Offline
- Thread Author
- #1
قسط ۱
آج کی رات شاید ان دونوں کی زندگی کی سب سے کالی اور بھیانک رات تھی چاند نے اپنی چمک نہیں بیکھیری تھی آسمان پر کالی چادر تنی ہوئی تھی ۔۔۔پورب سے بادل امڑ امڑ کر آ رہے تھے بجلی کی کڑک انکے دلوں کو دہلا رہی تھی لیکن اسکی روشنی میں وہ کچھ ہی دیر کے لئے صحیح لیکن اپنا راستہ ڈھونڈ پا رہے تھے ۔۔بادلوں کی گرج سے انکا دل لرز رہا تھا
وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے جنگلوں میں بھاگے جا رہے تھے جیسے ہاتھ چھوٹ جانے کا ڈر ہو ۔۔۔جھاڑیوں سے انکے بدن چھل گئے تھے اور کپڑے خون آلود ہو گئے تھے
پیچھے سے بہت سارے لوگوں کے دوڑنے کی اور چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں وہ دونوں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہے تھے لڑکی نے اس لڑکے کا ہاتھ اور کس کر تھام لئا اور دہشت اور بے بسی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا اس لڑکے نے اپنی نظریں پھیر لیں اسکی آنکھیں بھر آئیں بارش زوروں پر تھی انہیں بھاگنے میں دقّت آ رہی تھی آوازیں قریب آنے لگیں لڑکی ایک پتھر سے ٹکرا کر زمین پر گر گئی اس کی آنکھوں میں ڈر اور دہشت سے پھیل گئیں دور کہیں بجلی کڑکی اور پوری زمین ہل سی گئی
وہ اپنا بستر پھینک اٹھ کر بیٹھ گیا اے سی چلنے کے باوجود وہ پسینے میں ڈوبا ہوا ہانپھ رہا تھا اسکی سانسیں بے ترتیب چل رہیں تھیں اسکی خندہ پیشانی پر اس کے کالے سلکی بال بکھرے ہوئے تھے اسنے اپنے ہاتھوں سے بالوں کو پیچھے کیا اور کھڑکی کے پاس آگیا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اسکے زخموں پر مرہم جیسی لگیں وہ دونوں ہاتھ اپنی لوور کی جیب میں رکھ کر آسمان کی اور دیکھنے لگا
سورج ابھی نکلا نہیں تھا لیکن سرخی افق پر چھائی ہوئی تھی پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر کھلی فضا میں پرواز کر رہے تھے
اس نے ایک ٹھنڈی سانس چھوڑی ایسے ڈراونے خواب اسکا مقدر بن چکے تھے چاہے کچھ بھی کر لیں ان سے پیچھا چھڑا پانا ناممکن تھا اسے اپنی آنکھوں کے کونے بھیگتے محسوس ہوئے
"""""
افوہ۔۔۔مما مجھے نہیں جانا اس نئے گھر میں ۔۔میں وہاں کیسے رہونگی بتائیں ۔۔!"
وہ روہانسی ہوکر بولی لیکن اسکی ماں نے اسے گھور کر دیکھا
تم نے پچھلے دو دنوں سے دماغ کھایا ہوا ہے میرا ۔۔اب بس کر دو سارا سامان وہاں شفٹ ہو چکا ہے اب تو ہم بھی جا رہے ہیں "
اسکی ماں نے اسے گھرکا
ارے ملیحہ بس بھی کرو میری بیٹی کو کتنا ڈانٹو گی ۔۔مینو بیٹا وہ بہت اچھی جگہ ہے تمہیں بہت پسند آئیگی اور تمہاری انکل کی ہویلی بہت خوبصورت ہے "
اسکے سوبر اور خوش مزاج والد نے پہلے اپنی بیوی سے پھر اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئے اور کار موڑتے ہوئے بولے وہ لا تعلقی سے ونڈو سے باہر دیکھنے لگی
بیٹی ۔۔۔یہ بیٹی دکھ رہی ہے آپکو سر سے پیر تک بیٹا لگ رہا ہے یہ ۔۔۔اسکی حرکتوں اور ہولیے سے میں تو تنگ آ گئی ہوں جس عمر میں لڑکیاں بناؤ سنگھار میں لگی رہتی ہیں اس عمر میں یہ بچوں کے ساتھ کریکٹ اور پتا نہیں کون سے اول فُول گیمس میں لگی رہتی ہے ۔۔۔اور ہولیہ دیکھیں اسکا چھوٹے چھوٹے بال یہ فٹیچر جیسی ٹی شرٹ اور لوور کچھ ہے اس میں لڑکیوں جیسا "
وہ اسے غصہ سے دیکھتے ہوئے بولیں اس نے منھ بسور لیا
