Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Spy Thriller موت کی پرچھائی

Joined
Nov 24, 2024
Messages
373
Reaction score
25,073
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
قسط ۱
وہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں گیا کچھ دیر اسٹڈی ٹیبل پہ بیٹھ کر وہ اپنی سوچوں میں گم رہا ۔۔۔۔ پھر اٹھ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا ۔۔ نیند انکھوں سے کوسوں دور تھی لیکن اس نے سائیڈ ٹیبل سے لیمپ آف کیا اور انکھیں موند لی وہ چاہ رہا تھا کہ سو جائے لیکن ایک عجیب سی بے چینی تھی۔۔۔ جو اسے سونے نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔
تھوڑی دیر کروٹیں بدلنے کے بعد اس کو پیاس کا احساس ہوا تو اس نے جگ کی طرف ہاتھ بڑھایا جگ میں نا کافی پانی دیکھ کر اس کو الجھن ہوئی اور پھر وہ کچن میں جانے کی نیت سے نیچے اترنے کے لیے باہر نکلا۔۔۔۔ باہر نکلتے ہی اسے ایک دم بہت گہرا اندھیرا محسوس ہوا لیکن وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر سیڑھیوں سے اترنے لگا تو اس کو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی دھیمے قدموں سے اس کے پیچھے چل رہا ہے ۔۔۔ ایک نامعلوم سی قدموں کی چاپ تھی ۔۔۔
اس کو شدید جھرجھری آئی ۔۔اس نے یکدم پلٹ کر دیکھا۔۔۔مگر کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔

وہ سر جھٹک کر کچن تک پہنچا ہی تھا کہ ایک دم سے کچھ گرنے کی اواز آئی
کک کون ہے۔۔۔۔کون ہے وہاں۔۔۔۔۔؟؟؟ احد کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی ۔

وہ سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ شاید کوئی بلی گھر میں گھس گئی ہے۔؟ لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔ اسے کچھ خوف محسوس ہوا۔

ابھی وہ پانی پی ہی رہا تھا کہ ایک دم سے اوپر کا دروازہ بند ہونے کی اواز آئی اس نے چونک کے باہر دیکھا کہ ہوا تو نہیں چل رہی۔؟؟؟ لیکن درخت ساکت تھے۔ اب اس کا دل بہت بری طرح دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے ایک چھوٹی لائٹ ان کر کے اوپر جانے کا ارادہ کیا سب اپنے اپنے کمروں میں پرسکون سو رہے تھے۔ وہ حیران تھا کہ اتنی آوازوں کے باوجود کوئی نکل کے کیوں نہیں آیا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ آوازیں صرف اسی کو ہی سنائی دے رہی تھی ۔۔۔ گھر کے دوسرے مکین اس سے بےخبر تھے۔۔۔
وہ اوپر آ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر کمرے کو بغور دیکھنے لگا کہیں کوئی گھس تو نہیں آیا؟؟ اس نے اپنے اپ سے سوال کیا ابھی وہ کمرے کے اندر گیا ہی تھا کہ دروازہ خود بخود زور سے بند ہوا۔ وہ سہم گیا۔۔۔۔۔اور بجلی کی تیزی سے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔ ساتھ ہی زور زور سے آیت الکرسی پڑھنے لگا تھا۔۔۔
کچھ دیر کے لیے سکون ہو گیا۔۔۔۔ اس نے اپنے کمرے کی لائٹ آن کی اور ہینڈل گھما کر چیک کیا۔۔ دروازہ تو ٹھیک ہے یہ اسے کیا ہو گیا؟؟ خود بخود کیوں بند ہوئے جا رہا ہے۔۔۔۔؟؟
وہ اپنا دھیان بٹانے کی کوشش کرنے لگا بستر پر لیٹ کر اس نے اپنا موبائل آن کیا اور ویڈیوز میں دھیان لگانے لگا چند لمحے گزرے اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر چکا تھا۔۔۔۔

