Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

محسن نقوی

مجھے اب ڈر نہیں لگتا
محسن نقوی



کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو آزمانے سے
کسی کے آزمانے سے
کسی کو یاد رکھنے سے
کسی کو بھول جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو چھوڑ دینے سے
کسی کے چھوڑ جانے سے
نا شمع کو جلانے سے
نا شمع کو بجھانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
اکیلے مسکرانے سے
کبھی آنسو بہانے سے
نا اس سارے زمانے سے
حقیقت سے فسانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کی نارسائی سے
کسی کی پارسائی سے
کسی کی بے وفائی سے
کسی دکھ انتہائی سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
نا تو اس پار رہنے سے
نا تو اس پار رہنے سے
نا اپنی زندگانی سے
نا اک دن موت آنے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
 
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
محسن نقوی


یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دلوں میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں
جب سانسیں اجلے چہروں کی
تن من میں پھول سجاتی تھیں
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا
اپنے بے انت خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقوت پگھلتے رہتے ہیں
اب اپنی گم سم آنکھوں میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
اب دھوپ اگلتی سوچوں میں
کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں
اب اپنے ویراں آنگن میں
جتنی صبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اس کو خاکستر ہونا ہے
اب یہ باتیں رہنے دیجے
جس عمر میں قصے بنتے تھے
اس عمر کا غم سہنے دیجے
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب خیال ہوئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
 
تھک جاؤ گی
محسن نقوی



پاگل آنکھوں والی لڑکی
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی
کانچ سے نازک خواب تمہارے
ٹوٹ گئے تو
پچھتاؤ گی
سوچ کا سارا اجلا کندن
ضبط کی راکھ میں گھل جائے گا
کچے پکے رشتوں کی خوشبو کا ریشم
کھل جائے گا
تم کیا جانو
خواب سفر کی دھوپ کے تیشے
خواب ادھوری رات کا دوزخ
خواب خیالوں کا پچھتاوا
خوابوں کی منزل رسوائی
خوابوں کا حاصل تنہائی
تم کیا جانو
مہنگے خواب خریدنا ہوں تو
آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں یا
رشتے بھولنا پڑتے ہیں
اندیشوں کی ریت نہ پھانکو
پیاس کی اوٹ سراب نہ دیکھو
اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو
تھک جاؤ گی
 
بھول جاؤ مجھے
محسن نقوی


وہ تو یوں تھا کہ ہم
اپنی اپنی ضرورت کی خاطر
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے ارادوں کی تکمیل میں
تیرہ و تار خواہش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کھلے
وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے
ورنہ یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
سب ضدیں چھوڑ دو
اور اگر یوں نہ تھا تو یوں ہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
یاد آؤ مجھے
بھول جاؤ مجھے
 
عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
محسن نقوی

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے
کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ہے چراغوں کی آبرو کر کے
زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے
جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ہے
نشان‌ طوق وفا زینت گلو کر کے
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسنؔ
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
 
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
محسن نقوی


قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ
رزق ملبوس مکاں سانس مرض قرض دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسنؔ
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
 
چلو چھوڑو
محسن نقوی



چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہد وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
خمار وصل تپتی دھوپ کے سینے پہ اڑتے بادلوں کی رائیگاں بخشش!
غبار‌ ہجر صحرا میں سرابوں سے اٹے موسم کا خمیازہ
چلو چھوڑو
کہ اب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانس کی ضربوں پہ
چاہت کی بنا رکھ کر سفر کرتا رہا ہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسموں کے ساتھ اپنے پیرہن کے رنگ بدلو گی
چلو چھوڑو
وہ سارے خواب کچی بھربھری مٹی کے بے قیمت گھروندے تھے
وہ سارے ذائقے میری زباں پر زخم بن کر جم گئے ہوں گے
تمہاری انگلیوں کی نرم پوریں پتھروں پر نام لکھتی تھیں مرا لیکن
تمہاری انگلیاں تو عادتاً یہ جرم کرتی تھیں
چلو چھوڑو
سفر میں اجنبی لوگوں سے ایسے حادثے سرزد ہوا کرتے ہیں صدیوں سے
چلو چھوڑو
مرا ہونا نہ ہونا اک برابر ہے
تم اپنے خال و خد کو آئینے میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اک نیا موسم اترنے دو
مرے خوابوں کو مرنے دو
نئی تصویر دیکھو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
مرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
مری یادوں سے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹ ہے
عہد وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا
 
تمہیں کس نے کہا تھا
محسن نقوی


تمہیں کس نے کہا تھا
دوپہر کے گرم سورج کی طرف دیکھو
اور اتنی دیر تک دیکھو
کہ بینائی پگھل جائے
تمہیں کس نے کہا تھا
آسماں سے ٹوٹتی اندھی الجھتی بجلیوں سے دوستی کر لو
اور اتنی دوستی کر لو
کہ گھر کا گھر ہی جل جائے
تمہیں کس نے کہا تھا
ایک انجانے سفر میں
اجنبی رہرو کے ہمرا دور تک جاؤ
اور اتنی دور تک جاؤ
کہ وہ رستہ بدل جائے
مأخذ:
 
محسن نقوی ںا کمال۔شاعر تھے بہت زبردست کلیکشن ہے یہاں
 
Kamal ki shairy he
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat