Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دوست کی بیوی اور اس کے گھر والے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Buht kahani hay zabardast

    Comment


    • بہت خوب جناب بہت شہوت انگیز مزہ آ گیا

      Comment


      • بہت خوب ۔زبردست

        Comment


        • شاندار

          Comment


          • بہت خوب جناب

            Comment


            • یار سب معاف کر دینا کہ اتنے دن کچھ لکھا نہیں

              Comment


              • جس سے ہم دونوں نیم گرم پانی میں بھیگنے لگے۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے بڑھا کر ہما کے ۳۴ سائز کے بوبز کو دبانے لگا پانی کی گرمی اور اور اپنے اندر کی گرمی کے اثر سے اکڑ رہے بوبز کے نپلز میں صاف صاف محسوس کررہا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو اسی کام میں مشغول رکھا۔
                میرے لنڈ میں اسی وقت جان پڑگئی تھی جب ہما باتھ روم میں جانے کے لیے بڑھی تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ ھما اور میرے درمیان اب کیا ہونے والا ہے۔ میرا لن اکڑ کر ہما کی بتیس سائز کی گانڈ کے اوپر رگڑ کھا رہا تھا، جب ہما سے پانی کی، میرے لن کی گرمی اور میرے ہاتھوں کے لمس برداشت نہ ہوا تب ہما نے پلٹ کر میری طرف دیکھا پھر گیلے سرخ ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے جوڑ کر تابڑ توڑ کس کرنا شروع کردیا۔

                میں ہما کے حملے کا موثر جواب دیتے ہوئے ہما کے ہونٹوں کی لالی کو چومنے چاٹنے لگا، میں نے اس دوران اپنا ایک ہما کے بوبز پر ہی رکھا اور دوسرے ہاتھ شاور کو بند کرکے سامنے پڑے شمپو کو اٹھا کر ہما کے سر پر ڈال دیا، جس پر ہما نے کس کرنا روک کر اپنے بالوں کو شمپودینے لگی، پھر اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اس میں شمپو ڈال کر میرے سر پر بھی لگانے لگی۔

                شمپو کرنے کے بعد ہما میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا دی، اسی وقت تیز پانی صرف مجھ پر پڑنے لگا، گرم پانی کے فوراً بعد اگر ٹھنڈا پانی جسم پر پڑے تو چودہ طبق بھی روشن ہوجاتے ہیں میرے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا۔ میں ہما کی اس حرکت کا بدلہ فوراً لیتے ہوئے ہما کو اپنی طرف کھینچ لیا جس پر ہما کے بدن میں کپکپاہٹ دوڑ گئی۔ ایسے ہی جسم کی صفائی کرنے کے بعد ہما نے مجھے کمپاؤنڈ پر بیٹھا دیا اور خود میرے اوپر بیٹھنا شروع کردیا۔

                ہما نے اپنی داہنی ٹانگ میری ٹانگ پر رکھ کر جبکہ باہنی ٹانگ کو میری دونوں ٹانگوں کے سینٹر میں رکھ کر میرے لنڈ کو پکڑ کر اپنی درمیانے سائز کی پھدی میں منتقل کرنے لگی جیسے ہی میرے لن کی ٹوپی ہما کی پھدی میں گھسی اسی وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے میرے لن کو پکڑ کر کسی گرم جگہ میں ڈال دیا ہو،

                ،

                ہما آہستہ آہستہ میرے لن پر بیٹھتی جا رہی تھی جبکہ میں اپنی آنکھیں بند کیے ان لمحات کو محسوس کیے جارہا تھا۔ اس پوزیشن میں سارا کام ہما کا ہی ہوتا تھا۔ اس لیے میں نے خاموشی سے بیٹھ کرہما کو اپنا کام کرنے دیا۔

                ہما چند جھٹکوں کے بعد اپنے آپ کو سیدھا کر کے ردھم بنا لیا، اب ہم دونوں کے منہ سے لذت بھری سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ جس سےپورا باتھ روم ان سسکاریوں سے گونج رہا تھا۔

                کچھ لمحات کے بعد ہما نے پوزیشن تبدیل کرنے کے لیے اپنی داہنی ٹانگ کو میری ٹانگ سے اتار کر میری دونوں ٹانگوں کو درمیان رکھ کر ایک مرتبہ پھر میرے لن پر اوپر نیچے ہوکر مزے سے کی دنیا میں گم ہونے لگی۔ جیسے جیسے یہ سیکس آگے بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے ہماری سسکاریوں کی گونج بڑھ رہی تھی۔ میری بڑھتی ہوئی سسکاریوں کو سن کر ہما نے جلدی سے میرے لن کو اپنی پھدی سے باہر نکالا اور میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر اپنے گیلے بوبز کے درمیان میرا لہراتا ہوا لن لے کر اپنے دونوں بوبز کو اوپر نیچے کرکے میرے لن کی مٹھ لگانے لگی۔

                ہما کے بوبز کی نرمی نے میرے خون کی گردش تیز کردی تھی، میں ہما کو مزید تیز کرنے کا بار بار بول اسے جوش دلا رہا تھا پھر بلآخر میرے لن سے منی کے قطرے ہما کی گردن اور بوبز پر گرنے لگے۔ ہما یہ منظر دیکھ کر مسکرادی۔

                ہما خود کو اور مجھے صاف کرنے کے بعد پہلی مرتبہ بولی: اب ہم کبھی بھی نہیں ملا سکیں گے سمیر

                میں کپڑے پہنتے ہوئے: وہ کیوں؟

                ہما ٹائیٹ کپڑے پہنتے ہوئے: تمہیں تو یہ بات معلوم تھی نا کہ کچھ عرصہ پہلے میری منگنی ہوگئی تھی،

                میں: ہاں تو

                ہما: میرے خالو نے اب کہہ دیا ہے کہ اب مزید ان نوکریوں کے چکر میں نہ پڑوں کیونکہ ان کا بیٹا (ہما کا منگیتر) اب پاکستان میں ہی اپنا کاروبار شروع کرچکا ہے جس میں اس کو سٹاف کی بھی ضرورت ہے، اس کاروبار کو ہم دونوں نے مل کر چلانا ہے اس لیے۔ باقی کی بات اب تم سمجھ جاو نا۔

                میں مسکراتے ہوئے: اچھا ٹھیک ہے۔

                ہما چلتی ہوئی آئی میری گود میں دوبارہ بیٹھتے ہوئے بولی: اب صرف ایک ہی مسئلہ رہ گیا ہے

                میں فرضی اندازہ لگاتے ہوئے: سکول والا؟

                ہما میرے گال کو چومتے ہوئے: ہاں، میں سوچ رہی تھی کہ سکول کی پرنسپل کی سیٹ کس کو دوں؟

                میں: اس میں کیا مسئلہ ہے؟ سحرش، عینی، اقرا کسی بھی ایک لڑکی کو بنا دو، اگر سنیارٹی کو دیکھو تو عینی زیادہ بیسٹ ہے کیونکہ وہ تازہ دم ہے اور سبجیکٹس کے لحاظ سے دیکھو تو سحرش بیسٹ ہے۔

                ہما میری گود سے اٹھتے ہوئے بولی: تم جانتے ہو نا، اگر میں ان تینوں میں ہونے والی لڑائی میں انٹرفئیر نہ کرتی تو ان میں سے دو نے سکول کو بدنام کردینا تھا۔ اس لیے میں اقرا، یا سحرش کا نام ہرگز نہیں دوں گی۔

                میں: اچھا فلحال دو کپ چائے میرے لیے اور ایک اپنے لیے بنا لاو کیونکہ مجھے اس مسئلے کو سوچنے کے لیے دو کپ چائے کی ضرورت پڑے گی۔

                ہما مجھے گھورتے ہوئے باہر چلی گئی جب واپس آئی تو ساتھ میں عینی بھی موجود تھی۔ عینی کی شکل کو پریشانی جھلک رہی تھی تب تک وہ دونوں میرے سامنے بیٹھ چکی تھی۔
                بیٹھ چکی تھی۔

                میں چائے کا سپ لیتے ہوئے: ہما میم۔۔۔ میٹ اوور نیو پرنسپل آف ۔۔۔۔ سکول

                ہما نے مسکرا کر عینی کی طرف دیکھا پھر مجھے، عینی مزید پریشان ہوکر کچھ بولنے لگی تب ہما نے عینی کا ہاتھ پکڑ کر مسکرا دی۔ عینی کو مزید کچھ سمجھ آتا تب تک میں اپنی چائے ختم کرکے بولا: عینی میم۔۔۔۔ آپ کل ٹریٹ دے رہی ہیں یا ابھی؟

                ہما کو سارا معاملہ سمجھ آچکا تھا کیونکہ یہ سب ہما کے ساتھ بھی میں کرچکا تھا کیونکہ یہ سکول میرے دوست احسن کی بدولت یہاں چل رہا تھا، میں جب چاہتا سکول کی پرنسپل کو تبدیل کردیتا یا سکول کی ٹیچرز تبدیل کرتا، ایک طرح سے دیکھا جائے تو میں بھی اس سکول کا آونرتھا۔

                ہما نے عینی کو مبارک باد دینے کے بعد میرا تعارف کروادیا۔ عینی بے یقینی سے میری طرف دیکھ رہی تھی تب میں دوبارہ بولا: آئی تھینک، احسن کو کال کرنا پڑے گی تب میم عینی کو یقین آئے گا۔

                ہما فوراً بولی: فلحال آپ کال کرو یا نہ کرو، مجھے تو دیر ہورہی ہے، مجھے اپنے گھر جانا ہے۔

                ہما بائے بول کر ہم دونوں کے درمیان سے اٹھ کر چلتی بنی، یہ میرا دوسرا گھر تھا، جہاں میں اور احسن مل کر کسی نہ کسی لڑکی کو لا کر چود ڈالتے تھے، یہ کبھی کام زیادہ ہو تو یہی رہ کر میں کام وغیرہ کرلیا کرتھا، اگر زیادہ بارشیں ہورہی ہوں یا گرمیوں میں تیز دھوپ میں گھر نہ جانے کے لیے یہ گھر تیار کروایا تھا۔

                میں نے ایک مرتبہ ہما کے چلے جانے کی تصدیق دروازے تک جا کر کی پھر عینی کی طرف آیا۔ میں نے عینی کا ہاتھ تھاما تو اس وقت اس کا سکتہ ٹوٹا۔

                عینی: مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا، میم ہما نے تمہیں آپ کیوں کہہ کر پکارا جبکہ تم ہمارے سکول کے بس ایک عام سے ڈیلر ہو، جو۔۔۔

                میں نے فوراً تھامے ہوئے ہاتھ کو زور دے کر اپنی طرف کھینچ کر عینی کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور نرم انداز میں بولا: پہلا سوال کا جواب، میں اور احسن دونوں دوست ہیں اور احسن کا فیصلہ میرے ہی ذریعے سکول تک پہنچتا ہے۔

                دوسرا جواب: ہما سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اس سکول کی پہلی ایم اے پاس کلاس ٹیچر بن کر آئی، چھٹی کے بعد اسے کچھ لڑکے تنگ کررہے تھے تب میں نے ہما کی مدد کی اور وہاں سے یہ سارا سلسلہ چل پڑا۔ جس انداز میں تم عینی شاہ میری گود میں بیٹھی ہو، اسی طرح وہ بھی بیٹھی ہوئی تھی بس فرق اتنا تھا کہ اس نے خود کو مجھے اپنی مرضی سے سونپ دیا تھا۔ اب یہ تمہارا فیصلہ ہے تم اپنی مرضی سے مجھے اپنا آپ سونپ دو گی یا میں کوئی دوسرا طریقہ استعمال کروں؟

                عینی ہلکا ہلکا لرزتے ہوئے: مطلب کہ تم، سوری آپ نے مجھے بغیر آزمائے نرسری کلاس کی ٹیچر سے ڈائریکٹ سکس کلاس کی ٹیچر اسی وجہ سے بنایا، اوہ خدایا۔

                میں نے عینی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے: تم اور وحیدہ جو کچھ چھٹی ٹائم کررہی تھی، وہ سب میں دیکھ چکا ہوں۔

                عینی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی: آپ نے بولا تھا کہ میم ہما کے گھر آنا، میں تو اسے میم ہما کا گھر سمجھ کر آئی تھی لیکن
                ؟

                میں کچھ دیر ہنستا رہا اور پھر دوبارہ بولا: ہما کے والدین کا بس اکسڈینٹ ہوجانے کے بعد کوئی بھی نہ رہا، تب احسن کے ولفئیر کے ذریعے اس نے اپنی پڑھائی مکمل کی، پھر ہم نے اس کی قابلیت کے تحت یہاں نوکری آفر کی، اور پھر یہ گھر بھی۔ یہ کمرا میرا ہے، ساتھ والا ہما کا، اور اس سے آگے والا احسن کا،

                ایسے ہی ترتیب سے کافی کمرے بنے ہیں جو اگر ضرورت پڑنے پر سکول کلاسسز میں بھی تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔ اب بھی میری بات سمجھ آئی کہ نہیں۔

                عینی ریلیکس ہونے کے بعد بولی: آخری سوال،،، مجھ سے زیادہ قابل لڑکیوں کے ہونے کے باوجود مجھے ہی کیوں سکس کلاس دی گئی، اور اب پرنسپل کی سیٹ بھی؟

                میں: پہلے یہ بتاو کہ ہم سیکس شروع کریں یا پھر اب بھی انکار ہے؟

                عینی: آپ کو معلوم تو ہے نا، میں کافی ضدی ہوں۔ اس لیے پہلے سوالوں کے جواب سن کر ان کی کڑیوں کو جوڑ کر سوچ کر پھر فیصلہ کروں گی

                میں: پھر ہمیں چھت پر چلنا چاہیے کیونکہ چھت کی تنہائی اور باہر کھیتوں کی ہریالی سے کافی فائدے ملتے ہیں۔

                عینی: جی نہیں۔ جیسے بیٹھے ہیں ویسے ہی جواب دے دیں۔

                میں: اچھا پھر سنو، تم ماہرہ کی چھوٹی بہن ہو، یہ وہی ماہرہ ہے جس کی وجہ احسن نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی، جب ماہرہ نے مجھے آئی لو یو بولا اور میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ خاموش رہتی، میری بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھی، سب مجھے فورس کررہے تھے کہ شادی کے لیے ہاں بول دوں، لیکن میرے مسلسل انکار سے سب خاموش ہوگئے تب تمہاری بہن نے ان دنوں کے دوران مجھ سے شادی کے لیے پوچھا جس پر میں نے اسے ٹال دیا۔

                کیونکہ میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا میں ماہرہ کو احسن کی وجہ سے قبول نہیں کرپا رہا تھا، جبکہ ماہرہ میری حالت کو سمجھ نہ سکی، شاید وہ کچھ اور بات سمجھ بیٹھی۔ ایک دن میں گھر آیا تو امی گھر پر نہیں تھی کیونکہ وہ باجی کے گھر کسی وجہ سے گئی ہوئی تھی، جب گھر پہنچا تو انہوں نے مجھے کال کرکے بتایا کہ وہ آج رات گھر نہیں آسکیں گی۔

                شام کو اچانک ماہرہ ایک کالے رنگ کا شاپر لیے گھر داخل ہوئی، جب سے ہم میٹرک سے فارغ ہوئے تھے ماہرہ کا میرے گھر آنا، امی کی مدد کرنا، عام سی بات بن چکی تھی۔ میں نے ماہرہ کے آنے کا اتنا نوٹس نہ لیا۔ کچھ دیر بعد ماہرہ نے مجھے چائے پینے کے لیے دی۔

                ہم دونوں اکثر دوستوں کی طرح کبھی چھت پر، تو کبھی امی کے پاس بیٹھ کر چائے، یا کھانا کھایا کرتے تھے اس شام بھی ایسا ہی ہوا، ماہرہ میرے ساتھ بیٹھ کر مجھے کام کرتے ہوئے چائے پینے لگی۔ آج ناجانے کیوں میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھی، خیر میں کام کے ساتھ ساتھ ماہرہ کے ساتھ مل کر چائے بھی پی رہا تھا ماہرہ کو میں نے خالی کپ پکڑایا تو ماہرہ بولی: عثمان ایک بات پوچھوں؟

                میں: ہاں پوچھو

                ماہرہ: جناب نے کبھی بلیو فلمز دیکھی ہیں؟

                میں پنسل منہ میں ڈال کر سوچتے ہوئے: دیکھی تو تھی لیکن تم آج اچانک یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو لڑکی؟

                ماہرہ میرے کندھے پر بازو رکھ کر بولی: میرا دل کررہا ہے پلیز لگاو نا۔

                میں: بے شرم لڑکی، میں کام کررہا ہوں، اس وقت کوئی بھی بلیو فلم نہیں دیکھتا۔

                ماہرہ ٹوہ لیتے ہوئے: وہ کیوں؟ اس وقت کیوں نہیں دیکھتے ؟

                میں: تم نے بلیو فلم دیکھ کر کیا کرنا ہے؟

                ماہرہ: ظاہر سی بات ہے، بلیو فلم دیکھی ہوگی تبھی تو مجھے معلوم ہوگا نا کہ تم ہماری سہاگ رات کو کیا کیا کرنے والے ہو؟
                والے ہو؟

                میں: آج پھر تم مسکان یا ماورا کے ساتھ اس طرح کی باتیں کرکے آئی ہو نا؟؟؟

                ماہرہ نے اپنا سر میرے کندھے پر رکھ کر بولی: اچھا مووی نہ دکھاو، لیکن مجھے زبانی زبانی سمجھا دو نا۔

                میں: میں اسی وجہ سے امی کو گھر تمہارے حوالے کرنے سے روکتا ہوں۔ اب پیچھے ہٹو کام کرنے دو۔ بڑی آئی پورن فلم دیکھنے والی۔

                ماہرہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی میں پھر اپنے کمرے میں آکر کام کرنے لگا، کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ ٹائم کافی ہوچکا ہے جا کر گیٹ اور باقی دروازے بند کردیتا ہوں جیسے ہی باہر گیا تو ماہرہ کو جھک کر کام کرتے دیکھا، ماہرہ کی گانڈ کو دیکھ کر ناجانے کیوں میرے دماغ میں گند آنے لگا۔ میں چلتا ہوا اس کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا اور بولا: ماہرہ تم گئی نہیں؟

                ماہرہ فوراً سیدھا ہوتے ہوئے: نہیں، خالہ نے امی سے اجازت لے لی تھی کہ رات کو یہیں رہ جانا۔

                میں نے اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے کہا: میری امی کی عقل پتا نہیں تمہارے سامنے گھانس لینے چلی جاتی ہے۔

                ماہرہ نے میری بات سنتے ہی فوراً مجھے غصیلے انداز میں کچن کی دیوار سے لگاتے ہوئے بولی: کیا بولا تم نے عثمان؟

                ماہرہ کے بدلتے تیور نے میری سٹی گم کردی تھی، میں پہلے ہی ماہرہ کی موٹی سی گانڈ کو دیکھ کر گرم ہوچکا تھا اب اچانک ماہرہ کی قربت سے میں ہکلانے لگا: کچھ نہیں۔۔۔

                ماہرہ نے جیسے ہی مجھے چھوڑا میں خود کو ریلیکس کرنے لگا تبھی مجھ پر افتاد ٹوٹ پڑی، ماہرہ دوبارہ میری طرف پلٹی اور مجھ سے تابڑ توڑ کس کرنے لگی۔ میری سٹی پہلے گم تھی اب اچانک اس حملے سے میں حواس باختہ ہوچکا تھا۔ میں تقریباً ہفتے دو ہفتے بعد کسی لڑکی سے سیکس کرکہ خود کو ٹھنڈا رکھتا تھا، آج یہ دورانیہ کافی لمبا ہوچلا تھا اب اچانک سے کس کرنے سے میں خود کو روک نہ پارہا تھا۔

                Comment


                • تبھی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ماہرہ نے میرے لن کو شلوار کے اوپر سے ہی اپنی ٹانگوں کے بیچ پکڑ لیا ہے۔ میری ہمت جواب دے چکی تھی۔ میں بھی ماہرہ کو کس کرناشروع کرچکا تھا۔ میں ذرا سمبھلا تو میں نے ماہرہ کو فوراً اپنے بازوؤں میں بھرا اور اپنے بیڈ پر لاکر لٹا دیا اور ماہرہ کے پورے چہرے کو چومنا شروع کردیا۔
                  میں نے جیسے ہی نیچے کی طرف سفر شروع کیا تو ماہرہ نے مجھے روک دیا۔

                  ماہرہ: یہ میری پہلی سہاگ رات ہے سمیر۔۔۔ مجھے تیار تو جانے دو۔

                  میں ادھورا ادھورا ماہرہ کے جسم سے اتر کر سائیڈ پر لیٹ گیا جس پر ماہرہ کچھ دیر کے بعد بیڈ سے اٹھی اور دروازے پر پہنچ کر مجھے تھینکس کہہ کر باہر نکل گئی۔ اور میں بس ماہرہ کے متعلق سوچنے لگا۔

                  میں نے سوچ لیا تھا کہ امی کے آتے ہی ماہرہ سے شادی کی بات کروں گا۔ میں اٹھا اور واش روم میں گھس کر نہا کر باہر آیا تو کمرے کی لائٹ آف تھی، میں تھوڑا سا آگے بڑھا تو مجھے محسور کن خوشبو اپنے نتھنوں میں محسوس ہوئی۔ میں نے جیسے ہی لائٹ آن کی تو میرے سامنے ماہرہ میرے بیڈ پر پھولوں کی سیج پر سرخ رنگ کے کپڑوں میں دلہن کی طرح بیٹھی مسکرا رہی تھی۔

                  میں ایک پل کے لیے ماہرہ کو دلہن بنا دیکھ، پرانی یادوں میں کھوگیا تھا تب ماہرہ بولی: ایسے مت دیکھو سمیر۔۔۔ مجھے شرم محسوس ہورہی ہے۔
                  میں یک دم ماہرہ کی بات سے موجودہ حالات میں واپس آیا، اب یہ میرا فیصلہ تھا کہ میں ماہرہ کی یک طرفہ محبت کا جواب دو طرفہ محبت سے دیتا یا پھر۔۔۔
                  میں نے سر کے بالوں کو خشک کرتے ہوئے ڈرسینگ کے سامنے کھڑے ہوکر بولا: ماہرہ۔۔۔ میں تمہاری محبت کا احترام کرتا ہوں کچھ دیر پہلے میں بھک گیا تھا اس لیے اس سب کے لیے میں سوری بولتا ہوں۔ پلیز میری بات کا برا مت منانا۔
                  ماہرہ بے یقینی کے عالم میں: سمیر۔۔۔ تم نے مجھے کیا بے وقوف سمجھ رکھا ہے جو کچھ، ہم دونوں کچھ لمحے پہلے کررہے تھے وہ کیا تھا؟ میں چھوٹی بچی نہیں ہوں جو ان لمحات کو ہوس قرار دے دوں۔
                  میں ماہرہ کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنا تولیہ سائیڈ پر رکھتے ہوئے بولا: ماہرہ۔۔۔ میں سمجھ نہ پارہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں یا ایمان سے۔
                  ماہرہ تنک کر: لیکن میں جانتی ہوں تم صرف اور صرف مجھ سے محبت کرتے ہو نا کہ ایمان سے۔ مجھے باجی نے سب کچھ بتا دیا ہے۔
                  میں : پھر بھی میں اتنا ہی بولوں گا کہ
                  ماہرہ بات کاٹتے ہوئے: تم ایک مرتبہ پھر کوئی بہانہ بنا کر بھاگنا چاہتے ہو، کتنا بھاگو گے؟
                  میں: اچھا چھوڑو ان سب باتوں کو۔
                  ماہرہ فوراً تیز لہجے سے: آج اس بات کا فیصلہ ہوجانے دو سمیر، یہ روز روز کے بہانے میرے گھر والے مجھے اب تنگ کرنے لگے ہیں۔ میری بہن عینی صرف میری وجہ سے اپنے سسرال بھی نہیں گئی،
                  میں: اچھا ٹھیک ہے تم ہی بتاو کیا چاہتی ہو تم؟
                  ماہرہ تھوڑا سا خوش ہوتے ہوئے: میں نے خالہ کو بول دیا ہے وہ کل ہم دونوں کے رشتے کی بات کرنے میرے گھر جائیں گی۔
                  میں مکمل ہار مانتے ہوئے: ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی ہو ماہرہ۔
                  میں جیسے ہی اٹھنے لگا تبھی ماہرہ نے میرا ہاتھ تھام کر بولی: آج کے بعد تم نہ تو حرا کے پاس جانے کا سوچو گے اور نہ ہی وحیدہ کے پاس۔ سمجھے
                  میں واپس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ماہرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر سوچا: کیوں نہ اس کو تنگ کیا جائے شاید ناراض ہوکر چلی جائے
                  میں: ٹھیک ہے، میں ان میں سے کسی کے پاس نہیں جاؤں گا، بشرطیکہ تم ان کی خلا پوری کردو تو
                  ماہرہ ترنت(فوراً) بولی: جس دن میں نے تم سے راستے میں اظہار محبت کی تھی، اسی دن سے میں نے روح کے ساتھ ساتھ اپنا جسم تمہیں سونپ دیا تھا، اگر تم چاہتے تو اسی دن۔۔۔
                  میں نے بات کاٹ کر فوراً اس کے چہرے کو پکڑ کر بولا: مجھے تمہاری محبت کا احساس ہے ماہرہ، اب بس کردو۔
                  ماہرہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے: اگر احساس ہے تو مجھے باہر جانے سے کیوں نہیں روکا؟
                  میں شرارتی انداز سے: اگر باہر جانے نہ دیتا تو اس روپ میں تم کبھی بھی نہ آتی، جیسے جنگلی بلی
                  ماہرہ اپنا چہرہ آزاد کروانے کے بعد: تم نے پھر ایمان کا ذکر شروع کردیا۔ خبردار اب اس کا نام لیا تو
                  میں لمبا سانس لینے کے بعد: وہ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے، جب تک میں زندہ ہوں تب تک اس کا ذکر چلتا رہے گا، اب جلدی سے بتاؤ سہاگ رات کے چکر میں کھانا بنایا کہ نہیں؟
                  ماہرہ مجھے آنکھیں دکھاتے ہوئے: مجھے کام چور سمجھ رکھا ہے تم نے؟
                  میں: فلحال تم دل کی رانی بنی ہوئی ہو، کام چور تو شادی کے بعد معلوم ہوگا نا۔
                  بعد معلوم ہوگا نا۔
                  ہم نے کچھ دیر ایسے ہی نوک جھوک کی پھر بل آخر ماہرہ کے پیار کی جیت ہوگئی، ہم نے اس رات ایک نئی زندگی کی ابتدا کی تھی، کافی عہد و پیما کیے، پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں سوگئے۔ صبح ہم دونوں کی کافی خوشگوار تھی، اپنے پہلو میں سوئی ہوئی ماہرہ آج سے پہلے والی ماہرہ نہیں لگ رہی تھی۔ میں نے اس کو جگائے بغیر واش روم گیا نہانے کے بعد باہر آیا اور کچن میں چلا گیا۔ جب بھی امی گھر سے باہر جاتی تھیں میں خود ناشتہ تیار کرلیتا تھا، ناشتے میں، میں نے صرف ڈبل روٹی، انڈہ، جیم اور چائے کا ایک بڑا مگ لے کر کمرے میں آیا تو ماہرہ ابھی تک سو رہی تھی۔
                  میں نے مطلوبہ چیزیں سائیڈ ٹیبل پر رکھیں اور ماہرہ کے ساتھ بستر میں گھس کر ماہرہ کو پیار کرنے لگا۔ جس پر ماہرہ نے آنکھیں کھول دیں۔ ماہرہ کو گڈ مورننگ وش کیا اور ناشتے کی اطلاع دی جس پر ماہرہ نے مجھ سے اپنے دل کی خواہش بیان کی۔ میں نے اس کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے اس ننگا ہی اٹھا کر واش روم لے گیا۔
                  ماہرہ: کاش یہ لمحات کبھی ختم نہ ہوں سمیر
                  میں: کیوں سردی میں مرنا چاہتی ہو بے شرم لڑکی؟ ایک تو خود ننگی ہو اور اوپر سے خواہش بھی ایسی کہ مجھے بھی ننگا اپنے ساتھ واش روم میں لے آئی ہو۔
                  ماہرہ مسکراتے ہوئے شاور کو کھول دیا، کچھ دیر تک ہم شاور کے نیچے کھڑے مستیاں کرتے رہے پھر ہم ننگے ہی واپس بیڈ پر آگئے، ماہرہ میری گود میں بیٹھ کر ناشتہ کرتی رہی اور ناشتہ کرواتی رہی، پھر ہم نے کپڑے پہن لیے۔ صبح کے گیارہ بجے امی نے گیٹ ناک کیا جس پر میں نے دروازہ کھول دیا۔ امی کے ہاتھ میں ایک کلو ایک ڈبہ، اور دوسرے ہاتھ میں دو کلو کے دو ڈبے تھے،
                  میں امی کی تیاری سمجھ چکا تھا اس لیے امی کا راستہ چھوڑ کر امی کو اندر آنے دیا، امی اس دن کافی خوش تھیں، کچھ دیر تک باجی فرزانہ اور باجی طاہرہ بھی آگئیں۔ پھر آہستہ آہستہ میرے پانچوں ماموں اور چار ممانیاں گھر میں داخل ہوتی گئیں۔ دن کا کھانا باجی اور مامی نے مل کربنایا تب تک ماہرہ بھی اپنے گھر جا چکی تھی۔
                  شام کے تین بجے امی اور باقی افراد ماہرہ کے گھر چل دیئے، پانچ بجے ماہرہ نے ایس ایم ایس کے ذریعے مبارک باد دی، اس رشتے کے بعد اگلے دن امی نے جان بوجھ کر میرے ذریعے چاچی ربیعہ کے گھر مٹھائی کا ڈبہ بجھوادیا تاکہ ان کو جلایا جاسکے۔
                  ماہرہ سے رشتے کے بعد منگنی ہوئی پھر کچھ دنوں کے بعد ماہرہ نے مجھے بتایا کہ تم (عینی شاہ) مزید پڑھنے کے لیے لاہور جا رہی ہو، میں اپنی سالی سے ملنا چاہتا تھا کیونکہ باقی تمام سسرالیوں کو میں مل چکا تھا بس تم رہتی تھی۔
                  ایسے ہی کچھ وقت گزرا ایک دن ماہرہ مجھے تنگ کررہی تھی تبھی ایمان ہمارے گھر آئی اور ماہرہ سے بدتمیزی کردی، ایمان کی اس حرکت کا جواب امی نے دیا، لیکن ماہرہ کو مجھ سے توقع تھی کہ میں کوئی جواب دوں لیکن میری طرف سے خاموشی سے ماہرہ کو صدمہ پہنچا۔
                  ماہرہ اسی وقت واپس چلی گئی اور میں ان دونوں کے متعلق سوچنے لگا، میں نے نئی دکان کے لیے باجی کے شہر جانا شروع کردیا تھا، میں نے کافی دکانیں دیکھی، پھر تب احسن ایک دن مل گیا، احسن نے بتایا کہ وہ ویلفئیر کا اونر ہے اور جلد اس ویلفئیر کے ذریعے ایک سکول کھولنے والا ہے۔
                  میں نے سوچا کہ چلو کچھ دن مزید یہیں دکانداری کرلیتا ہوں اور ساتھ میں سکول بھی دیکھ لیا کروں گا۔ کیونکہ احسن نے مجھے بغیر انوسٹ مینٹ کیے پچاس پرسنٹ کا مالک بنا دیا تھا۔
                  یہ خبر میں نے ماہرہ کو سنائی وہ کافی خوش بھی ہوئی تب اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس دن ایمان کو جواب نہ دے کر میں نے اس کا دل دکھایا ہے۔
                  میں نے اسے کافی منایا پھر جا کر وہ مان گئی لیکن اس نے شرط یہ رکھ دی کہ شادی دو سال بعد نہیں اسی سال ہو، بعدازاں معلوم چلا کہ وہ تمہاری (عینی) شرط تھی۔ میں نے ہاں بول دی کیونکہ امی بھی بار بار بول کر تھک چکی تھیں۔ میرے مثبت جواب سے ماہرہ کافی خوش ہوئی، ایسے ہی پھر شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی تب اس بیچ ایمان اور چاچی ربیعہ کا آنا جانا شروع ہوگیا، جس پر امی نے کچھ بھی نہ کہا، اور نہ ہی ان دونوں کو ہمارے گھر آنے سے روکا۔