کچھ سال پہلے۔۔۔ جب تانیہ اپنے ایڈمیشن کروانے یونیورسٹی گئی ہوئی تھی تب اس کی پہلی دفعہ بہرام سے ملاقات ہوئی۔۔۔ وہ اپنا فارم فل کر کے ایڈمن افس جا رہی تھی جب وہ جلدی میں بہرام سے ٹکرا گئی۔۔ بہرام جو پہلے ہی لڑکیوں سے دوستی کرنا اپنا مشغلہ سمجھتا تھا تانیہ کو دیکھ کر اس کے اندر دوبارہ یہ خواہش جاگی۔ اس نے تانیہ کے گرے ہوئے کاغذات اٹھا کر تانیہ کو واپس دیے اور اس سے معذرت کی بظاہر تانیہ کو بہرام ایک سلجھا ہوا لڑکا لگا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ بہرام کس قماش کو لڑکا ہے۔۔۔جب تانیہ کی کلاسز سٹارٹ ہوئی تو پھر بہرام کو دوبارہ یونیورسٹی میں نظر ائی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ نیو ایڈمیشن ہے کیونکہ بہرام تانیہ کا سئنیر تھا اس لیے اس نے سوچا کیوں نہ تانیہ سے مذاق کیا جائے وہ تانیہ کے پاس پہنچا اور سلام دعا کے بعد اس کے ڈیپارٹمنٹ کا پوچھا اور ازراہ مزاق تانیہ کو غلط پتہ بتایا۔۔ تانیہ تھوڑی دیر گھوم پھر کر جب نہیں پہنچ سکی تو اس کی نظر ہنستے ہوئے بہرام پر پڑی جو اس کو دیکھ کر مزے لے رہا تھا!! تانیہ کو غصہ ایا لیکن وہ فرسٹ ڈے اور سینیئر ہونے کے ناطے سے بحث کرنے نہیں گئی۔ بہرام نے دیکھا کہ تانیہ نے کوئی رسپانس نہیں کیا تو وہ خود ہی اس سے معذرت کر کے اس کو ڈیپارٹمنٹ تک چھوڑ ایا۔۔۔تانیہ کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے بہرام نے اس کے ساتھ دوستی کا ڈرامہ کیا اور اسی دوران دو دفعہ اس کو پروپوز بھی کیا جبکہ دونوں دفعہ تانیہ نے انکار کر دیا وقت کا کام تھا گزرنا اور وقت پر لگا کر گزر گیا بہرام کا اج یونیورسٹی میں اخری دن تھا اس نے اپنی قسمت ازمانے کے لیے یونیورسٹی کے لان میں اپنے دوستوں کو اکٹھا کر کے تھوڑی ڈیکوریشن کر کے تانیہ کو مدعو کیا اور سب کے بیچ میں پروپوز کیا یہ سب دیکھ کر تانیہ اپے سے باہر ہو گئی اور بہرام کے چہرے پر ایک تھپڑ رسید کیا۔۔۔۔۔۔!! بہرام سے اپنی بے عزتی برداشت نہیں ہوئی اور پوری یونیورسٹی کے بیچ میں اس نے تانیہ کو کہا کہ اگر وہ میری نہیں ہو سکتی تو وہ کسی کی بھی نہیں ہوگی!!!!!!!!
بہرام نے یہ دھمکی دی تو اس کے دوست معاملے کی سنگینی کو دیکھ کر اس کو وہاں سے لے گئے۔۔۔

آج تاج ولا میں میں بارات کا دن تھا۔۔۔ پورا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا اور سب کے چہرے خوشیوں سے دمک رہے تھے۔۔۔۔۔۔لیکن سب آنے والے وقت کے پھیر سے ناواقف تھے آنے والا وقت ان کے لیے کیا ہولناکیاں سمیٹے ہوئے تھا۔(جاری ہے)
 
واؤووو امیزنگ
کچھ نئی چیز
 

💫قسط نمبر 2 💫

احد بری طرح بیڈ سے نیچے گرا تھا۔۔ابھی وہ سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ دروازہ پھر سے ایک دھماکے کے ساتھ بند ہوا۔۔!!!!!

