Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

ن م راشد

واۀ بہت اعلئ شاندار
شاعری دلچسپ
لا جواب
 
ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں
ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب
جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!

۔۔۔۔۔۔۔ ہم وہ کمسن ہیں کہ بسم اللہ ہوئی ہو جن کی
محوِ حیرت کہ پکار اٹھے ہیں کس طرح حروف
کیسے کاغذ کی لکیروں میں صدا دوڑ گئی
اور صداؤں نے معانی کے خزینے کھولے!
یہ خبر ہم کو نہیں ہے لیکن
کہ معانی نے کئی اور بھی در باز کیے
خود سے انساں کے تکلّم کے قرینے کھولے!
خود کلامی کے یہ چشمے تو کسی وادیِ فرحاں میں نہ تھے
جو ہماری ازلی تشنہ لبی نے کھولے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سرِ چشمہ نگوں سار کسی سوچ میں ہیں
سحر و شام ہے ہر لہر کی جمع و تفریق
جیسے اِک فہم ہو اعداد کے کم ہونے کا
جیسے پنہاں ہو کہیں سینے میں غم ہونے کا!
پارۂ ناں کی تمنّا کہ در و بام کے سائے کا کرم
خلوتِ وصل کہ بزمِ مئے و نغمہ کا سرور
صورت و شعر کی توفیق کہ ذوقِ تخلیق
ان سے قائم تھا ہمیشہ کا بھرم ہونے کا!
اب در و بام کے سائے کا کرم بھی تو نہیں
آج ہونے کا بھرم بھی تو نہیں!

۔۔۔۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔۔۔ اور ہر دن کی طرح
ہر سحر آتی ہے البتۂ روشن لے کر
شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح
ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر
اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!

۔۔۔۔۔۔۔ چار سو دائرے ہیں، دائرے ہیں، دائرے ہیں
حلقہ در حلقہ ہیں گفتار میں ہم
رقص و رفتار میں ہم
نغمہ و صورت و اشعار میں ہم
کھو گئے جستجوئے گیسوئے خم دار میں ہم!
عشقِ نارستہ کے ادبار میں ہم
دور سے ہم کبھی منزل کی جھلک دیکھتے ہیں
اور کبھی تیز ترک بڑھتے ہیں
تو بہت دور نہیں، اپنے ہی دنبال تلک بڑھتے ہیں
کھو گئے جیسے خمِ جادۂ پرکار میں ہم!

۔۔۔۔ 'آپ تک اپنی رسائی تھی کبھی'
آپ ۔۔۔۔۔۔ بھٹکے ہوئے راہی کا چراغ
آپ ۔۔۔۔۔ آئندہ پہنا کا سراغ
آپ ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کی وہ گویائی تھی
جس سے شیریں کوئی آواز سرِ تاک نہیں
آج اس آپ کی للکار کہاں سے لائیں؟
اب وہ دانندۂ اسرار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔ آج وہ آپ، سیہ پوش اداکارہ ہے
ہے فقط سینے پہ لٹکائے سمن اور گلاب
مرگِ ناگاہِ سرِ عام سے اس کی ہیں شناسا ہم بھی
اعتراف اس کا مگر اس لیے ہم کرتے نہیں
کہ کہیں وقت پہ ہم رو نہ سکیں!
۔۔۔۔۔ آؤ صحراؤں کے وحشی بن جائیں
کہ ہمیں رقصِ برہنہ سے کوئی باک نہیں!
آگ سلگائیں اسی چوب کے انبار میں ہم
جس میں ہیں بکھرے ہوئے ماضیِ نمناک کے برگ
آگ سلگائیں زمستاں کے شبِ تار میں ہم
کچھ تو کم ہو یہ تمناؤں کی تنہائیِ مرگ!
آگ کے لمحۂ آزاد کی لذّت کا سماں
اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامِ طرب ناک نہیں
کیسے اس دشت کے سوکھے ہوئے اشجار جھلک اٹھے ہیں
کیسے رہ گیروں کے مٹتے ہوئے آثار جھلک اٹھے ہیں
کیسے یک بار جھلک اٹھے ہیں!

۔۔۔۔۔ ہاں مگر رقصِ برہنہ کے لئے نغمہ کہاں سے لائیں؟
دہل و تار کہاں سے لائیں؟
چنگ و تلوار کہاں سے لائیں؟
جب زباں سوکھ کے اِک غار سے آویختہ ہے
ذات اِک ایسا بیاباں ہے جہاں
نغمۂ جاں کی صدا ریت میں آمیختہ ہے!

۔۔۔۔ دھُل گئے کیسے مگر دستِ حنا بندِ عروس
اجنبی شہر میں دھو آئے انہیں!
لوگ حیرت سے پکار اٹھے: "یہ کیا لائے تم؟"
"وہی جو دولتِ نایاب تھی کھو آئے تم؟"
ہم ہنسے، ہم نے کہا: "دیوانو!
زینتیں اب بھی ہیں دیکھو تو سلامت اِس کی
کیا یہ کم ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی؟"
لوگ بپھرے تو بہت، اِس کے سوا کہہ نہ سکے:
"ہاں یہ سچ ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی
یہی کیا کم ہے کہ محفوظ ہے عفت اِس کی،
یہی کیا کم ہے کہ اتنا دَم ہے!"

۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، تقنّن ہو کہ رقت ہو کہ نفرت ہو کہ رحم
محو کرتے ہی چلے جاتے ہیں اک دوسرے کو ہرزہ سراؤں کی طرح!
درمیاں کیف و کمِ جسم کے ہم جھولتے ہیں
اور جذبات کی جنت میں در آ سکتے نہیں!
ہاں وہ جذبات جو باہم کبھی مہجور نہ ہوں
رہیں پیوست جو عشّاق کی باہوں کی طرح
ایسے جذباتِ طرح دار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر
اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں
جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے
روبرو فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہے
اِس طرف پستیِ دل برف کے مانند گراں
اُس طرف گرمِ صلا حوصلہ ہے
دل بہ دریا زدن اک سو ہے تو اک سو کیا ہے؟
ایک گرداب کہ ڈوبیں تو کسی کو بھی خبر ہو نہ سکے!
اپنی ہی ذات کی سب مسخرگی ہے گویا؟
اپنے ہونے کی نفی ہے گویا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، فطرت کہ ہمیشہ سے وہ معشوقِ تماشا جُو ہے
جس کے لب پر ہے صدا، تُو جو نہیں، اور سہی،
اور سہی، اور سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنے عشّاق سرِ راہ پڑے ہیں گویا
شبِ یک گانہ و سہ گانہ و نُہ گاہ کے بعد
(اپنی ہر"سعی" کو جو حاصلِ جاوید سمجھتے تھے کبھی!)
اُن کے لب پر نہ تبسّم نہ فغاں ہے باقی!
اُن کی آنکھوں میں فقط سّرِ نہاں ہے باقی!
ہم کہ عشّاق نہیں اور کبھی تھے بھی نہیں
ہمیں کھا جائیں نہ خود اپنے ہی سینوں کے سراب
لیتنی کنت تُراب!
کچھ تو نذرانۂ جاں ہم بھی لائیں
اپنے ہونے کا نشاں ہم بھی لائیں!​

Wah wah Kya bat ha boht hi aala
 
گماں کا ممکن ۔۔۔ جو تُو ہے میں ہوں


کریم سورج،
جو ٹھنڈے پتھر کو اپنی گولائی دے رہا ہے
جو اپنی ہمواری دے رہا ہے ۔۔۔۔۔
(وہ ٹھنڈا پتھر جو میرے مانند
بھورے سبزوں میں
دور ریگ و ہوا کی یادوں میں لوٹتا ہے)
جو بہتے پانی کو اپنی دریا دلی کی
سرشاری دے رہا ہے
۔۔۔ وہی مجھے جانتا نہیں
مگر مجھی کو یہ وہم شاید
کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں!
مجھے وہ پہچانتا نہیں ہے
کہ میری دھیمی صدا
زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے سے آ رہی ہے

یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اوپر
ہزاروں انساں
افق کے متوازی چل رہے ہیں
افق کے متوازی چلے والوں کو پار لاتی ہیں
وقت لہریں ۔۔۔۔
جنہیں تمنا، مگر، سماوی خرام کی ہو
انہی کو پاتال زمزموں کی صدا سناتی ہے
وقت لہریں
انہیں ڈبوتی ہیں وقت لہریں!
تمام ملاح اس صدا سے سدا ہراساں، سدا گریزاں
کہ جھیل میں اِک عمود کا چور چھپ کے بیٹھا ہے
اس کے گیسو افق کی چھت سے لٹک رہے ہیں
پکارتا ہے : "اب آؤ، آؤ!
ازل سے میں منتظر تمہارا۔۔۔۔
میں گنبدوں کے تمام رازوں کو جانتا ہوں
درخت، مینار، برج، زینے مرے ہی ساتھی
مرے ہی متوازی چل رہے ہیں
میں ہر ہوائی جہاز کا آخری بسیرا
سمندروں پر جہاز رانوں کا میں کنارا
اب آؤ، آؤ!
تمہارے جیسے کئی فسانوں کو میں نے اُن کے
ابد کے آغوش میں اتارا۔"
تمام ملاح اس کی آواز سے گریزاں
افق کی شاہراہِ مبتذل پر تمام سہمے ہوئے خراماں۔۔۔۔
مگر سماوی خرام والے
جو پست و بالا کے آستاں پر جمے ہوئے ہیں
عمود کے اس طناب ہی سے اتر رہے ہیں
اسی کو تھامے ہوئے بلندی پہ چڑھ رہے ہیں!

اسی طرح میں بھی ساتھ اَن کے اتر گیا ہوں
اور ایسے ساحل پر آ لگا ہوں
جہاں خدا کے نشانِ پا نے پناہ لی ہے
جہاں خدا کی ضعیف آنکھیں
ابھی سلامت بچی ہوئی ہیں
یہی سماوی خرام میرا نصیب نکلا
یہی سماوی خرام جو میری آرزو تھا ۔۔۔۔

مگر نجانے
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
کہ جس پہ خود سے وصال تک کا گماں نہیں ہے؟
وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے
جو رُک گیا ہے دلوں کے ابہام کے کنارے
وہی کنارا کہ جس کے آگے گماں کا ممکن
جو تُو ہے میں ہوں!

مگر یہ سچ ہے،
میں تجھ کو پانے کی (خود کو پانے کی) آرزو میں
نکل پڑا تھا
اُس ایک ممکن کی جستجو میں
جو تُو ہے میں ہوں
میں ایسے چہرے کو ڈھونڈتا تھا
جو تُو ہے میں ہوں
میں ایسی تصویر کے تعاقب میں گھومتا تھا
جو تُو ہے میں ہوں!

میں اس تعاقب میں
کتنے آغاز گن چکا ہوں
(میں اس سے ڈرتا ہوں جو یہ کہتا
ہے مجھ کو اب کوئی ڈر نہیں ہے)
میں اس تعاقب میں کتنی گلیوں سے،
کتنے چوکوں سے،
کتنے گونگے مجسموں سے ، گزر گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے باغوں سے،
کتنی اندھی شراب راتوں سے
کتنی بانہوں سے،
کتنی چاہت کے کتنے بپھرے سمندروں سے
گزر گیا ہوں
میں کتنی ہوش و عمل کی شمعوں سے،
کتنے ایماں کے گنبدوں سے
گرز گیا ہوں
میں اِس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے انجام گن چکا ہوں ۔۔۔
اب اس تعاقب میں کوئی در ہے
نہ کوئی آتا ہوا زمانہ
ہر ایک منزل جو رہ گئی ہے
فقط گزرتا ہوا زمانہ

تمام رستے، تمام بوجھے سوال، بے وزن ہو چکے ہیں
جواب، تاریخ روپ دھارے
بس اپنی تکرار کر رہے ہیں ۔۔۔
"جواب ہم ہیں ۔۔۔ جواب ہم ہیں۔۔۔۔
ہمیں یقیں ہے جواب ہم ہیں ۔۔۔۔"
یقیں کو کیسے یقیں سے دہرا رہے ہیں کیسے!
مگر وہ سب آپ اپنی ضد ہیں
تمام، جیسے گماں کا ممکن
جو تُو ہے میں ہوں !

تمام کُندے (تو جانتی ہے)
جو سطحِ دریا پہ ساتھ دریا کی تیرتے ہیں
یہ جانتے ہیں یہ حادثہ ہے،
کہ جس سے اِن کو،
(کسی کو) کوئی مفر نہیں ہے
تمام کُندے جو سطحِ دریا پہ تیرتے ہیں،
نہنگ بننا ۔۔ یہ اُن کی تقدیر میں نہیں ہے
(نہنگ کی ابتدا میں ہے اِک نہنگ شامل
نہنگ کا دل نہنگ کا دل!)
نہ اُن کی تقدیر میں ہے پھر سے درخت بننا
(درخت کی ابتدا میں ہے اک درخت شامل
درخت کا دل درخت کا دل!)
تمام کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
وہ سطحِ دریا پہ جبر سے تیرتے ہیں
اب ان کا انجام گھاٹ ہیں جو
سدا سے آغوش وا کیے ہیں
اب اِن کا انجام وہ سفینے
ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی
اب ان کا انجام
ایسے اوراق جن پہ حرفِ سیہ چھپے گا
اب اِن کا انجام وہ کتابیں۔۔۔
کہ جن کے قاری نہیں، نہ ہوں گے
اب اِن کا انجام ایسے صورت گروں کے پردے
ابھی نہیں جن کے کوئی چہرے
کہ اُن پہ آنسو کے رنگ اتریں،
اور ان میں آیندہ
اُن کے رویا کے نقش بھر دے!

غریب کُندوں کے سامنے بند واپسی کی
تمام راہیں
بقائے موہوم کے جو رستے کھلے ہیں اب تک
ہے اُن کے آگے گماں کا ممکن ۔۔۔۔
گماں کا ممکن، جو تُو ہے میں ہوں !
جو تُو ہے میں ہوں!
 
مریل گدھے



تلاش۔۔۔ کہنہ، گرسنہ پیکر
برہنہ، آوارہ، رہگزاروں میں پھرنے والی
تلاش۔۔۔۔ مریل گدھے کے مانند
کس دریچے سے آ لگی ہے؟
غموں کے برفان میں بھٹک کر
تلاش زخمی ہے
رات کے دل پر اُس کی دستک
بہت ہی بے جان پڑ رہی ہے
(گدھے بہت ہیں کہ جن کی آنکھوں
میں برف کے گالے لرز رہے ہیں)
ہوا کے ہاتھوں میں تازیانہ
تمام عشقوں کو راستے سے
(تلاش کو بھی)
بھگا رہی ہے
(تلاش کو عشق کہہ رہی ہے!)


یہ رات ایسی ہے
حرف جس میں لبوں سے نکلیں
تو برف بن کر،
وہ برف پارے کہ جن کے اندر
ہزار پتھرائی، ہجر راتیں،
ہزار پتھرائی ہجر راتوں کے بکھرے پنجر
دبے ہوئے ہوں۔۔۔۔۔۔
تلاش کیا کہہ رہی ہے؟
(دیکھو، مری کہانی میں رات کے تین بچ چکے ہیں
اگر میں بے وزن ہو چکی ہوں۔۔۔۔
اگر میں مریل گدھا ہوں
مجھ کو معاف کر دو۔۔۔۔)
تلاش ہی وہ ازل سے بوڑھا گدھا نہیں ہے
دھکیل کر جس کو برف گالے
گھروں کے دیوار و در کے نیچے
لِٹا رہے ہیں۔۔۔۔۔

گدھے بہت ہیں جہاں میں: (ماضی سے آنے والے
جہاز کا انتظار مثلاً ۔۔۔۔۔۔۔)
(اور ایسے مثلاً میں ثائے ساکن!)
یہ اجتماعی حکایتیں، ایّتیں، کشاکش،
یہ داڑھیوں کا، یہ گیسوؤں کا ہجوم مثلاً۔۔۔۔
یہ الوؤں کی، گدھوں کی عفت پہ نکتہ چینی۔۔۔۔۔
یہ بے سرے راگ ناقدوں کے۔۔۔۔۔۔
یہ بے یقینی۔۔۔۔۔
یہ ننگی رانیں، یہ عشق بازی کی دھوم مثلاً۔۔۔۔۔
تمام مریل گدھے ہیں۔۔۔۔
(مریل گدھے نہیں کیا؟)

دریچہ کھولو
کہ برف کی لے
نئے توانا گدھوں کی آواز
ساتھ لائے
تمہاری روحوں کے چیتھڑوں کو سفید کر دے!​
 
آنکھیں کالے غم کی


اندھیرے میں یوں چمکیں آنکھیں کالے غم کی
جیسے وہ آیا ہو بھیس بدل کر آمر کا
آنے والے جابر کا!
سب کے کانوں میں بُن ڈالے مکڑی نے جالے
سب کے ہونٹوں پر تالے
سب کے دلوں میں بھالے!

اندھیرے میں یوں چمکے میلے دانت بھی غم کے
جیسے پچھلے دروازے سے آمر آ دھمکے
سر پر ابنِ آدم کے!
غم بھی آمر کے مانند اک دُم والا تارا
یا جلتا بجھتا شرارا،
جو رستے میں آیا سو مارا!

غم گرجا برسا، جیسے آمر گرجے برسے
خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے
خلقت نکلی پھر گھر سے!
بستی والے بول اٹھے! "اے مالک! اے باری!
کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری،
کب ہوگا فرماں جاری؟"
 
انتقام

اُس کا چہرہ، اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں کی سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشہء دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتشداں میں انگاروں‌کا شور
اُن بتوں کی بے حِسی پر خشمگیں;
اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس
اُن فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگِ بنیادِ فرنگ!


اُس کا چہرہ اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے ‘ہونٹوں‘ نے لیا تھا رات بھر
جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!​

تمام غزلیں کمال ہیں
یہ والی بہت گہری ہے
کمال اپڈیٹ
 
آرزو راہبہ ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
آرزو راہبہ ہے، عمر گزاری جس نے
انہی محروم ازل راہبوں، معبد کے نگہبانوں میں
ان مہ و سالِ یک آہنگ کے ایوانوں میں!
کیسے معبد پہ ہے تاریکی کا سایہ بھاری
روئے معبود سے ہیں خون کے دھارے جاری

۔۔۔۔۔۔۔۔ راہبہ رات کو معبد سے نکل آتی ہے
جھلملاتی ہوئی اک شمع لیے
لڑکھڑاتی ہوئی، فرش و در و دیوار سے ٹکراتی ہوئی!
دل میں کہتی ہے کہ اس شمع کی لو ہی شاید
دور معبد سے بہت دور چمکتے ہوئے انوار کی تمثیل بنے
آنے والی سحرِ نو یہی قندیل بنے

۔۔۔۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
ہاں مگر راہبوں کو اس کی خبر ہو کیونکر
خود میں کھوئے ہوئے، سہمے ہوئے، سرگوشی سے ڈرتے ہوئے
راہبوں کو یہ خبر ہو کیونکر
کس لیے راہبہ ہے بےکس و تنہا و حزیں!
راہب استادہ ہیں مرمر کی سلوں کے مانند
بے کراں عجز کی جاں سوختہ ویرانی میں
جس میں اُگتے نہیں دل سوزئ انساں کے گلاب

راہبہ شمع لیے پھرتی ہے
یہ سمجھتی ہے کہ اس سے درِ معبد پہ کبھی
گھاس پر اوس جھلک اٹھے گی
سنگریزوں پہ کوئی چاپ سنائی دے گی!​
 
Boht behtareen intehai khubsoorat shaheri
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat