو یہ چیپٹر ہمیشہ کے لیے بند کردیں گے۔۔۔ الّٰلہ اس کے رستے آسان فرمائے اور اسے وہی عطا کرے جو اس کے لیے اچھا ہے۔۔۔
تم نے بھی ناشتہ کر لیا ہے تو ساری چیزیں سمیٹو جلدی سے۔۔۔سیٹھ صاحب کے گھر سے بھی دیر ہو رہی ہے۔۔۔دس بجے تک سب لوگ اٹھ جاتے ہیں۔۔۔اور انکے اٹھنے سے پہلے نہ صرف ہمیں وہاں پہنچنا ہے بلکہ سب کے لیے ناشتہ بھی تیار کرنا ہے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے کہا اور فاطمہ کے ساتھ مل کر بکھری ہوئی چیزیں سمیٹنے لگیں۔۔۔
" مہدیہ بیٹا آج آپ ہمارے ساتھ ہی چلو گی۔۔۔اور اچھے سے فاطمہ کی طرح حجاب سے اپنے چہرے کو کور کر لینا بیٹا۔۔۔ایک دو دن تک یہ مسلہ بھی حل ہو جائے گا انشاء الّٰلہ۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


مہرالنساء کو سینے پہ ہاتھ رکھے زمین پہ بیٹھتے دیکھ کر رشید احمد کی ہنسی کو یکدم بریک لگی تھی۔۔وہ دو منٹ کو تو یونہی دیکھتا رہا کہ شائد خود ہی اٹھ کھڑی ہو مگر جب اس نے دیکھا کہ اسکی حالت بگڑتی جا رہی ہے تو پھر جلدی سے مہرالنساء کو اٹھا کر بیڈ پہ لٹا کر کمبل اوڑھا کر بھاگنے کے انداز میں دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔۔
" عائلہ۔۔۔عائلہ بیٹا۔۔۔بیٹا جلدی دروازہ کھولو۔۔۔"
رشید احمد نے عائلہ اور عینا کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے انکا دروازہ بجایا اور ساتھ ہی عائلہ کو بھی آوازیں دینے لگا۔۔۔
" یہ تو بابا کی آواز ہے۔۔۔یا الّٰلہ خیر۔۔۔"
دروازے پہ زور زور سے دستک کی آواز پہ عائلہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی اٹھتے ہی اسکی نظر فوراً سامنے لگے کلاک پہ گئ تو گھڑی اس وقت رات کے 3 بجا رہی تھی۔۔۔اپنے بابا کی پریشانی میں ڈوبی آواز پہ اس کا دھیان ایک پل میں اپنی ماں کی طرف گیا تھا بڑبڑاتے ہوئے وہ تیزی سے لحاف سے نکلی سرہانے رکھا اپنا دوپٹہ اپنے ارد گرد ٹھیک سے اوڑھا اور جوتا پہن کر عینا کو بھی زور سے ہلاتے ہوئے فوراً دروازہ کھولنے کو آگے بڑھی۔۔۔
" بابا کیا ہوا ہے۔۔۔امی جان تو ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"؟
دروازہ کھولتے ہی وہ تیزی سے بولی تھی۔۔۔اسکے پیچھے عینا بھی آ کھڑی ہوئی۔۔۔
" بیٹا میں یہی کہنے آیا تھا تمہاری ماں کی طبیعت اچانک سے خراب ہو گئ ہے اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اسکو کونسی میڈیسن۔۔۔"
رشید احمد نے اپنے چہرے پہ فکرمندی و پریشانی کا لبادہ اوڑھے ابھی اپنی بات بھی پوری نہیں کی بھی کہ عائلہ اور عینا بھاگتی ہوئی اپنی ماں کے کمرے میں پہنچی تھیں۔۔۔
" انتہائی سخت جان ہے یہ عورت۔۔۔اتنا سخت ہارٹ اٹیک ہونے کے باوجود بھی پتہ نہیں کیسے بچ گئ یہ۔۔۔الّٰلہ کرے یہ اٹیک آخری اٹیک ثابت ہو۔۔۔خس کم جہاں پاک۔۔۔"
منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے رشید احمد بھی مہرالنساء کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔۔اسے تڑپتے دیکھ کر رشید احمد کا دل چاہ رہا تھا کہ مہرالنساء کو اسی حالت میں رہنے دے مگر پھر یہ سوچ کر بچیوں کو اٹھانے چل دیا کہ اگر اب اس وقت اس کی موجودگی میں وہ مر مرا گئ تو سارا الزام اسکے سر رکھ دیں گی عائلہ اور عینا۔۔۔اور عائلہ کے دل میں جو نرم گوشہ وہ اپنے لیے پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا فلحال اس سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا تھا۔۔۔
" امی جان پلیز آنکھیں کھولیں۔۔۔یہ دوائی لے لیں۔۔۔پلیز امی جان۔۔۔"
عائلہ اور عینا جیسے ہی اپنی ماں کے روم میں پہنچیں تو سامنے ہی بیڈ پہ اپنی ماں کو تڑپتے دیکھ کر دونوں کے اوسان خطا ہو گئے مہرالنساء کا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا اور وہ سینے پہ ہاتھ رکھے لگاتار کچھ بڑبڑائے جا رہی تھیں جسے سمجھ پانا انکے لیے ناممکن ہو رہا تھا۔۔۔
عائلہ جلدی سے اپنی والدہ کا بی۔پی اوپریٹر سے انکا بی۔پی چیک کرنے لگی۔۔۔تو عینا میڈیسن بوکس سے دو ٹیبلٹ نکال کو مہرالنساء کی زبان کے نیچے رکھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔عینا عائلہ کے بار بار پکارنے پر بھی جب مہرالنساء نے منہ نہیں کھولا تو عینا نے دائیں ہاتھ میں ٹیبلٹ پکڑیں اور بائیں ہاتھ سے انکے منہ پہ تھوڑا دباؤ ڈالا اور ساتھ اونچی آواز میں منت کرتے ہوئے ٹیبلٹ لینے کا کہا تو مہرالنساء نے ہلکا سا منہ کھولا۔۔۔عینا نے تیزی سے ٹیبلٹ انکی زبان کے نیچے رکھ دیں۔۔۔ساتھ ہی دو تین مزید ٹیبلٹ بھی انکو کھلا دیں۔۔۔
10، 15 منٹ بعد انکے چہرے کی پیلاہٹ میں کافی حد تک کمی آ چکی تھی اور چہرے پہ تکلیف کے آثار بھی کم تھے۔۔۔
عینا نے انکی طبیعت میں کچھ بہتری دیکھی تو ساتھ میں ایک ریلکیسن کی ٹیبلٹ بھی دے دی جس سے ان پہ غنودگی طاری ہونے لگی۔۔۔
" ع ع عائ لہ۔۔۔بب بچ بیچ دیا۔۔۔م می ری ع عائلہ۔۔۔"
نیند کی آغوش میں جاتے ہوئے مہرالنساء مسلسل بڑبڑا تہی تھیں عائلہ اور عینا نے انکی منہ کے پاس اپنا چہرہ جھکا کر کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو جوڑ کر جو انکو سمجھ آیا اس نے عائلہ کو خوفزدہ کردیا جبکہ عینا آنکھیں پھاڑے کبھی اپنی ماں کی طرف دیکھتی کبھی عائلہ کی طرف اور کبھی اپنے باپ کی طرف۔۔۔
" کیا کیا ہے آپ نے۔۔۔کیا کہا ہے آپ نے میری ماں سے جو انکی ایسی حالت ہو گئی ہے۔۔۔"
عینا یکدم بپھرے تیور کے ساتھ رشید احمد کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور انتہائی غصے سے بولی۔۔۔
" میں نے کیا کہنا تھا یہ تو ہے ہی برسوں سے بیمار۔۔۔اور یہ مت بھولو کہ یہ تمہاری ماں ہی نہیں میری بیوی بھی ہے۔۔۔اگر میں نے کچھ کہا ہوتا یا کیا ہوتا تو تم لوگوں کو بلا کر نہ لاتا بلکہ ایسے ہی مرنے دیتا۔۔۔"
رشید احمد بھی انتہائی غصے اور تلخی سے بولا۔۔۔
" صبح سے لے کر رات سونے تک تو انکی طبیعت بلکل ٹھیک تھی پھر اچانک سے ایسا کیا ہوگیا کہ انکا B.P اتنا شوٹ کر گیا۔۔۔اور عائلہ آپی کی کیا بات ہے۔۔۔کیا کیا ہے آپ نے آپی کے ساتھ۔۔۔"
عینا نے بنا ڈرے جھجکے رشید احمد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر سوال کیا۔۔۔
" میرا دماغ مت کھاؤ بہت لحاظ کر رہا ہوں تمہارا ایسا نہ ہو کہ کچھ غلط کر بیٹھوں میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔۔۔"
رشید احمد غصے سے بولتا تن فن کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
عینا غصے سے دروازے کو گھورتی رہی جہاں سے تھوڑی دیر پہلے رشید احمد نکل کر گیا تھا۔۔۔پھر اس نے سر جھٹک کر عائلہ کی طرف دیکھا جو بے جان سی بیڈ پہ اپنی ماں کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 

Episode,34#

" امی جان۔۔۔ آپکو اّٰللہ کا واسطہ ہے پلیززز مجھے معاف کردیں آپ غلط نہیں ہیں نہ ہی آپکی تربیت میں کوئی کھوٹ ہے۔۔۔اور نہ ہی آپ ایک ناکام عورت ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ نے ہماری تربیت میں ہمیں ایک اچھا انسان بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔۔۔
آپ کا بیٹا ایک بزدل انسان نہیں ہے ماما جو حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے وہاں سے بھاگ نکلے۔۔۔مگر جب حالات انسان کے سامنے اسکے اپنوں کو لا کر کھڑا کردیں کہ جن کے لیے انسان اپنی جان تک دے سکتا ہو تو اس وقت لڑا نہیں جاتا انسان ٹوٹ جاتا ہے کمزور پڑ جاتا ہے۔۔۔
میں بھی ٹوٹ گیا تھا میں بہت پریشان تھا کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا مجھے خود سے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے منہ سے نکلا کوئی لفظ میرے اپنوں کی دل آزاری کا سبب نہ بن جائے۔۔۔
اس لیے مجھے یہاں سے فوراً جانا ہی بہتر لگا اور اسی پریشانی میں۔۔۔مجھ سے غلطی ہو گئ۔۔۔
پلیززز ماما بس ایک بار مجھے معاف کردیں۔۔۔مجھے احتشام شاہ کہ کر نہیں پکاریں۔۔۔میں مر رہا ہوں ماما۔۔۔ آپکی ناراضگی مجھ سے سہن نہیں ہو رہی۔۔۔پلیززز ماما خدا کے لیے مجھے معاف کردیں۔۔۔"
احتشام شاہ زمین پہ دوزانو بیٹھا ہائمہ خاتون کے گھٹنوں پہ سر رکھ کر سسک پڑا وہ جان چکا تھا کہ اتنی دور نظروں سے غائب ہونے کے باوجود اس کی ماں نہ صرف یہ جان چکی ہیں کہ وہ ایک ناپاک اور حرام چیز کو منہ لگاتا ہے بلکہ وہ یہ بھی جان چکی ہیں کہ وہ میٹنگ کا بہانہ کر کے یہاں سے کیوں ایسے اچانک چلا گیا تھا اس لیے اب کچھ بھی چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔۔
اسکی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت بہ نکلے آج زندگی میں پہلی بار وہ رو رہا تھا بلکل کسی چھوٹے بچے کی طرح۔۔۔
" پریشان تھے آپ۔۔۔ہاں۔۔۔تو ٹھیک ہے رات سے میں بھی بہت پریشان ہوں۔۔۔دو گھونٹ مجھے بھی پلا دو۔۔۔تمہارے بابا بھی کل سے بہت پریشان ہیں انکو بھی پلا دو۔۔۔فجر بھی دو دن سے بہت خاموش سی ہے اپنی آنے والی زندگی کو لے کر کچھ وسوسے اسکے دل میں پل رہے ہیں جا کر اس کو بھی پلا دو تا کہ اسکو سکون ملے۔۔۔
اگر پینے سے سکون ملتا ہے پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں تو ہم سب کو پلاؤ احتشام شاہ۔۔۔
احتشام شاہ نے تڑپ کر آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر اپنی ماں کی طرف شاکی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
" ایسے مت دیکھو میری طرف۔۔۔میں نے آپ کی کہی بات کا ہی جواب دیا ہے۔۔۔
اور کونسا رشتہ آپ کے سامنا کھڑا تھا آپ نے تو اپنی صفائی میں کسی کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا خود ہی سوال بنائے اور خود ہی جواب بنا کر اپنے بابا کو اپنے دل کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کو مجرم ثابت کردیا۔۔۔
جو رشتے دل میں بستے ہوں ان کی کوئی بات بری لگے تو ان سے جھگڑا نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے موقع دیکھ کر بات کی جاتی ہے اپنی بات کہی جاتی ہے ان کی سنی جاتی ہے۔۔۔
جب حالات ہمیں اس موڑ پہ لے آئیں کہ ہمارے اپنوں کو ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دیں اور ہمیں اس بات سے ڈر لگنے لگے کہ ہمارا کوئی لفظ ہمارے اپنوں کا دل نہ دکھا دے تو وقتی طور پہ انکی نظروں کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں مگر وہ شہر یا گھر چھوڑ کر نہیں چلے جاتے ایسا کرنے سے دلوں میں غلط فہمیاں جنم لینے لگتی ہیں۔۔۔
جن سے ہم پیار کرتے ہوں انکو کبھی بھی کسی بھی حال میں چھوڑ کر نہیں جاتے چاہے وہ کتنی بڑی غلطی کیوں نہ کر بیٹھے ہوں ہو سکتا ہے کہ جو ہماری نظر میں غلطی ہو اصل میں وہ غلطی انھوں نے کی ہی نہ ہو۔۔۔
یا انھوں نے جو آپ سے کہا ہو اس کا وہ مطلب نہ ہو جو آپ سمجھے ہوں اس لیے کبھی بھی خود سے جڑے رشتوں سے بات کرنا نہیں چھوڑتے۔۔۔
دل میں بات رکھ کر خاموشی کا لبادہ اوڑھ لینے سے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں دلوں میں بدگمانیاں گھر کر لیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جو رشتے ہمیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہوتے ہیں وہ ہمارے دل میں اپنی قدر و منزلت کھو دیتے ہیں اور پھر انکو ٹوٹتے بکھرتے دیر نہیں لگتی۔۔۔
اور اگر معافی مانگنی ہے تو الّٰلہ سے مانگو جس کے حکم کی آپ نے نافرمانی کی ہے جس کی قائم کردہ حد کو آپ نے پار کیا ہے۔۔۔میری ناراضگی آپ سے سہن نہیں ہو رہی۔۔۔تو کیا الّٰلہ کے ناراض ہو جانے سے آپ کو خوف نہیں آیا حرام چیز کو منہ لگاتے ایک پل کو بھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اسی زبان سے جسے آپ ناپاک کر چکے ہو اس سے کیسے الّٰلہ کا نام لو گے کیسے الّٰلہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوگے جو انسان اس کے کھینچے گئے دائرے سے قدم باہر نکالتا ہے اس کا شمار نافرمان بندوں میں ہو جاتا ہے۔۔۔الٰلہ سے معافی مانگو آئندہ کے لیے سچے دل سے توبہ کرو۔۔۔"
اپنی والدہ کے منہ سے نکلے ہر لفظ پہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے بال نوچے ندامت کے مارے وہ زمین میں دھنستا جا رہا تھا اس کے آنسو اس کی آنکھوں سے بہ بہ کر زمین میں جزب ہوتے جا رہے تھے۔۔۔یونہی سر جھکائے اس کو روتا دیکھ کر ہائمہ خاتون کا دل کٹ کر رہ گیا مگر اس وقت وہ کسی قسم کی نرمی سے پیش نہیں آنا چاہتی تھیں احتشام شاہ کے بھٹکے قدموں کو وہ یہیں روک دینا چاہتی تھیں۔۔۔
" اٹھو۔۔۔اور اٹھ کر پہلے نہاؤ اور پھر میرے سامنے دوبارہ کلمہ پڑھو اور مجھ سے وعدہ کرو کہ چاہے زندگی میں کیسی ہی پریشانی کیوں نہ آئے کچھ بھی ہو جائے کبھی بھی دوبارہ اس کو منہ نہیں لگاؤ گے۔۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اب کے ذرا نرمی اور شفقت سے کہا اور احتشام شاہ کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگیں۔۔۔
" میں وعدہ کرتا ہوں ماما کہ آج کے بعد چاہے کچھ بھی ہو جائے میں کبھی اس غلیظ چیز کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا کبھی کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے بابا کا سر جھکے اور آپکو دکھ ہو۔۔۔اور میں الّٰلہ کے نافرمان بندوں میں لکھ دیا جاؤں میں وعدہ کرتا ہوں ماما کہ زندگی میں اب کبھی بھی الّٰلہ کے کھینچے گئے دائرے سے قدم باہر نہیں رکھوں گا کبھی اسکی قائم کردہ حدود کو نہیں پھلانگوں گا۔۔۔میں بلکل ویسا ہی بیٹا بنوں گا کہ جس پہ آپکو اور بابا کو فخر ہو۔۔۔"
احتشام شاہ نے ہائمہ خاتون کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کر سچے دل سے وعدہ کیا۔۔۔وہ سخت نادم ہو رہا تھا اسے اپنے بابا کے الفاظ یاد آ رہے تھے کہ جب تمہاری ماں کو پتہ چلے گا کہ تم پیتے ہو تو سوچو ان کا کیا حال ہوگا اور آج جب اس کا یہ بھید اپنی ماں کے سامنے کھلا تھا تو اس کو اب اپنے بابا کی کہی بات کی سمجھ آئی تھی آج اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کی ماں کے سامنے اس کا سچ آنے سے بہتر تھا کہ اسے موت آ جاتی تو وہ یوں اپنی ماں کے سامنے شرمندہ تو نہ ہوتا۔۔۔
ایک وعدہ اس نے تب اپنے بابا سے بھی کیا تھا جو توڑ دیا تھا اور اگر اس بات کا پتہ اسکی ماں کو چل جاتا تو۔۔۔
" احتشام۔۔۔کب سے ہے یہ عادت تمہیں۔۔۔"
احتشام شاہ فریش ہونے کے لیے اٹھ کر وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال رہا تھا جب ہائمہ خاتون نے سوال کیا۔۔۔انکی بات سن کر وہ وہیں ساکت رہ گیا۔۔۔
" میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔۔کب سے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔۔۔
" ماما عادت نہیں ہے بس کبھی کبار دوستوں کے ساتھ۔۔۔مگر اب کبھی نہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے سر جھکائے کہا۔۔۔
"صارم اور تمہارے بابا جانتے ہیں کیا اس بارے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے دوسرا سوال کیا تو احتشام شاہ جواب دینے کی بجائے نظریں زمین میں گڑائے خاموش کھڑا رہا۔۔۔
" ٹھیک ہے جاؤ جا کے فریش ہو جاؤ۔۔۔باقی کی باتیں تمہارے بابا کے آنے پہ بعد میں ہوں گی۔۔۔"
اسکی خاموشی سے ہائمہ خاتون کو اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔۔۔اس لیے اسے مزید شرمندہ کرنے کے بجائے انھوں نے بات کا موضوع بدل دیا۔۔۔جبکہ بابا کے آنے پہ بات ہوگی پر اس کا ذہن ایک پل کو الجھا تھا پھر اثبات میں سر ہلاتا وہ اپنے کپڑے وارڈروب سے نکال کر واش روم میں گھس گیا۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


رشید احمد تو عینا کے سوالوں سے بچنے کے لیے راہ فرار حاصل کر چکا تھا مگر عائلہ اور عینا اسکے جانے کے بعد بھی کئ لمحوں تک اپنی ماں کے منہ سے نکلے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کی قید میں جکڑی رہیں۔۔۔جن پہ یقین کرنے کے باوجود بھی وہ یقین نہیں کرنا چاہ رہی تھیں ایک ایسی اذیت جس کا دروازہ تو انکو دکھا تھا مگر اس دروازے کے پار کیا ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا نہ کوئی سرا ہاتھ لگا تھا مگر دونوں اتنا ضرور اچھے سے جان گئیں تھیں کہ ان کی ماں کی طبیعت کی خرابی کا تعلق انکے باپ کی ہی کسی گھٹیا حرکت کی دین ہے۔۔۔
اور اس بات کا کوئی سرا عائلہ سے جڑا ہوا ہے یا ساری بات ہی عائلہ سے جڑی ہے۔۔۔کوئی ایسی بات جس نے انکی والدہ کو پھر موت کی طرف دھکیل دیا ہے۔۔۔
کیونکہ سکون آور میڈیسن کے زیر اثر ہونے باوجود بھی انکی ماں کو سکون نہیں مل رہا تھا وہ ساری رات ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں عائلہ کو پکارتی رہیں اسی کا نام لیتی رہیں۔۔۔
عینا اپنے روم میں جاکر ایمن کو بھی اٹھا کر اپنی والدہ کے روم میں ہی اپنے پاس لے آئی تھی پھر فجر کی نماز ادا کرکے اس نے عائلہ کی طرف دیکھا جو نماز ادا کرنے کے بعد سجدے میں گری الّٰلہ سے سلامتی کی دعا مانگ رہی تھی اسکے لرزتے بدن سے عینا کو اندازہ لگانا مشکل نہ ہوا کہ وہ بے آواز آنسو بہا رہی ہے۔۔۔
ابھی رات کو ہی تو اس نے صارم کے حق میں فیصلہ دیتے اس سے کہا تھا کہ وہ امی کو اسکی طرف سے ہاں بول دے عائلہ کی طرف سے ہاں سن کر وہ کتنا خوش تھی صارم کو تنگ کرنے کے منصوبے بنانے کے ساتھ ساتھ اس نے عائلہ سے کہا تھا کہ چونکہ وہ صارم کی بہن ہے تو کبھی کبھی اس کی نند بھی بنا کرے گی اس لیے اس کو چپ چاپ اس کے نخرے برداشت کرنا ہوں گے کتنی باتیں کیں تھیں ان دونوں بہنوں نے رات کو ہی عائلہ کی شادی کو لے کر مگر اپنی ماں کے منہ سے سنے لفظوں نے ان دونوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔۔
" عائلہ۔۔۔عائلہ میری بچی۔۔۔ص صارم کو بلاؤ ابھی۔۔۔ف فف فون کرو اسے ابھی۔۔۔ابھی بلاؤ اسے۔۔۔"
عینا نے ابھی عائلہ کو اٹھانے کے لیے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ مہرالنساء کی آواز ان دونوں کے کانوں میں پڑی جو نیند سے جاگ گئیں تھیں شائد ۔۔۔اور اٹھتے ہی بے ربط جملے ادا کرنے لگی تھیں۔۔
" ماما۔۔۔ماما کیا ہوا۔۔۔ادھر دیکھیں میری طرف۔۔۔کیا کیا ہے بابا نے۔۔۔ماما پلیز بتائیں ہمیں کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
عینا اور عائلہ نے تیزی سے اٹھ کر مہرالنساء کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پوچھا مگر وہ انکی کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھیں آنسو بہاتے ہوئے وہ بس ایک ہی تکرار کیے جا رہی تھیں۔۔۔
" عائلہ۔۔۔ادھر میرے پاس ہی رہو۔۔۔د د دروازے کو بند کردو۔۔۔کہیں نہیں جائے گی یہ۔۔۔وہ۔۔۔وہ آ رہا ہے اسے لینے۔۔۔کہیں نہیں۔۔۔کہیں نہیں جانے دوں گی میں۔۔۔
بیچ دیا میری بچی کو اس نے۔۔۔عائلہ کو دے دیا اس نے کسی کو۔۔۔صارم۔۔۔صرف صارم بچا سکتا ہے اسکو۔۔۔ص صارم کو بلاؤ
مہرالنساء نے پاس بیٹھی عائلہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے جکڑتے ہوئے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہا ایسا لگ رہا تھا جیسے انکو ڈر ہو کہ اگر انھوں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تو عائلہ کو ان سے کوئی چھین لے گا۔۔۔انکی طبیعت پھر سے خراب ہونے لگی تھی چہرے پہ تکلیف اور اذیت کے واضح اثرات کے ساتھ ساتھ انکے ماتھے پہ سردی میں بھی پسینہ چمکنے لگا۔۔۔سانس لینے میں انکو دقت ہو رہی تھی۔۔۔
"امی جان میں آپ کے پاس ہی ہوں کہیں نہیں جارہی میں۔۔۔پلیز امی جان پرسکون رہیں آپکی طبعت خراب ہوجائے گی کچھ نہیں ہوگا مجھے۔۔۔آپ ہیں ناں میرے پاس۔۔۔پلیز امی جان دیکھیں میری طرف۔۔۔
امی جان میں ابھی صارم بھائی کو فون کرتی ہوں۔۔۔ امی جان سانس لیں پلیز لمبے لمبے سانس لیں۔۔۔امی جان۔۔۔امی جان۔۔۔۔۔۔۔۔"
عائلہ اور عینا سے مہرالنساء کو سنبھالنا محال ہو رہا تھا دونوں ہی اپنی والدہ کو پرسکون کرنے کے لیے ہلکان ہوئے جا رہی تھیں۔۔۔کہ اچانک وہ ایک طرف کو لڑھک گئیں عائلہ، عینا اور ایمن کے منہ سے بے اختیار ایک بلند چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔
" ڈ ڈاکٹر کو فون کرو۔۔۔جلدی۔۔۔"
عائلہ یکدم ہزیانی ہوتے ہوئے چلائی تھی۔۔۔
" کک کیا ہوا ہے۔۔۔تم لوگ چلا کیوں رہی ہو۔۔۔"؟
رشید احمد چیخ کی آواز سن کر فوراً کمرے میں آیا تھا اور آتے ہی پریشانی سے پوچھا مگر تینوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔۔۔
" جلدی سے اپنی ماں کو اچھے سے گرم چادر اوڑھا دو میں ابھی اکبر گاڑی والے کو لے کر آتا ہوں۔۔۔"
مہرالنساء کو بے ہوش دیکھ کر رشید احمد نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔

" دیکھیں میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ ان کو ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھیے گا مگر آپ لوگوں نے میری بات پہ شائد دھیان نہیں دیا۔۔۔کسی شدید سٹریس کی وجہ سے ان کا بی پی خطرناک حد تک شوٹ کر گیا تھا اور اسی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئ تھیں۔۔۔
وہ تو الّٰلہ کا شکر ہے کہ آپ نے سمجھداری سے رات کو ہی انکو میڈیسنز دے دیں اور اب ٹائم پہ لے آئے نہیں تو انکی زندگی بچانا بہت مشکل ہو جاتا۔۔۔
خیر اب وہ پہلے سے کافی بہتر ہیں باری باری آپ لوگ انکو مل سکتے ہیں ایک دو گھنٹے مزید انڈراوبزرویشن رکھنے کے بعد آپ چاہیں تو گھر لے جائیں۔۔۔اور پلیز کوشش کریں کہ ان سے زیادہ بات نہ کریں وہ فلحال جتنا ریسٹ کریں گی ان کے لیے اچھا ہوگا۔۔۔
اور ایک بات اور کہ آپکی ماما کا ہارٹ اتنا ویک ہو چکا ہے کہ اب وہ ہلکا سا بھی سٹریس برداشت نہیں کر پائیں گی کسی قسم کا بھی شور شرابہ لڑائی جھگڑا یا اچانک ملنے والی خوشی یا غم انکے لیے لاسٹ اور انتہائی خطرناک اٹیک ثابت ہو سکتا ہے اور اگر اب انکو اٹیک ہوا تو ‰100 چانس ہیں کہ آپ اپنی والدہ کو کھو دیں گی۔۔۔"
صبح سے وہ لوگ روم کے باہر کھڑی ہو کر اپنی والدہ کو شیشے کے پار ٹریٹمنٹ دیتے ٹکٹکی باندھے تک رہی تھیں آخر دو گھنٹے بعد ڈاکٹر روم سے باہر آیا اور انکو حیات افروز نوید سنائی کہ اب انکی والدہ خطرے سے باہر ہیں مگر ڈاکٹر کی دوسری بات انکو شدید پریشان بھی کر گئ۔۔۔ڈاکٹر کے جانے کے بعد سب سے پہلے عائلہ اپنی والدہ سے ملنے کے لیے روم میں داخل ہوئی۔۔۔
" عائلہ میری بچی عینا کو بلاؤ میرے پاس۔۔۔"
عائلہ جیسے ہی روم میں داخل ہوئی مہرالنساء نے بدقت کہا۔۔۔تو عائلہ نے فوراً جی کہ عینا کو آواز دی اس کے ساتھ ایمن اور رشید احمد بھی اندر داخ ہوا۔۔۔
" عینا اپنے باپ سے کہو کہ مجھے اس سے نہیں ملنا۔۔۔"
رشید احمد پہ نظر پڑتے ہی مہرالنساء نے منہ پھیر کر کہا۔۔۔تو رشید احمد ایک غصیلی نگاہ سب پہ ڈال کر روم سے باہر نکل گیا۔۔۔
" عینا بیٹا جتنی جلدی ہو صارم کو بلاؤ مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔اس سے کہو کہ اپنی والدہ کو بھی ساتھ لے کر آئے۔۔۔"
مہرالنساء نے عینا کو اپنے پاس بلا کر آہستہ آہستہ کہا۔۔۔
" امی جان پلیز آپ فکر مت کریں سب ٹھیک ہو جائے گا آپ جلدی سے ٹھیک ہو کر بس گھر آ جائیں میں کچھ نہیں ہونے دوں گی آپی کو اور نہ کسی اور کو۔۔۔آپ پلیز بس اپنا خیال رکھیں ماما۔۔۔پلیز ہماری خاطر۔۔۔"
عینا نے اپنی والدہ کے پاس بیٹھ کر انکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر دبا کر کہا۔۔۔
" تم لوگ میری بات نہیں سمجھ رہی کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔۔ت تہمارا۔۔باپ۔۔۔"
بات کرتے کرتے مہرالنساء کا سانس پھر سے اکھڑنے لگا تھا۔۔۔جسکی وجہ سے عینا فوراً ڈاکٹر کو بلانے دوڑی۔۔۔ڈاکٹر نے مہرالنساء کی طبیعت کو دیکھ کر سب کو فوراً روم سے باہر جانے کا کہا اور مہرالنساء کو دیکھنے لگا۔۔۔
" میں نے آپکو منع کیا تھا کہ آپ لوگ اپنی والدہ سے باری باری ملیے گا۔۔۔آپکو سمجھ نہیں آ رہی میری بات کی کیا۔۔۔کیوں اپنی ماں کی جان کی دشمن بن رہی ہیں آپ لوگ۔۔۔"
ڈاکٹر نے مہرالنساء کو فوراً نیند کا انجیکسشن اور چند دوسری میڈیسن دیں اور باہر آ کر درشتی سے بولا۔۔۔
" سوری سر ہم دھیان رکھیں گے اب۔۔۔"
عینا اور عائلہ نے معزرت کرتے کہا۔۔۔
" یہی بہتر ہوگا آپکے لیے۔۔۔اور پلیز اب کوئی ان سے ملنے کی کوشش نہ کرے فلحال۔۔۔
ڈاکٹر اتنا کہ کر چلا گیا۔۔۔
2 بجے کے قریب مہرالنساء کی ضد پہ انکو ہاسپٹل سے ڈسچارج کردیا گیا عینا نے روم سے باہر نکل کر اپنے باپ کو دیکھا کہیں بھی نظر نہ آنے پہ اس نے صارم شاہ کو فون کرنا چاہا تو عائلہ نے اسے منع کردیا کہ چھوٹی چھوٹی بات پہ ان سے مدد مانگنا ٹھیک نہیں پھر عینا نے کیب بلوائی اور اپنی والدہ کو اس میں بٹھا کر گھر آ گئیں۔۔۔
" یہ اتنا سامان کون لایا ہے۔۔۔یہ کہاں سے آیا۔۔۔"
اپنی والدہ کو ان کے روم میں لٹا کر اور ایمن کو انکے پاس بیٹھا کر عینا اور عائلہ کچن میں اپنی والدہ کے لیے سوپ بنانے کے لیے آئیں تو کچن کی سلیب پر انواع و اقسام کے لوازمات پڑے دیکھ کر حیران ہو کر بولیں۔۔۔
" بابا۔۔۔"
عائلہ نے پزمردگی سے یک لفظی جواب دیا۔۔۔
" اوہ آ گئیں تم لوگ۔۔۔اب کیسی طبیعت ہے تمہاری ماں کی۔۔۔میں نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے تمہاری ماں کی طبیعت مزید خراب ہو اس لیے میں وہاں سے چلا آیا۔۔۔"
رشید احمد نے اپنے آنے کی وضاحت پیش کرتے کہا۔۔۔
" میں نے رات کو بھی آپ سے کچھ پوچھا تھا جس کا آپ نے جواب نہیں دیا اب پھر پوچھ رہی ہوں کہ کیا کیا ہے آپ نے جو ماما اس قدر پریشان ہوئیں کہ انکی طبیعت خراب ہو گئ اور ابھی تک سنبھل نہیں پا رہی۔۔۔"؟
عینا نے اپنے باپ کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے تلخی سے پوچھا۔۔۔
" تمہاری ماں نے کچھ نہیں بتایا کیا تمہیں۔۔۔چلو نہیں بتایا تو میں بتا دیتا ہوں۔۔۔میں نے عائلہ بیٹی کا رشتہ ایک بہت بڑے آدمی سے تہ کردیا ہے اور۔۔۔"

" کیا۔۔۔۔ ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ۔۔۔"؟
عینا رشید احمد کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر چلا اٹھی۔۔۔
" کیوں نہیں کرسکتا میں۔۔۔باپ ہوں تم لوگوں کا۔۔۔مجھے جو بہتر لگے گا تم لوگوں کے لیے وہی کروں گا میں۔۔۔اور ابھی تھوڑی دیر تک وہ لوگ آنے والے ہیں سارا سامان میں نے لا کر رکھ دیا ہے چائے کے ساتھ یہ رکھ دینا۔۔۔"
رشید احمد رعونت بھرے لہجے میں غصے سے کہا۔۔۔
" میں ایسا کچھ بھی نہیں ہونے دوں گی۔۔۔بہتر ہوگا آپ انکار کر دیں۔۔۔
بلکہ عائلہ آپی کو یہ منظور نہیں۔۔۔بولیں آپی۔۔۔کہ دیں ان سے کہ آپکو یہ رشتہ منظور نہیں۔۔۔"
عینا نے انتہائی غصے سے پہلے اپنے باپ سے پھر عائلہ کو بازو سے پکڑ کر کہا مگر عائلہ آنکھوں میں نمی لیے پتھر کا بت بنی یونہی کھڑی رہی۔۔۔
" میرے بس میں ہوتا تو سب سے پہلے تمہیں دفعہ کرتا میں اس گھر سے ۔۔۔مگر کیا کرتا کہ دلاور عائلہ سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے اور ایسا ہو کر رہے گا۔۔۔
اور ایک بات اور اگر اپنی ماں کی زندگی چاہتی ہو کہ وہ کچھ عرصہ اور جی لے تو کسی قسم کا تماشہ مت کرنا۔۔۔کیونکہ میں زبان دے چکا ہوں تم لوگوں کے ماننے یا نہ ماننے سے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔یہی بات میں نے تمہاری ماں کو کہی تھی اور سن کر ہسپتال پہنچ گئ۔۔۔
اور اب اگر وہ دوباہ گئ تو واپس نہیں آئے گی اور اس سب کی ذمہ دار تم لوگ ہوگی۔۔۔جانتی ہو ناں ڈاکٹر نے کیا کہا ہے تمہاری ماں کے بارے میں کہ کسی قسم کا سٹریس بھی اب اسکے لیے جان لیوا ثابت ہوگا۔۔۔"
رشید احمد نے اسہزائیہ انداز میں کہا اسی وقت اس کے موبائل پہ بیل ہوئی تو وہ نمبر دیکھ کر تیزی سے باہر نکل گیا اور جاتے جاتے عائلہ سے فوراً چائے پانی کا انتظام کرنے کو کہ دیا۔۔۔
" آپی کیا ہو گیا ہے آپ کو۔۔۔اس طرح سے چپ چاپ رہنے سے کچھ نہیں ہوگا آپکو لڑنا ہوگا اپنے لیے۔۔۔آپ نے انکار کیوں نہیں کیا۔۔۔صاف کہ دیتیں کہ آپکو یہ رشتہ منظور نہیں ہے۔۔۔"
عینا نے اپنا غصّٰہ اب عائلہ پہ اتارا جو اپنے باپ کی بات سن کر بے حس بنی چپ چاپ چائے کے لیے پانی اوپر رکھ چکی تھی۔۔۔عینا نے جب دیکھا کہ اس کے کچھ بھی بولنے یا کہنے سے عائلہ پہ کوئی اثر نہیں ہو رہا تو کچن کا دروازہ زور سے دیوار کے ساتھ مار کر باہر نکل گئ۔۔۔

" واہ دلاور سیٹھ تم تو پہچانے ہی نہیں جا رہے۔۔۔"
رشید احمد نے دلاور کے لیے دروازہ کھولتے سلام لینے کے بعد حیرانگی سے کہا۔۔۔دلاور اپنے حلیے سے سچ میں کافی مہزب انسان لگ رہا تھا لمبے کندھوں تک آتے بال وہ مخصوص مردانہ انداز میں کٹوا چکا تھا مونچھیں بھی تراش خراش کے بعد بہت بھلی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔آنکھوں پہ گلاسز لگائے سوٹڈ بوٹڈ وہ الگ ہی لک دے رہا تھا اسے دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہ سکتا تھا کہ یہ مار دھاڑ کرنے والا وہی دلاور ہے۔۔۔
" شکریہ تمہارا۔۔۔میں نے سوچا کہ جب نئ زندگی میں قدم رکھ رہا ہوں تو لک بھی نئ ہی ہونی چاہیے ناں۔۔۔"
دلاور مسکراتے ہوئے اندر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا بلال نے بھی اسکی پیروی کی رشید احمد بھی دروازہ بند کرنے کے بعد انکے پیچھے پیچھے ہو لیا۔۔۔
" یہ تو بہت اچھی بات کہی ہے تم نے۔..اور یقیناً تمہارا یہ روپ بہت اچھا ثابت ہوگا تمہارے لیے۔۔۔"
رشید احمد نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔۔۔
" مگر تم نے ٹھیک نہیں کیا بہت دیر تک انتظار کرنا پڑا ہمیں تمہارا۔۔۔اگر تم گھر پہ موجود نہیں تھے تو تمہیں یہ بات پہلے بتانی چاہیے تھی ہمیں۔۔۔"
دلاور نے گلہ کرتے کہا وہ لوگ ایک بجے ہی آ گئے تھے مگر گھر پہ تالا لگا دیکھ کر انکو شہر ایک ہوٹل میں جا کر رکنا پڑا۔۔۔اور پھر رشید احمد کے کال کرنے پہ کہ وہ گھر واپس آ چکا ہے وہ لوگ بھی آ جائیں تو دلاور پھر دوبارہ ادھر آیا۔۔۔
معافی چاہتا ہوں دلاور سیٹھ کہ تمہیں انتظار کی زحمت اٹھانی پڑی اصل میں میری بیوی کی رات طبیعت سخت خراب ہو گئ تھی ابھی کچھ دیر پہلے ہی ہم لوگ ہسپتال سے لوٹے ہیں۔۔۔
رشید احمد نے بیٹھک میں رکھے صوفے پہ دلاور اور بلال کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی پاس پڑی میز بھی انکے سامنے رکھ دی۔۔۔
" اوہو۔۔۔اب کیسی طبیعت ہے تمہاری بیگم کی۔۔۔"
دلاور نے افسوس کا اظہار کرتے پوچھا۔۔۔
" تم تو جانتے ہی ہو کہ بیٹی کی موت کا دکھ اس نے اپنے گلے سے لگا لیا ہے ابھی تک بھولی نہیں اس لیے رات پھر اس کو یاد کرتے اسکی طبیعت خراب ہو گئ۔۔۔میں خود بہت پریشان ہوں اس کے لیے۔۔۔"
رشید احمد نے چہرے پہ بیچارگی تاری کرتے کیا
" الّٰلہ صحت دے ان کو۔۔۔خیر یہ بتاؤ ہمارے آنے کے مقصد کا تو پتہ ہے ناں سب کو۔۔۔"؟
دلاور نے اصل بات کی طرف آتے کہا۔۔۔
" ہاں ہاں اسکی تم فکر مت کرو میں نے موقع دیکھ کر بات کی تھی سب سے۔۔۔اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے اس رشتے پہ۔۔۔بلکہ میری بیوی تو اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے خود چاہتی ہے کہ جلد از جلد بچیوں کے فرض ادا کردیں۔۔۔"
رشید احمد نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولتے کہا تھا۔۔۔
" بات تو ٹھیک ہے آپکی۔۔۔کیا ہم مل سکتے ہیں ان سے۔۔۔"
اچانک بلال نے سوال کیا تھا۔۔۔
" کیوں نہیں۔۔۔مگر ڈاکٹر نے منع کیا ہے کہ زیادہ بات چیت نہ کرے اس وقت بھی نیند کی گولیوں کے زیر اثر سو رہی ہے۔۔۔
میں چائے پانی کا انتظام کرتا ہوں آپ اس کے بعد مل لینا اس سے اگر وہ ہوش میں ہوئی تو۔۔۔"
رشید احمد نے کہا اور اٹھ کر باہر نکل گیا۔۔۔
" دلاور ابھی بھی سوچ لو۔۔۔تم ٹھیک نہیں کر رہے۔۔۔ایک طرف تم موہنی کے پیچھے لگے ہو دوسری طرف عائلہ کے پیچھے۔۔۔دو دو کشتیوں میں سوار ہونے والے بیچ سمندر میں ہی ڈوب جاتے ہیں انکی نیا کبھی پار نہیں لگتی۔۔۔"
رشید احمد کے باہر نکلتے ہی بلال نے دلاور کو پھر سے روکنا چاہا۔۔۔
" بلال جب میں کہ چکا ہوں کہ اس معاملے میں مت آؤ میں ہینڈل کر لوں گا پھر ایک ہی بات بار بار کیوں دہراتے ہو۔۔۔میں بہت آگے نکل آیا ہوں اب واپسی ممکن نہیں ہے۔۔۔عائلہ یا تو میری ہوگی یا پھر کسی کی بھی نہیں۔۔۔"
دلاور نے درشتگی سے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔اسکے لہجے کی سختی پہ بلال کچھ دیر کو چپ کر گیا۔۔۔
" تمہیں کچھ عجیب نہیں لگ رہا۔۔۔مجھے لگ رہا یہ جھوٹ بول رہا ہے یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسکی بیوی کی طبیعت اسکی وجہ سے ہی خراب ہوئی ہو۔۔۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اپنی بیٹی کے ساتھ زور زبردستی کر رہا ہو عائلہ اس رشتے سے خوش ہی نہ ہو۔۔۔"
بلال نے دلاور کا ذہن بدلنے کی ایک کوشش اور کرتے کہا۔۔۔
" ہو سکتا ہے کہ تمہاری بات ٹھیک ہو مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا عائلہ کو منانا اس کے باپ کا کام ہے چاہے پیار سے چاہے زورزبردستی سے۔۔۔یہ میرا مسلہ نہیں ہے۔۔۔اپنے گھر والوں کو وہ کیسے راضی کرتا ہے یہ اس کا مسلہ ہے۔۔۔اب اس موضوع پہ دوبارہ بات مت کرنا۔۔۔"
دلاور نے دو ٹوک انداز میں کہ کر بلال کی ساری امیدوں پہ پانی پھیر دیا تھا بلال ایک گہرا سانس لے کر سر جھکا کر یہ سوچ کر چپ چاپ بیٹھ گیا اب کوئی معجزہ ہی دلاور کو روک سکتا ہے اس کا اب دوبارہ اس موضوع پہ بات کرنا دلاور کو سخت کبیدہ خاطر کر سکتا تھا۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


"ماسو میں ٹھیک ہوں کہیں نہیں جانا مجھے۔۔۔آپ پلیز پریشان مت ہوں۔۔۔"
مہدیہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے کترا رہی تھی اس لیے پھر سے منع کرتے بولی۔۔۔
" بیٹا ایک بار ڈاکٹر کو دکھا لیتے ہیں پھر بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی اور میں تمہیں ایسے گھر پہ اکیلا بھی نہیں چھوڑ کے جا سکتی اگر ہمارے جانے کے بعد تمہاری طبیعت خراب ہو گئ تو پھر کیا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان آوارہ لڑکوں کی ابھی بھی اس گھر پہ نظر ہو۔۔۔تمہیں ساتھ لیجانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سب کو پتہ چل جائے کہ تم ہماری ہی فیملی کا حصّٰہ ہو میں نہیں چاہتی کہ لوگوں کو چہ میگوئیوں کا موقع ملے چلو اب شاباش جلدی سے تیار ہو کر باہر آ جاؤ بیٹا اگر دیر سے پہنچے تو بیگم صاحبہ ناراض ہوں گی۔۔۔
اور ہاں بیٹا کوئی بھی آپ سے پوچھے کہ آپ کون ہو تو کہنا کہ آپ میری بھانجی ہو اور شوہر کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے مہدیہ کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔رضوانہ خاتون کے ایسا کہنے سے اسکے دل کو ایک جھٹکا لگا تھا بے شک وہ اس کا مجرم تھا مگر یہ تو وہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ وہ مر جائے۔۔۔ابھی تو اس نے اس بچے کو جنم دے کر اسکے سامنے جا کر کھڑا ہونا تھا اپنے دل میں پیدا ہوتے خیالات کو اپنے دل میں ہی رکھتے وہ کچھ پل سوچنے کے بعد بولی۔۔۔
" اور اگر کسی نے یہ پوچھا کہ میرے ماں باپ کہاں ہیں آپکے پاس آنے کی بجائے انکے پاس کیوں نہیں گئ تو کیا کہوں گی۔۔۔"
مہدیہ نے پریشان ہوتے پوچھا۔۔۔
" تو کہ دیں گے کہ تمہاری شادی سے پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انکا بھی انتقال ہو گیا تھا۔۔۔اور تب سے تم میری ذمہ داری ہی ہو۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے سوچتے ہوئے کہا تو ان کی بات پہ سر ہلا کر وہ چادر کے ساتھ اچھے سے خود کو کور کرنے لگی۔۔۔

" سو پریٹی یارررر۔۔۔کون ہے تم۔۔۔"؟
رضوانہ خاتون اور فاطمہ کچن میں سب کے لیے ناشتہ تیار کر رہی تھیں صبح کے وقت اور دوپہر کو کھانا بنانے میں فاطمہ اپنی والدہ کی ہیلپ کردیا کرتی تھی ایک اور خانساماں بھی تھی جو کہ مستقل طور پہ بنگلے پہ ہی سرونٹ کوارٹر میں رہا کرتی تھی شام کو 4 بجے فاطمہ سیٹھ اکرام کے چار سالہ نواسے کو بھی پڑھاتی تھی جو کہ انکی بڑی صاحبزادی زویا کا بیٹا تھا مہدیہ باہر لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اسی وقت ان کے کانوں میں ایمان کی آواز گونجی تو فاطمہ نے فوراً ماں کی طرف دیکھا رضوانہ خاتون فاطمہ کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دیتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئیں۔۔۔ہمیشہ کی طرح آج صبح بھی ایمان گھر میں سب سے پہلے اٹھی تھی اپنے روم سے باہر آئی تو سامنے لاؤنج میں بیٹھی ہوئی مہدیہ پہ جیسے ہی اس کی نظر پڑی تو اسکی خوبصورتی سے متاثر ہوتے بے اختیار بول پڑی۔۔۔جبکہ اس کے ایسا کہنے پہ مہدیہ جھینپ کر رہ گئ اور اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے رضوانہ خاتون کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
" میری بھانجی ہے جی یہ۔۔۔اسکے میاں کا انتقال ہو گیا تھا تو میں اسے اپنے پاس لے آئی اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے مجھے اسکو گھر پہ اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں لگا اور یہاں ساتھ لے آئی۔۔۔"
اس سے پہلے کہ مہدیہ کچھ کہتی رضوانہ خاتون نے جلدی سے جواب دیا۔۔۔
" اوہو۔۔۔بہت افسوس ہوا جان کر۔۔۔بہت اچھا کیا آپ نے جو اسے ساتھ لے آئیں آپ بیٹھیں پلیززز۔۔۔آپ کھڑی کیوں ہیں۔۔۔"
رضوانہ خاتون کی بات سن کر ایمان کو مہدیہ پہ بے طرح ترس اور پیار بھی آیا تھا اس کا دل بہت دکھا تھا یہ جان کر کہ وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی بیوہ ہو گئ۔۔۔افسوس کا اظہار کرتے اس نے مہدیہ کو بیٹھنے کا کہا اور خود بھی اس کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے لگی۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 
دلاور تو پہنچ گیا عائلہ کے گھر اب صارم شاہ اور احتشام شاہ کیسے اس معاملے کو ہینڈل کریں گے اگلی قسط کا انتظار ہے شکریہ
 

Episode, 35#

" عائلہ بیٹا اگر سب تیار ہو چکا ہے تو لے کر آ جاؤ مہمان انتظار کر رہے ہیں۔۔۔اور اپنا حلیہ بھی تھوڑا ٹھیک کر لو۔۔۔"
رشید احمد نے مہرالنساء کے روم میں آ کر ایک نگاہ سب پہ ڈالی جو اپنی ماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں پھر عائلہ کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔
" یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔۔
کچھ تو خیال کر لیں ایسے کیسے وہ کسی نامحرم کے سامنے منہ اٹھا کے جا سکتی ہیں۔۔۔
آپی کہیں نہیں جائیں گی چائے تیار کردی ہے اور سب ٹرے میں اچھے سے رکھ بھی دیا ہے آپ خود لے جائیں اپنے مہمانوں کے لیے۔۔۔"
عائلہ کے بولنے یا کچھ کہنے سے پہلے ہی عینا نے تڑخ کر ذرا دھیمی آواز میں جواب دیا کہ کہیں انکی والدہ کی شور سے آنکھ نہ کھل جائےاور ساتھ ہی عائلہ کے کندھے پہ اپنا داہنا ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا کہ جہاں بیٹھی ہے وہیں بیٹھی رہے۔۔۔
" میں تم سے بار بار کہ رہا ہوں کہ مجھے مجبور مت کرو کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے۔۔۔اگر اب تم نے کسی قسم کی کوئی بکواس کی تو نہ تو میں تمہارا لحاظ کروں گا نہ تمہاری ماں کا۔۔۔اسے میری لاسٹ وارننگ سمجھو۔۔۔تم کیوں اپنی ماں کو موت سے پہلے موت دینا چاہتی ہو۔۔۔میں زبان دے چکا ہوں اور اپنی زبان سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹوں گا۔۔۔چاہے مجھے تمہیں یا تمہاری ماں کو مارنا ہی کیوں نہ پڑے۔۔۔
اور دوسری بات وہ نہ تو کوئی نامحرم ہے نہ کوئی اجنبی۔۔۔منگیتر ہے وہ عائلہ کا۔۔۔اور میرا نہیں خیال کہ اپنے منگیتر کے لیے چائے لے جانے میں اسے کوئی عار ہونا چاہیے۔۔۔"
رشید احمد نے مہرالنساء کی طرف دیکھتے جان بوجھ کر بلند آواز میں غصے سے کہا وہ اچھے سے جانتا تھا کہ اپنی ماں کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ چپ چاپ اسکی بات مانتی جائیں گی۔۔۔اور ہوا بھی ایسا ہی۔۔۔کمرے میں بلند ہوتی آوازوں سے مہرالنساء جو کہ میڈیسن کے زیر اثر سو رہی تھیں ہلکا ہلکا سا کسمسانے لگی تھیں اور انکو ڈسٹرب ہوتا دیکھ کر دونوں پریشان بھی ہوئی تھیں۔۔۔
" کیسا منگیتر، کونسا منگیتر جسکو ہم جانتے تک نہیں نہ اسکو دیکھا نہ اسکی فیملی سے ملے۔۔۔یہ اچانک سے کہاں سے ٹپک پڑا ہے جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس سے تو بہتر ہے کہ آپ ہماری جان لے ہی لیں۔۔۔
مم۔۔۔میں آ رہی ہوں بابا۔۔۔پلیز آپ غصّٰہ مت کریں آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔۔۔"
عینا بنا اپنے باپ کے غصے کو خاطر میں لائے پھر سے تلخی سے بولی ہی تھی کہ عائلہ نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے کو کھنچتے ہوئے گھبرا کر کہا۔۔۔وہ اچھے سے جانتی تھی کہ اپنی ضد کو منوانے کے لیے اس کا باپ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا اور وہ اس گھر میں ایک اور جنازہ اٹھتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔
" ہمممممم۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔مگر اپنا حلیہ درست کر کے آنا۔۔۔"
رشید احمد نے ایک غصیلی نگاہ عینا پہ ڈال کر کہا اور روم سے باہر نکل گیا۔۔۔
" آپی رک جائیں آپ کیوں کر رہی ہیں یہ سب۔۔۔کچھ نہیں کرسکتے یہ۔۔۔پلیز مت ڈریں۔۔۔ایسے ڈر ڈر کر جینے کا انجام دیکھ لیا آپ نے۔۔۔اگر آپ ہمت حوصلہ دکھاتیں تو یہ سب کبھی نہیں ہو رہا ہوتا۔۔۔الّٰلہ کا واسطہ ہے اپنے لیے لڑنا سیکھیں اپنے حق کے لیے بولنا سیکھیں ورنہ یہ دنیا ایک نوالے میں نگل جائے گی آپکو اور ڈکار تک نہیں لے گی۔۔۔مت کریں اپنے ساتھ یہ ظلم۔۔۔
عینا نے عائلہ کو بازو سے پکڑ کر روکتے ہوئے منت کرتے منانے کی کوشش کرتے کہا جو آنکھوں سے بہنے والے سیلاب کو بامشکل روکتے ہوئے باہر نکلنے لگی تھی۔۔۔
" بابا کے سامنے کھڑے ہونے بہادر بننے کا انجام بھگتے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے اب کسی کو بھی کھونے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ہے۔۔۔اور ویسے بھی اگر میری ایک ہاں سے یا خود کو قربان کرنے سے تم لوگوں کی زندگی مشروط ہے تو مجھے آزادی نہیں چاہیے اور نہ ہی اپنا حق چاہیے میں بزدل ہی بھلی۔۔۔
" آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ آپ کی یہ قربانی آپ تک ہی رہے گی۔۔۔آپ دیکھ لیجیے گا آج آپکی باری آئی ہے کل کو میری باری آئے گی پھر ایمن کی۔۔۔یہ سلسلہ یہیں پہ نہیں رکے گا۔۔۔اور صارم بھائی کا کیا آپ تو ان سے شادی کرنے پہ راضی تھیں۔۔۔"
عائلہ نے ایک قدم ابھی دروازے سے باہر رکھا ہی تھا کہ اس کے کانوں میں عینا کی رندھی ہوئی آواز پڑی عینا کی بات سن کر عائلہ ایک پل کو کانپ کر رہ گئ۔۔۔صارم کے نام پہ اس کا دل زور سے دھڑکا تھا مگر پھر خود کو جلدی سے کمپوز کر گئ۔۔۔
" بابا اپنی بات منوانے کو کس حد تک جا سکتے ہیں اس کا ایک نظارہ ہم سب دیکھ چکے ہیں۔۔۔کوئی نہیں روک سکتا انکو نہ میں نہ تم نہ ماما۔۔۔۔مگر پھر بھی میرا وعدہ ہے کہ اجالا کے بعد اب اس گھر میں اور کوئی قربان نہیں ہوگا۔۔۔میں تمہیں اور ایمن کو کچھ نہیں ہونے دوں گی۔۔۔اور رہی بات صارم شاہ کی تو میں کسی صارم شاہ کو نہیں جانتی۔۔۔"
عائلہ اپنے آنسو صاف کرتی تیزی سے یہ کہ کر روم سے باہر نکل گئ۔۔۔
" جانتی تو ہیں آپ۔۔۔ یہ اور بات کہ مان نہیں رہیں۔۔۔صارم شاہ کے ذکر پہ آپکی آنکھوں میں اترنے والے رنگ جھوٹے نہیں تھے۔۔۔ اور یہ بھی آپکی غلط فہمی ہے کہ بابا کو کوئی روک نہیں سکتا۔۔۔اور اب یہ آپ ہی نہیں بلکہ سب دیکھیں گے۔۔۔
عینا نے بڑبڑاتے ہوئے جلدی سے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اپنا موبائل اٹھایا تھا اور ایک نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔

" بیٹا چائے سرو کرو مہمانوں کو شاباش۔۔۔
یہ دلاور ہے جس سے تمہارا رشتہ تہ کیا ہے بہت اچھا بندہ ہے۔۔۔پہلے بھی آ چکا ہے گھر۔۔۔اجالا کا افسوس کرنے آیا تھا یہ۔۔۔"
عائلہ چائے لے کر گیسٹ روم میں آئی اور جلدی سے رکھ کر مڑنے ہی لگی تھی کہ رشید احمد نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تنبیہی انداز میں روکتے اور دلاور کا تعارف کرواتے ہوئے کہا عائلہ نے ذرا کی ذرا سر اٹھا کر دلاور کی طرف دیکھا تھا مگر اسے یاد نہیں آیا کہ وہ پہلے بھی اس سے مل چکی ہے دلاور کی طرف دیکھنے پہ ایک پل کو اس کی نظریں دلاور سے چار ہوئی تو عائلہ نے فوراً گھبرا کر اپنی نظروں کا رخ موڑا تھا۔۔۔
بلال نے بیزاری سے ایک نظر عائلہ کی طرف دیکھا تھا مگر پھر پلک جھپکنا بھول گیا تھا۔۔۔بلا شبہ وہ بے حد حسین لڑکی تھی عائلہ کو دیکھ کر اسے اب سمجھ آئی تھی کہ دلاور کیوں اس کے پیچھے پاگل ہو رہا ہے۔۔۔ایک پل کو اسے دلاور کی قسمت پر رشک آیا تھا مگر پھر دوسرے لمحے عائلہ پہ ترس آیا تھا کچھ پل اسے تکنے کے بعد وہ اپنا چہرہ موڑ گیا۔۔۔
عائلہ چپ چاپ نظریں جھکائے بیٹھ کر چائے سرو کرنے لگی۔۔۔دلاور نے سر تا پیر بھرپور طریقے سے اس کا جائزہ لیا تھا۔۔۔چہرے کے سوا اس نے اپنے پورے بدن کو بہت اچھے سے چادر سے کور کیا ہوا تھا
لیمن کلر کی کرتی اور سفید ٹراؤزر میں سادہ سے حلیے میں خود کو اچھے سے چادر کے اوپر حجاب میں قید کیے میک اپ سے پاک چہرے کے ساتھ بھی اس کا روپ خوب دمک رہا تھا۔۔۔
روئی روئی سی آنکھوں پہ لرزتی لمبی گھنی سیاہ پلکیں دلاور کا چین و قرار لوٹ رہی تھیں۔۔۔
اس دن اسکی ایک جھلک ہی اس کے حواسوں پہ سوار ہو گئ تھی مگر آج اسکو اتنے قریب اپنے اتنے پاس بیٹھا دیکھ کر اسکو اپنے خیالات کی نفی کرنی پڑی تھی وہ اس کی سوچوں سے بھی زیادہ حسین تھی۔۔۔دلاور کا دل اسے چھو کر محسوس کرنے کو مچلنے لگا تھا۔۔۔
وہ بنا رشید احمد کا یا بلال کا لحاظ کیے انتہائی بے باکی سے عائلہ کو بغور تکنے میں مصروف تھا۔۔۔
عائلہ دلاور کو خود پہ نظریں گڑائے محسوس کرکے کنفیوز سی ہو رہی تھی۔۔۔چائے سرو کرنے کے بعد وہ وہاں سے اٹھنے کو پر تولنے لگی
بلال نے دلاور کو یوں تکتا پا کر غیر محسوس طریقے سے دلاور کی تھائی پہ چٹکی کاٹی تو وہ ہڑبڑا کر اسکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
" گھر میں اور کوئی نہیں ہے کیا۔۔۔اچھا ہوتا اگر ساری فیملی سے تعارف ہو جاتا۔۔۔"
بلال نے دلاور کا دھیان بٹانے کو بات کی۔۔۔
" ہے کیوں نہیں سب لوگ ہیں۔۔۔میری دو بیٹیاں اور ہیں اور انکی ماں کا پہلے ہی بتا چکا ہوں۔۔۔آؤ میں ملواتا ہوں سب سے۔۔۔اگر ملنا چاہو تو۔۔۔"
رشید احمد کی بات پر عینا کے ردعمل کا سوچ کر عائلہ پریشان ہوئی تھی اس نے ایک نظر باپ کی طرف دیکھا پھر نگاہ بھٹک کر دلاور کے چہرے سے جا ٹکرائی دلاور کے چہرے پہ نظر پڑتے ہیں اسے وہ چہرہ شناسا سا لگا مگر کہاں دیکھا یہ یاد نہیں آیا۔۔۔بلال اور دلاور فوراً سب سے ملنے کو کھڑے ہوئے تھے۔۔۔
انکے پیچھے رشید احمد اور عائلہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔
" بیٹا یہ تمہاری امی سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔"
رشید احمد کو معلوم تھا کہ مہرالنساء دوائیوں کے زیر اثر سو رہی ہے مگر وہ پھر بھی جان بوجھ کر دلاور اور بلال کو اس کے روم کی طرف لے آیا۔۔۔جیسے ہی رشید احمد نے آگے بڑھ کر جلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا عینا بیچ میں آڑ بن گئ رشید احمد اسکی اس حرکت پہ جزبز ہو کر رہ گیا مگر دلاور کے سامنے بظاہر شائستگی کا مظاہرہ کرتے بولا۔۔۔
" آپ۔۔۔۔۔آپ تو وہی ہیں ناں جو ہاسپٹل بھی آئے تھے اجالا کے انتقال پہ اور پھر گھر پہ بھی۔۔۔"
دلاور پہ نظر پڑتے ہی عینا ایک پل کو اسے پہچان ہی نہ سکی دوسرے لمحے اسکے دماغ میں ایک جھماکا ہوا تھا اجالا کے انتقال والے دن ہاسپٹل کا منظر اسکی نگاہوں کے سامنے گھوما تھا اور دلاور کے بولے گئے الفاظ بھی۔۔۔
" میں کون ہوں یہ آپ سب کو پتہ چل جائے گا بہت جلد۔۔"
سب یاد آتے ہی عینا نے سر تا پیر بغور دلاور کا جائزہ لیتے کہا تھا ڈارک نیوی بلیو کے تھری پیس سوٹ میں وہ اس دن کی نسبت بے شک کافی شاندار لگ رہا تھا۔۔۔جبکہ عائلہ حیران ہو کر عینا کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ دلاور کو کیسے جانتی ہے۔۔۔
" جی میں وہی ہوں جسے اس دن آپ نے نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔۔۔"
دلاور نے پراعتماد لہجے میں مسکرا کر کہا۔۔۔
" میں راہ چلتے لوگوں کی طرف بلاوجہ دیکھنا پسند نہیں کرتی اور نہ ہی انکا اپنے گھر کے معاملات میں دخل اندازی کرنا پسند کرتی ہوں۔۔۔
میری والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ سو رہی ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ کسی بھی ایرے غیرے اجنبی کی وجہ سے وہ ڈسٹرب ہوں اس لیے تشریف لے جاسکتے ہیں آپ۔۔۔"
عینا نے انتہائی بدلحاظی اور بدتمیزی سے کہا اسکی بات پہ دلاور کے لبوں پہ کھلتی مسکراہٹ پل میں ہوا ہوئی تھی اور مسکراہٹ کی جگہ ناگواریت نے ڈیرے ڈالے تھے۔۔۔
جبکہ رشید احمد اور عائلہ نے بد حواس ہو کر عینا کی طرف دیکھا تھا رشید احمد کا دل کیا تھا کہ ابھی کے ابھی اسے زندہ زمین میں گاڑ دے مگر دلاور کا لحاظ کر کے وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔۔۔بلال نے حیران ہو کر عینا کی طرف دیکھا تھا پھر اسکی ہمت پر دل ہی دل میں اسے داد دیتا مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
" میں کوئی راہ چلتا شخص نہیں ہوں اس گھر کا ہونے والا داماد ہوں کیا یہ بات آپکے والد صاحب نے بتائی نہیں آپکو۔۔۔"
دلاور انتہائی درشتگی سے بولا۔۔۔
" ہنننن۔۔۔بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔۔۔دیکھیں شوق سے دیکھیں۔۔۔ خواب دیکھنے پہ کوئی پابندی نہیں ہوتی سو آپ بھی دیکھیں۔۔۔
مگر جو آپ چاہ رہے وہ کبھی نہیں ہوگا۔۔۔کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی اس رشتے کے لیے راضی نہیں ہے۔۔۔"
عینا لگاتار دلاور کو کچوکے لگاتے بولی۔۔۔دلاور نے ایک غصیلی نگاہ اس پہ ڈالی اور پھر رشید احمد پر۔۔۔
" اجازت ہے۔۔۔"
دلاور نے غصے سے اچانک اپنے کوٹ کی جیب سے رنگ نکال کر رشید احمد کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔۔۔
" جج۔۔۔جی جی ضرور۔۔۔"
رشید احمد نے دلاور کے چہرے کی طرف دیکھا غصّٰہ ضبط کرنے کے چکر میں اس کا چہرہ مارے اہانت کے سرخ پڑ گیا تھا دلاور کے پوچھنے پہ وہ فوراً گھبرا کر بولا اور عائلہ کا ہاتھ زبردستی پکڑ کر آگے کر دیا۔۔۔
" میں یہ سب ایسے نہیں چاہتا تھا مگر آپکی ایسے ہی خواہش ہے تو ایسے ہی سہی۔۔۔"
دلاور نے ایک جتاتی نظر عینا پہ ڈال کر عائلہ کی انگلی میں رنگ پہنانے کو ہاتھ آگے بڑھایا تو عینا نے اسی وقت عائلہ کے بازو کو زور سے جھٹکا دیا جس سے رنگ پہناتے دلاور کے ہاتھ سے وہ رنگ اچھل کر دور جا گری۔۔۔دلاور نے کھا جانے والی نظروں سے عینا کی طرف دیکھا تھا جبکہ رشید احمد نے ایک زوردار تھپڑ عینا کے گال پہ جڑ دیا۔۔۔ایک لمحے کو وہاں سکوت چھایا تھا سب ہکا بکا رہ گئے تھے۔۔۔دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی ایمن کے منہ سے یہ سب دیکھ کر ایک چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔
عائلہ نے بے اختیار رشید احمد کا بازو پکڑ کر اسے روکا تھا اور ایمن کو اندر کی طرف ہلکے سے پش کر کے دروازہ باہر سے بند کردیا پھر آگے بڑھ کر عینا کو زور سے اپنے ساتھ لپٹا کر اس کو چپ رہنے کی منت کرنے لگی۔۔۔
" کر لیں یہ جو بھی کرنا ہے چاہے تو میری جان ہی کیوں نہ لے لیں مگر اپنے جیتے جی میں یہ ہونے نہیں دوں گی۔۔۔
اور تم۔۔۔تمہیں یہ سب نظر نہیں آ رہا کہ ہم یہ رشتہ نہیں چاہتے۔۔۔کس مٹی سے بنے ہو تم عزت غیرت نام کی کوئی چیز بھی ہے تم میں کہ نہیں۔۔۔"
رشید احمد کے تھپڑ نے عینا کو دن میں تارے دکھا دئیے تھے وہ یکدم لڑکھڑائی تھی مگر پھر خود کو سنبھالتے ہوئے وہ عینا کے بازوؤں سے خود کو ایک جھٹکے سے چھڑواتی آگے بڑھ کر انتہائی تنفر سے پہلے رشید احمد سے پھر دلاور سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔
" میرا خیال ہے کہ ہمیں فلحال چلنا چاہیے ہم بعد میں پھر آ جائیں گے۔۔۔"
بلال نے تمام صورت حال دیکھ کر پریشانی سے کہا انکو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ حالات یہ رخ اختیار کر لیں گے۔۔۔
" مجھ میں کتنی عزت ہے اور کتنی غیرت کبھی لاہور آئیے گا سب پتہ چل جائے گا آپکو۔۔۔وہاں کے چپے چپے پہ آپکو ہماری ہی داستان ملے گی۔۔۔
میں یہ معاملہ پیار محبت سے تہ کرنا چاہتا تھا مگر آپکو اگر یہ سب ایسے منظور نہیں ہے تو آپکی مرضی۔۔۔
شادی کی تیاریاں شروع کرو رشید احمد۔۔۔
فلحال تو ہم جا رہے ہیں۔۔۔مگر بہت جلد میں اپنی امانت لینے آؤں گا اور بہتر ہوگا کہ تب تک یہ معاملہ حل ہوجائے۔۔۔"
دلاور نے زمین سے رنگ اٹھا کر رشید احمد کے ہاتھ پہ رکھتے ہوئے عینا کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے۔۔۔
" بہت شوق ہے تمہیں مرنے کا ہاں۔۔۔میں نے منع کیا تھا۔۔۔کہا تھا میں نے کہ مجھے کوئی تماشہ نہیں چاہیے لیکن میری بات کی تمہیں سمجھ نہیں آئی۔۔۔تمہارا مر جانا ہے بہتر ہے۔۔۔"
رشید احمد دلاور کے باہر نکلتے ہی غصے سے عینا کی طرف لپکا تھا اور پے در پے اس کے چہرے پہ تھپڑوں کی بارش کی تھی پھر غصے سے اس کا گلا دبوچ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے بولا۔۔۔
" عینا۔۔۔۔آپکو الّٰلہ کا واسطہ ہے بابا چھوڑ دیں اسے۔۔۔"
عائلہ نے روتے ہوئے پوری قوت سے رشید احمد کو پیچھے کرنے اور عینا کو چھوڑانے کی کوشش کرتے کہا مگر رشید احمد نے سنی ان سنی کرتے عائلہ کو زور سے پیچھے کو دھکا دیا تو وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور دور جا گری رشید احمد نے پھر عینا کو گلے سے پکڑ لیا گلا دبنے سے عینا کی حالت غیر ہونے لگی عائلہ روتی چیختی ہوئی پھر سے عینا کو بچانے کے لیے آگے بڑھی اور روتے ہوئے رشید احمد کو پیچھے کو کھینچنے لگی۔۔۔
" عینا۔۔۔۔چھوڑو اسے۔۔۔۔"
اسی کھینچا تانی میں فضا میں ایک حکمیہ گرجدار آواز بلند ہونے کے ساتھ رشید احمد کے منہ سے ایک چیخ بھی بلند ہوئی تھی اور منہ پہ ہاتھ رکھے وہ پیچھے کو گرا تھا اس کے ہونٹوں کے کنارے پھٹنے سے وہاں سے خون رسنے لگا تھا۔۔۔ اسی لمحے عینا کے گلے پہ اسکی گرفت کمزور پڑی تھی اپنے گلے پہ ہاتھ رکھے عینا لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔ عائلہ نے حیران ہو کر اپنے سامنے کھڑے احتشام شاہ کی طرف دیکھا تھا جو قہر بار نظروں سے رشید احمد کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔عائلہ کی نظر اس سے ہوتے ہوئے پیچھے صحن میں کھڑے شاہ سائیں، ہائمہ خاتون اور فجر پر پڑی۔۔۔جو پتھر کے بت بنے کھڑے انکی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔
" عینا۔۔۔آنکھیں کھولو۔۔۔پلیززز عینا۔۔۔پپ پانی۔۔۔پانی لے کر آؤ جلدی۔۔۔"
عائلہ ان سب کی طرف حیران ہو کر ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ لوگ ایسے اچانک کیسے کہ اسکے کانوں میں احتشام شاہ کی گھبرائی ہوئی آواز پڑی تو وہ فوراً اسکی طرف مڑی جو عینا کو اپنے بازوؤں میں تھامے کھڑا چیخ رہا تھا۔۔۔
عائلہ کے کچن میں جانے کے بعد عینا نے فون کر کے روتے ہوئے ساری صورت حال سے صارم شاہ کو آگاہ کیا تھا اور اسے جلد پہنچنے کا کہا تھا ساری بات سن صارم شاہ کے دماغ کا میٹر گھوما تھا اس نے فوراً سب گھر والوں کو آگاہ کیا۔۔۔اور اسی وجہ سے سب لوگ ہڑبڑی میں رشید احمد کے گھر پہنچے تھے۔۔۔دلاور کے جانے کے بعد دروازہ بند کرنے کا خیال کسی کو بھی نہیں آیا تھا۔۔۔اس لیے وہ لوگ جیسے ہی رشید احمد کے گھر کے دروازہ پہ پہنچے تو اندر سے آتی آوازوں پہ پریشان ہو کر بنا دستک دئیے وہ ادھ کھلے دروازے کو کھول کر اندر چلے آئے مگر اندر آتے ہی سامنے کا منظر انکا دل دہلا گیا۔۔۔رشید احمد پوری قوت سے عینا کا گلا دبا رہا تھا جبکہ عائلہ اپنے ناتواں وجود کے ساتھ عینا کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی یہ سب دیکھ کر احتشام شاہ کے وجود میں ایک لاوا ابلا تھا عینا کی حالت دیکھ کر اسکے تن بدن میں چنگاریاں سی پھوٹنے لگیں وہ انتہائی تیزی سے دوڑنے کے انداز میں آگے بڑھا تھا اور بنا کچھ سوچے اس نے ایک زوردار گھونسہ رشید احمد کے منہ پہ جڑ دیا تھا جس سے رشید احمد کے منہ سے ایک چیخ بلند ہوئی اور وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا۔۔۔عینا نیم بےہوشی کی حالت میں نیچے گرنے کو تھی مگر اسی وقت احتشام شاہ نے آگے بڑھ کر اس کو اپنے بازوؤں میں تھاما تھا۔۔۔
" احتشام شاہ۔۔۔"
نیچے گرتے ہوئے عینا کے منہ سے سرگوشی میں لیا گیا اپنا نام احتشام شاہ نے واضح طور پہ سنا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔
عینا کو گرتے دیکھ کر باقی سب کو بھی یکدم ہوش آیا تھا سب لوگ عینا کے گرد جمع ہو گئے۔۔۔فجر اور عائلہ روتے ہوئے عینا کو آوازیں دیتے اس کی ہتھیلیوں میں مساج کرنے لگیں۔۔۔عینا کی حالت دیکھ کر احتشام کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا اس کا دل کیا تھا کہ وہ اسے اپنے اندر کہیں چھپا لے پھر اسکی غیر ہوتی حالت دیکھ کر چلا کر ہزیانی انداز میں اس نے پانی لانے کو کہا مگر تب تک وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی۔۔۔عائلہ بھاگ کر کچن سے پانی لے آئی۔۔۔ہائمہ خاتون اور شاہ سائیں حیران ہو کر احتشام شاہ کی طرف گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ عینا کو لے کر یوں پریشان ہو رہا تھا جیسے اس کا عینا کے ساتھ کوئی بہت گہرا رشتہ ہو۔۔۔
" عینا۔۔۔عینا پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔۔۔
تم۔۔۔باپ ہو یا قصائی ہو۔۔۔جانوروں سے بھی بدتر ہو تم۔۔۔"
احتشام شاہ نے دھیرے سے عینا کو پکڑ کر برآمدے میں رکھی چئیر پہ بٹھایا اور غصے سے یکدم مڑ کر طیش میں آ کر بولتا ہوا رشید احمد کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
عائلہ پانی لے کر آئی تو ہائمہ خاتون نے اس کے ہاتھ سے پانی لے کر عینا کے منہ پر چھنیٹے مارے۔۔۔

" احتشام شاہ رک جاؤ۔۔۔"
احتشام شاہ نے رشید احمد کو ایک ہاتھ سے گریبان سے پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور دوسرے ہاتھ سے ایک زوردار گھونسہ اسکے پیٹ میں رسید کیا درد کے مارے رشید احمد وہیں پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس کا دوبارہ ہاتھ اٹھتا کہ شاہ سائیں نے فوراً آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سختی سے روکا تھا۔۔۔
" یہ کیا غنڈہ گردی ہے شاہ سائیں۔۔۔میں آپکی بہت عزت کرتا ہوں۔۔۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ لوگ جو چاہے کرتے پھریں۔۔۔یہ میری اولاد ہے۔۔۔ میرا گھر ہے میں ان کے ساتھ جو بھی کروں میں کسی کے آگے جواب دہ نہیں ہوں۔۔۔اور نہ ہی اس بات کی اجازت دوں گا کہ کوئی میرے گھر کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔۔۔
رشید احمد نے اپنے ہونٹوں کے کنارے پہ لگا خون صاف کرتے اپنا پیٹ پکڑ کر کراہتے ہوئے رک رک کر احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
" باپ۔۔۔باپ نہیں ہو تم۔۔۔باپ کے نام پہ ایک بدنما دھبہ ہو تم۔۔۔ایسے ہوتے ہیں باپ جو اپنی ہی اولاد کی جان لینے پہ تل جائیں۔۔۔
احتشام شاہ نے بھی غصے سے تڑخ کر جواب دیا تھا شاہ سائیں نے ہاتھ اٹھا کر فوراً احتشام شاہ کو چپ رہنے کا اشارہ کیا تو وہ اپنی مٹھیاں بھینچتا منہ موڑ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
عینا نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں گلے پہ دکھن کا احساس ہوتے ہی سب سے پہلے اس کا ہاتھ اپنے گلے پہ گیا پھر اس نے آنکھیں کھول کر اپنے ارد گرد دیکھا۔۔۔عینا کو ہوش میں آتا دیکھ کر احتشام شاہ فوراً اس کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور بے چینی سے اسکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
" عینا تم ٹھیک ہو۔۔۔"
" بیٹا کیسی طبیعت ہے اب آپکی۔۔۔"
" عینا۔۔۔میری جان۔۔۔منع کیا تھا ناں میں نے تمہیں۔۔۔سمجھایا بھی تھا کہ چپ رہو جو ہو رہا ہے ہونے دو مگر تم کہاں سنتی ہو کسی کی۔۔۔اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو کیا کرتی میں۔۔۔ابھی تک ہم اجالا کا دکھ نہیں بھولے اور تم۔۔۔۔۔"
عینا کو ہوش میں آتے دیکھ کر سب نے باری باری اس سے اس کی طبیعت کا پوچھا تھا۔۔۔
عائلہ بے اختیار عینا کو گلے لگا کر سسک اٹھی۔۔۔اور اسکے ماتھے پہ ، چہرے پہ جگہ جگہ چومتے ہوئے اسے زور سے ہگ کرتے بولی۔۔۔
" بیٹا بہن کو اندر روم میں لے چلو فلحال تھوڑا ریسٹ کرنے دو اسے۔۔۔اور احتشام بیٹے آپ یاسین کو فون کرو وہ ایک بار چیک کر لے آ کر۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے عائلہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے شفقت سے پہلے عائلہ سے اور پھر اپنے بیٹے احتشام شاہ سے کہا جو انکے پاس ہی کھڑا پریشانی سے عینا کو تک رہا تھا۔۔۔
" میں ٹھیک ہوں۔۔۔آپ پلیز پریشان نہ ہوں۔۔۔"
عینا نے سب کی طرف ایک نظر دیکھتے ہوئے اپنا دوپٹہ اپنے گرد اچھی طرح سے درست کرتے کہا۔۔۔یکدم اسکی نظر خود کو وارفتگی سے تکتے احتشام شاہ سے ٹکرائی تو بے ہوش ہونے سے پہلے کا منظر آنکھوں کے سامنے لہراتے ہی وہ خود میں سمٹ کر رہ گئ۔۔۔اسے اپنا دل باغی ہوتا محسوس ہو رہا تھا نہ جانے کیوں وہ احتشام شاہ کے سامنے آتے ہی کمزور پڑنے لگتی تھی۔۔۔فجر اور عائلہ نے سہارا دے کر عینا کو کھڑا کیا اور اسے لیکر مہرالنساء کے روم میں آ گئیں جہاں ایمن ایک کونے میں ڈری سہمی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔جبکہ مہرالنساء دنیا و مافیا سے بے خبر ابھی تک نیند میں تھی۔۔۔اس بات سے بے نیاز کہ ایک اور قیامت اس کے گھر پہ ٹوٹنے والی تھی۔۔۔ہائمہ خاتون نے آگے بڑھ کر ایمن کو اپنے ساتھ لگایا اور اسے تسلی و تشفی دینے لگیں۔۔۔
" میں اپنے بیٹے کی طرف سے تم سے معافی چاہتا ہوں رشید احمد۔۔۔اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مگر اس وقت صورت حال دیکھ کر وہ خود پہ قابو نہیں رکھ سکا۔۔۔
مگر تم نے بھی غلطی کی ہے۔۔۔ اولاد سے بات منوانے کا یہ کونسا طریقہ ہے جو بھی معاملہ ہو اسے مل بیٹھ کر صلاح مشورے سے حل کیا جاتا ہے۔۔۔جوان بیٹیوں پہ ہاتھ اٹھانا کسی بھی باپ کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔۔۔
اور تم ٹھیک کہتے ہو تمہارے گھر کے معاملات میں بے شک مجھے یا کسی کو بھی بولنے کا کوئی حق نہیں ہے مگر جب چاردیواری سے آوازیں باہر آنے لگیں تو پھر باہر کے لوگوں کو دخل اندازی کرنی پڑ جاتی ہے۔۔۔
خیر ہم آج ایک خاص مقصد کے تحت تمہارے گھر آئے تھے میں اپنے بیٹے صارم شاہ کے لیے تمہاری بیٹی عائلہ کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔۔۔امید ہے کہ تم ہمیں مایوس نہیں کرو گے۔۔۔"
شاہ سائیں نے رسانیت سے رشید احمد کو سمجھاتے ہوئے اپنے آنے کے مقصد سے آگاہ کیا۔۔۔
" مجھے افسوس ہے شاہ سائیں کہ آپ نے دیر کردی ہے اب ایسا ممکن نہیں ہے میں اپنی بیٹی عائلہ کا رشتہ اپنے ایک جاننے والے کے ساتھ کافی دیر پہلے تہ کر چکا ہوں۔۔۔اور کچھ دن میں ہی نکاح بھی ہے اس کا۔۔۔"
رشید احمد نے انکے سروں پہ بم پھوڑا تھا۔۔۔
" رشید احمد تم پھر سوچ لو ایک بار۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ تمہارے گھر میں کوئی بھی اس بات پہ راضی نہیں ہے اور یہ سارا ہنگامہ بھی شائد اسی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔دیکھو بچوں کے رشتے جو زور زبردستی سے تہ کیے جاتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔۔۔اور ماں باپ ہونے کے ناتے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے فیصلوں میں اپنی اولاد کی خوشی کو اہمیت دیں۔۔۔"
شاہ سائیں نے بہت بردباری کے ساتھ رشید احمد کو پھر سے سمجھانے کی کوشش کرتے کہا تھا۔۔۔
" میں نے جو بھی فیصلہ لیا ہے بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے جیسے آپ کو پسند نہیں کہ آپکے گھر کے معاملات میں کوئی دخل اندازی کرے ایسے مجھے بھی یہ پسند نہیں ہے۔۔۔امید ہے کہ آپ میری بات کو سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔"
رشید احمد نے رکھائی سے کہا۔۔۔شاہ سائیں کچھ پل کو یونہی بیٹھے رہے پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔
" ٹھیک ہے رشید احمد ہم چلتے ہیں الّٰلہ تمہاری بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔۔۔"
شاہ سائیں نے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے اور احتشام شاہ کو اشارہ کیا کہ وہ فجر اور اپنی والدہ سے بھی چلنے کا کہا۔۔۔
" شاہ سائیں آپکی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ اپنے بچوں کو میرے گھر سے دور رکھیں۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ انکی وجہ سے میری بیٹی کی شادی میں کسی قسم کی بھی بدمزگی پیدا ہو۔۔۔بہتر ہوگا کہ وہ دوبارہ میرے گھر کا رخ نہ کریں۔۔۔"
رشید احمد نے واضح طور پہ نہ صرف شاہ سائیں بلکہ انکے گھر کے کسی بھی فرد کو اپنے گھر آنے سے روکا تھا۔۔۔رشید احمد کی باتوں نے ان کا دل دکھایا تھا مگر انھوں نے کسی قسم کا بھی کوئی اظہار نہیں ہونے دیا وہ ان وڈیروں میں سے ہرگز نہیں تھے جو دولت اور طاقت کے نشے میں چور خود سے کمتر لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح سمجھیں اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں۔۔۔
ایک عام انسان کی طرح انھوں نے اپنے بیٹے کا سوال ڈالا تھا اور ایک عام انسان کی طرح ہی رشید احمد کے انکار کو اس کا حق سمجھ کر خشدلی سے قبول بھی کیا تھا اسی وجہ سے شاہ سائیں رشید احمد کی بات سن کر سر ہلاتے اسے خدا حافظ کہ کر باہر نکل گئے۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


" امی جان اب کیا ہوگا۔۔۔فلحال تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم لوگ سرونٹ کوارٹر میں شفٹ ہو جائیں۔۔۔اور مہدیہ کو بھی اکیلے نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔اور روز روز اسکو ساتھ لیجانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
سیٹھ اکرام کے گھر سے واپسی پہ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر آرام کرنے کی غرض سے وہ اپنے اپنے لحافوں میں گھس گئیں تھیں کہ فاطمہ نے پریشان لہجے میں اپنے پاس ہی لیٹی ہوئی اپنی والدہ سے کہا۔۔۔سرونٹ کوارٹر میں سیٹھ اکرام کا مالی اپنی فیملی سمیت شفٹ ہو چکا تھا اسلیے سیٹھ اکرام نے رضوانہ خاتون سے ایک آدھ ماہ انتظار کرنے کا کہا تھا کہ وہ سرونٹس جو رات تک ادھر ہی رہتے ہیں انکے لیے مزید کچھ کمرے بنوا رہے ہیں تاکہ اپنی فیملی کے ساتھ وہیں رہائش اختیار کر سکیں۔۔۔
پھر جیسے ہی کمرے تیار ہو جائیں تو وہ ادھر شفٹ ہو سکتی ہیں۔۔۔مگر اتنی دیر کے لیے مہدیہ کو گھر پہ اکیلے چھوڑنا بھی انکو مناسب نہیں لگ رہا تھا جسکی وجہ سے وہ فکرمند ہو رہی تھیں۔۔۔
" آپی آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں میں مینج کر لوں گی بلکہ میں تو یہ سوچ رہی تھی کہ اگر ممکن ہو تو آپ میرے لیے بھی کام کے لیے وہاں بات کریں اس طرح سے وہ بھی میرا ساتھ آنا برا نہیں مانیں گے اور مجھے اکیلا گھر میں نہیں رکنا پڑے گا۔۔۔"
مہدیہ نے رضوانہ خاتون کے بولنے سے پہلے ہی جلدی سے کہا اس کا دل گوارہ نہیں کر رہا تھا کہ وہ یوں آرام سے گھر بیٹھ کر روٹیاں توڑے اور انکی مشکلات میں اضافہ کرے اسی لیے وہ بھی انکے کام میں انکا ہاتھ بٹانا چاہ رہی تھی۔۔۔
" بلکل نہیں۔۔۔فلحال تمہیں کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تم آرام کرو پہلے ہی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو کوئی حل نکل آئے گا۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے صاف انکار کیا تھا۔۔۔
" ماسو ماں پلیززز۔۔۔مان جائیں ناں۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے اکیلے رہنے سے اور آپ بھی شام کو مغرب کے بعد آتی ہیں۔۔۔آج تک کبھی اکیلی رہی نہیں ناں اس لیے اکیلے رہنے کا سوچ کر ہی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔۔۔اور میری طبیعت ٹھیک ہے بلکل اب میں اتنی بھی نازک نہیں ہوں۔۔۔"
مہدیہ نے منت کرتے کہا۔۔۔
" امی جان مہدیہ کی بات بھی ٹھیک ہے ہم لوگ کافی لیٹ آتے ہیں اور اگر ہماری غیر موجودگی میں اسکی طبیعت خراب ہو گئ یا کوئی اور مسلہ ہوگیا تو کون دیکھے گا اسے۔۔۔وہاں ہمارے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے رہے گی تو فکر نہیں ہوگی۔۔۔"
فاطمہ نے بھی مہدیہ کی سائیڈ لیتے کہا۔۔۔
" مگر یہ وہاں کرے گی کیا کھانا بنانا بھی نہیں آتا اسکو دوسرا کوئی سخت کام بھی نہیں کر سکتی۔۔۔اور پھر پتہ نہیں بیگم صاحبہ یا سیٹھ صاحب مانتے بھی ہیں کہ نہیں۔۔۔"
رضوانہ خاتون کو فاطمہ کی بات بھی ٹھیک لگ رہی تھی اس لیے نیم رضامند ہوتے کہا۔۔۔
" سیٹھ صاحب مان جائیں گے امی جان آپ بات تو کری کوئی نہ کوئی کام تو مل ہی جائے گا۔۔۔یا پھر ایمان سے بات کریں وہ بہت اچھی ہے اسکی بات نہیں ٹالیں گے وہ۔۔۔"
فاطمہ نے کہا۔۔۔مہدیہ نے بھی ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فاطمہ کی بات کی تائید کی کہ اگر ایمان سے بات کی جائے تو وہ کوئی حل نکال لے گی۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے صبح کروں گی بات دیکھو کیا کہتے ہیں وہ۔۔۔اور بیٹا ڈاکٹرنی نے جو دوائی دی تھی وہ دھیان سے کھانا کوئی ناغہ مت کرنا اس میں۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے رضامند ہوتے کہا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 

Episode, 36#

شام ہونے کو آئی تھی مگر ابھی تک شاہ سائیں رشید احمد کے گھر سے واپس نہیں آئے تھے اور نہ ہی احتشام شاہ کی کوئی کال یا میسج ہی آیا تھا صارم شاہ نہ جانے کتنی بار اپنا موبائل اٹھا کر چیک کر چکا تھا اور کبھی والیم چیک کرتا کہ کہیں وہ سائلنٹ موڈ پہ نہ لگا ہو غلطی سے۔۔۔مگر نہ تو موبائل سائلنٹ پہ تھا اور نہ کوئی کال یا میسج ہی تھا اپنے کمرے کے بے چینی سے چکر لگاتے لگاتے اس کی ٹانگیں شل ہو گئیں تھیں آئمہ سلطان بھی کچھ دیر تک اسکے پاس بیٹھنے کے بعد پھر آرام کرنے کی غرض سے اپنے روم میں چلی گئ تھیں۔۔۔آخر تھک ہار کر وہ سر ہاتھوں میں گرائے گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔
" صارم بیٹا کوئی کال یا میسج آیا ہے کسی کا ادھر سے وہ لوگ ابھی تک آئے نہیں میں نے ایک دو بار کال کی تھی آپا کے نمبر پہ لیکن وہ اٹھا نہیں رہیں مجھے تو بہت فکر ہو رہی ہے نہ جانے وہاں کیا صورت حال ہے۔۔۔"
آئمہ سلطان رامین کے ساتھ اسکے روم میں داخل ہوتی ہوئی فکرمندی سے بولیں۔۔۔
" خالہ جان میں نے بھی کیا تھا لیکن کسی نے پک نہیں کیا۔۔۔سوچ رہا ہوں کہ خود جا کے پتہ کرلوں۔۔۔"
صارم شاہ نے پریشان ہوتے کہا۔۔۔
" نہیں بیٹا تمہارا ادھر جانا مناسب نہیں ہے پریشانی تو ہو رہی ہے مگر ہم فلحال صبر اور انتظار کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔"
آئمہ سلطان نے کہا۔۔۔
" لگتا ہے کہ آ گئے وہ۔۔۔"
ابھی وہ بیٹھے بات کر ہی رہے تھے کہ باہر دالان سے آتی آوازوں کو سن کر صارم تیزی سے اٹھتا ہوا بولا اور فوراً باہر کو لپکا۔۔۔اسکے پیچھے پیچھے آئمہ سلطان اور رامین نے بھی باہر کا رخ کیا تھا۔۔۔
" کیا بات ہے۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ سب ایسے پریشان کیوں لگ رہے ہیں۔۔۔"؟
صارم شاہ جیسے ہی سٹنگ روم کے دروازے کے پاس پہنچا اندر آتے سب لوگوں کے چہرے دیکھ کر وہ پریشان ہوا تھا۔۔۔شاہ سائیں نڈھال سے ایک سائیڈ پہ رکھے صوفے پر براجمان ہو گئے انکے بیٹھتے ہی سب لوگ بھی مختلف جگہ پر سر جھکائے بیٹھ گئے۔۔۔صارم شاہ بھی ایک نظر سب پر ڈال کر احتشام شاہ کے قریب بیٹھتا ہوا آہستہ سے بولا۔۔۔مگر احتشام شاہ کوئی جواب دئیے بنا لب بھینچ کر بیٹھا رہا۔۔۔
" رامین بیٹا رشیداں بوا سے کہو کہ سب کے لیے پانی لیکر آئیں۔۔۔بلکہ چائے کا کہو۔۔۔سب کے لیے چائے بنا لائیں۔۔۔
کیا بات ہے آپا سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔کیا جواب دیا ہے رشید احمد نے۔۔۔ ایسے پریشان کیوں ہیں آپ سب۔۔۔"
آئمہ سلطان نے باری باری سب کی طرف دیکھتے پہلے اپنے پاس کھڑی رامین سے کہا اور پھر ہائمہ خاتون سے تشویش سے پوچھا۔۔۔
" کیا بتاؤں آئمہ۔۔۔ اپنی زندگی میں ایسا باپ نہ دیکھا نہ میں نے سنا انتہائی گھٹیا قسم کا بندہ ہے وہ۔۔۔بلکہ یہ کہنا بہتر کہ جانور ہے وہ۔۔۔نہ کسی رشتے کا لحاظ اور نہ الّٰلہ کا خوف۔۔۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم وقت پہ پہنچ گئے اگر ذرا سی دیر بھی اور ہو جاتی تو وہ تو عینا کی جان لے چکا ہوتا اب تک۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے افسوس اور انتہائی یاسیت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
" آپا یہ کیا کہ رہی ہیں آپ۔۔۔خدا کی پناہ۔۔۔ہوا کیا تھا۔۔۔"

" اب۔۔۔اب کیسی ہے عینا۔۔۔ٹھیک تو ہے ناں وہ۔۔۔"

آئمہ سلطان اور صارم شاہ ہائمہ خاتون کی بات سن کر ہکا بکا رہ گئے تھے۔۔۔انکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حالات اس قدر کشیدہ ہوں گے۔۔۔
" ہمممم۔۔۔بظاہر تو ٹھیک ہے مگر آگے کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتے۔۔۔مجھے تو حیرت ہو رہی ہے کہ وہ بچیاں فجر کے ساتھ ایک ہی کالج میں پڑھتی ہیں آپس میں اچھی دوستی بھی ہے۔۔۔پھر ہمارے گھر بھی وہ اتنے دن تک رہیں اور ہم اس بات سے بے خبر رہے کہ کس اذیت سے کن حالات سے دوچار ہیں۔۔۔ہاسپٹل میں ملاقات ہوئی تھی رشید احمد سے تب تو بچیوں کے ساتھ اس کا لگاؤ ایسے تھا جیسے بہت فکر ہو انکی۔۔۔یا ایسے جیسے ایک باپ کو ہونا چاہیے۔۔۔مگر اب اس کا یہ روپ دیکھ کر یقین نہیں آ رہا کہ وہ سچ تھا یا پھر یہ سچ ہے جو اب دیکھا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے کہا اور پھر رشید احمد کے گھر پہ جو بھی ہوا وہ سب بتانے لگیں۔۔۔جسے سن کر صارم شاہ ، آئمہ ، اور رامین بے یقینی سے گم صم کچھ پل کو بیٹھے رہے۔۔۔عائلہ کے رشتے کے تہ ہو جانے پہ صارم شاہ کا چہرہ دھواں دھواں ہوا تھا تو وہیں عینا کی فکر ستائی تھی جسکو اس نے بہن کہا تھا اور ہر زندگی میں ہر قدم پہ اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا وعدہ اور ایک بھائی کا بھرپور مان بخشا تھا۔۔۔
" اب۔۔۔اب کیا ہوگا۔۔۔بھائی صاحب رشید احمد آپکی بات کیسے ٹال سکتا ہے۔۔۔نہ جانے کون شخص ہے وہ۔۔۔کیسا ہے۔۔۔کیا کرتا ہے۔۔۔ہیرے جیسی بچی نہ جانے کس جانور کے پلے باندھ رہا ہے۔۔۔"
آئمہ سلطان نے شاہ سائیں سے کہا۔۔۔صارم شاہ کا دل پھٹنے کو آ رہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جا کے ابھی عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے یا رشید احمد کو کہیں گم کردے۔۔۔
" آئمہ بہن میں اس گاؤں کا سر پنچ ضرور ہوں مگر گاؤں کے لوگوں کی زندگیوں اور انکے انتہائی ذاتی معاملات میں دخل اندازی کا مجھے کیا کسی بھی شخص کو کوئی حق نہیں۔۔۔بچوں کی شادی بیاہ کے معاملات میں کوئی بھی شخص کسی کے گھر میں بھی دخل اندازی نہیں کرسکتا اس لیے چاہ کر بھی نہ میں نہ کوئی اور کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔ رشید احمد بتا رہا تھا کہ یہ رشتہ اب نہیں بلکہ بہت پہلے کا تہ کر چکا تھا اور اجالا کو چوٹ لگنے کے چند دن بعد نکاح تھا عائلہ کا۔۔۔مگر اجالا کی موت اور پھر مہرالنساء کے بیمار ہونے کی وجہ سے یہ پروگرام اسے کینسل کرنا پڑا۔۔۔
میں نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی اسے سمجھانے کی مگر وہ فیصلہ کر چکا ہے۔۔۔اس لیے اس پہ مزید دباؤ ڈالنا مجھے مناسب نہیں لگا۔۔۔
شاہ سائیں نے تھکے ہارے لہجے میں کہ کر صوفے کی بیک پہ سر گرا لیا انکو بھی بہت شدید افسوس ہو رہا تھا۔۔۔اپنے بیٹے کی جھولی میں اسکی خوشی ڈالنے سے وہ قاصر ہو گئے تھے۔۔۔
" بابا انکل رشید عائلہ کی شادی نہیں بلکہ اسکا سودا کر رہے ہیں۔۔۔عینا سے میری بات ہوئی تھی تو وہ بتا رہی تھی کہ انکل رشید نے 20 لاکھ دینے تھے اس آدمی کے۔۔۔اور جس دن اجالا کو چوٹ لگی اس دن بھی گھر میں اسی بات کو لے کر جھگڑا ہوا تھا اور اس جھگڑے کا شکار اجالا بنی تھی۔۔۔اور اب ان پیسوں کی واپسی کے بدلے میں عائلہ کا رشتہ تہ کیا گیا ہے۔۔۔"
فجر جب سے عائلہ کے گھر سے آئی تھی ایک سائیڈ پہ گم صم ہو کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔سب کی باتیں سن کر اس نے اپنی زبان کھولی تو سب حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔اس کی زبان نے گوارہ نہیں کیا تھا کہ اپنے ماں باپ اور بڑوں کے سامنے یہ کہے کہ رشید احمد نے اپنی بیٹی کو جوئے میں ہارا ہے۔۔۔اس لیے نپے تلے الفاظ میں ساری بات سے انکو آگاہ کیا۔۔۔
" اور آپ یہ بات ہمیں اب بتا رہی ہو۔۔۔حد کرتی ہو بیٹا آپ بھی۔۔۔آپکو یہ بات ہمیں پہلے بتانی چاہیے تھی اگر ہمیں معلوم ہوتا تو پہلے سے ہی اس کا سد باب کر لیتے۔۔۔"
ہائمہ سلطان نے فجر سے کہا۔۔۔
" میں بتانا چاہتی تھی اور اس سے کہا بھی تھا کہ بابا سب ٹھیک کردیں گے مگر عینا نے منع کردیا تھا اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کروں مجھے بھی اب بہت افسوس یو رہا ہے اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ انکل رشید اس حد تک جا سکتے ہیں تو میں کبھی بھی یہ بات خود تک نہیں رکھتی۔۔۔"
فجر نے کہا۔۔۔
" بابا کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم لوگ وہ 20 لاکھ رشید احمد کو ادا کردیں اور عائلہ کا رشتہ مانگ لیں۔۔۔اگر سارا فساد ان 20 لاکھ کے قرض کا ہے تو وہ ہم ادا کر دیتے ہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے ایک نظر صارم شاہ کی طرف ڈال کر شاہ سائیں سے کہا وہ اچھے سے جانتا تھا کہ صارم شاہ اس وقت تکلیف کی کس انتہا سے گزر رہا ہے اسکے گلے کی شریانیں ضبط کے مارے ابھر کر باہر نکل آئی تھیں مگر ماما بابا کے سامنے خود پہ ضبط کے پتھر باندھ کر چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
" بھائی یہ بھی ممکن نہیں ہے انکل رشید کے ساتھ یہ ساری بات اس آدمی کی زبانی کلامی نہیں بلکہ باقاعدہ اشٹام پیپر پہ تہ ہوئی ہے۔۔۔"
فجر نے ایک اور دھماکا کیا تھا جس پہ امید بھری نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھتا صارم شاہ مزید مضطرب ہوا تھا۔۔۔وہ اپنے باپ کے اصولوں کو اور طبیعت کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔۔۔کسی کی زندگی میں دخل اندازی کرنا یا کسی پہ اپنے فیصلوں کو زبردستی تھوپنا وہ سخت ناپسند کرتے تھے۔۔۔
" یہ کیا بات ہوئی۔۔۔وہ کوئی بھیڑ بکری یا کوئی چیز ہے کیا جو اشٹام پیپر پہ لکھ دی۔۔۔"
ہائمہ خاتون یہ سن کر سخت کبیدہ خاطر ہو کر بولیں۔۔۔
" میرا خیال ہے کہ اب اس موضوع کو یہیں ختم کردیا جائے تو بہتر ہوگا ہم جو کرسکتے تھے کیا ہے اگر بات اس حد تک جا چکی ہے تو کوئی بھی اب کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔سوائے عائلہ کے خود کے۔۔۔یا پھر اس دلاور کے۔۔۔اگر یہ اپنی بات سے پیچھے ہو جائیں تو کچھ ممکن ہے ورنہ نہیں۔۔۔جتنا میں نے رشید احمد کے بارے میں سنا ہے اسکے حساب سے ہم جتنا اس معاملے کو چھیڑیں گے وہ اسے اپنی ضد بنا لے گا اور اس میں سارا سر نقصان بچیوں کا ہی ہوگا۔۔۔
اور دوسری بات کہ اب سے انکے گھر کوئی نہیں جائے گا۔۔۔کوئی نہیں مطلب کوئی نہیں فجر بھی نہیں۔۔۔"
شاہ شائیں باری باری وہاں بیٹھے سب لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
" صارم بیٹا بیٹھ جاؤ آرام سے ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی ہے۔۔۔"
صارم شاہ جو کب سے ضبط کیے بیٹھا ہوا تھا شاہ سائیں کی آخری بات سن کر اٹھ کر اپنے روم میں جانے لگا تو شاہ سائیں نے اسے وہیں بیٹھے رہنے کا کہا۔۔۔
" شاہ جانے دیں اسے۔۔۔ہم بعد میں بات کر لیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون کو اپنے بیٹے کی حالت پہ ترس آ رہا تھا اس وقت عائلہ کے رشتے سے انکار پہ اسکو جو دھچکا لگا تھا اس سے نکلنے کے لیے فلحال اس کا کچھ پل کو تنہا رہنا ضروری تھا اسی وجہ سے ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کی حمایت کی تھی۔۔۔
" صارم بیٹا اپنے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر میرے لیے زندگی میں کچھ بھی نہیں ہے اور آپ سب یہ بات باخوبی جانتے ہیں زندگی میں کبھی کبھی حالات ہمیں اس موڑ پہ لے آتے ہیں کہ ہمیں نہ چاہتے بھی انکے سامنے سر نگوں کرنا پڑتا ہے۔۔۔بہت سی خواہشات سے ہمیں دستبردار ہونا پڑتا ہے اور انسان کو ہمیشہ وہی ملتا ہے جو اسکی قسمت میں لکھا ہو اور جو نہ لکھا ہو اسکے پیچھے چاہے ہم کتنا بھاگیں وہ ہمیں کبھی نہیں ملتی۔۔۔
اسی طرح عائلہ بھی آپکی قسمت میں نہیں تھی اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس بات کو قبول کرتے ہوئے اب دوباہ نہ تو ادھر کا رخ کرو گے اور نہ ہی اس کا ذکر۔۔۔اب وہ کسی اور کی امانت ہے بیٹا اور عزت دار غیرت مند لوگ دوسروں کی امانتوں پہ نظریں لگائے نہیں بیٹھتے۔۔۔اور مجھے امید ہے کہ مجھے ایسی کوئی بات آپ لوگوں کی طرف سے سننے کو نہیں ملے گی جس پہ مجھے شرمندہ ہونا پڑے۔۔۔
شاہ سائیں نے بہت نرمی اور محبت سے صارم شاہ کو سمجھاتے کہا۔۔۔جس پہ صارم شاہ نے لب بھینچتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے فرمانبرداری سے اپنا سر جھکا لیا۔۔۔
" آپ لوگ بیٹھو سب ابھی یہیں مجھے آپ سب لوگوں سے ایک اور معاملے پہ بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"
شاہ سائیں سب سے معزرت کرتے ہوئے اور سب کو وہیں بیٹھے رہنے کی تاکید کرتے خود اٹھ کر روم سے باہر نکل گئے۔۔۔
" یہ۔۔۔کون ہیں یہ۔۔۔"؟
تھوڑی دیر بعد جب شاہ سائیں واپس آئے تو انکے ہاتھ میں وہی سنہری فائل تھی جو احتشام شاہ نے انکی سیف میں دیکھی تھی۔۔۔اپنے بابا کے ہاتھ میں وہ فائل دیکھ کر ایک پل میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا بات کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔
شاہ سائیں نے اس فائل میں سے دو پک نکال کر ایک صارم شاہ اور دوسری فجر کی طرف بڑھائی تو دونوں نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔جبکہ نازو کی تصویر دیکھ کر آئمہ خاتون نے حیران ہو کر اپنی بہن کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
" تم لوگوں کی چھوٹی ماں۔۔۔"
شاہ سائیں نے پرسکون لہجے میں کہا تھا۔۔۔جبکہ چھوٹی ماں کا لفظ سن کر احتشام شاہ کے ساتھ ساتھ صارم شاہ اور فجر بھی بے یقینی سے کبھی اپنے والد کی طرف دیکھتے اور کبھی اپنی ماں کی طرف۔۔۔
" چھوٹی ماں۔۔۔۔۔۔تو کہاں ہیں اب یہ بابا۔۔۔"
صارم شاہ اور فجر نے ایک ساتھ حیران ہوتے پوچھا تھا۔۔۔
" نہیں جانتا بیٹا۔۔۔برسوں سے انکی تلاش میں ہوں۔۔۔کچھ خبر نہیں زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔۔۔اور اگر زندہ ہیں تو کس حال میں ہیں۔۔۔"
اتنا کہتے شاہ سائیں کا لہجہ بھاری ہوا تھا پھر انھوں نے اپنی زندگی کی اس کتاب کا ایک ایک پنہ اپنے بچوں کے سامنے الٹ دیا۔۔۔فجر اور صارم تو سب پرسکون ہو کر آرام سے سب سنتے رہے جبکہ احتشام شاہ خود کو شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔
" مجھے معاف کردیں بابا۔۔۔میرے لیے یکدم اس حقیقت کو قبول کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔بچپن سے لیکر آج تک کبھی رائی برابر بات بھی اس بارے میں ہمارے کانوں میں نہیں پڑی ہم ساری عمر اس حقیقت سے انجان رہے جب اتفاق سے میں نے آپکی یہ فائل دیکھی تو مجھ سے سہا نہیں گیا۔۔۔۔مجھے لگا کہ یہ۔۔۔۔۔"
احتشام آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھ کر شاہ سائیں کے قدموں میں نیچے زمین پہ آ بیٹھا۔۔۔اور انتہائی شرمندگی سے بولا۔۔۔
" آپکو لگا کہ یہ میرے ماضی کا کوئی سیاہ دھبہ ہے جسے میں نے آج تک آپ سب سے چھپا کے رکھا آپکو مجھ سے سوال کرنے کا پوچھنے کا پورا پورا حق تھا اور آپکو مجھ سے سوال کرنا چاہیے تھا خاموشی رشتوں میں آئی بدگمانی کو فاصلوں کو بڑھا دیتی ہے۔۔۔یا پھر آپکو اپنے بابا پہ ذرا بھی بھروسہ نہیں تھا اسی لیے آپکو جو نظر آیا وہی سچ لگا۔۔۔"
شاہ سائیں نے احتشام شاہ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔جس پہ احتشام شاہ تڑپ کر رہ گیا۔۔۔
" تمہارے باپ نے زندگی میں کبھی کسی پرائی عورت کی طرف نگاہِ غلط ڈالنا تو دور اسکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔۔۔چاہے وہ کوئی بازار میں بیٹھی عورت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔اپنے باپ دادا سے ہٹ کر میرے لیے عورت ہر رشتے ہر رتبے میں محترم رہی۔۔۔تمہاری ماں سے میں نے کبھی بے وفائی نہیں کی۔۔۔ نہ تمہاری ماں کا حق کسی دوسری عورت کی جھولی میں ڈالا۔۔۔زندگی میں پہلی بار اس دن دوستوں کے مجبور کرنے پہ ادھر کا رخ کیا تھا اور وہ بھی کسی غلط نیت سے نہیں گیا تھا۔۔۔یا یوں کہ لو کہ اس دن نازنین کو بچانا اور وہاں سے نکالنا میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔۔۔
میں نے جس دن پہلی بار وہاں قدم رکھا اسی دن تمہاری چھوٹی ماں سے میرا سامنا ہوا۔۔۔اس نے مجھ سے مدد مانگی تو میں اسکو انکار نہیں کرسکا میرے ضمیر نے گوارہ نہیں کیا کہ میں ایک ایسی لڑکی کو اس گندگی میں پڑا رہنے دوں جو اپنی عزت بچانے کو اپنی جان تک دے سکتی ہو۔۔۔میں نے گھر آ کر ہائم سے سب کہا تو ہائم نے مجھے نازنین کو وہاں سے نکالنے کا کہا۔۔۔نازنین کو وہاں سے نکالنا میرے لیے مسلہ نہیں تھا میں کہیں بھی اسکی رہائش کا ارینج کر سکتا تھا مگر مسلہ اسکی زندگی کا اور اسکو تحفظ دینے کا تھا اگر میں نازنین کو اپنے نام کا تحفظ نہیں دیتا تو نازنین کی ماں کبھی اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی وہ اسکو یا تو مروا دیتی یا کہیں اس سے بھی بدتر جگہ غائب کردیتی۔۔۔
میں نے ایک بھاری قیمت چکا کر نازنین کو اپنا نام دے دیا پھر گھر آ کر بابا سے بات کی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے مگر اپنے وعدے پہ قائم رہتے ہوئے نازنین کے لیے کسی محفوظ پناہ گاہ کا انتظام کرنے کے بعد جب میں اسے وہاں سے لینے گیا تو وہاں ایک اور ہنگامہ میرا منتظر تھا اس سے نمٹنے کے بعد میں نازنین کو لے کر گھر آ گیا۔۔۔ تمہارے دادا اور ہائم کے گھر والوں کو جب اس بات کا پتہ چلا تو بہت ہنگامہ ہوا مگر میں اپنے فیصلے پہ ڈٹا رہا اور اس دوران قدم قدم پہ ہائم نے میرا ساتھ دیا۔۔۔
پھر اچانک ہائم کے بابا اور تمہارے دادا نے نازنین کو قبول کرلیا حالات اپنی نارمل روٹین پہ چلنے لگے مجھے لگا کہ اب سب ٹھیک ہے مگر میں اپنوں سے دھوکا کھا گیا مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ سب تو بابا کی ایک پلاننگ تھی۔۔۔
دنیا کا سب سے خطرناک وار اور گھاؤ وہ ہوتا ہے جو ہمارے اپنے ہمیں اپنا کہ کر پیٹھ پیچھے دیتے ہیں انسان چاہے کتنا ہی تیز طرار اور باریک بین کیوں نہ ہو اس جگہ پہ آکر مات کھا جاتا ہے۔۔۔اور میں بھی وہ مات کھا گیا۔۔۔میں بھی ہار گیا۔۔۔
میں نازنین کی حفاظت نہیں کرسکا۔۔۔بابا نے بزنس ٹور کے بہانے مجھے باہر بھیج دیا جانے سے پہلے میں نازنین کو ہائم کے حوالے کر کے گیا مگر بابا نے پوری پلاننگ کے تحت ہائم کے بابا کا معمولی سا ایکسیڈنٹ کروا دیا تاکہ یہ منظر سے غائب ہو جائیں اور وہی ہوا اپنے بابا جان کا سنتے ہی یہ فوراً میکے چلی گئیں اور ہائم کے جاتے ہی بابا نے نازنین کو منظر سے غائب کروا دیا اور مجھے ہائم کے بابا کے ایکسیڈنٹ کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ یہ کہا گیا کہ نازنین بھاگ گئ۔۔۔میں فوری طور پہ واپس آ گیا نازنین کو ہرجگہ تلاش کیا مگر وہ کہیں نہ ملی۔۔۔پھر دلبرداشتہ ہو کر میں ہائم کو لے کر ملک چھوڑ کر کینیڈا شفٹ ہو گیا۔۔۔5 سال بعد بابا کے انتقال پہ وطن واپس آیا تو دین محمد کے باپ سے مجھے ساری سچائی کا پتہ چلا مرنے سے پہلے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر گیا مگر میرے دل کا بوجھ بڑھا گیا اس سب کی تصدیق تمہاری دادی جان نے بھی بعد میں یہ روح فرسا خبر سنا کر کردی کہ نازنین ماں بننے والی تھی۔۔۔اسکے بعد میں نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہر جگہ تلاش کیا مگر آج تک ناکام رہا۔۔۔الّٰلہ سے اپنے ناکردہ گناہ کی توبہ بھی کی مگر لگتا ہے میری توبہ قبول نہیں ہوئی۔۔۔وہ لوگ کس حال میں ہیں کیسے ہیں زندہ بھی ہیں یا نہیں۔۔۔یا پھر دوبارہ سے کسی غلاظت کا حصّٰہ بن گئے کچھ نہیں جانتا اور یہ بات مجھے اندر سے مار رہی ہے۔۔۔میں نے بابا کی نیچر کو جاننے کے باوجود ان پہ بھروسہ کیا میں نازنین کی حفاظت نہیں کر سکا اسکو تحفظ نہیں دے سکا یہ بات مجھے چین نہیں لینے دیتی میرے سینے پہ رکھا یہ ایک ایسا بوجھ ہے جس کے نیچے میں آج تک دبا ہوا ہوں۔۔۔تم لوگوں سے کبھی اس لیے ذکر نہیں کیا کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ لوگ زندہ بھی ہیں یا نہیں اور میں گڑے مردے نہیں اکھاڑنا چاہتا تھا۔۔۔"
شاہ سائیں نے ایک گہرا سانس لے کر اپنی بات ختم کی۔۔۔
" بابا میرا وعدہ ہے آپ سے اگر چھوٹی ماں زندہ ہیں تو میں انکو پاتال سے بھی نکال لاؤں گا۔۔۔
بھائی ٹھیک کہ رہے ہیں بابا۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو وہ ہمیں ضرور مل جائیں گے۔۔۔"
احتشام شاہ اور صارم شاہ نے ایک عزم سے کہا۔۔۔صارم شاہ اور احتشام شاہ عائلہ کے گھر جو کچھ ہوا اسکو چند پل کو بھول کر اپنی چھوٹی ماں اور انکے بچے کے بارے میں سوچنے لگے۔۔۔
" بابا چھوٹی ماں کا کوئی رشتہ دار یا وہ کسی کو جانتی ہوں۔۔۔کوئی تو ایسا ہوگا جو انکے بہت قریب ہو۔۔۔"
احتشام شاہ نے پوچھا۔۔۔
" نازنین کی ایک بہن تھی نیلم بائی۔۔۔نازنین کے جانے کے بعد واپس آ کر میں سب سے پہلے اسی کی طرف گیا تھا بڑی مشکل سے اسکا پتہ چلا تو جب میں اس تک پہنچا وہ کسی کے ساتھ باہر جا چکی تھی۔۔۔اور جو لوگ نازنین کو جانتے تھے انھوں نے کہا کہ نازنین وہاں نہیں آئی۔۔۔"
شاہ سائیں نے کہا۔۔۔
" بابا ہم چھوٹی ماں کی یہ پک اپنے پاس رکھ سکتے ہیں کیا۔۔"
احتشام شاہ اور صارم شاہ نے پوچھا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔۔"
شاہ سائیں نے یک لفظی جواب دیا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 

Episode, 38#

صبح جیسے ہی رضوانہ خاتون کی کال آئی تو گھر میں کسی کو بھی انفارم کیے بنا ایمان فوری طور پہ خودی ڈرائیو کر کے انکے گھر پہنچ گئ اور رضوانہ خاتون اور فاطمہ کے ساتھ مل کر مہدیہ کو لیکر ہاسپٹل آ گئ تھی ڈاکٹر کو ملنے سے لیکر مہدیہ کو ایڈمٹ کروانے اسکے لیے پرائیویٹ روم کا ارینج کرنے اور میڈیسن تک وہ سب ایسے بھاگ بھاگ کر کر رہی تھی جیسے اس سے اس کا کوئی بہت قریبی رشتہ ہو۔۔۔پھر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد دوبارہ چکر لگانے کا کہ کر واپس گھر آ گئ تھی۔۔۔۔
ایمان کی والدہ کی اپنی بوتیک تھی جس میں ایمان اور انکی بڑی بیٹی زویا انکا ہاتھ بٹاتیں تھیں سارا دن کی مصروفیت میں اسے دوبارہ ہاسپٹل جانے کا ٹائم ہی نہیں ملا اور اب رات کے آٹھ بج چکے تھے حالانکہ ہاسپٹل انکے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا مگر اپنی دونوں بڑی بہنوں کی نسبت رات کے وقت اکیلے ڈرائیو کرنے سے ایمان ہمیشہ سے گریز کرتی تھی
اتفاق سے انکے گھر کے ڈرائیور کی طبیعت بھی 2 دن سے کافی خراب تھی گھر میں دو دو گاڑیاں ہونے کے باوجود اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔۔۔
" کیا بات ہے بیٹا کوئی مسلہ ہے کیا"
آخر تھک ہار کر وہ اپنے والد کے روم میں داخل ہوئی تو اسکے چہرے پہ پریشانی دیکھ کر اکرام صاحب نے پوچھا۔۔۔فرحین بیگم جو کہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے ہاتھوں پہ نائٹ کریم کا مساج کرنے میں بزی تھیں انھوں نے بھی حیران ہو کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔
" بابا مجھے ہاسپٹل جانا ہے اور۔۔۔۔"
تمہارا دماغ خراب ہے کیا۔۔۔یہ کوئی وقت ہے جانے کا۔۔۔اور میرا خیال ہے کہ صبح کافی کچھ کر چکی ہو تم ان لوگوں کے لیے۔۔۔میں نے کبھی کسی کی مدد کرنے سے تمہیں نہیں روکا مگر ہزار دفعہ سمجھایا ہے کہ تم پر اگر مدر ٹریسہ بننے کا اتنا ہی بھوت سوار ہے تو بھی ایک حد تک لوگوں سے ملا کرو اور ایک حد تک رہا کرو۔۔۔تمہاری اسی نیچر کا سب فائدہ اٹھاتے ہیں تم سے پیسے بٹورنے کے ہزار بہانے ہوتے ہیں انکے پاس۔۔۔کوئی ضرورت نہیں اب دوبارہ ادھر جانے کی۔۔۔صبح ڈرائیور کے ہاتھ کچھ اور پیسے بھجوا دوں گی میں۔۔۔"
" فرحین بیگم نے انتہائی نخوت سے مہدیہ کی بات بیچ میں ہی اچکتے کہا۔۔۔
" ماما پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا رضوانہ بوا اور فاطمہ ایسی نہیں ہیں سالوں سے ہمارے گھر کام کر رہی ہیں سوائے اپنی تنخواہ کے ہم سے کچھ نہیں مانگا آج تک اور نہ لیا ہے وہ انتہائی خود دار خاتون ہیں یہ آپ بھی جانتی ہیں پہلی بار ایسا ہوا کہ انھوں نے ہم سے مدد مانگی ہے۔۔۔
مہدیہ کی طبیعت سچ میں بہت خراب تھی۔۔۔"
ایمان کو اپنی ماں کی بات سخت ناگوار گزری تھی اس لیے نہ چاہتے بھی اس کے لہجے میں تلخی گھل گئ تھی۔۔۔
" اوکے بیٹا آپ پریشان مت ہو قاسم سے کہو وہ آپکے ساتھ چلا جائے گا نہیں مانتا تو میرے پاس بھیجو اسے۔۔۔"
اکرام صاحب نے ماں بیٹی کے بیچ بحث کو مزید روکتے ہوئے فوراً اسے جانے کی پرمیشن دیتے کہا۔۔۔
" تھینکس بابا جان۔۔۔"
مہدیہ کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی تھی۔۔۔
" مہدیہ۔۔۔"
وہ جانے کو مڑی تو اکرام صاحب نے اسے آواز دی۔۔۔
" جی بابا۔۔۔"
مہدیہ نے پلٹ کر کہا۔۔۔
" ہمیشہ یاد رکھنا بیٹا کہ مجھے بہت فخر ہے آپ پہ۔۔۔جو بندہ دوسروں کی پریشانی دور کرتا ہے الّٰلہ اسکے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اسکے راستے کے تمام کانٹے ایسے صاف کرتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا۔۔۔ہمیشہ یونہی رہنا بیٹا۔۔۔"
اکرام صاحب نے مسکرا کر کہا اور کچھ پیسے نکال کر مہدیہ کو دئیے کہ وہ رضوانہ بوا کو دے دے۔۔۔ایمان شکریہ کہ کر اور پیسے پکڑ کر قاسم کے کمرے کی طرف چل دی۔۔۔
" آپکی انھی باتوں کی وجہ سے یہ بگڑ گئ ہے میری ایک نہیں سنتی۔۔۔"
فرحین بیگم نے منہ بنا کر کہا۔۔۔
" کیا واقع سچ میں آپکو لگتا ہے کہ ایمان بگڑی ہوئی بچی ہے۔۔۔آپکو تو اس پہ فخر ہونا چاہیے بہت خوش قسمت ہوتے ایسے ماں باپ جن کو الّٰلہ ایسی اولاد سے نوازتا ہے نیک اولاد دونوں جہاں میں ماں باپ کے لیے الّٰلہ کا انعام ہوتی ہے۔۔۔
دیکھا جائے تو جو فکر ایمان ان کی کر رہی ہے وہ آپکو کرنی چاہیے تھی کاش کہ ہمارے باقی بچے بھی ایمان جیسے ہوتے۔۔۔"
اکرام صاحب نے دکھی لہجے میں کہا پھر اٹھ کر لیپ ٹاپ نکال کر اپنا تمام حساب کتاب دیکھنے لگے۔۔۔جبکہ فرحین بیگم انکی بات پہ سر جھٹک کر منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگیں۔۔۔
قاسم کل رات کو ہی گھر آیا تھا اس کے دونوں بھائی اپنا زیادہ تر وقت لاہور میں ہی گزارتے تھے اپنے باپ کا وسیع پیمانے پہ پھیلا ڈیری کا کام سنبھالنے کی بجائے طلحہ نے اپنا الگ سے بزنس سیٹ کرنے کو ترجیح دی تھی شروع میں اکرام صاحب نے اس بات کی سخت مخالفت کی مگر بعد میں اسکی لگن کو دیکھتے خاموشی سادھ لی۔۔۔اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر طلحہ پارٹنر شپ پہ گارمنٹس فیکٹری رن کرنے لگا۔۔۔طلحہ کی طرف سے اکرام صاحب جتنا مطمئین رہنے لگے قاسم کی طرف سے اتنا ہی پریشان۔۔۔
قاسم ایک لا ابالی طبیعت کا انسان تھا رات گئے تک پارٹیز انجوائے کرنا، ناچ گانا ، شراب غرض کہ ہائی سوسائٹی کی تقریباً سبھی برائیاں اس میں موجود تھیں 28 سال کا ہونے کے باوجود اپنی زندگی کو لیکر انتہائی نان سیریس رویہ اپنائے ہوئے تھا جس پہ اکرام صاحب دن رات سلگا کرتے انھوں نے بہت دفعہ اسے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔بار بار روک ٹوک سے ایک دن وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔۔۔
اکرام صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچنے کے لیے پھر وہ طلحہ کے ساتھ ہی رہنے لگا۔۔۔
قاسم کی منت سماجت کر کے اور اسے بابا کی دھمکی دے کر اسکے ساتھ وہ ہاسپٹل چلی آئی تھی۔۔۔
" کیسی ہیں آپ۔۔۔مہدیہ کی طبیعت کیسی ہے اب۔۔۔"
ایمان پرائیویٹ روم کے اندر داخل ہو کر مہدیہ کے پاس کھڑے ہو کر اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔قاسم جیسے ہی روم میں داخل ہوا مہدیہ کو دیکھ کر اسے ایک جھٹکا لگا تھا اپنی زندگی میں اتنا مکمل حسن اس نے آج تک نہیں دیکھا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی لڑکی اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے ہاسپٹل آتے وقت وہ جتنا کوفت زدہ تھا اب اتنا ہی اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔۔۔ایمان کے ساتھ قاسم کو دیکھ کر فاطمہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر سوئی ہوئی مہدیہ کے اوپر دی گئ چادر کو ٹھیک کیا تھا۔۔۔
" پہلے سے کافی بہتر ہے بیٹا ڈاکٹر کہ رہی تھی کہ صبح چھٹی مل جائے گی انشاء الّٰلہ۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے مسکرا کر کہا
" اوہ۔۔۔یہ تو اچھی خبر ہے۔۔۔ فاطمہ آپ کیسی ہیں۔۔۔"؟
ایمان نے خوشی کا اظہار کرتے پھر فاطمہ سے پوچھا۔۔۔
" میں بھی ٹھیک ہوں۔۔۔آپ کیسی ہیں۔۔۔"
فاطمہ نے جواب دے کر اس سے پوچھا۔۔۔
" بے بی ٹھیک ہے ناں خالہ۔۔۔ڈاکٹر دوبارہ آئی تھی کیا۔۔۔"
مہدیہ نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔جبکہ بے بی کی بات پہ قاسم کو جھٹکا لگا تھا اس نے سر تا پیر اب کے بغور مہدیہ کا جائزہ لیا تھا۔۔۔
" ہاں بیٹا دوپہر میں آئی تھی ڈاکٹر اور اب بھی کچھ دیر پہلے چیک کر کے گئ ہے۔۔۔بچہ بھی ٹھیک ہے الّٰلہ نے بڑا کرم کیا ہے اگر بروقت ہم ہاسپٹل نہ پہنچ پاتے تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔۔۔آپکا بڑا احسان ہے بیٹا الّٰلہ آپکو اس کی جزا دے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے مشکور لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔
خالہ میں نے کچھ نہیں کیا بچانے والی ذات تو الّٰلہ کی ہے میں تو بس ایک ذریعہ بنی ہوں۔۔۔خیر میں صبح آ جاؤں گی آپ لوگوں کو لینے۔۔۔اور یہ کچھ پیسے ہیں بابا نے بھجوائے ہیں۔۔۔"
مہدیہ نے جواب دیا پھر انکو تسلی دینے کے بعد اپنے پرس سے کچھ پیسے نکال کر رضوانہ خاتون کے ہاتھ پہ رکھتے کہا۔۔۔
" ایمان بیٹا انکی ضرورت نہیں تھی پہلے ہی آپ نے بہت کیا ہے ہمارے لیے۔۔۔صبح بھی ساری پیمنٹ آپ نے ہی کی تھی اور کل صبح ویسے بھی چھٹی مل جائے گی تو انکی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
" خالہ میں نے کچھ نہیں کیا یہ سب بابا نے بھجوائے ہیں اس لیے اگر شکریہ ادا کرنا ہے تو ان کا کیجیے گا۔۔۔"
ایمان نے ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا کر کہا۔۔۔
میں کس منہ سے آپکا شکریہ ادا کروں اگر آپ اس مشکل وقت میں ہماری مدد نہیں کرتیں تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔۔۔الّٰلہ آپکو لمبی حیاتی عطا کرے ہمیشہ خوش رہیں الّٰلہ آپکے نصیب اچھے کرے جی۔۔۔"
" پلیززز خالہ ایسے مت کہیں سچ پوچھیں تو مہدیہ سے بس ایک دو بار ملاقات ہوئی ہے مگر ایسا لگتا جیسے میں اسے برسوں سے جانتی ہوں اور مجھے بہت خوشی ہے کہ میں آپکے اور مہدیہ کے کسی کام آئی۔۔۔
ایمان نے بہت خوش دلی سے کہا۔۔۔
" یہ تو آپ سب کا بڑھکپن ہے بیٹا۔۔۔اور اس سب کے لیے بہت شکرگزار ہوں آپ سب کی۔۔۔
رضوانہ خاتون نے کہا۔۔۔
" خالہ میں اب چلتی ہوں صبح آؤں گی آپ کو لینے اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔"
ایمان نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


آج کا سارا دن اتنا بزی گزرا تھا کہ کسی کو کوئی ہوش نہیں رہا تھا۔۔۔آئمہ سلطان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی ہائمہ خاتون نے فجر کی بہت اہم چیزوں کی فجر کے ساتھ مل کر نہ صرف لسٹ بنائی تھی بلکہ انکا آرڈر دینے کا بھی احتشام شاہ سے کہ دیا تھا باقی کی تمام چیزوں کے لیے ٹائم کم ہونے کی وجہ سے شاہ سائیں اور اپنے بیٹوں کے مشورے پہ انھوں نے شادی پہ فجر کو ایک بھاری رقم دینے کا تہ کیا تھا تاکہ وہ اپنی پسند سے جو چاہے لے لے۔۔۔اپنی بیٹی کی شادی کو لے کر انکے دل میں بہت ارمان تھے جو کمی وقت کی وجہ سے پورے تو نہ کرسکتی تھیں مگر اپنی بیٹی کو یوں خالی ہاتھ رخصت کرنا بھی ان کو ہرگز گوارا نہیں تھا۔۔۔حالانکہ وہ اپنی سگی خالہ کے گھر ہی رخصت ہو کر جا رہی تھی۔۔۔
ہائمہ خاتون کے دوٹوک انداز پہ آئمہ سلطان بھی چپ کر گئیں تھیں اس لیے انکی خوشی میں خوش ہو کر آج کا سارا دن انکا اپنی بہن ہائمہ اور رامین کے ساتھ بازار کی خاک چھانتے گزرا تھا۔۔۔
فجر کو وہ لوگ ساتھ لے کر نہیں آئے تھے ایک تو شاہ سائیں نے منع کردیا تھا دوسرا ہائمہ خاتون کا خیال تھا کہ بازار کی خاک چھانتے اس کے چہرے کی رنگت مانند پڑ جائے گی۔۔۔
کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے اسکی پک لے کر فجر کو وٹس ایپ کی جاتی اسکے اوکے کرنے پہ پھر ڈن کردی جاتی۔۔۔
زیور کی بھی مختلف پک اسکو سینڈ کردی گئیں اور پھر اسکے اوکے کرنے پہ خرید لیا گیا۔۔۔
ہنگامی بنیادوں پہ سب کو شادی کا دعوت نامہ بھی موبائل پہ ہی وٹس ایپ کردیا گیا تھا۔۔۔
" رشیدا بوا۔۔۔۔رشیداں بوا۔۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے ہال کمرے میں رکھے صوفوں پہ بیٹھتے ہوئے ساتھ ہی اونچی آواز میں رشیداں بوا کو پکارا۔۔۔انکے ساتھ ساتھ آئمہ سلطان اور رامین بھی گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھیں چند منٹ بعد دین محمد ہاتھ میں بہت سے شاپر پکڑے اندر چلا آیا اسکے پیچھے پیچھے احتشام شاہ اور صارم شاہ بھی کچھ سامان پکڑے اندر داخل ہوئے اور سب چیزیں ایک سائیڈ پہ رکھ کر ان لوگوں کے پاس ہی صوفے پر اپنی ٹانگیں اور بازو پھیلا کر گہرا سانس لیتے ہوئے بیٹھ گئے۔۔۔
" افففففف بہت برا حال ہو رہا ہے۔۔۔یہ ہمارے گھر کی پہلی اور آخری شادی ہوگی جو ایسے ہنگامی بنیادوں پہ ہو رہی ہے۔۔۔اس کے بعد جسکی بھی شادی ہوگی کم از کم چند ماہ کا ٹائم ضرور رکھا جائے گا درمیان میں۔۔۔"
احتشام شاہ نے تھکن سے چور لہجے میں کہا۔۔۔
" جی بی بی جی۔۔۔"
رشیداں بوا ہاتھ میں ٹرے پکڑے اور اس میں پانی کا جگ اور گلاس لیے ہائمہ خاتون کے آگے کرتے ہوئے بولیں۔۔۔
" الّٰلہ بھلا کرے بوا آپکا میں نے یہی کہنے کو بلایا تھا آپکو۔۔۔پہلے آئمہ اور بچوں کو دیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے کہے بنا پانی لانے پہ رشیداں بوا کا شکریہ ادا کرتے مسکرا کر کہا۔۔۔
" مجھے پتہ تھا بی بی جی آپ سب صبح کے نکلے ہو گھر سے تو بھوک و پیاس تو لگی ہوگی۔۔۔"
رشیداں بوا نے سب کو باری باری پانی پیش کرتے کہا۔۔۔
" یہ تو آپ بلکل سچ کہ رہی ہیں بوا بھوک اور پیاس سے سچ میں سب کا برا حال ہے۔۔۔کھانا تیار ہے تو لگا دیں جلدی سے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے گھونٹ گھونٹ پانی پیتے ہوئے کہا۔۔۔
" جی کھانا تو بلکل تیار ہے آپ سب منہ ہاتھ دھو لیں میں ابھی لگاتی دیتی ہوں۔۔۔"
رشیداں بوا نے کہا۔۔۔
" رشیداں شاہ گھر پہ ہیں کیا۔۔۔دوپہر میں فجر اور انھوں نے کھانا کھایا تھا کیا۔۔۔"
اچانک سے ہائمہ کو شاہ سائیں اور فجر کا خیال آیا تو رشیداں بوا سے پوچھا۔۔۔
" جی فجر بی بی نے تو کھا لیا تھا مگر شاہ جی کا نہیں پتہ کہ کھایا یا نہیں آپکے جانے کے بعد وہ بھی باہر چلے گئے تھے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ بھی لوٹے ہیں۔۔۔"
رشیداں بوا اتنا کہ کر کچن کی طرف چل دی۔۔۔
" میں فجر کو دیکھ لوں۔۔۔
رامین فجر کا مخصوص سامان اور زیورات ہاتھ میں پکڑ کر اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔تو اسکی بات پہ ہائمہ اور آئمہ سلطان نے ایک ساتھ سر ہلایا۔۔۔فلحال انکی ہلنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی اس لیے وہیں بیٹھی رہیں۔۔۔
" بڑی موجیں لگی ہوئی ہیں تمہاری کر لو جو آرام کرنا ہے اور کروا لو جتنی خدمتیں کروانی ہیں شادی کے بعد تم دیکھنا کیسے تم سے اس سب کا خوب بدلہ لوں گی گھر کا سارا کام تم سے کروایا کروں گی۔۔۔میں تو آج ایک دن بھوکی رہی ہوں ناں تمہاری وجہ سے میں تمہں دو دو دن بھوکا رکھا کروں گی۔۔۔"
رامین فجر کے روم میں ایک دھماکے سے داخل ہوتے اور سارا سامان اسکے سامنے بیڈ پہ رکھتے ہوئے اس پہ ایک گھوری ڈالتے ہوئے بولی۔۔۔
" مجھ سے کام کرواؤ گی تم۔۔۔ہاں۔۔۔تم دیکھنا میں پہلے تمہارے یہ بازو توڑو گی۔۔۔پھر تمہاری یہ ٹانگیں توڑوں گی۔۔۔نہیں بلکہ تمہیں سیڑھیوں سے دھکا دے دوں گی۔۔۔نہیں یہ بھی نہیں۔۔۔ بلکہ کسی 100 سالہ بڈھے سے تمہاری شادی کروا دوں گی جس میں ٹھرک کوٹ کوٹ کے بھرا ہوگا اور اور اس کے منہ میں کوئی دانت بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔"
رامین کی بات سن کر فجر اپنی جگہ سے فوراً اٹھی تھی اور اسے سنبھلنے کا موقع دئیے بنا حملہ کرنے کے انداز میں اس کی بازو پکڑ کر مروڑتے ہوئے پیچھے کمر کے ساتھ لگا دی۔۔۔پورے کمرے میں رامین کی دبی دبی چیخیں گونجنے لگیں۔۔۔تو فجر اسے چھوڑ کر بیڈ پہ ٹانگیں لٹکائے لیٹتے ہوئے کھل کر ہنسنے لگی۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہا
" توبہ ہے کتنی ظالم ہو تم قسم سے۔۔۔اور اتنی خوفناک پلاننگ کر رکھی ہے تم نے۔۔۔بیچارے شرجیل بھائی تو بے موت مارے جائیں گے کتنا معصوم سمجھتے ہیں وہ تمہیں اور تم۔۔۔۔"
رامین اپنا بازو سہلاتی ہوئی مصنوعی حیرانگی کا اظہار کرتے ایک جھرجھری سی لے کر فجر کے قریب ہی بیڈ پہ دھپ سے گرتے ہوئے بولی۔۔۔
" اس میں کوئی شک ہے معصوم تو میں ہوں۔۔۔"
اب کے فجر نے بڑے سٹائل سے منہ کا معصوم سا زاویہ بنا کر کہا۔۔۔
" جی ابھی ابھی دیکھا آپکی معصومیت کا مظاہرہ۔۔۔"
رامین نے مسکرا کر کہا۔۔۔تو فجر بھی مسکرا دی پھر اپنی کہی بات کی طرف دھیان گیا تو بے اختیار اسکا قہقہہ چھوٹ گیا رامین کو پہلے تو اسکے یوں ہنسنے کی سمجھ نہ آئی پھر جب آئی تو اسکی بھی ہنسی چھوٹ گئ اپنا پیٹ پکڑ کر دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہونے لگیں۔۔۔
" ویسے آپس کی بات ہے کہ شرجیل بھائی بھی بلکل آپکی طرح ہی معصوم سے ہیں اور انکے منہ میں تو دانت بھی پورے ہیں۔۔۔اس لیے اپنا بہت خیال رکھیے گا۔۔۔"
رامین ہنستے ہنستے ایک آنکھ ونک کرتے بھرپور شرارت سے بولی۔۔۔تو اسکی بات پہ فجر یکدم بلش کر گئی اور ایک زوردار دھموکا اس کی کمر میں جڑا جس پہ رامین کراہ کر رہ گئ۔۔۔وہ باتیں کر ہی رہی تھیں کہ اسی وقت رامین کے موب پہ رنگ ہوئی۔۔۔
" اوہ۔۔۔۔شرجیل بھیا۔۔۔"
رامین اپنے موب کی سکرین پہ شرجیل کا جگمگاتا نام دیکھ کر فجر کی طرف دیکھ کر ذومعنی لہجے میں بولی۔۔۔اور فوراً کال پک کی۔۔۔
" واؤ ماشاء الّٰلہ بھیا بہت لمبی عمر ہے آپکی۔۔۔ابھی ابھی آپکا ہی ذکر چل رہا تھا۔۔۔"
رامین فجر کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی تو فجر نے فوراً گھوری ڈالتے نفی میں سر ہلاتے اسے اشارہ کیا کہ اس کا ذکر مت کرنا۔۔۔
" تو کون کر رہا تھا میرا ذکر۔۔۔"
دوسری طرف سے پوچھا گیا۔۔۔
" امی، خالہ، اور۔۔۔اور۔۔۔"
" اور۔۔۔۔۔"
دوسری جانب سے بے قراری اور شوخی سے پوچھا گیا۔۔۔رسیور سے آتی ہلکی ہلکی آواز پاس بیٹھی ہوئی فجر کے کانوں تک بھی باخوبی پہنچ رہی تھی۔۔۔فجر نے ہاتھ جوڑتے ہوئے رامین سے منت کی کہ اس کا ذکر مت کرے۔۔۔
" اور۔۔۔۔اور میں۔۔۔۔"
رامین کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولی۔۔۔اسے فجر کا حیا سے لال ہوتا چہرہ دیکھ کر ترس آ گیا تو بات بدل گئ۔۔۔
" اچھاااااا۔۔۔۔۔اور کوئی نہیں۔۔۔"
دوسری طرف سے مایوسی سے پوچھا گیا۔۔۔
" رامین۔۔۔کیسی ہے وہ۔۔۔۔"
کچھ دیر بعد دوسری طرف سے دوبارہ سوال آیا تو رامین نے سوالیہ نظروں سے فجر کی طرف دیکھا کہ اب کیا کہوں۔۔۔
" بہت پیاری ہے۔۔۔بھیا آپ نے کبھی گلابی آسمان دیکھا ہے۔۔۔اور اس پہ چھائی قوسِ قزح۔۔۔"؟
رامین نے فجر کے اسے روکنے کے تمام اشاروں کو نظرانداز کرتے اسکی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر سوال کیا۔۔۔
" دیکھا تو نہیں ہے مگر بہت بے چین ہوں یہ منظر دیکھنے کو اور دیکھے بنا یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس سے زیادہ دنیا میں کوئی منظر شاندار نہیں ہوگا۔۔۔"
شرجیل کو پہلے تو اس کے اس بے تکے سوال کی کچھ سمجھ نہیں آئی پھر سمجھ آنے پہ کھل کر مسکراتے ہوئے کھنکتے لہجے میں بولا۔۔۔وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ فجر کے پاس ہی بیٹھی ہوئی ہے اور گلابی آسمان سے مراد اسکا ڈریس اور قوس قزح سے مراد اسکے چہرے پہ آنے والے رنگ ہیں۔۔۔
" تو پھر کب فلائیٹ ہے آپ کی۔۔۔اس حسین منظر کو دیکھنے کو۔۔۔"
رامین نے بھی کھل کر ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
" انشاءالّٰلہ کل رات آٹھ بجے شہریار بھائی میں بابا اور بابا کے کچھ دوست پاکستان پہنچ جائیں گے۔۔۔"
شرجیل نے کہا۔۔۔
" انشاءالّٰلہ۔۔۔"
رامین نے جواب دیا پھر ادھر ادھر کی چند باتوں اور اپنی آج کی کی گئ شاپنگ کا بتانے کے بعد رامین نے کال منقطع کردی۔۔۔
" کیا بول رہی تھی تم۔۔۔ہاں۔۔۔گلابی آسمان۔۔۔قوس قزح۔۔۔منع کیا تھا ناں کہ میرا ذکر مت کرنا۔۔۔"
رامین کے فون رکھتے ہی فجر دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا دبوچتے اسے آگے پیچھے گھماتے ہوئے جھینپ کر بولی۔۔۔
" یار مجھے ترس آگیا تھا بھیا پہ۔۔۔کتنی بے قراری تھی انکے لہجے میں۔۔۔" کیسی ہے وہ " تو مجھے بتانا پڑا کہ " ایسی ہے وہ " اور غلط کب کہا سچ میں یہ کلر بہت سوٹ کر رہا ہے تم پہ۔۔۔اور اس پہ تمہارا بلش کرنا۔۔۔میرا بھائی تو گیا کام سے۔۔۔"
رامین نے بھی ہنستے ہوئے کہا پھر دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگیں۔۔۔
" اچھا یار یہ چیک کر لو سب اور جو ٹھیک نہیں لگے وہ ایک سائیڈ پہ کردو صبح چینج کروا لیں گے۔۔۔"
رامین نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے زیور کے بوکس اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
" یار مجھے نہیں دیکھنا امی کو اور تمہیں ٹھیک لگ رہا تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔"
فجر نے شاپنگ بیگ کھولے بنا سائیڈ پہ کرتے کہا۔۔۔
" اوہ ہیلو۔۔۔کچھ شرم کر لو۔۔۔سارا دن تمہاری اس شاپنگ کے چکر میں میں ہلکان ہو گئ اور تم ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں۔۔۔"
رامین نے مصنوعی خفگی سے کہا تو فجر اسکے کہنے پہ ایک ایک چیز کھول کھول کر دیکھنے لگی۔۔۔ہر چیز بہت عمدہ اور دیدہ زیب تھی۔۔۔سب دیکھنے کے بعد فجر نے سب اوکے کا سگنل دیا تو رامین نے سکھ کا گہرا سانس لیا کہ سب فجر کو پسند آ گیا۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


" امی جان کیسی طبیعت ہے اب آپکی۔۔۔"
عینا اپنے چہرے کو تھوڑا کور کر کے مہرالنساء کے روم میں انکے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے بولی جو کہ آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھیں۔۔۔رشید احمد کے تھپڑوں کی وجہ سے اس کے چہرے پہ نہ صرف سویلن ہو گئ تھی بلکہ انگلیوں کے نشان بھی چھپ گئے تھے سنکائی کرنے سے کچھ فرق ضرور پڑا تھا مگر نشان گئے نہیں تھے۔۔۔اس لیے اس نے اپنے چہرے کو تھوڑا دوپٹے سے کور کر لیا تھا کہ کہیں اس کی والدہ نہ دیکھ لیں۔۔۔
" ٹھیک ہوں میں۔۔۔مگر تم کدھر تھی آج سارا دن نظر ہی نہیں آئی۔۔۔"؟
مہرالنساء نے لیٹے لیٹے اسکی آواز سن کر اپنی آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھا اور دھیمی آواز میں بولیں۔۔۔
" ماما ہمارے والا روم بہت گندہ لگ رہا تھا کافی دنوں سے اسکی صفائی نہیں کی تھی تو سوچا آج اس کو بھی دیکھ لوں۔۔۔میں آئی تھی ایک دو بار آپکو دیکھنے لیکن آپ سو رہی تھیں اس لیے آپ سے بات نہیں ہو پائی آج۔۔۔"
عینا نے مہرالنساء کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے محبت سے کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔پتہ نہیں ڈاکٹر نے اس بار کونسی دوا دے دی ہے ہر وقت غنودگی چھائی رہتی ہے۔۔۔ بیٹا مجھے اب یہ میڈ مت دینا بہت نیند آتی ہے یہ کھانے سے۔۔۔"
مہرالنساء نے کہا۔۔۔
" امی جان ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ آپ جتنا آرام کریں گی اور نیند لیں گی اتنی جلدی آپ ٹھیک ہوں گی۔۔۔اسی لیے یہ دوائی تو آپکو کھانی پڑے گی۔۔۔
کچھ چاہیے آپکو کیا۔۔۔جوس یا سیب کاٹ کر لاؤں کیا۔۔۔"؟
عینا نے کہا۔۔۔
" نہیں عائلہ نے کچھ دیر پہلے سیب کھلایا تھا۔۔۔اب کچھ بھی دل نہیں چاہ رہا کھانے کو۔۔۔تم یہ بتاؤ کہ تمہارا باپ کدھر ہے۔۔۔کچھ کہا تو نہیں اس نے۔۔۔"؟
مہرالنساء کو حیرانی تھی کہ وہ چپ کر کے کیسے بیٹھ سکتا ہے۔۔۔
" پتہ نہیں کل ہاسپٹل کے بعد گھر نہیں آئے۔۔۔آپکو تو پتہ ہی ہے گھر کہاں ٹکتے ہیں وہ۔۔۔"
عینا نے اپنے لہجے کی تلخی کو چھپاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
" بیٹا میری دو دن طبیعت خراب رہی تو سبزی وغیرہ کیسے لی۔۔۔کیا کیا تم لوگوں نے۔۔۔فریج می
مہرالنساء نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
" امی جان کل تو ہم نے دال بنا لی تھی اور تھوڑی سی شامیاں پڑیں تھیں وہ ساتھ میں فرائی کر لیں تھیں کل کی اب کل دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔۔۔"
عائلہ نے اندر آتے اپنی والدہ کی بات سن لی تھی تو عینا کے بولنے سے پہلے ہی فوراً جواب دیا۔۔۔اسکے ساتھ ایمن بھی تھی جو جوتا اتار کر اپنی والدہ کے ساتھ کمفرٹر میں گھس گئ۔۔۔
" ایمن سکول جا رہی ہو ناں بیٹا۔۔۔"
مہرالنساء نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
" جی۔۔۔لیکن میرا دل نہیں کرتا جانے کو۔۔۔عائلہ آپی اور عینا آپی کونسا جاتی ہیں۔۔۔میرا پڑھائی میں بلکل بھی دل نہیں لگتا۔۔۔"
ایمن نے بسورتے ہوئے کہا۔۔۔
" یہ کیا بات ہوئی۔۔۔اور دل کیوں نہیں کرتا پڑھنے کو آپکے تو اس بار بورڈ کے پیپرز ہیں آپکو تو زیادہ محنت کرنی ہوگی پھر اس بار۔۔۔
اور تم دونوں کیوں نہیں جارہی کالج۔۔۔کل سے اپنا کالج سٹارٹ کرو۔۔۔میری طرح رلنا ہے کیا تم لوگوں نے۔۔۔"
مہرالنساء نے انکو ڈپٹتے ہوئے کہا۔۔۔تو وہ اثبات میں سر ہلا کر رہ گئیں۔۔۔دل تو دونوں کا چاہ رہا تھا کہنے کو کہ انکے ہاتھ میں پڑھائی کی لکیر نہیں ہے مگر اپنی ماں کی طبیعت کی خرابی کے خیال سے چپ کر گئیں۔۔۔
" کب ہیں پیپرز تم لوگوں کے۔۔۔"
مہرالنساء نے پوچھا
" 4،5 ماہ ہیں ابھی۔۔۔"
عینا اور عائلہ نے جواب دیا۔۔۔
عینا کسی کام سے اٹھ کر باہر نکلی تو عائلہ بھی اسکے پیچھے پیچھے روم سے باہر نکل گئ۔۔۔مگر باہر جانے سے پہلے وہ ایمن کو کل جو کچھ ہوا اس پہ چپ رہنے کا اور ماما سے ذکر نہ کرنے کا اشارہ کرنا نہیں بھولی تھی۔۔۔
" کب تک چلے گا ایسے۔۔۔"
عائلہ کچھ تلخی سے عینا سے بولی جو فریج میں سے پانی نکال کر پی رہی تھی۔۔۔
" آپکو کیا سچ میں میرے ناراض ہونے کی پرواہ ہے کیا۔۔۔"؟
عینا نے پانی ختم کرنے کے بعد گلاس واپس رکھتے سوال کے بدلے سوال کیا۔۔۔
" یہ پرواہ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔کل سے تم مس بیہیو کر رہی ہو میری کسی بات کا ڈھنگ سے جواب نہیں دے رہی مجھے نظر انداز کر رہی ہو مگر میں پھر بھی تمہیں کل سے منانے کی کر رہی ہوں۔۔۔
عینا یہ پرواہ ہی تو ہے۔۔۔تم سے ایمن سے امی سے محبت ہی تو ہے جسکی میں قیمت چکا رہی ہوں۔۔۔میں نہ بے حس ہوں نہ تم لوگوں کی طرف سے لاپرواہ۔۔۔ابا کی خواہش تو میری جان نہ لے شائد مگر تمہارا یہ رویہ مجھے مار ڈالے گا۔۔۔"
عائلہ اب کے روہانسی ہو کر بولی آنسو اسکی پلکوں پہ جھلملانے لگے تھے۔۔۔
" مطلب کیا ہے آپکی اس بات کا۔۔۔کس بات کی قیمت۔۔۔کیا کہ رہی ہیں آپ یہ۔۔۔"
عینا نے حیران ہو کر پوچھا تھا۔۔۔
" کچھ نہیں۔۔۔کوئی مطلب نہیں ہے۔۔۔یہ سمجھ لو کہ بہت مجبور ہوں میں۔۔۔"
عائلہ نے آنکھیں چرائی تھیں۔۔۔
" وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ کیوں مجبور ہیں آپ انکی بات ماننے کو۔۔۔انکار کیوں نہیں کیا۔۔۔کیوں وہ رنگ اس آدمی کے منہ پہ نہیں ماری۔۔۔کیا اباَّ نے کچھ کہا ہے۔۔۔بولیں آپی کیا کہا ہے انھوں نے۔۔۔"
عائلہ کے نظریں چرانے پہ عینا کا دماغ ٹھنکا تھا۔۔۔وہ بے چین ہو کر عائلہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی۔۔۔
" آپکو اندازہ بھی ہے کہ جب امی کو پتہ چلے گا کہ آپ ابا کی بات مان کر سر جھکا چکی ہیں تو کیا بیتے گی ان پہ وہ پہلے ہی ہارٹ پیشنٹ ہیں اور اب ایک چھوٹا سا صدمہ انکی جان لے سکتا ہے یہ اچھے سے جانتی ہیں آپ پھر بھی۔۔۔دن رات انکو ہماری فکر کھائے جا رہی ہے کہ کسی طرح کسی مظبوط ہاتھ میں ہمارا ہاتھ تھما دیں۔۔۔اور انکے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے آپ ابا کے ساتھ کھڑی ہو گئ ہیں۔۔۔
کس طرح سے انھوں نے ہم سب کو دھوکا دیا۔۔۔بلکہ آج تک یہی کرتے آئے ہیں۔۔۔تو پھر کیوں ان کی بات مان کر اپنی زندگی برباد کر رہی ہیں۔۔۔اگر آپکے دل میں اشٹام پیپر پہ لکھی گئی اس تحریر کا خوف ہے جس کی سیاہی آپکے دامن پہ گر گئ ہے تو ہم کورٹ کا سہارا لے سکتے ہیں۔۔۔نہ ابا کچھ کر سکیں گے پھر اور نہ وہ دلاور نامی شخص۔۔۔آپ ایک بار ہمت تو کریں پلیززز آپی بس ایک بار۔۔۔"
عینا نے عائلہ کو ہلکا سا جھنجوڑتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھے ایسی زندگی نہیں چاہیے عینا جس کی قیمت میرے اپنوں کی جان ہو۔۔۔اور کورٹ تک پہنچنے کی بات کرتی ہو۔۔۔اس گھر سے نکل کر دکھاؤ۔۔۔کس کس کو بچاؤ گی تم۔۔۔مجھے بچاؤ گی۔۔۔ایمن کو ، خود کو ، یا امی کو۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے کہ کل سارا دن امی جو بے سدھ پڑی رہیں کیا وہ میڈیسن کے زیر اثر تھا۔۔۔نہیں۔۔۔۔
ابا نے انکے پانی میں دوائی مکس کی تھی جس کی وجہ سے وہ سار دن ایسے پڑی رہیں۔۔۔تمہیں ذرا شک نہیں ہوا کہ گھر میں اتنا ہنگامہ ہوا اور امی کی آنکھ تک نہیں کھلی۔۔۔مار ڈالیں گے وہ انکو اگر میں نے ذرا بھی چوں چرا کی تو۔۔۔
عائلہ بات کرتے کرتے اپنا ضبط کھو بیٹھی تھی۔۔۔وہ روتے ہوئے وہیں عینا کے قدموں میں ہی زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔۔۔عائلہ کے اس انکشاف پہ عینا ہکا بکا کھڑی اسکی طرف دیکھتی رہی۔۔۔
" آپی۔۔۔مجھےمعاف کردیں۔۔۔مجھے لگا کہ ہمیشہ کی طرح آپ پھر بزدلی سے کام لے رہی ہیں ابا سے ہمیشہ کی طرح ڈر کر انکی بات مانتی چلی جا رہی ہیں۔۔۔مجھے معاف کردیں پلیززز۔۔۔میں سمجھ ہی نہیں سکی کہ آپ کس کرب سے گزر رہی ہیں۔۔۔
اٹھیں اندر چلیں پلزززز۔۔۔اگر ماما تک ہماری آواز پہنچ گئ تو بہت مشکل ہو جائے گا انکو سنبھالنا۔۔۔"
عینا عائلہ کے پاس بیٹھتے ہوئے خود بھی رونے لگی۔۔۔اس کا اپنا سر پیٹنے کو دل چاہ رہا تھا اور خود پر افسوس بھی کہ اس کا ماما کی طرف دھیان کیوں نہیں گیا۔۔۔لاپرواہ اور بے حس تو وہ ثابت ہوئی تھی۔۔۔آج اسکے دل نے کہا تھا کہ بزدل عائلہ نہیں بلکہ وہ ہے۔۔۔بہادری یہی نہیں ہوتی کہ انسان بڑی بڑی جنگیں جیت جائے کوئی میدان مار لے۔۔۔اصل بہادری تو یہ ہوتی ہے کہ اپنی ذات کی نفی کرکے اپنوں کے لیے جیا جائے اپنی خوشیوں کو تیاگ کر اپنوں کی خوشیوں کے دئیے میں اپنے خون کا تیل ڈالا جائے۔۔۔اور عائلہ اس معاملے میں جیت گئ تھی۔۔۔مگر عینا نے بھی دل میں عہد کیا تھا کہ وہ اپنی بہن کو اپنی زندگی داؤ پہ نہیں لگانے دے گی۔۔۔اس کے لیے اسے کیا کرنا ہے یہ وہ سوچ چکی تھی۔۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 

Episode, 39#

" آہممممم۔۔۔۔کیا ہو رہا ہے۔۔۔"؟
قاسم نے ہلکے سے اپنا گلا صاف کرتے ایمان کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
" نتھنگ۔۔۔وہ جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی واک کرنے کے بعد بیٹھی جوس کا گلاس ہاتھ میں لیے چھوٹے چھوٹے سپ لے رہی تھی اس نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھتے یک لفظی جواب دیا اتنی صبح صبح آج سے پہلے تو وہ کبھی نہیں اٹھا تھا۔۔۔
" خیر تو ہے۔۔۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔۔۔یہ آج سورج کدھر سے نکلا ہے۔۔۔"
ایمان نے حیرانگی سے پوچھا اور ساتھ ہی اسے بھی جوس کی آفر کی لیکن قاسم نے نفی میں سر ہلاتے منع کردیا۔۔۔
" بس ایسے ہی آج آنکھ کھلنے کے بعد پھر نیند ہی نہیں آئی تو سوچا کہ تم یقیناً ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے اٹھ چکی ہوگی تو تم سے کچھ بات شات ہی ہوجائے۔۔۔"
قاسم نے سرسری سا جواب دیا۔۔۔
" ہیںننننننن۔۔۔۔پکی بات تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔بخار تو نہیں ہے۔۔۔پھر کیا مسلہ ہے کوئی پروبلم ہے کیا۔۔۔"
ایمان نے زوردار طریقے سے حیرانگی کا اظہار کرتے اسکی بات پہ جوس کا گلاس ایک سائیڈ پہ رکھتے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی اسکے ماتھے پہ چیک کرنے کو رکھی کہ کہیں بخار تو نہیں ہے مگر اس کا ٹھنڈا ماتھا محسوس کرکے حیرانگی سے بولی۔۔۔
" یار ٹھیک ہوں میں کچھ نہیں ہوا مجھے اور آپ کے پاس بیٹھنے کے لیے بخار کا یا طبیعت کا خراب ہونا ضروری ہے کیا۔۔۔"؟
قاسم نے اب کے تھوڑا جھنجلاتے ہوئے کہا۔۔۔
" نہیں یہ بلکل بھی ضروری نہیں ہے انفیکٹ کبھی بیٹھے نہیں ناں ایسے وہ بھی صبح صبح اس لیے حیرانگی ہوئی۔۔۔خیر یہ بتاؤ کہ کتنے دن کا سٹے ہے تمہارا یہاں۔۔۔"
ایمان نے فوراً سنجیدگی کا لبادہ اوڑھتے پوچھا۔۔۔
" جب تک بابا کی " خاطرداری " شروع نہیں ہوتی۔۔۔"
قاسم نے ہلکے سے مسکرا کر کہا۔۔۔
" وہ غلط تو نہیں کہتے تمہیں اب اپنی لائف کو لے کر سنجیدہ ہو جانا چاہیے نہ تم بابا کا بزنس جوائن کرنا چاہتے ہو نہ طلحہ بھائی کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہو۔۔۔تم کرنا کیا چاہتے ہو آخر کچھ تو ہوگا تمہارے دماغ میں۔۔۔جو بھی ہے کھل کر بات کرو لیکن پلیززز اب سنجیدہ ہوجاؤ تم۔۔۔"
ایمان نے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
" بابا والا کام تو میں کبھی نہیں کروں گا۔۔۔گاڑیوں کے شوروم کی بات کی تھی وہ مانے نہیں۔۔۔جس دن مان جائیں گے میں بھی سنجیدہ ہو جاؤں گا۔۔۔"
قاسم نے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔۔
" تم جانتے ہو کہ اس کے لیے بہت سرمایہ چاہیے۔۔۔میرا خیال ہے کہ تمہیں پہلے طلحہ بھائی کے ساتھ مل کر انکا ہاتھ بٹانا چاہیے جب بزنس کا کچھ تجربہ ہو جائے تو پھر بے شک اپنا الگ سے بزنس سیٹلڈ کرلینا۔۔۔مجھے امید ہے کہ بابا کو پھر اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔بابا تمہاری لاابالی طبیعت کی وجہ سے ہی نہیں مان رہے پہلے انکی نظروں میں خود کو تھوڑا امپروو کرو اور سب سے پہلے اپنے ان آوارہ دوستوں سے جان چھڑواؤ۔۔۔
ایمان نے رسانیت سے قاسم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
" مجھے اپنے ان دوستوں کے ساتھ مل کر ہی بزنس کرنا ہے آپ جانتی ہیں مجھ سے زیادہ سرمایہ وہ لگا رہے ہیں۔۔۔انکے بابا نے تو ان سے نہیں کہا کہ پہلے خود کو ثابت کرو پھر پیسے ملیں گے۔۔۔
خیر جب ہاسپٹل جانا ہو تو مجھے بتا دیجیئے گا میں لے چلوں گا۔۔۔"
قاسم نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
" اسکی ضرورت نہیں ہے میں خود لے آؤں گی انکو۔۔۔اگر ضرورت ہوئی تو مقصود بابا ( ڈرائیور) کو ساتھ میں لے جاؤں گی۔۔۔"
ایمان نے سہولت سے منع کرتے کہا۔۔۔قاسم اسکی طرف دیکھ کر رہ گیا جس مقصد کے لیے وہ اتنی صبح اٹھا تھا وہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔رات ہاسپٹل سے واپس گھر آ کر قاسم کو ساری رات ٹھیک سے نیند نہیں آئی تھی بار بار مہدیہ کا چہرہ اسکی نگاہوں کے سامنے گھومتا رہا اسے نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پہلے بھی اسے کہیں دیکھ چکا ہے۔۔۔مگر کہاں دیکھا یہ لاکھ سوچنے کے باوجود بھی اسے یاد نہیں آیا تھا۔۔۔

" اففففففف یہ گاڑی کو کیا مسلہ ہو گیا ہے رات تو بلکل ٹھیک تھی ابھی۔۔۔"
ایمان تیار ہو کر باہر آئی اور جیسے ہی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرنا چاہا تو دو منٹ کے لیے سٹارٹ ہو کر پھر بند ہو جاتی۔۔۔وہ جھنجلا کر گاڑی سے باہر نکل کر اس کا بونٹ اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔
" کیا بات ہے ایوری تھنگ از اوکے۔۔۔"
قاسم نک سک سے تیار ہو کر باہر آیا اور اپنی گاڑی کا ڈور اوپن کرتے ہوئے ایمان سے پوچھا۔۔۔
" پتہ نہیں کیا مسلہ ہوگیا ہے گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی مجھے ہاسپٹل جانا تھا تم پلیززز چیک کرنا ذرا کہ کیا مسلہ ہے میری تو سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔"
ایمان نے بیزاری سے کہا۔۔۔
" مجھے اپنے ایک دوست سے ملنے جانا ہے پہلے ہی دیر ہو گئ ہے کہو تو ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔۔"
قاسم نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا ایمان کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی پھر اسکے ساتھ نیکسٹ سیٹ پہ آ کر بیٹھ گئ۔۔۔
" صرف ڈراپ ہی نہیں کرنا بلکہ ان لوگوں کو انکے گھر تک چھوڑنا اور پھر مجھے واپس یہاں چھوڑنا ہوگا۔۔۔اوکے۔۔۔"
ایمان نے اسے اچھے سے باور کرواتے کہا۔۔۔تو قاسم نے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔قاسم کے پورے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئ تھی۔۔۔جسے منہ باہر کو کرکے اس نے ایمان سے چھپایا تھا اپنے مقصد میں بنا ایمان کو کہے وہ کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔
" مہدیہ رضوانہ بوا کی سگی بھانجی ہے کیا۔۔۔"
گاڑی کو ہاسپٹل کی روڈ پہ موڑتے ہوئے قاسم نے کچھ پل بعد سرسری لہجے میں پوچھا۔۔۔
" ہمممم۔۔۔کیوں تم کیوں پوچھ رہے ہو۔۔۔"
ایمان نے اسکی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
" پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگ رہا کہ میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔۔۔"
قاسم نے پرسوچ انداز میں کہا۔۔۔
" کیا مطلب۔۔۔۔۔کہاں دیکھا ہے۔۔۔۔"؟
ایمان کو اسکی بات سن کر حیرت ہوئی۔۔۔
" یہی تو سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔کافی خوبصورت ہے رضوانہ بوا کی بھانجی تو کہیں سے نہیں لگتی۔۔۔"
قاسم نے کہا۔۔۔
" ہمممم۔۔۔خوبصورت تو واقع میں بہت ہے وہ میں نے بھی جب پہلی بار دیکھا تھا تو دیکھتی رہ گئ تھی۔۔۔"
ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
" آپ بے بی کی بات کر رہی تھیں میرڈ لگتی تو نہیں وہ۔۔۔"
قاسم نے بے یقین لیجے میں کہا۔۔۔
" چند ماہ پہلے اسکی شادی ہوئی تھی مگر شادی کے دو ماہ بعد ہی اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اسکی ساس ہر وقت اسے منحوس کہ کر اپنے بیٹے کی موت کا ذمہدار ٹھہراتی رہتی تھی بس ان حالات کو دیکھتے رضوانہ بوا اسے اپنے پاس لے آئیں۔۔۔بے چاری جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی بدقسمت بھی۔۔۔"
ایمان نے قاسم کو وہی جواب دیا جو پہلی ملاقات پہ مہدیہ سے اسے پتہ چلا تھا۔۔۔
" اور اسکے اپنے ماں باپ۔۔۔وہ انکے پاس کیوں نہیں گئ۔۔۔"
قاسم نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
" پتہ نہیں۔۔۔مجھے دھیان نہیں رہا اس سے یہ پوچھنے کا۔۔۔
یہ تم کچھ زیادہ ہی انٹرسٹ نہیں لے رہے مہدیہ میں۔۔۔خیر تو ہے۔۔۔"
ایمان نے اس پہ ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔
" یہ کیا بات ہوئی اگر آپکو یاد ہو تو اپنے اس" فلاحی " کام کے لیے آپ ہی میرے پاس آئی تھیں۔۔۔اور اب اس قسم کی الزام تراشی۔۔۔ویری فنی۔۔۔"
قاسم نے خفگی سے کہا۔۔۔
" ویری فنی کے بچے میں تمہیں بھی اچھے سے جانتی ہوں اور تمہارے کاموں کو بھی۔۔۔میں اندھی نہیں ہوں اور نہ ہی پاگل کہ کچھ دیکھ نہ سکوں یا سمجھ نہ سکوں سب دیکھ رہی تھی میں جب تم اس پہ نظریں گڑائے کھڑے تھے۔۔۔اگر تمہارے دماغ میں کوئی کیڑہ کلبلا رہا ہے ناں تو بہتر ہوگا کہ اسے ابھی ماردو اگر بابا کے ہاتھوں مرا ناں تو بہت تکلیف ہوگی تمہیں۔۔۔وہ ایسی ویسی لڑکیاں ہرگز نہیں ہیں۔۔۔اور بابا بھی رضوانہ بوا کا کتنا احترام کرتے ہیں یہ تم بھی جانتے ہو۔۔۔
اب چپ کرجاؤ اس موضوع پہ اب کوئی بات مت کرنا۔۔۔"
جیسے ہی ہاسپٹل کے سامنے گاڑی رکی ایمان نے اپنا چھوٹا سا سٹائلش سا ہینڈ بیگ پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔اور گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب چل دی۔۔۔
اپنے بھائی کی دل پھینک والی عادت سے وہ اچھی طرح سے آگاہ تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ مہدیہ کو بھی وہ اسی کیٹگری میں رکھے جس میں دوسری لڑکیوں کو رکھتا ہے۔۔۔اس لیے اس نے ہر بات اس کے ذہن سے نکالنا ضروری سمجھا تھا تاکہ وہ اس کے بارے میں کچھ ایسا ویسا مت سوچے۔۔۔
" سوری مجھے تھوڑی دیر ہو گئ۔۔۔کیسے ہیں آپ سب۔۔۔
مہدیہ کیسی طبیعت ہے اب آپکی۔۔۔
اصل میں اچانک سے پتہ نہیں گاڑی میں کیا مسلہ ہوگیا۔۔۔آپ لوگ بیٹھیں میں ابھی ڈسچارج پیپرز بنوا کر اور باقی کی فارمیلٹیز پوری کر کے ابھی آئی۔۔۔"
ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں داخل ہوتے ہی ایمان نے رضوانہ خاتون کو سلام کیا پھر باری باری سب کا حال پوچھنے کے بعد اپنے لیٹ ہونے کی وجہ بیان کی۔۔۔
" ٹھیک ہیں بیٹا۔۔۔آپ نے یونہی تکلف کیا۔۔۔ہم رکشہ میں چلے جاتے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے تکلفانہ انداز لیے کہا۔۔۔
" خالہ مہدیہ کے لیے رکشہ کا سفر سیف نہیں تھا اور ویسے بھی جب لیکر میں آئی تھی تو واپس لیجانے کی ذمہ داری بھی میری ہوئی ناں۔۔۔"
مہدیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔قاسم ایک سائیڈ پہ کھڑا انکی باتیں سننے کے ساتھ ایک نظر مہدیہ پہ بھی ڈال لیتا اسکی نظروں کا بھٹکنا فاطمہ اور مہدیہ دونوں نے ہی نوٹ کیا تھا۔۔۔مہدیہ اپنے پہلے سے ہی درست دوپٹے کو مزید درست کرنے لگی تو فاطمہ غیر محسوس طریقے سے اس کے اور قاسم کے بیچ میں ایک آڑ بن کر کھڑی ہو گئ۔۔۔اسکی اس حرکت پہ قاسم جزبز ہوا تھا۔۔۔
" آپی آپ انکو لیکر گاڑی میں بیٹھیں جا کر میں ڈسچارج فارم بنوا کر اور بل پے کر کے آتا ہوں۔۔۔"
قاسم نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھی مہدیہ کی فائل اٹھا کر بغور دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
" کدھر چلنا ہے۔۔۔میرا مطلب ہے کہ کہاں اتاروں آپکو۔۔۔"
تھوڑی دیر بعد قاسم سبھی فارمیلٹیز پوری کرکے گاڑی میں آکر بیٹھا تو وہ لوگ پہلے سے گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔رضوانہ بوا، مہدیہ، اور فاطمہ بیک سیٹ پہ بیٹھی تھیں جبکہ ایمان اگلی سیٹ پہ براجمان تھی۔۔۔قاسم نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔پھر اس نے بیک ویو مرر کو اس طریقے سے سیٹ کیا کہ جہاں سے وہ مہدیہ کو آرام سے نظروں میں رکھ سکے۔۔۔
" بیٹا ادھر ہمارے گھر ہی اتار دو۔۔۔"
رضوانہ بوا نے کہا۔۔۔راستے میں ایمان مہدیہ اور فاطمہ سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔۔۔جبکہ قاسم کی نظریہ مسلسل مہدیہ کے چہرے کا طواف کرتی رہیں۔۔۔پھر اچانک سے اسکے ذہن میں ایک جھماکا ہوا تھا اور اب کے اس نے مہدیہ کے چہرے کے ایک ایک نقش کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا تھا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


" فجر بیٹا میں نے تمہاری ضرورت کی تقریباً تمام چیزیں اور زیورات وغیرہ تمہارے اس بیگ میں رکھ دئیے ہیں۔۔۔نیلے بیگ میں سارا تمہارا سامان ہے اور یہ جو بلیک کلر کا ہے اس میں شرجیل بیٹے کے کپڑے جوتے اور دوسرا چھوٹا موٹا سامان ہے۔۔۔
اور یہ جو میرون کلر کا ہے اس بیگ میں تمہارے خالو کے خالہ کے اور شہریار کے ساتھ ساتھ تمہاری پھوپھو ساس اور انکے شوہروں کے وہ تمام کپڑے اور سامان ہے جو ہماری طرف سے انکو شادی پہ تحفے کے طور پہ دیا گیا ہے۔۔۔"
ہائمہ سلطان اس وقت فجر کے روم میں جہیز سامان کی لسٹ اپنے سامنے پھیلائے بیٹھی ہوئی تھیں ایک ایک چیز چیک کر کے انھوں نے مطلوبہ بیگ میں رکھ کر اسے بند کردیا تھا اور اب فجر کو سمجھا رہی تھیں تاکہ بعد میں جب اسے کسی چیز کی ضرورت پڑے تو اسے ڈونڈھنے میں ہلکان نہ ہوتی پھرے۔۔۔ہائمہ خاتون نے ہر چیز کو بہت سلیقے سے الگ الگ رکھا تھا کہ آپس میں کچھ بھی گڈ مڈ نہ ہو۔۔۔
فجر کے ساتھ ساتھ شرجیل کے لیے بھی ہر چیز کی شاپنگ یہیں سے مل کر کی گئ تھی۔۔۔آئمہ سلطان اور رامین اپنے لاہور والے آبائی گھر میں آج صبح ہی چلی گئ تھیں۔۔۔انکی نند کے بچوں نے اور سلطان صاحب کے بھائی نے شادی کا سارا انتظام سنبھال لیا تھا۔۔۔اس لیے وہ اور سلطان صاحب اس طرف سے بے فکر تھے اپنا سارا کام سمیٹ کر آج رات کی فلائیٹ سے وہ لوگ بھی پہنچ رہے تھے اس لیے آئمہ سلطان صبح ارلیمورننگ ہی شاہ سائیں کے ایک با اعتماد ڈرائیور کے ساتھ لاہور نکل گئی تھیں۔۔۔"
" جی بہتر۔۔۔۔امی جان بابا سے بات کی آپ نے۔۔۔وہ مانے کیا۔۔۔"
فجر نے اثبات میں سر ہلا کر بڑی آس سے پوچھا تھا۔۔۔
" جی بیٹا کی تھی میں نے بات۔۔۔وہ مان گئے ہیں مگر آپ کے جانے کا نہیں۔۔۔اور میرا خیال ہے کہ آپکے جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔۔۔ صارم کسی کام سے باہر گیا ہوا ہے وہ آتا ہے تو اس کے ساتھ میں خود عائلہ کی طرف سے ہو آؤں گی میں خود انکو دعوت نامہ دوں گی اور عائلہ کے باپ سے اجازت بھی لے لوں گی۔۔۔مجھے یقین ہے کہ وہ انکار نہیں کرے گا اس لیے آپ پریشان مت ہو میری بیٹی کی شادی پہ اسکی دوست ضرور آئے گی یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے فجر کے سر پہ بوسہ دیتے ہوئے اسے گلے لگا کر کہا۔۔۔
" شکر ہے الّٰلہ کا۔۔۔مجھے ڈر تھا کہ بابا نہیں مانیں گے۔۔۔"
فجر نے خوش ہو کر ہائمہ خاتون کو زور سے ہگ کرتے کہا۔۔۔
" پاگل نہ ہو تو۔۔۔مانتے کیوں نہیں وہ۔۔۔تمہارے بابا کا بس چلے تو ساری دنیا کی خوشیاں لا کر اپنی بیٹی کے قدموں میں رکھ دیں۔۔۔مگر کچھ معاملات میں وہ بہت مجبور ہیں بیٹا اور ہر ماں باپ ہی ہوتے ہیں اگر بچوں کو وہ کسی بات سے روکتے ٹوکتے یا سختی کرتے ہیں تو اس میں صرف بچوں کی بھلائی ہی پوشیدہ ہوتی ہے ماں باپ کو الّٰلہ نے بہت خاص نظر عنایت کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ آنے والے حالات کو اور پریشانی کو پہلے سے ہی بھانپ لیتے ہیں پھر اپنے بچوں کو اس سے بچانے کی فکر میں انکو کبھی کبار سختی کرنی پڑ جاتی ہے۔۔۔
تمہیں اندازہ بھی نہیں بیٹا کہ رشید احمد نے کس انداز میں تمہارے بابا سے بات کی تھی اسی وجہ سے آپکے بابا نے آپ سبکو ادھر جانے سے منع کیا تھا کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو ان بچیوں کے لیے مزید مشکلات کھڑی کردے اگر تمہارے بابا کی جگہ کوئی اناَّ پرست شخص ہوتا تو رشید احمد کے گھر جانا تو دور کی بات اسکے دروازے کے آگے سے بھی نہ گزرتا۔۔۔لیکن اپنی بیٹی کی خواہش اور خوشی کے لیے وہ بھول گئے کہ رشید احمد نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے مدبرانہ لب و لہجے میں فجر پہ ہر بات واضح کرتے کہا۔۔۔
" امی جان اگر تیار ہیں تو پلیززز جلدی سے آ جائیں۔۔۔"
صارم شاہ اسی وقت فجر کے روم میں داخل ہوتے ہوئے عجلت میں بولا۔۔۔
" تیار کیا ہونا ہے میں نے۔۔۔بس چادر لینی ہے۔۔۔میں ابھی آئی رکو ذرا تم۔۔۔"
ہائمہ خاتون اتنا کہ کر روم سے نکل گئیں۔۔۔
فجر نے بغور صارم شاہ کا جائزہ لیا تھا ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو میں کف فولڈ کیے الجھے الجھے سے بالوں میں وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا مگر وہ ٹھیک نہیں تھا۔۔۔دو دن سے اس نے اپنے بھائی کو نہ ہنستے دیکھا تھا نہ کوئی ہنسی مزاق کرتے فجر تو اسکی ہم راز تھی بنا کہے ہی وہ اپنے بھائی کی آنکھوں سے اسکے دل کا حال پڑھ لیا کرتی تھی پھر اب کیسے نہ جانتی کہ وہ ٹھیک ہونے کا" آل از ویل " کا ڈرامہ کر رہا تھا۔۔۔
" صارم بھیا۔۔۔۔۔"؟
وہ جو عجلت میں ہائمہ خاتون کے پیچھے ہی روم سے نکلنے والا تھا فجر نے اسے فوراً پیچھے سے آواز دی۔۔۔
" بھیا میرے پاس آپکے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔۔۔"
فجر صارم شاہ کے پاس آکر اسکی طرف دیکھ کر معنی خیز لہجے میں کہا۔۔۔تو صارم شاہ خاموشی سے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔
" پوچھیں گے نہیں کہ کیا نیوز ہے۔۔۔"؟
فجر نے سنسنی پھیلاتے کہا۔۔۔
" مجھے اس بارے کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو فجر اسکی طرف دیکھ کر رہ گئ وہ ایسا تو نہیں تھا اتنی سنجیدگی اتنی مایوسی اسکی ذات کا خاصہ ہرگز نہیں تھی۔۔۔
" بھیا اگر خوش خبری کا تعلق عائلہ سے ہو تب بھی نہیں۔۔۔"
فجر نے مسکراتے ہوئے کہا تو صارم شاہ حیران ہوا تھا۔۔۔
" کیا مطلب۔۔۔عائلہ کا کیا ذکر۔۔۔"
صارم شاہ نے تیز لہجے میں حیرانگی سے پوچھا تو فجر سے اسکے لہجے میں چھپی بےقراری چھپ نہیں سکی۔۔۔اور اسے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اسے نہیں معلوم کہ امی جان گاؤں کے ایک دو جن خاص گھروں میں جا رہی ہیں ان میں عائلہ کا گھر بھی شامل ہے۔۔۔
" چلیں چھوڑیں۔۔۔پھر سہی آپکے لیے سرپرائز ہے۔۔۔اور میری دعائیں آپکے ساتھ۔۔۔
فجر نے کچھ سوچتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ کر سسپنس پھیلایا۔۔۔
" یار بتا بھی دو۔۔۔تم عائلہ کے بارے میں کچھ کہ رہی تھی ناں۔۔۔"
صارم شاہ کے صبر کا پیمانہ اب کے لبریز ہوا تھا بے چینی سے وہ فجر کا بازو تھام کر ملتجی لہجے میں بولا۔۔۔
" بھیا شادی پہ عائلہ اور عینا بھی آئیں گی۔۔۔امی جان خاص طور پہ ادھر ہی جا رہی ہیں اور وہ انکے بابا سے بات کرکے ہی آئیں گی امی جان کو وہ انکار نہیں کر پائیں گے۔۔۔"
فجر نے مسکرا کر کہا۔۔۔
" کیا تم سچ کہ رہی ہو۔۔۔پلیززز اگر یہ مزاق ہے تو میری زندگی کا سب سے برا مزاق ہوگا جو تم مجھ سے کرو گی۔۔۔"
صارم شاہ نے حیرانگی اور بے یقینی کے ملے جلے لہجے میں فجر کو دونوں بازوؤں سے تھامتے ہوئے کہا۔۔۔
" ہرگز نہیں بھیا۔۔۔میں آپ سے اس قسم کا مزاق کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔وہ سچ میں آئے گی۔۔۔"
فجر نے ٹھوس لہجے میں اسے یقین دلایا۔۔۔
" تھینکس۔۔۔تھینکس یار۔۔۔تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ تم نے مجھے کتنی بڑی خوش خبری دی ہے۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ بابا کے منع کرنے کے بعد میری ہر امید ٹوٹ گئ تھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان لوگوں سے کیسے رابطہ کروں۔۔۔"
صارم شاہ کے مرجھائے ہوئے چہرے پہ زندگی کی لہر دوڑ گئ تھی۔۔۔اپنی ہر ذمہ داری وہ احسن طریقے سے پوری کر رہا تھا بھائی ہونے کا ہر فرض نبھا رہا تھا مگر کسی روبوٹ اور بے جان مشین کی مانند۔۔۔
" بھیا آپکے پاس یہی موقع ہے عائلہ سے اپنے دل کی ہر بات کہ دیجیے گا۔۔۔بابا کہ رہے تھے کہ اگر عائلہ سٹینڈ لے تو کوئی بھی اسکو اس شادی پہ مجبور نہیں کر سکتا۔۔۔وہ بہت بزدل ہے بھیا۔۔۔بہت ڈرپوک ہے۔۔۔اگر ایک بار آپ اسے اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلا دیں گے تو مجھے یقین ہے وہ آپکا ہاتھ تھامنے میں دیر نہیں کرے گی۔۔۔اسے وہ یقین دلا دیں بھیا۔۔۔اس وقت صرف آپ ہیں جو اسے بچا سکتے ہیں۔۔۔میری دوست کو بچا لیں بھیا۔۔۔"
فجر انتہائی جزباتی ہو کر بولی۔۔۔اسکے لہجے میں نمی گھل گئ تھی۔۔۔
" فکر مت کرو۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گا اس بات کا یقین رکھنا۔۔۔
اور اس سب کے لیے بہت بہت شکریہ۔۔۔یو آر دی بیسٹ سسٹر ان دس ہول ورلڈ۔۔۔
میں نے ایک اور بات کے لیے بھی تمہیں تھینکس بولنا تھا۔۔۔"
صارم شاہ مسکراتے ہوئے فقرہ ادھورہ چھوڑ کر بولا۔۔۔
" کس بات کے لیے۔۔۔"
فجر نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
" ہماری جان چھوڑنے کے لیے۔۔۔"
صارم شاہ نے ہنستے ہوئے اس کی ناک کھینچ کر کہا فجر کے منہ بنانے پہ وہ کھلکھلاتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
صارم شاہ پھر سے اپنی پرانی جون میں واپس آیا تھا اس کے جاتے ہی فجر نے الّٰلہ سے دعا کی تھی کہ اسکے بھائی کے چہرے کی یہ مسکراہٹ تاعمر قائم و دائم رہے۔۔۔اب وہ عائلہ کی طرف سے بھی مطمئین ہو گئ تھی اسے یقین تھا کہ اس کا بھائی عائلہ کے سبھی خوف دور کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


" عینا کچھ نہیں ملے گا یہاں سے۔۔۔بس کرو اور چلو یہاں سے اب۔۔۔ابا کو پتہ چل گیا کہ ہم نے ان کی چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے تو چھوڑیں گے نہیں وہ۔۔۔"
عائلہ نے ہر چیز کو پرانی ترتیب سے وہیں واپس رکھتے ہوئے عینا سے کہا جو کب سے اپنے باپ کے روم میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔۔۔
" عینا پلیززز چلو یہاں سے۔۔۔ابا کسی وقت بھی آتے ہوں گے مجھے پہلے ہی بہت ڈر لگ رہا ہے اگر ابا کو پتہ چل گیا کہ میں نے تمہیں سب بتا دیا ہے تو نہ جانے وہ کیا کریں گے انھوں نے سختی سے منع کیا تھا کہ میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی۔۔۔"
عائلہ خوفزدہ ہوتے عینا کو بازو سے باہر کو کھینچتے ہوئے بولی۔۔۔اور دروازے اچھے سے بند کردیا۔۔۔
" فکر مت کریں انکو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔۔بس ایک بار ہمیں اس دلاور کا نمبر یا کوئی اتا پتہ مل جائے۔۔۔جس نے یہ رائتہ پھیلایا ہے اب سمیٹے گا بھی وہی۔۔۔"
عینا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔۔
" آخر تم کرنا کیا چاہ رہی ہو۔۔۔کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں۔۔۔دلاور کا نمبر یا اتا پتہ کس لیے چاہیے تمہیں۔۔۔"
عائلہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیٹھے بٹھائے اچانک سے عینا کے دماغ میں کیا سمائی ہے جو وہ دلاور کے نمبر یا ایڈریس کے پیچھے پڑ گئ ہے۔۔۔
" اگر آپ ساتھ دینے کا وعدہ کریں تو بتا سکتی ہوں۔۔۔"
عینا نے معنی خیز لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
" میں ایسے کسی کام میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گی جس سے ابا کے غصے کو ہوا ملے۔۔۔"
عائلہ نے صاف انکار کیا تھا۔۔۔
" آپی اگر اس مصیبت سے نکلنا ہے تو رسک تو لینا پڑے گا۔۔۔اور یہ بھی تہ ہے کہ آپ ساتھ دیں یا نہ دیں مگر میں اب پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔۔"
عینا نے دو ٹوک انداز میں کہا اور اپنے روم کی طرف چل دی۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے بتاؤ کیا پلان ہے کیا سوچ رہی ہو تم۔۔۔"
عائلہ نے نرم پڑتے کہا۔۔۔اور اس کے پیچھے پیچھے ہی روم میں داخل ہو کر آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔۔۔
" آپی سارے فساد کی جڑ وہ 20 لاکھ ہیں اگر دلاور سے ہمارا کنٹیکٹ ہو جا ئے تو میں اس سے ملوں گی جا کر اور اسکو 20 کی جگہ 25 کی آفر کروں گی مجھے امید ہے کہ اتنے پیسوں پہ وہ مان جائے گا۔۔۔اسے پیسوں سے غرض ہے آپ سے نہیں۔۔۔"
عینا نے بڑے آرام سے چئیر پہ بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔
" کیااااااا۔۔۔۔تمہارا دماغ خراب ہے تم تنہا اس سے ملنے جاؤ گی۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔اگر مجھے پتہ ہوتا ناں کہ تم کچھ ایسا ویسا کرنے کا سوچو گی تو کبھی تمہیں سچ نہ بتاتی۔۔۔
اور دوسری بات یہ 25 لاکھ کہاں سے آئیں گے۔۔۔"؟
عائلہ کو عینا کی بات سن کر جھٹکا لگا تھا۔۔۔وہ ایک دم چیخنے کے انداز میں غصے سے بولی۔۔۔
" ہاں تو اس میں کیا ہے کھا نہیں جائے گا وہ مجھے۔۔۔اور رہی بات پیسوں کی تو میرے اور آپکے نام پہ جو دکانیں ہیں ہم وہ اسکے نام کر دیتے ہیں۔۔۔اس وقت موجودہ قیمت انکی 25 لاکھ سے زیادہ ہی ہوگی۔۔۔"
عینا نے اپنی سوچ سے اسے آگاہ کیا۔۔۔عائلہ کا اپنا سر پیٹنے کو دل چاہ رہا تھا۔۔۔
" میں ابا سے باتوں باتوں میں اسکے گھر اور گھر والوں کا معلوم کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔تب تک تم کوئی فضول حرکت نہیں کرو گی۔۔۔سمجھی تم۔۔۔"
عینا نے اسے گھرکتے ہوئے کہا۔۔۔وہ جانتی تھی کہ جو عینا کے دماغ میں سمائی ہے وہ اب یہ کر کے چھوڑے گی اور اس رستے پہ وہ اسے تنہا چلنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔۔۔
" گھر نہیں مکان کہیں آپی۔۔۔جن لوگوں کے گھر ہوتے ہیں اور گھروں میں رہتے ہیں وہ شادی بیاہ کے معاملات تن تنہا تہ کرنے نہیں نکل ہڑتے۔۔۔ایسا صرف مکانوں میں رہنے والے بے نسلے لوگ کرتے ہیں جن کا آگے پیچھے کوئی نہ ہو۔۔۔"
عینا تلخی سے بولی۔۔۔
" تم کچھ بھی کہو عینا وہ دکانیں تمہارا اور ایمن کا مستقبل ہیں نہ جانے آگے چل کر کس قسم کے حالات سے گزرنا پڑے برے وقت کے لیے ہاتھ میں کچھ نہ ہو تو بندہ روڈ پہ لوگوں کی ٹھوکروں پہ آجاتا ہے اس لیے ان دکانوں کا نام بھی مت لینا۔۔۔"
عینا کی بات پہ عائلہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔۔۔بات تو اسکی سچ تھی کہ اگر اس کے ماں باپ ، بھائی بہن ، کوئی عزیز رشتے دار ہوتا تو اسکے ساتھ ضرور آتا اس دن۔۔۔جبکہ وہ اکیلا آیا تھا اور وہ بھی اپنے دوست کے ساتھ۔۔۔لیکن جو بھی تھا وہ دکانیں اسے ہرگز نہ دینے دیتی۔۔۔
" تو کیا کروں۔۔۔آپکی طرح ہتھیار پھینک دوں۔۔۔ایک طرف خاموشی سے بیٹھ کر آپکی بربادی کا تماشہ دیکھوں کیا۔۔۔"؟
عینا تلخی سے بولی۔۔۔
" عینا جب سبھی دروازے بند نظر آئیں اور انسان کی ہر کوشش ناکام ہونے لگے تو اپنے تمام معاملات پھر الّٰلہ کے سپرد کردینے چاہیے کیونکہ الّٰلہ سے بڑھ کر کوئی مددگار نہیں ہوتا اور کیا پتہ جس میں ہمیں شر نظر آ رہا ہے وہ ہمارے لیے خیر ہی خیر ہو۔۔۔ہو سکتا ہے کہ وہ شخص میرے لیے اچھا ثابت ہو جیسا ہم سوچ رہے ویسا نہ ہو۔۔۔"
عائلہ نے مظبوط لہجے میں کہا۔۔۔
" کیا پتہ ایسا نہ ہو۔۔۔کیا پتہ ویسا ہو۔۔۔۔اس " کیا پتہ " کے سہارے زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔۔۔"
عینا بھی اسی تلخی سے بولی۔۔۔اسی وقت باہر ڈور بل کی آواز سن کر عینا بھناتے ہوئے دروازہ کھولنے چل دی۔۔۔
" ہائمہ خالہ آپ۔۔۔۔مجھے لگا آپ اب نہیں آئیں گی۔۔۔"
عینا پرجوش ہو کر انکے گلے لگتے ہوئے بولی۔۔۔
ہائمہ خاتون کو دیکھ کر عینا کو بے انتہا خوشی ہوئی تھی۔۔۔اسکے لہجے کی کھنک اور پرجوش انداز پہ ہائمہ خاتون بھی مسکرا دیں۔۔۔
" کیوں۔۔۔میں کیوں نہ آتی۔۔۔فجر کی شادی ہو اور اسکی بہنیں شامل نہ ہوں اس میں یہ کیسے ممکن تھا۔۔۔تم لوگوں کی طرف سے دل بہت پریشان تھا میں آنا بھی چاہتی تھی ملنے مگر تمہارے ابا کے منع کرنے کی وجہ سے شاہ سائیں نے بھی منع کردیا۔۔۔مگر فجر بیٹی کی خواہش کو رد نہیں کر سکے۔۔۔اور میں نے بھی سوچا کہ تمہارے ابا کی منتیں بھی کرنی پڑیں تو کر لوں گی مگر تم لوگ شادی میں ضرور شامل ہوگے۔۔۔
ہائمہ خاتون نے پیار سے کہا۔۔۔
" شادی ی ی ی ی۔۔۔۔مگر فجر آپی کا تو نکاح تھا ناں۔۔۔"
عینا نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔اسی وقت عائلہ بھی انکی آوازیں سن کر باہر آئی اور مسکر کر آگے بڑھ کر دھیرے سے سلام کیا۔۔۔ہائمہ خاتون نے اس کا ماتھا چوم کر سلام کا جواب دیا۔۔۔
" خالہ آپ باہر کیوں کھڑی ہیں اندر آئیں ناں۔۔۔"؟
عائلہ نے عینا کو ایک گھوری سے نوازا جو انکو اندر لا کر بٹھانے کی بجائے بایر صحن میں کھڑی باتوں میں لگ گئ تھی۔۔۔عینا شرمندہ ہوتے ہائمہ خاتون کو لے کر اندر چل دی۔۔۔ہائمہ خاتون انکو مختصر سی فجر کی اچانک نکاح سے شادی کی روداد سنانے لگیں۔۔۔
" بہن اب کیسی طبیعت ہے آپکی۔۔۔الّٰلہ آپکو جلد صحت یاب کرے۔۔۔میں اصل میں فجر کی شادی کا دعوت نامہ آپکو دینے آئی تھی کل اسکی مہندی ہے تو آپ سب ضرور آئیے گا ہم سب کو بہت خوشی ہوگی اگر آپ سب آئیں گے تو۔۔۔ میں خاص طور پہ آپکو دعوت دینے آئی ہوں۔۔۔بہتر تھا کہ بھائی صاحب سے بھی بات ہوجاتی ایسا نہ ہو۔۔۔۔"
" خالہ آپ فکر مت کریں ہم ضرور آئیں گے کیوں امی جان۔۔۔"
اس سے پہلے کہ ہائمہ خاتون کچھ اور کہتیں عائلہ نے انکی بات بیچ میں ہی اچکی تھی۔۔۔گھر میں اس دن جو کچھ بھی ہوا تھا مہرالنساء ہر بات سے انجان تھیں اور وی نہیں چاہتی تھی کہ انکو کچھ بھی پتہ چلے اور وہ یہ سب برداشت نہ کر پائیں۔۔۔
" بہت مبارک ہو آپکو۔۔۔الّٰلہ فجر بیٹی کے نیک نصیب کرے۔۔۔ہم سب انشاءالّٰلہ ضرور آئیں گے۔۔۔"
مہرالنساء نے دھیرے دھیرے نقاہت زدہ لہجے میں کہا۔۔۔
آمین۔۔۔دل تو یہی چاہ رہا کہ کچھ دیر اور بیٹھوں مگر ابھی بہت سے کام ہیں جو کرنے والے ہیں اس لیے مجھے اب اجازت دیں میں اب چلتی ہوں مجھے ملک صاحب کی طرف بھی جانا ہے۔۔۔انشاءالّٰلہ کل ملاقات ہوگی۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔تو عائلہ اور عینا بھی انکو دروازے تک چھوڑنے کے لیے ساتھ ہی نکلیں۔۔۔
" آپ۔۔۔خیر تھی۔۔۔کیسے آنا ہوا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسی وقت رشید احمد دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوا اور ہائمہ خاتون کو دیکھ کر حیرت سے بولا۔۔۔
" جی بھائی صاحب۔۔۔میں آپ سے ہی ملنے آئی تھی فجر بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ دینے۔۔۔پلیززز بھائی صاحب انکار مت کیجیے گا۔۔۔فجر بیٹی کی شادی کے بعد پھر کب بچیوں کا ملنا ملانا ہو کیا پتہ۔۔۔میں بڑی امید لے کر آئی ہوں کہ آپ انکار نہیں کریں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے رسانیت سے کہا۔۔۔رشید احمد ہائمہ خاتون کے لب و لہجے پہ گو مگو کی کیفیت میں پڑ گیا ہائمہ خاتون کے بیٹوں کی وجہ سے وہ نہیں چاہتا تھا کہ انکے گھر میں سے کوئی بھی ادھر جائے یا ادھر آئے۔۔۔مگر اب موقع ایسا تھا کہ اسکی سختی سے عائلہ تو نہیں مگر عینا مزید باغی ہوتی۔۔۔عینا کا انتظام کرنے کا بھی وہ سوچ چکا تھا مگر فلحال وہ عائلہ کی شادی کے بکھیڑے سے سکون سے نکلنا چاہتا تھا۔۔۔
" ٹھیک ہے بہن ہم لوگ فجر بیٹی کی شادی میں ضرور شرکت کریں گے۔۔۔"
رشید احمد نے کافی سوچ بچار کے بعد کہا۔۔۔بنا کسی بات کے رشید احمد کے آرام سے مان جانے پہ سبھی کے چہروں پہ حیرت در آئی تھی۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 

Episode, 40 #

1f339.png
پارٹ ،1
1f339.png


" امی جان آپ تیار ہیں ناں۔۔۔ہائمہ خالہ کا ڈرائیور آ گیا ہے۔۔۔"؟
عائلہ اپنی والدہ کے روم میں داخل ہوتے ایک ہی سانس میں تیزی سے بولی۔۔۔
" ہاں بیٹا میں تیار ہوں۔۔۔تم لوگ ہو گئے تیار۔۔۔اور پیسے رکھ لیے ہیں سلامی کے جو ہائمہ آپا کو دینے ہیں۔۔۔
مہرالنساء تیار ہو کر بچیوں کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھیں عائلہ کے آ کر پوچھنے پہ دھیرے سے بولیں۔۔۔
" جی امی جان میں نے آپکے پرس میں رکھ دئیے تھے وہ۔۔۔میں اور ایمن تو تیار ہیں مگر عینا کا آپکو پتہ ہی ہے کتنی دیر لگاتی ہے۔۔۔آپ ابھی مت اٹھیے گا میں عینا کو دیکھتی ہوں جا کے اگر وہ تیار ہے تو میں آپکو بتا دوں گی آ کے۔۔۔پھر چلتے ہیں۔۔۔"
عائلہ نےعجلت میں کہا۔۔۔
" اففففف میرے الّٰلہ عینا کی بچی بس کرو اب۔۔۔پورے پندرہ منٹ ہو گئے ہیں تمہاری " بس دو منٹ " سنتے سنتے مجھے ۔۔۔ ٹائم دیکھو ذرا۔۔۔دو گھنٹے سے تم شیشے کے سامنے کھڑی ہو اور ابھی تک تمہاری تیاری نہیں ہوئی۔۔۔7 بجنے کو ہیں ڈرائیور بیچارہ کب سے باہر کھڑا دس بار ہارن بجا چکا ہے اب بیٹھا ہمیں ہزار صلواتیں دل ہی دل میں دے رہا ہوگا۔۔۔کتنی غلط بات ہے ہائمہ خالہ خاص طور پہ ٹائم پہ پہنچنے کی تاکید کر کے گئیں تھیں۔۔۔تم ہو کہ تمہاری تیاری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔۔۔ اور تیار تو تم ایسے ہو رہی ہو جیسے وہاں سب تمہیں ہی تو دیکھیں گے۔۔۔"
عائلہ نے عینا کے پاس کھڑے ہو کر اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا جو کب سے شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر فائنل ٹچ دے رہی تھی مگر اس کا فائنل ٹچ آدھے گھنٹے سے پہلا ٹچ ہی بنا ہوا تھا جس پہ عائلہ اب چڑنے لگی تھی۔۔۔
آج فجر کی مہندی تھی جس میں رشید احمد کے سوا سبھی جا رہے تھے مہرالنساء کی طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اور کچھ بچیوں کا خیال کرکے ہائمہ خاتون نے انکو لینے کے لیے اپنے ڈرائیور کو بھجوا دیا تھا۔۔۔ عائلہ نہ صرف خود ٹائم پہ تیار ہو گئ تھی بلکہ ایمن اور اپنی والدہ کی بھی تیار ہونے میں مدد کی تھی۔۔۔ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے مہرالنساء کا مہندی کی بجائے صرف شادی میں شرکت کا ارادہ تھا مگر عینا اور عائلہ نے انکی بات سن کر خود بھی جانے سے منع کر دیا تھا کہ وہ بھی نہیں جائیں گی پھر۔۔۔عینا اور عائلہ کسی صورت بھی اپنی ماں کو گھر پہ تنہا نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں رشید احمد نے کچھ دن پہلے جو حرکت کی تھی اس کے بعد وہ بہت دھیان رکھنے لگی تھیں اور ایک پل کو بھی اپنے باپ کی موجودگی میں اپنی ماں کو تنہا نہیں چھوڑتی تھیں۔۔۔اس لیے اب بھی اپنے نہ جانے کی دھمکی دے کر انکو اپنے ساتھ جانے کے لیے تیار کر لیا تھا۔۔۔
" تو اور کیا ہمیں ہی تو دیکھیں گے سب لوگ ۔۔۔آپکو نہیں پتہ ہم لوگ خاص الخاص گیسٹ ہیں مہندی اور بارات پہ ہر بندے کی دلہن کی سہیلیوں پہ نظر ہوتی ہے۔۔۔کیا پتہ کسی کی آنکھ سے سیدھے اس کے دل میں اتر جائیں۔۔۔اور اتنی تیاری مجھے آپکی وجہ سے ہی کرنی پڑ رہی ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ بڑی بہن تو چند آفتاب چند ماہتاب ہے مگر چھوٹی والی بس ایویں سی ہے۔۔۔
عینا نے بڑے انداز میں سر کو جنبش دیتے ایک آنکھ ونک کرتے مسکرا کر شرارتی لہجے میں کہا۔۔۔اور اسی وقت اس کی آنکھوں کے سامنے احتشام شاہ کا سراپہ لہرایا تھا اور دوسرے لمحے خود پہ حیران ہوتے اس نے اپنا سر جھٹکا تھا۔۔۔
" تھوڑی شرم کر لیا کرو عینا۔۔۔پتہ نہیں تم کیسے منہ پھاڑ کے اتنے آرام سے ایسی واہیات باتیں منہ سے پھوٹ دیتی ہو۔۔۔
اور کون کہتا ہے کہ تم ایویں سی ہو جو کہتا ہے وہ یقیناً دل کا اور نظر کا بھی اندھا ہوگا۔۔۔ماشآءالّٰلہ اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ میری نظر نہیں ٹھہر رہی۔۔۔"
عائلہ نے عینا کو ڈپٹنے کے ساتھ ہی اسکی بلائیں لی تھیں۔۔۔
" پیاری تو ہوں مگر آپ سے کم اسی لیے مجھے اپنے تھوبڑے کی ڈینٹنگ پینٹنگ کرنی پڑتی ہے۔۔۔جبکہ آپ بنا کچھ کیے ہی آنکھوں کے رستے دل میں گھستی ہیں جیسے صارم بھائی کے دل میں گھس گئیں۔۔۔"
عینا نے لپ گلوس لگانے کے بعد ایک نظر آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
" عینااااا۔۔۔۔کتنی بار منع کیا ہے کہ فضول مت بولا کرو۔۔۔دوبارہ اس کا نام میرے ساتھ مت جوڑنا۔۔۔اور
اب اگر تم دو منٹ میں تیار نہیں ہوئی تو ہم لوگ تمہیں چھوڑ کر چلیں جائیں گے۔۔۔یا پھر میں ڈرائیور کو واپس بھجوا دوں گی کہ ہم نہیں آ رہے۔۔۔"
صارم شاہ کے نام پہ عائلہ کے دل کو کچھ ہوا تھا مگر بنا کوئی تاثر دئیے اس نے عینا کو ڈپٹنے کے ساتھ ساتھ وارننگ دیتے کہا۔۔۔
" آپ امی جان کو لے کر اور روم لاک کرکے گاڑی میں بیٹھیں جا کر میں آپکے پیچھے پیچھے ابھی آئی بس۔۔۔"
عینا نے ڈبے سے اپنا جوتا نکالا اور فٹا فٹ پہنتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے پلیززز دیر مت کرنا مزید۔۔۔"
عینا بھاری ہوتے قدموں کے ساتھ اسے تاکید کرتی باہر نکل گئ۔۔۔گوشت پوست کی بنی ہوئی تھی تو وہ انسان ہی۔۔۔صارم شاہ کی لو دیتی نظروں سے وہ ناواقف نہیں تھی۔۔۔اپنے دل پہ ہزار بند باندھنے کے باوجود بھی وہ اسکے دل میں بسیرا کر چکا تھا صارم شاہ کے نام پہ اس کا دل دھڑکنے لگا تھا مگر جب جب بھی اسکا دل باغی ہونے کی کوشش کرتا وہ اسے اپنی مجبوریوں کا چابک مار کر چپ کروا دیتی۔۔۔
" عائلہ۔۔۔۔۔"؟
وہ جیسے ہی روم سے باہر آئی رشید احمد نے اسے آہستہ سے سرد لہجے میں پکارا جو کہ باہر ہی نہ جانے کب سے کھڑا تھا۔۔۔
" جی ابا۔۔۔"
عائلہ دھیرے سے ڈرتے ڈرتے بولی رشید احمد کے یوں پکارنے پہ وہ دل ہی دل میں خوفزدہ ہوئی تھی کہ کہیں انھیں پتہ تو نہیں چل گیا کہ اس نے عینا کو سب بتا دیا ہے۔۔۔
" یہ عینا کیا بکواس کر رہی تھی اس کا مطلب دلاور ٹھیک کہ رہا تھا کہ تم اسکے ساتھ چکر چلا رہی ہو۔۔۔"
رشید احمد نے پھنکارتے ہوئے کہا۔۔۔
" نن۔۔۔نہیں ابا۔۔۔ایسا کچھ نہیں میں نے تو کبھی دیکھا تک نہیں اس کی طرف۔۔۔"
عینا روہانسی ہوتے بولی۔۔۔
" میں نے خود اپنے کانوں سے عینا کی بکواس سنی ہے۔۔۔میری ایک بات یاد رکھنا میں صرف تم پہ اعتبار کر کے تم لوگوں کو شاہ سائیں کے گھر جانے کی اجازت تو دے رہا ہوں لیکن اگر تم نے یا عینا نے شاہ سائیں کے بیٹے کے ساتھ مل کر کسی قسم کی کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی۔۔۔یا شاہ سائیں سے کچھ بھی کہا تو اس کے انجام کے لیے بھی تیار رہنا۔۔۔تم تو چلی جاؤ گی مگر تمہاری ماں یہیں رہے گی اسی گھر میں میرے ساتھ۔۔۔اس لیے میری بات کے الٹ چلنے کا سوچنا بھی مت۔۔۔
رشید احمد عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے دوسرے روم میں لے گیا اور انتہائی درشتی سے بولا۔۔۔عائلہ خاموشی سے سر جھکائے رشید احمد کی بات سننے کے بعد اثبات میں سر ہلا کر جیسے ہی جانے کے لیے مڑی تو رشید احمد نے اسے پھر سے پکارا۔۔۔
" رکو عائلہ۔۔۔۔دیکھو بیٹا تم نے میری بات مانی اپنے باپ پہ بھروسہ کیا ہے تو یقین کرو دلاور تمہیں شہزادی بنا کر رکھے گا بہت پیسہ ہے اس کے پاس۔۔۔تمہیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دے گی اور عینا کی باتوں میں ہرگز مت آنا اور نہ وہاں کسی سے بھی زیادہ فرینک ہونا۔۔۔۔اور اپنا یہ چہرہ بھی صاف کرو۔۔۔اچھی اور شریف لڑکیاں شادی سے پہلے ایسے بن سنور کر کہیں جائیں تو لوگ باتیں بناتے ہیں۔۔۔"
رشید احمد نے اب کے نرم لہجے میں کہ کر اسے جانے کے لیے کہا تو وہ بجھے دل اور مریل مریل سے قدموں کے ساتھ آنکھوں میں نمی لیے واش بیسن پہ منہ دھونے کو چل دی۔۔۔واش بیسن پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر خود پہ ضبط کے بندھن باندھنے کی کوشش کرتے اپنی آنکھیں زور سے میچے وہ کچھ پل کو یونہی کھڑی رہی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے دماغ کی رگیں پھٹنے کو آ رہی ہیں۔۔۔ہر بات کو بھلا کر فجر کی مہندی پہ جانے کے لیے وہ کتنا دل سے تیار ہوئی تھی اپنے اندر کے ہر درد کو چھپا کر وہ بس اسکی خوشی میں خوش ہونا چاہتی تھی مگر شائد آنسوؤں کو بہنے کے لیے اسکی آنکھیں اور غم کو ٹھہرنے کے لیے اس کا دل بہت پسند آ گیا تھا تبھی تو ہر خوشی اس سے روٹھ گئ تھی وہ جب جب بھی اپنے بکھرے وجود کے ٹکڑے سمیٹ کر کھڑی ہوتی کوئی نہ کوئی بات اسے پھر سے بکھیر دیتی۔۔۔
کچھ دیر تک یونہی خون کے گھونٹ پینے کے بعد اور خود کو سنبھال چکنے کے بعد اپنا چہرہ اچھے سے دھو کر ایک گہرا سانس لے کر پھر سے نارمل حالت میں لوٹنے کے بعد وہ اپنی والدہ کو لینے کے لیے انکے روم کی طرف بڑھی۔۔۔
" آپی ی ی ی۔۔۔۔یہ کیا کیا ہے آپ نے۔۔۔منہ کیوں دھویا ہے۔۔۔"
عینا جیسے ہی تیار ہوکر اور اپنی چادر اوڑھ کر باہر آئی تو سامنے سے آتی عائلہ کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی اسکو شاک لگا تھا وہ ایک دم چیخی تھی اسے دیکھ کر۔۔۔
" بس ایسے ہی۔۔۔مجھے الجھن ہو رہی تھی۔۔۔اس لیے صاف کردیا۔۔۔"
عائلہ نے اصل بات چھپاتے ہوئے نظریں چرائیں تھیں عینا نے بغور اسکا جائزہ لیا کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ رشید احمد کو سامنے کھڑا دیکھ کر اسے اندازہ لگانے میں دیر نہیں ہوئی کہ یقیناً اسکے باپ نے ہی کہا ہے عائلہ سے بعد میں پوچھنے کا سوچتے ہوئے اپنے باپ پر ایک تلخ نگاہ ڈال کر عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر وہ اپنی ماں اور ایمن کے ساتھ گھر سے باہر نکل گئ۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


ساری حویلی مہمانوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی عورتوں اور مردوں کے بیٹھنے کے لیے حویلی کے ایک سائیڈ پہ بنے وسیع احاطے( گاؤں میں بڑے اور کھلے صحن کو احاطہ بولا جاتا ہے ) میں انتظام کیا گیا تھا۔۔۔جس کے بیچوں بیچ عورتوں کے پردے کا خیال رکھتے ہوئے شامیانے لگا کر ان کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔۔۔جہاں پر ایک سائیڈ پر عورتیں اور دوسری سائیڈ پہ مرد بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔گاؤں سے آئے سبھی مہمانوں کا وہیں پہ انتظام کیا گیا تھا جبکہ انتہائی قریبی عزیزوں کے بیٹھنے کے لیے حویلی کے اندرونی دالان میں انتظام کیا گیا تھا۔۔۔اور وہیں پہ مہندی کے فنکشن کے لیے انتہائی مہارت سے دیدہ زیب سٹیج تیار کیا گیا تھا۔۔۔
رات کے 7 بج چکے تھے کھانا تقریباً سبھی لوگ کھا چکے تھے۔۔۔شاہ سائیں نے مکس گیدرنگ اور ہر قسم کی ہلڑ بازی سے سبکو سختی سے منع کردیا تھا۔۔۔مگر پھر خاندان کی چند خواتین اور ہائمہ خاتون کے کہنے پہ بس خواتین کو ڈھولک اور شادی بیاہ کے گیت گانے کی اجازت مل گئ تھی مگر حویلی کے لاسٹ روم میں بیٹھ کر تاکہ بچیوں کی آوازیں باہر تک نہ آئیں۔۔۔
" فجر اور کتنی دیر ہے باہر سب ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔"
صارم شاہ نے دروازے پہ ناک کرکے باہر سے ہی آہستہ سے پوچھا تھا۔۔۔انکے گاؤں میں رسم تھی کہ بہن کو سب سے پہلے بھائی مہندی لگاتے تھے اور شادی والے دن بھی بھائی ہی قرآن پاک کے سائے میں گاڑی تک چھوڑنے جاتے۔۔۔
" ہو گیا بھیا۔۔۔بس عائلہ کا ویٹ کر رہی ہوں۔۔۔اور پلیزز اپنا حلیہ بھی ٹھیک کر لیں اب۔۔۔سچ میں پہچاننے میں مشکل ہو رہی ہے ڈرائیور ان لوگوں کو لیکر ابھی پہنچتا ہی ہوگا آپکو دیکھ کر مجھے ڈر لگ رہا ہے وہ بیچاری آپکی بات کیا خاک سنے گی دیکھتے ہی بے ہوش ہو جائے گی۔۔۔"
فجر نے اشارے سے صارم شاہ کو اندر بلا کر دھیرے سے مسکراتے ہوئے اسکے کان کے پاس اپنا منہ کر کے کہا کہ روم میں موجود باقی لوگ نہ سن لیں۔۔۔
" ڈونٹ وری ڈئیر۔۔۔باہر آ کر دیکھو ذرا میرے اس حلیے پہ بھی گاؤں کی سبھی گوریاں فدا ہو ہو رہی ہیں۔۔۔
صارم شاہ نے اتراتے ہوئے کہا۔۔۔
" اور تم بھی پہچانی نہیں جا رہی ماشآءالّٰلہ بہت پیاری لگ رہی ہو الّٰلہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔"
نیٹ سٹف میں ڈارک گرین کلر کی پیروں تک آتی لونگ انارکلی فراک پہنے جس کی پیٹی اور پوری فراک پہ گولڈن کلر کے دبکے اور گوٹے کا دیدہ زیب کام کیا گیا تھا اس کے ساتھ میچنگ گولڈن کلر کا پاجامہ اور گولڈن کلر کا ہی دوپٹہ کندھوں پہ سلیقے سے سیٹ کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔
صارم شاہ نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر اسکے ماتھے پہ نم آنکھوں سے بوسہ دیتے کہا۔۔۔صبح اس کے چلے جانے کے خیال سے ہی اس کا دل بھر آیا تھا۔۔۔فجر کی آنکھوں میں بھی نمی اتر آئی تھی۔۔۔
" خبردار جو ایک آنسو بھی نکلا تو۔۔۔چل یار۔۔۔ہنسو مسکراؤ یہ خوشی کا موقع ہے اور میں اپنی بہن کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔"
فجر کو بھی جزباتی ہوتا دیکھ کر صارم شاہ نے ایک پل میں خود کو سنبھالا تھا اور اپنی پرانی جون میں واپس آکر مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
پھر باہر سے اپنے نام کی پکار سن کر فجر کے سر پہ شفقت بھرا پیار دے کر وہ باہر نکل گیا۔۔۔
" صارم فرنیچر کا کیا بنا ہے۔۔۔وہ فجر کے سسرال بھجوا دیا کیا۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے پوچھا۔۔۔
جی بھائی سب ہوگیا ہے دین محمد کو میں نے ساتھ میں بھجوا دیا تھا۔۔۔"
صارم شاہ نے جواب دیا۔۔۔
" چلو شکر ہے اس آخری کام کی ٹینشن تھی وہ بھی خیر و عافیت سے ہوگیا۔۔۔فجر تیار ہو گئ کیا۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے پرسکون لہجے میں کہتے پھر فجر کا پوچھا۔۔۔ہنگامی بنیادوں پہ ہر کام نمٹاتے اور اس کے لیے بھاگ دوڑ کرتے بڑھی ہوئی شیو اور رف حلیے میں احتشام شاہ اور صارم شاہ کوئی مجنوں ہی لگ رہے تھے ان تین دنوں میں انکو اپنا ہوش بھی نہیں رہا تھا ناممکن نظر آنے والے کام کو انھوں نے ممکن بنا ڈالا تھا۔۔۔
" جی تیار تو ہوگئ ہے لیکن عائلہ کا ویٹ کر رہی ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو اسکی مسکراہٹ پہ احتشام شاہ نے ایک زوردار دھپ اسے رسید کی۔۔۔
" شکر ہے الّٰلہ کا تم لوگ آ گئ۔۔۔سچ میں اب میں پریشان ہونے لگی تھی کہ کہیں انکل نے منع نہ کردیا ہو۔۔۔اتنی دیر کیوں لگی۔۔۔اور آنٹی ایمن کدھر ہیں وہ نہیں آئیں کیا۔۔۔"؟
عائلہ اور عینا کی اپنے روم ڈور پہ آواز سن کر فجر بے چینی سے انکی طرف بڑھی اور انکے اندر آنے کے لیے خود آگے بڑھ کر جلدی سے دروازہ کھولا پھر باری باری دونوں کو ہگ کرتے ہوئے بولی۔۔۔
" دیر کہاں ہوئی ہے 7 بجے کا کہا تھا اور ہم پورے 7 بجے پہنچ گئے ہیں۔۔۔امی اور ایمن بھی آئی ہیں وہ باہر ہائمہ خالہ کے پاس بیٹھ گئ ہیں۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔گجرے نہیں پہنے وہ منگوائے نہیں کیا۔۔۔"؟
فجر نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا پھر اسکے خالی ہاتھ دیکھ کر حیرانی سے بولی۔۔۔
" منگوائے ہیں آپی۔۔۔وہ فریج میں رکھے ہیں تاکہ مرجھا نہ جائیں خالہ کہ رہی تھیں جب فنکشن سٹارٹ ہو تب پہنا دینا۔۔۔"
روم میں موجود فجر کی ایک کزن نے جواب دیا۔۔۔
فجر کے روم میں اسکی دو تین کزنز جو کہ فجر سے عمر میں 3 ، 4 سال چھوٹی تھیں ان کے سوا کوئی بھی نہیں تھا اور نہ کسی کو آنے دیا گیا تھا فجر کے کہنے پر اسکی ایک کزن دروازے کے سامنے پہرے دار بن کر بیٹھی ہوئی تھی جبکہ باقی دونوں فجر کی تیار ہونے میں مدد کروا رہی تھیں اسکی کزنز اشتیاق بھری نظروں سے عینا اور عائلہ کی طرف دیکھنے لگیں تو فجر نے اپنی کزنز سے انکا تعارف کروایا۔۔۔
" فجر آپی آپکی فرینڈز تو بہت پیاری ہیں۔۔۔"
تینوں نے بغور انکی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تو عینا عائلہ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگی کہ دیکھا میں نے کہا تھا ناں کہ سب ہمیں ہی دیکھیں گے۔۔۔عائلہ عینا کے یوں دیکھنے اور ان لڑکیوں کے تعریف کرنے پہ ہلکے سے مسکرا دی۔۔۔
" مریم رشیداں بوا سے کہو کہ میری فرینڈز کے لیے کھانا بھجوا دیں جلدی۔۔۔
اور تم لوگ یہ پکڑو۔۔۔ابھی کے ابھی چینج کرو یہ۔۔۔اس میں تم لوگوں کے مہندی کے ڈریسز ہیں۔۔۔میری فرینڈز اور کزنز کے لیے امی نے ایک جیسے ڈریسز تیار کروائے ہیں اور تم لوگ یہی پہنو گی۔۔۔اس لیے پلیزز ڈونٹ سے اینی تھنگ ناؤ۔۔۔اینڈ گیٹ ریڈی کوئیکلی۔۔۔"
فجر نے عائلہ اور عینا کو شاپنگ بیگ پکڑاتے ہوئے جلدی جلدی سے حکمیہ لہجے میں کہا۔۔۔
" فجر یار رہنے دو پلیز۔۔۔یہی ٹھیک ہیں اور اگر ایسا کچھ کرنا تھا تو پہلے بتا دیتی اب۔۔۔"
عائلہ نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔۔۔
" میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ مزید کوئی بات مت کرنا اس لیے چپ چاپ جو کہ رہی ہوں وہ کرو اور تمہیں پہلے کیسے بتا دیتی مجھے تو اپنا نہیں پتہ تھا کہ میرا چند دن بعد نکاح نہیں رخصتی ہے۔۔۔کیا میری اتنی سی بات نہیں مانو گی۔۔۔"
فجر نے اتنے مان بھرے لہجے میں کہا تھا کہ عائلہ اور عینا کو اسکی بات ماننی ہی پڑی۔۔۔فجر نے اپنی کزنز کو روم سے باہر جانے کو کہا تا کہ وہ چینج کر سکیں۔۔۔فجر نے ایک بڑی سی چادر کی آڑ بنا کر جان بوجھ کر پہلے عائلہ سے کہا کہ وہ چینج کرلے عائلہ کے اٹھتے ہی فجر تیزی سے عینا کے پاس آئی اور اسکے کان کے پاس منہ کرکے انتہائی دھیمی سرگوشی میں اپنی پلاننگ سے اسے آگاہ کیا جسے سن کر عینا کا منہ فرطۂ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا پھر اس نے فجر کو زور سے ہگ کرتے اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔۔۔عینا کا اپنا دماغ بھی کچھ اسی قسم کی پلاننگ سوچ رہا تھا مگر کیسے یہ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر اب فجر کی بات نے سب مشکل آسان کردی تھی۔۔۔
" واؤ۔۔۔سو بیوٹیفل۔۔۔مجھے اندازہ تو تھا کہ یہ کلر تم پہ بہت اٹھے گا مگر اتنا اٹھے گا یہ نہیں پتہ تھا۔۔۔"
فجر نے آنکھیں سکیڑے حیرانی سے کہا۔۔۔عائلہ چینج کر کے باہر آئی تو فجر اور عینا اسے دیکھتی رہ گئیں۔۔۔
" افففف آپی سچ میں بجلیاں گرا رہی ہیں۔۔۔آج کوئی بھسم ضرور ہوگا۔۔۔"
عینا نے عائلہ کو دونوں بازوؤں سے پکڑتے ہوئے سر تا پیر اس کا جائزہ لیتے شوخی سے کہا۔۔۔ڈراک میرون کلر کی نیٹ سٹف کی شارٹ کرتی جس پہ فلی گوٹے کا کام کیا گیا تھا اسکے ساتھ گولڈن کلر میں جامہ ور کا غرارہ اور گولڈن دوپٹہ میچ کیا گیا تھا دوپٹے کے کناروں پہ گوٹے اور دبکے کا مکس کام تھا جبکہ باقی دوپٹے پہ گوٹے کا سپرے کیا گیا تھا۔۔۔
" بکا مت کرو۔۔۔جاؤ جا کے تم بھی چینج کرلو۔۔۔"
عائلہ جھینپ کر اسکے سر پہ ایک ہلکی سی چپت لگاتے بولی۔۔۔
" چلو صدف فٹا فٹ اپنے ہاتھوں کی رفتار دکھاؤ اور دو منٹ میں عائلہ کو تیار کردو۔۔۔اور یہ چٹیا کھول کر بال کھلے چھوڑ دو اسکے۔۔۔"
فجر نے مسکراتے ہوئے اپنی کزن سے کہا جو ایک بیوٹیشن بھی تھی اسی نے فجر کو بھی تیار کیا تھا۔۔۔8 بج چکے تھے اور اس دوران دو تین بار ہائمہ خاتون چکر لگا چکی تھیں کہ جلدی تیار ہوں۔۔۔
" نن۔۔۔نہیں پلیزز فجر ایسے ہی ٹھیک ہے مجھے میک اپ نہیں کروانا۔۔۔اور نہ بال کھلے چھوڑنے ہیں۔۔۔"
فجر کی بات سن کر عائلہ یکدم گھبرائی تھی ایک تو اپنے باپ کی تنبیہ اور کچھ باہر موجود غیر مردوں کے سامنے ایسے جانے کو اس کا دل نہیں مانا تھا۔۔۔اس لیے فوراً جلدی سے منع کرتے بولی۔۔۔
" کیوں تیار کیوں نہیں ہونا مانا کہ ایسے بھی بہت کیوٹ لگ رہی ہو مگر ہلکا ہلکا تیار ہونے میں کیا ہرج ہے۔۔۔اور فکر مت کرو بابا مکس گیدرنگ کے سخت خلاف ہیں گاؤں کے کیا خاندان کے لڑکوں کو بھی اس طرف آنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے بے فکر رہو۔۔۔"
فجر نے عائلہ کے اعتراض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا اور زبردستی اسکو ڈریسنگ ٹیبل پہ بٹھا دیا عینا بھی چینج کر کے آگئ اس کا ڈریس بھی عائلہ جیسا ہی تھا۔۔۔تھوڑی دیر میں صدف نے اپنے ہاتھوں کی مہارت دکھاتے ہوئے اس کا لائیٹ سا میک اپ بھی کردیا۔۔۔عینا پہلے سے ہی گھر سے تیار ہو کر آئی تھی چینج کرنے کے بعد اس نے خود ہی فائنل ٹچ دے لیا تھا۔۔۔
" آپی آپ کہیں انگیج ہیں کیا۔۔۔"
صدف نے عائلہ کا میک اپ کرتے ہوئے مسکرا کر پوچھا تو سب نے حیران ہوکر اسکے سوال کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی پھر سمجھ آتے ہی عائلہ کے سوا سبکی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔
" لو جی۔۔۔پہلا قتل مبارک ہو آپکو۔۔۔"
عینا نے فل فارم میں ہنستے ہوئے کہا تو عائلہ نے اسے ایک گھوری سے نوازا صدف کو عائلہ اتنی پسند آئی تھی کہ فوراً سے اسے اپنی بھابھی بنانے کے منصوبے بنانے لگی تھی۔۔۔مگر عائلہ کے اثبات میں سر ہلانے پہ افسوس سے پھر اپنا کام کرنے لگی۔۔۔
" ماشآءالّٰلہ الّٰلہ نظر بد سے بچائے میری سب بیٹیاں بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔۔سب تیار ہیں تو چلیں باہر سب لوگ بار بار پوچھ رہے ہیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون روم میں داخل ہوتے ہوئے بولیں تینوں واقع میں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں وہ بے اختیار آگے بڑھیں اور تینوں کی بلائیں لینے لگیں۔۔۔
" جی سب تیار ہیں۔۔۔"
عینا نے مسکرا کر کہا۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے میں تمہارے بھائیوں کو بھیجتی ہوں جلدی سے آجاؤ تم لوگ۔۔۔اور عائلہ بیٹا یہ رسم کا دوپٹہ پکڑ لو یہ اوڑھا دینا فجر کو۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے جلدی جلدی کہا اور باہر نکل گئیں۔۔۔
ہائمہ خاتون کی بات سن کر عائلہ یکدم سٹپٹائی تھی اور شکوہ بھری نظروں سے فجر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
" یار ہمارے رسم ہے یہ کہ منہدی کی چادر کا ایک کونہ بھائی پکڑتا ہے اور ویسے بھی پکس اور ویڈیو کوئی غیر مرد نہیں بنا سکتا تھا اس لیے سوائے بھائی لوگوں کے اور کوئی نہیں باہر۔۔۔"
فجر نے عائلہ کو تسلی دیتے کہا مگر وہ مطمئیں کہاں ہوئی تھی کہاں وہ ہر وقت حجاب اوڑھے رکھتی اور اب ایسے کسی کے غیر مرد کے سامنے جانا وہ بھی لش پش ہوکر اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی بھائی وہ فجر کے تھے عائلہ کے نہیں یہ سوچ کر اُس نے دوپٹہ اچھے سے اوڑھ لیا تھا اور عینا کو بھی اشارہ کر دیا تھا۔۔۔مگر شیفون کا دوپٹہ ہونے کی وجہ سے اس کا لینا نہ لینا برابر ہی تھا۔۔۔
" بھیاااا۔۔۔۔کدھر گم ہیں پکڑیں یہ۔۔۔"
مریم نے دوپٹے کی ایک سائیڈ صارم شاہ کو پکڑاتے ہوئے ذرا زور سے کہا۔۔۔تو وہ یکدم ہوش میں آئے۔۔۔صارم شاہ اور احتشام شاہ فجر کے روم میں داخل ہوئے تو سامنے کھڑی عینا اور عائلہ پہ نظر پڑتے ہی مبہوت ہو کر رہ گئے ہلکے ہلکے لائیٹ سے میک اپ میں وہ قدرت کا کوئی حسین شاہکار لگ رہی تھیں۔۔۔وہ بہت پیاری ہیں یہ تو وہ جانتے تھے مگر اس روپ میں پہلی بار وہ انکے سامنے آئی تھیں صارم شاہ تو عائلہ کا گھائل تھا ہی مگر عینا کا دوآتشہ روپ بھی احتشام شاہ کے دل میں ہلچل مچا گیا تھا وہ اشتیاق بھری نظروں سے عینا کو دیکھنے لگا۔۔۔احتشام شاہ کو وارفتگی سے تکتے پا کر عینا کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی اور چہرے پہ لالگی بکھری تھی۔۔۔
صارم شاہ کی موجودگی اور اسکی بولتی نظروں سے عائلہ کو گھبراہٹ ہونے لگی اس نے ہاتھ میں پکڑا دوپٹہ مریم کو پکڑا کر سائیڈ پہ ہونا چاہا تو فجر اور عینا کی گھوری پہ اسے ناچار دوپٹے کا ایک کونا پکڑنا پڑا دوسرا عینا نے پکڑ لیا۔۔۔صارم شاہ کے ساتھ مریم نے کونہ پکڑا جبکہ احتشام شاہ ویڈیو بنانے لگا۔۔۔پھر احتشام شاہ نے آکر ایک سائیڈ سے پکڑ لیا اور صارم شاہ ویڈیو بنانے لگا۔۔۔
فجر کو دوپٹے کے سائے میں آہستہ آہستہ لیکر چلتے ہوئے باہر لا کر دالان میں گلاب اور سورج مکھی کے پھولوں سے بنائے گئے سٹیج پہ بٹھا دیا گیا۔۔۔پھر صارم شاہ اور احتشام شاہ مختلف زاویوں سے پکس اور ویڈیو بنانے لگے۔۔۔
احتشام شاہ کی نظروں کا بھٹکنا عینا کو بے چین کرنے لگا تھا پہلے اسے یہ سب اپنا وہم لگا پھر اس نے احتشام شاہ کی ہر حرکت کو نوٹ کرنا شروع کردیا جو تھوڑی دیر بعد کیمرہ پھر سے اس پہ فوکس کردیتا تھا۔۔۔
فجر کو سامنے بٹھائے سبھی عورتیں اور ینگ لڑکیاں مختلف ٹپے اور شادی بیاہ کے گیت ڈھولکی کی تھاپ پہ گا رہی تھیں۔۔۔بیچ بیچ میں کسی کی شوخ بات اور شرارت پہ مارے شرم کے فجر سے نظریں اٹھانی مشکل ہو جاتیں۔۔۔باری باری سب کوئی نہ کوئی گیت گا رہی تھیں پھر انتاکشری کا دور چلا تو عینا کے گائے گئے ہر گیت کے بول پہ سب کو خوب مزا آتا۔۔۔یونہی کرتے کرتے رات کے گیارہ بج گئے تو گاؤں سے آئی کافی عورتیں اور لڑکیاں صبح آنے کا کہ کر اور فجر کو دعائیں دے کر چلی گئیں اب وہاں چند گاؤں کی عورتوں کے ساتھ زیادہ تر خاندان کی عورتیں ہی رہ گئ تھیں مہرالنساء نے بھی جانے کی اجازت مانگی تو ہائمہ خاتون نے منع کر دیا کہ کچھ دیر اور بیٹھیں فجر نے بھی عائلہ عینا کو ایک گھوری سے نوازتے بیٹھنے کو کہا اور ساتھ ہی عینا کو ہلکا سا اشارہ بھی کر دیا تو عینا فٹ سے بیٹھ گئ عینا کے بیٹھتے ہی عائلہ کو بھی بیٹھنا پڑا۔۔۔پھر ایک بزرگ خاتون نے کہا کہ ایک ایک گانا اب سب لوگ گا کر پھر سب سمیٹ دیں۔۔۔باری باری سب بڑی بوڑھیوں اور ینگ لڑکیوں نے اپنی اپنی پسند کے ٹپے گیت گائے لاسٹ میں عینا اور عائلہ رہ گئیں انھوں نے پس و پیش سے کام لیا تو شور مچ گیا کہ وہ تو دلہن کی خاص سہیلیاں ہیں تو انکا زیادہ حق بنتا کہ وہ اپنی سہیلی کی شادی پہ گائیں۔۔۔عائلہ اور عینا نے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر سب عورتوں کے بے حد اصرار پہ انھیں بات ماننی پڑی۔۔۔
" آپ دونوں میں سے پہلے کون گائے گا۔۔۔ لیکن پلیزز سیڈی میڈی سا مت گانا موقع کے حساب سے کوئی رومینٹک سا ہونا چاہیے۔۔۔"
فجر کی ایک کزن نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔
عائلہ کو خاموشی سے سر جھکائے دیکھ کر عینا نے ایک نظر سبکی طرف دیکھا تو دالان کے ایک کونے میں کھڑے احتشام شاہ پہ اسکی نظر پڑی جو شوخ اور منتظر نظروں سے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔عینا کے دل کی دھڑکن ایکدم تیز ہوئی تھی اسے اپنا کونفیڈینس لوز ہوتا محسوس ہوا پھر سر جھٹک کر اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے سٹارٹ کیا۔۔۔
" تنہائیاں محفل بنیں
تم جو ملے منزل ملی
ایسا دیوانہ ہوا ہے یہ دل آپکے پیار میں
محبت ہی محبت ہے میرے روبرو
تمنا میں نگاہوں میں ہے بس تو ہی تو
بے چینی میں آہیں بھرے
رب سے تجھے مانگا کرے
ایسا دیوانہ ہوا ہے یہ دل آپکے پیار میں
عینا کی دل موہ لینے والی آواز پورے دالان میں اپنا سحر بکھیرنے لگی ہر کوئی اس کی آواز کی خوبصورتی میں گم ہوکر ہلکے ہلکے سے جھوم رہا تھا عینا کے چپ ہوتے ہی سارا دالان پرجوش تالیوں سے گونج اٹھا۔۔۔مسکراتے ہوئے سبکی تعریفیں وصول کرتے ہوئے عینا کی نظریں احتشام شاہ سے جا ٹکرائیں جو پوری دلجمعی سے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا اس کے چہرے کی بھرپور مسکراہٹ اور محبت کے پیغام دیتی نظروں پہ وہ سٹپٹا کر رہ گئ
" چلو بھئ عائلہ اب تمہاری باری۔۔۔عینا کے چپ ہوتے ہی شور مچ اٹھا عائلہ نے بے بسی سے سبکی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔
" مجھے نہیں آتا میری آواز عینا کی طرح اچھی نہیں ہے پلیزز میں نہیں گا سکتی۔۔۔"
عائلہ نے بچنے کی پھر کوشش کرتے کہا۔۔۔
" یہ کیا بات ہوئی یہاں کونسا کوئی مقابلہ ہو رہا ہے ہم نے بھی تو گایا ہے ناں۔۔۔ جیسا بھی آتا ہے ہلکا سا گنگنا دیں بے شک۔۔۔"
عائلہ کے انکار کو خاطر میں نہ لاتے سب نے شور مچایا تو عائلہ کو مجبوراً ہامی بھرنی پڑی۔۔۔
" مبارک ہو تم کو یہ شادی تمہاری۔۔۔"
عائلہ نے ابھی ایک لائن ہی گنگنائی تھی کہ ہر طرف شور مچ گیا کہ یہ پہلے ہو چکا کوئی اور گاؤ۔۔۔جو اسے آتے تھے وہ تقریباً سبھی گائے جا چکے تھے پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے پھر سے سٹارٹ کیا۔۔۔
" چھپانا بھی نہیں آتا
جتانا بھی نہیں آتا
ہمیں تم سے محبت ہے بتانا بھی نہیں آتا۔۔۔
بس اب اور نہیں پلیززز۔"
عائلہ دو تین لائن دھیمی آواز میں گنگنا کر چپ کر گئ اور ہاتھ کھڑے کر دئیے کہ بس اب۔۔۔
" احتشام بھائی اب آپ کی باری۔۔۔"
مہمان آئی کچھ لڑکیوں نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔
" نہ بھئ یہ تم لوگوں کا کام ہے مجھے تم لوگ معاف ہی رکھو اور ویسے بھی میرے کچھ کہنے کے لیے کسی نے کچھ چھوڑا ہی نہیں ہے۔۔۔"
احتشام شاہ نے صاف دامن بچاتے معنی خیز نظروں سے عینا کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ اسکی بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے خجل سی ہوکر اپنا رخ موڑ گئ ۔۔۔احتشام شاہ کے انکار پر وہاں موجود ساری پلٹون نے اپنا رخ صارم شاہ کی طرف کیا۔۔۔صارم شاہ کچھ دیر عائلہ کو اپنی نظروں میں لیے سوچتا رہا پھر مسکرا کر اپنا سر خم کرتے ہوئے فجر کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ عائلہ بلکل اسکے سامنے تھی۔۔۔صارم شاہ نے سٹارٹ کرنے سے پہلے جیسے ہی گلا صاف کیا سب نے چپ سادھ لی۔۔۔
" تو سفر میرا
ہے تو ہی میری منزل
تیرے بنا گزارہ اے دل ہے مشکل
مجھے آزماتی ہے تیری کمی
میری ہر کمی کو تو ہے لازمی
جنون ہے میرا بنو میں تیرے قابل
تیرے بنا گزارہ اے دل ہے مشکل
یہ روح بھی میری
یہ جسم بھی میرا
اتنا میرا نہیں جتنا ہوا تیرا
تو نے دیا ہے جو وہ درد ہی سہی
تجھ سے ملا ہے تو انعام ہے میرا
میرا آسمان ڈونڈھے تیری زمین
میری ہر کمی کو ہے تو لازمی۔۔۔
تیرے بنا گزارہ اے دل ہے مشکل۔۔۔
صارم شاہ نے فجر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر عائلہ کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے ایک ایک جزب سے گانا شروع کیا گو کہ اس کی آواز عینا کی طرح بہت اچھی نہیں تھی مگر پھر بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو پورے دالان میں صارم شاہ کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔ایسا لگ رہا تھا وہ گا نہیں رہا بلکہ لفظوں کا سہارا لے کر حالِ دل بیان کر رہا ہو اور اس بات سے وہاں بیٹھے 3 لوگ باخوبی آگاہ تھے کہ وہ صرف لفظ نہیں ہیں۔۔۔عینا مسکرا کر کبھی عائلہ کی طرف دیکھتی اور کبھی صارم شاہ کی طرف۔۔۔صارم شاہ کی عائلہ پہ مرتکز نظریں اور اس کا بولا گیا ہر لفظ اسکے دل کی دنیا میں طوفان لا رہا تھا جس سے لڑتے لڑتے وہ بے بس ہو رہی تھی اس کا دل صارم شاہ کی طرف کھنچا جا رہا تھا صارم شاہ کی نظروں سے اپنی نظروں کے تصادم کو روکنے کے چکر میں سر نیچے جھکاتے جھکاتے اس کی ٹھوری اسکی گردن سے جا لگی سر نیچے کرنے کے باوجود صارم شاہ کی نظروں کی تپش اسے اندر باہر سے جھلسائے جا رہی تھی۔۔۔
" میرا خیال ہے اب بس کرنا چاہیے فجر بھی تھک گئ ہوگی۔۔۔عائلہ بیٹا بہن کو اندر لے چلو اب۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے سب عورتوں کی طرف دیکھا جو دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ صارم شاہ اور عائلہ کی طرف دیکھ کر چہ میگوئیاں کرنے لگی تھیں مہرالنساء سے بھی یہ صورت حال چھپی نہیں رہ سکی تھی۔۔۔ ہائمہ خاتون کو اپنے بیٹے پہ غصّٰہ آیا تھا جو اپنی نظروں پہ قابو نہیں رکھ سکا تھا صارم شاہ سے بعد میں بات کرنے کا سوچ کر انھوں نے عائلہ کو فوراً وہاں سے اٹھایا تھا۔۔۔
عائلہ سے خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ابھی وہ وہاں سے کسی بہانے اٹھنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اسی وقت ہائمہ خاتون کی آواز پہ اس نے سکھ کا سانس بھرا تو صارم شاہ بھی خاموش ہوا تھا۔۔۔ عائلہ اور عینا نے فجر کو اٹھا کر اسکے روم کا رخ کیا۔۔۔انکے اٹھتے ہی صارم شاہ بس اب کہتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
" ہیںنننننن۔۔۔۔۔۔انکو کیا ہوا۔۔۔"
وہاں بیٹھی عورتوں میں سے گاؤں کی ایک عورت بولی تھی۔۔۔
" لگتا ان دونوں کا کوئی چکر چل رہا ہے۔۔۔"
وہاں بیٹھی دوسری بولی تھی عورتیں چہ میگوئیاں کرنے لگیں اور یہ سرگوشیاں اندر جاتی ہوئی عائلہ عینا اور فجر کے کانوں میں بھی پڑی تھیں۔۔۔مارے سبکی کے عائلہ کا چہرہ لال ہوا تھا۔۔۔جبکہ عینا نے غصے سے بولنے والی عورت کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
" یہ آپ کس قسم کی باتیں کر رہی ہیں بہن۔۔۔خدا کا خوف کریں کچھ۔۔۔بیٹیاں سبکی سانجھی ہوتی ہیں آپ خود چار چار بچیوں کی ماں ہوکر کیسے کسی بچی کے بارے میں ایسی بات کر سکتی ہیں اور ایسا کیا دیکھ لیا آپ نے جو آپ یہ تہمت لگا رہی ہیں۔۔۔شادی بیاہ کا موقع ہے بچے ہنسی مزاق ہلا گلا کرتے ہی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان کا چکر چل رہا ہے۔۔۔اور پھر آپ سب لوگ اور پورا گاؤں میرے بچوں کے بارے میں اچھے سے جانتا ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون کو اس عورت کی بات پہ شدید طیش آیا تھا وہ بہت ہمبل خاتون تھیں بہت کم ایسا ہوا تھا کہ انکو کسی نے اس طرح غصے کرتے دیکھا ہو۔۔۔
" جی جی۔۔۔۔۔۔بلکل ٹھیک کہا جی آپ نے۔۔۔۔۔۔۔کوئی حال نہیں بلقیس بیبی تمہارا بھی۔۔۔۔۔۔لگائی بھجائی کرنے کی عادت نہ گئ تمہاری بلقیس بیگم۔۔۔۔۔۔"
ہائمہ خاتون کی بات سن کر سب نے بولنے والی کو لتاڑنا شروع کردیا۔۔۔۔۔
" آپ نے سچ کہا جی پورا پنڈ آپکے بیٹوں کی گواہی دیتا ہے کہ ان جیسا دوجہ کوئی نہ۔۔۔۔۔۔اور نہ ہی ہم نے کبھی ان بچیوں کے بارے میں کبھی کوئی ایسی ویسی بات سنی ہے۔۔۔حالانکہ باپ پکا جواری اور نشئ ہے مگر الّٰلہ نے بیٹیاں کردار کی ہیرے جیسی دی ہیں۔۔۔"
سب عورتیں شاہ سائیں کے بیٹوں کے ساتھ ساتھ مہرالنساء کی بیٹیوں کی تعریفیں کرنے لگیں جبکہ اپنی بچیوں کو موضوع گفتگو بنتا دیکھ کر مہرالنساء کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی۔۔۔
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


