Baht awala kamal ki shairy ha
Announcement
Collapse
No announcement yet.
محسن نقوی
Collapse
X
-
خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلامحسن نقوی
خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلامری غزل کا خزانہ ترے بدن میں کھلاتم اس کا حسن کبھی اس کی بزم میں دیکھوکہ ماہتاب سدا شب کے پیرہن میں کھلاعجب نشہ تھا مگر اس کی بخشش لب میںکہ یوں تو ہم سے بھی کیا کیا نہ وہ سخن میں کھلانہ پوچھ پہلی ملاقات میں مزاج اس کاوہ رنگ رنگ میں سمٹا کرن کرن میں کھلابدن کی چاپ نگہ کی زباں بھی ہوتی ہےیہ بھید ہم پہ مگر اس کی انجمن میں کھلاکہ جیسے ابر ہوا کی گرہ سے کھل جائےسفر کی شام مرا مہرباں تھکن میں کھلاکہوں میں کس سے نشانی تھی کس مسیحا کیوہ ایک زخم کہ محسنؔ مرے کفن میں کھلا
- Likes 1
Comment
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہےمحسن نقوی
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہےتو دیر تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہےہم ایسے خاک نشیں کیا لبھا سکیں گے اسےوہ اپنا عکس بھی میزان زر میں تولتا ہےجو ہو سکے تو یہی رات اوڑھ لے تن پربجھا چراغ اندھیرے میں کیوں ٹٹولتا ہےاسی سے مانگ لو خیرات اپنے خوابوں کیوہ جاگتی ہوئی آنکھوں میں نیند گھولتا ہےسنا ہے زلزلے آتے ہیں عرش پر محسنؔکہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
- Likes 1
Comment
مری گلی کے غلیظ بچو
ومری گلی کے غلیظ بچوتم اپنے میلے بدن کی ساری غلاظتوں کو ادھار سمجھوتمہاری آنکھیںاداسیوں سے بھری ہوئی ہیںازل سے جیسے ڈری ہوئی ہیںتمہارے ہونٹوں پہ پیڑھیوں کی جمی ہوئی تہہ یہ کہہ رہی ہےحیات کی آب جو پس پشت بہہ رہی ہےتمہاری جیبیں منافقت سے اٹی ہوئی ہیںسبھی قمیصیں پھٹی ہوئی ہیںتمہاری پھیکی ہتھیلیوں کی بجھی لکیریںبقا کی ابجد سے اجنبی ہیںتمہاری قسمت کی آسمانی نشانیاں اب خطوط وحدانیت کا مقسوم ہو رہی ہیںنظر سے معدوم ہو رہی ہیںمری گلی کے غلیظ بچوتمہارے ماں باپ نے تمدن کا قرض لے کرتمہاری تہذیب بیچ دی ہےتمہارا استاد اپنی ٹوٹی ہوئی چھڑی لے کے چپ کھڑا ہےکہ اس کے سوکھے گلے میں نان جویں کا ٹکڑا اڑا ہوا ہےمری گلی کے غلیظ بچوتمہارے میلے بدن کی ساری غلاظتیں اب گئے زمانوں کے ارمغاں ہیںتمہارے ورثے کی داستاں ہیںانہیں سنبھالوکہ آنے والا ہر ایک لمحہ تمہارے جھڑتے ہوئے پپوٹوں سے جانے والے دنوں دنوں کی اتار لے گامری گلی کے غلیظ بچوضدوں کو چھوڑوقریب آؤرتوں کی نفرت کو پیار سمجھوخزاں کو رنگ بہار سمجھوغلاظتوں کو ادھار سمجھو
- Likes 1
Comment
میں سوچتا ہوںمحسن نقوی
فراق صبحوں کی بجھتی کرنیںوصال شاموں کی جلتی شمعیںزوال زرداب خال و خد سے اٹے زمانےیہ ہانپتی دھوپ کانپتی چاندنی سے چہرےہیں میرے احساس کا اثاثہبہار کے بے کنار موسم میں کھلنے والےتمام پھولوں سے پھوٹتے رنگوحشتوں میں گھرےلبوں کے کھلے دریچوں سے بہنے والے حروف میری نشانیاں ہیں
- Likes 1
Comment
وہ شاخ مہتاب کٹ چکی ہےمحسن نقوی
بہت دنوں سےوہ شاخ مہتاب کٹ چکی ہےکہ جس پہ تم نے گرفت وعدہ کی ریشمی شال کے ستارے سجا دیئے تھےبہت دنوں سےوہ گرد احساس چھٹ چکی ہےکہ جس کے ذروں پہ تم نےپلکوں کی جھالروں کے تمام نیلم لٹا دیئے تھےاور اب تو یوں ہے کہ جیسےلب بستہ ہجرتوں کا ہر ایک لمحہطویل صدیوں کو اوڑھ کر سانس لے رہا ہےاور اب تو یوں ہے کہ جیسے تم نےپہاڑ راتوں کومیری اندھی اجاڑ آنکھوں میںریزہ ریزہ بسا دیا ہےکہ جیسے میں نےفگار دل کا ہنر اثاثہکہیں چھپا کر بھلا دیا ہےاور اب تو یوں ہے کہاپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کرمرے بدن پر سجے ہوئے آبلوں سے بہتا لہو نہ دیکھومجھے کبھی سرخ رو نہ دیکھونہ میری یادوں کے جلتے بجھتے نشاں کریدونہ میرے مقتل کی خاک دیکھواور اب تو یوں ہے کہاپنی آنکھوں کے خواباپنے دریدہ دامن کے چاک دیکھوکہ گرد احساس چھٹ چکی ہےکہ شاخ مہتاب کٹ چکی ہے
- Likes 1
Comment
مرا ہونا نہ ہونامحسن نقوی
مرا ہونا نہ ہونا منحصر ہےایک نقطے پروہ اک نقطہجو دو حرفوں کو آپس میں ملا کرلفظ کی تشکیل کرتا ہےوہ اک نقطہ سمٹ جائے توہونے کا ہر اک امکاںنہ ہونے تک کا سارا فاصلہپل بھر میں طے کر لےوہی نقطہ بکھر جائےتو ہر اک شےنہ ہونے کے قفس کی تیلیوں کو توڑ کر رکھ دےوہ ایک نقطہ مری آنکھوں میں اکثرروشنی کے ساتھ رنگوں کو اگاتا ہےمرے ادراک میں شبنم کی صورتیا ستارے کی طرح لوح یقیں پر جگمگاتا ہےوہی نقطہ مجھے تشکیک کے جنگل میںجگنو بن کے منزل کی طرف رستہ دکھاتا ہےمجھے اکثر بتاتا ہےمرا ہونا نہ ہونے کا عمل سےمرے ہونے کی بھی تکمیل ہوتی ہےوہ اک نقطہ کہاں ہےکون ہےکس کے لبوں میں چھپ کے ہر اثبات کوانکار میں تبدیل کرتا ہےجو دو حرفوں کو آپس میں ملا کر لفظ کی تشکیل کرتا ہےیہ نکتہ بھی اسی نقطے میں مضمر ہےوہ ایک نقطہ کہ اب تک جس کے ہونے کا امیں ہوں میںوہ افشا ہو تو میں سمجھوںکہ ہوں بھی یا نہیں ہوں میں
- Likes 1
Comment
مری اداسی کا زرد موسممحسن نقوی
مری اداسی کا زرد موسماگر کسی دنمری بجھی آنکھ کے کنارےبھگو بھگو کرانا کے پاتال کی کسی تہہ میںایک پل کو ٹھہر گیا تومجھے یقیں ہےکہ ٹوٹتے دل میں خواہشوں کاکوئی چھناکامرا بدن بھی نہ سن لے
- Likes 1
Comment
میں نے اکثر خواب میں دیکھامحسن نقوی146میں نے اکثر خواب میں دیکھاخوف تراشے کہساروں کی گود میں جیسےاک پتھریلی قبر بنی ہےقبر کی اجلی پیشانی پردھندلے میلے شیشے کی تختی کے پیچھےتیرا نام لکھا ہےتیرا میرا نام کہ جس میںشیشے پتھر جیسی کوئی بات نہیں ہےتیری شہرت میں بھیمیری رسوائی کا ہات نہیں ہےپھر بھیسوچومیں نے اکثر خواب میں دیکھا
- Likes 1
Comment
Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)
Powered by vBulletin® Version 5.7.5
Copyright © 2024 MH Sub I, LLC dba vBulletin. All rights reserved.All times are GMT+5. This page was generated at 02:15 PM.Working...X
Comment