Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    قسط نمبر 9

    ​پولیس نے مجھے عدالت سے کینال روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سینٹر منتقل کر دیا ۔ یہاں درجنوں اہلکار حفاظت پر مامور تھے جو کلاشنکوف سے مسلح تھے ۔مجھے یہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا ، کئی گھنٹوں بعد ایک پولیس اہلکار نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے’’ انٹرویو ‘‘کا لفظ بولا ۔ مجھے لگا کہ اب مجھ سے مزید تفتیش کی جائے گی ۔ وہ اہلکار مجھے اس کمرے سے نکال کر ایک بڑے کمرے میں لے گیا ۔ یہاں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ قونصلیٹ جنرل لاہور کی ایک ٹیم مجھ سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ اس ٹیم میں قونصلیٹ جنرل کارمیلا بھی شامل تھی۔ان سے میری پہلے بھی کئی بار ملاقات ہو چکی تھی ۔ قونصلیٹ کی ٹیم میں شامل میڈیکل ٹیم کے رکن نے میرا طبی معائنہ کیا ۔ اس دوران میں نے ٹیم پر واضح کر دیا کہ مجھ پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا ، کارمیلا نے مجھے کاپی اور پین تھماتے ہوئے کہا کہ اگر میں اپنی فیملی کو کوئی پیغام بھجوانا چاہتا ہوں تو اس کاپی پر لکھ دوں ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میری رہائی کے لئے بھی کوشش کی جا رہی ہے ۔
    میرے لئے سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ تھی کہ قونصلیٹ جنرل کی ذاتی دلچسپی کے باوجود مجھے یہ علم نہ تھا کہ میں کب تک پولیس کی حراست میں رہوں گا ۔ قونصلیٹ جنرل کی جانب سے میری رہائی کے حوالے سے کوئی واضح تاریخ نہ ملنے پر مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ اب مجھے کئی برس تک قید رہنا پڑے گا ۔ کسی غیر ملک میں گرفتاری جس قسم کی مایوسی اور بے چارگی کے احساسات کو جنم دیتی ہے ، وہ مجھے محسوس ہونے لگی تھی۔قونصلیٹ کے جانے کے بعد میں اپنے بستر پر لیٹ گیا اور اگلے چوبیس گھنٹے سویا رہا۔ اس کے بعد ایک بار پھر اہلکار نے مجھے بتایا کہ قونصلیٹ کی ٹیم مجھ سے ملنے آئی ہے ۔
    کارمیلا کی دی ہوئی کاپی پر میں نے اپنی بیوی اور بیٹے کے لئے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ میں ان سے بہت پیار کرتا ہوں اور مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے اور یہ کہ حالات بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے ۔ میں نے پولیس اہلکاروں سے اپنی اس کاپی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ۔ میری تفتیشی ٹیم یہ نہیں جانتی تھی کہ میرا امریکی فوج کی کس برانچ سے تعلق ہے ۔ ایک کنٹریکٹر کے طور پر میری ذمہ داری دفتر خارجہ کے عملہ کی حفاظت کرنا تھی لیکن سوال یہ تھا کہ کیا یہ ذمہ داری مجھے ایک سفارت کار کا درجہ دیتی تھی؟۔ پاکستان جیسے ملک میں سازشوں کی کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں اور لوگوں میں منفی باتوں کا رحجان ہے ، ان حالات میں میرا ایک خاص ایجنسی سے تعلق کی داستانیں پولیس اہلکاروں کو میرے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتی تھیں۔ اپنی فیملی کے نام پیغام میں نے قونصلیٹ جنرل کے اسسٹنٹ شین کے ہاتھ تھمایا اوراس کا ہاتھ گرمجوشی سے دبایا ۔ ملاقات کے دوران کارمیلا نے مجھے صاف بتا دیا کہ مجھے رہائی دلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں ۔ چودہ روزہ ریمانڈ میں پولیس مجھ سے کچھ بھی پوچھ سکتی ہے ۔ اس لئے میں ریمانڈ کے دوران پولیس کو بتاؤں کہ میری تعیناتی سفارت خانے میں ہوئی تھی اور یہ مطالبہ کروں کہ مجھے اسلام آباد میں موجود سفارتی مشن کے حوالے کیا جائے۔ چودہ دن کے بعد پولیس مجھ سے مزید تفتیش نہیں کر پائے گی۔
    جسمانی ریمانڈ کے دوران مجھے دن میں دو بار چاول اور مرغی کا سالن کافی مقدار میں ملتا تھا جسے میں نے جان بوجھ کر کھانے سے انکار کرنا شروع کر دیا ۔ مجھے پینے کے لئے ایک لیٹر پانی کی بوتل ملتی تھی جسے میں ایک دو گھنٹے میں ہی خالی کر دیتا اور مزید پانی طلب کرتا تھا۔ اس پر گارڈز نے مجھے کئی بوتلیں اکٹھی دینی شروع کر دیں ۔
    پولیس نے پہلے دن ہی میری گھڑی ، کیمرہ اور موبائل اپنے قبضے میں لے لئے تھے ۔ میرے کمرے میں چوبیس گھنٹے بلب روشن رکھے جاتے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی وقت پوچھ گچھ کے لئے کمرے میں آ سکتے تھے اور کوئی بھی سوال پوچھ لیتے تھے ۔
    پاکستانی پولیس کے بارے میں جو معلومات مجھے حاصل تھیں ان کی بنیاد پر مجھے یقین تھا کہ وہ مہارت کے فقدان کی وجہ سے مجھ سے کچھ بھی نہیں اگلوا سکیں گے ۔لاہور میں محض ایک درجن سے زائد تفتیشی پولیس آفیسر ہیں جن میں سے ہر ایک کو ہر ماہ لگ بھگ ڈھائی سو کیسز نمٹانے ہوتے ہیں ۔ کچھ تفتیشی آفیسر اچھی طبیعت کے مالک تھے جبکہ بعض دوران تفتیش موضوع سے ہٹ کرفضول سوالات پوچھنے لگتے تھے مثال کے طور پر کھانا ٹھیک مل رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مجھے مزنگ چونگی کے واقعہ کی تفصیلات بھی متعدد بار کئی پولیس افسروں سے سنانی پڑیں ۔ انہی میں ایک پولیس آفیسر طارق اپنی خوش مزاجی اور شستہ انگریزی کی وجہ سے مجھے بہت پسند تھا ۔ ایک موقع پر طارق نے کہا کہ اس کا ایک بھائی امریکا کی ریاست جارجیا میں پرانی گاڑیوں کی مرمت کرتا ہے ۔ اس سے مجھے لگا کہ طارق مجھ سے تعلق جوڑ کر دوبارہ سے مزنگ چونگی والے واقعہ کی تفصیلات پوچھنے لگے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس نے مجھ سے کبھی نہ پوچھا کہ میں لاہور کیوں آیا ہوں اور کیا کر رہا تھا ۔ وہ صرف امریکی فلموں ، طرز زندگی اور امریکی ثقافت پر باتیں کرنا پسند کرتا تھا ۔​

    Comment


    • #12
      قسط نمبر 10

      ​ایک اور پولیس افسر نے بھی مجھ سے تفتیش کی ۔ وہ بے تکلفی سے کمرے میں بیٹھ گیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اسے امریکی ایف بی آئی نے تربیت دی ہے ۔ وہ سفید پینٹ شرٹ اور ٹائی میں پولیس افسر کی بجائے بینکر لگتا تھا ۔ اس کا انداز عام پولیس والوں سے بہت مختلف تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کبھی لاہور میں ڈی ایچ اے گیا ہوں۔ میں نے اسے جواب دیتے ہوئے بہت محتاط رویہ اختیار کیا اور کہا کہ ایک آدھ بار میرا اس علاقہ میں جانا ہوا ہے ۔ اس کے بعد اس نے مزنگ چونگی والے واقعہ پر گفتگو شروع کر دی ۔ میں نے اسے کہا کہ میں اس سارے واقعہ کی تفصیل متعدد بار زبانی بتا چکا ہوں اور اپنا بیان بھی لکھ کر دے چکا ہوں اوراب اس سلسلے میں مزید کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا ۔ وہ چھ گھنٹے کمرے میں رہا ۔ اس دوران اس نے مجھے دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے ہوئے دیکھا لیکن بالآخر وہ بھی مایوس ہو کر کمرے سے باہر چلا گیا ۔