وہ ہونقوں کی طرح دروازے کو گھور رہا تھا۔۔۔تھوڑی دیر بعد ہانپتے کانپتے دروازے کی طرف بڑھا اور اس کو کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دروازہ تو لاکڈ تھا۔۔۔اس نے دو تین بار ہینڈل گھمانے کی کوشش کی لیکن دروازہ بدستور بند رہا۔۔۔

خوف زدہ اور پریشان احد زور زور سے چلانے لگا مما مما؟؟؟ باباااا باباااا۔۔۔۔۔؟؟؟ کوئی ہے جو میری بات سنیں.....؟؟؟؟؟؟؟؟؟ چاچووو چاچوووو.........!!!!!؟؟؟؟؟؟ جواب ندارد ۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کی آواز اس کمرے میں ہی گونج رہی ہے اور باقی گھر والے اس سب تماشے سے بالکل بے خبر اپنی نیند پوری کر رہے ہیں ۔۔۔۔ یہ سوچنا تھا کہ اسے شدت سے خوف نے آ گھیرا۔۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ خوف سے ہی اس کا دل بند ہو جائے گا۔۔ تھوڑی دیر بعد دروازے سے تھوڑا دور ہو کر اس کو گھورتا رہا۔۔۔کہ شاید دروازہ کھل جائے اور وہ اس کمرے سے فرار حاصل کر سکے لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ رات تو وہ اپنے ہی کمرے میں قید ہو کر گزارنے والا تھا۔۔۔۔!! اخر کار وہ مایوس ہو کر بیڈ پر ہی بیٹھ گیا اور رات گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔یہ رات اس کے آنے والی راتوں کی صرف شروعات تھی۔۔۔۔ وہ یہ ان دیکھا کھیل کب تک برداشت کر سکتا تھا یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔
بہار کے شروع کے دن۔۔۔۔خوبصورت موسم۔۔۔۔اور کھلتے پھولوں کا نظارہ۔۔۔۔کتنا حسین تھا یہ سب کچھ وقت پہلے تک۔۔۔ اب وہی کھلتے پھول ہیں لیکن گھر کی رونق اور بڑھتی ہوئی وحشتیں دلوں کے اندر ایک طوفان پیدا کر رہی ہیں۔۔۔

تاج ولا جو کبھی فردوس صاحب اور وقار صاحب کی والدین کی خوشیوں اور سکون کا مرکز ہوتا تھا اب حسرتوں اور وحشتوں کا گھر بن رہا تھا۔۔۔ ویسے تو یہ خاندان چھوٹا سا ہی تھا فردوس صاحب اور ان کی فیملی میں ان کی بیگم نفیسہ اور دو بیٹیاں ہانیہ اور تانیہ تھیں جب کہ وقار صاحب کی فیملی میں ان کی بیگم حریم اور ان کا اکلوتا بیٹا احد شامل تھا۔۔۔ وقار صاحب اور فردوس صاحب کے والدین ان کے ساتھ تاج ولا میں ہی رہتے تھے۔

تینوں میں سب سے بڑی تانیا تھی اس کے بعد احد اور اس کے بعد ہانیہ۔۔ تینوں تاج ولا کے خوبصورت باغ میں ایک ساتھ کھیلتے تھے۔ ان کا بچپن بہت خوبصورت تھا لیکن دولت کی ہوس اور گھر پر مکمل اختیار کی خواہش نے نفیسہ بیگم اور حریم بیگم کے درمیان وہ جنگ شروع کی جو دونوں بھائیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے دلوں میں بھی کدورت اور نفاق پیدا کر گئی۔ گزرتے سالوں کے ساتھ یہ کدورت اور نفرت گھر ٹوٹنے کا باعث بنی اور وقار صاحب اپنی بیگم اور بیٹے احد کو لے کر الگ ہو گئے احد اس وقت نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔ وہ ان سب معاملات کو گہری نظر سے دیکھتا اور سمجھتا تھا۔ ساتھ ساتھ اس کے دل میں ہانیہ کے لیے بھی جذبات مضبوط ہوتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔ جب وہ لوگ الگ ہو گئے تو وقار صاحب نے اپنے حصے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ الگ سے اپنا بزنس کر سکیں اور احد کو بھی اچھی تعلیم دلا کر اس قابل بنا سکیں کہ وہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کے ساتھ بزنس کو بڑھائے۔۔۔

