What's new

Welcome!

Welcome to the World of Dreams! Urdu Story World, the No.1 Urdu Erotic Story Forum, warmly welcomes you! Here, tales of love, romance, and passion await you.

Register Now!
  • Notice

    فورم رجسٹریشن فری کردی گئی ہے----پریمیم ممبرشپ فیس 95 ڈالرز سالانہ----وی آئی پی پلس 7000 روپے سالانہ----وی آئی پی 2350 روپے تین ماہ اور 1000 روپے ایک ماہ

    Whatsapp: +1 631 606 6064---------Email: [email protected]

Erotic کشمیری ڈاکٹرنی کی چدائی

Erotic کشمیری ڈاکٹرنی کی چدائی
kashmiri Çevrimdışı

kashmiri

Well-known member
Dec 24, 2022
5
755
78
India
کشمیری ڈاکٹرنی کی چدائی

وہ میری بیوی کی سہیلی تھی اور بیرون ملک میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی کرکے دو بچوں کی ماں بن گئی تھی۔ مگر شوہر، جو خود بھی ڈاکٹر تھا، کے ساتھ اسکا نباہ نہیں ہورہا تھا۔ وہ خود تو بیرون ملک چلا گیا تھا اور اس کو دو بچوں کے ساتھ اپنی جوائنٹ فیملی میں، جس میں اس کے والدین اور کئی بھائی اور ان کی بیویاں, بہنیں شامل تھے، چھوڑدیا تھا۔ گو کہ وہ لیڈی ڈاکٹر تھی، مگر سسرال والے اس کو نوکری یا پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

انہی حالات میں وہ دو بچوں کو لیکر ہمارے پاس ممبئی رہنے آئی۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے ایک نرسنگ ہوم میں کام کرنا شروع کیا، پاس کی ایک لوکیلیٹی میں دوکمروں کا ایک سیٹ کرائے پر لیا اور بچوں کےلئے ایک آیا کو بھی ملازم رکھ لیا۔

نام بتایا تو بھول ہی گیا۔ اس کا نام عمارہ تھا۔ وہ بہت زیادہ خوبصورت تو نہیں تھی، مگر جسم بھرا بھرا گھٹا سا، مگر بلکل گورا چٹا تھا۔ اتنا گورا کہ جیسے کوئی یوریپین خاتون ہو اور ہاتھ لگاتے ہی میلا نہ ہوجائے۔ چہرہ لمبوترہ تھا، مگراس کے دونوں پٹ کشمیری سیب کی طرح لال اور چمکیلے تھے۔

جتنے دنوں وہ ہمارے گھر پر مقیم تھی، مجھے کبھی اس میں کوئی سیکس اپیل نظر نہیں آئی، یا تو میں خود اتنا مصروف تھا کہ اس کے جسم کو پوری طرح تول نہیں پایا۔ اس دوران ایک دن لنگوٹیا یار وسیم اپنی بیوی کے ساتھ کشمیر سے وارد ہوا۔ عمارہ تو ہر روز ہی ہمارے گھر آتی جاتی تھی۔ وسیم نے توجہ دلائی کہ اس ڈاکٹرنی کی گانڈ تو کافی موٹی ہے، ڈوگی پوزیشن میں تو اس کے خاوند کے مزے آتے ہونگے۔ میں نے رات کو یہ بات بیوی کو بتائی، تو اس نے کہا کہ ہاں اسکول و کالج میں بھی اس کی گانڈ کے چرچے ہوتے تھے۔

وسیم اور اس کی فیملی تو چلی گئی تھی، مگر کچھ عرصے بعد میں نے محسوس کیا کہ عمارہ جب مجھے گھر پر دیکھتی تھی، تو اپنا فراک یا قمیض غیر ارادی طو پر بار بار نیچے کرکے شاید گانڈ چھپانے کی کوشش کرتی تھی۔ میں نے جب اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا، تو اس نے کہا کہ اس نے عمارہ کو بتایا تھا کہ وسیم نے اس کے بارے میں کیا کمنٹ کیا تھا۔

خیر ایک دن میں ہمت کرکے اس کو ایس ایم ایس (واٹ ازاپ ابھی شاید نہیں آیا تھا) کرکے ہیلو کیا۔ اس نے دیر رات جواب دیا۔ میں نے پوچھا کہ آج کل آپ کم ہی ہماری طرف آتی ہیں۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اگلے دن اس کا مسیج دیکھا کہ ’’مردوں کی نظریں جب بھٹنکنے لگ جائیں، تو دور رہناہی بہتر ہوتا ہے۔‘‘

خیر نام و پیام کا سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ اسی دوران کئی بار اس سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہ اکثر اپنے بچوں اور ملازمہ کو ہمارے ہاں چھوڑتی تھی، جب اسکو اسپتال جانا ہوتا تھا۔ ایک بار اس نے ہماری دعوت بھی کی تھی۔ اس کا فلیٹ بس ایک لور مڈل کلاس لوکلٹی میں تھا۔ ممبئی میں جگہ کی تنگی کا جن کو اندازہ ہوگا، ان کوپتہ ہوگا کہ اچھی لوکلٹی میں مکان ملنا کس قدر مشکل اورمہنگا ہوتا ہے۔

