Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Poetry میری پسندیدہ شاعری

ہنسنے نہیں دیتا کبھی رونے نہیں دیتا
یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا

تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش
بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا

میں آپ اٹھاتا ہوں شب و روز کی ذلت
یہ بوجھ کسی اور کو ڈھونے نہیں دیتا

وہ کون ہے اس سے تو میں واقف بھی نہیں ہوں
جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتا

(عباس تابش)​
 
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں

(عباس تابش)
 
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد

اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد

میں نے ایسے ہی گنہ تیری جدائی میں کئے
جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد

شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد

رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز مرے گھر میں اتر شام کے بعد

لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد

(فرحت عباس شاہ)​
 
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا

ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا

ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگی
احسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا

دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا

اے بے دریغ و بے اماں ہم نے کبھی کی ہے فغاں
ہم کو تری وحشت سہی ہم کو سہی سودا ترا

ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا

ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا

بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا

(​ابن انشاء)​
 
اس بستی کے اک کوچے میں ، اک انشا نام کا دیوانہ
اک نار پہ جان کو ہار گیا، یہ مشہور ہے اس کا افسانہ

اس نار میں ایسا روپ نہ تھا، جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخے گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں، ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ

نہ چنچل کھیل جوانی کے، نہ پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا، یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اک زور بپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی ناساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ

اک روز مگر برکھا رت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیے، یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ

ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیماں بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا، اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ

گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا، چپ رہتا تھا غم سہتا تھا
ناداں ہیں وہ جو چھیڑے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ

اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سنتے کو ہم سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں، اس نار کے جو جو قصے تھے
اک شام جو اس کو بلوایا، کچھ سمجھایا بیچارے نے
اس رات پہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے
کیا بات ہوئی، کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ

ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہے کیا، اس بات پر پردہ رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہو سکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی ، کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ

(ابن انشاء)​
 
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا

اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا

اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا

اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا

(​ابن انشاء)​
 
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ہے
کہ جب ہیں سارے ہی تار ٹوٹے تو ساز میں ارتعاش کیوں ہے

کوئی اگر پوچھتا یہ ہم سے بتاتے ہم گر تو کیا بتاتے
بھلا ہو سب کا کہ یہ نہ پوچھا کہ دل پہ ایسی خراش کیوں ہے

اٹھا کے ہاتھوں سے تم نے چھوڑا چلو نہ دانستہ تم نے توڑا
اب الٹا ہم سے تو یہ نہ پوچھو کہ شیشہ یہ پاش پاش کیوں ہے

عجب دو راہے پہ زندگی ہے کبھی ہوس دل کو کھینچتی ہے
کبھی یہ شرمندگی ہے دل میں کہ اتنی فکر معاش کیوں ہے

نہ فکر کوئی نہ جستجو ہے نہ خواب کوئی نہ آرزو ہے
یہ شخص تو کب کا مر چکا ہے تو بے کفن پھر یہ لاش کیوں ہے

(​جاوید اختر)​
 
آج میں نے اپنا پھر سودا کیا
اور پھر میں دور سے دیکھا کیا

زندگی بھر میرے کام آئے اصول
ایک اک کر کے انہیں بیچا کیا

بندھ گئی تھی دل میں کچھ امید سی
خیر تم نے جو کیا اچھا کیا

کچھ کمی اپنی وفاؤں میں بھی تھی
تم سے کیا کہتے کہ تم نے کیا کیا

کیا بتاؤں کون تھا جس نے مجھے
اس بھری دنیا میں ہے تنہا کیا

(جاوید اختر)​
 
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے

ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے

ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آگئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہوگئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے

آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی، کیا کہیں ہم سے کیا بدحواسی ہوئی
کہنے والی جو تھی بات ہو نہ سکی، بات جو تھی چھپانی، بتانے لگے

عشق بے گھر کرے، عشق بے در کرے، عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانا نہیں
ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی، آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے

(​جاوید اختر)​
 
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیئے
زندگی سے روٹھ جانا چاہیئے

ہمت قاتل بڑھانا چاہیئے
زیر خنجر مسکرانا چاہیئے

زندگی ہے نام جہد و جنگ کا
موت کیا ہے بھول جانا چاہیئے

ہے انہیں دھوکوں سے دل کی زندگی
جو حسیں دھوکا ہو کھانا چاہیئے

لذتیں ہیں دشمن اوج کمال
کلفتوں سے جی لگانا چاہیئے

ان سے ملنے کو تو کیا کہئے جگرؔ
خود سے ملنے کو زمانا چاہیئے

(​جگر مراد آبادی)​
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
Chat