Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دوست کی بیوی اور اس کے گھر والے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • لاجواب۔ہیرو اب منجھا ہوا کھلاڑی بن چکا ہے

    Comment


    • کہانی مست ہے

      Comment


      • سب سے پہلے کہانی کے لکھاری کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے
        بہت زبردست کہانی جا رہی ہے
        ایک دم شہوت انگیز کہانی ہے ہر منظر کو بہت اچھے طریقے سے لکھا ہے
        الفاظ کا چناؤ بہت بہترین کیا ہے
        ہر کردار کو با خوبی بیان کیا ہے
        کہانی حقیقت کے قریب لکھی گئی ہے
        بس ایک گزارش ہے کہ کہانی لکھنے کے بعد ایک دفعہ پڑھ لیں
        لاسٹ اپڈیٹ میں کہانی ادھر اُدھر ہو گئ ہے
        کہانی اس فارم کی بہترین کہانیوں میں شامل ہے

        Comment


        • مزا آ گیا ۔۔

          Comment


          • کہانی تو بہت ہی جاندار جا رہی ہے

            Comment


            • کیا پات ھے مزیدار اپ ڈیٹ تھی

              Comment


              • واہ مزے

                Comment


                • sameer bhai ap ki kahaani achi hai plot acha hai lekin ap kafi ghaltiyan.kar rhy ho bura na manaiye ga koi bhi seen likhny sy pwhly us ka background likhty ta ky qari ko smjh a sky dusra apki imla ki ghaltia bhi hain aur ap beech beech mai sy kisi aur trf nikl jaty is sy qari disturb hota umeed hai ap islaah kry gy sab ka kher khawah ar awan

                  Comment


                  • مہاراجہ کچن میں چلی گئی پھر اپنے گھر میں آکر کام کرنے لگا، کچھ دیر مجھے احساس ہوا کہ کافی دیر بعد میں جا کر گیٹ اور بند بند کر دیتا ہوں جیسے ہی باہر نکل گیا تو مہر کو جھک کر کام کرتے دیکھا۔ مہاراہ کی گانڈ کو دیکھ کر ناجانے کیوں میرے دماغ میں گندگی لگ رہی ہے۔ میں چلا اس کے پیچھے جا کر بولا: مہر تم نہیں گئی؟
                    مہرہ فرااً سیدھا آپ نے کہا: نہیں، خلالہ نے امّی سے اجازت لی تھی کہ رات کو یہ رہ جانا۔

                    میں نے مجھے تھپتھپاتے ہوئے کہا: میری عقل نہیں پتا آپ کے سامنے گھس کر چلی جاتی ہے۔

                    مہر نے میری بات سنتے ہی فوراً مجھے غصے کے انداز میں کچن کی دیوار سے سمیر لگاتے ہوئے کہا: کیا بولا تم نے؟

                    مہارہ کی ختم تیور نے میری گمشدگی تھی، میں پہلے قرہ کی موٹی کو دیکھ کر گرمی کی حالت میں بدلتا ہی تھا کہ اب سیٹ کرنا ہی تھا کہ مہارہ کیبت میں ہکل لگانا: کچھ نہیں۔

                    مہارہ نے جیسے مجھے چھوڑا میں خود کو ہیلکس کرنے لگا تو مجھے افتاد ٹوٹ پڑا، مہارہ دوبارہ میری طرف سے پلٹی اور مجھ سے تابڑ توڑ پھوڑنا۔ میری سٹیٹ گم تھی اب اس بات کی اطلاع حواسختہ سے پہلے۔ میں تقریباً دو ہفتے کے بعد کسی لڑکی سے سیکس کر رہا تھا، آج یہ کافی لمبا ہوچلا تھا۔

                    مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مہر نے میرے لن کو شلوار کے اوپر سے ہی اپنی ٹانگوں کے پیچھے چھپا لیا ہے۔ میری ہمت جواب دے میں بھی مہارہ کو کس کرناشروع کرچکا۔ میں ذرا سمبھلا تو میں مہارہ کو فوراً اپنے بازو میں بھرا بیڈ پر لاکر دیا اور مہارہ کے درمیان کو چومنا شروع کرنا شروع کر دیا۔

                    میں نے جیسے ہی نیچے کی طرف سفر شروع کیا تو مہارہا نے مجھے روک لیا۔

                    مہارا: یہ میری پہلی سہاگ رات ہے سمیر مجھے تیار تو جانے دو۔

                    ادھورا ادھورا مہارہ کے جسم سے اتر کر سائیڈ پر گیا جس پر مہارہ کچھ دیر کے درمیان سے لے جانے کے بعد اور اوپر پہنچ کر مجھے تھینکس کے ذریعے باہر نکلنا پڑا۔ اور میں بس مہارہ سے متعلق لگنا۔

                    میں نے سوچ لیا تھا کہ میری ہی شادی کی بات تھی۔ میں نے کہا اور واش روم گھس کر باہر آ گیا تو گھر کی لائٹ آف تھی، میں آگے آگے تو مجھے محسن خوشبو اپنے نتھنوں محسوس کرتے ہیں۔ میں نے جیسے ہی لائٹ آن لائن تو میرے سامنے میرے بیڈ پر پھولوں کی سیج پر سرخ رنگ کے کپڑوں میں دلہن کی طرح بیٹھی بیٹھی رہی۔

                    میں ایک پل کے لیے مہارہ کو دلہن بنا دیکھو، پر یادوں میں کھوگیا تب مہارہ بولی: مت دیکھو عثمان۔ مجھے شرم محسوس کرنا۔
                    میں یک دم مہرہ کی بات سے موجودہ حالات میں واپس آ رہا ہوں، اب میرا فیصلہ تھا کہ میں مہارہ کی طرف سے محبت کا جواب دو طرفہ محبت سے دیتا ہے۔
                    میں نے سر کے بالوں کو خشک کرتے ہوئے ڈرسنگ کرتے ہوئے سامنے رکھ کر بولا: مہاراجہ۔ میں محبت کا احترام کرتا ہوں۔ پلیز میری بات کا برا مت منانا۔
                    مہرہ بے یقینی کے عالم میں: عثمان۔ تم نے مجھے کیا بے وقوف سمجھ رکھا ہے جو کچھ، ہم دونوں لمحے پہلے پڑھ رہے تھے؟ میں چھوٹی بچی نہیں ہوں جو ان لمحات کو ہوس قرار دے دوں۔
                    میں مہارہ کے پاس ہوتے ہوئے اپنے آپ کو تولیہ سائیڈ پر چڑھاتے ہوئے بولا: میراہ۔ میں سمجھ نہ پارہا کہ تم سے محبت کرتا ہوں یا ایمان سے۔
                    مہاراجہ تنک کر: لیکن میں جانتی ہوں اور تم صرف محبت کرتے ہو نا کہ ایمان سے۔ مجھے باجی نے سب کچھ بتا دیا۔
                    میں : پھر بھی اتنا ہی بولوں گا۔
                    مہریں بات کرتے ہوئے: تم ایک دوسرے کا پھر کوئی بہانہ بنا کر بھاگنا چاہتے ہو، عورت کو مارو گے؟
                    میں: اچھا چھوڑو ان سب باتوں کو۔
                    مہرہ فوراً تیز لہجے سے: آج اس بات کا فیصلہ ہوجانے دو سمیریہ روز بہانے والے میرے گھر والے مجھے اب تنگ کرنے کے لیے۔ میری بہن عینی صرف میری وجہ سے اپنے سسرال بھی نہیں گئی،
                    میں: اچھا ٹھیک ہے تم ہی بتاؤ تم؟
                    مہرہہ کو سا خوش کرتے ہوئے: میں خلوص کو بولا وہ کل ہم دونوں رشتے کی بات کرنے پر میرے گھر چلے جاتے ہیں۔
                    میں مکمل ہارتے ہوئے: ٹھیک ہے جیسا کہ مرضی ہو مہارہ۔
                    میں جیسے ہی اٹھنے لگا تو مہر نے میرا ہاتھ بٹانا بولی: آج کے بعد تم ہرا کے پاس جانے کا سوچو گے اور نہ ہی وحیدہ کے پاس۔ سمجھے
                    میں بیڈ پر ہوتے ہوئے مہاراشٹر کے پاس دیکھ کر سوچا: کیوں نہ اس کو تنگ کیا جائے جائ
                    شاید واپس چلے جائیں
                    جائے
                    میں: ٹھیک ہے، میں ان میں سے کسی کے پاس نہیں جاؤں گا، بشرطیکہ تم ان کی خلا پوری کردو تو
                    ماہرہ ترنت(فوراً) بولی: جس دن میں نے تم سے راستے میں اظہار محبت کی تھی، اسی دن سے میں نے روح کے ساتھ ساتھ اپنا جسم تمہیں سونپ دیا تھا، اگر تم چاہتے تو اسی دن۔۔۔
                    میں نے بات کاٹ کر فوراً اس کے چہرے کو پکڑ کر بولا: مجھے تمہاری محبت کا احساس ہے ماہرہ، اب بس کردو۔
                    ماہرہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے: اگر احساس ہے تو مجھے باہر جانے سے کیوں نہیں روکا؟
                    میں شرارتی انداز سے: اگر باہر جانے نہ دیتا تو اس روپ میں تم کبھی بھی نہ آتی، جیسے جنگلی بلی
                    ماہرہ اپنا چہرہ آزاد کروانے کے بعد: تم نے پھر ایمان کا ذکر شروع کردیا۔ خبردار اب اس کا نام لیا تو
                    میں لمبا سانس لینے کے بعد: وہ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے، جب تک میں زندہ ہوں تب تک اس کا ذکر چلتا رہے گا، اب جلدی سے بتاؤ سہاگ رات کے چکر میں کھانا بنایا کہ نہیں؟
                    ماہرہ مجھے آنکھیں دکھاتے ہوئے: مجھے کام چور سمجھ رکھا ہے تم نے؟
                    میں: فلحال تم دل کی رانی بنی ہوئی ہو، کام چور تو شادی کے بعد معلوم ہوگا نا۔
                    ہم نے کچھ دیر ایسے ہی نوک جھوک کی پھر بل آخر ماہرہ کے پیار کی جیت ہوگئی، ہم نے اس رات ایک نئی زندگی کی ابتدا کی تھی، کافی عہد و پیما کیے، پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں سوگئے۔ صبح ہم دونوں کی کافی خوشگوار تھی، اپنے پہلو میں سوئی ہوئی ماہرہ آج سے پہلے والی ماہرہ نہیں لگ رہی تھی۔ میں نے اس کو جگائے بغیر واش روم گیا نہانے کے بعد باہر آیا اور کچن میں چلا گیا۔ جب بھی امی گھر سے باہر جاتی تھیں میں خود ناشتہ تیار کرلیتا تھا، ناشتے میں، میں نے صرف ڈبل روٹی، انڈہ، جیم اور چائے کا ایک بڑا مگ لے کر کمرے میں آیا تو ماہرہ ابھی تک سو رہی تھی۔
                    میں نے مطلوبہ چیزیں سائیڈ ٹیبل پر رکھیں اور ماہرہ کے ساتھ بستر میں گھس کر ماہرہ کو پیار کرنے لگا۔ جس پر ماہرہ نے آنکھیں کھول دیں۔ ماہرہ کو گڈ مورننگ وش کیا اور ناشتے کی اطلاع دی جس پر ماہرہ نے مجھ سے اپنے دل کی خواہش بیان کی۔ میں نے اس کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے اس ننگا ہی اٹھا کر واش روم لے گیا۔
                    ماہرہ: کاش یہ لمحات کبھی ختم نہ ہوں عثمان
                    میں: کیوں سردی میں مرنا چاہتی ہو بے شرم لڑکی؟ ایک تو خود ننگی ہو اور اوپر سے خواہش بھی ایسی کہ مجھے بھی ننگا اپنے ساتھ واش روم میں لے آئی ہو۔
                    ماہرہ مسکراتے ہوئے شاور کو کھول دیا، کچھ دیر تک ہم شاور کے نیچے کھڑے مستیاں کرتے رہے پھر ہم ننگے ہی واپس بیڈ پر آگئے، ماہرہ میری گود میں بیٹھ کر ناشتہ کرتی رہی اور ناشتہ کرواتی رہی، پھر ہم نے کپڑے پہن لیے۔ صبح کے گیارہ بجے امی نے گیٹ ناک کیا جس پر میں نے دروازہ کھول دیا۔ امی کے ہاتھ میں ایک کلو ایک ڈبہ، اور دوسرے ہاتھ میں دو کلو کے دو ڈبے تھے،
                    میں امی کی تیاری سمجھ چکا تھا اس لیے امی کا راستہ چھوڑ کر امی کو اندر آنے دیا، امی اس دن کافی خوش تھیں، کچھ دیر تک باجی فرزانہ اور باجی طاہرہ بھی آگئیں۔ پھر آہستہ آہستہ میرے پانچوں ماموں اور چار ممانیاں گھر میں داخل ہوتی گئیں۔ دن کا کھانا باجی اور مامی نے مل کربنایا تب تک ماہرہ بھی اپنے گھر جا چکی تھی۔
                    شام کے تین بجے امی اور باقی افراد ماہرہ کے گھر چل دیئے، پانچ بجے ماہرہ نے ایس ایم ایس کے ذریعے مبارک باد دی، اس رشتے کے بعد اگلے دن امی نے جان بوجھ کر میرے ذریعے چاچی ربیعہ کے گھر مٹھائی کا ڈبہ بجھوادیا تاکہ ان کو جلایا جاسکے۔
                    ماہرہ سے رشتے کے بعد منگنی ہوئی پھر کچھ دنوں کے بعد ماہرہ نے مجھے بتایا کہ تم (عینی شاہ) مزید پڑھنے کے لیے لاہور جا رہی ہو، میں اپنی سالی سے ملنا چاہتا تھا کیونکہ باقی تمام سسرالیوں کو میں مل چکا تھا بس تم رہتی تھی۔
                    ایسے ہی کچھ وقت گزرا ایک دن ماہرہ مجھے تنگ کررہی تھی تبھی ایمان ہمارے گھر آئی اور ماہرہ سے بدتمیزی کردی، ایمان کی اس حرکت کا جواب امی نے دیا، لیکن ماہرہ کو مجھ سے توقع تھی کہ میں کوئی جواب دوں لیکن میری طرف سے خاموشی سے ماہرہ کو صدمہ پہنچا۔
                    ماہرہ اسی وقت واپس چلی گئی اور میں ان دونوں کے متعلق سوچنے لگا، میں نے نئی دکان کے لیے باجی کے شہر جانا شروع کردیا تھا، میں نے کافی دکانیں دیکھی، پھر تب احسن ایک دن مل گیا، احسن نے بتایا کہ وہ ویلفئیر کا اونر ہے اور جلد اس ویلفئیر کے ذریعے ایک سکول کھولنے والا ہے۔
                    میں نے سوچا کہ چلو کچھ دن مزید یہیں دکانداری کرلیتا ہوں اور ساتھ میں سکول بھی دیکھ لیا کروں گا۔ کیونکہ احسن نے مجھے بغیر انوسٹ مینٹ کیے پچاس پرسنٹ کا مالک بنا دیا تھا۔
                    یہ خبر میں نے ماہرہ کو سنائی وہ کافی خوش بھی ہوئی تب اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس دن ایمان کو جواب نہ دے کر میں نے اس کا دل دکھایا ہے۔
                    میں نے اسے کافی منایا پھر جا کر وہ مان گئی لیکن اس نے شرط یہ رکھ دی کہ شادی دو سال بعد نہیں اسی سال ہو، بعدازاں معلوم چلا کہ وہ تمہاری (عینی) شرط تھی۔ میں نے ہاں بول دی کیونکہ امی بھی بار بار بول کر تھک چکی تھیں۔ میرے مثبت جواب سے ماہرہ کافی خوش ہوئی، ایسے ہی پھر شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی تب اس بیچ ایمان اور چاچی ربیعہ کا آنا جانا شروع ہوگیا، جس پر امی نے کچھ بھی نہ کہا، اور نہ ہی ان دونوں کو ہمارے گھر آنے سے روکا۔
                    ابو نے کچھ دن تک آنا تھا، جس دن وہ پہنچے اس دن سے ٹھیک دس دن بعد جب میرے گھر والے اور میرے سسرال والے صحن میں بیٹھ کر اہم معاملات پر بات چیت کررہے تھے میں بھی ان کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا تب تمہارے گھر والوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے مزاحیہ انداز میں پوچھا: جناب شادی کو تیار بھی ہیں یا بس ہماری دھی رانی کے شرط کی وجہ سے جلدی شادی کرنے والے ہیں؟
                    میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی چاچی بیچ میں بول پڑیں
                    : ویسے یہ اچھا طریقہ ہے بھائی صاحب، پہلے آپ کی دھی رانی نے ہمارے عثمان کو راستے میں روکا، آنکھ مٹکا کیا، پھر جھوٹی کہانیاں سنا کر رام کرلیا، وہ تو بے چارہ معصوم ہے، آپ کی دھی رانی کی باتوں میں آگیا، پھر جلدی شادی کروانے کے چکر میں آپ نے شرط رکھ دی، ظاہر سی بات ہے، اس نے تو مان ہی جانا تھا نا
                    اس دن کافی ہنگامہ ہوا، چاچی نازی نے سوال کیا کہ کیا تم سمیر کو پسند کرتی ہو تب اس نے بھی اسی لمحے ہماری اہم محفل میں اپنے پیار کا اظہار کردیا۔ بات کو ہینڈل کرنے کے لیے ماموں بیچ میں آئے لیکن بات لمبی ہوچکی تھی، میرے سسرال والوں نے صاف بول دیا کہ اگر آپ کو رشتہ گھر میں سے مل رہا تھا تب وہ رشتہ کرنے ہمارے گھر کیوں آئے؟ پھر اسی شخص نے غصے میں کہا: بھائی صاحب رشتے گھر میں ہوں تب کسی کے گھر مت جایا کریں، یہ تو وہ طریقہ ہوگیا نا، گھر بلا کر بے عزتی کردی۔
                    ماہرہ کے گھر والے اٹھ کر چلے گئے تب چچا اور چاچی ربیعہ اور ایمان ابو کے اردگرد بیٹھ کر ان کو سمجھانے لگے کہ اچھا ہوگیا کہ وقت پر ہی ان(ماہرہ) کے گھر والوں کا پتا چل گیا شادی کے بعد یہ باتیں کرتے تو کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔
                    کچھ دیر تک ایسا ہی چلتا رہا، اگر مجھے باجی نے روک نہ رکھا ہوتا اور امی ابو کی تربیت اچھی نہ ہوتی تو ان سب کو منہ توڑ جواب دیتا، میں اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔ تب مجھے ایمان کا ایس ایم ایس آیا۔ جسے پڑھ کر مجھے مزید غصہ آیا اور میں نے باجی فرزانہ کو ٹیکسٹ کرکے اندر بلایا اور کہا کہ یہ میسج سب کو سنا کر ان کی فیملی باہر کردو ورنہ میں نے خود یہ کام کرنا ہے۔
                    باجی نے وہی کیا جو میں نے کہا تھا، میرا ماہرہ سے تعلق ختم ہوچکا تھا، مجھے کچھ دن کے بعد کسی انجان نمبر سے میسج آیا کہ ماہرہ کراچی جارہی ہے۔ میں نے فوراً اپنی کچھ دن پہلے والی شرمندگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماہرہ کو کال کی لیکن ماہرہ نے کال ریسو نہ کی۔
                    میں نے گھر میں سب کو بولا کہ جا کر ان سے بات کریں، مسئلہ ختم ہوجائے گا لیکن کوئی بھی نہ مانا، پھر شام تک اطلاع ملی کہ ماہرہ نے خودکشی کرلی ہے۔
                    میں تو سکتے کی حالت میں تھا جبکہ ہمارے گھر میں سے کوئی بھی بات نہیں کررہا تھا، میری امی اس دن کافی زیادہ روئیں۔
                    میں نے خود کو کچھ مہینے کے بعد تبدیل کرنا شروع کردیا تھا میں اب دکان پر کم ہی جاتا تھا جبکہ احسن مجھے لے کر کبھی شہر، تو کبھی گاؤں کی ہریلائی میں گھماتا رہتا تھا، تب تک یہ مکان بھی تیار ہوچکا تھا، ہم دونوں جگری دوست یہاں کافی دن تک پڑے رہتے، ابو مایوس ہو کر واپس نوکری پر چلے گئے۔
                    پھر ایک دن جب ہم دونوں دوست میرے ہی گھر پر بیٹھے عام سی باتیں کررہے تھے تب احسن بولا: سنا ہے کہ عینی اپنے شوہر سے خوش نہیں ہے، اس کا شوہر دوبئی جاچکا ہے، عینی نے اپنے میکے میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر اس کے شوہر نے انکار کردیا، پھر عینی کی نند نے مشورہ دیا کہ وہ سسرال اور میکے کے درمیان میں گھر کرایے پر لے کر رہ لے تاکہ جب بھی دل کرے تو سسرال چلی آیا کرے اور جب دل کرے میکے چلی جائے۔
                    میں بور ہوتے ہوئے: یار کوئی اور موضوع نہیں ہے تمہارے پاس؟
                    احسن تھوڑا قریب ہوتے ہوئے: اصل بات تم نے سنی نہیں میرے سوہنے راجا
                    میں: یہی نا کہ وہ اسی جگہ رہے گی جہاں ہمارا سکول ہے؟ اس میں کونسا بڑی بات ہے؟
                    احسن: پہلی بات، اگر وہ وہاں رہتی ہے تو تم اس سے ماہرہ بھابھی کی خودکشی کی تفصیل جان سکو گے۔ اس دوران اگر وہ تمہاری طرف متوجہ ہوجاتی ہے تو تم دونوں شادی کرلینا۔
                    میں فوراً احسن کی آخری بات پر بھڑک اٹھا: تمہیں معلوم تو ہے نا، کہ وہ میری ماہرہ کی بہن ہے اور وہ بھی شادی شدہ۔ پھر تم نے ایسی بات کیسے سوچی اگر سوچی بھی تو منہ سے نکالی ہی کیوں؟
                    احسن مجھے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: یار تم پانی شانی پیو۔، ٹھنڈے دماغ سے سوچو،
                    اتنے میں امی بول پڑیں جو شاید کسی وجہ سے ہمارے قریب آئیں تھیں: احسن صحیح کہہ رہا ہے، میری دلی خواہش تھی کہ ماہرہ میری بیٹی بن کر اس گھر میں آئے، اگر وہ نہ آسکی تو تم اس کی بہن کو بھی میری بہو بنا سکتے ہو چلو بعد میں اس کو میں اپنی تربیت سے بیٹی بنا لوں گی لیکن اس کے لیے تمہیں اس کے قریب جانا ہو گا۔
                    میں: پر امی ایسا کیسے ممکن ہے، وہ تو شادی شدہ ہے نا۔
                    امی: احسن تمہیں ساری بات سمجھا دے گا، نہیں تو میں وحیدہ کو بلا کر تمہیں سمجھانے کی کوشش کروں گی۔
                    احسن: خالہ آپ اندر جائیں میں اسے سمجھاتا ہوں۔
                    احسن امی کے جانے کے بعد دوبارہ بولا: شاید تم نے میری پوری بات غور سے سنی نہیں، عینی اپنے شوہر سے خوش نہیں۔ اب کچھ سمجھ آیا کہ نہیں؟ (کچھ دیر میرے چہرے تاثرات دیکھنے کے بعد)
                    ہرے تاثرات دیکھنے کے بعد)
                    جب تم اور ماہرہ بھابھی سکول کے لیے ایک ساتھ نکلتے تھے اور واپس آتے تھے تب عینی تم دونوں کے پیچھے چلا کرتی تھی، جب اس نے تمہیں اپنی بہن کے ساتھ غلط سلوک کرتے نہیں دیکھا تب اس کے دل میں ہلچل مچی، جس کا ذکر اس نے اپنی دوست سے کیا، جانتے ہو نہ عینی کی دوست کون تھی؟
                    میں: وحیدہ، پر وہ تو۔
                    احسن: جب حرا کے گھر سے تم دودھ لینے جاتے تھے تو کیا تم اکیلے ان کے گھر سے دودھ لاتے تھے؟ نہیں نا، وحیدہ، تم اور عینی ان کے گھر سے دودھ لایا کرتے تھے، عینی کی دوستی وحیدہ سے وہیں ہوئی، بعدازاں حرا کا گھر وحیدہ نے لے لیا اور وہ دودھ سیل کرنے لگی، اب بھی میری بات سمجھ آئی کہ یا وحیدہ کو بلا لاؤں؟
                    میں: نہیں یہاں تک سمجھ آگئی۔ اب آگئے سمجھاو۔
                    احسن: پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر وہ والا دن بھی آیا جب عینی نے اپنے دل کی بات کہنے کی کوشش کی، لیکن جب وہ کرپاتی تب تک عینی نے دیکھا کہ ماہرہ نے اپنے دل کی بات تم سے کردی ہے،
                    پھر کیا تھا، وہ اپنی یک طرفہ محبت کو اپنی بہن کی وجہ سے بھلا بیٹھی، اس دن بھی تمہارے رویے کی وجہ سے عینی کے دل میں تمہارے لیے مزید عزت بڑھی، تم مانو یا نہ مانو، عینی کے ازدواجی زندگی میں اسی محبت کے اثرات باقی ہیں۔ سمجھے
                    اس دن سچ میں میرا سرگھوم چکا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میری وجہ سے تین تین زندگیاں برباد ہوئی تھی۔ پہلی ایمان، دوسری ماہرہ، اور اب عینی،
                    پھر باقی کی کہانی تمہیں (عینی شاہ) معلوم ہی ہوگی کہ کیسے تمہیں مکان کرائے پر ملا پھر ہم دونوں کی جان پہچان بڑھی تم نے کوشش نہیں کی لیکن میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ تم میری طرف متوجہ ہو، لیکن ایسا موقعہ تم نے آنے نہیں دیا۔ میں نے تمہیں نوکری کی آفر احسن کے ذریعے دی، پھر اچانک ایک جھگڑے کی وجہ سے سب ختم ہونے والا تھا تب تم نے اپنی ذہانت کی وجہ سے سکول کی تباہی کو ختم کیا، پھر میں نے خوش ہوکر تمہیں سکس کلاس کی سرپرستی تمہارے حوالے کی، پھر اس دوران ہما میری زندگی میں آئی لیکن اس نے خود کو میرے حوالے خود کیا، میں نے کوئی زور زبردستی نہیں کی،
                    پھر اگلی کہانی تمہیں معلوم ہے، اور اب یہ فیصلہ تمہارا ہے عینی شاہ۔ تم مجھے ماہرہ کی خودکشی کا صحیح پہلو بتاو اور ہماری زندگی کا فیصلہ بھی۔ (جاری ہے)

                    Comment


                    • Zabardast. Bechari majira ki phuddi maar k khudkushi kerwa dee.

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X