Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

میرے سمدھی اور مینوپاز کے بعد سیکس

Collapse
This topic has been answered.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Budhapay main jawani ki khwahish pori hogaye .. jis ko soch kar bv ko chodta tha woh budhapay main bv ban gaye .

    Comment


    • #62


      پارٹ چار


      اگلے روز دوپہر کو گوا کی طرف روانگی سے قبل میں نے انکو بتایا کہ چونکہ شکیل اور ماریہ ابھی ہنی مون پر نہیں جاسکے، اسلئے وہ بھی ہمارے ساتھ آجائیں۔ مگر فیصلہ ہوا کہ وہ دونوں جنید اور عارفہ سمیت اگلے ہفتے ہمیں گوا میں جوائن کریں گے۔ ماریہ نے کہ ایک ہفتے تک تم لوگ خود ہی ہنی مون مناو۔میرے پیٹ کو ہاتھ لگا کر کہا کہ انجوائے خوب کرنا مگر اس کا خیال رکھنا کہ یہ پھول نہ جائے۔

      اب مجھے کسی اور بھائی یا بہن کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کہا تمیں تو معلوم ہی ہے، میرا پچھلے سال ہی مینو پاز ہو چکا ہے۔ اب تم لوگوں کی باری ہے کہ ہمیں پوتے اور نواسے دیں تاکہ ہم ان سے دل بہلاتے رہیں ۔ وہ بولی فی الحال تم انکل کا دل بہلاو، اور نکلو جلدی، فلائٹ کا وقت ہو رہا ہے۔ شکیل نے ہمیں ایر پورٹ چھوڑا۔

      فلائٹ میں، مجھے یاد آرہا تھا کہ افضل سے شادی کرنے کے بعد ہمیں ہنی مون کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔ ان کو تین دن بعد ہی بھوپال جاکر آفس جوائین کرنا پڑا۔ جب میری شادی ہوئی، تو میں ابھی کالج کے پہلے ہی سال میں تھی۔ اسلئے پڑھائی وہیں چھوٹ گئی۔ گو کہ میرا رنگ سفید اور بال بھی سیاہ اور گھنے تھے۔ جیسا میں نے بتایا کہ مجھے مدھو بالا کی ہمشکل بتایا جاتا تھا۔ مگر گھر کے سخت کنٹرول کی وجہ سے سیکس کے بارے میں شاید ہی کوئی معلومات تھیں۔

      بس اتنا معلوم تھا کہ شوہر چوت میں اپنا عضو ڈال دیگا اور اپنا پانی ڈال کر حاملہ کروائیگا۔ شادی کے روز ہی شاید گھراہٹ کی وجہ سے مجھے قبل ازوقت پیریڈز آگئے تھے۔ اسلئے حیدر آباد میں ہم سیکس نہیں کر پائے تھے۔ پیریڈز جب ختم ہوئے تو ہم اشفاق صاحب کے مکان کے پہلے فلور میں آگئے تھے۔

      اشفاق کی ماں زندہ تھیں، اس نے اور جبین جس کی شادی کو بس چند ماہ ہی ہوگئے تھے، نے مجھے اوپر کا فلیٹ دکھایا۔ اس رات ہم نے انہیں کے ہاں کھانا کھایا۔ رات کو بیڈ روم کا دورازہ جب افضل نے بند کیا، تو اس نے میرے کپڑے اتارنے شروع کر دئے۔ میں نے آنکھین بند کر دی تھیں۔ مگر انہوں نے مجھے آنکھیں کھول کر رکھنے کےلئے کہا۔ اب جو میں نے آنکھ کھولی، تو دیکھا کہ افضل برہنہ کھڑے ہیں اور ان کا لوڑا تنا ہوا ہے۔ مجھے تب تک پتہ بھی نہیں تھا کہ لوڑا اپنی شکل بدل دیتا ہے۔ گو کہ ان کا لنڈ پانچ انچ سے کچھ اوپر ہی لمبا رہا ہوگا اور زیادہ موٹا بھی نہیں تھا، مگر اس کو اندر لینے سے جھرجھری ہو رہی تھی۔ اگر ان دنوں معلوم ہوتا کہ لنڈ اشفاق جیسا بھی ہوتا ہے، تو میں تو بے ہوش ہی ہوجاتی۔

      میں نے ان سے لائٹ بند کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے بند تو کی، مگر ٹیبل لیمپ کو آن ہی رکھا۔ جو نائٹ بلب سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ انہوں نے میری چھاتیوں کو مسلنا ، نپلز کو چوسنا شروع کیا، جس سے مجھے سرور آرہا تھا۔ میرے ہونٹوں پر بوسہ دیکر مجھے زبان دینے کےلئے کہا۔ میں نے زبان نکالی تو انہوں نے اسکو پکڑ کر چوسنا شروع کیا۔ ابتک مجھے سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ اب انہوں نے اپنا ہاتھ نیچے کرکے چوت کی لیکر کو چیک کیا۔ اس سے کچھ رطوبت خارج ہو رہی تھی۔