وہ بلکل ٹام بواۓ لگ رہی تھی بوائے کٹ بال ۔۔ڈھیلی ڈھالی وہائیٹ ٹی شرٹ اور پرینٹیڈ لوور ریڈ کلر کا جوتا چیونگم چباتی ہوئی وہ کوئی کم عمر کھلنڈرا لڑکا ہی لگ رہی تھی
بڑی بڑی کالی معصومیت سے بھری آنکھیں ۔۔گورا چٹا رنگ ۔۔گلابی ہونٹ ہاں البتہ اپنے قد کی وجہ سے اسکا خوب مزاق بنتا تھا وہ خوبصورت تو تھی لیکن اگر لڑکیوں جیسے بن سنور جاتی تو اور بھی خوبصورت لگتی لیکن اسے ان لڑکیوں والے چونچلوں سے سخت چڑ تھی
مما بہت ہو گیا مجھے آپ سے بلکل بھی بات نہیں کرنی ۔۔۔آپ میرے اسٹائل کا مزاق نہیں اڑا سکتی اٹس نام فیئر مما !۔پاپا آپ سمجھائیں انہیں "
وہ پیر پٹکھتے ہوئے روہانسی ہوکر بولی اسکے پاپا محفوظ ہوتے ہوئے ہنس پڑے
کار ایک خوبصورت اور عالیشان ہویلی کے سامنے رکی لان میں اونچے اونچے درخت بڑا سا پرانی اسٹائل کا بنا سویمینگ پول وہ آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی پورا لان ہر قسم کے خوبصورت رنگ برنگے پھولوں سے بھرا ہوا تھا
یہی وہ ہویلی تھی جو اس کے والد نے اپنے دوست احسن فاروقی سے خریدی تھی وہ دبئی میں رہتے تھے تین سال سے یہ گھر خالی تھا انہوں نے اسی شہر میں نیا گھر لے لیا تھا اور کچھ دن پہلے ہی شفٹ ہوئے تھے انکا کہنا تھا کہ وہ اس گھر سے بور ہو گئے ہیں اور مینو کے والد اپنے پرانے گھر میں رہتے رہتے بور ہو گئے تھے تو انہوں نے یہ ہویلی ان سے خرید لی تھی
منال جہاںزیب ملیحہ اور جہاںزیب احمد کی اکلوتی بیٹی تھی بچپن سے بے جا لاڈ پیار نے اسے ضدی بنا دیا تھا بچپن سے ہی اسے لڑکیوں کے کپڑوں میں دلچسپی نہیں تھی وہ ہمیشہ لڑکوں کے کپڑے ہی پسند کرتی تھی خاندان اور اسکول میں اسکا بہت مزاق بنتا تھا لیکن وہ اپنی دھن میں مست رہنے والی لڑکی تھی کسی کی باتوں پر کان نہ دھرنے والی ۔۔وہ ایسی ہی تھی شوخ ۔۔چنچل ۔۔ہر وقت ہنسنے والی لیکن غصہ اسکی ناک پر رہتا تھا اسے گھر بہت پسند آیا اور اسنے سب سے بڑا اور خوبصورت سا کمرہ اپنے لئے چن لیا
یہ کمرہ احسن انکل کے بیٹے کا تھا ۔۔۔وہ ابھی دبئی میں ہی ہے
تم ملی ہو نا اس سے !"
اسکی ماں اسے بتانے لگیں اس نے ناگواری سے منھ پچکایا
ہونہہ ۔۔یہ اسکا کمرہ تھا مجھے اچھے سے یاد ہے وہ کتنا بدتمیز اور واہیات تھا "
اف مینو تم اس سے تب ملی تھی جب دس سال کی تھی اب تو وہ اتنا ہینڈ سن اور گوڈلوکینگ ہو گیا ہے کہ۔۔۔"
لیکن اسکی ماں زیادہ تعریفیں نہیں کر پائیں اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا
تعریفوں کے پل باندھنا بن کریں مما ! آپکو یاد نہیں اس نے میرے ساتھ کیا کیا تھا اور وہ چاہے جتنا بھی ہینڈ سم ہو میرے لئے وہی بد تمیز اور جاہل رہیگا بندر کہیں کا ہونہہ۔۔"
وہ غصہ سے نتھونے پھولا کر بولی اور پیر پٹختے ہوئے چلی گئی اسکی ماں بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں احسن کا بیٹا انہیں مینو کے لئے بہت پسند تھا لیکن یہ بیوقوف لڑکی بچپن اس بے وقوفی کو ابھی تک دل سے لگائے بیٹھی تھی وہ بھی نیچے چلی آئیں
سارا سامان سیٹ ہو گیا ہے احسن بھائی کا کچھ سامان تھا وہ میں نے اسٹور میں رکھوا دیا ہے ان سے کہہ دیجئے کہ منگوا لیں"
ملیحہ چائے کا کپ جہانزیب کو پکڑاتے ہوئے بولیں وہ سب اس وقت لان میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے سر ہلاتے ہوئے چائے کا کپ لے لیا منال وہیں موبائیل ہر کوئی گیم کھیل رہی تھی
اب بس بھی کرو گیم کھیلنا چائے پی لو اور جاکر ٹیبل سیٹ کرو رات ہونے والی ہے بھوک لگی ہے تمہارے پاپا کو !"
انہوں نے اسے ڈپٹا وہ منھ بناتے ہوئے بنا موبائیل سے نظریں ہٹائے چائے کا کپ اٹھانے لگی وہ اسکے ہاتھ سے لگ کر زمین پر گر کر ٹوٹ گیا اس نے ڈر کر اپنی ماں کو دیکھا اور بے چارلی سے اپنےپاپا کی اور دیکھا
مینو کبھی تو اپنی آنکھ کا استعمال کر لیا کرو اتنا قیمتی کپ تھا یہ سیٹ میں لندن سے لائی تھی سارا سیٹ خراب کر دیا "
انہوں نے غصہ سے اسے ڈپٹا اور نوکر کو اشارہ کرکے اسے صاف کرنے کے لئے بلایا
چھوڑو ملیحہ ایک کپ ہی تو تھا کیوں ڈانٹ رہی ہو بے چاری بچی کو "
اسکےپاپا اسکے بچاؤ کے لئے آۓ
کوئی بچی نہیں ہے یہ پورے چوبیس سال کی ہو گئی ہے لاسٹ سیمسٹرس چل رہے ہیں اس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہے ۔۔اور آپکے لاڈ پیار نے ہی اسے بگاڑ دیا ہے "
وہ انکے اوپر برس پڑیں انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دئے اور اس معاملے سے دور رہنے میں ہی بہتری ہے
اور تم ابھی بیٹھی کیوں ہو اپنا فون رکھو اور جاکر کھانا لگاؤ !"
آپ یہ نوکروں سے بھی تو کہہ سکتی ہیں میں ابھی بزی ہوں !"
اسنے فون پر انگلیاں چلاتے ہوئے یہ گیم کا لاسٹ لیول تھا اور ٹیم میں وہی بچی تھی ساری زمہ داری اس پر تھی ٹیم کو جتانے کی اور دشمن پتا نہیں کہاں چھپ گیا تھا وہ جلدی جلدی اسے ڈھونڈ رہی تھی اچانک سے اسکی ماں نے فون چھین لیا
افوہ مما یہ لاسٹ لیول ہے کھیلنے دیں نا بس ایک ہی اینیمی بچا ہے "اس نے منتیں کیں تب تک اسکی ماں گیم کاٹ کر فون آف کر چکی تھیں وہ منھ بسور کر رہ گئی
گیم ۔۔گیم ۔۔گیم ۔۔۔منال اب بڑی ہو جاؤ تمہاری ساری فرینڈز بوائے فرینڈ لیکر گھوم رہیں ہیں اور تم اب تک ان بچوں کے گیمس میں لگی ہو "
ٹھیک ہے میں بھی بناؤنگی بوائے فرینڈ پھر مت کہئیگا میں بگڑ گئی ہوں ہونہہ!"
وہ پیر پٹکھتے ہوئے گھر میں چلی گئی اور اسکے مما پاپا ہنس دئے
"""
کیا ؟۔۔۔آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ڈیڈ ! کم سے کم آپ مجھ سے پوچھ تو لیتے "
وہ بے بسی سے بولا دوسری طرف سے جانے کیا کہا گیا اسنے غصہ سے فون کاٹ کر بستر پر پھینک دیا اور گلاس وال کے پاس دونوں ہاتھ جیب میں ٹھونس کر باہر کے مناظر میں کھو گیا لیکن اسکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ خود کو کتنا بےبس محسوس کر رہا تھا
"""
پڑوسیوں کے گھروں میں چکر لگا رہی تھی کبھی اس گھر میں کبھی اس گھر میں اسکی ماں کے لاکھ منا کرنے کے باوجود وہ ایک ایک کے گھر کی ڈور بیل بجا کر اپنا تعارف کرا رہی تھی
ہائے آنٹی میں منال ہوں ۔۔منال جہانزیب کل ہی ہم اس والی حویلی میں شفٹ ہوئے ہیں !"
اس نے اپنے گھر کی اور اشارہ کیا ان آنٹی بے دلی سے اسکا استقبال کیا اور ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد دروازہ بند کر دیا
ہونہہ یہاں کے نیبرس تو بلکل بھی اچھے نہیں ہیں گھر میں بھی نہیں بلایا ۔۔۔اگل بغل کے سارے گھر ہو گئے اب یہ ہمارے گھر کے سامنے والا گھر بچا ہے پہلے یہ بند تھا اب شاید کھل جائے ۔۔"
وہ خوشی خوشی اس گھر کی اور چل دی وہ چھوٹا سا لیکن بہت ہی خوبصورت اور پیارا سا گھر تھا اور ڈور بیل بجانے لگی
""
وہ نہا رہا تھا شاور کی ٹھنڈی ٹھنڈی فواریں اسے اندر تک تروتازہ کر رہی تھیں اچانک سے لگاتار بجنے والی ڈور بیل نے اسکا دھیان کھینچا
اف اتنی صبح صبح کون آ گیا اور ڈور بیل سے چپک گیا ہے کیا" وہ غصہ سے زیر لب بڑبڑایا بیل مسلسل بجے جا رہی تھی اسنے ٹاویل میں خود کو لپیٹا اور دروازہ کھول دیا
"Are u mad??یہ کیا حرکت ہے
وہ غصے سے بولا لیکن منال کی نظریں اسکے چہرے ہر نہیں بلکہ اسکے سکس پیک ایبس پر تھیں
اوہ۔۔۔سکس پیکس۔۔۔"
وہ دلچسپی اس کے سکس پیکس دیکھتے ہوئے بولی وہ ایک لمبا چوڑا کسرتی بدن کا مالک تھا گندمی رنگت ۔۔براؤن آنکھیں جو ہر کسی کو اپنی اور اٹریکٹ کر لیں اس نے انگلیوں سے اسکے سکس پیک ایبس کو چھونے کی کوشش کی اسنے جلدی سے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارکر پیچھے کیا
یہ کیا بدتمیزی ہے اپنی نظر ہٹاؤ اور تم ہو کون ؟میرے گھر پر کیا کر رہی ہو ؟"
اس نے جلدی سے خود کو دروازے کے پیچھے کیا اور چہرہ نکال کر بولا وہ اس بدتمیز اور کھلنڈری سی لڑکی پر بری طرح تپ گیا تھا
میں منال جہانزیب آپکی نئی پڑوسن ۔۔۔"
اسنے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا لیکن تب تک وہ دروازہ اس کے منھ پر بند کر کے جا چکا تھا اسے اپنی نئی پڑوسن کا تعارف سننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ ٹھگی ٹھگی دروازے کو دیکھ رہی تھی اور ایک مکا بند دروازے پر مار دیا لیکن اگلے ہی پل اسکی سسکی نکل گئی ہاتھ سہلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئی
""""
مما پاپا یہاں کے پڑوسی بہت روڈ ہیں مجھے یہ جگہ بلکل بھی پسند نہیں آئی کوئی ڈھنگ سے بات ہی نہیں کرتا "
وہ منھ بناتے ہوئے بولی اور چپس سے انصاف کرتے ہوئے چینلز بدلنے لگی
وہ سب رات کے کھانے سے فارغ ہوکر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے
ہاں صبح صبح بن بلائے مہمان بنکر انکے گھروں میں گھس جاؤگی تو یہی ہوگا نہ میں نے کہا بھی تھا ابھی رک جاؤ میرے ساتھ چلنا پرانے پڑوسی ابھی کم تعنے دیتے تھے مجھے جو یہاں بھی سبکو اپنی خوبیاں دکھا آئیں !"
اسکی ماں اس کے ہاتھ سے ریموٹ چھیڑتے ہوئے بولیں وہ لگاتار چینلز بدل رہی تھی اور انہیں انکا فیوریٹ شو دیکھنا تھا
مما آپ تو ہمیشہ مجھ سے چڑی ہی رہتیں ہیں اتنی ہی ناپسند ہوں تو مجھے مدیحہ آنٹی کے پاس بھیج دیں اور انکی سارہ کو رکھ لیں اپنے پاس !"
