Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #91
    Episode , 62

    " دانی واپس نہیں چلنا کیا۔۔۔صبح ہو گئ ہے۔۔۔"
    بلال نے دلاور کے کندھے کو آہستہ سے ہلا کر کہا جو ساری رات الّٰلہ سے گریہ زاری کرتے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے فرش پہ بچھی جائے نماز پہ ہی ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا۔۔۔بلال کی رات جب جب بھی آنکھ کھلی اس نے دلاور کو رب کے حضور گڑگڑاتے ہوئے پایا تھا۔۔۔
    وہ خوش تھا بہت خوش کہ دلاور کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا۔۔۔دل ہی دل میں الّٰلہ کا شکر ادا کرتے عشاء کی نماز کے بعد وہ سو گیا تھا۔۔۔صبح اسکی آنکھ کھلی تو دلاور کو پھر اسی حالت میں پایا۔۔۔فجر کی نماز دونوں نے ساتھ میں امام صاحب کی امامت میں ادا کی۔۔۔
    بلال نماز کے بعد پھر سو گیا تھا اب آنکھ کھلی تو دلاور کو سوتے پایا۔۔۔صبح کے 10 بج چکے تھے۔۔۔وہ کل رات سے گاؤں سے غائب تھے۔۔۔واپس جاکر نہ صرف انھیں پنچایت کے سامنے حاضر ہونا تھا بلکہ اپنی ہر غلطی کی معافی بھی مانگنا تھی۔۔۔
    " ہممممم ٹھیک کہ رہے ہو ہمیں واپس جانا ہوگا ایسا نہ ہو کہیں بہت دیر ہو جائے۔۔۔امام صاحب سے اجازت لے کر ابھی نکلتے ہیں۔۔۔"
    دلاور نے اٹھ کر بیٹھتے دھیمے لہجے میں کسی ٹرانس میں کہا پھر وہ امام صاحب سے اجازت لینے انکے حجرے میں گئے تو وہ وہاں موجود نہیں تھے۔۔مسجد سے باہر آئے تو دیکھا امام صاحب مسجد والی گلی کی صفائی کر رہے تھے۔۔۔انھیں بہت عجیب سا لگا اور شرم بھی آئی کہ اس عمر میں اور پھر انکی موجودگی میں وہ یہ کام کر رہے ہیں۔۔۔
    " امام صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔لائیں مجھے دیں میں کردیتا ہوں۔۔۔"
    دلاور اور بلال ایک ساتھ آگے بڑھ کر ایک ساتھ بولے۔۔۔
    " نہیں بیٹا میں ہمیشہ اپنا کام خود کرتا ہوں۔۔۔اور ویسے بھی مجھے بہت سکون ملتا ہے یہاں کی صفائی ستھرائی اپنے ہاتھ سے کرنے سے۔۔۔
    اور دوسرا اس لیے بھی کرتا ہوں کہ میرا نفس مجھ پہ حاوی نہ ہونے پائے اپنے نفس کو جوتے مارتے رہنے سے بندہ ہمیشہ اپنی اوقات میں اور الّٰلہ کا بندہ بن کر رہتا ہے۔۔۔اگر بندہ اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دے اسے اپنی من مانی کرنے دے تو انسان سے شیطان بننے میں دیر نہیں لگتی اور میں الّٰلہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہتا ہوں۔۔۔"
    امام صاحب نے انکو منع کرتے مسکرا کر اپنا کام جاری رکھتے کہا۔۔۔
    " ہم لوگ آپ سے واپسی کی اجازت لینے آئے تھے۔۔۔اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔"؟
    دلاور نے مؤدبانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
    " واپس جا پاؤ گے کیا۔۔۔"؟
    امام صاحب نے سیدھے ہوتے بغور دلاور کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
    " واپس ہی تو جانا ہے۔۔۔اگر اب نہ گیا تو مجھے ڈر ہے کہ پھر ساری عمر واپسی کے لیے بھٹکتا رہوں گا۔۔۔میں آپکا احسان ہمیشہ یاد رکھوں گا امام صاحب ، آپ کی وجہ سے مجھے خود کو پہچاننے کی توفیق ملی میں اپنے دل کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ پایا۔۔۔الّٰلہ پاک کا صد شکر جس نے آپ کو ہم سے ملایا اگر آپ ہمیں نہیں ملتے تو شائد میں ہمیشہ اندھیروں کا مسافر بن کے رہ جاتا۔۔۔
    امام صاحب کی بات میں مخفی اشارے کو سمجھتے دلاور نے سر جھکائے ندامت اور شرمندگی کے ملے جلے تاثر لیے کہا تو امام صاحب اسکی بات پہ مسکرا دئیے۔۔۔
    " لو بیٹا آج میں پہلی بار اپنا کام کسی کو دے رہا ہوں۔۔۔اس مسجد کی اور اس گلی کی صفائی کرو گے کیا۔۔۔"؟
    امام صاحب نے کہا تو دلاور نے خوشدلی سے انکے ہاتھ سے جھاڑو پکڑ لیا جبکہ ایک اور جھاڑو ڈونڈھ کر بلال بھی اسکے ساتھ صفائی کرنے لگا۔۔۔آس پاس سے گزرتے لوگ حیران ہو کر ان سوٹڈ بوٹد بندوں کو دیکھنے لگے جو بڑے مگن ہو کر دلجمعی سے گلی کی صفائی کر رہے تھے۔۔۔کچھ بچے انکو دیکھ کر ہنسنے لگے تو بلال اور دلاور بھی انکی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔۔۔انکی دیکھا دیکھی وہ بچے بھی انکے ساتھ مل کر صفائی کرنے لگے۔۔۔پھر سارا کوڑا ایک جگہ جمع کر کے اسے دلاور نے آگ لگا دی۔۔۔
    بلال اور دلاور کے نہ صرف کپڑے بلکہ بال بھی مٹی سے اٹے پڑے تھے۔۔۔
    دلاور کی بلال کے حلیے پہ نظر پڑی تو اسکی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔بلال نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا پھر فوراً اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھ کر ہنستے ہوئے اسکی طرف اشارہ کیا کہ تمہارا بھی میرے جیسا حال ہوا پڑا ہے۔۔۔دونوں نے نل سے منہ ہاتھ دھویا کپڑے جھاڑ کر امام صاحب کے پاس آ کر بیٹھ گئے جہاں دو تین محلے کے بزرگ امام صاحب کے پاس بیٹھے انکے بارے میں ہی گفتگو کر رہے تھے۔۔۔انکے دل میں سکون و اطمینان کی اک عجب سی کیفیت جاگزیں تھیں جو اس سے پہلے انھیں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔دونوں کا ہی دل چاہ رہا تھا کہ بس یہیں بیٹھے رہیں کہیں مت جائیں۔۔۔مگر جو کچھ وہ پیچھے بگاڑ آئے تھے اس کو سدھارنے کے لیے انکا واپس جانا بہت ضروری تھا۔۔
    " بیٹا تم لوگ بہت خوش قسمت ہو۔۔۔شائد تمہیں معلوم نہیں کہ سالوں سے امام صاحب نے اس گلی کی صفائی کا فریضہ ہمیشہ خود انجام دیا مگر آج پہلی بار یہ توفیق کسی اور کو ملی ہے۔۔۔مسجد کی صفائی جس کا دل چاہتا وہ کر لیتا تھا مگر اس گلی کی صفائی کا ذمہ امام صاحب نے کسی کے سپرد نہیں کیا۔۔۔"
    امام صاحب کے پاس بیٹھے ایک بزرگ نے مسکراتے ہوئے بڑی اپنائیت سے کہا
    " بیٹا کیا نام ہے تمہارا۔۔۔کہاں سے آئے ہو۔۔۔یہاں کے تو نہیں ہو تم دونوں۔۔۔"؟
    اسی بزرگ نے دوسرا سوال کیا تھا۔۔۔
    جی سچ کہا ہم اس گاؤں کے رہائشی نہیں ہیں۔۔۔اور نام عبدالّٰلہ ہے۔۔۔دلاور نے دھیمے مگر مؤدب لہجے میں جواب دیا۔۔۔بلال نے بھی اپنا نام عبدالّٰلہ بتایا تو وہ بزرگ انکی بات پہ گہری مسکراہٹ لیے ہنس دئیے۔۔۔امام صاحب کی قربت حاصل کرنے والا ہر شخص عبدالّٰلہ ہی تو بن جاتا تھا نہ جانے انکی شخصیت میں ایسا کیا تھا کہ جو ایک بار ان سے مل لیتا پھر ان کا ہی بن جاتا۔۔۔امام صاحب کی روح پرور باتوں میں کھو کر وہ بھول گئے کہ انکو واپس جانا ہے۔۔۔
    " بیٹا زندگی محلت دے نہ دے ، پھر ملاقات ہو نہ ہو مگر جانے سے پہلے میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ پیسے کی فراوانی عیش و عشرت ، جوش جوانی ، طاقت ، معاشرے میں اچھے مقام پہ ہونا بندے میں تکبر بھر دیتا ہے۔۔۔اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کس وقت وہ رحمان کے رستے کو چھوڑ کر شیطان کے رستے پہ چل پڑا ہے۔۔۔
    لوگ اس کی واہ واہ کریں ، اس کی ہر بات بلا چوں چرا مان لیا کریں ، کوئی اس سے اختلاف نہ کرے ، جو وہ کہے یا جو وہ کرے بس وہی ٹھیک۔۔۔یہ الّٰلہ کے بندے کی صفات نہیں ہوتیں۔۔۔یہ شیطان کے بندے کی صفات ہیں۔۔۔
    الّٰلہ کا بندہ تو بس الّٰلہ کے بندوں کا خادم بن کر انکی خدمت کرتا یے۔۔۔اپنی حیثیت اپنی اوقات کے مطابق الّٰلہ کے بندوں کے لیے بس آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔۔۔
    ہر وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ اسکی وجہ سے کسی کا دل نہ دکھے ، کسی کو اسکی وجہ سے کوئی پریشانی نہ ہو۔۔جانتے ہو بیٹا روز قیامت سب سے کڑا امتحان عبادات کا نہیں ہوگا بلکہ حقوق العباد کا ، یعنی الّٰلہ کے بندوں کے حقوق کا ہوگا۔۔۔لوگوں کی دل آزاری سے بچو ، انکی عزت نفس مجروح کرنے سے بچو ، کسی کی مدد کرو تو اس حال میں کہ الّٰلہ کے سوا کوئی تمہارا رازدار نہ ہو۔۔۔اپنے سے کم درجہ اپنے غریب رشتہ داروں کا خاص طور پہ خیال رکھو انکو حقیر مت سمجھو ان سے ملو تو اس طرح سے ملو کہ وہ بادشاہ ہیں اور تم فقیر۔۔۔
    لوگ تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہیں ، کیا کہتے ہیں ، اس بات کی کبھی فکر مت کرنا۔۔۔اگر فکر کرنی ہے تو ہمیشہ اس بات کی کرنا کہ الّٰلہ تم سے کیا چاہتا ہے ، جب بھی کوئی معاملہ درپیش آئے تو بس یہ دیکھنا کہ الّٰلہ کا کیا حکم ہے ، اور الّٰلہ کے حکم کے آگے اگر تمہارے سامنے تمہارے خونی رشتے ماں باپ بھی آ کھڑے ہوں تو تب بھی اپنے دل پہ قابو رکھنا ہمیشہ وہ فیصلہ کرنا جو الّٰلہ کا حکم ہے۔۔۔
    اور اس رستے پہ چلتے اگر تم سے تمہارے اپنے ناراض ہو جائیں تو پرواہ مت کرنا۔۔۔کہ انکی ناراضگی سے کہیں زیادہ الّٰلہ کی ناراضگی خوفناک ہے۔۔۔
    الّٰلہ کے آگے ہمیشہ جھکے رہنا ، نماز مت چھوڑنا۔۔۔
    اب جاؤ تم لوگ۔۔۔الّٰلہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔۔۔ہمیشہ الّٰلہ کی امان میں رہو۔۔۔"
    امام صاحب کی مدلل گفتگو اور انکے بیان کرنے کا انداز اس قدر دلنشیں تھا کہ دلاور اور بلال ساکت و صامت بیٹھے سر جھکائے سنتے رہے انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس دنیا سے کٹ کر وہ کسی اور ہی دنیا میں بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔امام صاحب نے چند مزید نصیحتوں کے بعد اپنی بات ختم کر کے انکو گلے ملنے کے بعد جانے کی اجازت دی۔۔۔امام صاحب سے گلے ملتے ان دونوں کو یوں محسوس ہوا جیسے کھلے آسمان تلے تیز دھوپ میں اور تپتے صحرا میں چلتے ہوئے کسی نے ان پہ سایہ کردیا ہو پاؤں کے نیچے ٹھنڈا فرش بچھا دیا ہو جیسے کسی نے ٹھنڈی پر کیف ہواؤں کا رخ انکی طرف موڑ دیا ہو۔۔۔
    " امام صاحب اگر آپکی اجازت ہو تو کیا کبھی کبار ہم آپ سے ملنے آ سکتے ہیں آپ سے مل کر دل کو بہت سکون ملا ہے سچ پوچھیں تو واپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا من کر رہا ہے کہ یہیں پہ ڈیرے جما لیں "؟
    دلاور نے عاجزانہ لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔اسکی بات پہ امام صاحب مسکرا دئیے۔۔۔
    " بیٹا جیسے تمہاری خوشی۔۔۔میں بھی چاہتا ہوں کہ کل جب تم واپس اپنے شہر جاؤ تو یہاں سے ایک بار ہوتے جاؤ۔۔۔"
    امام صاحب نے دھیمی مسکراہٹ لیے کہا تو دلاور اور بلال نے خوشدلی سے اور بڑی گرمجوشی سے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا۔۔۔اور خدا حافظ کہ کر وہاں سے نکل آئے۔۔۔
    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

    " آپ۔۔۔۔آپ اندر نہیں جا سکتے۔۔۔دلاور استاد نے اور رشید احمد نے سختی سے منع کیا ہے کہ جب تک پنچایت کے فیصلے پہ عمل درآمد نہیں ہو جاتا حویلی سے جو بھی آئے وہ گھر کے اندر داخل نہ ہونے پائے۔۔۔"
    احتشام شاہ جیسے ہی رشید احمد کے گھر کے باہر گاڑی روک کر نیچے اترا تو دروازے کے باہر کھڑے پہرہ دیتے دلاور کے آدمیوں نے اس کا راستہ روکا۔۔۔
    " تم۔۔۔۔تم لوگ روکو گے مجھے۔۔۔ہاں۔۔۔۔تو ٹھیک ہے دکھاؤ روک کے۔۔۔میں کسی کام سے یہاں سے غائب کیا ہوا تم لوگوں نے اس گھر کو اپنی ماں کا گھر سمجھ لیا۔۔۔یہ میرا گھر ہے اور تم لوگوں کو جرأت کیسے ہوئی میرے گھر کے اندر قدم بھی رکھنے کی۔۔۔دفعہ ہو جاؤ تم سب یہاں سے۔۔۔اگر تم میں سے کوئی ایک شخص بھی اس گھر کے دروازے کے پاس کھڑا ملا تو اپنے انجام کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔۔۔
    تم لوگوں کی قسمت اچھی ہے جو تم سب اس وقت باہر موجود ہو۔۔۔تم میں سے جو بھی اندر ہوتا خدا کی قسم وہ زندہ باہر نہیں آتا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے انکی بات پہ انتہائی سرد اور غصیلے لہجے میں ان سب کی طرف دیکھتے گرجدار لہجے میں کہا پھر وہ آگے بڑھنے لگا تو ایک آدمی نے احتشام شاہ کو نہتا اور اکیلا دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکتے گن نکال لی۔۔۔
    مگر جیسے ہی اس آدمی نے گن کا رخ احتشام شاہ کی طرف کیا احتشام شاہ کا ایک زوردار گھونسہ اسکے جبڑے پہ پڑا جس سے وہ اچھل کر دو فٹ دور جا گرا۔۔۔اس آدمی کے منہ سے تیزی سے خون بہنے لگا۔۔۔احتشام شاہ نے غصے سے ایک نظر سب کی طرف دیکھا کہ کوئی اور ہے کیا۔۔۔؟
    دوسرے آدمی نے گن لوڈ کی تو انکے لیڈر نے یہ صورت حال دیکھ کر چیختے ہوئے سبکو منع کیا کہ کوئی گولی نہیں چلائے گا۔۔۔دلاور نے منع کیا تھا کہ کچھ بھی ہو گولی کوئی نہیں چلائے گا۔۔۔
    " دلاور نے اس بات سے بھی منع کیا تھا کہ حویلی کا کوئی بندہ اندر نہیں جائے گا۔۔۔"
    احتشام شاہ سے مار کھانے والے پہلے آدمی نے کینہ توز نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
    " یہ حویلی کا بندہ ہونے کے ساتھ اس گھر کا داماد بھی ہے ہم اسے نہیں روک سکتے۔۔۔جانے دو اسے میں کر لوں گا بات دلاور سے۔۔۔ٹھیک ہے جی جاؤ آپ۔۔۔کوئی نہیں روکے گا آپکو۔۔۔"
    ان سب کو لیڈ کرنے والے آدمی نے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا اور ساتھ ہی اپنے آدمیوں کو سائیڈ پہ کھڑے ہونے کا اشارہ کیا سب لوگ منہ بسورتے احتشام شاہ کی طرف غصے سے دیکھتے مجبوراً اپنے لیڈر کے حکم پہ دروازے سے چند فٹ کے فاصلے پہ سائیڈ پہ جا کھڑے ہوئے ۔۔۔
    احتشام شاہ نے وہیں کھڑے کھڑے موبائل پہ کسی کو کال ملائی تو کچھ دیر میں 4 ،5 آدمی اسلحہ سمیت ایک گاڑی سے اتر کر احتشام شاہ کے پاس مؤدبانہ انداز میں وہاں آ کے کھڑے ہو گئے۔۔۔
    " تم لوگ اب یہیں رکو گے۔۔۔اور اگر ان میں سے کوئی بھی گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو بے شک گولی مار دینا چاہے وہ دلاور ہی کیوں نہ ہو یہ لوگ تب تک سلامت ہیں جب تک گھر سے باہر ہیں۔۔۔یہ میرا گھر ہے اور میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی بھی کتا بلا میرے گھر کے اندر داخل ہو۔۔۔اور اگر ایسا ہوا تو میں تم لوگوں کو مار ڈالوں گا۔۔۔
    احتشام شاہ نے اپنے آدمیوں کو سختی سے وارن کیا پھر دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔۔۔مگر اپنے پیچھے دروازہ بند کرنا نہیں بھولا۔۔۔
    احتشام شاہ گھر کے اندر داخل ہوا تو صحن میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔وہ سیدھا مہرالنساء کے کمرے کی طرف گیا دروازہ اندر سے بند تھا۔۔۔احتشام شاہ نے آہستہ سے دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا اس نے پریشان ہو کر اب کے ذرا زور سے دستک دینے کے ساتھ عینا کو آواز بھی دی۔۔۔
    " کون ہے۔۔۔۔۔"؟
    عینا نے احتشام شاہ کی آواز پہچاننے کے باوجود غصے سے سوال کیا۔۔۔
    " عینا۔۔۔۔میں ہوں احتشام شاہ۔۔۔۔دروازہ کھولو پلیززز۔۔۔"
    احتشام شاہ کی آواز سن کر بے اختیار عینا کا جی بھر آیا تھا دل چاہا کہ دروازہ کھول کر اس کے سینے سے جا لگے۔۔۔اپنے اندر کا سارا غبار نکال دے۔۔۔مگر دوسرے پل خود کو سنبھالتے وہ تنک کر بولی تھی۔۔۔وہ اس سے شدید خفا تھی۔۔۔جس وقت وہ تکلیف میں تھی اسے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔۔۔اس نے کتنی کالز کیں اسے۔۔۔مگر اس نے ایک بار بھی کال سننا تو دور ایک میسج تک نہ کیا۔۔۔اب وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
    " آپکو غلط فہمی ہوئی ہے احتشام شاہ۔۔۔یہاں کوئی عینا نہیں رہتی۔۔۔آپ جا سکتے ہیں۔۔۔"
    عینا نے غصے سے دروازہ کھولے بنا اندر سے ہی دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔کچھ دیر پہلے ہی اس نے مہرالنساء کو نیند کی ٹیبلٹ دی تھی۔۔۔جب سے عائلہ گئ تھی اور پنچایت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا انکی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔۔۔ساری رات بھی جاگتی رہتیں۔۔۔مجبوراً عینا کو انھیں نیند کی گولی دینی پڑی۔۔۔عینا کے لہجے سے اس کا غصہ اسکی ناراضگی جھلک رہی تھی۔۔۔
    " عین پلیززز دروازہ کھولو یار۔۔۔مجھے اپنی بات ایکسپلین کرنے کا ایک موقع تو دو۔۔۔اسکے بعد بے شک جتنا مرضی ناراض ہو لینا۔۔۔پلیزززز عین دروازہ کھولو۔۔۔"
    عینا کے شام جی کی جگہ اسے احتشام شاہ کہ کر پکارنے پہ احتشام شاہ کا دل کٹ کر رہ گیا مگر پھر یہ سوچ کر کہ اپنی جگہ وہ حق پہ ہے تو التجائیہ لہجے میں عینا سے دروازہ کھولنے کا کہنے لگا۔۔۔
    " کہا ناں کہ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔میں کسی احتشام شاہ کو نہیں جانتی۔۔۔چلے جائیں یہاں سے۔۔۔"
    عینا نے اب کے رندھی ہوئی آواز میں کہا تھا اپنے بھیگے لہجے کو وہ ہر ممکن نارمل رکھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ احتشام شاہ پہ یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ کمزور پڑ رہی ہے۔۔۔مگر اسکی آواز کی کپکپی احتشام شاہ سے چھپی نہیں رہ سکی تھی وہ جان گیا تھا کہ وہ خود پہ ضبط کر رہی ہے۔۔۔
    " عینا بلیو می اگر اب میرے تین گننے سے پہلے تم نے ڈور اوپن نہیں کیا تو میں اسے توڑ ڈالوں گا۔۔۔مگر تم سے ملے بنا تم سے بات کیے بنا ہرگز یہاں سے نہیں جاؤں گا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا تو عینا نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا احتشام شاہ کا مضبوط لہجہ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ اپنے کہے پہ عمل کر ڈالے گا۔۔۔اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ شور شرابے سے اسکی ماں ڈسٹرب ہو اس لیے جیسے ہی احتشام شاہ نے تین کہا اس نے فٹ سے دروازہ کھول دیا۔۔۔اور خود دروازے سے ذرا فاصلے پہ جا کھڑی ہوئی۔۔۔
    " کیسی ہو جان۔۔۔"
    دروازہ کھلتے ہی احتشام شاہ تیزی سے اندر داخل ہوا اور بڑی بے چینی سے آگے بڑھ کر عینا کا حال دریافت کرنے کے ساتھ اسے اپنی بانہوں میں لینا چاہا تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی تھی۔۔۔
    " میں مروں یا جیئوں آپکو اس سے مطلب۔۔۔"
    عینا نے تنک کر منہ پھلائے غصے سے کہا تھا۔۔۔
    " میرے سارے مطلب اب تم سے ہی تو ہیں کیا اس بات کا ابھی تک اندازہ نہیں ہوا تمہیں۔۔۔"
    احتشام شاہ نے اس کی بات پہ خفگی سے کہا پھر ایک نظر مہرالنساء پہ ڈالی انھیں سوتا دیکھ کر وہ مطمئین ہوا تھا پھر مہرالنساء کے ڈسٹرب ہونے کے خیال سے وہ عینا کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے گیا۔۔۔عینا نے اس کی اس حرکت پہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے دبے دبے لہجے میں بھرپور احتجاج کیا مگر وہ اسکی کسی بات کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور اس کا ہاتھ اسکے روم میں لیجا کر ہی چھوڑا۔۔۔اور ساتھ ہی دروازہ بند کردیا۔۔۔
    " یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔آپکو سمجھ نہیں آ رہی کہ مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔اس وقت کہاں تھے آپ جب مجھے اور میرے گھر والوں کو آپکی ضرورت تھی۔۔۔تب کتنا پکارا تھا میں نے آپکو۔۔۔کتنی کالز کیں۔۔۔آپ بھی جھوٹے آپکا پیار بھی جھوٹا۔۔۔آپکے سب وعدے بھی جھوٹے۔۔۔
    عینا خود پہ اختیار کھوتے کمرے میں آتے ساتھ ہی پوری قوت سے غصے سے چلائی تھی۔۔۔یہاں ان دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا نہ اسے اپنی ماں کے ڈسٹرب ہونے کا ڈر تھا اس لیے اس نے اب اپنی آواز کو دھیما رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔۔۔ اپنی آنکھوں میں امنڈنے والے آنسوؤں کو روکنے اور خود کو کمپوز کرنے کے لیے اپنے لب بھینچے وہ کچھ سیکنڈ رکی تھی خود کو کمپوز کر چکنے کے بعد احتشام شاہ کو غصے سے اپنے دائیں ہاتھ سے پش کرتے اسکا گریبان تھامے وہ تڑخ کر پھر سے گویا ہوئی تھی۔۔۔
    آپکو کیا لگتا ہے میں آپکے عشق میں مری جا رہی تھی جو اپنا وقار اپنا غرور خاک میں ملا کر آپکے سامنے جا کھڑی ہوئی کہ احتشام شاہ مجھ سے نکاح کر لو۔۔۔
    ہرگز نہیں۔۔۔آپ سے نکاح کا مقصد صرف عائلہ آپی کو سیو کرنا تھا۔۔۔آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں جب بھی پکاروں گی میری ایک آواز پہ آپ چلے آئیں گے زندگی کے ہر قدم پہ میرا ساتھ دیں گے۔۔۔۔مگر آپ تو پہلے قدم پہ ہی فیل ہو گئے احتشام شاہ۔۔۔آپ نے میری ہر سوچ کو غلط ثابت کردیا۔۔۔جب مجھے آپکی ضرورت تھی آپ تب نہیں آئے تو اب کیا لینے آئے ہیں۔۔۔چلے جائیں آپ یہاں سے۔۔۔اکیلا چھوڑ دیں ہمیں جیسے پہلے چھوڑا تھا۔۔۔"
    عینا نے بھرائی آواز میں لب بھینچے کہا خود پہ ہزار بند باندھنے کے باوجود بولتے ہوئے آنسو تواتر سے اس کے گالوں پہ بہ رہے تھے۔۔۔
    عینا کا ضبط جواب دے گیا تھا احتشام شاہ کا اس پہ یوں حق جتانا جہاں اسے سکون دے رہا تھا وہیں غصہ بھی دلا رہا تھا وہ احتشام شاہ سے کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہتی تھی کہ شکوہ ہمیشہ ان سے کیا جاتا ہے جن کی آپکی زندگی میں کوئی اہمیت ہوتی ہے اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ احتشام شاہ کو یہ احساس دلائے کہ وہ اس کے لیے کتنا اہم ہے مگر اسے سامنے پا کر چاہ کر بھی وہ اپنی سوچ پہ عمل نہیں کر پائی سارے گلے شکوے اور اسکے اندر کی ساری کثافت اس کی زبان پہ در آئی۔۔۔احتشام شاہ کچھ دیر بغور اسکی طرف یونہی اسے بولتے ہوئے دیکھتا سنتا رہا اس نے اسے نہ چپ کروانے کی کوشش کی نہ روکنے کی اور نہ ہی اپنی طرف سے کوئی صفائی دینے کی ہی کوئی کوشش کی۔۔۔وہ چپ چاپ کھڑا اسکی ہرزہ سرائی سہتا رہا صرف اس لیے کہ اس کے اندر جو بھی غبار بھرا ہے وہ نکال دے پرسکون ہو جائے تبھی وہ اسکی بات سن پاتی سمجھ پاتی۔۔۔
    چند دن میں ہی وہ کوئی مرجھایا ہوا پھول لگ رہی تھی لگتا تھا بال بھی چند دن سے نہیں بنائے تھے آنکھوں کے نیچے ہلکے واضح ہو رہے تھے۔۔۔گلابی رنگت میں زردی کا عکس نمایاں ہو رہا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔عینا کی حالت اسکے شکوؤں پہ اس کا دل بے چین ہو اٹھا تھا جن آنکھوں میں ہمیشہ اس نے خوشیوں کے رنگ بھرنے کا خود سے عہد کیا تھا جن لبوں پہ ہمیشہ ہنسی کھلانے کے پیمان باندھے تھے انجانے میں ہی سہی مگر اسکی وجہ سے ان آنکھوں میں اسکی وجہ سے سمندر اتر آئے تھے لبوں پہ ہنسی کی جگہ فریاد دکھ شکوؤں نے لے لی تھی۔۔۔
    احتشام نے ایک گہرا سانس بھرتے اچانک ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا اور زور سے اپنے بازوؤں میں بھینچا تھا اسکے جسم سے اٹھتی اسکی مخصوص خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا۔۔۔عینا اس اچانک جھٹکے پہ سنبھل نہیں پائی تھی وہ اسکے بازوؤں کی گرفت سے نکلنے کے لیے کچھ پل کسمسائی تھی مگر احتشام شاہ نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی تھی احتشام شاہ کے مضبوط بازوؤں کی پناہ میں آتے ہی وہ بکھر گئ تھی اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہ نکلا تھا احتشام شاہ کے سینے میں منہ چھپائے روتے ہوئے وہ اسکی غیر موجودگی میں جو کچھ ہوا سب بتاتی چلی گئ احتشام شاہ کا دل چاہا وہ دلاور کے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلا دے مگر وہ مجبور تھا۔۔۔اس کے خیال میں وہ سب سے بڑا مجرم مہدیہ کا تھا اور مہدیہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی یہی بات اسے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے روکے ہوئے تھی دلاور کی قسمت کا فیصلہ اب مہدیہ کے ہاتھ میں تھا اور اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر مہدیہ اسے معاف نہیں کرتی تو اس گاؤں سے وہ دلاور کو زندہ واپس کسی صورت نہیں جانے دے گا۔۔۔وہ اس سے مہدیہ کا ، عائلہ صارم اور اپنی فیملی کو پریشان کرنے کا ہر چیز ہر بات کا حساب لے گا۔۔۔
    کچھ دیر بعد اس کے اندر کا سیلاب تھما اس کے شکوؤں نے دم توڑا تو احتشام شاہ اسے یونہی اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے بیڈ پہ آ بیٹھا۔۔۔
    " کچھ اور کہنا ہے تو وہ بھی کہ لو۔۔۔،جتنا چاہے برا بھلا کہ لو مگر۔۔۔عین۔۔۔میری جان ایسا کبھی مت سوچنا کہ میرا پیار جھوٹا ہے ، میرے وعدے جھوٹے ہیں۔۔۔آپکی کسی پکار پہ میں نہ آ سکوں تو سمجھ جانا کہ میں خود کسی مصیبت کسی مشکل میں پھنسا ہوں۔۔۔یا پھر اس دنیا میں ہی نہیں ہوں۔۔۔صرف موت۔۔۔۔"
    احتشام شاہ نے عینا کو یونہی اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے اسکی پیشانی پہ محبت کی مہر ثبت کرتے کہا احتشام شاہ کا فقرہ ابھی منہ میں ہی تھا کہ اس کے آخری الفاظ پہ اس نے تڑپ کر احتشام شاہ کے ہونٹوں پہ اپنا ہاتھ رکھتے خفگی سے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے اسکی اس حرکت پہ مسکراتے ہوئے اسے خود میں زور سے بھینچا تھا اور اپنی آنکھیں بند کیے ایک پرسکون گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔
    پھر عینا کی کالز کا جواب نہ دینے کی وجہ مختصر سی کر کے مہدیہ کی ساری حقیقت اسکے سامنے آشکار کردی۔۔۔ساری بات سننے کے بعد عینا کو شدید شرمندگی نے آ گھیرا۔۔۔سچ جانے بنا اس نے کیا کچھ نہیں سنا ڈالا تھا اسے۔۔۔اسکے چہرے پہ شرمندگی جھلکنے لگی۔۔۔۔
    " امید ہے کہ اب آپ کا دل میری طرف سے صاف ہو گیا ہوگا اب آپ کے دل میں کوئی شکوہ نہیں رہا ہوگا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے عینا کو اس سے نظریں چراتے دیکھ کر اس کے بالوں کو سہلاتے اس کا چہرہ ذرا سا اوپر کرتے اسکی آنکھوں میں محبت سے دیکھتے کہا تو عینا مارے ندامت کے اپنی آنکھیں جھکا گئ۔۔۔
    " سوری۔۔۔مجھے یوں آپ سے ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔اس وقت جو حالات تھے آپکے کال پک نہ کرنے کی وجہ سے پھر میسج ریڈ کرنے کے بعد بھی اس کا کوئی ریپلائی نہ کرنے کی وجہ سے میرا دل بہت دکھی ہوا تھا اور بدگمان بھی۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔۔۔اوپر سے دلاور بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ آ دھمکا تھا۔۔۔"
    عینا نے ندامت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
    " دلاور یا اس کے کسی آدمی نے آپ سے یا خالہ سے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی۔۔۔مجھے سچ بتائیے گا عین۔۔۔"
    دلاور کے ذکر پہ احتشام شاہ نے سرد اور سخت لہجے میں عینا سے پوچھا تھا۔۔۔عینا نے نفی میں سر ہلایا تو احتشام شاہ کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے۔۔۔عینا کا دل چاہا کہ اسے سب بتا دے مگر پھر یہ سوچ کر چپ کر گئ کہ کہیں اشتعال اور غصے میں آ کر وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھے۔۔۔
    " تو آپ مانتی ہیں کہ آپ غلط تھیں۔۔۔"؟
    احتشام شاہ نے اپنا موڈ بحال کرتے سنیجیدگی سے سوال کیا تو عینا اسکی بات پہ شرمندہ ہوتے ہاں میں سر ہلا گئ۔۔۔
    " تو آپ یہ بھی مانتی ہیں کہ آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں بلکہ آپ نے مجھ سے نکاح اپنے فائدے کے لیے کیا۔۔۔"؟
    احتشام شاہ نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے اسی سنجیدگی سے سوال کیا۔۔۔عینا کے ذہن میں اپنی کہی کچھ دیر پہلے کی سب باتیں گونج رہی تھیں خود پہ افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے بنا سچائی جانے احتشام شاہ کو کوئی موقع دئیے بنا کیا کچھ سنا ڈالا۔۔۔انھی سوچوں میں گم وہ پھر سے بنا احتشام شاہ کی بات پہ غور کیے ہاں میں سر ہلا گئ۔۔۔
    " واٹ۔۔۔۔۔۔۔"؟
    اب کے احتشام شاہ چلانے کے انداز میں بولا تو عینا ہڑبڑا کر اس کی طرف دیکھنے لگی اسے اس کے اس ردعمل کی ہرگز سمجھ نہیں آئی تو حیرانی سے سوالیہ نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھا جیسے چلانے کی وجہ پوچھ رہی ہو۔۔۔
    " آپ نے ابھی کہا کہ آپ مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔۔۔تو اس بات پہ چلاؤں نہیں تو اور کیا کروں۔۔۔اففففف اب آدھی زندگی آپکو اپنے پیار کا یقین دلانے میں گزر جائے گی اور آدھی آپکا پیار پانے کے چکر میں۔۔۔یاالّٰلہ کیا بنے گا میرا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے ڈرامائی انداز میں ایکٹنگ کرتے بیڈ پہ نیم دراز ہوتے بیچارگی سے کہا تو عینا حیران و پریشان ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔وہ کہیں سے بھی اس وقت کوئی وڈ وڈیرا یا کوئی بزنس مین نہیں لگ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی لاابالی چلبلا سا ٹین ایج کا لڑکا ہو۔۔۔
    " آپ کے اور کتنے روپ ہیں شام جی۔۔۔بظاہر دکھنے میں کچھ اور عملی طور پہ کچھ۔۔۔اور وہ تو میں نے غصے میں کہ دیا تھا کہ آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔ایک آپ سے ہی تو کی ہے ساری دنیا چھوڑ کر۔۔۔کہا تو ہے غلطی ہو گئ۔۔۔سوری۔۔۔"
    عینا نے کانوں کو ہاتھ لگاتے احتشام شاہ کی ایکٹنگ پہ ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔۔
    " میرے اور کتنے روپ ہیں وہ میں آپکو آج نہیں بلکہ اپنی گولڈن نائیٹ پہ بتاؤں گا۔۔۔نہیں۔۔۔دکھاؤں گا۔۔۔فلحال تو آپ اپنی اس غلطی کی تلافی کریں اب۔۔۔"
    احتشام شاہ نے مسکراتی آنکھوں سے اسے اک جھٹکے سے کھینچتے اپنے پاس بیڈ پہ لٹاتےکہا تو اسکی آنکھوں میں چھپی شرارت کا مطلب سمجھتے عینا نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔
    " گھورنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔یا تو خود تلافی کریں یا پھر میں اپنے طریقے سے سزا دوں۔۔۔"
    احتشام شاہ نے اب کے کھل کے مسکراتے ہوئے اپنے گالوں پہ اپنی انگلی رکھ کر اسے مخصوص اشارہ کیا۔۔۔
    عینا اس کی کھلم کھلا اس فرمائش پہ کچھ پل کو مسکرا کر اسکی طرف دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ کر اس نے اپنے لبوں کا امرت احتشام شاہ کے گالوں پہ چھوڑا۔۔۔احتشام شاہ مزید پھیلا اور پھر انگلی اپنی پیشانی پہ رکھی عینا نے اپنے ہونٹوں کی شبنم وہاں بھی چھوڑی۔۔۔پھر احتشام شاہ نے اپنے یونٹوں پہ ہاتھ رکھا تو عینا آہستہ سے اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھی۔۔۔احتشام شاہ نے ایک گہرا سانس بھرتے اس لمحے کی تاثیر کو اپنی روح میں اتارنے کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔
    کچھ پل کے انتظار کے بعد بھی اسے کچھ محسوس نہ ہوا پھر عینا کے بلند و بانگ قہقہے پہ اس نے پٹ سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو عینا اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑی اپنی ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں لال سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ہنسی کی پھلجھڑی بنی ہوئی تھی۔۔۔
    " عینا کی بچی۔۔۔ابھی بتاتا ہوں تمہیں۔۔۔"
    احتشام شاہ کھلھلا کر ہنستا اپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی سے عینا کی طرف بڑھا تو اپنے پاؤں میں الجھ کر راہ میں ہی زمین بوس ہو گیا۔۔۔عینا کا چھت پھاڑ قہقہ پورے کمرے کے در و دیوار ہلا گیا تھا۔۔۔احتشام شاہ کو زمین پہ گرے دیکھ کر اس کا ہنس ہنس کر برا حال ہونے لگا۔۔۔احتشام شاہ کپڑے جھاڑتا ہنستا ہوا اٹھ کر پھر سے اسکی طرف بڑھا۔۔۔
    " وہیں رک جائیے زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔فلحال اتنی تلافی پہ ہی گزارا کریں باقی کا ادھار کر لیں۔۔۔"
    عینا نے احتشام شاہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اپنی ہنسی کو فوراً بریک لگاتے جلدی سے کہا تو احتشام شاہ کے وجود پہ اترتے خمار کو بھی بریک لگے تھے۔۔۔
    " ہینننننننن۔۔۔۔۔۔ادھار۔۔۔۔۔آج تک پیسوں کا ادھار تو سنا تھا یہ پیار میں " پیار ادھار " کہاں سے آ گیا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے مصنوعی خفگی سے اسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔عینا کے بیچ میں ہی روک دینے پہ وہ جھنجلایا تھا۔۔۔وہ کچھ پل اسکی قربت میں گزارنے کا سوچ چکا تھا مگر عینا نے اسے ہری جھنڈی دکھائی تھی۔۔۔
    " لو ادھار کا کیا ہے جس چیز میں مرضی کر لو۔۔۔"
    عینا نے شوخ لہجے میں کندھے اچکاتے کہا اسکی آنکھوں میں بھرپور شرارت ناچ رہی تھی۔۔۔کچھ پل پہلے مرجھایا ہوا چہرہ اب قوس قزح بنا ہوا تھا۔۔۔اسکے چہرے پہ کھلتے ان رنگوں کو دیکھ کر احتشام شاہ اندر تک سرشار ہوا تھا۔۔۔محبوب کی ہنسی اسکی مسکراہٹ اسکے چہرے پہ کھلتے رنگ انسان کی برسوں کی تھکاوٹ بھی ایک پل میں بھگا دیتے ہیں۔۔۔عینا کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر احتشام شاہ بھی جیسے سب بھول گیا تھا۔۔۔
    " اوکے۔۔۔۔۔فلحال تو میں اتنے سے ہی کام چلا لیتا ہوں مگر رخصتی کے بعد کوئی ادھار نہیں۔۔۔نہ آپکا نہ میرا۔۔۔سب کچھ آن دا سپاٹ نمٹے گا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے عینا کے قریب آتے اسکے سراپے پہ نظریں ٹکائے اسکے گالوں کو اپنی دو انگلیوں سے چھوتے ذو معنی لہجے میں کہا تو عینا گالوں تک سرخ پڑی تھی۔۔۔عینا کے بلش کرتے چہرے پہ احتشام شاہ کا دل ڈولا تھا وہ کوئی گستاخی کرنے کو اسکی طرف جھکا ہی تھا کہ موبائل پہ آتی کال نے اسکے قدموں کو وہیں روکا تھا۔۔۔موبائل آن کرکے سکرین پہ جگمگاتے نمبر کو دیکھ کر اس نے جلدی سے کال پک کی تھی۔۔۔دوسری طرف سے جو کچھ اس کو بتایا گیا اس کے بعد اس کے چہرے پہ گہری سنجیدگی در آئی تھی۔۔۔
    " شام۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔سب خیر ہے ناں۔۔۔"؟
    عینا اسکے چہرے کے سرد تاثرات پہ پریشان ہوئی تھی۔۔۔
    " ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔فجر کی کال تھی۔۔۔مہدیہ کی طبیعت بگڑ گئ تھی۔۔۔اس لیے مجھے فوراً جانا ہوگا اور عائلہ کی فکر مت کرنا میں اسکے اور صارم کے رشتے کو کچھ نہیں ہونے دوں گا اور نہ ہی انکو کوئی نقصان پہنچنے دوں گا۔۔۔
    اور نہ ہی اب دلاور یا اسکے کسی آدمی سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔۔۔میرے آدمی آپ کی حفاظت کے لیے باہر موجود ہیں جو اب پنچایت کے فیصلے تک یہیں پہرہ دیں گے۔۔۔پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ دروازہ اندر سے لاک رکھیں گی۔۔۔کوئی بھی پریشانی ہو مسلہ ہو تو آپ مجھے فوراً کال کریں گی۔۔۔اگر میں اٹینڈ نہ کر سکوں تو آپ فجر کے نمبر پہ کال کریں گی۔۔۔اوکے۔۔۔"؟
    اپنی جون میں واپس آتے احتشام شاہ نے واپسی کا ارادہ باندھتے عینا کو اپنے گلے لگاتے اس تسلی دیتے اور سمجھاتے کہا۔۔۔تو عینا اثبات میں سر ہلا گئ۔۔۔
    " مگر پنچایت کا فیصلہ۔۔۔۔۔"
    " پنچایت کا فیصلہ لوح محفوظ پہ لکھی کوئی تحریر نہیں ہے جو بدلی نہ جا سکے۔۔۔عائلہ اور صارم شاہ حق پہ ہیں اب یہ میں سب کو بتاؤں گا۔۔۔پنچایت میں انکی طرف سے میں کھڑا ہوں گا۔۔۔اور میں دیکھوں گا کہ میرے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے۔۔۔الّٰلہ نے چاہا تو وہ سب کے سامنے سرخرو ہوں گے۔۔۔"
    احتشام شاہ نے ٹھوس لہجے میں سنجیدگی سے کہا پھر عینا کو مزید تسلی اور حوصلہ دے کر وہاں سے عجلت میں نکل آیا۔۔۔
    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

    پورے گاؤں میں میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ صارم شاہ اور عائلہ مل گئے ہیں اور انکو لا کر کمرے میں بند کردیا گیا ہے پنچایت سے پہلے کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔
    شاہ سائیں کے پہنچنے سے پہلے ہی گاؤں کی ٹیم ان تک پہنچ چکی تھی۔۔۔اس لیے شاہ سائیں آدھے راستے سے ہی پلٹ گئے اور گھر واپس جانے کی بجائے وہ اپنے ڈیرے پہ چلے گئے ان میں گھر میں موجود فجر اور ہائمہ خاتون کی شکوہ کناں نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت تھی نہ انکے سوالوں کے جواب انکے پاس تھے۔۔۔ڈیرے پہ آتے ہی وہ کمرہ بند ہو کر بیٹھ گئے دین محمد کو سختی سے انھوں نے منع کردیا تھا کہ پنچایت کا وقت ہونے سے پہلے کوئی انکو ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔
    یہ زندگی میں دوسری بار ہوا تھا کہ جب وہ خود کو انتہائی بےبس محسوس کر رہے تھے۔۔۔انھیں خود پہ شدید غصہ آ رہا تھا برسوں پہلے نہ وہ نازنین کے لیے کچھ کر پائے تھے اور نہ ہی اب چاہ کر بھی صارم شاہ اپنے چہیتے بیٹے کے لیے کچھ کر پا رہے تھے۔۔۔انکی انصاف پسند اور اصولی طبیعت نے انکے ہاتھ باندھ دئیے تھے۔۔۔
    پنچایت کا ٹائم شام 4 بجے کا تھا مگر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو 2 گھنٹے پہلے ہی پنڈال میں جمع ہونا شروع ہو گیا تھا۔۔۔
    نواز اندر ہی اندر لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا کہ شاہ سائیں کا بیٹا ہے تو کیا ہوا۔۔۔پنچایت کا قانون سب کے لیے ایک سا ہے جو غلطی کرے گا اسے سزا ملے گی پھر چاہے وہ شاہ سائیں کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔
    بہت سے لوگ نواز کے ہم خیال ہونے لگے تھے۔۔۔اور بہت سے ایسے بھی تھے جو شاہ سائیں کے احترام اور انکی محبت کی وجہ سے صارم شاہ کو رعایت دینے کے حق میں تھے۔۔۔
    لوگوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے پنچایت کا سارا بندوبست گاؤں سے باہر کھلے میدان میں کیا گیا تھا۔۔۔
    پنچایت کا وقت ہوا تو صارم شاہ اور عائلہ کو بند کمرے سے نکال کر باہر سب کے سامنے کھڑا کردیا گیا پنچایت نے انکے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے یہ بات وہ دونوں راستے میں آتے ہوئے ہی جان چکے تھے مگر صارم شاہ کے چہرے پہ خوف کا رتی بھر شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔عائلہ سہمی ہوئی نظروں سے چاروں اور دیکھ رہی تھی اس نے ایک بڑی سی چادر میں چہرے سمیت اپنا پورا وجود چھپایا ہوا تھا۔۔۔عائلہ کو خوفزدہ اور پریشان دیکھ کر صارم شاہ نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا اور اسے ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
    شاہ سائیں اپنی مخصوص نشست پہ براجمان ہو چکے تھے۔۔۔احتشام شاہ آج شاہ سائیں کے قریب بیٹھنے کی بجائے صارم شاہ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔صارم شاہ نے ایک نظر مجمع پہ ڈالی تھی پھر رشید احمد اور دلاور کو غائب پا کر اس نے حیران نظروں سے احتشام شاہ سے سوال کیا تو احتشام شاہ کندھے اچکا گیا وہ خود حیران تھا کہ وہ لوگ آئے کیوں نہیں۔۔۔
    مہرالنساء بھی ایک طرف بیٹھی اپنی بیٹی کی طرف فکر و پرشانی سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔
    شاہ سائیں نے ایک نظر ان سب کی طرف دیکھا تھا انکے چہرے پہ کرب کے واضح اثرات موجود تھے مگر اب وہ انکے باپ نہیں تھے وہ صرف ایک سردار تھے۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ اپنے باپ کی حالت پہ رنجیدہ ہوئے تھے وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ اس وقت انکا باپ اذیت کی کس انتہا سے گزر رہا ہے۔۔۔اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آج انکا باپ عام لوگوں کی نسبت صارم شاہ کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آئے گا۔۔۔کہ کوئی یہ نہ کہے کہ انھوں نے ایک سردار بن کر نہیں بلکہ ایک باپ بن کر فیصلہ سنایا ہے۔۔۔
    " میرا خیال ہے کہ کاروائی شروع کی جائے اب۔۔۔"
    پنچوں میں سے ایک پنچ نے مجمعے پہ ایک نگاہ ڈالنے کے بعد کہا تو باقی سب نے اثبات میں سر ہلایا پھر ایک پنچ نے کھڑے ہو کر ایک ہاتھ فضا میں بلند کرتے سب کو خاموش ہونے کا کہا تو سب لوگ دم سادھ گئے۔۔۔پھر شاہ سائیں اور باقی پنچ آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے۔۔۔
    " آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے گاؤں کی کچھ روایات ہیں کچھ طور طریقے ہیں جو برسوں سے چلے آ رہے ہیں۔۔۔اور جو بھی ان روایات کے خلاف جاتا ہے انکو توڑنے کی کوشش کرتا ہے اس کو سخت سزا سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔
    صارم شاہ نے بھی وہی غلطی کی ہے۔۔۔اس نے نہ صرف اس گاؤں کی روایات کو توڑا ہے بلکہ کسی اور کی منگ کو بھگانے کا بھی مرتکب ہوا ہے۔۔۔
    عائلہ نے بھی کسی اور کی منگ ہوتے ہوئے نہ صرف ایک غیر مرد کے ساتھ مراسم رکھے بلکہ ایک غیر محرم کے ساتھ گاؤں سے بھاگنے کا جرم بھی کیا۔۔۔
    بیٹیاں تو اپنے ماں باپ کی عزت پہ مر مٹتی ہیں مگر عائلہ نے اپنی اس حرکت سے اپنے باپ کو پورے گاؤں میں رسوا کیا۔۔۔
    اب یہ پنچایت فیصلہ کرتی ہے کہ صارم شاہ ابھی اسی وقت سب کی موجودگی میں عائلہ کو طلاق دے گا۔۔۔اس کے بعد۔۔۔۔
    " رک جائیے پنچ جی۔۔۔۔"
    اس سے پہلے کہ پنچ کچھ اور کہتے کہ بھرے مجمعے میں دور تک صارم شاہ کی آواز کسی دھاڑ کی صورت میں گونجی تھی۔۔۔سب لوگوں میں کھلبلی مچی تھی۔۔۔سب لوگ صارم شاہ کی طرف اچنبھے سے دیکھنے لگے تھے۔۔۔اپنے بیٹے کے یوں گرجنے پہ شاہ سائیں کے اندر تک سکون اترا تھا بے اختیار ہلکی مسکراہٹ نے انکے لبوں کو چھوا تھا۔۔۔اگر صارم شاہ خاموش رہتا تو انھیں اپنے خون پہ افسوس ہوتا۔۔۔وہ کب سے یہی سوچ رہے تھے کہ وہ خاموش کیوں ہے۔۔۔اور اب جب بولا تھا تو اس نے ثابت کردیا تھا کہ کمی کمینوں کا نہیں بلکہ سچ میں شاہوں کا خون ہے۔۔۔
    " پہلی بات کہ میری بیوی ایک عزت دار خاتون ہیں۔۔۔اور دوسری بات کہ ہم پہ جو بھی الزامات لگے ہیں آپکو بھی پہلے انکو ثابت کرنا ہوگا۔۔۔اس کے بعد آپکو فیصلہ سنانا ہوگا۔۔۔اس پنچایت میں آج تک کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوئی سب ثبوتوں اور گواہوں کی گواہی کے بعد فیصلے سنائے گئے۔۔۔پھر یہ ناانصافی ہمارے ساتھ کیوں۔۔۔۔
    ہم پہ الزام لگانے والے نہ تو رشید احمد یہاں موجود ہیں نہ دلاور ملک۔۔۔پھر انکی غیر موجودگی میں ہم پہ کیسے کوئی الزام ثابت ہوتا ہے۔۔۔
    اور رہی بات عائلہ کو طلاق دینے کی تو اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جو بھی شخص میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کا سبب بنتا ہے ان کے بیچ جھگڑے کا سبب بنتا ہے یا ان کو الگ کرتا ہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے جس کی الّٰلہ کے ہاں کوئی معافی نہیں۔۔۔
    کیا آپ نہیں جانتے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ الّٰلہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔۔۔
    پھر آپ جانتے بوجھتے کہ عائلہ میری بیوی ہے اسے چھوڑ دینے کی اسے طلاق دینے کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔
    عائلہ نے کوئی گناہ کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی وہ اپنے ماں باپ اپنے خاندان کو رسوا کرنے والی لڑکیوں میں سے ہے۔۔۔نہ تو میں بھاگا تھا نہ عائلہ۔۔۔ مجھے اور میری بیوی عائلہ صارم شاہ کو اس کی والدہ نے دلاور کے ظلم اور اپنے شوہر کے غلط فیصلے سے بچانے کے لیے مجبور ہو کر ہمیں یہ گاؤں چھوڑنے کا کہا تھا۔۔۔اور چھوڑنے میں اور بھاگنے میں کیا فرق ہوتا ہے مجھے اسکی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے وہ آپ سب خوب جانتے ہیں۔۔۔
    یہاں سارے گاؤں کو ہمارا گاؤں سے جانا تو نظر آ رہا ہے مگر ہم یہ قدم اٹھانے پہ کیوں مجبور ہوئے یہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔
    میں پورے گاؤں سے اور اس پنچایت سے پوچھتا ہوں کہ
    جب رشید احمد جوئے میں ہاری رقم کے بدلے عائلہ کا نکاح دلاور سے کر رہا تھا تب یہ پنچایت کہاں تھی۔۔۔
    جب بنا کسی رشتے کے دلاور عائلہ کے گھر اپنے آدمیوں سمیت گھسا بیٹھا تھا تب کسی کو اس گھر کی عورتوں کی رسوائی کا خیال کیوں نہیں آیا تب یہ پنچایت کہاں تھی۔۔۔
    اور یہ کس کتاب میں کس حدیث میں لکھا ہے کہ اگر گھر کے باپ یا بھائی اپنے گھر کی عورتوں کا شادی کے نام پہ سودا کرنا چاہیں تو ہمارا دین اسکی اجازت دیتا ہے گھر کے سربراہ کو سب کچھ کرنے کی اجازت ہے۔۔۔
    عائلہ نے ایک فرمانبردار بیٹی ہونے کا ثبوت دیتے اپنےباپ کے غلط فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا۔۔۔
    بے شک باپ گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن جب یہی سربراہ جب اپنی سربراہی کو غلط استعمال کرے اور گھر کے لوگوں کی اپنی عورتوں کی زندگی ان پہ تنگ کردے تو کسی نہ کسی کو اسکے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے کبھی بیٹے کی صورت میں تو کبھی بیوی کی صورت میں اور کبھی بیٹی کی صورت میں۔۔۔یہاں پہ خالہ مہرالنساء اپنے شوہر کے خلاف کھڑی ہوئیں تو کیا غلط کیا انھوں نے۔۔۔
    بجائے اس کے کہ آپ سب رشید احمد کو غلط کہیں آپ نے ہمیں ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔۔۔رشید احمد کے ماضی سے حال سے ہر کوئی واقف ہے پھر بھی آپ سب اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔۔میری بات کی تصدیق آپ خالہ مہرالنساء سے بھی کر سکتے ہیں وہ آپ سب کو سارا سچ بتا دیں گی۔۔۔
    جہاں تک عائلہ کو طلاق دینے کی بات ہے تو میں مر کے بھی اپنی بیوی عائلہ صارم شاہ کو طلاق نہیں دوں گا۔۔۔
    میری اس بات کو چاہے آپ بغاوت کہیں یا کچھ بھی۔۔۔مگر میں نے جو کہا اسے آخری سانس تک نبھاؤں گا۔۔۔
    آپ اپنے گواہوں کو بلائیے اور اس کے بعد فیصلہ سنائیں۔۔۔عائلہ کو چھوڑنے کے سوا مجھے اس پنچایت کا ہر فیصلہ ہر سزا منظور ہے۔۔۔"
    صارم شاہ نے گرجدار آواز میں دو ٹوک لہجے میں کہا اسکی بات پہ ہر طرف سرگوشیاں ہونے لگیں جو بڑھتے بڑھتے شور شرابے میں مدغم ہونے لگیں تو پنچوں نے فوراً فیصلہ کرتے دلاور اور رشید احمد کو فوراً حاضر ہونے کا حکم دیا اور ساتھ ہی مہرالنساء کو گواہی کے لیے سامنے آنے کا کہا۔۔۔میرالنساء نے صارم شاہ کے کہے ہر لفظ پہ سچ کی مہر ثبت کی تھی۔۔۔شاہ سائیں کے حکم پہ کچھ لوگ رشید احمد کے گھر گئے کہ پتہ کریں کہ وہ لوگ ابھی تک پنچایت میں کیوں نہیں آئے۔۔۔
    صارم شاہ کے انداز پہ اسکی باتوں پہ عائلہ کے بےقرار دل کو گوناں گوں سکون ملا تھا اسے کہیں نہ کہیں یہ ڈر ضرور تھا کہ ایسا نہ ہو کہ پنچایت کے حکم پہ اور اپنے باپ کے سامنے وہ مجبور ہو جائے۔۔۔اور اسے چھوڑ دے۔۔۔مگر اس نے ثابت کردیا تھا کہ وہ اپنی زبان اپنی محبت میں کتنا سچا تھا۔۔۔
    احتشام شاہ نے بھی بھرپور مسکراہٹ لیے صارم شاہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔اس نے آج سے پہلے کبھی صارم شاہ کو یوں بولتے گرجتے نہیں دیکھا تھا ہمیشہ سر جھکا کر بابا کے ہر حکم پہ چلنے والا آج ساری دنیا کے سامنے پنچایت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر گیا تھا اور بے شک اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کسی بھی غیرت مند مرد کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔۔۔
    اس مرد سے تو ہیجڑے بہتر ہیں جسکی موجودگی میں اسکی بیوی پہ زمانہ انگلی اٹھائے اس کا تماشہ بنائے اور وہ اس کا دفاع کرنا تو دور اس کے حق میں ایک لفظ تک نہ بول سکے۔۔۔
    " یہ تو کوئی بات نہ ہوئی جی۔۔۔آج یہ دونوں گاؤں سے بھاگے ہیں۔۔۔تو انکی دیکھا دیکھی گاؤں کے باقی لونڈوں اور لونڈیوں کو بھی شہ ملے گی وہ بھی کل کو کوئی داستان سنا کر اپنے بھاگنے کو صحیح ثابت کردیں گے۔۔۔وجہ چاہے کچھ بھی ہو مگر اس طرح سے گاؤں سے بھاگنا کسی صورت ٹھیک نہیں۔۔۔اور دوسری بات گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے اور اسی کی بات مانی جاتی ہے شوہر کے ہر حکم پہ سر جھکانا عورت کا فرض ہے اگر مہرالنساء کی طرح ہر عورت اپنے شوہر کے فیصلے کے خلاف کھڑی ہونے لگی تو کوئی گھر سلامت نہیں رہے گا ہر گھر ٹوٹ جائے گا۔۔۔
    اگر آج اس بات کو یہیں نہیں روکا گیا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارے گاؤں میں روایات کو توڑنے کا زہر ہماری نسلوں کے اندر سرایت نہ کر جائے۔۔۔آگے پنچوں کی مرضی۔۔۔"
    گاؤں کے تقریباً سب لوگوں کی ہمدردیاں صارم شاہ کی طرف ہوتے دیکھ کر نوازے کا دماغ کھولا تھا۔۔۔وہ ہر صورت صارم شاہ کو غلط ثابت کر کے اسے سزا دلوانا چاہتا تھا اس لیے اپنی جگہ سے تلملا کر اٹھتے اس نے اپنے اندر کا زہر سب کے کانوں میں انڈیلا تھا اسکی بات پہ
    گاؤں کے سیدھے سادھے لوگ سوچ و بچار میں پڑ گئے تھے ۔۔۔رشید احمد کے بھی اس نے خوب کان بھرے تھے کہ عائلہ کو کسی صورت صارم شاہ کے ساتھ مت جانے دے پنچایت کا فیصلہ بلکل ٹھیک ہے۔۔۔ مگر آج وہ نہ جانے کہاں غائب تھا۔۔۔جبکہ اسے تو سب سے پہلے یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔۔۔
    احتشام شاہ نے نوازے کی طرف شعلہ بار نظروں سے دیکھا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نوازا یہ جرأت کیوں کر کر رہا ہے اس کے ہر انداز سے شاہ فیملی کے لیے نفرت جھلک رہی تھی۔۔۔
    " میں چاچا نواز کی ہر بات سے اختلاف کرتا ہوں۔۔۔قانون ، روایات یہ سب لوگوں کی معاشرے کی بھلائی کے لیے بنائے جاتے ہیں ناں کہ لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے یا کسی کو فائدہ پہنچانے اور اسکی راہیں ہموار کرنے کے لیے۔۔۔
    جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ جرم کن حالات میں ہوا۔۔۔
    بے شک مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن سربراہ کے لیے بھی الّٰلہ نے کچھ دائرے کچھ حدود رکھی ہیں۔۔۔اگر گھر کے سربراہ کی بات ہی حرف آخر ہوتی اور عورت کی کسی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی تو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم یہ کبھی ارشاد نہ فرماتے کہ لڑکی کی مرضی کے بنا اس کا نکاح نہیں ہو سکتا جب تک لڑکی اپنے منہ سے اقرار نہیں کرتی اس کا نکاح ہی نہیں ہوتا۔۔۔
    اگر باپ کے یا گھر کے سربراہ کا فیصلہ ہی حرف آخر ہوتا تو نکاح شادی کا فیصلہ لڑکی کی رضامندی پہ چھوڑنے کی بجائے یہ کہا جاتا کہ بس باپ نے یا گھر کے سربراہ نے جو فیصلہ کیا وہی ہوگا چاہے عورت کی مرضی ہو چاہے نہ ہو۔۔۔
    چاچا رشید عائلہ کا نکاح جس شخص سے کر رہے تھے اس میں نہ تو عائلہ کی رضامندی تھی نہ عائلہ کی والدہ کی نہ عائلہ کی بہن کی۔۔۔
    اور جہاں تک گھر ٹوٹنے کی بات ہے ایسے گھر کا ٹوٹ جانا ہی اچھا ہے جہاں پہ عورت کی دن رات تذلیل کی جائے اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جائے جہاں عورت کی وقعت گھر کے نوکروں کے برابر سمجھی جائے۔۔۔جہاں پہ عورت کو اپنی رائے دینے کی اپنے دل کی بات کرنے کی آزادی نہ ہو۔۔۔جہاں شوہر ایک مہربان ہمدرد اور محبت کرنے والے شخص کی بجائے ایک جانور کی شکل میں ہو۔۔۔
    اور ہماری مقدس کتاب میں ، حدیث میں ، سنت میں کہیں بھی ایسے گھر کا کوئی تصور نہیں ہے۔۔۔
    احادیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک ص اکثر معاملات میں حضرت عائشہ رضہ عنہ سے اور اپنی باقی ازواج مطہرات سے صلاح مشورہ کیا کرتے تھے۔۔۔"
    احتشام شاہ نپے تلے ٹھوس لہجے میں بولتا کچھ پل سانس لینے کو رکا تھا۔۔۔​

    Comment


    • #92
      Episode , 63
      لاسٹ ایپیسوڈ ، پارٹ 1
      Prt:1, last Episode

      بے شک مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے لیکن سربراہ کے لیے بھی الّٰلہ نے کچھ دائرے کچھ حدود رکھی ہیں۔۔۔اگر گھر کے سربراہ کی بات ہی حرف آخر ہوتی اور عورت کی یا اس کی کہی کسی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی تو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم یہ کبھی ارشاد نہ فرماتے کہ لڑکی کی مرضی کے بنا اس کا نکاح نہیں ہو سکتا جب تک لڑکی اپنے منہ سے اقرار نہیں کرتی اس کا نکاح ہی نہیں ہوتا۔۔۔اور اگر لڑکی انکار کردے تو کسی کو بھی اسے نکاح کے لیے مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں ہے چاہے وہ ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔
      اگر باپ کے یا گھر کے سربراہ کا فیصلہ ہی حرف آخر ہوتا تو نکاح شادی کا فیصلہ لڑکی کی رضامندی پہ چھوڑنے کی بجائے یہ کہا جاتا کہ بس باپ نے یا گھر کے سربراہ نے جو فیصلہ کیا وہی ہوگا چاہے عورت کی مرضی ہو چاہے نہ ہو۔۔۔
      چاچا رشید عائلہ کا نکاح جس شخص سے کر رہے تھے اس میں نہ تو عائلہ کی رضامندی تھی نہ عائلہ کی والدہ کی نہ عائلہ کی بہن کی۔۔۔
      اور جہاں تک گھر ٹوٹنے کی بات ہے ایسے گھر کا ٹوٹ جانا ہی اچھا ہے جہاں پہ عورت کی دن رات تذلیل کی جائے اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جائے جہاں عورت کی وقعت گھر کے نوکروں کے برابر بھی نہ سمجھی جائے۔۔۔جہاں پہ عورت کو اپنی رائے دینے کی اپنے دل کی بات کرنے کی آزادی نہ ہو۔۔۔جہاں شوہر ایک مہربان ہمدرد اور محبت کرنے والے شخص کی بجائے ایک جانور کے روپ میں ہو۔۔۔
      ہماری مقدس کتاب میں ، حدیث میں ، سنت میں۔۔۔ کہیں بھی ایسے گھر کا اور ایسے شوہر کا کوئی تصور نہیں ہے۔۔۔
      نبی پاک ص نے تو ایسے شوہر کے لیے " کمینہ شوہر" کا لفظ استعمال کیا ہے جو اپنی بیوی کو مارے پیٹے اسے گالی گلوچ کرے۔۔۔
      اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ جسکو نبی پاک ص کمینہ لفظ بول دیں وہ جہنم کے کس درجے پہ ہوگا۔۔۔
      احادیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک ص اکثر معاملات میں حضرت عائشہ رضہ عنہ سے اور اپنی باقی ازواج مطہرات سے صلاح مشورہ کیا کرتے تھے۔۔۔اور آپ ص نہ صرف انکے فیصلے انکی رائے کو اہمیت دیتے بلکہ اس پہ عمل پیرا بھی ہوتے تھے۔۔۔
      احتشام شاہ نپے تلے ٹھوس لہجے میں بولتا کچھ پل سانس لینے کو رکا تھا۔۔۔
      اس لیے عائلہ کی والدہ نے اپنے شوہر کے خلاف جا کر کوئی گناہ نہیں کیا۔۔۔جس طرح سے باپ کو اپنی اولاد کے بارے میں فیصلے لینے کا اختیار ہے اسی طرح سے الّٰلہ نے یہ حق ماں کو بھی دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں اچھا برا سوچ سکے ان کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔۔۔
      نہ تو گھر اکیلے مرد سے چلتا ہے نہ اکیلی عورت کے ہونے سے۔۔۔جب دونوں کا ہونا ہی لازم و ملزوم ہے تو پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ عورت کے کسی فیصلے کو اس کی کسی رائے کو اہمیت نہ دی جائے۔۔۔
      میرا ماننا ہے کہ ہر عورت کو خالہ مہرالنساء کی طرح ہی مضبوط ہونا چاہیے جو اپنی اولاد کی خاطر نہ صرف زمانے سے ٹکرا جائے بلکہ وقت آنے پہ اگر باپ اپنی اولاد کے لیے غلط فیصلے کر رہا ہو تو اس کے سامنے بھی کھڑی ہو جائے۔۔۔
      مہرالنساء خالہ نے اپنی مرضی سے اپنی رضامندی سے عائلہ کو صارم شاہ کے ساتھ رخصت کیا تھا اس لیے یہ کہنا کہ عائلہ نے اپنے باپ کو رسوا کیا وہ گھر سے بھاگی سراسر غلط اور بہتان ہے۔۔۔
      گھر سے بھاگنے والی لڑکیاں گھر سے چوری چھپے رات کے اندھیروں میں اپنے ماں باپ کو ہر بات سے لا علم رکھ کر غائب ہو جاتی ہیں۔۔۔عائلہ کی طرح اپنی ماں کی دعائیں لے کر رخصت نہیں ہوتیں۔۔۔
      احتشام شاہ نے اپنی بات جاری رکھتے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا اور ایک نظر سارے مجمعے پہ ڈالی پھر سب پنچوں سے ہوتی ہوئی اسکی نظریں اپنے باپ کی نظروں سے ٹکرائیِں۔۔۔
      میں اس معزز پنچایت کے ہر شخص سے خاص کر اس پنچایت کے سر پنچ سے پوچھتا ہوں کہ قرآن پاک کی کس آیت میں لکھا ہے کہ شادی کے بعد شوہر کی اطاعت میں اسکی مار پیٹ گالی گلوچ اور دن رات مینٹلی ٹارچر سہنا بھی آتا ہے۔۔۔
      چاچا رشید احمد ایک ایسے ہی انسان تھے وہ نہ ایک اچھے بیٹے ثابت ہو سکے نہ ایک اچھے شوہر اور نہ ہی ایک اچھے باپ۔۔۔
      اسکا سب سے بڑا ثبوت اجالا کی موت ہے۔۔۔اجالا جیسی معصوم سی بچی اپنے ہی باپ کی فرعونیت کا شکار ہو کر اس دنیا سے چل بسی۔۔۔
      چاچا رشید احمد ان لوگوں میں سے ہیں جو پیسے کے لالچ میں اپنی ماں کا سودا تک کر ڈالیں۔۔۔بیٹی تو بہت بعد کی بات ہے۔۔۔
      انسان کے روپ میں وہ ایک جانور ہی تھے جنہوں نے قدم قدم پہ رشتوں کی تڈلیل کی۔۔۔
      ایسے انسان کے ساتھ ساری عمر خالہ مہرالنساء نے بتا دی۔۔۔مگر جب بات انکی بیٹیوں پہ آئی تو وہ اپنے شوہر کے خلاف چلی گئیں۔۔۔
      تو مجھے بتائیں آپ سب کیا غلط کیا انھوں نے۔۔۔بولیں۔۔۔جواب دیں میری بات کا۔۔۔۔"
      احتشام شاہ نے تلخ اور کڑک لہجے میں پورے مجمعے پہ ایک نظر ڈالتے پھر اپنا رخ پنچوں کی طرف موڑتے باآواز بلند پوچھا۔۔۔پورا مجمع احتشام شاہ کی بات پہ سر جھکا گیا یہی صورت حال سب پنچوں کی تھی۔۔۔
      " احتشام شاہ ٹھیک کہ رہا ہے۔۔۔عائلہ اور صارم شاہ نے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی خالہ مہرالنساء نے ان دونوں کا ساتھ دے کر کچھ غلط کیا۔۔۔"
      اچانک سے دلاور جانے کہاں سے نمودار ہوا تھا احتشام شاہ کی بات پہ اس نے بلند آواز میں اس کی حمایت کی تھی۔۔۔وہ آہستہ سے چلتا مجمعے کے بیچوں بیچ میں سے راستہ بناتا بلکل پنچوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔سب لوگ حیرانگی سے اسکی طرف دیکھنے لگے کہ اسی نے شکایت کی تھی اور اب وہی یہ کس قسم کی بات کر رہا ہے۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ کی نظروں میں بھی حیرانگی امڈ آئی تھی۔۔۔لوگوں کی سرگوشیوں کی عجیب سی کھلبلی مچی ہوئی تھی۔۔۔
      " میں دیر سے آنے کی آپ سب سے معافی چاہتا ہوں۔۔۔اگر آپ کی اجازت ہو تو مجھے کچھ کہنا ہے۔۔۔"
      دلاور نے رسانیت سے پنچوں سے کہا تو شاہ سائیں نے اسے اپنی بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
      " میں سب پنچوں کی موجودگی میں خالہ مہرالنساء ، صارم شاہ سے اسکی بیوی سے۔۔۔اور۔۔۔۔شاہ سائیں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں کہ میری وجہ سے آپ سب شدید ذہنی کرب کا شکار ہوئے۔۔۔پلیززز مجھے معاف کردیں۔۔۔
      دلاور نے سر جھکائے ہاتھ جوڑ کر سب سے معافی مانگی پھر نظریں نیچی کیے یونہی ہاتھ جوڑے صارم شاہ اور عائلہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔
      میں اپنے ہر عمل کے لیے پورے گاؤں کے سامنے تم دونوں سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔میں بھٹک گیا تھا اپنے نفس کا پجاری بن کر رہ گیا تھا اس لیے یہ بھول کر کہ کیا صحیح ہے کیا غلط ، عائلہ کو پانے کے لیے ہر حد پار کرتا گیا۔۔۔میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے نہ صرف عائلہ جیسی نیک پارسا لڑکی کو اس کے گھر والوں کو پریشان کیا بلکہ شاہ سائیں کی فیملی کے لیے بھی پریشانی کی وجہ بنا۔۔۔
      میں اعتراف کرتا ہوں کہ صارم شاہ اور عائلہ کے نکاح کے بعد بھی میں نے عائلہ کو پانے کی کوشش نہیں چھوڑی جو کہ سرا سر غلط تھی گناہ تھا۔۔۔میں بھول گیا تھا کہ وہ اب کسی کی عزت ہے کسی کی بیوی ہے اور اب اسکی طرف اٹھنے والی میری ہر نظر مجھے الّٰلہ کے قہر کے قریب تر کر رہی ہے۔۔۔
      میں بھول گیا تھا کہ ہر انسان کی تقدیر کا فیصلہ اسکے پیدا ہونے سے پہلے ہی کردیا جاتا ہے۔۔۔صرف دعا وہ واحد راستہ ہے جو تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے آئی ہوئی موت کو ٹال دیتی ہے۔۔۔اور میں پاگل بیوقوف جسے اپنی محبت کہتا تھا اس کو دعاؤں کے ذریعے پانے کی بجائے گولی کی نوک پہ زور زبردستی حاصل کرنے چل نکلا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ مجھے ناپسند کرتی ہے اس کی ماں مجھے ناپسند کرتی ہے۔۔۔میری ہر کوشش بار بار ناکام ہوتی گئ مجھے یہ بتانے کے لیے کہ عائلہ میری قسمت میں نہیں ہے۔۔۔مگر میں پھر بھی اپنی تقدیر سے ٹکراتا رہا اپنی قسمت سے لڑتا رہا۔۔۔
      اور وہ کہتے ہیں ناں کہ بندہ چاہے کتنی کوشش کر لے چاہے کتنی بھاگ دوڑ کر لے ہوتا وہی ہے۔۔۔ ملتا وہی ہے جو اسکی قسمت میں لکھا ہو۔۔۔
      دلاور نے باآواز بلند پورے مجمع کے سامنے ہاتھ جوڑتے معافی مانگتے کہا پھر صارم شاہ اور احتشام شاہ کے سامنے کھڑے ہوتے دھیمی آواز میں ان سے مخاطب ہوا۔۔۔
      صارم شاہ تم جیت گئے۔۔۔تمہاری محبت میری محبت سے بہت اونچے درجے پہ تھی اسی لیے الّٰلہ نے تمہاری محبت تمہارے عشق کو قبولیت بخشی۔۔۔میری ہر کوشش عائلہ سے اسکی معاشرے میں عزت اس کا مان سمان سب چھیننے کی وجہ بنی میں نے عائلہ کو صرف رسوا کیا جبکہ تم نے تمہاری محبت نے عائلہ کو صرف عزت دی مجھے معاف کردو۔۔۔خدارا میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں اپنے کیے ہر عمل کے لیے۔۔۔مجھے معاف کردو۔۔۔
      دلاور نے نگاہیں نیچی کیے بہت دھیمے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر کہا۔۔۔بلیک پینٹ کے ساتھ فیروزی کلر کی شرٹ پہنے نظریں نیچی کیے وہ تو کوئی اور ہی دلاور تھا نہ گردن اکڑی ہوئی نہ چہرے پہ کرختگی۔۔۔کچھ بھی تو پہلے جیسا نہیں تھا۔۔۔ہر شخص تعجب خیز نظروں سے دلاور کی طرف دیکھ رہا تھا وہ کیا کہ رہا ہے اب کسی کو سنائی نہیں دے رہا تھا سب لوگ بس اسے صارم شاہ سے معافی مانگتا دیکھ رہے تھے۔۔۔اس کایہ پلٹ پہ احتشام شاہ اور صارم شاہ کے ساتھ عائلہ بھی ہکا بکا تھی۔۔۔احتشام شاہ نے بغور اس کا جائزہ لیا اس کے کپڑوں پہ جگہ جگہ مٹی کے نشان تھے بال بھی ایسے لگ رہے تھے جیسے مٹی سے اٹے ہوں۔۔۔پتہ نہیں یہ کہاں سے ہو کر آیا ہے لیکن جہاں بھی گیا تھا یہ وہ دلاور نہیں ہے۔۔۔احتشام شاہ دل ہی دل میں سوچنے لگا۔۔۔
      شاہ سائیں کے جو آدمی رشید احمد کو بلانے گئے تھے انھوں نے آکر بتایا کہ رشید احمد گاؤں کے کنوئیں کے پاس بے ہوش پڑا ہوا تھا جسے اٹھا کر کچھ لوگ شہر کے ہسپتال لے گئے ہیں۔۔۔
      " تو بھائیوں ساری صورت حال آپ سب کے سامنے ہے۔۔۔میں آج صارم شاہ کا فیصلہ آپ سب کے سپرد کرتا ہوں۔۔۔آپ لوگوں کا فیصلہ ہی پنچایت کا فیصلہ ہوگا۔۔۔"
      مہرالنساء کی گواہی اور دلاور ملک کے سامنے آنے کے بعد شاہ سائیں خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے وہ چاہتے تو اب صارم شاہ کے حق میں فیصلہ سنا سکتے تھے مگر انھوں نے شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے فیصلے کا اختیار گاؤں کے لوگوں کے سپرد کردیا۔۔۔
      سارا گاؤں صارم شاہ کے حق میں کھڑا ہوگیا سب لوگ پرجوش آواز میں صارم شاہ بے گناہ ہے۔۔۔صارم شاہ بے گناہ ہے پکارنے لگے۔۔۔شاہ سائیں نے پرمسرت لہجے میں صارم شاہ اور عائلہ کو ہر بات سے بری الذمہ کردیا۔۔۔شاہ سائیں اٹھ کر احتشام شاہ اور صارم شاہ سے بغلگیر ہوئے اور بہت شفقت سے عائلہ کے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔مہرالنساء نے آگے بڑھ کر باری باری صارم شاہ اور عائلہ کا ماتھا چوما۔۔۔انھوں نے شاہ سائیں سے التجا کی کہ عائلہ کو انکے ساتھ بھیج دیا جائے۔۔۔وہ اپنی بیٹیوں کو پورے رسم و رواج کے ساتھ رخصت کرنا چاہتی تھیں۔۔۔شاہ سائیں نے انکی بات مانتے عائلہ کو انکے ساتھ جانے کو کہا تو صارم شاہ کا منہ بنا تھا مگر ایک طرح سے یہی بہتر تھا یہ سوچ کر چپ کر گیا۔۔۔شاہ سائیں نے دین محمد سے کہا کہ انکو گھر چھوڑ کر آئے۔۔۔

      " دلاور ملک رکو ذرا۔۔۔"
      پنچایت کے ختم ہونے کے بعد سب لوگوں کے ساتھ ساتھ دلاور ملک بھی بلال کے ساتھ پنڈال سے نکلنے لگا تو احتشام شاہ نے اسے آواز دے کر روکا۔۔۔دلاور نے رک کر پیچھے مڑ کر سوالیہ نظروں سے ان سب کی طرف دیکھا۔۔۔
      " تم جس دن سے یہاں آئے ہو ہمیں سرپرائز پہ سرپرائز دے رہے ہو مگر آج ایک سرپرائز میرے پاس تمہارے لیے بھی ہے جسے تم ساری عمر بھول نہیں پاؤ گے۔۔۔اور بابا جان آپکے لیے بھی کچھ ہے۔۔۔"
      احتشام شاہ نے معنی خیز مسکراہٹ لیے کہا تو سب اس سے آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کرنے لگے۔۔۔
      " بھئ مجھ سے کوئی سوال نہیں کرے گا۔۔۔سب حویلی چلتے ہیں آپ کا سرپرائز بھی وہیں ہے چل کے خود دیکھ لیں۔۔۔"
      احتشام شاہ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں سے ذرا سا اوپر کرتے کندھے اچکاتے مسکرا کر کہا۔۔۔احتشام شاہ کی بات پہ سب میں تجسس بڑھا تھا۔۔۔
      " بیٹا گھر فون کردینا تھا تمہاری بہن اور ہائم پریشان ہو رہی ہوں گی۔۔۔"
      شاہ سائیں نے کہا تو احتشام شاہ نے جواب دیا کہ وہ آلریڈی شرجیل کو حویلی بھیج چکا ہے اور سب بے چینی سے ہمارا وہاں ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔

      ہائمہ خاتون رشیداں بوا کے ساتھ اس وقت کچن میں گھسی ہوئی تھیں فجر اور فاطمہ بھی انکا ہاتھ بٹا رہی تھیں جب سے شرجیل نے آکر پنچایت میں ہونے والے فیصلے کی ساری روداد سنائی تھی انکے پاؤں زمین پہ نہیں ٹک رہے تھے صارم شاہ کی پسند کے انواع و اقسام کے کھانے وہ اپنی نگرانی میں بنوا رہی تھیں کہ اچانک فاطمہ کے منہ سے سسکاری خارج ہوئی تھی۔۔۔
      " فاطمہ آپی ی ی ی ی۔۔۔۔۔اففففف یہ کیا کیا آپ نے۔۔۔آپ کا دھیان کدھر تھا۔۔۔"
      سیلڈ بناتے چھری سے کافی گہرا کٹ فاطمہ کے ہاتھ لگ گیا تھا جس میں سے خون بہت تیزی سے بہ رہا تھا۔۔۔فجر نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں دبایا تھا۔۔۔
      " افففففف۔۔۔۔بیٹا میں نے منع بھی کیا تھا آپکو کہ آپ رہنے دو۔۔۔فجر جلدی سے اس پہ آئنٹمنٹ لگاؤ اور پٹی کردو۔۔۔رشیداں بوا آپ پلیززز باقی کا دیکھ لیں وہ لوگ بس آنے ہی والے ہیں۔۔۔میں ذرا باقی انتظامات دیکھ لوں۔۔۔"
      کٹ کافی گہرا لگا تھا کہ دبانے کے باوجود بلڈ رکتا نہ دیکھ کر ہائمہ خاتون پریشان ہوتیں بولیں پھر رشیداں بوا کو کچھ مزید ہدایات دے کر کچن سے فجر فاطمہ کے ساتھ باہر نکل گئیں۔۔۔
      " آپی کیا بات ہے۔۔۔اب تو سب ٹھیک ہے۔۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ کچھ پریشان کچھ الجھی سی ہیں۔۔۔آپ مجھ سے شئیر کر سکتی ہیں۔۔۔یقین مانیں میں بہت اچھی رازدار بھی ہوں۔۔۔"
      فجر نے فاطمہ کے ہاتھ پہ پٹی کرتے مسکراتے ہوئے فاطمہ سے کہا تو وہ بس مسکرا کر رہ گئ۔۔۔دانی سے ملنے کی خوشی اسکے راہ راست پہ آ جانے کی خوشی کے ساتھ اس دشمن جاں کی طرف اس کا دھیان بار بار بھٹک رہا تھا۔۔۔اور اسی بے دھیانی میں اپنا ہاتھ زخمی کر بیٹھی تھی۔۔۔اس نے ایک نظر پاس بے سدھ سوئی مہدیہ پہ ڈالی۔۔۔اس کا دل چاہا کہ وہ بھی کوئی ٹیبلٹ کھا کر سو جائے۔۔۔آج سے پہلے یہ وقت کاٹنا کبھی اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا کہ اسے آج محسوس ہو رہا تھا۔۔۔اس نے اپنی ماں سے مہرالنساء کی طرف جانے کی بات کی تھی کہ دلاور اور بلال ادھر ہی ہوں گے مگر رضوانہ خاتون نے منع کردیا تھا کہ پنچایت کا فیصلہ آنے تک یہاں سے جانا مناسب نہیں۔۔۔ویسے بھی پل پل کی خبر انکو مل تو رہی تھی۔۔۔احتشام شاہ نے دلاور کے موضوع پہ منہ پہ تالا لگایا ہوا تھا اس سے بھی کچھ پوچھ نہیں سکتی تھی۔۔۔اتنا تو اسے یقین تھا کہ احتشام شاہ دلاور کو اتنی آسانی سے گاؤں سے جانے نہیں دے گا۔۔۔جب تک مہدیہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں سنا دیتی۔۔۔فجر اسکے ہاتھ پہ پٹی کر کے فارغ ہی ہوئی تھی کہ مہدیہ نیند میں کسمساتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔۔۔
      " دلاور۔۔۔چھ چھوڑو مجھے۔۔۔۔مت کرو۔۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔تمم۔۔۔تمہیں الّٰلہ کا واسطہ۔۔۔۔چھوڑ دو مجھے۔۔۔"
      مہدیہ گہری نیند میں شائد پھر اسی اذیت ناک لمحے سے گزر رہی تھی۔۔۔فاطمہ کو بری طرح شرمندگی نے آ گھیر کچھ باتیں کچھ حادثے اور کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کا مرنے کے بعد ہی پیچھا چھوڑتی ہیں جیتے جی بے ہوشی کی حالت میں بھی وہ انسان کے لاشعور میں ڈیرے جما کر اسے بے چین رکھتی ہیں اور یہی حال مہدیہ کا تھا۔۔۔
      فجر اور فاطمہ جلدی سے مہدیہ کی طرف بڑھیں اور سے پکڑ کر ہلکا سا ہلاتے آواز دی۔۔۔مہدیہ نے اپنی بوجھل نیند سے بھری آنکھیں کھول کر بامشکل دونوں کی طرف دیکھا تھا وہ کچھ پل یونہی انکی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہی پھر ہوش کی دنیا میں آتے ہی اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو دونوں نے اسے آرام سے لیٹے رہنے کو کہا۔۔۔
      " آپی آپ ٹھیک ہیں۔۔۔اب کیسا فیل کر رہی ہیں۔۔۔"
      فجر نے فکرمندی سے مہدیہ کی طرف دیکھتے کہا تو وہ سر کو ذرا سا ہلا کر کہ ٹھیک ہے پھر سے آنکھیں موند گئ۔۔۔
      "چھوٹی بیبی شاہ سائیں حویلی کے گیٹ پہ آ گئے ہیں بڑی بیبی جی اور رضوانہ بی کہ رہی ہیں کہ آپ لوگ بھی باہر دالان میں آ جائیں ہم سب ادھر ہی ہیں۔۔۔"
      رشیداں بوا نے آکر اطلاع دی تو دونوں جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئیں فجر نے مہدیہ کی طرف اشارہ کیا تو فاطمہ نے ہونٹوں پہ انگلی رکھے فجر کو خاموشی سے باہر آنے کو کہا۔۔۔
      حویلی کے اندر زنان خانے میں جیسے ہی ان لوگوں نے قدم رکھا ہائمہ خاتون اور فجر بے تابانہ چھلکتی آنکھوں سے صارم شاہ کی طرف بڑھیں تھیں صارم شاہ نے اپنے دونوں بازو وا کرتے انھیں اپنے بازوؤں میں لیتے گلے لگایا تھا بے آواز آنسو اسکی آنکھوں سے بھی رواں ہوئے تھے۔۔۔ہائمہ خاتون اس کے چہرے کا ایک ایک نقش چومتے ہوئے کبھی رونے لگتیں اور کبھی اسکی طرف دیکھ کر مسکرانے لگتیں۔۔۔شاہ سائیں نے گلا کھنکارتے اپنی وہاں موجودگی کا بھی احساس دلایا تو وہ دونوں شاہ سائیں کی طرف بڑھیں۔۔۔ایک دوسرے سے گلے ملنے مبارکباد دینے کے جزباتی مناظر کے بعد وہ لوگ فجر کے روم کی طرف بڑھے۔۔۔سامنے بیڈ پہ آنکھیں موندے مہدیہ کو دیکھ کر شاہ سائیں کے قدم ٹھٹکے تھے۔۔۔
      " نازو۔۔۔۔۔نازنین۔۔۔۔۔"
      شاہ سائیں مہدیہ کی طرف دیکھ کر بے چینی سے بولے مگر وہ انکی نازنین نہیں یہ وہ باخوبی جانتے تھے۔۔۔
      " ک۔۔۔کک۔۔۔کون۔۔۔کون ہے یہ۔۔۔یہ۔۔۔
      احتشام شاہ کے الفاظ انکے دماغ میں گونجے تھے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی دل چیخ چیخ کر کہ رہا تھا کہ وہ جو بھی ہے انکی ہے انکا خون۔۔۔۔وہ اٹک اٹک کر یک ٹک مہدیہ کی طرف دیکھتے اسکی طرف اشارہ کرتے بولے تھے۔۔۔
      " شاہ یہ ہماری بیٹی ہے۔۔۔آپکی بیٹی۔۔۔نازنین کی آپکی بیٹی۔۔۔آپکا خون۔۔۔مہدیہ حشمت شاہ۔۔۔"
      ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کہ کندھے پہ ہاتھ رکھتے بھرائے لہجے میں کہا تو وہ ایک پل کو لڑکھڑائے تھے۔۔۔حتشام شاہ اور صارم شاہ نے تیزی سے آگے ہو کر اپنے باپ کو سہارا دیا تھا۔۔۔کمرے میں شور سے مہدیہ کی آنکھ کھلی تو اتنے سارے لوگوں کو اپنے روم میں دیکھ کر پہلے کچھ سمجھ نہیں پائی اور خوفزدہ ہوئی تھی مگر دوسرے پل انجانے چہروں میں شناسا چہرے دیکھ کر اسکے چہرے پہ سکون آیا تھا۔۔۔اس نے سامنے کھڑے شخص کو بغور دیکھا جسے احتشام شاہ اور صارم شاہ نے سہارا دیا ہوا تھا جو 60 کے پیٹے میں بھی کافی شاندار اور بارعب شخصیت کا مالک تھا مگر اس وقت کوئی تھکا ہارا ٹوٹا بکھرا انسان لگ رہا تھا۔۔۔
      شاہ سائیں آہستہ آہستہ چلتے مہدیہ کے قریب آ کھڑے ہوئے انکے پورے وجود پہ لرزا طاری تھا۔۔۔وہ نڈھال سے مہدیہ کے قریب بیٹھ گئے لرزتے کانپتے ہاتھوں سے شاہ سائیں نے مہدیہ کے چہرے کو بہت نرمی سے چھوا تھا۔۔۔
      " میری بب بیٹی۔۔۔مم میری نازنین کی بیٹی۔۔۔"
      شاہ سائیں کے منہ سے سسکاری نکل تھی انھوں نے مہدیہ کو کھینچ کر اپنے گلے لگایا تھا مہدیہ کو گلے لگائے وہ باآواز بلند روئے تھے آج سے پہلے کسی نے شاہ سائیں کو یوں روتے نہیں دیکھا تھا انکا زمین پہ گرنے والا ہر آنسو انکی برسوں کی تڑپ کا واضح ثبوت تھا نازنین سے بے پایاں محبت کا گواہ بن رہا تھا کچھ ایسا حال ہی مہدیہ کا تھا آج اس نے خود پہ بند باندھنے کی کوشش نہیں کی تھی آج وہ بھی رو رہی تھی آج اسکی ماں کی قربانیوں کا اسکی ریاضتوں کا پھل اسکے باپ کی صورت میں بھائیوں کی صورت میں اسے مل گیا تھا جس خاندان نے اسکی ماں کو برسوں پہلے دھتکارا تھا آج اس خاندان کا ہر شخص کھلے دل سے اسے اپنا رہا تھا۔۔۔
      فجر احتشام شاہ اور صارم شاہ نے آگے بڑھ کر انھیں چپ کروانا چاہا تو ہائمہ خاتون نے منع کردیا کہ آج باپ بیٹی کو گلے مل کر رونے دو برسوں کی پیاس بجھانے دو۔۔۔
      فرط محبت اور بے خیالی میں وہ مہدیہ کو اس قدر خود میں زور سے بھینچ گئے کہ اسے سانس لینا دشوار ہو گیا۔۔۔ہائمہ خاتون نے مہدیہ کی حالت کے پیش نظر شاہ سائیں کے کندھے پہ اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈالا تو وہ اپنے آنسو صاف کرتے خود کو سنبھالتے سیدھے ہوئے۔۔۔
      " یہ کیا بات ہوئی میں سوتیلا ہوں کیا۔۔۔سب مل چکے اپنے اپنے تعارف بھی کروا دئیے۔۔۔اور میرے بارے میں کوئی آپی کو بتا ہی نہیں رہا کہ میں صارم شاہ ان کا چھوٹا بھائی ہوں۔۔۔"
      ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرتے صارم شاہ نے مہدیہ کے سامنے آتے اسکے قریب ہی بیڈ کے پاس نیچے زمین پہ بیٹھتے منہ بسورتے کہا تو سب اسکے اس قدر بچپنے پہ ہنس دئیے۔۔۔
      " اصل میں تمہارا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ غیر اہم چیزوں کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔۔۔"
      احتشام شاہ نے مہدیہ کے پاس اوپر بیڈ پہ بیٹھتے ہنستے ہوئے کہا تو صارم شاہ احتشام شاہ کی بات پہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔۔۔
      پھر ہائمہ خاتون نے احتشام شاہ کو پیار سے ڈانٹتے ہوئے صارم شاہ کا مہدیہ سے تعارف کروایا اور رضوانہ خاتون اور فاطمہ کا تعارف شاہ سائیں سے کروایا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ دلاور کی خالہ ہیں۔۔۔شاہ سائیں نے بہت عاجزی سے رضوانہ خاتون کا شکریہ ادا کیا۔۔۔رضوانہ خاتون نے دلاور کے کیے کی معافی مانگی تو شاہ سائیں نے یہ کہ کر دلاور کو بھی معاف کردیا کہ صبح کا بھولا شام کو واپس لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔۔۔اور مزید کہا کہ آج جو کچھ پنچایت میں دلاور نے کیا اس کے لیے وہ اس کے مشکور ہیں تو رضوانہ خاتون کی آنکھیں دلاور کو دیکھنے اسے ملنے کو بے تاب ہوئیں تھیں۔۔۔
      " دلاور ہمارے ساتھ ہی آیا ہے باہر حویلی کے مردان خانے میں بیٹھا ہے۔۔۔صارم بیٹا آپ ایسا کرو کہ دین محمد سے کہو کہ دلاور کو اندر گیسٹ روم میں بلا لائے رضوانہ بہن اور فاطمہ بیٹی ادھر ہی اس سے مل لیں گی۔۔۔"
      شاہ سائیں نے صارم شاہ سے کہا تو وہ سر ہلا کر دین محمد کو پیغام دینے چل دیا۔۔۔
      " نن۔۔۔نازو کہاں ہے۔۔۔وہ نظر نہیں آ رہی۔۔۔کدھر ہے نازنین۔۔۔ناراض ہے مجھ سے کیا۔۔۔"؟
      شاہ سائیں نے بے چینی سے پورے کمرے میں نظریں دوڑاتے نازنین کو تلاش کرتے سوال کیا۔۔۔ہر کوئی انکے اسی سوال سے ڈر رہا تھا سب ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھیں کہ کون اس کا جواب دے گا۔۔۔
      " بابا۔۔۔ماما آپ سے سچ میں بہت ناراض ہیں اتنی ناراض کہ اب وہ کبھی آپ سے نہیں ملیں گی۔۔۔"
      اس خاموشی کو مہدیہ نے توڑا تھا شاہ سائیں نے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔
      " تت تم مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے۔۔۔میں اسکے پاؤں میں گر کر اس سے معافی مانگ لوں گا۔۔۔اسے بتاؤں گا کہ میں نے اسے دھوکا نہیں دیا۔۔۔میں بے قصور ہوں۔۔۔مجھے بتاؤ بیٹا وہ کہاں ہے۔۔۔بہت تڑپا ہوں تم لوگوں کے لیے۔۔۔خدا کا واسطہ ہے میرا اور امتحان مت لو۔۔۔ مجھے اور مت آزماؤ۔۔۔بتاؤ مجھے نازو کہاں ہے۔۔۔"؟
      شاہ سائیں تڑپ کر مہدیہ کو کندھوں سے تھام کر بولے تھے۔۔۔مہدیہ سسک سسک کر رونے لگی اس کا دل بین کرنے لگا کہ کاش آج اسکی ماں زندہ ہوتیں اسکی خالہ نیلم بائی زندہ ہوتیں تو وہ انکو بتاتی کہ بابا نے دھوکا نہیں دیا تھا بابا سچے تھے اپنی محبت میں اپنے عشق میں۔۔۔وہ بے وفا نہیں تھے۔۔۔اس کا دل تڑپ رہا تھا۔۔۔شاہ سائیں مہدیہ کے خاموشی سے سر جھکانے پہ ہائمہ خاتون کی طرف بڑھے اور بڑی بے چینی سے ان سے پوچھنے لگے کہ نازو کہاں ہے۔۔۔
      " ماما نہیں ہیں۔۔۔مر چکی ہیں وہ۔۔۔"؟
      مہدیہ یکدم چلائی تھی۔۔۔شاہ سائیں کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا اور جب آیا کسی کے بھی کچھ سمجھنے سے پہلے وہ زمین بوس ہوئے تھے۔۔۔سب کی چیخیں ایک ساتھ کمرے میں گونجیں تھیں۔۔۔فجر نے تیزی سے گلاس میں پانی ڈال کر انکے لبوں سے لگایا تھا۔۔۔
      مہدیہ اپنے باپ کی حالت پہ تڑپ کر انکے پاس آنے کے لیے اٹھی تو چکرا کر اس سے پہلے کہ نیچے گرتی پاس کھڑے احتشام شاہ نے اسے تیزی سے سنبھالا تھا رضوانہ خاتون اور فاطمہ بھی اس کی طرف بڑھی تھیں۔۔۔
      " شاہ پلیززز سنبھالیں خود کو۔۔۔پلیززز۔۔۔مہدیہ کی طرف دیکھیں۔۔۔ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے کہ اگر اس نے سٹریس لیا تو۔۔۔۔۔"
      ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کا چہرہ ہاتھوں میں لیتے اس کا رخ مہدیہ کی طرف کرتے جان بوجھ کر باقی کا فقرہ ادھورا چھوڑتے کہا تو مہدیہ پہ نظر پڑتے ہی وہ ہوش میں آئے تھے۔۔۔
      " کک کیا ہوا ہے۔۔۔میری بچی کو۔۔۔نئیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔مم میں ٹھیک ہوں۔۔۔مہدیہ میری بچی۔۔۔ٹھ ٹھیک ہو تم۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔ڈاکٹر نے ایسا کیوں بولا۔۔۔کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔۔"؟
      شاہ سائیں مہدیہ کی طرف دیکھ کر بے تابانہ اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے اس کی طرف بڑھے جسے احتشام شاہ سہارا دے کر بیڈ پہ لٹا رہا تھا۔۔۔وہ مہدیہ کا چہرہ ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے لگے پھر اسکے سراپے پہ نظر ڈالی تو اس کا بھرا بھرا سا وجود دیکھ کر ٹھٹکے تھے۔۔۔انھوں نے فوراً مڑ کر ہائمہ خاتون کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ نظریں چرا گئیں۔۔۔

