Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

محسن نقوی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #81
    میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
    محسن نقوی



    میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
    سایۂ‌ شام غریباں کی طرح
    شورش دیدۂ گریاں کی طرح
    موسم‌ کنج بیاباں کی طرح
    کتنا بے نطق ہے یادوں کا ہجوم
    جیسے ہونٹوں کی فضا یخ بستہ
    جیسے لفظوں کو گہن لگ جائے
    جیسے روٹھے ہوئے رستوں کے مسافر چپ چاپ
    جیسے مرقد کے سرہانے کوئی خاموش چراغ
    جیسے سنسان سے مقتل کی صلیب
    جیسے کجلائی ہوئی شب کا نصیب
    میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
    پھر سے زخموں کی قطاریں جاگیں
    اول شام چراغاں کی طرح
    ہر نئے زخم نے پھر یاد دلایا مجھ کو
    اسی کمرے میں کبھی
    محفل احباب کے ساتھ
    گنگناتے ہوئے لمحوں کے شجر پھیلتے تھے
    رقص کرتے ہوئے جذبوں کے دہکتے لمحے
    قریۂ جاں میں لہو کی صورت
    شمع وعدہ کی طرح جلتے تھے
    سانس لیتی تھی فضا میں خوشبو
    آنکھ میں گلبن مرجاں کی طرح
    سانس کے ساتھ گہر ڈھلتے تھے
    آج کیا کہیے کہ ایسا کیوں ہے
    شام چپ چاپ
    فضا یخ بستہ
    دل مرا دل کہ سمندر کی طرح زندہ تھا
    تیرے ہوتے ہوئے تنہا کیوں ہے
    تو کہ خود چشمۂ آواز بھی ہے
    میری محرم مری ہم راز بھی ہے
    تیرے ہوتے ہوئے ہر سمت اداسی کیسی
    شام چپ چاپ
    فضا یخ بستہ
    دل کے ہم راہ بدن ٹوٹ رہا ہو جیسے
    روح سے رشتۂ جاں چھوٹ رہا ہو جیسے
    اے کہ تو چشمۂ آواز بھی ہے
    حاصل نغمگیٔ ساز بھی ہے
    لب کشا ہو کہ سر شام فگار
    اس سے پہلے کہ شکستہ دل میں
    بد گمانی کی کوئی تیز کرن چبھ جائے
    اس سے پہلے کہ چراغ وعدہ
    یک بہ یک بجھ جائے
    لب کشا ہو کہ فضا میں پھر سے
    جلتے لفظوں کے دہکتے جگنو
    تیر جائیں تو سکوت شب عریاں ٹوٹے
    پھر کوئی بند گریباں ٹوٹے
    لب کشا ہو کہ مری نس نس میں
    زہر بھر دے نہ کہیں
    وقت کی زخم فروشی پھر سے
    لب کشا ہو کہ مجھے ڈس لے گی
    خود فراموشی پھر سے
    میرے کمرے میں اتر آئی
    خموشی پھر سے

    Comment


    • #82
      اس سمت نہ جانا جان مری
      محسن نقوی


      اس سمت نہ جانا جان مری
      اس سمت کی ساری روشنیاں
      آنکھوں کو بجھا کر جلتی ہیں
      اس سمت کی اجلی مٹی میں
      ناگن آشائیں پلتی ہیں
      اس سمت کی صبحیں شام تلک
      ہونٹوں سے زہر اگلتی ہیں
      اس سمت نہ جانا جان مری
      اس سمت کے آنگن مقتل ہیں
      اس سمت دہکتی گلیوں میں
      زہریلی باس کا جادو ہے
      اس سمت مہکتی کلیوں میں
      کافور کی قاتل خوشبو ہے
      اس سمت کی ہر دہلیز تلے
      شمشان ہے جلتے جسموں کا
      اس سمت فضا پر سایہ ہے
      بے معنی مبہم اسموں کا
      اس سمت نہ جانا جان مری
      اس سمت کی ساری پھلجھڑیاں
      بارود کی تال میں ڈھلتی ہیں
      اس سمت کے پتھر رستوں میں
      منہ زور ہوائیں چلتی ہیں
      اس سمت کی ساری روشنیاں
      آنکھوں کو بجھا کر جلتی ہیں
      اس سمت کے وہموں میں گھر کر
      کھو بیٹھو گی پہچان مری
      اس سمت نہ جانا جان مری

      Comment


      • #83
        خدشہ
        محسن نقوی




        یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور
        یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار
        یہ تیرے لب یہ دیار یمن کے سرخ عقیق
        یہ آئنے سی جبیں سجدہ گاہ لیل و نہار
        یہ بے نیاز گھنے جنگلوں سے بال ترے
        یہ پھولتی ہوئی سرسوں کا عکس گالوں پر
        یہ دھڑکنوں کی زباں بولتے ہوئے آبرو
        کمند ڈال رہے ہیں مرے خیالوں پر
        تری جبیں پہ اگر حادثوں کے نقش ابھریں
        مزاج گردش دوراں بھی لڑکھڑا جائے
        تو مسکرائے تو صبحیں تجھے سلام کریں
        تو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آئے
        مگر میں شہر حوادث کے سنگ زادوں سے
        یہ آئنے سا بدن کس طرح بچاؤں‌ گا
        مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے قرب سمیت
        میں خود بھی دکھ کے سمندر میں ڈوب جاؤں گا

        Comment

        Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

        Working...
        X