اس کے صرف بیڈ روم میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی،جہاں سے دن میں روشنی اندر آتی تھی۔ باقی لیونگ کم ڈرائینگ روم اور کچن میں دن میں بھی اندھیرا ہوتا تھا۔ لائٹ آن ہی رکھنی پڑتی تھی۔

ایک روز اتوار کو کیا موڈ آگیا، میں انے اس کو مسیج کیا، کہ کہاں اور کیسی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وہ گھر پر ہی ہے۔ میں کہا کہ ملنے کا جی کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں شام کو آپ کے گھر آرہی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ ایسے تو ملاقاتیں ہوتی ہی رہتی ہیں، ایک ملاقات کیا اکیلے میں نہیں ہوسکتی ہے؟۔ بس میں اور تم۔۔۔ ایک بھر پور نظر۔۔اور کچھ نہیں۔۔پہلے اس نے کہا کہ کسی شاپنگ مال میں ملتےہیں۔ مگر میں نے جب کہا کہ وہاں کوئی ملنے والا ہمیں دیکھ کر بات کا بتنگڑ بنا سکتا ہے، تو وہ گھر پر ملنے کےلئے راضی ہوگئی۔

چند منٹ کے بعد اس کا مسیج آگیا۔۔"اچھا ایک گھنٹہ کے بعد میں، آیا اور بچوں کو آپ کے گھر بھیج رہی ہوں۔ ان کو بتاوں گی اسپتال میں ایمرجنسی آگئی ہے۔ "

یہ ایک گھنٹہ کیسے گذر گیا، لگ رہا تھا کہ صدیاں بیت رہی ہیں۔ میں نے گھر پر بتایا کہ کسی دوست سے ملنے جارہا ہوں ۔ ویسے مجھے یقین نہیں تھا کہ سیکس ہو پائے گا، مگر پھر بھی نہ جانے کیوں میں نے باتھ روم جاکر لنڈ کی خوب صفائی کی، اسکو کلون اور سینٹ سے خوب سجایا۔

ایک گھنٹہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا تھا، جب میں نے بالکونی سے اسکی آیا اور بچوں کو آتے ہوئے دیکھا۔

میں جلدی تیار ہوکر باہر آگیا، وہ سیڑھیوں سے اوپر آرہے تھے۔ اس کی آیا نے مجھے دیکھتے ہی کیا کہ میم صاحب کو اسپتال سے کال آگئی اور ہم کو بتایا ہے کہ اس کے آنے تک یہیں رہیں۔ میں نےعمارہ کی عقل کی داد دی۔

راستے میں ایس ایم ایس کی ٹون پھر آگئی۔ میں نے دیکھا مسیج تھا کہ ’’باہر کا دروازہ کھلا ہے، اس لئےگھنٹی یا دروازہ وغیرہ نہ بجاوں۔ سیدھے دورازہ کھول کر اندر آجاوٗں۔‘‘

بیل پڑوسیوں وغیرہ کو الرٹ کرتی ہے۔

میں نے یہ نصیحت گانٹھ میں بھر لی اور بلڈنگ میں داخل ہوگیا۔ اس کا دوکمروں کا سیٹ گراونڈ فلور پر ہی تھا۔ میں دروازہ کو ہاتھ لگایا، وہ کھلتا گیا۔ میں نے اس کی جب چٹکی لگائی، تو دیکھا کہ گھپ اندھیرا تھا۔ لائٹ چلی گئی تھی۔ چونکہ میں باہر دھوپ سےسیدھے اندر آگیا تھا، مجھے تو کچھ بھی نظر نہی آرہا تھا۔ بس اس کے بیڈ روم کے پردے کی درز سے ہلکی سی روشنی آرہی تھی۔

دروازہ لاک کرنے کے بعد، جب چند قدم چلا، تو ٹن کی ایک زبردست آواز آئی۔ میری ٹھوکر سے سٹیل کا جگ اور گلاس نیچے گر گیا تھا۔۔میں نے کہا، یہاں کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔

بس ایک اندھے کی طرح ہاتھوں کو ہلا ہلا کر محسوس ہوا کہ بیڈ روم سے کوئی ہیولا سا میری طرف آگیا ہے۔ وہ عمارہ تھی، اور کہہ رہی تھی کہ پندرہ منٹ قبل ہی لائٹ چلی گئی ہے۔

اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روشنی کی طرف لے جانے کی کوشش کی، کہ میں نے اسکو بازوں میں جکڑ کر اس کے ماتھے پر بوسہ ثبت کیا۔ وہ نا نا کرتی گئی، میں بوسوں کو رفتار بڑھاتا گیا۔ ماتھے کے بعد میں نے اس کے گالوں کو چوما۔ دونوں طرف کے کانوں کی لوں کو چوسا۔ اس کی ناک کو ہاتھ سے ہلایا اور اسکو منہ میں لیا۔ اس کی مزاحمت اب ختم ہو چکی تھی۔

میں نے انگلی اس کے ہونٹوں پر پھیری۔ اب آنکھیں اندھیرے میں تھوڑا تھوڑا دیکھنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو کھول کر انگلی اندر جانے دی۔ میں نے اس کے لال اور پتلے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کرکےان کو چوسا اور پھر زبان سے ان کو کھول کر اس کو اندر داخل کرکے اس کی زبان سے کھیلنے لگا۔

وہ اپنی زبان بالرضا و رغبت دے رہی تھی۔ اس نے میری زبان کو بھی چوسا اور اپنی زبان بھی میرے منہ میں داخل کی، جس کو میں خوب چوسا۔

میں نے اسکو گود میں اٹھانے کی کوشش کی، کہ اس کا فراک یا قمیض اوپر سرک گیا اور نیچے اس کے سفید پاجامے کا نارا نظر آرہا تھا۔ میں نے اسکو جھٹکے سے جونہی کھنچا۔ کہ پاجامہ اس کے پیروں کے پاس گر گیا۔ اس سے قبل وہ اس کو دوبارہ کھنچ لیتی میں نے اپنا پیر پھنسا کر اسکو باہر نکال کر اس کی برف جیسی سفید ٹانگوں کو ہاتھوں میں اٹھا کر اور دوسرا ہاتھ اس کی کمر کے گرد ہالہ کرکے اسکو بیڈ روم میں پہنچادیا۔ وہاں کافی روشنی تھی۔

ایک دیوار کے ساتھ بیڈ کے بجائے دو گدے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ وہ بیڈ اور صوفے کا کام کرتے تھے۔

میں نے اسکو ایک طرح سے اس گدے پر پھینک کر اس کے اوپر چڑھ کر اس کے فراک کے اندر ہاتھ لیجاکر اس کو اتارلیا۔ اس نے اندر سے لال برا پہنی ہوئی تھی۔ جس کا ہک اسنے خود ہی اتارا اور اسکو نکالنے کےلئے میں نے اسکی مدد کی۔ اس دوران میں نے اپنے آپ کو بھی کپڑوں کی قید سے آزاد کردیا۔ میرا بالوں سے بھرا سینہ اس کے بوبس سے ٹکرا رہا تھا۔

اس کے بوبس بلکل ماڈلوں جیسے تھے۔ گھریلو عورتوں کی طرح بوبس لٹکے ہوئے نہیں تھے۔ بوبس اوپر کی طرف اٹھے تھے اور نپلز بھی اوپر کی طرف تھیں، جس سے ان کو منہ میں لینا آسان ہورہا تھا۔ لگتا تھا کہ اس نے چھوٹی عمر سے ہی برا پہننا شروع کی ہوئی تھی، جس سے وہ پھر پور شیپ میں تھیں۔ ورنہ عام طور پر گھریلو لڑکیاں دیر گئے برا پہننا شروع کردیتی ہیں، تب تک انکے بوبس لٹک گئے ہوتے ہیں۔

میں نے انگلی چوت کی طرف لیجاکر محسوس کیا کہ اس نے بھی خوب صفائی کی ہوئی تھی۔ بالوں سے پاک صاف و شفاف چوت کے آس پاس پانی ہی پانی تھا۔ میں نے اپنی ٹانگوں کو اس کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا کر ان کو ایک دوسرے سے دور کردیا اور اپنےپیاسے اور استادہ لنڈ کو پوائنٹ پر لے جاکر ایک ہی جھٹکے میں اندر داخل کردیا۔ لنڈ اس کی چوت کی تہوں کی اتھاہ گہرایوں میں پہنچ گیا۔

اس نے آنکھیں بند کر کے رکھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے سفید بوبس کو پریس کیا اور پھر اس کے پنک نپلز کو منہ میں چوسنا شروع کیا۔ میری زبان کبھی اس کے منہ میں اس کی زبان کے مزے لے رہی تھی، تو کھبی اس کے بوبس اور نپلز کو دریافت کر رہی تھی۔

اس دوران میں نے پہلے آہستہ اور پھر تیز جھٹکئے دینے شروع کئے۔ اس مے منہ سے جلد ہی اوو، اا، اا کی آوازیں نکلنا شروع ہوگئیں۔ زور زور سے مارو، زور سے میرے یار۔۔۔میرے یار۔۔وہ کہہ رہی تھی۔ کہاں تھے اب تک میرے یار۔۔بہت مزا آرہا ہے۔۔۔

