Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Life Story نظریہ ضرورت یا محبت ؟

Joined
Nov 24, 2024
Messages
507
Reaction score
35,059
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
ہمارے گھر کے برابر مکان میں نئے کرایہ دار آئے تھے۔ ملنے پر پتا چلا کہ ابو کے واقف کار ہیں۔ ان کا تعلق بھی ہمارے گاؤں سے تھا۔ چچا نبیل احمد عرصہ پہلے پاکپتن میں رہا کرتے تھے، جہاں میری دادی کا گھر تھا، لہٰذا ہم بہت جلد آپس میں گھل مل گئے۔ یہ میل ملاپ بڑوں کے بیچ تھا، ہم بچے ابھی تک ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔

چچا نبیل کا ایک بیٹا شرجیل اور ایک بیٹی سائرہ تھی، جو شادی شدہ اور اپنے گھر آباد تھی۔ یہ غریب لوگ تھے، چچا کی ملازمت اوسط درجے کی تھی، جس کی وجہ سے بمشکل گزارہ ہو رہا تھا۔ گاؤں میں تھوڑی سی زمین تھی، جس پر کاشتکاری سے کچھ فاضل آمدنی آجاتی تھی۔ یہ لوگ شرجیل کی تعلیم کی خاطر شہر آگئے تھے کیونکہ وہاں کالج نہیں تھا اور شرجیل کو اعلیٰ تعلیم کا شوق تھا، لہٰذا سو مصائب برداشت کر کے یہ کنبہ یہاں آگیا تھا۔ اتفاق سے شرجیل نے بھی اسی کالج میں داخلہ لیا، جس میں میں پڑھ رہی تھی کیونکہ وہ ہمارے گھر سے قریب تھا۔ شرجیل محنتی اور ہونہار طالب علم تھا۔ وہ کلاس میں اول پوزیشن لینے لگا۔ جب کوئی لڑکا خوبرو ہو اور پڑھائی میں بھی ہوشیار ہو، تو لا محالہ کالج میں مقبول ہو جاتا ہے۔

ایک دن کالج کی لائبریری میں میری اس سے ملاقات ہو گئی کیونکہ ہم دونوں کے مضامین مشترک تھے۔ میں الماری کے پاس ایک کتاب تلاش کر رہی تھی، وہاں کتاب نہ ملی، تبھی میری نظر شرجیل پر پڑی تو وہ اسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ میں نے کہا، پلیز! ایک منٹ کے لیے مجھے یہ کتاب دکھا دیں۔اس نے اترا کر کہا، یہ فلسفے کی کتاب ہے، جبکہ آج کل کی لڑکیاں سوشل قسم کی کہانیاں پڑھتی ہیں۔ آپ اتنی خشک اور سنجیدہ کتاب کیوں ڈھونڈ رہی ہیں؟مجھے اس کا جواب برا لگا، میں نے کہا، کیوں! آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ چلیں میں نہیں پڑھتی، اپنا مضمون تبدیل کر لیتی ہوں۔نہیں نہیں، میرا یہ مطلب نہ تھا، آپ تو برا مان گئی ہیں، یہ لیجیے۔اس نے کتاب میرے آگے کر دی، آپ پڑھیے، میں بعد میں پڑھ لوں گا۔ ویسے بھی آپ ہماری پڑوسی ہیں اور پڑوسیوں کے بڑے حقوق ہوتے ہیں۔شکریہ۔ مجھے اس کی باتیں ناگوار گزر رہی تھیں، لیکن وہ چونکہ گاؤں سے آیا تھا، اس لیے میں نے اس کے طرزِ عمل کو نظر انداز کر دیا۔ بس اس قدر کہا کہ واقعی لوگ آپ کو ٹھیک مغرور کہتے ہیں۔
ایسی بات نہیں، میں قطعی مغرور نہیں ہوں، مگر ان لڑکیوں کو لفٹ نہیں کراتا جو خواہ مخواہ باتیں کر کے میرا قیمتی وقت ضائع کرنا چاہتی ہیں۔ مجھے صرف اپنی پڑھائی سے دلچسپی ہے۔وہ تو آپ صورت سے ہی پڑھاکو لگ رہے ہیں۔ میں نے طنزیہ کہا مگر وہ طنز نہ سمجھا اور خوش ہو کر بولا، آپ ہمیشہ مجھے لائبریری میں پائیں گی، میں واقعی پڑھاکو ہوں۔

اس بات پر میں دل ہی دل میں ہنسی، لیکن سوچا کہ یہ تو ہے ہی پینڈو، کوئی بات سمجھتا ہی نہیں۔ لیکن آگے چل کر اس نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی پڑھاکو ہے۔ کئی لڑکیوں نے اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے اپنا دھیان صرف پڑھائی میں لگائے رکھا۔ اسی لیے تمام لڑکوں نے اسے مغرور اور خود پسند قرار دیا تھا۔پہلے دن تو اس نے مجھے متاثر نہ کیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اس میں کشش محسوس ہونے لگی، کیونکہ میں خود بھی پڑھاکو قسم کی تھی اور میرا ہر خالی پیریڈ لائبریری میں گزرتا تھا۔ اب اکثر ہمارا آمنا سامنا ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ ہم اپنے مضمون کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ میں اس سے ایک کلاس آگے تھی۔ وہ کبھی کبھی میری کلاس میں آجاتا اور جب مجھے اس سے نوٹس یا رجسٹر واپس لینا ہوتا تو میں اس کی کلاس میں چلی جاتی۔ایک دن ہم کچھ کلاس فیلوز اکٹھی بیٹھی تھیں کہ زاہدہ نے کہا، حنا! کیا بات ہے، آج کل شرجیل صاحب تمہاری کلاس کے بڑے چکر لگا رہے ہیں؟اس پر تمام لڑکیاں ہنس پڑیں اور میں چپ رہ گئی۔

ایک دن میں لائبریری گئی۔ شرجیل وہاں بیٹھا تھا، کتاب آگے کھلی تھی اور وہ سوچ میں گم تھا۔ میں نے کہا، کیا بات ہے شرجیل! آج تم گم صم بیٹھے ہو؟کہنے لگا، امی کچھ دنوں سے بیمار تھیں اور اب اُن پر فالج کا حملہ ہو گیا ہے۔ وہ معذور ہو گئی ہیں۔ جب وہ ٹھیک تھیں تو میں ان سے بہت پیار کرتا تھا، لیکن اب کچھ دنوں سے وہ مجھ کو ایک بوجھ لگنے لگی ہیں۔ یہ میں تمہیں اپنے دل کی بات بتا رہا ہوں اور اسی سوچ میں ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ میری محسوسات نے یہ رنگ کیسے اختیار کر لیا؟اس کے سچ بولنے پر مجھے حیرت ہوئی اور میں نے پوچھا، کیا تم ان سے محبت نہیں کرتے؟اس نے جواب دیا، ایسی بات نہیں، میں ان کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہوں، لیکن یہ بات کیوں ہے کہ وہ بوجھ لگتی ہیں؟ بات یہ ہے کہ والدین جو محبت اولاد سے کرتے ہیں، وہ فطری ہوتی ہے۔ محبت کا جذبہ قدرت نے ماں کے اندر رکھا ہے۔ اسے اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے اور وہ ان کی پیار سے پرورش کرتی ہے۔ جانور ہو یا انسان، یہ جذبہ ہر ذی روح میں ہوتا ہے، لیکن اولاد کی سرشت میں شاید نہیں ہوتا۔ ان کی والدین سے محبت محض نظریۂ ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔ تب ہی اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ والدین کی اطاعت کرو اور ان کو اُف تک نہ کہو اور ان کو محبت کی نظر سے دیکھو۔ اسلام دینِ فطرت اور ایک گہرا فلسفہ ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

تم نے ٹھیک کہا کہ شاید ہم نظریۂ ضرورت کے تحت ہی والدین سے محبت کرتے ہیں اور ان سے جڑے رہتے ہیں، لیکن وہ ہم سے فطری جذبے کی وجہ سے محبت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انسانوں میں ہی نہیں، جانوروں میں بھی ممتا ہوتی ہے۔اس نے کہا، اچھا چھوڑو اس فلسفیانہ بحث کو، تم اپنی والدہ کا بہت زیادہ خیال کیا کرو۔میں بہت خیال کرتا ہوں اور ان کو ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں، اس لیے آج کل زیادہ مطالعہ نہیں کر پا رہا، تعلیم کا بھی حرج ہو رہا ہے۔ چھٹیاں بھی لے رہا ہوں۔تم اپنی بہن کو بلوالو۔اسے بلوایا ہے، وہ آنے کی کوشش میں ہے۔ دراصل وہ شادی شدہ ہے اور سمندر پار اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کا جلد آنا بہت مشکل ہے۔میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ امی سے اجازت لے کر، گھنٹہ دو گھنٹہ آنٹی کے پاس آ جایا کروں گی۔

اس کے بعد میں روز انکل نبیل کے گھر چلی جاتی اور شام کو دو تین گھنٹے چاچی کے پاس گزارتی، ان کی خدمت کرتی، جس سے مجھے سکون ملتا۔ پھر میں نے غور کرنا شروع کیا کہ آخر میں چاچی کی خدمت کر کے کیوں سکون محسوس کرتی ہوں؟ بہت غور کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ شاید اس میں بھی کچھ نظریۂ ضرورت کی کارفرمائی ہو گی، کیونکہ بے لوث خدمت تو بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ غالباً میں شرجیل سے محبت کرنے لگی تھی اور اس جذبے کی مجھے ابھی خود آگہی یا پہچان نہ ہوئی تھی، لیکن اندرونی طور پر خواہش تھی کہ میں شرجیل کے گھر رہوں، اس کی معذور ماں کی خدمت کروں۔ میں نے سوچا کہ ہر بات پر غور و خوض کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس طرح انسان کا اندر کھل کر سامنے آجاتا ہے، اور جب بات سمجھ میں آجائے تو لطفِ احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ آدمی طمع کا بندہ ہے، سو یہ چہرہ خوبصورت جذبوں کے نقابوں میں ہی چھپا رہے تو اچھا ہے۔

اب شرجیل کالج میں میرا بہت خیال رکھنے لگا تھا۔ لڑکیاں سوال کرتیں: سچ بتا، تو حنا، تم نے اس پتھر دل پر کیا جادو کر دیا ہے جو وہ موم ہو گیا؟ تم کو تو ایوارڈ دینا چاہیےمیں ان کو جواب دیتی: تم لوگ بکواس مت کیا کرو، وہ ہمارا رشتہ دار، پڑوسی ہے اور ہمارے گاؤں کا ہےاتنے گہرے رشتے ہیں تمہارے؟ واقعی پھر تو کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا میں نے ان لڑکیوں کی باتوں کا برا نہ مانا، کیونکہ ان کی عادت تھی ہر کسی کو تنگ کرنا، لیکن میں شرجیل کے مسئلے پر سنجیدہ تھی۔ امی بھی کچھ سوچ رہی تھیں۔ وہ ویسے ہی اتنا اچھا تھا۔ امی ہر دوسرے تیسرے دن حاجی کو پوچھنے جانے لگیں۔ ہم ان کی مقدور بھر خدمت کرتے۔ ابو کی چاچا نبیل سے دوستی تھی۔ وہ اکثر ہماری بیٹھک میں آ بیٹھتے، کافی پیتے اور دیر تک ابو سے باتیں کرتے۔ ابو کو ان کی شرافت اچھی لگتی تھی۔ پھر گاؤں سے جان پہچان بھی تھی، اس لیے گھر جیسی بات تھی۔ وہ اکثر کھانا ہمارے گھر کھا لیا کرتے تھے۔ جب میں چاچی کے پاس بیٹھی ہوتی تو وہ خوش ہو جاتیں اور اشارے سے کہتیں کہ میں شرجیل کے لیے تمہارے جیسی لڑکی چاہتی ہوں۔ خدا کرے تم ہی اس گھر کی بہو بنو۔ چاچی کی باتوں سے میرے دل میں پھول کھل جاتے تھے۔ جب وہ زیادہ بیمار ہوئیں تو انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ حنا کا رشتہ شرجیل کے لیے مانگ لو تاکہ میں اس کی شادی کی خوشی دیکھ سکوں۔

چاچا نے ابو سے بات کی، مگر وہ خاموش ہو گئے اور امی سے کہا: یہ جوڑ نہیں بنتا، وہ لوگ سفید پوش ہیں۔ ہماری بیٹی کو اس گھر سے کیا سکھ ملے گا؟ میں اس کی شادی امیر گھرانے میں کروں گا امی نے مجھے بتایا تو میں رونے لگی اور ماں سے کہہ دیا: مجھے شرجیل اور اس کا گھرانہ پسند ہے۔ مجھے شادی یہی کرنی ہے۔ آپ ابو کو بتا دیجئے۔ اگر انہوں نے کہیں اور میرا رشتہ کیا، تو میں وہاں شادی نہیں کروں گی امی کے سمجھانے پر ابو نے نیم رضامندی ظاہر کر دی۔ تاہم میں اور شرجیل بہت خوش تھے۔ ابو کی شرط تھی کہ یہ گریجویشن مکمل کر لیں، تو منگنی کی رسم ہو گی، اور جب شرجیل کمانے لگے گا تب شادی ہو گی۔ جب رشتے کے لیے ہاں ہو گئی تو شرجیل اور زیادہ محنت سے پڑھنے لگا۔ اس کی پھپھو بھی سیالکوٹ سے آ گئیں اور ان کا گھر سنبھال لیا۔

ہمارے پیپرز ہو رہے تھے کہ چاچی فوت ہو گئیں۔ شرجیل تو جیسے بکھر کر رہ گیا۔ اگر میں اور اس کی پھپھو اس کو نہ سنبھالتے، تو شاید وہ پیپر بھی نہ دیتا۔ خیر، امتحان ہو گئے اور وہ پاس ہو گیا، مگر والدہ کی وفات کی وجہ سے پوزیشن نہ لا سکا۔ اس واقعے کے سال بعد شرجیل کے والد نے ابو سے کہا: بیٹے کی ملازمت ہو گئی ہے۔ اگرچہ معمولی ملازمت ہے، تاہم اچھی نوکری بھی مل جائے گی جب ذرا تجربہ ہو جائے گا۔ لیکن ہمارا گھر بالکل سونا ہو گیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اب بہو گھر میں آ جائے ابو نے جواب دیا: آپ شادی کی تیاری کیجئے، لیکن مجھے ضروری کام سے لندن جانا ہے۔ میں وہاں چند دن قیام کروں گا اور واپس آ کر شادی کی تاریخ رکھ دیں گےجب ابو لندن جانے لگے تو مجھے کہا: تم ساتھ چلنا چاہو تو چلو، تم بھی لندن دیکھ لو اور اپنے تایا چچا سے مل لو۔ پھر جانے تمہیں ایسی سیر کا موقع ملے یا نہ ملےمیرا بھی دل للچا گیا کہ ابو لے جا رہے ہیں تو چلی جاؤں۔ شادی کے بعد کب جا سکوں گی؟ میں نے ہامی بھر لی اور والد کے ساتھ لندن جانے کی تیاری کر لی۔ انہوں نے چند دنوں میں ویزے کا بندوبست کر لیا۔جانے سے پہلے میں شرجیل سے ملی۔ اس نے کہا: حنا، تم مت جاؤ، میرا دل نہیں لگے گا۔ جانے کیوں میرے دل میں اندیشے پیدا ہو رہے ہیں شرجیل، تم تو وہمی ہو۔ ارے بھئی چند دن کی بات ہے۔ مجھے سیر کر لینے دو، پھر آتے ہی ہماری شادی ہو جائے گی۔ لندن سے تم کو خط لکھ دوں گی، فون بھی کروں گی جب میں لندن پہنچی، تو اپنے رشتہ داروں کی دھن دولت دیکھ کر میری آنکھیں کھل گئیں۔ میرا چچازاد فرحان مجھ پر فریفتہ ہو گیا اور اس نے اپنے والدین سے کہا کہ میں حنا سے شادی کروں گا، آپ اسے اب واپس پاکستان جانے نہ دیجئے گا، ورنہ میں جان دے دوں گامجھے بھی وہ بہت اچھا لگا۔ اسے دیکھ کر سوچا کہ یہی تو میرے لیے بنا ہے۔ شرجیل اس کے سامنے کچھ بھی نہ تھا۔ واقعی ابو ٹھیک کہتے تھے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگاتے۔ وہ تو میرے لیے کسی طور موزوں نہیں تھا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس سے محبت نہیں تھی، شاید تنہائی کے احساس نے مجھے اس کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔

ابو نے مجھ سے پوچھا: بیٹی، تمہارا کیا ارادہ ہے؟ یہ لوگ تم پر سو جان سے فدا ہو رہے ہیں اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ تم شرجیل کا خیال چھوڑ دو۔ تمہارے لیے فرحان کا رشتہ زیادہ بہتر ہےمیں نے جواب دیا: ابو، آپ کی مرضی، مجھے آپ کی خوشی عزیز ہے یوں میری شادی اپنے چچا کے بیٹے فرحان سے ہو گئی۔ادھر شرجیل بہت پریشان تھا۔ مجھے لندن آئے ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا تھا۔ میں نے ایک بار بھی اسے خط نہیں لکھا اور نہ فون کیا۔ آخر ایک روز اسے فون کرنا ہی پڑا کیونکہ امی نے ہدایت کی تھی کہ اس کو صحیح صورتِ حال بتا دی جائےاس نے ریسیور اٹھایا تو میں نے کہا: شرجیل، ابو نے انگلینڈ میں اپنے بھتیجے سے میری شادی کروا دی ہےاُس کی آواز جو میری آواز سن کر کھل گئی تھی، اسی لمحے ختم ہو گئی حنا! کیا یہ تم بول رہی ہو؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ مجھے کس بات کی سزا دے رہی ہو میں نے بات بنائی: مجھے علم نہیں تھا کہ غریب لڑکے اپنی غربت دور کرنے کے لیے امیر لڑکیوں کو ورغلا کر ان کی دولت پر نظر رکھتے ہیں یہ ایسا جملہ تھا، جس نے شرجیل کا دل چیر دیا اور اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے بعد اس نے مجھے کبھی فون کیا اور نہ رابطہ کیا بلکہ ان لوگوں نے اپنا گھر بھی بدل لیا۔

مجھے اقرار ہے کہ میں نے اچھا نہیں کیا، لیکن شرجیل کو جواب دے کر مجھے کوئی اذیت نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے میں نے سمجھ لیا کہ مجھے اس سے محبت نہیں تھی۔ اس لیے اسے چھوڑنے میں آسانی ہوئی۔ آپ اسے دھوکہ کہہ سکتے ہیں، لیکن میں یہی کہوں گی کہ ہر انسان کو اپنی زندگی بہتر بنانے کا حق ہے۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ خوش و خرم ہوں اور میرے والدین بھی اس فیصلے پر خوش ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے پیار کرتے ہیں، زندگی کی تمام آسائشیں مہیا ہیں۔ سوچتی ہوں کہ اگر پہلے ہی والدین کا کہنا مان لیتی تو بیچارے شرجیل کو دکھ پہنچانے کا باعث نہ بنتی۔ مجھے اقرار ہے کہ لڑکیاں جذباتی ہوتی ہیں اور اکثر صحیح فیصلے نہیں کرتیں، جبکہ والدین کے فیصلے ہی درست ہوتے ہیں۔
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom
× WhatsApp