Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دوست کی بیوی اور اس کے گھر والے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    کیا ہی مزے سے چوسا ہے بھابھی نے ایسا لگتا جیسے میرا لن چوس رہی واہ کیا لکھ رہے ہو رائٹر صاحب

    Comment


    • #32
      بہت زبردست آغاز ہے لگتا ہے پڑھنے کو ایک اور اچھی اسٹوری مل گئی

      Comment


      • #33
        lajwab khani

        Comment


        • #34
          زبردست اچھی

          Comment


          • #35
            بہت بہت شکریہ سب کا کومنٹس کرنے کے لے

            Comment


            • #36
              کچھ دیر بعد میں دکان پر موجود تمام کسٹمرز کو ڈیل کرنے لگا۔ شام ۷ بجے میں گھر پہنچا تو گھر والوں کو میں نے احسن کی بات کو سب کے سامنے رکھا۔ جس پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔
              رات ۸ بجے احسن کی کال آچکی تھی جس کے مطابق مجھے نازیہ، احسن کے ساتھ نازیہ کی دور کی خالہ کے گھر دعوت پر جانا تھا۔ میں نے باتھ لیا اور ٹھیک ۹ بجے احسن کے گھر پہنچ گیا۔ وہ دونوں میرا ہی انتظار کررہے تھے اس لیے ہم پانچ سے دس منٹ کے بعد مطلوبہ منزل کی جانب چل دیئے۔

              کھانے کے بعد ہم سب خوش گپیوں مطلب صرف نازیہ اور اس کی خالہ باتوں میں مصروف ہوگئی ہم دونوں دوست گیسٹ روم میں بیٹھ کر اگلی دعوت پر بحث کرنے لگے۔ نازیہ کی یہ خالہ ۴۲ سال کی تھی اسی وجہ سے انکی شخصیت ہم سب سے الگ دکھ رہی تھی۔ خیر ہم دونوں نے اس کے علاوہ ان کے گھر کا ایک راؤنڈ بھی لگایا کیونکہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا بس ایسے ہی ٹائم پاس کرتے کرتے چائے بنوا کر نازیہ نے ہمیں بلوا لیا۔

              واپسی پر خالہ نے کافی کہا کہ یہی رہ جاو لیکن احسن نہیں مانا شاید اس لیے کہ اسے روزانہ کی طرح آج بھی نازیہ کی دھلائی کرنی تھی۔

              میں معمول کے مطابق اگلا دن گزارا شام کو ۷ بجے سے پہلے دکان بند کردی اور گھر چل دیا تب احسن مجھے راستے میں نظر آگیا۔

              احسن مجھے ملتے ہوئے بولا: یار۔۔۔ ابھی ہمیں نازیہ کی سکول کی دوست کے گھر چائے کی دعوت پر جانا پڑے گا۔

              میں: وہ کیوں؟ ہماری دعوت تو ۔۔۔

              احسن درمیان میں بولتے ہوئے: یار سمجھا کر یہ بیویاں اپنی ہر بات منواکر چھوڑتی ہیں اس لیے اب تم جلدی سے گھر جاو تیار ہو کر آجاو۔

              گھر پہنچ کر میں نے اپنا ہینڈی بیگ اتارا اور ایک چھوٹا سا باتھ لیا اور کپڑے تبدیل کرکے احسن کے گھر کی طرف چل دیا۔

              مختصرا ہم نے اگلی دعوت تک نازیہ کی فرینڈ کے گھر رہے پھر اگلی دعوت پر میں جانے کے لیے تیار نہ ہوا کیونکہ مجھے اپنا کام بھی کرنا تھا اس لیے خاموشی سے نازیہ اور احسن میری بات مان گئے میں نازیہ کی دوست کے گھر سے باہر نکلا ساتھ میں نازیہ اور احسن بھی، وہ دونوں اپنی اگلی دعوت پر نکل گئے میں جیسے ہی اگئے بڑھا تبھی نازیہ کی دوست (ایمان، مطلب میرے چچا کی بیٹی، جی ہاں) نے مجھے پکارا۔ چونکہ اس وقت چچا اور چچی نازیہ اور احسن کے ساتھ ہی نکل کر کسی کام کی سلسلے میں ساجد صاحب کے گھر گئے تھے۔ اس لیے ایمان کو مجھے روکنے کا بہانہ مل گیا۔

