Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

میرے سمدھی اور مینوپاز کے بعد سیکس

Collapse
This topic has been answered.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    پہلے پارٹ 2 کا بیتابی سے انتظار تھا
    اب تو پارٹ 3 کا شدت بیتابی سے انتظار ہے

    Comment


    • #42
      یوں ہی لکھتے رہیں اور ہمیں لطف دیتے رہیں

      Comment


      • #43
        انتہائی شاندار اور کمال کی سٹوری

        Comment


        • #44
          Originally posted by Desi Munda View Post
          کہانی تو بہت اچھی ہے لیکن ٹائٹل میں آپ نے ' مینو پاز ' لکھا ہے یہ مینو پاز کیا بلا ہے سر؟
          https://en.wikipedia.org/wiki/Menopause.....Here is Menopause

          Comment


          • #45
            بوڑھاپے میں جوانی کے مزے

            Comment


            • #46

              .بہت مزہ آیا
              dataurl596226.png

              Comment


              • #47
                پارٹ تین

                اس دن وہ مجھے خوب گھماتے رہے اور شاپنگ کروائی۔ ہم نے ڈنر بھی باہر ہی ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں کیا۔ رات گئے واپس آکر ہم نے پھر بھر پور سیکس کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ دوبار سے زیادہ فکنگ نہیں کرپاتے تھے۔ دوبار نکلنے کے بعد ان کو تھکاوٹ ہوتی تھی۔ میں بس چاہتی تھی کہ وہ میرے اندر ہی ٹھکانہ بناکر بس مسلسل دھکے لگاتے رہیں۔

                چونکہ انکو اگلے دن واپس جانا تھا۔ اسلئے اس رات ہم نے خوب باتیں کیں۔۔آج انہوں ن مجھے بیڈ کے ایج پر گھوڑی بننے کےلئے کہا اور پھر پہلے زبان سے چوت کی دیواروں کا مساج کیا اور پھر اپنا لنڈ اس میں گھسایا۔ اب چوت کا دہانہ اور ٹنل بڑی حد تک کھل چکی تھی اور ٹشوز آرام سے اس کو راستہ دے رہے تھے۔

                وہ پیچھے سے دھکےلگا رہے تھے اور میں ہاتھوں سے بیڈ شیٹ کو مسل رہی تھی۔ ان کے دھکوں سے جو سرور آرہا تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ ان کے دھکوں کی شدت سے میں چند لمحوں میں ہی فلیٹ ہوکر آآآآآآآآآآاواواواواوہوہوہو کرکے اشفاق، اشفاق، اشفاق دھکے دھکے دو دھکے دو، میری فکنگ کرو۔۔مجھے چودو چودو چودو زور زور سے کرکے ڈھیر ہوگئی۔ میں بعد میں خود حیران ہوگئی کہ میں کس قدر بے شرم ہو چکی تھی۔

                وہ شاید اب خود بھی نکلنے والے تھے۔ ان کے منہ سے بھی آوازیں نکل رہی تھیں۔ انہوں نے لنڈ باہر نکالا اور مجھے سیدھا کرکے اس کو میرے منہ پر فٹ کیا اور میرے منہ میں گھسا دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ بس زبان باہر نکالو وہ منی زبان پر نکال کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کتیا کی طرح پوری زبان باہر نکالی اور ان کے ویٹ لنڈ کو ہاتھ سے ماسٹر بیٹ کرنی لگی۔

                مگر چند لمحے بعد انہوں نےمیرا ہاتھ جھٹک کر اپنے ہاتھ سے ماسٹر بیٹ کرنا شروع کیا اور بس چند سکنڈوں کے بعد ہی ان کا مادہ میری زبان پر گر رہا تھا۔ زبان کے علاوہ اس کے پھوارے میرے چہرے، ناک ، گلے اور بوبس کو بھی سیراب کر رہے تھے۔ میں نے ٹشو اٹھا کر زبان سے منی کو پونچھنے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے ٹشو میرے ہاتھ سے چھین کر پھینک دیا اور اپنی زبان سے میری زبان لڑا کر اپنی منی کا ٹیسٹ کیا۔ میری زبان، گلے، بوبس اور چہرہ پر جہاں بھی ان کے مادہ کے قطرے موجود تھے، انہوں نے اس کو چاٹ کر خشک کرد یا۔ وہ بولے ’’کل تم نے اس کا ٹیسٹ لیا تھا۔۔آج میری باری تھی۔‘‘ ان کا لنڈ مرجھایا ہوا تھا،۔ پر میں نے اس کو منہ میں لیکر جان ڈالنے کی کوشش کی۔ مگر وہ شاید کچھ زیادہ ہی تھک چکا تھا۔

                وہ بیڈ پر پیٹھ کے بل لیٹ گئے اور مجھے اپنے اوپر آنے کےلئے کہا۔ میں نے ان کے اوپر لیٹ گئی۔ میرا چہرہ ان کے چہرہ کے سامنے تھا۔ وہ بیچ بیچ میں کسنگ کررہے تھے، اپنی زبان میرے منہ میں گھسا رہے تھے۔ میں بھی اپنی زبان سے بیچ نیچ میں ان کے ہونٹوں کا جیسے پینٹ کر رہی تھی۔ او رانہیں اٹھکلیوں کے دوران باتیں کرتے ہوئے میں نے ان کی گردن میں سر دے کر سو گئی۔

                صبح جب میں جاگ گئی تومیں ان کے اوپر ہی تھی۔ ان کا لنڈ کھڑا تھا اور میرے ٹانگوں کے بیچ لہرا رہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کئے ہوئے سو رہے تھے۔ میں نے لنڈ کر پکڑ کر اپنے سوراخ کی راہ دکھاٗی اور ان کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اچھل کود کرنے لگی جس وہ جاگ گئے۔ ثریا بیگم تم خود ہی محنت کر رہی ہو۔ انہوں نے میرے بوبس ہاتھوں میں پکڑ کر مسل دئے۔ نپلز کو ہاتھوں میں لیکر کھنچا، جیسے دودھ دھو رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس گائے کا دودھ خشک ہو چکا ہے۔ آپ نے وقت پر اس کا دودھ پینے کےلئے قدم ہی نہیں بڑھایا۔

                میں نے اچھل کود تیز کی اور میرے چوت کی دیواریں تنگ ہوکر ان کے لنڈ کو چوسنے لگی۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اپنا مادہ اگل دیا اور میں بھی آوازیں نکالتے ہوئے ان کے اوپر ڈھیر ہوگئی۔ وہ میرے بالوں کو سہلا کر ہاتھوں سے ان میں کنگھی کر رہے تھے۔

                میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو آج جا رہے ہیں،میں کیا کروں گی؟۔۔آپ نے تو میرے جسم میں سیکس کا گیٹ کھول دیا ہے اب کون اسکی پذیرائی کرے گا۔ وہ بولے بس میں جلد ہی واپس آرہا ہوں، اور پورا گھر لیکر ہی آونگا۔ مگر میں نے پوچھا کہ اب مہ جیبن کی موجودگی میں کیسے ممکن ہوگا؟ جنید اور ماریہ بھی تو آتے ہونگے۔ خیر میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں دوبارہ سیکس کو سلاوں گی۔ اس عمر میں اب بچوں کی نظروں میں گر کر بدنامی مول نہیں لے پاوں گی۔

                ناشتہ کرنے بعد وہ چلے گئے۔ جانے سے قبل مجھے خوب پیار کیا۔ دروازہ کے پاس اپنی پینٹ کی زپ کھول کر لنڈ کو دوبارہ چوسوایا۔ اور پھر میری زبان کو چوس کر وہ روانہ ہوگئے۔ باہر گلی میں ٹیکسی آچکی تھی۔ ان کے جانے کے بعد پتہ نہیں کیوں میں رو پڑی اور دن بھر روتی رہی۔

                ان کی رہ رہ کر یاد آرہی تھی۔ بیڈ ہر شیٹ کی سلوٹیں، تکیہ کو میں سونگھ کر ان کی میں رچی ان کی بو کو سانسوں میں لے رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ یاد آرہا تھا۔۔کس کو کھانے کا ہوش تھا، بس شام کو ان کا فون آیا اور میری خبر و خیریت دریافت کی اور پھر فون مہ جیبن کو بات کرنے کےلئے دیا۔ میں پچھتا رہی تھی کہ میں ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔

                جنید نے جرمنی سے فون کرکے بتایا کہ اس کا آفس کا کام ختم ہو گیا ہے اور وہ اگلے دس دن کی چھٹی لیکر اب عارفہ کے ساتھ سوئزر لینڈ ہنی مون منانے جا رہے ہیں اور پھر انڈیا آجائیگے۔ میں نے بہوسے بھی بات کی۔ پر دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔

                خیر کسی طرح ایک ہفتہ گذر گیا اور شاید نویں دن کی دوپہر دروازہ پر بیل ہوئی، تو اشفاق صاحب پوری فیملی کے ساتھ موجود تھے۔ ان کی آنکھوں میں شرارت جھلک رہی تھی۔ مہ جبین کے علاوہ میری بیٹی ماریہ ، داماد یعنی ان کا بیٹا بھی دوروزہ پر موجود تھے۔ میں نے ان کو گلے لگایا اور بتایا کہ کسی اطلاع کے بغیر آنے کی کیا تک ہے۔

                مہ جبین نے اشفاق صاًحب اور ماریہ کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ ان کی شرارت تھی کہ تمیں سرپرائز دیا جائے۔ حیرت کی بات تھی کہ ان کے پاس کوئی سامان ہی نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنی گاڑی میں بھوپال سے حیدر آباد آئے ہیں اور سامان اسی فلیٹ میں رکھ آئے ہیں، جو اشفاق صاحب مجھے دکھا کر گئے تھے۔

                میں حیران ہوگئی کہ اتنی جلدی اس کو فرنش بھی کیا اور رہنے کے لائق بھی بنایا۔ انہوں نئے کہا کہ اب آج ہی سب وہاں یعنی تم سمیت شفٹ ہو رہے ہیں۔ اب عارفہ اور جنید کو بھی تو سرپرائز دینا ہے۔ ماریہ نے کہا کہ بھائی تو کل رات کو آرہے ہیں ان کو ایر پورٹ سے ہم سیدھے وہیں لے جائیں گے۔

                مجھے بتایا گیا کہ صرف اپنا ذاتی سامان اٹھاوں۔۔باقی اشفاق صاحب کی کمپنی کے لوگوں نے وہاں سب کچھ سیٹ کیا ہوا ہے۔ مجھے یقین تو نہیں آرہا تھا۔ یہ مکان تو اپنے پاس ہی ہے، بعد میں بھی چیزیں لیتے رہیں گے، فی الحال تو وہاں چلتے ہیں۔

                پوری جماعت اب اس ایر پورٹ کے پاس کے پوش علاقہ کے طرف روانہ ہوگئی۔ واقعی چاروں فلیٹ بلکل تیار تھے۔ کچن میں ہر ایک سامان موجود تھا۔ کارپیٹ، صوفے، پردے سب کچھ لگا ہوا تھا۔ بیچ کا فلیٹ جو ایک بیڈ روم کا تھا، اور جس کا لیونگ روم ایک ہال کی طرح تھا، سبھی وہیں بیٹھ گئے۔ سبھی فلیٹوں کے کچن ، باتھ روم، بیڈروم غرض سب کچھ فٹ تھا۔

                اشفاق صاحب نے بتایا کہ وہ اور شکیل یہی تو پچھلے نو دن سے کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ اپنے بیٹے اور داماد کو تو آپ نے دو فلیٹ دے دئے، مجھے کس خوشی اور حثیت میں دے رہے ہیں۔ اور میں پرانا مکان بیچ کر بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکوں گی۔ اور اسکو بیچنے کی میری ہمت نہیں ہے۔ وہ افضل اور ہماری محرومیوں اور جدوجہد کی نشانی ہے میں اسکو بیچ نہیں پاوں گی۔

                مہ جبین مجھے بیڈ روم میں لے کر گئی اورکس کے گلے لگایا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس میں تھوڑا لزبین رنگ ڈھنگ ہے۔ کیونکہ بھوپال میں جوانی میں جب وہ اوپر ہمارے فلیٹ پر آتی تھی، تو مجھے گلے لگانا، کسنگ کرنا اس کا معمول تھا۔ پہلے میں بہت پریشان ہوتی تھی، مگر پھر اس کو ایک معمول سمجھ کر اسکو اسکی حرکتیں کرنے دیتی تھی۔

                اس نے مجھ بیڈ پر گرا کر اور دروازہ بند کرکے میرے اوپر بوسوں کی بوچھار کر دی۔ میرے سوٹ کے اندر سے ہاتھ اوپر کرکے میرےبوبس دبائے اور زبان سے میرے ہونٹ کھول کر اس میں زبان گھسا دی۔ میری آنکھوں پر بوسہ دیکر وہ بولی، اشفاق صاحب دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خبر جیسے بم تھی۔۔میں نے شاک میں پوچھا۔۔کس سے کس سے؟ وہ مسکرا کر بولی کی تم سے اور کس سے۔۔۔۔

                یہ تو ایک نیوکلر بم تھا۔۔میں نے کہا کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ ہمارے بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ یہ کوئی عمر ہے، شادی کی۔ میں نے پوری جوانی نکالی اور اب بوڑھی گھوڑی لال لگام۔۔۔

                وہ ہنس کر بولی۔۔بچے تیار ہیں۔ وہ بڑے ایکساٹڈ ہیں۔۔کیا بات ہے۔ میرے بغیر سبھی کو پتہ ہے، میری شادی کا۔۔ہاں تیماری بیٹی اور بیٹے سے بھی بات ہوچکی ہے۔ جنید اور عارفہ کل آرہے ہیں۔ ان کو سب پتہ پے۔۔

                پھر اس نے آنکھ مار کر کہا کہ ثریا۔۔۔ پھر سب کچھ لیگلی یعنی قانون طور کھلے عام کریں گے، جو اب تک ۔۔۔۔اس نے جملہ ادھورا چھوڑا۔۔یہ ایک اور بڑا بم تھا۔۔میں نے پوچھا کہ کیا مطلب۔۔۔

                وہ بولی کہ اشفاق صاحب جب واپس آئے تو بہت خوش تھے۔ مقدمہ کی خوشی تو تھی ہی، کچھ اور خوشی بھی تھی۔۔۔اس کے جملوں سے پتہ چلا کہ اس کو ہمارے سیکس کے بارے میں سب معلوم ہے۔

                پر میں نے تجسس کے مارے پوچھا کہ اور کس چیز کی خوشی تھی۔ اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر بتایا کہ مجھے پتہ تھا کہ جب اشفاق صاحب تم کو اکیلے میں دیکھیں گے، تو قابو نہیں رکھ پائیں گے۔ کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی۔۔ میں نے ہی تو آگ اور تیل کو ایک ساتھ رکھنے کا انتظام کیا تھا۔

                وہ تو جب بھی میرے ساتھ پچھلے پچیس سالوں سے سیکس کرتے ہیں، تو تمہارا نام لیکر مجھے چودتے ہیں۔ وہ تمہارے جسم کے عاشق ہیں۔ وہ تو انہوں نے تمیں محسوس ہونے نہیں دیا۔ اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بچے اب اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔ اب ان کو تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اب ہم مل کر اشفاق صاحب کے جسم کو لوٹ کر اس کا مزا اٹھائیں گے۔

                خیر کسی حد تک تومیں قائل ہوگئی۔ مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ گھر میں باقی سبھی لوگ شاید باہر گئے ہوئے تھے۔ باتھ روم میں جاکر میں نے ہاتھ منہ دھویا۔ کھانا باہر سے ہی منگوایا گیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ماریہ نے ہی بات اٹھا کر مجھے کہا کہ امی اب تم اپنا خیال رکھو۔ تم نے پوری زندگی ہمارے پیچھے گنوادی۔ اب ہمارے لئے تم یہ رشتہ قبول کرو۔۔خیر میں نے کہا کہ سوچنے کےلئے کچھ وقت دو اور جنید کو واپس آنے دو۔

                سبھی اپنے فلیٹ میں اپنے اپنے بیڈ رومز میں چلے گئے اور میں اکیلے اپنے بیڈ روم میں اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی۔ ایک مڈل کلاس کی لڑکی، جس کے ماں باپ شادی کے فورا بعد چل بسے اور اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑ کر گئے تھے۔ افضل نے بہت خوشیاں دیں۔ مگر زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دیا۔

                اگلے روز ماریہ اور شکیل، جنید اور عارفہ کو لینے ایرپورٹ چلے گئے اور ان کو اپنے فلیٹ میں لے کر آگئے۔ جنید نے ریسٹ کرکے مجھے اکیلے لے جاکر چھوٹتے ہی کہا کہ ’’امی مجھے اشفاق صاحب کی آفر کا پتہ ہے، اور بات ہو چکی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ تم نے ہمیں پال پوس اور بڑا کرنے کےلئے کتنی تکلیفیں اٹھائیں۔ جب تم سلائی کا کام کرتی تھیں، تو پڑوسی جو تم سے کام کرواتے تھے، پیسہ دینے میں کتنی آناکانی کرتے تھے۔ اور ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ تم نے تو ہمیں کبھی کوئی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ نہ ہمیں پتہ چلا کہ ہم یتیم ہیں۔ اشفاق انکل اور مہ جبین چاچی نے کتنی مدد کی۔ اگر وہ نہ ہوتے تو کیا ہوسکتا تھا۔ اب اگر وہ شرعی رشتے میں بندھنا چاہتے ہیں، تو اس میں کیا قباحت ہے؟‘‘

                جنید کے اس لمبے لیکچر نے مجھے اقرار کروانے پر مجبور کرادیا۔

                ہاہو کا نعرہ بلند کرکے باہر جاکر اس نے سب کو بتایا اور ساتھ ہی میں مٹھائی کے ڈبوں کے ڈھکن کھل گئے اور سبھی ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرکے مجھے ایک ایک کرکے گلے لگانے لگے۔ اگلے ہی دن مہ جبین مجھے ایک عالیشان بیوٹی پارلر میں لے کر گئی اور پورے بدن کو صاف و شفاف کرادیا۔ چوت کی ویکسنگ کی، کئی لوشنز لگا کر پورا برائیڈل میک اپ کروادیا۔

                واپسی پر چند مخصوص دوستوں اور بچوں کی معیت میں ایک مولوی صاحب نے ہمارا نکاح پڑھایا۔ جنید اور شکیل نے بطور گواہ دستخط کئے۔ شام کو پرتکلف کھانا رکھا گیا تھا۔ فلیٹ اشفاق صاحب نے بطور مہر میرے نام کر دیا تھا۔

                رات کو ہنگامے جب تھم گئے اور بچے اپنے فلیٹوں میں چلے گئے۔ مہ جبین نے میرا ہاتھ پکڑ کر بیڈ روم کی راہ دکھائی۔ میری بیٹی اور بہو نے بیڈ روم کو بھی خوب آراستہ کردیا تھا۔ دوسری بارمیں سہاگ رات منا رہی تھی۔ وہ اپنے فلیٹ کی طرف جانے لگی، تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ تم بھی یہیں رہو۔

                اشفاق صاحب نے جھانک کر دیکھا کہ ہم دونوں اس روم میں ہیں۔ وہ شاید مہ جبین کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے ان کو کمرے میں بلایا۔ مہ جبیں نے انکو بتایا کہ ثریا کو اکیلے ڈر لگتا ہے اور مجھے رکنے کےلئے کہہ رہی ہے۔

                مسکرا کر وہ اندر آئے۔ دوبارہ حیدر آباد آنے کے بعد پہلی بار مجھے ان سےبات کرنے کا موقعہ مل رہا تھا۔ میں نے مہ جبین کی موجودگی میں کہا کہ آپ نے بھوپال جاکر پورا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا۔

                مہ جبین بولی کہ اگر یہ مجھ سے کچھ چھپانا بھی چاہتے ہیں، تو مجھے خود بہ خود معلوم ہوجاتا ہے۔ میں نے ہی ان کو قائل کروایا تھا کہ تمہارے پاس ہی جاکر رہیں۔ ورنہ یہ تو ہوٹل میں یاکسی دوست کے گھر جانے پر بضد تھے۔ میں نے ہی تم دونوں کو اکھٹے کرکے چارج کروایا۔ اب یہ تمہارا چوت ہی اتنا خوش نصیب ثابت ہوگیا کہ اگلے ہی دن ان کو کئی کروڑ روپے کا فائدہ ہوا اور مقدمہ بھی ختم ہوگیا۔ جس پر وکیل بھی کہتے تھے کہ اس کو کئی دہائیں لگ جائیں گیں۔ تم نے تو ہماری پوری زندگی ہی بدل ڈالی۔ یہ فلیٹ کونسی چیز ہے ہماری پوری دولت بھی تمہارے چوت کے قدموں میں ڈھیر ہو تو کم ہے۔

                باتیں کرتے ہوئے اشفاق بیڈ پر تکیہ کے سہارے بیٹے تھے اور ہم دونوں انکے اطراف میں آلتی پالتی مار کر بیٹھیں تھیں۔ مہ جبین نے ہی شروع کرکے اشفاق کے کپڑے اتارنے شروع کئے۔ ان کی قمیص، پاجامہ اور انڈر شرٹ اتار کر پھینک دئے۔ پھر وہ میرے اوپر ٹوٹ پڑی اور میرے کپٹرے اتار کر پھینک کر میرے اوپر چڑھ گئی اور میرے جسم کے ایک ایک انچ پر بوسوں کی بوچھار کر دی۔

                اشفاق تماشائی کی طرح بیڈ کے سائڈ پر لنڈ کو سہلاتے ہوئے ہماری جنگ دیکھ رہے تھے۔ میں نے انکو پاس آنے کا اشارہ کیا اور ان کا لنڈ ہاتھ میں لیکر اس کو سہلانا شروع کیا۔ دوسری طرف مہ جبین نے ٹھان لی تھی، کہ وہ آج میرا ریپ کریگی۔ میرے ہونٹوں، زبان، بونس کا مزا چکھ کر اس نے نیچے میری ٹانگیں کھول کر زبان کی نوک میرے چوت پر لگائی۔ وہ اس کو ویکسنگ کے دوران دیکھ چکی تھی۔ وہ بولی مجھے پتہ نہیں کیسے قابو رکھ رہی تھی، جب میں نےبیوٹی پارلی میں تمہاری باڈی دیکھی۔

                وہ میرے چوت پر کام کررہی تھی کہ ادھر میں نے اشفاق کا لنْڈ منہ میں لیا۔ زبان سے اس کے ٹوپہ کو چکھا۔ اسکے سوراخ سے مذی نمودار ہو رہی تھی۔ اسکی جڑ تک زبان کو پھیرتے ہوئے لےگئی اور پھر اس کو واپس ٹوپہ تک لیتی گئی۔ اس کے نیچے سے زبان کا ٹچ دیا۔ ان کے نمکین جوسز میرے زبان کو نمکین بنا رہے تھے۔ نیچے میری چوت کے اندر مہ جبین کی زبان کھلبلی مچا رہی تھی۔

                اس کی زبان سے میرا کیا ہوتا۔ دہکتا ہوا چوت لنڈ مانگ رہا تھا۔ میں نے مہ جبین سے کہا کہ اب چھوڑو، بہت ہوگیا۔ اس کو معلوم تھا کہ مجھے لزبن سیکس کی کچھ زیادہ خواہش نہیں ہے، جلدی بور ہو جاتی ہوں۔ وہ برہنہ بیڈ کے ساتھ تکیہ کے سہارے بیٹھ گئی اور میرا سر اپنی گود میں رکھ کر مجھے پیٹھ کے بل لیٹنے کو کہا۔ اور اشفاق کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی کاروائی شروع کرے۔

                میری ٹانگیں کھلی تھیں۔ چوت جھلک رہا تھا۔ اس کو مہ جبیں نے خوب ویٹ کیا تھا۔ میرے سر اور بالوں کو مہ جبین سہلا رہی تھی۔ وہ اپنی انگلی میرے ہونٹوں پر پھر کر اسکو منہ کے اندر کر رہی تھی۔ میں بھی اس کی انگلی کو چوس رہی تھی۔

                دوسری طرف اشفاق نے میری ٹانگین اپنے شانوں پر لیکر اپنے لنڈ کا ٹوپہ میری چوت کے دہانہ پر فٹ کیا۔ تھوڑا انگوٹھے سے کلی ٹورس کو سہلایا اور ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ ایک ہی بار پورا سات انچ کا لوڑا چوت کی اندرونی تہوں میں پہنچا دیا۔ چند ساعت رک کر انہوں نے آہستہ آہستہ گھسے مارنا شروع کر دئے۔

                مہ جبین ان کو کہہ رہی تھی، اشفاق چودو چودو۔۔کتنے سالوں سے تم مجھے ثریا سمجھ کر چود رہے تھے۔۔آج ٓاصل مال تمہارے نیچے ہے۔ مہ جبین نے میرے بوبس پکڑے ہوئے تھے۔ میں نے پاتھ اوپر کرکے اس کے بوبس کو پکڑ۔ اس کا رنگ گندمی تھا، مگر باڈی سڈول اور فٹ تھی۔ اس کے بوبس بھی چھتیس سائز کے تھے۔ اسکا چہرہ فلم ایکٹریس مینا کماری جیسا تھا اور اسی جیسا فیگر بھی تھا۔

                اشفاق کے گھسوں میں اب تیزی آگئی تھی۔ وہ اب ہزیان بک رہے تھے۔ دونوں مہ جبین اور مجھے گندی گندی گالیوں سے نواز رہے تھے۔ ان کی گالیاں جیسے کانوں میں شہد انڈیل رہی تھیں اور کچھ زیادہ ہی ہاٹ بنا رہی تھیں۔ شاید انہوں نے کوئی دوائی کھا لی تھی، وہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اس دوران میں دوبار فارغ ہوگئی۔

                اب جونہی اشفاق کے چہرے پر کھچاو آنا شروع ہوا،اور وہ پوائنٹ کے قریب پہنچنے لگے کہ انہوں نے لنڈ باہر نکال کر میرے منہ کے پاس لے گئے۔ مہ جبین اور میں دونوں اب سیدھی بیٹھ گئی تھیں اور ہم دونوں نے زبانیں باہر نکالی ہوئی تھی اور ان کے مواد کو لینے کی منتظر تھیں۔ میں نے ان کو تھوڑ اورل کیا اور دیکھا دیکھی مہ جبین نے بھی ان کا لنڈ منہ میں لیکر اس کو گیلا کیا۔

                وہ ہاتھ سے اسکو اوپر نیچے کر رہے تھے۔ ان کے منہ سے عجیب آوازیں نکلنی شروع ہوگئیں اور اسی کے ساتھ لنڈ کے ننھے سوراخ سے ایک فوارا نکل کر میری اور مہ جبین کی زبان پر پڑا اور دیگر فوارے ہمارے چہروں، بوبس اور ہونٹوں پر پڑے۔ اسی کے ساتھ اشفاق بیڈ پر ڈھیر ہوگئے، ان کی پوری طاقت جیسے نچوڑ لی گئی تھی۔

                مہہ جبین نے اپنے منی سےلتھڑے ہونٹ میرے لتھڑے ہوئے ہونٹوں ہر رکھ کرایک ایک قطرہ زبان سے صاف کردیا۔ میں نے اسکی باڈی سے منی کےقطرے صاف کئے۔ اشفاق ہانپ کر بتا رہے تھے کہ یہ کتیا کی بچی پہلی بار میری منی پی رہی ہے۔ کئی بار اسکو ریکویسٹ کی، مگر یہ کبھی نہیں منہ میں نکلنے نہیں دیتی تھی۔ آج لگتا ہے کہ یہ بھی بالغ ہو گئی ہے۔

                اشفاق بیچ میں لیٹے تھے،ہم دونوں ان کے دونوں طرف لیٹ گئے۔ میں نے ان کا لنڈ ہاتھ میں لیکر ان کے بالوں بھرے سینے پر سر رکھا۔ مہ جبین نے بھی ان کے شانہ پر سر رکھا اور ان کو بتایا کہ کیا وہ ثریا کو پا کر خوش ہیں؟

                اشفاق نے اس کو چوم کر بتایا کہ یہ سب تو تمہاری وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ مہ جبین نے کہا کہ اشفاق یہ یاد رکھو کہ یہ میری بھی بیوی ہے۔ مجھے بھی اس پر ہاتھ صاف کرنے ہیں۔ جب ہم بھوپال میں تھے اور جوان تھے۔ تو میں اس کے شوہر کے آفس جاتے ہی اوپر جاکر اسکو پکڑ کربوسوں سے اسکا برا حال کردیتی تھی۔ اس سے زیادہ اس نے کچھ کرنے نہیں دیا۔ اب یہ میرے ہاتھوں سے بچ کر نہیں جائیگی۔ یہ میرا مال بھی ہے۔

                اشفاق نے ہنستے ہوئے کہا کہ اب چارہ بھی کیا ہے۔ اتنی چھوٹ تو تمہیں دینی ہی پڑے گی۔۔کیوں ثریا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

                میرے ہاتھوں کی کاروائی سے اشفاق کا لوڑا پھر سخت ہو گیا تھا۔ مہ جبین نے جونہی سخت لوڑا دیکھا وہ اچھل کر کھڑی ہوکر اس پر سوار ہوگئی۔ اب حال یہ تھا، کہ نیچے لنڈ کے اوپر نیچے مہ جبین اچھل رہی تھی، میں اوپر اشفاق کے چہرہ، ناک، ہونٹوں کو چوم رہی تھیَ۔ میری زبان ان کے ہونٹوں اور ان کے منہ کے اندر باہر جا رہی تھی۔ میں ن انکو کہا کہ وہ اپنے ہونٹ چوت کی طرح ایک دوسرے کے اوپر رکھے اور میں لنڈ کی طرح اپنی زبان اسکے درمیان ڈال کر جیسے انکو چود رہی تھی۔

                مہ جبین اچھل کود سے جلدی ہانپنے لگی اور اسکا چہرہ سخت ہوگیا اور اسی کے ساتھ اس نے آرگیزم کا اعلان کرکے اشفاق کے جسم پر ایک لاش کی طرح گر گئی۔ میں نے اسکے چوتڑوں پر ہاتھ مارکر کہا یہ شادی کروانے کےلئے شکریہ اور اسکی کمر کو سہلایا۔

                تھوڑی دیر بعد اس کو ہوش آیا اور ہم دونوں نے اشفاق کو بیچ میں رکھ کر دونوں طرف سے گلے لگا کر اور اسکی ٹانگوں پر ٹانگیں رکھ کر سو گئے۔ انکے ہاتھ دونوں طرف پھیلے ہوئے ہم دونوں کا احاطہ کر رہے تھے۔ صبح ہم اسی طرح کافی دیر کے بعد جاگ گئے۔ باہر کھٹ پٹ ہو رہی تھی۔ سبھی باہر جاگ کر میرے فلیٹ کے لیونگ روم میں آکر ناشتہ کا انتظٓا کر رہے تھے۔

                انکو شاید یہ گمان تھا کہ مہ جبین تو اپنے روم میں ہوگی۔ مگر اب شرم سے میں پانی پانی ہو رہی تھی، کہ جب وہ مہ جبین اور مجھ کو اسی کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھیں گے، تو کیا سوچیں گے۔ میں نے مہ جیبن کو کہا، تو اس نے کہا کہ یہ تو کھی نہ کبھی ہونا ہی تھا، ۔اچھا یہ کہ آج ہی ان کو پتہ چلے گا۔

                اسی طرح ہمت کرکے ہم نہا دھو کر ایک ایک کرکے باہر نکل گئے۔ سبھی کی نگاہیں مسکرا کر ہمارا طواف کر ہی تھیں۔ ناشتہ کرتے ہوئے میرے بیٹے اور داماد نے بتایا کہ انہوں نے گوا میں سمندر کنارے ایک کاٹئج ہمارے ہنی مون کےلئے بک کیا ہوا ہے اور جہاز کی ٹکٹ بھی ارینچ کی ہے۔

                پھر میری بیٹی گویا ہوئی کہ ٹکٹ صرف دولوگوں کےلئے تھی، مگر اب تھوڑی دیر قبل اب اس میں تیسر ے آدمی کو بھی ایڈ کردیا ہے۔ تاکہ تین لوگ ساتھ میں ہنی مون منا کرآجائیں۔ میں نے تو پہلے منع کردیا۔ پر عارفہ نے کہا ۔ امی آپ نے تو ہم کو زبردستی یورپ ہنی مون پر بھیجا تھا۔ اب ہم آپ کو بھی زبردستی بھیج رہے ہیں۔۔میری بیٹی میرے ساتھ کافی فرینک ہے۔ بعد میں اکیلے میں کہنے لگی امی قسمت ہو تو اشفاق انکل جیسی۔ مینا کماری اور مدھو بالا دونوں کے مزے لے رہے ہیں۔ چونکہ میری شکل کچھ بالی ووڈ کی مشہور ایکٹرس مدھو بالا سے مشابہ ہے، اسلئے بچپن سے ہی مجھے چھیڑ کر مدھو بالا کہا جاتا تھا۔

                پارٹ چار کا انتظار کیجئے۔ تب تک گندے گندے کمنٹس کرکے حوصلہ افزائی کرتے جائیے۔

                ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

                image.png

                Comment


                • #48
                  اتنی شہوت انگیز ہے کہ لوڑا پھڑ پھڑانے لگا ہے واہ مزاہ آگیا کیا ہی مزے کا چودائ کی ہے

                  Comment


                  • #49
                    Ishaf shab ki to lotry lg gayi burhape main itne maze wah kia bat. Writer g aap kamal likh rhe hain

                    Comment


                    • #50
                      بھائی بہت کمال کی لاجواب اور گرم سٹوری ہے اپ ڈیٹ کی جتنی تعریف کی جائے انتہائی کم ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X