احد بھی اپنے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنے جذبات کو اپنے دل تک محدود کر چکا تھا وہ جانتا تھا کہ جہاں خاندانی سیاست ہو وہاں محبت کا ملنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔

دوسری طرف فردوس صاحب بھی اپنی بیٹیوں کو مکمل تعلیم دلا کر ان کو اپنے ساتھ بزنس میں کھڑا دیکھنا چاہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو اپنا گھر کا کر کے اپنے فرض سے بھی سبکدوش ہونا چاہتے تھے۔۔ اسی لیے تانیہ کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن دلانے کا ارادہ کیا۔۔
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
گرمیوں کے دن شروع ہو چکے تھے۔ کراچی میں ویسے بھی گرمیاں جلدی شروع ہو جاتی تھی۔ تانیہ گرمی سے پریشان جلدی جلدی اپنے کاغذات سمیٹتی ہوئی ایڈمن افس کی طرف جا رہی تھی جب اس کی ٹکر بہرام سے ہوئی۔۔

بہرام ایک امیر گھرانے کا چشم و چراغ تھا اس کی ہر بات کہنے سے پہلے پوری کر دی جاتی تھی۔ اس کو اسی بات کا زعم تھا کہ وہ دنیا کی ہر چیز جس پہ بھی ہاتھ رکھے مل جائے گی۔۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے بگڑ چکا تھا ہر جائز اور ناجائز خواہش کے پورا ہونے کی وجہ سے اس کا دماغ ساتویں اسمان پر رہتا تھا۔۔۔۔ بنیادی طور پر بہرام کا تعلق سندھ کے اندرون وڈیروں سے ملتا تھا۔۔۔ دولت کی فراوانی اور کسی چیز کی بھی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے وہ برے کاموں میں بھی پڑ چکا تھا۔ لڑکیوں سے دوستیاں کرنا اور ان کے ساتھ تعلق بنا کر ان کو چھوڑ دینا اس کا مشغلہ بن چکا تھا۔۔۔۔بہرام جو پہلے ہی لڑکیوں سے دوستیاں کرنا پسند کرتا تھا تانیہ کو دیکھ کر اس کے دل میں دوبارہ یہ خواہش جاگی۔

اس نے آگے بڑھ کر تانیہ کے گرے ہوئے کاغذات اٹھا کر واپس دیے اور اس سے معذرت کی۔۔ بظاہر تانیہ کو بہرام سلجھا ہوا لڑکا لگا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ بہرام کس قماش کا لڑکا ہے وہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنا کام نمٹا کر واپس گھر آ گئی۔۔۔

جب اس کی کلاسز سٹارٹ ہوئیں تو بہرام کو دوبارہ یونیورسٹی میں نظر آئی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ نیو ایڈمیشن ہے۔۔ کیونکہ بہرام تانیہ سے سینیئر تھا اس لیے اس نے سوچا کیوں نہ تانیہ کے ساتھ مذاق کیا جائے اور تانیہ کو دیکھ کر اس کے پاس پہنچا۔۔ سلام دعا کے بعد اس سے ڈیپارٹمنٹ کا پوچھا اور ازراہ مذاق تانیہ کو غلط پتہ بتایا۔ تانیہ تھوڑی دیر گھوم پھر کر جب نہیں پہنچ سکی تو اس کی نظر ہنستے ہوئے بہرام پر پڑی جو اس کو دیکھ کر مزے لے رہا تھا۔۔۔ تانیہ کو غصہ آیا لیکن فرسٹ ڈے اور سینیئر ہونا کے ناطے اس سے بحث کرنے نہیں گئی۔۔۔ تانیہ کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس سے معذرت کر کے خود ہی اس کو ڈیپارٹمنٹ تک چھوڑ آیا یہ ان کا دوسرا آمنا سامنا تھا جس کے بعد اکثر ہی ملاقات ہو جاتی تھی۔۔

پہلا سمسٹر مکمل ہونے کے بعد بہرام نے تانیہ سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا کیونکہ بہرام کے دو ہی سمسٹر باقی تھے اس لیے وہ جلد از جلد اس کو اپنا اسیر بنانا چاہتا تھا تاکہ اپنی نئی دوستی کا بھرپور مزہ لے سکے لیکن کیونکہ تانیہ ایک مضبوط کردار کے لڑکی تھی اس لیے اس نے اس کی پیشکش کو رد کر دیا۔۔۔ یہ چیز بہرام کی انا کے خلاف تھی کہ کوئی اس کو انکار کرے اس نے صبر سے کام لیا اور سوچا کہ دوبارہ کچھ عرصے بعد تانیہ کو اپنے جال میں پھنسائے گا۔ اس دوران اسنے تانیہ کو یہ تاثر دیا کہ وہ انکار کے باوجود اس کے دوست اور مددگار ہے۔۔ تانیہ وقتی طور پر مطمئن ہو گئی وہ نہیں جانتی تھی کہ آنے والے وقت اس کے لیے کیا جال بن رہا تھا وقت پر لگا کر اڑ گیا اور تانیہ کے تین سمسٹر مکمل ہو گئے جبکہ بہرام کی ڈگری بھی مکمل ہو چکی تھی۔۔۔ بہرام نے سوچا کہ آخری دن ہے کیوں نہ ایک بار پھر اپنی قسمت آزمائے اور اسکے لیے یونیورسٹی کے لان کے ایک حصے کو مخصوص کر کے سجا کر اور دوستوں کو بلا کر سب کے سامنے اظہار محبت کیا لیکن کیونکہ وہ اس سب کو برا سمجھتی تھی اس لیے وہ بے حد متنفر ہوئی اور اس نے بہرام پر ہاتھ اٹھا لیا کہ میرے بار بار منع کرنے کے باوجود تم نے سب دوست اور یونیورسٹی کے بیچ میں میری عزت خراب کی۔ بہرام سے اپنی بےعزتی برداشت نہ ہو سکی اور اس کی کلائی کو سختی سے پکڑ کر بولا

"تم نے بہت زیادتی کی!! اگر تم میری نہیں ہو سکتی تو تم کسی کی بھی نہیں ہوگی اور یہ بات یاد رکھنا۔۔۔۔۔۔!!!!

کیونکہ سب لوگ بہرام کی فطرت سے واقف تھے اس لیے ڈر گئے اور بہرام کو بہلا پھسلا کر یونیورسٹی سے لے گئے۔۔۔

تانیہ کا نیا سمسٹر سٹارٹ ہو چکا تھا وہ پچھلی سب باتوں کو بھلا کر آنے والے وقت پر توجہ دینا چاہتی تھی تاکہ اچھے گریڈز کے ساتھ اپنی ڈگری کو مکمل کر سکے۔۔ اس دوران بہرام نے بھی تانیہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا نہ ہی اس سے ملاقات کی کوشش کی لیکن اپنے تعلقات کی بنا پر اسنے تانیہ کی ہر ایکٹوٹی پر پوری نظر رکھی ہوئی تھی۔۔۔ وقت پر لگا کر اڑ گیا اور آج تانیہ نے اپنی ڈگری مکمل کر لی تھی نہ جانے کیوں اسے وہ وقت یاد آیا جب بہرام نے اس سے اظہار محبت کیا تھا
۔۔ وہ اپنے خیال کو جھٹک کر اپنی منزل کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔

پڑھائی مکمل ہوتے ہی تانیہ کے لیے رشتوں کی لائن لگ چکی تھی فردوس صاحب اور نفیسہ بیگم نے مناسب رشتہ دیکھ کر شادی طے کر دی۔ شادی کا پتہ چلتے ہی بہرام سے برداشت نہ ہوا اس نے جلد از جلد کچھ کرنے کی ٹھانی اور اپنے منصوبے کو پورا کرنے کے لیے اپنے دوست کو رازدار بنا لیا۔۔۔وہ پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں تھا اور یہ موقع اسے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے بہترین لگا۔۔۔۔

تاج ولا میں تانیہ کی شادی کی تیاریاں شروع تھیں جب کہ ہانیہ ابھی پڑھ رہی تھی۔۔ احد پڑھائی مکمل کر کے اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹا رہا تھا مگر کاروبار دن بدن زوال پذیر ہو رہا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے احد کے دل میں تاج ولا کے رہائشیوں کے لیے نفرت بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ وہ اپنی زوال کا ذمہ دار تانیہ کے والد یعنی فردوس صاحب کو سمجھتا تھا جنہوں نے نا انصافی کرتے ہوئے وراثت میں سے برائے نام ہی حصہ دیا تھا۔۔۔دن بدن کی بڑھتی تنزلی اور زندگی کے الجھنوں کے آگے احد اب مجبور ہوتا جا رہا تھا نہ اسے اپنی بچپن کی محبت مل سکی تھی نہ ہی وہ اپنے اہداف کو پورا کر رہا تھا اور یہی احساس کمتری اس کے اندر انتقام کی آگ جلا چکی تھا۔۔۔ شادی کے لیے تاج ولا کو خوبصورت برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔۔۔ دور سے بیٹھا احد تاج ولا کو سجا ہوا دیکھ سکتا تھا وقار صاحب نے گھر دور نہیں لیا تھا تاکہ وہ اپنے والدین سے ملاقات رکھ سکیں۔۔ یہی چیز احد کی محبت کو بھی ختم نہیں کر سکی تھی کیونکہ وہ کبھی ہانیہ کو ٹہلتا ہوا دیکھتا یا کبھی باغ میں دکھائی دے جاتی جو وقتی طور پر احد کے لیے اس کی روح کی تسکین کا سبب بن جاتی تھی۔۔۔

ایک طرف بہرام تانیہ سے اپنا بدلہ لینا چاہتا تھا اور دوسری طرف احد بھی اپنے احساس کمتری میں کچھ ایسا سوچ بیٹھا تھا جو آنے والے دنوں میں سب کی زندگی کو متاثر کر سکتا تھا اب جاننا یہ تھا کہ کیا بہرام اپنے مقصد کو پاتا یا پھر احد....؟؟

پلک جھپکتے وقت گزر گیا اور بارات کا دن آ چکا تھا۔۔ تانیہ اپنے دوست حورین کے ساتھ پارلر کے لیے جا چکی تھی۔۔۔ انہیں فردوس صاحب کے ڈرائیور نے پک کرنا تھا مگر جب شام کو ڈرائیور تانیہ کو لینے گیا تو وہ پارلر سے جا چکی تھی۔۔ تانیہ کس کے منصوبے کا شکار ہوئی اور کہاں غائب ہوئی کوئی نہیں جانتا تھا اس کی دوست حورین بھی کچھ بتانے سے قاصر تھی کیونکہ تانیہ ایک فون کال سننے باہر گئی تھی جس کے بعد وہ واپس نہیں آئی تانیہ کے ساتھ کیا ہوا اور کون اس کا ذمہ دار تھا۔۔۔۔؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹوری تو زبردست لگ رہی ہے اب دیکھیں تانیہ کے ساتھ کیا ہوا ہے
 
بہترین اپ ڈیٹ ہے
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat