Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دوست کی بیوی اور اس کے گھر والے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
    میری حرکت پر سلمیٰ کی حرکت مزید تیز ہوئی میں مزید پرجوش ہوکر اپنے منہ کو کھول کر سلمیٰ کے بوبز کو منہ میں لینے لگا۔ جس پر سلمیٰ کی بلکل بس ہوگئی اور اس کی پھدی سے پانی نکلنے لگا۔سلمیٰ نے مجھے سختی سے بھینچا ہوا تھا۔

    کچھ دیر بعد میں نے سلمیٰ کو خود سے الگ کیا اور کان میں بولا: اب تو میرا بھی پانی نکلتا ہے۔

    جس پر سلمیٰ مسکرا دی۔ سلمیٰ آہستہ سے اٹھی ڈوگی سٹائل میں ہوکر بولی: تمہارے جیجا جی کو اس سٹائل سے میں دو منٹ میں پُھس کروا دیتی ہوں آجاو تم بھی میدان میں۔

    میرے لیے یہ ایک چیلنچ تھا لیکن میں نے اس بات کو اتنا سیریس نہیں لیا۔ میں تھوڑا آگے ہوکر سلمیٰ کی ٹانگوں کے قریب ہوگیا۔ تب سلمیٰ نے میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے دو چار ہاتھ مار کر اپنی پھدی پر سیٹ کردیا اور مجھے جھٹکا دینے کا بول کر آگے دیکھنے لگی۔

    میں چونکہ اس سٹائل میں پہلے بھی کرچکا تھا اس لیے میرا سٹارٹ پہلے سلو تھا پھر آہستہ آہستہ میرے دھکوں میں تیزی آتی گئی، ایک لمحے کو سلمیٰ بے سد ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی تب چاچی باتھ روم سے باہر نکلی اور سلمیٰ سے بولی: یہ میرا سمیر ہے، اس میں، میں نے اپنی ساری طاقت ڈال دی ہے۔

    Comment


    • اس وقت چاچی کے جسم پر ایک بھی کپڑا موجود نہیں تھا اس لیے وہ چلتی ہوئی ہمارے پاس آئیں اور سلمیٰ کو پیچھے ہٹنے کا بول کر خود ہی میرے سامنے ڈوگی سٹائل میں آگئیں۔ میرے ابتدائی جھٹکے سلو تھے پھر میں اپنے جھٹکوں کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتا چلا گیا، تین منٹ کے بعد چاچی نے مجھے دوبارہ سے کرنے کا بولا لیکن ان کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے میں نے ان کو کمر کے بل لٹا کر چودنے لگا۔ جس پر ان کے منہ سے ایک بار پھر سسکاریاں نکلنے لگیں۔ سلمیٰ لیٹے ہوئے ہمیں دیکھے جارہی تھی جب ہم دونوں کی نظریں ملتی تو وہ پہلی رات والی دلہن کی طرح شرما جاتی، یا پھر کبھی کبھی مسکرانے لگتی۔ جس پر میں بھی مسکرانے لگتا۔
      کچھ دیر ایسے ہی میں نے چاچی کی اچھی خاصی چدائی کی پھر ان کی پھدی کے اندر ہی فارغ ہوگیا جس پر سلمیٰ نے بڑے غور سے چاچی کے تاثرات کو دیکھا پھر ہم تینوں نے چھوٹا سا باتھ لیا اور باتیں کرتے کرتے سو گئے۔ رات کسی پہر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی میرے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ کر تیار کررہا ہے تب میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ سلمیٰ تھی۔

      سلمیٰ مجھے جاگ جانے پر ایک سمائل دی اور اشارہ سے اٹھ بیٹھنے کا بولا۔ لیکن میں ابھی ابھی جاگا تھا اس لیے اٹھنے کا من نہیں کررہا تھا۔ میرے تیار ہوچکے لنڈ کو اس نے اپنی ننگی پھدی پر سیٹ کیا اور اسی پوزیشن میں اپنے اندر لے کر آہستہ آہستہ اپنے جسم کو میرے جسم پر رگڑنے لگی۔

      Comment


      • کچھ لمحوں کے بعد سلمیٰ میرے ہونٹوں پر جھک کر کس کرنے لگی، کس کرنے کے بعد سلمیٰ میرے کان میں بولنے لگی اور اپنے کام میں بھی مصروف رہی
        سلمیٰ: جس طرح تم دونوں یہ کام کررہے ہو اس نسبت سے تم دونوں پکڑے جاو گے۔ میری بات مانو تو یہ کام ہفتے دو ہفتے بعد کیا کرو، اگر تمہارا دل کرے تو میرے پاس بھی چکر لگا لیا کرو، میری کچھ سہیلیاں ہیں میں ان کو تمہارے ساتھ سیٹ کروا دوں گا۔ لیکن ایسے تم دونوں کھلے عام چھت پر کرو گے تو کوئی نہ کوئی پکڑ لے گا، اس سے بہت زیادہ بدنامی ہوگی۔ اگر باہر کی لڑکی سے کرتے پکڑے گئے تو اس کی خیر ہے، کوئی زیادہ سے زیادہ چار چھ تھپڑ مار کر چھوڑ دے گا لیکن چاچے کو لگ پتا گیا تو وہ تمہیں قتل کردیں گے ویسے بھی جب تک تایا ابو ان کو پیسے دیتے رہیں گے اس وقت یہ سب اچھے بنے رہیں گے لیکن بعد میں یہی نازی تم پر تھوکے گی بھی نہیں۔

        سلمیٰ کی آخری بات سن کر میں سلمیٰ کی پھدی کے اندر ہی فارغ ہونے لگا جس پر سلمیٰ نے میرے ہونٹوں کو زور سے (کس کر) پکڑ لیا۔ سلمیٰ کچھ دیر بعد آرام سے اٹھی اور باتھ روم گئی اور خود کو صاف کرکے واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں گیلا تولیا تھا جسے کنارے سے گیلا کیا ہوا تھا، سلمیٰ نے میرے لنڈ کو صاف کیا اور دوبارہ واش روم گئی اور تولیا اندر چھوڑ کر میرے پاس آئی اور بولی

        سلمیٰ: اب تم آرام سے چاچی ربیعہ والے کمرے میں جا کر لیٹ جاو میں یہی سو جاوں گی کیونکہ صبح ابو نے مجھے جلدی لینے آنا تو کہیں کوئی شک نہ کرے اس لیے جاو۔

        میں جیسے ہی آگے بڑھا تب سلمیٰ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: اب نازی سے اپناتعلق ختم کرلو اس کے علاوہ اور بھی ہیں بلکہ اس کا مقام تمہاری جوتی بھی نہیں۔

        Comment


        • ھر اس کے بعد میں چاچی ربیعہ والے کمرے میں آگیا اور سو گیا، ابھی صبح کے چھ بجے ہوں گے اسی وقت مجھے تایا ابو کی آواز سنائی دی، پھر وہ میرے کمرے (چاچی ربیعہ) میں بھی آئے پھر میرے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر باہر چلے گئے۔ میں اٹھ کر گھر آگیا نہا دھو کر کپڑے بھی تبدیل کرلیے۔ تایا ابو نے بتایا کہ سلمیٰ کا داخلہ شہر کے ایک کالج میں کروانے والے ہیں۔ پھر ایسے ہی بات چیت ہوتی رہی میں سارا دن سلمیٰ کی کہی باتوں پر غور کرنے میں گزار دیا اس دوران ہمیں (نازی، مجھے) سیکس کرنے کا موقع بھی ملا لیکن میرا دل نہیں کررہا تھا۔ پھر اچھا بھی ہوا کہ ہم نے سیکس کا موقع استعمال نہیں کیا کیونکہ کچھ دیر بعد چاچے نوازے کی اآمد بھی ہوگئی۔ جس پر چاچی اپنے گھر چلی گئی۔
          میں نے پہلی مرتبہ نازی کے علاوہ باہر والی کے متعلق سوچنے کی سوچی تھی۔(جاری ہے)

          Comment


          • اگلے دن میں سکول کے لیے نکالا تب مجھے احساس ہوا کہ اس چھوٹی سی دنیا (گاؤں) میں بھی اور بھی نازیاں موجود ہیں۔ سکول ٹائم تھا اس لیے سب لڑکے سکول کی طرف جارہے تھے جب کہ کچھ لڑکیوں کے پیچھے چل رہے تھے کچھ درختوں کے ساتھ کمر لگائے کھڑے لڑکیوں پر کمنٹس کررہے تھے۔
            میں بھی ایک لمحے کے لیے رکا اور ان لڑکیوں کو دیکھنے لگا۔ کچھ لڑکیاں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے معنی خیز باتیں کرتے ہوئے سکول کی جانب چل رہی تھی۔ جن کے جواب میں کچھ لڑکے جواب دے رہے تھے جس پر کسی عام شخص کو شک نہیں ہوتا تھا۔

            میں نے ان سے دور ایک لڑکی کو الگ لیکن ان لڑکوں کو گورتے پایا، میں نے ہمت پیدا کرکے اپنے دماغ کو ان نازیوں سے ہٹایا اور سکول کی جانب چل دیا۔ سارا دن پڑھائی کے ساتھ ساتھ سلمیٰ کی باتوں کی گہرائی میں ڈوبے ہوئے گزار دیا۔ اگلے کچھ دن ایسے ہی گزر گئے چاچی موقعے موقعے پر میرے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیتی یا کھڑا کردیتی، مطلب کے وہ مجھے ٹیز کرتی رہیں لیکن میں نے خود کو ناجانے کیوں روکے رکھا شاید سلمیٰ کی خاطر، یا پھر کسی نئی نازی کی خاطر۔

            Comment


            • اتنے دنوں سے میں ہائی سکول میں جارہا تھا، پہلے پہل کسی نے مجھ پر زیادہ توجہ نہیں دی لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھا میری دوستی احسن سے ہوئی۔ احسن درمیانے قد کا بانکا لڑکا تھا۔ اس نے مجھے سکھایا کہ جھوٹے شخص کے ساتھ جھوٹا بن جاؤ۔ اور سچے شخص کے ساتھ سچا۔ مطلب گرگٹ کی طرح بدل لو جیسے لڑکیاں کرتی ہیں، جب خواہشات پوری ہوتی رہیں تو غریب سے چدواتے رہو، جب امیر لڑکا پھنس گیا تو غریب والے کو گانڈ دکھا کر بھگا دو۔
              دوستی کے پہلے دن احسن کو سرنے سزا کے طور پر دس راؤنڈ لگانے کا بولا پھر میرے ساتھ بیٹھنے کا بول کر مجھ سے کچھ سیکھنے کی نصحیت کی۔ احسن نے پیریڈ کے اختتام پر مجھ سے دوستی کرلی تھی لیکن وہ دوستی بس مطلب کی تھی جب کہ میں اس دوستی کو دوستی ہی سمجھتا تھا۔

              کچھ دن تک ہم ایک ساتھ بیٹھے رہتے پھر آہستہ آہستہ احسن کی طرح میں بھی سر کے کلاس سے نکل جانے کے بعد کلاس سے باہر نکل جاتا۔ تمام ٹیچرز نے مجھے اضافی چارج دیتے ہوئے مانیٹر بنا دیا جس کا فائدہ احسن اٹھانے لگا۔ احسن کی کاپی جب بھی چیک کرنے کے لیے میں اس کی طرف جاتا تو وہ کوری نا کوری کاپی میرے سامنے رکھ دیتا جس پر میں خاموش ہوجاتا اور احسن کو چھوڑ کر دوسرے لڑکوں کی طرف چلا جاتا۔

              Comment


              • س احسن کی ایک بات تھی اس نے ہمارے اس راز کو راز ہی رکھا پھر ایک دن احسن کو میں نے سمجھایا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے پڑھائی میں رتی بھر دلچسپی نہیں ہے بس گھر میں پڑے پڑے بور ہوجاتا ہوں اس لیے سکول آجاتا ہوں۔ احسن کی یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی اس لیے میں نے اسے مزید نہ سمجھایا پھر کچھ دن تک اسرار نامی میرا دوست بنا جو میری ہی طرح یا مجھ سے بھی زیادہ کافی لائق تھا۔ ہم دونوں کی کافی اچھی جوڑی بن چکی تھی ہم دونوں کلاس مانیٹر اور اسمبلی کو ہیڈ بن گئے۔ اسرار کا تعلق غریب خاندان سے تھا اس لیے وہ کلاس میں ہونے والی ہماری سرگرمی کو نظر انداز کردیا کرتا، (احسن والی)
                لیکن مجھے اسرار کے ایسا کرنے پر شرمندگی بھی ہوتی، ہوتا یوں کہ جب کبھی اسرار کو سر میری والی لائن چیک کرنے کا بولتے تو وہ چالاکی سے احسن کی کاپی میری طرف بڑھا دیتا جس پر میں اپنا سر پیٹ کر رہ جاتا۔ ہم دونوں ایک دن احسن کو جا لیا اور اسے کافی لعن طعن کی۔ پھر ایسے ہونے لگا کہ احسن اپنے ہاتھ سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہوم ورک کروا کر لے آتا۔

                Comment


                • ہمیں اس بات کا علم ہماری ہی کلاس کے ایک لڑکے سے ہوا۔ پھر ہم دونوں نے فیصلہ لیا کہ احسن کو اب کبھی ٹچ نہیں کریں گے۔ جس پر یہ ہوا کہ سر نے خود اس کی ہوم ورک کاپی چیک کرنا شروع کردی۔ اسمبلی کے ہیڈ (سر) نے اسمبلی کے آخر میں جان بوجھ کر احسن کو اچھی بات کہنے کے لیے اسٹیج پر بلانا شروع کردیا جس پر احسن نے پہلے پہل کافی چوں چاں کی پھر ہمارے سمجھانے پر وہ مان گیا۔
                  اس دوران ہماری پھر سے پکی والی دوستی ہوگئی۔ ایک دن اسرار کو سر نے جلدی سے گھر بھیج دیا میں پہلے پریشان ہوا لیکن میری عادت تھی کہ میں سر یا کلاس کے معاملے میں کبھی بھی نہیں بولتا تھا۔

                  احسن اگلے دن سکول نہیں آیا تب سر نے احسن کو میرے ساتھ اسمبلی کے اسٹیج پر بھیج دیا جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ احسن کی مطلبی دوستی آہستہ آہستہ پکی والی دوستی میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ احسن نے آہستہ آہستہ مجھ سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی، اس دن میرا دھیان اپنی پڑھائی پر کم اور احسن کو سمجھانے میں زیادہ تھا۔ احسن نے چھٹی کے وقت مجھے کل تھوڑا جلدی آنے کا بولا اور میں اس کی بات مان کر جلدی سکول پہنچ گیا جس پر اس نے گیٹ پر کھڑے ہوکر ایک لڑکی کی طرف منہ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس لڑکی کے پیچھے مت جانا، یہ ہر کسی لڑکے سے بے وفائی کرتی ہے۔

                  Comment


                  • میں نے بس ہاں میں سر ہلا دیا۔ شاید احسن کی بات اس لڑکی نے بھی سنی جس پر اس نے اپنا چہرہ ہماری طرف موڑ کردیکھا پھر اپنی سہیلیوں کے ساتھ سکول کی طرف بڑھ گئ۔ دن کے وقت سر نے مجھے باہر بنے ٹھیلے سے سموسے لانے کا بولا جس پر احسن بھی میرے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ سر نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ہم گیٹ سے باہر آئے اور منزل مقصود پر پہنچ کر اپنے سر کا آرڈر دے دیا۔ جس پر اس دکان دار نے دس منٹ انتظار کرنے کا کہا۔ ہمیں اسی وقت سکول واپس چلے جانا چاہئے تھا لیکن میں احسن کی وجہ سے رکا رہا اور احسن اپنی بے وفا محبوبہ کے لیے۔
                    میں نےپہلے توجہ نہ دی جب میں نے احسن کو ایک طرف مسلسل دیکھتے پایا تو خود بھی اس طرف دیکھنے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ بے وفا لڑکی کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھی اس لڑکے کا ہم نے چہرہ نہیں دیکھا لیکن جس انداز سے وہ لڑکا کھڑا تھا اس سے ایسے نظر آرہا تھا کہ وہ ہم سے کچھ نا کچھ امیر ضرور ہے۔

                    Comment


                    • احسن مجھے اپنی بےوفا محبوبہ کی طرف دیکھتا دیکھ دکان کی اندر چلا گیا میں اسی طرح اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔ جس پر اس لڑکی کو شک ہوا۔ اس لڑکی نے اس لڑکے سے نظریں بچا کر مجھے دیکھنا شروع کردیا۔ میں نے ایک دو بار اپنی نظروں کو اگے پیچھے گھوما پھیرا کر جب دوبارہ اسی لڑکی کی طرف دیکھا تو اسے اپنی طرف دیکھتا پایا۔
                      احسن نے اندر سے آواز دی: چاچے۔۔۔ آپ کے پاس کوئی بے وفا سموسہ پڑا ہے؟

                      جس پر دکاندار مسکراتے ہوئے بولا: آہ ہو۔ (پھر اس نے ایک آدھے سموسے کو اٹھا کر پلیٹ میں ڈالا اور تھوڑی سی چٹنی ڈال کر اسے دے دیا)

                      میں نے یہ ساری کاروائی دیکھی پھر دوبارہ سے اسی لڑکی کو دیکھنے لگا جہاں وہ اپنے نئے بوائے فرینڈ کو الوداع کررہی تھی پھر وہ ہماری طرف آئی اور میرے پاس سے گزرتے ہوئے چاچے کو بولی: یہ لو چاچا جی، اب ہمارا حساب کتاب پورا ہوگیا نا؟؟؟

                      جس پر چاچے نے اپنے پیلے دانت دکھا کر اسے جانے کا کہا۔ تب وہ ایک نظر احسن پر ڈالتے ہوئے میرے پاس سے گزرنی لگی۔ اس لڑکی نے گزرتے گزرتے اپنی مٹھی کو کھولا اور کچھ نیچے گرا کر چل دی۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X