Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

میرے سمدھی اور مینوپاز کے بعد سیکس

Collapse
This topic has been answered.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #91
    bohat umda janab maza a gaya

    Comment


    • #92
      wah g hero ka to is age me bhi land bohat powerful hai jw 3 3 bar choot ko salami deta ha

      Comment


      • #93
        double double maza lucky ha ashfaq sahab

        Comment


        • #94
          very nice story maza a raha ha parh kar

          Comment


          • #95
            Party kar rahay hain ashfaq sahab hanya munya par

            Comment


            • #96
              چھٹا اور آخری حصہ

              ایک دن مجھے محسوس ہوا کہ عارفہ اور ماریہ کے شوہر جب چلے جاتے ہیں یا کہں باہر ہوتے ہیں، تو وہ دونوں اپنے بچے ہمارے پاس چھوڑ کر اپنے بیڈ روم میں گھنٹوں بتاتی ہیں۔ جبین سے کہا کہ اس کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

              یہ تو پتہ تھا کہ دونوں پچپن سے ہی فرینڈز ہیں۔ ایک روز اشفاق اور ان دونوں کے شوہر باہر گئے ہوئے تھے، کہ انہوں نے بچے ہمارے حوالے کردئے اور چلے گئے۔ میں نے چھپ کر دیکھا عارفہ، ماریہ کے بنگلے میں اسکے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے داخل ہوگئیں ۔

              ہم نے بچوں کو پالنے میں سلا کر اور دودھ کی بوتل ان کے پاس رکھ دی۔ مالی اور اسکی بیوی لان کی دیکھ ریکھ کر رہی تھی۔ جبین نے اس کی بیوی کو اندر بلاکر بچیوں پر نظر رکنے کےلیے کہا اور بتایا کہ اگر وہ جاگ جاتی ہیں، تو ان کو بوتل کا دودھ پلائے۔ ان کی طرف سے اطمینان ہوکر جییں اور میں جنید اور ماریہ کے بنگلے میں پہچھے کے دروازہ سے داخل ہوگئے۔

              بیڈ روم سے گھٹی گھٹی دبی دبی آوازیں آرہی تھیں۔

              چونکہ انہوں نے مین دروازہ بند کیا ہوا تھا اسلئے انہوں نے بیڈ روم کا دروازہ اندر سے بند کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ میں نے واپس جانا چاہا۔ پر جبین نے روکا اور بیڈ روم ایک دم کھول دیا۔ دونوں کپڑوں سے بے نیاز بوس و کنار میں مصروف تھیں۔پہلے تو وہ جز بجز ہوگئیں، مگر جلدی اپنے اوپر ڈوپٹہ ڈال کر پر سکون ہوگئیں۔

              تو اسی لئے تم بچے ہمارے پاس چھوڑ رہے تھے، میں نے کہا۔

              ماریہ تو میرے ساتھ فرینک تھی، مگر یہ اس نے کبھی نہیں بتایا تھا۔

              یہ کب سے چل رہا ہے، میں نے پوچھا۔

              ماریہ نے کہا کہ شادی سے بہت پہلے سے ہی جب بھی ہم ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے، تب سے شروع ہوگیا تھا۔

              جیبن نے پوچھا، چلو کوئی بات نہیں۔ شوہروں کو پتہ ہے کیا؟ ۔ دونوں نے کہا نہیں اسی لئے تو ان کے غیر موجودگی میں ہی کرتے ہیں۔

              عارفہ بولی امی آپ لوگ بھی تو کرتے ہیں۔۔ہم نے تو کئی بار محسوس کیا ہے۔

              ہاں تو ہمارے شوہر کو پتہ ہے اور اسی کی موجودگی میں بھی کرتے ہیں، جبین نے کہا۔

              دونوں نے بس ڈوپٹہ ہی اپنے اوپر رکھا ہوا تھا۔ ادھر جبین نے مجھے اپنی گود میں بٹھا کر ان کے سامنے میری کسنگ شروع کرکے ان سے پوچھنے لگی کہ اب تمہاری سزا یہ ہے کہ اپنی سہاگ رات کی کہانیاں سناو۔ مجھے یاد آگیا کاموں میں مصروف ہونے کے سبب میں بھی ماریہ سے پوچھنا بھول ہی گئی تھی۔

              ماریہ نے کہا کہ بہت اچھی رہی، امی کی طرح چیخیں نہیں نکالنی پڑی۔ میں نے حیرت سے اس کی اور جبین کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ تم کو کس نے بتایا ہے، تو عارفہ بول پڑی کہ بھوپال میں تو ہماری گلی میں لوگوں کو آپ کی چیخیں اور پھر ڈاکٹر کے پاس لیجانا سب یاد ہے اور یہ تو ضرب المثل بن چکی ہے۔

              ان دونوں کی شادی کے تقریبات بھوپال میں ہی ہوئی تھیں۔۔ہمارے کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھے۔ افضل کے رشتہ داروں نے کبھی خبرو خیریت نہیں پوچھی تھی۔ اب حیدرآباد میں شادی جسی تقریب میں کون مدد کرتا۔ ہم نے افضل کے رشتہ داروں اور میرے دور کے رشتہ داروں کو ولیمہ کی دعوت میں بلایا اور پھر حیدرآباد میں چنیندہ رشتہ داروں اور جنید کے دوستوں کی دعوت کی، جو بھوپال نہیں آسکے تھے۔

              اشفاق نے بھوپال میں ایک بڑا سا شادی گھر بک کیا ہوا تھا۔ اس کے اوپری حصے میں شب عروسی کےلئے کمرے بھی تھے۔ جو ایک مکمل فلیٹ کی طرح اور بلکل پرائیوٹ تھے۔ رات گئے تقریبات ختم ہونے کے بعد ہم نے دلہنوں کو ان کے کمروں تک پہچادیا تھا۔۔جب دونوں دلہا ان کے کمرے میں داخل ہوگئے، تب ہم بھی تھکن اتارنے کےلئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔۔

              باتوں کے اس سلسے سے اب ماریہ اور عارفہ کی ججھک ختم ہو چکی تھی۔۔ ڈوپٹہ پھینک کر ایک دوسرے کو بیچ بیچ میں کس کرکے اور زبان چوس کر دونوں نے اپنی سہاگ رات کی کہانی شروع کردی۔ عارفہ نے کہا کہ جنید تو بلکل سیدھا بچہ ہے۔ ویسے ہماری منگنی اور شادی کے بیچ کے وہ بھوپال آتا تھا۔ شاید اس نے آنٹی آپ کو نہیں بتایا ہوگا۔ وہ ہوٹل میں رکتا تھا۔ اسنے مجھے ہوٹل آنے کےلئے کئی بار کہا، مگر میں نے منع کیا۔

              ہم تھیٹر فلم دیکھے جاتے تھے اور پہچھے کی سیٹ پر بیٹھ کر باتیں اور چوما چاٹی کرتے تھے۔ ایک بار پاچامہ کے اندر ہاتھ ڈال کراس نے اپنی انگلی میری چوت کے اندر ڈال دی تھی۔ مجھے آرگیزم آگیا تھا۔

              سہاگ رات کو جب وہ کمرے میں داخل ہوگیا، تو میرا گھونگھٹ اٹھا کر اس میں منہ دکھائی کےلئے انگھوٹھی پہنائی اورگلے میں ایک ہار پہنایا۔ پھر اس نے کہا کہ کب تک اب بچ جاوٗ گی۔ شادی سے پہلے نہیں تو شادی کے بعد ہی سہی۔

              ’’انگیجمنٹ کے دوران کئی بار میں بھوپال آیا تھا، کہ کچھ کام کیا جائے۔ مگر تم نے کرنے نہیں دیا۔۔آج پوری کسر ہوری کر دونگا۔۔‘‘

              اس نے میرے سامنے ہی اپنے کپڑے اتارے اور میرا ہاتھ اپنے عضو کی طرف لے جانے لگا۔ میں نے کہا کہ مجھے باتھ روم جانا ہے۔۔باتھ روم جاکر میں نے اپنا بھاری بھرکم جوڑا اتار کر نائیٹی پہن لی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ دلہن کو اتنا بھاری جوڑا کیوں پہنایا جاتا ہے؟

              وہ بیڈ کے ایج پر برہنہ بیٹھ کر میرا انتظار کر رہے تھے۔ جنید نے میر اہاتھ پکڑ کر گود میں بٹھایا اور میرا ہاتھ اپنے لنڈ پر رکھا۔ میں اسکو فیل کر رہی رہی تھی، کی اس نے مجھے لٹا کر میری نائیٹی نکال کر پورے جسم کے ایک ایک انچ کے بوسے لئے۔ چوت کے پاس زبان کی نوک سے ہلکا سا مساج کیا۔ میں سرور میں آچکی تھی۔

              عارفہ جب یہ داستان بیان کررہی تھی، تو ماریہ اسکی گود میں تھی۔ وہ اپنی انگلیاں اسکی چوت کے اردگرد پھیر رہی تھی اور اس کی چوت کے لب کھول کر جیسے ہمیں دکھا رہی تھی۔ ماریہ کی چوت، بس میری ہی چوت کی کاپی تھی۔

              ہاں، تو اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے، عارفہ نے کہا کہ جنید نے زیادہ وقت نہیں لیا،۔ بس میری ٹانگوں کو کھولنے کے بعد ان کو اٹھا کر اپنے شانوں پر رکھا اور اپنے لنڈ کو میرے چوت اور اسکے کلی ٹورس کے اوپر نیچے کرنے لگا۔ مجھے انتہائی مزا آرہا تھا۔

              اسی دوران اسے نے ٹوپہ چوت کے دہانہ پر فٹ کرکے پوری طاقت لگا کر اندر کردیا اور ساتھ ہی میرے اوپر گر ہر میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے کس کے پکڑ کر کسنگ کی۔ میری چیخ تو نکلتی مگر اسکے ہونٹوں نے میرا منہ بند کیا ہوا تھا۔ درد تو ہوا، مگر جلدی ختم ہو گیا۔ جنید بھی بس ایک دو دھکے لگا کر ہی فارغ ہوا۔

              مگر وہ اوپر ہی لیٹا رہا اور صبح سویرے تک چار، پانچ بار اسی طرح کرکے فارغ ہوا۔۔ میں بھی تین فارغ ہوکر سو گئی۔۔ میری انرجی ختم ہو چکی تھی۔ ۔۔ وہ بس اسی طرح میرے اوپر لیٹا تھا اور مزید کئی بار کرکے میرے اوپر ہی سو گیا۔ سویرے دیکھا کہ شیٹ پر خون کا ہلکا سا دھبہ تھا۔

              ہاں تو ماریہ، تم بھی اب شروع کرو، جبین نے کہا۔ اسنے مجھے گود میں بٹھا یا ہوا تھا۔ اور بیچ بیچ میں میرے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ ہم نے کپٹرے اتارے نہیں تھے۔

              ماریہ بولی کہ شادی گھر کے دوسرے حصے میں ہم لوگوں کی سہاگ رات کی کاروائی چل رہی تھی۔۔۔عارفہ کو معلوم ہے کہ منگنی کے بعد شکیل حیدرآباد آتا تھا۔ آپ لوگوں کو نہیں بتاتے تھے۔ وہ گھر پر کہیں اور جانے کا کہہ کر آتے تھے اور ہوٹل میں ٹھہرتے تھے۔ ان کے ساتھ اناساگر جھیل وغیرہ کی سیر کی ہے اور باقی کپلز کی طرح چوما چاٹی کرتے تھے۔

              ایک بار وہ ہوٹل میں مجھے ساتھ لے گئے اور پینٹ کی ز پ کھول کسنگ کرنے کے بعد مجھے اپنا لنڈ ہاتھ میں لینے کو کہا۔ میں نے پہلے تو منع کیا اور بس چند ماہ شادی تک صبر کرنے کےلئے کہا، مگر اس نے زبردستی میرا ہاتھ اپنے موٹے اور لمبے لنڈ پر رکھا اور ماسٹر بیشن کروا کر فارغ ہوگیا۔

              میرے منہ سے نکلا کہ واقعی اپنے باپ کا بیٹا ہے۔ کیا مطلب، ماریہ نے کیا۔۔

              کچھ نہیں بس بس اب بتانا ہی پڑا کہ اس کے باپ کا بھی عٖضو سات اٹھ انچ بڑا ہے۔

              شکیل نے وعدہ کیا تھا کہ وہ فکنگ نہیں کریگا۔ دوسری بار میرا تھوڑا پاچامہ اتار کر پینٹی کے اوپر سے ہی اس نے اپنا موٹا لنڈ چوت کے ساتھ کئی بار رگڑا اور منی کی دھار چھوڑ دی۔

