Ccutp cccut
Well-known member
Offline
Episode_52
عائلہ نے عینا کو دلہن کا روپ دینے کے لیے اس کے منع کرنے کے بادجود اس کا لائیٹ سا میک اپ کردیا تھا۔۔۔ساتھ تو وہ اپنے کچھ بھی لے کر نہیں آئی تھی اس لیے فجر کی جیولری میں سے ہی میچنگ جیولری ہائمہ خاتون نے اسے پہننے کو لا دی تھی
کریم کلر کے ڈریس میں ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ اس وقت احتشام شاہ کو آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی۔۔۔جو الّٰلہ نے اسکی کسی نیکی کے عوض صرف اس کے لیے زمین پہ اتاری تھی۔۔۔جو اسے چاروں شانے چت کر گئ تھی۔۔۔
وہ بے خود سا ہو کر اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے اس قدر قریب آنے پہ اور اسکی بےخودی محسوس کرتے اس نے جلدی سے پیچھے کو کھسکنا چاہا مگر اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے احتشام شاہ نے فوراً اسے اپنے بائیں بازو کے حصار میں لیتے ایک جھٹکے سے اسے اپنے مزید قریب کیا کہ وہ اس کے سینے سے آ لگی۔۔۔عینا کا شرم و حیا سے سرخ پڑتا چہرہ خون چھلکانے لگا۔۔۔احتشام شاہ نے مدہوش ہوتے اپنے دائیں بازو کو بھی اس کے گرد حائل کرتے اس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی۔۔۔تو عینا جھٹپٹاتے ہوئے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اسے یہ سوچ بھی مارے دے رہی تھی کہ باہر کھڑے لوگ کیا سوچتے ہوں گے اس کے بارے۔۔۔اوپر سے احتشام شاہ کے جسم و جان کو سلگا دینے والے انداز۔۔۔
" پلیززز۔۔۔مجھے چھو کر محسوس کرنے دیں کہ یہ سچ ہے۔۔۔ مجھے یقین کرنے دیں کہ آپ پہ اب صرف میرا حق ہے اب سے آپ صرف میری ہیں۔۔۔مجھے یقین کرنے دیں کہ میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔۔۔"
احتشام شاہ نے مخمور لہجے میں عینا کو مزاحمت سے روکتے اسے خود میں زور سے بھینچتے اس کے وجود کی خوشبو کو پوری شدت سے انہیل کرتے کہا۔۔۔اس قدر قربت پہ عینا کا دل پوری قوت سے دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ایسا لگا جیسے ٹانگیں بے جان ہو رہی ہوں۔۔۔محبت کا پہلا انوکھا اچھوتا سا لمس اسکے پورے وجود میں اک عجیب سی سنسنی بھر گیا۔۔۔ایسے جیسے جسم و جان میں کوئی آگ دہک اٹھی ہو۔۔۔
ان حدوں سے کہ دو
کہ
کچھ دیر ہمیں اجازت دے دیں
رسم دنیا بھی ہے
دستور بھی اور موقع بھی
اور اس پہ
تیرے قرب کا نشہ بھی
جو
سر چڑھ کر ہے میرے بول رہا
کہ تمہیں چھو کر
محسوس کرنے کو
کہ تمہیں خود میں
جذب کرنے کو
اصول عشق میں تھوڑا
بے ایمان ہونے کو
تھوڑا گستاخ ہونے کو
یہ پاگل دل ہے مچل رہا
احتشام شاہ نے بے خود ہوتے جذبات سے چور لہجے میں اس کے بائیں کان کے پاس دھیرے سے سرگوشی کی۔۔۔
" آ۔۔آپ نے و۔۔وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھ پہ کوئی ح۔۔حق نہیں جتائیں گے۔۔۔پلیززز۔۔۔۔۔"
عینا نے اسکی جزبات سے چور آنکھوں کا فوکس اپنے ہونٹوں پہ دیکھ کر سر جھکائے لرزتے کپکپاتے ہوئے احتشام شاہ کو اس کی بات یاد کرواتے کہا۔۔۔احتشام شاہ کی فرمائش اسکی جان نکالے دے رہی تھی۔۔۔
" مجھے اپنی ہر بات ہر قول یاد ہے جاناں۔۔۔"
احتشام شاہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے خود کو سنبھالتے کہا۔۔۔نکاح جیسے پاکیزہ رشتے میں جڑنے کا خوبصورت احساس احتشام شاہ کے دل میں حق ملکیت جگا رہا تھا۔۔۔اس کا دل مزید گستاخیوں کے لیے اسے اکسا رہا تھا۔۔۔ عینا کے چہرے پہ خوف اور حیا کے ملے جلے رنگ دیکھ کر خود کو با مشکل اس نے کمپوز کیا اور اس کی پیشانی پہ محبت بھرا گہرا لمس چھوڑتے اپنی گرفت ڈھیلی کی مگر اپنے حصار سے آزادی پھر بھی نہیں بخشی۔۔۔جبکہ اس کے "جاناں " کہنے پہ اور محبت کے پہلے بوسے پہ عینا کی روح فنا ہوئی تھی۔۔۔بار حیا سے اپنا جھکا سر وہ مزید جھکا گئ۔۔۔اس کے وجود کی لرزش احتشام شاہ کو بے چین کر گئ۔۔۔
" احتشام شاہ اپنے وعدے اپنی زبان سے پھرنے والے مردوں میں سے ہرگز نہیں ہے میں اپنا دیا ہر قول اپنی آخری سانس تک نبھاؤں گا۔۔۔
میں آپ کو چھو کر بس یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔۔۔مگر پتہ نہیں کیا بات ہے کہ چھو کر بھی یقین نہیں آ رہا۔۔۔
میرے یہاں چٹکی کاٹنا ذرا۔۔۔"
اسے آہستہ سے خود سے الگ کرتے احتشام شاہ نے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔۔۔اس سے الگ ہوتے ہی اپنے دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتے عینا نے دو قدم پیچھے کو ہوتے ہوئے اس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے حیران ہوکر ایک پل کو اس کی طرف دیکھا۔۔۔مگر دوسرے پل احتشام شاہ کی آنکھوں میں ناچتی شرارت دیکھ کر اسکی بات کا مطلب سمجھتے اپنی مسکراہٹ روکتے فوراً اپنی نظریں پھیر گئ۔۔۔اور آگے بڑھ کر ہلکا سا دروازہ کھول دیا۔۔۔
" آہہہہہ۔۔۔کاش کہ جو آگ اس دل میں لگی ہے وہ آپکے دل میں بھی لگی ہوتی تو آپکو اندازہ ہوتا کہ کس طرح سے جل رہا ہوں میں۔۔۔اتنا پاس آ کر بھی اتنی دوری۔۔۔"
احتشام شاہ نے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ نوٹ کرتے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھتے اپنے اور اس کے بیچ میں قائم فاصلے پہ چوٹ کرتے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔
" فلحال تو آپ اس آگ سے کہیں کہ وہ ٹھنڈی ہی رہے۔۔۔مجھے اب واپس جانا ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ بابا کو ہم سب بہنوں کی غیر موجودگی کا پتہ چلے۔۔۔اور دوسری بات کہ میں آپکی بیوی نہیں ہوں صرف منکوحہ ہوں۔۔۔ابھی میری رخصتی نہیں ہوئی اس کے لیے آپ کو ماما کے ہوش میں آنے کا ویٹ کرنا ہوگا۔۔۔
عینا باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھتے ہو سنجیدگی سے بولی۔۔۔
" عینا۔۔۔۔"
احتشام شاہ نے اسے پکارا تو اس کے لہجے میں بشاشت مقفود تھی۔۔۔عینا نے حیران ہو کر پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔
" کیا آپ اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے عینا کی طرف دیکھتے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔"
آپکو ایسا کیوں لگا۔۔۔"؟
عینا نے تعجبب خیز لہجے میں پوچھا۔۔۔
" آپ کو پا کر میرے دل میں جس طرح سے سکون مسرت کے احساسات جاگزیں ہیں ایسا لگ رہا جیسے آپ کوئی فرض نبھا رہی ہیں۔۔۔آپ مجھ سے کترا رہی ہیں۔۔نظر انداز کر رہی ہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے دھیرے سے اس کے پاس آ کر کہا۔۔۔
" سچ کہوں تو اپنی فیلنگز میں خود نہیں سمجھ پا رہی۔۔۔اس وقت عائلہ آپی کے سوا مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔۔۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ اپنا نام میں نے پورے دل سے دل کی مرضی سے جوڑا ہے میں آپکو نظر انداز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔میں عائلہ آپی جیسی نہیں ہوں۔۔۔اگر مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہوتی تو اس کے لیے مجھے کوئی مجبور نہیں کرسکتا تھا۔۔۔نہ بابا ، نہ آپ۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔شائد ہی کسی لڑکی نے آج تک اس طریقے سے نکاح کیا ہو۔۔۔محبت کا تو نہیں پتہ لیکن آپ پہ مان اور بھروسہ تھا جس کی ڈور سے بندھ کر میں چلی آئی۔۔۔بنا یہ سوچے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔آپ کے گھر والے کیا سوچیں گے۔۔۔میرے نزدیک محبت سے پہلے آپ کا کسی پہ بھروسہ ہونا ہے۔۔۔یقین اور بھروسہ ہی ہر رشتے کی پہلی سیڑھی ہے۔۔۔محبت کی بھی۔۔۔اور میں نے آپ پہ یقین کیا ہے بھروسہ کیا ہے۔۔۔"
عینا نے نپے تلے مگر قدرے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
" ہمممم۔۔۔۔میرے لیے آپکا مجھ پہ بھروسہ ہی بہت ہے۔۔۔باقی محبت کرنا آپکو میں سکھا دوں گا میں آپکے وجود میں اپنی محبت اس قدر بھر دوں گا کہ میری سبھی مرضیاں آپکی مرضی بن جائیں گی۔۔۔"
احتشام شاہ نے اس کے چہرے پہ آئی لٹ کو پھونک مار کر اڑاتے ذو معنی لہجے میں کہا تو حیا کی تپش سے عینا کا چہرہ سرخ ہوا وہ بےاختیار اپنی نظریں جھکا گئ۔۔۔
" فلحال آپکے حکم کے مطابق آپکے گھر آپکی اجازت کے بنا نہیں آ سکتا اور یہاں اپنے اس گھر آپ رخصتی سے پہلے اب دوبارہ آپ قدم نہیں رکھیں گی ۔۔۔مگر ہم باہر تو مل سکتے ہیں ناں۔۔۔
آں۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔انکار مت کیجیے گا۔۔۔میری کال کا ویٹ کیجے گا۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی احتششام شاہ نے پرانی جون میں آتے مسکرا کر کہا۔۔۔اور ساتھ ہی اسے جانے کی اجازت بھی دی۔۔۔
" آپ محبت کے آداب سے بلکل ناواقف ہیں عین۔۔۔کیا آپ نہیں جانتیں کہ رخصت ہونے سے پہلے اپنے محب کو اپنے شوہر کو کوئی سوغات دے کر جاتے ہیں۔۔۔"
وہ دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر نکلنے لگی اسے اپنے پیچھے احتشام شاہ کی آواز سنائی دی۔۔۔تو اس نے وہیں کھڑے کھڑے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا جو آنکھوں میں شرارت لیے پرشوق نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔"
" میرے پاس تو کچھ بھی نہیں آپکو دینے کو۔۔۔آپ جانتے ہیں میں خالی ہاتھ آئی تھی۔۔۔"
عینا احتشام شاہ کی بات کا مطلب سمجھے بنا معصومیت سے بولی۔۔۔
" میں کسی مادی چیز کی بات نہیں کر رہا۔۔۔یہ بندہ بڑے بڑے اور مہنگے تحفوں سے نہیں بلکہ آپ کی ایک محبت بھری مسکراہٹ سے ، ایک پیار بھرے ہگ سے ، ایک چھوٹی سی میٹھی سی کس سے ہی خوش ہو جائے گا۔۔۔بے شک آزما لیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اب کے کھل کر مسکراتے عینا کو وارفتگی سے تکتے کہا۔۔۔تو عینا کا چہرہ حیا آلود ہوا تھا۔۔۔وہ کانوں تک سرخ ہوئی تھی۔۔۔
" ہمارا ابھی صرف نکاح ہوا ہے اس لیے مجھ پہ حقوق و فرائض کی کوئی شق واجب االعمل نہیں ہوتی۔۔۔البتہ مسکرانے میں کوئی ہرج نہیں۔۔۔یہ لیں۔۔۔"
عینا سنجیدگی سے کہتے اچانک آخر میں شرارتی لہجے میں کہ کر ہنستے ہوئے فوراً روم سے باہر نکل گئ۔۔۔
" میری شیرنی۔۔۔یہ تو میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا کہ کون کونسی شقیں آپ پہ لاگو ہوتی ہیں۔۔۔"
احتشام شاہ بڑبڑایا۔۔۔پھر کچھ سوچ کر ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا۔۔۔
" عائلہ ایک بار پھر سوچ لو بیٹا۔۔۔میرا صارم بہت چاہتا ہے تمہیں ۔۔۔اور سچ تو بھی ہے کہ ہم سب کی بھی یہی خواہش ہے۔۔۔اس کا نام تمہارے نام کے ساتھ جڑ جائے گا تو دلاور کیا کوئی بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔
اب عینا کو ہی دیکھ لو۔۔۔اگر وہ ہمت نہیں کرتی تو شائد آج یہ خوشی ہمارا مقدر نہیں ہوتی۔۔۔بس ایک بار تم ہاں کہ دو۔۔۔باقی سب ہم دیکھ لیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے عائلہ کو ایک بار پھر سے سمجھانے اور منانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔اس وقت وہ اور عائلہ فجر کے روم میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ صارم شاہ اور شاہ سائیں مردان خانے میں نکاح میں بلائے گئے چند خاص الخاص لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
" آنٹی پلیزز۔۔۔بابا نے جہاں میرا رشتہ تہ کیا ہے میں وہاں خوش ہوں اور ضروری نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو جائے ہر کوئی عینا کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا۔۔۔ اب کچھ نہیں سوچنا مجھے اور نہ کچھ کرنا ہے۔۔۔ جب جب بھی جس جس نے بھی اس فیصلے کے خلاف جانے کی کوشش کی منہ کی کھائی۔۔۔ہمارے حصے میں صرف دکھ درد ہی آیا۔۔۔جو کام جو بات انسانی قدرت سے باہر نظر آئے وہ الّٰلہ پاک پہ چھوڑ دینی چاہیے جو میری قسمت میں لکھا ہے وہ ہر حال میں مجھے مل کر رہے گا میرا دل اس کے لیے راضی ہو یا نہ ہو۔۔۔اس لیے قسمت سے لڑنے کی بجائے میں راضی با رضا ہو گئ ہوں۔۔۔آپ بھی اس بات کو اب چھوڑ دیں۔۔۔اور پلیز چھوٹے شاہ کو سمجھائیں کہ قسمت سے لڑنا چھوڑ دیں اپنا وقت برباد مت کریں اور میرے راستے میں مت آئیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔اگر وہ اپنی ضد پہ قائم رہے تو ایک ایسا طوفان آئے گا جو شائد بہت سے لوگوں کی زندگیاں نگل جائے۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔"
عائلہ نے نگاہیں نیچی کیے دھیرے سے ملتجی لہجے میں کہا اور پلکیں جھپک کر آنکھوں میں آئی نمی دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔دلاور کے لہجے ، اس کی باتوں اور اسکے جنون نے اسے خوفزدہ کردیا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کا بھی خون بہے اس لیے بہتر یہی تھا کہ وہ چپ چاپ اپنے بابا کے حکم کے آگے سر جھکا کر دلاور کے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں لگا لیتی ۔۔۔اس کے لہجے میں ہائمہ خاتون کو ٹوٹے کانچ کی کرچیاں محسوس ہوئی تھیں جن سے وہ سب کو بچا کر بس خود کو زخمی کرنے کی ٹھان چکی تھی۔۔۔بے اختیار انھوں نے دل ہی دل میں الّٰلہ سے اسکی خوشیوں کی دعا کرنے کے ساتھ اپنے بیٹے صارم شاہ کے لیے اسے مانگا تھا۔۔۔
انکا بس چلتا تو احتشام کے ساتھ ساتھ وہ صارم کا بھی نکاح پڑھوا دیتیں۔۔۔مگر عائلہؤو
اس موضوع پہ بات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔۔
" ماما آپکو بابا بلا رہے ہیں۔۔۔"
صارم شاہ نے دروازے میں کھڑے ہو کر ہائمہ خاتون کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔ہائمہ خاتون عائلہ سے اپنے ابھی واپس آنے کا کہ کر باہر نکل گئیں۔۔۔انکے جانے کے بعد صارم شاہ یونہی دروازے میں کھڑا ہو کر شوخ نظروں سے عائلہ کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔عائلہ اسکی نظروں کو خود پہ مرتکز پا کر جزبز ہونے لگی۔۔۔
" میں عینا کو دیکھ لوں۔۔۔کافی دیر ہو گئ ہے ہمیں اب چلنا چاہیے۔۔۔"
عائلہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
" کیا ہم دو منٹ بات کر سکتے ہیں پلیززز۔۔۔"
صارم شاہ نے جب دیکھا کہ وہ اسے نظر انداز کرکے بھاگنے کا ارادہ رکھتی ہے تو جلدی سے الجائیہ لہجے میں بولا۔۔۔
" جی بولیے۔۔۔"
عائلہ نے مختصر الفاظ میں ہامی بھرتے تقریباً روکھے لہجے میں کہا۔۔۔اس کے لہجے پہ صارم شاہ نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا۔۔۔جس کے چہرے اور لہجے میں اپنائیت کا شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔
بس اک بار میری آنکھوں میں دیکھ
اے میری زندگی
اور کہ دے
کہ ہم تیرے قابل نہیں
قسم ہے تیری ان حسین آنکھوں کی
تیرے اس تابناک چہرے کی
تیری اس پاکیزگی کی
کہ جس پہ میں ہوں مر مٹا
یہ عشق اسی پل
تیرے قدموں کی خاک بن کر
خاک میں مل جائے گا
تیری اس دنیا سے ہی چلا جائے گا
صارم شاہ انتہائی جزب سے کہتا عائلہ سے کچھ فاصلے پہ آ کھڑا ہوا۔۔۔صارم شاہ کے ادا کیے گئے ہر لفظ میں اس کے دل کا درد پنہاں تھا جس میں دکھ کے ساتھ ہزار شکوے بھی مچل رہے تھے۔۔۔
بولیے عائلہ جی۔۔۔جواب دیجیے میری بات کا۔۔۔کیوں کیا آپ نے ایسا۔۔۔آپ کو ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ میرے سامنے کھڑے ہو کر دلاور کا ہاتھ تھامیں گی تو مجھ پہ کیا گزرے گی۔۔۔
کیا کبھی ایک لمحے کو بھی میری محبت ، میری تڑپ نے آپکے دل کو نہیں چھوا۔۔۔بولیے۔۔۔ جواب دیجیے میری بات کا۔۔۔"
صارم شاہ کا لہجہ یکدم تلخ ہوا تھا۔۔۔عجیب بے بسی و بے بسی تھی۔۔۔
" کتنی بار کہوں کہ نہیں محبت کرتی میں آپ سے۔۔۔کیوں بار بار میرے راستے میں آ رہے ہیں۔۔۔یہ دیکھیں ہاتھ جوڑتی ہوں آپکے آگے چھوڑ دیں پیچھا میرا۔۔۔"
عائلہ نے باقاعدہ صارم شاہ کے آگے ہاتھ جوڑتے روہانسے لہجے میں کہا۔۔۔
" محبت تو آپ کرتی ہیں عائلہ جی۔۔۔اور بہت جلد آپ خود اس بات کا مجھ سے اقرار کریں گی۔۔۔رہی بات آپ کا پیچھا چھوڑنے کی تو اس کے لیے دعا کریں کہ میں مر جاؤں۔۔۔کیونکہ جیتے جی تو یہ ہو نہیں سکتا۔۔۔"
صارم شاہ نے انتہائی ضبط کرتے گھمبیر لہجے میں کہا اور اس پہ ایک جتاتی گہری نظر ڈال کر تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔
" کیا بات ہے ہائم۔۔۔آپ کچھ پریشان ہیں۔۔۔ آج تو آپکو بہت خوش ہونا چاہیے تھا۔۔۔آپکے ایک بیٹے کا دل ویران ہونے سے بچ گیا۔۔۔ویسے ماننا پڑے گا کہ آپکی بڑی بہو سچ میں بڑی بہو کہلانے کی حقدار ہیں۔۔۔بہت دلیر اور بہادر ہے عینا بیٹی۔۔۔مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ ان حالات میں وہ اتنا بڑا فیصلہ کر گزریں گی۔۔۔"
شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
" ٹھیک کہ رہے ہیں آپ مجھے بھی توقع نہیں تھی۔۔۔بس اب صارم بیٹے کی فکر دل کو پریشان کر رہی ہے۔۔۔الّٰلہ ہمارے بچوں کو دونوں جہاں کی خوشیاں عطا فرمائے۔۔۔ہمیشہ انکو اپنی پناہ میں رکھے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے تائیدی انداز میں سر ہلاتے کہا۔۔۔
" ویسے دیکھ لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کلاں کو آپکی یہ بہادر بہو آپکے بیٹے کو لے اڑے یا پھر یہ گھر کوئی اکھاڑہ بن کر رہ جائے۔۔۔"
شاہ سائیں ہنستے ہوئے شرارت سے بولے۔۔۔
" ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔جو انسان اپنے رشتوں کی فکر میں انکی محبت میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرے ، اپنی خوشیوں سے زیادہ اپنوں کی فکر اسکے دامن گیر ہو ، انکے سکون و خوشی کے لیے اپنی ذات کی نفی کردے وہ انسان ہیرا ہوتا ہے۔۔۔الّٰلہ نے اسے ہیرے جیسا دل دیا ہوتا ہے۔۔۔وہ کہیں بھی چلا جائے اسکی ذات میں دوسروں کے لیے صرف خیر ہی خیر ہوتی ہے۔۔۔اور مجھے اپنے بیٹوں کی پسند پہ فخر ہے جنہوں نے ظاہری حسن و جمال اور دولت کو نہیں کردار کو اہمیت دی ہے۔۔۔
میری بہو کے آتے ہی اس گھر میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔۔آپ دیکھ لیجیے گا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے عینا کے لیے اپنے لب و لہجے میں محبت سموئے کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔۔میں دین محمد سے کہ دیتا ہوں کہ میرا بستر مستقل طور پہ باہر مردان خانے میں لگا دے۔۔۔"
شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
" ہائیں۔۔۔وہ کس لیے۔۔۔یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے حیرانگی سے کہا۔۔۔
" بھئ ابھی آپکی بہو نے اس گھر میں قدم نہیں رکھا اور آپ نے اپنی پارٹی بدل لی ہے۔۔۔جب وہ آ جائے گی تو پھر تو آپ ہماری طرف دیکھیں گی بھی نہیں اور نہ ہماری کچھ سنیں گی ہی۔۔۔اس لیے بہتر ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے ہم خود ہی کنارہ کر لیں۔۔۔"
شاہ سائیں ٹھنڈی سانس بھر کر دکھی لہجے میں بولے۔۔۔
" آپ بھی نہ حد کرتے ہیں۔۔۔آج تک آپکو تنہا چھوڑا ہے جو اب چھوڑوں گی۔۔۔مرنے سے پہلے آپکی جان مجھ سے نہیں چھوٹے گی۔۔۔ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون خفگی سے بولیں۔۔۔
" ہائم کتنی بار کہ چکے ہیں کہ ہمارے سامنے اپنے مرنے کی بات مت کیا کریں۔۔۔ہم آپکو چھیڑ رہے تھے۔۔۔اور آپ سنجیدہ ہو گئیں۔۔۔"
شاہ سائیں اب سچ میں ناراض لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔کچھ پل کو انکے بیچ خاموشی کا راج رہا۔۔۔پھر اس خاموشی کو شاہ سائیں نے ہی توڑا۔۔۔
" فجر بیٹی اور آئمہ کو سب حالات سے آگاہ کردیا تھا کیا آپ نے۔۔۔"
شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
" جی کریا تھا اور ساتھ میں جو کچھ یہاں ہوا وہ سب بھی بتا دیا تھا تاکہ انکے دل میلے نہ ہوں۔۔۔سب جان کر بہت خوش ہو رہی تھیں وہ دونوں۔۔۔کچھ دن تک چکر لگائیں گے وہ سب لوگ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
" افتخار بھائی اور خاندان کے کچھ اور لوگوں کو میں نے بھی آگاہ کردیا تھا۔۔۔اپنی مجبوری اور انکو نہ بلانے کی وجہ سے بھی آگاہ کردیا تھا۔۔۔افتخار بھائی ناراض سے ہو گئے تھے۔۔۔اور یہ کہ ہم نے انکی بیٹی پہ پرائی بچی کوئی ترجیح دی۔۔۔شائد اب خاندان میں ایک نیا محاذ کھلنے والا ہے ہمارے خلاف۔۔۔جس جس کو بھی پتہ چلے گا وہ اس بات کو لے کر چپ نہیں رہے گا۔۔۔بہت سے لوگوں کے دل میں ہمارے بچوں کو لے کر ایک آس تھی۔۔۔اور جب آس ٹوٹے تو بندہ چپ کہاں رہتا ہے پھر۔۔۔"
شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
" آپ پریشان مت ہوں۔۔۔ہم پہلی فرصت میں افتخار بھائی کی طرف چکر لگائیں گے۔۔۔اور ان سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں گے۔۔۔وہ آپکے بھائی ہیں وقتی طور پہ ان کا دل دکھا ہوگا مگر مجھے یقین ہے وہ زیادہ دیر ناراض نہیں رہیں گے۔۔۔باقی لوگوں کے بارے میں سوچ کر آپ پریشان نہ ہوں ہمارے لیے ہمارے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔شادی پہ ہم خاندان کے سبھی افراد کو مدعو کریں گے جو ناراض ہیں انکے گھر خود جاکر دعوت دے کر آئیں گے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے تسلی و تشفی دیتے رسانیت سے کہا۔۔۔
" اب آپ کدھر جا رہی ہیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون اٹھ کر جانے لگیں تو شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
" ہم عشاء کی نماز پڑھ لیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
" تو ادھر پڑھ لیں۔۔۔باہر کدھر جا رہی ہیں۔۔۔"
شاہ سائیں حیران ہوتے بولے
" شاہ آج ہمیں الّٰلہ سے کچھ خاص مانگنا ہے آج ہمیں کچھ خاص مناجات کرنی ہیں۔۔۔آج دل چاہ رہا ہے کہ جب ہم الّٰلہ سے بات کریں تو ہمارے پاس کوئی نہ ہو۔۔۔آپ سو جائیں ہم اپنی عبادت سے فارغ ہو کر آ جائیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے سنجیدگی سے کہا اور جائے نماز پکڑ کر باہر نکل گئیں۔۔۔آج جہاں اپنے ایک بیٹے کے لیے وہ بے حد خوش اور مطمئین تھیں تو دوسرے بیٹے کے لیے وہ اتنا ہی پریشان۔۔۔
" اے میرے رب۔۔۔اے دلوں کے مخفی و ظاہری بھید جاننے والے۔۔۔اے مالک کائنات۔۔۔میں تیری ادنیٰ و گنہ گار بندی تیری بارگاہ میں اپنے بیٹے کی خوشیوں کی بھیک مانگتی ہوں۔۔۔
اے میرے رب تو ہر چیز پہ قادر ہے۔۔۔اے پاک پروردگار رشید احمد کو ہدایت عطا فرما۔۔۔اس کے دل میں اپنی بچیوں اور بیوی کے لیے رحم اور شفقت بھردے۔۔۔اے پاک پروردگار مہرالنساء بہن کو شفائے کاملہ عطا فرما۔۔۔اس کو صحت و تندرستی عطا فرما۔۔۔
اے پاک پروردگار مہرالنساء بہن کی بیماری کو صحت کی نعمت سے بدل دے۔۔۔اسے ٹھیک کردے۔۔۔
اے اندھیری راہوں کو روشن کرنے والے۔۔۔دلوں میں موجزن ناامیدی کو ختم کرکے امید کی روشنی بھرنے والے۔۔۔میرے بیٹے صارم شاہ کی زندگی کے سب اندھیرے دور کردے۔۔۔اے پاک روردگار میرے بیٹے کی خوشیاں عائلہ بیٹی سے جڑی ہیں۔۔۔اپنی زندگی کو اپنی سانسوں کو وہ اس سے جوڑ بیٹھا ہے۔۔۔اے پاک پروردگار ان دونوں کے راستے ایک کردے۔۔۔
اے پاک پروردگار جہاں سے تیرے بندوں کی بے بسی و لاچاری شروع ہوتی ہے وہیں سے تیری رحمت کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔یا الّٰلہ ہم تیرے بے بس اور لاچار بندے تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتے ہیں۔۔۔ہم پہ رحم فرما۔۔۔
اے پاک پروردگار جب جب بھی تیری اس بندی نے تجھ سے سوال کیا تونے اس بندی کے ہزار گناہوں کے باوجود عطا کیا۔۔۔
اے پاک پروردگار اپنی اس بندی پہ رحم فرما اپنا کرم فرما اپنا فضل فرما۔۔۔اے پاک پروردگار میرے بیٹے صارم شاہ کو اس کی خوشیاں عطا فرما دے۔۔۔
یاالّٰلہ میرے شوہر کو نازنین سے ملوا دے۔۔۔وہ جہاں کہیں بھی ہے اسے اور اسکی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔۔۔یاالّٰلہ اس تک پہنچنے کے راستے کھول دے شاہ کو اس تک پہنچا دے یا انکو ہم تک پہنچا دے۔۔۔
اے پاک پروردگار ہم نے آج تک کبھی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔۔۔کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔۔۔کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا۔۔۔لیکن اگر انجانے میں ہم نے کسی کا دل دکھایا ہے یا کسی کے ساتھ زیادتی کر بیٹھے ہیں تو ہمیں معاف کردے اور اسکی سزا میرے بیٹے کو اس کی خوشی سے دور رکھ کر نہ دینا۔۔۔یا الّٰلہ ہم پہ وہ بوجھ نہ ڈال جسے ہم اٹھا نہ سکیں۔۔۔اے پاک پروردگار میرے شوہر کی مدد فرما انھیں نازنین سے ملوا دے۔۔۔
اے پاک پروردگار ہمارے عزیز و اقارب میں جو بھی اپنے گھروں میں پریشان ہے سب کی مدد فرما سب کے رستے آسان فرما۔۔۔
آمین۔۔۔یا رب العالمین۔۔۔۔
ہائمہ خاتون جب بھی پریشان ہوتیں تو رات کی نماز ہمیشہ تنہائی میں سب کے سو جانے کے بعد ادا کرتیں۔۔۔ایسا کر کے انکو لگتا تھا کہ ان کے اور الّٰلہ کے بیچ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔۔۔وہ ایسا کرکے خود کو الّٰلہ کے بہت قریب محسوس کرتی تھیں۔۔۔انکو الّٰلہ اپنے بہت قریب محسوس ہوتے تھے۔۔۔اس وقت بھی چھت پہ وہ الّٰلہ سے راز و نیاز میں مشغول تھیں چاند کی مدھم مدھم سی دل دماغ کو تراوت دیتی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔وہ رو رو کر گڑ گڑا کر الّٰلہ سے اپنے بیٹے اور شوہر کی خوشی کی فریاد کر رہی تھیں۔۔۔
" ماما۔۔۔۔"
ہائمہ خاتون دعا سے فارغ ہوئیں تو صارم شاہ نے انھیں پکارا۔۔۔وہ نہ جانے کب سے چھت پہ ایک اندھیرے کونے میں بیٹھا ہوا اپنی ماں کو الّٰلہ کے حضور فریاد کرتا سن رہا تھا۔۔۔
" صارم۔۔۔آپ ادھر اس وقت۔۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔کیا بات ہے سوئے نہیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے حیران ہوتے اسکی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔تو صارم شاہ انکی گود میں سر رکھ کر وہیں جائے نماز پہ لیٹ گیا۔۔۔۔
" ماما نیند نہیں آ رہی تھی تو اس لیے اوپر آ گیا۔۔۔چھت پہ کھڑے ہو کر تازہ کھلی ہوا میں دور تک اس خاموشی میں دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
کچھ دیر یونہی اکیلے رہنے کو دل کر رہا تھا۔۔۔"
صارم شاہ نے اپنے لہجے میں بشاشت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتے کہا۔۔۔مگر ہائمہ خاتون ماں تھیں اپنے بیٹے کے لہجے میں ٹوٹ پھوٹ ان سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔
" صارم۔۔۔۔تم رو رہے ہو۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔میری جان بولو کیا ہوا ہے۔۔ کیا عائلہ نے کچھ کہا ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون اسکے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگیں اور جیسے ہی انکا ہاتھ اس کے چہرے پہ آیا تو گالوں پہ آنسوؤں کی نمی محسوس کرتے تڑپ کر بولیں۔۔۔
" ماما۔۔۔مجھ میں کسی چیز کی کمی ہے کیا۔۔۔"
صارم شاہ نے ٹوٹے لہجے میں پوچھا۔۔۔
" نہیں میری جان۔۔۔میرے بیٹے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔۔۔نہ شکل و صورت میں نہ کردار میں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے محبت سے اس کے سر پہ بوسہ دیتے کہا۔۔۔
" تو پھر وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔۔۔بار بار میں اسکے سامنے کاسہ محبت لے کر کھڑا ہوتا ہوں۔۔۔اپنی انا اپنی خوداری کو نظر انداز کرکے اس سے محبت کی بھیک مانگتا ہوں۔۔۔اس کے سامنے تڑپتا ہوں۔۔۔اپنا دل کھول کر دکھاتا ہوں۔۔۔مگر وہ پتھر بنی ہوئی ہے۔۔۔میں کیا کروں ماما۔۔۔میں اس سے دور جانے کا سوچتا ہوں تو میری سانس اکھڑنے لگتا ہے۔۔۔دم گھٹنے لگتا ہے۔۔۔
وہ کہتی ہے میرے راستے میں مت آؤ۔۔۔مگر میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ میری زندگی کا ہر راستہ اسی پہ آ کے ختم ہوتا ہے۔۔۔
ماما جتنی محبت میں اس سے کرتا ہوں۔۔۔وہ مجھ سے کیوں نہیں کرتی۔۔۔اس کو وہ دلاور مجھ سے زیادہ اچھا لگتا ہے کیا۔۔۔"
صارم شاہ نے بھاری لہجے میں کہا۔۔۔بار بار عائلہ کے انکار پہ وہ بدگمان ہو رہا تھا۔۔۔کبھی اس کا دل کہتا کہ یہ جھوٹ ہے اور کبھی کہتا کہ یہی سچ ہے۔۔۔ورنہ وہ اس کا ہاتھ تھام لیتی۔۔۔بلکل عینا کی طرح جیسے کسی بات کی پرواہ کیے بنا اس نے احتشام کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔
" وہ پتھر نہیں ہے بیٹا۔۔۔وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔مگر تھوڑی سی بزدل ہے۔۔۔ہر لڑکی عینا کی طرح دلیر نہیں ہوتی۔۔۔عائلہ ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے بیٹا جن کے لیے انکی محبت ہر رشتے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔۔۔نہ ماں باپ کی پرواہ نہ بھائی کی غیرت کی حیا۔۔۔
وہ ان لڑکیوں میں سے ہے جو اپنے رشتوں کے لیے اپنی ہر خوشی سے اپنی محبت سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔۔۔
ایسی لڑکیوں کا ساتھ قسمت والوں کو ملتا ہے۔۔۔
عائلہ سے بدگمان مت ہو بیٹا۔۔۔اپنا اور اس کا معاملہ الّٰلہ پہ چھوڑ دو۔۔۔الّٰلہ پہ بھروسہ رکھو۔۔۔اور مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر عائلہ کی شادی دلاور سے ہو حاتی ہے تو تم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاؤ گے جو ساری عمر کے لیے تمہارے ماں باپ کی آنکھوں میں آنسو بھر دے۔۔۔مجھ سے وعدہ کرو بیٹا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کے سر میں اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے مان سے کہا۔۔۔
" ماما میں اس سے وعدہ کر چکا ہوں کہ میری سانسیں اسکے نکاح سے بندھی ہیں جس دن دلاور سے نکاح ہوا یہ سانسیں بند۔۔۔"
صارم شاہ نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا اور اپنا چہرہ موڑ گیا۔۔۔
" صارم شاہ۔۔۔تمہاری ان سانسوں پہ ، تمہارے اس وجود پہ صرف تمہارے ماں باپ کا حق ہے۔۔۔9 ماہ کس طرح سے سینت سینت کر میں نے تمہیں اپنے وجود میں رکھا پھر پیدا کیا۔۔۔اس دوران میری ایک ہلکی سی تکلیف کا بھی اگر تم حق ادا کردو تو میں تمہیں آزاد کرتی ہوں تم عائلہ سے اپنا کیا وعدہ نبھا سکتے ہو۔۔۔
ہائمہ خاتون کے " صارم شاہ " کہنے پہ اس نے تڑپ کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔وہ جب بھی اپنے بچوں سے کسی بات پہ ناراض ہوتیں تو " بیٹے " کا لفظ حذف کر کے نام کے ساتھ شاہ لگا کر پکارتیں تھیں اس وقت بھی صارم شاہ کی بات انکو تکلیف دے گئ تھی۔۔۔
" ایسے مت دیکھو میری طرف۔۔۔میں نے صرف لفظ بیٹا چھوڑا تو تم سے برداشت نہیں ہوا۔۔۔پھر تم نے کیسے جرأت کی کہ ماں کے سامنے بیٹھ کر اپنی سانسیں بند ہونے کی بات کرو۔۔۔اپنی جان لینے کی بات کرو۔۔۔ایک بات یاد رکھنا صارم شاہ اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا تو اس گھر سے ایک نہیں دو جنازے اٹھیں گے۔۔۔تمہاری یہ ماں بھی جی نہیں پائے گی۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے رقت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
" ماما۔۔۔معاف کردیں۔۔۔پلیزززز۔۔۔میرے لیے آپ کے حکم سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔میری زندگی پہ میری ہر سانس پہ صرف آپکا حق ہے۔۔۔میں آج ابھی اسی وقت اپنی زبان سے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتا ہوں۔۔۔
صارم شاہ نے اپنی ماں کے ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوئے کہا۔۔۔مگر ایسا کرتے ایسا کہتے بے آواز آنسو اس کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
" جس محبت کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جان دینی پڑے وہ محبت نہیں ہوتی بیٹا۔۔۔عشق سچا ہو تو محبوب کے دل میں وہ نقب لگا کر رہتا ہے۔۔۔محبت اپنا رستہ خود بنا لیتی ہے۔۔۔
اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھ جاؤ بیٹا کہ تم اس محبت کے قابل نہیں یا پھر وہ تمہارے پیار کے لائق نہیں۔۔۔راضی با رضا ہو جاؤ بیٹا۔۔۔جیسے عائلہ ہو گئ ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے کہا۔۔۔
" ماما کیا عائلہ نے آپ سے کچھ کہا۔۔۔میرا مطلب کوئی ایسی بات جس سے آپکو لگا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے آس بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔
" شرم تو نہیں آتی۔۔۔اپنی ماں سے کیسے بے شرمی سے ایک لڑکی سے محبت کا اظہار کر رہے ہو۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کے سر پہ ہلکے سے ایک چپت لگاتے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
" میں کونسا ماں سے کہ رہا ہوں۔۔۔میں تو اپنی دوست سے بات کر رہا ہوں۔۔۔جو میری اس دنیا میں واحد بیسٹی ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
" اس نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔۔۔مگر کبھی کبار انسان کا لہجہ سب عیاں کردیتا ہے۔۔۔وہ تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔مگر پے در پے عجیب و غریب حالات نے شائد اسے خوفزدہ کردیا ہے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
" عائلہ بیٹا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔بڑی دیر لگا دی تم لوگوں نے۔۔۔اور عینا کے ہاتھ میں یہ کنگن۔۔۔۔۔"؟
گھر واپسی پہ سکینہ خالہ انکی والدہ کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔عینا انکو سلام کرنے کے بعد سیدھی اپنے روم میں چلی گئ جبکہ وہ انکے پاس آ کر اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھ گئ۔۔۔نکاح کا جوڑا اور میچنگ جیولری عینا وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔البتہ واپسی پہ ہائمہ خاتون نے اپنی کلائی سے دو سونے کے کنگن اتار کر شگن کے طور پہ اس کی کلائی میں پہنا دئیے تھے۔۔۔جو ابھی بھی اسکے ہاتھ کی زینت بنے ہوئے تھے۔۔۔سکینہ خالہ کی نظروں سے جو چھپے نہ رہ سکے۔۔۔تجسس کے مارے حیران ہو کر وہ عائلہ سے پوچھ بیٹھیں۔۔۔
عائلہ کو ان سے کچھ بھی چھپانا مناسب نہیں لگا۔۔۔شاہ سائیں کے گھرانے کے بعد وہ واحد عورت تھیں جو انکے ساتھ کھڑی تھیں۔۔۔عائلہ نے کانٹ چھانٹ کر ساری بات سے انکو آگاہ کردیا۔۔۔جسے سن کر وہ بے حد خوش ہوئیں تھیں۔۔۔اور ڈھیروں ڈھیر دعائیں دینے لگیں۔۔۔
" چلو شکر ہے مہرو کی ایک بیٹی تو اپنے باپ کے نشے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئ۔۔۔
بیٹا کچھ دیر پہلے تمہارے خالو آئے تھے وہ بتا رہے تھے کہ رشید احمد ہماری طرف آیا تھا کہ دو دن بعد جمعہ کو نکاح ہے تمہارا دلاور سے۔۔۔یہ بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی اسے۔۔۔مہرالنساء کے ٹھیک ہونے کا تو انتظار کر لیتا ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔عقل گھاس چرنے چلی گئ ہے اس کی۔۔۔کاش کہ میں تمہارے لیے کچھ کر پاتی۔۔۔"
سکینہ خالہ نے تلخ ہوتے کہا۔۔۔
" خالہ آپ دعا کردیا کریں ہمارے لیے بس۔۔۔ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔عینا کا نکاح احتشام شاہ کے ساتھ ہونے کے بعد اب مجھے کوئی غم کوئی دکھ نہیں ہے۔۔۔میں بہت خوش ہوں۔۔۔ماما ہوش میں ہوتیں تو وہ بھی بہت خوش ہوتیں۔۔۔"
عائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔اپنے سبھی معاملات الّٰلہ پہ چھوڑنے کے بعد وہ سچ میں اب بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔ذہنی طور پہ وہ دلاور کے ساتھ نکاح کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔۔۔بس افسوس اس بات کا تھا کہ جب اس کی ماں ہوش میں آئے گی تو ان پہ کیا گزرے گی۔۔۔جہاں ایک بیٹی کے لیے خوش ہوں گی تو دوسری کے لیے رنجیدہ۔۔۔
" رشید احمد کو عینا کے نکاح کا پتہ چلا تو وہ بہت ادھم مچائے گا بیٹا۔۔۔"
سکینہ خالہ نے فکرمندی سے کہا۔۔
" کچھ نہیں کریں گے وہ۔۔۔انکے سامنے عائلہ نہیں بلکہ عینا احتشام شاہ کھڑی ہوگی۔۔۔عینا کو ہلکی سی کھروچ بھی آئی تو جو کہرام احتشام شاہ مچائے گا بابا وہ سہ نہیں پائیں گے اب وہ اس گھر کی بیٹی نہیں رہی حویلی کی بہو انکی عزت احتشام شاہ کی منکوحہ ہے۔۔۔اور احتشام شاہ کو اپنے رشتوں کی حفاظت کرنا خوب آتا ہے۔۔۔"
عائلہ نے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
" الّٰلہ تم سب پہ رحم کرے اور اس رشید احمد کو ہدایت دے۔۔۔میں اب چلتی ہوں بیٹا۔۔۔بہت دیر سے آئی ہوئی ہوں تمہارے خالو دو بار چکر لگا چکے ہیں۔۔۔"
سکینہ خالہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
" خالہ عینا کے نکاح والی بات کا ذکر ابھی کسی سے مت کیجیے گا۔۔۔پنچایت کے فوراً بعد عینا کے نکاح کی بات سامنے آنے پہ نہ جانے لوگ کیا باتیں کریں۔۔۔مجھے آپ سے چھپانا مناسب نہیں لگا۔۔۔آپ ہماری بڑی ہیں بلکہ اسی گھر کا فرد ہیں اس لیے آپکو بتا دیا۔۔۔بس جمعے تک رک جائیں دلاور کے ساتھ میرا نکاح ہونے کے بعد عینا کے نکاح کے بارے میں بھی سب کو بتا دیں گے۔۔۔"
عائلہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔تو وہ اثبات میں سر ہلاتے پھر آنے کا کہ کر چلی گئیں۔۔۔
" ماما آپ نے اپنی بیٹیوں کے لیے جو خواب دیکھے تھے ان میں سے ایک خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔۔۔
ماما عینا کا نکاح سچ میں ایک شہزادے سے ہوگیا ہے۔۔۔اور جانتی ہیں وہ شہزادہ کون ہے۔۔۔وہ چھوٹے شاہ جی کے بڑے بھائی احتشام شاہ جی ہیں۔۔۔عینا اب حویلی کی بہو ہے ماما۔۔۔
وہ بہت اچھے ہیں ماما۔۔۔ہماری عینا انکے ساتھ بہت خوش رہے گی۔۔۔آنے والے وقت میں لوگ آپکی بیٹی کو چھوٹی سردارنی کہا کریں گے۔۔۔
الّٰلہ نے آپکی دعائیں سن لیں ہیں ماما۔۔۔اب بس مجھے ایمن کی فکر ہے۔۔۔مگر میں جانتی ہوں عینا اور احتشام شاہ اس کو سنبھال لیں گے۔۔۔
آپ دیکھیے گا ماما ایمن پڑھ لکھ کر ایک بڑی افسر بنے گی۔۔۔وہ آپکے سب خواب پورے کرے گی۔۔۔
ہمارے گھر میں اب خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔۔نہ کوئی دکھ نہ غم نہ بابا کا کوئی خوف۔۔۔ہر طرف مسکراہٹیں ہوں گی۔۔۔مگر اس سب میں اجالا بہت یاد آئے گی کاش کہ ان مسکراہٹوں میں اس کی مسکراہٹ بھی شامل ہوتی۔۔۔
مگر میں بھی پتہ نہیں یہ سب دیکھ پاؤں گی یا نہیں۔۔۔میں نے آج دلاور کو بہت قریب سے دیکھا اور سنا ہے ماما۔۔۔میں اسکی ضد بن چکی ہوں۔۔۔میں نے اسکی آنکھوں میں لہجے میں اپنے لیے ایک عجیب سا جنون محسوس کیا ہے۔۔۔وہ بپھرا ہوا طوفان ہے جس کو صرف میری ذات پرسکون کر سکتی ہے۔۔۔مجھے پانے کے لیے وہ ہر حد سے گزر جائے گا جو بھی اس کے راستے میں آیا اسے ختم کردے گا میں نے انکار کیا تو مجھے بھی۔۔۔لیکن مجھے کسی اور کا نہیں ہونے دے گا۔۔۔ہم اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔۔۔
اسے سن کر اندازہ ہوا کہ وہ جیسا نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے وہ بھی دوہری زندگی جی رہا ہے۔۔۔
اس کے اندر ایک چھوٹا سا معصوم بچہ ابھی بھی زندہ ہے
وہ اتنا برا بھی نہیں ہے۔۔۔ کم پڑھا لکھا ضرور ہے مگر جانور نہیں ہے۔۔۔بس راہ سے بھٹکا ہوا ہے دنیا سے چوٹ کھایا ہوا ہے۔۔۔میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گی۔۔۔شائد وہ بدل جائے۔۔۔
جمعے کو میرا نکاح ہے اس سے۔۔۔اپنی قسمت کا لکھا مان چکی ہوں اسے۔۔۔
میں عینا کی طرح خوش قسمت نہیں ہوں ماما کہ جسے من چاہا ساتھی مل جائے۔۔۔
چھوٹے شاہ جی کی محبت ہمیشہ میرے دل کے ایک کونے میں دفن رہے گی دوہری زندگی جینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ میں عادی ہو جاؤں گی۔۔۔
ماما آپکی اس بیٹی کو آپکی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔۔۔آپ میرے لیے دعا کرنا کہ میں چھوٹے شاہ جی کو بھول جاؤں۔۔۔اور چھوٹے شاہ جی کے لیے بھی دعا کرنا کہ وہ مجھے بھول جائیں۔۔۔وہ بار بار میرے راستے میں آتے ہیں وہ سمجھتے ہیں میں پتھر کی بنی ہوں میرا دل پتھر کا ہے جس پہ محبت اثر نہیں کرتی۔۔۔مگر وہ نہیں جانتے ماما کہ میں پتھر نہیں ہوں۔۔۔انکی محبت میرے وجود سے آکاس بیل کی طرح لپٹ گئ ہے۔۔۔جس نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔۔۔
مگر چاہ کر بھی میں ان کا ہاتھ نہیں تھام سکتی اگر ایسا کروں گی تو دلاور اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور اس کا انجام سوچ کر ہی میں کانپ جاتی ہوں۔۔۔
چھوٹے شاہ جی سے اپنے نکاح سے پہلے میں ایک بار ضرور ملوں گی ان کی کھائی قسم توڑنے کے لیے۔۔۔جانے سے پہلے زندگی میں پہلی اور آخری بار ان سے کچھ مانگوں گی مجھے یقین ہے وہ انکار نہیں کریں گے۔۔۔"
سکینہ خالہ کے جانے کے بعد عائلہ اپنی ماں کے ساتھ وہیں بیڈ پہ نیم لیٹ کر سرگوشیانہ انداز میں باتیں کرنے لگی۔۔۔اس کا چہرہ مہرالنساء کے چہرے کو چھو رہا تھا۔۔۔وہ رو رہی تھی۔۔۔اپنی قسمت پہ۔۔۔اپنی مجبت کے بچھڑنے پہ ، اپنی بے بسی پہ۔۔۔حالات کی ستم ظریفی پہ۔۔۔آنسو اس کے گالوں پہ بہ بہ کر مہرالنساء کے چہرے کو بھی نم کر رہے تھے۔۔۔کبھی کبھی بات کرتے اس کی آواز اس کے گلے میں پھنس جاتی۔۔۔وہ پھر سے خود کو سنبھال کر باتیں کرنے لگتی۔۔۔
اس کے خاموش آنسو اس کے دل کا درد مہرالنساء کو اس حالت میں بھی بے چین کر گیا۔۔۔ایک آنسو ان کے گالوں پہ بھی بہا تھا جس سے عائلہ انجان رہی۔۔۔ان کے لاشعور میں ہلچل پیدا ہونے لگی تھی۔۔۔زندگی کی برق انکے وجود میں دوڑنے لگی تھی۔۔۔عائلہ کو پکارنے کے لیے اسے گلے سے لگا کر سب ٹھیک ہو جائے گا کہنے کے لیے وہ اپنے لاشعور میں ہونے والی ہلچل سے نبرد آزما ہونے لگیں۔۔۔
" آپی۔۔۔۔آپ نے مجھ سے یہ سچ کیوں چھپایا۔۔۔مجھے اب سمجھ آئی کہ آپ نے جمعہ تک میرے احتشام جی کے ساتھ نکاح کو چھپانے کی بات کیوں کی تھی۔۔۔آپ نے کیوں یہ شرط رکھی تھی۔۔۔"
عینا روم کے بیچوں بیچ نہ جانے کب سے سے کھڑی تھی۔۔۔جمعہ کو عائلہ کے نکاح کی بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گئ تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سیٹھ اکرام نے آج رضوانہ خاتون کو فیملی سمیت کھانے پہ مدعو کیا تھا۔۔۔مگر اس سے پہلے اپنی تمام فیملی اور گھر کے سب نوکروں کو ہال میں جمع ہونے کو کہا تھا۔۔۔
" اب پتہ نہیں کونسا نیا شوشہ چھوڑنے والے ہیں یہ۔۔۔میری تو کوئی وقعت ہی نہیں رہی نہ جانے وہ کونسا منحوس دن تھا جب اس عورت اور اس کی بیٹی کو ہم نے اپنے گھر ملازم رکھا۔۔۔اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ یہ لوگ ہمارے سر پہ چڑھ کر بیٹھ جائیں گے تو اپنے گھر کی دہلیز بھی نہ پار کرنے دیتی۔۔۔ٹٹ پونجیے نہ جانے کہاں سے اٹھ کر آ گئے ہیں۔۔۔نہ ان کے آگے کے پتہ نہ پیچھے کا۔۔۔
میں پاگل ہوں۔۔۔دیواروں سے بات نہیں کر رہی میں۔۔۔تم سے کہ رہی ہوں۔۔۔یوں خاموش رہنے سے کچھ نہیں ہوگا اپنے باپ سے کہ دو کہ تم یہ شادی نہیں کر سکتے۔۔۔"
فرحین بیگم طلحہ کے روم میں بیٹھی کب سے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ فاطمہ اس کے لائق نہیں۔۔۔اور اگر یہ شادی ہو گئ تو وہ سر اٹھا کر سوسائٹی میں موو نہیں کر سکے گا۔۔۔فاطمہ کا تعارف اس کے لیے شرمندگی کا مقام بن جائے گا۔۔۔جب سے وہ آیا تھا وہ اس کا برین واش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔مگر اس نے چپ سادھی ہوئی تھی۔۔۔
طلحہ کے لگاتار چپ رہنے پہ اور کوئی جواب نہ دینے پہ وہ جزبز ہوتی تقریباً پھاڑ کھانے والے لہجے میں گویا ہوئیں۔۔۔
" ماما آپ شائد بھول رہی ہیں کہ ہم لوگ بھی جدی پشتی امیر لوگ نہیں تھے۔۔۔
ایک دن کھانا پکتا تھا اور دو دو دن تک کبھی اچار اور کبھی دھنیے کی چٹنی کوٹ کر آپ اس سے ہمیں روٹی دیا کرتی تھیں۔۔۔ہفتے بعد کبھی سبزی پکتی تھی گھر میں تو وہ دن ہمارے لیے عیاشی کا دن ہوتا تھا
سکول کی فیس تک دینے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔۔۔اگر بابا کی اپنے دوست سے ملاقات نہیں ہوئی ہوتی وہ بابا کو کاروبار کے لیے پیسے نہیں دیتے تو آج ہم لوگ بھی کسی کے گھر نوکر ہوتے۔۔۔
میں اور قاسم کسی کے گھر ڈرائیور ہوتے میری بہنیں کسی سیٹھ کے گھر کے کچن میں ان کے گندے برتن دھو رہی ہوتیں۔۔۔
کسی کو یاد ہو نہ یاد ہو مگر میں اپنا ماضی ، اپنی اوقات کبھی نہیں بھولا۔۔۔جس غربت کی چکی میں آپ پسی ہیں اس کے بعد تو آپ کو ہر غریب سے محبت ہونی چاہیے تھی۔۔۔نفرت کرنی تھی تو غربت سے کرتیں۔۔۔مگر آپ تو غریبوں سے ہی اپنے دل میں نفرت پال بیٹھیں۔۔۔
رضوانہ بوا برسوں سے ہمارے گھر کام کرتی ہیں ان لوگوں کو بہت قریب سے ابزرو کیا ہے میں نے۔۔۔انتہائی رکھ رکھاؤ والی اور خوددار ماں بیٹی ہیں وہ۔۔۔فاطمہ میں وہ سارے گن موجود ہیں جو کسی بھی گھر کو سکون کا گہوارا بنا سکتے ہیں۔۔۔
خدا کا واسطہ ہے ماما۔۔۔اپنی آنکھوں سے یہ نفرت کی پٹی اتار کر دیکھیں۔۔۔یقین کریں آپکو فاطمہ میں صرف خوبیاں ہی نظر آئیں گی۔۔۔لوگوں کو دولت کے ترازو میں تولنا بند کردیں۔۔۔"
طلحہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔۔۔وہ ہمیشہ سے اپنے باپ کی طرح انھیں سمجھاتا آیا تھا۔۔۔مگر جب دیکھا کہ جب بابا کی کسی بات کا ان پہ اثر نہیں ہو رہا تو وہ بھی اپنی ماں کو ان کے حال پہ چھوڑ کر چپ کر گیا۔۔۔مگر اب جب اس کے بابا نے اس سے فاطمہ کو اپنی بہو بنانے کا ذکر کیا تو اسے فاطمہ میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس بنا پہ وہ انکار کرتا۔۔۔اس لیے اس نے اپنے بابا کو اوکے کا سگنل دے دیا تھا۔۔۔مگر فرحین بیگم سے یہ بات برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔اپنے اسٹیٹس کو مزید اونچا کرنے کے لیے اور سوسائٹی میں فخر سے سر اٹھا کر چلنے کے لیے انھوں نے شہر کے امیر ترین لوگوں کی بیٹیوں کے لیے بطور بہو سوچ رکھا تھا تاکہ وہ جب بہو بن کر آئیں تو وہ گردن اکڑا کر کہ سکیں کہ فلاں کی بیٹی میری بہو ہے۔۔۔
مگر طلحہ نے اپنے باپ کی بات پہ سر جھکا کر ان کے سارے خواب چکنا چور کردئیے تھے۔۔۔
اوپر سے شرمندگی الگ کہ ایک ماسی کی بیٹی انکی بہو بن کر آئے گی تو وہ اپنے سرکل میں کس طرح سر اٹھا کر نکلیں گی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
عائلہ نے عینا کو دلہن کا روپ دینے کے لیے اس کے منع کرنے کے بادجود اس کا لائیٹ سا میک اپ کردیا تھا۔۔۔ساتھ تو وہ اپنے کچھ بھی لے کر نہیں آئی تھی اس لیے فجر کی جیولری میں سے ہی میچنگ جیولری ہائمہ خاتون نے اسے پہننے کو لا دی تھی
کریم کلر کے ڈریس میں ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ اس وقت احتشام شاہ کو آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی۔۔۔جو الّٰلہ نے اسکی کسی نیکی کے عوض صرف اس کے لیے زمین پہ اتاری تھی۔۔۔جو اسے چاروں شانے چت کر گئ تھی۔۔۔
وہ بے خود سا ہو کر اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے اس قدر قریب آنے پہ اور اسکی بےخودی محسوس کرتے اس نے جلدی سے پیچھے کو کھسکنا چاہا مگر اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے احتشام شاہ نے فوراً اسے اپنے بائیں بازو کے حصار میں لیتے ایک جھٹکے سے اسے اپنے مزید قریب کیا کہ وہ اس کے سینے سے آ لگی۔۔۔عینا کا شرم و حیا سے سرخ پڑتا چہرہ خون چھلکانے لگا۔۔۔احتشام شاہ نے مدہوش ہوتے اپنے دائیں بازو کو بھی اس کے گرد حائل کرتے اس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کی۔۔۔تو عینا جھٹپٹاتے ہوئے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اسے یہ سوچ بھی مارے دے رہی تھی کہ باہر کھڑے لوگ کیا سوچتے ہوں گے اس کے بارے۔۔۔اوپر سے احتشام شاہ کے جسم و جان کو سلگا دینے والے انداز۔۔۔
" پلیززز۔۔۔مجھے چھو کر محسوس کرنے دیں کہ یہ سچ ہے۔۔۔ مجھے یقین کرنے دیں کہ آپ پہ اب صرف میرا حق ہے اب سے آپ صرف میری ہیں۔۔۔مجھے یقین کرنے دیں کہ میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔۔۔"
احتشام شاہ نے مخمور لہجے میں عینا کو مزاحمت سے روکتے اسے خود میں زور سے بھینچتے اس کے وجود کی خوشبو کو پوری شدت سے انہیل کرتے کہا۔۔۔اس قدر قربت پہ عینا کا دل پوری قوت سے دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ایسا لگا جیسے ٹانگیں بے جان ہو رہی ہوں۔۔۔محبت کا پہلا انوکھا اچھوتا سا لمس اسکے پورے وجود میں اک عجیب سی سنسنی بھر گیا۔۔۔ایسے جیسے جسم و جان میں کوئی آگ دہک اٹھی ہو۔۔۔
ان حدوں سے کہ دو
کہ
کچھ دیر ہمیں اجازت دے دیں
رسم دنیا بھی ہے
دستور بھی اور موقع بھی
اور اس پہ
تیرے قرب کا نشہ بھی
جو
سر چڑھ کر ہے میرے بول رہا
کہ تمہیں چھو کر
محسوس کرنے کو
کہ تمہیں خود میں
جذب کرنے کو
اصول عشق میں تھوڑا
بے ایمان ہونے کو
تھوڑا گستاخ ہونے کو
یہ پاگل دل ہے مچل رہا
احتشام شاہ نے بے خود ہوتے جذبات سے چور لہجے میں اس کے بائیں کان کے پاس دھیرے سے سرگوشی کی۔۔۔
" آ۔۔آپ نے و۔۔وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھ پہ کوئی ح۔۔حق نہیں جتائیں گے۔۔۔پلیززز۔۔۔۔۔"
عینا نے اسکی جزبات سے چور آنکھوں کا فوکس اپنے ہونٹوں پہ دیکھ کر سر جھکائے لرزتے کپکپاتے ہوئے احتشام شاہ کو اس کی بات یاد کرواتے کہا۔۔۔احتشام شاہ کی فرمائش اسکی جان نکالے دے رہی تھی۔۔۔
" مجھے اپنی ہر بات ہر قول یاد ہے جاناں۔۔۔"
احتشام شاہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے خود کو سنبھالتے کہا۔۔۔نکاح جیسے پاکیزہ رشتے میں جڑنے کا خوبصورت احساس احتشام شاہ کے دل میں حق ملکیت جگا رہا تھا۔۔۔اس کا دل مزید گستاخیوں کے لیے اسے اکسا رہا تھا۔۔۔ عینا کے چہرے پہ خوف اور حیا کے ملے جلے رنگ دیکھ کر خود کو با مشکل اس نے کمپوز کیا اور اس کی پیشانی پہ محبت بھرا گہرا لمس چھوڑتے اپنی گرفت ڈھیلی کی مگر اپنے حصار سے آزادی پھر بھی نہیں بخشی۔۔۔جبکہ اس کے "جاناں " کہنے پہ اور محبت کے پہلے بوسے پہ عینا کی روح فنا ہوئی تھی۔۔۔بار حیا سے اپنا جھکا سر وہ مزید جھکا گئ۔۔۔اس کے وجود کی لرزش احتشام شاہ کو بے چین کر گئ۔۔۔
" احتشام شاہ اپنے وعدے اپنی زبان سے پھرنے والے مردوں میں سے ہرگز نہیں ہے میں اپنا دیا ہر قول اپنی آخری سانس تک نبھاؤں گا۔۔۔
میں آپ کو چھو کر بس یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔۔۔مگر پتہ نہیں کیا بات ہے کہ چھو کر بھی یقین نہیں آ رہا۔۔۔
میرے یہاں چٹکی کاٹنا ذرا۔۔۔"
اسے آہستہ سے خود سے الگ کرتے احتشام شاہ نے بظاہر سنجیدگی سے کہا۔۔۔اس سے الگ ہوتے ہی اپنے دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتے عینا نے دو قدم پیچھے کو ہوتے ہوئے اس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے حیران ہوکر ایک پل کو اس کی طرف دیکھا۔۔۔مگر دوسرے پل احتشام شاہ کی آنکھوں میں ناچتی شرارت دیکھ کر اسکی بات کا مطلب سمجھتے اپنی مسکراہٹ روکتے فوراً اپنی نظریں پھیر گئ۔۔۔اور آگے بڑھ کر ہلکا سا دروازہ کھول دیا۔۔۔
" آہہہہہ۔۔۔کاش کہ جو آگ اس دل میں لگی ہے وہ آپکے دل میں بھی لگی ہوتی تو آپکو اندازہ ہوتا کہ کس طرح سے جل رہا ہوں میں۔۔۔اتنا پاس آ کر بھی اتنی دوری۔۔۔"
احتشام شاہ نے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ نوٹ کرتے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھتے اپنے اور اس کے بیچ میں قائم فاصلے پہ چوٹ کرتے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔
" فلحال تو آپ اس آگ سے کہیں کہ وہ ٹھنڈی ہی رہے۔۔۔مجھے اب واپس جانا ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ بابا کو ہم سب بہنوں کی غیر موجودگی کا پتہ چلے۔۔۔اور دوسری بات کہ میں آپکی بیوی نہیں ہوں صرف منکوحہ ہوں۔۔۔ابھی میری رخصتی نہیں ہوئی اس کے لیے آپ کو ماما کے ہوش میں آنے کا ویٹ کرنا ہوگا۔۔۔
عینا باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھتے ہو سنجیدگی سے بولی۔۔۔
" عینا۔۔۔۔"
احتشام شاہ نے اسے پکارا تو اس کے لہجے میں بشاشت مقفود تھی۔۔۔عینا نے حیران ہو کر پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔
" کیا آپ اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔۔۔"؟
احتشام شاہ نے عینا کی طرف دیکھتے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔"
آپکو ایسا کیوں لگا۔۔۔"؟
عینا نے تعجبب خیز لہجے میں پوچھا۔۔۔
" آپ کو پا کر میرے دل میں جس طرح سے سکون مسرت کے احساسات جاگزیں ہیں ایسا لگ رہا جیسے آپ کوئی فرض نبھا رہی ہیں۔۔۔آپ مجھ سے کترا رہی ہیں۔۔نظر انداز کر رہی ہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے دھیرے سے اس کے پاس آ کر کہا۔۔۔
" سچ کہوں تو اپنی فیلنگز میں خود نہیں سمجھ پا رہی۔۔۔اس وقت عائلہ آپی کے سوا مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔۔۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ اپنا نام میں نے پورے دل سے دل کی مرضی سے جوڑا ہے میں آپکو نظر انداز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔میں عائلہ آپی جیسی نہیں ہوں۔۔۔اگر مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہوتی تو اس کے لیے مجھے کوئی مجبور نہیں کرسکتا تھا۔۔۔نہ بابا ، نہ آپ۔۔۔کوئی بھی نہیں۔۔۔شائد ہی کسی لڑکی نے آج تک اس طریقے سے نکاح کیا ہو۔۔۔محبت کا تو نہیں پتہ لیکن آپ پہ مان اور بھروسہ تھا جس کی ڈور سے بندھ کر میں چلی آئی۔۔۔بنا یہ سوچے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔آپ کے گھر والے کیا سوچیں گے۔۔۔میرے نزدیک محبت سے پہلے آپ کا کسی پہ بھروسہ ہونا ہے۔۔۔یقین اور بھروسہ ہی ہر رشتے کی پہلی سیڑھی ہے۔۔۔محبت کی بھی۔۔۔اور میں نے آپ پہ یقین کیا ہے بھروسہ کیا ہے۔۔۔"
عینا نے نپے تلے مگر قدرے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
" ہمممم۔۔۔۔میرے لیے آپکا مجھ پہ بھروسہ ہی بہت ہے۔۔۔باقی محبت کرنا آپکو میں سکھا دوں گا میں آپکے وجود میں اپنی محبت اس قدر بھر دوں گا کہ میری سبھی مرضیاں آپکی مرضی بن جائیں گی۔۔۔"
احتشام شاہ نے اس کے چہرے پہ آئی لٹ کو پھونک مار کر اڑاتے ذو معنی لہجے میں کہا تو حیا کی تپش سے عینا کا چہرہ سرخ ہوا وہ بےاختیار اپنی نظریں جھکا گئ۔۔۔
" فلحال آپکے حکم کے مطابق آپکے گھر آپکی اجازت کے بنا نہیں آ سکتا اور یہاں اپنے اس گھر آپ رخصتی سے پہلے اب دوبارہ آپ قدم نہیں رکھیں گی ۔۔۔مگر ہم باہر تو مل سکتے ہیں ناں۔۔۔
آں۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔انکار مت کیجیے گا۔۔۔میری کال کا ویٹ کیجے گا۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی احتششام شاہ نے پرانی جون میں آتے مسکرا کر کہا۔۔۔اور ساتھ ہی اسے جانے کی اجازت بھی دی۔۔۔
" آپ محبت کے آداب سے بلکل ناواقف ہیں عین۔۔۔کیا آپ نہیں جانتیں کہ رخصت ہونے سے پہلے اپنے محب کو اپنے شوہر کو کوئی سوغات دے کر جاتے ہیں۔۔۔"
وہ دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر نکلنے لگی اسے اپنے پیچھے احتشام شاہ کی آواز سنائی دی۔۔۔تو اس نے وہیں کھڑے کھڑے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا جو آنکھوں میں شرارت لیے پرشوق نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔"
" میرے پاس تو کچھ بھی نہیں آپکو دینے کو۔۔۔آپ جانتے ہیں میں خالی ہاتھ آئی تھی۔۔۔"
عینا احتشام شاہ کی بات کا مطلب سمجھے بنا معصومیت سے بولی۔۔۔
" میں کسی مادی چیز کی بات نہیں کر رہا۔۔۔یہ بندہ بڑے بڑے اور مہنگے تحفوں سے نہیں بلکہ آپ کی ایک محبت بھری مسکراہٹ سے ، ایک پیار بھرے ہگ سے ، ایک چھوٹی سی میٹھی سی کس سے ہی خوش ہو جائے گا۔۔۔بے شک آزما لیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے اب کے کھل کر مسکراتے عینا کو وارفتگی سے تکتے کہا۔۔۔تو عینا کا چہرہ حیا آلود ہوا تھا۔۔۔وہ کانوں تک سرخ ہوئی تھی۔۔۔
" ہمارا ابھی صرف نکاح ہوا ہے اس لیے مجھ پہ حقوق و فرائض کی کوئی شق واجب االعمل نہیں ہوتی۔۔۔البتہ مسکرانے میں کوئی ہرج نہیں۔۔۔یہ لیں۔۔۔"
عینا سنجیدگی سے کہتے اچانک آخر میں شرارتی لہجے میں کہ کر ہنستے ہوئے فوراً روم سے باہر نکل گئ۔۔۔
" میری شیرنی۔۔۔یہ تو میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا کہ کون کونسی شقیں آپ پہ لاگو ہوتی ہیں۔۔۔"
احتشام شاہ بڑبڑایا۔۔۔پھر کچھ سوچ کر ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا۔۔۔
" عائلہ ایک بار پھر سوچ لو بیٹا۔۔۔میرا صارم بہت چاہتا ہے تمہیں ۔۔۔اور سچ تو بھی ہے کہ ہم سب کی بھی یہی خواہش ہے۔۔۔اس کا نام تمہارے نام کے ساتھ جڑ جائے گا تو دلاور کیا کوئی بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔
اب عینا کو ہی دیکھ لو۔۔۔اگر وہ ہمت نہیں کرتی تو شائد آج یہ خوشی ہمارا مقدر نہیں ہوتی۔۔۔بس ایک بار تم ہاں کہ دو۔۔۔باقی سب ہم دیکھ لیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے عائلہ کو ایک بار پھر سے سمجھانے اور منانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔اس وقت وہ اور عائلہ فجر کے روم میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ صارم شاہ اور شاہ سائیں مردان خانے میں نکاح میں بلائے گئے چند خاص الخاص لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
" آنٹی پلیزز۔۔۔بابا نے جہاں میرا رشتہ تہ کیا ہے میں وہاں خوش ہوں اور ضروری نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو جائے ہر کوئی عینا کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا۔۔۔ اب کچھ نہیں سوچنا مجھے اور نہ کچھ کرنا ہے۔۔۔ جب جب بھی جس جس نے بھی اس فیصلے کے خلاف جانے کی کوشش کی منہ کی کھائی۔۔۔ہمارے حصے میں صرف دکھ درد ہی آیا۔۔۔جو کام جو بات انسانی قدرت سے باہر نظر آئے وہ الّٰلہ پاک پہ چھوڑ دینی چاہیے جو میری قسمت میں لکھا ہے وہ ہر حال میں مجھے مل کر رہے گا میرا دل اس کے لیے راضی ہو یا نہ ہو۔۔۔اس لیے قسمت سے لڑنے کی بجائے میں راضی با رضا ہو گئ ہوں۔۔۔آپ بھی اس بات کو اب چھوڑ دیں۔۔۔اور پلیز چھوٹے شاہ کو سمجھائیں کہ قسمت سے لڑنا چھوڑ دیں اپنا وقت برباد مت کریں اور میرے راستے میں مت آئیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔اگر وہ اپنی ضد پہ قائم رہے تو ایک ایسا طوفان آئے گا جو شائد بہت سے لوگوں کی زندگیاں نگل جائے۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔"
عائلہ نے نگاہیں نیچی کیے دھیرے سے ملتجی لہجے میں کہا اور پلکیں جھپک کر آنکھوں میں آئی نمی دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔دلاور کے لہجے ، اس کی باتوں اور اسکے جنون نے اسے خوفزدہ کردیا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کا بھی خون بہے اس لیے بہتر یہی تھا کہ وہ چپ چاپ اپنے بابا کے حکم کے آگے سر جھکا کر دلاور کے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں لگا لیتی ۔۔۔اس کے لہجے میں ہائمہ خاتون کو ٹوٹے کانچ کی کرچیاں محسوس ہوئی تھیں جن سے وہ سب کو بچا کر بس خود کو زخمی کرنے کی ٹھان چکی تھی۔۔۔بے اختیار انھوں نے دل ہی دل میں الّٰلہ سے اسکی خوشیوں کی دعا کرنے کے ساتھ اپنے بیٹے صارم شاہ کے لیے اسے مانگا تھا۔۔۔
انکا بس چلتا تو احتشام کے ساتھ ساتھ وہ صارم کا بھی نکاح پڑھوا دیتیں۔۔۔مگر عائلہؤو
اس موضوع پہ بات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔۔
" ماما آپکو بابا بلا رہے ہیں۔۔۔"
صارم شاہ نے دروازے میں کھڑے ہو کر ہائمہ خاتون کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔ہائمہ خاتون عائلہ سے اپنے ابھی واپس آنے کا کہ کر باہر نکل گئیں۔۔۔انکے جانے کے بعد صارم شاہ یونہی دروازے میں کھڑا ہو کر شوخ نظروں سے عائلہ کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔عائلہ اسکی نظروں کو خود پہ مرتکز پا کر جزبز ہونے لگی۔۔۔
" میں عینا کو دیکھ لوں۔۔۔کافی دیر ہو گئ ہے ہمیں اب چلنا چاہیے۔۔۔"
عائلہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
" کیا ہم دو منٹ بات کر سکتے ہیں پلیززز۔۔۔"
صارم شاہ نے جب دیکھا کہ وہ اسے نظر انداز کرکے بھاگنے کا ارادہ رکھتی ہے تو جلدی سے الجائیہ لہجے میں بولا۔۔۔
" جی بولیے۔۔۔"
عائلہ نے مختصر الفاظ میں ہامی بھرتے تقریباً روکھے لہجے میں کہا۔۔۔اس کے لہجے پہ صارم شاہ نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا۔۔۔جس کے چہرے اور لہجے میں اپنائیت کا شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔
بس اک بار میری آنکھوں میں دیکھ
اے میری زندگی
اور کہ دے
کہ ہم تیرے قابل نہیں
قسم ہے تیری ان حسین آنکھوں کی
تیرے اس تابناک چہرے کی
تیری اس پاکیزگی کی
کہ جس پہ میں ہوں مر مٹا
یہ عشق اسی پل
تیرے قدموں کی خاک بن کر
خاک میں مل جائے گا
تیری اس دنیا سے ہی چلا جائے گا
صارم شاہ انتہائی جزب سے کہتا عائلہ سے کچھ فاصلے پہ آ کھڑا ہوا۔۔۔صارم شاہ کے ادا کیے گئے ہر لفظ میں اس کے دل کا درد پنہاں تھا جس میں دکھ کے ساتھ ہزار شکوے بھی مچل رہے تھے۔۔۔
بولیے عائلہ جی۔۔۔جواب دیجیے میری بات کا۔۔۔کیوں کیا آپ نے ایسا۔۔۔آپ کو ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ میرے سامنے کھڑے ہو کر دلاور کا ہاتھ تھامیں گی تو مجھ پہ کیا گزرے گی۔۔۔
کیا کبھی ایک لمحے کو بھی میری محبت ، میری تڑپ نے آپکے دل کو نہیں چھوا۔۔۔بولیے۔۔۔ جواب دیجیے میری بات کا۔۔۔"
صارم شاہ کا لہجہ یکدم تلخ ہوا تھا۔۔۔عجیب بے بسی و بے بسی تھی۔۔۔
" کتنی بار کہوں کہ نہیں محبت کرتی میں آپ سے۔۔۔کیوں بار بار میرے راستے میں آ رہے ہیں۔۔۔یہ دیکھیں ہاتھ جوڑتی ہوں آپکے آگے چھوڑ دیں پیچھا میرا۔۔۔"
عائلہ نے باقاعدہ صارم شاہ کے آگے ہاتھ جوڑتے روہانسے لہجے میں کہا۔۔۔
" محبت تو آپ کرتی ہیں عائلہ جی۔۔۔اور بہت جلد آپ خود اس بات کا مجھ سے اقرار کریں گی۔۔۔رہی بات آپ کا پیچھا چھوڑنے کی تو اس کے لیے دعا کریں کہ میں مر جاؤں۔۔۔کیونکہ جیتے جی تو یہ ہو نہیں سکتا۔۔۔"
صارم شاہ نے انتہائی ضبط کرتے گھمبیر لہجے میں کہا اور اس پہ ایک جتاتی گہری نظر ڈال کر تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔
" کیا بات ہے ہائم۔۔۔آپ کچھ پریشان ہیں۔۔۔ آج تو آپکو بہت خوش ہونا چاہیے تھا۔۔۔آپکے ایک بیٹے کا دل ویران ہونے سے بچ گیا۔۔۔ویسے ماننا پڑے گا کہ آپکی بڑی بہو سچ میں بڑی بہو کہلانے کی حقدار ہیں۔۔۔بہت دلیر اور بہادر ہے عینا بیٹی۔۔۔مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ ان حالات میں وہ اتنا بڑا فیصلہ کر گزریں گی۔۔۔"
شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
" ٹھیک کہ رہے ہیں آپ مجھے بھی توقع نہیں تھی۔۔۔بس اب صارم بیٹے کی فکر دل کو پریشان کر رہی ہے۔۔۔الّٰلہ ہمارے بچوں کو دونوں جہاں کی خوشیاں عطا فرمائے۔۔۔ہمیشہ انکو اپنی پناہ میں رکھے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے تائیدی انداز میں سر ہلاتے کہا۔۔۔
" ویسے دیکھ لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کلاں کو آپکی یہ بہادر بہو آپکے بیٹے کو لے اڑے یا پھر یہ گھر کوئی اکھاڑہ بن کر رہ جائے۔۔۔"
شاہ سائیں ہنستے ہوئے شرارت سے بولے۔۔۔
" ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔جو انسان اپنے رشتوں کی فکر میں انکی محبت میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرے ، اپنی خوشیوں سے زیادہ اپنوں کی فکر اسکے دامن گیر ہو ، انکے سکون و خوشی کے لیے اپنی ذات کی نفی کردے وہ انسان ہیرا ہوتا ہے۔۔۔الّٰلہ نے اسے ہیرے جیسا دل دیا ہوتا ہے۔۔۔وہ کہیں بھی چلا جائے اسکی ذات میں دوسروں کے لیے صرف خیر ہی خیر ہوتی ہے۔۔۔اور مجھے اپنے بیٹوں کی پسند پہ فخر ہے جنہوں نے ظاہری حسن و جمال اور دولت کو نہیں کردار کو اہمیت دی ہے۔۔۔
میری بہو کے آتے ہی اس گھر میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔۔آپ دیکھ لیجیے گا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے عینا کے لیے اپنے لب و لہجے میں محبت سموئے کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔۔میں دین محمد سے کہ دیتا ہوں کہ میرا بستر مستقل طور پہ باہر مردان خانے میں لگا دے۔۔۔"
شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
" ہائیں۔۔۔وہ کس لیے۔۔۔یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے حیرانگی سے کہا۔۔۔
" بھئ ابھی آپکی بہو نے اس گھر میں قدم نہیں رکھا اور آپ نے اپنی پارٹی بدل لی ہے۔۔۔جب وہ آ جائے گی تو پھر تو آپ ہماری طرف دیکھیں گی بھی نہیں اور نہ ہماری کچھ سنیں گی ہی۔۔۔اس لیے بہتر ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے ہم خود ہی کنارہ کر لیں۔۔۔"
شاہ سائیں ٹھنڈی سانس بھر کر دکھی لہجے میں بولے۔۔۔
" آپ بھی نہ حد کرتے ہیں۔۔۔آج تک آپکو تنہا چھوڑا ہے جو اب چھوڑوں گی۔۔۔مرنے سے پہلے آپکی جان مجھ سے نہیں چھوٹے گی۔۔۔ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون خفگی سے بولیں۔۔۔
" ہائم کتنی بار کہ چکے ہیں کہ ہمارے سامنے اپنے مرنے کی بات مت کیا کریں۔۔۔ہم آپکو چھیڑ رہے تھے۔۔۔اور آپ سنجیدہ ہو گئیں۔۔۔"
شاہ سائیں اب سچ میں ناراض لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔کچھ پل کو انکے بیچ خاموشی کا راج رہا۔۔۔پھر اس خاموشی کو شاہ سائیں نے ہی توڑا۔۔۔
" فجر بیٹی اور آئمہ کو سب حالات سے آگاہ کردیا تھا کیا آپ نے۔۔۔"
شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
" جی کریا تھا اور ساتھ میں جو کچھ یہاں ہوا وہ سب بھی بتا دیا تھا تاکہ انکے دل میلے نہ ہوں۔۔۔سب جان کر بہت خوش ہو رہی تھیں وہ دونوں۔۔۔کچھ دن تک چکر لگائیں گے وہ سب لوگ۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
" افتخار بھائی اور خاندان کے کچھ اور لوگوں کو میں نے بھی آگاہ کردیا تھا۔۔۔اپنی مجبوری اور انکو نہ بلانے کی وجہ سے بھی آگاہ کردیا تھا۔۔۔افتخار بھائی ناراض سے ہو گئے تھے۔۔۔اور یہ کہ ہم نے انکی بیٹی پہ پرائی بچی کوئی ترجیح دی۔۔۔شائد اب خاندان میں ایک نیا محاذ کھلنے والا ہے ہمارے خلاف۔۔۔جس جس کو بھی پتہ چلے گا وہ اس بات کو لے کر چپ نہیں رہے گا۔۔۔بہت سے لوگوں کے دل میں ہمارے بچوں کو لے کر ایک آس تھی۔۔۔اور جب آس ٹوٹے تو بندہ چپ کہاں رہتا ہے پھر۔۔۔"
شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
" آپ پریشان مت ہوں۔۔۔ہم پہلی فرصت میں افتخار بھائی کی طرف چکر لگائیں گے۔۔۔اور ان سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں گے۔۔۔وہ آپکے بھائی ہیں وقتی طور پہ ان کا دل دکھا ہوگا مگر مجھے یقین ہے وہ زیادہ دیر ناراض نہیں رہیں گے۔۔۔باقی لوگوں کے بارے میں سوچ کر آپ پریشان نہ ہوں ہمارے لیے ہمارے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔شادی پہ ہم خاندان کے سبھی افراد کو مدعو کریں گے جو ناراض ہیں انکے گھر خود جاکر دعوت دے کر آئیں گے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے تسلی و تشفی دیتے رسانیت سے کہا۔۔۔
" اب آپ کدھر جا رہی ہیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون اٹھ کر جانے لگیں تو شاہ سائیں نے پوچھا۔۔۔
" ہم عشاء کی نماز پڑھ لیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
" تو ادھر پڑھ لیں۔۔۔باہر کدھر جا رہی ہیں۔۔۔"
شاہ سائیں حیران ہوتے بولے
" شاہ آج ہمیں الّٰلہ سے کچھ خاص مانگنا ہے آج ہمیں کچھ خاص مناجات کرنی ہیں۔۔۔آج دل چاہ رہا ہے کہ جب ہم الّٰلہ سے بات کریں تو ہمارے پاس کوئی نہ ہو۔۔۔آپ سو جائیں ہم اپنی عبادت سے فارغ ہو کر آ جائیں گے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے سنجیدگی سے کہا اور جائے نماز پکڑ کر باہر نکل گئیں۔۔۔آج جہاں اپنے ایک بیٹے کے لیے وہ بے حد خوش اور مطمئین تھیں تو دوسرے بیٹے کے لیے وہ اتنا ہی پریشان۔۔۔
" اے میرے رب۔۔۔اے دلوں کے مخفی و ظاہری بھید جاننے والے۔۔۔اے مالک کائنات۔۔۔میں تیری ادنیٰ و گنہ گار بندی تیری بارگاہ میں اپنے بیٹے کی خوشیوں کی بھیک مانگتی ہوں۔۔۔
اے میرے رب تو ہر چیز پہ قادر ہے۔۔۔اے پاک پروردگار رشید احمد کو ہدایت عطا فرما۔۔۔اس کے دل میں اپنی بچیوں اور بیوی کے لیے رحم اور شفقت بھردے۔۔۔اے پاک پروردگار مہرالنساء بہن کو شفائے کاملہ عطا فرما۔۔۔اس کو صحت و تندرستی عطا فرما۔۔۔
اے پاک پروردگار مہرالنساء بہن کی بیماری کو صحت کی نعمت سے بدل دے۔۔۔اسے ٹھیک کردے۔۔۔
اے اندھیری راہوں کو روشن کرنے والے۔۔۔دلوں میں موجزن ناامیدی کو ختم کرکے امید کی روشنی بھرنے والے۔۔۔میرے بیٹے صارم شاہ کی زندگی کے سب اندھیرے دور کردے۔۔۔اے پاک روردگار میرے بیٹے کی خوشیاں عائلہ بیٹی سے جڑی ہیں۔۔۔اپنی زندگی کو اپنی سانسوں کو وہ اس سے جوڑ بیٹھا ہے۔۔۔اے پاک پروردگار ان دونوں کے راستے ایک کردے۔۔۔