وہ پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی
رات بہت ہو گئی تھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کمرے میں ٹہلنے لگی اسکے کمرے ایک سائڈ میں لائیبریری بنی ہوئی تھی جس میں کتابیں بہت سلیقے سے سیٹ کی گئیں تھیں اسے تو کتابوں سے جنموں کا بیر تھا لیکن یہ کمرہ چونکہ احسن انکل کے بیٹے کا تھا تو اسکا کچھ سامان ابھی بھی یہیں تھا جس میں بس یہی لائیبریری تھی مما نے آرا سامان بھجوا دیا تھا لیکن کتابیں شاید چھوڑ دی تھیں وہ ایسے ہی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی اور ایک کتاب اس کے ہاتھ سے لگ کر زمین پر گر گئی
وہ ایک پرانی ڈائری تھی۔۔۔
شاید احسن انکل کے بیٹے کی ڈائری ۔۔
دیکھوں تو اس بندر نے اپنی ڈائری میں کیا لکھا ہے ۔۔۔بہت تعریف کرتی ہیں مما اسکی ابھی ساری اصلیت پتا چل جائیگی "
اسکی آنکھیں چمک رہیں تھیں وہ اپنے بستر پر آ گئی اور ڈائری کھول کر پڑھنے لگی ۔۔
۲/۵/۲۰۱۸
زندگی اتنی خوبصورت ہوگی میں نے کبھی سوچا نہیں تھا ۔۔ہر پل خوشیوں سے بھرا جیسے میرے چاروں طرف خوشیوں کے بادل گھرے ہوں ۔۔سہانی ہوائیں چل رہی ہوں اور میں ان ہواؤں کے ساتھ اڑا جا رہا ہوں ۔۔۔یہ ہوائیں مجھے اپنے ساتھ بہائے لے جا رہی ہوں آج پہلی بار اس سے ملکر لگا کہ زندگی اتنی بھی خوبصورت ہوتی ہے وہ بہت پیاری ہے بہت معصوم سی لیکن ہمیشہ ڈری ڈری سی رہتی ہے
میں اور میرے دوست کالج کے کینٹین میں تھے جب وہ آئی اور میرے سامنے والی ٹیبل ہر بیٹھ گئی ۔۔۔اسکی غزالی آنکھوں میں میں کھو سا گیا وہ فون پر بات کرتے ہوئے اپنے ہونٹ کے کنارے دانتوں سے دبا لیتی تھی مجھے وہ سیدھا میرے دل میں اترتی محسوس ہوئی
وہ بنا کچھ کھائے کینٹین سے واپس چلی گئی میں بھی اسکے پیچھے نکلا لیکن کچھ دیر تک ڈھونڈنے کے بعد بھی وہ مجھے نہیں ملی میں اپنے ہاتھوں پر مکا مار کر رہ گیا اچانک سے وہ سامنے آتی ہوئی دکھائی دی
آسمانی رنگ کا سوٹ پہنے بڑا سا دوپٹہ اسکے چاند سے چہرے کے چاروں اور گھرا ہوا تھا سر پر دوپٹہ لیا وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اس کے پاس سے گزر گئی لیکن وہ اب کافی ریلیکس لگ رہی تھی ایک پل کے لئے وہ رک گئی اور پلٹ کر میری اور دیکھا اور نظریں جھکا کر واپس چلی گئی میں بھی اس کے پیچھے کینٹین چلا آیا اور اسکے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگی
ایکسکیوز می ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ کہیں اور جاکر بیٹھیں پلیز ۔۔!"
وہ قدرے ناگواری سے بولی غصہ میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی میں اسے دیکھے جا رہا تھے
ہے مسٹر میں آپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں ۔۔جواب دیں !"
اس نے میرے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ لہرایا
وہ میں بس ایسے ہی بیٹھ گیا تھا یہاں ۔۔۔آپکو کوئی پرابلم ہے ؟"میں کہا پھر مجھے اپنے اس بیوقوفی بھرے سوال پر ہنسی آ گئی ایک لڑکی کے سامنے اچانک سے کوئی انجان لڑکا آکر بیٹھ جائے تو اس پرابلم نہیں بلکہ سیدھا تھپڑ مار دیگی
جی بلکل پرابلم ہے پلیز آپ کہیں اور جاکر بیٹھیں "
اس نے بڑے آرام اے مجھے چلتا کر دیا اور میں کھسیانی ہنسی ہنس کر وہاں سے نکل گیا
اوئے ہوئے کیا چل رہا ہے ۔۔۔اپنی بھابھی مل گئی کیا ؟"
میرے دوست اوسامہ نے مجھے کہنی مار کر چھیڑا
چپ کر گنوار چل کلاس چلتے ہیں ۔۔فالتو کی بکواس نہیں سننی مجھے !"
میں بھی کمال مہارت سے جھوٹ بول کر اسکی اور دیکھا جو سب سے لاتعلق بیٹھی جوس پی رہی تھی میں اپنے دستوں کے ساتھ کلاس روم چلا گیا
۔۔۔
۴/۵/۲۰۱۸
کلاس روم سے نکل رہا تھا جب اچانک کسی سے ٹکرا گیا پھر اس کے بعد میری جو نظریں اٹھیں تو جھپکنا بھول گئی وہ سر پر رکھا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی اسکی ہرنی جیسی خوبصورت آنکھیں پہلی بار مجھ سے ملی تھیں اور اس نے فوراً اپنی نظریں جھکا لیں یقین نہیں ہوتا کچھ لوگ نظریں جھکا کر بھی دل چرا لے جاتے ہیں میں مہبوت سا اسے دیکھے گیا وہ لمحہ جیسے ٹھہر وہ کچھ دیر کے لئے رکی اور واپس جانے لگی میں نے دل ہی دل میں خواہش کری کہ وہ مجھے پلٹ کر دیکھے بلکل شاہ رخ خان کی اسٹائل میں لیکن وہ کونسا کاجول تھی پلٹ ہی نہیں رہتی میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا اور وہ لابی کے آخری سرے پر پہنچ چکی تھی اب میں بھی واپس جانے والی تھی جب اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا اسکی گھنیری پلکیں اٹھیں اور میں اپنی پلکیں جھپکنا بھول گیا اور وہ دوسری اور مڑ گئی
تبھی میری نظر فرش پر گرے اسکے کارڈ پر پڑی
کنول افروز خان ۔۔اوہ تو یہ کشمیر سے ہیں "
اسکا نام بھی اسی کی طرح خوبصورت تھا اور میرے آس پاس ہزاروں کنول کھلا گیا لو ایٹ فرسٹ سائٹ سنا تھا لیکن مجھے اس پر یقین نہیں تھا لیکن آج پتا چلا کہ کبھی کبھی کوئی انسان پہلی ہی نظر ہمیں تاعمر کے لئے اپنا اثیر بنا لیتا ہے
کنول "
وہ لائبریری سے نکل رہی تھی جب میں نے اسے پکارا وہ ٹھٹھک کر رک گئی اور متحیر سی مجھے دیکھنے لگی اسکی آنکھوں میں بہت سوال تھے اسکا گلاب کی پنکھڑیوں جیسا ہونٹ تھوڑا سا کھل گیا شاید اسے حیرت تھی کہ مجھے اسکا نام کیسے پتا چلا
آپکو میرا نام کیسے پتا چلا ۔۔۔آپ میری جاسوسی کر رہے ہیں ؟"
اس نے قدرے خفگی سے کہا اس کے ابرو تن گئے تھے اف کوئی غصہ میں بھی کتنا کیوں کیسے ہوسکتا ہے میں نے دل ہی دل میں سوچا
بلکل بھی نہیں آپکا آئی ڈی کارڈ لابی میں گر گیا تھا سوچا آپکو لوٹا دوں اور رہی بات جاسوسی کی تو ۔۔آپ کے لئے تو کچھ بھی بن سکتا ہوں ۔۔جاسوس ہی صحیح !"
میں شوخی سے اسکی طرف جھکتے ہوئے بولا اس نے نظریں جھکا لیں اور بنا کچھ جواب دئے چلی گئی اور میں اسکے بال کی خوشبو میں جانے کب تک کھویا رہا
گھر آکر بھی میں بلاوجہ مسکراتا رہا عماد کو مجھ پر شک ہو گیا
کیا ہوا بھائی ۔۔کوئی لڑکی کا چکر ہے کیا ؟کب سے مسکرائے جا رہے ہیں ۔۔ہوں ۔۔بتائے !"
وہ شوخی سے بولا میں نے اس کے پیٹ میں ایک مکا جڑ دیا وہ دوہرا ہو گیا
بکواس بند کر تو مجھ سے ابھی دو سال چھوٹا ہے اس لئے یہ سب باتیں نہیں کر سکتا مجھ سے ۔۔۔اور ایسی کوئی بات نہیں ہے "
میں نے جلدی سے جھوٹ بولا میں جانتا تھا کہ وہ پیٹ کا کتنا ہلکا ہے
بتاؤں انکل آنٹی کو کہ انکا بیٹا کالج میں پڑھنے کے بجائے لڑکیاں تاڑتا ہے "
وہ صوفے پر سے چھلانگ لگا کر بھاگتا ہوا بولا لیکن تب تک میرا پھینکا کشن اسکے سر پر چکا تھا
اور تو جو کوچنگ کے بہانے لڑکیوں سے فلرٹ کرتا ہے اسکا کیا ۔۔سوچ لے اگر مام ڈیڈ کو اسکی بھنک بھی پڑی نا تو میرے سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔"
میں نے اس کے کان کھینچتے ہوئے دھمکی دی وہ چلا اٹھا تب تک مام ڈیڈ بھی آگئے وہ کسی پارٹی میں گئے ہوئے تھے
یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے تم دونوں نے آخر کب بڑے ہوگے۔۔عماد اپنے روم میں جاکر اسٹڈیز پر دھیان دو اور تم میرے روم میں آؤ مجھے بات کرنی ہے "
عماد کو ڈانٹ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے مجھے اندازہ ہو گیا کہ کوئی سیریس میٹر ہے میں بھی انکے پیچھے پیچھے چل دیا وہ اپنی اسٹڈیز میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے میں بھی چپ چاپ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا حالانکہ ڈیڈ میرے دوست کی طرح تھے لیکن جب کوئی سیریس بات ہوتی تو وہ ایک سخت باپ بن جاتے تھے
کیا ہوا ڈیڈ ؟ از ایوریتھینگ آلرائٹ؟"
میں نے پوچھا وہ دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے مجھے ہی گھورے جا رہے تھے میں بلاوجہ ہی نظریں چرا گیا عماد اور میں ملکر نا جانے کون کون سا کانڈ کرتے تھے مجھے ایک ایک کرکے وہ سارے یاد آ رہے تھے میری سانس اوپر نیچے ہو رہی تھی
یہ تمہارا ایم بی اے کا لاسٹ ائر ہے نا اسکے بعد کے لئے کچھ سوچا ہے ؟"
آخر انہوں نے اپنی چپی توڑی اور اپنی تیز نظروں سے مجھے دیکھا
یس ڈیڈ ! اسکے بعد آپکے بزنس میں ہاتھ بٹاؤنگا !"
میں نے ایک سعادتمند اور فرمانبردار بیٹا بننے کی کوشش کی لیکن اگلے ہی پل میری یہ کوشش جھاگ کی طرح بیٹھ گئی
بزنس میں ہاتھ تو تمہیں بٹانا ہی پڑیگا لیکن ۔۔۔میں نے تمہارے لئے ایک فیصلہ کیا ہے ۔۔"
کیسا فیصلہ ڈیڈ؟"
میں نے تجسس سے پوچھا
تمہاری شادی کا ۔۔تمہارے آفس جوائن کرتے ہی میں اپنے دوست کی بیٹی سے شادی کر دونگا ۔مجھے اور تمہاری مام کو انکی بیٹی بہت پسند آئی حالانکہ تم سے بہت چھوٹی ہے "
کیا ؟ مجھ پر تو جیسے ایک ساتھ کئی سارے بم پھوڑ دئے گئے ہوں
ڈیڈ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی بلکل بھی نہیں کرنی کم سے کم آپ میری مرضی تو پوچھ لیتے "
ہاں ابھی کونسا میں کر رہا ہوں اسکی بیٹی کی گریجویشن کمپلیٹ نہیں ہوئی ابھی وہ ابھی اسکول میں ہے تمہیں ابھی اس لئے بتا رہا ہوں کہ تمہیں پتا ہو اور تم کسی اور لڑکی کے بارے میں نا سوچ سکو ۔۔۔اور یاد رکھو میں اپنی زبان سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں "
انہوں نے فیصلہ سنایا اور اسٹڈی اے باہر نکل گئے میں کچھ دیر بیٹھا خلاء میں دیکھتا رہا
پتا نہیں یہ ماں باپ بچوں کی مرضی جانے بنا اتنا بڑا فیصلہ کیوں کر دیتے ہیں ساری عمر ہر خواہش پوری کرنے کے بعد جب اصل خوشی دینے کا وقت آتا ہے تو انہیں اپنی زبان اور اپنے وعدے یاد آ جاتے ہیں اور اپنی عزت کے لئے اپنے بچوں کو صولی پر چڑا دیتے ہیں
۱۰/۵/۲۰۱۸
آج مجھے تھوڑا سا فیور تھا اس کئے میں نے کوئی بھی کلاس کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے پورا فوکس اپنی کنول ہر لگانے کا سوچا وہ لائبریری میں تھی میں بھی چپ چاپ جاکر اس کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا وہ تھوڑی گھبرا گئی لیکن سچ میں وہ گھبرائی ہوئی اور بھی پیاری لگی
تم کشمیر سے ہو ؟"
میں آپ سے تم پر اتر آیا وہ تھوڑا چونک کر مجھے دیکھنے لگی
آپکو کیسے پتا ؟"
میں نے آپکا آئی کارڈ دیکھا تھا ۔۔کنول آپ سے ایک بات کہوں ؟"
جی کہئیے مجھے پتا ہے آپ اپنی بات پوری کئے بنا یہاں سے جائینگے نہیں !"
آف کورس میں بہت ضدی ہوں ۔۔مجھ سے دوستی کروگی ؟"
آخر میں نے اپنے دل کی بات پوچھ لی پہلے دوستی کرونگا پھر پیار تو ہو ہی جانا ہے اسے میں نے دل ہی دل میں سوچا اور اسکی طرف ہاتھ بڑھا دیا اس نے مجھے ایسے چونک کر دیکھا جیسے ساتواں عجوبہ دیکھ لیا ہو
جی۔۔؟ ہمارے یہاں لڑکیاں غیر مردوں سے دوستی نہیں کرتی ۔۔میں آپ سے معزرت خواں ہوں !"
