Offline
Episode , 47 #
" کیا کہا ہے ڈاکٹر نے۔۔۔امی اور عائلہ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔کہاں لے کر گئے ہیں ان کو۔۔۔"
صارم شاہ اور دلاور ڈاکٹر کے روم سے باہر آئے تو فجر عینا اور شرجیل روم کے باہر بے چینی سے ان کے باہر آنے کے انتظار میں کھڑے تھے۔۔ان کو باہر نکلتا دیکھ کر عینا فکرمندی اور پریشانی سے نم آنکھیں اور لہجے میں خوف لیے صارم شاہ کے پاس آکر اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔
صارم شاہ کو ایک پل کو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے۔۔۔کیا بولے۔۔۔مہرالنساء کی حالت کے بارے میں سن کر جانے وہ کیسا ری ایکٹ کرے۔۔۔
" دیکھو عینا۔۔۔عا۔۔۔۔۔"
ابھی وہ لفظ ترتیب دے ہی رہا تھا کہ دلاور نے عینا کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسے تسلی دینے اور انکے بارے میں سب بتانے کو بس اتنا ہی کہا تھا کہ عینا نے انتہائی غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔
" ہاتھ مت لگانا مجھے گھٹیا انسان۔۔۔یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے۔۔۔دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔تم کر کیا رہے ہو یہاں ہاں۔۔۔۔؟ عائلہ آپی کے مرنے کا انتظار کر رہے ہو یا اس لیے کھڑے ہو کہ کب وہ آنکھیں کھولے اور تم اس پہ کسی عزاب کی طرح پھر سے مسلط ہو جاؤ۔۔۔خدا کا واسطہ ہے چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ جب عائلہ آپی اور ماما کو ہوش آئے تو وہ تمہاری منحوس شکل پھر سے دیکھیں۔۔۔"
عینا کافی حد تک اب خود کو سنبھال چکی تھی اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتے دلاور کا ہاتھ زور سے جھٹکتے وہ انتہائی غصے سے پھنکاری تھی۔۔۔فجر نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر ذرا سا اس کے کندھے کو دباتے اسے کول ڈاؤن رہنے کا آنکھوں سے اشارہ کیا مگر وہ دیکھا ان دیکھا کرتی غصے سے بولتی چلی گئ۔۔۔دلاور کو اس کے بولے ہر لفظ پہ طیش آیا تھا مگر دل میں اس خیال سے کہ عائلہ اور مہرالنساء کی جو اس وقت حالت ہے اس میں اس کا بھی حصّٰہ ہے تو اپنا غصّٰہ ضبط کیے ہونٹ بھینچے اس کی بات خاموشی سے سنتا گیا۔۔۔
" دیکھو عینا۔۔۔جو کچھ بھی ہوا اس پہ مجھے افسوس ہے۔۔۔مگر لگاتار تم جس لہجے اور جس انداز میں مجھ سے بات کر رہی ہو میں اس کا عادی ہرگز نہیں ہوں۔۔۔بہتر ہوگا کہ تم خود پہ قابو رکھو۔۔۔"
دلاور ہر لفظ چبا چبا کر درشتی سے بولا۔۔۔
" اگر تم ایسے لہجے کے عادی نہیں ہو تو میں بھی تمہارے جیسے منحوس آدمی کو برداشت کرنے کی عادی نہیں ہوں۔۔۔اب تک تمہیں سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔"
عینا نے دو بدو دلاور کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے جواب دیا۔۔۔صارم کا اس وقت وہاں موجود ہونا اسے بہت تقویت دے گیا تھا اسی وجہ سے بنا لحاظ کیے وہ بولتی گئ۔۔۔
" دھمکی کس کو دے رہے ہو ہاں۔۔۔شرم نہیں آ رہی تمہیں۔۔۔تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ ہم میں سے یہاں کوئی بھی تمہیں دیکھنا نہیں چاہتا۔۔۔پھر چلے کیوں نہیں جاتے تم یہاں سے۔۔۔"
صارم شاہ عینا کو بازو سے پکڑ کر ایک سائیڈ پہ کرتے دلاور کے سامنے کھڑا ہوتا اس کی آنکھوں میں دیکھتا غصے سے بولا۔۔۔
" مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون مجھے یہاں دیکھنا چاہتا ہے اور کون نہیں۔۔۔مجھے صرف اس بات سے غرض ہے کہ میں کس کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔اور جس کو میں دیکھنا چاہتا ہوں اسے دیکھنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔۔۔اس لیے تم دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔"
دلاور صارم شاہ کو ایک ہاتھ سے ہلکا سا پیچھے کو دھکیلتے ہوئے بولا۔۔۔
" کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو۔۔۔اور دلاور میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں تم نہیں جانا چاہتے مت جاؤ۔۔۔مگر پلیززز رحم کرو ان لوگوں پہ۔۔۔ایک طرف تو تم عائلہ کو اپنی منگ کہ رہے ہو اور دوسری طرف تم لگاتار اس کے گھر والوں کو تکلیف دیتے چلے جا رہے ہو۔۔۔ترس کھاؤ اس بچی پہ جس کی کل کائنات اس کی ماں اور بہن ہیں اور دونوں اس وقت موت سے لڑ رہی ہیں۔۔۔عینا کے سر پہ بھائی بن کر ہاتھ رکھنے کی بجائے تم لگاتار دھونس جما رہے ہو۔۔۔جو تم کر رہے ہو اس سے رشتے بنتے نہیں بگڑتے ہیں۔۔۔"
اس سے پہلے کہ دلاور پہ صارم کا ہاتھ اٹھتا اور دونوں گتھم گتھا ہوتے شرجیل تیزی سے دونوں کے بیچ میں آ کھڑا ہوا اور بہت تحمل اور صلح جو طریقے سے دلاور کو سمجھانے لگا۔۔۔شرجیل کی باتیں سن کر دلاور کا کھولتا دماغ ٹھنڈا ہوا تھا پھر ایک نظر سب پہ ڈال کر مہرالنساء اور عائلہ کے مشترکہ روم کی طرف چل پڑا جہاں ان کو شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔
" صارم بھیا بتایا نہیں آپ نے۔۔۔اب کیسی طبیعت ہے ماما کی اور عائلہ آپی کی۔۔۔"
عینا نے دلاور کے جاتے ہی صارم سے پھر سے پوچھا۔۔۔
" فکر مت کرو عائلہ اور خالہ جان دونوں ٹھیک ہیں اب۔۔۔آؤ ادھر چلتے ہیں۔۔۔"
صارم شاہ نے عینا کو تسلی دینے کے ساتھ نظریں چراتے فجر اور اسے اپنے دونوں بازوؤں کے حصار میں لیتے روم کی طرف اشارہ کرتے کہا تھا۔۔۔اور آگے کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔شرجیل بھی انکے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔
" صارم بھیا آپی اور امی کو کب تک ہوش آ جائے گا۔۔۔"
عینا صارم شاہ اور فجر کے ساتھ پرائیویٹ روم میں داخل ہوئی تو دلاور عائلہ کے سرہانے کھڑا ٹکٹکی باندھے اسے تک رہا تھا۔۔۔ان لوگوں کو اندر آتا دیکھ کر وہ روم سے باہر جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔عینا نے ایک تیز غصیلی نگاہ اس کے باہر نکلتے سمے اس پہ ڈالی اسے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ وہ ان سے پہلے یہاں موجود ہوگا۔۔۔وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ چلا گیا ہے۔۔۔منہ میں غصے سے بڑبڑاتی پہلے وہ سیدھی مہرالنساء کی طرف بڑھی جو مختلف قسم کی مشینوں سے نکلتی تاروں میں جکڑی ہوئی تھیں ناک پہ آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا اس نے نم آنکھوں سے مہرالنساء کے ماتھے پہ بوسہ دیا پھر ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا کر چومے کچھ دیر یونہی ان کے پاس کھڑا رہنے کے بعد پھر وہ عائلہ کے بیڈ کی طرف بڑھی جو ابھی تک ہوش و خرد سے بیگانہ پڑی ہوئی تھی۔۔۔دوپٹے سے اس کے بالوں کو اچھی طرح سے کور کرکے اس کی چادر اس پہ ٹھیک سے اوڑھانے کے بعد وہ عائلہ کے چہرے پہ محبت سے ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔خود کو روکنے اور ضبط کرنے کے باوجود بھی آنسو اس کی گالوں پہ بہنے لگے۔۔۔فجر کا حال بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا۔۔۔خود کو کمپوز کرتے وہ اپنی والدہ اور عائلہ کی طرف دیکھ کر انکے ہوش میں آنے کا صارم شاہ سے پوچھنے لگی۔۔۔
" عینا۔۔۔آؤ ادھر بیٹھتے ہیں۔۔۔مجھے کچھ کہنا ہے آپ سے۔۔۔"
عینا سے زیادہ دیر تک کچھ بھی چھپانا اب صارم شاہ کو مناسب نہیں لگ رہا تھا اس لیے مہرالنساء کی حالت کے بارے میں بتانے کے لیے پہلے اس نے خود کو تیار کیا پھر عینا سے کہنے کے ساتھ فجر کو بھی پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔عینا حیران ہوکر سوالیہ نظروں سے صارم شاہ کی طرف دیکھتی بیڈ کے پاس رکھے بینچ پہ بیٹھ گئ۔۔۔اس کے خیال سے تو سب ٹھیک تھا اب۔۔۔
" عینا۔۔۔جیسا کہ آپ جانتی ہو مہرالنساء خالہ پہلے ہی ہارٹ پیشنٹ تھیں اور اوپر تھے تلے ہونے والے اٹیک نے نہ صرف انکو فزیکلی بلکے مینٹلی طور پہ بھی بہت کمزور کر دیا تھا۔۔۔آپ انکی کنڈیشن مجھ سے زیادہ بہتر سمجھتی ہو۔۔۔اب جو کچھ ہوا اس میں ان کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"
صارم شاہ اصل بات عینا کو بتانے سے پہلے تمہید باندھتا نرم لہجے میں بولا۔۔۔اور کچھ دیر کو رکا۔۔۔
" صارم بھیا ماما کی کنڈیشن کے بارے میں میں اچھے سے جانتی ہوں۔۔۔ماما کی حالت دیکھ کر میں ڈر گئ تھی مگر اب ان کو صحیح سلامت دیکھ کر میں الّٰلہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔۔۔میں نے سوچ لیا ہے اب کہ جیسے ہی ماما ہوش میں آتی ہیں ہم لوگ کہیں اور شفٹ ہو جائیں گے جہاں نہ بابا کا سایہ ہو نہ اس منحوس دلاور کا منہ دیکھنا پڑے۔۔۔"
عینا نے تلخی سے کہا۔۔۔
" عینا۔۔۔۔سمجھ میں نہیں آ رہا میں کیسے کہوں۔۔۔"
صارم شاہ تذبذب کا شکار ہوتا عینا کی طرف دیکھ کر پریشان لہجے میں بولا۔۔۔
" صارم بھیا۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔ماما اور عائلہ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"
صارم شاہ کے چہرے کی طرف عینا بغور دیکھتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں بولی۔۔۔شرجیل اور فجر بھی سوالیہ نظروں سے صارم کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
" عینا۔۔۔خالہ جان کومہ میں چلی گئ ہیں۔۔۔"
آخر کار صارم شاہ ہمت کرکے بول ہی پڑا۔۔۔عینا کو اور باقی سب کو لگا کہ شائد انھیں شننے میں غلطی ہوئی ہے۔۔۔
" کومہ۔۔۔امی جان۔۔۔کومہ میں۔۔۔"
عینا نے بے یقینی سے گھٹے گھٹے لہجے میں رک رک کر فورہ مکمل کیا۔۔۔
" یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔یہ۔۔۔یہ ہاسپٹل بلکل بھی اچھا نہیں ہے۔۔۔اجالا۔۔۔اجالا بھی یہیں آئی تھی۔۔۔پھر وہ نہیں رہی۔۔۔اب ماما۔۔۔عائلہ آپی۔۔۔"
عینا ہزیانی انداز میں یکدم اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔پھر وہ کبھی مہرالنساء کے پاس جا کر انھیں ہلا ہلا کر دیکھتی اور کبھی عائلہ کے پاس جا کر اس کی ناک کے آگے ہاتھ رکھ کر اس کی سانسیں چیک کرتی۔۔۔فجر نے اس کی حالت پہ پریشان ہو کر اس کو بازو سے پکڑ کر روک کر اسے تسلی دینے اور ریلیکس کرنے کی کوشش کی مگر وہ کسی ٹرانس میں فجر کو ایک سائیڈ پہ کرکے یوں باتیں کرنے لگی جیسے وہاں اس کے سوا کوئی اور نہ ہو۔۔۔
" ہم یہاں نہیں رہیں گے۔۔۔صارم بھیا۔۔۔ابھی کے ابھی ہم ماما اورعائلہ آپی کو یہاں سے لے کر جائیں گے۔۔۔میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں ہمیں یہاں نہیں رہنا۔۔۔"
عینا بولتے بولتے یکدم صارم کے سامنے کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔۔
" عینااااا۔۔۔۔۔ہوش کرو۔۔۔کچھ نہیں ہوگا نہ عائلہ کو نہ خالہ جان کو۔۔۔"
صارم شاہ نے عینا کی حالت دیکھتے اس کے دونوں کندھوں پہ ہاتھ رکھتے اپنے ہاتھوں کا دباؤ ڈالتے اسے تقریباً جنجھوڑتے ہوئے تقریباً بلند آواز میں کہا۔۔۔تو ایک پل کو وہ صارم شاہ کا چہرہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہی پھر دوسرے لمحے وہ بے اختیار صارم شاہ سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی روتے روتے اس کی ہچکی بندھی تو فجر جلدی سے گلاس میں پانی لے آئی۔۔عینا نے دو گھونٹ بھر کر گلاس واپس کیا پھر پاس پڑے بینچ پہ گرنے کے سے انداز می بیٹھ گئ۔۔۔روم میں گہرا سناٹا چھا گیا۔۔۔فجر بھی عینا کے پاس آ کر بیٹھ گئ اور اسے ہلکے سے اپنے ساتھ لگا کر اس کی کمر سہلانے لگی۔۔۔
" عینا تم ٹھیک ہو۔۔"
کچھ دیر بعد فجر نے عینا سے پوچھا۔۔۔جو اپنے آنسو صاف کرنے کے بعد اب آنے والے حالات کے بارے میں گہری سوچوں میں غرق تھی۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔تم دیکھ رہی ہو فجر یہاں ماما اور عائلہ آپی موت سے لڑ رہی ہیں مگر ہمارے سو کالڈ باپ کو نہ کوئی پرواہ ہے نہ فکر۔۔۔
ایمن۔۔۔۔ایمن کہاں ہے۔۔۔افففففف میرے خدا۔۔۔مجھ سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہو گئ مجھے اس کا دھیان کیوں نہیں رہا۔۔۔وہ گھر پہ اکیلی ڈر رہی ہوگی۔۔۔افففففف۔۔۔۔یہ کیا کیا میں نے۔۔۔"
فجر کو جواب دینے کے بعد اس نے روم میں نگاہ دوڑائی تو اچانک اس کا دھیان ایمن کی طرف گیا جو اسے کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔جس کو اس قدر سنگین صورت حال میں گھر ہی چھوڑ آئی تھی اور کب سے اسے بھولی بیٹھی تھی۔۔۔ایمن کا خیال آتے ہی اس کے حواس جھنجنا اٹھے تھے وہ انتہائی پریشان لہجے میں خود کلامی کرتے ہوئے بولی۔۔۔
" پریشان مت ہو۔۔۔میں ابھی احتشام بھائی سے بات کرتا ہوں کہ وہ جا کے دیکھیں۔۔۔"
صارم کا بھی دھیان جیسے ہی ایمن کی طرف گیا وہ خود بھی پریشان ہو اٹھا اور عینا کو تسلی دیتے فوراً احتشام شاہ کو کال ملانے لگا۔۔۔
" اسلام علیکم بھیا۔۔۔۔۔نہیں خیریت نہیں ہے۔۔۔۔۔بھیا ایمن گھر پہ اکیلی ہے پلیززز ابھی جاکے دیکھیں اسے۔۔۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔یو آر سو گریٹ مائی برو۔۔۔۔۔۔چلیں ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔نہیں ابھی تو ہوش نہیں آیا۔۔۔۔۔۔اوکے میں بھیجتا ہوں انکو۔۔۔۔بائے۔۔۔۔۔"
ایمن کے گھر پہ اکیلا رہ جانے پہ اس کا دماغ شدید تناؤ کا شکار ہوا تھا مگر احتشام شاہ سے بات کرنے کے ساتھ ہی اس کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے ایکدم ہی وہ پرسکون ہوا تھا۔۔۔پھر ایک دو منٹ مزید بات کرنے کے بعد صارم شاہ نے بائے کہ کر کال ڈسکنیکٹ کردی تھی۔۔۔
" فکر مت کرو گڑیا۔۔۔احتشام بھائی کہ رہے ہیں کہ گھر واپسی پہ ان کو بھی اچانک ایمن کا خیال آیا تھا اور پہلے وہ آپکی طرف گئے تھے گھر ، انکل رشید اپنے روم میں تھے ایمن بتا رہی تھی کہ ہمارے وہاں سے نکلنے کے بعد وہ اچانک بے ہوش ہو گئے تھے پھر وہ جا کر خالہ سکینہ کو بلا لائی اور جب ہوش آیا تو اپنے روم میں بند ہوگئے۔۔۔خالہ سکینہ ایمن کو اپنی طرف لے گئ تھیں۔۔۔۔"