              میں خاموش لیکن دوسری جانب جس طرف میں جا رہا تھا، دیکھتا دیکھ کر ایمان میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔

              ایمان: کیسے ہو؟

              میں نے ایمان کو یکسر فراموش کرتے ہوئے بائک کے راستے سے ہٹانے کے لیے اپنی بائک کو پیچھے کی طرف کیا اسی وقت ایمان میری بائک کے اگلے ٹائر پر آکر بیٹھ گئی۔

              ایمان: ناراض ہو جناب

              میں اپنا چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے ایمان کے گھر کو دیکھنے لگا میرا ایسا کرنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ ایمان زچ ہوکر میرا راستہ چھوڑ دے۔

              ایمان نے ٹھیک ویسا ہی کیا جیسا میں نے سوچا تھا لیکن میرے بائک سٹارٹ کرنے پر ایمان میری بیک سائڈ پر آکر میرے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی۔

              ایمان: سیاں جی۔۔۔ اب لے چلو ہمیں اپنے سسرال۔۔۔

              ایمان کو ۲ گھنٹے سے مسلسل اگنور کرنے کے بعد بھی میرا مقصد کامیاب ہوتا نہ دیکھ کر میں نے ایمان کو اس مرتبہ جھڑک دیا۔ تاکہ وہ اپنے گھر چلی جائے اور مجھے تنگ نہ کرے

              ایمان نے اپنے بازو میرے کندھے پر رکھ کر بولی: سیاں جی۔۔۔ ایک آئی لو یو کہنے پر اتنا غصہ۔۔۔ اف توبہ۔۔۔ ہوا کیا ہے؟

              میں نے بائک کو گھیر میں ڈالا اور تھوڑا سا دور لے جا کر بائک کو بند کردیا اور بولا: تم سمجھتی کیا ہو؟ میرے ہی گھر والوں کے سامنے پہلے میری بہن بنی رہتی ہو، پھر اچانک ایک ایسے دن آکر جس دن میرے گھر پر میرے رشتے کی بات چل رہی ہو بولتی ہو آئی لو یو۔ کیا تم نے مجھے ایک کھلونا سمجھ رکھا ہے؟

              تم جانتی تو ہو نا کہ تمہارے والدین (چچا ، چاچی) نے میری، اور میرے گھر والوں کی کتنی بےعزتی کی تھی؟ بھول گئی؟ نہیں نا۔ پھر آج پھر سے؟ کچھ تو شرم کر لو۔ اوہ سوری۔ اب میں سمجھا۔ جیسے والدین ویسے تم
              ایمان میرا پارا ہائی کروا کر اپنی بے عزتی کروا کر خاموشی سے بائک سے اتر تو گئی لیکن جاتے جاتے پھر سے بولی: جہاں تک سوال ہے میرے والدین کی، وہ جیسے مرضی ہوں لیکن میں ویسی نہیں۔ اب محبت کرہی لی ہے تو ساری زندگی نبھا کر بھی دیکھاوں گی۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے

              میں آج دو گھنٹے سےایمان کو زچ کرنے میں مصروف تھا لیکن چند لمحوں میں ایمان نے مجھے جلا کر رکھ دیا تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں اپنی جان ہی دے دوں۔ لیکن پھر اپنے والدین جنہوں نے مجھے بڑی مشکل سے اس مقام تک پال پوس کر لایا۔ ان کو ان کی زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا دینے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔

              بات وہاں سے شروع ہوئی جہاں سے آپ سب کو بتانا چاہیے۔ میری فیملی جوائنٹ سسٹم میں آتی تھی۔ ہم سب، دادی اماں، ابو(ان کی فیملی)، چچا(ان کی فیملی)، درمیانے چچا(ان کی فیملی) اور سب سے چھوٹے چچا ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ہماری فیملی میں پہلی لڑائی ہوئی مجھے اس کی وجہ ٹھیک سے معلوم نہیں لیکن ابو نے فورا ایک گھر تعمیر کروالیا۔ لیکن وہ گھر دادی کی مرضی سے ان کے گھر کے ساتھ بنا، جب یہ جھگڑا ہوا تب اس پوری فیملی میں دادی، میرے والدین، میں، اور میری دو بہنیں(فرزانہ، عمر ۱۸ سال، طاہرہ، عمر ۱۶ سال، میں، ۱۴ سال)

              بڑے چچا اور چچی ان کی بیٹی اور بیٹے، درمیانے چچا اور چچی(ربیعہ، عمر ۲۲ سال رنگ فئیر) ان کی اکلوتی بیٹی ایمان، عمر ۱۴ سال، دو بیٹے، پھر آخر میں چھوٹے چچا نواز رہتے تھے۔

              جھگڑے کی وجہ چھوٹے چاچے کی شادی تھی، چاچو کا رشتہ پہلے کہیں ہو نہیں رہا تھا پھر ایک جگہ بات بنتی نظر آئی لیکن سسرالیوں نے جگہ کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے چاچے نواز کو گھر داماد رکھنے کی آفر بھی کردی شاید اس لیے کہ ان کی جاری تعلیم بہت کامیاب جا رہی تھی۔خیر ابو نے دادی اماں سے بات کی اور فورا اپنے لیے ایک گھر تعمیر کروانا شروع کردیا، بڑے چاچو نے پہلے ہی ایک گھر تعمیر کروا رکھا تھا لیکن وہ اپنے نئے گھر نہیں گئے تھے مطلب شفٹنگ نہیں کی تھی۔

              اس جھگڑے کی وجہ سے ابو نے گھر کی تعمیر جیسے ہی شروع کی بڑے چاچو نے اپنی فیملی کو اپنے نئے گھر شفٹ کردیا۔

              میری بہنیں مین روڈ سے کبھی بجری، کبھی ریت، کبھی اینٹیں تو کبھی سریاں اٹھا کر نئے گھر تک شفٹ کرنے میں لگی رہتی جس میں امی بھی ساتھ دیتی تھی میرا بس یہی کام ہوتا تھا کہ میں اس بجری یا ریت کے ٹھیلے کے قریب رک کر نظر رکھتا تھا۔

              چھوٹی چچی (ایمان کی والدہ) راستے میں کھڑے ہوکر ہنستی یا پھر دونوں میاں بیوی طنز کے تیر میری بہنوں اور امی پر چھوڑتے رہتے تھے۔ یہ سب باتیں میرے سامنے کی ہیں اس لیے سب معلوم تھا۔

              خدا خدا کرکے مکان تعمیر ہو گیا تب ابو اپنی نوکری سے واپس آکر لینٹر (چھت) اور بجلی وغیرہ جیسے دوسرے مردانہ کام کیے۔ مردانہ کام تو سب ہی ہوتے ہیں لیکن ابو کی مدد امی نے ہر دم کی تھی۔ اگر اس دوران پیسہ آنا بند ہوجاتا تو ہمارے سپنوں والا گھر ادھورا رہ جاتا۔

              اسی وجہ سے ابو واپس اپنے کام پر چلے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ہمارا گھر مکمل ہوگیا تب ہم نے اپنا سارا سامان اٹھا کر جس میں ۲ رضائی اور۲ بستر، اور اسی طرح دوسرا سامان اپنے نئے گھر شفٹ کردیا۔ ابو نے ہم تینوں بھائی بہنوں کو پڑھنے کی تلقین کی اور ہم ان کی بات مان کر اپنی پڑھائی پر توجہ دینے لگے

              میں اپنی بہنوں کی طرح سلمیٰ اور ایمان کو اپنی بہنیں سمجھتا اور اپنی کزنز کو بھائی کہہ کر پکارتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد چھوٹے چاچو کی شادی ہوگئی جس پر ابو نے اپنا حصہ بھی ڈالا ہم بھی اس شادی میں شریک ہوئے لیکن ہماری حیثیت صرف مہمانوں جیسی تھی۔

              ایک چھوٹی سی لڑائی کی وجہ سے ہمارا شیرازہ بکھیر گیا تھا۔ ہم تینوں بس یہی دعا کرتے رہتے تھے کہ اب کوئی جھگڑا نہ ہو، اسی وجہ سے ہم تینوں بہن بھائی نہ تو جھگڑتے اور نہ ہی ایسی نوبت آنے دیتے۔

              ہماری فیملی میں اور بھی افراد تھے لیکن وہ پھوپھیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش تھی اس لیے ان کا فلحال ذکر کرنا زیادہ ضروری نہیں۔ بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ میری چار عدد پھوپھیاں ہیں۔ ایک دادی کے گھر کے قریب ہی رہائش پذیر ہیں، دوسری بڑے چاچو کے گھر کے قریب، تیسری، دوسری پھوپھی کے گھر کے قریب چند فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ چوتھی پھوپھی گجرانوالہ میں رہائش پذیر تھیں۔

              چاچو کی شادی میں ہم سب کزنز نے آپس میں کافی ہلہ گلا کیا کیونکہ ہم اس وقت اس موج مستی کی زندگی میں رہنا چاہتے تھے۔ مہندی والی رات تھی میں ہشتم جماعت کا طالب علم تھا اس لیے میرا قد مزید بڑھا ہوچکا تھا۔ میں اپنے کزنز اور محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اچانک ایک کمرے میں جا کر چھپ گیا۔ میری عادت تھی کہ میں پہلے خود کو ریلیکس کرلیتا تھا پھر اس کے بعد جو مرضی ہو جائے مجھے کوئی ڈھونڈ نہیں سکتا تھا۔

              کچھ وقت گزرا باہر مہندی کی تقریب میں وقت تھا لیکن باہر دما چوکڑی چل رہی تھی میں نے اس وقت پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ پینٹ میں ہلکا سا ابھار رہتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جاتاکہ سامنے والا لنڈ کھڑا ہے اوروہ ابھی ابھی سیکس کرکے باہر نکل رہا ہے۔
              کچھ دیر گزری ہوگی کمرے میں کوئی داخل ہوا چونکہ میں نے کمرے میں آنے سے پہلے یہ سوچ رکھا تھا کہ اسی کمرے میں آنا ہے کیونکہ اس کمرے کی لائٹ کافی دنوں سے خراب ہوئی پڑی تھی۔

              جو بھی اندر داخل ہوا تھا وہ پہلے ایک کونے میں گیا پھر گھومتے پھرتے میری جانب آیا۔ جیسے ہی اس بندے کا ہاتھ مجھ سے ٹکرایا تو وہ بولا

              شکر ہے تم ادھر ہو میں ویسے ہی دوسرے کونوں میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔

              میں اس آواز کو پہچاننے میں مگن تھا تبھی اس نے میرے نیچلے حصے کو پکڑ کر نیچے کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے پینٹ پہن رکھی تھی اس لیے وہ نیچے نہیں ہوئی۔ تب اس نے بیلٹ کو پکڑ کو کھولا اور خاموشی سے پینٹ کو نیچے کردیا۔

              میں کچھ بولنا چاہ رہا تھا لیکن سامنے والی نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس نے میرے لنڈ کو پکڑ کر اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ مجھے گیلا گیلا محسوس ہوا تو میں نے اس کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں سمجھا کہ وہ اب باہر چلی جائے گی لیکن میرا اندازا غلط نکلا۔

              اس نے اپنی بیک (گانڈ) کو میرے لنڈ سے جوڑ کر اپنی گانڈ کو ہلانے لگی۔ مجھے کچھ دیر پہلے ہلکا سا مزہ تو آیا تھا لیکن زیادہ نہیں شاید اس لیے کہ اس کے دانت میرے لنڈ پر بار بار لگ رہے تھے۔ اس مرتبہ اس کی گانڈ نے مجھے مزہ دینا شروع کردیا تھا میں نے اپنے کزنز سے سن رکھا تھا کہ ایسا کرنے سے ہم لڑکوں کو مزہ آتا ہے لیکن یہ پہلا تجربہ تھا۔

              اس کی موٹی گانڈ کے بار بار لگنے سے میں تھوڑا پیچھے ہٹا تو سیدھا دیوار کے ساتھ لگ چکا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر ویسا ہی کیاکچھ دیر بعد میرے کھڑے ہوئے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس نے ایک دو بار مٹھ لگائی پھر شاید وہ جھک کر اپنی پھدی پر سیٹ کرنے لگی۔

              جب میرا لنڈ اس کی پھدی پر سیٹ ہوگیا تب اس نے اپنی گانڈ کو باہر نکال کر پیچھے کی طرف دھکیلا تو میرے لنڈ کی ٹوپی اس کے اندر گئی ہی تھی کہ باہر ہلکا سا کھٹکا ہمیں محسوس ہوا۔ میں چونکہ دیوار کےساتھ لگا کھڑا تھا اس لیے ہل نہیں سکتا تھا لیکن سامنے والی جو بھی لڑکی یا عورت تھی اس نے خود کو آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف دبانا شروع کردیا۔

              جس سے میرا لنڈ کی پھدی میں مکمل چلا گیا۔ ایک مرتبہ پھر سے ہمیں کھٹکا محسوس ہوا لیکن ہم دونوں کچھ بھی نہ بولے۔ اب ہمیں اندھیرے میں دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہورہی تھی اس لیے میں نے اس سامنے سے آتے بندے کو دیکھا جو ٹھیک ہمارے سامنے کھڑا تھا لیکن اس کا چہرہ دوسری جانب تھا۔

              کچھ دیر وہ کھڑا رہا پھر خاموشی سے واپس چلا گیا۔ شاید جو مجھ سے پھدی میروانے آئی تھی اسے احساس ہوچکا تھا کہ وہ جس سے چدوانے آئی تھی وہ باہر جا چکا ہے اور جس سے پھدی مروا رہی ہے وہ کوئی اور ہے۔

              کچھ لمحوں کے بعد اس نے آہستہ آہستہ اپنی گانڈ کو ہلانا شروع کردیا۔ میں نے پہلی

              مرتبہ اس کی بنڈ پر ہاتھ رکھ کر زور سے مسلنے لگاجس پر وہ بولی: آرام سے کرو

              میں نے اس کی بات مان کر نرمی سے اسکی بنڈ کو مسلنے لگا۔ کچھ سیکنڈز کے بعد اس نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا میں تھوڑا سا اس پر جھک چکا تھا۔ اس نے میرے ہاتھ کو پکڑے پکڑے اپنی قمیض کی اندر ہاتھ ڈال کر سیدھا بوبز پر رکھ کر آہستہ سے بولی: ان کو دباو

              میں نے اس کی بات مانتے ہوئے اس کے بوبز دبانے لگا۔ بوبز دباتے دباتے میں پہلی بار بولا: تم کون ہو؟

              وہ: پھدی مار کر پوچھ رہے ہو کہ میں کون ہوں؟

              میں اپنے کام میں لگاہوا تھا اس لیے میں نے جواب نہیں دیا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اس کام میں خود کو بزی رکھنا چاہتا تھا۔ ہر روز کبھی ایک دوست کبھی دوسرا تو کبھی کزنز اپنی سٹوریز سنا سنا کر مجھے پکاتے رہتے تھے ۔

              وہ: تم یہاں کیا کررہے تھے؟

              میں: ہم کھیل رہے تھے تو میں یہاں چھپ گیا۔

              وہ: اب ہم کھیل رہے ہیں کسی کو نظر بھی نہیں آسکتے ہیں نا۔

              میں: تم نے اپنا نام نہیں بتایا۔ اگر تم میری کزنز میں سے ہوتو آج رات کو تم پھر سے اسی کمرے میں آنا اور ٹھیک اسی جگہ کھڑی ہوجانا مجھے یقین ہے تم میری کزنز نہیں ہو۔

              وہ: میں سلمیٰ ہوں۔

              میں (حیرت میں مبتلا ہوکر): میں نہیں مانتا
              میں تمہارے گھر میں، تمہارے ہی کمرے میں سونے کے لیے آجاوں تو؟؟؟

              میں نے اس کا مما تھوڑا سا زور سے دباتے ہوئے بولا: پھر جو تم کہو گی وہ بات مانوں گا۔

              سلمیٰ: ابھی بس کرو اپنا پانی نکال بھی دو۔ کسی کو شک ہوگیا نہ کہ ہم دونوں یہاں ہیں تو قیامت آجانی ہے

              میں: میرا ابھی پانی نہیں نکل سکتا۔

              سلمیٰ: اچھا۔ پھر ابھی یہ کام نہیں کرتے رات کو کریں گے جب سب سو جائیں گے تب۔ ٹھیک ہے نا۔

              میں نے اس کی بات مان لی اور وہ باہر نکل گئی۔ میں کچھ دیر کھڑا رہا پھر خاموشی پینٹ اوپر کی اوراپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد تقریبا ایک گھنٹے کے بعد باجی کمرے میں آئیں اور بولی: کیا ہوا؟

              میں: کچھ بھی نہیں۔ وہاں دل نہیں کر رہا تھا اس لیے یہاں آکر لیٹ گیا ہوں

              باجی میرے سر کو دباتے ہوئے بولی: آج میں تمہارے ساتھ سو جاتی ہوں۔

              میں سلمیٰ کی بات کو یاد کرتے ہی فورا انکار کردیا: نہیں باجی آپ باجی طاہرہ کے ساتھ سو جاو۔

              باجی نے کھانے کا پوچھا پھر اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے آنکھیں بند کرکے سونے کی ایکٹنگ کی تب ایمان اور باجی طاہرہ کمرے میں داخل ہوئی ان کے ہاتھ میں کھانا تھا۔

              باجی نے کھانا سائڈ پر رکھ کر باہر چلی گئی تب ایمان بچوں جیسی حرکت کرتے ہوئے میرے سینے پر بیٹھ گئی اور بولی: عثمان بچو۔۔۔ باہر تایا ابو نے سب کو پسٹل بھی لے کر دیئے ہیں تم سوتے رہو۔

              میں: بلی۔۔۔ اوپر سے اٹھ اور میرا پسٹل مجھے لا کر دے

              ایمان: اگر نہ لا کر دوں تو

              میں: پھر میں کھانا بھی نہیں کھاوں گا

              ایمان: پھر ٹھیک ہے تم بھی نہ کھاو میں بھی نہیں کھاوں گی تب امی تمہیں پھینٹی لگائیں گی

              میں: میں ابو کے پیچھے چھپ جاوں گا نا۔
              Last edited by Man moji; 02-03-2023, 10:48 PM.

              Comment


              • #37
                کھانا کھلاو تو میں نے پہلے ہاں کی پھر فورا بولا: اب تم جلدی سےلے کر آو پھر ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں

                ایمان اٹھ کر دروازے تک جاتے ہوئے ایک دم رکی پھر بولی: میں تو کھانا کھا آئی

                میں ایمان کی بات سن کر اس کے پیچھے بھاگا لیکن میری بلی کو پہلے سے علم تھا اس لیے وہ اپنی بات کہہ کر باہر کو بھاگ گئی۔ میری ٹکر چاچی سے ہوئی وہ کسی کام کی وجہ سے میرے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں جا رہی تھی۔

                چاچی ایک مرتبہ پھر سے اپنا سارا غصہ مجھ پر نکال کر شانت ہوئی تو میں خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا تب انہوں نے پھر سے روکا۔

                چاچی: میرے ساتھ چلو، بستر لگانے ہیں

                میں: اچھا چاچی

                چاچی: مجھے چاچی مت کہا کرو

                میں: سوری

                کچھ دیر تک ہم دونوں میرے گھر میں ہر جگہ جہاں جہاں بستر لگ سکتے لگا دیے تب تک ایمان بھی واپس آچکی تھی ہم دونوں نے بہن بھائیوں کی طرح کھانا کھایا اور ایک دوسرے کو بھی کھانا کھلایا، اگر کسی وجہ سے ہم میں سے کسی کو کھانا کھانا پڑ جائے تو دوسرا کھانا نہیں کھایا کرتا تھا اس لیے اب ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا ہم ایک دوسرے کا انتظار کر لیا کریں گے۔

                رات کا کھانا کھا کر مجھے ہلکی ہلکی غنودگی ہونے لگی اس لیے میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر تک ایمان مجھے تنگ کرتی رہی پھر وہ بھی اٹھ کر چلی گئی۔ کافی دیر تک سلمیٰ کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہ آئی پھر میں بھی سو گیا۔ کچھ وقت گزرا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے اوپر بیٹھا ہوا۔

                میں نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ سلمیٰ تھی۔ کمرے میں زیرو واٹ کا بلب جل رہا تھا جو ٹھیک میرے بستر کے اوپر لگا ہوا تھا۔ سلمیٰ میری حرکت کرنے پر بولی: اتنی جلدی سو جاتے ہو تم؟

                میں: ہاں۔ اتنی دیر انتظار کیا تم نہیں آئی

                سلمیٰ: ابھی بارہ بجے ہیں

                میں: تبھی تو، میں تو زیادہ سے زیادہ دس بجے تک جاگ سکتا ہوں کیونکہ مجھے صبح جلدی جاگنا ہوتا ہے

                سلمیٰ: بڑی مشکل سے اپنی امی کو پھر چاچی کو منا کر یہاں سونے کے لیے صرف تمہارے لیے آئی ہوں اورتم ہو کہ صبح جلدی جاگنے کا بہانہ بنا رہے ہو۔

                میں نے تھوڑی سمائل دی تو سلمیٰ بھی مسکرا دی۔ میں نے دروازے کی جانب دیکھا تو سلمیٰ بولی : میں نے لاک کر دیا ہے تاکہ کوئی اندر نہ آسکے

                میں: میری ٹانگوں سے اٹھو مجھے درد ہورہا ہے

                سلمیٰ میرے ساتھ لیٹتے ہوئے بولی: اب کیا ارادہ ہے؟

                میں: مجھے کیا معلوم ؟ میں نے زندگی میں یہ گندے کام کبھی بھی نہیں کیے، تم ہی بتاو۔

                سلمیٰ: تم چاہتے ہو کہ میں خود ہی تم پر چڑھ کر سواری کروں؟ واہ رے ربا یہ دن بھی دیکھنے تھے

                میں: اور نہیں تو کیا؟

                سلمیٰ: اچھا، یہ بتاؤ کہ تمہارا کبھی احتلام بھی ہوا کہ نہیں؟

                میں: نہیں نا۔ ہوا ہوتا تو۔۔۔

                سلمیٰ: اچھا اچھا۔۔۔ تبھی میں بھی کہوں کہ تم فارغ کیوں نہیں ہوئے

                میں: ویسے تم اس کمرے میں کس کے لیے آئی تھی؟

                سلمیٰ: پہلے تو ایک خاص بندے کے لیے آئی تھی لیکن پھر تم مل گئے تو سوچا کہ تم تو یہی کے ہو تو کیوں نہ تم پر اپنا ہاتھ صاف کرلوں۔

                میں: یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے

                سلمیٰ: اب تو تمہارے لیے آئی ہوں نا۔ اس بندے کو چھوڑو۔ میں تمہیں ہر چیز سیکھا دوں گی جو تمہارے آگے جا کر ایمان کے ساتھ کام آئے گی

                میں ایمان کانام سن کر تھوڑا سا بدک گیا کیونکہ میں نے ایمان کو صرف اور صرف بہن مانا تھا۔

                سلمیٰ: کیا ہوا؟ چلو ایمان نہ سہی کوئی اور سہی۔۔۔

                میں: اچھا، چلو شروع ہوجاو سیکھاتی جاو

                سلمیٰ: اپنی کپڑے اتار دو بلکہ اپنی صرف شلوار اتار دو۔

                دیکھنے لگا۔ سلمیٰ نےبھی اپنی شلوار پھر قمیض اتارکر سائڈ پر رکھ دی اور بولی: جتنا بولوں بس اتنا کرتے رہنا۔

                میں: ٹھیک ہے بولو۔

                سلمیٰ نے اس رات جو کچھ کیا میں ویسا ویسا ہی کرتا رہا مطلب ایک مکمل سیکس کرنے کا طریقہ اس نے زیادہ سے زیادہ ۲ گھنٹوں میں سیکھا دیا اسی بہانے سے اس نے خود کو کم از کم تین مرتبہ فارغ کروایا، میں نے بس ایک کام کرنے سے انکار کیا، وہ تھا اس کی پھدی کو سک کرنا۔

                اس رات میں نے صحیح معنوں میں کسی لڑکی کے بوبز کو چوسا، چاٹا، رب کیا، برا کو کھولنا بند کرنا، پینٹی کو کھولنا اور بند کرنا، پھدی کے لپس اور پھدی میں فرق، اور گانڈ کے سوراخ کو غور سے دیکھا۔

                اس رات سلمیٰ نے ۲ منٹ میرا لنڈ سک کیا مطلب بلو جاب دی، اگر اس وقت مجھے احتلام آیا ہوتا تو میں اس کے اس بلو جاب سے ناجانے کب کا فارغ ہو چکا ہوتا۔

                جب بھی سلمیٰ فارغ ہورہی ہوتی تب وہ ایمان کو میرے ساتھ جوڑ دیتی جس سے میری ساری توجہ ہٹ جاتی۔ آخری مرتبہ سلمیٰ کے فارغ ہونے سے پہلے سلمیٰ نے مجھ سے وعدہ لیا کہ ہم جب بھی ملا کریں گے تب ہم یہ کام لازمی کیا کریں گے۔ میں بھی لذت میں ڈوبے ہوئے ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ میں نے سلمیٰ کے آخری مرتبہ فارغ ہوتے ہی اپنی شلوار پہنی اور کروٹ لے کر سو گیا۔ اگلے دن بارات تھی ہم سب انجوائے کیا رات کو سلمیٰ ایک مرتبہ پھر میرے پاس سونے کے لیے آئی لیکن چاچی نے اسے یہاں سونے نہ دیا۔ میرے کمرے میں آج کوئی بھی نہ سویا۔

                رات کو مجھے سوتے ایک لذت بھرا خواب آیا جس میں، میں سلمیٰ کی چودائی کررہا تھا اور وہ مجھے رکنے کی بجائے مزید تیز تیز کرنے کا بار بار بول رہی تھی اچانک میرے لنڈ سے منی کی دھار نکلی جو سیدھی سلمیٰ کی پھدی کے اندر چلی گئی، میں ہانپتے ہوئے بیٹھ گیا میری نظر سلمیٰ کی پھدی پر تھی جہاں سے میری منی پانی کی طرح نیچے گررہی تھی۔ تبھی سلمیٰ میری طرف گھوم کر میرے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر زورزور سے چوسنے لگی جس سے مجھے اور بھی زیادہ مزہ آنے لگا، میں ایک مرتبہ پھر سے فارغ ہونے لگا۔

                میں جب شانت ہوگیا تب میں نے سلمیٰ کا چہرہ پکڑ کر اوپر کیا تو وہ ایمان تھی۔ (جاری ہ

                Comment


                • #38

                  لگتا ہے آیک اور اجھی سٹوری پڑھنے کو ملے گی سٹارٹ بہت اچھا ہے جانی لگے رہو​

                  Comment


                  • #39
                    ہی مزے سے چوسا ہے بھابھی نے ایسا لگتا جیسے میرا لن چوس رہی واہ کیا لکھ رہے ہو رائٹر

                    Comment


                    • #40
                      , لاجواب شہکار مزا آگیا جناب

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X