Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Love Story محبت پھر ہوجائے گی

Joined
Nov 24, 2024
Messages
398
Reaction score
26,963
Location
pakistan
Gender
Male
Offline

قسط ۱

آج کی رات شاید ان دونوں کی زندگی کی سب سے کالی اور بھیانک رات تھی چاند نے اپنی چمک نہیں بیکھیری تھی آسمان پر کالی چادر تنی ہوئی تھی ۔۔۔پورب سے بادل امڑ امڑ کر آ رہے تھے بجلی کی کڑک انکے دلوں کو دہلا رہی تھی لیکن اسکی روشنی میں وہ کچھ ہی دیر کے لئے صحیح لیکن اپنا راستہ ڈھونڈ پا رہے تھے ۔۔بادلوں کی گرج سے انکا دل لرز رہا تھا
وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے جنگلوں میں بھاگے جا رہے تھے جیسے ہاتھ چھوٹ جانے کا ڈر ہو ۔۔۔جھاڑیوں سے انکے بدن چھل گئے تھے اور کپڑے خون آلود ہو گئے تھے
پیچھے سے بہت سارے لوگوں کے دوڑنے کی اور چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں وہ دونوں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہے تھے لڑکی نے اس لڑکے کا ہاتھ اور کس کر تھام لئا اور دہشت اور بے بسی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا اس لڑکے نے اپنی نظریں پھیر لیں اسکی آنکھیں بھر آئیں بارش زوروں پر تھی انہیں بھاگنے میں دقّت آ رہی تھی آوازیں قریب آنے لگیں لڑکی ایک پتھر سے ٹکرا کر زمین پر گر گئی اس کی آنکھوں میں ڈر اور دہشت سے پھیل گئیں دور کہیں بجلی کڑکی اور پوری زمین ہل سی گئی

وہ اپنا بستر پھینک اٹھ کر بیٹھ گیا اے سی چلنے کے باوجود وہ پسینے میں ڈوبا ہوا ہانپھ رہا تھا اسکی سانسیں بے ترتیب چل رہیں تھیں اسکی خندہ پیشانی پر اس کے کالے سلکی بال بکھرے ہوئے تھے اسنے اپنے ہاتھوں سے بالوں کو پیچھے کیا اور کھڑکی کے پاس آگیا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اسکے زخموں پر مرہم جیسی لگیں وہ دونوں ہاتھ اپنی لوور کی جیب میں رکھ کر آسمان کی اور دیکھنے لگا
سورج ابھی نکلا نہیں تھا لیکن سرخی افق پر چھائی ہوئی تھی پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر کھلی فضا میں پرواز کر رہے تھے
اس نے ایک ٹھنڈی سانس چھوڑی ایسے ڈراونے خواب اسکا مقدر بن چکے تھے چاہے کچھ بھی کر لیں ان سے پیچھا چھڑا پانا ناممکن تھا اسے اپنی آنکھوں کے کونے بھیگتے محسوس ہوئے


"""""

افوہ۔۔۔مما مجھے نہیں جانا اس نئے گھر میں ۔۔میں وہاں کیسے رہونگی بتائیں ۔۔!"
وہ روہانسی ہوکر بولی لیکن اسکی ماں نے اسے گھور کر دیکھا

تم نے پچھلے دو دنوں سے دماغ کھایا ہوا ہے میرا ۔۔اب بس کر دو سارا سامان وہاں شفٹ ہو چکا ہے اب تو ہم بھی جا رہے ہیں "
اسکی ماں نے اسے گھرکا

ارے ملیحہ بس بھی کرو میری بیٹی کو کتنا ڈانٹو گی ۔۔مینو بیٹا وہ بہت اچھی جگہ ہے تمہیں بہت پسند آئیگی اور تمہاری انکل کی ہویلی بہت خوبصورت ہے "
اسکے سوبر اور خوش مزاج والد نے پہلے اپنی بیوی سے پھر اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئے اور کار موڑتے ہوئے بولے وہ لا تعلقی سے ونڈو سے باہر دیکھنے لگی

بیٹی ۔۔۔یہ بیٹی دکھ رہی ہے آپکو سر سے پیر تک بیٹا لگ رہا ہے یہ ۔۔۔اسکی حرکتوں اور ہولیے سے میں تو تنگ آ گئی ہوں جس عمر میں لڑکیاں بناؤ سنگھار میں لگی رہتی ہیں اس عمر میں یہ بچوں کے ساتھ کریکٹ اور پتا نہیں کون سے اول فُول گیمس میں لگی رہتی ہے ۔۔۔اور ہولیہ دیکھیں اسکا چھوٹے چھوٹے بال یہ فٹیچر جیسی ٹی شرٹ اور لوور کچھ ہے اس میں لڑکیوں جیسا "
وہ اسے غصہ سے دیکھتے ہوئے بولیں اس نے منھ بسور لیا
وہ بلکل ٹام بواۓ لگ رہی تھی بوائے کٹ بال ۔۔ڈھیلی ڈھالی وہائیٹ ٹی شرٹ اور پرینٹیڈ لوور ریڈ کلر کا جوتا چیونگم چباتی ہوئی وہ کوئی کم عمر کھلنڈرا لڑکا ہی لگ رہی تھی
بڑی بڑی کالی معصومیت سے بھری آنکھیں ۔۔گورا چٹا رنگ ۔۔گلابی ہونٹ ہاں البتہ اپنے قد کی وجہ سے اسکا خوب مزاق بنتا تھا وہ خوبصورت تو تھی لیکن اگر لڑکیوں جیسے بن سنور جاتی تو اور بھی خوبصورت لگتی لیکن اسے ان لڑکیوں والے چونچلوں سے سخت چڑ تھی

مما بہت ہو گیا مجھے آپ سے بلکل بھی بات نہیں کرنی ۔۔۔آپ میرے اسٹائل کا مزاق نہیں اڑا سکتی اٹس نام فیئر مما !۔پاپا آپ سمجھائیں انہیں "
وہ پیر پٹکھتے ہوئے روہانسی ہوکر بولی اسکے پاپا محفوظ ہوتے ہوئے ہنس پڑے
کار ایک خوبصورت اور عالیشان ہویلی کے سامنے رکی لان میں اونچے اونچے درخت بڑا سا پرانی اسٹائل کا بنا سویمینگ پول وہ آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی پورا لان ہر قسم کے خوبصورت رنگ برنگے پھولوں سے بھرا ہوا تھا
یہی وہ ہویلی تھی جو اس کے والد نے اپنے دوست احسن فاروقی سے خریدی تھی وہ دبئی میں رہتے تھے تین سال سے یہ گھر خالی تھا انہوں نے اسی شہر میں نیا گھر لے لیا تھا اور کچھ دن پہلے ہی شفٹ ہوئے تھے انکا کہنا تھا کہ وہ اس گھر سے بور ہو گئے ہیں اور مینو کے والد اپنے پرانے گھر میں رہتے رہتے بور ہو گئے تھے تو انہوں نے یہ ہویلی ان سے خرید لی تھی
منال جہاںزیب ملیحہ اور جہاںزیب احمد کی اکلوتی بیٹی تھی بچپن سے بے جا لاڈ پیار نے اسے ضدی بنا دیا تھا بچپن سے ہی اسے لڑکیوں کے کپڑوں میں دلچسپی نہیں تھی وہ ہمیشہ لڑکوں کے کپڑے ہی پسند کرتی تھی خاندان اور اسکول میں اسکا بہت مزاق بنتا تھا لیکن وہ اپنی دھن میں مست رہنے والی لڑکی تھی کسی کی باتوں پر کان نہ دھرنے والی ۔۔وہ ایسی ہی تھی شوخ ۔۔چنچل ۔۔ہر وقت ہنسنے والی لیکن غصہ اسکی ناک پر رہتا تھا اسے گھر بہت پسند آیا اور اسنے سب سے بڑا اور خوبصورت سا کمرہ اپنے لئے چن لیا

یہ کمرہ احسن انکل کے بیٹے کا تھا ۔۔۔وہ ابھی دبئی میں ہی ہے
تم ملی ہو نا اس سے !"
اسکی ماں اسے بتانے لگیں اس نے ناگواری سے منھ پچکایا

ہونہہ ۔۔یہ اسکا کمرہ تھا مجھے اچھے سے یاد ہے وہ کتنا بدتمیز اور واہیات تھا "

اف مینو تم اس سے تب ملی تھی جب دس سال کی تھی اب تو وہ اتنا ہینڈ سن اور گوڈلوکینگ ہو گیا ہے کہ۔۔۔"
لیکن اسکی ماں زیادہ تعریفیں نہیں کر پائیں اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا

تعریفوں کے پل باندھنا بن کریں مما ! آپکو یاد نہیں اس نے میرے ساتھ کیا کیا تھا اور وہ چاہے جتنا بھی ہینڈ سم ہو میرے لئے وہی بد تمیز اور جاہل رہیگا بندر کہیں کا ہونہہ۔۔"
وہ غصہ سے نتھونے پھولا کر بولی اور پیر پٹختے ہوئے چلی گئی اسکی ماں بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں احسن کا بیٹا انہیں مینو کے لئے بہت پسند تھا لیکن یہ بیوقوف لڑکی بچپن اس بے وقوفی کو ابھی تک دل سے لگائے بیٹھی تھی وہ بھی نیچے چلی آئیں
سارا سامان سیٹ ہو گیا ہے احسن بھائی کا کچھ سامان تھا وہ میں نے اسٹور میں رکھوا دیا ہے ان سے کہہ دیجئے کہ منگوا لیں"
ملیحہ چائے کا کپ جہانزیب کو پکڑاتے ہوئے بولیں وہ سب اس وقت لان میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے سر ہلاتے ہوئے چائے کا کپ لے لیا منال وہیں موبائیل ہر کوئی گیم کھیل رہی تھی
اب بس بھی کرو گیم کھیلنا چائے پی لو اور جاکر ٹیبل سیٹ کرو رات ہونے والی ہے بھوک لگی ہے تمہارے پاپا کو !"
انہوں نے اسے ڈپٹا وہ منھ بناتے ہوئے بنا موبائیل سے نظریں ہٹائے چائے کا کپ اٹھانے لگی وہ اسکے ہاتھ سے لگ کر زمین پر گر کر ٹوٹ گیا اس نے ڈر کر اپنی ماں کو دیکھا اور بے چارلی سے اپنےپاپا کی اور دیکھا


مینو کبھی تو اپنی آنکھ کا استعمال کر لیا کرو اتنا قیمتی کپ تھا یہ سیٹ میں لندن سے لائی تھی سارا سیٹ خراب کر دیا "
انہوں نے غصہ سے اسے ڈپٹا اور نوکر کو اشارہ کرکے اسے صاف کرنے کے لئے بلایا

چھوڑو ملیحہ ایک کپ ہی تو تھا کیوں ڈانٹ رہی ہو بے چاری بچی کو "
اسکےپاپا اسکے بچاؤ کے لئے آۓ

کوئی بچی نہیں ہے یہ پورے چوبیس سال کی ہو گئی ہے لاسٹ سیمسٹرس چل رہے ہیں اس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہے ۔۔اور آپکے لاڈ پیار نے ہی اسے بگاڑ دیا ہے "
وہ انکے اوپر برس پڑیں انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دئے اور اس معاملے سے دور رہنے میں ہی بہتری ہے

اور تم ابھی بیٹھی کیوں ہو اپنا فون رکھو اور جاکر کھانا لگاؤ !"

آپ یہ نوکروں سے بھی تو کہہ سکتی ہیں میں ابھی بزی ہوں !"
اسنے فون پر انگلیاں چلاتے ہوئے یہ گیم کا لاسٹ لیول تھا اور ٹیم میں وہی بچی تھی ساری زمہ داری اس پر تھی ٹیم کو جتانے کی اور دشمن پتا نہیں کہاں چھپ گیا تھا وہ جلدی جلدی اسے ڈھونڈ رہی تھی اچانک سے اسکی ماں نے فون چھین لیا

افوہ مما یہ لاسٹ لیول ہے کھیلنے دیں نا بس ایک ہی اینیمی بچا ہے "اس نے منتیں کیں تب تک اسکی ماں گیم کاٹ کر فون آف کر چکی تھیں وہ منھ بسور کر رہ گئی

گیم ۔۔گیم ۔۔گیم ۔۔۔منال اب بڑی ہو جاؤ تمہاری ساری فرینڈز بوائے فرینڈ لیکر گھوم رہیں ہیں اور تم اب تک ان بچوں کے گیمس میں لگی ہو "


ٹھیک ہے میں بھی بناؤنگی بوائے فرینڈ پھر مت کہئیگا میں بگڑ گئی ہوں ہونہہ!"
وہ پیر پٹکھتے ہوئے گھر میں چلی گئی اور اسکے مما پاپا ہنس دئے


"""




کیا ؟۔۔۔آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ڈیڈ ! کم سے کم آپ مجھ سے پوچھ تو لیتے "
وہ بے بسی سے بولا دوسری طرف سے جانے کیا کہا گیا اسنے غصہ سے فون کاٹ کر بستر پر پھینک دیا اور گلاس وال کے پاس دونوں ہاتھ جیب میں ٹھونس کر باہر کے مناظر میں کھو گیا لیکن اسکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ خود کو کتنا بےبس محسوس کر رہا تھا



"""


پڑوسیوں کے گھروں میں چکر لگا رہی تھی کبھی اس گھر میں کبھی اس گھر میں اسکی ماں کے لاکھ منا کرنے کے باوجود وہ ایک ایک کے گھر کی ڈور بیل بجا کر اپنا تعارف کرا رہی تھی

ہائے آنٹی میں منال ہوں ۔۔منال جہانزیب کل ہی ہم اس والی حویلی میں شفٹ ہوئے ہیں !"
اس نے اپنے گھر کی اور اشارہ کیا ان آنٹی بے دلی سے اسکا استقبال کیا اور ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد دروازہ بند کر دیا

ہونہہ یہاں کے نیبرس تو بلکل بھی اچھے نہیں ہیں گھر میں بھی نہیں بلایا ۔۔۔اگل بغل کے سارے گھر ہو گئے اب یہ ہمارے گھر کے سامنے والا گھر بچا ہے پہلے یہ بند تھا اب شاید کھل جائے ۔۔"
وہ خوشی خوشی اس گھر کی اور چل دی وہ چھوٹا سا لیکن بہت ہی خوبصورت اور پیارا سا گھر تھا اور ڈور بیل بجانے لگی

""
وہ نہا رہا تھا شاور کی ٹھنڈی ٹھنڈی فواریں اسے اندر تک تروتازہ کر رہی تھیں اچانک سے لگاتار بجنے والی ڈور بیل نے اسکا دھیان کھینچا

اف اتنی صبح صبح کون آ گیا اور ڈور بیل سے چپک گیا ہے کیا" وہ غصہ سے زیر لب بڑبڑایا بیل مسلسل بجے جا رہی تھی اسنے ٹاویل میں خود کو لپیٹا اور دروازہ کھول دیا

"Are u mad??یہ کیا حرکت ہے
وہ غصے سے بولا لیکن منال کی نظریں اسکے چہرے ہر نہیں بلکہ اسکے سکس پیک ایبس پر تھیں

اوہ۔۔۔سکس پیکس۔۔۔"
وہ دلچسپی اس کے سکس پیکس دیکھتے ہوئے بولی وہ ایک لمبا چوڑا کسرتی بدن کا مالک تھا گندمی رنگت ۔۔براؤن آنکھیں جو ہر کسی کو اپنی اور اٹریکٹ کر لیں اس نے انگلیوں سے اسکے سکس پیک ایبس کو چھونے کی کوشش کی اسنے جلدی سے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارکر پیچھے کیا

یہ کیا بدتمیزی ہے اپنی نظر ہٹاؤ اور تم ہو کون ؟میرے گھر پر کیا کر رہی ہو ؟"
اس نے جلدی سے خود کو دروازے کے پیچھے کیا اور چہرہ نکال کر بولا وہ اس بدتمیز اور کھلنڈری سی لڑکی پر بری طرح تپ گیا تھا
میں منال جہانزیب آپکی نئی پڑوسن ۔۔۔"
اسنے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا لیکن تب تک وہ دروازہ اس کے منھ پر بند کر کے جا چکا تھا اسے اپنی نئی پڑوسن کا تعارف سننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ ٹھگی ٹھگی دروازے کو دیکھ رہی تھی اور ایک مکا بند دروازے پر مار دیا لیکن اگلے ہی پل اسکی سسکی نکل گئی ہاتھ سہلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئی


""""


مما پاپا یہاں کے پڑوسی بہت روڈ ہیں مجھے یہ جگہ بلکل بھی پسند نہیں آئی کوئی ڈھنگ سے بات ہی نہیں کرتا "
وہ منھ بناتے ہوئے بولی اور چپس سے انصاف کرتے ہوئے چینلز بدلنے لگی
وہ سب رات کے کھانے سے فارغ ہوکر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے

ہاں صبح صبح بن بلائے مہمان بنکر انکے گھروں میں گھس جاؤگی تو یہی ہوگا نہ میں نے کہا بھی تھا ابھی رک جاؤ میرے ساتھ چلنا پرانے پڑوسی ابھی کم تعنے دیتے تھے مجھے جو یہاں بھی سبکو اپنی خوبیاں دکھا آئیں !"
اسکی ماں اس کے ہاتھ سے ریموٹ چھیڑتے ہوئے بولیں وہ لگاتار چینلز بدل رہی تھی اور انہیں انکا فیوریٹ شو دیکھنا تھا

مما آپ تو ہمیشہ مجھ سے چڑی ہی رہتیں ہیں اتنی ہی ناپسند ہوں تو مجھے مدیحہ آنٹی کے پاس بھیج دیں اور انکی سارہ کو رکھ لیں اپنے پاس !"
وہ پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی
رات بہت ہو گئی تھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کمرے میں ٹہلنے لگی اسکے کمرے ایک سائڈ میں لائیبریری بنی ہوئی تھی جس میں کتابیں بہت سلیقے سے سیٹ کی گئیں تھیں اسے تو کتابوں سے جنموں کا بیر تھا لیکن یہ کمرہ چونکہ احسن انکل کے بیٹے کا تھا تو اسکا کچھ سامان ابھی بھی یہیں تھا جس میں بس یہی لائیبریری تھی مما نے آرا سامان بھجوا دیا تھا لیکن کتابیں شاید چھوڑ دی تھیں وہ ایسے ہی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی اور ایک کتاب اس کے ہاتھ سے لگ کر زمین پر گر گئی
وہ ایک پرانی ڈائری تھی۔۔۔
شاید احسن انکل کے بیٹے کی ڈائری ۔۔

دیکھوں تو اس بندر نے اپنی ڈائری میں کیا لکھا ہے ۔۔۔بہت تعریف کرتی ہیں مما اسکی ابھی ساری اصلیت پتا چل جائیگی "
اسکی آنکھیں چمک رہیں تھیں وہ اپنے بستر پر آ گئی اور ڈائری کھول کر پڑھنے لگی ۔۔


۲/۵/۲۰۱۸


زندگی اتنی خوبصورت ہوگی میں نے کبھی سوچا نہیں تھا ۔۔ہر پل خوشیوں سے بھرا جیسے میرے چاروں طرف خوشیوں کے بادل گھرے ہوں ۔۔سہانی ہوائیں چل رہی ہوں اور میں ان ہواؤں کے ساتھ اڑا جا رہا ہوں ۔۔۔یہ ہوائیں مجھے اپنے ساتھ بہائے لے جا رہی ہوں آج پہلی بار اس سے ملکر لگا کہ زندگی اتنی بھی خوبصورت ہوتی ہے وہ بہت پیاری ہے بہت معصوم سی لیکن ہمیشہ ڈری ڈری سی رہتی ہے
میں اور میرے دوست کالج کے کینٹین میں تھے جب وہ آئی اور میرے سامنے والی ٹیبل ہر بیٹھ گئی ۔۔۔اسکی غزالی آنکھوں میں میں کھو سا گیا وہ فون پر بات کرتے ہوئے اپنے ہونٹ کے کنارے دانتوں سے دبا لیتی تھی مجھے وہ سیدھا میرے دل میں اترتی محسوس ہوئی
وہ بنا کچھ کھائے کینٹین سے واپس چلی گئی میں بھی اسکے پیچھے نکلا لیکن کچھ دیر تک ڈھونڈنے کے بعد بھی وہ مجھے نہیں ملی میں اپنے ہاتھوں پر مکا مار کر رہ گیا اچانک سے وہ سامنے آتی ہوئی دکھائی دی
آسمانی رنگ کا سوٹ پہنے بڑا سا دوپٹہ اسکے چاند سے چہرے کے چاروں اور گھرا ہوا تھا سر پر دوپٹہ لیا وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اس کے پاس سے گزر گئی لیکن وہ اب کافی ریلیکس لگ رہی تھی ایک پل کے لئے وہ رک گئی اور پلٹ کر میری اور دیکھا اور نظریں جھکا کر واپس چلی گئی میں بھی اس کے پیچھے کینٹین چلا آیا اور اسکے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگی

ایکسکیوز می ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ کہیں اور جاکر بیٹھیں پلیز ۔۔!"
وہ قدرے ناگواری سے بولی غصہ میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی میں اسے دیکھے جا رہا تھے

ہے مسٹر میں آپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں ۔۔جواب دیں !"
اس نے میرے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ لہرایا

وہ میں بس ایسے ہی بیٹھ گیا تھا یہاں ۔۔۔آپکو کوئی پرابلم ہے ؟"میں کہا پھر مجھے اپنے اس بیوقوفی بھرے سوال پر ہنسی آ گئی ایک لڑکی کے سامنے اچانک سے کوئی انجان لڑکا آکر بیٹھ جائے تو اس پرابلم نہیں بلکہ سیدھا تھپڑ مار دیگی

جی بلکل پرابلم ہے پلیز آپ کہیں اور جاکر بیٹھیں "
اس نے بڑے آرام اے مجھے چلتا کر دیا اور میں کھسیانی ہنسی ہنس کر وہاں سے نکل گیا

اوئے ہوئے کیا چل رہا ہے ۔۔۔اپنی بھابھی مل گئی کیا ؟"
میرے دوست اوسامہ نے مجھے کہنی مار کر چھیڑا

چپ کر گنوار چل کلاس چلتے ہیں ۔۔فالتو کی بکواس نہیں سننی مجھے !"
میں بھی کمال مہارت سے جھوٹ بول کر اسکی اور دیکھا جو سب سے لاتعلق بیٹھی جوس پی رہی تھی میں اپنے دستوں کے ساتھ کلاس روم چلا گیا


۔۔۔

۴/۵/۲۰۱۸
کلاس روم سے نکل رہا تھا جب اچانک کسی سے ٹکرا گیا پھر اس کے بعد میری جو نظریں اٹھیں تو جھپکنا بھول گئی وہ سر پر رکھا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی اسکی ہرنی جیسی خوبصورت آنکھیں پہلی بار مجھ سے ملی تھیں اور اس نے فوراً اپنی نظریں جھکا لیں یقین نہیں ہوتا کچھ لوگ نظریں جھکا کر بھی دل چرا لے جاتے ہیں میں مہبوت سا اسے دیکھے گیا وہ لمحہ جیسے ٹھہر وہ کچھ دیر کے لئے رکی اور واپس جانے لگی میں نے دل ہی دل میں خواہش کری کہ وہ مجھے پلٹ کر دیکھے بلکل شاہ رخ خان کی اسٹائل میں لیکن وہ کونسا کاجول تھی پلٹ ہی نہیں رہتی میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا اور وہ لابی کے آخری سرے پر پہنچ چکی تھی اب میں بھی واپس جانے والی تھی جب اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا اسکی گھنیری پلکیں اٹھیں اور میں اپنی پلکیں جھپکنا بھول گیا اور وہ دوسری اور مڑ گئی
تبھی میری نظر فرش پر گرے اسکے کارڈ پر پڑی

کنول افروز خان ۔۔اوہ تو یہ کشمیر سے ہیں "
اسکا نام بھی اسی کی طرح خوبصورت تھا اور میرے آس پاس ہزاروں کنول کھلا گیا لو ایٹ فرسٹ سائٹ سنا تھا لیکن مجھے اس پر یقین نہیں تھا لیکن آج پتا چلا کہ کبھی کبھی کوئی انسان پہلی ہی نظر ہمیں تاعمر کے لئے اپنا اثیر بنا لیتا ہے

کنول "
وہ لائبریری سے نکل رہی تھی جب میں نے اسے پکارا وہ ٹھٹھک کر رک گئی اور متحیر سی مجھے دیکھنے لگی اسکی آنکھوں میں بہت سوال تھے اسکا گلاب کی پنکھڑیوں جیسا ہونٹ تھوڑا سا کھل گیا شاید اسے حیرت تھی کہ مجھے اسکا نام کیسے پتا چلا

آپکو میرا نام کیسے پتا چلا ۔۔۔آپ میری جاسوسی کر رہے ہیں ؟"
اس نے قدرے خفگی سے کہا اس کے ابرو تن گئے تھے اف کوئی غصہ میں بھی کتنا کیوں کیسے ہوسکتا ہے میں نے دل ہی دل میں سوچا

بلکل بھی نہیں آپکا آئی ڈی کارڈ لابی میں گر گیا تھا سوچا آپکو لوٹا دوں اور رہی بات جاسوسی کی تو ۔۔آپ کے لئے تو کچھ بھی بن سکتا ہوں ۔۔جاسوس ہی صحیح !"
میں شوخی سے اسکی طرف جھکتے ہوئے بولا اس نے نظریں جھکا لیں اور بنا کچھ جواب دئے چلی گئی اور میں اسکے بال کی خوشبو میں جانے کب تک کھویا رہا
گھر آکر بھی میں بلاوجہ مسکراتا رہا عماد کو مجھ پر شک ہو گیا
کیا ہوا بھائی ۔۔کوئی لڑکی کا چکر ہے کیا ؟کب سے مسکرائے جا رہے ہیں ۔۔ہوں ۔۔بتائے !"
وہ شوخی سے بولا میں نے اس کے پیٹ میں ایک مکا جڑ دیا وہ دوہرا ہو گیا
بکواس بند کر تو مجھ سے ابھی دو سال چھوٹا ہے اس لئے یہ سب باتیں نہیں کر سکتا مجھ سے ۔۔۔اور ایسی کوئی بات نہیں ہے "
میں نے جلدی سے جھوٹ بولا میں جانتا تھا کہ وہ پیٹ کا کتنا ہلکا ہے

بتاؤں انکل آنٹی کو کہ انکا بیٹا کالج میں پڑھنے کے بجائے لڑکیاں تاڑتا ہے "
وہ صوفے پر سے چھلانگ لگا کر بھاگتا ہوا بولا لیکن تب تک میرا پھینکا کشن اسکے سر پر چکا تھا
اور تو جو کوچنگ کے بہانے لڑکیوں سے فلرٹ کرتا ہے اسکا کیا ۔۔سوچ لے اگر مام ڈیڈ کو اسکی بھنک بھی پڑی نا تو میرے سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔"
میں نے اس کے کان کھینچتے ہوئے دھمکی دی وہ چلا اٹھا تب تک مام ڈیڈ بھی آگئے وہ کسی پارٹی میں گئے ہوئے تھے

یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے تم دونوں نے آخر کب بڑے ہوگے۔۔عماد اپنے روم میں جاکر اسٹڈیز پر دھیان دو اور تم میرے روم میں آؤ مجھے بات کرنی ہے "
عماد کو ڈانٹ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے مجھے اندازہ ہو گیا کہ کوئی سیریس میٹر ہے میں بھی انکے پیچھے پیچھے چل دیا وہ اپنی اسٹڈیز میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے میں بھی چپ چاپ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا حالانکہ ڈیڈ میرے دوست کی طرح تھے لیکن جب کوئی سیریس بات ہوتی تو وہ ایک سخت باپ بن جاتے تھے

کیا ہوا ڈیڈ ؟ از ایوریتھینگ آلرائٹ؟"
میں نے پوچھا وہ دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھے مجھے ہی گھورے جا رہے تھے میں بلاوجہ ہی نظریں چرا گیا عماد اور میں ملکر نا جانے کون کون سا کانڈ کرتے تھے مجھے ایک ایک کرکے وہ سارے یاد آ رہے تھے میری سانس اوپر نیچے ہو رہی تھی

یہ تمہارا ایم بی اے کا لاسٹ ائر ہے نا اسکے بعد کے لئے کچھ سوچا ہے ؟"
آخر انہوں نے اپنی چپی توڑی اور اپنی تیز نظروں سے مجھے دیکھا

یس ڈیڈ ! اسکے بعد آپکے بزنس میں ہاتھ بٹاؤنگا !"
میں نے ایک سعادتمند اور فرمانبردار بیٹا بننے کی کوشش کی لیکن اگلے ہی پل میری یہ کوشش جھاگ کی طرح بیٹھ گئی

بزنس میں ہاتھ تو تمہیں بٹانا ہی پڑیگا لیکن ۔۔۔میں نے تمہارے لئے ایک فیصلہ کیا ہے ۔۔"

کیسا فیصلہ ڈیڈ؟"
میں نے تجسس سے پوچھا

تمہاری شادی کا ۔۔تمہارے آفس جوائن کرتے ہی میں اپنے دوست کی بیٹی سے شادی کر دونگا ۔مجھے اور تمہاری مام کو انکی بیٹی بہت پسند آئی حالانکہ تم سے بہت چھوٹی ہے "

کیا ؟ مجھ پر تو جیسے ایک ساتھ کئی سارے بم پھوڑ دئے گئے ہوں

ڈیڈ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی بلکل بھی نہیں کرنی کم سے کم آپ میری مرضی تو پوچھ لیتے "

ہاں ابھی کونسا میں کر رہا ہوں اسکی بیٹی کی گریجویشن کمپلیٹ نہیں ہوئی ابھی وہ ابھی اسکول میں ہے تمہیں ابھی اس لئے بتا رہا ہوں کہ تمہیں پتا ہو اور تم کسی اور لڑکی کے بارے میں نا سوچ سکو ۔۔۔اور یاد رکھو میں اپنی زبان سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں "
انہوں نے فیصلہ سنایا اور اسٹڈی اے باہر نکل گئے میں کچھ دیر بیٹھا خلاء میں دیکھتا رہا
پتا نہیں یہ ماں باپ بچوں کی مرضی جانے بنا اتنا بڑا فیصلہ کیوں کر دیتے ہیں ساری عمر ہر خواہش پوری کرنے کے بعد جب اصل خوشی دینے کا وقت آتا ہے تو انہیں اپنی زبان اور اپنے وعدے یاد آ جاتے ہیں اور اپنی عزت کے لئے اپنے بچوں کو صولی پر چڑا دیتے ہیں


۱۰/۵/۲۰۱۸


آج مجھے تھوڑا سا فیور تھا اس کئے میں نے کوئی بھی کلاس کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے پورا فوکس اپنی کنول ہر لگانے کا سوچا وہ لائبریری میں تھی میں بھی چپ چاپ جاکر اس کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا وہ تھوڑی گھبرا گئی لیکن سچ میں وہ گھبرائی ہوئی اور بھی پیاری لگی

تم کشمیر سے ہو ؟"
میں آپ سے تم پر اتر آیا وہ تھوڑا چونک کر مجھے دیکھنے لگی

آپکو کیسے پتا ؟"

میں نے آپکا آئی کارڈ دیکھا تھا ۔۔کنول آپ سے ایک بات کہوں ؟"

جی کہئیے مجھے پتا ہے آپ اپنی بات پوری کئے بنا یہاں سے جائینگے نہیں !"

آف کورس میں بہت ضدی ہوں ۔۔مجھ سے دوستی کروگی ؟"
آخر میں نے اپنے دل کی بات پوچھ لی پہلے دوستی کرونگا پھر پیار تو ہو ہی جانا ہے اسے میں نے دل ہی دل میں سوچا اور اسکی طرف ہاتھ بڑھا دیا اس نے مجھے ایسے چونک کر دیکھا جیسے ساتواں عجوبہ دیکھ لیا ہو

جی۔۔؟ ہمارے یہاں لڑکیاں غیر مردوں سے دوستی نہیں کرتی ۔۔میں آپ سے معزرت خواں ہوں !"
وہ بڑی شائیستگی سے اٹھتے ہوئے بولی اور اپنے سر پر لیا دوپٹہ مزید سہی کرنے لگی

کنول دیکھو میں کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں تم مجھ پر ٹرسٹ کر سکتی ہو میں تو بس ۔۔"
لیکن میری بات پوری ہونے اے پہلے ہی اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا میں خاموشی سے اسے دیکھنے لگا

میری سہیلیاں میرے لئے کافی ہیں مجھے مزید دوستوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔"

آپ دونوں کو جو بھی باتیں کرنی ہیں باہر جاکر کریں ۔۔جو بچے پڑھ رہیں ہیں کم سے کم انہیں تو سکون اے پڑھنے دیں ۔"
لائبریریئن نے سختی سے کہا ہم دونوں معزرت کے ساتھ وہاں سے نکل گئے میرے روکنے کے باوجود وہ نہیں رکی میں بھی اپنا سا منھ لئے واپس کلاسروم میں آگیا حالانکہ میرا لیکچر سننے کا موڈ نہیں تھا لیکن پھر بھی میں سنتا رہا
میرا زہن ابتک کنول کی باتوں میں الجھا ہوا ہے پتا نہیں وہ ایسا کیوں کر رہی ہے کہیں اس پر کوئی دباؤ تو نہیں ۔۔اچانک سے میرے زہن میں یہ بات آئی ۔۔ہاں یہ ہو سکتا ورنہ یہ کونسا نبے کا دور ہے جو کسی کو دوستی سے اتنی پریشانی ہوگی میں نے اس سے دو ٹک بات کرنے کا من بنا لیا ہے

"""

منال کو اپنے آس پاس سرسراہٹیں محسوس ہوئیں وہ ڈائری پڑھنے میں کھو سی گئی تھی چونک کر سر اٹھایا پورے کمرے میں اندھیرا تھا وہ لیمپ کی روشنی میں پڑھ رہی تھی سامنے کی دیوار پر ایک دیوہیکل سایہ تھا جو دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا تھا وہ دہشت اے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اسکی ریڈھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی اور اپنا دماغ بند ہوتا محسوس ہوا اس نے زور سے چیخ ماری اور اپنے کمرے سے نکل کر مام ڈیڈ کے کمرے کی اور بھاگی ڈائری اس نے اپنے سینے سے لگا رہی تھی

وہ اپنے مام ڈیڈ کے بیچ میں جاکر سو گئی کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد اسکی آنکھ لگ گئی

وہ سایہ کھڑکی سی کود کر اندر آیا اور اسکے سامان کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا کچھ ہی دیر میں اسکا کمرہ کباڑ بن چکا تھا وہ بکشیلف کی ساری کتابیں گرا چکا تھا ۔۔۔شاید اسے کسی خاص چیز کی تلاش تھی


"""



تمہیں رات کو ہوا کیا تھا مینو میرا تو دل دہل گیا تھا تمہاری چیخ سنکر !"
اسکی مام اسے اپنے قریب کرتی ہوئیں بولیں وہ سب ناشتے کی میز پر اکٹھا تھے منال اب تک اپنے کمرے میں نہیں گئی تھی

مام ڈیڈ آپ یقین نہیں کرینگے میں نے اپنے روم میں بھوت دیکھا تھا سچ میں !"
وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پٹپٹا کر بولیں اسکے ڈیڈ ہنس دئے جبکہ اس کی ماں نے بھی ایک چپت رسید کر دی

چپ کر کے ناشتہ کرو ۔۔کوئی برا خواب دیکھا ہوگا تم نے !"
اسکی ماں نے ڈپٹا

ہاں بیٹا ملیحہ سہی کہہ رہی ہیں تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہوگا !"

میں خواب تب دیکھونگی نا جب سوئی ہونگی میں اس وقت کتاب پڑھ رہی تھی ڈیڈ"
وہ روہانسی ہوکر بولی اسکے مام ڈیڈ ہنسنے لگے

پھر تو اس نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہے ورنہ جو لڑکی دن میں کتاب چھوتی نہیں وہ آدھی رات کو کتابیں پڑیگی ۔۔اب چپ کرکے ناشتہ کرو اور کالج جاؤ !"
انہوں نے تحکمانہ لہجے میں کہا وہ منھ بسور کر کھانے لگی لیکن اس کا دھیان ابھی بھی ڈائری میں ہی لگا ہوا تھا


مام ۔۔ڈیڈ۔۔۔!"
وہ ہسٹیریائی انداز میں چلائی دونوں دوڑتے ہوئے اسکے کمرے کا سارا سامان بکھرا ہوا تھا
وہ تینوں متحیر سے آنکھیں پھاڑے کمرے کو دیکھ رہے تھے۔(جاری ہے)



 
زبردست آغاز ہے جناب
 
ہائے اچھی شروعات ہے کہانی کی۔۔۔ دیکھتے آگے کیا ہوتا ہے۔۔۔
 
قسط ۲
مام ڈیڈ ۔۔۔کیا یہ سب اسی بھوت نے کیا ہے ؟ "
وہ منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے خوفزدہ ہوکر بولی اس کی ماں نے گھور کر اسے دیکھا

کوئی بھوت نہیں تھا وہ ۔۔مینو بیٹا یہ ضرور کسی چور کا کام ہے اب ہمیں گھر کی سیکیورٹی بڑھانی ہوگی اللہ کا شکر ہے کچھ چوری نہیں ہوا ۔"
اسکے ڈیڈ نے راحت کی سانس لی اور آفس کے لیے نکل گئے اسکی ماں نے نوکروں کو بلا کر کمرہ سیٹ کرنے کی ہدایت دی جبکہ وہ ڈائری سینے سے لگائے اپنے کمرے کی اجڑی حالت دیکھ رہی تھی

"تم اب تک یہیں کھڑی ہو مینو آج تمہارے کالج کا پہلا دن ہے جلدی جاکر ریڈی ہو جاؤ !"

"مام میرا موڈ نہیں ہے کالج جانے کا نیا کالج ہے ۔۔میرے سارے فرینڈز آپکی وجہ سے چھوٹ گئے مجھے نہیں جانا کالج !"
وہ منھ پھلا کر صوفے کے کنارے پر ٹک گئی

"افوہ۔۔منال کونسا تمہارے دوستوں کو تم سے کوئی محبت تھی کسی نے کال کرکے تمہاری خیر خبر لی بتاؤ مجھے اب چپ کرکے نئے کالج میں جاؤ ویسے بھی تم ٹرانسفر سٹوڈینٹ ہو ۔۔نئے دوست بنا لینا ہو سکتا ہے اس بار کوئی لائل (loyal )دوست مل جائے تمہیں !"
اسکی ماں نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئیں وہ کچھ دیر انہیں منھ پھلا کر جاتا دیکھتی رہی پھر الماری سے اپنا بیگ نکال کر ڈائری اس میں رکھ دی اور باتھروم میں گھس گئی


"""

کالج کا پہلا دن ہر کسی کے لئے امنگوں اور خوشی سے بھرا ہوتا ہے لیکن اس نے منھ بسور کر کلاس میں قدم رکھا
سٹوڈینٹس کی پھسپھساہٹیں ۔۔۔شرگوشیاں ۔۔۔دبی دبی ہنسی اس نے صاف سنی وہ اچھے سے جانتی تھی کہ یہ سب اسکے حلیہ پر ہنس رہے ہیں
ڈھیلی ڈھالی سفید ٹی شرٹ جس پر ڈوریمون بنا ہوا تھا ڈھیلا جینس اور لال جوتا بوائے کٹ بال میں وہ کھلنڈری ٹام بوائے لڑکی سبکی نظروں کا مرکز بنی ہوئی تھی وہ تھوڑی نروس سی ہو گئی نئی جگہ نئے لوگ تھے جنہیں اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اسے بہت غصہ بھی آ رہا تھا لیکن وہ خود پر قابو کرتے ہوئے سب سے پیچھے والی بینچ پر بیٹھ گئی

ہے ٹام بوائے ! "

او ہیلو مس بوائے کٹ!"

