،
چچا ثاقب حرا کے ساتویں مہینے میں فوت ہوگئے جس پر حرا کو یہ گھر چھوڑ کر شہر جانا پڑا، کیونکہ اب اس گھر میں اس کا ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو اس کی دیکھ بھال کرتا،
چاچی نازی نے مجھ سے تعلق بہت کم کردیا لیکن اس دوران میں نے ایمان کے بھائی کو اسی کی کزنز سے سیکس کرتے ہوئے ان کے نئے گھر میں پکڑ لیا جس پر اس نے مجھے اس لڑکی سے سیکس کرنے کی آفر بھی دی جس پر اس لڑکی نے مجھ سے رحم بھرئی نظروں دیکھا میں نے ان دونوں کو سمجھا بجھا کر گھر بھیج دیا۔
ایمان اس سب میں خاموش محبت میں مبتلا رہی ہمارے گھر میں باجی کی شادی کی تیاریاں جاری تھی، ایمان اب جب بھی میرے گھر آتی تو امی اسے میرے پاس زیادہ دیر رکنے نہ دیتی، اور وہ بھی تائی (امی) کی بیٹی بنی رہتی۔
جیسے ہی میرا میٹرک کلیئر ہوا ابو نے امی سے مشورہ کیا اور میرا اور ایمان کے رشتے کی سرسری سی بات کردی جس پر چاچو، چاچی ربیعہ، چاچی نازی، چچا نواز ان سب کا اعتراض تھا۔ چچی ربیعہ مجھے اپنا مستقبل بنانے کا بول کر صاف انکار کرچکی تھی۔ میں نے کچھ دن تک ایمان سے اکیلے میں پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے (جبکہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا تھا کہ لڑکیوں سے کوئی مشورہ کیا جائے)
تب اس نے اپنا فیصلہ اپنے والدین کے سر تھونپ کر مجھے بری الزمہ قراردے دیا۔ تب گاؤں میں سے ایک اور رشتہ باجی طاہرہ کے لیے آیا جس پر امی ابو اور میرے ماموں نے سوچ بچار کی اور رشتہ کر دیا بعدازاں باجی طاہرہ کی شادی بھی باجی فرزانہ کے ہمراہ کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔
جس دن ہمارے گھر شادی تھی اس دن سلمیٰ، ایمان، ماہرہ، حرا، وحیدہ ، ماورا، مسکان سب کی نظروں کا محور میں تھا لیکن میں کسی کو بھی شک میں ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔ مائیں سب کچھ جانتیں ہیں کے مصداق امی نے شادی کی تقریب کے بعد مجھ سے وحیدہ اور حرا کو چھوڑ کر باقی تمام لڑکیوں کے متعلق پوچھا جس پر میں نے صاف انکار کردیا۔
بہنوں کے چلے جانے کے بعد میں بلکل اکیلا ہوگیا تھا کیونکہ پہلے والی سادہ طبیعت والی ایمان، وہ والی ایمان نہ رہی۔ اس لیے اس کا زیادہ وقت اپنے گھر، یا سکول میں گزرتا۔ میں نے ابو سے بات کی اور ایک چھوٹی سی دکان پر بیٹھنا شروع کردیا۔
میں اپنی پڑھائی کو آگے بڑھانے کے لیے پرائیوئٹ داخلہ دینے کی سوچی پھر کسی وجہ سے ایسا کرنے سے خود کو روک لیا۔
امی ہر شام مجھ سے کبھی فلاں دور کے ماموں کی بیٹی کی بات چھیڑ دیتی، پھر کسی شام دور کے انکل کی بیٹی کی بات چھیڑ دیتی، میں بس انکار میں سر ہلا کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ جاتا، مجھے خود سمجھ نہیں آرہا تھا، کہ میں کیا کررہا ہوں۔
میں احسن کے مصداق آنکھیں بند کرکے کسی ایک کا چہرا تلاشنے کی کوشش کرتا تو سب لڑکیاں میری آنکھوں کے سامنے آجاتیں جس سے میں مزید پریشان ہوجاتا۔
باجی فرزانہ کے سسرال والے گجرات شہر کے رہائشی تھے اس لیے شادی کے کچھ عرصے کے بعد وہ گجرات شفٹ کرگئے جبکہ بہنوئی اور باجی اسی شہر میں رکے رہے جہاں آج کل میری دکان ہے۔ پھر بہنوئی کو ویزہ مل گیا بعدازاں باجی ہمارے ساتھ ہی رہنے لگیں۔
باجی کے بار بار سمجھانے پر میں نے امی اور باجی کو ان سب لڑکیوں کو چھوڑ کر کسی نئی لڑکی سے شادی کرنے کیلئے تیار ہوں، کہہ کر چھت پر چلا گیا جہاں ناجانے کیوں میں رو پڑا۔ میں اس مسئلے میں پڑا ہوا تھا کہ میں کس سے محبت کربیٹھا ہوں؟ کیونکہ نہ تو ایک لڑکی میرے خیالوں میں آتی اور نہ ہی سوتے ہوئے مجھے کوئی خواب آتا جسے دیکھ کر میں بولتا کہ یہی لڑکی ہے جس کی وجہ سے میں پریشان ہوں۔
دکان پر جاتے ہوئے کچھ عرصہ بعد میری ملاقات ایک سکول کی ایک ٹیچر سے ملاقات ہوئی
عینی: بتیس سائز کے بوبز، قد درمیانہ، رنگت درمیانی، میک اپ کیا ہوا تو کسی بھی لڑکے کو اپنے اشاروں پر چلا سکتی تھی، بتیس سائز کی گانڈ پر کوئی بھی عام سا لڑکا مر سکتا تھا، اگر مزید محنت کی جائے تو اس سائز کو تبدیل بھی کیا جاسکتا تھا۔ عینی کی توسط سے اس نجی سکول کی چپڑاسن وحیدہ کو رکھ لیا گیا تھا، وحیدہ اور عینی ایک دوسرے کی بچپن کی دوست تھیں، اکثر وحیدہ عینی کو میرے متعلق واقعات سنایا کرتی تھی لیکن اس نے کبھی میرا نام، یا میرے متعلق اہم باتیں نہیں بتائی تھی اس لیے جب ہم دونوں کی ملاقات ہوئی تب وہ کسی وجہ سے سٹاف روم میں بیٹھی کولر سے پانی پی رہی تھی
چچا ثاقب حرا کے ساتویں مہینے میں فوت ہوگئے جس پر حرا کو یہ گھر چھوڑ کر شہر جانا پڑا، کیونکہ اب اس گھر میں اس کا ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو اس کی دیکھ بھال کرتا،
چاچی نازی نے مجھ سے تعلق بہت کم کردیا لیکن اس دوران میں نے ایمان کے بھائی کو اسی کی کزنز سے سیکس کرتے ہوئے ان کے نئے گھر میں پکڑ لیا جس پر اس نے مجھے اس لڑکی سے سیکس کرنے کی آفر بھی دی جس پر اس لڑکی نے مجھ سے رحم بھرئی نظروں دیکھا میں نے ان دونوں کو سمجھا بجھا کر گھر بھیج دیا۔
ایمان اس سب میں خاموش محبت میں مبتلا رہی ہمارے گھر میں باجی کی شادی کی تیاریاں جاری تھی، ایمان اب جب بھی میرے گھر آتی تو امی اسے میرے پاس زیادہ دیر رکنے نہ دیتی، اور وہ بھی تائی (امی) کی بیٹی بنی رہتی۔
جیسے ہی میرا میٹرک کلیئر ہوا ابو نے امی سے مشورہ کیا اور میرا اور ایمان کے رشتے کی سرسری سی بات کردی جس پر چاچو، چاچی ربیعہ، چاچی نازی، چچا نواز ان سب کا اعتراض تھا۔ چچی ربیعہ مجھے اپنا مستقبل بنانے کا بول کر صاف انکار کرچکی تھی۔ میں نے کچھ دن تک ایمان سے اکیلے میں پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے (جبکہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا تھا کہ لڑکیوں سے کوئی مشورہ کیا جائے)
تب اس نے اپنا فیصلہ اپنے والدین کے سر تھونپ کر مجھے بری الزمہ قراردے دیا۔ تب گاؤں میں سے ایک اور رشتہ باجی طاہرہ کے لیے آیا جس پر امی ابو اور میرے ماموں نے سوچ بچار کی اور رشتہ کر دیا بعدازاں باجی طاہرہ کی شادی بھی باجی فرزانہ کے ہمراہ کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔
جس دن ہمارے گھر شادی تھی اس دن سلمیٰ، ایمان، ماہرہ، حرا، وحیدہ ، ماورا، مسکان سب کی نظروں کا محور میں تھا لیکن میں کسی کو بھی شک میں ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔ مائیں سب کچھ جانتیں ہیں کے مصداق امی نے شادی کی تقریب کے بعد مجھ سے وحیدہ اور حرا کو چھوڑ کر باقی تمام لڑکیوں کے متعلق پوچھا جس پر میں نے صاف انکار کردیا۔
بہنوں کے چلے جانے کے بعد میں بلکل اکیلا ہوگیا تھا کیونکہ پہلے والی سادہ طبیعت والی ایمان، وہ والی ایمان نہ رہی۔ اس لیے اس کا زیادہ وقت اپنے گھر، یا سکول میں گزرتا۔ میں نے ابو سے بات کی اور ایک چھوٹی سی دکان پر بیٹھنا شروع کردیا۔
میں اپنی پڑھائی کو آگے بڑھانے کے لیے پرائیوئٹ داخلہ دینے کی سوچی پھر کسی وجہ سے ایسا کرنے سے خود کو روک لیا۔
امی ہر شام مجھ سے کبھی فلاں دور کے ماموں کی بیٹی کی بات چھیڑ دیتی، پھر کسی شام دور کے انکل کی بیٹی کی بات چھیڑ دیتی، میں بس انکار میں سر ہلا کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ جاتا، مجھے خود سمجھ نہیں آرہا تھا، کہ میں کیا کررہا ہوں۔
میں احسن کے مصداق آنکھیں بند کرکے کسی ایک کا چہرا تلاشنے کی کوشش کرتا تو سب لڑکیاں میری آنکھوں کے سامنے آجاتیں جس سے میں مزید پریشان ہوجاتا۔
باجی فرزانہ کے سسرال والے گجرات شہر کے رہائشی تھے اس لیے شادی کے کچھ عرصے کے بعد وہ گجرات شفٹ کرگئے جبکہ بہنوئی اور باجی اسی شہر میں رکے رہے جہاں آج کل میری دکان ہے۔ پھر بہنوئی کو ویزہ مل گیا بعدازاں باجی ہمارے ساتھ ہی رہنے لگیں۔
باجی کے بار بار سمجھانے پر میں نے امی اور باجی کو ان سب لڑکیوں کو چھوڑ کر کسی نئی لڑکی سے شادی کرنے کیلئے تیار ہوں، کہہ کر چھت پر چلا گیا جہاں ناجانے کیوں میں رو پڑا۔ میں اس مسئلے میں پڑا ہوا تھا کہ میں کس سے محبت کربیٹھا ہوں؟ کیونکہ نہ تو ایک لڑکی میرے خیالوں میں آتی اور نہ ہی سوتے ہوئے مجھے کوئی خواب آتا جسے دیکھ کر میں بولتا کہ یہی لڑکی ہے جس کی وجہ سے میں پریشان ہوں۔
دکان پر جاتے ہوئے کچھ عرصہ بعد میری ملاقات ایک سکول کی ایک ٹیچر سے ملاقات ہوئی
عینی: بتیس سائز کے بوبز، قد درمیانہ، رنگت درمیانی، میک اپ کیا ہوا تو کسی بھی لڑکے کو اپنے اشاروں پر چلا سکتی تھی، بتیس سائز کی گانڈ پر کوئی بھی عام سا لڑکا مر سکتا تھا، اگر مزید محنت کی جائے تو اس سائز کو تبدیل بھی کیا جاسکتا تھا۔ عینی کی توسط سے اس نجی سکول کی چپڑاسن وحیدہ کو رکھ لیا گیا تھا، وحیدہ اور عینی ایک دوسرے کی بچپن کی دوست تھیں، اکثر وحیدہ عینی کو میرے متعلق واقعات سنایا کرتی تھی لیکن اس نے کبھی میرا نام، یا میرے متعلق اہم باتیں نہیں بتائی تھی اس لیے جب ہم دونوں کی ملاقات ہوئی تب وہ کسی وجہ سے سٹاف روم میں بیٹھی کولر سے پانی پی رہی تھی
Comment