میرے دھکوں سے چپ چپ کی آوزیں بلند ہو رہی تھی۔ اس کا کافی پانی بہہ رہا تھا۔ اسی دوران پانی کا ایک بڑا سا ریلہ آگیا اور چند سیکنڈوں میں اس نے پہلے تو اپنی ٹانگوں کو زور زور سے حرکت دینی،پھر ہاتھوں سے گدے کے شیٹ کو مسلنا شروع کر دیا۔ اس کا جسم اکڑ رہا تھا۔ اسی کے ساتھ اس نے مجھے بھینچ کر اوو اوو آٓٓآ آ ٓ اوو ای ای ای اووو کی آوازیں نکالیں اور اس کی ساتھ اس کا جسم نرم پڑ گیا۔ وہ جیسے ایک لاش کی طرح بازو دونوں طرف کرکے بیڈ پر خاموش ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش میں آکر پوچھا کہ میں نکل گیا ہوں کیا؟ میں نے کہا، مجھے نکلنے میں ٹائم لگتا ہے اور ابھی میں نے اصل سیکس کیا ہی نہیں، یہ تو ٹرائی بال تھی۔

اس نے کہا اسی لئے تو میں سیکس کرنے کےکئے تیار ہوگئی۔ تمہاری بیوی سے ٹائمنگ کے بارے میں بہت سنا ہے۔ میرے شوہرامجد کا انزال تو بس چند سیکنڈ میں ہوتا ہے۔ یعنی موڈ بس بنتا ہی ہے کہ وہ نکل جاتا ہے اور پھر ہاتھ لگانے سے وہ چڑ جاتا ہے۔

بعد میں اس نے بتایا کہ اس کی سیل کالج کے ہی ایک ہم جماعت نے توڑی تھی، مگر وہ بھی چند سیکنڈ کے بعد ہی فارغ ہوگیا تھا۔

"دوسری بار اس سے سیکس کرنے کی نوبت نہی آئی۔ امجد سے جب شادی ہوئی اور دیکھا کہ وہ بھی ایک یا دو جھٹکوں کے بعد فارغ ہوتا تھا، تو سوچا کہ شاید سیکس کا نام ہی عورت کی تشنگی ہے۔ ‘‘

"جب تمہاری بیوئ نے کئی بار بتایا کہ تم اس کے ساتھ رات بھر سیکس کرتے ہو، اسی لئے جب تم نے ٹھرکی پن دکھایا، تو میں نے بھی سوچا کہ چلو کچھ تجربہ ہوجائے۔"

میں تو اس کے اوپر ہی لیٹا تھا اور بیچ بیچ میں اسکو کس بھی کررہا تھا۔ اس نے کہا وہ تھک چکی ہے اور پانی وغیرہ پینا چاہتی ہے۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس نے کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں نے ان کو دور پھینک کر کہا، نو نو کوئی کپڑے نہیں۔ مگر اس نے کہا اس کو شرم آتی ہے، کم از کم ڈوپٹے سے جسم تو ڈھکنے دو۔ ڈوپٹہ لپیٹ کر وہ پہلے باتھ روم پھر کچن کی طرف روانہ ہوگئی۔ لائٹ آچکی تھی۔

کچن میں اس نے گیس پر چائے بنانے کےلئے پانی رکھا۔ میرا لنڈ تو نیم استادہ تھا اور میں اس کے پیچھے کچن میں پہنچا اور ڈوپٹہ اٹھا کر اس کو اس کی گانڈ میں فٹ کرنے لگا۔ میں نے کہا کہ اب تو اصل مزا مجھے لینا ہے۔ تمہاری گانڈ تو اتنی مشہور ہے۔ اس نے کہا ، ہاں مجھے معلوم ہوا تمہارا دوست میری گانڈ پر کمنٹ کررہا تھا۔

چائے ہم نے ایک ہی کپ میں پی لی۔ کبھی وہ ایک سپ لیتی تھی، پھر میں اسی جگہ پر ہونٹ پھنسا کر سپ لیتا تھا۔ کبھی وہ منہ میں چائے کا گھونٹ ڈالتی تھی تو میں اپنے ہونٹ اس کے ہونتْوں کے ساتھ لگا کر وہ چائے اپنے منہ میں منتقل کرتا تھا۔ اسی طرح چند منٹ یہ کھیل چلتا گیا۔ اس دوران میں دوبارہ استادہ ہوگیا تھا اور وہ بھی دوبارہ موڈ میں آچکی تھی۔

اس نے مجھے پہلے باتھ روم جاکر لنڈ کو صاف کرنے کےلئے کہا۔ واپسی پر اس نے لنڈ ہاتھ میں کر زبان کی نوک سے ٹٹوں کا مزا لیا ور پھر اس کو اوپر کی طرف لیجاتے ہوئے لنڈ کے سر پر اسکو پھیر ہونٹوں کے بیچ لنڈ کو پھنسا کر منہ میں لیا۔ وہ زبان لنڈ کے نیچے اوپر پھیر رہی تھی اور ہونٹوں سے اس کو چوس رہی تھی۔ چھ انچ کے لنڈ کا بیشتر حصہ اس کے منہ میں تھا ور اس کے ہاتھ ٹٹوں کو سہلا رہے تھے۔ لنڈ اس کی تھوک سے تر ہو چکا تھا۔

اب میں نے اسکو ڈوگی پوزیشن میں گدوں کے سرے پرگھٹنوں کے بل بیٹھنے کو کہا۔ واقعی اس کی گانڈ کا کوئی جواب نہیں تھا، وسیم کی نظروں کی داد دینی پڑی۔ سفید، برف جیسی ابھری ہوئی گانڈ۔ مقعد کا سوراخ بہت ہی چھوٹا ، پن کے سر کی طرح کا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس سوراخ کو ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے چوت کے سوراخ سے پانی بہہ رہا تھا۔ اس کا کلی ٹورس نہایت واضح تھا۔ میں نے زبان کی نوک اس پر لگائی، تو وہ تڑپ اٹھی۔

میں نے زبان اوپر کرکے اس کو چوت کے اندر گھسا دیا۔ اس کی نوک سے مقعد کو کھولنا چاہا، مگر اس نے اس طرف کچھ کرنے سے منع کردیا۔ میں نے واپس زبان اس کی چوت کے اطراف میں ہی پھیرنا شروع کردی۔ بیچ بیچ میں جب میں کلی ٹورس کو منہ میں لیتا تھا تو وہ تڑپ کر ہوو ہوو کی آوازیں نکالتی تھی۔

اب میں کھڑا ہوگیا اور استادہ لنڈ کی قسمت پر رشک کرکے اسکو ہاتھ میں لیکر اس کےچوت کے سوراخ کے اوپر فٹ کردیا۔ دنوں ہاتھوں سے اس کے چوتڑ کے پاٹوں پر ہاتھ مار کر، لنڈ کو زور سے اندر گھسا دیا، وہ چوت کی گیلی دیوارں سے رگڑ کھاتا ہوا اندر چلا گیا۔ کیا نظارہ تھا۔ اوپر کو اٹھے ہوئے چوتڑ کے پاٹ۔ ان کا رنگ بلکل ایسا تھا جیسے دودھ میں شہد گلا ہوا ہو۔

دھکے مارتے ہوئے لنڈ کو اندر باہر کرتے ہوئے دیکھنا اور پھر اس کے چوتڑوں کو دیکھنا ایک بے مثال نظارہ تھا۔ میں کبھی بے قابو ہو کر لنْڈ باہر نکال کر اس کے چوتڑوں پر بوسوں کی بوچھار کرکے ان پر زبان پھیرتا تھا۔ مگر اس کو بس دھکوں میں دلچسپی تھی۔

میرے دھکوں کے جواب میں وہ گدے کا شیٹ مسلتی تھی۔ اوو اووو آ ٓٓآ آ آ ای ای ای عو عو کی آوازیں نکال رہی تھیں۔ اس دوران وہ دوبار فارغ ہوگئی۔ میں بھی اب اپنے کلامکس پر پہنچ رہا تھا۔ ایک دو زور دار دھکے مار کر میں نے لنڈ باہر نکالا اور اس کی گانڈ پر منی بکھیرنے لگا۔ وہ کہہ رہی تھی اس کے سیف دن ہیں اور اندر چوت میں ہی منی نکال دوں، مگر اس وقت کوئی بات سننے کا کس کو ہوش تھا۔ ویسے بھی میں تو اس کی گانڈ اور چوتڑوں کا دیوانہ تھا۔ میں نے پورا مال اس کی گانڈ اور چوتڑوں پر بکھیر دیا۔ کئی منٹ تک میں نکلتا رہا۔ سانسیں درست کرنے کےلئے میں پاس کے صوفہ نما کرسی پر ڈؑھیر ہوگیا۔

جب ہوش آیا، تو دیکھا کہ وہ باتھ روم میں نہا رہی تھی۔اس نے کہا تم نے میری پوری باڈی گندی کردی۔ باہر نکل کر اس نے کپڑے پہنے۔ چند منٹ بعد میں بھی باتھ روم میں گیا اور کپڑے پہن لئے۔ اس دوران اس نے دوبارہ چائے تیار کی تھی۔ چائے کا ایک اور کپ پی کر میں روانہ ہوگیا۔ وہ گدے کے اوپر شیٹ تبدیل کرنے لگی۔ گدے کی ایسی حالت تھی، جیسے اس پر ہاتھیوں کی جنگ ہوئی ہو۔ اس نے کہا کہ گھر پہنچ کر اس کی مسیج کروں ، تاکہ وہ آیا کو اطلاع دے کہ وہ گھر آچکی ہے اور بچوں کے ساتھ واپس آجائے۔

اگلے کئی اتوار کی دوپہر اسی طرح میں نے اس کی چدائی کی۔ وہ بچوں اور آیا کو ہمارے گھر بھیجتی تھی اور میں اس کے گھر پہنچ جاتا تھا۔

ایک روز میں دیر رات تک آفس میں تھا، ممبئی میں بارش کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ درہم برہم تھا، اس کا فون آگیا کہ کیا میں اس کے نرسنگ ہوم کی طرف سے آکر اس کو بھی گھر تک لفٹ دوں۔ سیکس کے اندھے کو کیا چاہئے، بس میں نے حامی بھر لی، مگر کہا کہ اس کی فیس دینی پڑے گی۔ اس نے ہنستے ہوئے فون بند کردیا۔

شاید رات دس بجے کا وقت ہوگا کہ میں نے گاڑی اس کے نرسنگ ہوم کی طرف موڑ دی، وہ میرے گھر کے راستے میں ہی آتا تھا۔ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے میں اندر گیا۔ وہاں سناٹا تھا۔ بارش کی وجہ سے چونکہ معمولات زندگی شہر میں درہم برہم تھے، وہاں کوئی مریض نہیں تھا۔ وہ اپنے کیبن میں ہی تھی۔

اس نے کہا کہ اس کا دوپہر کا شفٹ تھا۔ مگر بارش کی وجہ سے ٹیکسی و میٹرو کی عدم موجودگی کہ وجہ سے نکل ہی نہیں سکی اور پھر رات والے ڈاکٹر کا فون آگیا، کہ وہ بھی نہیں آپائے گا۔ چونکہ کوئی مریض بھی نہیں تھا، اس لئے کل صبح تک کی چھٹی کی گئی۔

جب وہ مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئی، تو میں نے اس کو گلے لگا کر اسکے کیبن میں ہی کسنگ کرنی شروع کر دی تھی۔ اس کے ساتھ باتیں بھی کر تے جار رہے تھے۔ جب میں نے اس کو بیڈ پر لٹانے کی کوشش کی۔ اس نے بتایا کہ ’’اس سے اچھی جگہ یہاں موجود ہے اور تمہارے موافق بھی ہے۔‘‘

اس نے لیبر روم کا دووازہ کھولا، جہاں حاملہ عورتوں کو معائنہ اور انکو فارغ کیا جاتا ہے۔

لیبر کا بیڈ تولگتا ہےکہ واقعی فکنگ کےلئے ہی بنایا گیا ہے۔ پتہ نہیں اس کا ڈئزاین بیڈ رومز کی زینت ابھی تک کیوں نہیں بن پایا ہے۔ ایک تو اس کا بیک لیور سے ایڈجسٹ ہوتا ہے۔ یعنی عورت لیٹ کر یا نیم لیٹ کرآرام سے بیٹھ سکتی ہے۔ پھر اس کے دو سائڈ میں پیروں کے ریسٹ کےلئے اسی طرح جگہ ہوتی ہے کہ گھٹنے اوپر کی طرف اور ٹانگیں ایک دوسرے کے ساتھ کافی دور ہو جاتی ہیں۔ چوت کا سوراخ تو بلکل واضح نظر آتا ہے۔ اس کے بلکل اوپر ایک فلیش لائٹ ہوتی ہے، جس کو آن کرنے سے چوت اور اس کے اطراف کی تمام تہیں نظر آتی ہیں۔ کیا نظارہ ہوتا ہوگا، ڈاکٹروں کےلئے۔

چونکہ ٹانگیں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں، پیروں کو بھی ریسٹ ہوتا ہے۔ بیڈ کا کنارہ چوت کے پاس ہی ختم ہو جاتا ہے تاکہ ڈاکٹر کو بچے کو باہر نکالنے کےلئے اچھی اسپیس مل سکے۔ مجھے بچہ باہر تو نکالنا نہیں تھا، بلکہ اپنے تڑپتے ہوئے لنڈ کو اندر گھسانا تھا۔

میں نے پینٹ اتار کر پھینک دیا اور فلیش لائٹ آن کرکے لنڈ کو اس کی چوت کے اوپر پھیرنے لگا۔ پھر اس کے کلی ٹورس کو منہ میں لیکر اس کو چوس کر زبان چوت کے سوراخ کے اندر داخل کردی۔

لنڈ کو دوبارہ ہاتھ میں لیکر اس کے کلائی ٹورس پر پھیرکر اس کو اوپر نیچے کرنے لگا۔ اس کی چوت سے ٹپ ٹپ پانی رسنا شروع ہو گیا تھا۔ پوری جگہ کافی گیلی ہو چکی تھی۔ میرے لنڈ سے بھی مزی کے قطرے نمودار ہوکر میرے لنڈ کو تر کر رہے تھے۔ میں اس کی ٹانگوں کے بیچ میں کھڑا تھا۔ اور میرا لنڈ اس کی چوت اور اس کے آس پاس ٹھوکے مار رہا تھا۔ میں نے اس کے مقعد کے پن ہول جیسے سوراخ کی طرف لنڈ کو لے جانے کی کوشش کی، مگر اس نے اس کو ہاتھ میں پکڑ کر دوبارہ چوت کے سوراخ کے پاس پہنچا دیا۔ اور نیچے سے ایک زور دار دھکے کے ساتھ اسکو چوت کی تہوں کے اندر گھسا دیا۔ میں نے بھی دھکا مار کر اس کو مزید اندر پہنچا دیا۔

چار یا پانچ زور دار دھکوں کے بعد ہی اس نے آاااا اووو اووو ای ای ای ای ای کی آوازیں نکالنا شروع کردیں اور ہاا ہاا ہاا ہاا کرکے اپنے آرگزم کا اعلان کردیا۔ چند سیکنڈ بعد ہوش میں آکر بولی کہ تم بھی جلدی نکلو۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔

میں نے اس کو ڈوگی پوزیشن میں بیٹھنے کےلئے کہا۔ یہ لیبر بیڈ تو ویسے فیس ٹو فیس کےلئے موزوں ہے، وہ بھی مرد کھڑا ہوکر اگر فکنگ کرے۔ مگر تجربہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔

ڈوگی پوزیشن میں اوپر سے لائٹ جب اسکے شہد اور دودھ جیسے چوتڑوں سے ریفلیکٹ ہورہی تھی، تو اس کا نظارہ ہی کچھ اورتھا۔ لائٹ اس کے مقعد کے گلابی سوراخ کو چمکا رہی تھی۔ میں نے اس کے کلائی ٹورس کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کیا۔ زبان اس کے چوت کے اندر تک لے کر گیا، جہاں تک جا سکتی تھی۔ زبان کی نوک سے اس کے مقعد کے سوراخ کے آس پاس کھوجنا شروع کیا۔ اس بار اس نے مزاحمت نہیں کی۔ تھوڑی ہمت کرکے زبان سے اس کے مقعد کے سوراخ کو کرید کر اس کو اندر لے گیا۔ اس کے مسلز نہایت ہی سخت تھے اور وہ زبان کو اندر داخل نہیں ہونے دے رہے تھے۔ خیر میں نے سوچا کہ آج اتنا کافی ہے، اس سوراخ سے لنڈ کو کسی اور وقت بہرور کروادوں گا۔
میں نے اس نےچوتڑوں پر اپنے ہونٹ گھسیٹ کر منہ اپنا صاف کرکے کھڑا ہوگیا۔

بیڈ کے اوپر کی فلیش لائٹ سے اسکا چوت بھی جگمگا رہا تھا۔ اس کے اوپر پانی کے ذرات نظر آرہے تھے، جو ڈراپ کی شکل میں نیچے گر رہے تھے۔ میں نے لنڈ سوراخ کے پاس پہنچاکر ایک زور دار دھکا دیکر اسکو اندر کر دیا۔

میرے ٹٹے اس کے کلی ٹورس سے ٹکرا رہے تھے۔ میری رانیں اس کی برف جیسی سفید رانوں سے ٹکرا کر آوازیں پیدا کر رہی تھی۔ چوت اور لنڈ کا ملن چت چت کی آوازیں پیدا کر رہی تھیں۔لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی پورن فلم چل رہی ہے اور میں خود اس کا کردار ہوں۔ چوت، مقعد، گانڈ، سب کچھ اس طرح واضح نظر آرہا ہے۔ اور پھر ان کے اند لنڈ کی حرکات، اس نظارے کا کوئی جواب نہیں تھا۔

اسی حالت میں اس نے بیڈ کی چادر کو ہاتھوں سے مسلنا شروع کر دیا، یعنی اس کا آرگزم آرہا تھا۔ میں نے بھی منی کی پچکاری اس کے چوت کے اندر ہی بہا دی۔

خاصی دیر تک ہم دونوں اسی حالت میں رہے۔ کئی ایک منٹ کے بعد میں نے نیم استادہ لنڈ کو باہر نکالا اور باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ وہ بھی اس دوران کھڑی ہوگئی اور کپڑے پہننے لگی۔ یہ ایک ایسی فکنگ تھی، جو کو میں کبھی بھول نہیں سکتا ہوں۔

ہماری ریلیشن شپ کا ڈراپ سین جلدی آگیا۔ اس یادگار فکنگ کے بعد میں نے ایک بار اس کے ساتھ دوبارہ سیکس کیا۔

پھر ایک دن میں آفس میں تھا کہ اس کا مسیج آگیا کہ وہ بات کرنا چاہتی ہے۔ میں نے فون لگایا وہ انتہائی غصے میں تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اس نے کہا کہ "عورت کا استعمال کرتے ہو، تو اس کی عزت کرنا بھی سیکھو۔"

کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ خیر بڑی مشکل سے یہ معلوم ہوا کہ میرے دوست وسیم نے اس کو مسیج کیا ہے۔

یاد آیا کہ چند روز قبل وسیم کا فون آیا تھا اورباتوں باتوں میں عمارہ اور اس کی گانڈ پر بات نکل پڑی۔ جیسا میں نے اسٹوری کے شروع میں ہی بتایا کہ اسی نے مجھے عمارہ کی گانڈ کی طرف توجہ دلائی تھی۔

شیخی میں ، میں نے اسکو بتایا کہ میں گانڈ کا مزا لے چکا ہوں۔ پہلے تو اس کو یقین نہیں آیا، جب میں تھوڑی تفصیلات بتائی، تو وہ پیچھے پڑا کہ اس کی بھی سفارش کراوں۔ مجھے معلوم تھا کہ عمارہ کو وسیم کے کمنٹس کے بارے میں معلوم ہے۔ مگر کسی گھریلو عورت کو یہ کہنا کہ اس کے دوست کے ساتھ بھی سیکس کرے، یہ تو ناممکن بات ہے۔ میں نے یونہی وسیم کو ٹالنے کےلئے ہاں تو بھر لی، مگر معلوم تھا کہ بیل منڈھے چڑھ نہیں سکتی ہے۔

وسیم کے مسیج سے اس کو شک ہوگیا تھا کہ میں نے اس کے ساتھ شیرکیا ہے ۔ بس وہ آگ بگولہ تھی۔ اس نے کہا کہ "تم نے مجھے رنڈی سمجھ رکھا ہے، کہ مجھے اپنے دوستوں کے سامنے پھینک دو۔ آئیندہ کبھی مجھے مسیج یا فون نہیں کرنا۔ ورنہ میں تمہاری بیوی کو ہی نہیں، بلکہ پورے خاندان کو تہمارے ٹھرکی پن کے بارے میں بتا کر بدنام کردوں گی۔‘‘

میں نے اس کو ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی، مگر کافی گال گلوچ اور غصہ کے بعد اس کے فون رکھ دیا۔

اگلے دن میں نے سوچا کہ اس کا غصہ تھوڑا کم ہو گیا ہوگا، فون کرنے کی کوشش کی، وہ بند آرہا تھا۔

دو دن بعد رات گئے گھر آکر دیکھا کہ گدے، جس پر میں نے اس کی چدائی کی تھی، ہمارے لیونگ روم ، کچھ دیگر سامان کے ساتھ پڑے ہوئے ہیں۔ میری بیوی نے بتایا کہ عمارہ واپس سرینگر جار رہی ہے، اس کو وہاں کے کسی اسپتال میں نوکری مل گئی ہے اور سسرال والوں نے اس کو پریکٹس کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس کا پیچ اپ ہو گیا ہے۔

اس نے اپنا فون نمبر بھی بدل دیا۔ اس کےبعد کبھی بھی ڈاکٹر عمارہ کے ساتھ رابط نہں ہوا۔ سرینگر جاکر ایک بار میں اس کے والد کے گھر گیا، جہاں وہ مقیم تھی۔ اس کے والد کو چونکہ معلوم تھا کہ ممبئی میں ہم نے اس کو خوب مدد کی تھی، اس نے میری خوب آو بھگت کی۔ عمارہ ہی چائے و دیگر لوازمات لے کر آگئی، مگر کوئی بات نہیں کی۔

یہ میری زندگی کے لیے ایک بڑا سبق تھا۔ دیگر احباب کےلئے بھی ایک سبق ہے، جب ایک عورت اپنا سب کچھ آپ کےحوالے کرتی ہے، تو آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کی پرائیوسی کا خیال کرکے شیخی میں اپنے دوستوں کے سامنے اس کو ننگا نہ کریں۔ اس کا بھی مان رکھیں۔

اس کہانی میں نام وغیرہ تبدیل کئے گئے ہیں، باقی یہ ایک سچا سبق آموز واقعہ ہے۔

یہ واقعہ اس لئے بھی یاد آگیا کہ چند ہفتے قبل جب میں گھر لوٹا تو دیکھا کہ ایک اٹھارہ انیس سال کی ایک لڑکی گھر پر ہے۔ بیوی نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عمارہ کی بیٹی ہے اور جب تین چار سال کی ہوتی تھی، تو یہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔

بارہویں کرنے کے بعد اس کا ممبئی کے کسی کالج میں ایڈمیشن ہو گیا ہے اور چند دن ہمارے ساتھ رہ کر ہوسٹل شفٹ ہو جائیگی۔ اس کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ اس کی ماں کے ساتھ میں نے چند حسین پل گذارے ہیں، شاید وہ بھی ان کو یاد کرکے زندگی گذار رہی ہوگی۔ کیونکہ معلوم ہوا کہ شوہر کے ساتھ اسکا نباہ اب بھی نہیں ہو رہا ہے اور وہ بیرون ملک ہی مقیم ہے، جہاں اس نے ایک اور شادی کی ہے۔

اگر کہانی پسند آئے تو پھر پور کمنٹس کرکے حوصلہ افزائی فرمائیں۔










You don't have permission to view attachments. Attachments are hidden.
 
Back
Top