جانے کتنے لڑکے لڑکیوں نے کمینٹس پاس کرنے شروع کر دئے اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں تبھی ایک لڑکی اس کے پاس آکر کھڑی ہو گئی ہاف سلیوز شارٹ ٹی شرٹ پر جیکیٹ اور گھٹی سے اوپر تک کے جینس پر ہائی ہیلس پہنے تیکھے نقوش کی وہ بہت ہی ماڈرن اور سمارٹ سی لڑکی تھی اس نے مضحکہ خیز نظروں سے منال کی اور دیکھا اور اسکے بالوں کو چھونے لگی

یخ ۔۔گائز اسکے بال تو دیکھو ۔۔ہاہاہا۔۔ویسے مسٹر ۔۔۔اوپس ساری مس تمہارا نام کیا ہے ؟ "
وہ ہنستے ہوئے بولی پوری کلاس ہنسنے لگی

"تمہیں اس سے کیا اپنے کام سے کام رکھو ۔۔اب دفعہ ہو یہاں سے !"
منال غصہ سے بولی اسے یہ چھپکلی جیسی لڑکی زہر لگ رہی تھی

"ہاؤ ڈیئر یو ؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے بدتمیزی سے بات کرنے کی ؟ "
وہ لڑکی غصہ سے بولی اور منال کا بیگ اٹھا کر زمین پر پھینک دیا منال نے بھی غصہ میں آکر اسکا بیگ بھی چھین کر زمین پر پھینک دیا اس لڑکی نے تیش میں آکر منال کو دھکا دے دیا وہ الٹے منھ زمین پر گری لیکن اس سے پہلے ہی کسی نے سنبھال لیا تھوڑی دیر میں وہ سنبھلی اس نے پیچھے سے اسے سنبھال رکھا تھا اور اب اسے سیدھا کیا تھا منال اسے دیکھتے ہی پہچان گئی یہ اسکا وہی ہینڈ سم پڑوسی تھا کچھ دیر پہلے پوری کلاس نے اسے دیکھ کر جتنا منھ بنایا تھا اتنا ہی آنکھیں پھاڑ کر اس ڈیشنگ سے بندے کو سب دیکھ رہے تھے

واؤ !

ہاؤ ہینڈ سم !


ہی از سو کیوٹ "

جانے کتنی لڑکیوں کی آہیں بھری صدائیں سنائی دیں اس لڑکے نے اسے خود سے پرے کیا اور منال کی دوسری طرف بیٹھ گیا وہ بھی چپ چاپ بیٹھ گئی

"تھینکس ۔۔۔ویسے مجھے پہچانا تم نے میں وہیں ہوں تمہاری نئی پڑوسن !"
منال نے اسکی طرف جھکتے ہوئے اپنی پہچان کرانے کی کوشش کی لیکن وہ لاتعلق بنا رہا اسے اس بیوقوف سی دکھنے والی لڑکی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی


"تم نے مجھے پہچانا نہیں ؟ ۔۔۔ تمہاری یادداشت اتنی کمزور کیسے ہو سکتی ہے ؟۔۔۔تمہیں بادام کھانے چاہئیے !"


"ویسے کیا میں تمہیں سچ میں یاد نہیں ۔۔۔ٹھیک ہے میں پھر سے اپنا انٹرو دیتی ہوں ۔۔میں منال جہانزیب ہوں ! تم مجھے مینو بلا سکتے ہو "
اس نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے اس لڑکے نے ایک اکتائی نظر اس پر ڈالی

"کیا تم کچھ دیر کے لئے خاموش نہیں بیٹھ سکتی ؟"
وہ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولا منال منھ بسور کر رہ گئی تبھی سر اندر آ گئے پوری کلاس تعزیما کھڑی ہو گئی وہ اپنا لیکچر شروع کر چکے تھے وہ لڑکا اب انکی طرف متوجہ تھا

"ویسے تمہارا نام کیا ہے ؟"
منال دھیرے سے پھسپھسائی اس نے تیز نظروں سے منال کی اور دیکھا

"ٹھیک ہے مت بتاؤ میں کونسا مری جا رہی ہوں تمہارا نام جاننے کے لئے ۔۔ہونہہ!"
منال نے منھ بناتے ہوئے کہا اور لیکچر سننے لگی بیچ بیچ میں وہ اس لڑکے کو بھی گھور لیتی جواباً وہ بھی نظروں کے تیر برسا دیتا



""""


تو تم انہیں نہیں بتاؤ گے ۔۔"
وہ کافی کا سپ لیتے ہوئے پوچھنے لگا لیکن وہ اسکی طرف پیٹھ کئے آسمان میں اُڑتے پرندوں کو دیکھنے میں مشغول تھا

"میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔۔۔کب تک ایسے چھپتے پھروگے ؟"
وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا اس کے ہونٹوں پر پھیکے مسکان پھیل گئی

مجھے کسی کی تلاش ہے جس دن وہ مل جائیگی میں یہاں سے چلا جاؤنگا "

"ایسی کونسی چیز ہے جو اتنے سالوں بعد تمہیں یہاں کھینچ لائی ہے ؟ اور یہ کیا ہر وقت پھیکی مسکان ہونٹوں پر سجائے پھرتے ہو اسے گئے اتنے سال ہو گئے یار اب تو زندگی کی طرف لوٹ آؤ ۔۔۔کب تک یہ تکلیف اپنے سینے سے لگائے رکھو گے "

"یہ درد ۔۔یہ تکلیف مجھے میرے ہونے کا احساس دلاتی ہیں ۔۔ان تکلیفوں کی وجہ سے میں خود کو زندہ محسوس کرتا ہوں علی !یہ درد ہی مجھے بتاتے ہیں کہ میں زندہ ہوں ۔۔میرا وجود ہے ۔۔۔میں اب تک سانسیں لے رہا ہوں ۔۔"


"لیکن کب تک ؟ وقت کے ساتھ ہر زخم بھر جاتے ہیں "
وہ اپنی کافی ٹیبل پر رکھ کے اسکے پاس آ کھڑا ہوا وہ دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے اب بھی اُڑتے پرندوں کو دیکھ رہا تھا اسکی بات سنکر وہ اسکی اور متوجہ ہوا

"کس نے کہا کہ وقت ہر زخموں کا مرہم ہوتا ہے کچھ زخم ناسور بن جاتے ہیں جو سو صدیاں بیت جائیں تو بھی نہیں بھرتے ۔۔انکا کوئی مرہم نہیں ہوتا وہ ہمیشہ ہرے رہتے ہیں میرا زخم بھی اب تک ہرا ہے ۔۔۔"
وہ تلخی سے بولا لیکن اسکی آواز میں چھپی نمی کو علی صاف محسوس کر سکتا تھا

"""



اچھا سنو چلو ساتھ میں کینٹین چلتے ہیں بل میں پے کرونگی اوکے !"
وہ اب بھی اسکے پیچھے لگی تھی وہ تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا جبکہ وہ دوڑتے ہوئے اسکے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہی تھی
"
تمہیں کیا لگتا ہے میرے پاس بل پے کرنے کے پیسے نہیں ہیں"
وہ تلخی سے بولا اور رک کر اسے گھورنے لگا وہ اپنا سر کھجانے لگی

"نہیں ایسا نہیں ہے میں تو بس ۔۔۔"
وہ اپنا ہونٹ کاٹ کر رہ گئی

تم میرے پیچھے کیوں لگی ہو ۔۔جاکر کسی اور کا دماغ کھاؤ میں بور ہو چکا ہوں تم سے منال !"
وہ اکتائی ہوئے لہجے میں بولا اور پھر سے آگے بڑھنے لگا

"سوری میں تمہارا پیچھا نہیں کر رہی میں کسی کو جانتی نہیں یہاں اسلئے ۔۔تم تو میرے پڑوسی ہو اس لئے میں سوچا تم سے بات کروں ۔۔ باقی سب تو میرا مزاق اڑا رہے ہیں اس لئے "
وہ اداسی سے بولی اور کینٹین میں چلی گئی وہ کچھ دیر وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا لیکن پھر وہ اس کے پیچھے چلا گیا اور سینڈوچیز اور کولڈ ڈرنکس لیکر اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا
"
مجھے لگا تم مجھے پسند نہیں کرتے ؟"
وہ سینڈوچ سے انصاف کرتے ہوئے بولی وہ ایک نظر اسے دیکھ کر رہ گیا

"تم میں پسند کرنے لائق کچھ ہے کیا ؟"
وہ اسے زچ کرتا ہوا بولا منال نے اسے غصہ سے گھونسہ دکھایا وہ ہلکا سا مسکرا دیا

"اگر میں تم سے بات کرنے کی کوشش کر رہیں ہوں اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تمہیں پسند کرتی ہوں بلکہ اس لئے کیونکہ باقی لوگوں کی طرح تم میرا مزاق نہیں اڑاتے اس لئے میں تم سے بات کر رہی ہوں ۔۔۔کچھ اور مت سوچنا میں ویسی لڑکی نہیں ہوں "
وہ سینڈوچ کا بڑا بائٹ لیتے ہوئے بولی اسکا سینڈوچ ختم ہو چکا تھا اب وہ کولڈ ڈرنک کے سپ لے رہا تھا

تم نے ابتک اپنا نام نہیں بتایا ؟"

عماد !"

یہ نام کافی سنا سنا سا لگتا ہے میں نے پہلے کہاں سنا ہے مجھے یاد نہیں آ رہا "
وہ اپنے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے بولی اسکا کولڈ ڈرنک بھی ختم ہو چکا تھا اس نے کین ڈسٹبین میں ڈال دیا

کلاس شروع ہونے والی ہے میں جا رہا ہوں جب تمہیں یاد آ جائے تو کلاس میں آ جانا !"
وہ اپنا بیگ پیٹھ پر رکھتے ہوئے بولا اور کینٹین سے نکل گیا

ہونہہ روڈ کہیں کا پتا نہیں کس بات کی اکڑ ہے اسے "
وہ بھی منھ بناتے ہوئے اسکے پیچھے دوڑی


""""

رات کے کھانے سے فارغ ہوکر اس نے سب سے پہلے ڈائری اپنے بیگ سے نکالی اور پڑھنا شروع کر دیا

"""

آج وہ تھوڑی اداس لگ رہی تھی مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا اس سے کیسے پوچھوں وہ تو مجھ سے ایسے کتراتی ہے جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو
میں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے گراؤنڈ میں آ گیا

"علی تم نے کنول کو دیکھا ہے کہیں ؟"

"کیوں میں تمہارے اس کنول کے پھول کا نوکر لگا ہوں ویسے بھی دن رات تو اسکے آگے پیچھے پھرتا ہے !"
اسنے موبائل میں گھسے ہوئے جواب دیا میں نے اسکا موبائل چھین لیا

"یہ کیا حرکت ہے یار ۔۔فون واپس کر میرا۔۔۔امپورٹینٹ ڈسکشن چل رہا ہے تیری بھابھی سے سمجھا کر "
وہ منتیں کرتا ہوا بولا میں نے اسے فون واپس کر دیا

"وہ گراؤنڈ کے پچھلے حصہ کی طرف جاتی دکھی تھی بس "

میں سیدھا ادھر ہی چلا گیا وہ زمین پر بیٹھی گھاس نوچ رہی تھی اسکی خوبصورت آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور چہرہ بہت افسردہ لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے آنسوؤں پر ضبط کرنے کی کوشش کر رہی ہو باوجود اسکے کچھ آنسو اسکی پلکوں سے ڈھلک آئے اور اسکے رخسار پر بہہ گئے میں اسکے قریب بیٹھ گیا وہ حیرانی سے مجھے دیکھنے لگی مجھے پتا چل گیا کہ وہ بھاگنے کی فراق میں ہے میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا

"آپ ک۔۔کیا کر رہے ہیں ؟کوئی دیکھ لیگا ہاتھ چھوڑیں میرا "
وہ تھوڑی سختی سے بولی میں نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا وہ اپنے سر پر رکھا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی

"کنول آپ رو کیوں رہی ہیں ؟"

"بس ایسے ہی آپکو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے یہ میرا زاتی معاملہ ہے "
وہ تلخی سے بولی

"کچھ باتیں صرف اپنی زات تک محدود رکھنے والی نہیں ہوتی دیکھیں میں اچھے سے جانتا ہوں کہ آپ مجھے نہیں بتانا چاہتی لیکن میں اتنا ضرور کہونگا کہ آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہیں ہو سکتا ہے میں آپکی کوئی مدد کر پاؤں !"


مجھے کسی کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیں ۔۔"

تم آخر اتنی ضدی کیوں ہو کنول !" مجھے غصہ آگیا وہ حیرانی سے مجھے دیکھنے لگی

" یو اکیلے رہ کر کسی سے اپنی پرابلم شیئر نا کرکے تمہیں کیا لگتا ہے تمہاری مشکلیں آسان ہو جائینگی ۔۔۔تو تم غلط ہو اکیلاپن ہماری تکلیفیں اور بڑھاتا ہے ۔۔جبکہ ساتھ رہ کر ہم مشکلوں کا حل نکال سکتے ہیں تم ایک بار مجھ پر یقین کر کے دیکھو ۔۔۔اپنی پرابلم شیئر کرو "
وہ گھٹنوں میں سر دیکر رونے لگی میں نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ دیا وہ روتے ہوئے کہنے لگی

" مجھے کئی دنوں سے ایک کال آ رہا ہے وہ مجھے بلیک میل کر رہا ہے اور مجھ سے ملنا چاہتا ہے میں نے کئی بار اسکا نمبر بلاک کیا لیکن ہر بار وہ نئے نمبر سے فون اور میسیجز کرتا ہے میں جہاں بھی جاتی ہوں اسے خبر ہوتی ہے مجھے اس سے بہت ڈر لگ رہا ہے "

" اور تم اتنی سی بات پر اس سے ڈر رہی ہو ۔۔ایڈیٹ ! ۔۔۔تم خود اپنا نمبر تبدیل کر لو ۔۔اور وہ کیسے بلیک میل کرتا ہے تمہیں کیا اسکے پاس تمہارے خلاف کچھ بھی ہے جس سے وہ بلیک میل کر سکے "
میں نے غصہ سے پوچھا اس نے نا میں سر ہلا دیا مجھے اسکی معصومیت اور بیوقوفی پر ہنسی آ رہی تھی وہ رونی صورت بنا کر مجھے دیکھ رہی تھی

" ایک انجان آدمی آپ کو تھوڑی بہت دھمکی دیتا ہے اور آپ اس سے اتنا ڈر گئیں کنول وہ آپکی معصومیت اور سیدھے پن کا فائدہ اٹھا رہا ہے وہ سمجھ گیا ہیکہ آپ کتنی ڈرپوک ہیں اور اسکی ساری بات مان جائینگی شکر ہے کہ اب تک کچھ ہوا نہیں اور میں نے وقت رہتے آپ سے پوچھ لیا ورنہ آپ تو اس سے ملنے کے لئے بھی راضی ہو جاتیں "
میں نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا

میں نے ایسے نہیں سوچا تھا میں ڈر گئی تھی "
اس نے نظریں جھکا کر کہا وہ مجھے اور بھی پیاری لگی یقین نہیں ہوتا کوئی اتنا بھی معصوم ہو سکتا ہے میں مہبوت سا اسے دیکھے گیا اس نے اپنی پلکیں نیچے کر لیں

" کنول ۔۔ایک بات کہوں آپ سے ؟"

" جی کہیے !"

مجھے آپ بہت اچھی لگتی ہیں ۔۔"
اس نے غزالی آنکھوں میں دنیا جہاں کی حیرانی سموئے میری اور دیکھا

" جس دن میں نے آپکو پہلی بار دیکھا اسی دن میں آپ پر اپنا دل ہار گیا مجھے نہیں پتا آپ لو ایٹ فرسٹ سائٹ پر یقین رکھتی ہیں یا نہیں لیکن جو پہلی نظر میں ہو جاتا ہے نا مجھے بھی آپ سے وہی والا پیار ہو گیا ہے کنول ۔۔آئی لو یو !"
میں نے بے اختیار انکا نازک سا ہاتھ تھا م لیا جسے کچھ ہی دیر میں انہوں نے چھڑا لیا

مجھے نہیں سمجھ آ رہا آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔میری کلاس شروع ہونے والی ہے میں چلتی ہوں !"
وہ جلدی سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی میں انکے سامنے کھڑا ہو گیا

"میں کوئی سڑک چھاپ عاشقوں والا کام نہیں کرونگا کنول میں نے آپکے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے ۔۔۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ بھی مجھ سے پیار کریں میں آپسے محبت کرتا ہوں اور بس کرتے رہنا چاہتا ہوں ۔۔۔ہر مشکل میں آپکے ساتھ کھڑا رہنا چاہتا ہوں ۔۔
وہ اپنی بات ختم کرکے رکا نہیں اور چلا گیا کنول اسے جاتا دیکھتی رہی



آج میں نے انہیں کالج میں ہر جگہ ڈھونڈا لیکن انکا کہیں پتا نہیں تھا انکی دوست نے بتایا کہ وہ کالج آئی تھی لیکن ایک بھی کلاس نہیں کی میں بہت پریشان ہو گیا تھا من میں عجیب عجیب سے اندیشے سر ابھارنے لگے تھے

میں بلاوجہ لائبریری میں چلا آیا وہ کتابوں میں گھسی ہوئیں تھیں میری ساری پریشانی اسکے معصوم سے چہرے کو دیکھ کر ختم ہو گئی میرے قدم بے اختیار انکی اور اٹھ گئے

"آپ یہاں ہے آپکو کچھ خبر ہی میں آپکے پیچھے کتنا خوار ہوا ہوں"
میرے لہجے میں اپنے آپ خفگی اتر آئی اس نے معصومیت سے مجھے دیکھا اور اپنی ٹھوڑی پر پین ٹکا کر میری اور دیکھنے لگی

تو کیا مجھے الہام ہوگا کہ آپ میرے پیچھے خوار ہو رہے ہیں "
وہ ادا سے بولی اور واپس کتابوں میں گھس گئی

میں آپکے لئے پریشان ہو رہا تھا بائی دا وے اگر آپکی پڑھائی ہو چکی ہو تو کینٹین چلیں ؟"
میں نے پوچھا مجھے یقین تھا کہ سامنے سے انکار ہی ہوگا وہ بھلا میرے ساتھ کھانے کے لئے کیسے تیار ہوگی

ٹھیک ہیں چلیں !"
وہ اپنی کتابیں سمیٹتی ہوئی بولی مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا

کیا؟؟۔۔۔ سچ میں ۔۔آج سورج کہاں سے نکلا ہے مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا "
میں حیرانگی سے بولا

لائبریری سے نکلنے کے بعد حیران ہو لیجئیگا فل حال چلیں ورنہ ڈانٹ پڑیگی "
وہ بیگ کندھوں پر ڈالے نکل گئی میں بھی انکے ساتھ ہو لیا


"""


کالج سے نکلنے کے بعد میں میں نے کنول سے کہا کہ میں انہیں ہاسٹل ڈراپ کر دونگا لیکن وہ تیار نہیں ہوئیں اور ٹیکسی سے لیکر چلی گئیں میں بھی گھر آکر کھانا کھال اپنے کمرے میں آگیا کچھ دیر بعد مجھے کنول کی دوست کا فون آیا مجھے کافی حیرت ہوئی لیکن اگلے ہی پل مجھے زبردست شاک لگا کنول ہاسٹل نہیں پہنچی تھیں انکا فون بھی آف آ رہا تھا میں نے بھی کئی بار کوشش کی لیکن فون بند ہی آ رہا تھا

علی یار ایک پرابلم ہو گئی ہے مجھے تم سب کی مدد چاہئیے ابھی "

دوست ہر مشکل میں کام آتے ہیں ۔۔۔۔پھر علی تو میرا بچپن کا دوست تھا میری پرچھائیں کی طرح ۔۔وہ فوراً تیار ہو گیا مجھے یقین تھا کہ ہو نا ہو یہ وہی بندہ ہوگا جو اسے کال کرکے پریشان کرتا تھا کنول کی دوست نے بتایا تھا کہ کالج کا ایک لڑکا ارمان کافی دنوں سے اس کے پیچھے پڑا ہے اور پریشان کرتا ہے ارمان کے بارے میں تو سبکو پتا ہے کہ وہ ایک بگڑا ہوا رئیس زادہ ہے اور بہت بڑا لفنگا ہے

کچھ ہی دیر میں ہماری پوری فوج ہاکی ، بیٹس کے ساتھ تیار ہو گئی ۔۔۔میرے دوست جو ایسے بھلے ہی بیکار اور بدتمیز تھے لیکن وقت آنے پر ایک دوسرے کے لئے جان کی بازی لگانے کے لئے تیار رہتے تھے ۔۔

ہم لڑکوں کی دوستی ایسی ہی ہوتی ہر مشکل میں ہم ساتھ ہوتے ہیں خاص تور پر تب جب ہمیں کسی کی کٹائی (پٹائی ) کرنے کا موقعہ مل جائے ۔۔۔ارمان بھلے ہی گنڈا تھا لیکن میری گینگ میں سب شریف گنڈے تھے
خیر ہم سب نے ارمان کے اڈے پر دھاوا بول دیا میں کنول کے لئے پریشان بھی تھا تھوڑی پٹائی کرنے کے بعد اگل دیا کہ اس نے کنول کا کڈنیپ کیا ہے
میں اس کمرے میں چلا گیا جہاں وہ قید تھی ایک کرسی سے بندھی ہوئی ڈری سہمی کانپ رہی تھیں

کنول آپ ٹھیک تو ہیں نا ؟"

میں نے انہیں رسیوں سے آزاد کیا وہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگیں ۔۔وہ لمحہ ۔۔جیسے رک سا گیا ۔۔جیسے چاروں طرف وائلن بجنے لگے ۔۔۔ستارے رقص کرنے لگے میں آنکھیں موندے انکے ہنس کو محسوس کرتا رہا ۔۔۔انکے بالوں کی خوشبو میری روح کو معطر کر گئی

سچا پیار چپ چاپ آتا ہے نا آتش بازی ہوتی ہے نا کوئی فلمی سین ہوتا بس ہمارے دل میں گھنٹی بجتی ہے ۔۔۔اور میرے دل میں تو کنول کو دیکھتے ہی گھنٹی بج گئی تھی

ارمان اور اسکی پوری گینگ کو جیل بھجوا کر میں اور علی کنول کو ساتھ کے آئے میں اس وقت خود کو ہیرو سمجھ رہا تھا ویسے سچ میں واقعی ایک فلمی سین تھا
میری معصوم سی ہیروئن اور میں اسکا دبنگ ڈیشنگ ہیرو ہماری جوڑی سپر ہٹ تھی بس کنول ہی مجھ پر دھیان نہیں دے رہی تھیں



اس کے بعد سے ہماری دوستی ہو گئی شاید اسے بھی میرا ساتھ اچھا لگنے لگا ہے آج بارش ہو رہی تھی میں زبردستی انہیں بھٹا کھلانے لے گیا مجھے بارش میں بھنا بھٹا کھانا بہت پسند ہے وہ بھی نیمبو اور نمک کے ساتھ ۔۔۔اس لئے کنول کو زبردستی لے گیا اور بعد میں انہیں ہاسٹل بھی چھوڑا




اب تو ہماری فون پر باتیں بھی ہوتی ہیں اور ملاقاتیں بھی وہ میرے قریب آنے لگی ہے شاید اسکے دل میں میرے لئے جگہ بن گئی ہے اور اگر نہیں بنی ہے تو بھی وہ دن دور نہیں جب وہ میری محبت میں گرفتار ہو جائیگی


آج شام میں اس نے مجھے کال کرکے ملنے بلایا تھا اسے مجھ سے بہت ضروری بات کرنی تھی وہ ہاسٹل کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی میں نے دور سے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلایا وہ مسکرا دی سفید رنگ کے سوٹ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی

وہ میری اور بڑھنے لگی لیکن اگلے ہی پل ایک وین وہاں رکی اور دروازہ کھلا اور کنول کو کسی نے اندر گھسیٹ لیا سیچوئیشن سمجھنے میں مجھے وقت لگ گیا سب کچھ اتنا خلاف توقع تھا کہ میرے ہواس فاختہ ہو گیا میں نے بھی اپنی بائیک سیدھا اس وین کے پیچھے لگا دی جانے کب تک یہ تعاقب چلتا رہا انہیں میری موجودگی کا پتا تھا میرے پیچھے ایک اور وین آ گئی جس مین سن روف سے گھٹیا اور اوباش قسم کے لوگ کھڑے ہوکر مجھ پر نشانہ لگا رہے تھے

انکے ہاتھوں میں گن تھی وہ ہوائی فائر کر رہے تھے مجھے اپنی جان بھی بچانی تھی اور اپنی جان کو بھی بڑی مہارت سے مین نے اپنی بائیک ایک تنگ گلی میں لگا دی مجھے شارٹ کٹ پتا تھا کچھ گنڈے بائک سے بھی تھے انکے ہاتھ میں بیٹ اور ہاکی وغیرہ تھے اور وہ بار بار مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن انکا ہر وار خالی جا رہا تھا میں نے ایک دوکان پر رکھی شیشے کی بوتل اٹھائی اور اپنے قریب آتے بائیک سوار پر چلا دی وہ بنا ہیلمیٹ کے تھا اسکے سر سے خون کی دھار نکلی اور وہ اپنی بائیک سمیت زمین پر گر گیا چوٹ تو بہت آئی ہوگی بے چارے کو ۔۔۔

خیر دو بائیک سوار اب بھی میرے پیچھے تھے لیکن میری جتنی مہارت نہیں تھی ان میں آخر میں اپنے گروپ کا بیسٹ رائیڈر ٹھہرا ۔۔۔آخرکار میں نے وین کے ساتھ ہو گیا جس میں کنول تھی وین ایک سنسان سڑک پر جا رہی تھی اور کچھ ہی دیر میں جنگلوں میں رک گئی شاید اس میں کچھ خرابی آ گئی تھی ادھر میری بائیک کا فیول ختم ہو گیا اور میں نے پلان تبدیل کر دیا میں یہاں اکیلا چلا آیا تھا اور گنڈے تعداد میں زیادہ تھے وہ بھی ہتھیاروں سے لیس سامنے سے جانا مطلب موت کے منھ میں گھسنا میں نے اپنی بائیک ایک محفوظ جگہ چھپا دی اور کنول کو سبکی نظروں سے چھپ کر ڈھونڈنے کا ارادہ کر لیا کچھ ہی دیر میں وہ مل گئی ارمان نے انہیں باندھ رکھا تھا اور اپنی گندی نظروں سے اسے گھور رہا تھا میرا خون خول اٹھا لیکن ضبط کر گیا

کنول خوفزدہ تھی اور تھر تھر کانپ رہی تھی ارمان کے آدمی پریشان تھے اور شاید مجھے ہی ڈھونڈ رہے تھے وہ تعداد میں آٹھ تھے میں کچھ زیادہ ہی سمجھا تھا چھ تو چاروں طرف پھیل گئے مجھے ڈھونڈنے کے لئے اور دو ارمان کے اگل بغل اسکا باڈی گارڈ بنکر کھڑے ہو گئے اب ارمان اپنی للچائی نظروں سے کنول کو دیکھ بھی رہا تھا اور چھونے کی کوشش کر رہا تھا میری مٹھیاں بھینچ گئیں
اس وقت میں پیڑ پر چڑا ہوا تھا میں نے اپنی جیب میں رکھا پتھر نکالا اور انسے تھوڑی دوری پر جھاڑیوں میں اچھال دیا ان بیوقوفوں کو لگا شاید میں ہوں وہ دونوں اس اور لپکے جبکہ ارمان بھی چوکنا ہو گیا میں نیچے کودا اور ارمان کے سر پر پاس پڑا پتھر اٹھا کر مار دیا وہ بے سدھ ہوکر گر پڑا میں نے باڈی گارڈز کے آنے سے پہلے کنول کو کھولا اور انکا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے بھاگا اور ہم سڑک کی اور جانا چاہ رہے تھے

وہ بہت ہی طوفانی رات تھی ۔۔۔ بارش بھی زوروں کی ہو رہی تھی ہمیں راستہ ڈھونڈنے میں دشواری ہو رہی تھی چونکہ ہم جنگلوں میں تھے تو اندھیرا بھی گھنا تھا کبھی کبھار بجلی چمکتی تو ہمیں راستہ دکھائی دے جاتا زمیں پر گھٹنوں تک پانی بھر آیا تھا ہمیں بھاگنے میں دشواری ہو رہی تھی اوپر سے بادل گرجنے کی اور بجلی کڑکنے کی آواز سے دل دہلا جا رہا تھا
کنول تو بہت تھک گئیں تھیں اور روتی جا رہی تھیں انہیں یہاں سے صحیح سلامت نکالنے کا عزم کر چکا تھا میں اسکے لئے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے
ارمان اور اسکے آدمیوں کے دوڑنے کی آوازیں بہت قریب سے آ رہی تھیں اچانک سے کنول کا پیر شاید کسی پتھر سے ٹکرایا اور انکا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا وہ زمین پر گر گئیں ۔۔۔ارمان کے چلانے کی آواز بہت قریب ہو گئی تھی ۔۔وہ شاید ہم سے کچھ ہی قدم دور تھے تبھی ایک فائر ہوا اور ۔۔۔۔"


""""


ک۔۔۔کون ہے وہاں ؟"
منال نے خوفزدہ آواز میں پوچھا ایک سایہ اسکی طرف بڑھتا جا رہا تھا ۔۔اس نے ڈائری بند کرکے اپنی پیٹھ کے پیچھے چھپا لی ۔۔کمرے میں صرف لیمپ کی مدھم پیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی اس سائے نے کالا ہوڈی پہن رکھا تھا ایک کیپ بھی لگائی ہوئی تھی چہرے پر ماسک سے ڈھکا ہوا تھا

کِک۔۔۔کون ہو تم ؟۔۔بتاؤ ورنہ میں شور مچا دونگی !"

وہ کپکپاتی آواز میں بولی اس سائے نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔لیکن وہ چیخنا شروع ہو گئی اس نے شاید ڈائری چھپاتے ہوئے دیکھ لیا تھا وہ اس سے چھیننے کی کوشش کرنے لگا اور اسی ہاتھاپائی میں لیمپ بھی منال کے ہاتھ سے لگ کر گر گیا ۔۔۔

کمرے میں مکمل تاریکی پھیل گئی وہ بلکل منال کے اوپر تھا اور اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا منال نے بڑی مشکل سے سوئچ بورڈ کی طرف ہاتھ بڑایا لیکن اسکا ہاتھ صرف نائٹ بلب والے سوئچ پر پڑا اور کمرے میں مدھم نیلی روشنی پھیل گئی منال نے اس نقاب پوش کے چہرے سے ماسک ہٹا لیا لیکن اس سے پہلے وہ اسکا چہرہ دیکھ پاتی وہ جھکا اور اپنے ہونٹ منال کے ہونٹ پر رکھ دئے ۔۔۔وہ شاکڈ رہ گئی اور اسکی پکڑ بھی ڈھیلی ہو گئی وہ بنا موقعہ گنوائے تیر کی طرح کھڑی کے پاس پہنچا اور غائب ہو گیا منال اب بھی سکتے کی کیفیت میں تھی اس اجنبی کے لمس کی حدت اب بھی اپنے ہونٹوں پر محسوس کر رہی تھی ۔۔۔اسکے پرفیوم اور پسینے کی ملی جلی خوشبو اسکے جسم کو معطر کر رہی تھی

لیکن وہ یہاں کس لئے آیا تھا ؟ ۔۔۔وہ کون تھا ؟؟۔۔۔کیوں آیا تھا ؟؟۔۔
اور اگلے ہی پل اسے اپنے اس کیوں کا جواب مل گیا ڈائری جو اسنے اپنے پیٹھ کے نیچے چھپائی تھی ندارد تھی ۔۔۔


( جاری ہے )


 
Buhat umda, kafi pukhtagi hai aap ka tehreer mein.
 

قسط ۳


سر میں نے یہ نہیں کیا ۔۔میرا یقین کریں پلیز !"
وہ روہانسی ہوکر ممیائی لیکن اسکے لیکچرر چراغ پا نظروں سے اسے گھورے جا رہے تھے فرش کو گھورنے لگی

یہ تم نے نہیں کیا تو کیا میں نے کیا ہے بیوقوف لڑکی !"

پروفیسر ارشد نے نوٹ بک اسکے سامنے لہرائی پوری کلاس میں دبے دبے قہقہے چھوٹ پڑے وہ اپنا ہونٹ کانٹ کر رہ گئی

اس کا لیکچر سننے میں دھیان نہیں لگ رہا تھا اسنے پروفیسر ارشد کا کارٹون بنا دیا تھا
انکا قد بہت چھوٹا تھا چار فٹ سے ایک دو انچ اوپر رہے ہونگے اوپر سے ہاتھی جتنے موٹے آنکھوں پر موٹا کالا چشمہ سر کے بال آگے سے جھڑ گئے تھےپہلی نظر میں منال کو انہیں دیکھ کر تربوز کی یاد آئی تھی وہ بلکل گول مٹول تربوز کی مشابہت ہی تھے چلتے تو ایسا لگتا تربوز لڑھکتا چلا آ رہا ہو

اس نے کاپی پر وہی بنایا تھا ایک تربوز میں چہرہ اور ہاتھ پیر بنا کر باقاعدہ انکا نام بھی لکھا تھا اسکے دوسری طرف بیٹھی حوریہ کی نظر اس پر پڑھ گئی وہ تو پہلے دن سے ہی منال سے چڑتی تھی جب سے اس نے اسکا بیگ پھینکا تھا بس پھر کیا تھا اس نے کاپی چھینی اور پروفیسر ارشد کے سامنے پیش کر دی اور اتنی معافی مانگنے کے باوجود اسے سزا مل ہی گئی پورے کالج کی سیڑھیوں کے صفائی کرنی تھی کالج ٹائم ختم ہونے سے پہلے کالج میں تو کبھی کسی کو سزا نہیں ملی ہوگی لیکن یہ منال تھی اسکے رہتے سب کچھ ممکن تھا

"""


اسکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جسے اسنے بے دردی سے پونچھ دیا وہ اب اور رونا نہیں چاہتا تھا علی نے سہی کہا تھا کسی دکھ کو ہمیشہ سینے سے لگا کر نہیں جیا جاتا ۔۔۔۔اتنے سالوں سے اسکی زندگی وہیں پر رکی ہوئی تھی جہاں اس نے کنول کو چھوڑا تھا وہ اب آگے بڑھنا چاہتا تھا وہ اپنے غموں کو سینے سے لگائے زندہ لاش بنا ہوا تھا اپنی زندگی اسے بوجھ معلوم ہوتی تھی

اس نے پین نکالا اور ڈائری کے آخری پننے پر لکھنے لگا

" کنول میں نے ہمیشہ تمہیں چاہا ہے ۔۔جب تم نے مجھے چھوڑ کر گئی تو مجھے ایسا لگا میں مر جاؤنگا ۔۔میں مرنا چاہتا تھا تکلیف سے میرا دل پھٹا جا رہا تھا لیکن میں نہیں مر پایا ۔۔۔میں نے سوچا تمہارے ساتھ ہی اپنی جان دے دوں کم سے کم اس دنیا میں نہیں تو مرنے کے بعد ہی مل جائیں لیکن شاید خدا کو یہ منظور نہیں تھا میں زندہ رہا اور اب بھی زندہ ہوں ۔۔۔اس درد کے ساتھ ۔۔۔اس ازیت کے ساتھ ۔۔لیکن تمہاری یادوں کا سرمایہ ہے میرے پاس۔۔۔جسکی وجہ ہر پل میں نے تمہیں اپنے ساتھ پایا ۔۔۔میں انڈیا واپس آگیا ہوں ۔۔ہمیشہ کے لئے اور اس ڈائری کے زریعہ تم سے بات کر رہا ہوں ۔۔اور شاید یہ آخری بات ہے جو میں تم سے کر رہا ہوں ۔۔میں نے تمہیں ہمیشہ یاد کیا ہے کنول !۔۔۔میں نے تمہیں ہمیشہ چاہا ہے ۔۔مر کر بھی تم ہمیشہ میرے ساتھ ہو ۔۔"

اس نے ڈائری بند کر دی اور اپنا لکھا نوٹ کانپتے ہونٹوں کے ساتھ پڑا اور اس ڈائری کو آتش دان کی نظر کر دیا
ڈائری دھوں دھوں کرکے جل رہی تھی لیکن اسکی تپش وہ اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا

"""


اللہ پاک میں نے کونسا اتنا بڑا گناہ کر دیا جو آپ نے مجھے اتنی بڑی سزا دے دی وہ بھی صبح ہی صبح ۔۔میری کمر ٹوٹ رہی ہے !"
وہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر روہانسی ہوکر بولی وہ پسینے سے تر تھی اتنا بڑا کالج تھا وہ بھی چار فلور کا ابھی تو اس نے ایک ہی فلور کی سیڑھیاں صاف کی تھیں وہ بھی صرف جھاڑو لگایا تھا ماپنگ (پوچھا لگانا) ابھی باقی تھا

یہ لو جوس تمہارا اسٹیمنا لو ہو رہا ہے شاید ۔۔"
عماد جوس کا گلاس اسکی طرف بڑھاتا ہوا بولا اس نے جھٹ سے لپک لیا

عماد تھینک یو سو مچ ! مجھے اس کی بہت ضرورت تھی یار "
وہ جلدی جلدی جوس گٹکنے لگی پھر بولی " اس حوریہ کی بچی کو میں چھوڑونگی نہیں تم دیکھ لینا ایسا بدلہ لونگی کہ زندگی بھر یاد رکھے گی ۔۔"

وہ نتھنے پھلا کر بولی " ہاں تو کس نے کہا تھا تربوز بنانے کو اور بنایا تو بنایا نام بھی لکھ دیا اب بھگتو !"
وہ محفوظ ہوتا ہوا بولا اور کولڈ ڈرنک منھ سے لگا لیا منال نڈھال سی سیڑھی پر بیٹھ گئی عماد کو اس پر بہت ترس آیا اسکے کالے بالوں ک لٹیں پسینے سے اسکے چہرے پر چپکی ہوئی تھیں ۔۔۔ہمیشہ تروتازہ رہنے والا چہرہ تھکن سے کمہلایا ہوا تھا وہ منھ بسور کر بیٹھی ہوئی تھی عماد نے ماپ mop اسکے ہاتھ سے لے لیا انہیں اوپر سے نیچے جانا تھا عماد نے پہلے فلور کی سیڑھی اچھے سے صاف کر دی

چلو اپنا کام بانٹ لیتے ہیں ۔۔تم جھاڑو لگاؤ میں ماپنگ کر دونگا لیکن دھیان رہے کسی کی نظر نہ پڑے ہم پر !"

تم میری مدد کیوں کر رہے ہو ؟؟"
پڑوسی کے حقوق و فرائض اچھے سے یاد ہیں مجھے اسلئے ۔۔چلو شاباش کام پر لگ جاؤ پھر آئسکریم کھانے چلینگے !"
وہ اسے پچکارتا ہوا بولا آئس کریم کے نام پر اسکی آنکھیں چمک اٹھیں اور پورے جوش و خروش کے ساتھ صفائی شروع ہو گئی ڈیڑھ گھنٹے کے اندر ہی کالج کی ساری سیڑیاں چمک گئیں اب وہ دونوں کالج کے گراؤنڈ میں کھڑے ہانپھ رہے تھے

میں کار نکالتا ہوں ۔۔۔تم اسے سنبھالو!"
عماد نے ہنستے ہوئے جھاڑو اسکی اور اچھالی وہ بڑی مشکل سے بچی " ایڈیٹ " وہ بڑبڑائی۔

""


کل جہانزیب انکل کے گھر ہماری دعوت ہے ۔۔تم بھی ساتھ چل رہے ہو !"
احسن صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا منھ میں جاتا ہوا چمچ رک گیا اور وہ متحیر سا انہیں دیکھنے لگا

آپ لوگ جائیے ڈیڈ ! مجھے کہیں نہیں جانا !"
وہ لاپرواہی دے بولا اور واپس کھانے میں مصروف ہو گیا وہ بغور اسکا چہرہ دیکھنے لگے اپنے جوان جہان بیٹے کی آنکھوں میں ناگواری انہوں نے صاف محسوس کی تھی

میں تم سے پوچھ نہیں رہا شہیر ۔۔بتا رہا ہوں ۔۔اٹس مائے آرڈر ۔۔یو گھاٹ اٹ !"
وہ کرسی پیچھے دھکیلتے ہوئے سختی سے بولے اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے شہیر نے چمچ زور سے ٹیبل پر پٹکا اسکی آنکھوں میں غصہ صاف جھلک رہا تھا

شہیر تمہیں وہاں چلنا ہوگا سمجھے ۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ تمہارے ڈیڈ پھرسے تم سے خفا ہو جائیں ۔۔۔کھانا ختم کرو اپنا !"
حمیرا نے کہا وہ اپنے بیٹے کے اس باغی روئے سے عاجز آ چکی تھیں

میری بھوک مر گئی ہے مام ۔۔۔آپ کھائیے !"
وہ کرسی دھکیلتا ہوا اٹھا اور تیر کی تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گیا


""""


Yummy ...so delicious !"
وہ چٹخارے لیتے ہوئے بولی اسکی آئس کریم ختم ہو رہی تھی اس نے چاکلیٹ فلیور کی آئس کریم منگائی تھی جبکہ عماد کی سٹرابیری اور ونیلا مکس تھی اور باؤل میں بہت خوبصورتی سے سجائی گئی تھیں ۔۔وہ کنخیوں سے اسکی آئسکریم کی اور للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھی

تمہاری آئس کریم بہت ٹیسٹی لگ رہی ہے ۔۔"وہ چمچ اسکے باؤل میں ڈالتے ہوئے بولی اور آرام سے کھانے لگی عماد نے جلدی سے اپنا باؤل پیچھے کیا اور اسے گھور کر دیکھا

کیا ہو گیا ہے دو ہی چمچ تو لئے ہیں ۔۔۔تمہاری جان نکل رہی ہے کنجوس !"
وہ منھ بگاڑ کر بولی جواب میں اس نے گھور کر دیکھا اور ویٹر سے اپنے فلیور کی ایک اور آئس کریم منگوائی وہ شوق سے کھانے لگی

تمہیں جتنی آئس کریم کھانی ہے شوق سے کھاؤ!"وہ مسکرا کر بولا

ہیں کیا سچ میں ؟؟"وہ حیرانی سے آنکھیں پھیلا کر بولی

بلکل کیونکہ اپنی آئسکریم کا بل تم نے ہی پے کرنا ہے تو جتنی مرضی اتنی کھاؤ !" وہ مسکرا کر آرام سے بولا وہ بری طرح چڑ گئی

کیا؟؟؟میں کیوں پے کروں ؟؟۔۔تمہیں زرا بھی مینرس نہیں ہیں ۔۔ایک لڑکی سے پیسے مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی تمہیں ۔۔"

لڑکی ؟؟؟یہاں لڑکی کون ہے ؟؟۔۔یہ رول rule صرف لڑکیوں پر لاگو ہوتے ہیں ۔۔۔اور تم تو ان دونوں کے بیچ کے کڑی ہو ۔۔a doubtful person " وہ اسے اور تپا گیا

تم میرے لُکس کا مزاق اڑا رہے ہو نا ۔۔آئی ہیٹ یو !!"
وہ جلدی اپنی آئس کریم ختم کرکے شاپ سے نکل گئی

ارے کہاں جا رہی ہو بل کون پے کون کریگا ؟؟"
عماد نے پیچھے سے ہانک لگائی اور جلدی جلدی بل پے کرکے اس کے پیچھے لپکا

اچھا سوری یار ! میں بس تمہیں تنگ کر رہا تھا !"
وہ اس سے معزرت کرتا ہوا بولا وہ منھ پھلائے سڑک پر کھڑی تھی اسے دیکھ کر منھ دوسری اور پھیر لیا

اوکے آج کے بعد تمہیں بلکل بھی نہیں چڑاؤنگا ۔۔" لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ٹیکسی روکنے کی کوشش میں لگی تھی " اچھا ٹھیک ہے پھر تین دن تک آئس کریم میری طرف سے فری میں کھلاؤنگا وہ بھی سب سے مہنگی والی ۔۔۔اور۔۔۔اور کینٹین میں فری سموسے بھی "

پکا وعدہ ؟؟" وہ جھٹ سے اسکا آفر مان گئی عماد مسکرا دیا اور اقرار میں سر ہلایا منال کے ہونٹوں پر بچوں جیسی مسکان کھل گئی یہ پاگل سی لڑکی کچھ ہی دنوں میں اسکے لئے بہت خاص بن گئی تھی ورنہ عماد جہانگیر نے کبھی کسی لڑکی کو منانے کی کوشش نہیں کی تھی وہ تو اب تک جانے کتنی لڑکیوں کے دل توڑ چکا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ لڑکیوں سے دور ہی رہتا تھا


"""

آج احسن انکل کی فیمیلی رات کے کھانے پر انوائیٹیڈ ہے ۔۔انکے سامنے یہ ڈوریمون اور پیکاچو والی فالتو ٹی شرٹ پہن کے مت آ جانا !"
مدیحہ نے اسکی ٹی شرٹ پر تنز کے تیر پھینکے جس میں پیکاچو بہت پیارا لگ رہا تھا

مما آپ میرے پیکاچو کی بے عزتی نہیں کر سکتیں "
وہ اپنے پسندیدہ کارٹون کی بے عزتی پر تڑپ اٹھی

اچھا بکواس نا کرو میرے ساتھ ۔۔۔شام میں کسی پارلر چلی جاؤ اور اپنا ہولیہ تھوڑا ٹھیک کرا لو میرے پاس وقت نہیں ہوگا ورنہ میں خود لے جاتی !"

میں پارلر کیوں جاؤں ۔۔؟؟"

شہیر بھی آ رہا ہے اس لئے کہہ رہی ہوں ۔۔تمہارے لئے ڈریس میں نے سلیکٹ کر دیا ہے وہی پہننا ہے ۔۔میں چاہتی ہوں میری بیٹی بہت خوبصورت لگے آج !!"
وہ اسکے سر پے ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولیں لیکن شہیر کا نام سن کر اسکا منھ بگڑ جیسے کوئی بد مزہ چیز کھا لی ہو

مام مجھے وہ بلکل پسند نہیں آپکو یاد ہے نا پچھلی بار اس نے میرے ساتھ کیا کیا تھا ۔۔"

منال تب تم سات سال کی تھی اور وہ گیارہ سال کا تھا اب ماشااللہ بہت ہی خوبرو نوجوان ہے اوپر سے سمجھدار بھی ۔۔۔تم اب تک بچپن کی باتیں دل سے لگائے بیٹھی ہو ۔۔پاگل کہیں کی "
وہ افسوس سے سر ہلاتے ہوئے بولیں اور اپنے شوہر کی اور خفگی سے دیکھا جو فائلس پر جھکے ہوئے تھے اپنی بیوی کو گھورتا پاکر وہ انکی اور متوجہ ہوئے "ہاں مینو وہ سب بچپنے کی باتیں تھیں اب تم شہیر سے ملوگی تو بہت اچھا لگےگا تمہیں ۔۔۔وہ بہت اچھا بچہ ہے اس لئے اپنی مام کی بات مان لو بیٹا "
وہ اسے پچکارتے ہوئے بولے وہ جھٹ سے تیار ہو گئی اور ہونٹوں پر پیاری سی مسکان کھل گئی

اوکے ڈیڈ !"وہ مسکراتے ہوئے بولی اور اپنے کمرے میں جانے لگی " دیکھو اس بدتمیز کا کب سے مین خوشامد کر رہی تھی اور اپنے باپ کی ایک بات پر کیسا فٹافٹ تیار ہو گئی ۔۔میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اس گھر میں !"
مدیحہ نے تیز آواز میں اسے اور پھر اپنے شوہر کو گھور کر دیکھا منال کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ رقص کر رہی تھی

اب تو ملنا ہی پڑیگا شہیر احسن سے ۔اور اس سے ڈائری بھی تو واپس لینی ہے !"


"""

بلو فُول سلیوز گاؤن پر وہ بہت پیاری لگ رہی تھی کانوں میں بلو ٹاپس ۔۔لائٹ پنک کلر کا نیچرل میک اپ مدیحہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر وارے نیارے ہو رہی تھیں کہاں وہ ٹام بوائے ۔۔اور کھلنڈری سی مینو اور کہاں یہ پیاری سی منال دونوں میں زمین آسمان کا فرق لگ رہا تھا اور مہمانوں کے سامنے وہ بہت تمیز سے پیش آ رہی تھی ۔۔ہونٹوں پر شرمیلی مسکراہٹ سجائے
وہ حمیرا بیگم کو پر فیکٹ بہو لگی

منال جاؤ شہیر کو گھر دکھا دو ۔۔۔حالانکہ یہ اسی کا گھر تھا لیکن پھر بھی تم دونوں اب بڑوں میں کیا بور ہوگے ۔۔۔جاؤ بیٹا !"
مدیحہ نے اس سے کہا وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی وہ تو کب سے اس موقعہ کی تلاش میں تھی کی وہ اس سے ڈائری کا پوچھے
شہیر شاید بہت ہی کم گو تھا اسکی باتوں کا بہت مختصر سا جواب دیتا اور صرف ہوں ہاں سے کام چلا رہا تھا وہ منال کو بلکل بھی پسند نہیں آیا حالانکہ وہ بہت ہی خوبصورت اور ڈیشنگ تھا کسی فلمی ہیرو کی طرح لیکن منال کو وہ عماد جیسا نہیں لگا

شہیر وہ ڈائری کہاں ہے؟؟"
اچانک سے رک کر اس نے سوال داگا وہ آنکھوان میں حیرانی سموئے اسے دیکھ رہا تھا " کونسی ڈائری ۔۔؟؟؟"

وہی جو آپنے مجھ سے چرائی تھی ۔۔اس رات "(اور کس بھی کیا تھا )" آخری لائنیں وہ دھیمے سے بولی لیکن وہ سن چکا تھا

میں آپ سے کچھ کیوں چراؤنگا ۔۔۔آپ پتا نہیں کیا بکواس کر رہی ہیں منال !"اسکے نقوش تن گئے تھے شاید اسے غصہ بھی جلدی آتا تھا منال کو تو ایسا ہی لگا

کیوں نہیں چرا سکتے ۔۔تم نے وہ ڈائری چرائی ہے جیسے بچپن میں میری ڈالز اور ٹوائز بھی تم نے ہی چرائے تھے مجھے سب یاد ہے ۔۔۔ہاں ۔۔بھولی نہیں ہوں کچھ بھی ۔۔" وہ ہاتھ نچا کر بولی وہ بھی ہتھے سے اکھڑ گیا

تم اب بھی اتنی ہی بیوقوف ہو جتنی بچپن میں تھی ۔۔اور میں نے تمہاری ڈالز چرائی نہیں چھپائی تھیں وہ بھی تمہیں تنگ کرنے کے لئے تم نے بھی تو میری نئی بائیک کے ٹائر کاٹ دئے تھے ۔۔مجھے بھی سب یاد ہے !"

ہا۔۔۔تم ۔۔۔تم نے مجھے بیوقوف کہا ۔۔۔چور کہیں کے !"
وہ زور سے چلا کر بولی ۔۔۔شہیر کو اور تیش آ گیا

مائینڈ یور لینگویج مس منال جہانزیب ! مجھے تم جیسی بدتمیز اور جاہل قسم کی لڑکیاں قطعی پسند نہیں ۔۔!"