صارم شاہ نے ساری تفصیل سے ان لوگوں کو آگاہ کیا جو کال ڈسکنیکٹ ہونے اور ایمن کے بارے میں جاننے کے لیے بے چینی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ایمن کے بارے میں سن کر کہ وہ خالہ سکینہ کی طرف ہے عینا نے ایک گہری پرسکون سانس خارج کی تھی۔۔۔ابھی وہ باتیں کر رہے تھے کہ رات کے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر دو نرسوں کے ساتھ روم میں داخل ہوا۔۔۔
" ڈاکٹر صاحب ان کو ہوش کب تک آ جائے گا۔۔۔"
عینا نے آگے بڑھ کر بے چینی سے اپنی ماما اور عائلہ کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔۔۔جو پیشنٹ فائل چیک کرنے کے بعد اس پہ کچھ مزید میڈیسن کے بارے لکھ رہا تھا۔۔۔
" دیکھیں الّٰلہ سے دعا کریں۔۔۔آپکی والدہ کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔۔۔اب ان کو ہوش کب آتا ہے یہ دنیا کا کوئی ڈاکٹر بھی نہیں بتا سکتا۔۔۔البتہ ان کی ول پاور اور آپکی الّٰلہ سے انکے حق میں کی جانے والی دعا وہ واحد چیز ہے جو ان کو موت کے منہ سے بھی واپس لا سکتی ہے ۔۔ہم لوگ پرامید ہیں کہ انشاءالّٰلہ یہ جلد ہوش میں آ جائیں گی۔۔۔آپ بھی امید کا دامن مت چھوڑیں۔۔۔الّٰلہ سے دعا کریں۔۔۔باقی آپکی سسٹر انشاءالّٰلہ صبح تک ہوش میں آ جائیں گی۔۔۔"
ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا اور نرسز کو ڈرپ چینج کرنے کا کہ کر اور چند ہدایات دے کر باہر نکل گیا۔۔۔
" شرجیل تم ایسا کرو کہ تم لوگ گھر چلے جاؤ عینا کو بھی ساتھ لے جاؤ۔۔۔یہاں فلحال۔۔۔۔۔"
'" نہیں میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔میں یہیں رکوں گی۔۔۔"
عینا صارم شاہ کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر جلدی سے دو ٹوک لہجے میں بولی۔۔۔
" چلو ٹھیک ہے ایسا کرتے ہیں میں اور صارم باہر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔آپ اور فجر روم میں ادھر ہی رکو۔۔۔"
شرجیل نے عینا کی بات سن کر اپنی رائے دیتے کہا تو صارم شاہ سر ہلاتا اسکے ساتھ باہر نکل گیا۔۔۔
رات کا آخری پہر تھا جب صارم شاہ روم میں انھیں دیکھنے آیا تھا فجر اور عینا بیڈ کے پاس رکھے بینچ پر نیم دراز سوئی ہوئی تھیں اس نے مہرالنساء اور عائلہ کی طرف دیکھا تو ڈرپ تقریبًا ختم ہونے قریب تھی۔۔۔اس نے نرس کو بلانے کی بجائے خود ہی پہلے مہرالنساء کی ڈرپ آف کی پھر عائلہ کی طرف بڑھا۔۔۔
ڈرپ آف کرنے کے بعد وہ یک ٹک عائلہ کی طرف دیکھے گیا جس کے چہرے کی سرخی میں اب زردی گھلی ہوئی تھی۔۔۔رونے کے سبب آنکھوں کے پپوٹوں پہ سوجن ابھی بھی موجود تھی۔۔۔صارم شاہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا ہو۔۔۔دل میں بے اختیار اسے چھونے کی خواہش مچلی تھی۔۔۔مگر دوسرے لمحے اس نے خود پہ بند باندھے تھے۔۔۔اس سے پہلے کہ رات کی تاریکی اور تنہائی میں اس کا نفس اس پہ حاوی ہو کر اسے کسی گستاخی پہ مجبور کرتا کچھ پل یونہی اسے نہارنے کے بعد اس پہ ایک گہری نظر ڈال کر وہ روم سے باہر نکل گیا۔۔۔















" امی جان یہ ہمارا وہم بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔جب ہم لاسٹ ٹائم دانی سے ملنے گئے تھے تو ایس ایچ او نے کہا تھا کہ دانی اب۔۔۔۔"
فاطمہ نے ناشتے کی ٹرے تیار کرتے رضوانہ خاتون سے بس اتنا ہی کہا تھا آگے اس سے فقرہ مکمل نہیں ہو پایا تھا۔۔۔رات جب انھوں نے مہدیہ سے پوچھا تھا کہ یہ کب کی بات ہے تو اس نے کہا تھا کہ تقریباً 5 ، 6 سال پرانی بات ہے جسے سن کر فاطمہ دل مسوس کر رہ گئ دانی کو سزا ہونے کے بعد وہ لوگ ایک دو بار اس سے ملنے گئ تھی مگر دانی نے ملنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ سختی سے منع کردیا کہ اس کے گھر سے جو بھی آئے اس سے ملاقات نہ کروائی جائے۔۔۔ پھر جب وہ لوگ وہاں سے شفٹ کر رہے تھے تب فاطمہ رضوانہ خاتون کے ساتھ لاسٹ ٹائم اس سے ملنے گئیں تو وہاں سے انھیں کوئی اور ہی خبر ملی جسے سن کر وہ لوگ روتی سسکتی واپس آ گئیں۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں رضوانہ خاتون کا دل کہ رہا تھا کہ یہ ان کا دانی ہی ہے۔۔۔مان کر بھی وہ کبھی نہیں مانی تھیں کہ ان کا دانی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔
" تم جلدی سے یہ ناشتہ ڈائینگ ٹیبل پہ سرو کر کے آؤ۔۔۔پھر دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارا وہم ہے یا حقیقت۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے ٹرے میں ایپل جوس رکھتے ہوئے کہا۔۔۔















" آ۔۔۔آپ۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔"
قاسم کو اپنے دروازے پہ دیکھ کر مہدیہ حیرت زدہ ہو کر ذرا سا دروازہ کھولتے اس کی آڑ میں ہوتے بولی۔۔۔
" جی میں۔۔۔۔اندر آنے کو نہیں کہیں گی کیا۔۔۔۔"؟
قاسم نے شوخ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
" سوری۔۔۔ماسو ماں گھر پہ نہیں ہیں۔۔۔اور ویسے بھی آپکو اندر بلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔"
مہدیہ نے خود کو بے باک نگاہوں سے تکنے کی کوشش کرتی اس کی نظروں سے کوفت زدہ ہوتے رکھائی سے کہا۔۔۔اور مزید ذرا سا اور دروازہ بند کردیا۔۔۔
ویسے حیرت ہے کہ آپ بھی کسی کو اندر آنے سے روکتی ہیں۔۔۔"
قاسم نے ذومعنی لہجے میں کہا۔۔۔اور ساتھ ہی دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالتے اسے کھولنے کی کوشش کی۔۔۔جسے مہدیہ نے فوراً دروازہ بند کر کے ناکام بنا دیا۔۔۔
" دیکھیں مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔آپ مجھے اندر۔۔۔۔"
قاسم نے دروازے پہ یونہی ہاتھ رکھے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ مہدیہ نے فوراً اس کی بات کاٹی تھی۔۔۔
آپ کو جو بھی بات کرنی ہے ماسو ماں سے کیجیے گا۔۔۔بلکہ ان سے ہی کریں جا کر۔۔۔خدا حافظ۔۔۔"
مہدیہ نے تیکھے لہجے میں کہ کر فوراً دروازے کی کنڈی لگائی تھی۔۔۔قاسم کو مہدیہ پہ شدید غصہ آیا تھا۔۔۔آج کتنے دن بعد اسے موقع ملا تھا اس سے بات کرنے کا۔۔۔اور جب ملا ہی ملا تو وہ ہاتھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔ مہدیہ نے اسے اندر بلانا تو دور کی بات اس کی بات تک نہیں سنی تھی۔۔۔
جبکہ قاسم کا خیال تھا کہ وہ جس جگہ سے آئی ہے وہاں کی رہنے والیوں کا شرم حیا سے کیا تعلق۔۔۔مگر اس نے مہدیہ کے متعلق جو سوچا تھا وہ بلکل اس کے الٹ پیش آئی تھی۔۔۔اور قاسم کو اس کا یوں پیش آنا اس کے نخرے اس کی ادا لگا تھا۔۔۔
" تو مہدیہ عرف موہنی بائی اپنے دام بڑھانا چاہتی ہے۔۔۔پیٹ میں کسی کا گندہ خون پال کر نخرے یوں دکھا رہی ہے جیسے بڑی کوئی شریف زادی ہے۔۔۔چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ویسے بھی جو آسانی سے مل جائے اس میں کیا مزا۔۔۔اور اس کھیل میں لگتا بہت مزا آنے والا ہے۔۔۔"
قاسم منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔۔۔
" میں تو آپ سے بات کرنے آیا تھا۔۔۔لیکن اگر آپ یہی چاہتی ہیں کہ سب کے بیچ میں بات ہو تو پھر یہی سہی۔۔۔"
قاسم دروازے پہ ایک گھوری ڈال کر دھمکی آمیز لہجے میں یوں بولا جیسے مہدیہ اس کے سامنے کھڑی ہو۔۔۔کچھ دیر تک اندر سے کوئی جواب نہ ملنے پہ وہ واپس مڑ گیا۔۔۔
قاسم کی بات سن کر دروازے کے پاس کھڑی مہدیہ کا دل ُخوف سے دھڑکا تھا۔۔۔قاسم کا یوں آنا اور ذومعنی بات کرنا۔۔۔اسے بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔اس کا دل انجانے وسوسوں کا شکار ہوا تھا۔۔۔
قاسم کے جانے کے بعد مہدیہ کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔۔۔اس کی چھٹی حس خطرے کا الارم بجا رہی تھی۔۔۔
" یا الّٰلہ اب یہ کونسی نئ آزمائش ہے۔۔۔کہیں قاسم کو میرے بارے میں کچھ پتہ تو نہیں چل گیا۔۔۔نہیں یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ لاہور سے باہر نکلنا تو دور کی بات میں تو کبھی محفل کے لیے اس بازار سے بھی باہر نہیں گئ۔۔۔ رحم کر میرے مالک۔۔۔مجھے ماسو ماں سے اس بارے میں ذکر کرنا ہوگا۔۔۔
مہدیہ دل ہی دل میں پریشان ہو کر بڑبڑاتی خود ہی سوال کرتی اور خود ہی اس کا جواب دینے لگتی۔۔۔کمرے کے چکر کاٹتے کاٹتے اس کی ٹانگیں اور جسم تھکاوٹ کا شکار ہوا تو اپنی چارپائی پہ نڈھال سی ہو کر لیٹ گئ۔۔۔
کچھ دیر بعد جب طبیعت بحال ہوئی تو اٹھ کر فریش ہونے کا سوچ کر دیوار گیر الماری سے اپنے کپڑے نکالنے کے لیے الماری کھول کر اپنے لیے ڈریس دیکھنے لگی۔۔۔
الماری میں تین پورشن بنائے گئے تھے۔۔۔پہلے پورشن میں رضوانہ خاتون کا کچھ سامان اور کپڑے سیٹ کیے تھے اس نے۔۔۔دوسرے میں فاطمہ کے اور لاسٹ والے میں اپنے رکھے تھے۔۔۔مگر اب جب الماری کھولی تو سب کی جگہ چینج تھی۔۔۔
" اب یہ دوپٹہ کہاں چلا گیا۔۔۔"
مہدیہ نے ایک گرین کلر کا سیلف پرنٹ لان کا سوٹ اپنے لیے منتخب کیا۔۔۔سوٹ تو اس کو مل گیا مگر اس کے ساتھ کا دوپٹہ غائب تھا۔۔۔اس نے پہلے اپنے والے حصے میں پھر فاطمہ والے حصے میں دیکھا مگر دوپٹہ وہاں بھی نہیں تھا وہ کوفت زدہ ہوتی جنجھلا کو بولی۔۔۔الماری بند کر کے اس نے کمرے کا جائزہ لیا کہ شائد سیٹنگ کے دوران باہر کہیں پڑا رہ گیا ہو۔۔۔اچانک اس کی نظر ماسو ماں کے بیڈ پہ پڑی تو اسے سرہانے کے پاس اپنا میچنگ دوپٹہ پڑا نظر آیا۔۔۔شکر کا گہرا سانس بھرتے وہ بیڈ کی طرف آئی جہاں کچھ اور سامان بھی پڑا تھا۔۔۔
" لگتا ماسو ماں صبح اسے الماری میں واپس رکھنا بھول گئیں تھیں۔۔۔"
مہدیہ نے ایک دو شاپر الٹ پلٹ کر دیکھتے کہا اور اٹھا کر انھیں واپس رضوانہ خاتون کے کپڑوں کے پاس الماری میں رکھ دیا۔۔۔
پھر بیڈ کی چادر ٹھیک کرکے تکیہ جھاڑ کر رکھنے کے لیے اٹھایا تو اس کے نیچے ایک پرانا سا البم پڑا دیکھ کر حیران ہوتے اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔البم کے سٹارٹ میں رضوانہ خاتون اور ان کے ہسبنڈ کے ساتھ فاطمہ کے کچھ بچپن کی تصویریں تھیں جو مختلف مواقع پہ فیملی کے ساتھ لی گئ تھیں۔۔۔ان تصویروں میں ایک بچے کی تصویر بھی تھی جسے دیکھ کر مہدیہ کو وہ چہرہ جانا پہچانا لگا۔۔۔اس نے اشتیاق اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتے جلدی سے دو تین پیج ایک ساتھ پلٹے تو تیسرے پیج پہ جو چہرہ سامنے آیا اسے تو وہ لاکھوں کی بھیڑ میں بھی دور سے ہی پہچان لیتی۔۔۔اسے جیسے سکتہ ہوگیا تھا البم میں اس کی پک بھی دیکھ کر۔۔۔
د۔۔۔د۔۔۔دلااا۔۔۔۔۔ور۔۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔"
مہدیہ بے یقینی سے دلاور عرف دانی کی تصویر کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔۔۔اس کی نظریں جیسے اس تصویر پہ جم کر رہ گئیں۔۔۔وہ بار بار تصویر کو آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگی کہ کہیں یہ اس کا وہم نہ ہو۔۔۔مگر نہیں۔۔۔یہ اس کا وہم نہیں تھا۔۔۔وہ بلا شبہ دلاور ہی تھا۔۔۔اس کے دل و روح میں بسنے والا۔۔۔اس کی اولین چاہت۔۔۔اس کا دلبر بھی۔۔۔اور اس کا مجرم بھی۔۔۔آج کتنے عرصے بعد اس ستمگر کا چہرہ نظر آیا تھا اس کو۔۔۔وہ تصویر شائد کسی ورکشاپ پہ لی گئ تھی۔۔۔گندے کپڑوں اور گندے حلیے میں ہاتھ میں پانہ پکڑے وہ کسی گاڑی کے پاس کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔
" دلاور۔۔۔۔آئی ہیٹ یو۔۔۔۔بہت برے ہوتم۔۔۔۔میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔۔۔۔۔تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔۔آئی مس یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتی ہوں تم سے۔۔۔۔اس سب کے باوجود کہ تم نے میری روح پہ وہ زخم دیا ہے جس میں سے ہر پل اٹھتی درد کی ٹیسیں مجھے بے چین رکھتی ہیں۔۔۔۔مگر پھر بھی۔۔۔۔میں تمہیں بھول نہیں پا رہی ہوں۔۔۔۔۔بہت برے ہوتم۔۔۔۔دلاور بہت برے ہو تم۔۔۔۔۔تم مجھے بھولتے کیوں نہیں ہو۔۔۔۔میں تمہیں بھول جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔۔یاالّٰلہ میں کیا کروں۔۔۔۔۔میری مدد فرما میرے مالک۔۔۔۔مجھ سے یہ درد سہا نہیں جا رہا۔۔۔۔۔مجھے کوئی رستہ دکھا میرے مالک۔۔۔۔مجھے اس آزمائش سے نکال دے میرے مالک۔۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔۔
مہدیہ دلاور کی تصویر البم سے نکال کر ہاتھ میں پکڑے وہیں بیڈ پہ ٹانگیں لٹکائے گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئ۔۔۔۔پھر اس کے چہرے کے ایک ایک نقش پہ دیوانوں کی طرح ہاتھ پھیرتے روتے سسکتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولنے لگی۔۔۔۔۔اس وقت وہ سچ میں کوئی پاگل ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔جو کبھی تصویر پہ ہاتھ پھیرتے اس پہ غصہ کرنے لگتی اور کبھی اس تصویر کو سینے سے لگا کر بھینچنے لگتی۔۔۔۔۔پھر چھت کی طرف منہ اٹھا کر الّٰلہ سے یوں فریاد کی جیسے اس کے اور الّٰلہ کے بیچ میں نہ کوئی چھت ہے نہ کوئی دیوار۔۔۔۔۔روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئ تھی۔۔۔۔۔













آخر مسلہ کیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔میں صبح سے دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔حد ہوتی ہے کسی بات کی۔۔۔۔جو بات بھی تمہارے دماغ میں چل رہی ہے وہ تم پھوٹتے کیوں نہیں ہو۔۔۔۔"
دلاور رات کو ہی ہاسپٹل سے واپس لاہور آ گیا تھا۔۔۔۔عینا کے اس قسم کے شدید ردعمل۔۔۔ صارم کی وہاں موجودگی اور عائلہ کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے فلحال وہ بھی کوئی مزید بدمزگی نہیں چاہتا تھا۔۔۔اس لیے وہاں سے چلا آیا۔۔۔
جب وہ واپس آیا تو بلال نے اس سے کوئی بات نہیں کی اور نہ کوئی سوال ہی کیا۔۔۔دلاور جانتا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے کیوں کہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ بلال کو بنا اپنے ساتھ لیے بنا کچھ بتائے اکیلا کسی کام کو نکلا تھا۔۔۔
صبح اس سے بات کرنے کا سوچ کر دلاور نے سیدھے اپنے روم کا رخ کیا تھا۔۔۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو بلال گھر سے غائب تھا۔۔۔اور اب تقریباً 12 بجے جب وہ واپس آیا تو تب بھی اس نے دلاور کو سامنے کھڑا دیکھنے کے باوجود آنکھ اٹھا کر نہ اسے دیکھنا گوارا کیا نہ بلانا۔۔۔
تو دلاور جنجھلاتا ہوا اس کے روم میں اس کے پیچھے پیچھے آتا بولا۔۔۔۔
" میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔۔اور یہ تم کیا کر رہے ہو۔۔۔۔کہاں کی تیاری ہے۔۔۔"
دلاور نے حیران ہوتے اس سے پوچھا جو بنا اس کی طرف دیکھے اور کوئی جواب دئیے الماری سے اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں نکال نکال کر کچھ بیڈ پہ اور کچھ بیگ میں ٹھونسنے کے انداز میں رکھ رہا تھا۔۔۔
" بلال۔۔۔۔۔ناراض ہو یار۔۔۔۔"
اب کے دلاور نے اس کے راستے میں حائل ہوتے اس کے ہاتھ سے کپڑے پکڑ کر بیڈ پہ پھینکتے نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
" نہیں۔۔۔۔ناراض وہاں ہوا جاتا ہے جہاں کوئی رشتہ ہو۔۔۔کوئی تعلق ہو۔۔۔اور تمہارا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔مجھے یہ بتانے کے لیے تمہارا بہت شکریہ۔۔۔
میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔۔۔بلکہ مجھے خود پہ غصہ آ رہا ہے۔۔۔خود پہ افسوس ہو رہا ہے کہ اتنے عرصے تک میں یہ بھی نہ جان پایا کہ تمہاری زندگی میں میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔۔۔۔
میں بے وقوف آج تک تمہیں اپنا بھائی۔۔۔اپنا دوست۔۔۔۔اپنا سب کچھ مانتا آیا۔۔۔۔حتیٰ کہ تمہاری خاطر اپنے گھر اپنی فیملی سے بھی دور ہو گیا۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔میں تو تمہاری زندگی میں کہیں بھی نہیں ہوں۔۔۔میرے ہونے نہ ہونے سے تمہیں تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔۔۔
مجھے زبردستی دوسروں کے سر پہ مسلط ہونے کی عادت نہیں ہے اس لیے میں جا رہا ہوں یہاں سے۔۔۔بس اس بات کا افسوس رہے گا ساری عمر کہ کاش میں یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیتا۔۔۔پہلے ہی تمہیں سمجھ جاتا۔۔۔"
بلال نے تلخ لہجے میں کہا اور پھر سے سامان کی پیکنگ کرنے لگا۔۔۔
" کس نے کہا کہ تمہاری اہمیت نہیں ہے۔۔۔ایک تم ہی تو ہو جو رشتے کے نام پہ میرے پاس بچے ہو۔۔۔بھائی کی صورت میں۔۔۔دوست کی صورت میں۔۔۔۔سب سے بڑھ کر میرے ہمراز میرے ہمدرد۔۔۔۔"
دلاور نے بلال کے کندھے پہ اپنے ہاتھ رکھتے جزباتی ہوتے کہا۔۔۔
" جو ہمراز ہوتے ہیں ان سے نہ تو کچھ چھپاپا جاتا ہے نہ ان کو راستے میں تنہا چھوڑا جاتا ہے۔۔۔
ہم تب سے ساتھ ہیں دلاور جب ابھی تمہاری مونچھیں بھی ٹھیک سے نہیں پھوٹی تھیں۔۔۔تب سے لے کر کل تک ہم ہر جگہ ہر قدم پہ ایک دوسرے کا سایہ بن کر رہے۔۔۔
مگر اب اچانک ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ تم بنا مجھے کوئی خبر کیے نہ صرف گاؤں گئے بلکہ عائلہ کے ساتھ نکاح کا سارا بندوبست کرکے گئے۔۔۔
مشورہ کرنا تو دور کی بات تم نے مجھے بتانا تک گوارا نہیں کیا۔۔۔شائد تمہیں ڈر تھا کہ میں تمہیں اس کام سے روکوں گا۔۔۔اسی لیے تم مجھے کچھ بتائے بنا چلے گئے۔۔۔"
بلال نے غصے سے دلاور کے ہاتھ جھٹکتے اس سے دو قدم دور ہوتے کہا۔۔۔
" پہلے ایک بار میری بات سن لو۔۔۔اس کے بعد بھی اگر تمہیں لگے کہ میں جان بوجھ کر تمہیں ساتھ لے کر نہیں گیا تو پھر جو دل میں آئے کرنا۔۔۔پلیزززز۔۔۔یار۔۔۔۔بس ایک بار میری بات سن لو۔۔۔۔"
دلاور نے ملتجی لہجے میں کہا۔۔۔زندگی میں پہلی بار ان کے بیچ میں ایسا من مٹاؤ پیدا ہوا تھا۔۔۔بلال کے اسے چھوڑ جانے کے خیال سے ہی دلاور کو لگا جیسے زمین اس کے پیروں تلے سے سرک رہی ہو۔۔۔وہ سب سہ سکتا تھا مگر یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اسے یوں تنہا چھوڑ کر چلا جائے۔۔۔لڑکپن سے لے کر آج تک جو ہر سرد و گرم میں کسی ڈھال کی مانند اس کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا رہا تھا اسے کیسے وہ جانے دیتا۔۔۔اسی لیے وہ دلاور بن کر نہیں اس کا دوست اس کا بھائی بن کر اس سے التجا کرنے لگا۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے بولو۔۔۔۔سن رہا ہوں میں۔۔۔"
