Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

امجد اسلام امجد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Originally posted by alone_leo82 View Post
    غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا
    امجد اسلام امجد


    غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا
    چمک رہے ہیں اندھیرے میں استخواں کیا کیا
    دکھا کے ہم کو ہمارا ہی قاش قاش بدن
    دلاسے دیتے ہیں دیکھو تو قاتلاں کیا کیا
    گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
    مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں کیا کیا
    پلٹ کے دیکھا تو اپنے نشان پا بھی نہ تھے
    ہمارے ساتھ سفر میں تھے ہمرہاں کیا کیا
    ہلاک نالۂ شبنم ذرا نظر تو اٹھا
    نمود کرتے ہیں عالم میں گل رخاں کیا کیا
    کہیں ہے چاند سوالی کہیں گدا خورشید
    تمہارے در پر کھڑے ہیں یہ سائلاں کیا کیا
    بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے
    اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا
    ہے پر سکون سمندر مگر سنو تو سہی
    لب خموش سے کہتے ہیں بادباں کیا کیا
    کسی کا رخت مسافت تمام دھوپ ہی دھوپ
    کسی کے سر پہ کشیدہ ہیں سائباں کیا کیا
    نکل ہی جائے گی اک دن مدار سے یہ زمیں
    اگرچہ پہرے پہ بیٹھے ہیں آسماں کیا کیا
    فنا کی چال کے آگے کسی کی کچھ نہ چلی
    بساط دہر سے اٹھے حساب داں کیا کیا
    کسے خبر ہے کہ امجدؔ بہار آنے تک
    خزاں نے چاٹ لیے ہوں گے گلستاں کیا کیا
    Boht khubsoorat nazam Alfaz mian beyan nhi Kya ja sakta

    Comment


    • سمندر آسمان اور میں
      امجد اسلام امجد


      کھلیں جو آنکھیں تو سر پہ نیلا فلک تنا تھا
      چہار جانب سیاہ پانی کی تند موجوں کا غلغلہ تھا
      ہوائیں چیخوں کو اور کراہوں کو لے کے چلتی تھیں اور مٹی
      کی زرد خوشبو میں موت موسم کا ذائقہ تھا
      نظر مناظر میں ڈوب کر بھی مثال شیشہ تہی تھی یعنی
      گل تماشا نہیں کھلا تھا
      ہراس جذبوں کی رہ گزر میں دل تعجب زدہ اکیلا
      خموش تنہا بھٹک رہا تھا
      کہ ایک سائے کی نرم آہٹ نے راستوں کا نصیب بدلا
      کوئی تعلق کے چاند لہجے میں اپنے پن کی ادا سے بولا
      ''مرے مسافر اداس مت ہو کہ عہد فرقت ہی زندگی ہے
      یہ فاصلوں کی خلیج راہ وصال ہے اور طلب نگاہوں کی روشنی ہے
      تمام چیزیں تمہارے میرے
      بدن کے رشتوں کا سلسلہ ہیں
      تمہیں خبر ہے کہ ہم سمندر
      اور آسمانوں کی انتہا ہیں!''

      Comment


      • ہری بھری اک شاخ بدن پر
        امجد اسلام امجد


        ہری بھری اک شاخ بدن پر
        میرے لبوں کے لمس سے پھوٹے
        ایسے ایسے پھول
        سادہ سے ملبوس میں بھی وہ ساتوں رنگ کھلاتی ہے
        اپنے حسن کی تیز مہک سے
        لوگوں کے انبوہ میں بیٹھی یوں گھبرا سی جاتی ہے
        جیسے باتیں کرتے کوئی!
        جاتا ہے کچھ بھول
        میرے لبوں کے لمس سے پھوٹے
        ہری بھری ایک شاخ بدن پر
        کیسے کیسے پھول

        Comment


        • ایک اور مشورہ
          امجد اسلام امجد


          بستیاں ہوں کیسی بھی پستیاں ہوں جیسی بھی
          ہر طرح کی ظلمت کو روشنی کہا جائے
          خاک ڈالیں منزل پر بھول جائیں ساحل کو
          رخ جدھر ہو پانی کا اس طرف بہا جائے
          ملک بیچ ڈالیں یا آبرو رکھیں گروی
          جیسا حکم حاکم ہو اس طرح کیا جائے
          شور میں صداؤں کے اجنبی ہواؤں کے
          کون سننے والا ہے؟ کس سے اب کہا جائے!
          گفتگو پہ پہرے ہیں ہر طرف کٹہرے ہیں
          راستے معین ہیں ہر قدم پہ لکھا ہے
          کس جگہ پہ رکنا ہے! کس طرف چلا جائے
          دل کی بات کہنے کا اک یہی طریقہ ہے
          چھپ کے ساری دنیا سے اب گھروں کے کونوں میں
          آپ ہی سنا جائے آپ ہی کہا جائے

          Comment


          • سورج کی پہلی کرن
            امجد اسلام امجد

            دلچسپ معلومات
            (سیپ، کراچی شمارہ 26مئی جون 1973ء)

            سن اے ہوائے بے دلی
            ابھی تو چشم تر میں ان کی صورتیں
            رواں دواں ہیں جن کے سانس کی مہک
            میں جا چکی بہار کا نکھار ہے
            کہ جن کے خواب کی چمک پلک پلک
            بکھرتی آرزو میں پائیدار ہے
            ابھی تو ان کی خاک کو زمین بھی نہیں ملی
            سن اے ہوائے بے دلی
            اگرچہ اس دیار میں ہر ایک سو
            کئی رتوں کی گم شدہ بہار کا فشار ہے
            غبار انتظار ہے
            مگر یہ زرد گھاٹیاں یہ کاروان بے نشاں
            سفر کی انتہا نہیں
            دھواں دھواں ہیں جسم و جاں مگر زباں ہے گل فشاں
            کہ دل ابھی مرا نہیں
            نظر میں ہے وہ فصل گل جو اب تلک نہیں کھلی
            سن اے ہوائے بے دلی
            ہمیں اسی زمین سے رفاقت یقین ہے
            ملے گی کشت آرزو
            کہ روشنی کی جستجو میں روشنی کا راز ہے
            ہمارے ارد گرد کی ہر ایک شے سوال ہے
            ان انگلیوں کی پور پور صاحب کمال ہے
            الوداع الوداع اے بے دلی
            کہ یہ ہماری دوستی کا نقطۂ زوال ہے

            Comment


            • سرمایۂ جاں
              امجد اسلام امجد


              یہ سب نے دیکھا
              کہ ساز گل سے نکل کے خوشبو کا ایک جھونکا
              ہزار نغمے سنا گیا ہے
              مگر کسی کو نظر نہ آیا کہ اس کے پردے میں گل نے اپنا
              تمام جوہر لٹا دیا ہے
              یہ میری سوچوں کی سبز خوشبو
              یہ میری نظمیں یہ میرا جوہر
              یہ میرے لفظوں کے شاہزادے
              یہ میری آواز کے مسافر
              نکل کے ہونٹوں کی وادیوں سے
              خموشیوں کے مہیب جنگل میں آہٹوں کے فریب کھاتے
              نشاط منزل کی جستجو میں
              اداس رستوں پہ چل رہے ہیں
              سفر کے دوزخ میں جل رہے ہیں

              Comment


              • بہترین اپڈیٹ
                عمدہ اِنتخاب

                Comment


                • بہت عمدہ شاعری امجد اسلام امجد کی۔

                  Comment


                  • Boht undah shaheri Amjad Islam Amjad ki to Kya bat ha

                    Comment


                    • جتنی تعریف کریں کم ہے
                      امجد اسلام امجد صاحب پاۓ کے شاعر ہیں

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X