Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

امجد اسلام امجد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • امجد اسلام امجد

    محبت کی ایک نظم
    امجد اسلام امجد


    محبت کی ایک نظم
    اگر کبھی میری یاد آئے
    تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
    کسی ستارے کو دیکھ لینا
    اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
    تمہارے قدموں میں آ گرے
    تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
    اگر نہ آئے
    مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
    کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
    تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
    وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
    اگر کبھی میری یاد آئے
    گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
    میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
    مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
    میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
    اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
    تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
    کہیں پہ روشن چراغ دیکھو
    تو جان لینا کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
    تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
    میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
    کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ
    رک کے تم کو صدائیں دوں گا
    سمندروں کے سفر پہ نکلو
    تو اس جزیرے پہ بھی اترنا

  • #2
    ذرا سی بات
    امجد اسلام امجد


    زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
    وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
    سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
    ہجر کے سمندر میں
    تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
    تم کو جو سنانی ہے
    بات گو ذرا سی ہے
    بات عمر بھر کی ہے
    عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
    درد کے سمندر میں
    ان گنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
    آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
    بات اس دئے کی ہے
    بات اس گلے کی ہے
    جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
    لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
    زندگی سے لمبی ہے بات رت جگے کی ہے
    راستے میں کیسے ہو
    بات تخلیئے کی ہے
    تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
    پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
    ہو سکے تو سن جاؤ ایک روز اکیلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں

    Comment


    • #3
      ایک لڑکی
      امجد اسلام امجد


      گلاب چہرے پہ مسکراہٹ
      چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے
      وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے
      سہیلیوں کو لیے اترتی
      تو ایسے لگتا تھا جیسے دل میں اتر رہی ہو
      کچھ اس تیقن سے بات کرتی تھی جیسے دنیا
      اسی کی آنکھوں سے دیکھتی ہو
      وہ اپنے رستے میں دل بچھاتی ہوئی نگاہوں سے ہنس کے کہتی
      تمہارے جیسے بہت سے لڑکوں سے میں یہ باتیں
      بہت سے برسوں سے سن رہی ہوں
      میں ساحلوں کی ہوا ہوں نیلے سمندروں کے لیے بنی ہوں
      وہ ساحلوں کی ہوا سی لڑکی
      جو راہ چلتی تو ایسے لگتا تھا جیسے دل میں اتر رہی ہو
      وہ کل ملی تو اسی طرح تھی
      چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے گلاب چہرے پہ مسکراہٹ
      کہ جیسے چاندی پگھل رہی ہو
      مگر جو بولی تو اس کے لہجے میں وہ تھکن تھی
      کہ جیسے صدیوں سے دشت ظلمت میں چل رہی ہو

      Comment


      • #4
        سیلف میڈ لوگوں کا المیہ
        امجد اسلام امجد


        سیلف میڈ لوگوں کا المیہ
        روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
        زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو
        راہ سے ہٹانے میں
        ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
        خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں
        عمر کاٹ دیتے ہیں
        عمر کاٹ دیتے ہیں
        اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں
        کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں
        درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں
        صبر کے سمندر میں کشتیاں چلاتے ہیں
        یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا
        کچھ صلہ نہیں ملتا
        مرنے والی آسوں کا خوں بہا نہیں ملتا
        زندگی کے دامن میں جس قدر بھی خوشیاں ہیں
        سب ہی ہاتھ آتی ہیں
        سب ہی مل بھی جاتی ہیں
        وقت پر نہیں ملتیں وقت پر نہیں آتیں
        یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
        لیکن اس طرح جیسے
        قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
        اصل جو عبارت ہو پس نوشت ہو جائے
        فصل گل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
        ان کے صحن میں سورج دیر میں نکلتے ہیں

        Comment


        • #5
          ایک کمرۂ امتحان میں
          امجد اسلام امجد


          بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
          بے خیال ہاتھوں سے
          ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں
          یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
          سوچتے نہیں اتنا جتنا سر کھجاتے ہیں
          ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
          دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
          شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے
          بے نشاں جوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے
          مجھ کو دیکھتے ہیں تو
          یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں
          دائرے بناتے ہیں
          جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں
          اس طرح کے منظر میں
          امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
          نقل کرنے والوں کے
          نت نئے طریقوں سے
          آپ لطف لیتا تھا دوستوں سے کہتا تھا
          کس طرف سے جانے یہ
          آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
          سیکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے
          وقت کی عدالت میں
          زندگی کی صورت میں
          یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوال نامہ ہے
          کس نے یہ بنایا ہے
          کس لئے بنایا ہے
          کچھ سمجھ میں آیا ہے
          زندگی کے پرچے کے
          سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں
          بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
          بے خیال ہاتھوں سے
          ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
          کوئی دیکھتا ہے تو
          دائرے بناتا ہوں
          حاشیے لگاتا ہوں
          یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں

          Comment


          • #6
            اے دل بے خبر
            امجد اسلام امجد


            اے دل بے خبر
            جو ہوا جا چکی اب نہیں آئے گی
            جو شجر ٹوٹ جاتا ہے پھلتا نہیں
            واپسی موسموں کا مقدر تو ہے
            جو سماں بیت جائے پلٹتا نہیں
            جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر
            اب کسے ڈھونڈھتا ہے سر رہ گزر
            اے دل کم نظر اے مرے بے خبر اے مرے ہم سفر
            وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا
            چاندنی تھا ہوا صرف رنگ قمر
            خواب تھا آنکھ کھلتے ہی اوجھل ہوا
            پیڑ تھا رت بدلتے ہوا بے ثمر
            اے دل بے اثر اے مرے چارہ گر
            یہ ہے کس کو خبر!
            کب ہوائے سفر کا اشارہ ملے!
            کب کھلیں ساحلوں پر سفینوں کے پر
            کون جانے کہاں منزل موج ہے!
            کس جزیرے پہ ہے شاہ زادی کا گھر اے مرے چارہ گر
            اے دل بے خبر کم نظر معتبر
            تو کہ مدت سے ہے زیر بار سفر
            بے قرار سفر
            ریل کی بے ہنر پٹریوں کی طرح
            آس کے بے ثمر موسموں کی طرح
            بے جہت منزلوں کی مسافت میں ہے
            رستہ بھولے ہوئے رہرووں کی طرح
            چوب نار سفر
            اعتبار نظر کس گماں پر کریں
            اے دل بے بصر
            یہ تو ساحل پہ بھی دیکھتی ہے بھنور
            ریت میں کشت کرتی ہے آب بقا
            کھولتی ہے ہواؤں میں باب اثر
            تجھ کو رکھتی ہے یہ زیب دار سفر بے قرار سفر
            اے دل بے ہنر
            گرم سانسوں کی وہ خوشبوئیں بھول جا
            وہ چہکتی ہوئی دھڑکنیں بھول جا
            بھول جا نرم ہونٹوں کی شادابیاں
            حرف اقرار کی لذتیں بھول جا
            بھول جا وہ ہوا بھول جا وہ نگر
            کون جانے کہاں روشنی کھو گئی
            لٹ گیا ہے کہاں کاروان سحر
            اب کہاں گیسوؤں کے وہ سائے کہاں
            اس کی آہٹ سے چمکے ہوئے بام و در اے دل بے بصر
            رنگ آسودگی کے تماشے کہاں
            جھٹپٹا ہے یہاں رہ گزر رہ گزر
            وہ تو خوشبو تھا اگلے نگر جا چکا
            اب کسے ڈھونڈھتا ہے ارے بے خبر
            جانے والے نہیں لوٹتے عمر بھر
            اے دل کم نظر اے مرے چارہ گر اے مرے ہم سفر​​​​​​

            Comment


            • #7
              کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
              امجد اسلام امجد


              کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
              وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
              وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
              دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
              میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں
              صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا
              کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
              تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا
              کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں
              کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا
              کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
              وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
              تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
              وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا

              Comment


              • #8
                چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
                امجد اسلام امجد


                چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
                کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
                رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب
                دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
                پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
                بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن
                خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے
                پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن
                گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
                اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن
                میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
                سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن

                Comment


                • #9
                  Bohat hi aala aur shandar nazmain hain amjid sahib ka andaze bayaan bohat hi aala hai

                  Comment


                  • #10
                    Originally posted by alone_leo82 View Post
                    ایک کمرۂ امتحان میں
                    امجد اسلام امجد


                    بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
                    بے خیال ہاتھوں سے
                    ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں
                    یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
                    سوچتے نہیں اتنا جتنا سر کھجاتے ہیں
                    ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
                    دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
                    شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے
                    بے نشاں جوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے
                    مجھ کو دیکھتے ہیں تو
                    یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں
                    دائرے بناتے ہیں
                    جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں
                    اس طرح کے منظر میں
                    امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
                    نقل کرنے والوں کے
                    نت نئے طریقوں سے
                    آپ لطف لیتا تھا دوستوں سے کہتا تھا
                    کس طرف سے جانے یہ
                    آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
                    سیکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے
                    وقت کی عدالت میں
                    زندگی کی صورت میں
                    یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوال نامہ ہے
                    کس نے یہ بنایا ہے
                    کس لئے بنایا ہے
                    کچھ سمجھ میں آیا ہے
                    زندگی کے پرچے کے
                    سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں
                    بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
                    بے خیال ہاتھوں سے
                    ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
                    کوئی دیکھتا ہے تو
                    دائرے بناتا ہوں
                    حاشیے لگاتا ہوں
                    یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں
                    یار پہلی دفعہ ان کے اشعار پڑھے ہیں
                    کمال کا اندازِ بیاں ہے
                    بہت الگ سوچ ہے
                    مزید کا انتظار رہے گا

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X