      پولیس ٹریننگ کالج میں چھٹا دن
      پولیس کی اس پوچھ گچھ کے دوران مجھے کئی عدالتوں میں پیش کیا گیا ۔ ایک عدالت میں مجھے غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کے الزام میں تو دوسری عدالت میں مزنگ چونگی میں دو بے گناہ افراد کے قتل کے کیس میں پیش کیا گیا۔ان دونوں عدالتوں کا ماحول ایک جیسا تھا یعنی چھوٹے تنگ اور غیر ہوادار کمرے تھے جو کسی صورت عدالت کا کمرہ محسوس نہیں ہوتے تھے ۔ اس کے باوجود وہاں بہت سارے لوگ اپنی جگہ بنا لیتے تھے ۔ اس کیس کے دوران میں نے پراسیکیوٹرکے بیان میں اہم تبدیلی محسوس کی ۔ پہلی پیشی پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مسٹر ڈیوس نے دو ایسے افراد کو گولی ماری جو اسے مارنا چاہتے تھے ۔ دونوں کے پاس اسلحہ اور گولیاں موجود تھیں ۔ اگلی پیشی پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو کہا کہ مسٹر ڈیوس نے دو ایسے افراد کو گولی ماری جو اسے مارنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ درست ہے کہ دونوں کے پاس اسلحہ موجود تھا لیکن ان کے پستول کے چیمبر میں کوئی گولی نہیں تھی ۔ اس غلط بیانی کی وجہ پولیس افسروں کی جانب سے دیا گیا مواد تھا ۔ اس کے بعد ایک پیشی میں پراسیکیوٹر نے کہا کہ جنہیں میں نے گولیاں ماریں وہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ تھے جو ڈی ایچ اے میں کسی کے ساتھ میری ملاقات کے بعد میرے پیچھے لگے تھے ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ایک پولیس افسر نے دوران تفتیش مجھے یہ کیوں کہا تھا کہ وہ ایف بی آئی کا تربیت یافتہ ہے اور اس نے مجھ سے ڈی ایچ اے کے بارے میں سوال کیوں کیا تھا ۔ اس سے اگلی پیشی پر پراسیکیوٹر صاحب نے دعویٰ کیا کہ دونوں مقتولین غیر مسلح تھے ۔ پراسیکیوٹر کے اس دعوی کو غلط ثابت کرنا اب میرے لئے بہت مشکل تھا کیونکہ میرا وہ کیمرہ پولیس کے پاس تھا جس سے میں نے اس حادثہ کے بعد دونوں مقتولین کی تصاویر بنائیں تھیں ۔ ان تصاویر میں مقتول فہیم کے ہاتھ میں پستول واضح طور پر نظر آ رہا تھا ۔
      مجھے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ ہر بار پراسیکیوٹر کے بیان بدل لینے کے باوجود جج نے اسے ٹوکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔پاکستان کے کمزور عدالتی نظام کا ذکر تفصیل سے یو ایس ایڈ کی 2008 کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے ۔ اس کیس کی پانچویں پیشی پر میں نے قونصلیٹ جنرل کارمیلا سے مایوسی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا مجھے وکیل مل سکتا ہے ۔ اس سے اگلی پیشی پر مجھے معاون مل گیا ۔ اس کا تعلق امریکن قونصلیٹ سے تھا اور وہ اچھی اردو بول سکتا تھا ۔ اسی دوران مجھے نیا سفارتی پاسورٹ اور ویزہ بھی جاری کر دیا گیا تھا جس کی معیاد 2016 تک تھی ۔امریکی حکومت کے نمائندے یا کنٹریکٹر کے لئے پاکستانی ویزے کی درخواست کی منظوری پاکستانی سفیر دیتا ہے ۔ پاکستانی حکام کے نرم موقف کی وجہ سے پاکستانی سفیر حسین حقانی بڑی فراخ دلی کے ساتھ امریکی حکام کو ویزے جاری کیا کرتے تھے۔انہوں نے ہی میرے اور دیگر کنٹریکٹرز کے ویزوں کی منظوری دی تھی۔ گمنام امریکی اہلکاروں کی اس بڑھتی تعداد پر پاکستانی حکام نالاں تھے لہذا انہوں نے امریکا کو حراساں کرنے کے لئے میرا کیس اچھالنا شروع کر دیا ۔ سب سے زیادہ موقع پرستی کا مظاہرہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا ۔ انہوں نے حکومت کے اصرار پر مجھے سفارتی استثنی دینے سے انکار کرتے ہوئے بیس جنوری کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

      ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا ۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے ۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’ کنٹریکٹر ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈیلی پاکستان آن لائن میں قسط وار پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کتاب پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جو خود کو کچھ بھی کہے لیکن پاکستان کے عوامی حلقوں میں اسے جاسوس قرار دیا جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم اور اسکے ’’مالکوں‘‘ کی فطرت اور طریقہ کار کو سامنے لانے کی غرض سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنا قومی مفاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب میں جو ’’انکشافات‘‘ کئے گئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ کتاب کا ترجمہ و تلخیص نامورتحقیقاتی صحافی سید بدر سعید نے کیاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں چھپنے والی پہلی اردو تحقیقاتی رپورٹ سید بدر سعید نے ہی لکھی تھی ۔ مصنف اس سے قبل ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ اور ’’صحافت کی مختصر تاریخ . قوانین و ضابطہ اخلاق ‘‘ جیسی تحقیقاتی کتب لکھ چکے ہیں ۔ انہیں دہشت گردی ، طالبانائزیشن اور انٹیلی جنس امور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان کے اہم صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں ۔

