Cute
Well-known member
Offline
میرا نام اسلم ہے اور میری عمر اس وقت 32 سال ہے۔ ہم کراچی کے ایک مضافاتی علاقہ میں رہائش پزیر ہیں، نام اور علاقہ اس لئے اصلی نہیں لکھ رہا کیونکہ جو واقعہ میں سنانے جارہا ہوں وہ مکمل اور بالکل اصلی ہے نہ ہی اس میں کسی قسم کے مرچ مصالحہ کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ وہ حالات گزرے وہ من و عن بیان کیا جارہا ہے۔ یوں تو آج تک کئی کہانیاں چاہے وہ اصلی ہو ں یا فرضی آپ قارئین پڑھ چکے ہونگے اور انکا حقیقت سے کتنا گہرا تعلق ہے اس کا فیصلہ بھی آپ بخوبی کرچکے ہوں گے مگر یہ کوئی کہانی نہیں یہ مکمل اور حقیقی واقعہ ہے جو میری زندگی پر مشتمل ہے۔
یہ واقعہ آج سے پانچ سال قبل یعنی 2018کا ہے۔ مجحے ٹحیک سے مہینہ یاد تو نہیں مگر ہم اس گھر میں گزشتہ 20 سالوں سے رہائش پزیر ہیں اور اب تک ہی ہیں۔ میری فیملی میں میری والدہ، والد، چھوٹا بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اور اب سب شادی شدہ ہیں جبکہ والدہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ یہ واقعہ 2018 میں رونما ہوا۔ ہماری گلی میں دو تین ہی پلاٹ خالی ہیں جبکہ باقی تمام گھر آباد ہیں اور سب ہی کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور دکھ سکھ کی ہر گھڑی میں ہم ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک پنجابی فیملی کئی سالوں سے رہائش پزیر ہے جس میں میاں بیوی اور انکے دو چھوٹے لڑکے جنکی عمر بالترتیب 12 اور 14 سال ہے۔تنویر صاحب کی عمر 50 کے آس پاس ہوگی جبکہ انکی بیوی زیبا کی عمر 33 سال تھی اور اس وقت میری عمر 26 سال تھی اور اس وقت میری شادی کو ہوئے 3 سال ہوئے
تھے جبکہ میری ایک بیٹی تھی 2 سال کی۔
جیسا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ چھوٹے علاقوں میں شام کے اوقات یا چھٹی کے دن مھلے والے اپنے گھروں سے
باہر کسی منتخب جگہ بیٹھ کر گپ شپ کرتےہیں حالات حاضرہ اور سیاسی منظرنامہ پر اپنے اپنی سوچ کے مطابق رائے دیتے ہیں اس میں ہنسی مذاق بھی شامل ہوتا ہے۔ تو تنویر صاحب سے بھی میری بہت اچھی گپ شپ تھی۔ وہ ایک زمیندار تھے ور ان کی کافی زمینیں پنجاب میں تھیں۔اسی وجہ سے انکا زیادہ وقت وہیں گزرتا تھا۔اسی وجہ سے اور پڑوسی ہونے کی وجہ سے انکے گھر کا سودا سلف اور باقی کام میں ہی کیا کرتا تھا۔ زیبا مجھے واٹس ایپ کرکے کام بتادیا کرتی تھیں۔ پھر ہماری گفتگو زیادہ ہونے لگی اور س کا دائرہ سیکس ریلیشن تک بڑھ گیا۔ کیونکہ تنویر صاحب زیادہ وقت اپنی زمینوں پر ہوا کرتے تھے اور انکے بچے بھی چھوٹے ور اسکول جانے والے تھے لہذا زیبا مجھ سے ساری باتیں کرنے لگیں۔ ایک دن اس نے مجھے میسیج کیا کہ کچھ کام ہے گھر آجاو۔ گھر کیونکہ سامنے ہی تھا میں اپنے گھر سے نکلا تو گلی سنسان تھی میں سیدھا انکے گھر میں داخل ہوگیا۔ اس نے اپنے اور میرے لئے چائے بناکر رکھی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی پراٹھے بھی موجود تھے۔ ہم نے ناشتہ کرنا شروع کیا تو زیبا نے کہا اسلم ایک بات کہوں، میں نے کہا کہو، زیبا نے کہا کیا
تم مجھے مکمل تسکین پہنچا سکتے ہو؟
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ واقعہ آج سے پانچ سال قبل یعنی 2018کا ہے۔ مجحے ٹحیک سے مہینہ یاد تو نہیں مگر ہم اس گھر میں گزشتہ 20 سالوں سے رہائش پزیر ہیں اور اب تک ہی ہیں۔ میری فیملی میں میری والدہ، والد، چھوٹا بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اور اب سب شادی شدہ ہیں جبکہ والدہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ یہ واقعہ 2018 میں رونما ہوا۔ ہماری گلی میں دو تین ہی پلاٹ خالی ہیں جبکہ باقی تمام گھر آباد ہیں اور سب ہی کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور دکھ سکھ کی ہر گھڑی میں ہم ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک پنجابی فیملی کئی سالوں سے رہائش پزیر ہے جس میں میاں بیوی اور انکے دو چھوٹے لڑکے جنکی عمر بالترتیب 12 اور 14 سال ہے۔تنویر صاحب کی عمر 50 کے آس پاس ہوگی جبکہ انکی بیوی زیبا کی عمر 33 سال تھی اور اس وقت میری عمر 26 سال تھی اور اس وقت میری شادی کو ہوئے 3 سال ہوئے
تھے جبکہ میری ایک بیٹی تھی 2 سال کی۔
جیسا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ چھوٹے علاقوں میں شام کے اوقات یا چھٹی کے دن مھلے والے اپنے گھروں سے
باہر کسی منتخب جگہ بیٹھ کر گپ شپ کرتےہیں حالات حاضرہ اور سیاسی منظرنامہ پر اپنے اپنی سوچ کے مطابق رائے دیتے ہیں اس میں ہنسی مذاق بھی شامل ہوتا ہے۔ تو تنویر صاحب سے بھی میری بہت اچھی گپ شپ تھی۔ وہ ایک زمیندار تھے ور ان کی کافی زمینیں پنجاب میں تھیں۔اسی وجہ سے انکا زیادہ وقت وہیں گزرتا تھا۔اسی وجہ سے اور پڑوسی ہونے کی وجہ سے انکے گھر کا سودا سلف اور باقی کام میں ہی کیا کرتا تھا۔ زیبا مجھے واٹس ایپ کرکے کام بتادیا کرتی تھیں۔ پھر ہماری گفتگو زیادہ ہونے لگی اور س کا دائرہ سیکس ریلیشن تک بڑھ گیا۔ کیونکہ تنویر صاحب زیادہ وقت اپنی زمینوں پر ہوا کرتے تھے اور انکے بچے بھی چھوٹے ور اسکول جانے والے تھے لہذا زیبا مجھ سے ساری باتیں کرنے لگیں۔ ایک دن اس نے مجھے میسیج کیا کہ کچھ کام ہے گھر آجاو۔ گھر کیونکہ سامنے ہی تھا میں اپنے گھر سے نکلا تو گلی سنسان تھی میں سیدھا انکے گھر میں داخل ہوگیا۔ اس نے اپنے اور میرے لئے چائے بناکر رکھی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی پراٹھے بھی موجود تھے۔ ہم نے ناشتہ کرنا شروع کیا تو زیبا نے کہا اسلم ایک بات کہوں، میں نے کہا کہو، زیبا نے کہا کیا
تم مجھے مکمل تسکین پہنچا سکتے ہو؟
جاری ہے ۔۔۔۔۔