وہ بڑی شائیستگی سے اٹھتے ہوئے بولی اور اپنے سر پر لیا دوپٹہ مزید سہی کرنے لگی
کنول دیکھو میں کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں تم مجھ پر ٹرسٹ کر سکتی ہو میں تو بس ۔۔"
لیکن میری بات پوری ہونے اے پہلے ہی اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا میں خاموشی سے اسے دیکھنے لگا
میری سہیلیاں میرے لئے کافی ہیں مجھے مزید دوستوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔"
آپ دونوں کو جو بھی باتیں کرنی ہیں باہر جاکر کریں ۔۔جو بچے پڑھ رہیں ہیں کم سے کم انہیں تو سکون اے پڑھنے دیں ۔"
لائبریریئن نے سختی سے کہا ہم دونوں معزرت کے ساتھ وہاں سے نکل گئے میرے روکنے کے باوجود وہ نہیں رکی میں بھی اپنا سا منھ لئے واپس کلاسروم میں آگیا حالانکہ میرا لیکچر سننے کا موڈ نہیں تھا لیکن پھر بھی میں سنتا رہا
میرا زہن ابتک کنول کی باتوں میں الجھا ہوا ہے پتا نہیں وہ ایسا کیوں کر رہی ہے کہیں اس پر کوئی دباؤ تو نہیں ۔۔اچانک سے میرے زہن میں یہ بات آئی ۔۔ہاں یہ ہو سکتا ورنہ یہ کونسا نبے کا دور ہے جو کسی کو دوستی سے اتنی پریشانی ہوگی میں نے اس سے دو ٹک بات کرنے کا من بنا لیا ہے
"""
منال کو اپنے آس پاس سرسراہٹیں محسوس ہوئیں وہ ڈائری پڑھنے میں کھو سی گئی تھی چونک کر سر اٹھایا پورے کمرے میں اندھیرا تھا وہ لیمپ کی روشنی میں پڑھ رہی تھی سامنے کی دیوار پر ایک دیوہیکل سایہ تھا جو دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا تھا وہ دہشت اے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اسکی ریڈھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی اور اپنا دماغ بند ہوتا محسوس ہوا اس نے زور سے چیخ ماری اور اپنے کمرے سے نکل کر مام ڈیڈ کے کمرے کی اور بھاگی ڈائری اس نے اپنے سینے سے لگا رہی تھی
وہ اپنے مام ڈیڈ کے بیچ میں جاکر سو گئی کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد اسکی آنکھ لگ گئی
وہ سایہ کھڑکی سی کود کر اندر آیا اور اسکے سامان کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا کچھ ہی دیر میں اسکا کمرہ کباڑ بن چکا تھا وہ بکشیلف کی ساری کتابیں گرا چکا تھا ۔۔۔شاید اسے کسی خاص چیز کی تلاش تھی
"""
تمہیں رات کو ہوا کیا تھا مینو میرا تو دل دہل گیا تھا تمہاری چیخ سنکر !"
اسکی مام اسے اپنے قریب کرتی ہوئیں بولیں وہ سب ناشتے کی میز پر اکٹھا تھے منال اب تک اپنے کمرے میں نہیں گئی تھی
مام ڈیڈ آپ یقین نہیں کرینگے میں نے اپنے روم میں بھوت دیکھا تھا سچ میں !"
وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پٹپٹا کر بولیں اسکے ڈیڈ ہنس دئے جبکہ اس کی ماں نے بھی ایک چپت رسید کر دی
چپ کر کے ناشتہ کرو ۔۔کوئی برا خواب دیکھا ہوگا تم نے !"
اسکی ماں نے ڈپٹا
ہاں بیٹا ملیحہ سہی کہہ رہی ہیں تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہوگا !"
میں خواب تب دیکھونگی نا جب سوئی ہونگی میں اس وقت کتاب پڑھ رہی تھی ڈیڈ"
وہ روہانسی ہوکر بولی اسکے مام ڈیڈ ہنسنے لگے
پھر تو اس نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہے ورنہ جو لڑکی دن میں کتاب چھوتی نہیں وہ آدھی رات کو کتابیں پڑیگی ۔۔اب چپ کرکے ناشتہ کرو اور کالج جاؤ !"
انہوں نے تحکمانہ لہجے میں کہا وہ منھ بسور کر کھانے لگی لیکن اس کا دھیان ابھی بھی ڈائری میں ہی لگا ہوا تھا
مام ۔۔ڈیڈ۔۔۔!"
وہ ہسٹیریائی انداز میں چلائی دونوں دوڑتے ہوئے اسکے کمرے کا سارا سامان بکھرا ہوا تھا
وہ تینوں متحیر سے آنکھیں پھاڑے کمرے کو دیکھ رہے تھے۔(جاری ہے)