                  ابو نے کچھ دن تک آنا تھا، جس دن وہ پہنچے اس دن سے ٹھیک دس دن بعد جب میرے گھر والے اور میرے سسرال والے صحن میں بیٹھ کر اہم معاملات پر بات چیت کررہے تھے میں بھی ان کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا تب تمہارے گھر والوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے مزاحیہ انداز میں پوچھا: جناب شادی کو تیار بھی ہیں یا بس ہماری دھی رانی کے شرط کی وجہ سے جلدی شادی کرنے والے ہیں؟
                  میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی چاچی بیچ میں بول پڑیں،: ویسے یہ اچھا طریقہ ہے بھائی صاحب، پہلے آپ کی دھی رانی نے ہمارے عثمان کو راستے میں روکا، آنکھ مٹکا کیا، پھر جھوٹی کہانیاں سنا کر رام کرلیا، وہ تو بے چارہ معصوم ہے، آپ کی دھی رانی کی باتوں میں آگیا، پھر جلدی شادی کروانے کے چکر میں آپ نے شرط رکھ دی، ظاہر سی بات ہے، اس نے تو مان ہی جانا تھا نا
                  اس دن کافی ہنگامہ ہوا، چاچی نازی نے سوال کیا کہ کیا تم سمیر کو پسند کرتی ہو تب اس نے بھی اسی لمحے ہماری اہم محفل میں اپنے پیار کا اظہار کردیا۔ بات کو ہینڈل کرنے کے لیے ماموں بیچ میں آئے لیکن بات لمبی ہوچکی تھی، میرے سسرال والوں نے صاف بول دیا کہ اگر آپ کو رشتہ گھر میں سے مل رہا تھا تب وہ رشتہ کرنے ہمارے گھر کیوں آئے؟ پھر اسی شخص نے غصے میں کہا: بھائی صاحب رشتے گھر میں ہوں تب کسی کے گھر مت جایا کریں، یہ تو وہ طریقہ ہوگیا نا، گھر بلا کر بے عزتی کردی۔
                  ماہرہ کے گھر والے اٹھ کر چلے گئے تب چچا اور چاچی ربیعہ اور ایمان ابو کے اردگرد بیٹھ کر ان کو سمجھانے لگے کہ اچھا ہوگیا کہ وقت پر ہی ان(ماہرہ) کے گھر والوں کا پتا چل گیا شادی کے بعد یہ باتیں کرتے تو کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔
                  کچھ دیر تک ایسا ہی چلتا رہا، اگر مجھے باجی نے روک نہ رکھا ہوتا اور امی ابو کی تربیت اچھی نہ ہوتی تو ان سب کو منہ توڑ جواب دیتا، میں اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔ تب مجھے ایمان کا ایس ایم ایس آیا۔ جسے پڑھ کر مجھے مزید غصہ آیا اور میں نے باجی فرزانہ کو ٹیکسٹ کرکے اندر بلایا اور کہا کہ یہ میسج سب کو سنا کر ان کی فیملی باہر کردو ورنہ میں نے خود یہ کام کرنا ہے۔
                  نے خود یہ کام کرنا ہے۔
                  باجی نے وہی کیا جو میں نے کہا تھا، میرا ماہرہ سے تعلق ختم ہوچکا تھا، مجھے کچھ دن کے بعد کسی انجان نمبر سے میسج آیا کہ ماہرہ کراچی جارہی ہے۔ میں نے فوراً اپنی کچھ دن پہلے والی شرمندگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماہرہ کو کال کی لیکن ماہرہ نے کال ریسو نہ کی۔
                  میں نے گھر میں سب کو بولا کہ جا کر ان سے بات کریں، مسئلہ ختم ہوجائے گا لیکن کوئی بھی نہ مانا، پھر شام تک اطلاع ملی کہ ماہرہ نے خودکشی کرلی ہے۔
                  میں تو سکتے کی حالت میں تھا جبکہ ہمارے گھر میں سے کوئی بھی بات نہیں کررہا تھا، میری امی اس دن کافی زیادہ روئیں۔
                  میں نے خود کو کچھ مہینے کے بعد تبدیل کرنا شروع کردیا تھا میں اب دکان پر کم ہی جاتا تھا جبکہ احسن مجھے لے کر کبھی شہر، تو کبھی گاؤں کی ہریلائی میں گھماتا رہتا تھا، تب تک یہ مکان بھی تیار ہوچکا تھا، ہم دونوں جگری دوست یہاں کافی دن تک پڑے رہتے، ابو مایوس ہو کر واپس نوکری پر چلے گئے۔
                  پھر ایک دن جب ہم دونوں دوست میرے ہی گھر پر بیٹھے عام سی باتیں کررہے تھے تب احسن بولا: سنا ہے کہ عینی اپنے شوہر سے خوش نہیں ہے، اس کا شوہر دوبئی جاچکا ہے، عینی نے اپنے میکے میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر اس کے شوہر نے انکار کردیا، پھر عینی کی نند نے مشورہ دیا کہ وہ سسرال اور میکے کے درمیان میں گھر کرایے پر لے کر رہ لے تاکہ جب بھی دل کرے تو سسرال چلی آیا کرے اور جب دل کرے میکے چلی جائے۔
                  میں بور ہوتے ہوئے: یار کوئی اور موضوع نہیں ہے تمہارے پاس؟
                  احسن تھوڑا قریب ہوتے ہوئے: اصل بات تم نے سنی نہیں میرے سوہنے راجا
                  میں: یہی نا کہ وہ اسی جگہ رہے گی جہاں ہمارا سکول ہے؟ اس میں کونسا بڑی بات ہے؟
                  احسن: پہلی بات، اگر وہ وہاں رہتی ہے تو تم اس سے ماہرہ بھابھی کی خودکشی کی تفصیل جان سکو گے۔ اس دوران اگر وہ تمہاری طرف متوجہ ہوجاتی ہے تو تم دونوں شادی کرلینا۔
                  میں فوراً احسن کی آخری بات پر بھڑک اٹھا: تمہیں معلوم تو ہے نا، کہ وہ میری ماہرہ کی بہن ہے اور وہ بھی شادی شدہ۔ پھر تم نے ایسی بات کیسے سوچی اگر سوچی بھی تو منہ سے نکالی ہی کیوں؟
                  احسن مجھے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: یار تم پانی شانی پیو۔، ٹھنڈے دماغ سے سوچو،
                  اتنے میں امی بول پڑیں جو شاید کسی وجہ سے ہمارے قریب آئیں تھیں: احسن صحیح کہہ رہا ہے، میری دلی خواہش تھی کہ ماہرہ میری بیٹی بن کر اس گھر میں آئے، اگر وہ نہ آسکی تو تم اس کی بہن کو بھی میری بہو بنا سکتے ہو چلو بعد میں اس کو میں اپنی تربیت سے بیٹی بنا لوں گی لیکن اس کے لیے تمہیں اس کے قریب جانا ہو گا۔
                  میں: پر امی ایسا کیسے ممکن ہے، وہ تو شادی شدہ ہے نا۔
                  امی: احسن تمہیں ساری بات سمجھا دے گا، نہیں تو میں وحیدہ کو بلا کر تمہیں سمجھانے کی کوشش کروں گی۔
                  احسن: خالہ آپ اندر جائیں میں اسے سمجھاتا ہوں۔
                  احسن امی کے جانے کے بعد دوبارہ بولا: شاید تم نے میری پوری بات غور سے سنی نہیں، عینی اپنے شوہر سے خوش نہیں۔ اب کچھ سمجھ آیا کہ نہیں؟ (کچھ دیر میرے چہرے تاثرات دیکھنے کے بعد)
                  جب تم اور ماہرہ بھابھی سکول کے لیے ایک ساتھ نکلتے تھے اور واپس آتے تھے تب عینی تم دونوں کے پیچھے چلا کرتی تھی، جب اس نے تمہیں اپنی بہن کے ساتھ غلط سلوک کرتے نہیں دیکھا تب اس کے دل میں ہلچل مچی، جس کا ذکر اس نے اپنی دوست سے کیا، جانتے ہو نہ عینی کی دوست کون تھی؟
                  میں: وحیدہ، پر وہ تو۔
                  احسن: جب حرا کے گھر سے تم دودھ لینے جاتے تھے تو کیا تم اکیلے ان کے گھر سے دودھ لاتے تھے؟ نہیں نا، وحیدہ، تم اور عینی ان کے گھر سے دودھ لایا کرتے تھے، عینی کی دوستی وحیدہ سے وہیں ہوئی، بعدازاں حرا کا گھر وحیدہ نے لے لیا اور وہ دودھ سیل کرنے لگی، اب بھی میری بات سمجھ آئی کہ یا وحیدہ کو بلا لاؤں؟
                  میں: نہیں یہاں تک سمجھ آگئی۔ اب آگئے سمجھاو۔
                  احسن: پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر وہ والا دن بھی آیا جب عینی نے اپنے دل کی بات کہنے کی کوشش کی، لیکن جب وہ کرپاتی تب تک عینی نے دیکھا کہ ماہرہ نے اپنے دل کی بات تم سے کردی ہے،
                  پھر کیا تھا، وہ اپنی یک طرفہ محبت کو اپنی بہن کی وجہ سے بھلا بیٹھی، اس دن بھی تمہارے رویے کی وجہ سے عینی کے دل میں تمہارے لیے مزید عزت بڑھی، تم مانو یا نہ مانو، عینی کے ازدواجی زندگی میں اسی محبت کے اثرات باقی ہیں۔ سمجھے
                  اس دن سچ میں میرا سرگھوم چکا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میری وجہ سے تین تین زندگیاں برباد ہوئی تھی۔ پہلی ایمان، دوسری ماہرہ، اور اب عینی،
                  پھر باقی کی کہانی تمہیں (عینی شاہ) معلوم ہی ہوگی کہ کیسے تمہیں مکان کرائے پر ملا پھر ہم دونوں کی جان پہچان بڑھی تم نے کوشش نہیں کی لیکن میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ تم میری طرف متوجہ ہو، لیکن ایسا موقعہ تم نے آنے نہیں دیا۔ میں نے تمہیں نوکری کی آفر احسن کے ذریعے دی، پھر اچانک ایک جھگڑے کی وجہ سے سب ختم ہونے والا تھا تب تم نے اپنی ذہانت کی وجہ سے سکول کی تباہی کو ختم کیا، پھر میں نے خوش ہوکر تمہیں سکس کلاس کی سرپرستی تمہارے حوالے کی، پھر اس دوران ہما میری زندگی میں آئی لیکن اس نے خود کو میرے حوالے خود کیا، میں نے کوئی زور زبردستی نہیں کی،
                  پھر اگلی کہانی تمہیں معلوم ہے، اور اب یہ فیصلہ تمہارا ہے عینی شاہ۔ تم مجھے ماہرہ کی خودکشی کا صحیح پہلو بتاو اور ہماری زندگی کا فیصلہ بھی۔

                  Comment


                  • عینی: مطلب۔۔۔ جو کچھ میری بہن کو بتایا گیا وہ سب جھوٹ تھا؟ عینی یہ بات کہتے ہوئے میری گود سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی جس پر میں بھی اٹھ کھڑا ہوا، اور عینی سے بولا: مجھے یہ بات معلوم نہیں کہ تمہاری بہن کو کیا بتایا گیا اور وہ کس وجہ سے ایسا قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوئی۔
                    عینی کے ہاتھ کی مٹھیاں بند تھیں جس سے معلوم چل رہا تھا کہ عینی کی غلط فہمی دور ہورہی ہے اور وہ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہ کر کافی نقصان اٹھا چکی ہے، جیسے کہ سکول میں بچوں کو زبردستی فیل کرنا، اور فیل ہونے والوں کو پاس کرنا، والدین سے پیسے لے کر ان کا کام کردینا، وغیرہ وغیرہ۔
                    میں عینی کو خاموش دیکھ کر نرمی سے بولا: عینی، میرے خیال میں، میں نے تھوڑی جلد بازی کرکے تمہیں سب سچ بتا دیا ہے، اس لیے تم میری باتوں کو سمجھ نہیں رہی ہو، اگر وقت چاہیے تو وقت لے لو، کیونکہ یہ فیصلہ تمہارا ہے، بس ایک درخواست ہے، ماہرہ کی خودکشی کی ساری تفصیل مجھے لازمی بتانا۔
                    میں یہ بول کر باہر نکل کر چھت پر آگیا اور ایک مرتبہ پھر ماضی میں کھوتا چلا گیا، جہاں صرف ماہرہ ہی ماہرہ تھی، میں عینی کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی پیار کرتا تھا، اگر وہ قدم بڑھاتی تو شاید میں بھی ماہرہ کو بھولنے کی کوشش کرتا کیونکہ ماہرہ نے میری زندگی میں خوشیاں بھر دی تھیں۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا کہ امی گھر پر اکیلی ہیں، کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ میرے گھر لیٹ آنے پر ماہرہ خود ہی رات کو ہمارے گھر رک جایا کرتی تھی۔
                    میں ایک رات، تقریباً اڑھائی بجے گھر آیا تو ماہرہ میرے کمرے میں بیٹھی انتظار کررہی تھی، اس دن سے میرے خیالات جو کہ سکول کے ٹائم کے تھے، تبدیل ہونا شروع ہوگئے، میں نے اپنی بہنوں کی شادی پر ماہرہ سمیت باقی کی لڑکیوں سے شادی سے انکار کرکے اچھا فیصلہ کیا تھا، لیکن اس رات مجھے ایسا لگا کہ ماہرہ ہی ایسی لڑکی ہے جو میرے لیے بہترین ہے۔ میں نے اگلے دن احسن کے ذریعے معلوم کروایا کہ ماہرہ نے وہ سب کچھ اپنی مرضی سے کیا تھا یا پھر اس سب کے پیچھے مسکان، اور ماورا کا ہاتھ تھا۔ تب احسن نے بھی ماہرہ کو کلیئر قرار دے دیا تھا۔
                    جس دن یہ حقیقت کھلی، میں نے اپنا رویہ ماہرہ سے نرم کرلیا اور امی کو اشارے سے ماہرہ کو گھر کی بہو بنانے کا عندیہ دے دیا تھا۔ لیکن امی نے اسے نہ جانے کب کا اپنی بیٹی کا درجہ دے رکھا تھا۔
                    میں اپنے ماضی بعید سے اس وقت باہر نکلا جب عینی کا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور عینی بول رہی تھی: سمیر، ہمیں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے،۔ یوں ایسے کھڑے ہوکر ماضی کی باتیں کرنا کچھ زیب نہیں دیتا،
                    میں نے فوراً اپنی بھیگی آنکھوں کو صاف کیا اور مسکراتے ہوئے اپنا رخ چھت پر بنے سٹور روم کی طرف کرلیا، کچھ دیر بعد ہم پلاسٹک کی دو کرسیوں پر بیٹھے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
                    عینی نے اپنے پاس پڑے دو مگ میں سے ایک چائے کا مگ مجھے دیتے ہوئے بات شروع کی
                    عینی: سمیر۔ میں نے اپنا دل تو کافی دنوں بعد تمہیں سونپ دیا تھا لیکن پسند اس دن سے کرنے لگی جب تم ہمارے گھر کے قریب سے گزرنا شروع کیا، تم میں ناجانے کیسی کشش ہے، میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوگئی، میں نے ایک دن ہمت کرکے اپنے دل کی بات تمہیں بتانے کے لیے آگے بڑھی لیکن تمہاری اور ماہرہ کی باتیں سن کررک گئی۔ تم نے ماہرہ کی محبت کو نہ اپنا کر میرے محبت کو مزید پروان چڑھایا، میں رفتہ رفتہ دل سے تمہاری عزت اور محبت کو بڑھاتی رہی اور ایک دن کوشش کرکے میں نے احسن کو یہ بات بتلائی، جس پر وہ بس اتنا بولا کہ اب دیر ہوچکی ہے، کیونکہ اس وقت تم اپنی کزن ایمان کو سوچنے لگے تھے،
                    ان سب باتوں کے دوران ہم دونوں بہنوں کے رشتے بھی آئے لیکن ماہرہ کے انکار کی وجہ سے سب گھر والوں کی امیدیں مجھ سے تھیں، میں بھی کیا کرتی تم پر دل ہار کر آگے بڑھنے کا یہی موقعہ تھا،
                    میرے ہاں کرتے ہی میری شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں، لیکن بات وہاں آکر رک گئی جب ماہرہ نے مزید انتظار کرنے کا عندیہ دے کر ہمیں روکا۔ پھر میرے بار بار تنگ کرنے پر ماہرہ کے ذریعے تم مان تو گئے لیکن تم نے مزید وقت مانگا، جو میرے سسرال والوں کے مشکل تھا، ابو نے فوراً میرا نکاح کردیا۔
                    میں ہر رات ماہرہ کو تمہاری وجہ سے چھیڑتی، تنگ کرتی، کام نکلواتی، کبھی چپس تو کبھی کیک بنواتی، چھوٹی تو تھی، لیکن اپنی بہن کی لاڈلی بھی بہت تھی، میں ویسے ہی بولتی تو اس نے کون سا انکار کرنا تھا۔ اس دوران ایمان والی بات ہوئی جس پر وہ کافی دیر ناراض رہی پھر میرے سمجھانے پر وہ راضی بھی ہوگئی، لیکن مجھے سمیر صرف تم سے دور جانا تھا جس کے لیے میں نے اپنی بہن کو جلدی شادی کرنے کے لیے راضی کیا اور یہ سب ہوتا چلا گیا۔
                    (عینی کچھ دیر کے لیے رک کر) ہم سب کافی خوش تھے، پھر وہ دن بھی آیا جس سے ہمارے گھر کی بنیاد بھی ہل گئی، جاتے وقت سب خوش تھے، واپسی پر سب کے چہرے پر غم و غصہ تھا، ایک کزن نے ماہرہ کو لے کر سٹور روم میں گھس گئی، کچھ دیر بعد ماہرہ کی آنکھیں بھی غصے سے لبریز تھیں، رات تک سب ٹھیک تھا، صبح کو میری بہن بیمار پڑ گئی، ایسی بیمار ہوئی کہ اسے اٹھنے کی ہمت بھی نہ تھی، میں اپنی بہن کی بیماری کی خبر سن کر فوراً واپس آئی، جب تک گھر پہنچتی ماہرہ نے خودکشی کرلی، مجھے اس دن سے سمیر، صرف اور صرف تم سے نفرت ہوگئی تھی، میری اس نفرت کو اسی کزن نے ہوا دی، پھر کچھ دن بعد میری بھی رخصتی سادگی سے کردی گئی، سہاگ رات کو میرا شوہر شراب پی کر بے ہوش ہوچکا تھا، کچھ دن بس ایسا ہی چلتا رہا، گھر والوں نے دیکھا کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا، تب انہوں نے میرے شوہر کو دبئی بھجوادیا۔
                    بعد میں، میں نے یہاں مکان کرایے پر لیا اور تمہاری تباہی کی ابتدا کی، لیکن اب مجھے معلوم ہورہا ہے کہ یہ تباہی تمہاری نہیں احسن کی ہے۔
                    میں چائے کا مگ نیچے رکھنے کے بعد بولا: احسن کی تباہی میری ہی تباہی ہے کیونکہ وہ میرے دوست سے زیادہ بھائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں تمہاری اس کزن کا نام پوچھ سکتا ہوں؟
                    عینی: اب اس کزن کا نام پوچھ کر کیا کرو گے سمیر؟ کچھ مہینے پہلے اس کے گھر میں اچانک سے آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں اس سمیت اس کا شوہر، اور دو بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
                    میں: تم نے ذرا بھی کوشش نہیں کی مجھ سے حقیقت جان لینے کی؟
                    عینی پھیکی مسکراہٹ سے: کوشش اس وقت کی جاتی ہے جب سچ جان لینے کی لگن ہو، مجھے تو اول دن سے جھوٹ بتایا گیا، میری کزن زندہ ہوتی تو اس وقت تک ہم اس سے سچ اگلوا چکے ہوتے، پھر بھی میرے دل میں ایک ہی بات آرہی ہے، کہیں نہ کہیں، ایمان کا ہاتھ اس گیم پلان میں ضرور ہے۔
                    میں شام کے منظر کو دیکھتے ہوئے: یہ سب باتیں میں نے حرا کے ذریعے نکلوائی تھی، لیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، حرا نے جاتے جاتے بس یہی کہا تھا کہ جو ہونا تھا ہوگیا، اب نئی زندگی کی شروعات کردو،
                    عینی ایک مرتبہ پھر پھیکی مسکراہٹ سے: تو تم اب اپنی زندگی کی نئی شروعات کس سے کرنے والے ہو، مجھ سے بلکل بھی توقع نہ رکھنا کیونکہ میں بے وفا بیوی کا الزام ساری زندگی اپنے ساتھ لگائے نہیں رکھنا چاہتی۔
                    مجھے میرے سبھی سوالوں کے جواب کافی دن پہلے مل چکے تھے، بس ایک آخری کوشش تھی جسے احسن کے کہنے پر کرنا پڑا، عینی اپنا فیصلہ سنا چکی تھی، تب میں مسکراتے ہوئے بولا
                    میں: فلحال اپنے نئے عہدے پر فائز ہونے کی خوشی پر ہم دونوں دوستوں کو کیا تحفہ دینا پسند کرو گی عینی شاہ؟
                    عینی بھی مسکراتے ہوئے: دینے کے لیے پہلے صرف نفرت تھی، اب کچھ باقی نہ رہا۔
                    ہم دونوں نے اس شام کچھ بھی نہیں کیا، کیونکہ میرا دل اس لڑکی کی طرف مبذول نہیں ہورہا تھا۔ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی تھی کہ عینی اب تک کنواری ہے اور جلد ہی اپنا کنوارہ پن اپنے شوہر کے نام کردے گی، جب وہ جا رہی تھی تب اس نے مجھے زندگی کی نئی ابتدا کرنے کا کہہ کر مجھے نئے سمیر میں واپس لے آئی تھی۔
                    کچھ دیر بعد احسن کی کال آئی اور میں نے اسے وہی کہانی سنائی جو مجھے کافی دن پہلے معلوم ہوچکی تھی، احسن نے موڈ ٹھیک کرنے کے لیے محلے کی ایک لڑکی کو بلا لیا، میرا آج سچ میں دل نہیں کررہا تھا اس لیے اس لڑکی پر احسن نے ہی اپنا ہاتھ صاف کیا۔
                    کچھ دیر بعد احسن کمرے سے باہر نکلا تو مجھے کچھ دور کھڑا مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولا
                    احسن:تم جب بھی مجھے اس نظر سے دیکھتے ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ابھی اندر کچھ غلط کرکے آرہا ہوں۔
                    میں اس کے قریب سے گزرتے ہوئے بولا: میں سو فیصد بولتا ہوں تم نے اندر اس بے چاری کی گانڈ ہی ماری ہوگی،
                    تب احسن مجھے اندر کی طرف دھکا دیتے ہوئے بولا: پھدی تمہاری ہے یارا، مجھے پیچھے کا سواد چڑھ چکا ہے
                    میں دروازہ لاک کرکے جوں ہی اس لڑکی کی طرف مڑا تو مجھے رونے کی آواز آنے لگی، میں احسن کو دل ہی دل میں کوستا ہوا بیڈ پر پہنچا اور اس لڑکی سے بولا: کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو؟
                    لڑکی نے پہلی مرتبہ میری طرف دیکھا چہرے پر اسکے بیکھرے ہوئے بالوں کی لٹیں امڈ رہی تھیں، جبکہ آنکھوں سے آنسوؤں کی کافی لڑیاں نیچی گررہی تھیں۔ میں ایک پل کے لیے رکا اس منظر کو دیکھتا رہا پھر آگے بڑھ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔
                    میرے نرم انداز سے لڑکی ہکلاتے ہوئے بولی: صاحب جی،،،
                    لڑکی ایک مرتبہ پھر رک گئی جس پر میں معاملے کو مکمل طور پر سمجھ چکا تھا اس لیے لڑکی کو دوبارہ بولنے کا وقت نہ دیا اور اسے فوراً اپنی مضبوط بانہوں میں بھر کر واش روم کی طرف چل دیا۔ واش روم پہنچ کر میں نے اس کو ایک طرف کھڑا کر کہ فوراً گرم پانی کو ٹب میں بھرا اور لڑکی کو پانی میں اترنے کا اشارہ کیا۔ جس پر لڑکی خاموشی سے پانی میں اتر گئی۔ہم دونوں میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا اس لیے میں اس لڑکی کے ننگے جسم کے اتار چڑھاؤ کو دیکھنے لگا، کافی عرصہ پہلے یہ بات مجھے معلوم چل گئی تھی کہ لڑکیاں اپنے لیے کافی حساس ہوتی ہیں۔
                    لڑکی نے میری طرف دیکھا تو ہلکی سے سمائل پیش کردی میں: میں باہر جا رہا ہوں تم اپنی گانڈ کو آرام دلانے کی کوشش کرو، اگر دل کرے تب بلا لینا، کوئی زور زبردستی نہیں۔
                    میں جیسے ہی واپسی کے لیے مڑا لڑکی نے ہاتھ تھامتے ہوئے بولی: آپ وہی ہیں نا، جن کی شادی ماہرہ بی بی سے ہونے والی تھی
                    مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر زور دار دھماکے کردیے ہوں، میری شعلہ بار نگاہیں پہلی مرتبہ اس لڑکی کی طرف لپکی،
                    میں: تم، تم، کیا جانتی ہو میرے بارے میں؟
                    لڑکی: آپ، آپ پوچھنا کیا چاہتے ہو صاحب جی، آپ تو اس گھر کے درودیوار کے شہزادے تھے، بلکہ اس گھر کے ہر فرد کے راجا تھے۔ میں اپنی اماں کے ساتھ وہاں کام کرنے جایا کرتی تھی، تب سے صرف اور صرف آپ کا ہی چرچہ سنا، ماہرہ بی بی کو چھوٹی بی بی جی اتنا تنگ کرتی تھیں کہ مت پوچھیں،
                    (میں وہیں فرش پر بیٹھ گیا یہ بھی خیال دل و دماغ سے نکل چکا تھا کہ میرے نیچے بیٹھنے سے میرے کپڑے گیلے ہوجائیں گے لیکن میں ماہرہ کے ذکر سے بے تاب ہوچکا تھا)
                    لڑکی: ماہرہ بی بی کی دونوں سہیلیاں سارا سارا دن وہیں ان کے پاس بیٹھ کر ان کو تنگ کرتی، شادی کے دن قریب آتے جارہے تھے تب ماہرہ بی بی کی دور کی بہنیں بھی آگئیں۔ ان میں سے ایک کی دوستی ماورہ بی بی سے ہوگئی۔ دونوں جب بھی موقعہ ملتا ایک ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہتی، میری توجہ ان کی طرف اس وقت ہوئی جب وہ سرگوشیوں میں باتیں کررہی تھی۔
                    پہلے پہل میں نے ان کی حرکتوں پر توجہ نہیں دی، لیکن ان کی سرگوشیوں نے مجھے ان کی طرف متوجہ کردیا۔ اماں کی ایک بری عادت تھی ان سے کوئی کام ہوتا نہیں تھا جب کام ادھورا رہ جاتا تب آواز دے کر بلا لیتی تھی۔ اس دن شاید کسی وجہ سے ماہرہ بی بی آپ کے گھر گئی ہوئی تھی تب اماں نے مجھے چھت پر کمبل دھوپ میں ڈالنے کا کام کرنے کو دیا، میں نے باقی کام نبٹا کر چھت پر گئی تب غلطی سے میں نے جو کچھ سنا وہ میں نے ماہرہ بی بی کو بتایا بھی لیکن انہوں نے میری بات نہ مانی، صاحب جی، آپ بھی نہیں مانو گے۔
                    میں فوراً بول پڑا: نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے، تم بتاؤ گی تو میں سن کر یقین بھی کرلوں گا،
                    لڑکی: صاحب جی پلنگ پر چلتے ہیں یہاں عجیب سا محسوس ہورہا ہے
                    میں اٹھ کھڑا ہوا تب وہ بھی ٹب میں کھڑٰی ہوئی تو اس کے بالوں سے پانی نیچے کی طرف بہنے لگا جس پر میں ایک لمحے کو جما لیکن میں نے ماہرہ کی خاطر اپنی نظریں دوسری طرف کرلیں تب وہ لڑکی ٹب سے باہر نکل کر اپنے جسم کو تولیے سے خشک کرنے لگی، کچھ دیر بعد میں نے اسے سہارا دے کر پھر سے بیڈ پر لے آیا جہاں اس کی گانڈ کے پھاڑنے کی اثرات موجود تھے۔
                    میں نے اس گندی چادر کو اٹھانے کے لیے ایک سرے کو پکڑ کر اٹھانے لگا تب اس نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر بولی: صاحب جی، رہنے دیں نہ، ابھی میں گیلی ہوں، نئی چادر ڈالنے سے وہ بھی گیلی ہوجائے گی۔ پھر بار بار بدلی کرتے رہیں گے، اسے رہنے دیں۔
                    میں: اچھا ٹھیک ہے، تم بیٹھو، میں چائے بنا کر لاتا ہوں۔
                    میں فوراً کمرے سے باہر نکلا تو سامنے احسن کھڑا مسکرا رہا تھا، اس کے ایک ہاتھ میں سگریٹ موجود تھی، مجھے دیکھ کر اس نے فوراً اس سگریٹ کر سائیڈ پر پھینک کر بولا: ہمدردی مزہ نہیں ملتا سمیر
                    میں اسے دھکا دیتے ہوئے بولا: مجھے ایک بات بتا، تُو نے وحشی پن والے کام کب سے شروع کردیئے ہیں، اب یہاں سے شکل گم کر یا پھر سو جا، مجھے ابھی مزید کام ہے
                    احسن اوکے بول کر اپنے کمرے کی جانب جیسے ہی بڑھا، میں نے فوراً اسے ٹوکا،: آج تم چھت والے سٹور روم میں سو گئے یہی تمہارے وحشی پن کی سزا ہے۔
                    احسن نے کہاں میری بات ماننا تھی، وہ کاندھے اچکا کر بولا: چل تو اس سے رات لگا میں تیرے کمرے میں سو جاؤں گا۔ ڈونٹ وری
                    احسن مجھے دھکیلتے ہوئے میرے کمرے میں گھس کر کمرے کو لاک کردیا۔ میں مسکراتے ہوئے چائے بنانے چل دیا، کچھ دیر بعد میں دوبارہ اسی لڑکی کے پاس بیڈ پر بیٹھا چائے پی بعد میں دوبارہ اسی لڑکی کے پاس بیڈ پر بیٹھا چائے پی رہا تھا تب اس لڑکی نے بات شروع کی
                    لڑکی: صاحب جی، آپ اتنے اچھے کیوں ہو؟
                    میرے لبوں پر ہلکی سی مسکان پھیل گئی جس پر وہ دوبارہ فوراً بولی: صاحب جی، ماہرہ بی بی کے پورے کمرے میں صرف اور صرف آپ کی تصویریں تھیں، جس میں یہی والی مسکان تھی
                    اس لڑکی کی بات سن کر میری آنکھوں سے ساقی کا جام چھلک گیا، جسے اس لڑکی نے دیکھ لیا یا پھر محسوس کرلیا جس پر اس نے فوراً کہا: صاحب جی چائے ٹھنڈی ہوجائے گی
                    میں خاموشی سے چائے پینے لگا تب لڑکی بولی: صاحب جی، آپ کو معلوم ہے چھوٹی بی بی جی بھی آپ کی تصویر دیکھ کر ٹھیک اسی طرح مسکراتے ہوئے رو دیتی تھیں۔
                    (آج اس لڑکی نے مجھے سچ میں مار ہی ڈالنا ہے) میں: تم اپنی بات شروع کرو جس پر ماہرہ بی بی نے توجہ نہیں دی تھی
                    میں نے اس لڑکی کے ہاتھ سے چائے کا مگ لیا اور سائیڈ پر اپنے مگ کے ساتھ رکھ دیا تب لڑکی بولی: صاحب جی، مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے آپ بھی یہیں آجاو نا ساتھ میں۔
                    میں: پہلے تم رضائی اوپر لے لو، میں نے ابھی مزید کام کرنے ہیں۔
                    بار بار اس لڑکی کے اصرار پر میں نے اس لڑکی کے ساتھ ہی اپنے آپ کو لیٹا لیا تب اس لڑکی نے بولنا شروع کیا: میں نے چھت پر ماورا بی بی اور ان کی ساتھی کی باتیں سنیں جس میں یہی تھا کہ وہ کسی ایسے موقعے کی تلاش میں ہیں جس سے یہ رشتہ ٹوٹ جائے اور ماہرہ بی بی کا رابطہ آپ سے کٹ جائے، پھر اگلے دن میں نے پھر سنا، وہ دونوں بول رہی تھیں کہ آج ان کا کام پورا ہونے والا ہے اگر ان کے پلان کے مطابق ساری باتیں ہوئی تو،
                    پھر شام کو میں نے اماں سے سنا کہ آپ دونوں کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے، میں نے اگلی صبح ماہرہ بی بی کو ساری باتیں اکیلے میں بتا دیں لیکن وہ نہ مانیں، پھر اسی دن میں نے انہی دونوں سہیلیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا : بڑا آیا ہماری سہیلی کو بدلنے والا، اب وہ پاگل بنا پھرے گا، وہ ساری زندگی یہی سوچتا رہے گا کہ یہ اس کی کزن نے کیا ہے، جبکہ یہ سارا کارنامہ ہماری محنت کا نتیجہ ہے۔
                    میں نے کافی دیر تک ان کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا، پھر میں نیچے آگئی، پھر اگلے دن مجھے دیکھنے کے لیے لڑکے والے آگئے، میں وہاں مصروف رہی، جب شام ہوئی تو اماں نے خبر سنائی کہ ماہرہ بی بی دروازہ نہیں کھول رہیں، ہم دونوں ایک ساتھ ماہرہ بی بی کے گھر گئیں تو وہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ ان دونوں سہیلیوں کو چھوٹی بی بی کے پاس کھڑا دیکھا تھا۔ پھر کچھ دن کے بعد ہم دونوں ماں بیٹی کام پر جاتی رہیں پھر بعد میں میری شادی ہوگئی اور میں اس گاؤں میں بیاہ کر آگئی،
                    میں بیڈ سے اٹھنے لگا تب لڑکی بولی: صاحب جی، جب سے آپ میرے پاس تھے، مجھے ایسا محسوس بھی نہیں ہوا کہ میں کسی پرائے گھر میں پیسے کمانے کے لیے آئی ہوں، ماہرہ بی بی سچ ہی کہتی تھیں، آپ کے قریب جو بھی جائے گا، اسے غیر محفوظ نہیں لگا گا۔ پلیز نہ جائیں نا
                    میں: اچھا میں نہیں جاتا، میں باہر گیٹ چیک کر کے آتا ہوں اور ساتھ میں یہ مگ بھی رکھنے ہیں۔
                    میں اس کے بعد مگ کو واپس کچن میں رکھے اور وہاں کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا، تمام کڑیوں کو ملاتے ہوئے : ماہرہ بے داغ تھی، اس کے دامن پر داغ اس کی سہیلیوں نے لگایا، جب میری وجہ سے ماہرہ نے اپنی سہیلیوں کا ساتھ نہ دیا تو وہ میٹھی چھری بن کر ساتھ رہیں، بعد میں اپنا زہر اگل کر چلتی بنی،
                    میں وہاں سے واپس کمرے کی طرف بڑھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میں آج رات کسی کے ساتھ بھی گزارنا نہیں چاہتا تھا لیکن آج میرے بستر پر ایک لڑکی موجود تھی جو میرے نزدیک ایک محسنہ تھی۔
                    میں اپنی مجبوری کے تحت احسن کے بستر پر پہنچ چکا تھا، کچھ دیر لیٹنے کے بعد وہ دوبارہ بولی
                    لڑکی: صاحب جی، آپ وہاں کھڑے ہوکر رو رہے تھے نا
                    میں مسکراتے ہوئے: تمہیں میری ہر ایک حرکت کا علم کیسے ہوجاتا ہے؟
                    لڑکی: ابھی ابھی تو آپ کو بتایا تو تھا نا،،، ماہرہ بی بی ہر وقت صرف اور صرف آپ کے متعلق ہی بات کیا کرتی تھیں،
                    میں: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہاری بی بی جی کے گھر والے میرے ذکر پر اسے خفا یا ڈانتے نہیں تھے؟
                    لڑکی: نہیں صاحب جی،
                    میں: وہ کیوں؟
                    لڑکی: پتا نہیں صاحب جی، بس اتنا معلوم تھا کہ آپ کی امی ہماری بی بی جی کے گھر کافی سال پہلے آیا کرتی تھیں
                    میرے سامنے ایک اور سوال پیدا ہورہا تھا جس کا جواب صرف امی کے پاس تھا، لیکن اب میں اس موضوع کو ختم کرنا چاہتا تھا، تب وہ لڑکی دوبارہ بولی: صاحب جی، آپ کو ماہرہ بی بی جی سے بھی زیادہ اچھی لڑکی مل جائے گی۔ آپ ایسے رویا نہ کریں۔
                    میری ایک مرتبہ پھر آنکھیں گیلی ہوئیں جس پر اس لڑکی نے اپنے نازک ہاتھوں کو میری آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں پر رکھ کر پونچنے لگی۔ ایک کے بعد ایک یاد، جو صرف ماہرہ کی تھی، کیونکہ میری زندگی میں بس ماہرہ ہی تو تھی جسے میں یاد کرسکتا تھا۔
                    میں جتنا اپنی یادوں میں کھوتا جارہا تھا میری آنکھیں اپنی مینہ برسارہی تھی جس پر میرا بس نہیں تھا۔ لڑکی: صاحب جی، جب بھی ماہرہ بی بی اداس ہوتی تھیں تب چھوٹی بی بی جی کہتی تھیں: جب سمیر روئے گا تب تم کیا کرو گی؟
                    صاحب جی تب ماہرہ بی بی بولتی تھیں: میں اپنی جان کے آنسوؤں کو آب حیات سمجھ کر پی جاؤں گی، اور آئیندہ رونے سے روکوں گی۔
                    تب چھوٹی بی بی جی بھی رو دیتی تھیں، جس پر ماہرہ بی بی ہلکا سا پریشان ہوکر پوچھتی کہ تمہیں کیا ہوا؟ تب وہ کچھ نہ بولتیں، لیکن صاحب جی مجھے تو سب معلوم تھا۔ صاحب جی، کیا میں بھی آپ کے آنسوؤں پی کر دیکھوؤں، کیسا لگتا ہے؟
                    اس رات میں نے اس لڑکی کو نہ روکا، کیونکہ وہ میری زندگی کی پہلی محسنہ تھی، اس کا مجھ پر حق تھا جو بھی وہ مانگتی میں اسے دے دیتا۔ چاہے وہ میری جان ہی کیوں نہ مانگ لیتی

                    Comment


                    • Buhat hi aala update haii
                      zabardast

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X