تو مجھے بھی کونسا تم جیسے چور اور لنگور ٹائپ لڑکے پسند ہیں ۔۔کھانا تو ٹھونس ہی چکے ہو اب دفعہ ہو لو میرے گھر سے ۔۔!"
منال کی باتوں نے اسے بری طرح تپا دیا لیکن اس نے بمشکل ضبط کیا اور دندناتا ہوا کمرے سے نکل گیا مام ڈیڈ نے اسکے لئے ایسی لڑکی ڈھونڈھی تھی جسے بات کرنے تک کی تمیز نہیں تھی


"""


اتنے دنوں بعد آپ سے ملکر بہت اچھا لگا بھائی ۔۔۔مجھے آپکی بہت یاد آئی !"
عماد اسکے گلے لگتا ہوا بولا حقیقتاً وہ بھی بہت خوش تھا عماد سے مل کر علی کے بعد ایک عماد ہی تھا جو اسکے ہر راز سے واقف تھا وہ اسکا آتا بھائی نہیں تھا لیکن انکا رشتہ خون کے رشتے سے بڑھکر تھا
وہ دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے مسلسل بجتی ڈور بیل نے انکا موڈ خراب کر دیا
عماد دیکھنے کے لئے چلا گیا وہ برامدے پر آگیا اور نیچے دیکھنے لگا

""

اس نے سوچا تھا دروازہ کھولتے ہی آنے والی کی شان میں قصیدے پڑیگا جو اپنی انگلی ڈور بیل سے چپکا کر بیٹھ گیا ہے لیکن اس پر نظر پڑتے ہی وہ سب بھول کر مہبوت سا اسے دیکھے گیا اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ منال اتنی پیاری بھی لگ سکتی ہے

میرا موڈ بہت زیادہ خراب ہے کیا ابھی ہم گھومنے جا سکتے ہیں ۔۔چلو نا آئسکریم کھاتے ہیں ۔۔"
منال چہک کر بولی وہ جو اسے نہارے جا رہا تھا ہوش کی دنیا میں واپس لوٹ آیا وہ منال کو منا تو نہیں کرنا چاہتا تھا مگر مجبوری تھی اسی لئے معزرت کر لئے وہ منھ پھلائے واپس اپنے گھر میں گھس گئی

وہ برامدے پر سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا یک بک اسکی انگلیاں اپنے ہونٹوں پر چلی گئیں اور اس رات کا سوچ کر اس نے سر پیٹ لیا اسے لگا کنول آسمان پر سے اسے گھور رہی ہو اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر کان پکڑے عماد کی آواز پر وہ نیچے آ گیا

"""

منال کیسی لگی تمہیں ؟؟"
حمیرا نے اسکے قریب بستر پر بیٹھتے ہوئے۔ کہا وہ کسی کتاب میں گم تھا بچپن سے ہی اسے کتابوں سے عشق تھا اس کا کمرہ کتابوں سے سجا ہوتا تھا

مام مجھے وہ بلکل بھی پسند نہیں ان فیکٹ اس میں پسند کرنے لائق کچھ ہے ہی نہیں ۔۔۔اور اس کے بال دیکھے آپنے ۔۔بڑی مشکل سے گردن تک آتے ہیں ۔۔اور آپ جانتی ہیں مجھے چھوٹے بالوں والی لڑکیاں بلکل پسند نہیں !!"
اسن نے شکوہ کیا اسکے علاوہ منال میں کوئی برائی بھی نہیں تھا اور اس کے روئے کا تو سبھی کو پتا تھا ۔۔اسے بس یہی بہانہ سوجھا حمیرا مسکرا دیں وہ جانتی تھیں انکا بیٹا بچپن سے ہی لمبے بالوں کا شوقین ہے حمیرا کے بال پہلے بہت لمبے ہوا کرتے تھے وہ ہمیشہ کہتا کہ امی میری دلہن کے بال آپسے بھی لمبے ہونگے اور وہ مسکرا دیتیں

ہاں تو شادی کے بعد بال بڑھا لیگی تم کہہ دینا اس سے !"

ماما مجھے وہ بلکل بھی پسند نہیں انتہائی بدتمیز ہے اور مجھے وہ قطعی پسند نہیں !!"

تمہیں پسند ہو یا نا ہو لیکن تمہاری شادی اسی سے ہونی ہے منال جہانزیب ہی اس گھر کی بہو بنیگی !"
پیچھے سے احسن صاحب کی آواز ابھری دونوں اسطرف متوجہ ہو گئے شہیر نے آخری کوشش کی کہ وہ کسی طرح اپنے باپ کو منا لے لیکن انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے دوست کو زبان دے چکے ہیں اور زبان سے پھرنا انکی شان کے خلاف ہے اور وہ مرتا کیا نا کرتا چپ چاپ سنے گیا

میں تمہیں دو مہینے کا وقت دیتا ہوں شہیر منال کے قریب جاؤ اسے جانو سمجھو۔۔۔پھر اپنا فیصلہ سنانا ۔۔لیکن یاد رکھنا مجھے جواب ہاں میں ہی چاہئے !"
احسن صاحب نے دو ٹک لہجے میں کہا اور کمرے سے نکل گئے

مام کیا منال اس رشتے کے لئے تیار ہے ؟؟"
اس نے اپنا آخری حربہ آزمانے کی کوشش کی حمیرا نے نا میں سر ہلا دیا

نہیں ۔۔شاید مدیحہ نے اسے ابھی نہیں بتایا ہے ۔۔وہ بہت ہی معصوم ہے شاید وہ اچھے سے سمجھانا چاہتی ہوں ۔۔۔اسے بھی تھوڑا وقت چاہئے ہوگا ۔۔"
حمیرا کی بات سن کر اس نے سر ہلایا اسے یقین تھا کہ منال جیسی ضدی لڑکی اس رشتہ کے لئے کبھی تیار نہیں ہونے والی وہ کچھ نا کچھ کرکے منا کر ہی لیگی ویسے بھی وہ جہانزیب انکل کی لاڈلی ہے وہ ہلکا پھلکا ہو کر مسکرا دیا اور آرام سے تکیہ پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں


""""


وہ دونوں چاروں طرف سے ارمان اور اسکے گنڈوں سے گھر چکے تھے کنول درد سے کراہ رہی تھی اور کانپتے ہوئے اسکے سینے سے لگی انکو اپنی اور بڑھتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔ارمان نے جیسے ہی اسے ہاتھ لگایا وہ اس پر پل پڑا اور لاتوں گھونسوں کی برسات کر دی
لیکن وہ اکیلا تھا تبھی علی اور اس کے دوست بھی آ گئے اس نے علی کو میسیج کر کے اپنی لوکیشن بھیج دی تھی وہ موقعے پر آ گیا تھا ارمان کی اچھی خاصی کٹائی ہوئی وہ تعداد میں آٹھ تھے جبکہ علی اور اسکے دوست بارہ تھے آسانی سے جیت گئے

کنول بہت خوفزدہ تھی وہ اسے اپنے ساتھ فارم ہاؤس پر لے آیا وہ زخمی بھی تھی اسکے پیروں میں چوٹ آئی تھی اور بازو بھی چھل گئے تھے

اس ارمان کو تو میں زندہ نہیں چھوڑونگا کمینہ بھاگ گیا ورنہ میرے ہاتھوں موت لکھی تھی اس کی !"
وہ اس کے پیروں کی پٹی کرتا ہوا بولا وہ دھیرے سے مسکرا دی اور اسکا جائزہ لینے لگی پہلی بار کنول نے اسے نظر بھر کر دیکھا تھا ۔۔وہ بہت ی ہینڈ سم تھا اور سیدھا دل میں اترا جا رہا تھا

ایسے کب تک دیکھتے رہنے کا ارادہ ہے ؟؟" وہ مسکراتے ہوئے شرارت سے بولا کنول سٹپٹا گئی

میں اس لئے پوچھ رہا تھا کہ تمہیں بھوک لگی ہوگی نا ۔۔اگر مجھے جی بھر کر دیکھ چکی ہو تو میں جاؤں!!"
وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر بولا کنول کے یاقوتی لب اپنے آپ مسکرا اٹھے



وہ کمرے کا جائزہ لینے لگی جو بہت ہی خوبصورت تھا وہ کمرے سے نکل کر لان میں چلی آئی ہر طرح کے خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کی کیاریوں بنی ہوئیں تھیں اور انکی خوشبو فضا کو معطر کر رہی تھی ۔ وہ لان میں رکھی بینچ پر بیٹھ گئی اور آسمان کی اور دیکھنے لگی چاند سے بھرا آسمان بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا چاند بادلوں سے جھانک رہا تھا جو رہ رہ کر بادلوں کے پیچھے چھپ کر اس سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا

تم یہاں کب آئی میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا تھا ۔۔!"
وہ گھبرایا ہوا بولا

کمرے میں گھٹن ہو رہی تھی اس لئے تازہ ہوا لینے چلی آئی ۔۔۔کیوں ؟۔۔آپ ڈر گئے تھے ؟؟"

میں کیوں ڈرونگا بھلا ۔۔۔چلو میں نے چکن پاستہ بنایا ہے تمہیں پسند ہے نا ۔۔"
وہ مسکرا دی اور اسکے پیچھے چل دی

اگلی صبح وہ اسے ہاسٹل چھوڑنے گیا تو وارڈن کی ڈانٹ بھی کھائی اور معزرت بھی کی کنول اسکی شکرگزار تھی کہ اس نے اسے وارڈن کے قہر سے بچا لیا وہ کسی ہٹلر اے کم ہرگز نہیں تھی کچھ ہی دنوں میں وہ دونوں اور قریب آگئے منال اسے چاہنے لگی تھی لیکن اس سے کہنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی جبکہ وہ تو صرف اسکے ساتھ کا خواہاں تھا اسکی دوستی میں بھی خوش تھا اس نے کبھی اس سے کوئی اور بات نہیں کی بس وہ دونوں ساتھ تھے خواہ بات جو بھی ہو رشتہ جو بھی ہو چاہے دوستی کا چاہت پیار کا انکے بیچ ایک اسپیشل بانڈ تھا ۔۔ایک بہت ہی خاص رشتہ تھا جو ہر رشتے سے اوپر تھا ایک بے نام سا رشتہ تھا

ارمان کالج سے غائب تھا اور شاید شہر سے بھی کنول بہت سکون محسوس کر رہی تھی ارمان کی شکل دیکھ کر اسکا خون خول اٹھتا تھا اور اب تو وہ اس سے خوفزدہ بھی تھی ۔۔

وہ سردیوں کی شام تھی آج اس نے اپنے پیار کا اظہار کرنے کا سوچا تھا لیکن اب تک وہ ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی وہ ایک مشرقی لڑکی تھی اور شرم و حیا آڑے آ رہی تھی
وہ ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی ۔میسیج کرکے اس کو پتا بتا دیا تھا ۔۔۔

انتظار کا لمحہ بڑا ہی ازیتناک ہوتا ہے ۔۔لمحے صدیوں جیسے لگتے ہیں ۔۔وہ جان کتنی کافی پی گئی لیکن وہ اب تک نہیں آیا تھا اسکی نگاہیں بار بار ریسٹورینٹ کے دروازے کی طرف اٹھتی اور خالی واپس لوٹ جاتی


اس نے جیسے ہی فون دیکھا کنول کا میسیج پڑاہوا تھا

" میں ہمارے فیوریٹ ریستوراں میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔مجھے آپ سے اپنے دل کی بات کہنی ہے ۔۔جلدی آئیگا ۔۔۔آپ جانتے ہیں مجھے انتظار کرنا بلکل بھی پسند نہیں !!"

اسے زور کا کرنٹ لگا میسیج آئے ہوئے قریب ایک گھنٹہ سے اوپر ہو چکا تھا وہ کسی ضروری کام میں پھنسا ہوا تھا اور فون بھی گھر پر ہی چھوٹ گیا تھا اسے خوشگوار حیرت نے گھیر رکھا تھا لیکن کنول کی ناراضی کا ڈر بھی تھا اس نے کئی کالز کئے لیکن کنول کا نمبر بند آ رہا تھا وہ بہت پریشان ہو گیا


"""""


جب اسے ہوش آیا تھا وہ کسی اندھیرے کمرے میں بند تھی اسکا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا اسے محسوس ہوا کی اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے وہ بڑی مشکل سے اٹھی وہ ایک آرام دہ بستر پر تھی لیکن یہ نرم بستر اسے کانٹے جیسا لگ رہا تھا اسے یاد آیا
کہ بہت دیر دیر تک اسکا انتظار کرنے کے بعد بھی وہ نہیں آیا تو اسکا موڈ خراب ہو گیا اور وہ باہر چلی آئی اسکے ڈھونڈنے سے پہلے ہی ٹیکسی اس کے قریب آکر رک گئی وہ بیٹھ گئی اور ہاسٹل کا پتا بتا دیا لیکن بیٹھتے ہی اسکے منھ پر رومال رکھ کر بیہوش کر دیا گیا

کنول نے ڈر سے جھرجھری لی اسکا دلی نے نام اندیشوں سے دھڑک رہا تھا وہ بہت ہی خوفزدہ تھی
دروازہ ایک جھٹکے میں کھلا اور کسی نے کمرے کی لائٹس جلا دیں
پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا


ارمان۔۔۔!"

آنکھوں دہشت لئے وہ اسے دیکھ رہی تھی اس کے ہونٹوں پر وہشی مسکراہٹ تھی ۔۔۔ کنول نے اپنے سوکھتے ہونٹوں پر زبان پھیری

( جاری ہے )
 
اعلی
کیا خوبصورت تحریر ہے
 
Lagta hai do kahaniyan sath sath chal rahi hein. Umeed hay agey chal ker donon aik ho jain gi. Dekhtey hein agey kiya hota hai.
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
Chat