      انہوں نے میرے ٹانگیں کھول کراور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا لوڑا چوت کے دہانہ پر رکھااور اس کو زور سے اندر گھسایا۔ چوت کا دہانہ اتنا تنگ تھا کہ زور کے اس جھٹکے سے صرف ٹوپہ ہی اندر جاسکا۔ میرے بدن میں درد کی ایک لہر اٹھی، جو ایک چیخ میں تبدیل ہوگئی۔ میں ان کو دھکا دیکر اپنے آپ کو چھڑانے لگی۔ مگر کون سنتا۔ سیکس ان کے سر پر چڑھ کر بول رہا تھا۔

      انہوں نے اپنا ہاتھوں سے دونوں اطراف قنچی کی طرح مجھے جکڑا اور اپنے گھٹنے میری رانوں پر رکھے، تاکہ میری ٹانگیں کوئی حرکت نہ کرسکیں۔ اور لنڈ کو دوبارہ سوراخ پر فٹ کرکے زور دار جھٹکا دیا۔ اس بار میرے ٹشوز اور چوت کو پھاڑتا ہوا وہ اب اندر چلا گیا۔ پر ابھی بھی پورا اندر نہیں تھا۔ کوئی چیز راہ میں آرہی تھی۔ میرے جسم کے اند طلاطم برپا تھا۔ میری چیخوں اور نالوں سے پورا کمرہ اور گھر گونج رہا تھا۔ میرے آنسو تھم ہی نہیں رہے تھے اور بس امی امی پکار رہی تھی۔ اگر معلوم ہوتا کہ شادی اسی کو کہتے ہیں، تو کبھی تیار نہیں ہوتی۔
      افضل اس سب سے مبرا، بس جھٹکے لگا رہے تھے اور فارغ ہوکر میرے اوپر ایک لاش کی طرح گر گئے۔ ان کا لنڈ میرے چوت میں ہی پھنسا تھا۔

      میں تو بس روئے جا رہی تھی اور افضل سے کہہ رہی تھی، کہ وہ مجھے چھوڑ دے ۔مگر وہ بے حس تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کے لنڈ نے میری چوت میں دوبارہ انگڑائی لی اور پھر اندر کی طرف جانے لگا۔ ابھی میں پچھلی تکلیف سے ابھرہی رہی تھی، کہ ان کے جھٹکوں سے دوبارہ چیخنے لگی۔ اسی طرح پانچ چھ بار انہوں نے صبح تک کاروائی کی۔ میں تو بس تکلیف سے دوہری ہو جا رہی تھی۔

      وہ جب باتھ روم چلے گئے، تو دیکھا کہ شیٹ پر ہر طرف خون کے داغ ہیں اور میری چوت سے ابھی بھی خون بہہ رہا ہے۔ خون کو دیکھتے ہی ویسے بھی مجھے وحشت ہوتی تھی۔

      میں سسکیاں لے رہی تھی، کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ جبین اور اس کی ساس باہر تھی۔ انہوں نے میری حالت دیکھی۔ بیڈ شیٹ اور پھر مجھے دیکھا، وہ بہت ہی پریشان ہوگئیں۔ میں نے آئینہ دیکھا تو پورے بدن پر نشان تھے۔

      انہوں نے فورا گاڑی نکلوائی اور مجھے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ انکی ساس کہہ رہی تھی، کہ رات بھر میری چیخوں اور رونے سے وہ بھی سو نہیں پائیں،۔ مگر وہ کیا کرسکتی تھی۔ پہلے لگا کہ شاید فرسٹ ٹائم اندر جا رہا ہے، ابھی کچھ دیرمیں آرام ہو جائیگا۔ مگر صبح تک چلانے کی آوازیں آرہی تھی، جو پاس پڑوس میں بھی سنی گئی تھیں۔

      ڈاکٹر نے میری چوت دیکھ کر کہا کہ یہ پردہ بکارت کچھ زیادہ موٹا تھا، اسلئے ٹائم لگ رہا ہے۔ ابھی بھی اسکی پرتیں باقی ہیں۔ چند روز کی انٹری کے بعد ٹھیک ہو جائیگا۔ ورنہ اسکو ہٹانے کےلئے سرجری کرنی پڑے گی۔

      اشفاق صاحب نے افضل کو سیکس کے بارے میں لیکچر دیکر بتایا تھا کہ بھائی آہستہ آہستہ کرو اور فور پلے کے ذریعے بیوی کو تیار بھی کرو۔ خیر اس رات اشفاق نے تکلیف کےلئے معافی مانگی اور خوب پیار کیا۔ کہا کہ وہ سیکس نہں کریں گے۔ مگر میں نے اصرار کیا کہ وہ کریں۔ اس سے تو یہ پردہ بکارت ہٹ جائیگا۔ ورنہ یہ اسی طرح رہیگا۔

      اس رات بھی بہت تکلیف ہوئی، مگر میں نے ڈوپٹہ منہ میں دبا رکھا تھا۔ تاکہ آواز نیچے نہ پہنچے۔
      خیر دو تین ماہ کے بعد ہی مجھے سیکس میں سرور آنے لگا اور اب مجھے ہر رات ان کا لنڈ چاہئے تھا۔

      خیر ان ہی یادوں کے دوران ہم گوا کے ایر پورٹ پہنچ گئے۔ ہمارے بچوں نے کسی ٹور کمپنی کے زریعے ہمارا ٹرپ بک کیا ہوا تھا۔ ان کا آدمی گاڑی لیکر حاضر تھا اور ہمیں کاٹج پہنچادیا۔ لکڑی کا بنا کاٹج کیا تھا، بس جنت کا نمونہ تھا۔ سامنے لان اور اسے کے آگے ساحل سمندر تھا۔ کاٹج کے گراونڈ فلور پر کامن کچن، ڈرائنگ کم ڈائینگ تھا اور پہلے فلور ہر ایک قطار میں تین بیڈ روم تھے۔ ہم نے بیچ کے بیڈ روم میں اپنا سامان سجایا۔ کمپنی والے آدمی نے کہا ویسے تو کچن وغیرہ میں ہر ایک چیز ہے، مگر کوئی چیز لانی ہو تو فون نمبر سامنے لکھا ہوا ہے۔

      میں نے اور مہ جبین نے کچن کا چارچ سنبھال کر کھانا بنایا۔ کھانا بنانے کے بعد ہم باہر سمند کے کنارے ہوا کھانے چلے گئے۔ چاندنی چٹک رہی تھی اور اس کی روشنی میں دیکھا کہ کئی کپل ریت پر لیٹے ہیں اور چوما چاٹی کر رہے ہیں۔ مہ جبین اور میں اشفاق کے ساتھ چپک کر چل رہے تھے۔ ہواہیں اور سمندر کی لہریں ہمارے جسم کے کپڑے بھگو رہی تھیں۔ ایک جگہ نسبتا اندھیرے میں کوئی کپل سیکس کر رہا تھا۔ عورت ڈوگی اسٹائل میں ہاتھ ریت میں پھنسائے ہوئے اکڑوں بیٹھی تھی اور مرد اس کے پیچھے گھنسے لگا رہا تھا۔

      خیر جلد ہی واپسی کی راہ لیکر اور اس سین سے چارج ہوکر سیدھے بیڈ روم کی راہ لی۔ اپنے کپڑے اتار کر ہم نے دونوں طرف سے اشفاق کو پکڑ کر اس کے کپڑے نکال کر پھینک دئے۔ میں نے ان کا لنڈ پکڑ کر بیٹھ کر اسکو منہ میں لیا اور زبان سے اسکی پذیرائی کرنے لگی۔ جبین انکے چہرے کو نشانہ بناکر کسنگ کر رہی تھی۔ ان کے ہونٹوں کو کھول کر اپنی زبان اندر ڈال رہی تھی۔

      جبین نے مجھے یاد دلایا کہ تمہاری سہاگ رات جو ہمارے بھوپال کے گھر پر ہوئی تھی، تو تم خوب چلائی تھی۔

      ’’ ہاں تو، ‘‘ میں نے کہا، پھر۔۔اشفاق کو اشارہ کرکے اس نے کہا، کہ "آج بھی ذرا کچھ چیخ پکار ہوجائے۔۔ورنہ ہنی مون کا کیا فائدہ؟ ‘

      ’’کیا بات کر رہی ہو، آج تو چوت تیار ہے، اب چیخنے کی کیا ضرورت ہے۔ جھوٹ موٹ کیوں چیخیں نکالیں؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔

      اشفاق صاحب نے کہا کہ پچھلے ماہ شادی سے قبل ان کے گھر پر جب میں نے ان کے چوت کا دروزہ بیس سال بعد کھولا، تو ثریا تھوڑی تو چیخ پڑی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ جیسے بلڈوزر چل رہا ہے۔

      اسی دوران وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشفاق کو کچھ کہہ رہی تھی۔ لگتا تھا کہ انہوں نے کوئی پلان بنایاہوا ہے۔ جیین بیڈ پر لیٹ گئی کہ اس کا سر اس کے ایج پر تھا اور اسکے بال نیچے لہرا رہے تھے۔ اس نے مجھے اپنے اوپر چھ اور نو کی پوزیشن میں آنے کےلئے کہا، تاکہ میرا چہرہ اس کی چوت کے اوپر اور میری چوت ایج پر اس کے چہرہ کے بلکل اوپر ہو۔

      وہ میرا چوت چاٹنے لگی، کلی ٹورس کو زبان سے چارچ کر رہی تھی، میں بھی اسکی دیکھا دیکھی اس کی چوت کو چوٹنے لگی اور زبان اسکے اندر گھسا دی۔ میں پہلی بار اس کی چوت اتنی کھل کر دیکھ رہی تھی۔ اس کے لب پتلے تھے اور کلی ٹورس بھی چھوٹا سا تھا۔ مگر اس پرجونہی زبان کی نوک لگاتی وہ ہا ہا ہا کرتی تھی۔ خاصا حساس تھا۔

      میرے چوت کے اندر زبان اندر باہرکرکے وہ انگلی سے میری گانڈ کو دریافت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کا دہانہ خاصہ تنگ تھا اور اس میں اس کی چھوٹی انگلی تک نہیں جا رہی تھی۔ اب ان کا پلان کچھ کچھ سمجھ آرہا تھا وہ میری گانڈ چدوانا چاہتی تھی۔ میں نے منع کردیا اور اس کو کہا پہلے اپنی گانڈ چدوادے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی گانڈ کا دہانہ بھی کچھ زیادہ کھلا نہیں ہے۔ اس کا مطلب کہ وہ بھی شاید اس طرف زیادہ چدی نہیں ہے۔ بعد میں اس نے بتایا کہ ایک آدھ بار اشفاق نے چدائی کی تھی، مگر تکلیف کی وجہ سے اس نے بعد میں منع کردیا۔

      اسی دوران اشفاق نے کہیں سے بہت سارا تیل لیکر اس کو میری گانڈ کے سوراخ پر مل لیا اور تیل سے لتھڑی چھوٹی انگلی اندر گھسا دی۔ چونکہ جبین زبان سے میری چوت کو سہلا رہی تھی، اس لئے اس انگلی کے اندر جانے کی بس ہلکی سی تکلیف ہوئی۔ پھر انہوں نے بڑی انگلی اندر کی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میرے گوری گوری ، صاف و شفاف سفید چوتڑوں کے بیچ ہلکے سانولے اور پنک کلر کی گانڈ چمک رہی ہے۔ وہ میرے چوٹروں کو چوم رہے تھے، ہاتھ مار رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے باتھ روم میں بیس سال قبل دیکھا تھے، تو بوبس اورچوتڑ ہی ان کو نظر آگئے تھے اور ان کو ہی یاد کرتے رہتے تھے۔

      ان کے تیل ڈالنے اور انگلی اندر کرنے سے گانڈ کا سوراخ نرم ہو گیا تھا۔ ان کی انگلی اب آرام سے اندر اور باہر جا رہی تھیں۔

      چونکہ میرا سر دوسری طرف جبین کی چوت پر تھا، اسلئے پیچھے کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں ، مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔ اشفاق نے لنڈ جبین کے منہ میں دیا، جس نے اس کو لعاب سے ویٹ کیا اور پھر انہوں نے اسکو میرے چوت کے دہانے پر فٹ کرکے اندرکیا۔ مزے سے میرے جسم کا ایک ایک انگ سرور میں آگیا۔ کلی ٹورس پر جیبن کی زبان اور سوراخ میں اشفاق کا موٹا اور لمبا لنڈ اور کیا چاہئے سرور اور شہوت کےلئے۔

      کچھ دھکے لگا کر انہوں نے اس کو باہر نکالا اور گانڈ کے سوراخ کو پھر چیک کیا۔ اور لنڈ کے ٹوپہ پر ویسلین اور اسکے ڈنڈے پر خوب تیل لگایا۔ اسی طرح میرے گانڈ کے سوراخ پر بھی خوب ویسلین لگائی۔ پھر انہوں نے انگلی سے پھسلن چیک کی۔

      اب انہوں نے اپنا ٹوپہ گانڈ کی سوراخ پر فٹ کردیا۔ پہلی بار اس طرف کوئی انٹری ہو رہی تھی۔ ایک جھٹکے سے انہوں نھے اس کو اندر کیا۔ درد کی ایک لہر اٹھی اور میری چیخیں بلند ہو گئیں۔ بلکل جیسے افضل نے میری چیخیں نکلوا دی تھیَ۔ مزا کافور ہو چکا تھا۔ میں ہاتھوں سے ان کو ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر نیچے سے مجھے جبین نے جکڑ کر رکھا تھا اور پھر اشفاق نے بھی چوتڑ کے ارد گرد قنچی کی طرح مجھے جکڑا۔ میرے ہلنے تک کہ جگہ انہوں نے نہیں چھوڑی۔

      جیبن نے میرے چوت کو چاٹنے کی کاروائی جاری رکھی۔ اور ہاتھ سے میرا نمایاں کلائی ٹورس بھی سہلا رہی تھی۔ اسکو منہ میں لیکر چوس بھی رہی تھی۔

      میری چیخوں کہ وجہ سے اشفاق رک گئے تھے۔ مجھے لگا جیسے پاخانہ آرہا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے باتھ روم جانے کی حاجت ہو رہی ہے۔ پر جبین نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ تمہاری گانڈ کی مسلز لنڈ کو باہر کررہی ہیں، اسلئے پاخانہ آناجیسا لگ رہا ہے۔ یہ مسلز ابھی ٹھنڈی ہو جائیں گیں۔ ان کو لگے گا کہ کوئی پرایا نہیں ہے۔ اپنا دوست ہی ہے۔