              میں تب سے ہی سوچ رہی تھی، کہ اتنا بڑا اور موٹا لنڈ میری ننھی سی چوت میں کیسے آئیگا۔ میں آئینہ میں تقریبا روز ہی شادی تک اپنا چوت دیکھتی تھی اور من ہی من میں کہہ رہی تھی کہ ماریہ اس کی حالت خراب ہونے والی ہے۔ تمہیں بھی امی کی طرح چیخنا چلانا ہے۔ اتنا بڑے عضو کو اندر لے جانے کی سوچ سے ہی جھرجھری ہو جاتی تھی۔

              کمرے میں آکر شکیل نے گھونگھٹ اتار کر سونے کا ہار وغیرہ منہ دکھائی کےلئے گفٹ میں دیکر مجھے ہلکے کپڑے پہننے کےلئے کہا اور خود جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگا۔ جب تک میں باتھ روم سے نائیٹی پہن کر واپس آگئی تو تب تک مجھے سکون آچکا تھا۔ اس نے مجھے گود میں بٹھا کر چوما چاٹی شروع کی۔

              میرے ہونٹ چوسے، زبان منہ میں ڈالی، تو میں بھی سرور میں آگئی اور میں نے بھی اسکو خوب چوما۔ اپنی زبان اسے کے حوالے کی، جس کو اس نے چوسا۔ پھر میں نے اس کو زبان منہ سے کھنچ لی اور اس کو چوسا۔ خوب فور پلے کے بعد اس کے میری نائیٹی اتاری اور پھر اپنے پورے کپڑے اتارکر مجھے بیڈ کے کنارے بیٹھ کے بل لٹایا۔

              میری ٹانگیں پھیلا کر وہ گھٹنوں کے بل ان کے درمیان بیٹھا اور زبان کوچوت کے اردگرد اور پھر اسکے لبوں کو علیحیدہ کرکے کلی ٹورس اور سوراخ پر پھیرایا۔ کلی ٹورس کو ٹچ کرکے جب زبان کی نوک نیچے سوراخ کا سفر طے کرتی تھی ، تو میرے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ اس بیچ وہ اوپر آکر میرے بوبس کو مسلتے تھے اور نپلز چوستے تھے۔

              اب کہاں کا خوف اور کہاں کا ڈر۔۔۔ میری پوری باڈی مستی میں تھی۔ اسی مستی میں شکیل نے اپنے لنڈ کا ٹوپہ سوراخ پر فٹ کرکے جو دھکا لگایا، آدھا لنڈ اندر چلا گیا اور میری چیخ نکل گئی۔ مزا کافور ہوگیا۔ رک کر میرے چہرے کی طرف دیکھ اور چوت سے خون نکلتا دیکھ رہا تھا۔ اس نے اب ایک اور دھکا لگا کر پورا لنڈ اندر کردیا اور میرے اوپر آکر میرے ہونٹوں اور بوبس کو دوبارہ کسنگ کرنے لگے۔ میں جلدی ہی دوبارہ مستی میں آگئی۔ پھر دھکوں کی ایک برسات کرکے وہ میرے اندر فارغ ہوگئے۔

              پھر شکیل نے مجھے ہاتھوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹادیا۔ ابھی تک تو میں ایج پر لیٹی تھی۔ اور ٹانگیں اٹھا کر پھر لنڈ اندر کردیا۔ وہ دوبارہ اکڑ گیا تھا۔ پھر رات بھر اس کو اندر ہی رکھا۔ بڑا ہونے کی وجہ سےنرم ہوکر بھی اس کا سرچوت کے اندر دھانہ کے آس پاس ہی رہتا تھا۔ میں اسکے اکڑنے کا پراسیس محسوس کرتی تھی۔ وہ میرے ٹشوز کر ادھر ادھرکے اندر کی طرف مارچ کرنا شروع کرتا تھا، جیسے سانپ بل کے اندر جانے کےلئے رینگتا ہے۔

              پانچ چھ بار مجھے چودنے کے بعد ہم صبح ہی سو گئے۔ اس دوران میں بھی تین بار فارغ ہوگئی تھی۔ عارفہ نے جبین کو کہا کہ امی تم نے ہی ابو کو آنٹی (وہ مجھے ابھی بھی آنٹی ہی کہتی تھی۔ جب کہ میں اب اس کی ساس تھی) کے ساتھ شادی کرنے کی ترغیب دی۔ اتنی دیر کیوں کی؟

              جین نے کہا، تمہارے ابو تو پچھلے پچیس سالوں سے ہی ثریا پر فدا تھے، جب سے وہ اپنے شوہر کے ساتھ بھوپال آگئی تھی۔ مجھے چودتے وقت ان کے منہ سے اکثر ثریا کا نام نکلتا تھا۔