بلال نے نرم پڑتے کہا۔۔۔پھر دلاور نے رشید احمد کے گھر کیمرہ لگانے سے لے کر مہرالنساء کا صارم کو بلانے اور عائلہ سے اس کے نکاح اور پھر عائلہ اور مہرالنساء کی طبیعت خراب ہونے سے ہاسپٹل ایڈمٹ ہونے تک سب اسے الف سے یہ تک تفصیلاً بتاتا چلا گیا۔۔۔بلال چپ چاپ اس کی بات سنتا رہا۔۔۔
عینا ٹھیک کہ رہی ہے دلاور۔۔۔ان کے گھر کیمرے لگوا کر تونے انتہائی گھٹیا حرکت کا ثبوت دیا ہے۔۔۔اگر اس کی ماں کو کچھ ہوگیا تو عائلہ کا تجھے ملنا تو دور کی بات تو خود بھی خود کو معاف نہیں کر پائے گا۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ تجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔تو غلطیوں پہ غلطیاں کیوں کرتا جا رہا ہے۔۔۔ تو عائلہ کا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتا۔۔۔تجھے کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ نفرت کرتی ہے تم سے۔۔۔اگر صارم اور عائلہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں تو مت آ انکے بیچ میں۔۔۔
چھوڑ دے ان لوگوں کو ان کے حال پہ۔۔۔موہنی کا سوچ۔۔۔اپنے بچے کا سوچ۔۔۔نہ جانے کہاں دھکے کھاتی پھر رہی ہے وہ۔۔۔"
بلال نے دلاور کی زبانی ساری بات سننے کے بعد اسے پھر سے سمجھانے کی کوشش کرتے مدبرانہ لہجے میں کہا۔۔۔
" کیا کروں یار۔۔۔۔نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔زندگی میں پہلی بار اس دل نے کسی کی چاہ کی ہے۔۔۔مجھے بھی لگتا تھا کہ مجھے موہنی سے محبت ہے اسی لیے میں اس سے ملنے اس کے پیچھے جاتا تھا۔۔۔مگر جب عائلہ میری زندگی میں آئی تو مجھے پتہ چلا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔۔۔میں نے اپنے اندر کو اپنے دل کو ٹٹولا تو مجھے موہنی کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔کہ یہ دل صرف عائلہ کو مانگتا ہے۔۔۔
اسی کو چاہتا ہے۔۔۔"
دلاور نے ٹوٹے لہجے میں بے بسی سے کہا۔۔۔بلال کچھ پل کو اس کی طرف یونہی دیکھتا رہا۔۔۔جو مٹھیاں بھینچے اس کے سامنے بیٹھا اپنے اندر ہوتی جنگ سے نبرد آزما تھا۔۔۔بلال کو اس پہ ترس آ رہا تھا۔۔۔
" پھر میری دوسری بات مان لے۔۔۔"
بلال نے دلاور کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
" کیا۔۔۔۔"؟
دلاور نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔
" تو موہنی کا پیچھا چھوڑ دے پھر۔۔۔دونوں میں سے کسی ایک کو چن لے۔۔۔اگر تجھے عائلہ چاہیے تو پھر موہنی کے پیچھے کیوں خوار ہو رہا ہے۔۔۔کیوں اپنے بندوں کو اس کی تلاش پہ لگایا ہوا ہے۔۔۔
بلال نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔
" موہنی میرے بچے کی ماں بننے والی ہے۔۔۔میں نہیں چھوڑ سکتا اسے۔۔۔اور اس وقت تک تو بلکل بھی نہیں جب تک محھے اطمینان نہیں ہوجاتا کہ وہ ٹھیک ہے۔۔۔مجھ سے بے خبری میں جو گناہ سرزد ہوا ہے میں ہر صورت اس کی بھرپائی کروں گا۔۔۔اس سے معافی مانگوں گا اور جب تک وہ مجھے معاف نہیں کرے گی میں اس کا پیچھا نہیں چھوڑوں گاچاہے تو بدلے میں میری جان لے لے۔۔۔"
دلاور نے بے بسی و شرمندگی کے ملے جلے تاثرات لیے کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔۔اور اگر اس نے معافی کے بدلے میں عائلہ کو چھوڑنا مانگ لیا تو۔۔۔۔پھر کیا کرو گے۔۔۔"
بلال نے دوستانہ لہجے میں کہا۔۔۔بلال کا خیال تھا کہ دلاور کو خود نہیں پتہ کہ وہ کیا چاہ رہا ہے۔۔اسی لیے وہ اسے تصویر کا ہر رخ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے۔۔۔
" پتہ نہیں۔۔۔میں نے اس بارے میں میں کبھی نہیں سوچا۔۔۔"
دلاور نے کندھے اچکاتے کہا۔۔۔
" تو پھر آج سے سوچنا شروع کردو دلاور۔۔۔جب کسی سے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں تو پھر اپنی ہر چاہ ہر خوشی سے دستبردار ہو کر بس سر تسلیم خم کیا جاتا ہے۔۔۔جس معافی میں معافی کے ساتھ اپنی شرائط بھی رکھی جائیں وہ کوئی سودا تو ہو سکتا ہے معافی نامہ نہیں۔۔۔
اور دوسری بات آج کے بعد تم کوئی قدم بھی مجھے بنا بتائے نہیں اٹھاؤ گے۔۔۔"
بلال نے رسانیت سے اسے سمجھاتے کہا۔۔۔
" اوکے۔۔۔۔نہیں اٹھاؤں گا۔۔۔لیکن تم بھی آج کے بعد دوبارہ کبھی مجھے چھوڑ کر جانے کی بات مت کرنا۔۔۔"
دلاور نے بلال کی طرف مصنوعی گھوری ڈالتے کہا۔۔۔تو بلال نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔












