Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

محسن نقوی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا
    محسن نقوی



    فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا
    بدن دریدہ کسی کو لباس کیا دے گا
    یہ دل کہ قحط انا سے غریب ٹھہرا ہے
    مری زباں کو زر التماس کیا دے گا
    جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
    وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا
    یہ شہر یوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں
    دلوں کا شور ہوا کو ہراس کیا دے گا
    وہ زخم دے کے مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے
    اب اس سے بڑھ کے طبیعت شناس کیا دے گا
    جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک
    وہ پتھروں کو متاع حواس کیا دے گا
    وہ میرے اشک بجھائے گا کس طرح محسنؔ
    سمندروں کو وہ صحرا کی پیاس کیا دے گا

    Comment


    • #62
      لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی
      محسن نقوی


      لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی
      میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی
      اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم
      بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی
      اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
      ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی
      وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی
      ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی
      زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر
      کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گرد رہ گزار کے بھی
      مجھے نہ سن مرے بے شکل اب دکھائی تو دے
      میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی
      مری دعا کو پلٹنا تھا پھر ادھر محسنؔ
      بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی

      Comment


      • #63
        غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تو
        محسن نقوی


        غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تو
        ہے میرا سخن تو مرا موضوع سخن تو
        کلیوں کی طرح پھوٹ سر شاخ تمنا
        خوشبو کی طرح پھیل چمن تا بہ چمن تو
        نازل ہو کبھی ذہن پہ آیات کی صورت
        آیات میں ڈھل جا کبھی جبریل دہن تو
        اب کیوں نہ سجاؤں میں تجھے دیدہ و دل میں
        لگتا ہے اندھیرے میں سویرے کی کرن تو
        پہلے نہ کوئی رمز سخن تھی نہ کنایہ
        اب نقطۂ تکمیل ہنر محور فن تو
        یہ کم تو نہیں تو مرا معیار نظر ہے
        اے دوست مرے واسطے کچھ اور نہ بن تو
        ممکن ہو تو رہنے دے مجھے ظلمت جاں میں
        ڈھونڈے گا کہاں چاندنی راتوں کا کفن تو

        Comment


        • #64
          کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
          محسن نقوی


          کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
          اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر
          تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
          مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأت اظہار پر
          شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
          جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر
          سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول
          میں نے دیکھا ہے نیا منظر فراز دار پر
          اب کوئی تہمت بھی وجہ کرب رسوائی نہیں
          زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر
          میں سر مقتل حدیث زندگی کہتا رہا
          انگلیاں اٹھتی رہیں محسنؔ مرے کردار پر

          Comment


          • #65
            جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا
            محسن نقوی


            جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا
            وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا
            اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی
            بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا
            اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اس کے گرد
            میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا
            شاید کہ فصل سنگ زنی کچھ قریب ہے
            وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے گیا
            اہل طلب پہ اس کے لیے فرض ہے دعا
            خیرات میں وہ چند نوالے تو دے گیا
            محسنؔ اسے قبا کی ضرورت نہ تھی مگر
            دنیا کو روز و شب کے دشالے تو دے گیا

            Comment


            • #66
              ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا
              محسن نقوی


              ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا
              کہ پیرہن تو گیا تھا بدن بھی چاک ہوا
              اب اس سے ترک تعلق کروں تو مر جاؤں
              بدن سے روح کا اس درجہ اشتراک ہوا
              یہی کہ سب کی کمانیں ہمیں پہ ٹوٹی ہیں
              چلو حساب صف دوستاں تو پاک ہوا
              وہ بے سبب یوں ہی روٹھا ہے لمحہ بھر کے لئے
              یہ سانحہ نہ سہی پھر بھی کرب‌ ناک ہوا
              اسی کے قرب نے تقسیم کر دیا آخر
              وہ جس کا ہجر مجھے وجہ انہماک ہوا
              شدید وار نہ دشمن دلیر تھا محسنؔ
              میں اپنی بے خبری سے مگر ہلاک ہوا

              Comment


              • #67
                بہترین اپڈیٹ
                مزید کا انتظار ہے

                Comment


                • #68
                  Originally posted by alone_leo82 View Post
                  زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
                  محسن نقوی

                  زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
                  بعض اوقات مری روح غضب کرتی ہے
                  جو تری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں
                  چاندنی ایسے اندھیروں کا ادب کرتی ہے
                  اپنے انصاف کی زنجیر نہ دیکھو کہ یہاں
                  مفلسی ذہن کی فریاد بھی کب کرتی ہے
                  صحن گلشن میں ہواؤں کی صدا غور سے سن
                  ہر کلی ماتم‌ صد جشن طرب کرتی ہے
                  صرف دن ڈھلنے پہ موقوف نہیں ہے محسنؔ
                  زندگی زلف کے سائے میں بھی شب کرتی ہے
                  Boht khoobsurat nazam dil ko cho Lyne wali boht aala

                  Comment


                  • #69
                    اپنے اسلوب کے ایک منفر شاعر تھے

                    Comment


                    • #70
                      کیا کہنے محسن نقوی کی شاعری کے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X