 
Episode , 40 #
1f339.png
پارٹ 2
1f339.png


" کس قسم کی عورت ہیں یہ خالہ بلقیس بھی۔۔۔بنا کسی بات کا خیال کیے جو منہ میں آیا بس بول دیا اپنی بیٹی کا پتہ نہیں ہے جو کالج سے اکثر اپنے عاشق کے ساتھ ڈیٹ پہ نکلی ہوتی ہے۔۔۔دل تو چاہ رہا تھا کہ وہیں پہ انکی بیٹی کا بھانڈا پھوڑ دوں مگر مجھے لحاظ آ گیا مگر انکو کسی کی بیٹی پہ انگلی اٹھاتے ذرا بھی نہ خدا کا خوف آیا نہ کوئی لحاظ آیا کہ کہاں بیٹھی ہیں۔۔۔
فجر کو لیکر روم میں آتے ہی عینا انتہائی غصے سے بولی تھی اور ساتھ ہی فجر کے کہنے پہ روم لاک کردیا تھا کہ کوئی بھی اندر نہ آئے فلحال وہ لوگ کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔۔۔آنکھوں میں نمی لیے عائلہ اپنا سر پکڑ کر فجر کے بیڈ پہ ڈھے گئ۔۔۔
" کیا ہوگیا ہے یار۔۔۔فضول باتوں کو ایسے سر پہ سوار کیوں کر رہی ہو کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے لگائی بجھائی کی۔۔۔
اور میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ ان لوگوں کی کہی گئ کسی بھی بات کی کبھی پرواہ مت کرو جن کے ہماری زندگی میں ہونے نہ ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔۔۔ایسے لوگوں سے بس سلام دعا تک تعلق رکھا جاتا ہے اور پھر آگے بڑھ جایا جاتا ہے۔۔۔
ہمیشہ ان لوگوں کی پرواہ کرو انکی سنو اور انکی مانو جن سے دل کا رشتہ ہو جو دل میں بستے ہوں جن کے ہونے نہ ہونے سے ہمیں بہت فرق پڑتا ہو جن سے ہم محبت کرتے ہوں اور وہ بھی ہم سے کرتے ہوں۔۔۔باقی کسی کی پرواہ مت کرو انسان کبھی ساری دنیا کو نہ خوش کر سکتا ہے نہ کبھی ساری دنیا کے معیار پہ پورا اتر سکتا ہے۔۔۔
زندگی کی ڈگر پہ چلتے چلتے ہمارا ایسے ہزاروں لاکھوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اگر ہم یونہی رک رک کر ہر کسی کو جواب دینے لگے یا انکی کہی باتیں دل پہ لینے لگے تو بس پھر سمجھو کہ جی لیا ہم نے۔۔۔یار تھوڑی بہادر بنو لوگوں کو فیس کرنا سیکھو یوں چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پہ مت لگایا کرو۔۔۔"
فجر نے عائلہ کو پریشان ہوتے دیکھ کر ہگ کرتے اور اسے تسلی دینے کے ساتھ دھیرے دھیرے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
" اندازہ ہے مجھے ان سب باتوں کا اور خوب سمجھتی بھی ہوں مگر بات دل پہ لگانے کی نہیں ہے اور نہ میں اتنی کمزور ہوں کہ ایسی باتوں سے ٹوٹ جاؤں بس افسوس ہو رہا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔
ہم لوگوں کو کچھ کہنے کا موقع دیتے ہیں تو لوگ باتیں کرتے ہیں ہم اپنی کوئی کمزوری ظاہر کرتے ہیں تو لوگ ہم پہ چڑھائی کرتے ہیں اور بات جب کردار پہ آ جائے تو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔آگ لگانے کے لیے ایک چنگاری ہی کافی ہوتی ہے اس لیے ہمیں اپنا ہر قدم بہت احتاط سے رکھنا چاہیے۔۔۔"
عائلہ نے نپے تلے لہجے میں صارم شاہ کا نام لیے بنا فجر کو بہت کچھ جتا دیا تھا۔۔۔فجر اسکی بات سن کر چپ رہ گئ اپنے بھائی کی فیور میں وہ ایک لفظ نہ بول سکی اسے بھی حیرت تھی کہ اتنا محتاط ہوکر چلنے والا اس کا بھائی خود پہ کنٹرول کیسے کھو سکتا ہے۔۔۔
" میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں جا کے آج خالہ بلقیس کا دماغ درست کر ہی دوں انکو بھی ذرا اپنی بیٹی کے کرتوتوں کا پتہ چلے۔۔۔اس کے بعد پھر کبھی کسی اور کی بیٹی کو نشانہ نہیں بنائیں گی۔۔۔"
عینا نے کمرے میں پیچ و تاب کھاتے ٹہلتے ٹہلتے کہا اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔
" دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا کیا۔۔؟ خبردار جو تم نے ایسا کچھ سوچا بھی تو۔۔۔ہزار بار سمجھایا ہے کہ اتنا جزباتی مت ہوا کرو انکی بیٹی کیا کرتی ہے کیا نہیں تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے اپنے اعمال کی وہ خود ذمہ دار ہے اور یوں سرعام انکی بیٹی کا پردہ کھول کر تم میں اور خالہ بلقیس میں کیا فرق رہ جائے گا۔۔۔
" اگر ایک انگلی ہمارے خلاف اٹھی ہے تو تمہیں یہ نظر کیوں نہیں آ رہا کہ دس انگلیاں ہمارے حق میں بھی اٹھی تھیں اگر انسان خود کردار کا مظبوط اور ثابت قدم ہو تو کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔لوگوں نے تو نبیوں پیغمبروں کو نہیں چھوڑا انکی ذات پہ بھی سوال اٹھائے کیا حضرت عائشہ رضی الّٰلہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ بھول گئ ہو تم۔۔۔پھر ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔۔۔"
عینا نے جیسے ہی باہر جانے کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے اس پہ ہاتھ رکھا تو عائلہ نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے پیچھے کیا اور غصے سے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔۔عائلہ کی باتوں کی وجہ سے عینا کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے تو چہرے پہ غصے کے آثار ختم ہو گئے اور سر جھکا کر چپ چاپ فجر کے پاس جا بیٹھی۔۔۔
" ویسے سارا قصور تم لوگوں کا ہے قسم سے۔۔۔"
فجر کی کہی بات پہ عینا اور عائلہ ہونق بنی اسکی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔کہ کیا مطلب۔۔۔
" یار تم دونوں ایک تو ویسے ہی بہت پیاری ہو اوپر سے اس وقت تم لوگوں کا یہ کیل کانٹوں سے لیس روپ کسی ایماندار بندے کو بھی بے ایمان کر کے رکھ دے۔۔۔لڑکی ہو کر میرا دل چاہ رہا کہ تمہیں دیکھے جاؤں تو سوچو بیچارے ان " نازک دل مردوں " کا کیا قصور۔۔۔"
عینا اور عائلہ کی سوالیہ نظروں کی الجھن دور کرتے فجر نے ہنستے ہوئے کہا تو اسکی بات پہ دونوں جھینپ کر رہ گئیں۔۔۔
" تم بھی نہ حد کرتی ہو فجر۔۔۔اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ اور ہم پر نظریں گاڑنے اور ہماری خوبصورتی پہ قصیدہ خوانی کرنے کی بجائے شرجیل بھائی کے ساتھ اپنی کل کی خوبصورت رات کے بارے میں سوچو۔۔۔میں نے تو سنا تھا کہ لڑکیوں کو مہندی والے دن شرمانے سے ہی فرصت نہیں ملتی جبکہ مجھے تو ایسا کوئی بھی سین نظر نہیں آرہا۔۔۔"
عائلہ نے اپنی جھینپ مٹانے کو فجر سے ہنستے ہوئے شرارتی لہجے میں کہا۔۔۔عائلہ کی بات پہ فجر کا چہرہ گلنار ہوا تھا۔۔۔
" اوہو۔۔۔یہ رنگ تو ملاحظہ کرو ذرا عینا۔۔۔اب میں نے اتنا سوچنے کو بھی نہیں کہا تھا۔۔۔کہ تم سیدھا شرجیل بھائی کے پاس ہی پہنچ گئ۔۔۔"
فجر کے چہرے پہ اترتے حیا کے دلکش رنگوں سے محفوظ ہوتے عائلہ فجر کو مزید چھیڑتے ہوئے بولی تو عینا کے ساتھ فجر بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔کمرے میں گھلی اداسی کا اب وہاں نام و نشان بھی نہیں تھا۔۔۔عینا اور عائلہ فجر کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ خانی کرتے اسے ستانے لگیں۔۔۔مگر اس سب کے باوجود بھی عائلہ کے دل دماغ سے صارم شاہ کا سونگ کے ریپر میں لپٹا اظہار اور اس کی لو دیتی بہکتی نظریں نکل نہیں پا رہی تھیں۔۔۔
یہی حال عینا کا تھا اسے احتشام شاہ کا خود کو وارفتگی سے تکنا اچھا لگ رہا تھا اسکی نظروں میں اپنے لیے ستائش اچھی لگ رہی تھی بار بار اس کا دھیان بھٹک کر احتشام شاہ کی طرف چلا جاتا ایسا کئ بار ہوا تھا اس نے احتشام شاہ کا خود کو تکنا کئ بار نوٹ کیا تھا اسکے لہجے اسکی آنکھوں میں اپنے لیے فکر نظر آئی تھی مگر وہ اسے پیار کا نام نہیں دے سکی تھی مگر آج احتشام شاہ کی جزبے لٹاتی اور پیام دیتی نظروں کو وہ نظر انداز نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔"
" افففف۔۔۔عینا تو تو گئ کام سے۔۔۔"
عینا نے یکدم اپنے سر پہ ہاتھ مارتے افسوس سے سر ہلاتے کہا تو فجر اور عائلہ نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا کہ اسے کیا ہوا۔۔۔مگر وہ فوراً خود کو سنبھال کر نفی میں سر ہلا گئ۔۔۔
" آپی ماما پوچھ رہی کہ کب تک چلنا ہے۔۔۔"
دروازے پہ دستک ہوئی تو عائلہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا سامنے ایمن کھڑی تھی۔۔۔
ایمن نے دروازے کھلتے ہی اندر آکر پوچھا تھا۔۔۔
" بیٹا ماما سے کہو کہ فجر آپی کہ رہی کہ ابھی نہیں جانا کچھ دیر بعد آ جائیں گی ابھی تھوڑی دیر اور بیٹھیں گی۔۔۔"
عینا اور عائلہ کی جگہ فجر نے جواب دیا۔۔۔
" ایمن۔۔۔ماما کدھر ہیں۔۔۔"
ایمن سر ہلا کر جانے لگی تو عائلہ نے پوچھا۔۔۔
" وہ ہائمہ خالہ اور دوسری عورتوں کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی ہیں۔۔۔"
ایمن کہ کر باہر نکل گئ۔۔۔
" آپی لائیں میں آپکے مہندی لگا دوں اگر مجھے نیند آنے لگی تو کام خراب ہوجانا ہے۔۔۔"
صدف اندر آ کر بولی اور کاغذ پہ چلا کر کون چیک کرنے لگی کہ ٹھیک چل رہی ہے۔۔۔"
" ڈیزائن سلیکٹ کر لیا ہے کیا۔۔۔"
عینا نے پوچھا۔۔۔
" دیکھے تو تھے لیکن تم بھی ایک بار چیک کر لو۔۔۔"
فجر نے مہندی کے ڈیزائن والا میگ انکی طرف بڑھاتے کہا۔۔۔پھر عینا اور عائلہ نے سبھی ڈیزائن میں سے ایک پہ ہاتھ رکھا تو فجر کو بھی وہ بہت پسند آیا پھر صدف اس کو سامنے رکھ کر اسکے نقش فجر کے ہاتھ پہ اتارنے لگی۔۔۔
" آپی آپ بھی انگیج ہیں کیا۔۔۔"
صدف نے فجر کے ہاتھوں پہ مہندی لگاتے ہوئے عینا سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
" نہیں۔۔۔کیوں۔۔۔"
عینا نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔تو اسکے نہ کہنے پہ صدف کا چہرہ کھل اٹھا۔۔۔
" بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔۔۔سچ کہوں تو آپ دونوں مجھے بہت اچھی لگی ہیں۔۔۔اور امی جان کو بھی۔۔۔"
صدف نے کھل کے مسکراتے ہوئے کہا تو اسکی بات پہ فجر اور عائلہ بھی مسکرا دیں۔۔۔جبکہ عینا فوراً سنجیدہ ہوئی تھی۔۔۔
" کیا آپ ہر کسی سے یونہی پوچھتی ہیں کہ " کیا آپ انگیج ہیں "....."؟
عینا نے سنجیدگی سے تھوڑا روڈ ہو کر کہا۔۔۔تو اسکی بات پہ صدف ایک پل کو چپ رہ گئ۔۔۔جبکہ عائلہ نے اس کے روڈ بہیو پہ اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں سرزنش کی۔۔۔
" نہیں آپی ایسا نہیں ہے۔۔۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن سے پہلی ملاقات میں ہی مل کر ایسا لگتا جیسے انکو برسوں سے جانتے ہوں اور پہلی بار میں ہی وہ دل میں اتر جاتے ہیں پھر دل کرتا ہے کہ انکو کہیں مت جانے دیں۔۔۔آپ سے مل کر مجھے ایسا ہی لگا کہ آپ کو کہیں نہ جانے دوں ہمیشہ کے لیے آپ ہماری فیملی کا حصّٰہ بن جائیں۔۔۔"
صدف نے عینا کی بات کے جواب میں مسکراتے ہوئے بہت محبت سے کہا تو عینا کو اپنے لہجے کی تلخی کا احساس ہوا۔۔۔
" آپ بھی بہت اچھی ہو۔۔۔مگر میرا ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔"
اب کے عینا نے مسکرا کر کہا تھا۔۔۔
" ویسے آپی آپکو کس قسم کے مرد اچھے لگتے ہیں میرا مطلب ہے کہ آپکی نظر میں ایسی کونسی کوالٹیز ہیں جو ایک مرد میں لائف پارٹنر کے طور پہ ہونی چاہیں۔۔۔"؟
صدف نے اگلا سوال کیا تو فجر اور عائلہ بھی متجسس ہوکر عینا کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگیں کہ وہ کیا جواب دیتی ہے۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔تو آپ میرا انٹرویو لینا چاہ رہی ہو۔۔۔اوکے۔۔۔میرے نزدیک۔۔۔۔!
احساس کرنے والا ہو ، مضبوط کردار کا ہو ،
خیال رکھنے والا ہو جو شادی کا مطلب صرف روم اور بیڈ شئیر کرنا نہیں بلکہ ہر دکھ سکھ میں مرتے دم تک ساتھ نبھانا جانتا ہو ،
جسکی نظر میں ہر عورت کے لیے عزت ہو جو عورت کو عزت دینا جانتا ہو ،
جو مہزب ہو کہ اگر کسی بات پہ اختلاف ہو جائے تو اپنی انا کا مسلہ بنا کر جانور نہ بنے ،
جو اعتبار کرنا اور بھروسہ دینا جانتا ہو کہ جب ساری دنیا میرے خلاف کھڑی ہو اور بے اعتباری کے پتھر مار رہی ہو تو وہ میری ڈھال بنے اور سب کے سامنے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اعتبار بخشے۔۔۔۔۔"
عینا نے سب کی طرف ایک نظر دیکھا سب اسکی طرف متجسس نظروں سے دیکھ رہے تھے پھر کچھ پل کی خاموشی کے بعد کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
" اوئے ہوئے۔۔۔۔یار عائلہ یہ اپنی عینا تو بڑی گہری نکلی۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔"
عینا کے چپ ہوتے ہی فجر نے عینا کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے عائلہ کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔مجھے بھی آج ہی پتہ چلا کہ یہ اس حد تک سوچتی ہے۔۔۔"
عائلہ نے مسکراتے ہوئے عینا کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
" غلط۔۔۔صرف میں نہیں ہر لڑکی ایسا ہی سوچتی ہے کہ اس کی زندگی کا ساتھی ایسا ہی ہو۔۔۔کیا ایسا نہیں ہے۔۔۔"؟
عینا نے فوراً انکی بات کی تصیح کی تھی اور ساتھ ہی سوال کیا تو اسکی بات پہ سب نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔
" آپ نے اتنی خوبیوں کا ذکر کیا ہے مگر محبت کا ذکر نہیں کیا۔۔۔کیا محبت کرنے والا نہیں چاہیے جبکہ یہ ہر لڑکی کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا لائف پارٹنر بہت پیار کرنے والا اور رومینٹک سا ہو۔۔۔"
صدف نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔
" عزت ، اعتبار اور احساس کے بنا محبت کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔۔۔جہاں یہ تینوں نہ ہوں وہاں خالی خولی محبت شادی کے شروع کے چند دن تو ہضم ہو جاتی ہے مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیٹ خراب ہونے لگتا ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ دل کرتا ہے کہ بندہ اس محبت کی قے کردے۔۔۔"
عینا نے پرسوچ لہجے میں کہا۔۔۔اسکی اتنی گہری بات پہ سب کو جیسے چپ لگ گئ تھی عائلہ حیران ہو کر اپنی بہن کی طرف دیکھ رہی تھی آج تک انکے بیچ میں کبھی اس موضوع پہ بات نہیں ہوئی تھی اس نے عینا کو ہمیشہ مرد ذات سے خار کھاتے دیکھا تھا آج تک وہ یہی سمجھتی آئی تھی کہ عینا بہت جزباتی سی ہے تھوڑی بہادر بھی مگر اس قدر گہری سوچ رکھتی ہے اس کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔
" الّٰلہ کرے تمہارے سب خواب پورے ہوں تم جو سوچتی ہو جیسا چاہتی ہو الّٰلہ بلکل ویسا ہی ساتھی تمہیں عطا کرے۔۔۔"
عائلہ نے بے اختیار عینا کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔عائلہ کی بات پہ سب نے آمین کہا تھا اور عینا کی نظروں کے سامنے احتشام شاہ کا عکس لہرایا تھا اسیبوقت اس نے اپنی نظریں نیچے کی تھیں کہ کوئی اس کی نظروں سے اسکے دل کو نہ پڑھ سکے۔۔۔
" عائلہ سیف میں میرا کچھ سامان پڑا ہے مجھے یاد ہی نہیں رہا رکھنے کا وہ نکال کر میرے نیلے بیگ میں رکھ دو۔۔۔"
فجر نے عائلہ سے کہا۔۔۔تو عائلہ اٹھ کر سیف سے سامان نکالنے لگی۔۔۔صدف نے فجر کے دونوں ہاتھوں پہ مہندی کمپلیٹ کر دی تھی اور اب اس کے پاؤں پہ سائیڈ پہ بیل بنانے لگی تھی۔۔۔کہ اسی وقت مریم اور ایمن کے ساتھ فجر کی دو کزنز ہاتھ میں کچھ سامان پکڑے روم میں داخل ہوئیں۔۔۔
" فجر آپی چچی جان نے یہ سامان بھیجا ہے آپکے بیگ میں رکھنے کے لیے۔۔۔"
فجر کی آنے والی کزنز میں سے ایک بولی۔۔۔
" عائلہ باقی چیزوں کے ساتھ یہ بھی رکھ دو اندر۔۔۔"
فجر نے عائلہ سے کہا۔۔۔جو سیف سے نکالا گیا سامان فجر کے بیگ میں رکھ رہی تھی۔۔۔
" فجر اور جگہ نہیں ہے یہ بھی بڑی مشکل سے سیٹ کیا ہے اس بیگ میں۔۔۔"
عائلہ نے بیگ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔
" آپی آپکے وہ کیسے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔۔۔"
صدف نے اچانک عائلہ سے پوچھا تو عائلہ اس کی بات پہ نظریں چرا گئ اسے کیا جواب دیتی وہ تو خود نہیں جانتی تھی سوائے اسکے کہ اس کا نام دلاور ہے۔۔۔
" مجھے یاد آیا کہ میری کچھ بکس اور کچھ سامان اور بھی رکھنا ہے بیگ میں۔۔۔مگر وہ تو اوپر والے روم کے سٹور میں پڑا ہے سب۔۔۔امی جان نے باقی کمروں کے ساتھ میرے کمرے کی بھی صفائی کروا کے سب وہاں رکھوا دیا تھا کہ مہمانوں کے جانے کے بعد دوبارہ نیچے لے آئیں گے۔۔۔"
فجر نے اچانک یاد آتے کہا اور عینا کی طرف دیکھتے ہلکا سا اشارہ کیا۔۔۔
" تم شادی والے دن بکس پڑھو گی بیٹھ کے کیا۔۔۔؟شرجیل بھائی پڑھنے دیں گے تو پڑھو گی ناں۔۔۔جب دوبارہ آؤ گی پھر لے جانا تمہیں جو جو چاہیے۔۔۔فلحال تو جو بھائی تمہیں لفظ لفظ پڑھیں گے۔۔۔اسکی تیاری کرو۔۔۔"
عائلہ اسکی بات پہ پہلے حیران ہوئی پھر چھیڑتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولی۔۔۔
" نہیں یارر مجھے وہ سامان ساتھ ہی لیکر جانا ہے صرف بکس نہیں کچھ اور بھی چیزیں ہیں۔۔۔
ایسا کرو کہ ایسا کرو کہ۔۔۔۔ تم عینا اور مریم کے ساتھ جا کر لے آؤ پلیزززز۔۔۔وہاں دو بیگ پڑے ہوں گے ایک میں میری کچھ بکس ہیں اور دوسرے بیگ میں بلیو کلر کا پلاسٹک بیگ ہے وہ پورا بیگ لے آؤ جا کر۔۔۔"
فجر نے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے عائلہ عینا سے کہا۔۔۔تو عائلہ تذبذب کا شکار ہو گئ۔۔۔
" پریشان مت ہو عینا یہاں جب چند دن رہی تھی تو سارا گھر دیکھ لیا تھا اس نے۔۔۔عینا کو پتہ ہے کہ میں کس روم کی بات کر رہی ہوں تم پلیززز ساتھ چلی جاؤ۔۔۔سامان زیادہ ہے تو ایک ہی چکر میں تم لوگ لے آؤ گی بار بار نہیں جانا پڑے گا۔۔۔"
فجر نے عائلہ کو گومگو کی کیفیت میں دیکھ کر منت بھرے لہجے میں کہا تو عائلہ کو اسکی بات ماننی پڑی۔۔۔اسے راضی ہوتا دیکھ کر عینا اور فجر کے چہرے پہ سکون کی ایک لہر آئی تھی۔۔۔دروازے سے باہر نکلتے جب لاسٹ میں عینا باہر نکلنے لگی تو اس نے مڑ کر فجر کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے وکٹری کا نشان بنایا تھا جواب میں فجر نے دھیرے سے بیسٹ آف لک کہا تو وہ مسکراتے ہوئے باہر نکل گئ۔۔۔
" یہ بڑے بڑے گھر مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے کہ ایک روم سے دوسرے روم تک جاتے جاتے ہی شام ہوجائے۔۔۔اور خوف بھی آتا ہے پتہ نہیں لوگ کیسے اتنے بڑے بڑے گھروں میں رہ لیتے ہیں۔۔۔"
عائلہ نے اوپر روم کی طرف جاتے جاتے عینا سے کہا۔۔۔مہمانوں سے بھرے گھر میں انکے بیچ میں سے راستہ بناتے گزرتے اور پھر اتنی زیادہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے عائلہ کوفت کا شکار ہوئی تھی۔۔۔
" کہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں لیکن جس قسم کا اور جتنا بڑا شاہ سائیں کا سرکل ہے اس حساب سے تو یہ بھی کم پڑتا ہوگا۔۔۔"
عینا نے اوپر کی طرف سیڑھیاں چڑھتے کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔یہ بات بھی ٹھیک ہے۔۔۔کتنی مدھم لائٹ ہے یہاں۔۔۔اب ان میں سے سٹور کونسا ہے دونوں ایک جیسے لگ رہے ہیں۔۔۔"؟
وہ جب اوپر پہنچیں تو 13 واٹ کا بلب جمگما رہا تھا جسکی مدھم روشنی اور خاموشی میں وہ جگہ عجیب آسیب زدہ لگ رہی تھی ۔۔۔عائلہ نے دونوں رومز کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
" آپی یہ والا سٹور ہے۔۔۔"
انکے ساتھ آئی مریم نے ایک روم کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔
" کیز کس کے پاس ہیں۔۔۔"
روم پہ لگے تالے دیکھ کر عائلہ نے مڑ کر دونوں کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔تو دونوں نے کہا کہ ہمارے پاس نہیں عائلہ دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔۔۔پھر عینا نے مریم کو کہا کہ بھاگ کر فجر سے سٹور کی کیز لے کر آئے۔۔۔اسکے جاتے ہی عینا نے دروازے کے لاک کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ کھلا ہوا تھا۔۔۔
" آپی یہ تو کھلا ہوا ہے۔۔۔"
عینا نے لاک نکال کر عائلہ کو دکھاتے کہا۔۔۔
" چلو پھر دیکھتے ہیں۔۔۔اندر تو بہت اندھیرا ہے
یہ لائٹ کہاں سے اون ہوتی ہے۔۔۔"
دروازہ کھولتے عائلہ نے عینا سے پوچھا۔۔۔
" یہیں کسی دیوار کے ساتھ بورڈ لگا ہوگا۔۔۔اپنے موب کی لائٹ اون کریں۔۔۔"
عینا نے کہا۔۔۔
" وہ تو میں لے کر نہیں آئی۔۔۔میں نے سوچا تمہارے پاس ہے۔۔۔"
" ہوگیا کام۔۔۔وہ تو نیچے رہ گیا۔۔۔آپ ادھر رکیں میں ابھی آئی لے کر۔۔۔"
عینا نے اپنے سر پہ ہاتھ مارتے کہا اور عائلہ کے جواب کا انتظار کیے بنا اسکے رکو ، رکو کہنے کو نظر انداز کرتے تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئ۔۔۔عینا کے جانے کے بعد عائلہ وہاں کھڑی ہر چیز کا جائزہ لینے لگی۔۔۔ابھی وہ کھڑی دیکھ ہی رہی تھی کہ کسی نے یکدم اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسے کمر سے پکڑ کر اندر کی طرف دھکیلا تھا وہ اسے لیکر اندر داخل ہوا ہی تھا کہ پیچھے سے دروازہ ٹھک کی آواز سے بند ہوا تھا مارے خوف کے عائلہ کا برا حال تھا خود کو چھڑوانے اور چیخنے کی ہر کوشش اسکی ناکام ہوکر رہ گئ تھی۔۔۔
" میں چھوڑ رہا ہوں۔۔۔لیکن پلیزز شور مت کیجیے گا۔۔۔مجھے صرف دو منٹ آپ سے بات کرنی ہے پھر بے شک چلی جائیے گا۔۔۔"
آنے والے نے اسے یونہی جکڑے اسکے کان کے پاس سرگوشی کی تھی۔۔۔
عائلہ کے دل کو ہزار وسوسوں نے آ گھیرا تھا سب سے پہلا خوف اپنی جان کی بجائے اپنی عزت کا ہی اسکے دل میں سمایا تھا اس سے پہلے کہ وہ مزید خوفزدہ ہوتی جانی پہچانی آواز پہ حیران ہوتی اسکی مزاحمت ڈھیلی پڑی تھی۔۔۔آواز کی پہچان تک پہنچتے ہی اس نے سر ہلا کر اپنے خاموش رہنے کا اشارہ دیا تو اسکو آہستہ سے آزاد کرتے وہ پیچھے ہٹ گیا اسی وقت ٹک کی آواز سے پورے کمرے میں روشنی پھیلی تھی صارم شاہ نے فوراً لائٹ اون کی تھی کہ وہ اندھیرے میں خوفزدہ نہ ہو اسکو خوفزدہ ہونے سے تو اس نے بچا لیا تھا مگر عائلہ کا سجا سنورہ دوآتشہ روپ اس روشنی میں اسکے لیے ایک امتحان بن گیا تھا گولڈن اور میرون کلر کنٹراس کے کپڑوں میں لائٹ سا میک اپ کیے ڈری سہمی صارم شاہ کو پتھر کا بنا گئ ریشم کی تاروں جیسے کالے سیاہ سلکی بال جنہوں نے اسکی پوری کمر کو اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا قدرتی طور پہ اعنابی ہونٹوں پہ ریڈش میرون لپسٹک کے پاس ہی بائیں گال کا گہرا ڈمپل اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا اسکا دل ساری حددوں کو توڑ کر اس گہرائی میں اترنے کو مچلنے لگا مگر وہ صارم شاہ تھا ایک مظبوط کردار کا مرد جو اپنی حد خوب جانتا تھا۔۔۔جس نے عورت کے سر پہ چادر دینا سیکھا تھا اسے اتارنا نہیں۔۔۔وہ یونہی بےخود سا ہو کر ذرا فاصلے پہ کھڑا اسے تکنے لگا۔۔۔
" چھوٹے شاہ آپ۔۔۔۔"؟
اپنے سامنے صارم شاہ کو کھڑا دیکھ کر عائلہ کے منہ سے سراسیمگی لیے خارج ہوا تھا اور نہ جانے کیوں اسے دیکھ کر دل کو تسلی بھی ہوئی تھی ایک دم جس خوف نے اسے لرزایا تھا وہ جاتا رہا تھا۔۔۔
" یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔ہٹیں پیچھے۔۔۔"
انتہائی غصے سے کہتے عائلہ دروازے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔مگر وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئ کہ دروازہ اندر سے نہیں باہر سے بند تھا۔۔۔
" ی ی یہ دروازہ کھ کھل کیوں نہیں رہا۔۔کک۔۔۔کیا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔کیوں لائے ہیں مجھے ایسے یہاں۔۔۔"
دروازہ باہر سے بند پا کر عائلہ کا دماغ بھک سے اڑا تھا اب سہی معنوں میں اسکے ہوش اڑے تھے وہ خوفزدہ ہو کر لرزتی آواز میں دروازے کے ساتھ چمٹتی بولی۔۔۔
" پلیز۔۔۔پلیز میری بات سنیں میرا مقصد آپکو کوئی نقصان پہنچانا نہیں ہے نہ کسی غلط ارادے سے آپکو اندر لایا ہوں بس ایک بار میری بات سن لیں۔۔۔پلیزز بس ایک بار۔۔۔
صارم شاہ جو بت بنا کھڑا اس کو محویت سے دیکھ رہا تھا اسکو خوفزدہ ہوتے اور خود سے ڈرتے دیکھ کر فوراً ہوش میں آیا اور آگے بڑھ کر اسکی منت کرتا دھیمی آواز میں بولا۔۔۔
" آپکو الّٰلہ کا واسطہ ہے پلیز مجھے جانے دیں اگر کسی نے دیکھ لیا یا کسی کو پتہ چل گیا کہ ہم اس طرح روم میں آپکے ساتھ تنہا۔۔۔۔۔۔"
عائلہ صارم شاہ کی بات کو نظرانداز کرتی آنکھوں میں نمی لیے ملتجی لہجے میں گویا ہوئی ایک غیر مرد کے ساتھ تنہا بند کمرے میں ہونے اور آنے والے حالات کی سوچ نے اسے خوفزدہ کر ڈالا۔۔۔ اسے نہ کچھ دکھائی دے رہا تھا نہ سجھائی دے رہا تھا نظر آ رہا تھا تو بس اتنا کہ وہ چھوٹے شاہ کے ساتھ بند کمرے میں تنہا ہے اور یہاں سے فوراً بس نکلنا ہے۔۔۔
" پلیززز خدا کے لیے دروازہ کھولو۔۔۔"
