Master Mind
Premium
Offline
- Thread Author
- #1
پاکستانی پنجاب کے شہر ساہیوال کی پولیس نےاس شادی شدہ دیہاتی لڑکی کو دارالامان بھجوادیا ہے جس نے الزام عائد کیا ہے کہ اسے اس کی مرضی کے بغیر اس کے رشتہ داروں نے زنجیروں سے جکڑ کر رکھا ہوا تھا۔
ساہیوال کے ضلعی پولیس افسر جاوید شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر لڑکی کا ایک نکاح ہوتے ہوئے دوسرا نکاح ہوا ہے۔ ایک نکاح لڑکی نے اپنی پسند سے کیا اور دوسرا لڑکی کے والدین نے اپنی مرضی سے کیا لیکن ضلعی پولیس افسر کے بقول ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ان دونوں میں سے پہلا نکاح کونسا تھا اور بعد میں ہونے والا نکاح کونسا ہے۔
ساہیوال کے ایک نواحی گاؤں کی رہائشی شہناز اختر نے ملتان کی ایک یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کے بعد ساہیوال میں ہی سکول ٹیچر کی ملازمت اختیار کر لی تھی۔
شہناز اختر کے مطابق اس کے والدین اس کی شادی ایک ان پڑھ رشتہ دار سے کرنا چاہتے تھے۔ اس بات کا علم ہونے پر کوئی ڈیڑھ برس قبل اس نے گھر والوں سے چھپ کر ایک غریب لیکن پڑھےلکھے لڑکےغلام مصطفٰی سے شادی کرلی۔
اس کے بقول یہ شادی اوکاڑہ کی ایک عدالت میں ہوئی اورکچھ عرصے کے بعد جب اس نے اپنے والدین کو اس کے بارے میں بتایا تو وہ سیخ پا ہوئے اور انہوں نے اس کی مزید ایک شادی کی کوشش کی۔
شہناز اختر کا کہناہے کہ اس پر وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئی اور اپنے شوہر غلام مصطفٰی کے ہمراہ ایک دوسرے شہر گڑھ مہاراجہ رہنے لگی۔ [TABLE="align: left, border: 0, cellpadding: 0, cellspacing: 0, height: 3"]
[TR]
[TD="bgcolor: #FFFFFF"] [/TD]
[TD] [/TD]
[/TR]
[/TABLE]
شہناز اختر نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کی بازیابی کےموقع پر ایک تھانیدار نے اس کے والد کی موجودگی میں اسے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا۔
شہناز اختر کی پسند کے شوہر غلام مصطفٰی کےوکلاء کا کہنا ہےکہ شہناز کے والدین نے اس کے شادی شدہ ہونے کے باوجود اس کا دوسرا نکاح کروادیا اور اسے ایک ایسے شخص کے ساتھ بھجوا دیا گیا جس کے ساتھ وہ زندگی بسر نہیں کرنا چاہتی۔
ساہیوال پولیس کے ایک افسر نے تصدیق کی کہ شہناز اختر اپنے والدین کی مرضی سے ہونے والی شادی کوتسلیم نہیں کرتی۔
شہناز اختر کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ اسے زنجیروں سے باندھ کررکھا ہے۔
ضلعی پولیس افسر جاوید شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ لڑکی کے رشتہ دار منگل کو خود اسے لیکر پولیس کے پاس آئے تھے لیکن پھر لڑکی کی خواہش پر اسے دارالامان بھجوادیا گیاہے۔
مصطفٰی کے وکلاء کا کہنا ہے چونکہ اس کی پہلے سے شادی ہوچکی ہے اور ملکی اور اسلامی قوانین کے مطابق عورت کی بغیر طلاق ہوئے دوسری شادی نہیں ہوسکتی۔اس لیے لڑکی کے والدین کی طرف سے کیا گیا نکاح باطل ہے۔
ساہیوال پولیس کے افسر کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والدین نے جو نکاح نامہ پیش کیا ہے اس پر درج تاریخ پسند کےنکاح نامے سے تین ماہ پرانی ہے۔
پولیس نے دونوں نکاح نامے جانچ کے لیے بھجوائے ہیں تاکہ اس نتیجے پر پہنچا جاسکے کہ ان میں سے کونسا جعلی اورکونسا اصلی ہے۔
ساہیوال کے ضلعی پولیس افسر جاوید شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر لڑکی کا ایک نکاح ہوتے ہوئے دوسرا نکاح ہوا ہے۔ ایک نکاح لڑکی نے اپنی پسند سے کیا اور دوسرا لڑکی کے والدین نے اپنی مرضی سے کیا لیکن ضلعی پولیس افسر کے بقول ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ان دونوں میں سے پہلا نکاح کونسا تھا اور بعد میں ہونے والا نکاح کونسا ہے۔
ساہیوال کے ایک نواحی گاؤں کی رہائشی شہناز اختر نے ملتان کی ایک یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کے بعد ساہیوال میں ہی سکول ٹیچر کی ملازمت اختیار کر لی تھی۔
شہناز اختر کے مطابق اس کے والدین اس کی شادی ایک ان پڑھ رشتہ دار سے کرنا چاہتے تھے۔ اس بات کا علم ہونے پر کوئی ڈیڑھ برس قبل اس نے گھر والوں سے چھپ کر ایک غریب لیکن پڑھےلکھے لڑکےغلام مصطفٰی سے شادی کرلی۔
اس کے بقول یہ شادی اوکاڑہ کی ایک عدالت میں ہوئی اورکچھ عرصے کے بعد جب اس نے اپنے والدین کو اس کے بارے میں بتایا تو وہ سیخ پا ہوئے اور انہوں نے اس کی مزید ایک شادی کی کوشش کی۔
شہناز اختر کا کہناہے کہ اس پر وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئی اور اپنے شوہر غلام مصطفٰی کے ہمراہ ایک دوسرے شہر گڑھ مہاراجہ رہنے لگی۔ [TABLE="align: left, border: 0, cellpadding: 0, cellspacing: 0, height: 3"]
[TR]
[TD="bgcolor: #FFFFFF"] [/TD]
[TD] [/TD]
[/TR]
[/TABLE]
شہناز اختر نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کی بازیابی کےموقع پر ایک تھانیدار نے اس کے والد کی موجودگی میں اسے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا۔
شہناز اختر کی پسند کے شوہر غلام مصطفٰی کےوکلاء کا کہنا ہےکہ شہناز کے والدین نے اس کے شادی شدہ ہونے کے باوجود اس کا دوسرا نکاح کروادیا اور اسے ایک ایسے شخص کے ساتھ بھجوا دیا گیا جس کے ساتھ وہ زندگی بسر نہیں کرنا چاہتی۔
ساہیوال پولیس کے ایک افسر نے تصدیق کی کہ شہناز اختر اپنے والدین کی مرضی سے ہونے والی شادی کوتسلیم نہیں کرتی۔
شہناز اختر کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ اسے زنجیروں سے باندھ کررکھا ہے۔
ضلعی پولیس افسر جاوید شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ لڑکی کے رشتہ دار منگل کو خود اسے لیکر پولیس کے پاس آئے تھے لیکن پھر لڑکی کی خواہش پر اسے دارالامان بھجوادیا گیاہے۔
مصطفٰی کے وکلاء کا کہنا ہے چونکہ اس کی پہلے سے شادی ہوچکی ہے اور ملکی اور اسلامی قوانین کے مطابق عورت کی بغیر طلاق ہوئے دوسری شادی نہیں ہوسکتی۔اس لیے لڑکی کے والدین کی طرف سے کیا گیا نکاح باطل ہے۔
ساہیوال پولیس کے افسر کا کہنا ہے کہ لڑکی کے والدین نے جو نکاح نامہ پیش کیا ہے اس پر درج تاریخ پسند کےنکاح نامے سے تین ماہ پرانی ہے۔
پولیس نے دونوں نکاح نامے جانچ کے لیے بھجوائے ہیں تاکہ اس نتیجے پر پہنچا جاسکے کہ ان میں سے کونسا جعلی اورکونسا اصلی ہے۔