      Comment


      • #13
        قسط نمبر 11


        اپنے بیان میں انہوں (شاہ محمود قریشی ) نے کہا کہ ویانا کنوینشن 1961 اور 1963 کے تحت امریکی سفارت خانے کے اندھے استثنی کا مطالبہ کسی بھی صورت درست نہیں ہے ۔ یکم ستمبر کو کانگریس کے وفد نے بھی صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ۔ ان ملاقاتوں میں ویانا کنوینشن کے تحت میری رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔صدر زرداری کے امریکا سے اچھے تعلقات تھے لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی طور پر اتنے مستحکم نہیں تھے کہ میری رہائی کے سلسلے میں کوئی مدد کر سکتے ۔ میری رہائی کی صورت میں ان کے خلاف مظاہرے شروع ہو سکتے تھے سو انہوں نے میری قسمت کا فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیا ۔

        وزیر اعظم گیلانی بھی میری رہائی کے سلسلے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں میرے کیس کے بارے میں یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔اسی دوران ایک وکیل نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ کر دی کہ میری رہائی کی کوششوں پر پابندی عائد کی جائے جس پر عدالت نے مجھے امریکی حکام کے حوالے کرنے سے روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے میرا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا ۔اس کے ساتھ ہی میرے خلاف میڈیا پرلا تعدا د سازشی کہانیاں بھی گردش کرنے لگیں ۔ایک کہانی میں مجھے بلیک واٹر نامی تنظیم کا حصہ قرار دیا گیا جو پاکستان سے جوہری ہتھیار چرانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایک میڈیا نے یہ رپورٹ جاری کہ کہ مجھے فون پر صدر اوبامہ سے رابطہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ میں نے پاکستان کے حساس مقامات کی تصاویر بنائی ہیں جن میں نیوکلیئر تنصیبات بھی شامل ہیں ۔صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ نے میرے کیمرے سے کچھ مبینہ تصاویر کو میرے خلاف بطور ثبوت استعمال کرنے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ میں ایک جاسوس ہوں ۔ میرے خلاف سب سے منفی کہانی میرے جسمانی ریمانڈ کے چودھویں روز پاکستانی حکومت اور پولیس نے پھیلانے کی کوشش کی ۔ یہ کہانی مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ کنول کے حوالے سے تھی کہ اس نے زہریلی گولیاں نگل لیں ۔ اسے فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال لایا گیا جہاں اس نے کیمرے کے سامنے نزاعی بیان دیا کہ اسے انصاف کی امید نہیں اس لئے احتجاجاً خودکشی کی ہے۔اسی دوران میڈیا نے خبر جاری کی کہ شمائلہ کنول فوت ہو گئی ہے ۔ میڈیا نے اسے شہید ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ اس کی ماں معذور ہے ۔ اس کی فہیم سے چھ ماہ قبل شادی ہوئی تھی اور فہیم کی موت کے بعد سے وہ سخت ڈپریشن کا شکار تھی ۔ میرے لئے پریشانی کی بات یہ تھی کہ میں نو روز قبل نوجوان لیفٹیننٹ کی زبانی فہیم کی بیوہ کی خودکشی کی کہانی سن چکا تھا ۔ میں حیران تھا کہ یہ خبر کیوں نو دن تک میڈیا سے چھپائی گئی ۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے الائیڈ ہسپتال کے باہر کنول کی ہلاکت کے خلاف جبکہ کچھ نے لاہور میں امریکی قونصلیٹ کے باہر مظاہرہ کیا ۔ اس پراپگنڈے میں مجھے خوفناک عفریت کے طور پر پیش کیا گیا ۔ سڑکوں پر مظاہرین نے میرے پتلے جلائے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجھے پھانسی پر لٹکایا جائے ۔
        پولیس ٹریننگ کالج میں میری آزادی کے دن بھی ختم ہونے لگے تھے ۔ مجھے ایک چھوٹے اور اندھیرے کمرے میں رکھا جانے لگا۔ ان دنوں قونصلیٹ جنرل اور ان کے عملے سے ملاقاتیں میرے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھیں ۔
        چودہ روزہ ریمانڈ ختم ہونے کے بعد مجھے11 فروری 2011 کو ماڈل ٹاؤن میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر مسلح فوجی دستے نے گاڑی کو گھیرے میں لے رکھا تھا ۔ اس کی وجہ وہ خدشات تھے جن کے تحت مذہبی انتہا پسند عناصر عوامی پذیرائی کے لئے میرا خون بہانا چاہتے تھے۔پیشی کے دوران پراسیکیوٹر نے عدالت میں میرا مزید ریمانڈ مانگا۔ عدالت کی جانب سے ریمانڈ کی وجہ پوچھنے پر ایک پولیس افسر نے کہا کہ ملزم انتہائی مکار اور عیار ہے لہذا کیس کو مضبوط بنانے کے لئے مزید وقت کی ضرورت ہے ۔ جج نے انکار کرتے ہوئے چالان پیش کرنے کا حکم دیا ۔ اس پر میرے وکیل حسام قادری نے ایک درخواست جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ مجھے سفارتی استثنی حاصل ہے اور میرے خلاف مقدمہ بند کمرے میں چلایا جائے جبکہ میڈیا اور عوام کو اس کیس کی سماعت سے دور رکھا جائے ۔ وکیل حسام قادری کی انگریزی اتنی اچھی نہ تھی جس کی وجہ سے مجھے مایوسی ہوئی تاہم دلائل سننے کے بعد عدالت نے مجھے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ۔ (جاری ہے)