اے پاک پروردگار جہاں سے تیرے بندوں کی بے بسی و لاچاری شروع ہوتی ہے وہیں سے تیری رحمت کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔یا الّٰلہ ہم تیرے بے بس اور لاچار بندے تجھ سے تیری رحمت کا سوال کرتے ہیں۔۔۔ہم پہ رحم فرما۔۔۔
اے پاک پروردگار جب جب بھی تیری اس بندی نے تجھ سے سوال کیا تونے اس بندی کے ہزار گناہوں کے باوجود عطا کیا۔۔۔
اے پاک پروردگار اپنی اس بندی پہ رحم فرما اپنا کرم فرما اپنا فضل فرما۔۔۔اے پاک پروردگار میرے بیٹے صارم شاہ کو اس کی خوشیاں عطا فرما دے۔۔۔
یاالّٰلہ میرے شوہر کو نازنین سے ملوا دے۔۔۔وہ جہاں کہیں بھی ہے اسے اور اسکی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔۔۔یاالّٰلہ اس تک پہنچنے کے راستے کھول دے شاہ کو اس تک پہنچا دے یا انکو ہم تک پہنچا دے۔۔۔
اے پاک پروردگار ہم نے آج تک کبھی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔۔۔کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔۔۔کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا۔۔۔لیکن اگر انجانے میں ہم نے کسی کا دل دکھایا ہے یا کسی کے ساتھ زیادتی کر بیٹھے ہیں تو ہمیں معاف کردے اور اسکی سزا میرے بیٹے کو اس کی خوشی سے دور رکھ کر نہ دینا۔۔۔یا الّٰلہ ہم پہ وہ بوجھ نہ ڈال جسے ہم اٹھا نہ سکیں۔۔۔اے پاک پروردگار میرے شوہر کی مدد فرما انھیں نازنین سے ملوا دے۔۔۔
اے پاک پروردگار ہمارے عزیز و اقارب میں جو بھی اپنے گھروں میں پریشان ہے سب کی مدد فرما سب کے رستے آسان فرما۔۔۔
آمین۔۔۔یا رب العالمین۔۔۔۔
ہائمہ خاتون جب بھی پریشان ہوتیں تو رات کی نماز ہمیشہ تنہائی میں سب کے سو جانے کے بعد ادا کرتیں۔۔۔ایسا کر کے انکو لگتا تھا کہ ان کے اور الّٰلہ کے بیچ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔۔۔وہ ایسا کرکے خود کو الّٰلہ کے بہت قریب محسوس کرتی تھیں۔۔۔انکو الّٰلہ اپنے بہت قریب محسوس ہوتے تھے۔۔۔اس وقت بھی چھت پہ وہ الّٰلہ سے راز و نیاز میں مشغول تھیں چاند کی مدھم مدھم سی دل دماغ کو تراوت دیتی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔وہ رو رو کر گڑ گڑا کر الّٰلہ سے اپنے بیٹے اور شوہر کی خوشی کی فریاد کر رہی تھیں۔۔۔
" ماما۔۔۔۔"
ہائمہ خاتون دعا سے فارغ ہوئیں تو صارم شاہ نے انھیں پکارا۔۔۔وہ نہ جانے کب سے چھت پہ ایک اندھیرے کونے میں بیٹھا ہوا اپنی ماں کو الّٰلہ کے حضور فریاد کرتا سن رہا تھا۔۔۔
" صارم۔۔۔آپ ادھر اس وقت۔۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔کیا بات ہے سوئے نہیں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے حیران ہوتے اسکی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔تو صارم شاہ انکی گود میں سر رکھ کر وہیں جائے نماز پہ لیٹ گیا۔۔۔۔
" ماما نیند نہیں آ رہی تھی تو اس لیے اوپر آ گیا۔۔۔چھت پہ کھڑے ہو کر تازہ کھلی ہوا میں دور تک اس خاموشی میں دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
کچھ دیر یونہی اکیلے رہنے کو دل کر رہا تھا۔۔۔"
صارم شاہ نے اپنے لہجے میں بشاشت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتے کہا۔۔۔مگر ہائمہ خاتون ماں تھیں اپنے بیٹے کے لہجے میں ٹوٹ پھوٹ ان سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔
" صارم۔۔۔۔تم رو رہے ہو۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔میری جان بولو کیا ہوا ہے۔۔ کیا عائلہ نے کچھ کہا ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون اسکے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگیں اور جیسے ہی انکا ہاتھ اس کے چہرے پہ آیا تو گالوں پہ آنسوؤں کی نمی محسوس کرتے تڑپ کر بولیں۔۔۔
" ماما۔۔۔مجھ میں کسی چیز کی کمی ہے کیا۔۔۔"
صارم شاہ نے ٹوٹے لہجے میں پوچھا۔۔۔
" نہیں میری جان۔۔۔میرے بیٹے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔۔۔نہ شکل و صورت میں نہ کردار میں۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے محبت سے اس کے سر پہ بوسہ دیتے کہا۔۔۔
" تو پھر وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔۔۔بار بار میں اسکے سامنے کاسہ محبت لے کر کھڑا ہوتا ہوں۔۔۔اپنی انا اپنی خوداری کو نظر انداز کرکے اس سے محبت کی بھیک مانگتا ہوں۔۔۔اس کے سامنے تڑپتا ہوں۔۔۔اپنا دل کھول کر دکھاتا ہوں۔۔۔مگر وہ پتھر بنی ہوئی ہے۔۔۔میں کیا کروں ماما۔۔۔میں اس سے دور جانے کا سوچتا ہوں تو میری سانس اکھڑنے لگتا ہے۔۔۔دم گھٹنے لگتا ہے۔۔۔
وہ کہتی ہے میرے راستے میں مت آؤ۔۔۔مگر میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ میری زندگی کا ہر راستہ اسی پہ آ کے ختم ہوتا ہے۔۔۔
ماما جتنی محبت میں اس سے کرتا ہوں۔۔۔وہ مجھ سے کیوں نہیں کرتی۔۔۔اس کو وہ دلاور مجھ سے زیادہ اچھا لگتا ہے کیا۔۔۔"
صارم شاہ نے بھاری لہجے میں کہا۔۔۔بار بار عائلہ کے انکار پہ وہ بدگمان ہو رہا تھا۔۔۔کبھی اس کا دل کہتا کہ یہ جھوٹ ہے اور کبھی کہتا کہ یہی سچ ہے۔۔۔ورنہ وہ اس کا ہاتھ تھام لیتی۔۔۔بلکل عینا کی طرح جیسے کسی بات کی پرواہ کیے بنا اس نے احتشام کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔
" وہ پتھر نہیں ہے بیٹا۔۔۔وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔مگر تھوڑی سی بزدل ہے۔۔۔ہر لڑکی عینا کی طرح دلیر نہیں ہوتی۔۔۔عائلہ ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے بیٹا جن کے لیے انکی محبت ہر رشتے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔۔۔نہ ماں باپ کی پرواہ نہ بھائی کی غیرت کی حیا۔۔۔
وہ ان لڑکیوں میں سے ہے جو اپنے رشتوں کے لیے اپنی ہر خوشی سے اپنی محبت سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔۔۔
ایسی لڑکیوں کا ساتھ قسمت والوں کو ملتا ہے۔۔۔
عائلہ سے بدگمان مت ہو بیٹا۔۔۔اپنا اور اس کا معاملہ الّٰلہ پہ چھوڑ دو۔۔۔الّٰلہ پہ بھروسہ رکھو۔۔۔اور مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر عائلہ کی شادی دلاور سے ہو حاتی ہے تو تم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاؤ گے جو ساری عمر کے لیے تمہارے ماں باپ کی آنکھوں میں آنسو بھر دے۔۔۔مجھ سے وعدہ کرو بیٹا۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کے سر میں اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے مان سے کہا۔۔۔
" ماما میں اس سے وعدہ کر چکا ہوں کہ میری سانسیں اسکے نکاح سے بندھی ہیں جس دن دلاور سے نکاح ہوا یہ سانسیں بند۔۔۔"
صارم شاہ نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا اور اپنا چہرہ موڑ گیا۔۔۔
" صارم شاہ۔۔۔تمہاری ان سانسوں پہ ، تمہارے اس وجود پہ صرف تمہارے ماں باپ کا حق ہے۔۔۔9 ماہ کس طرح سے سینت سینت کر میں نے تمہیں اپنے وجود میں رکھا پھر پیدا کیا۔۔۔اس دوران میری ایک ہلکی سی تکلیف کا بھی اگر تم حق ادا کردو تو میں تمہیں آزاد کرتی ہوں تم عائلہ سے اپنا کیا وعدہ نبھا سکتے ہو۔۔۔
ہائمہ خاتون کے " صارم شاہ " کہنے پہ اس نے تڑپ کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔وہ جب بھی اپنے بچوں سے کسی بات پہ ناراض ہوتیں تو " بیٹے " کا لفظ حذف کر کے نام کے ساتھ شاہ لگا کر پکارتیں تھیں اس وقت بھی صارم شاہ کی بات انکو تکلیف دے گئ تھی۔۔۔
" ایسے مت دیکھو میری طرف۔۔۔میں نے صرف لفظ بیٹا چھوڑا تو تم سے برداشت نہیں ہوا۔۔۔پھر تم نے کیسے جرأت کی کہ ماں کے سامنے بیٹھ کر اپنی سانسیں بند ہونے کی بات کرو۔۔۔اپنی جان لینے کی بات کرو۔۔۔ایک بات یاد رکھنا صارم شاہ اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا تو اس گھر سے ایک نہیں دو جنازے اٹھیں گے۔۔۔تمہاری یہ ماں بھی جی نہیں پائے گی۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے رقت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
" ماما۔۔۔معاف کردیں۔۔۔پلیزززز۔۔۔میرے لیے آپ کے حکم سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔میری زندگی پہ میری ہر سانس پہ صرف آپکا حق ہے۔۔۔میں آج ابھی اسی وقت اپنی زبان سے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتا ہوں۔۔۔
صارم شاہ نے اپنی ماں کے ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوئے کہا۔۔۔مگر ایسا کرتے ایسا کہتے بے آواز آنسو اس کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
" جس محبت کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جان دینی پڑے وہ محبت نہیں ہوتی بیٹا۔۔۔عشق سچا ہو تو محبوب کے دل میں وہ نقب لگا کر رہتا ہے۔۔۔محبت اپنا رستہ خود بنا لیتی ہے۔۔۔
اور اگر ایسا نہ ہو تو سمجھ جاؤ بیٹا کہ تم اس محبت کے قابل نہیں یا پھر وہ تمہارے پیار کے لائق نہیں۔۔۔راضی با رضا ہو جاؤ بیٹا۔۔۔جیسے عائلہ ہو گئ ہے۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے کہا۔۔۔
" ماما کیا عائلہ نے آپ سے کچھ کہا۔۔۔میرا مطلب کوئی ایسی بات جس سے آپکو لگا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے آس بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔
" شرم تو نہیں آتی۔۔۔اپنی ماں سے کیسے بے شرمی سے ایک لڑکی سے محبت کا اظہار کر رہے ہو۔۔۔"
ہائمہ خاتون نے صارم شاہ کے سر پہ ہلکے سے ایک چپت لگاتے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
" میں کونسا ماں سے کہ رہا ہوں۔۔۔میں تو اپنی دوست سے بات کر رہا ہوں۔۔۔جو میری اس دنیا میں واحد بیسٹی ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
" اس نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔۔۔مگر کبھی کبار انسان کا لہجہ سب عیاں کردیتا ہے۔۔۔وہ تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔مگر پے در پے عجیب و غریب حالات نے شائد اسے خوفزدہ کردیا ہے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
" عائلہ بیٹا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔بڑی دیر لگا دی تم لوگوں نے۔۔۔اور عینا کے ہاتھ میں یہ کنگن۔۔۔۔۔"؟
گھر واپسی پہ سکینہ خالہ انکی والدہ کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔عینا انکو سلام کرنے کے بعد سیدھی اپنے روم میں چلی گئ جبکہ وہ انکے پاس آ کر اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھ گئ۔۔۔نکاح کا جوڑا اور میچنگ جیولری عینا وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔البتہ واپسی پہ ہائمہ خاتون نے اپنی کلائی سے دو سونے کے کنگن اتار کر شگن کے طور پہ اس کی کلائی میں پہنا دئیے تھے۔۔۔جو ابھی بھی اسکے ہاتھ کی زینت بنے ہوئے تھے۔۔۔سکینہ خالہ کی نظروں سے جو چھپے نہ رہ سکے۔۔۔تجسس کے مارے حیران ہو کر وہ عائلہ سے پوچھ بیٹھیں۔۔۔
عائلہ کو ان سے کچھ بھی چھپانا مناسب نہیں لگا۔۔۔شاہ سائیں کے گھرانے کے بعد وہ واحد عورت تھیں جو انکے ساتھ کھڑی تھیں۔۔۔عائلہ نے کانٹ چھانٹ کر ساری بات سے انکو آگاہ کردیا۔۔۔جسے سن کر وہ بے حد خوش ہوئیں تھیں۔۔۔اور ڈھیروں ڈھیر دعائیں دینے لگیں۔۔۔
" چلو شکر ہے مہرو کی ایک بیٹی تو اپنے باپ کے نشے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئ۔۔۔