      تھوڑی دیر بعد مجھے کچھ اچھا لگنے لگا۔ ان کا موٹا ڈنڈا میری چوتڑوں کے پارٹوں کے بیچ میں پھنسا ہوا تھا۔ اب انہوں نے آہستہ آہستہ دھکے لگانا شروع کئے۔ وہ بول رہے تھے کہ ثریا یہ بہت ہی تنگ ہے، میں زیادہ دیر کنڑول نہیں کر پاوں گا۔ ادھر جیبن کی کاروائی کی وجہ سے میرا آرگیزم قریب آرہا تھا۔ اور میری کاروائی کہ وجہ سے وہ بھی اب چھوٹنے والی تھی۔ اسکی چوت کے لب میری زبان کےاردگرد تنگ ہو رہے تھے۔ ہم تینوں کی آوازں نے تو پورا کاٹیج سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ اچھا کہ کوئی اور وہاں نہیں تھا۔ا ور کافی پرائیوٹ قسم کا کاٹئج تھا۔

      پہلے جیبین آوازیں نکال کر چھوٹ گئی، اسی کے ساتھ میری گانڈ میں اشفاق کا مادہ خارج ہوگیا، جو ویسلین اور تیل وغیر کے ساتھ باہر نکل کر جبین کے چہرہ پر گر گیا۔ اشفاق کا لنڈ تھوڑی دیر کے بعد ٹھنڈا ہوکر باہر نکلا اور اسی کے ساتھ میں اور جبین بھی کھڑی ہوگئی۔ جبین نے تولیہ سے اپنے چہرہ کو صاف کیا۔

      اشفاق صاحب تیل اور ویسلین سے لتھڑے ہوئے لنڈ کو دھونے چلے گئے۔۔ میں بھی اپنی گانڈ کو دھونے کےلئے ان ہی کے ساتھ باتھ روم میں چلی گئی ۔۔ دیکھا کہ وہ خوب صابن اور شیمپو لگا رہے تھے۔ باتھ روم سے ہی انہوں نے چائے کی فرمائش کی۔ جبین نیچے کچن میں چائے بنانے چلی گئی۔

      میں جب باتھ ٹب میں گانڈ صاف کررہی تھی، اشفاق سنک کے پاس اپنا عٖضو صاف کررہے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہہ رہے تھے کہ ایسے ہی اور اسی پوز میں، میں نے تمہیں بھوپال میں باتھ روم میں دیکھا تھا۔

      انہوں نے میری گانڈ کا معائنہ کرکے بتایا کہ یہ لال ہوگئی ہے۔ ’’اب جبین کی باری ہے، وہ کہاں تک بھاگے گی۔ وہ بھی گانڈ نہیں لینے دیتی ہے۔ ’’

      میں نے کہا کہ ’’آپ کا عضو ہی اتنا بڑا ہے، مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ یہ واقعی اندر گیا تھا۔ ’’

      جبین چائے لیکر آگئی تھی اور بس باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ بچوں کو سمجھا دیا جائے کہ پوتے پوتی لانے میں ذرا جلدی کریں۔ وہ بولے یہ تم عورتوں کا کام ہے کہ بیٹیوں کو سمجھا دو۔ مرد کا کام تو بس بیچ انڈیلنا ہے۔

      اشفاق تو صوفے پر بیٹھے تھے۔ میں نیچے قالین پر ان کی ٹانگوں کے درمیان چپک کر بیٹی تھی۔ اور چائے کی چسکی کے ساتھ ان کا لنڈ بھی ٹیسٹ کر رہی تھی۔ جبین صوفے پر ہی ان کے ساتھ چپک کر چائے کی چسکیوں کے بیچ ان کے بوسے بھی لے رہی تھی۔

      میری زبان سے ان کا لنڈ کھْرا ہو گیاتھا۔ جبین بھی نیچے قالین پر آکر بیٹھ گئی تھی اور ہاتھوں سے ان کے ٹٹے پکڑ کو سہلا رہی تھی۔ وہ ایک طرف لنڈ پر اوپر سے نیچے اپنی زبان چلا رہی تھی، میں دوسری طرف یہی کاروائی کر رہی تھی۔ ٹوپہ کے پاس پہنچ کر ہماری زبانیں ٹکرا جاتی تھیں۔ اور اس کے سوراخ سے مذی لیکر ہم ایک دوسرے کو ٹیسٹ کروارہے تھے۔

      میں نے اشفاق کے لنڈ کی کمزور رگ تو پکڑی تھی۔ دو تین بار زبان کی نوک ٹوپہ کے نیچے کی نرو کو سہلا کر وہ سرور میں آگئے اور اسی کے ساتھ کھڑے ہوکر انہوں نے گالیوں کا ایک طوفان برپا کرکے ہم دونوں کو زبانیں باہر نکالنے کےلئے کہا اور ہووو ہااااا واااااا ااووو اوسدد سسسہ ہہیی فاک فک فک کرکے منی ہماری زبانوں پر گرادی۔ کچھ چھنٹیں ہمارے چہرے پر بھی پڑیں۔ وہ یہ کرکے صوفہ پر ہی گر کر جیسے بے ہوش سے ہوگئے۔ ہم نے زبان سے ایک دوسرے کو چاٹا اور منی صاف کی۔

      اشفاق بہت تھک گئے تھے اور چند لمحے کے بعد ہوش میں آنے کے بعد بیڈ روم میں سونے چلے گئے۔ شادی کے بعد سے ہی ابھی تک جب بھی جبین میرے ساتھ لزبن سیکس کرنے کی کوشش کرتی تھی، مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس اس کی خاطر اس کو بس بوس و کنار اور بوبس کو ٹچ کرنے دیتی تھی، مگر اس سے آگے بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ مگر آج تو بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔

      اس نے صحیح ہی کہا تھا کہ میں شادی صرف اشفاق کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ بھی کر رہی ہوں۔ میں صوفہ پر بیٹھی تھی وہ میری ٹانگوں کے درمیان میں آکر بیٹھ گئی اور اسنے اپنی زبان میری کھلی ہوئی چوت پر رکھدی۔ وہ میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیر کر بتا رہی تھی، کہ یہ کتنی گوری ہیں۔۔میر چوت بھی ہلکی سفیدی مائل پنک تھی، جبکہ اس کی چوت سیاہی مائل پنک تھی۔ مجھے صوفہ پر لٹا کر میرے اوپر جیسے مرد کی طرح سوار ہوکر وہ دھکے لگانے لگی۔ میں نے کہا کہ تمہارا کلی ٹورس بھی اتنا چھوٹا ہے، کیا چیز اند ڈالو گی۔ پھر اس نے کہا کہ تم اوپر آکر اپنا کلی ٹورس میری چوت کے دہانہ پر رکھ کر جھٹکے لگاو۔

      ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ میں نے کہا۔

      میں اسکے اوپر آگئی اور اس کے چوت کے سوراخ میں اپنا کلی ٹورس داخل کرنے لگی۔ وہ داخل کیا ہوتا، بس اسکو رگڑ ریا تھا۔ اس سے ہم دونوں سرور میں آگئے۔ اوپر سے ہم ایک دوسرے کو وحشیوں کی طرح بھنبھوڑ رہے تھے۔ میں اسکی بوبس کو مسل رہی تھی، وہ میری بوبس کو مسل رہی تھی۔ ہماری زبانیں ٹکرا رہی تھیں۔ وہ میری زبان چوس کر میرے منہ کی کھوج پر نکلی تھی، میں اس کے منہ کے ایک ایک سینٹی میٹر کو زبان سے دریافت کر رہی تھی۔ اس کے ایک ایک دانت پر میں نے زبان کی نوک لگاکر ان کو گنا۔ ایک دوسرے کے ونٹوں کو چوس چوس کر ہم نے لال کر دیا۔ اس دوران افریقی وحشیوں کی طرح ہو ہائے ہو ہائے ہو یاؤیے کی آوازیں نکال کر ہم دونوں ڈھیر ہوگئیں۔ کس کو ہوش تھا کہ بیڈ روم میں جایا جائے۔ بس وہیں ایک دوسرے کے اوپر ہی سو گئے۔ صبح جب اشفاق فجر کی نماز ادا کرنے اٹھے، تو انہوں نے ہم دونوں کے اوپر شیٹ ڈال دیا۔

      صبح ناشتہ کرتے ہویے اشفاق صاحب کہہ رہے تھے ، کہ تم لوگوں نے کل کارکرم جاری رکھا تھا۔ جبین نےبتایا کہ آپ نے تو ہمیں لٹکا کر رکھا ہوا تھا۔ وہ بولے بیگم میں تو اب بوڑھا ہو چکا ہوں۔ تسلیم کرو۔ اب میں رات رات بھر چدائی نہیں کرسکتا ہوں، جیسا کرتا تھا۔ وہ بولی، بوڑھے اپ کے دشمن، جب سے آپ حیدر آباد سےلوٹے کتنے کھلے کھلے لگ رہے ہیں۔ آپ کا وہ کھلتا ہوا چہرہ دیکھ کر ہی سمجھ گئی تھی، کہ یہ بس مقدمہ ختم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے اور اپ نے ثریا کو پٹا کر پیل دیا ہے۔ اب جب شادی کی ہے، تو دیکھو چہرہ کتنا نورانی ہوگیا ہے۔

      بعد میں گاڑی منگوا کر ہم گوا کی سیر کرنے چلے گئے۔ اشفاق اور جبین اس شہر میں پہلے بھی آئے تھے، میں پہلی بار آئی تھی۔ کئی بیچوں پر ہم نے فارن ٹورسٹوں کو بلکل برہنہ دیکھا۔ بازاروں کی سیر کی، دن کا کھانا ایک عالیشان ریسٹورنٹ میں کھایا اور شام کا پانی میں تیرتے ایک بجرے میں کھاکر واپس کاٹج میں لوٹے۔

      اب پھر وہی بیڈ روم تھا۔ کپڑوں کی قید سے آزاد ہوکر اب میں بیڈ کے ایج پر لیٹ گئی اور جبین میرے اوپر چھ اور نو کی پوزیشن میں لیٹ گئی، تاکہ اس کا چہرہ میرے چوت کا احاطہ کرے اور میرا چہرہ اس کی چوت کے نیچے آجائے۔ ہم نے ایک دوسرے کی چوت اور کلی ٹورس کو چاٹنا شروع کیا۔ اشفاق ابھی باتھ روم میں تھے۔

      جب وہ نکلے ان کا لوڑا پورا تیار تھا۔ میں جبین کی چوت چاٹ رہی تھی اور ہاتھوں سے اشفاق کا لنڈ اور ٹٹے سہلا رہی تھی۔ چند لمحے بعد اشفاق نے لنڈ میرے منہ میں دیا۔ میں نے اسکو خوب چوسا اور میرے لعاب سے اسکو گیلا کیا۔ گیلا ہوتے ہی انہوں نے مجھے اسکو جبین کی چوت پر اوپر نیچے پھیرنے کےلئے کہا۔ اس کا کلی ٹورس تو نہایت ہی حساس تھا۔ وہ اس کی رگڑ کر بھی انتہا تک پہنچ سکتی ہے۔

      اوپر نیچے کرکے میں نے اسکو جبین کی چوت نے دہانے پر فٹ کیا اور اشفاق کو دھکے لگانے کےلئے کہا۔ انہوں نے چند دھکے لگائے۔ کیا نظارہ تھا، نیچے سے لنڈ چوت کے اندر باہر ہوتے ہوئے دیکھنا، جیسے کوئی فلم چل رہی ہو۔ وہ دھکے لگا رہے تھے، میں تو کبھی ان کے ٹٹے منہ میں لیتی تھی، تو کبھی جیبن کا کلائی ٹورس۔

      خیر میں نے ان کو یاد دلایا کہ یہ چیخوں کا ہنی مون ہے۔ انہوں نے لنڈ باہر نکالا۔ میں اس دوران کئی بار انگلی جبین کی گانڈ میں ڈال چکی تھی۔ وہ کچھ کچھ کھلی تھی۔ میر ی طرح بلکل ہی تنگ نہیں تھی۔ اشفاق نے بس ویسلین اس کے دھانہ پر لگائی اور کچھ ٹوپہ پر لگائی اور ایک جھٹکے سے لنڈ اندر کر دیا۔ میں لنڈ کو جبین کی گانڈ میں غائب ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

      اس نے خوب چیخ پکار کی۔۔میں نے اسکی کمر کو جکڑ کر رکھا، دوسری طرف اشفاق نے بھی اس کے چوتڑوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر رکھا ہواتھا۔ تھوڑ ی دیر کے بعد چیخ و پکار بند ہوگئی اور وہ انجوائے کرنے لگی، کیونکہ میں نیچے سے اسکے چوت کو چاٹ رہی تھی، اس میں میری زبان اند باہر ہو رہی تھی۔

      وہ بھی نیچے سے دوبارہ میری چوت کی پذیرائی کرنے میں مصروف ہوگئی۔ مسلسل کلی ٹورس چاٹنے سے جبین ہو ہو ہاہاہاہاہوہوہو او او او و کرکے فارغ ہوگئی اور اس کے چاٹنے اور زبان سے میں بھی فارغ ہوگئی۔ اسی کے ساتھ اشفاق نے بھی جبین کی گانڈ کی اندرونی تہوں میں منی بہادی۔ وہ دونوں باتھ روم ویسلین سے لتھڑی لنڈ اور گانڈ صاف کرنے چلے گئے اور میں نیچے سب کےلئے چائے بنانے چلی گئی۔

      چائے آج سب نے خاموشی سے پی۔ اشفاق تھکے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا کہ وہ آب سونے چلے جائیں گے۔ میں نے ان کا لنڈ منہ میں لیکر کھڑا تو کر دیا تھا۔ مگر دن بھی گھومنے سے بھی وہ تھک گئے تھے، اسلئے ان کو چھوڑ دیا۔ وہ بیڈ روم میں چلے گئے۔

      کل ہی کی طرح جبین صوفے پر لیٹ گئی اور مجھے اپنے اوپر سوار ہونے کےلئے کہا۔ ہم ایک دوسرے کو کسنگ اوراپنی بوبس کو ایک دوسرے کی بوبس کے ساتھ ٹکراتے اور مسلتے ہوئے اور نپلز کو نپلز کے ساتھ ملاتے ہوئے ہوئے آپس میں باتیں کرنے لگے۔ میں نے پوچھا کہ تم نے تو میری سہاگ رات کا لائیو سیشن دیکھا ہے، پر اپنی سہاگ رات کے بارے میں بھی تو کچھ سنا۔ تمہاری شادی تو مجھ سے چار ماہ پہلے ہو گئی تھی۔
      ’’ہاں،’’ وہ بولی ۔’’تمہاری طرح مجھے چیخیں نہیں نکالنی پڑی۔میری چوت کا افتتاح شادی سے قبل ہی ہو چکا تھا۔۔‘‘ کیسے ہوا تھا، میں نے پوچھا۔ جب میں بارہویں میں تھی، تو شادی کے ایک موقعہ پر ایک کزن نے گھر کی چھت پر بنے باتھ میں چوداتھا، بہت تکلیف ہوئی اس دن۔ وعدہ کیا تھا اب کبھی کسی لڑکے کے جھانسے میں نہیں آوں گی۔ پھر کئی سال بعد کالج میں ایک لڑکے کے ساتھ آنکھ لڑی گئی اور پھراس نے چودا۔ اس نے کہا کہ اس چدائی کا اشفاق کو پتہ ہے۔۔

      انہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا؟ میں نے پوچھا۔

      "میں اشفاق کو کالج سے ہی جانتی ہوں ۔ وہ ہمارے سینیر تھے وہاں۔ شادی سے قبل انہوں نے بھی کالج میں خوب چدائیاں کی ہیں۔ " شادی ہماری تو ارینجڈ ہی تھی۔ پر ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دور کے رشتہ دار بھی تھے۔ انہوں نے مجھ پر ڈورے ڈالنے کی بڑی کوشش کی، پر میں ان کے جھانسے میں نہیں آئی۔ تمہں تو پتہ ہے کہ میرا فیگر کیسا تھا، مجھے تو مینا کماری سے تشبہہ دی جاتی تھی، جیسے تمیں مدھو بالا کے ساتھ۔

      سہاگ رات کو تو اشفاق نے تو آٹھ نو با رچودا تھا۔ پانچ بار تو میرا آرگیزم آگیا تھا۔ پھر ہمت ہار گئی۔ ویسے رات رات بھر ان کالنڈ کھڑا ہی رہتا تھا۔ بس چند سکنڈ یا منٹ سکڑتا تھا پھر اکڑتا تھا۔ اور پھر تم نے ان کا پاورفل آرگیزم تو دیکھا ہی ہے، وہ منی نکلتے وقت کتنا چلاتے ہیں۔ ان دنوں تو رات رات بھر چلاتے تھے۔ میری ساس نے کئی بار کہا کہ ان کے منہ پر ہاتھ رکھا کرو، باہر گلی میں اور پڑوسیوں کے ہاں تک آوازیں پہنچتی ہیں۔ پھر میں نے بیڈ روم میں بھاری پردے لگوائے اس کو خوب انسولیٹ کیا۔

      یہی باتیں کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کو گلے لگاکر سو گئے۔۔ اس بار چادر اوپر لینا نہیں بھولے۔

      اگلے دن پھر شہر کی سیر کی اور اس کے مضافات میں دیگر بیچز دیکھنے چلے گئے۔ اسی طرح کئی اور روز گذر گئے اور اب بچوں کو آنا تھا۔ اسلئے کچن کی چیزیں منگوا کر ان کی چوایس کے کھانے بنانے لگے۔ ان کو اگلے روز گوا پہنچنا تھا۔ اسی کمپنی کی گاڑی ان کو لیکر کاٹج آگئی۔ مجھے فکرتھی کہ کاٹج کی دیواریں لکڑی سے بنی تھی۔ اور دوسری طرف کی باتیں وغیرہ بلکل سنائی دیتی تھیں۔ میں نے جبین سے بھی کہا کہ اب سیکس چپ چاپ کرنا پڑے گا۔ کسی ٹیپ یا روئی سے منہ بند رکھنا پڑے گا۔

      اگلی قسط کا انتظار کیجے،۔ تب تک کمنٹس میں کنجوسی نہ کریں۔أ
      image.png

      Comment


      • #63

        اف ایک نئ کہانی اور نیا ٹوپک الگ انداز اور سیکس سے بھری ہوئی​

        Comment


        • #64
          لا جواب تھری سم کے مزے کیا بات ہے چھا گئے ہو استاد

          Comment


          • #65
            Acchi Story Hai

            Comment


            • #66
              انتہائی زبردست اور گرم سٹوری ہے پڑھنے کا الگ ہی مزہ ہے

              Comment


              • #67
                Aala janab, zabardast.
                budhapay nain ungkian ghee main sar kadahi main

                Comment


                • #68
                  Zabardast Kahani ha threesome seen boht ahla ha

                  Comment


                  • #69
                    بلاک بسٹر کہانی

                    Comment


                    • #70
                      اشفاق صاحب کی تو موجیں لگیں ہیں جانب۔۔آگے پیچھے۔۔۔جہاں چاہو لن ڈالو۔۔۔۔صواد آ گیا سر

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 2 guests)

                      Working...
                      X