        Comment


        • #14
          قسط نمبر 12

          ​’’میں سی آئی اے کا ایجنٹ تھا‘‘ ۔ یہ ان جھوٹوں میں سے ایک تھا جو میڈیا نے میرے بارے میں پھیلا رہا تھا ۔ پاکستانی میڈیا خاص طور پر اس حوالے سے سخت کردار ادا کر رہا تھا ۔اس نے ہر طرح کے پاگل پن پر مبنی کہانیاں شائع کیں ۔ جیسے کہ کہا گیا کہ میری ذاتی افغان آرمی تھی اور میں طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔میں اسلام آباد میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف تھا اور ذاتی طور پر اسامہ بن لادن کو شکار کرنا چاہتا تھا ۔ اسی طرح کی کئی کہانیاں پھیلائی گئی تھیں جن پر میرا خاندان اور دوست اپنا سر پیٹنا شروع ہو گئے۔یہ خبر کہ میں ایک جاسوس تھا خاص طور پر میری بیوی کے لئے مشکل ترین خبر تھی کیونکہ اسے اس کے مبینہ نتائج بھگتنا پڑنا تھے ۔ جب لوگ دلچسپ اور غلط یا سچی مگر بے زار کہانی سنتے ہیں تو وہ دلچسپ مگر غلط بات کو آگے پھیلانے میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ مجھے اکثر بتایا گیا کہ مجھے باہر نکالنا امریکی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے لیکن مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے ۔ بہت کم لوگوں نے میری رہائی میں دلچسپی لی تھی ۔ امریکی حکومت نے دو طرفہ پالیسی اپنائی ، ایک وہ جو بظاہر دیکھی جا سکتی تھی اور دوسری وہ پالیسی جو خفیہ رکھی گئی۔پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر نے کہا کہ تم اس پالیسی کو پانی کے اوپر اور پانی کے نیچے کی پالیسی کے طور پر بیان کر سکتے ہو ۔ پانی کے اوپر ہم احتجاج کر رہے تھے کہ پاکستان کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ریمنڈ کو عدالت میں لیجائے جبکہ پانی کے نیچے وہ رہائی کے لئے مذاکرات شروع کر رہیے تھے ۔ اس کے علاوہ دو مزید کردار ایسے تھے جنہوں نے پانی کے نیچے مزید کام کیا ۔ ان میں ایک سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور دوسرے آئی ایس آئی کے ڈی جی شجاع پاشا تھے ۔

          کتاب میں ریمنڈ کی بیوی کے تاثرات بھی شامل ہیں ،وہ کہتی ہیں
          ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا اور اب مجھے یہ ڈر لاحق ہو گیا تھا کہ شاید وہ کبھی واپس نہ آ سکے ۔ ہماری شادی کے بعد ہم نے بہت کم وقت ایک ساتھ گزارا تھا ۔ ہمارے درمیان کوئی خاص رومانی تعلق بھی نہیں بن پایا تھا بلکہ کاروباری پارٹنر کی طرح ہم ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرتے تھے تاکہ ایک دوسرے کے لئے محبت کی بجائے اطمینان کا باعث بن سکیں ۔یہاں تک کہ جب وہ گھر ہوتا تھا تب بھی ذہنی طور پر گھر میں نہیں ہوتا تھا ۔ وہ جسمانی طور پر تو گھر میں ہی ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت بھی اس کا ذہن کہیں اور ہوتا تھا ۔ جب وہ اپنے مشن کے لئے پاکستان جانے کی تیاری کر رہا تھا تب ان چند ہفتوں کے دوران تو میں نے اسے بہت کم ہی دیکھا تھا ۔ میرے والد کینسر کی وجہ سے مر رہے تھے اور میں ان آخری ہفتوں میں ریمنڈ کو اپنے بیٹے کے پاس چھوڑ کر ایک ہفتے کے لئے اپنے والد کے گھر چلی گئی تھی تاکہ اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر انہیں ہسپتال داخل کروا سکوں اور ان کا گھر صاف کر سکوں ۔ جب میں واپس گھر آئی تو اس سے اگلے ہی روز ریمنڈ پاکستان چلا گیا تھا ۔
          جب ریمنڈ گرفتار ہوا تو اس کے سپروائزر ہر روز مجھے فون کر کے ساری صورت حال سے آگاہ کرتے تھے حالانکہ ایک اہم عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ بہت مصروف تھے لیکن اس کے باوجود وہ میرے لئے وقت نکالتے تھے اور میرے مسائل میں دلچسپی لیتے تھے ۔ ان دنوں وہ مجھ پر بہت مہربان رہے۔وہ میرے بچے کے بارے میں پوچھتے رہتے اور پھر دن کیسا گزرا ، کسی چیز کی ضرورت تو نہیں جیسی باتیں بھی پوچھتے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے مجھے ویلنٹائن ڈے پر بھی فون کیا اور تین ہفتوں بعد میری اور ریمنڈ کی شادی کی سالگرہ پر بھی ہم نے ہر چیز اور معاملے پر گفتگو کی ۔ اکثر تو ٹیلی فون پر یہ گفتگو ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہتی تھی ۔​

          Comment


          • #15
            قسط نمبر 13


            جنرل شجاع پاشا کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے دو ماہ بعد ہی ممبئی حملہ ہو گیا تھا ۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان برسوں سے چلتی کشیدگی میں میرے واقعہ کے بعد مزید اضافہ ہو گیا ۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ جان کیری کے 15 فروری کو پاکستان آنے سے پہلے جنرل شجاع امریکا گئے تھے اور صاف صاف پوچھا تھا کہ کیا ریمنڈ سی آئی اے کے لئے کام کرتا تھا ؟ انہیں بتایا گیا کہ ریمنڈ کا سی آئی اے سے تعلق نہیں اوراس معاملہ کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ دیکھ رہا ہے نہ کہ سی آئی اے ۔ اس جواب نے جنرل شجاع پاشا کے غصے میں مزید اضافہ کر دیا تھا ۔ اس کے بعد وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ میری ملازمت کی نوعیت کی وضاحت کی گئی تو شجاع پاشا کو بات سمجھ آگئی ۔

            جنرل شجاع پاشا بھی پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کی طرح مجھے اس وقت تک جیل میں رکھنے کے خواہش مند تھے جب تک کہ اس سارے معاملے کا کوئی حل نہ نکل آئے ۔ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی تھے ۔ انہیں بھی اس سلسلے میں میری رہائی کے لئے کہا گیا ۔ عام طور پر انہیں امریکا کی جانب جھکاؤ رکھنے والے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن حسین حقانی نے بھی میرے حوالے سے تعاون نہیں کیا ۔ اس کے بعد دونوں افواج کے اعلی افسران اومان کے ساحل پر لگژری سیر گاہ میں ملے ۔ یہ انتہائی خفیہ ملاقات میرے گرفتار ہونے سے کافی پہلے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے طے کی گئی تھی لیکن ملاقات کا زیادہ حصہ میری گرفتاری کے حوالے سے گفتگو پر مشتمل رہا ۔ دونوں جانب سے اتفاق رائے پر یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ۔ چیئرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن نے رپورٹرز سے کہا کہ میں اس مشکل صورت حال میں وقت دینے اور مذاکرات جاری رکھنے پر جنرل کیانی کا شکر گزار ہوں جبکہ جنرل کیانی نے کہا کہ مجھے امریکی فوج کے افسران سے اس ملاقات پر خوشی ہے جس میں انتہا پسندی کے خلاف کی جانے والی ہماری کوششوں اور میری اس سوچ پر تبادلہ خیال ہوا کہ کیسے ہم دونوں بہتر تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں ۔ یہ تعلقات دونوں کے لئے ہی کسی امتحان سے کم نہ تھے لیکن مولن اور کیانی کی اس ملاقات کے بعد میری رہائی کے امکانات بڑھ گئے تھے ۔ اگرچہ اس حوالے سے پیش رفت ہو رہی تھی لیکن کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی رفتار بہت کم ہے۔یہ معاملہ لٹکنے سے لوگوں میں ہیجانی کیفت بڑھتی جا رہی تھی ۔
            واشنگٹن سے لوگوں نے مجھے پیغامات بھیجے کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا میرے معاملات کو لٹکانا چاہتے ہیں ،وہاں کیا ہو رہا ہے اور ہم کیا کرنے لگے ہیں ؟اور میں انہیں کہتا کہ ہمیں صبر سے کام لینا چاہیئے کیونکہ ہمارے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں ۔
            دسمبر 2010 میں لیون صدر اوبامہ سے ملے اور انہیں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں ہونے کے وسیع امکانات سے آگاہ کیا ۔ صدر اوبامہ نے انہیں اسامہ بن لادن کو پکڑنے ، مارنے کے منصوبے پر کام کرنے کا کہاجس کے بعد انہوں نے ایڈمرل ولیم کے ساتھ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ فروری 2011 کے آخر میں جب میں کوٹ لکھپت جیل میں قید تھا تب اسامہ کے کمپاؤنڈ میں حملہ کے لئے تین ممکنہ حملوں کی آپشنز بنائی گئی تھیں ۔ پہلی آپشن کے مطابق بمبار طیارے کی مدد سے پورے کمپاؤنڈ اور اس کے نیچے ممکنہ سرنگ کو تباہ کرنا تھا ۔دوسری آپشن کئے مطابق ہیلی کاپٹر کے ذریعے براہ راست سپیشل فورسسز کو نیچے اتارنا تھا اور تیسری آپشن کے مطابق پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لے کر انہیں آپریشن میں معاونت کا موقع دینا تھا،تاہم تیسری آپشن کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔
            پانچ ہفتے گزر جانے کے بعد میں نا امید ہونا شروع ہو گیا ۔ اس وقت تک اگر کوئی اچھی خبر تھی تو وہ یہ تھی کہ میرے خلاف کوئی باضابطہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی ۔ میں بخاری کا شکر گزار ہوں کہ اس کا موقف عدالت نے تسلیم کر لیا کہ مجھے اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات ابھی تک موصول نہیں ہوئیں ۔ جج نے جوڈیشل ریمانڈ بڑھاتے ہوئے سماعت ملتوی کر کے اگلی تاریخ دے دی تاکہ اس دوران میری لیگل ٹیم کو متعلقہ دستاویزات فراہم کی جا سکیں ۔​

            Comment


            • #16
              آخری قسط


              یہ منصوبہ اسی صورت کامیاب ہو سکتا تھا جب خاندان کے 18 افراد دیت پر راضی ہو جاتے ۔ اسی لئے آئی ایس آئی کے لوگوں نے وکیل کی مدد سے خاندان کے ہر فرد پر حسب ضرورت دباو ڈالا لیکن ان میں سے کئی افراد نے مزاحمت کی ۔ان میں سے ایک مقتول کا بھائی تھا جس پر مذہبی سیاسی راہنماؤں نے انصاف لینے کے لئے زور ڈال رکھا تھا ۔ وہ کئی ہفتوں تک راضی نہیں ہوئے ۔
              آئی ایس آئی کے لوگوں نے14 مارچ کو مداخلت کی اور 18 لوگوں کو جیل میں بند کر دیا ۔ جس دن میری قسمت کا فیصلہ ہونا تھا اس روز تک انہیں قید رکھا گیا ۔ 16 مارچ سے ایک رات قبل مقتول کے خاندان کے ان افراد کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ دیت قبول کر لیں، اگر وہ دیت قبول کر لیں تو انہیں ایک بڑی رقم دی جائے گی ، دوسری صورت میں نتائج اگلی صبح ان پر واضح کر دیے گئے ۔ انہیں کئی گھنٹے تک گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور میڈیا کے سامنے ایک لفظ بھی بولنے سے سختی سے منع کیا گیا۔16 مارچ کو عدالت کے سامنے دیکھا گیا کہ ان خواتین کی حالت بہت پتلی تھی اور وہ رو رہی تھیں ۔ ان کے نئے وکیل ارشاد نے عدالت کے سامنے ان کی دستخط شدہ دستاویز پیش کیں جن میں مقتول کے خاندان کے 18 افراد کی جانب سے ملزم کو معاف کرنے اور دیت لینے پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔​

              جج نے خاندان کے افراد کو اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے دستاویزات دکھانے کو کہا اور پھر ان کو رسید دی گئی جس میں خاندان کے 18 افراد کو دی جانے والی رقم لکھی تھی ۔ انہیں فی کس ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر جبکہ مجموعی طور پر 23 لاکھ 40 ہزارڈالر دیے گئے جو پاکستان کی تاریخ میں خون بہا کی سب سے زیادہ رقم تھی۔
              ہر رشتہ دار کی جانب سے دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد جج نے ان سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی کو بھی اس کے لئے مجبور تو نہیں کیا گیا ؟ اٹھارہ کے اٹھارہ افراد نے نفی میں جواب دیا ۔ اس کے بعد جج نے ڈیفنس اور پراسیکیوٹر کو بھی یاد دلایا کہ وہ چاہیں تو اس پر اعتراض کر سکتے ہیں لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا ۔ اس دن مقتول کے خاندان کو سمجھانے کے لئے کارروائی اردو میں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے مجھے کارروائی کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مجھے کارمیلا نے بتایا کہ تمام افراد نے دیت قبول کر لی ہے اور تم اب رہا ہونے والے ہو ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کب؟ تو اس نے کہا کہ جتنی جلدی یہ ساری کارروائی مکمل ہو جائے ۔ باہر گاڑی کھڑی ہے اور ڈیل نامی ایک شخص تمہیں ایئرپورٹ لے جائے گا جہاں تمہیں میڈیکل ٹیسٹ کی ضرورت ہو گی ۔ اس کے بعد تم جہاز میں یہاں سے نکل جاؤ گے اور اس کے بعد تمہیں گھر بھجوایا جائے گا۔ میں حیرت سے اس کی بات سن رہا تھا ۔ میں اتنی جلدی اس ساری کارروائی کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔ ہیلری کلنٹن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروانے کے لئے پیسے نہیں دیئے ۔ ایک لحاظ سے وہ تکنیکی طور پر درست تھیں کیونکہ یہ پیسے آئی ایس آئی نے دیے تھے اور امریکا نے بعد میں انہیں ادا کر دیئے تھے۔
              جب میں باہر گاڑی کی طرف آیا تو کچھ ہچکچاہٹ کا شکار تھا کیونکہ میں نے اس سے قبل ڈیل کو نہیں دیکھا تھا لیکن سفارت خانے کی جانب سے متعین ڈاکٹر بھی وہیں موجود تھا ۔ دو اور افراد بھی وہاں تھے جو پاکستانی معلوم ہوتے تھے ۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ ایک سیٹ پر ایک کرنل بھی بیٹھا ہوا تھا اور ڈرائیور بھی امریکی سفارت خانے سے تھا۔ ایئرپورٹ پہنچ کر مجھے ڈیل نے بتایا کہ اب پاکستانی ڈاکٹر تمہارا معائینہ کرے گا جس کے بعد ہم جہاز میں بیٹھ کر چلے جائیں گے ۔ اس کام میں کچھ دیر ہو گئی جس کے بعد ڈیل نے مجھے کپڑے بدلنے نہیں دیے اور کہا کہ جہاز میں تبدیل کر لینا، ابھی ہم نے یہاں سے نکلنا ہے۔وہاں دو انجنوں والا جہاز کھڑا تھا ۔ جس وقت میں جہاز کی جانب بڑھ رہا تھا تب بھی اپنی شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا۔ سوٹ میں ملبوس ایک بوڑھا آدمی سیڑھیوں کے نیچے کھڑا تھا ۔ اس کے پیچھے سے ایک خاتون آئی اور اس شخص کا باقاعدہ تعارف کروایا ۔ وہ پاکستان میں متعین امریکی سفیر کیمرون تھے ۔ میں نے انہیں برادرانہ طور پر گلے لگایا ۔ انہوں نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ میرا بھاری بیگ اٹھا کر خود جہاز تک لیجانے پر اصرار کرنے لگے ۔ وہ بھی میری سکیورٹی کے لئے جہاز میں میرے ساتھ جا رہے تھے ۔ سفیر نے دوران پرواز سیٹلائیٹ فون سے متعدد فون کالز کیں ۔ ایک کال کے دوران انہوں نے مجھے فون دیتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن لائن پر ہیں ، ان سے بات کریں ۔ میں نے گلا صاف کیا اور فون پر بات کی جس پر ہیلری نے کہا کہ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ محفوظ ہیں اور ہمیں آپ پر فخر ہے ۔ میں نے بہتر ٹیم فراہم کرنے اور رہا کروانے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
              11 اپریل کو جنرل پاشا امریکا آئے اور ایڈمرل مائیک مولن کو پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا لیکن اس ملاقات میں جو پیش رفت ہوئی وہ تین ہفتوں بعد اس وقت ختم ہو گئی جب امریکی فورسز نے ایبٹ آباد میں موجود کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا ۔ پاکستانی حکام نے توقع سے زیادہ سخت ردعمل دیا اور اسے پاکستان کی سلامتی پر حملہ قرار دیا لیکن جب گرد بیٹھی تو ایک بار پھر ذمہ داری انہی پر تھی کہ بتائیں کیسے دنیا کا خطرناک ترین دہشت گرد 6 سال سے ان کی ممتاز ملٹری اکیڈمی سے ایک میل کے فاصلے پر رہ رہا تھا۔
              پاکستان اور امریکا کے تعلقات ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے تین ہفتوں بعد پھر خراب ہو چکے تھے۔!!
              (ختم شد)​

              Comment

              Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

              Working...
              X