      " مم ماسو ماں۔۔۔۔۔۔"؟
      دین محمد نے دلاور اور بلال کو اندر لا کر گیسٹ روم میں بٹھا دیا تھا تقریباً آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد دروازے سے اندر داخل ہوتے وجود کو دیکھ کر دلاور کے اور بلال کے منہ سے ایک ساتھ نکلا تھا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انکی طرف دیکھ رہے تھے دلاور نے زور سے اپنی آنکھیں ملیں تھیں کہ شائد اسے دھوکا ہو رہا ہے مگر وہ دھوکا نہیں تھا وہ بلکل سچ تھا ویسا ہی سچ جیسے آسمان پہ تاروں کا ہونا سچ ہے جیسے چاند کی چاندنی رات کو اجالا کرتی ہے اور جیسے سورج دن کو اپنی تابناکی سے پوری دنیا کو روشن کرتا ہے یہ سچ تھا۔۔۔ماسو ماں اسکے سامنے موجود تھیں۔۔۔
      " دلاور۔۔۔۔میرے بچے۔۔۔میری جان۔۔۔۔دانی ی ی ی۔۔۔۔۔۔"
      ماسو ماں نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اسے پکارتے اپنے بازو وا کیے تو وہیں فاطمہ بھی اسے دیکھ کر سسکی تھی۔۔۔پاس کھڑے بلال سے اسکی نظریں ٹکرائیں تو لگا وہ وہیں دروازے میں گر جائے گی۔۔۔برسوں بعد بلال کے چہرے پہ بھی فاطمہ کو دیکھ کر زندگی کی لہر دوڑی تھی مگر دوسرے پل وہ اپنے خول میں سمٹا تھا خود کو اور اپنی نظروں کی آوارگی کو سنبھالا تھا کہ سامنے کھڑی ہستی کے دل میں پنپنے والے ہر جذبے سے ناواقف تھا۔۔۔
      گلوں شکوؤں کی ایک لمبی لسٹ تھی جسے رضوانہ خاتون اسکے پاس بیٹھی اسے سنا رہی تھیں اور وہ سر جھکائے چپ چاپ بیٹھا سن رہا تھا۔۔۔بلال کی نظریں فاطمہ سے ٹکرائیں تو اسے فاطمہ کی نظروں میں شکوے ہی شکوے چیختے دیکھائی دئیے وہ اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گیا وہ ان شکوؤں کی زبان کو سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر فاطمہ کی نگاہوں میں ایسا کچھ ضرور تھا جو اسے بے چین کر گیا تھا۔۔۔ابھی وہ بیٹھے باتیں ہی کر رہے تھے کہ باہر شور سا سنائی دیا اس کے ساتھ ہی دھپ سے دروازہ کھلا تھا اور صارم شاہ تیزی سے اندر داخل ہوا تھا اس نے آتے ہی دلاور کو دھکا دیتے اسے گھونسوں اور لاتوں پہ رکھا تھا فاطمہ اور رضوانہ خاتون ایک پل میں اسکے غصے کی وجہ جان گئیں تھیں بلال نے آگے ہونا چاہا تو دلاور نے اسی وقت اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔۔۔
      " ذلیل۔۔۔گھٹیا انسان۔۔۔تم سچ میں جانور ہو۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی مہدیہ کے ساتھ یہ سب کرنے کی۔۔۔مار ڈالوں گا میں تمہیں۔۔۔"
      صارم شاہ دلاور کو مارتے ہوئے چلا رہا تھا احتشام شاہ فوراً صارم شاہ کے پیچھے گیسٹ روم کی طرف آیا تھا۔۔۔مہدیہ کے بھرے بھرے سراپے سے صارم شاہ بھی انجان نہیں رہا تھا مگر اسے کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں ہوئی ہائمہ خاتون کی خاموشی بھی اس سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔۔۔ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں انکے روم میں لیجا کر مہدیہ کے ماضی سے اور دلاور کی حقیقت سے آگاہ کیا تھا صارم شاہ کو احتشام شاہ نے مختصراً کر کے ساری بات بتائی تو صارم شاہ برداشت نہیں کر پایا اور سب جان کر دلاور پہ پل پڑا۔۔۔دلاور نے ایک بار بھی اپنا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی مگر وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ صارم شاہ کیوں پرائی لڑکی کے لیے اس قدر طیش میں آ رہا ہے۔۔۔ رضوانہ خاتون نے بھی آگے ہو کر اسے چھڑوانے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ اس نے جو جرم کیا تھا انکے نزدیک اسکی یہ بہت معمولی سزا تھی۔۔۔احتشام شاہ نے صارم شاہ کو ڈانٹتے ہوئے کھینچ کر اسے دلاور سے الگ کیا تھا۔۔۔
      " دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا کیا۔۔۔اس لیے میں نے تمہیں سچ نہیں بتایا تھا کہ تم اپنا آپا کھو دو۔۔۔اگر یہی کچھ اس کے ساتھ کرنا ہوتا تو تم سے پہلے میں کر چکا ہوتا کب کا اس کی جان لے چکا ہوتا۔۔۔مگر یہ ہم سے زیادہ مہدیہ کا مجرم ہے۔۔۔اور وہی تہ کرے گی کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔۔۔"؟
      احتشام شاہ نے صارم شاہ کو ڈپٹتے ہوئے کہا۔۔۔
      " میں بے غیرت نہیں ہوں۔۔۔اس نے جو کچھ آپی کے ساتھ کیا ہے میں اسکی جان لے لوں گا۔۔۔مار ڈالوں گا اسے۔۔۔"
      صارم شاہ غصے سے پھر دلاور کی طرف بڑھا تو احتشام شاہ نے بیچ میں ہی اسے روکا۔۔۔
      " اپنے لفظوں پہ غور کرو صارم۔۔۔تم کیا کہ رہے ہو۔۔۔ہم میں سے کوئی بھی بے غیرت نہیں ہے مگر یہاں غیرت دکھانے سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہے جو تمہیں نظر نہیں آ رہا۔۔۔چلو میرے ساتھ۔۔۔باہر چلو۔۔۔"
      احتشام شاہ نے سخت لہجے میں صارم شاہ سے کہا تو اب کے صارم شاہ ڈھیلا پڑا تھا دلاور کی طرف ایک ابلتی نگاہ ڈال کر وہ احتشام کے ساتھ روم سے باہر نکل گیا۔۔۔
      انکے جاتے ہی دلاور نے اپنا چہرہ سہلایا تھا جس پہ نیل ابھر آئے تھے۔۔۔کمرے میں گہری خاموشی کا راج ہوا تھا پھر رضوانہ خاتون نے اس جامد چپ کو توڑا تھا۔۔۔
      " تم سوچ رہے ہو گے کہ مہدیہ کا ان سے کیا تعلق ہے۔۔۔کیوں اس قدر صارم طیش میں آیا ہے۔۔۔"
      رضوانہ خاتون نے اپنے دوپٹے کا گولا سا بناتے اس پہ اپنی گرم سانس چھوڑی پھر وہ گولا دلاور کے نیل پہ سیک دینے کو نرمی سے رکھتے پوچھا تو وہ سر جھکا گیا۔۔۔مطلب۔۔۔یہی بات ہے۔۔۔
      " مہدیہ شاہ سائیں کی سگی بیٹی ہے۔۔۔صارم شاہ احتشام شاہ کی سوتیلی بہن۔۔۔"
      رضوانہ خاتون نے بم پھوڑا تھا جس کی گونج سے دلاور کے کانوں کے پردے پھٹے تھے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔رضوانہ خاتون الف سے ی تک مہدیہ کے بارے میں اس کی تکلیفوں کے بارے میں سب اسے بتاتی گئیں کہ کس طرح وہ انکو ملی اس کے ساتھ کیا کچھ ہوا اور پھر احتشام شاہ کا ملنا اور اسے بچانا سب بتا دیا۔۔۔دلاور کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔اپنے بال نوچتے وہ سسک اٹھا تھا۔۔۔
      " کیسے کر سکتا ہوں میں یہ۔۔۔ کیسے۔۔۔۔میں کیا کروں ماسو ماں۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔مجھے خود سے نفرت ہو رہی ہے میں انسان سے جانور کیسے بن سکتا ہوں۔۔۔کتنے لوگوں کی زندگی میری وجہ سے جہنم بن گئ۔۔۔میں کیا کروں ماسو ماں۔۔۔کیا کروں۔۔۔"؟
      دلاور بے اختیار ماسو ماں کی گود میں سر رکھے رو دیا تھا بلال اور فاطمہ کی آنکھیں بھی نم ہوئیں تھیں۔۔۔
      " معافی مانگ لو میرے بچے۔۔۔مہدیہ سے۔۔۔عائلہ سے سب سے۔۔۔جس جس کا بھی دل تمہاری وجہ سے دکھا ہے جس جس کو بھی تم نے تکلیف پہنچائی ہے۔۔۔"
      ماسو ماں نے نرمی سے اس کے بال سہلاتے کہا تھا۔۔۔
      " ماسو ماں۔۔۔مہدیہ معاف نہیں کرے گی۔۔۔پلیززز ماسو ماں بس ایک بار۔۔۔بس ایک بار اس سے کہیں کہ مجھ سے بات کر لے۔۔۔ماسو ماں یہ گناہ مجھے مار ڈالے گا۔۔۔پلیززز ماسو ماں اس سے کہیں کہ مجھے معاف کردے۔۔۔خدا کی قسم ماسو ماں آپکا دانی اس وقت ہوش میں نہیں تھا۔۔۔اور جب ہوش آیا تب میں سب برباد کر چکا تھا۔۔۔
      " دانی ہوش میں تو تم تب بھی نہیں آئے تھے۔۔۔اگر ہوش میں آئے ہوتے تو اپنے گناہ کا کفارہ اسی وقت ادا کرتے مہدیہ سے اسی وقت نکاح کر لیتے مگر تم نے ہوش میں آنے کے بعد بھی اسے نہیں اپنایا بلکہ اسے زمانے کے رحمو و کرم پہ انھی بھیڑیوں میں چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔وہ تمہارے بچے کو اور اپنی بچی کھچی عزت کو بچانے کے لیے در در بھٹکتی رہی۔۔۔نہیں جانتی وہ تمہیں معاف کر پائے گی یا نہیں مگر میں ایک بار اس بات ضرور کروں گی آگے تمہاری قسمت۔۔۔"
      رضوانہ خاتون نے اس کے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی امید کی ڈوری تھمائی تھی اور اس کے لیے یہی بہت تھا۔۔۔

      " مہدیہ بچے یہ مت سوچنا کہ ہم تمہیں مجبور کر رہے ہیں مگر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس بچے کے بارے میں بھی ایک بار ضرور سوچنا۔۔۔تم جو بھی فیصلہ کرو گی ہمیں منظور ہوگا۔۔۔تمہارے بابا اور بھائی سب تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے فیصلے کے منتظر ہیں۔۔۔
      ہائمہ خاتون نے مہدیہ سے کہا اس وقت فجر کے روم میں مہدیہ کے پاس فاطمہ کے ساتھ فجر اور رضوانہ خاتون بھی بیٹھی ہوئی تھیں اسے دلاور کے بارے میں بتا دیا گیا تھا کہ وہ اس سے ایک بار ملنا چاہتا ہے معافی مانگنا چاہتا ہے اب یہ اس کی مرضی چاہے تو معاف کردے چاہے تو اسے دھتکار دے اس کے لیے اسے کوئی مجبور نہیں کرے گا۔۔۔مہدیہ گھٹنوں میں سر دئیے چپ چاپ بیٹھی انکی بات سنتی رہی اس کی آنکھیں پانیوں سے لبا لب بھری ہوئی تھیں دل تھا کہ ملنے کو مچل رہا تھا دماغ اسے ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔۔۔پھر تھک ہار کر کچھ سوچنے کے بعد اس نے دلاور سے ملنے کی حامی بھری تھی۔۔۔رضوانہ خاتون کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔دلاور کو اندر بلایا گیا تو وہ سر جھکائے بنا ایک لفظ بولے مہدیہ کے سامنے ہاتھ جوڑے گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھ گیا۔۔۔
      " میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے نہ ہی معافی مانگنے کے لیے ایسے لفظ کہ جو تمہارے زخموں پہ مرحم رکھ سکیں۔۔۔میں تمہارا مجرم تمہارا گنہگار ہوں۔۔۔میرا جرم ایسا نہیں کہ جس کی کوئی معافی ہو۔۔۔مجھے مار ڈالو مہدیہ۔۔۔میں اس احساس گناہ کے ساتھ جی نہیں پاؤں گا۔۔۔"
      دلاور نے ندامت کے آنسو بہاتے کہا سب لوگ خاموش تھے پتھر کے بت کی مانند اپنی اپنی جگہ ساکت بیٹھے مہدیہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔
      " میں نے تمہیں معاف کیا دلاور ملک۔۔۔اپنے رب کی رضا کے لیے ان سب کو گواہ بنا کر تمہیں معاف کیا۔۔۔الّٰلہ بھی تمہیں معاف فرمائے۔۔۔"
      مہدیہ بامشکل اتنا کہ کر منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی سسکیوں کو روکتے کمرے سے نکلتی چلی گئ۔۔۔
      مہدیہ کے دلاور کو معاف کرنے کے بعد شاہ سائیں اور ہائمہ خاتون نے مہدیہ سے دلاور سے شادی کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا تو وہ چپ چاپ مان گئ کہ یہی نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کے بچے کے لیے بھی بہتر تھا۔۔۔مہدیہ کے حامی بھرنے کے بعد شاہ سائیں نے پورے گاؤں میں ہفتے بعد جمعہ والے دن اپنے بچوں کی شادی کا اعلان کروا دیا۔۔۔شادی میں ہر خاص و عام کو دعوت دی گئ تھی۔۔۔شادی سے دو دن پہلے ہی شاہ سائیں نے پورے گاؤں میں اعلان کروا دیا کہ کسی گھر میں کھانا نہیں پکے گا ولیمہ تک پورا گاؤں شاہ سائیں کا مہمان ہوگا۔۔۔اس کے لیے بڑے پیمانے پہ مختلف پکوان تیار کروا کروا کر لنگر تقسیم کروایا گیا جو کوئی رہ جاتا وہ آکر کھانا کھا کر چلا جاتا۔۔۔
      پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اپنے بیٹوں کی شادی کی خوشی کے ساتھ مہدیہ کے ملنے کی خوشی میں شاہ سائیں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ساری دنیا میں شادی کے دعوت نامے تقسیم کروا دیں۔۔۔شادی والے دن احتشام شاہ اور عینا ، صارم شاہ اور عائلہ ، دلاور ملک اور مہدیہ پہ نظریں نہیں ٹک رہی تھیں۔۔۔تینوں دلہنووں نے ایک سے ہی ریڈ کلر کے برائیڈل ڈریس زیب تن کیے ہوئے تھے۔۔۔جبکہ دلہوں نے برائیڈل ڈریس کے ساتھ میچنگ کرنے کے لیے کریم کلر کی انتہائی دیدہ زیب شیروانی کے ساتھ میرون کلر میں کلے سر پہ رکھے ہوئے تھے گلوں میں رجاؤں مہاراجوں کی طرح لمبے لمبے موتیوں کے ہار لٹک رہے تھے کمر میں میرون کلر میں کمر بند اور کندھے کے ایک سائیڈ پہ میرون کلر کی ہی نفاست سے شال سیٹ کی گئ تھی۔۔۔دلاور کو شاہ سائیں کے داماد کے روپ میں دیکھ کر ہر کوئی حیران تھا لوگوں کی چہ میگوئیوں کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کے لیے شاہ سائیں نے پورے گاؤں کے سامنے مہدیہ کو تعارف کرواتے کہا کہ وہ انکی سابقہ مرحومہ بیوی کی بیٹی ہے جو ان سے ایک حادثہ میں بچھڑ گئ تھی اور خدا کی قدرت کہ وہ دلاور کی خالہ رضوانہ خاتون کے گھر ہی پل رہی تھی اور اس کی منگنی وہ پہلے ہی دلاور سے تہ کر چکی تھیں دلاور کے معافی مانگنے کے بعد اور رضوانہ خاتون کے مہدیہ کے لیے بہت اصرار پہ بچوں کی رضامندی سے انھوں نے دونوں کی شادی کا فیصلہ کیا۔۔۔شاہ سائیں کے اس اعلان کے بعد لوگوں کے دلوں میں مہدیہ اور دلاور کو لے کر اٹھتا ہر سوال اپنی موت آپ ہی دم توڑ گیا تھا۔۔۔
      انکی شادی پہ اکرام صاحب کو بھی فیملی سمیت بلایا گیا تھا طلحہ کی زبانی انھیں پتہ چلا کہ اس کے آنے کے بعد اسی رات قاسم نے خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی جسے سن کر احتشام شاہ کچھ پل کو کچھ بول ہی نہیں پایا۔۔۔دکھ نے اسکے دل میں ڈیرے ڈالے تھے
      احتشام شاہ نے طلحہ کو اس بات کا ذکر کسی اور سے کرنے سے منع کردیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ بات مہدیہ کے کانوں تک پہچے اور اس بات کے لیے وہ کسی طرح بھی خود کو مورد الزام ٹھہرائے۔۔۔
      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
      احتشام شاہ اور صارم شاہ کے رومز کی سجاوٹ بھی ایک سی کی گئ تھی پورے کمرے میں گلاب کی پتیوں کا فرش بچھا ہوا تھا تازہ پتیوں سے بیڈ کور کے اوپر خوبصورت انداز میں ہارٹ شیپ بنائی گئ تھی بیڈ کے چاروں اور فریش فلاور کا ٹینٹ بنا کر اسے سجایا گیا تھا بیڈ کے دونوں اطراف میں انتہائی خوبصورت سی جیل کینڈلز جل رہی تھیں جس نے روم کو مزید رومانوی سا بنا دیا تھا۔۔۔
      پورے دن کی تھکا دینے والی بھاگ دوڑ کے بعد سب لوگ اپنے اپنے رومز میں سونے کے لیے جا چکے تھے۔۔۔رات کے 11 بج چکے تھے بیٹھے بیٹھے مہدیہ کی کمر دکھنے لگی تھی۔۔۔ہائمہ خاتون کچھ منٹ پہلے ہی اسے ڈھیروں دعائیں دینے کے ساتھ احتشام شاہ کے آنے کی اطلاع بھی دے گئ تھیں۔۔۔
      احتشام شاہ نے جیسے ہی روم میں قدم رکھا اور دروازہ بند کیا تو عینا کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئیں تھیں اپنی طرف بڑھتے اس کے قدموں پہ اس کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا اس نے غیر محسوس طریقے سے سر پہ اوڑھا دوپٹہ کھینچ کر نیچے کرنے کی کوشش کی مگر پن اپ ہونے کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہی۔۔۔کچھ اور نہ سوجھا تو سر جتنا جھکا سکتی تھی جھکا گئ۔۔۔ وہ اسکی نظروں اور آنے والے قربت کے لمحات کو سوچ کر دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتے بے حال ہونے لگی وہ ایک پراعتماد اور کافی بولڈ قسم کی لڑکی تھی ایک لمٹ میں رہتے ہوئے یوں تو وہ پہلے بھی کئ بار پاس آ چکے تھے مگر آج اس کے دل کی حالت بہت عجیب سی ہو رہی تھی بار بار وہ خود کو ریلیکس رکھنے کی کوشش کرتی مگر دل تھا کہ قابو میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔
      احتشام شاہ دھیرے سے چلتا ہوا عینا کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔۔۔
      " واٹ۔۔۔۔۔"؟
      احتشام شاہ کچھ پل گہری نظروں سے سر تاپا عینا کا جائزہ لیتا رہا پھر یکدم اسکے منہ سے زور کا قہقہ برآمد ہوا تو عینا جو سر جھکائے بیٹھی تھی اسکی یوں ہنسنے پہ حیران ہوتے اسکی طرف دیکھنے لگی جو اس کے قریب بیٹھا منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔عینا نے خفگی بھری نظروں سے اس سے حیران ہوتے پوچھا تھا۔۔۔
      " یار قسم سے مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ آپ مجھے اس حال میں بیٹھی ملو گی۔۔۔"
      احتشام شاہ نے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش میں اپنی ہنسی روکتے کہا۔۔۔
      " مطلب۔۔۔۔۔۔کس حال میں۔۔۔۔۔"؟
      عینا نے اپنے ڈریس کے ساتھ ساتھ ایک نظر اپنے آس پاس بھی نظر دوڑاتے کہا وہ الجھن زدہ سی حیرانی سے بولی اسے احتشام شاہ کی نہ تو بات کی سمجھ آئی تھی نہ اسکے ہنسنے کی وجہ سمجھ آ رہی تھی۔۔۔
      " مطلب یہ کہ یوں شرمانا لجانا۔۔۔۔۔مجھے لگا تھا کہ تم عام لڑکیوں سے ذرا ہٹ کے ہو۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔"
      آپ نے سچ کہا میں واقع عام لڑکیوں جیسی نہیں ہوں بہت بے شرم ہوں میں۔۔۔
      عینا کو احتشام شاہ کی بات سن کر بہت برا لگا تھا وہ کافی ہرٹ ہوئی تھی وہ غصے سے بولتی یکدم اپنا لہنگا سمیٹ کر بیڈ سے اترنے لگی تو اسی وقت احتشام شاہ نے اس کا ہاتھ اپنی طرف کھینچا تھا جس سے وہ اپنا توازن کھوتی سیدھی اس کے اوپر جا گری۔۔۔
      " چھوڑیں مجھے۔۔۔کوئی بات نہیں کرنی مجھے آپ سے۔۔۔میں تو بہت بے شرم ہوں ناں۔۔۔اور میری بے شرمی کے بہت نمونے دیکھے ہیں آپ نے۔۔۔اسی لیے۔۔۔۔۔۔"
      اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی احتشام شاہ نے فوراً اسکے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کے اسے چپ کروایا تھا۔۔۔۔
      " میرا مطلب وہ نہیں تھا عین۔۔۔میں جب جب بھی آپ سے ملا آپکو بہت بولڈ روپ میں دیکھا اور سچ تو یہی ہے کہ مجھے ڈری سہمی لڑکیاں ہرگز پسند نہیں ہیں۔۔۔آپکی بولڈنیس اور پروقار شخصیت نے ہی مجھے آپکا دیوانہ کیا تھا۔۔۔آج پہلی بار آپکو روایتی دلہنوں کی طرح یوں سمٹے اور لجاتے دیکھا تو بے اختیار ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔بٹ آئی سوئیر آپکی دل آزاری کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ آپکے اس روپ نے بھی میرے ہوش چھین لیے ہیں دل چاہ رہا ہے کہ آپکو اپنے اندر کہیں جزب کر لوں۔۔۔"
      احتشام شاہ نے عینا کو خفا ہوتے دیکھ کر اپنے بازوؤں میں بھینچتے جلدی سے صفائی پیش کی تھی کہ کہیں اس کا موڈ مزید خراب نہ ہو جائے۔۔۔احتشام شاہ کی بات پہ عینا کا وجود ڈھیلا پڑا تھا پھر اپنی سچوئیشن کی طرف دھیان گیا تو چہرے پہ سرخی چھائی تھی۔۔۔
      " اونہوں۔۔۔۔۔لیٹی رہو ایسے ہی۔۔۔بہت سکون مل رہا ہے۔۔۔"
      عینا نے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی تو احتشام شاہ اسے خود میں مزید بھنچتے خمار زدہ لہجے میں بولا۔۔۔
      " جان احتشام ادھار واپس کرنے کا وقت آ گیا ہے مجھے ابھی چاہیے۔۔۔"
      احتشام شاہ نے عینا کی گردن میں منہ گھساتے بوجھل لہجے میں کہا تھا عینا پہلے تو سمجھ نہیں پائی پھر یاد آنے پہ سمٹ کر رہ گئ چہرہ قندھاری انار سا ہوا تھا
      " مم۔۔۔مجھے پیاس لگی ہے۔۔۔"
      عینا کو کچھ او نہ سوجھا تو اپنی منتشر دھڑکنوں کو سنبھالتے جلدی سے بولی۔۔۔
      " مجھے بھی بہت پیاس لگی ہے ایسا لگ رہا کہ اگر ابھی نہیں بجھائی تو کچھ ہو جائے گا۔۔۔"
      احتشام شاہ نے اس کے گرد اپنی گرفت سخت کرتے اسکے کندھے سے شرٹ ہٹاتے اس پہ بہت نرمی سے لمس چھوڑتے مخمور لہجے میں کہا تو اسکی ایک ہی گستاخی پہ عینا کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے دل کی رفتار تیز ہوئی تھی احتشام شاہ کے ہاتھوں کی آوارگی اسکے بدن پہ دھیرے دھیرے بڑھنے کے ساتھ اسکی شدتوں میں بھی اضافہ ہونے لگا تو عینا نے گھبرا کر سر اسکے سینے میں چھپایا تھا احتشام شاہ آہستہ سے اسے سیدھا کرتے اسکے اوپر جھکا تھا عینا نے زور سے اپنی آنکھیں میچی تھیں۔۔۔احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے پرشوق نظروں سے اسکا سرخ پڑتا چہرہ دیکھا تھا پھر اسکی پلکوں پہ مہر محبت لگاتے اسے اتنی زور سے خود میں بھینچا کہ عینا کے منہ سے سسکی خارج ہوئی تھی۔۔۔
      " شش شام۔۔۔۔پلیزززز۔۔۔۔"
      عینا اسکی شدتوں سے پریشان ہوتے ہلکا سا اپنا رخ موڑتے بولی تھی۔۔۔احتشام شاہ نے اسکی کمر پہ اپنا لمس چھوڑتے اسکی کرتی کی ڈوریاں کھولیں تو وہ جی جان سے لرزی تھی۔۔۔احتشام کی ہر شدت پہ عینا کی سانسیں تیز ہوئیں تھیں احتشام شاہ اسکی شرٹ سائیڈ پہ کرتے اسکے بدن کے روم روم کو اپنی محبت سے مہکانے لگا۔۔۔پھر اس نے عینا کی سانسیں اپنی سانسوں میں مقید کیں تھیں احتشام شاہ کی گرفت میں اتنی شدت تھی کہ تکلیف کے مارے عینا کی آنکھوں میں نمی اتری تھی اپنا سانس اکھڑتا محسوس ہوا تھا احتشام شاہ اسکی حالت دیکھ کر فوراً پیچھے ہوا تھا۔۔۔
      " میری شیرنی۔۔۔اتنی جلدی گھبرا گئ۔۔۔اپنے دل کو سنبھالیں ابھی تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں ہے اور آپ اتنی جلدی پریشان ہو گئیں ہیں۔۔۔"
      احتشام شاہ نے عینا کی آنکھوں میں آئی نمی کو اپنے ہونٹوں سے چنتے مسکرا کر کہا تو عینا خفگی سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
      " بہت برے ہیں آپ۔۔۔اور بہت ظالم بھی۔۔۔"
      عینا نے شرم کے مارے اپنے چہرے کو چھپانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔
      " میں تو ایسا ہی ہوں جان احتشام۔۔۔اور اب آپکو میری یہ شدتیں ساری عمر سہنی ہوں گی۔۔۔وہ پیار ہی کیا جس میں دیوانگی نہیں۔۔۔"
      احتشام شاہ نے اب کے بہت نرمی سے عینا کی پلکوں پہ ہونٹوں پہ اور پھر اسکی شہرگ پہ اپنا لمس چھوڑتے کہا اور پھر ایک کینڈل کے سوا باقی تمام کینڈلز کو بجھاتے اس نے پھر سے عینا کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔مگر اب اسکے ہر لمس میں پہلے کی نسبت قدرے نرمی تھی وہ عینا کے جسم پہ جابجا اپنا لمس چھوڑتے اسے معتبر کرنے لگا اسکے ہر لمس میں دیوانگی کے ساتھ احترام کئیر بھی تھی عینا اسکے ہر لمس پہ اسکی ہر جسارت پہ پاگل ہو اٹھی پھر اس نے اپنے دھڑکتے دل اور اپنے لرزتے بدن کو اپنے محرم کے حوالے کردیا۔۔۔
      اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنکو انکی محبت انکی چاہ بنا کسی پریشانی کے بنا کسی الجھن کے حاصل ہو جائے۔۔۔اور ایسے لوگ اس دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ ہوتے ہیں احتشام شاہ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھا جسے اسکی محبت الّٰلہ نے تحفے کی صورت میں اسکو بخش دی تھی۔۔۔
      اور یہ انعام تھا اس کے ایک فرمانبردار بیٹے ہونے کا ایک سچا کھرا اور بلند کردار کا حامل ہونے کا۔۔۔
      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
      جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?​

      Comment


      • #93
        Episode, 63

        Last prt, 2
        آخری قسط پارٹ 2:

        رخصتی کے بعد دلاور مہدیہ کو لے کر اپنے اسی گھر آیا تھا جو اس نے بڑی چاہ سے اپنے اور عائلہ کے لیے خریدا تھا۔۔۔اس گھر کے بیڈروم سے لے کر ہر ہر کونے میں اس نے اپنے ساتھ عائلہ کو سوچا تھا خیالوں میں اسے محسوس کیا تھا مگر اسکی یہ سوچ ایک سوچ بن کر ہی رہ گئ تھی۔۔۔
        سارا راستہ مہدیہ آنسو بہاتی آئی تھی رضوانہ خاتون اور فاطمہ اسے سمجھا سمجھا کر اور چپ کرواتے کرواتے ہلکان ہو گئ تھیں۔۔۔مگر اس کے آنسونہ تھمے۔۔۔جن رشتوں کے لیے وہ ترستی آئی تھی جن کی نرمی کو شفقت کو اس نے ٹھیک سے ابھی محسوس بھی نہیں کیا تھا پھر سے انکو پیچھے چھوڑ آئی تھی۔۔۔یہی حال شاہ سائیں کا بھی تھا مہدیہ کی رخصتی کے وقت سارے گاؤں ساری دنیا نے پہلی بار انکو یوں روتے دیکھا تھا ایسا دلگیر منظر تھا کہ ہر آنکھ اشکبار تھی۔۔۔
        رات 9 بجے وہ لوگ گھر پہنچے تو پورا گھر کسی دلہن کی طرح سجایا گیا تھا انکی گاڑی جیسے ہی گھر کے سامنے رکی اور وہ لوگ باہر نکلے ہر طرف سے ان پہ گلاب کی پتیوں کی بارش ہونے لگی۔۔۔گیٹ پر دلاور کے آدمی ہاتھوں میں بڑے بڑے گلاب کی پتیوں سے بھرے تھال تھامے کھڑے تھے۔۔۔
        دلاور کے آدمیوں کے ساتھ بلال کی فیملی اس کے ماں باپ بھی اس استقبال میں شامل تھے۔۔۔اور اس سب کے لیے انکو بلال نے ہی ہدایات دیں تھیں کہ کس طرح سے گھر بیڈروم کو سجانا اور دلاور کا اس کی دلہن سمیت استقبال کرنا ہے۔۔۔
        مہدیہ رضوانہ خاتون اور فاطمہ کا ہاتھ تھامے دھیرے دھیرے گھر کے اندر چلی آئی بلال نے تیزی سے آگے بڑھ کر ان کے لیے بیڈروم کا دروازہ کھولا دلاور کمرے کی سجاوٹ دیکھ کر ستائشی نظروں سے بلال کی طرف دیکھنے لگا بلال نے ہلکا سا سر کو خم دے کر مسکرا کر اسے جواب دیا۔۔۔
        دلاور روم کے اندر نہیں آیا وہ دروازے سے ہی مڑ گیا تاکہ باقی انتظامات دیکھ سکے۔۔۔
        " بیٹا سنبھالو خود کو۔۔۔اس طرح سے خود کو ہلکان کرو گی تو یہ نہ تمہارے لیے اچھا ہے نہ بچے کے لیے۔۔۔اب میں تمہیں بلکل بھی روتا ہوا نہ دیکھوں آئی سمجھ۔۔۔کچھ دیر کو کمر سیدھی کر لو جسم کی تھکن دور ہو جائے گی۔۔۔
        رضوانہ خاتون نے مہدیہ کی کمر کے پیچھے تکیہ لگاتے محبت سے اسے ڈپٹتے کہا تھا مہدیہ کو بیڈ پہ بیٹھتے پہلی بار اپنی زندگی میں آنے والے اس نئے موڑ کا احساس ہوا تو اس کی دھڑکنیں منتشر ہوئیں تھیں اپنے باپ اپنے خونی رشتوں سے دوری کے احساس اور دکھ کی جگہ دل میں اک عجیب سا انوکھا سا احساس جاگا تھا۔۔۔خود کو سرزنش کرتی وہ تکیہ سے ٹیک لگا کر لیٹ گئ۔۔۔بلال کی والدہ کچھ دیر پاس بیٹھ کر مہدیہ کی تعریف کرنے کے ساتھ ڈھیروں دعائیں دینے کے بعد اٹھ کر سونے کے لیے اپنے روم میں چلی گئیں۔۔۔
        " فاطمہ بیٹا دانی یا بلال سے کہو کہ کچھ ہلکا پھلکا کھانے پینے کے لیے بھجوائے۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے فاطمہ سے کہا مہدیہ نے کچھ بھی لینے سے منع کردیا کہ دل نہیں چاہ رہا مگر رضوانہ خاتون نے سنی ان سنی کرتے فاطمہ سے کہا کہ وہ جا کر کچھ اسنیکس اور جوس لے آئے۔۔۔
        " کچھ چاہیے تھا کیا۔۔۔"
        فاطمہ روم سے باہر نکلی تو باہر کوئی بھی موجود نہیں تھا وہ کھڑی ادھر ادھر دیکھتی کچھ پل کو سوچتی رہی کہ کس سے کہے پھر خود ہی ایک اندازے سے ایک سائیڈ کی طرف چل پڑی جب اپنے پیچھے اسے بلال کی آواز سنائی دی۔۔۔
        " کیا دے سکتے ہیں آپ۔۔۔۔"
        بلال کو سامنے دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی فاطمہ کے لہجے میں تلخی گھلی تھی۔۔۔بلال کا جب سے فاطمہ سے سامنا ہوا تھا اس کی بولتی نگاہیں اور لہجے کی کاٹ اسے بہت کچھ سمجھا رہی تھی مگر وہ بار بار نظر انداز کر جاتا جان کر بھی انجان بن جاتا۔۔۔اور یہی بات فاطمہ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
        " آپ بتائیں آپکو کیا چاہیے۔۔۔ابھی حاضر کیے دیتا ہوں۔۔۔آپ کہ کر تو دیکھیں۔۔۔"؟
        بلال نے فاطمہ کے لہجے کی تلخی کو اگنور کرتے خوش دلی سے کہا تو فاطمہ کو اس کے انداز پہ مزید آگ لگی تھی۔۔۔
        " آپ سے کچھ پوچھنا۔۔۔۔۔"
        کیا ہو رہا ہے بھئ۔۔۔آپی کچھ چاہیے کیا۔۔۔"؟
        اس سے پہلے کہ فاطمہ کوئی سوال کرتی اسی وقت دلاور نے انکے قریب آ کر فاطمہ سے سوال کیا تھا۔۔۔
        " یہ کچن کا پوچھ رہی تھیں وہی بتا رہا تھا کہ یہ غلط سائیڈ پہ آ نکلی ہیں۔۔۔
        فاطمہ کی جگہ بلال نے جواب دیا تو فاطمہ نے حیرانی سے بلال کی طرف دیکھا کہ اس نے تو کچن کا کوئی ابھی ذکر بھی نہیں کیا تھا اگر بنا کہے یہ جان سکتا ہے کہ اس وقت میں روم سے باہر کیا لینے آئی تو اسے یہ سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ میرا دل کس آگ میں جل رہا ہے۔۔۔فاطمہ بلال پہ ایک تلخ نگاہ ڈال کر دلاور کو کچھ لانے کا کہ کر واپس روم کی طرف بڑھ گئ۔۔۔بلال کے دل پہ اداسی نے ڈیرا جمایا تھا جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ فاطمہ کے لیے سیٹھ اکرام نے طلحہ کا رشتہ دیا ہے وہ اپنے تمام تر احساسات پہ بند باندھ کر انھیں اپنے دل کے نہاں خانے میں چھپا گیا تھا یہ سوچ کر کہ وہ فاطمہ کے لائق نہیں طلحہ فاطمہ کے لیے ہر لحاظ سے بہت بہتر تھا۔۔۔
        " دانی صارم کیا کہ رہا تھا تم سے ، تم سے جب وہ گلے مل رہا اس وقت میں نے نوٹ کیا تھا کہ اسکے چہرے کے تاثرات کچھ عجیب سے تھے اور کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا۔۔۔۔۔"؟
        دلاور ٹرے میں کچھ کھانے پینے کا سامان رکھ کر جس خاموشی سے آیا تھا اسی خاموشی سے باہر جانے لگا تو فاطمہ بھی اچانک یہ بات یاد آنے پہ اس کے ساتھ باہر نکلتے اس سے پوچھنے لگی۔۔۔
        " دلاور ملک بھولنا مت۔۔۔یہ میری بہن ہے اور شاہوں کا خون ہے۔۔۔جو کچھ پہلے ہو چکا وہ سب بھول کر میں تم پہ بھروسہ کرتے اپنے بڑوں کا مان رکھتے اپنی بہن کو تمہارے ساتھ رخصت کر رہا ہوں۔۔۔مگر یاد رکھنا کہ اگر اب مہدیہ کی آنکھوں میں تمہاری وجہ سے کوئی آنسو آیا یا تم اس کے کسی دکھ کی وجہ بنے تو میں بھول جاؤں گا کہ تم اس کے شوہر ہو۔۔۔۔میں ایک پل نہیں لگاؤں گا اپنی بہن کو بیوہ کرتے۔۔۔یاد رکھنا یہ بات۔۔۔"
        صارم شاہ نے رخصتی کے وقت دلاور سے گلے ملتے اس کے کونوں میں سرد سرگوشی کی تھی۔۔۔دلاور اسکی بات پہ مسکرا کر رہ گیا تھا جبکہ حشمت شاہ اور احتشام شاہ بڑی گرمجوشی سے دلاور سے بغلگیر ہوئے تھے۔۔۔
        " دلاور۔۔۔۔۔کچھ پوچھا ہے میں نے۔۔۔شاہ سائیں کا یہ چھوٹے والا بیٹا کافی الگ سا لگا مجھے اپنے باپ اور بھائی کی نسبت۔۔۔بولو ناں کیا کہ رہا تھا۔۔۔"
        دلاور کو گم صم اپنے خیالوں میں کھویا دیکھ کر فاطمہ نے اس کا کندھا ہلاتے فکرمندی سے کہا۔۔۔
        " پریشان مت ہوں۔۔۔کچھ نہیں کہ رہا تھا وہ بس تھوڑا فکرمند تھا اپنی بہن کے لیے اور اس کا خیال رکھنے کو کہ رہا تھا۔۔۔خیر آپ دیکھیں اندر جا کر کچھ اور چاہیے تو بتائیں مجھے۔۔۔میں ذرا ایک دو ضروری کام نمٹا لوں۔۔۔"
        دلاور نے فاطمہ کو ٹالتے کہا۔۔۔
        " میرا خیال ہے تمہیں اس وقت اندر مہدیہ کے پاس ہونا چاہیے اور آج تمہارا ضروری کام بس یہی ہونا چاہیے تمہاری شکل سے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی اور کی شادی میں آئے ہوئے ہو مجھے اگر یہ بات فیل ہو رہی ہے تو مہدیہ کیا سوچ رہی ہو گی تمہارا یہ رویہ دیکھ کر۔۔۔جو بھی ضروری کام ہیں تمہارا چمچہ دیکھ لے گا تم چلو اندر مہدیہ کے پاس بیٹھو جا کر۔۔۔"
        فاطمہ نے دلاور پہ رعب ڈالتے کہا تو فاطمہ کے بلال کو چمچہ کہنے پہ دلاور کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔
        " آپی پلیززز مجھے کچھ وقت چاہیے۔۔۔میں آ جاؤں گا فلحال اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔۔۔"
        دلاور نے نظریں چراتے کہا۔۔۔
        " دانی تم غلطی پہ غلطی کر رہے ہو۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے کہ عائلہ والے معاملے سے مہدیہ بے خبر ہوگی۔۔۔تمہارا یہ رویہ اس کو تم سے مزید بدگمان کردے گا تم جس طرح سے اس سے کترا رہے ہو اس سے یوں لگ رہا جیسے یہ نکاح کسی بوجھ کی صورت تم پہ مسلط کیا گیا ہے۔۔۔"
        فاطمہ نے دلاور کو اب کے سختی سے ڈانٹتے اسے اس کے روکھے رویے کا احساس دلانے کی کوشش کی۔۔۔
        " آپی باخدا ایسا نہیں ہے میں نے اس نکاح کو دل سے قبول کیا ہے مگر پتہ نہیں کیوں اب اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہا دل میں اک خوف سا ہے یا پھر شرمندگی۔۔۔"
        دلاور نے بے بسی سے ٹوٹے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
        " دانی۔۔۔۔مت سوچو ایسا۔۔۔اور کب تک اس کا سامنا نہیں کرو گے۔۔۔غلطی کا احساس ہونے پہ اس کو جتنی جلدی سدھار لیا جائے زندگی اتنی جلدی نارمل روٹین میں آتی ہے۔۔۔اور جتنی دیر کی جائے زندگی میں تلخی اتنی زیادہ بڑھتی جاتی ہے۔۔۔اور مہدیہ کا یہاں اس گھر میں تمہارے ساتھ تمہاری منکوحہ تمہاری بیوی کے روپ میں موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تمہیں معاف کر کے تمہاری طرف بڑھی ہے۔۔۔اگر اس نے تمہیں معاف نہ کیا ہوتا تو اسے کوئی بھی اس نکاح کے لیے مجبور نہیں کرسکتا تھا۔۔۔اپنے اور اس کے بیچ اپنے سیاہ ماضی کو مت آنے دو۔۔۔تم سے جو گناہ ہوا وہ تم نے اپنے ہوش و حواس میں نہیں کیا تھا۔۔۔تمہاری غلطی یہ ضرور ہے کہ تمہیں مہدیہ کو پھر اسی بازارا میں نہیں چھوڑنا چاہیے تھا جبکہ تم جانتے تھے کہ تمہارے جانے کے بعد لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔۔۔
        خیر میں پرانی باتوں کو نہیں دہرانا چاہتی اگر تم سچ میں اپنے کیے پہ دل سے شرمسار ہو تو پھر اب ساری عمر مہدیہ کو کوئی دکھ مت دینا تمہاری بے پایاں محبت اس کے ہر زخم کا مرہم بن جائے گی۔۔۔اپنا موڈ ٹھیک کرو اور دو منٹ سے پہلے روم میں آؤ۔۔۔اور جب آؤ تو اپنا ماضی اس دروازے کے باہر چھوڑ کر آنا۔۔۔"
        فاطمہ نے رسانیت اور نرمی سے سمجھاتے کہا تو دلاور اثبات میں سر کر تھوڑی دیر تک آنے کا کہ کر چلا گیا۔۔۔فاطمہ روم میں واپس چلی آئی۔۔۔
        " مہدیہ بیٹے مجھے کچھ کہنا ہے تم سے۔۔۔اگر تم برا نہ مانو تو۔۔۔۔"؟
        رضوانہ خاتون نے تمہید باندھتے کہا تو مہدیہ حیرانی سے انکی طرف دیکھتی ذرا سا سیدھے ہو کر بیٹھ گئ۔۔۔
        " ماسو ماں پلیززز آج کے بعد دوبارہ کبھی بھی مجھ سے بات کرنے کے لیے کچھ کہنے کے لیے تمہید مت باندھیے گا۔۔۔میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا مجھے نہیں پتہ کہ ماں کیا پیار کیا ہوتا ہے مگر جب آپ سے ملی تو دل نے کہا کہ ماں آپکے جیسی ہوتی ہےاور میں نے دل سے آپکو اپنی ماں مان لیا۔۔۔اب ایسا کیا ہو گیا کہ آپ کو مجھ سے کچھ کہنے کے لیے اجازت لینی پڑ رہی ہے۔۔۔پلیززز ماسو ماں مجھے اپنی بہو مت بنائیے گا۔۔۔میں ہمیشہ آپکی بیٹی بن کر رہنا چاہتی ہوں اور بیٹیوں سے مائیں اجازت نہیں لیتیں بلکہ انکو حکم دیتی ہیں۔۔۔"
        مہدیہ نے بھرائے لہجے میں کہا۔۔۔
        " میری بچی میں تمہاری ماں ہی ہوں انسان جب نئے رشتوں میں بندھتا ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے بس اسی لیے دل میں خیال آیا کہ۔۔۔۔
        " ماسو ماں میرے اور دلاور کے بیچ جو بھی یہ نیا رشتہ بنا ہے وہ اپنی جگہ مگر آپ ہمیشہ میری ماسو ماں رہیں گی۔۔۔"
        مہدیہ نے نپے تلے لہجے میں بیچ میں ہی انکی بات اچکتے کہا۔۔۔
        " بیٹا میں چاہتی ہوں کہ تم دلاور کو دل سے معاف کر کے اسے دل سے اپنا لو۔۔۔میں جانتی ہوں تم اسے معاف کرچکی ہو مگر کبھی کبھی ہم کسی کو معاف کر کے بھی اسے معاف نہیں کرتے۔۔۔دل میں ایک گرہ ہمیشہ کے لیے بندھ جاتی ہے۔۔۔میری خواہش ہے کہ میری بیٹی اپنے دل میں کوئی گرہ نہ رکھے ہر گرہ توڑ دے تم دلاور کو زبانی طور پہ نہیں بلکہ عملی طور پہ دل سے معاف کردو۔۔۔
        میں یہ بھی جانتی ہوں کہ کسی بھی عورت کے لیے ایسے مرد کو معاف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جس نے اس کی روح پہ زخم لگایا ہو اس کی نسوانیت کی دھجیاں بکھیری ہوں۔۔۔مگر بیٹا جب روح کو زخمی کرنے والا ہماری زندگی میں ہمیشہ کے لیے چلا آئے اس کے نام کے ساتھ نام جڑ جائے تو پھر دل میں ماضی کو رکھ کر ایک ساتھ نہیں چلا جاتا۔۔۔
        میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا بیٹا کہ کسی بھی مرد کے لیے اپنی غلطی تسلیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور خاص کر اپنی بیوی کہ سامنے اس کے لیے اس بات کا اعتراف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ اس نے غلط کیا ہے وہ غلطی پہ تھا۔۔۔مرد کی انا اسکی غیرت ہمیشہ اس کو عورت کے سامنے جھکنے سے روکتی ہے۔۔۔
        مگر جو جھک جائے اپنی غلطی مان لے وہ مرد ہیرے جیسا دل رکھتا ہے اور الّٰلہ ہیرے جیسا دل رکھنے والا شوہر ہر عورت کو نہیں بخشتے بلکہ بہت کم اور خوش قسمت عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ایسا شوہر قسمت کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔۔۔
        جو بیوی کو انسان سمجھتا ہے اپنی زندگی کا ساتھی سمجھتا ہے اور بیوی کے ساتھ کیے اپنے ہر سلوک کے لیے الّٰلہ کے سامنے خود کو جواب دہ سمجھتا ہے۔۔۔
        ایسا شوہر جب اپنی کسی غلطی پہ نادم ہو کر اپنی بیوی سے معافی کا طلبگار ہو تو اس وقت اس کو معاف کر کے اس کا ہاتھ تھامنے والی عورت ساری عمر پھر اپنے اس شوہر کے دل پہ راج کرتی ہے جبکہ اس کو دھتکارنے والی اس کو اس کے ماضی کی غلطیاں گناہ گنوانے والی عورت ہمیشہ خسارے میں رہتی ہے۔۔۔
        اور میری خواہش ہے کہ میری بیٹی خسارے میں نہ رہے بلکہ اپنے شوہر کے دل پہ ہمیشہ راج کرے۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے بہت نرمی سے مہدیہ کے دل پہ جمی کثافت کو دور کرنے کی کوشش کی مہدیہ کا دل شکوہ کناں ہوا تھا کہ جسکی وہ بات کر رہی ہیں اس نے تو اک نگاہ غلط ڈالنا بھی گوارا نہیں کیا اور ایسے شخص کے دل پہ وہ کیسے راج کر سکتی ہے جس دل پہ کوئی اور پہلے سے براجمان ہو۔۔۔مگر وہ یہ سب رضوانہ خاتون سے نہیں کہ سکی اور ایک گہرا سانس بھرتے بنا کچھ کہے نڈھال سی آنکھیں موند گئ۔۔۔رضوانہ خاتون اسے مزید کچھ سمجھاتی رہیں پھر اسے آرام کرنے کا کہ کر روم سے فاطمہ کے ساتھ باہر نکل گئیں۔۔۔
        " ماسو ماں کچھ چاہیے تو نہیں آپکو۔۔۔ویسے اپنی طرف سے آپکی ضرورت کی ہر چیز میں نے روم میں رکھوا دی ہے لیکن پھر بھی کچھ چاہیے ہو تو بتا دیجیے گا۔۔۔"
        دلاور رضوانہ خاتون کے کمرے میں آکر بولا۔۔۔
        " کچھ نہیں چاہیے بیٹا تم جاؤ جاکے آرام کرو کافی رات ہو گئ ہے۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے چادر اوڑھتے کہا دانی جانے کے لیے مڑا تو رضوانہ خاتون نے اسے آواز دے کر اپنے پاس آ کر بیٹھنے کا کہا۔۔۔
        " دانی ہو سکتا تمہیں مہدیہ کی طرف سے کچھ تلخ رویے کا سامنا کرنا پڑے مگر بیٹا وہ چاہے کچھ بھی کہے تمہاری طرف سے اسے کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے اس لیے کہ وہ تم پہ جتنا بھی غصہ کرے وہ حق پہ ہے۔۔۔محبت میں دھوکا کھائی عورت بنجر زمین سی ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی اتنی سخت اور پتھریلی کہ قدم رکھتے ہی پاؤں زخمی ہوجائیں۔۔۔ایسی زمین کو پھر سے ہرا بھرا کرنے کے لیے اس پہ پھول کھلانے کے لیے اس کے مالی کو اپنا خون پسینا بہانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر وہ زمین پھل دیتی ہے۔۔۔
        مہدیہ بھی ایسی ہی زمین ہے اب یہ تم پہ ہے کہ تم کتنا برداشت کرتے ہو اور اپنی محبت کا کتنا پانی اس زمین پہ چھڑکتے ہو۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے دلاور کو سمجھاتے کہا۔۔۔دلاور انکو انکی بات کا مان رکھنے کا یقین دلا کر اٹھ کر چلا گیا۔۔۔
        دلاور روم میں آیا تو مہدیہ آڑھی ترچھی سی تکیے سے ٹیک لگائے گہری نیند میں جا چکی تھی دلاور آہستہ سے بیڈ پہ اس کے قریب بیٹھ کر اس کے موہنے روپ کو نہارتا رہا اسکی خوبصورتی کا تو وہ پہلے بھی دل سے قائل تھا مگر آج اس پہ نظر نہیں ٹک رہی تھی۔۔۔وہ دلہن بنی کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔۔۔اسکو یونہی نہارتے جہاں وہ الّٰلہ کا شکر گزار ہوا وہیں اسکے ذہن کی سکرین پہ وہ سیاہ دن لہرایا تو اسکی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔۔
        دل میں بے چینی اضطراب بڑھا تو مہدیہ پہ چادر اوڑھا کر تکیہ نکال کر اس کے سر کے نیچے آہستہ سے سرہانہ رکھ کر وضو کر کے نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔۔۔نماز سے فارغ ہو کر وہ سجدے میں گرا الّٰلہ سے اپنے گناہ کے لیے توبہ کرنے کے ساتھ اپنے اور مہدیہ کے لیے الّٰلہ سے سکون مانگنے لگا۔۔۔ہلکی ہلکی سسکیوں پہ مہدیہ کی آنکھ کھلی تو دلاور کو یوں نماز پڑھتے اور گڑگڑاتے دیکھ کر حیران رہ گئ۔۔۔
        " سوری میری وجہ سے شائد تمہاری نیند خراب ہو گئ۔۔۔"
        دلاور نماز سے فارغ ہوا تو مہدیہ کو بیٹھے دیکھ کر شرمسار سا بولا۔۔۔پھر کچھ دیر تک مہدیہ کے کسی جواب یا ردعمل کا انتظار کرنے لگا مگر جب اسکی طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی تو اپنا تکیہ اٹھا کر صوفے پہ لیٹنے کے لیے رکھا مہدیہ بے یقینی سے حیران نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگی پھر اس کے دل میں اک غبار سا اٹھا تھا
        " آپ نے اس بیڈ پہ آج کے دن یقیناً کسی اور کو سوچا ہوگا مگر بدقسمتی سے جسے آپ نے چاہا تھا اس کی جگہ ایک " طوائف " جسے آپ نے دھتکار دیا تھا آج وہی طوائف آپکے بستر پہ موجود ہے۔۔۔ویسے یہ قسمت بھی عجیب رنگ دکھاتی ہے جو بندے نے چاہا ہوتا ہے وہ ملتا نہیں اور جو نہیں چاہا ہوتا وہ بڑی فراخ دلی سے اسکی جھولی میں بھر دیا جاتا ہے۔۔۔
        کیا بہت یاد آ رہی ہے اس کی۔۔۔آنی بھی چاہیے جس کی خاطر ساری دنیا سے ٹکرا گئے جس پہ سارا جگ وار رہے تھے وہ دل سے کہاں نکلے گی۔۔۔یاد تو آئے گی اسکی۔۔۔آج تو دل اسکی یاد میں اور تڑپ رہا ہوگا یہ سوچ کر کہ آپکی محبوبہ صارم شاہ کی بانہوں میں اس کے بستر پہ۔۔۔۔۔۔"
        دلاور ابھی صوفے پہ بیٹھا ہی تھا کہ مہدیہ تلخی سے پھنکاری تھی۔۔۔دلاور نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا تھا پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر مہدیہ کے قریب نیچے زمین پہ دوزانو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے انداز میں سر جھکائے بیٹھ گیا۔۔۔
        " تمہیں جتنا غصہ کرنا ہے بے شک کرو مجھے جتنا ذلیل کرنا ہے کرو ، مگر خدارا خود کو طوائف کہ کر نہ اپنی تذلیل کرو اور نہ رشتوں کی۔۔۔جسے تم میری محبوبہ کہ رہی ہو وہ تمہارے بھائی کی بیوی ہے تمہاری بھابھی ہے جس کا دامن فرشتوں جیسا پاک ہے۔۔۔
        میرا عائلہ کے ساتھ تمہاری بھابھی ہونے کےناتے اب صرف احترام کا رشتہ ہے میرے دل سے وہ اسی وقت نکل گئ تھی جب میں نے الّٰلہ کو گواہ بنا کر تم سے نکاح پڑھا تھا۔۔۔تم سے دوری اس لیے نہیں بنا رہا تھا کہ مجھے وہ یاد آ رہی تھی بلکہ اس لیے کترا رہا تھا کہ تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔اپنی غلطی پہ نادم۔۔۔۔۔۔
        غلطی نہیں گناہ۔۔۔۔گناہ کیا تھا آپ نے۔۔۔۔میرے جسم کو ہی نہیں میری پاکیزگی کو میری روح کو بھی روندا تھا آپ نے۔۔۔
        بازار میں بیٹھے ہونے کے باوجود کبھی کسی کو مجھے رسوا کرنے کی جرأت نہیں ہوئی کسی نے مجھے چھوا نہیں۔۔۔مگر آپ نے۔۔۔۔۔جس سے میں نے محبت کی جسے ٹوٹ کر چاہا جس کے لیے خود کو سینت سینت کر رکھا۔۔۔آپ نے۔۔۔دلاور ملک آپ نے مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا۔۔۔سب کے بیچ میں ایک تماشہ بنا دیا۔۔۔
        بولتے بولتے مہدیہ کے حلق میں اسکی آواز پھنسی تھی اس نے بے دردی سے اپنے گالوں پہ بہتے آنسو ہاتھ کی پشٹ سے رگڑ کر صاف کیے تھے۔۔۔
        میرا کیا جرم تھا۔۔۔میرا کوئی والی وارث نہیں تھا۔۔۔کیا یہ جرم تھا میرا۔۔۔میں کوٹھے پہ بازار حسن میں بیٹھی تھی۔۔۔کیا یہ جرم تھا میرا۔۔۔یا میں نے صرف آپ سے محبت کی یہ جرم تھا میرا۔۔۔میری محبت کو میرے عشق کو سب کے لیے ایک عبرت بنا دیا آپ نے۔۔۔آپ کے ہاتھوں رسوا ہونے کے بعد وہاں سب ہنستی تھیں مجھ پہ۔۔۔آوازیں کستی تھیں۔۔۔جو کبھی میری قسمت پہ رشک کرتی تھیں مجھ سے جلتی تھیں وہ مجھے ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھنے لگیں آپکو مجھ پہ ذرا ترس نہیں آیا نہ آپکو میری محبت نظر آئی نہ میرے آنسو دکھے۔۔۔
        مجھے ان بھیڑیوں میں چھوڑ کر چلے گئے بنا یہ سوچے کہ آپ کے جاتے ہی وہ مجھے نوچ کھائیں گے۔۔۔آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ مجھے کن کن اذیتوں سے گزرنا پڑا آپ کے اس گناہ کا کفارہ میری خالہ کو اور رحمو بابا کو بھرنا پڑا مجھے ان درندوں سے بچانے کے لیے انھوں نے اپنی جان دے دی۔۔۔آپ کا بچہ اپنی کوکھ میں لے کر میں اسے اور اپنی عزت کو بچانے کے لیے جائے پناہ کی تلاش میں لوگوں کے دروازے کھٹکاتی رہی۔۔۔
        مہدیہ دلاور کی طرف جھکتے اس کا گریبان تھام کر اسکے چہرے پہ نظریں گاڑے تلخی سے غرائی تھی دلاور یونہی اسکے سامنے ہاتھ جوڑے سر جھکائے بیٹھا اسکی آہ و زاری سنتا رہا۔۔۔
        کبھی کبھی دل کرتا تھا میں اپنی جان لے لوں اپنے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالوں جس نے آپ سے محبت کرنے کی جرأت کی۔۔۔
        میرے لیے بہت آسان تھا کہ میں کوٹھے کی زندگی کو اپنا لیتی مگر اس دل کا کیا کرتی کہ جس میں صرف آپ بستے تھے آپ کے ہاتھوں رسوا ہو کر بھی میں آپکی ہی رہی۔۔۔مگر آپ نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ میں زندہ ہوں یا شرم کے مارے مر گئ۔۔۔میں آپ سے نفرت کرنا چاہتی تھی اتنی نفرت کہ وہ نفرت زہر بن کر میری رگوں میں اتر جائے اور میری جان لے لے۔۔۔مگر نہیں کر پائی۔۔۔میں آپ سے نفرت نہیں کر پائی دلاور۔۔۔میری رگوں میں آپکی محبت اس قدر سرایت کر گئ کہ اس نے نفرت کو جگہ ہی نہیں بنانے دی۔۔۔
        ایک بات پوچھوں دلاور۔۔۔اس عائلہ میں ایسا کیا تھا جو آپ کو مجھ میں نظر نہیں آیا۔۔۔میری محبت میری وفا میرا یہ حسن جس پہ دنیا مرتی تھی کچھ بھی تو آپکو نظر نہیں آیا۔۔۔کیوں دلاور۔۔۔کیوں۔۔۔"
        مہدیہ ہزیانی ہوتے سسک کر بولی تھی آنسو قطار در قطار اس کے گالوں پہ بہنے لگے اور یونہی کب بے بسی سے نڈھال ہو کر اس نے دلاور کے کندھے پہ اپنا سر ٹکا دیا اسے احساس تک نہیں ہوا۔۔۔اس سے بچھڑنے کے بعد وہ خود پہ گزری ایک ایک بات اسے بتاتی چلی گئ کبھی اس کے لہجے میں شکوہ اتر آتا اور کبھی اذیت۔۔۔دلاور نے بے خودی میں اس کے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا بنایا تھا۔۔۔اپنا دل ہلکا کرنے کے بعد مہدیہ کو پہلی بار اپنے اندر اک سکون سا اترتا محسوس ہوا اپنے حواسوں میں آئی تو خود کو دلاور کے حلقے میں پاکر ہڑبڑا کر شرمندہ سی فوراً کھسک کر سیدھی ہوتے منہ موڑ کر بیٹھ گئ۔۔۔خود کو دل ہی دل میں اپنی بے اختیاری پہ کوسنے لگی کہ جس سے اتنے گلے تھے اسی کے کندھے کا سہارا وہ کیونکر لے گئ۔۔۔
        مہدیہ کے ہر ہر لفظ پہ دلاور شدمندگی کے مارے خود کو زمین میں مزید دھنستا محسوس کرنے لگا وہ اٹھ کر آہستہ سے مہدیہ کے روبرو آ بیٹھا۔۔۔تو مہدیہ سمٹ کر پیچھے کو ہوئی تھی۔۔۔
        " میں نے تمہارے ساتھ اتنا برا کیا پھر بھی تمہارے دل سے میری محبت نہیں گئ تم مجھ سے نفرت نہیں کر پائی۔۔۔کیوں۔۔۔۔کیوں مہدیہ۔۔۔۔
        اس کیوں کا تو کسی کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ دلوں پہ اختیار نہیں ہوتا کب کس پہ آجائے کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔۔
        تم سے بہتر شائد ہی کوئی یہ بات جانتا ہو کہ میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جنکی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکنے لگتی ہے جو جسم کے بھوکے ہوتے ہیں اگر میں جسم کا بھوکا یا خوبصورتی پہ مرنے والا ہوتا تو کوٹھے کی ہر لڑکی میرے بستر پہ ہوتی۔۔۔اور تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں سچ کہ رہا ہوں۔۔۔میں مر کر بھی اپنے ہوش و حواس میں کسی لڑکی کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت نہیں کرسکتا چاہے وہ کوٹھے کی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔مجھ سے جو گناہ ہوا انجانے میں ہوا جس کے لیے میں مرتے دم تک شرمسار رہوں گا اور اس کے لیے ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔
        اور رہی بات کہ عائلہ میں ایسا کیا ہے جو تم میں نہیں تو جب انسان کسی سے سچی محبت کرتا ہے تو جسم کی خوبصورتی بہت پیچھے رہ جاتی ہے پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ خوبصورت ہے یا بد صورت۔۔۔اچھا ہے یا برا۔۔۔کیونکہ دل پہ کسی کا اختیار نہیں ہوتا کب کس پہ آ جائے کس سے کب آپ کی سانسوں کی ڈور بندھ جائے کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔۔
        عائلہ سے محبت نہ کرنا میرے بس میں نہیں تھا بلکل ایسے جیسے مجھ سے نفرت کرنا تمہارے بس میں نہیں تھا۔۔۔
        ایسا نہیں کہ میں تمہیں بھول گیا تمہیں وہاں چھوڑ کر آنے کے بعد میں ایک رات بھی سکون سے سو نہیں پایا سیٹھ شجاع کا سن کر تمہیں وہاں سے لینے گیا تو پتہ چلا کہ تم وہاں سے جاچکی ہو کہاں گئ کوئی نہیں جانتا تھا میں نے ہر جگہ تمہیں تلاش کیا مگر تم نہیں ملی۔۔۔
        اپنی ہر غلطی ہر گناہ کے لیے میں تم سے معافی مانگتا ہوں مجھے معاف کردو۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب مرتے دم تک میرے دل میں تمہارے سوا کبھی کوئی نہیں آئے گا۔۔۔صرف مجھے ایک موقع دے دو اپنی غلطی سدھارنے کا۔۔۔پلیززز مہدیہ مجھے معاف کردو۔۔۔"
        دلاور نے مہدیہ کے سامنے ہاتھ جوڑتے بھرائے لہجے میں کہا اور پھر اپنے ہاتھ مہدیہ کے پاؤں پہ رکھ دئیے۔۔۔مہدیہ نے دلاور کی اس حرکت پہ ہڑبڑا کر اپنے پاؤں پیچھے کیے تھے۔۔۔
        " یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔"
        مہدیہ گھبرا کر بولی تھی۔۔۔
        " معافی مانگ رہا ہوں پلیززز معاف کردو۔۔۔اس بوجھ تلے دب کر میں جی نہیں پاؤں گا۔۔۔"
        دلاور نے پھر سے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔مہدیہ بھرائی آنکھوں سے کچھ پل کو اسکی طرف دیکھتی رہی پھر بے بے اختیار ہو کر اس نے دلاور کے ہاتھ تھام کر ان پہ اپنا سر ٹکا دیا۔۔۔دلاور نے پرسکون ایک گہرا سانس بھرتے ہلکے سے مسکرا کر اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیا تو وہ اسکے سینے میں کسی چھوٹے سے بچے کی مانند چھپ کر سسک اٹھی۔۔۔اس نے دلاور کو دل سے معاف کرکے دل سے اپنا لیا تھا اس کا غصہ اس کی ناراضگی سب وقتی تھا دلاور سے نہ وہ دور رہ سکتی تھی نہ اس سے نفرت کر سکتی تھی اور یہ بات تو وہ بہت پہلے سے ہی جان چکی تھی اور وہ اتنی بیوقوف نہیں تھی کہ جھوٹی انا کے خول میں سمٹ کر خود پہ کھلتے خوشیوں کے دروازے بند کر دیتی اس لیے اس نے اس ناراضگی کو طول نہیں دیا کہ وہ خسارے میں رہ جانے والی عورتوں میں سے نہیں ہونا چاہتی تھی اور دلاور صبح کا بھولا تھا جو شام ہونے سے پہلے لوٹ آیا تھا پھر وہ کیسے نہ اسے معاف کرتی۔۔۔
        " آج کے بعد مجھ سے کبھی بے وفائی مت کرنا کبھی دھوکا مت دینا اگر اب ایسا کچھ ہوا تو میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ اسی دن خود کی جان لے لوں گی۔۔۔کبھی مت بھولنا کہ میرے پاس آپکے سوا کوئی رشتہ نہیں آپکی محبت میں مزید تاوان دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں بچا۔۔۔"
        مہدیہ نے یونہی دلاور کے گلے لگے کہا۔۔۔
        " میں وعدہ کرتا ہوں کہ تاعمر اس دل میں اب تمہارے سوا کوئی نہیں آئے گا میں کبھی تم سے بے وفائی نہیں کروں گا۔۔۔میری زندگی پہ میری ہر سانس پہ صرف تمہارا حق ہوگا۔۔۔
        دلاور نے محبت سے چور لہجے میں کہا اور محبت کا اعتبار کا بھروسے کا پہلا لمس بہت پیار سے مہدیہ کی پیشانی پہ چھوڑا تو مہدیہ اسکی بانہوں میں مزید سمٹی تھی۔۔۔
        اگر اجازت ہو تو میں تھوڑا سا پیار اپنی بیٹی سے بھی کر لوں۔۔۔"
        دلاور نے مسکرا کر مہدیہ کی ٹھوڑی کو چھوتے اس کا چہرہ اوپر اپنی طرف کرتے کہا تو مہدیہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔پھر سمجھ آنے پہ ترچھی نظروں سے دیکھتی بولی۔۔۔
        " بیٹی۔۔۔۔۔آپ سے کس نے کہا کہ بیٹی ہوگی۔۔۔مجھے بیٹی نہیں چاہیے۔۔۔"
        مہدیہ منہ پھلائے بولی۔۔۔
        " مگر مجھے تو بیٹی ہی چاہیے۔۔۔اور میں الّٰلہ سے دعا۔۔۔۔
        مہدیہ نے دلاور کا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا۔۔۔
        پلیززز دلاور مجھے بیٹی نہیں چاہیے الّٰلہ سے بیٹی کی دعا مت کیجیے گا۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔خوف آتا ہے نہ جانے اس کی قسمت کیسی ہو۔۔۔اگر اسکی قسمت بھی میرے جیسی۔۔۔۔۔"
        مہدیہ آنکھوں میں نمی لیے بھرائے لہجے میں بولی۔۔۔
        " مہدیہ۔۔۔۔۔ایسا مت سوچو۔۔۔جانتی ہو ہمارے آقا نبی پاک ص کی بھی صرف بیٹیاں ہی تھیں اس وقت تو جاہلیت کا دور تھا بیٹی بیوی بہن ماں کا نہ کوئی احترام نہ کوئی حقوق تھے پھر بھی ہمارے پیارے نبی پاک ص ہر بیٹی کی پیدائش پہ بے انتہا خوش ہوتے خوشی مناتے آپ ص کا فرمان ہے کہ بیٹی رحمت بن کر آتی ہے اور جب الّٰلہ خوش ہوتے ہیں تو کسی کے گھر مہمان بھیجتے ہیں جب اور خوش ہوتے ہیں تو زمین پہ بارش برساتے ہیں اور جب اپنے کسی بندے سے خوش ہوں تو اسے بیٹی عطا کرتے ہیں۔۔۔بیٹی اپنے ماں باپ کے لیے جہنم کے آگے آڑ بن جاتی ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے اپنے گناہوں پہ الّٰلہ سے خوف آتا ہے اس لیے میری خواہش ہے کہ الّٰلہ مجھے بیٹی دے کہ اسکی وجہ سے میں بخش دیا جاؤں۔۔۔جانتی ہو کہ عورت کے لیے یہ بڑی خوش بختی کی علامت ہے کہ اسکی پہلی اولاد بیٹی ہو۔۔۔
        اور تم یہ کیوں سوچتی ہو کہ تمہاری قسمت اچھی نہیں۔۔۔ذرا سوچو تو کہ اتنی غلیظ جگہ رہ کر بھی الّٰلہ نے تمہیں اس ماحول کا حصہ نہیں بننے دیا تم جب جب بھی مصیبت میں پڑی الّٰلہ نے تمہاری مدد فرمائی۔۔۔پھر شاہ سائیں جیسا شفیق باپ ہائمہ خاتون جیسی مہربان ماں صارم شاہ اور احتشام شاہ جیسے جان نچھاور کرتے دو بھائی اور فجر جیسی بہن کتنے انمول رشتوں سے الّٰلہ نے نوازا ہے تمہیں۔۔۔اور مجھ جیسا ایک بے دام خادم بھی۔۔۔"
        مہدیہ کو سمجھاتے لاسٹ میں دلاور نے شرارت سے کہا تو مہدیہ مسکرا کر رہ گئ۔۔۔
        " ویسے مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ آپ مدرسے سے کلاسز لیتے رہے ہیں بلکل کوئی مولوی لگ رہے ہیں۔۔۔ویسے یہ سب کہاں سے کب سیکھا آپ نے۔۔۔"
        مہدیہ نے مسکراتے ہوئے دلاور کو چھیڑتے کہا۔۔۔تو دلاور کو یکدم امام صاحب کی یاد آئی تھی۔۔۔
        " یہ باتیں سیکھنے کی نہیں ہوتیں ہر مسلمان یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جانتا ہے۔۔۔اور جو جانتا ہے وہ الّٰلہ کا حکم جان کر ان پہ عمل بھی کرتا ہے۔۔۔
        ویسے اس مولوی کو آج کی رات صرف باتوں سے ٹرخایا جائے گا یا تھوڑا حلوہ بھی ملے گا کھانے کو۔۔۔"
        دلاور نے مہدیہ کے سراپے پہ شوخ نگاہ دوڑاتے کہا تھا۔۔۔
        " حلوہ۔۔۔۔۔اور اس وقت۔۔۔۔مجھے نہیں آتا بنانا۔۔۔۔"
        مہدیہ نے ناسمجھی سے کہا تو دلاور اس کی معصومیت پہ کھلکھلا کر ہنس دیا مہدیہ مبہوت سی ہو کر اس کو یوں ہنستے ہوئے تکنے لگی۔۔۔آج پہلی بار اس نے دلاور کو یوں باآواز بلند ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔
        "تم سے کس نے کہا کہ تم بناؤ گی۔۔۔بناؤں گا تو میں بس تم کھلانے کا وعدہ کرو۔۔۔ویسے بھی میرے طریقے سے تم نہیں بنا پاؤ گی۔۔۔"
        دلاور نے ذو معنی لہجے میں کہا تو مہدیہ ناسمجھی سے اثبات میں سر ہلا گئ۔۔۔
        دلاور نے اسکے سر ہلانے پہ آگے کو بڑھ کر آہستہ سے اس کے کانوں سے آویزے اتارنے کو ہاتھ بڑھایا تو وہ بدک کر پیچھے کو ہوئی تھی۔۔۔
        " مم۔۔۔میں خود اتار لوں گی۔۔۔"
        دلاور کی آنکھوں میں اترتے خمار کو دیکھ کر وہ سمٹ کر پیچھے ہوتی بولی۔۔۔
        " ہرگز نہیں۔۔۔ابھی تو تم نے کہا کہ تم مجھے حلوہ کھلاؤ گی۔۔۔اور بناؤں گا میں۔۔۔اب بنانے دو ناں مجھے میرے طریقے سے۔۔۔"
        دلاور نے مسکراتے ہوئے خمار زدہ لہجے میں کہا تو دلاور کی بات پہ اسے حلوے کی تشریح سمجھ میں آئی اس کے چہرے پہ سرخی چھلکی تھی۔۔۔دلاور نے ایک ایک کر کے اسکے بدن کو جیولری سے آزاد کیا جیولری اتارتے وہ جان بوجھ کر مہدیہ کے گالوں سے تو کبھی گردن اور کبھی گردن سے ذرا نیچے اپنا ہاتھ مس کر دیتا جس سے مہدیہ کے پورے بدن میں اک عجیب سی سنسناہٹ سی دوڑ جاتی۔۔۔اسکی دھڑکنیں منتشر سی ہو جاتیں۔۔۔دلاور کے ارادے جان کر وہ خود میں سمٹتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھے اس پہ اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھاتے بے اختیار اسے روکتے نفی میں سر ہلا گئ۔۔۔دلاور نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا پھر ہونٹ بھینچے چند سیکنڈ اسکی طرف سوالیہ نظروں سے تکنے کے بعد اسکے ماتھے پہ آہستہ سے بوسہ دیتے سیدھا ہوتے اس پہ کمبل اوڑھانے لگا۔۔۔
        " سو جاؤ۔۔۔ریلکیس رہو۔۔۔میں ایسا کبھی کچھ نہیں کروں گا جس میں تمہاری مرضی شامل نہ ہو۔۔۔"
        دلاور نے ایک گہرا سانس بھرتے اسکے قریب لیٹتے اسے اپنی بانہوں میں بھرتے اپنی ایک ٹانگ مہدیہ کی تھائی پہ جماتے آنکھیں موندتے کہا۔۔۔مہدیہ کو گلٹ نے آن گھیرا۔۔۔خود پہ افسوس ہونے لگا کہ یہ اس نے کیا کیا۔۔۔دلاور سمجھے گا کہ میں نے ابھی تک اسے دل سے معاف نہیں کیا۔۔۔وہ خود کو کوسنے لگی اب خود آگے بڑھتے بھی حیا آڑے آ رہی تھی۔۔۔ماسو ماں کی سمجھائی باتیں دماغ میں گھومنے لگیں۔۔۔
        اس نے آہستہ سے سر اٹھا کر دلاور کی طرف دیکھا جو اسی طرح آنکھیں موندے شائد سو چکا تھا یا سونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا مہدیہ کچھ اندازہ نہیں لگا پائی۔۔۔
        پھر اپنے دھک دھک کرتے دل کو بامشکل سنبھالتے کچھ سوچتے ہوئے وہ دلاور کے ساتھ مزید چمٹ کر لیٹ گئ کہ اگر وہ جاگ رہا ہوگا تو اسکی اس پیش قدمی سے خود ہی سمجھ جائے گا کہ وہ ناراض نہیں۔۔۔اور ایسا ہی ہوا وہ جیسے ہی دلاور کے ساتھ لپٹی دلاور نے پٹ سے آنکھیں کھول کر حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا تھا دلاور کے دیکھنے پہ اس نے فوراً اس کے سینے میں منہ چھپانے کی کوشش کی تھی۔۔۔
        " مم۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔پتہ نہیں کیسے۔۔۔"
        مہدیہ اسکے سینے میں منہ چھپائے حیا آمیز لہجے میں بولی تو دلاور اس کی پیش قدمی پہ مسکرا کر سرشار سا اسے اپنی بانہوں میں بھینچ گیا۔۔۔
        اسے سیدھا کر کے بیڈ پہ لٹاتے وہ آہستہ سے اس پہ جھکا تھا۔۔۔
        " مجھے معاف کرنے اور اس پیش قدمی کے لیے یہ خادم آپکا تہ دل سے مشکور ہے۔۔۔"
        دلاور نے اسکے کانوں کی سرخ ہوتی لوؤں کو دھیرے سے اپنے ہونٹوں سے چھوتے کہا پھر وہ اسکی گردن پہ جھکا تو وہ لرز کر رہ گئ۔۔۔
        کمرے میں ہلکی ہلکی خنکی کے باوجود اس کے ہاتھوں میں اور پیشانی پہ نمی اترنے لگی۔۔۔اس کے جسم میں جیسے کوئی آگ دہکنے لگی تھی۔۔۔
        دلاور کے ہونٹوں نے جیسے ہی گالوں سے گردن اور گردن سے اسکے سینے تک کا سفر کیا تو وہ اپنے لبوں کو زور سے اپنے دانتوں میں دبا گئ دلاور نے آہستہ سے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے اسکے لبوں کو اسکے دانتوں کی قید سے آزاد کرتے انھیں اپنے ہونٹوں کی قید میں لیا تھا آہستہ آہستہ اسکی شدت میں اضافہ ہونے لگا تو مہدیہ کو لگا وہ اب سانس نہیں لے پائے گی۔۔۔اس نے دلاور کے کندھے پہ اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈالتے اسے رکنے کا اشارہ دیا دلاور اسکی حالت کے پیش نظر تیزی سے پیچھے کو ہوا پھر اسکا خون چھلکاتا چہرہ دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔مہدیہ خود کو پرسکون کرنے کے لیے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔
        " میرا مدہوش ہونا جائز تھا
        وہ سارا شراب جیسا تھا"
        دلاور مسکرا کر مخمور لہجے میں کہتے اسے پھر سے اپنی بانہوں میں مقید کر گیا۔۔۔دھیرے دھیرے وہ اس کے پورے وجود پہ قابض ہو کر اسے محبت کی برسات میں نہلانے لگا۔۔۔مہدیہ اس برسات کی بوند بوند کو اپنی روح میں اترتا محسوس کرتی بے خود ہونے لگی۔۔۔اس کے دل کی بنجر زمین پھر سے ہری بھری ہونے لگی۔۔۔
        اسکی آزمائش تمام شد ہوئی تھی۔۔۔زندگی اس سے اس کی برداشت اور صبر کا جو امتحان لے رہی تھی وہ امتحان اس نے بہت اچھے سے پاس کیا تھا اور انعام کے طور پہ اسے اس کا کھویا ہر رشتہ لوٹا دیا گیا تھا اب اس معاشرے میں وہ عزت سے سر اٹھا کر جی سکتی تھی۔۔۔الّٰلہ نے اسکے ماتھے سے ایک طوائف کا لیبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹا دیا تھا اب وہ ایک طوائف نہیں تھی کسی کی بیٹی کسی کی بہن اور کسی کی بیوی تھی۔۔۔اس کا بھی اب ایک گھر تھا ایک پورا خاندان تھا جو اس کی پہچان تھا۔۔۔
        مہدیہ دختر حشمت شاہ سے اب وہ مہدیہ زوجہ دلاور ملک تھی۔۔۔
        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

        صارم شاہ جیسے ہی روم میں داخل ہوا تو پورے روم میں پھیلی بھینی بھینی سی گلاب کی خوشبو نے اس کی سانسوں کو جہاں معطر کیا تھا وہیں پہ پوری سج دھج کے ساتھ دلہن کے روپ میں بیٹھی عائلہ پہ نظر پڑتے ہی اسکی روح سرشار ہوئی تھی۔۔۔اس پہ نظر پڑتے ہی اسکی نظروں کے ساتھ اسکے قدم بھی بہکے تھے۔۔۔دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پہ عائلہ کا دل سکڑا تھا دل کی دھڑکنوں نے اسکے سینے میں ادھم مچایا تھا خود میں سمٹنے کی اس نے ایک ناکام کوشش کی تھی۔۔۔
        " جان شاہ۔۔۔۔"
        صارم شاہ نے اسکے قریب بیٹھتے اسکی ٹھوڑی کے نیچے اپنی انگشت شہادت سے رکھتے اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے خمار زدہ لہجے میں پکارا تو وہ چہرہ اوپر کرتے ساتھ ہی اپنی آنکھیں بھی میچ گئ۔۔۔
        صارم شاہ اس کے چہرے پہ کھلتے حیا کے خوشنما رنگوں میں کھونے لگا۔۔۔اپنی آنکھیں زور سے میچے ہونے کے باوجود عائلہ کو صارم شاہ کی نظریں اپنے وجود کے آر پار ہوتی محسوس ہونے لگیں اسکے لب تھرتھرانے گے۔۔۔اسکے تھرتھراتے لب صارم شاہ کے جزبوں میں مزید آگ لگانے کا سبب بنے تھے۔۔۔
        عائلہ کا دل یکدم جیسے دھڑکنا بھولا تھا جب صارم شاہ نے اسکے گھٹنوں کے گرد کس کے بندھے ہاتھ کھول کر انھیں اپنی مضبوط گرفت میں لیا تھا اور ان پہ اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑا تھا۔۔۔
        ❤ بادشاہ تھے ہم اپنی سلطنت کے
        عشق نے تیرے در کا فقیر بنا دیا❤
        صارم شاہ نے اس کی پیشانی پہ لب رکھتے اک سلگتی سے سرگوشی کی تھی عائلہ کے پورے وجود کو جیسے کسی ان دیکھی آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا صارم شاہ نے اپنے جلتے ہونٹ اسکی گردن پہ رکھے تو اسے یوں لگا کہ وہ اپنے ہوش کھو دے گی۔۔۔صارم شاہ کی بڑھتی وارفتگیاں اس سے سہنی مشکل ہونے لگیں دل کی دھک دھک اس قدر بڑھی جیسے ابھی سینے سے باہر نکل آئے گا۔۔۔
        " مم میں چینج کر۔۔۔۔۔"
        اپنی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتی فرار کی راہ تلاش کرتے اٹھنے لگی تو صارم شاہ نے اسے اک جھٹکے سے واپس کھینچا تھا وہ کٹے ہوئے شہتیر کی مانند اس کے اوپر جا گری۔۔۔صارم شاہ نے اسکے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا تنگ کرتے اسے خود میں زور سے بھینچا تھا۔۔۔
        " جان شاہ اتنی ظالم مت بنیں ابھی تو میں نے آپکو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں۔۔۔
        جانتی ہیں مجھے آج آپکو اس کمرے میں پاکر یوذن محسوس ہو رہا ہے جیسے مجھے ہفت اقلیم کی دولت مل گئ ہے جیسے میں اس دنیا کا سب سے امیر ترین اور خوش قسمت شخص ہوں۔۔۔
        آپکو اندازہ نہیں کہ میں آج کس قدر خوش ہوں اس دن کا کس قدر مجھے انتظار تھا۔۔۔"
        صارم شاہ اسے سیدھا کر کے بیڈ پہ لٹاتے اس پہ جھکتے ہوئے مخمور لہجے میں کہتا اسکی دھڑکنیں بڑھا گیا۔۔۔
        " شاہ۔۔۔۔مم۔۔۔۔"
        عائلہ اپنی دھرکنوں کو شمار کرتی اتنا ہی بولی تھی کہ صارم شاہ نے اسکے ہونٹوں پہ قفل لگایا تھا۔۔۔کچھ پل خود کو سیراب کرنے کے بعد وہ سیدھا ہوا تو عائلہ نے مارے شرم کے بے اختیار اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپایا تھا۔۔۔
        " آپکی یہ ادائیں مجھے مزید بہکا رہی ہیں جان شاہ۔۔۔"
        صارم شاہ نے اسکے ہاتھوں کی پشت پہ بوسے دیتے اسکے کان کے پاس سرگوشی کی تو وہ ہڑبڑا کر ہاتھ پیچھے کر گئ صارم شاہ اسکی حرکت پہ کھل کے مسکرایا تھا۔۔۔
        " آج آپ کچھ نہیں بولیں گی صرف مجھے سنین گی۔۔۔مجھے محسوس کریں گی۔۔۔میں آپکو چھو کر یقین کرنا چاہتا ہوں کہ میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا یہ سچ ہے آپ میرے پاس ہیں میری ہو چکی ہیں مسز صارم شاہ۔۔۔۔"
        صارم شاہ اس کے کانوں کو زیور سے آزاد کرتا گھمبیر سرگوشی میں اسکے رخساروں کو اپنے لمس سے دہکانے لگا۔۔۔
        " چھوٹے شاہ پلیززز۔۔۔۔"
        اسکی وارفتگیاں اور مدہوشیاں عائلہ کے ہوش اڑانے لگیں تو وہ پریشان ہوتی یکدم اسے پیچھے کرتی تیزی سے بیڈ سے اتر کر دور جا کر کھڑے ہوتے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔
        صارم شاہ بہکے قدموں کے ساتھ آہستہ سے اس کے پیچھے آن کھڑا ہوا اور اسکے بالوں کو پن سے آزاد کردیا جو کسی آبشار کی طرح اسکی پشت پہ بکھر گئے عائلہ نے گھبرا کر قدم آگے بڑھانے چاہے تو اسی دم صارم شاہ نے اسے اپنی آغوش میں لیا تھا
        " آج یہ دوری کیوں۔۔۔مجھ پہ ظلم مت کریں۔۔۔یوں مت تڑپائیں کہ میری جان نکل جائے۔۔۔"
        صارم شاہ نے اسکے بال سمیٹ کر دائیں کندھے پہ ڈالتے اسکے بائیں کندھے پہ اپنے ہونٹ رکھتے خمار بھرے لہجے میں کہا عائلہ نے اسکی بات پہ تڑپ کر اپنا رخ اسکی طرف موڑا تھا۔۔۔
        " مم۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے مجھے لگ رہا میں مر جاؤں گی۔۔۔"
        عائلہ کے جسم پہ کپکپی طاری ہوئی تھی اگر صارم شاہ نے اسے تھاما نہ ہوتا تو اب تک وہ یقیناً زمین بوس ہوچکی ہوتی۔۔۔
        " ڈر۔۔۔۔کس بات سے۔۔۔مجھ سے لگ رہا ہے کیا۔۔۔"
        صارم شاہ نے اچنبھے سے اس سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئ۔۔۔صارم شاہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو پھر کس بات سے۔۔۔
        " آ۔۔آپ۔۔۔کے پیار سے۔۔۔
        عائلہ ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کو اسکے سینے میں چھپاتے منمنائی۔۔۔تو صارم شاہ کے ہونٹوں پہ دلفریب مسکراہٹ در آئی۔۔۔
        " یہ تو غلط بات ہے مسز شاہ۔۔۔پیار سے کون ڈرتا ہے۔۔۔اور اگر میں آپ سے پیار نہیں کروں گا اس کا اظہار نہیں کروں گا تو آپکو کیسے پتہ چلے گا کہ میں آپ سے کتنا پیار کرتا ہوں۔۔۔پہلے میں نے صرف زبانی طور پہ ثبوت دیا تھا آج تو عملی طور پہ اس کے اظہار کا وقت ہے۔۔۔"
        صارم شاہ نے یکدم اسے اپنے بازوؤں میں اٹھاتے بیڈ پہ لٹاتے کہا تو عائلہ کا چہرہ حیا آلود ہوا تھا چہرے پہ سرخی چھائی تھی۔۔۔
        ❤کیسے کہوں کہ میرے لیے کیا ہو تم
        جان لو کہ میری روح کا چین و قرار ہو تم ❤
        " اجازت ہے۔۔۔۔"
        صارم شاہ نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھتے پوچھا تو وہ آنکھیں میچے اپنا چہرہ موڑ گئ۔۔۔
        صارم شاہ نے اس کے گلے کو دوپٹے سے آزاد کرتے اسکی گردن پہ شدت بھرا لمس چھوڑا تو عائلہ کے لبوں سے سسکاری خارج ہوئی تھی۔۔۔پھر وہ عائلہ کے لبوں کو اپنے پیار کے رنگوں سے رنگنے لگا۔۔۔
        عائلہ کی جان حلق میں اٹکی تھی جب اس نے اپنی شرٹ کھسکتے محسوس کی۔۔۔وہ بے اختیار بیڈ کی چادر کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ گئ۔۔۔صارم شاہ نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑتے انھیں تکیے کے ساتھ پن اپ کیا اور اک شدت بھرا لمس اسکی گردن پہ چھوڑا۔۔۔وہ جا بجا عائلہ کے چہرے کو چھو کر اپنے پیار سے اسے معتبر کرنے لگا۔۔۔صارم شاہ کی ہر شدت پہ عائلہ کو جیسے اپنی جان نکلتی محسوس ہونے لگی صارم شاہ کے پیار میں کیا کچھ اسے محسوس نہیں ہو رہا تھا احترام ، جنون ، عشق ، دیوانگی۔۔۔احترام و عزت میں لپٹی ایسی دیوانگی ایسا جنوں جو ہر لڑکی کی خواہش ہوتا ہے مگر ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا آج اپنی قسمت پہ بہت نازاں تھی وہ۔۔۔اور وہ کیوں نازاں نہ ہوتی کہ صارم شاہ جیسا دیوانہ عشق کی معراج کو چھونے والا کہاں ہر کسی کو نصیب ہوتا ہے۔۔۔
        یہ رات انکے ملن کی رات تھی۔۔۔انکے صبر کا پھل تھا اتنی مشکلوں مصیبتوں اور آمائشوں سے گزر کر یہ رات یہ ملن انکے لیے کسی تحفے سے کم نہیں تھا صارم شاہ کا پیار طلاطم خیز طوفان تھا جو اسے اپنی لپیٹ میں لیے ہوے تھا اور وہ تن من سے سب بھول کر اس میں ڈوبتی جا رہی تھی۔۔۔
        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
        مہدیہ کے چہرے پہ کھلتے رنگوں کو دیکھ کر رضوانہ خاتون نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا تھا کہ مہدیہ نے بلکل درست فیصلہ کیا تھا جھوٹی انا میں قید ہونے کی بجائے اس نے اپنی زندگی میں آئی خوشیوں کو پورے دل سے ویلکم کیا تھا۔۔۔
        صارم شاہ اور احتشام شاہ کا ولیمہ ایک دن رکھا گیا جبکہ دوسرے دن دلاور کے ولیمہ کی تقریب منعقد ہوئی۔۔
        فاطمہ نے طلحہ سے شادی سے صاف انکار کردیا تھا وہ اپنے دل کا حال مہدیہ سے بیان کر رہی تھی جب دلاور نے اسکی باتیں سن لیں اور بنا کچھ جتلائے بلال سے اسکی رضامندی جان کر ان دونوں کا نکاح پڑھوا دیا۔۔۔
        رشید احمد کو الّٰلہ کی طرف سے عبرت ناک بیماری نے آن گھیرا ڈاکٹروں کی سمجھ سے اسکی یہ بیماری باہر تھی اس کے تمام ٹیسٹ کلیئر تھے۔۔۔نہ وہ کچھ کھا سکتا تھا نہ پی سکتا تھا نہ وہ سکون سے سو پاتا۔۔۔دن بدن وہ سوکھ کر کانٹا بننے لگا۔۔۔اجالا کسی بدروح کی طرح اُسکے دل و دماغ سے چمٹ کر رہ گئ اسے ہر طرف وہ نظر آتی وہ چیختا چلاتا اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتا۔۔۔۔مہرالنساء اور اسکی بیٹیوں نے دل سے اپنے باپ کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ الّٰلہ سے اسکی بخشش اور آسانی کی دعا مانگنے لگیں۔۔۔
        اور پھر ایک دن انکی دعا قبول ہو گئ رشید احمد یونہی چیختا چلاتا ایک دن ایسا ہوش و حواس سے بیگانہ ہوا کہ پھر دوبارہ ہوش میں نہیں آیا۔۔۔
        لوگ اسکی موت پہ کانوں کو ہاتھ لگاتے۔۔۔پورے گاؤں میں وہ ایک عبرت کا نشان بن کر رہ گیا مائیں اپنے بچوں کی کسی بدتمیزی پہ یا نافرمانی پہ انکو رشید احمد کا حوالہ دینے لگیں کہ وہ ایک نافرمان بیٹا تھا برا شوہر تھا برا باپ تھا اسی لیے وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔۔۔
        ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

        ہائمہ خاتون کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے مہدیہ نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا۔۔۔فجر اور عینا عائلہ کی طرف بھی یکے بعد دیگرے ننھے مہمان کی آمد آمد تھی۔۔۔ہائمہ خاتون گھن چکر بن کر رہ گئیں ایک پیر انکا لاہور میں ہوتا تو دوسرا گاؤں میں۔۔۔
        اس میں کچھ شک نہیں کہ الّٰلہ اپنے صابر اور نیک بندوں کو ایک کڑی آزمائش سے ضرور گزارتا ہے اور جو اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں ان پہ یونہی نعمتوں کے خوشیوں کے دروازے کھول دیتا ہے
        ماں باپ کے نافرمان اور اخلاقی پستی کا شکار لوگ رشید احمد کی طرح ہمیشہ نشان عبرت بن کر رہ جاتے ہیں۔۔۔
        جبکہ عینا عائلہ صارم شاہ احتشام شاہ جیسی فرمانبردار اولادوں کو الّٰلہ دونوں جہاں میں نوازتا ہے
        دلاور ایک سلجھا ہوا نیک سیرت انسان تھا جس کی رگوں میں نیک ماں باپ کا خون دوڑ رہا تھا اسکے ماں باپ کی اچھائیاں اور الّٰلہ کے بندوں کے ساتھ کی جانے والی نیکیاں اسے اندھیروں سے روشنیوں میں لے آئی تھیں
        مہدیہ کے اندر شاہ سائیں کا خون تھا کوٹھے جیسی غلیظ جگہ پر پل بڑھ کر بھی اس نے اپنی عزت کو داغدار نہیں ہونے دیا تھا وہ اس ماحول کا حصہ نہیں بنی تھی اسکی زندگی میں آئی آزمائش کچھ لوگوں کو سبق سیکھانے کے لیے تھی۔۔۔ایک کڑی آزمائش سے گزرنے کے بعد الّٰلہ نے دلاور کی صورت میں اسکی محبت اسکی چاہت اسکو لوٹا دی تھی۔۔۔​

        Comment


        • #94
          اختتام
          رائیٹر کا بے حد ممنون و مشکور

          Comment


          • #95
            is kahani per eik bhi comment ya like na hona meri aqal say bilkul bahar hai. har eik page per like aur comment ka mauqa hi nahi mila. is kahani ka eik alag hi sehar hai.

            Comment


            • #96
              Bhaut achi kahani hai

              Comment


              • #97
                بہت ہی اچھی اور سبق آموز اسٹوری تھی شروع اول سے سب کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا اسکا اختتام بھی اسکے جیسا ہوا ایکدم دلفریب شکریہ

                Comment


                • #98
                  قابل تعریف کہانی
                  سبق آموذ
                  شکریہ جناب رائیٹر صاحب

                  Comment


                  • #99
                    کمال

                    Comment


                    • بہت ہی شاندار سٹوری ہے جناب

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X