عائلہ نے دروازے پہ ہلکی سی دستک دیتے رندھی آواز میں نادیدہ وجود کو پکارتے کہا کہ باہر جو بھی ہے جس نے بھی باہر سے دروازہ بند کیا ہے شائد اسے رحم آ جائے۔۔۔
" آپکو میری بات کی سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔۔۔میں کہ رہا ناں۔۔۔۔۔"
صارم شاہ نے اب کے عائلہ کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ عائلہ دونوں بازو زور سے جھٹکتے ہوئے کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔۔۔
" ہا۔۔ہاتھ مت لگائیں مجھے۔۔۔د۔د دور رہیں مجھ سے"
عائلہ نے بدکتے ہوئے خوفزدہ ہوتے کہا۔۔۔
" اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔سوری۔۔۔نہیں لگاتا۔۔۔"
صارم شاہ خوف سے دگرگوں ہوتی اسکی حالت دیکھ کر فوراً مزید دو قدم پیچھے ہوا تھا۔۔۔
" عینا۔۔۔عینا۔۔۔میری جان سن رہی ہو تم۔۔۔عینا تم ٹھیک ہو۔۔۔"
اچانک سے خود کو بھول کر عائلہ کو عینا کا خیال آیا تھا کہ وہ نیچے موب لینے گئ تھی اور کب کی وہ آ چکی بھی ہوگی پھر اسکی آواز کیوں نہیں آ رہی۔۔۔
" کیا کیا ہے آپ نے میری بہن کے ساتھ وہ باہر تھی اسکی آواز کیوں نہیں آ رہی۔۔۔اگر اس کو کچھ بھی ہوا تو میں آپکی جان لے لوں گی۔۔۔"
باہر سے مکمل خاموشی پا کر عائلہ کا دل لرزا تھا خوفزدہ ہو کر وہ صارم شاہ کی طرف بڑھی اور دونوں ہاتھوں سے اس کا گریبان پکڑ کر غصے سے بولی۔۔۔اسکے دل میں وہم پیدا ہوا تھا کہ صارم شاہ کے ساتھ جو بھی ملا ہوا ہے اس نے عینا کو کچھ کر نہ دیا ہو۔۔۔
" عائلہ جی یہ ظلم مت کریں مجھ پہ۔۔۔مجھے دور جانے کا کہ کر خود پاس آ جاتی ہیں۔۔۔بندہ بشر ہوں بار بار خود کو سنبھال نہیں پاؤں گا۔۔۔"
صارم شاہ نے اپنی آنکھیں بند کیے عائلہ کے وجود سے آتی مہک کو لمبا سانس بھرتے ہوئے اپنے اندر اتارا تھا پھر اسکی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے اس پہ چوٹ کی تھی جو اس کا گریبان تھامے اسکے انتہائی قریب اس سے جڑی کھڑی تھی کہ اسکے دونوں بازو صارم شاہ کے سینے پہ دھرے ہوئے تھے۔۔۔صارم شاہ کی بات سن کر عائلہ گھبرا کر نظریں چراتی فوراً اس سے دور ہوئی تھی۔۔۔
" فکر مت کریں عینا بلکل ٹھیک ہے آپ جب تک میری سکون سے بات نہیں سنیں گی دروازہ نہیں کھلے گا اور نہ ہی عینا آپکی بات سنے گی اور نہ ہی کسی کو ادھر آنے دے گی۔۔۔"
صارم شاہ نے ہاتھ اپنے سینے پہ باندھے پرسکون لہجے میں کہا۔۔۔
" مطلب۔۔۔کیا مطلب ہے آپکی اس بات کا۔۔۔عینا کیوں نہیں سنے گی۔۔۔مطلب یہ سب پری پلان تھا۔۔۔آپ سب ملے ہوئے تھے آپس میں۔۔۔فجر بھی۔۔۔"
عائلہ نے صارم شاہ کی بات کا مطلب سمجھتے حیرانگی اور بے یقینی سے پوچھا تھا اور صارم شاہ کے سر ہلانے پہ جیسے اسکے سر پہ بم بلاسٹ ہوا تھا۔۔۔
" عینا تو تھی ہی سدا کی بیوقوف۔۔۔مگر آپ۔۔۔آپ سے ہرگز یہ امید نہیں تھی مجھے۔۔۔آپکو اندازہ بھی ہے کہ کوئی اس طرف آ گیا تو کیا ہوگا۔۔۔آپکی یہ حرکت رسوا کرکے رکھ دے گی مجھے۔۔۔نیچے جو ہوا کیا وہ کم تھا۔۔۔وہ تو ہائمہ خالہ نے سبکی زبان بند کردی اور ابھی بھی نہ جانے کیا کیا باتیں بنائی جائیں گی۔۔۔
عائلہ نے دبے دبے غصے میں چیختے ہوئے کہا۔۔۔اور دھیرے سے پھر سے دروازہ بجایا۔۔۔
" عینا کی بچی دروازہ کھول دو ورنہ ساری عمر تم سے بات نہیں کروں گی۔۔۔"
عائلہ نے دروازے کے ساتھ منہ لگا کر دھمکی دی مگر باہر سے پھر خاموشی نے اسکا منہ چڑایا تھا۔۔۔وہ کچھ دیر یونہی غصے سے دروازے کو تکتی رہی۔۔۔
" ٹھیک ہے بولیے کیا کہنا ہے آپکو۔۔۔لیکن جو بھی کہنا ہے پلیز جلدی کہیں۔۔۔"
تھک ہار کر عینا اور فجر سے بعد میں نمٹنے کا سوچ کر عائلہ نے ہتھیار پھینکتے کہا۔۔۔اسے اچھی طرح سے اندازہ ہوگیا تھا کہ صارم شاہ کے کہے بنا دروازہ نہیں کھلے گا اور اپنی بات کہے بنا وہ اسے جانے نہیں دے گا۔۔۔یہاں سے جلد از جلد نکلنے کے لیے اس کا صارم شاہ کی بات سننا ضروری تھا۔۔۔
" آپ اس رشتے سے انکار کردیں۔۔۔"
صارم شاہ نے دو ٹوک انداز اپناتے کہا۔۔۔
" کیا اس بات کے لیے آپ نے یہ سب کیا۔۔۔اور کس لیے انکار کروں میں۔۔۔آپ ہوتے کون ہیں مجھ سے یہ کہنے والے۔۔۔"
عائلہ کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا اسکی بات سن کر کہ اتنی چھوٹی بات کے لیے یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی اس نے خود کو مظبوط ظاہر کرتے جی کڑا کر کے سخت لہجے میں کہا۔۔۔
" نہیں۔۔۔اس لیے نہیں لایا آپکو۔۔۔بےشک میں کوئی نہیں ہوتا۔۔۔اور میرا کوئی حق بھی نہیں۔۔۔
مگر میں آپ کا سب کچھ ہونا چاہتا ہوں آپ پہ صرف اپنا حق رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔
حس دن سے میں آپ سے ملا ہوں آپکو دیکھا ہے میری ہر سوچ آپ سے شروع ہوکر آپ پہ ختم ہو جاتی ہے۔۔۔مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب آپ کی محبت نے میرے پورے وجود میں اپنے پنجے گاڑ دئیے۔۔۔
میں نے بار بار اشاروں کنایوں میں آپ سے اپنی حالت بیان کرنا چاہی مگر آپ کا سرد انداز مجھے کچھ بھی کہنے سے روک دیتا۔۔۔پھر سوچتا کہ کبھی تو برف پگلے گی کبھی تو آپکو احساس ہوگا کبھی تو میرے اندر کی جلتی آگ آپکو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی۔۔۔میری محبت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا اس لیے یہ ناممکن تھا میری محبت آپکے دل تک اپنا راستہ نہ بناتی۔۔۔ میں انتظار کرنے لگا اس وقت کا کہ آپ بھی اسی آگ میں جلیں جس میں میں جل رہا ہوں مگر نہیں جانتا تھا کہ یہ انتظار میری جان لے لے گا نہیں جانتا تھا کہ میری قسمت میں آپکا وصل نہیں جدائی لکھ دی جائے گی۔۔۔
جب سے یہ خبر سنی ہے کہ آپ کسی اور کے نام لکھ دی گئی ہیں میں کانٹوں پہ لوٹ رہا ہوں جب جب دل میں یہ خیال آتا ہے کہ آپ کسی اور کی ہو جائیں گی مجھے لگتا جیسے کوئی مجھے کانٹوں پہ گھسیٹ رہا ہو آپکی محبت میرے جسم میں خون بن کر دوڑنے لگی ہے نہیں رہ سکتا آپکے بنا۔۔۔پلیززز عائلہ جی آپ انکار کردیں۔۔۔میں بابا کے حکم کی زنجیروں میں بندھ گیا ہوں ورنہ۔۔۔۔۔"
صارم شاہ نے اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھتے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر عائلہ کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں حیرانی لیے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
" ورنہ کیا۔۔۔کیا کریں گے آپ۔۔۔"
عائلہ نے اسکی ادھوری بات پہ مضطرب ہوکر پوچھا۔۔۔
" ورنہ یہ کہ میں یہ کبھی نہ ہونے دیتا۔۔۔ورنہ یہ کہ جس دن مجھے اس بات کا پتہ چلا تھا اسی دن آپ اپنے گھر سے میرے گھر آ چکی ہوتیں۔۔۔ورنہ یہ کہ آپ کا نام لینے والا آپکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والا اس وقت دوسرا سانس نہ لے رہا ہوتا۔۔۔
ہونے کو سب کچھ ہو سکتا ہے مگر بابا کے حکم نے میرے ہاتھ پیر باندھ دئیے ہیں۔۔۔اور میرے ان بندھے ہاتھوں کو صرف تم ہی کھول سکتی ہو پھر اگر ساری دنیا بھی میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئ تو میں اس سے ٹکرا جاؤں گا۔۔۔
میں بزدل نہیں ہوں عائلہ جی۔۔۔آپکی خاطر جان لے بھی سکتا ہوں اور جان دے بھی سکتا ہوں۔۔۔
بابا جان کہتے ہیں کہ اگر عائلہ انکار کردے تو پھر وہ میرا ساتھ دیں گے وہی ہوگا جو میں چاہوں گا۔۔۔آپ
صرف ایک بار میرا ہاتھ تھام کر مجھے یہ یقین بخش دیں کہ میں اس راہ کا اکیلا مسافر نہیں ہوں وعدہ کرتا ہوں پھر مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا
وعدہ کرتا ہوں کہ آپکے راستے کے سارے کانٹے چن لوں گا۔۔۔صرف ایک بار۔۔۔بس ایک بار اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیں۔۔۔پلیززز عائلہ جی۔۔۔پلیززز میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپکا بھروسہ کبھی نہیں توڑوں گا آپکو کبھی اپنے اس فیصلے پہ پچھتانا نہیں پڑے گا۔۔۔"
عائلہ صارم شاہ کے اظہار پہ حیران بت بنی کھڑی تھی صارم شاہ کے شدتوں بھرے اقرار نے عائلہ کے تھپک تھپک کر سلائے جزبات و احساسات میں ہلچل مچا کے رکھ دی تھی پہلی بار چاہے جانے کے احساس سے روشناس ہوئی تھی یہ احساس اسے بے خود کر رہا تھا وہ کمزور پڑ رہی تھی۔۔۔
صارم شاہ اس میں انٹرسٹ لے رہا ہے یہ وہ باخوبی جانتی تھی مگر وہ اس حد تک گرفتار محبت تھا اس کا اندازہ ہرگز نہیں تھا۔۔۔
صارم شاہ بولتے بولتے عائلہ کے پاس آ کر اسے دونوں بازوؤں سے تھام کر بوجھل لہجے میں بولا۔۔۔اور بے خودی میں اپنا سر اسکے کندھے پہ رکھ دیا۔۔۔
صارم شاہ کے بولے ہر لفظ پہ عائلہ کا دل چاہا کہ ایمان لے آئے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لے۔۔۔محبت و اعتبار کی حسین زنجیر میں اسکے ساتھ بندھ جائے۔۔۔اسے بتادے کہ وہ اس راہ کا اکیلا مسافر نہیں ہے اس کا دل بھی اس سے بغاوت کر بیٹھا ہے۔۔۔مگر چاہ کر بھی وہ ایک لفظ نہ کہ پائی۔۔۔وہ دونوں خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر ایک دوسرے کی دھڑکنوں کی آواز سننے لگے۔۔۔
" عائلہ پلیززز کچھ کہو۔۔۔میری ہر دھڑکن تمہاری ایک ہاں سننے کو تڑپ رہی ہے۔۔۔پلیززز کچھ بولو۔۔۔کہو کہ تم میرا ساتھ دو گی۔۔۔"
صارم شاہ نے اسے یونہی تھامے ہوئے کھڑے کھڑے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
" نن۔۔۔نہیں۔۔۔د۔د دور رہیں مجھ سے۔۔۔"
عائلہ یکدم ہوش میں آئی تھی اور اپنی بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتی صارم شاہ کو زور سے پیچھے کو دھکیلتی خود بھی بدک کر پیچھے کو ہوتی بولی۔۔۔اور اپنا دل تھام کر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔اسکی حالت نے صارم شاہ پہ اسکے دل کے سبھی بھید کھول دئیے تھے۔۔۔بھرپور مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا۔۔۔
" آپ جس محبت کی بات کر رہے ہیں وہ فریب نفس کے سوا کچھ نہیں ہے اور محبت خون بن کر جسم میں تب تک ہی دوڑتی ہے جب تک وہ حاصل نہ ہو پھر جب وہ حاصل ہو جاتی ہے خون کو پانی بنتے دیر نہیں لگتی۔۔۔بہت سے لوگ محبت کے دعوے کرتے ہیں محبت میں جان دینے اور لینے کی باتیں بھی کرتے ہیں مگر جب نبھانے کا وقت آتا ہے تو جان دینا تو دور کی بات چار لوگوں کے سامنے عزت تک نہیں دے پاتے تپتے سورج تلے تنہا چھوڑ کر خود چھاؤں میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔
ناکردہ گناہ پہ سنگسار کرنے کے لیے سب سے پہلا پتھر وہی مارتے ہیں جنہوں نے راستے کے سارے کانٹے چن لینے کے دعوے کیے ہوتے ہیں۔۔۔"
اپنے باغی ہوتے دل کی لگامیں پوری طاقت لگا کر کھینچتے ہوئے بولی بھی تو کیا بولی۔۔۔اس نے صارم شاہ کو اپنے اعتبار کی زنجیر تھمانے کی بجائے بے اعتباری بخش دی۔۔۔عائلہ کے بولے ہر لفظ پہ صارم شاہ تڑپ کر رہ گیا وہ محبتوں سے اتنی بدگمان تھی یہ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔
" میرا خیال ہے آپ نے جو کہنا تھا کہ دیا اور میں نے سن لیا اور اپنا جواب بھی دے دیا۔۔۔اب پلیززز دروازہ کھلوا دیں مجھے جانے دیں۔۔۔"
عائلہ بے رخی سے کہ کر اپنا رخ دروازے کی طرف موڑتے ہوئے بولی۔۔۔
" جانے سے پہلے میرے بس ایک سوال کا اور جواب دے دیں۔۔۔ کیا آپ اس شادی سے خوش ہیں کیا آپ بھی چاہتی ہیں اسے۔۔۔؟
صارم شاہ نے ٹوٹے لہجے میں بڑی آس سے پوچھا۔۔۔
" ضروری نہیں ہوتا کہ ہم جس سے شادی کر رہے ہوں اسے چاہتے بھی ہوں اور خوش بھی ہوں۔۔۔میرے لیے یہی کافی ہے کہ یہ میرے باپ کا حکم ہے اور میرے پاس انکار کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے اس لیے میں نے اسے اپنی قسمت سمجھ کر قبول کرلیا ہے اور جو قسمت میں لکھا ہو وہ مٹایا نہیں جا سکتا۔۔۔آپ بھی مان لیں کہ میں آپکی قسمت میں نہیں تھی۔۔۔"
صارم شاہ کے ٹوٹے لہجے میں چھپی ایک آس ایک امید پہ عائلہ کا دل ڈگمگایا تھا مگر وہ خود غرض نہیں تھی اپنی خوشیوں کو پانے کے لیے وہ کسی کو قبر میں اترتا نہیں دیکھ سکتی تھی اس وقت اس کا ذرا سا بھی کمزور پڑنا صارم شاہ کا حوصلہ بڑھا کر اسکے دل میں امید جگا دیتا اس لیے وہ مضبوطی سے کھڑی رہی مگر بولتے ہوئے اپنی آواز کی لرزش پہ قابو نہ پا سکی۔۔۔اور یہی لرزش صارم شاہ کے دل میں ڈھیروں سکون اتار گئ وہ جان گیا کہ وہ خؤش نہیں ہے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس کی وجہ سے اس نے خود پر محبت کے دروازے بند کر رکھے ہیں کہ ہزار ٹکریں مارنے پہ بھی کھولنے کو تیار نہیں۔۔۔ اور اسے اب عینا سے مل کر اسی مجبوری کا پتہ چلانا تھا۔۔۔مگر عائلہ کے اس خول کو بھی توڑنا تھا جو اس نے خود پہ چڑھایا ہوا تھا۔۔۔
" سچ کہا آپ نے قسمت کا لکھا کوئی نہیں مٹا سکتا۔۔۔اور یہ بھی سچ ہے کہ جس کا نام دل پہ ایک بار لکھ دیا جائے وہ پھر ساری عمر مٹانے سے بھی نہیں مٹ سکتا۔۔۔اور محبت کوئی چیز نہیں ہوتی کہ یہ نہ ملی تو کوئی دوسری سہی۔۔۔یہ جس سے ایک بار ہو جاتی ہے پھر ہر حال میں بس وہی چاہیے ہوتا ہے۔۔۔اس راہ کے مسافر یا تو اپنی منزل کو پا لیتے ہیں یا پھر اس راہ کی خاک چھانتے چھانتے خود خاک میں مل جاتے ہیں۔۔۔مگر میں صارم شاہ خاک ہونے سے پہلے آپکو اپنا احساس دلا کر جاؤں گا
آج کے بعد آپ جب جب بھی سانس لیں گی اپنی سانسوں سے آپکو میری مہک آئے گی۔۔۔آئینہ دیکھیں گی تو اس میں آپکو اپنا نہیں میرا عکس نظر آئے گا میں اپنی محبت کے آپکی روح پر اتنے گہرے نقش چھوڑوں گا کہ چاہ کر بھی آپ مٹا نہیں پائیں گی۔۔۔"
عائلہ کو توڑنے اور اسکے دل میں چھپی اپنی محبت کو باہر لانے کے لیے صارم شاہ کو اب وہ کرنا پڑا جو وہ کرنا نہیں چاہتا تھا وہ خمار آلود لہجے میں بولتا دھیرے دھیرے عائلہ کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگا۔۔۔
" آ۔۔آ۔۔۔آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔پپ۔۔۔پلیززز ر۔۔رک جائیے۔۔۔ایسا کچھ مت کیجیے گا۔۔۔مم۔۔میں اپنی جان دے دوں گی اگر آپ نے میرے ساتھ کچھ غلط کیا تو۔۔۔رک جائیے۔۔۔پلیززز۔۔۔"
صارم شاہ کے بولے گئے لفظوں نے عائلہ کو ہلا کر رکھ دیا لمحہ با لمحہ اسکے اپنی طرف بڑھتے قدموں کو دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو کر لرزتے کانپتے ہوئے صارم شاہ کو وہیں رکنے کا کہنے کے ساتھ ساتھ اپنے قدم پیچھے کو اٹھانے لگی۔۔۔مگر وہ سنی ان سنی کرتا عائلہ کی طرف بڑھتا گیا۔۔۔
" میرے اس لمس کو اب اپنے وجود سے مٹا کر دیکھائیے اب بیٹھ کر خود کو یقین دلاتی رہیے گا کہ آپکے دل میں میرے لیے کچھ نہیں۔۔۔اب جس آگ میں میں جل رہا ہوں پل پل آپ بھی اسی آگ میں جلیں گی۔۔۔اور امید ہے کہ اب انکار کی آپ کو ایک ٹھوس وجہ بھی مل گئ ہوگی۔۔۔کہتے ہیں کہ عورت اپنی زندگی میں آنے والے پہلے مرد کو اور اسکے لمس کو کبھی نہیں بھول پاتی اب آپ بھی مجھے کبھی بھول نہیں پائیں گی۔۔۔اپنے وجود پر کسی اور مرد کے نشان لیے کسی اور سے شادی کریں گی تو یہ تو اسکے ساتھ بےایمانی ہوگی ناں۔۔۔اور اب آپ مجھے بے ایمان ہوکر دکھائیے۔۔۔
صارم شاہ نے عائلہ کے قریب آ کر اسے اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے اسے چپ کروایا تھا۔۔۔عائلہ نے اسکی گرفت سے نکلنا چاہا تو وہ اپنی گرفت کے ساتھ اپنی شدت کو بھی بڑھا گیا۔۔۔وہ جتنی مزاحمت کرتی اسکی شدت اور بڑھ جاتی پھر یکدم اسکی مزاحمت کمزور پڑی تھی اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے پھر وہ بلکل ساکت ہو گئ اسے کمزور پڑتے دیکھ کر صارم شاہ نے کچھ پل بعد بہت نرمی سے پھر اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو اپنے ہونٹوں سے چنا اور پھر دہکتے گالوں کو چھوا تو وہ تب بھی بت بنی بنا کسی مزاحمت کے یونہی کھڑی رہی۔۔۔صارم شاہ اپنی مزید بڑھتی خواہشوں کو روکتا اور خود پہ بند باندھتا اسکے رویے پہ حیران ہوتا تیزی سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔
" بس۔۔۔۔چھوٹے شاہ کچھ اور نہیں کرو گے۔۔۔کرو ناں۔۔۔روند ڈالو مجھے۔۔۔پیچھے کیوں ہٹ گئے۔۔۔مٹا لو اپنی ہوس جسے تم محبت کا نام دے رہے تھے۔۔۔تم سب مرد ایک جیسے ہوتے ہو محبت کے نام پر عورت کو لوٹتے ہو کبھی زور زبردستی سے اور کبھی پیار محبت کا خوبصورت جال پھینک کر اس کی عزت کی دھجیاں بکھیر کر اپنی مردانگی ثابت کرتے ہو۔۔۔تم بھی ثابت کرو ناں کہ تم کتنے بڑے مرد ہو۔۔۔"
صارم شاہ کے پیچھے ہٹتے ہی عائلہ کے ساکت وجود میں حرکت ہوئی وہ بے آواز روتے ہوئے اسکی طرف دیکھنے لگی آنسو اسکی گالوں پہ بہ کر کچھ اسکی گردن اور کچھ زمین میں جزب ہونے لگے پھر اپنا دوپٹہ کھینچتے ہوئے اتار کر نیچے پھینکا۔۔۔صارم شاہ ناسمجھی سے حیران ہو کر اسکے اس عمل کو دیکھنے لگا
عائلہ دھیرے دھیرے قدم اسکی طرف بڑھاتے روتے ہوئے اسکے پاس آئی اور صارم شاہ کے ہاتھ اپنے کندھوں پہ رکھتے ہوئے بولی۔۔۔
" چٹاخ۔۔۔"
عائلہ کی بات نے صارم شاہ کے رگ و پے میں چنگاریاں سی بھر دیں بے اختیار اس کا ہاتھ اٹھا تھا عائلہ لڑکھڑا کر زمین پہ گر گئی اور وہیں گری سسکنے لگی۔۔۔صارم شاہ اپنی حرکت پہ نادم ہوتے آگے بڑھا اور زمین سے عائلہ کا دوپٹہ اٹھا کر اسکے سر پہ دیتے ہوئے اسکے ارد گرد بھی لپیٹ دیا پھر اسکے قریب ہی زمین پہ بیٹھ گیا۔۔۔
" میری محبت کو ہوس کا نام دے کر اسکی تذلیل مت کریں عائلہ جی۔۔۔آپکی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا میرے دل کی مسند پہ صرف آپ ہی براجمان ہیں اور جن کی دل پہ حکمرانی ہوتی ہے انکو رسوا نہیں کیا جاتا۔۔۔میں بھی ایک مرد ضرور ہوں مگر مرد نما جانور ہرگز نہیں ہوں جو صرف جسم کے بھوکے ہوتے ہیں۔۔۔میں اپنی حد کو خوب پہچانتا ہوں اور اس میں رہنا بھی۔۔۔
میرا الّٰلہ شاہد ہے کہ میں نے آپ سے پہلے کسی لڑکی کو چھونا تو دور اسکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔۔۔
میں نے زندگی میں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کبھی کسی لڑکی کو بنا کسی رشتے کے یوں ٹچ بھی کروں گا مگر اس سب کے لیے آپ نے مجبور کیا۔۔۔میں آپ پہ کوئی محبت کا جال نہیں پھینک رہا۔۔۔جال پھینکنے والے تنہائی میں موقع ملتے ہی سر سے دوپٹہ اتارتے ہیں اوڑھاتے نہیں ہیں۔۔۔"
صارم شاہ اپنی بات ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا ہاتھ عائلہ کی طرف بڑھایا کہ وہ اٹھ کر کھڑی ہو جائے۔۔۔
" محبت جیسے پاکیزہ رشتے میں بندھے لوگ بنا کسی رشتے کے چھوتے بھی نہیں ہیں چھوٹے شاہ۔۔۔آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔۔۔"
عائلہ اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظرانداز کرتی درشتی سے بولی۔۔۔
" وعدہ کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آنے والی آپ پہلی اور آخری لڑکی ہوں گی۔۔۔وعدہ کرتا ہوں کہ آپکے سوا اب اس دل میں تاعمر کوئی نہیں آئے گا۔۔۔
میں نے آپکی اجازت کے بنا آپکو چھونے کی غلطی کی ہے تو وعدہ کرتا ہوں کہ میں اب تب تک زندہ ہوں جب تک آپ " عائلہ رشید احمد " ہیں جس دن کسی اور کا نام آپکے نام کے ساتھ جڑا اس دن آپکی بارات اس گاؤں سے نکلنے سے پہلے میرا جنازہ اٹھے گا۔۔۔
میں صارم شاہ قسم کھاتا ہوں الّٰلہ پاک کی، اپنی ماں ہائمہ خاتون کی اپنے بابا حشمت شاہ کی کہ میں ایسا کر گزروں گا۔۔۔
اب آپکی باری عائلہ جی کہ میں نے جو آپکے وجود پہ اپنا لمس چھوڑا آپکو چھوا آپ اسی میں لپٹی میرا نام اپنے نام سے جوڑ کر خود کو اور میری محبت کو معتبر کریں یا خائن بن کر کسی اور کا نام اپنے نام سے جوڑ کر میری موت کا تماشہ دیکھیں۔۔۔
میں آپکے فیصلے کا انتظار کروں گا۔۔۔اب آپ جا سکتی ہیں۔۔۔"
صارم شاہ عائلہ کی بات سن کر ایک پل کو ٹھٹکا تھا پھر دوبارہ سے اسکے سامنے بیٹھا اور اسکے چہرے پہ نظریں گاڑھے نرم لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولا۔۔۔اس بار وہ بولا تو اسکے لہجے میں جو اعتماد تھا اسکا نام نشان نہیں تھا بلکہ آس و نراس کی کیفیت میں ڈوبا کوئی جان بلب شخص لگ رہا تھا۔۔۔اسکی کھائی قسم اور لفظوں کے نشیب و فراز میں الجھی وہ صارم شاہ کی آخری بات پہ تڑپ کر رہ گئ۔۔۔صارم شاہ نے اٹھ کر دروازے پر مخصوص انداز میں دو بار دستک دی تو باہر سے دروازہ کھول دیا گیا۔۔۔
" عینا گڑیا میں آپ لوگوں کا باہر ویٹ کر رہا ہوں فوراً عائلہ کو لے کر دو منٹ میں نیچے آ جائیں میں آپکو گھر چھوڑ دوں۔۔۔خالہ کو میں لے آتا ہوں اور فجر کو بھی بتا دوں گا۔۔۔"
دروازے کے کھلتے ہی صارم شاہ نے عینا سے کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتا سیڑھیاں اتر گیا۔۔۔عینا کب سے باہر کھڑی بے چینی سے انکی بات ختم ہونے کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔صارم شاہ نے عینا سے نظریں نہیں ملائی تھیں مگر ان آنکھوں اور لہجے میں چھپا کرب محسوس کر کے اسے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔۔۔اس نے عائلہ کی طرف دیکھا جو زمین پہ بیٹھی سسک رہی تھی۔۔۔عائلہ کی حالت دیکھ کر وہ پریشان سی اندر اس کے پاس آئی تھی۔۔۔اسے فجر کے پلان میں اس کا ساتھ دینے پہ افسوس ہونے لگا۔۔۔
اسی وقت لائٹ آف ہوئی تھی وہ سمجھ گئ کہ یہ صارم شاہ کا کام ہے۔۔۔اس نے عائلہ کو اٹھانے کو اس کا ہاتھ پکڑا تو عائلہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اپنے آنسو صاف کیے اور اٹھ کر نیچے کی طرف چل دی۔۔۔

2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png
2764.png


رضوانہ خاتون کے گھر کے سامنے گاڑی روک کر سب سے پہلے قاسم نیچے اترا اور مہدیہ کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
فاطمہ اور رضوانہ خاتون نے مہدیہ کو سہارا دے کر گاڑی سے نکالا پھر اپنے پرس سے گھر کی کیز نکال کر دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوتے ہوئے ایمان اور قاسم سے بھی اندر آنے کو کہا۔۔۔
" سوری بیٹا آپ پہلی بار میرے گھر آئی ہو اور میں فلحال آپکی کوئی خدمت نہیں کرسکتی۔۔۔"
فاطمہ نے آگے بڑھ کر جلدی سے صحن میں کرسیاں لگائیں۔۔۔فاطمہ مہدیہ کے ساتھ اندر روم میں چلی گئ جبکہ رضوانہ خاتون باہر ایمان اور قاسم کے پاس ہی بیٹھ گئیں اور شرمندگی سے بولیں۔۔۔
" خالہ فکر مت کریں اگلی دفعہ آؤں گی تو سب کھاؤں گی۔۔۔آپ بس مہدیہ کا خیال رکھیے گا۔۔۔"
ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
" خالہ اگر برا نہ لگے تو کیا بتا سکتی ہیں کہ مہدیہ کی ایسے اچانک اتنی طبیعت کیوں خراب ہو گئ۔۔۔سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔"
ایمان نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
بیٹا مہدیہ کے ماں باپ یعنی میرے بہنوئی اور بہن مہدیہ کے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے ایک چچا تھے جنہوں نے اسے باپ کی طرح پالا کل صبح انکا انتقال ہوگیا بس اسی وجہ سے مہدیہ کی طبیعت خراب ہو گئ۔۔۔ "
رضوانہ خاتون نے سہولت سے کہانی گھڑی اتنے اچھے لوگوں سے جھوٹ بولنا انھیں بلکل بھی اچھا نہیں لگ ریا تھا مگر مہدیہ کے ساتھ اس قسم کی کہانی جوڑنی بہت ضروری تھی اگر کسی کو بھنک بھی پڑ جاتی کہ وہ انکی کچھ نہیں لگتی بلکہ کوٹھے سے آئی ہے تو نہ صرف انکو نوکری سے، بلکہ اس محلے سے بھی نکال دیا جاتا۔۔۔مہدیہ کو انھوں نے دل سے بیٹی مانا تھا اس لیے ایک ماں کی طرح ہی اسے زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔۔۔
اوہ بہت افسوس ہوا جان کر۔۔۔"
ایمان نے افسوس سے کہا اسے بہت ترس آ رہا تھا مہدیہ پر جس پہ پے در پے غم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔
" خالہ مہدیہ کا کوئی بہن بھائی بھی ہے کیا۔۔۔"
قاسم نے پوچھا۔۔۔
" نہیں بیٹا وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے جواب دیا تو قاسم کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔
" اچھا خالہ اب ہم چلتے ہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے گا۔۔۔میں مہدیہ اور فاطمہ سے مل لوں ذرا۔۔۔"
ایمان اٹھتے ہوئے بولی اور فاطمہ کے روم کی طرف بڑھ گئ۔۔۔
" آپی آپ نے ایک بات نوٹ کی۔۔۔"؟
قاسم نے گاڑی چلاتے ہوئے گردن موڑ کر اپنے ساتھ والی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی ایمان سے پوچھا۔۔۔
" کونسی بات۔۔۔"؟
ایمان نے حیرانگی سے ہوچھا۔۔۔
" مہدیہ کے ماں باپ بچپن میں مر گئے۔۔۔
ایک چچا تھا جس نے پالا وہ بھی مر گیا۔۔۔
شوہر کی بھی ڈیتھ ؟

 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
Chat