بیٹا کچھ دیر پہلے تمہارے خالو آئے تھے وہ بتا رہے تھے کہ رشید احمد ہماری طرف آیا تھا کہ دو دن بعد جمعہ کو نکاح ہے تمہارا دلاور سے۔۔۔یہ بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی اسے۔۔۔مہرالنساء کے ٹھیک ہونے کا تو انتظار کر لیتا ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔عقل گھاس چرنے چلی گئ ہے اس کی۔۔۔کاش کہ میں تمہارے لیے کچھ کر پاتی۔۔۔"
سکینہ خالہ نے تلخ ہوتے کہا۔۔۔
" خالہ آپ دعا کردیا کریں ہمارے لیے بس۔۔۔ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔عینا کا نکاح احتشام شاہ کے ساتھ ہونے کے بعد اب مجھے کوئی غم کوئی دکھ نہیں ہے۔۔۔میں بہت خوش ہوں۔۔۔ماما ہوش میں ہوتیں تو وہ بھی بہت خوش ہوتیں۔۔۔"
عائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔اپنے سبھی معاملات الّٰلہ پہ چھوڑنے کے بعد وہ سچ میں اب بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔ذہنی طور پہ وہ دلاور کے ساتھ نکاح کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔۔۔بس افسوس اس بات کا تھا کہ جب اس کی ماں ہوش میں آئے گی تو ان پہ کیا گزرے گی۔۔۔جہاں ایک بیٹی کے لیے خوش ہوں گی تو دوسری کے لیے رنجیدہ۔۔۔
" رشید احمد کو عینا کے نکاح کا پتہ چلا تو وہ بہت ادھم مچائے گا بیٹا۔۔۔"
سکینہ خالہ نے فکرمندی سے کہا۔۔
" کچھ نہیں کریں گے وہ۔۔۔انکے سامنے عائلہ نہیں بلکہ عینا احتشام شاہ کھڑی ہوگی۔۔۔عینا کو ہلکی سی کھروچ بھی آئی تو جو کہرام احتشام شاہ مچائے گا بابا وہ سہ نہیں پائیں گے اب وہ اس گھر کی بیٹی نہیں رہی حویلی کی بہو انکی عزت احتشام شاہ کی منکوحہ ہے۔۔۔اور احتشام شاہ کو اپنے رشتوں کی حفاظت کرنا خوب آتا ہے۔۔۔"
عائلہ نے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
" الّٰلہ تم سب پہ رحم کرے اور اس رشید احمد کو ہدایت دے۔۔۔میں اب چلتی ہوں بیٹا۔۔۔بہت دیر سے آئی ہوئی ہوں تمہارے خالو دو بار چکر لگا چکے ہیں۔۔۔"
سکینہ خالہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
" خالہ عینا کے نکاح والی بات کا ذکر ابھی کسی سے مت کیجیے گا۔۔۔پنچایت کے فوراً بعد عینا کے نکاح کی بات سامنے آنے پہ نہ جانے لوگ کیا باتیں کریں۔۔۔مجھے آپ سے چھپانا مناسب نہیں لگا۔۔۔آپ ہماری بڑی ہیں بلکہ اسی گھر کا فرد ہیں اس لیے آپکو بتا دیا۔۔۔بس جمعے تک رک جائیں دلاور کے ساتھ میرا نکاح ہونے کے بعد عینا کے نکاح کے بارے میں بھی سب کو بتا دیں گے۔۔۔"
عائلہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔تو وہ اثبات میں سر ہلاتے پھر آنے کا کہ کر چلی گئیں۔۔۔
" ماما آپ نے اپنی بیٹیوں کے لیے جو خواب دیکھے تھے ان میں سے ایک خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔۔۔
ماما عینا کا نکاح سچ میں ایک شہزادے سے ہوگیا ہے۔۔۔اور جانتی ہیں وہ شہزادہ کون ہے۔۔۔وہ چھوٹے شاہ جی کے بڑے بھائی احتشام شاہ جی ہیں۔۔۔عینا اب حویلی کی بہو ہے ماما۔۔۔
وہ بہت اچھے ہیں ماما۔۔۔ہماری عینا انکے ساتھ بہت خوش رہے گی۔۔۔آنے والے وقت میں لوگ آپکی بیٹی کو چھوٹی سردارنی کہا کریں گے۔۔۔
الّٰلہ نے آپکی دعائیں سن لیں ہیں ماما۔۔۔اب بس مجھے ایمن کی فکر ہے۔۔۔مگر میں جانتی ہوں عینا اور احتشام شاہ اس کو سنبھال لیں گے۔۔۔
آپ دیکھیے گا ماما ایمن پڑھ لکھ کر ایک بڑی افسر بنے گی۔۔۔وہ آپکے سب خواب پورے کرے گی۔۔۔
ہمارے گھر میں اب خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔۔نہ کوئی دکھ نہ غم نہ بابا کا کوئی خوف۔۔۔ہر طرف مسکراہٹیں ہوں گی۔۔۔مگر اس سب میں اجالا بہت یاد آئے گی کاش کہ ان مسکراہٹوں میں اس کی مسکراہٹ بھی شامل ہوتی۔۔۔
مگر میں بھی پتہ نہیں یہ سب دیکھ پاؤں گی یا نہیں۔۔۔میں نے آج دلاور کو بہت قریب سے دیکھا اور سنا ہے ماما۔۔۔میں اسکی ضد بن چکی ہوں۔۔۔میں نے اسکی آنکھوں میں لہجے میں اپنے لیے ایک عجیب سا جنون محسوس کیا ہے۔۔۔وہ بپھرا ہوا طوفان ہے جس کو صرف میری ذات پرسکون کر سکتی ہے۔۔۔مجھے پانے کے لیے وہ ہر حد سے گزر جائے گا جو بھی اس کے راستے میں آیا اسے ختم کردے گا میں نے انکار کیا تو مجھے بھی۔۔۔لیکن مجھے کسی اور کا نہیں ہونے دے گا۔۔۔ہم اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔۔۔
اسے سن کر اندازہ ہوا کہ وہ جیسا نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے وہ بھی دوہری زندگی جی رہا ہے۔۔۔
اس کے اندر ایک چھوٹا سا معصوم بچہ ابھی بھی زندہ ہے
وہ اتنا برا بھی نہیں ہے۔۔۔ کم پڑھا لکھا ضرور ہے مگر جانور نہیں ہے۔۔۔بس راہ سے بھٹکا ہوا ہے دنیا سے چوٹ کھایا ہوا ہے۔۔۔میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گی۔۔۔شائد وہ بدل جائے۔۔۔
جمعے کو میرا نکاح ہے اس سے۔۔۔اپنی قسمت کا لکھا مان چکی ہوں اسے۔۔۔
میں عینا کی طرح خوش قسمت نہیں ہوں ماما کہ جسے من چاہا ساتھی مل جائے۔۔۔
چھوٹے شاہ جی کی محبت ہمیشہ میرے دل کے ایک کونے میں دفن رہے گی دوہری زندگی جینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ میں عادی ہو جاؤں گی۔۔۔
ماما آپکی اس بیٹی کو آپکی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔۔۔آپ میرے لیے دعا کرنا کہ میں چھوٹے شاہ جی کو بھول جاؤں۔۔۔اور چھوٹے شاہ جی کے لیے بھی دعا کرنا کہ وہ مجھے بھول جائیں۔۔۔وہ بار بار میرے راستے میں آتے ہیں وہ سمجھتے ہیں میں پتھر کی بنی ہوں میرا دل پتھر کا ہے جس پہ محبت اثر نہیں کرتی۔۔۔مگر وہ نہیں جانتے ماما کہ میں پتھر نہیں ہوں۔۔۔انکی محبت میرے وجود سے آکاس بیل کی طرح لپٹ گئ ہے۔۔۔جس نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔۔۔
مگر چاہ کر بھی میں ان کا ہاتھ نہیں تھام سکتی اگر ایسا کروں گی تو دلاور اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور اس کا انجام سوچ کر ہی میں کانپ جاتی ہوں۔۔۔
چھوٹے شاہ جی سے اپنے نکاح سے پہلے میں ایک بار ضرور ملوں گی ان کی کھائی قسم توڑنے کے لیے۔۔۔جانے سے پہلے زندگی میں پہلی اور آخری بار ان سے کچھ مانگوں گی مجھے یقین ہے وہ انکار نہیں کریں گے۔۔۔"
سکینہ خالہ کے جانے کے بعد عائلہ اپنی ماں کے ساتھ وہیں بیڈ پہ نیم لیٹ کر سرگوشیانہ انداز میں باتیں کرنے لگی۔۔۔اس کا چہرہ مہرالنساء کے چہرے کو چھو رہا تھا۔۔۔وہ رو رہی تھی۔۔۔اپنی قسمت پہ۔۔۔اپنی مجبت کے بچھڑنے پہ ، اپنی بے بسی پہ۔۔۔حالات کی ستم ظریفی پہ۔۔۔آنسو اس کے گالوں پہ بہ بہ کر مہرالنساء کے چہرے کو بھی نم کر رہے تھے۔۔۔کبھی کبھی بات کرتے اس کی آواز اس کے گلے میں پھنس جاتی۔۔۔وہ پھر سے خود کو سنبھال کر باتیں کرنے لگتی۔۔۔
اس کے خاموش آنسو اس کے دل کا درد مہرالنساء کو اس حالت میں بھی بے چین کر گیا۔۔۔ایک آنسو ان کے گالوں پہ بھی بہا تھا جس سے عائلہ انجان رہی۔۔۔ان کے لاشعور میں ہلچل پیدا ہونے لگی تھی۔۔۔زندگی کی برق انکے وجود میں دوڑنے لگی تھی۔۔۔عائلہ کو پکارنے کے لیے اسے گلے سے لگا کر سب ٹھیک ہو جائے گا کہنے کے لیے وہ اپنے لاشعور میں ہونے والی ہلچل سے نبرد آزما ہونے لگیں۔۔۔
" آپی۔۔۔۔آپ نے مجھ سے یہ سچ کیوں چھپایا۔۔۔مجھے اب سمجھ آئی کہ آپ نے جمعہ تک میرے احتشام جی کے ساتھ نکاح کو چھپانے کی بات کیوں کی تھی۔۔۔آپ نے کیوں یہ شرط رکھی تھی۔۔۔"
عینا روم کے بیچوں بیچ نہ جانے کب سے سے کھڑی تھی۔۔۔جمعہ کو عائلہ کے نکاح کی بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گئ تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سیٹھ اکرام نے آج رضوانہ خاتون کو فیملی سمیت کھانے پہ مدعو کیا تھا۔۔۔مگر اس سے پہلے اپنی تمام فیملی اور گھر کے سب نوکروں کو ہال میں جمع ہونے کو کہا تھا۔۔۔
" اب پتہ نہیں کونسا نیا شوشہ چھوڑنے والے ہیں یہ۔۔۔میری تو کوئی وقعت ہی نہیں رہی نہ جانے وہ کونسا منحوس دن تھا جب اس عورت اور اس کی بیٹی کو ہم نے اپنے گھر ملازم رکھا۔۔۔اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ یہ لوگ ہمارے سر پہ چڑھ کر بیٹھ جائیں گے تو اپنے گھر کی دہلیز بھی نہ پار کرنے دیتی۔۔۔ٹٹ پونجیے نہ جانے کہاں سے اٹھ کر آ گئے ہیں۔۔۔نہ ان کے آگے کے پتہ نہ پیچھے کا۔۔۔
میں پاگل ہوں۔۔۔دیواروں سے بات نہیں کر رہی میں۔۔۔تم سے کہ رہی ہوں۔۔۔یوں خاموش رہنے سے کچھ نہیں ہوگا اپنے باپ سے کہ دو کہ تم یہ شادی نہیں کر سکتے۔۔۔"
فرحین بیگم طلحہ کے روم میں بیٹھی کب سے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ فاطمہ اس کے لائق نہیں۔۔۔اور اگر یہ شادی ہو گئ تو وہ سر اٹھا کر سوسائٹی میں موو نہیں کر سکے گا۔۔۔فاطمہ کا تعارف اس کے لیے شرمندگی کا مقام بن جائے گا۔۔۔جب سے وہ آیا تھا وہ اس کا برین واش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔مگر اس نے چپ سادھی ہوئی تھی۔۔۔
طلحہ کے لگاتار چپ رہنے پہ اور کوئی جواب نہ دینے پہ وہ جزبز ہوتی تقریباً پھاڑ کھانے والے لہجے میں گویا ہوئیں۔۔۔
" ماما آپ شائد بھول رہی ہیں کہ ہم لوگ بھی جدی پشتی امیر لوگ نہیں تھے۔۔۔
ایک دن کھانا پکتا تھا اور دو دو دن تک کبھی اچار اور کبھی دھنیے کی چٹنی کوٹ کر آپ اس سے ہمیں روٹی دیا کرتی تھیں۔۔۔ہفتے بعد کبھی سبزی پکتی تھی گھر میں تو وہ دن ہمارے لیے عیاشی کا دن ہوتا تھا
سکول کی فیس تک دینے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔۔۔اگر بابا کی اپنے دوست سے ملاقات نہیں ہوئی ہوتی وہ بابا کو کاروبار کے لیے پیسے نہیں دیتے تو آج ہم لوگ بھی کسی کے گھر نوکر ہوتے۔۔۔
میں اور قاسم کسی کے گھر ڈرائیور ہوتے میری بہنیں کسی سیٹھ کے گھر کے کچن میں ان کے گندے برتن دھو رہی ہوتیں۔۔۔
کسی کو یاد ہو نہ یاد ہو مگر میں اپنا ماضی ، اپنی اوقات کبھی نہیں بھولا۔۔۔جس غربت کی چکی میں آپ پسی ہیں اس کے بعد تو آپ کو ہر غریب سے محبت ہونی چاہیے تھی۔۔۔نفرت کرنی تھی تو غربت سے کرتیں۔۔۔مگر آپ تو غریبوں سے ہی اپنے دل میں نفرت پال بیٹھیں۔۔۔
رضوانہ بوا برسوں سے ہمارے گھر کام کرتی ہیں ان لوگوں کو بہت قریب سے ابزرو کیا ہے میں نے۔۔۔انتہائی رکھ رکھاؤ والی اور خوددار ماں بیٹی ہیں وہ۔۔۔فاطمہ میں وہ سارے گن موجود ہیں جو کسی بھی گھر کو سکون کا گہوارا بنا سکتے ہیں۔۔۔
خدا کا واسطہ ہے ماما۔۔۔اپنی آنکھوں سے یہ نفرت کی پٹی اتار کر دیکھیں۔۔۔یقین کریں آپکو فاطمہ میں صرف خوبیاں ہی نظر آئیں گی۔۔۔لوگوں کو دولت کے ترازو میں تولنا بند کردیں۔۔۔"
طلحہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔۔۔وہ ہمیشہ سے اپنے باپ کی طرح انھیں سمجھاتا آیا تھا۔۔۔مگر جب دیکھا کہ جب بابا کی کسی بات کا ان پہ اثر نہیں ہو رہا تو وہ بھی اپنی ماں کو ان کے حال پہ چھوڑ کر چپ کر گیا۔۔۔مگر اب جب اس کے بابا نے اس سے فاطمہ کو اپنی بہو بنانے کا ذکر کیا تو اسے فاطمہ میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس بنا پہ وہ انکار کرتا۔۔۔اس لیے اس نے اپنے بابا کو اوکے کا سگنل دے دیا تھا۔۔۔مگر فرحین بیگم سے یہ بات برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔اپنے اسٹیٹس کو مزید اونچا کرنے کے لیے اور سوسائٹی میں فخر سے سر اٹھا کر چلنے کے لیے انھوں نے شہر کے امیر ترین لوگوں کی بیٹیوں کے لیے بطور بہو سوچ رکھا تھا تاکہ وہ جب بہو بن کر آئیں تو وہ گردن اکڑا کر کہ سکیں کہ فلاں کی بیٹی میری بہو ہے۔۔۔
مگر طلحہ نے اپنے باپ کی بات پہ سر جھکا کر ان کے سارے خواب چکنا چور کردئیے تھے۔۔۔
اوپر سے شرمندگی الگ کہ ایک ماسی کی بیٹی انکی بہو بن کر آئے گی تو وہ اپنے سرکل میں کس طرح سر اٹھا کر نکلیں گی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