              ماریہ کے ابو کی وفات کے بعد اس نے رشتے ٹھکرادئے۔۔ وہ معصوم بچوں کوسوتیلے باپ کے حوالے نہیں کر چاہتی تھی اور نہ ہی سوتیلے بچے پیدا کرکے جنید اور ماریہ کو محرومیوں کے حوالے کرنا چا ہتی تھی۔ اشفاق اور میں نے حتی الامکان خیال رکھا، اگر شادی کا ذکر آتا تو بقول اشفاق لگتا کہ اسی غرض کےلئے ہم خیال رکھتے ہیں۔

              میں بھی ثریا کی عاشق رہی ہوں۔ مگر یہ کچھ زیادہ آگے بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اسکی بیوگی کے بعد تو میں نے بھی کبھی ہمت نہیں کی ۔۔ اب چونکہ آپ سبھی ایڈجسٹ ہو چکے تھے، اسلئے میں نے سوچا کہ تمہارے والد کو شادی کروانے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا موقعہ عارفہ نے فراہم کروایا۔۔

              عارفہ نے پوچھا ایسا کیسے۔۔

              جبین نے کہا کہ تم سیکس کے دوران خوب شور مچاتی ہو۔ جب وہ مقدمہ کے سلسلے میں اشفاق حیدر آباد آتے تھے، تم لوگ کمرے میں کھسک جاتے تھے اور وہ جب ثریا کے ساتھ باتیں کرتے تھے اور کمرے سے تمہاری آوازیں آتی تھیں، تو وہ بیس سال پہلے کی دنیا میں پیچ جاتے تھے ۔

              وہ ثریا کی فکنگ کرنا چاہتے تھے، مگر ہمت نہیں ہو رہی تھی اور پھر تم لوگوں کی بھی ڈسٹربنس تھی اور یہ بھی خطرہ تھا کہ ثریا کیسے ری ایکٹ کرے گی۔ سسرال والا رشتہ تو بہت ہی نازک ہوتا ہے۔

              خیر میں نے پوری پلاننگ کی۔۔میں بھی اب جیبن کو غور سے سن رہی تھی۔

              دوسری طرف اب عارفہ اب ماریہ کی گود میں تھی اور ماریہ اسکی چوت کی پرتوں کو کھول کر اس میں انگلی کر رہی تھی۔ اس کا چوت جبین جیسا ہی تھا، مگرلب نسبتا موٹے تھے۔ کلی ٹورس چھوٹا ہی تھا، مگر واضح تھا۔ اسکے بوبس کی نپلز اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھی، جس کو ماریہ چوس رہی تھی۔

              جیبن کہہ رہی تھی، کہ جب عارفہ اور جنید یورپ روانہ ہوگئےمیں نے آدھے من سے اسکو ماریہ کو بھیجنے کی آفر کی تاکہ اس کی تنہائی دور ہو۔ خیریت ہوئی کہ اس نے منع کردیا۔

              مجھے معلوم تھا کہ اس دوران اشفاق کے کئی چکر حیدر آباد کی طرف لگیں گے۔ جب ان کے مقدمہ کی تاریخ کا دن آگیا، تو وہ ہوٹل میں بیٹھنے پر بضد تھے۔۔ مگر میں نے ان کو ثریا کے گھر پر ٹھہرے پر راضی کیا۔ ثریا کو بھی بتایا کہ وہ ہوٹل میں رہنا چاہتے ہیں۔ ثریا نے بھی جب ازراہ مروت کہا کہ وہ کیوں ہوٹل میں قیام کریں گے۔ گھر کا گیسٹ روم تو ہے۔ تو میں نے غنیمت جانا اور اشفاق کو کہا کہ بیٹی کی سسرال کا معاملہ ہے، ساس کے نخرے برداشت کرنے ہوتے ہیں۔

              اس طرح وہ ثریا کے گھر پر ٹھرنے پر راضی ہوگئے۔ یہ ایک طرح کا مکمل آپریشن تھا، جو میں نے ترتیب دیا تھا۔

              میں بھی یہ تفصیلات پہلی بار سن رہی تھی۔۔

              جبیں نے کہا کہ پھر یہ آپریشن کامیاب ہوگیا۔ میری طرف دیکھ کر پوچھا کہ کیا تفصیل سنانے کی اجازت ہے؟
              اب میں کیا کہتی۔ وہ دنوں لڑکیاں میرا جینا دوبھر کردیتی۔ میرا چہرہ شرم سے لال سیب کی طرح ہو رہا تھا۔ اس کو چھو کر جبین نے کئی بوسے لئے۔

              عارفہ کے باپ نے اس رات ہمت کرکے ماریہ کی ماں کو چودا۔۔اوووو اوو کیسے کیسے کی آوازیں لڑکیوں کے منہ سے نکل گئیں۔

              باقی یہ خود ہی بتائیں گی۔ مجھے تو اشفاق کے زریعے پتہ چلا گیا۔ اب ملزم خود ہی یہاں ہے، تو خود ہی بتائے۔

              اٹک ٓاٹک کر میں نے اس رات کی داستان سنائی۔

              وہ دونوں اس سے کافی گرم ہو گئیں تھیں۔ جبین نے کہا کہ جب میں نے اشفاق کا کھلتا ہوا چہرا دیکھا تو محسوس کیا کہ وہ کارنامہ کرکے آچکے ہیں۔ انٹروگیشن کے بعد انہوں نے تسلیم کیا اور پوری کہانی سنائی۔

              بس اس کے بعد میں نے ان دونوں کی شادی کی تیاریاں شروع کیں۔ تم لوگوں کو اعتماد میں لیا اور تہمارے ذریعے ثریا پر دباو ڈالا۔

              ثریا کی چوت کے کھلنے سے ہمارے گھر کے سبھی مسائل حل ہونا شروع ہوگئے۔۔ آج کی اس دولت کی ریل پیل ثریا کی چوت کی دین ہے۔ ماریہ کا بوٹیک، عارفہ کا کلنک، اشفاق اور تم دنوں کے شوہروں کی کمپنی یہ بنگلے سب اسی کے بعد ایک ایک کرکے آتے گئے۔ ہوسکے تو ثریا کی چوت کو سلام کیا کرو۔۔اس کے اندر ہماری قسمت بند تھی، جو اشفاق کے لنڈ نے باہر نکال دی۔

              جبین نے اب ان لڑکیوں کو بتایا کہ کامیاب شادی شدہ زندگی کا ایک گر یاد رکھو۔ مرد کی عقل اسکے کانوں کے بیچ نہیں ہوتی ہے، بلکہ ٹانگوں کے بیچ ہوتی ہے۔ اسلئے اس کے لنڈ کو خوب پذیرائی بخشو۔ یہ یقینی بناو کہ جب وہ آفس سے گھر آئیں، تو بیڈ روم میں انکا استقبال کرو۔

              فون پر ان سے ضرور روز پوچھا کروکہ کس وقت گھر ٓارہے ہیں۔ اگر کلنک یا بوتیک پر کام بھی ہو، تو بس دس منٹ نکال کر آو اورپھر اگر ضروری ہوا تو واپس جاو۔ مگر ان کے گھر آنے کے وقت گھر پر رہنا لازمی بناو۔۔

              بیڈ روم میں انکو کپٹرے نکالنے اور گھر کے کپٹرے پہنے مییں مدد کرو۔

              خاص طور پر اس وقت تھوڑی دیر ان کا لنڈ ہاتھ میں سہلا کر اس کو ضرور منہ میں لےکر تھوڑا سا چوس لیا کرو۔ اس سے مردوں کی پورے دن کی تھکن اور ٹنشن دور ہو جاتی ہے۔ یہ ٹائم بہت اہم اور نازک ہوتا ہے۔۔ پورے گھر کا سکون اور ان کی تہمارے لئے محبت کا جاری اور دائم رہنا بس اسی ایک لمحے پر منحصر ہے ۔

              دیکھنا کہ ان کا موڈ کیسا خوشگوار ریہگا۔ بعد میں ڈنر وغیرہ کرنے کے بعد آرام سے سیکس کرتے رہو۔ ویسے بھی تو اب ہر رات کوئی سیکس تو کرتا نہیں ہے۔ مگر آفس سے واپسی کے وقت مرد کا تھوڑی ہی دیر لنڈ کو سک کرنے سے وہ عورت کے بے دام غلام رہتے ہیں۔۔ یہ آزمودہ نسخہ ہے۔۔

              مزید اس سے وہ کہیں اور منہ وغیرہ بھی نہیں مارتے ہیں۔ اگر مارنے کا ان کو دل بھی کرے، وہ بس وقتی ضرورت ہوگی۔کوئی سیریس ریلیشن شپ نہیں ہوگی۔ شوہروں کو اسپیس بھی دو۔ اگر ایسا کیا تو وہ تمہیں ہر پل کا رازدار بنائیں گے۔ اگر وہ کسی کو باہر چود بھی دیں گے، تو تم سے اجازت لیکر اور تم کو بتاکر کریں گے۔ تم ان کو اسپیس دو گے، تو وہ بھی تم کو اسپیس دے سکتے ہیں۔ تمہاری نظر کسی پر پڑ گئی یا ذایقہ بدلنے کےلئے کسی سے وقتی طور پر چدوانا ہوا یا تم دونوں لزبن کرتی ہو، وہ کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ بس ان کے لنڈ کی طرف دھیان دو اور ان کی جنسی ودیگر ضروریات میں کوتائی نہ کرو۔

              یہ سجنیدہ گفتگو کرنے کے بعد جبین نے ان کو کہا چلو تم اپنا کاراکرم جاری رکھو ۔۔ ڈسٹرب کرنے پر معذرت۔ مگر اگر ہم ڈسٹرب نہیں کرتے، تو اتنی کہانیاں کون تم کو سناتا۔۔

              جب فارغ ہوجاو، تو آکر بچوں کو لیجانا کیونکہ ہمیں بھی لزبن سیکس کرنا ہے۔ انکی موجودگی میں اچھا نہیں لگتا ہے۔۔

              عارفہ یعنی میری بہو نے آکر مجھے گلے لگاکر میرے بوسے لئے۔ ماریہ نے جبین کو گلے لگا کر اس کے بوسے لئے اور ہم نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔


              میں اب یہ کہانی ختم کررہی ہوں۔ پر تمام بہنوں سے گذارش ہے جو یہ سمجھتی ہیں کہ مینو پاز کے بعد زندگی ختم ہو گیی پے اور رنگینیاں اب اختتام کو آن پہنچی ہے اور بس اب قبر کا انتظار کرنا ہے، خدارا ایسا سمجھ کر اپنے اُپ کو زندہ درگور مت کرو۔

              مینو پاز کے بعد تو حمل کا بھی خطرہ نہیں ہے، اسلئے پروٹیکشن کے بغیر ہی بھر پور انجوائے کرو۔ اپنے آپ کو نفسیاتی مریض مت بناو۔ سیکس کئی مرضوں کی دوا ہے۔ اس سے خون کی روانی بڑھتی ہے، بڑھاپا رک جاتا ہے۔ اپنے آپ کو فٹ رکھو۔ بناو سنگار کرو اور شوہروں کو لبھاکر سیکس کرنے کی ترغیب دو۔ ان کے لنڈ کو پذیرائی بخشا کرو۔

              پھر دیکھو کیسے تمہارے سبھی مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ مرنا تو ہے ہی ایک دن۔ مگر تب تک تندرست رہنا اور کسی کا دست نگر نہیں رہنا چاہئے۔

              یاد رکھو۔۔زندگی نہ ملے گی دوبارہ۔۔

              اس اسٹوری میں کچھ واقعات اور کردار بلکل سچے اور حقیقی ہیں، جن کو جوڑ کر کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

              اجازت دیجئے۔۔

              اپنا خیال رکھئے اور بھر پور سیکس کیجئے اور اس اسٹوری پر لنڈ توڑ اور چوت پھاڑ کمنٹ کیجئے، تاکہ حوصلہ افزائی ہو اور آئیندہ بھی لکھنے کی ترغیب ملے۔۔۔





              image.png

              Comment


              • #97
                Zabardast kahani thee janab. Maza agaya.

                Comment


                • #98
                  Originally posted by M rehan View Post
                  بہت ہی عمدہ اور بہترین لاجواب سٹوری
                  اسپر ?آیئ لو یو تو بنتا ہے ❤❤❤❤❤❤❤❤
                  پڑھنے اور پسند کرنے کا شکریہ ۔۔۔۔آٗئی لو یو ٹو۔۔۔۔

                  Comment


                  • #99
                    بہت بہترین بھائی کاشمیری سپر لاجواب❤❤❤❤❤❤

                    Comment


                    • Both ahla Kahani ha Jo ka munfrad Andazs lakhi her ha

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 2 guests)

                      Working...
                      X