Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

محسن نقوی

ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
محسن نقوی


ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں
یہ دشت شب میں ستاروں کی ہم سفر آنکھیں
ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لئے
میں شہر بھر میں اکیلا ادھر ادھر آنکھیں
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں
میں زخم زخم ہوا جب تو مجھ پہ بھید کھلا
کہ پتھروں کو سمجھتی رہیں گہر آنکھیں
میں اپنے اشک سنبھالوں گا کب تلک محسنؔ
زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں
 
نہ سماعتوں میں تپش گھلے نہ نظر کو وقف عذاب کر
محسن نقوی


نہ سماعتوں میں تپش گھلے نہ نظر کو وقف عذاب کر
جو سنائی دے اسے چپ سکھا جو دکھائی دے اسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی نہ وصال رت کے کرم جتا
جو تری تلاش میں گم ہوئے کبھی ان دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تھل کا مزاج دے کبھی چشم تر کو چناب کر
یہ ہجوم شہر ستمگراں نہ سنے گا تیری صدا کبھی
مری حسرتوں کو سخن سنا مری خواہشوں سے خطاب کر
 
فن کار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
محسن نقوی


فن کار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر ترا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
اب اختتام کو ہے سخی حرف التماس
کچھ ہے تو اب وہ سامنے دست دعا کے لا
پیماں وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
آرائش جراحت یاراں کی بزم ہے
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا
گر سوچنا ہیں اہل مشیت کے حوصلے
میداں سے گھر میں ایک تو میت اٹھا کے لا
محسنؔ اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا کے لا
 
Wah wah boht kamal shaheri
 
بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا
محسن نقوی


بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا
اداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا
حیات اب شام غم کی تشیبہ خود بنے گی
تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا
چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں
کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا
ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں
ہمارے جذبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا
ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا
 
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
محسن نقوی


عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
لہو چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر
سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا
کہ سانپ زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر
شب فراق مری آنکھ کو تھکن سے بچا
کہ نیند وار نہ کر دے تری سہیلی پر
وہ بے وفا تھا تو پھر اتنا مہرباں کیوں تھا
بچھڑ کے اس سے میں سوچوں اسی پہیلی پر
جلا نہ گھر کا اندھیرا چراغ سے محسنؔ
ستم نہ کر مری جاں اپنے یار بیلی پر
 
زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
محسن نقوی

زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
بعض اوقات مری روح غضب کرتی ہے
جو تری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں
چاندنی ایسے اندھیروں کا ادب کرتی ہے
اپنے انصاف کی زنجیر نہ دیکھو کہ یہاں
مفلسی ذہن کی فریاد بھی کب کرتی ہے
صحن گلشن میں ہواؤں کی صدا غور سے سن
ہر کلی ماتم‌ صد جشن طرب کرتی ہے
صرف دن ڈھلنے پہ موقوف نہیں ہے محسنؔ
زندگی زلف کے سائے میں بھی شب کرتی ہے
 
سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں
محسن نقوی


سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں
اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک میں
وصل کے شہر کی روشنی ایک تو
ہجر کے دشت میں کارواں ایک میں
بجلیوں سے بھری بارشیں زور پر
اپنی بستی میں کچا مکاں ایک میں
حسرتوں سے اٹے آسماں کے تلے
جلتی بجھتی ہوئی کہکشاں ایک میں
مجھ کو فارغ دنوں کی امانت سمجھ
بھولی بسری ہوئی داستاں ایک میں
رونقیں شور میلے جھمیلے ترے
اپنی تنہائی کا رازداں ایک میں
ایک میں اپنی ہی زندگی کا بھرم
اپنی ہی موت پر نوحہ خواں ایک میں
اس طرف سنگ باری ہر اک بام سے
اس طرف آئنوں کی دکاں ایک میں
وہ نہیں ہے تو محسنؔ یہ مت سوچنا
اب بھٹکتا پھروں گا کہاں ایک میں
 
پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
محسن نقوی

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا
دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا
کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا
اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا
تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے
تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا
اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے
جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا
حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی
رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا
قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت
قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا
جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے
ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا
 
Kamal bahtreen lajwab
tamam ghazlain bht achi hain
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat