Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

حسرت نا تمام

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story حسرت نا تمام

    حسرت ناتمام۔
    اپڈیٹ۔
    ۔دوستو! میری جب شادی ہوئی تو میری بیوی کی ایک بڑی بہن کی بھی شادی ہمارے ساتھ ہی ہوئی۔ میری بیوی سات بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ بھائی سب سے چھوٹا تھا اور ہماری شادی کے وقت اس کی عمر 4 سال تھی۔ میری بیوی اٹھارہ اور میری بڑی سالی 19 سال کی تھی۔ دونوں جڑواں لگتی تھیں۔ میری سالی کا خاوند ایک اچھا انسان تھا اور میری اس کے ساتھ شادی پر ہی ملاقات ہوئی اور دوستی ہو گئی۔
    ہم زلف ہونے کے ناطے وہ ایک اچھا انسان تھا اور میں نے بھی اسے بڑے بھائی کا درجہ دیا اس نے بھی مجھے چھوٹا بھائی بنا لیا۔ ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ہو گیا۔
    ایک سال بھی ابھی نہیں گزرا تھا کہ میری بیوی نے بیٹا پیدا گیا اور میری سالی کے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔ میں اورمیرا ہم زلف اس موقع پر بہت خوش تھے۔ گھر والے بھی بہت خوش تھے۔
    سارا سال بہت خوشیاں منائی گئیں اور پھر ایک سال کے بعد ہم نے دوبارہ بچہ پلان کیا اور پھر میری بیوی امید سے ہو گئی ادھر میری سالی بھی امید سے ہو گئی۔ ہمیں اوپر والےنے دوسرے بیٹے سے نوازا اور میری سالی کو پھر بیٹی ہوئی۔
    ہم نے بہت خوشیاں منائیں۔شادی کو پانچ سال گزر گئے اس دوران میری بیوی نے تین بیٹے پیدا کیے اور میری سالی کے گھر چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
    اسی دوران میرے ہم زلف کو اپنی تجارت میں کچھ خسارہ ہونا شروع ہوا تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ آپ میرے بزنس میں انسویسٹ منٹ کر لیں اور میرے پاس ہی شفٹ ہو جائیں۔ انہیں میری یہ تجویز اچھی لگی اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے اور میری بیوی نے ان کے لیے اپنے گھر کا اوپر والا پورشن خالی کر دیا اور وہ وہاں شفٹ ہو گئے۔
    تین دن تک انہوں نے کھانا ہمارے ساتھ کھایا۔ ان کی بیٹیاں بہت پیاری تھیں اور مجھے ماموں کہتی تھیں اور میرے تینوں بیٹے میرے ہم زلف کو ماموں کہتے تھے۔ میری سالی فرح بہت ہی خوب صورت اور باوجود چار بیٹیاں پیدا کرنے کے وہ بہت سمارٹ تھی اور چونکہ قد بھی میری بیوی سے چھوٹا تھا اس لیے بالکل گڑیا سی لگتی تھی۔
    اسکی آنکھیں بھی بہت ہی خوب صورت بلوریں تھیں اور اس کی بیٹیاں تو چھوٹی چھوٹی پریاں لگتی تھیں۔ میری بیوی اپنی بہن سے بھی زیادہ حسین تھی۔ اب جب سے میں نے فرح کو اس حالت میں دیکھا میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
    وہ مجھے بھائی جان کہتی اور میں بھی اسے پیاری بہن کہتا تھا۔ میری بیوی بھی اپنے بہنوئی کو بھائی جان وہ بھی اسے میری بہن میری بہن کہتا تھا۔ ہمارے درمیان بہت ہی عزت والا رشتہ تھا۔
    میری والدہ اور والد بھی دونوں میاں بیوی اور ان کے بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔
    دن گزرنے لگے اور ہمارا کاروبار ترقی کرنے لگا۔ ایک بار ہفتہ بھر کے لیے میرے ہم زلف ایک بزنس میٹنگ کے لیے کراچی گئے ۔ میں جب گھر آیا تو میری بھانجیاں بھی وہیں کھیل رہی تھیں ۔
    مجھے دیکھتے ہی میرے تینوں بیٹے اور چاروں بھانجیاں مجھے چمٹ گئے میں بھی سب سےپیار کرنے لگا۔ میری بیوی اور سالی فرح مجھے دیکھ کر ہنسنے لگیں اور یکدم فرح نے کہا کہ کاش ان میں میرا بھی ایک بیٹا کھیل رہا ہوتا۔ میری بیوی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ باجی امید رکھیں ہو جائےگا بیٹا بھی۔
    فرح کہنے لگی کہ نہیں ہم نے ٹسٹ کروائے ہیں تمہارے بھائی صاحب بیٹا پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ کیونکہ ان میں وائی جرثومے نہیں ہیں۔ یہ بات اچانک ہوئی اور میں نے بھی سن لی اور میں حیرت سے ان دونوں بہنوں کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر بات آئی گی ہو گئی ۔ میں نے کپڑے بدلے اور کھانے کے لیے میز پر آ گیا۔
    سب نے کھانا کھایا۔ آئس کریم کھائی اور پھر چہل قدمی کرنے کے لیے چھت پر چلے گئے۔ چہل قدمی کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ فرح میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی جبکہ میری بیوی بچوں کے ساتھ مصروف تھی۔ اچانک میری سالی فرح نے میرا بازو پکڑا اور کہنے لگی۔
    بھائی جان! کبھی آپ کی با ت نہیں ہوئی آپ کے بھائی صاحب سے؟ ۔
    میں نے کہا کہ کس موضوع پر؟
    کہنے لگیں کہ بچوں کے موضوع پر؟
    میں نے کہا کہ نہیں۔ کہنے لگی کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیٹا پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ یہ تو قدرت کی مرضی ہوتی ہے۔ کہتی کہ نہیں اس میں مرد کے سپرمز کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔
    میں جھجک گیا۔ وہ بولی کہ جھجکنے کی بات نہیں ہم دونو شادی شدہ ہیں اور بچوں والے ہیں اس لیے ہمیں کھل کر ایسی بات کر لینی چاہیے اور میں تو کافی عرصے سے اس تاک میں تھی کہ آپ کے ساتھ با ت کر سکوں۔ اب میں آزادی سے بات کر سکتی ہوں کیونکہ آپ کے بھائی یہاں نہیں۔
    میں نے کہا کہ باجی آپ کی بہن بھی تو ہے نا؟
    تو فرح کہنے لگی کہ اسی نے تو مجھے کہا ہے کہ تم اپنے بھائی سے بات کرو۔ میں حیران ہوا لیکن دل میں بہت خوش ہوا کہ چلو سیکسی باتیں کرنے کی اجازت میری بیوی کی طرف سے مل گئی۔ میں پہلی بار اپنی بیوی کے علاوہ کسی لڑکی سے سیکس پر بات کر رہا تھا۔
    میں نے کہا کہ فرح یہاں تو مناسب نہیں بچے ہیں اور ان کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں گی تو مناسب نہیں لگتا ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو سلا دیں پھر ہم تینوں بیٹھ کر باتیں کر لیں گے۔۔
    اگر برہ (میری بیوی) کو علم ہے تو پھر اس کے سامنے ہی ساری بات کر لیں گے۔ وہ بہت خوش ہوئی اور یوں ہم نیچے آ گئے تا کہ بچوں کو سلا دیا جائے۔
    چونکہ عامر(فرح کا میاں) گھر پر نہیں تھا اس لیے سب بچوں کو میری بیوی نیچے لے گئی اور ہمیں کہہ دیا کہ آپ لوگ یہیں رکیں میں بچوں کو امی جان کے سپرد کر کے آتی ہوں کیونکہ میرے بچے اپنی دادی کے پاس سوتے ہیں اس لیے میں ان کے سپرد کر کے آتی ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔
    وہ چلی گئی تو میں اور فرح باتیں کرتے کرتے نیچے فرح او ر عامر کے بیڈ روم میں آ گئے۔ وہاں میں کرسی پر بیٹھ گیااور فرح اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی اور ہم باتیں کرنے لگے۔ کافی دیر گزر جانے کے بعد میری بیوی برہ آئی اور ہمیں الگ الگ بیٹھے دیکھ کر مسکرانے لگی۔
    برہ جا کر اپنی باجی فرح کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد برہ بولی کہ باجی آپ نے اپنے بھائی سے بات مکمل کر لی؟
    تو فرح کہنے لگی کہ نہیں ابھی تو شروع ہی نہیں کی۔ اب تم آ گئی ہو تو تمہارے سامنے کی کر لیتی ہوں کیونکہ تم نے ہی مجھے حوصلہ دیا تھا کہ ذوہیب سے بات کر لوں تو اب تماہرے سامنے ہی کر لیتی ہوں۔
    اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
    میں بھی ہمہ تن گوش ہو گیا۔ پھر فرح نے بتایا کہ عامر میں بیٹا پیدا کرنے والے یعنی ایکس سپرم نہیں ہیں جو میرے ایکس سپرم سے مل کر بیٹا پیدا کر سکیں مشورہ یہ کرنا تھا کہ اس کا کچھ ہو سکتا ہے؟
    کیونکہ مجھے بیٹے کی خواہش ہے اور عامر بھی کہتے ہیں کہ ایک بیٹا تو ہونا ہی چاہیے۔ میری بیوی بولی کہ باجی مجھے بیٹی کی خواہش ہے۔
    میں نے کہا کہ اس کے لیے تو کسی گائینا کولوجسٹ سے رابطہ کرنا ہوگا جس پر فرح نے کہا کہ ہم نے یہ کر کے دیکھا ہے ۔
    گائناکولوجسٹ کے پاس جو ممکنہ علاج تھا انہوں نے کیا لیکن اس کے بعد بھی لڑکی پیدا ہوئی اور انہی تجربات کی وجہ سے ہماری چار بیٹاں پانچ سال میں پیدا ہو چکی ہیں اور اب ہم مزید رسک نہیں لینا چاہتے۔
    میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ برہ کہنے لگی کہ آپ دور کیوں بیٹھے ہیں یہاں بیڈ پر ہی آ جائیں۔ تو میں کرسی سے اٹھ کر بیڈ پر چلا گیا۔ اب بیڈ پر برہ درمیان میں اور اس کے ایک طرف میں اور ایک طرف فرح بیٹھی تھی۔ میں اور برہ تو اتنے گرم تھے کہ پاس بیٹھتے ہی ہم چدائی کے لیے تیار ہو جایا کرتے تھے اور یہی ہوا جیسے ہی میرا جسم برہ کو ٹچ ہوا اسے جھٹکا لگا اور وہ تیار ہو گئی ادھر سے میرا لوڑا بھی کھڑا ہو گیا اور میں تو سونے والے ٹراؤزر کے نیچے انڈرویئر بھی نہیں پہنتا تھا اس لیے میں نے اپنی رانوں میں اپنے نو انچ لمبے اور ساڑھے تین انچ موٹے لوڑے کو دبا لیا۔ لیکن لوڑا صاحب تو ٹنا ٹن بج رہے تھے۔ ادھر برہ کو گرمی چڑھی ہوئی تھی اور اس نے میری ران پر ہاتھ رکھ کر ہلکا ہلکا مساج شروع کیا تو میرا لوڑا صاحب تو جیسے پھٹنے پر آگیا۔
    میں نے اچانک برہ سے کہا کہ چلو اب رات کافی ہو گئی ہے چلتے ہیں جا کر سوتے ہیں عامر بھائی آئیں گے تو میں ان سے بات کرتا ہوں کہ کسی اور ڈاکٹر سے بات کی جائے۔
    میں اسی بے خیالی اور جلدبازی میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے نیچے انڈرویئر نہیں پہنا ہوا تو میری پری کم یعنی مذی نے میرے ٹراؤزر کو گیلا کیا ہوا تھا اور لوڑا تن کے کھڑا تھا۔
    فرح کی نظر سیدھی میرے لوڑے پر گئی اور میں بھی عین اس وقت اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں
    ​​​​​ایک بہت ھی انوکھی سی چمک لہرائی۔
    اور برہ کی آنکھوں میں بھی خمار اترا ہوا تھا۔ اس نے مجھے
    پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا میں تو اب برہ کے اوپر تھا اور برہ مجھے بے ساختہ چوم رہی تھی اور اس کی 38 کی چھاتیاں میرے چوڑے سینے کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔
    فرح نے فورا بڑی لائٹ بند کی اور باتھ کی لائٹ جلا کر تھوڑا سا دروازہ کھول دیا اور کمرے میں ہم تینوں کے ہیولے رہ گئے ہم تو کب کے آپے سے باہر ہو چکے تھے۔برہ نے میرے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا اور مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب فرح نے میرا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔
    اب مجھے علم نہیں تھا کہ برہ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا وہ جذبات سے مغلوب ہو گئی تھی بہرحال مجھے معلوم ہو گیا کہ میری قسمت میں اب دونوں بہنوں کی پھدی اسی رات میں لکھ دی گئی ہے۔
    فرح باجی میرے ہاتھ کو پیار سے سہلاتے سہلاتے اب اس کے اوپر اپنے ہونٹ رکھ چکی تھیں اور پھر بے تحاشہ چومتے چومتے میرے گالوں پر آ گئیں اور پھر میرے کان کی لو پر پیار کرتے کرتے سرگوشی سے کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہے کہ میرا بھائی مجھے بیٹا دے سکتا ہے۔
    میں مست تو تھا ہی لیکن یہ بات سنتے ہیں میں نے اپنا ہاتھ ان کے 34 کے مموں پر رکھ دیا ادھر برہ میرے منہ میں منہ ڈالے مجھے چوس رہی تھی ادھر فرح باجی کے ممے میرے ہاتھ میں تھے اور فرح باجی کے ہونٹ میرے گالوں اور کانوں پر مجھے نم کر رہے تھے اور ادھر میرا لوڑا ٹرازر کے اندر ہی پھنکار رہا تھا
    اچانک فرح باجی کا بایاں ہاتھ میرے چوتڑوں پر چلا گیا۔ برہ نے مجھے اپنی چھاتی پر کسا ہوا تھا اور میرا لوڑا برہ کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میرے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے فرح باجی نے اب میرے چوتڑوں کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔
    میں نے اب برہ سے اپنا منہ چھڑوا کر فرح باجی کو پکڑا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ گاڑ دیئے اور بے تحاشہ چومنا شروع کر دیا۔ میں نے ان کے کان میں کہا کہ اگر برہ کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے خوشی ہو گی کہ میں آپ کے پیٹ میں اپنا بچہ پیدا کر دوں۔
    فرح باجی کے بولنے سے پہلے ہی برہ بولی کہ ہاں میں چاہتی ہوں کہ کسی بھی قیمت پر میری باجی کو بیٹا پیدا ہو جائے اور مین بیٹی پیدا کروں۔۔۔۔
    مجھے برہ کا ارادہ صاف نظر آ گیا کہ وہ عامر بھائی سے پریگننٹ ہونا چاہتی ہے جبکہ فرح کو مجھ سے پریگننٹ کروانا چاہتی ہے اور یہ سکیم دونوں بہنوں کی باہمی بن چکی ہوئی ہے۔
    جا رہی ھے ۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    ۔نیو اپڈیٹ۔
    ھے تم کو جذبہ اور شوق جنوں تو اے دوست ہمت نہ ہار۔
    پیوستہ رہو ہمارے ساتھ۔ ساتھی ملین گے بےشمار۔
    میں نے اب خود کو دونوں بہنوں اورحالات
    کے سپرد کر دیا اور خود بے فکر ہو گیا۔
    برہ تو میرے لوڑا ڈالنے سے پہلے ہی کسنگ کرتے ہوئے یا میرا لوڑا چوستے ہوئے دو تین بار ڈسچارج ہو جایا کرتی تھی اور جب ڈسچارج ہوتی تو بہت جھٹکے کھاتی اور شور مچایا کرتی تھی ..
    لیکن فرح باجی کا مجھے علم نہیں تھا کہ وہ کس طرح ڈسچارج ہوتی ہیں۔
    میرا لوڑا کپڑوں میں ہی برہ کی پھدی پر سیٹ تھا وہ نیچے سے ہل رہی تھی اور دو بار ڈسچارج ہو چکی تھی اب نارمل ہو گئی تھی۔
    لیکن فرح باجی کو آگ لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ فرح نے میرے منہ سے منہ نکالا اور مجھے اپنے ساتھ کھینچنے لگیں میں برہ کے اوپر سے اترا تو دیکھا کہ میرا ٹراؤزر میری مذی سے لوڑے کے اردگرد مکمل گیلا ہو چکا تھا۔
    اب برہ نے آنکھیں بند کر لیں اور سکون سے لیٹ گئی۔
    جبکہ فرح نے مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اور میرے کان میں کہنے لگی:۔
    ذوہیب جانو! میں پہلے دن سے ہی تمہاری عاشق ہوں۔
    آج میرے قابو آئے ہو۔۔
    میں نے سرگوشی کی کہ میری بھی نظر تھی آپ پر کہ کب آپ کی پھدی میرے لوڑے کے نصیب میں ہو گی تو بالآخر وہ رات آ ہی گئی۔
    ہم اسی طرح باتیں کرتے رہے اور پتہ ہی نہیں چلا کب ہم دونوں ننگے ہو گئے اور ایک دوسرے سے چمٹ گئے فرح باجی کا چھوٹا سا بدن مجھے ایک گڑیا کی طرح لگ رہا تھا اور میں نے انہیں اٹھا کر گود میں بٹھا لیا۔ اور منہ میں منہ ڈال کر ایک دوسرے کو چوسنے لگے۔
    میرا لوڑا اب پھٹنے کے قریب تھا اور برہ سکون سے سوی ہوئی تھی آج باری تھی فرح باجی کی پھدی کی۔
    میں نے فرح باجی کو اپنی گود سے نکالا اور بیڈ سے اتر کر کھڑا ہو گیا اور فرح باجی سے کہا کہ لائٹ جلا لیتے ہیں تاکہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر چدائی کا کھیل کھیلیں اب یہاں کوئی ایسا تو ہے نہیں جس سے پردہ ہے۔
    چنانچہ مین نے لائٹ جلا لی۔ جیسے ہی میں نے لائٹ جلائی تو میرے ننگے لوڑے پر فرح باجی کی نظر پڑی تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
    میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ وہ گویا ہوئیں کہ ذوہی! عامر کا تو اتنا موٹا نہیں ہے! لمبا تو چھ انچ ہے اور میرے اندر تک چلا جاتا ہے لیکن موٹائی صرف ڈیڑھ ۔دو . . انچ ھی ہے لیکن تمہارا تو بہت موٹا ہے۔۔۔۔
    میں نے کہا کہ باجی یہ بات آپ کو برہ نے ضرور بتائی ہو گی اور یہ بھی بتایا ہوگا کہ ذوہیب جب اوپر چڑھ جائے اور لوڑا پھدی میں گھسیڑ دے۔
    تو پھر گھنٹہ دو گھنٹے تو آرام سے پھدی مارتا ہے اوربھوسڑی کا خوب اچھی طرح بھوسڑابنا دیتا ہے۔۔۔
    فرح باجی کی آنکھوں میں خمار صاف نظر آرہا تھا۔
    وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میرے تنے ہوئے تقریبأ . نو انچ لمبے اور ساڑھے تین انچ موٹے لوڑے کا ٹوپا منہ میں لینے کی کوشش کرنے لگیں اور پھر بڑی مشکل سے انہوں نے منہ میں لے لیا.۔
    لیکن فورا ہی نکال دیا کہ نہیں لیا جا رہا بہت موٹا ہے۔۔۔۔
    میں نے ان کے چھوٹے چھوٹے ممے پکڑے اور انہیں کھینچ کر اوپرکو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا وہ سمجھ گئیں اور اٹھ کھڑی ہوئیں میں نے سرگوشی کی کہ میری دیرینہ آرزو تھی کہ آپ کو کھڑے ہو کر گود میں اٹھا کر چودوں آج میں آپ کی چدائی کی ابتدا ہی کھڑے ہو کر آپ کو اٹھا کر لوڑا ڈال کر کروں گا۔۔۔
    یہ کہتے ہوئے میں نے انہیں اٹھایا تو آسانی سے اٹھا لیا کیونکہ ان کا وزن اور قد برہ سے کم تھا اور میں نے آرام سے انہیں اٹھا کر ان کا ایک مما منہ میں ڈالا اور ایک ہاتھ سے لوڑا ان کی پھدی کی گیلی رِستی ہوئی موری پر سیٹ کیا اور ان کی کمر کس کر پکڑ لی ۔ اُدھر فرح باجی نے میری گردن میں اپنے بازو حمائل کیے ہوئے تھے۔۔۔
    میں نے اب ان کے منہ میں منہ ڈال دیا تھا۔۔۔۔ میں نے کہا کہ باجی آپ اپنے بہنوئی کا وہ لوڑا لینے کے لیے تیار ہیں جو آپ کی بہن کی چوت پھاڑتا ہے؟
    باجی بولیں کہ ہاں میرے پیارے ذوہیب جانو میں تیار ہوں۔۔۔ ڈال دو۔۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک جھٹکے سے گیلی اور رِستی ہوئی پھدی کی جڑ تک اپنا لوڑا اتار دیا۔۔۔۔
    باجی کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور میرے منہ میں آ کر اس چیک نے دم توڑ دیا۔۔۔ میرا لمبا اور موٹا تازہ تنا ہوا لوڑا کسی گرم راڈ کی طرح باجی فرح کی شدید گرم پھدی میں اتر گیا میں حیران تھا کہ باجی فرح کی پھدی بہت گرم تھی اور میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا ورنہ میں ایک ہی جھٹکے میں ڈسچارج ہو گیا ہوتا۔
    پھر میں نے تھوڑی دیر توقف کیااور باجی سے پوچھا کہ اب چکی چلانی شروع کر دوں؟ اس اثنا میں باجی تین بار ڈسچارج ہو چکی تھیں اور تیسری بار ڈسچارج ہونے پر باجی نے پوری آواز سے دھاڑنا شروع کیا اور اتنے شدید جھٹکے کھائے کہ برہ کی آنکھ کھل گئی۔۔۔۔
    برہ نے کہا کہ کیا ہوا فرح باجی؟
    تو فرح باجی کہنے لگی کہ برہ تم تو بہر حال مزے کی زندگی گزار رہی ہو کہ اتنا تگڑا لوڑا روزانہ لیتی ہو آج یقین کرو اپنے بہنوئی کا لوڑا لے کر مزہ اور سکون آگیا۔۔۔۔
    برہ کہنے لگی کہ باجی میں نے آپ کو بتایا تو تھا کہ میرا ۔ ذوہی جانو۔ ماسٹر ہیں چدائی کے۔ فرح باجی کہنے لگیں کہ کاش عامر بھی اتنا وقت لگاتا۔۔۔
    پھر میں نے سپیڈ پکڑ لی۔۔۔۔ کھڑے کھڑے باجی فرح کو چودنے کا بہت مزہ آ رہا تھا۔۔۔
    برہ بولی کہ ذوہیب جانی! بھولنا نہیں کہ باجی فرح کی صرف پھدی نہیں مارنی بلکہ انہیں پریگننٹ کرنا ہے۔۔۔
    میں نے کہا کہ فکر نہ کرو میری چداکڑ بیوی میں تمہاری بڑی باجی کو ضرور پریگننٹ کروں گا پہلے مجھے جی بھر کر چود تو لینے دو۔۔۔۔
    پھر میں نے پوری طاقت سے فرح باجی کو چودنا شروع کر دیا ۔۔۔برہ بھی کھڑی ہوگئی اور ہماری پاس آکر اپنی زبان نکالی اور ہم دونوں کی زبانوں کے ساتھ ٹکرانے لگی اب ہم تینوں کی زبانوں نے ایک دوسرے کا مزہ لینا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ میں فرح باجی کی پھدی میں ٹاپ گیئر چدائی کر رہا تھا۔۔۔ مزے میں ہم تینوں بے حال ہو رہے تھے۔۔۔
    اب برہ جو بلکل ننگی ھو چکی تھی ۔اور میرےٹٹون کو پکڑ کر ہلانےکے ساتھ ساتھ فرح کی پھدی کو چاٹ رہی تھی اچانک کھڑی ہوئی اور مجھ سے کہنے لگئی ذوہی جانو۔جی۔
    میری پھدی کی آگ بھی ٹھنڈی کر دو باجی کو بعد میں آرام سے چودتے رہنا کیونکہ مجھے آپ دونوں کا پروگرام لمبا لگ رہا ہے
    مجھے دو تین بار ڈسچارج کر دو تا کہ میں سو جاؤں۔ ۔۔۔
    اس کی یہ بات سن کر فرح باجی نیچے اتر آئیں اور میرے لوڑے کو چوم کر کہنے لگیں کہ ذوہیب میری جان مزہ آ گیا تم برہ کو فارغ کرو میں کچھ دودھ گرم کر کے لاتی ہوں۔۔۔۔
    میں نے برہ کو کہا کہ کس پوزیشن میں چدوانا چاہتی ہو تو وہ کہنے لگی کہ میں کتیا بنتی ہوں اور آپ میرا گدھا بن کر چودو۔۔۔
    یہ کہتے ہی وہ میری کتیا بن گئی اور میں بھی گدھےجیسا بڑا موٹا گتڑالوڑالے کر اپنی کتیا پر چڑھ دوڑا اور ایک ہی جھٹکے میں برہ کی چوت میں فرح باجی کی چو ت سے نکلا ہوا گیلا گیلا اپنا لوڑا گھسا دیا ۔۔۔۔
    لوڑا اندر جاتے جاتے برہ ڈسچارج ہو گئی اور جھٹکے کھا کھا کرشور مچانے لگی۔۔۔۔ آآآآآآآآہ۔۔۔۔اوووووووووووووووووووہ۔۔۔۔ ہائے میری جان ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہوووووووووووووووووووو چودو مجھے چودو۔۔۔۔۔۔میری باجی کے ٹھوکو بھی بن گئے ہو آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مجھے اپنی ساری بہنوں کو بھی آپ سے چدوانا پڑا میں انہیں چدواؤں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اور میری باجی کو آج رات چودو۔۔۔۔۔۔۔۔
    وہ رجیب ہذہانی کیفیت میں ایسی باتیں کرتی جا رہی تھی اور میرا جوش اس کی سب بہنوں کو سوچ سوچ کر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ میں دل ہی دل میں خوش ہو گیا کہ ایک دن میں اس کی سب بہنوں کو چود ڈالوں گا۔۔۔۔
    میرا جوش بڑھتا جا رہااور وہ ایسی گندی باتیں کرتی جا رہی تھی کہ میں نے دیکھا کہ فرح باجی دودھ لے کر آ چکی ہیں اور سائڈ ٹیبل پر رکھ کر ہمارے ساتھ کھڑی ہیں وہ بھی برہ کی باتیں سن کر کہنے لگیں کہ بالکل ٹھیک ہے ہمیں اپنی بہنوں کا بھی سوچنا چاہیے کیونکہ ذوہیب بھائی سےبہتر چودنے والا شاید ہی کوئی ملے۔۔۔
    اتنے میں برہ 4 بار ڈسچارج ہو چکی تھی اور اب اس کے جھٹکے کم ہو رہے تھے اور وہ وہیں کتیا بنی بنی الٹی ہی لیٹی اور بیڈ پر ڈھیر ہو گئی ۔
    ادھر فرح باجی اس کے پاس ہی کتیا بن چکی تھی اور مجھے اس کی پھدی للکار رہی تھی کہ اپنا گدھے جیسا لوڑا اس چھوٹی سی پھدیا والی کتیا کے چوت میں ڈال دوں۔
    برہ ایک بار مجھ سے چدوا اور فرح باجی سے اپنی پھدی چٹوا کر نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی۔ فرح باجی نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی نیند کی بڑی پکی ہے گھر میں کچھ بھی ہو جائے اس نے کبھی اپنی نیند خراب نہیں ہونے دی۔
    یہ تو مجھے بھی پتہ چل چکا تھا کہ رات کو بچے روتے رہیں برہ نہیں اٹھتی بچوں کے دودھ وغیرہ کے جس کی وجہ سے بچے اپنی دادی کے پاس ہی سوتے ہیں۔
    فرح نے مجھے پھر بتانا شروع کیا کہ کس طرح وہ شروع سے ہی مجھے پسند کرتی تھی اور نہ صرف وہ بلکہ اس کی امی اور باقی بہنیں بھی مجھے پسند کرتی تھیں کیونکہ میں بہت نرمی سے ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہوں اور سب سے پیار کرتا اور سب کو تحائف دیتا ہوں۔
    چھوٹیوں کو آئس کریم کھلاتا ہوں اور گھمانے کے لیے بھی لے کر جاتا ہوں۔ سبھی مجھے پسند کرتے ہیں۔ فرح یہ کہتے ہوئے مجھے بے تحاشا چوم رہی تھی اور پھر فرنچ کس کرتے ہوئے اس نے میرے ہونٹ اور زبان چوس چوس کر بے حال کر دیا۔ پھر کہنے لگی کہ عامر تو دس منٹ سے بھی کم وقت لگاتے ہیں اور مجھے ٹھیک طرح سے فارغ ہی نہیں کرتے۔
    لیکن جب برہ نے مجھے بتایا کہ تم بہت وقت لگاتے ہو اور بلا وقفے کے کئی کئی گھنٹے اسے چودتے ہو تو میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ تم سے چدواؤں گی پھر میں بہانے سوچنے لگی اور ایک دن برہ سے بات کی کہ ہم لوگ اس وجہ سے بہت پریشان ہیں کہ بیٹا نہیں ہو رہا اور تمہاے تین بیٹے ہو گئے ہیں۔
    جبکہ میری چار بیٹیاں ہو گئی ہیں۔ اب سسرال والے مجھے طعنے مارنے لگ گئے ہیں کہ ہمارے خاندان کا وارث نہیں پیدا ہو رہا۔ ۔
    جس پر میں نے برہ سے بات کی اور اس نے مجھے خود ہی میرے دل کی بات کہہ دی کہ باجی آپ ذوہیب سے ایک بیٹا کے لیے پریگننٹ ہو جائیں مجھے کوئی اعتراج نہیں ویسے بھی ہم نے آپ کی بیٹیاں اپنے بیٹون کے لیے لینی ہیں ۔
    تو اگر آپ ذوہی سے ایک دو بیٹے لے لیں تو مزید باہمی محبت ہم دونوں بہنوں میں پید اہو جائے گی جس پر میں نے اسے کہا کہ تمہیں بھی تو بیٹیوں کی ضرورت ہے نا تو تم عامر سے پریگننٹ ہو جاؤ اور بیٹیاں مل جائی گی۔
    فرح باجی نے یہ سکیم مجھے بتائی کہ یہ سن کر برہ نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن پہلے آپ کا بیٹا پیدا ہو جاے پھر میں اس طرف توجہ کروں گی لیکن اگر ذوہیب سے بھی آپ کی بیٹی ہی ہوئی تو پھر میں آپ کے خاوند عامر بھائی سے یہ کام نہیں کروں گی۔ پھر فرح نے برہ سے کہا کہ ذوہیب کو کس طرح راضی کیا جائے تو برہ نے اسے سکیم بتائی اور اسی سکیم کے تحت آج یہ چدائی جاری تھی۔
    بالآخر میں نے فائنل راؤنڈ لگاتے ہوئے فرح باجی سے کہا کہ برہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ اگر آپ کو میری منی سے بیٹا ہو گیاتو پھر ہم عامر کو بھی شامل کر لیں گے اور عامر سے برہ کو پرینگننٹ کروائیں گے ورنہ نہیں۔
    ۔(مین منہ سے تو فرح کو کوچھ اور ہی کہہ رہا تھا اور دل مین اور سوچے جا رہا تھا)۔
    میں نے یہ کہتے ہوئے فرح باجی کو بیڈ پر سیدھا لٹایا اور پورا لوڑا ان کی پھدی میں گھسا کر احتیاط کے ساتھ یوٹرس کے منہ پر رکھااور ہلکا سا دباؤ بڑھا کر اس کی یوٹرس میں ڈال دیا۔ جیسے ہی میں نے ان کی یوٹرس میں لوڑاڈالا وہ ڈسچارج ہو گئی اور ان کی منی کی گرمی سے میرا لوڑا فل ٹائٹ ہو کر جھٹکے لینے لگا اور دو تین بار آگے دھکیلنے کے بعد میں فرح باجی کی پھدی میں فارغ ہو گیا۔ فرح باجی نے خمار زدہ آواز میں کہا کہ تمہاری منی سے میرے اندر ٹھنڈک سی پیدا ہو گئی ہے اور پھر وہ بلاتاخیر سو گئی میں بھی آہستہ سے ان کے اوپر سے اترا اور برہ اور فرح باجی کے درمیان ہی لیٹ کر سو گیا۔
    جاری ھے۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #3
      ۔نیو اپڈیٹ۔
      صبح اپنے وقت معمول کے وقت سے پہلے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ فرح باجی موجود نہیں لیکن برہ ابھی تک حسبِ عادت گھوڑے بیچے سو رہی ہے۔ میں واش روم گیا اور پھر حسبِ معمول صبح بیدار ہوتے ہی نیم گرم پانی کا آدھا گلاس پینے کچن میں چلا گیا ۔
      میں نے دیکھا کہ فرح باجی ننگی ہی کچن میں کھڑی ہیں اور پانی گرم کر رہی ہیں مجھے دیکھتے ہی مسکرائیں اور کہنے لگی کہ بہنوئی صاحب جاگ گئے؟ ۔
      میں نے پیچھے سے انہیں پکڑ کر سینے سے لگا لیا اور ان کا منہ موڑ کر ان کے ہونٹ چومنے اور پھر زبان چوسنے لگا اور انہیں کہا کہ میں تو آپ پر مرتا تھا لیکن آپ نے رات کو مجھے شکار کر لیا اور پھر میرا لوڑا ٹنا ٹن کرنے لگا اور ان کی کمر پر پھنکارنے لگا۔
      فرح باجی بھی گرم ہوگئی اور کسنگ میں زیادہ گہرائی آ گئی۔ میں نے فرح باجی کے تنے ہوئے ممے پکڑے اور ان کی نپلوں سے کھیلنے لگا۔
      چونکہ ان کی چھوٹی بیٹی ابھی دودھ پیتی تھی اس لیے ان کے مموں سے تازہ دودھ رس رہا تھا اور میں نے انہیں گھمایا اور اٹھا کر کچن کی سلیب پر بٹھا دیا اور ن کے ممے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چوسنے لگا اور ان سے نکلنے والا تازہ تازہ دودھ پینے لگا۔نیچے سے میرا لوڑا خود بخود ہی فرح باجی کی پھدی کو ٹکراتے ٹکراتے ان کی موری پر سیٹ ہو چکا تھا اور پھر میں نے ایک ہی دھکے میں ان کی پھدی میں لوڑا اتار دیااور گڈ مارننگ فک کا مزہ لینے لگا۔
      اب فرح باجی کے ممے میرے منہ میں تھے اور میرا لوڑا فرح باجی کی پھدی میں اور فرح باجی کے ہاتھ میرے چوتڑوں پر تھے اور وہ دبا رہی تھیں گویا ان کا دل کر رہا تھا کہ میرا 9 انچ موٹا اور ساڑھے تین انچ موٹا لوڑا ان کی یوٹرس کو بھی پھاڑ دے۔ انہوں نے میرے کان میں کہا کہ اس سے اچھا لوڑا میری زندگی میں نہیں آ سکتا اور تم جو بہترین چدائی کرتے ہو اس کا تو جواب ہی نہیں۔
      میں چاہوں گی کہ میری ساری بہنیں اس چدائی کا تم سے مزہ لیں۔ میں پھر خوش ہو گیااور خیالوں خیالوں میں ان کی چھوٹی بہن بچھی۔
      ارم اور آتی کو بھی چودنے لگا اور بانو کا سوچ کر تو مجھ پر وحشت طاری ہو گئی کیونکہ وہ تو بالکل پٹھانی لگتی تھی اور اسے کا گدرایا ہوا بدن مجھے شروع سے ہی بہت پسند تھا۔ آتی ابھی بہت چھوٹی یعنی تقریبا دس سال کی تھی اس لیے اس کو چودنےمیں تو ابھی کافی سال لگ سکتے تھے لیکن بانو تو ایک ڈیڑھ سال میں چدنے کے لیے تیار ہونے والی تھی اور ساتھ ہی ارم بھی چدنے کو تیار تھی اور بُچھی کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔
      جس کا مطلب تھا کہ بچھی کو چودنے کا وقت قریب تر ہے ویسے تو بانو کے لیے بھی رشتہ تلاش کیا جا رہا تھا اور میرے سسرال کا یہی پروگرام تھا کہ جیسے فرح اور برہ کی شادی اکٹھے کی گئی تھی اسی طرح بچھی اور بانو کی شادی اکٹھی کر دی جائے لیکن ابھی تک بانو کا رشتہ نہیں ہوا تھا۔
      انہیں سوچوں میں گم میں فرح باجی کے ممے چوستے چوستے لوڑا اندر پیل رہا تھا اور میری سپیڈ بہت بڑھ گئی تھی ۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ آفس سے دیر ہو جائے گی تو میں نے اسی طرح لوڑا ڈالے ڈالے فرح باجی کو اٹھایا اور اندر بیڈ پر لا کر ان کی ٹانگیں اٹھائیں اور لوڑا مکمل گھسا کر اندر یوٹرس میں تین چا فئنل جھٹکے لگائے اور اندر اپنی منی چھوڑ دی۔
      تھوڑی دیر میں فرح باجی کے اوپر ہی لیٹا انہیں کسنگ کرتا ریا اور پھر آرام سے اترا اور کپڑے پہن کر نیچے اپنے بیڈ روم میں نہانے چلا گیا ۔
      نیچے بچے ابھی سوئے ہوئے تھے لیکن اماں ابا جاگ چکے تھے ابا باہر سیر کے لیے نکل گئے تھے اور اماں نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
      جیسے پوچھ رہی ہوں کہ تم میاں بیوی نے رات کہاں گزاری؟
      لیکن میں نے ان کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔
      میں تیار ہو کر آفس چلا گیا جہاں عامر کی کال آئی اور اس نے پوچھا کہ کام کیسا چل رہا ہے ؟ خیریت کا تبادلہ ہوا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ جس میٹنگ کے لیے گیا ہے اسے اس میں بہت کامیابی ملی ہے
      لیکن ابھی تین چار دن مزید لگ سکتے ہیں کیونکہ دو مزید کمپنیوں سے بات چل رہی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ آپ بالکل تسلی رکھیں اور کام مکمل کر کے ہی آئیں۔
      دل ہی دل میں میں خوش ہو رہا تھا کہ اب چار دن تو موجیں ہی لگی رہیں گی اور مجھے فرح باجی اور برہ دونوں کو چودنے کا خوب موقع ملے گا۔
      ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فرح باجی کا میسج آ گیا۔ جس میں انہوں نے حال پوچھا اور رات کی پلاننگ کا لکھا۔
      میں نے انہیں کال کر لی اور بتایا کہ عامر تو اگلے تین چار دن نہیں آ رہا اس لیے آپ بے فکر رہیں پھر میں نے ان سے پوچھا کہ ہمیں مزے کے چکر میں پھدی ہی نہیں مارنی بلکہ پھدی مروانے کا جو آپ کا مقصد ہے اس پر بھی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔
      یعنی آپ کے اندر میں اپنا بیٹا پیدا کر سکوں اور آپ اپنے اندر میرے بیٹے کو جنم دے سکیں میں یہ چاہتا تھا کہ ہماری رستہ داری آگے بھی چلے اسی لیے میں ان کی بہت ہی پیاری بیٹیوں کو اپنے گھر میں ہی رکھنا چاہتا تھا یا جتنی ممکن ہو سکے کل کو بچوں کا کوئی اعتبار تو نہیں تھا کہ وہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں یا نہیں۔
      لیکن میری خواہش تھی کہ ہم دونوں گھر ایسے ایک ہو کر رہیں جس کی ابتدا فرح باجی کی پھدی مارنے سے ہو چکی تھی اور میں نے فرح باجی کو صاف کہہ دیا کہ آپ کی بیٹیوں کی پھدیوں پر بھی میرے بیٹوں کا پہلا حق ہو گا۔
      فرح باجی ہنس پڑیں اور کہا کہ یہی تو میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹیوں کی پھدیاں بھی آپ کے بیٹے ہی کھولیں اور اس سے بہتر بات کیا ہو گی بھلا؟
      عامر بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے بھی رشتے آپس میں ہو جائیں۔ میں نے اسے کہا کہ ابھی تو اس کام میں بہت دیر ہے لیکن ہماری نئی رشتہ داری بن چکی ہے کیونکہ اب آپ کی پھدی میرے لوڑے کی ہو چکی ہے
      اس لیے یہ نیا رشتہ تو ہم ہمیشہ دل و جان سے نبھائیں گے۔
      قول اقرار کے بعد ہوائی کسنگ اور پھر رات کا پلان بنایا کہ آج رات ایک نیا ایڈوانچر ہو گا کہ میرے لوڑے کو فرح باجی کی گانڈ کی سیر بھی کروائی جائے گی۔
      یہ سنتے ہی میرا لوڑا کھڑا ہو گیا اور فرح باجی کہنے لگیں کہ اپنے کھڑے اور اکڑے ہوئے لن کی تصیور بھیجو میں نے فورا زپ کھولی اور ویڈیو آن کر کے باجی فرح کو اپنا تنا ہوا لوڑا دکھایا اور باجی فرح نے مجھے اپنے ممے اور پھدی کا بھی دیدار کروا دیا۔
      پھر میں نے فرح باجی سے کہا کہ آپ کی پریگننسی کے لیے ضروری ہے کہ جب آپ کو مینسز آئیں تو ان چار پانچ دنوں میں آپ کی یوٹرس میں منی ڈالوں تو فرح باجی نے بتایا کہ ابھی تو مینسز آنے میں دس دن باقی ہیں میں نے کہا کہ پھر یہ دس دن ہم جی بھر کر چدائی کا مزا لیں گے اور پھر مینسز آنے کے بعد آپ کو پریگننٹ کرنے کی پوری کوشش کروں گا
      لیکن ایک رات میں جو دو پھدیاں اکٹھی چودنے کا جو مزہ میرے لوڑے کا لگ گیا ہے اس کا کیا ہوگا؟
      تو فرح باجی نے مجھے حوصلہ دیا کہ فکر نہ کرو دوسری کیا تیسری پھدی کا بھی انتظام ہو جائے گا۔
      میں اپنے پیارے بہنوئی کے موٹے اور لمبے لوڑے کے لیے پھدیوں کی قطار لگا دوں گی۔
      آفس سے واپسی پر میں نے دیکھا کہ بچے اور بچیاں میری اماں کے اردو گرد جمع تھے اور اماں بھی ان سے بہت پیار کر رہی تھیں۔ میں نے اماں کو سلام کیا پیار لیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
      میں نے حسبِ معمول کپڑے بدلے اور شلوار قمیض میں باہر آ کر بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ فرح باجی کی بڑی بیٹی میرے لیے پانی لے کر آگئی ۔ وہ بہت پیاری بچی تھی۔ میں نے اسے پیار کیا تو باقی بچے بھی میری طرف لپکے میں نے سبھی کو پیار کیا اور سب کو ایک جگہ پیار سے اکٹھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
      سب بچے آپس میں بہت مانوس تھے اور میری اماں کو ہی دادو کہتے اور ابا کو دادا ۔ میرے بچے مجھے ابو کہتے اور فرح باجی کی بیٹیاں مجھے چھوٹے ابو کہتی تھیں ہم نے شروع سے انہیں ایسا ہی سکھایا تھا۔ بلکہ بچیاں تو اپنے والد کی نسبت میرے ساتھ زیادہ مانوس تھیں اور میں بھی انہیں دل سے پیار کرکرتا تھا۔
      ابھی میں ان سے پیار کر ہی رہا تھا کہ کہ سب سے چھوٹی بیٹی جو لگ بھگ دو سال کی تھی میری گود میں بیٹھی میری داڑھی کے ساتھ کھیل رہی تھی مجھے چوم کر کہنے لگی کہ چھوٹے پاپا مجھے بھی ایک بھائی چاہیے۔
      میں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتےہوئے کہا کہ بیٹا یہ تین بھائی ہیں تو سہی تمہارے؟ اس نے بڑی معصومیت سے کہا کہ نہیں چھوٹے پاپا ہم تو چار بہنیں ہی ہیں اور ہمارے امی ابو اور ہیں اور ان کے امی ابو تو اور ہیں۔
      اس کی معصومانہ باتوں نے مجھے بڑا خوش کیا۔ میں نے اسے کہا کہ عرشی بیٹا فکر نہ کرو میری بیٹی کو بھی بھائی ملے گا۔ ہماری یہ باتیں اماں بھی سن رہی تھیں تو جھٹ سے بولیں کہ ذوہیب بیٹا تم ہی عامر اور فرح کو کسی حکیم کے پاس لے جاؤ اور انہیں دوا لے کر دو۔
      میں نے کہا کہ جی ایک دوا شروع کی ہے آپ دعا کریں کہ ان معصوم بچیوں کی یہ خواہش پوری ہو جائے اور مجھے یقین ہے کہ جلد انہیں اپنا ایک عدد بھائی مل جائے گا۔ اماں نے بڑی گہری مسکراہٹ سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ چلو دیکھتے ھین کاش ایسا ہی ہو۔
      میرا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں اماں کو بھی علم تو نہیں کہ فرح باجی کے بیٹے کے لیے میں نے کوشش شروع کر دی ہے؟
      لیکن میں نے اس خیال کو جھٹک دیا۔
      مجھے بچوں سے پیار کرنے دیکھ کر اماں مسکرا رہی تھیں اور کہنے لگیں کہ بچیاں بہت پیاری ہیں میں تو انہیں کبھی اپنے گھر سے جانے نہ دوں گی۔ میں بھی اماں کو دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ جیسے آپ کا حکم ہو اماں۔
      رات کا کھانا کھایا گیا۔ مجھے برہ نے کہا کہ آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے کمرے میں آئیں۔ میں اندر کمرے میں گیا تو برہ کہنے لگی کہ فرح باجی اور میں نے پروگرام بنایا ہے کہ آج آپ ہم دونوں کے ساتھ لان میں پیار کریں گے۔ میں نے کہا کہ یہ کیسا پاگل پن ہے؟
      کوئی بھی رات کو ہمیں دیکھ سکتا ہے اماں یا ابا جان دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن برہ نے کہا کہ ہم دونوں کی یہی خواہش ہے کہ رات بھر لان میں ہی رہیں اور جھولے پر آپ ہم دونوں کو چودیں۔
      میں نے کہا کہ بچوں اور دیگر افرادِ خانہ کا کیا کرنا ہے؟
      برہ کہنے لگی کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں آئے گا فکر نہ کریں ویسے بھی آج ہم اکٹھے نہیں چدوائیں گی ہمارے بچے اماں کے پاس سوتے ہیں اس وقت میں اور آپ چدائی کا کھیل کھیلیں گے اور پھر جب مجھے نیند آ جائے گی تو فرح باجی آ جائیں گی اور مین اوپر ان کی بیٹیوں کے پاس جا کر سو جاؤں گی۔ پھر جب آپ لوگ فارغ ہو گئے تو باجی اوپر اور آپ اپنے کمرے میں۔
      میں صبح نیچے آ جاؤں گی۔ مجھے اس کی پلاننگ جاندار لگی پھر بھی میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر تمہیں یقین ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
      چنانچہ رات کو ہم نے اماں سے کہا کہ ہم دونو باہر لان میں ہیں آپ بچوں کو سلا دیں۔ میں اور برہ نے اچھی طرح جی بھر کر چدائی کا کھیل کھیلا۔
      برہ کہنے لگی کہ فرح باجی بتا رہی تھیں کہ آج ان کا گانڈ مروانے کا پرگرام ہے؟
      مجھے اچانک یاد آیا کہ ہاں وہ تو میری اس سے با ت ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ ہاں وہ کہہ رہی تھی کہ عامر میری گانڈ کے بہت شوقین ہیں تو میں نے کہا کہ تمہاری بہن تو مجھ سے گانڈ نہیں مرواتی لیکن اگر تم مرواؤ گی تو میں شوق سے تمہاری گانڈ میں اپنا موٹا لوڑا پیلوں گا
      جس پر فرح باجی نے کہا کہ ہاں مجھے خوشی ہو گی کہ آپ کا موٹا لمبا لوڑا میری گانڈ کا پھاڑ دے سو آج رات یہی پلان۔۔
      میں نے اور برہ نے جھولے پر خوب چدائی کا کھیل کھیلا برہ کوئی تین چار بار ڈسچارج ہوئی اور بالآخر اسے شدید تھکاوٹ ہو گئی اور نیند آگئی۔
      میں اسے سہارا دے کر فرح باجی کے کمرے تک لے آیا جہاں فرح باجی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کے ساتھ لیٹی ہوئی تھیں ۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ ہم دونوں آ گئے ہیں تو وہ اٹھیں اور مجھ سے لپٹ گئیں اور برہ وہیں ان کی چھوٹی بیٹی قدسی کے ساتھ ڈھیر ہو کر سو گئی۔
      میں اور فرح باجی آپس میں لپٹے ہوئے تھے اور کسنگ کر رہے تھے۔ فرح باجی میری زبان چوس رہی تھیں اور ساتھ ساتھ کہہ رہی تھیں کہ بہنوئی صاحب میری چھوٹی بہن کے ٹھوکو صاحب!۔
      اسے ٹھوک کر اب میری چوت اور گانڈ کی پیاس بجھانے آ گئے ہو۔
      چلو اب میں تمہیں نچوڑتی ہوں اور میری بہن کی پھدی میں جانے والے لوڑے کو چوستی ہوں جس پر میری بہن اور تمہاری منی لگی ہوئی ہے۔ فرح باجی کی ان گرم کرنے والی باتوں نے مرا لن پھر سے کھڑا کر دیا اور فرح باجی نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ میرا لوڑا میرے ٹراؤزر سے نکال کر منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔
      ہم وہیں برہ کے سائڈ پر ہی بیڈ پر لیٹ کر 69 پوزیشن پر چلے گئے اور فرح باجی نے ادھر سے برہ کی چوت بھی ننگی کر لی اور کبھی وہ میرا لوڑا چوس رہی تھی اور کبھی اپنی بہن کی پھدی میں زبان ڈال رہی تھی۔ فرح باجی کی ایک رات کی چدائی نے انہیں مکمل گرم کر دیا تھا اور وہ مجھے کہہ رہی تھیں کہ تمہاری کل رات کی چدائی نے مجھے دیوانہ کر دیا ہے تم اتنی دیر تک چودتے ہو کہ مزہ آ جاتا ہے۔ پھر میں نے انہیں یاد دلایا کہ ہم نے تو آج لان میں چدائی کرنی ہے اور پھر آج تو آپ کی گانڈ میں بھی لوڑا ڈالنا ہے۔
      یہ بات سنتے ہیں فرح باجی جو اب تک کپڑوں سے آزاد ہو چکی تھی نے ایک جھٹکا لیا اور اٹھ کھڑی ہوئیں اور کہنے لگیں کہ اسی طرح ننگے ہی لے چلو مجھے اور جلدی کرو میری چھوٹی بہن کے خاوند۔
      چنانچہ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فرح باجی کو اٹھا لیا کیونکہ مجھے ان کو اٹھانے کا خود بڑا شوق تھا وزن میں بہت ہلکی تھیں۔ میں نے ٹراؤزر بھی نہ پکڑا نہ انہوں نے اپنی شلوار پکڑی اور میں انہیں اٹھائے اٹھائے منہ میں منہ ڈالے جلدی سے زینے اتر کر لان مین جھولے پر لے گیا اور پھر ہم نے 69 کی پوزیشن پر ایک دوسرے کے مورچے سنبھال لیے۔فرح باجی میرے لوڑے کو مکمل چاٹ رہی تھیں اور ٹٹوں کو بھی چاٹتی تھیں اور چوس رہی تھیں اور میں بھی ان کی پھدی اور گانڈکے سوراخ مکمل چاٹ رہا تھا اور اپنی زبان بھی ان کی گانڈ میں ڈال ڈال کر اسے نرم کر رہا تھا اور اب میں نے ایک انگلی بھی گانڈ میں ڈالی شروع کر دی تا کہ لوڑے کی جگپ بنائی جا سکے
      ۔ جب میں نے انگلی ڈالی تو مجھے بالکل بھی نہی لگا کہ ان کی گانڈ کو ان کا شوہر چودتا ہے میں نے جب ان سے کہا تو وہ کہنے لگیں کہ عامر کا لوڑا پتلا ہے اس لیے نہ تو میری پھدی کو ٹھیک طرح سے کھول سکا ہے نہ گانڈ کو۔ اب تم ہی ہو جو میری گانڈ کو کھولو گے۔میں بہت خوش ہوا کہ آج تو شروع ہی گانڈ سے کروں گا اور اس مقصد کے لیے ہی تو میں نے ٹائمنگ بڑھانے والی گولی کھائی تھی۔
      اب میں مکمل تیار تھا اور دو بار فرح باجی بھی ڈسچارج ہو چکی تھی اب ان کی پھدی کسی حد تک پرسکون ہو چکی تھی تو میں ننے ان کو الٹا لٹایااور ان کی گانڈ پر تھوک پھینکا اور ان کے منہ کے قریب ہاتھ لے کر انہیں کہا کہ اس پر تھوک پھینکو سالی جی! باجی فرح نے بھی تھوک پھینکا اور وہ بھی میں باجی فرح کی گانڈ کے سوراخ کے اندر گھسا دیا۔
      اس کے بعد جو باقی بچا وہ میں نے اپنے گیلے لوڑے پر لگایا اور اپنے لن کا ٹوپا باجی فرح کی گانڈ کے سوراخ پر دکھ کر ہلکا سا دھکا دیا جس سے پہلے سے چکنی ہو چکی گانڈ میں میرے لوڑے کا ٹوپا گھس گیا اور میں نے مزید تھوڑا زور لگایا تو لوڑا اندر جانا شروع ہو گیا لیکن باجی فرح کی دبی دبی چیخ نکل رہی تھی اور وہ بہت تکلیف محسوس کر رہی تھیں۔ میں نے بھی زور لگانا نہ چھوڑا اور ن کی تنگ گانڈ کو چیرتا ہوا میرا موٹا لوڑا اندر اترتا چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے میں نے روک لیا اور پھر آہستہ آہستہ لوڑے کو ہلانا شروع کیا اور اندر باہر کرنے لگا۔
      پھر میں نے فرح باجی کو پُرسکون دیکھا تو سپیڈ بڑھا دی۔ تھوڑی دیر ہلکے ہلکے جھٹکے لگانے کے بعد میں نے لوڑے کو گانڈ سے نکال کر پھر ڈال دیا اور پھر لگاتار ایسا کرنے لگا۔
      میں فرح باجی کی گانڈ میں سے لوڑا نکالتا تھا اور پھر پورا اندر گھسیڑ دیتا تھا۔ کوئی پندرہ سے بیس منٹ گانڈ مار چکنے کے بعد فرح باجی کی گانڈ مکمل رواں ہو چکی تھی اور مجھے بہت مزہ آ رہا تھا پھر فرح باجی اب مکمل مزہ لے رہی اور گانڈ مرواتے ہوئے بھی وہ دو بار کم ازکم ڈسچارج ہو چکی تھیں۔
      پھر میں نے انہیں سیدھا کر کے اپنی گود مین بٹھا لیا اور لوڑا ن کی گانڈ میں ڈال کر ان کے ہونٹوں سے ہونٹ لگا دئے۔
      اب ہم ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے اور میرا لوڑا باجی فرح کی گانڈ میں تھا اور ایک دوسرے کی زبانیں چوس رہے تھے اور پھر اسی حالت میں میں کھڑا ہو گیا اور زور شور سے فرح باجی کو چودنے لگا۔
      جب آدھا گھنٹہ کی چدائی ہو چکی تو میں نے فرح باجی سے کہا کہ مزہ آیا؟
      فرح باجی حیران ہو کر کہنے لگیں کہ ذوہیب تم نے تو کمال کر دیا تمہارے عامر بھائی تو گانڈ میں دو تین منٹ ہی نکالتےہیں اور خلاص ہو جاتے ہیں تم نے تو آدھا پونا گھنٹہ لگا دیا اور ابھی لگے ہوئے ہو۔ یو آر امیزنگ!!۔
      میں نے کہا کہ فرح باجی آپ کی خدمت کرنا میرا فرض ہے لیکن آپ کو بیٹا بھی دینا ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ میں آپ کی چوت میں ڈالوں لیکن آپ کے کمرے میں جا کر۔ فرح باجی کہنے لگیں کہ میرے کمرے میں نہیں بلکہ تمہارے کمرے میں۔ میں نے اسی طرح فرح باجی کو اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرح چل پڑا چودتے چودتے میں اپنے کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پر لے جا کر فرح باجی کی گانڈ میں سے لوڑا نکالا اور پھدی میں ڈال دیا۔
      اب چوت کی باری تھی۔ فرح باجی کی چوت میں لن ڈال کر میں نے اسے گھسے پر گھسہ مارنا شروع کیا اور دس منٹ کی دھؤاں دار چدائی کے بعد ان کی یوٹرس کے منہ پر لوڑا سیٹ کیا اور آرام سے یوٹرس میں ڈال کر دو تین جھٹکے دیئے اور اپنی منی ان کی یوٹرس میں گرا دی۔
      اور ان کے اوپر ڈھیر ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد میرا لوڑا خود ہی سکڑ کر ان کی چوت سے باہر آ گیا۔ اور ہم ساتھ ساتھ لیٹ کر سو گئے۔
      منہ اندھیرے ہی میں نے محسوس کیا کہ میرے لوڑے پر کسی کا منہ ہے اور میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ فرح باجی کے منہ میں میرا لوڑا ہے اور وہ اسے فل چوپا لگا رہی ہیں۔
      میں گھبرا گیا اور کہا کہ آپ میرے کمرے میں ہیں اور اگر اماں ابا اور بچوں نے دیکھ لیا تو غضب ہو جائے گا آپ احتیاط سے دیکھ بھال کر باہر جائیں اور اوپر جا کر برہ کو بھیج دیں اور خود اپنے کمرے میں آرام کریں تا کہ کسی کو بھی کچھ پتہ نہ چلے۔
      فرح باجی کہنے لگیں کہ تم مجھے میری چوت میں لوڑا ڈال کر اٹھا کر میرے کمرے تک پہنچا کر آؤ گے تو جاؤں گی ورنہ برہ کا یہیں انتظار کروں گی۔
      میں تو پہلے ہی گرم تھا اور چوس چوس کر میرا لوڑا فرح باجی نے کھڑا کر رکھا تھا سو میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فرح باجی کی ٹانگیں اٹھا کر اپنا لڑا ان کی پھدی میں گھسیڑ دیا۔ فرح باجی کی نیم گیلی پھدی میں میرا لوڑا پھنس کر اندر گیا۔
      اور میں نے دما دم مست قلندر کرنا شروع کر دیا۔ میرا لوڑا فل ٹائٹ ہو کر فرح باجی کی پھدیا میں گھسے پر گھسا مار رہا تھا۔ لن اور پھدی کی اسی گشتا گشتی میں میں نے فرح باجی کو اٹھایا اور خود بھی کھڑا ہو گیا۔ فرح باجی کو اس طرح چودنے کا جو مزہ آتا وہ کبھی کسی بھی چوت مارنے کا نہیں آیا۔
      سو میں نے فرح باجی کے منہ میں منہ ڈال دیااور فرح باجی میری گردن میں باہی ڈال کر میرے ساتھ چمٹ گئیں اور میں نے انہیں کھڑے کھڑے چودنا شروع کر دیا اسی چودا چدائی میں میں باہر کی طرف چلا دروازہ کھول کر راہداری میں دیکھا تو گھر میں سکون تھااور کوئی بھی جاگ نہیں رہا تھا۔ میں فرح باجی کو چودتے ہوئے تیزی سے نکلا اور سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا سیڑھیاں چڑھ کر فرح باجی کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ برہ فرح باجی کے بیڈ پر بے سدھ سوئی ہوئی ہے۔
      میں نے صوفے پر لٹا کر فرح باجی کو چودنے لگا اور کوئی دس پندرہ منٹ کی دھواں دار چدائی کے بعد ان کی یوٹرس میں فارغ ہو گیا۔ میں نے فرح باجی سے کہا کہ میں چلتا ہوں آپ کچھ مزید سو لیں اور تھوڑی دیر تک برہ کو نیچے بھیج دیں۔
      میں نے وہاں سے احتیاطاً عامر بھائی کا ایک ٹراؤزر پہن لیا کہ کوئی مجھے ننگا دیکھ کر کیا سمجھے گا۔ میں نیچے کمرے میں آیا اور بے سدھ لیٹ گیا تھوڑی ہی دیر میں سو گیا۔ ٹھیک آٹھ بجے برہ نے مجھے جگایا اور کہا کہ دفتر سے دیر ہو رہی ہے اور پھر آج عامر بھائی بھی آ رہے ہیں آپ تیار ہو کر ناشتہ کر لیں۔
      میں نے عامر بھائی کی واپسی کا سن کر اداسی محسوس کی۔کہ گویا فرح باجی کی چوت آج سے نہیں ملے گی۔
      لیکن برہ نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو ہم دونو بہنوں کے سرتاج عامر بھائی کو معلوم نہیں ہو گا لیکن آپ کو فرح باجی کی پھدی روزانہ ملا کرے گی جب تک وہ آپ کی منی سے پریگننٹ نہیں ہو جاتی تو میں خوش ہو گیا۔
      جارھی ھے۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #4
        ۔نیو اپڈیٹ۔
        ۔میں تیار ہو کر دفتر پہنچا ہی تھا کہ عامر بھائی بھی آ گئے وہ ائرپورٹ سے سیدھے دفتر ہی پہنچے تھے میں نے انہیں ویلکم کیا اور ناشتہ وغیرہ کروا کر کافی پلا کر انہی کے آفس میں بیٹھ گیا اور ہم دونو بھائی ایک دوسرے سے معاملات ڈسکس کرنے لگے۔
        کوئی دو گھنٹے میں انہوں نے مجھے وہاں کی اورمیں نے یہاں کی صورت حال انہیں بتائی۔
        اچانک عامر بھائی کہنے لگے کہ ذوہیب! یار وہ تمہاری فرح باجی نے رٹ لگائی ہوئی کہ ہمیں بیٹا چاہیے میں اس وجہ سے کبھی پریشان ہو جاتا ہوں امی بھی کہہ رہی تھیں کہ تم سے مشورہ کروں۔
        میں نے ہنستے ہنستے کہا کہ عامر بھائی آپ کو تو پتہ ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا آپ کی چار بیٹیاں ہیں جن میں سے تین تو میری ہوئیں میرے بیٹے آپ لے لیجیے اور بیٹیاں مجھے دے دیں۔
        باوجود اس کے فرح باجی کی چھوٹی بہن اور آپ کی سالی صاحبہ یعنی میری بیوی کو بیٹی کی خواہش ہے دنیا کسی حال میں خوش نہیں لیکن آپ فکر نہ کریں کچھ کرتے ہیں آپ ریلیکس رہیں۔
        عامر بھائی نے کہا کہ یار بہت بڑا بوجھ تم نے مجھ پر سے ہلکا کر دیا ہے۔ میں کہا کہ عامر بھائی آپ فکر نہ کریں اماں نے بھی مجھ سے فرح باجی کی اس پریشانی کا ذکر کیا تھا اورمیں نے کہا تھا کہ ان سے بات کروں گا آپ کا انتظار تھا تو آج بات کر لیں گے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد فرح باجی آپ سے اس قسم کی بات نہیں کریں گی اور اگلا بچہ آپ کا بیٹا ہی ہو گا ۔
        عامر بھائی بہت خوش ہوئے اور میرا شکریہ ادا کیا ان کی آنکھوں میں آنس تھے۔ میں نے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا کہ عامر بھائی آپ کو میں ہم زلف نہیں بلکہ اپنا بڑا بھائی سمجھتا ہوں اور آپ بھی ایسا ہی سمجھاکریں میرے بیٹے آپ کے ہی ہیں اور آپ کی پریاں میری جان ہیں۔
        عامر بھائی بولے ایسا تو ہے۔ آپ لوگ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر ہم اپنے اپنے کام لگ گئے اور چھٹی کے بعد دونوں میرے والی کار میں گھر روانہ ہوئے۔ گھر پہنچے تو عامر بھائی کا شایان شان استقبال کرنے کے لیے اماں ابا فرح باجی میرے تین بیٹے اور عامر بھائی کی 4 بیٹیاں لان میں ہی جمع تھے۔
        سب نے اپنی اپنی محبت کا اظہار کیا اور سبھی بہت خوش تھے۔ میرے بیٹے عامر بھائی کو تاؤ جان کہہ کر چمٹ گئے اور عمار بھائی کی بیٹیاں پہلے مجھے چمٹیں اور چھوٹے پاپا کہہ کر میرے ساتھ پیار کرنے لگی۔
        سب سے چھوٹی کو میں نے اٹھا لیا اور اسی خوشی کےماحول میں ہم سب اندر کی طرف چل پڑے۔ میں نے نوٹ کیا کہ برہ کی آنکھوں میں عامر بھائی کو دیکھ کر بہت چمک آ چکی تھی۔
        جیسے اب اس کی پھدی کی قسمت کھولنے ایک اور لوڑا پہنچ چکا ہو مجھے بھی بڑا عجیب سا خوشی کا احساس ہو رہا تھا اور میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ ایک ہی بیڈ پر ہم چاروں ایک دوسرے کی چدائی کرتے دکھائی دیں گے۔
        بس عامر بھائی کو کس طرح ساتھ ملانا ہے وہ طے کرنا باقی تھا لیکن یہ سب اس کے بعد ہونا تھا جب فرح باجی پرنگننٹ ہو جائے گی اور الٹرا ساؤنڈ سے یہ بات کلیئر نہ ہو جائے کہ ان کے پیٹ میں بیٹا ہی ہے۔ ہم سب خوشی خوشی اپنے کمروں میں گئے میں نے کپڑے بدلے اور فریش ہو کر ڈائننگ ٹیبل پر آگیا۔
        ادھر عامر بھائی اور فرح باجی ابھی نہیں آئے تھے اور برہ نے سارا کھانا فرح باجی کی بڑی بیٹی کے ساتھ مل کر لگا دیا تھا۔ بچے سبھی میرے ارد گرد جمع تھے جبکہ عامر بھائی اور فرح باجی دونوں غائب۔
        میں سمجھ گیا کہ عامر بھائی نے آتے ہی اپنا غبار نکالنا ہے لیکن مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ وہ کنڈوم استعمال کرتے ہیں کہ کہیں پریگننسی نہ ہو جائے کیونکہ انہیں ڈاکٹرز نے بتا دیا ہوا تھا کہ ان کے سپرم میں بیٹا پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ بیٹے کی خواہش میں وہ اپنی سیکس لائف سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں اس لیے وہ فرح باجی کی یوٹرس میں منی نہیں گراتے تھے۔ لیکن انہیں علم ہی نہیں تھا کہ ان کی غیرموجودگی میں ان کے بیٹے کے لیے عمل شروع ہو چکا ہے۔
        تھوڑی دیر بعد فرح باجی اور عامر بھائی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اوپر سے نیچے آ گئے اور فرح باجی بہت چہک رہی تھیں۔
        مجھے آنکھ مارتے ہوئے سب کو مخاطب کر کے بولیں کہ سوری ہمیں تھوڑی دیر ہوگئی۔
        برہ نے کہا کہ کوئی بات نہیں باجی ۔اماں کہنے لگیں کہ اتنے دنوں بعد ملے ہو تو ایسا ہو جاتا ہے۔ اس پر ہم سب مسکرانے لگے اوریہ پہلا موقع تھا کہ برہ نے فقرہ کسا کہ عامر بھائی کو تو بس فرح باجی نظر آگئی تو وہ کھانا پینا سب بھول گئے۔
        جس پر عامر بھائی نے بھی ہنستے ہنستے برہ پر جملہ کسا کہ جی سالی صاحبہ یہ تو ہے۔۔
        مجھے لگا کہ ایک لفظ اور ایک جملہ ہی عامر بھائی اور میری بیوی برہ کو بیڈ پر لے گیا ہے اور وہ دونوں آپس میں چمٹے پڑے ہیں۔ مجھے اطمنان ہوگیا کہ دونوں بہنوں نے جو سکیم بنائی ہے وہ زبردست ہے اور ہمیں کیا چاہیے پھدی؟
        بدل بدل کے وہ ہمیں ملا کرے گی بلکہ میرا ٹارگٹ تو اب برہ کی چھوٹی بہنیں تھیں اور ان کی ایک بہن کی شادی کے دن رکھ دیئے گئے تھے اور میری خواہش تھی کہ میں ہی ان کی چھوٹی بہن بچھی کی سیل توڑوں اب مجھے اس ٹارگٹ پر کام کرنا پڑے گا جیسے بھی ہو۔
        اور میرا یہ کام فرح باجی اور برہ دونوں مل کر بہترین طریقے سے کروا سکتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو اور میں بُچھی کی سیل توڑ دوں۔
        میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ فرح باجی کی آواز مرے کانوں سے ٹکرائی کہ بہنوئی صاحب کہاں گم ہیں کھانا نہیں کھانا؟
        میں چونکا اور اپنی پلیٹ میں بریانی ڈالنے لگا جو عامر بھائی کی آمد کی خوشی میں پکائی گئی تھی۔ فرح اور برہ نے مل کر بہترین کھانے پکائے تھے
        جس پر عامر بھائی بہت خوش اور تشکر کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے فرح باجی کی طرف دیکھا تو انہوں نے مجھے آنکھ کے اشارے سے شکریہ ادا کرتے ہوئے آداب کہہ دیا۔
        میں مسکرایا اور ان کی بیٹیوں کی طرف دیکھا اور اپنی عادت کے مطابق سب بچوں کی پلیٹس پر نظر کی کہ سب نے کھانا ڈال لیا ہے کیونکہ میں اس وقت تک کھانا شروع نہیں کرتا تھا جب تک سب لوگ کھانا ڈال نہ لیں یہ اماں ابا کی سکھائی ہوئی عادت تھی کہ اس طرح گھر میں اور کھانے میں برکت رہتی ہے۔
        کھانے کے بعد ہم سب لان میں آ گئے اور فرح اور برہ چائے بنانے لگ گئیں۔ بچے ہمارے سامنے کھیلنے لگے عامر بھائی نے کہا کہ ذوہیب بتاؤ یار کیا کیا جائے۔
        میں نے پوچھا کہ کس کا؟
        کہنے لگے کہ تمہاری باجی فرح کہتی ہے کہ اسے بیٹا چاہیے میں کہتا ہوں کہ گھر میں تین بیٹے ہیں وہ کہتی ہے کہ وہ اپنے پیٹ سے پیدا کرنا چاہتی ہے پھر کیا کیا جائے؟
        میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ناشکری عورتیں ہیں اب برہ کو دیکھ لیں وہ بیٹی چاہتی ہے اور فرح باجی بیٹا حالانکہ میں نے کہا بھی ہے کہ میرے تینوں بیٹے آپ دنوں کے ہیں اور آپ کی چاروں بیٹیاں میری اور برہ کی۔ لیکن وہ بھی یہی کہتی ہے کہ نہیں بیٹی وہ جو میں پیدا کروں۔
        اب دیکھتے ہیں اس کے متعلق کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں تا کہ دونوں کی خواہشیں پوری ہو جائیں ابھی ہم یہ بات کر رہے تھے کہ اماں کے لیے فرح باجی اور برہ چائے کی ٹرے اٹھائے وہیں آ گئیں۔
        ہم چائے پینے لگے اور عامر بھائی سے کراچی کے واقعات سننے لگے۔ چائے پینے کے بعد عامر بھائی نے کہا کہ مجھے تو بہت تھکاوٹ ہو رہی ہے اس لیے میں تو چلا سونے۔ میں نے برہ کو اشارہ کیا اس نے فرح باجی سے کہا کہ باجی آپ بھی جائیں یہ برتن ہم سمیٹ لیں گے۔
        یوں فرح باجی اورعامر بھائی اوپر اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔ بچے تو دادی اماں کے ساتھ پہلے ہی جا چکے تھے۔ عامر بھائی اور فرح باجی کو آج رات بیڈ روم میں آزادی دے دی گئی تھی۔
        ادھر میں اور برہ اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔ برہ نے مجھ سے کہا کہ ایک سرپرائز ہے میں نے کہا کہ کیا؟ تو اس نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور کہا کہ دیکھیں مزہ کریں۔ میں نے دیکھا تو بڑا حیران ہوا کہ لیپ ٹاپ پر فرح باجی اور عامر بھائی کا کمرہ نظر آرہا تھااور وہ دونوں باہم چمٹے ہوئے تھے۔ کسنگ کرتے جا رہے تھے۔
        میں بڑا حیران ہوا ۔برہ نے کہا کہ ہم دونوں نے مل کر یہ دو خفیہ کیمرے فرح باجی کے کمرے میں آج ہی لگائے ہیں اور یہ آئیڈیا فرح باجی کا تھا کہ جو بھی فرح باجی کے بیڈ روم اور باتھ روم میں چدے گی اسے اس بیڈ روم میں دیکھا جا سکے گا۔ اور اس کی پہلی قسط میں اور برہ منہ میں منہ ڈالے ننگے ہو کر دیکھ رہے تھے ادھر عامر بھائی اور فرح باجی ننگے ہو چکے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ عامر بھائی کا لوڑا میرے لوڑے جتنا لمبا بھی نہین تھا ۔
        میرے لوڑے کے مقابلے مین اس کی موٹائی تو نہہ ہونے کے برابر تھی۔ اب فرح باجی عامر بھائی کا لوڑا چوس رہی تھیں اور عامر بھائی 69 کی پوزیشن بنائے فرح باجی کی وہ پھدی چوس رہے تھے جو میں تین چار دن سے استعمال کر رہا تھا۔
        فرح باجی چوپا ماسٹر تھیں تو عامر بھائی پھدی چاٹنے کے ماہر۔
        برہ سے رہا نہین جا رہا تھا مجھے کہنے لگی کہ دیکھیں ذوہی جان! عامر بھائی کس طرح زبردست چاٹتے ہیں۔
        میں نے کہا کہ وہ بھی تو دیکھو کہ فرح باجی کتنا زبردست چوپا لگاتی ہیں۔ خیر باتیں جاری تھیں اور ہم انہیں دیکھتے جا رہے تھے اور میں نے برہ کو لوڑا ڈال دیا اور دما دم چدائی شروع کر دی۔
        ہمیں چدائی کرتے کرتے بیس منٹ گزر گئے کہ عامر بھائی نےفرح باجی کی پھدی میں لوڑا ڈالنے کی کوشش کی تو فرح باجی نے پھدی کی بجائے گانڈ آگے کر دی تو عامر بھائی کو بہت جوش آگیا وہ خوش ہو گئے کہ آج گانڈ بغیر کہے مل گئی۔
        انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ تھوڑا لن پر اور بہت سا گانڈ کی موری پر تھوک لگایا اور ایک دم اندر کر دیا۔ فرح باجی کے مزے ہو گئے وہ تو میرا لوڑا جو عامر بھائی کے لوڑے سے دگنا موٹا تھا اپنی گانڈ میں مسلسل تین راتوں سے لے رہیں تھیں اس لیے اس لوڑے کا کوئی مسئلہ نہ ہوا۔
        ابھی دس گھسے ہی مارے ہوں گے کہ عامر بھائی کی ہار گئی اور ان کا لوڑا اپنا آپ چھوڑ گیا اور فرح باجی کی گانڈ میں پچکاریاں مارتاہوا فارغ ہو گیا۔
        میں نے برہ سے کہا کہ دیکھو آج میں بھی تمہاری گانڈ میں لوڑا ڈالوں گا اور یہ بات برہ کو پسند نہیں تھی وہ بہت کم گانڈ مرواتی تھی لیکن آج عامر بھائی کا لوڑا گانڈ میں جاتا دیکھ کر اسے بھی کچھ محسوس ہوا اور مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا آپ نے فرح باجی کی گانڈ بھی ماری ہے؟
        میں نے کہا کہ ہاں دوسری رات سے ہی مار رہا ہوں۔ تو برہ کہنے لگی کہ آج سے میں بھی باقاعدہ گانڈ مروایا کروں گی۔
        کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ عامر بھائی کو گانڈ میں زیادہ مزہ آتا ہے۔
        لیکن اس بات پر ہم دونوں کو مایوسی ہوئی کہ عامر بھائی نے گن کر دس گھسے بھی فرح باجی کی گانڈ میں مارے ہوں گے کہ ڈسچارج ہو گئے۔۔۔۔اور اب دونوں بیڈ پر الگ الگ سو رہے تھے۔۔۔۔۔
        ہم دونوں کی چدائی سپیڈ تیز ہو چکی تھی کہ میں نے دیکھا کہ فرح باجی اٹھی ہیں اور لائٹ آف کر کے اپنے کمرے سے باہر نکلیں اور کچھ ہی دیر میں ہمارے بیڈ روم میں تھیں اب ان کے کمرے میں صرف عامر بھائی سوئے ہوئے تھے۔ میں گھبرا گیا لیکن برہ نے کہا کہ کیمرے اسی لیے لگائے ہیں کہ اگر عامر بھائی جاگ جائیں تو فرح باجی فورا اوپر اپنے بیڈ روم میں چلی جائیں اب جلدی کریں اور فرح باجی کی یوٹریس میں اپنا مال ڈالیں اسی لیے فرح باجی نے عامر بھائی سے گانڈ مروائی ہے۔
        میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فرح باجی کو گود میں اٹھایا اور لوڑا پیل دیا۔ میں نے آرام آرام سے اندر باہر کرتے ہوئے فرح باجی پر بیس منٹ لگائے اور پھر سیدھا لٹا کر ان کی یوٹریس میں اپنا سارا مال نکال دیا۔
        تھوڑی دیر فرح باجی لیٹی رہیں پھر اٹھنے لگیں تو میں نے کہا کہ نہیں آپ نہ اٹھیں میں اٹھا ٹراؤزر پہنا اور فرح باجی کو ایسے اٹھا لیا جیسا کسی بچے کا باہوں پر اٹھایا جاتا ہے اور ان کو لے کر ان کے بیڈ روم کی طرف چلا اوپر جا کر دیکھا کہ عامر بھائی بے سدھ دوسری طرف منہ کر کے سوئے ہوئے ہیں تو میں نے آرام سے فرح باجی کو احتیاط کے ساتھ بیڈ پر لٹا دیا اور دبے پاؤں واپس اپنے بیڈ روم میں آ گیا اور یوں وہ رات بھی مرادون والی رات رہی جس میں فرح باجی نے دو لوڑے لیے ایک گانڈ میں اور ایک پھدی میں۔
        جبکہ برہ کو ابھی ایک ہی لوڑا مل سکا لیکن اس کا انتظار تھا کہ تین چار ماہ کے بعد جب کنفرم ہو جائے گا کہ فرح باجی پریگننٹ ہو گئی ہیں اور ان کے پیٹ میں میرا بچہ ہے تو پھر عامر بھائی کی انٹری ہو گی اور پھر دھؤاں دار چدائی سیشن ہوا کرے گا
        برہ کے ساتھ دو لوڑوں کا اور پھر کچھ ہفتوں کے بعد اس کی پریگننسی کی کوشش کی جائے گی اور وہ بھی عامر بھائی کی منی سے کیونکہ برہ کو ایک بیٹی بھی چاہیے اور مزہ بھی۔ اب ہم نے لیپ ٹاپ آف کیا اور سو گئے۔ صبح جاگے، .
        ناشتہ کیااور میں جلدی نکل گیا جبکہ عامر بھائی نے بعد میں آفس آنا تھا میں جلدی سے نکل رہا تھا تو عامر بھائی اوپر سے نیچے آئے میں نے کہا کہ بھائی جان میں جا رہا ہوں آپ بھی تیار ہو کر آ جائیں۔
        آج میں نے ایک ڈاکٹر سے اپوائنٹ منٹ لی ہے برہ اور فرح باجی دونوں چلی جائیں گی اور ان سے مل لیں گی اور جو بھی بات ہوئی پھر پتہ چل جائے گا رات کو۔ یہ سکیم بھی برہ اور فرح باجی نے مل کر بنائی تھی تا کہ پریگننسی ہونے تک عامر بھائی کو علم نہ ہو کہ چودا چدائی کا کھیل ان کی بیوی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
        جاری ھے۔
        Vist My Thread View My Posts
        you will never a disappointed

        Comment


        • #5
          ۔نیو اپڈیٹ۔
          آفس میں پہنچتے ہی عامر بھائی نے مجھے انٹر کام کیا کہ ذوہیب ۔بہت شکریہ تم نے انتظام کر دیا میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ فکر نہ کریں ہر قیمت پر اسی سال فرح باجی کی گود میں ایک پیارا سا بیٹا ہوگا اور اگلے سال برہ کی گود میں ایک پیاری سی ننھی سی بیٹی ہو گی اور ہم دونوں کی فورا منگنی کر دیں گے ۔
          عامر بھائی بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دینے لگے کہ تم لوگوں نے ہم سے بہت پیار کیا اور بہت خیال رکھا لیکن میں انہیں ابھی بتا نہیں سکتا تھا کہ ان کی بیوی کا ڈاکٹر تو میں تھا اور جلد ہی وہ میری بیوی کے ڈاکٹر بن جائیں گے اور اس طرح دونوں بہنوں کی مراد پوری ہو گی۔
          رات کو فرح باجی نے بتایا کہ ڈاکٹر نے کچھ ادویات دی ہیں جو صرف عورت نے کھانی ہوتی ہیں اس لیے وہ میں کھاؤں گی اور ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس ماہ یا اگلے ماہ کوشش کریں پریگننسی کی کام ہو جائے گا۔ اب اصل بات کا تو ہم تینوں کو علم تھا کہ اصل چکر کیا ہے۔ میں نے کہا کہ برہ تم نے اپنی بات کی تو برہ نے کہا کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آپ فرح باجی والا تجربہ کر لیں پھر اس کے بعد آپ کو دوا دوں گی۔
          چنانچہ عامر بھائی بھی خوش ہو گئے اور مجھے گلے ملے۔ میں نے کہا کہ خوش رہیں اور عامر بھائی کے گلے لگے لگے میں فرح باجی کی طرف دیکھ رہا تھا جو مجھے فلائنگ کس دے رہی تھیں۔
          اب ہم چدائی میں محتاط ہو گئے تھے کیونکہ فرح باجی کی پریگننسی والے دن گزر چکے تھے اور میں چاہتا تھا کہ وہ اسی ماہ پریگننٹ ہو جائیں اور بالآخر وہ دن آگیا فرح باجی کو ان کی مقررہ تاریخ پر مینسس نہیں آئے تو برہ اور فرح باجی بہت خوش لگ رہی تھیں۔ رات کو برہ نے مجھے گانڈ بھی دی اور بتایا کہ آج فرح باجی کا پریگننسی ٹسٹ کروایا ہے جو پازیٹو آیا ہے۔
          اس لیے اب تیار ہو جائیں کہ میں بھی عامر بھائی کا پتلا لمبا لوڑا لوں گی۔ میں نے کہا کہ کیا سکیم ہے؟
          تو وہ مجھے بتانے لگی کہ جب باجی کا کنفرم ہو جائے گا کہ لڑکا ہے اور پھر یہ بھی کہ پریگننسی کے ماہ زیادہ ہو جائیں گے تو ظاہر ہے کہ عامر بھائی کو ضرورت ہو گی سیکس کی تو اسی سے فائدہ اٹھائیں گے اور فرح باجی ہمیں موقع دیں گی اور میں پہلے تو چپکے سے ایک آدھ بار ان سے چدائی کرواؤں گی اور آپ یہاں لیپ ٹاپ پر دیکھیں گے اور پھر ہم چاروں یہ بات کھول دیں گے اور پھر اس راز کے چاروں شریک ہو جائیں گے۔
          میں نے کہا کہ سکیم تو زبردست ہے اب دیکھیں کب اس پر عمل درآمد ہوگا۔
          اب ہم روزانہ لیپ ٹاپ آن کر لیتے اور رات کو عامر بھائی اور فرح باجی کی چھیڑ چھاڑ دیکھتے تھے۔
          فرح باجی میری منی سے پریگننٹ ہو چکی تھیں اور ان کی پریگننسی کا ابھی تک ہم تینوں کے سوا کسی اور کو علم نہیں تھا۔ عامر بھائی تھوڑے سے الجھے ہوئے نظر آتے تھے لیکن معاملات چل رہے تھے۔
          عامر بھائی کیا بات ہے آپ کچھ اداس اور پریشان ہیں؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو عامر بھائی ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اذوہیب ایک بات کہوں اگر برا نہ مانو؟
          میں نے کہا کہ عامر بھائی آپ کی بات کا برا کیوں مانوں گا آپ میرے بھائی ہیں دوست ہیں اور ہم زلف ہیں بولیں۔
          تو عامر بھائی نے اچانک ایسی بات کر دی کہ میں حیران رہ گیا۔ عامر بھائی بولے کہ یار ہم ایسے ہی ڈاکٹروں کے پاس بھاگے پھرتے رہے ہم گھر میں ہی علاج کر سکتے تھے۔ میں نے حیرت سے کہا کہ وہ کیسے؟
          عامر بھائی کہنے لگے کہ اگر تم برا نہ مانو تو بتا دیتا ہوں لیکن وعدہ کرو کہ یہ بات تمہارے اور میرے مابین رہے گی تم کسی سے بات نہ کرو گے۔
          میں نے وعدہ کر لیا کیونکہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ بات کیا ہونے والی ہے۔اب اتنا بچہ تو میں بھی نہیں تھا کہ سمجھ نہ پاتا اور جو بات عامر بھائی کرنے والے تھے وہ تو ہم پہلے سے کر بھی چکے تھے اور فرح باجی اب میری بچے کی ماں بننے والی تھیں۔
          بہرحال میں نے خود کو آنے والے حالات کے لیے سنبھال لیا اور عامر بھائی سے کہا کہ جی بھائی جان آپ بات کریں۔
          عامر بھائی کہنے لگے کہ ہو سکتا کہ میری بات تمہارے لیے ایک دھماکا ہو لیکن تم اس کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سننا اس پر غور کرنا اور پھر فیصلہ کرنا۔
          میں نے کہا کہ عامر بھائی آپ حکم کریں۔ تو عامر بھائی نے کہا کہ اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر سنو! ہماری شادی اکٹھے ہوئی؟شادی کے بعد ہمارا بہت اچھا بھائیوں والا رشتہ بن گیا؟ تم ہمیشہ مجھے بڑے بھائی والا پیار اور ادب دیتے ہو اور فرح کو بڑی بہن کی طرح سمجھتے ہو۔
          میرے کاروبار کے تباہ ہونے کے بعد مجھے اپنے ساتھ اپنے کاروبار میں شریک کر لیا اور ہم دونو مل کر کام کر رہے ہیں اور اب ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں۔
          مجھے معلوم ہے کہ تمہارے تین بیٹے ہیں اور میری چار بیٹیاں ہیں اور میرے سپرم میں ڈاکٹرز کہہ چکے ہیں کہ بیٹا پیدا کرنے والے سپرم نہیں ہیں
          اس لیے میں تمہیں ہم زلف ہونے کے ناطے یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم چونکہ ہم زلف ہیں اس لیے تم فرح کی زلفوں میں ہو یا میں برہ کی زلفوں میں ہیں۔
          تو ایک جیسی زلفیں؟
          تو میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اور فرح کو ایک تحفہ دو اور وہ یہ کہ تمہارے سپرم سے فرح کو بیٹا ہو سکتا ہے اس لیے تم ہمارے لیے ایک کوشش کرو کیونکہ اگر تمہارے سپرم سے فرح پریگننٹ ہو جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن میں یہ برداشت نہیں کروں گا کہ کسی اور کا بیٹا میری بیوی پیدا کرے اور میں اس کا باپ کہلاؤں اور مجھے سارا علم ہے کہ کوئی ایسا علاج دنیا بھر میں موجود نہیں کہ جس سے میرے اندر ایکس سپرم پیدا ہو جائیں۔
          تو اگر ہم ٹسٹ ٹیوب بھی کروائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر کسی اور مردکا سپرم فرح کی یوٹرس میں رکھ دیں اس لیے مجھے قابل قبول نہیں لیکن تمہارا سپرم فرح کے اندر مجھے قبول ہو گا۔
          میں نے تسلی سے عامر بھائی کی بات سنی اور کہا کہ عامر بھائی مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ کو سپرم دے دیتا ہوں اور آپ ٹسٹ ٹیوب بے بی پلان کر لیں۔ عامر بھایئ میری بات سن کر بہت خوش ہوئے لیکن کہنے لگے کہ بات تو ٹھیک ہے کہ ہم تمہارے سپرم لے کر ٹسٹ ٹیوب کروا سکتے ہیں لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ کسی کو یہ معلوم ہو کہ ہم نے ٹسٹ ٹیوب کروایا ہے میں چاہتا ہوں کہ سب ایسے نارمل طریقے سے ہو کہ سب کو یہی ہو کہ یہ بچہ عامر اور فرح کا ہے اور کسی کو کوئی شک نہ گزرے۔
          میں نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟
          عامر بھائی کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنے سپرم نارمل طریقے سے فرح کی یوٹرس میں ڈال دو اور اس طرح کہ اسے بھی پتہ نہ چلے۔
          میں نے کہا کہ عامر بھائی وہ کیسے؟
          تو عامر بھائی کہنے لگے کہ میرے خیال میں جب فرح مینسز نہا لے اور اس کے پریگننسی کے دن ہوں تو وہ تین چار دن تم اس کے ساتھ جفتی کرو۔
          یعنی اس کے ساتھ سیکس کرو اور اس کی یوٹرس میں اپنی منی ڈال دو۔
          میں نے کہا کہ ایسا کس طرح ممکن ہے؟ فرح باجی کیسے مانیں گی؟
          اور برہ کو معلوم ہو گیا تو غضب ہو جائے گا۔ عامر بھائی کہنے لگے کہ اس کی پلاننگ میں نے کر لی ہوئی ہے وہ اس طرح کہ فرح کو رات گہری نیند سلا دیا کروں گا اور تم آ کر دس پندرہ منٹ میں کام کر دیا کرنا اور یوں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔میں نے کہا کہ عامر بھائی ویسے اچھا تو نہیں لگتا لیکن آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے۔
          میں نے دل میں سوچا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عامر بھائی کو سب حقیقت بتا دینی چاہیے تا کہ عامر بھائی خوش ہو جائیں کہ یہ راز راز ہی رہے گا اور ان کو بیٹا بھی مل جائے گا اور ان کے سپرم سے میری بیوی ایک بیٹی بھی لے لے گی۔
          چنانچہ میں نے عامر بھائی کو اس راز میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے کہا کہ عامر بھائی بات یہ ہے کہ میں آپ کا یہ کام کرنے کو تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔
          عامر بھائی کے چہرے پر تذبذب کے آثار ظاہر ہوئے اور کہنے لگے کہ وہ کیا؟ میں نے کہا کہ میں فرح باجی کی یوٹرس میں اپنی منی ڈال کر کوشش کروں گا کہ بیٹا پیدا ہو جائے تو آپ کو بھی برہ کی یوٹرس میں اپنی منی ڈال کر ہمارے لیے بیٹی پیدا کرنی ہو گی۔
          میری یہ بات سن کر عامر بھائی نے مجھے سینے سے لگا لیا کہ احمد تم نے مجھے خوش کر دیا ہے اور واقعی ہم زلف ہونے کا ثبوت دیا ہے اب چاروں کا اکٹھ ہو جائے گا اور مجھے کوئی اعتراض نہیں میں تیار ہوں یوں گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے گی۔
          پھر میں نے عامر بھائی کو ایک اور سرپرائز دیا کہ عامر بھائی پھر خوش خبری سن لیں کہ آپ کی غیرموجودگی میں برہ اور فرح باجی نے مجھ سے بات کی اور ہم تینوں مل کر روزانہ سیکس کرتے رہے ہیں اور اسی نیت سے میں فرح باجی کی یوٹرس میں اپنی منی ڈالتا رہا کہ وہ پریگننٹ ہو جائیں کیونکہ ان کے پریگننسی والے دن تھے اور وہ پریگننٹ ہو بھی چکی ہیں مبارک ہو آج ہی ان کا ٹسٹ پازیٹو آیا ہے اور ڈاکٹر کے پاس جانے والا ڈرامہ ہم تینوں نے کیا تھا تا کہ آپ کو معلوم نہ ہو لیکن ہمارا یہ پروگرام تھا کہ جب کنفرم ہو جائے گا کہ فرح باجی کے پیٹ میں بیٹا ہے تو پھر برہ کو آپ سے پریگننٹ کروانا ہے۔
          پریگننٹ کروانا ہے۔
          یہ ہماری ساری سکیم ہے جس کے آدھے حصے پر عمل درآمد ہو چکا ہے اور آپ ایک عدد بیٹے کے باپ بننے والے ہیں۔ عامر بھائی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ مجھے چھوڑ ہی نہیں رہے تھے۔
          میں نے بھی انہیں کس کر پکڑا ہوا تھا اور میں نے ان کے کان میں کہا کہ آپ اور برہ اب ایک بیٹی پیدا کریں گے اور پھر آپ کا بیٹا اور میری بیٹی دونوں کی شادی ہو گی۔۔۔۔
          ہم دونو نے یہ عہد کیا کہ ابھی ہم نے فرح باجی اور برہ کو یہ نہیں بتانا کہ ہم دونوں کے مابین یہ بات ہو چکی ہے اور عامر بھائی کو معلوم ہو چکا ہے کہ فرح باجی کو ذوہیب پریگننٹ کر چکا ہے۔
          میں نے عامر بھائی سے کہا کہ بھائی جان اب آپ تیار ہو جائیں جیسے ہی یہ کنفرم ہو گا کہ فرح باجی کے پیٹ میں بیٹا ہے ویسے ہی آپ اور برہ میں ملاپ ہو گا اور ہم کوشش کریں گے کہ آپ برہ کو پریگننٹ کر دیں اور اس کے پیٹ سے بیٹی پیدا ہو۔
          اس طرھ ہماری رشتہ داری ایک یا موڑ لے گی اور ہم اور ہمارے بچے باہم ایک ہو جائیں گے
          شام کو جب ہم گھر پہنچے تو بالکل حالات نارمل تھے۔ میں اور عامر بھائی بہت خوش تھے۔ آج ایک بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا تھا اور اب ہماری زندگی میں دوسرا بڑا اور نیا ایڈوانچر ہونے والا تھا۔
          یعنی جیسے ہی فرح باجی کے پیٹ میں پلنے والے بچے کا پتہ چلنا تھا اسی وقت اگلا پراسس شروع ہو جانا تھا۔ پھر میں عامر بھائی فرح باجی اور برہ چاروں بیویوں کی ادلا بدلی کر کے ایک نئی پارٹنر شپ قائم کرنے والے تھے ۔
          اس لیے نئے عزم کے ساتھ ہم گھر میں داخل ہوئے۔ سبھی خوش تھے اور عامر بھائی کے ساتھ جو وعدہ ہوا تھا اس کے مطابق ابھی یہی ظاہر کرنا تھا کہ عامر بھائی کو علم نہیں ہے کہ فرح باجی کے پیٹ میں میرا بچہ ہے۔
          بلکہ وہ انجان ہی رہیں گے جب تک کہ انہیں خوش خبری نہ سنائی جائے کہ فرح باجی پریگننٹ ہیں۔
          چنانچہ ہم جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے سبھی بچے حسبِ معمول ہم دونو سے چمٹ گئے بچیاں مجھے چمٹ گئیں اور لڑکے عامر بھائی سے۔
          اور فرح باجی اور برہ ہم دونو پر صدقے واری جا رہی تھیں اور فرح باجی سے تو خوشی سنبھالی نہیں جا رہی تھی لیکن عامر بھائی اور میں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہ کرنے کا عہد کیا ہوا تھا اس لیے ہم بھی نارملی خوش ہو کر ملے اور پھر اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
          کپڑے بدل کر جب باہر آئے تو سب لان میں اکٹھے تھے کیونکہ موسم بہت پیارا ہو رہا تھا بچے بھاگ دوڑ رہے تھے اور فرح باجی، برہ اور اماں ابا کرسیوں پر براجمان بچوں کو خوش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ میں اور عامر بھائی بھی باہر نکلے اور ان کے ساتھ جو کر بیٹھ گئے پانی پیا اور میں نے کہا کہ کیوں نہ آج رات کے کھانے کے بعد آئس کریم کھانے چلیں؟
          سبھی نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔ جس کے بعد سب نے کھانا کھایا اور پھر سب تیار ہو کر آئس کریم کھانے نکل گئے۔ آئس کریم کے دوران فرح باجی میرے نزدیک رہیں اور برہ عامر بھائی کو بھائی جان بھائی جان کہہ کر ان سے اٹھکیلیاں کرتی رہی۔
          لیکن میں نے اور عامر بھائی نے محسوس بھی نہ ہونے دیا کہ ہمیں سب علم ہے۔ بہرحال ہم سب آئس کریم کھا کر واپس گھر آئے بچے تھک چکے تھے اور چھوٹی بیٹی کو میں نے اٹھایا ہوا تھا اس لیے وہ تو سو چکی تھی۔ اس سے بڑی کو عامر بھائی نے اٹھایا ہوا تھا اور وہ بھی سو چکی تھی۔
          اماں نے کہا کہ عامر بیٹا بچوں کو میرے روم میں ہی لٹا دو۔
          میں ساری رات ان کو دیکھتی رہتی ہوں اور خوش ہوتی ہوں کہ میرے گھر میں باغ کھلا ہوا ہے ۔
          میں اور عامر بھائی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور ادھر فرح باجی شرما رہی تھیں اور برہ نے اونچی آواز میں آمین کہا۔
          یوں ہم پیدل چلتے ہوئے گھر پہنچے اور اماں کے کمرے میں بچوں کو لٹا کر ان کی دعائیں لے کر چاروں ہمارے بیڈ روم میں آ گئے۔ ہم چاروں بیٹھ گئے اور عامر بھائی نے چائے کی فرمائش کر دی۔
          میں نے کہا کہ ہاں آدھا آدھا کپ پی لیتے ہیں۔ فرح اور برہ چائے بنانے چلی گئیں تو عامر بھائی نے کہا مجھ سے کہا کہ یار میں اپنے سامنے تمہارے لوڑے سے فرح کو چدتے ہوئے محسوس کرنا چاہتا ہوں تم رات کو میرے بیڈ روم میں آ کر فرح کو چوددو گے آج رات۔
          میں نے کہا کہ عامر بھائی وہ کیسے تو کہنے لگے کہ میں چائے کے بعد نید کی گولی کا کہہ کر سو جاؤں گا تو تم آرام سے آ کر میری بیوی کا چودنا۔
          میں نے کہا کہ عامر بھائی اگر آپ کو اس کا شوق ہے تو آپ کا یہ بھائی آُ پ کو مایوس نہیں کرے گا۔
          پھر عامر بھائی نے کہا کہ چلو یار اوپر چلتے ہیں اور چائے ہمارے بیڈ روم میں پیتے ہیں۔ ہم دونو نکلے میں اوپر کی طرف چلا اور عامر بھائی کچن کی طرف تاکہ فرح باجی اور برہ کو بتا سکیں کہ ہم اوپر والے بیڈ روم میں جا رہے ہیں چائے لے کر وہیں آ جانا۔
          میں بیڈ روم میں پہنچ کر بیڈ پر ہی ڈھیر ہو گیا اور آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ کوئی آیا ہے جیسے ہی آنکھیں کھولیں تو فرح باجی تھیں میں نے کہا کہ چائے نہیں لائیں؟
          اور عامر بھائی اور برہ؟ فرح باجی کہنے لگیں کہ میں جان بوجھ کر ان دونو کو کچن میں چھوڑ آئی ہوں اور خود تمہارے پاس آ گئی ہوں۔ میں نے کہا کہ کہیں عامر بھائی کو شک ہو گیا تو؟
          وہ کہنے لگیں کہ فکر نہ کرو وہ آج جب سے آئے ہیں مٰں نوٹ کر رہی ہوں کہ برہ میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور دیکھا نہیں آئس کریم کھاتے ہوئے کیسے دونوں ہاتھوں پر ہاتھ مارتے اور قہقہے مار رہے تھے۔
          میں نے کہا یہ تو ہے لگتا ہے کہ انہوں نے آج ہی کچھ کر دینا ہے۔ اور ہم دونو ہنسنے لگے۔۔۔
          میں نے فرح باجی سے کہا کہ لگتا ہے کہ آج ہی بہت مزہ آنے والا ہے۔فرح باجی نے کہا کہ نہیں ہم نے پلان کیا ہے کہ جب تک پریگننسی والی بات اوپن نہ ہو کچھ کرنا نہیں ہے صرف دونو کو قریب ہونے کا موقع دینا ہے۔
          لیکن آج رات جو بھی ہو تم نے مجھے اپنے موٹے لوڑے سے چودنا ہے میں نے کہا کہ وہ کیسے؟
          فرح باجی کہنے لگیں کہ چودنا بھی میرے بیڈ پر ہے اور سکیم بھی تم خود بناؤ۔
          میں نے کہا کہ یہ تو مشکل میں ڈال دیا لیکن میں نے دل میں سوچا کہ مشکل کس بات کی ہے عامر بھائی کو تو خود شوق ہے کہ ان کی بیوی ان کی موجودگی میں مجھ سے چدے ۔اب وہ سونے کا ڈرامہ کرتے رہیں گےاور میں اسی بیڈ پر ان کی بیگم کو چود ڈالوں گا اور اس سے وہ بہت مزہ لینا چاہتے ہیں۔ اب وہ بہانہ کر لیں گے کہ میں کوئی نیند کی گولی لینے لگا ہوں اور دوسری طرف کروٹ لے کر جاگتے ہوئے محسوس کر سکیں گے کہ ان کی بیوی انہیں کے بیڈ میں اپنے بہنوئی اور ان کے ہم زلف سے چد رہی ہے۔
          یہ سوچ کر میں نے فرح باجی سے کہا کہ پھر میں آپ کی گانڈ ماروں گا۔
          فرح باجی نے کہا کہ ڈن۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ برہ اور عامر بھائی کمرے میں داخل ہوئے ۔ وہ کسی بات پر ہنس رہے تھے اور میں نے دیکھا کہ عامر بھائی بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔اور ان کا ٹراؤزر لوڑے والی جگہ سے کچھ ابھرا ابھرا لگ رہا تھا۔
          لگتا تھا کہ برہ کے مرض کا وہی علاج ان کے پاس تھا جو ان کی بیوی کے دکھ کے مداوے کے طور پر میرے پاس تھا۔ہم چاروں بیٹھ کر چائے پینے لگے۔
          تھوڑی ہی دیر میں ہم نے چائے ختم کی تو عامر بھائی کہنے لگے کہ یار مجھے تو سخت نیند آ رہی ہے اور سر درد اور تھکاوٹ بھی محسوس کر رہا ہوں اس لیے میں تو نیند کی گولی لینے لگا ہوں.
          اوکے گڈ نائٹ یہ کہہ کر انہوں نے ایک دو گولیاں نکالیں اور کھا کر لیٹ گئے۔ میں اور برہ کمرے سے نکلے اور اپنے بیڈ روم میں آ گئے۔
          اپنے بیڈ روم پہنچتے پہنچتے برہ نے مجھے چوم چوم کر گرم کر دیا ہوا تھااور اندر داخل ہوتے ہی ہم دونوں ننگے ہو چکے تھے اور کسنگ زور شور سے جاری تھی۔اور بیڈ پرجانے کی مہلت نہ ملی اور میں نے لوڑا برہ کی چوت میں پیل دیا اور برہ بھی دو بار ڈسچارج ہو چکی تھی۔
          برہ کہنے لگی کہ فرح باجی آج آپ سے چدوانا چاہتی ہیں میں نے مصنوعی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عامر بھائی کے بیڈ پر سوتے ہوئے میں فرح باجی کو چودوں؟
          لیکن برہ کہنے لگی کہ عامر بھائی تو نیند کی گولی کھا کر سو رہے ہیں آپ جا کر چود لینا میں یہاں لیپ ٹاپ پر دیکھوں گی اور ریکارڈ بھی کروں گی تا کہ بعد میں آپ بھی دیکھ سکیں کہ کس طرح آپ نے عامر بھائی کی موجودگی میں ان کی بیوی کو چودا۔
          میں نے کہا کہ فرح سے کہو کہ جب عامر بھائی مکمل گہری نیند سو جائیں تو مجھے میسج کر کے بلا لیں۔
          ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ فرح باجی کا میسج آ گیا کہ برہ اپنے ٹھوکو کو میرے پاس بھیج دو تم تو لگتا ہے کہ پانچ چھ بار ڈسچارج ہو چکی ہو بس پھر کیا تھا برہ نے مجھے کہا کہ آپ فورا جائیں اور میری باجی کی چوت کی پیاس بجھائیں۔
          چنانچہ میں برہ کی منی سے لتھڑے ہوئے اپنے لوڑے کا لہراتا ہوا اپنے بیڈ روم سے نکلا اور ٹراوزر میں نے اپنے کندھے پر رکھ لیا اورفرح باجی اور عامر بھائی کے بیڈ روم کی طرف بھاگا۔جیسے ہی عامر بھائی کے بیڈ روم میں داخل ہوا دروازے پر ہی کپڑوں کی قید سے آزاد فرح باجی نے میرا استقبال کیا اور میرا لوڑا گیلا گیلا جو ان کی بہن کی پھدی چود کر نکلا تھا۔
          اپنے منہ میں لے کر چاٹنا اور چوسنا شروع کر دیا۔ میں نے بھی اپنی شرٹ اتار دی اور ٹراؤزر تو پہلے ہی میرے کندھے سے گر گیا تھا۔
          مجھے یہ تھا کہ عامر بھائی بھی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی بیوی کی چدائی ایک موٹے اور لمبے لوڑے کے ساتھ شروع ہو چکی ہے ہےاور ادھر میری بیوی بھی دیکھ رہی ہے کہ اس کی بڑی باجی اپنے سوئے ہوئے شوہر کے ساتھ بیڈ پر لیٹے لیٹےاپنے بہنوئی سے چد رہی ہے اور آج تو گانڈ چدنے والی ہے۔
          سکیم کے مطابق میں نے فرح باجی کو گود میں اٹھایا اور برہ کی منی اور فرح باجی کی تھوک سے لتھڑا ہوا لوڑا ان کی چوت میں آرام سے ڈال دیا تا کہ ان کی یوٹرس پر کوئی دباؤ یا ٹھوکر نہ لگے۔ اب باجی فرح بھی ڈسچارج ہو گئیں اور میں نے آرام آرام سے وہیں کھڑے کھڑے لوڑا اندرباہر کرنا شروع کر دیا اور کچھ آوازیں بھی مزے والی نکالنی شروع کر دیں تا کہ عامر بھائی کے کانوں میں ہماری سیکسی آوازیں جائیں اور وہ بھی اندر ہی اندر اپنا لوڑا کھڑا محسوس کریں اور مزہ لیں۔
          چنانچہ میں نے عامر بھائی کے جسم میں تھوڑی حرکت دیکھی اور سمجھ گیا کہ عامر بھائی کا لوڑا بھی کھڑا ہو چکا ہے اور وہ اب مکمل انجوائے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے آرام سے فرح باجی کو بیڈ پر لٹایا اور کسنگ کرتے ہوئے ان کی چوت مارنے لگا۔ دس منٹ چوت مارنے اور تین چار بار انہیں ڈسچارج کرنے کے بعد میں نے ان کو کہا کہ گانڈ والا تحفہ مجھے دیں۔
          میں تھوڑا اونچی آواز میں کہا تاکہ عامر بھائی سن لیں کہ اب ان کی پیاری بیوی کی گانڈ ان کے ہم زلف کے لوڑے کا شکار بننے لگی ہے۔
          چنانچہ خوشی خوشی فرح باجی نے اپنی گانڈ پر تھوک لگایا اور میرے سامنے کر دی۔ میں نے بڑے آرام کے ساتھ ان کی گانڈ کی موری پر اپنا لوڑا رکھا اور آہستہ سے اندر دکھیلا۔
          گانڈ مروا مروا کر رواں تو کروا ہی لی ہوئی تھی اس لیے میرا لوڑا تھوڑی سی تگ و دو کے بعد جڑ تک ان کی گانڈ میں اتر گیاا ور فرح باجی مزے سے سسکارنے لگیں انہیں بھول گیا تھا کہ ان کا شوہر بھی اسی بیڈ پر سویا ہوا ہے ہم دونو مکمل مدہوشی میں چدائی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ مین نے تقیربا آدھا گھنٹہ باجی فرح کی گانڈ ماری اور پھر باجی فرح سے کہا کہ بیڈ اس قدر ہل رہا ہے کہ عامر بھائی جاگ نہ جائیں اس لیے ہم اب بس کریں اور میں اپنی منی آپ کی یوٹرس میں نکال دیتا ہوں۔
          لیکن فرح کہنے لگی کہ نہیں ابھی آپ نے اسی طرح گندے لوڑے کے ساتھ أ ج برہ کی پھدی اور گانڈ مارنی ہے میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں چلتا ہوں آپ آرام کریں پھر ایک لمبی کسنگ ہوئی اور میں نے اسی طرح ٹراؤزر اور شرٹ اپنے کندھوں پر رکھی اور لوڑا لہراتا ہوا۔
          ان کے کمرے سے نکل کر نیچے کی طرف بھاگا اور اپنے کمرے میں آ کر ننگی بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنی بیوی کی چوت میں لوڑا ڈال دیا اس وقت تک برہ میری اور اپنی فرح باجی کی بنائی ہوئی مووی لگا چکی تھی اور وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ دیکھیں عامر بھائی کیسے مزے سے سوئے ہوئے ہیں اور انہی کے بیڈ پر ان کی بیوی ایک غیر مرد سے چدوا رہی ہے۔ میں نے کہا کہ برہ تمہیں معلوم ہے کہ عامر بھائی جاگ رہے ہیں اور یہ سکیم عامر بھائی کی ہی تھی اور پھر میں نے مووی دیکھتے اور برہ کو چودتے ہوئے دفتر میں ہونے والی ساری بات بتا دی۔
          جس سے برہ بہت خوش ہوئی کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایڈوانچر بنا رہے ہیں اور یہ اصل میں ایڈوانچر میرے اور فرح باجی کے لیے تھا لیکن ابھی ہم نے فرح باجی کو یہ احساس نہیں ہونے دینا کہ عامر بھائی کو یہ سب معلوم ہو چکا ہے اور تم بھی انجان بنی رہنا کہ تمہیں بھی نہیں علم تاکہ عامر بھائی کو بھی تمہیں اس وقت چودنے کا مزہ آ سکے جب میں اسی بیڈ پر سویا ہوا ہوں گا اور تمہیں وہ چود رہے ہوں گے۔
          میں نے کہا کہ ہاں میں یہ بھی ایڈوانچر بناؤں گا کہ اسی طرح میں سو رہا ہوں گا اور عامر بھائی تمہیں چودیں اسی بیڈ پر۔
          برہ نے یہ سنا تو اس کا جوش بڑھ گیا اور ہم نے روز شور سے چدائی شروع کر دی حتی کہ برہ پانچ منٹ میں کوئی دس بار ڈسچارج ہوئی۔ دس پندرہ منٹ کی دھواں دار چدائی کے بعد میں نے برہ کی گانڈ میں لوڑا ڈالا اور پھر پانچ منٹ کی چدائی کے بعد وہیں فارغ ہو گیا۔ اور ہم بے سدھ ہو کر لیٹے اور سو گئے۔جارہی ھے۔
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • #6
            حسرت ناتمام۔
            حسرت ناتمام۔
            نیو اپڈیٹ۔سیزن ۔ 2۔۔
            بات تقریبأ آج سے کچھ عرصے پہلے کی ہے . شام کے وقت شرقپور کے قریب ایک کچے راستے پر شہر کی طرف رخ کیے ایک کار ہلکی رفتار سے روان دوان تھی ۔وہ راستہ کچا مٹی اور ریت والا رستہ تھا بارش بھی ہلکی ہلکی ہو رہی تھی. اسلیے گاڑی بہت سلو چل رہی تھی۔ایک سنسان سی جگہ پر ایک جیپ نے تیز رفتاری سے دوسری طرف سے أ کر کار کا راستا روک دیا.۔
            کار چلانے والے نے نہایت عقلمندی اور تیزی کا مظاہرہ کرتے ہؤے کار کو أدھا کچے راستے سے نیچے اتارا اور زن سے چیپ کے پاس سے گزارتے ہوئے پھر سےشہر کی طرف جانے لگا۔
            جیپ والون نے بھی پھرتی سے جیپ کا رخ موڑ کر اسکا پیچھا کر نے لگے اور ساتھ گاڑی پر پستول اور بندوقو ں کی گولیون سے فائرنگ بھی کرنے لگے۔
            کار کی باڈی مین بے شمار گولیان لگنے کے باوجود وہ ڈرائیور ابھی تک گولیون سے بچا ہوا تھا ۔
            اندھیرا اور بارش ہونے کے باوجود وہ اپنی جان ان سے بچانے کیلئے پھر بھی بہت تیز رفتار سے کار چلائے جا رہا تھا کہ اچانک کسی کی گولی سیدھی کار كے ٹائر پر أ لگی اور گاڑی جو کی تیز رفتار سے چلی جا رہی تھی ۔تیزی سے دوڑتی لڑکھڑاتی ہوئی کچے راستے سے اتر کر سامنے نظر أتی ایک چھوٹی سی نہر کی طرف بڑھنے لگی اور پھر نہر کے کنارے لگے اک پیڑ سے ٹکرا كر اس درخت کے سہارے ھی کار ہوا میں لٹکنے لگی ۔
            اب ڈرائیور اور کار اک گہری نہر کے اوپر اک کمزور سے پیڑ پر لٹک رہے تھے ڈرائیور نے بہت کوشش کرکے کار کا دروازھ کھولتے ہوئے گاڑی مین سے ھی ایک بریف کیس کو پکڑکر نہر کے پانی کی طرف چھلانگ لگائی۔
            لیکن اسے پہلے کہ وہ کار سے باہر نکل پاتا اسکا سر کار کے دروازے اور شیشے سے ٹکرا گیا۔ تبھی کار سے گرتے ہوئے اسکی آنکھوں كے سامنے بھی اندھیرا چھاہنے لگا۔
            اور پھر دھڑااام کی آواز كے ساتھ وہ نہر کے پانی میں جا گرا اور پھر بیہوشی نے اسے اپنی آغوش میں پوری طرح لے لیا ۔
            اسکے بَعْد کیا ہوا کیا نہیں اسے کچھ یاد نہیں رہا .
            وہ بلکل نہیں جانتا تھا وہ کب تک اس نہر مین بہتا رہا اور پانی کا تیز بہاؤ اسکو کہان تک لے گیا .پھر نہجانے کب اسکی آنکھ کھلی تو اسنے خود کو اک چھوٹے سے کمرے میں بیڈ کے اوپر لیٹے پایا۔
            لیکن جب اس نے بیڈ سے نیچے اترنے کیلئے اٹھنے کی کوشش کی تو اسکے ہاتھ-پاؤن اسکا ساتھ نہیں دے رہے تھے اور زور لگانے پر پورے بدن میں دَرْد کی اک لہر دوڑ گئی. اتنا میں دروازے سے اچانک تقریبآ اک چوالیس پنجتالیس سال کی ایک خوبصورت سی عورت اندر داخل ہوئی۔ اور پھر تیزی سے اسکے پاس آ کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے لیٹے رہنے کا اشارہ کیا .
            عورت : بیٹا تم کون ہو کیا نام ہے تمہارا ؟
            کار کاڈرائیور : ( مجھے کچھ بھی یاد نہیں تھا کی میں کون ہوں بہت یاد کرنے پر بھی کچھ یاد نہیں آ رہا تھا میں کون ہوں . اسلئے بس اس خوبصورت عورت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا کہ اچانک پھر سے اک آواز میرے کانوں سے ٹکرائی )
            عورت : کیا ہوا بیٹا بتاؤ نا کون ہو تم کہا ںسے آئے ہو ؟
            ڈرائیور : مجھے کچھ یاد نہیں ہے کہ میں کون ہوں . . . . . ( اپنے سر پر ہاتھ رکھا کر ) یہ جگہ کونسی ہے
            عورت : بیٹا ہم نے تمہیں نہر کے پانی سے نکالا ہے میرا بیٹا اور بہو اکثر نہر کے کنارے أتےجاتے رہتے ھین۔
            وہاں میرے بیٹےکو کنارے پر پڑے تم ملے . جب تم ان کو ملے تو بہت بری طرح زخمی۔بے حال اور بے ہوش تھے وہ اور میری بہو تمہیں یہاں لے آئی .
            ڈرائیور : اچھا ! ! ! ! ! ! أنٹی میں یہاں کتنے دن سے ہوں ؟
            ​​​​​​عورت : بیٹا تم کو یہان تقریبا 2425 سے زیادہ دن ہونے والے ہیں تم اتنے دن یہاں بے ہوش پڑے تھے . جتنا ہو سکا ہم لوگون نے تمہارا علاج کیا ہم غریبوں سے جتنا ہو سکا ہم نے تمہاری خدمت کی ۔.
            ڈرائیور : أنٹی ایئسا مت کہیے آپ نے جو میرے لیے کیا آپ سب کا بہت-بہت شکریہ . لیکن مجھے کچھ بھی یاد کیوں نہیں أ رہا .
            عورت : بیٹا تمھارے سر میں بہت گہری اور کافی چوٹین تھی جس کو بھرنے میں بہت وقت لگ گیا ممکن ہے اس گھاؤ کی وجہ سے تمہاری یادداشت چلی گئی ہو .
            اتنے میں اک لڑکی کی آواز سنائی دی . . . . امی جی أپ اکیلی-اکیلی کس سے بات کر رہے ہین . . . .۔
            سٹھیا گئی ہین کیا اور کمرے میں آ گئی . ( میری نظر اس پر پڑی تو میں نے سر سے پیر تک اسکو دیکھا اور اسکا پُورا جائزا لیا ) وہ دکھنے میں بہت ھی خوبصورت پتلی سی لیکن لمبی ، کالے بال ، بڑی-بڑی کالی سیاہ آنکھیں ، گورا دودھ جیئسا سفید رنگ ، کالے رنگ کا شلوار قمیض جس پر چھوٹے چھوٹے کڑھائی سے پھول بنے تھے اور کندھے سے کمر پر بندھا ہوا اسکادوپٹہ جھول اور چال میں عجیب سا بانکپن تھا .
            عورت : - دیکھ بہو اس کو ہوش آ گیا ( خوش ہوتے ہوئے )
            سعدی : - ارے ! ! ! آپکو ہوش آ گیا اب کیسے ہو . . . کیا نام ہے آپکا . . . . کہاں سے آئے ہو آپ ( اک ساتھ کئی سوال )
            انٹی( نجمہ سعدی کی ساس) : بیٹی ذرا سانس تو لے اتنے سارے سوال اک ساتھ پُوچھ لیے پہلے پوری بات تو سنا کر .
            سعدی : - ( ناراضگی والا منہ بنا کر ) اچھا بولو کیا ہے ؟
            نجمہ : - بیٹی اس کو ہوش تو آ گیا ہے لیکن اس کو یاد کچھ بھی نہیں ہے یہ سب. اپنی پچھلی ساری زندگی بھول چکا ہےوہ .۔
            سعدی : - ( اپنے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ) ہائے ! اب ان کے گھروالوں کو کیسے اطلاح دین گے ؟
            اتنے میں نجمہ أنٹی میری طرف دیکھتے ہوئے .
            نجمہ : - بیٹا تم ابھی ٹھیک نہیں ہو اور بہت کمزور ہو اسلئے آرام کرو یہ میری چھوٹی بہو ہے سعدی یہ تمہارا اچھے سے خیال رکھےگی اور تم فکر نا کرو سب ٹھیک ہو جائیگا . ہم سب تمھارے لیے دعا کرینگے . ( اور دونوں ساس بہو کمرے سے باہر چلے گئے )
            یہ بات میرے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی کہ نا تو مجھے یہ پتہ تھا کی میں کون ہوں اور نہہ ھی کچھ مجھے میرا پچھلا گزرا وقت کچھ یاد أرھا تھا اوپر سے میں ایک مہینے سے یہاں پڑا ہوا تھا . اک ہی سوال میرے دماغ میں بار بار آ رہا تھا کی میں کون ہوں . . . . آخر کون ہوں میں اچانک میرے سر میں دَرْد بڑھنے لگا ۔
            اسلئے میں نے اپنی پرانی زندگی كے بارے میں زیادہ نہیں سوچا اور اپنے زخموں کو دیکھنے لگا میرا باقی سارا جسم بلکل ٹھیک لگ رھا تھا البتہ سر پر کافی جگہ پر اب بھی پٹی بندھی ہوئی تھی .
            میں اِس گھر كے بارے میں سوچ رہا تھا کی کتنے نیک اور شریف لوگ ہے جنہوں نے یہ جانتے ہوئے کی میں اک اجنبی ہوں نا صرف مجھے بچایا بلکہ اتنے دنون تک مجھے سنبھالا بھی اور میرا علاج بھی کیا .
            میں اپنی سوچو میں ہی گم تھا کی اچانک مجھے کسی كے قدمون کی آواز سنائی دی . میں نے سر اٹھا کے دیکھا تو اک لڑکی کمرے میں آتی ہوئی نظر آئی یہ کوئی دوسری لڑکی تھی نجمہ أنٹی كے ساتھ جو آئی تھی وہ نہیں تھی وہ شاید بہت تیزی سے دوڑتے ہوئے آئی تھی اسلئے اسے کافی سانس چڑا ہوا تھا . . .۔
            یہ عارفہ تھی۔نجمہ أنٹی کی بڑی بہو۔ جو یہ سن کر بھاگتی ہوئی آئی تھی کی مجھے ہوش آ گیا ہے .
            میں نے نظر اٹھاکر اسے دیکھا . . . . یہہ بھی دکھنے میں نہ زیادہ لمبی نہ زیادہ چھوٹی ، رنگ گورا ، نشیلی سی آنکھیں ، پیلے رنگ کا شلوار قمیض اور سر پر سلکی سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے لیکن وہ دوپٹہ بھی اسکی چھاتیون کی بناوٹ کو چھپانے میں ناکام تھا ) میں ابھی اسکے روپ رنگ ہی غور سے دیکھ رہا تھا کی اچانک اک باہر سے أتی آواز نے أسے چونکا دیا اور وہ دوڑتے ہوئے واپس باہر چلی گئی۔
            ۔نجمہ أنٹی کی عمر پچاس سال تھی، ۔اور انکا خاوند فوت ہوچکا تھا۔
            وہشادی شدہ اور بچوں والی لیکن فٹ بہت تھیں اسلیے مین بھی انکی عمر کا غلط اندازہ لگا بیٹھا تھا۔
            بڑی بڑی چھاتیاں لیکن پتلی سی کمر۔ بہت ہی خوبصورت اور گداز جسم۔ اچھی طرح سےخود کو سنبھال رکھا تھا۔ نجمہ خالہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
            ان کے دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی تھی اوربیٹی کی شادی ہونا ابھی باقی تھی۔
            سارے گاؤن مین مجھے انہون نے اپنا بھانجہ بتلا رکھا تھا۔
            پھر دو ماہ تک انہون نے میرا بہت خیال رکھا۔
            اور میرے زخم بھی بلکل ٹھیک ہو گئے۔اور پھر میری زندگی کا ایک دن نیا اور انو کھا سفر اچانک سے سٹارٹ ہو گیا۔۔
            مجھے نجمہ خالہ نے کہیں لوڑا ہاتھ میں پکڑے مٹھ مارتے ہوئے دیکھ لیا پھر رات جب سب سو رہا تھا تو وہ میرے روم میں آگئیں اورمیرے ساتھ لیٹ گئیں۔ پہلے بھی کئی بار وہ میرے پاس لیٹ جایا کرتی تھیں۔
            لیکن آج اچانک میرے لن پر ہاتھ رکھ دیا وہ شیر جوان کھڑا ہو گیا۔
            انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ میرا لن ٹراؤزر سے نکال کر چوپا لگانا شروع کر دیا۔ میں بھی تیار ہو گیا اور جنگ چھڑ گئی۔ پہلی بار انہوں نے مجھے سوتے میں اپنی مرضی سے کیا اور میں سونے کی ایکٹنگ کرتا رہا اور انہیں کرنے دیا بعد میں کھل کے سب ہوا۔
            پھر کام شروع۔
            میں نے جب غور کیا تو وہ خالہ نجمہ تھیں جبکہ پہلے میں نے پہچانا نہ تھا۔
            رات بھر کام فل گرم رہا اور انہوں نے مجھے بہت مزا کرایا۔
            تقریباً ایک مہینہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک دن ان کی چھوٹی بہو نے ہمیں چدائی کا یہ مزے دار کھیل کھیلتے دیکھ لیا۔
            سعدی کی شادی کو تقریباً دو سال ہو گئے تھے۔
            اور ابھی بچہ کوئی نہ تھا۔ اگلے دن میری خالہ بہت پریشان تھی کہ سعدیہ کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم دونوں زنا کرتے ہیں میں نے ڈرنے کی بجائے نجمہ خالہ سے کہا کہ ۔
            پھر میں کیا کروں؟
            آپ کی بہو ہے آپ کے بیٹے کو بتا دے گی۔
            لیکن سعدیہ بھی ایک زانی ماں کی بیٹی تھی جس نے سات بچے ہونے کے بعد اپنے یار کی خاطر اپنے شریف خاوند کو چھوڑ دیا تھا وہ بھی مجھے ایسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔
            خیرباجی سعدیہ نے اپنی ساس سے کہا کہ خود یہاں مزے لے رہی ہیں جبکہ آپ کا بیٹا افتی کسی کام کا نہیں۔
            چھوٹا سا اوزار ہے اس کا اور پانی بھی کسی کام کا نہیں کہ مجھے مزے کر اسکے۔ اور آپ کے بھانجے کا لن دیکھیں کتنا بڑا اور موٹا تازہ اور ٹائم لگانے والا ہے۔
            مجھے تو نہ مزا آرہا ہے نہ کام ہو رہا ہے کہ ماں بن سکوں اگر یہی صورت حال رہی تو میں طلاق لے کر چلی جاؤں گی اور کسی اچھے تگڑے مرد سے شادی کر لوں گی جو میری تسلی بھی کروائے اور بچے بھی پیدا کر سکے۔
            نجمہ خالہ نے اسے تسلی دی کہ کچھ کرتے ہیں۔
            پھر خالہ نجمہ نے سعدی سے کہا کہ ایک کام کرتے ہیں میں اپنے بھانجے کو تمہارے ساتھ سیٹ کر دیتی ہوں کہ وہ تمہیں مزا بھی دے اور پریگننٹ بھی کر دے گاکیونکہ وہ میرے اندر منی نہیں نکالتا لیکن اس کی منی گاڑھی اور بہت زیادہ مقدار میں نکلتی ہے۔ سعدی نے کہا کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے؟۔
            نجمہ خالہ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں مل بانٹ کے لیتی ہیں نا مزاء۔
            پھر ایک رات جب مین خالہ کو چود رہا تھا تو سکیم کے مطابق سعدی باجی آ گئی اور میری موجیں لگ گئیں۔
            سعدی کو ڈالا تو ایسا لگا جیسے سہاگ رات ہو ساری رات کبھی خالہ کبھی ان کی بہو یعنی میری چھوٹی بھابھی سعدی۔
            اور پھر تقریباً صبح کے وقت سعدی کے اندر سب کچھ انڈیل دیا۔ ڈیڑھ ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اسکے بعد سعدی کی رپورٹ مثبت آ گئی۔ وہ ماں بننے والی تھی۔ جب چھوٹی بھابھی پریگننٹ ہو گئی تو وہ بہت خوش تھیں
            جب چھوٹی بھابھی پریگننٹ ہو گئی تو وہ بہت خوش تھیں۔
            اور میرا منہ چومتے نہیں تھکتی تھیں۔ تو بڑی بھابھی جو اُن کی سگی بہن کی بیٹی تھیں عارفہ انہوں نے سعدی سے پریگننسی کا راز پوچھا۔جس پر سعدی نے کہا کہ ساسو ماں سے پوچھوانہوں نے میرا اور افتی کا علاج کروایا ہے۔
            جہاں سے میرا کروایا ہے وہیں سے تمہارا بھی کروا دیں۔
            سعدی کی پریگننسی کے باوجود ہمارا کام چلتا رہا اور ہم تینوں مزا لیتے رہے۔ اب سعدی کی وجینا گیلی رہنا شروع ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مزا کم ہو گیا تھا لیکن نجمہ خالہ تو بہت زبردست ساتھ دیتی تھیں۔
            کچھ دن گزرنے کے بعد نجمہ خالہ نے عارفی بھابھی کے متعلق میرے ساتھ بات کی کہ دونوں بہنوں کی اکٹھے شادی کی تھی لیکن لگتا ہے میرے دونوں بیٹے ہی ناکارہ ہیں۔ عارفہ کے متعلق بھی وہ پریشان تھیں کہ اگر سعدی کو بچہ ہو جاتا ہے تو عارفہ کو خوشی کے ساتھ ساتھ دکھ تو ہو گا کہ وہ بڑی ہے لیکن اس کی گود ابھی تک خالی ہے۔
            میں نے خالہ کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ پھر کیا خیال ہے آپ کو عارفہ سے بھی دادی بنانے کی کوشش کروں؟میری بات سن کر خالہ کی آنکھوں میں ایک چمک لہر ائی۔
            اگلے دن میں نے محسوس کیا کہ عارفہ بھابھی ضرورت سے زیادہ مجھ پر مہربان ہیں اور میرے لیے دودھ کا گلاس رات کو لے کر آئیں اور پکڑاتے ہوئے کہنے لگیں یہ لیں ڈاکٹر صاحب!۔
            میں نے سب کچھ سمجھتے ہوئے ان سے دودھ کا گلاس لیا اور کہا کہ آپ نے بھی علاج کروانا ہے کیا؟
            یہاں پرانے امراض کا کامیاب علاج کیا جاتا ہے۔
            تو بھابھی نے کہا آج رات چیک اپ کے لیے ایک مریض آئے گا تو ڈاکٹر صاحب۔أپ اچھی طرح چیک اپ کرنا ہے۔ میں نے کہا جی بھابھی جان۔
            اب رات کا مجھے بھی بے صبری سے انتظار تھا۔ کوئی گیارہ بجے کا وقت ہو گا کہ عارفہ بھابھی اپنے خاوند کے ساتھ میرے کمرے میں آ گئے اور میں دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔
            آتے ہی بھائی جان نے کہا ڈاکٹر صاحب بڑی مشہوری ہے آپ کی تو!۔
            میں نے نہیں بھائی جان ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ تو بھائی بولے مجھے بھی باپ بنا دو۔ افتی کو تو بنا دیا اور کیسے گوارا کرو گے کہ چھوٹی بھابھی پہلے ماں بن جائے اور بڑی بھابھی کی گود خالی ہو؟ ۔
            میں نے کیا کہ بھائی جان یہ تو آپ کا کام ہے؟اس کے بعد بھائی جان نے کہا کہ پہلے دونوں بھائی تسلی کرتے ہیں پھر علاج۔ چنانچہ ہم نے پھر عارفہ بھابھی کو پکڑ لیا اور دونو بھائیوں نے چومنا چاٹنا شروع کر دیا۔ بھائی جان نے اپنا لن نکالا جو میرے ہتھیار سے آدھا تھا۔ میں دیکھ کے حیران ہوا۔ جب میں نے نکالا تو بھائی بھابھی کی آنکھیں پھٹنے کو آ گئیں۔
            بھائی نے میرا پکڑ کر بھابھی کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی جسے بھابھی نے خوش آمدید کہا۔ چوپا چوپا چوپا۔ اور بھائی جان نے بھابھی کو ٹھوکنا شروع کر دیا وہ اچھی ٹھکائی کر رہے تھے لیکن بھابھی کو جو مزا مجھ سے آنے والا تھا وہ سوچ سوچ کربھابھی پاگل ہو رہی تھی۔
            پھر میں نے پکڑ لیا کیونکہ بھائی جان تو دس منٹ میں ہی چھوٹ چکے تھے۔
            میں نے دیکھا کہ سعدی بھابھی کی نسبت عارفہ بھابھی فربہی مائل تھی لیکن ان کا بدن بہت مزےدار تھا اور وہ بار بار نیچے سے نکال کر چوپا لگاتی تھیں جس سے مزا دوبالا ہو جاتا تھا۔
            ظہیر (نجمہ خالہ نے میرا یہی نام سب کو بتا رکھا تھا)بھائی جان اب ایک طرف پڑے ہمیں دیکھ رہے تھے اور بھابھی نے کہا کہ دیکھ لیں آپ کا چھوٹا بھائی کتنا تگڑا ہے۔اپنی بھابھی کو مزا دے رہا ہے۔ ۔
            کوئی ایک گھنٹے کے بعد بھائی جان پھر تیار ہو گئے اور وہ بھی میدان میں آگئے۔ اس بار انہوں نے کوئی آدھاگھنٹہ لگایا اور اس بار ہم دونو بھائیوں نے مل کر بھابھی کی پھدی میں ڈالا اور دونوں نے بھابھی کو خوب چودا۔
            اب میں تیار تھا کہ بھابھی کو تحفہ دیا جائے۔سو میں نے اپنا سارا مال بھابھی کی یوٹرس کا نشانہ لے کر اندر لن ڈال کر فوارہ چھوڑ دیا۔
            خالہ اپنے روم میں تھیں اور انہوں نے یہ سارا پروگرام بنایا تھا۔
            اس کے بعد عارفہ بھابھی کو ایک بار ماہواری آئی لیکن اگلے ماہ وہ بھی پریگننٹ ہو گئیں۔
            پھر تو مزے ہی مزے کیے۔ خالہ نجمہ بھی ساتھ مل گئی اورخالہ اور ان کی دونوں بہوئیں ہم تینوں بھائیوں کو موجیں کرواتی رہیں خالہ صرف مجھ سے کرواتی ہیں۔
            پھربھابھیوں کو بھی کسی اور کے پاس جانے ضرورت نہیں پڑی۔
            تقریبأسال ہونے کے بعد دونوں نے ایک ایک بچے پیدا کیا۔ اب تو دونوں بھائیوں کا ایک ایک بیٹا تھا۔
            جب دونو بھابھیوں کا پہلا پہلا بیٹا ہوا تو دونوں بہت خوش ہوئیں۔ بھائی بھی دونوں بہت خوش تھے۔ چھوٹے بھائی افتی کو معلوم نہ تھا کہ یہ نطفہ کس کا ہے؟۔
            لیکن بڑے بھائی جان کو علم تھا کہ مجھے چھوٹے بھائی نے باپ بنایا ہے۔ ایک دن جب چھوٹی بھابھی میرے پاس بیٹھی تھی اور میں نے ان کے بیٹے زاوی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا ۔
            تو بھائی جان بھابھی کو چھیڑنے لگے کہ دیور کے ساتھ بہت پیار کرتی ہو تو بھابھی نے کہا کیوں نہ کروں اس کی وجہ سے تو آج میں ماں اور آپ باپ ہیں۔
            اس پر بھائی جان نے طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن بھابھی اور خالہ دونوں نے مل کر ان کو ٹھنڈا کیا کہ تمہارے پاس ہے کیاہے؟
            تین انچ کا پتلا سوکھا ہوا لن؟ اور دو منٹ میں فارغ جس سے پھدی کی داڑھ بھی گیلی نہ ہو!!۔
            یہ تو یہی تمہارا چھوٹا بھائی نہ ہوتا تو میں تم سے کب سے طلاق لے چکی ہوتی۔ تب افتی بھائی کو سکون ہوا اور انہوں نے حالات سے بہت اچھی طرح سمجھوتا کر لیا۔ بھائی افتی بھی میری خدمت کرنے لگ گئے یعنی میرا، میری ضروریات کا ہر طرح کا خیال رکھنا کپڑا جوتا اور دیگر سہولتیں کیونکہ میں ان کی بیگمات کا خیال رکھتا تھا اور انہیں ابا بنایا تھا۔ میرے والدین چونکہ وفات پا چکے(بقول نجمہ خالہ کے) تھےاکلوتا بھی تھا اس لیے خالہ کے پاس ہی رہتا تھا اب تو میں خالہ بھائیوں اور بھابھیوں کا لاڈلا بھی تھا اور خالہ کی ایک بیٹی جو سب سے چھوٹی لیکن مجھ سے بڑی تھی وہ مجھے سگے بھائیوں سے بھی زیادہ چاہتی تھی اور مجھے اپنی جان کہتی تھی اس کی شادی ہونے والی تھی۔
            سب لوگوں نے کہا کہ ان دونوں کی آپس میں شادی کر دیں لیکن میں اور وہ نہیں مان رہے تھے کہ ہم تو بہن بھائی ہیں پھر ایک اچھا گھرانہ اور لڑکا دیکھ کے بہن کی شادی کر دی گئی۔
            اب میری شادی کی باری تھی تو سعدی اور عارفہ بھابھی نے کہا کہ اس کی شادی ہم ایسی جگہ کروائیں گی جہاں سے ہمیں بھی سکون ملتارہے۔
            چنانچہ انہوں نے اپنی پھوپھو کی بیٹی سحر سے میرا رشتہ طے کر دیا۔
            ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی تھی کہ بھابھیوں نے ہماری ملاقاتوں کا بندوبست بھی کر دیا۔
            اور پھر ٹھکا ٹھک چودائی سٹارٹ۔
            سحر کو بھابھی سعدی نے میرے متعلق بتایا کہ ہمارا بھائی بہت اچھا ہے بہت پیار کرنے والا ہے۔
            سحر کو بڑا شوق پیدا ہوا مجھ سے ملنے کا تو اس نے حامی بھر لی سعدی بھابھی نے سحر کو بتایا کہ ظہیر تمہیں بہت پیار کرتا ہے۔
            ایک دن سعدی بھابھی نے اپنے بیڈروم میں اپنے پاس سحر کو سلا لیا اور اوپر سے مجھے بھی بلا لیا۔
            ہم تینوں باتیں کرنے لگے اتنے میں سعدی نے سحر سے کہا کہ میں ابھی آتی ہوں یہ کہہ کر وہ اپنے بچوں کے روم میں چلی گئیں اور دروازہ بند کر دیا۔
            ادھر جا کر سحر کو میسج کیا کہ میں رات بھر نہیں آنے والی تم آج سہاگ رات منا لو میں نے اسی لیے بیڈ پر سفید چادر بچھا دی ہے تاکہ خون خرابہ نظر آئے۔
            میسج پڑھ کرسحر کی آنکھوں میں چمک آگئی کہ اب لمبے اور موٹے کا دیدار ہو گا۔
            پھر میں سحر کے قریب ہوا تو سحر میرے ساتھ چپک گئی۔
            کہنے لگی کی بھابھی نہ آ جائے جلدی کریں۔ میں سمجھ گیا کہ دل اس کا بھی ہے لیکن پکڑے جانے سے ڈرتی ہے۔
            پھر جب میں نے اس چھتیس کے بوبے نکال کر چوسنے شروع کیے تو اس کی سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔ اس رات بھابھی سعدی کے بیڈ پر بچھی سفید چادر پر بہت خون خرابہ ہوا اپنی منگیتر کی چھوٹی سی پھدی کی سیل توڑ دی میں نے اور خوب چدائی لگائی۔
            صبح جب سعدی بھابھی آئیں تو اپنی کزن سحر کی حالت دیکھ کر مجھ سے پیار کرنےلگیں اور سحر کو حوصلہ دیا۔
            اس کے بعد وہیں سعدی بھابھی کے ساتھ ایک سیشن لگایا۔ رات بھر میں بے چاری سحر کی ایسی چدائی لگی کہ صبح کو اسے چکر آ رہے تھے اور بھابھی سعدی نے اسے دودھ پلایا۔
            اور اپنے بیڈ پر سلا دیا اور میں سعدی بھابھی سے فارغ ہو کر اپنے روم میں آ گیا۔
            مجھے بھی بہت تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی میں بیڈ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ دوپہر کو میری آنکھ کھلی تو سعدی بھابھی سر پر کھڑی کہہ رہی تھیں کہ بھائی اٹھو سحر کی امی اور دونو بہنیں آئی ہیں۔
            جب میں منہ ہاتھ دھو کر سحر کی امی نگہت آنٹی اور اس کی دونوں بہنوں عافیہ اور عارفین سے ملنے گیا تو تینوں کو دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ سحر کی والدہ یعنی نگو آنٹی سحر کی بڑی بہن لگ رہی تھیں۔
            بالکل جوان اور چاک و چوبند۔ اور چھوٹی بہنیں بھی جوان ہو چکی تھیں۔ خیرنگو آنٹی اور عافیہ و عارفین تینوں کو دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا۔ سعدی بھابھی مجھے نوٹ کر رہی تھی اور مسکرا رہی تھی شاید یہ سوچ رہی ہوں کہ موجیں اس کی لگی ہیں یا سحر کی والدہ اور بہنوں کی؟
            کی والدہ اور بہنوں کی؟
            میں نے بھی سعدی بھابھی کی آنکھوں میں دیکھ کر اشارہ کیا کہ چار چار مزے سسٹر!
            نگو آنٹی نے آنکھیں گھماتے ہوئے میرے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے بیٹا! آؤ میرے پاس بیٹھو نا۔ اب اندھا کیا چاہیے دو آنکھیں! جھٹ سے آنٹی نگو کی گرم گرم ٹانگ سے ٹانگ لگا کر بیٹھ گیا۔ سحر کے ابا تو یوکے ہوتے تھے اور کوئی بھائی بھی نہیں تھا بس تین بہنیں تھیں۔ سحر اُنیس۔ عافیہ اٹھارہ اور عارفین سولہ سال کی۔
            آنٹی نگو اور عارفہ بھابھی کی دوستی تھی اور عارفہ بھابھی انہیں سب بتا سکتی تھیں اور یہ انتظام اب عارفہ بھابھی کے ذمہ تھا۔
            عارفی بھابھی سے جب نگو آنٹی نے کہا کہ میری زندگی تو بغیر مزے لیے گزر گئی۔ جب بھی میرے شوہر مسعود۔ یوکے سے آتے تھے تو پریگننٹ کر کے چلے جاتے اور میں بعد میں بچے پیدا کرتی اور اب کئی سال سے وہ آ نہیں سکے۔
            اور طبیعت مکدر رہتی ہے۔ تو عارفی بھابھی نے انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ داماد ہے نا اب اپنے شوہر کو بھول کر اس پر توجہ دیں۔
            آپ کو بہت مزا دے گا۔ پھر راز رکھنے کا وعدہ لے کر ساری بات بتا دی۔ نگو آنٹی تو بھڑک اٹھیں کہ تم نے پہلے مجھے کیوں نہ بتایا میں ایسے ہی ہجرزدہ سیکس کی آگ میں پھنک رہی ہوں۔ پھر ایک دن نگو آنٹی نے مجھے بلایا کہ بیٹا کبھی ہماری طرف بھی چکر لگا لیا کرو۔
            اگلے ہی دن عارفہ بھابھی نے سحر۔ عافیہ اور عارفین کو کہلا بھیجا اور اپنے گھر بلا لیا مجھے پتہ نہیں تھا کہ نگو آنٹی گھر پر اکیلی ہیں۔ میں جاب پر تھا تو نگو آنٹی کی کال آ گئی کہ بیٹا آج ہماری طرف شام کا کھانا کھا لو۔ میں نے بھی یہ سوچ کر ہاں کر دی کہ آج سحر کو اس کے والدین کے گھر چودوں گا۔
            شام کو میں جاب سے سیدھا سسرال پہنچا اور انتظامات دیکھ کر دنگ رہ گیا لیکن لڑکیوں میں سے گھر میں کوئی بھی دکھائی نہ دے رہی تھی۔
            آنٹی نگو تو دلہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھیں اور گھر میں اکیلی تھیں اور کھانے طرح طرح کے بنائے ہوئے اور ٹیبل سجی ہوئی تھی۔
            میں نے پوچھا کہ سحر اور دوسری بہنیں کہاں ہیں تو ظالمانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگیں کہ عارفہ نے بلایا ہے۔ ان کے اس جواب سے میں سمجھ گیا کہ کیا چکر ہے اور مطمئن ہو کر کھجور کا ملک شیک پیا جو نگو آنٹی نے میرے لیے کھویا ڈال کر بنایا تھا۔ نگو آنٹی بار بار میرا ہاتھ پکڑ کر میرے آنے کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔
            پھر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں کو لگایا۔ میں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو مجھے اپنی طرف کھینچا۔
            میں بولا کہ آنٹی بس کریں۔ تو کہنے لگیں کہ عارفہ نے مجھے سب بتا دیا ہے اس لیے گھبرانے اور پیچھے ہٹنے کا ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں۔
            کیا تم اپنی ساس کی ضرورت پوری نہیں کرو گے؟ ۔
            اور آنکھ مار کر بولیں ایک کے ساتھ ایک فری!!۔
            میں نے من ہی من میں سوچا کہ ایک کے ساتھ ایک نہیں تین فری۔ لیکن تھوڑا مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا کہ نہیں آپ میری ماں کی طرح ہیں۔ تو تنک کر بولیں: ۔
            نجمہ کے بارے کیا کہتے ہو داماد جی؟۔
            اس نے تو تمہیں باقاعدہ ماں بن کر پالا جب تمہارے والدین تمہیں اس دنیا میں اکیلا چھوڑ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے(نجمہ خالہ نے میرے متعلق یہہ ھی مشہور کر رکھا تھا)؟۔
            تو نجو آنٹی نے کیا کیا تمہارے ساتھ؟ اپنی خواہش پوری کی نا تو مجھے کیوں محروم کر رہے ہو؟۔
            میں نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا نجمہ آنٹی کا؟ کہنے لگیں عارفہ نے جس کو بچے دیئا ہے تم نے۔
            میں سمجھ گیا کہ اب فرار ممکن نہیں اور فرار چاہتا بھی کون تھا میں تو ذرا بس یقین کر لینا چاہتا تھا کہ سب ٹھیک ہے۔
            نگو آنٹی نے جب اتنی بڑی بات کھلے بندوں کہہ دی تو میرے لیے صرف ایک ہی راستہ بچا تھا۔
            یعنی وہی جس کا دروازہ ان کی شلوار میں دونوں رانوں کے بیچ تھا۔
            میں اپنی جگہ سے اٹھا اور نگو آنٹی کے پاس کھڑا ہو کر ان کے ہونٹوں پر ہونٹ جما دیئے اور چوسا لگانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا کہ میری ساسو جان میں آپ کے ہر کام آؤں گا فکر نہ کریں۔
            میں نے کہا کہ آپ کودلہن بنا دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا تھا کہ آج آپ کے ساتھ سہاگ رات ہے۔
            چلیں کھانا کھانے سے پہلے ایک سیشن ہو جائے اور ان کا بازو پکڑ کر کھینچا اور انہیں ان کے سجے ہوئے بیڈ روم میں لے گہا جہاں آج چدائی کا کھیل ہونا تھا۔
            بیڈ پر جاتے ہی ہم گتھم گتھا ہو گئے
            پھر تو پتہ بھی نہ چلا کہ کس وقت ہم دونوں کپڑوں کی الجھن اور قید سے آزاد ہو گئے۔ جب میری ہونے والی ساس نگو آنٹی نے میرا ہتھیار دیکھا تو ان کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور میں نے جلدی سے اپنا لمبا موٹا لن ان کے منہ میں دے دیا اور وہ بڑی محبت سے اس کا چوپا لگانے لگیں۔
            وہ ساری رات میں نے اپنی ساس کو ٹھنڈا کرنے میں گزاری لیکن ترسی ہوئی عورت کی آگ کوئی یک دم ٹھنڈی نہیں کر سکتا۔
            نگو آنٹی کے بوبز 40 کے تھے اور ٹائٹ۔ بہت چوسے اور ان کے درمیان میں لن کو وہاں بہت رگڑا ۔
            تھوک لگا کے پھر میرے لن سے نکلنے والا پانی مکس ہو گیا اور نگو آنٹی نے اپنے بوبز جوڑ لیے اور میں نے تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا پھر کبھی وہ میرا لوڑا منہ میں ڈالتی۔
            کبھی اپنے مموں کے درمیان اور کہتی کہ تمہارے انکل کا تو تم سے آدھا بھی نہیں اور وہ اتنی دیر میں ڈسچارج ہو چکے ہوتے لیکن تم کس مٹی کے بنے ہو؟ تم پر نہ میرے منہ کا اثر نہ مموں کا۔ تم تو میری پیاری بیٹی سحر کو بہت خوش رکھو گے۔مجھے اپنے داماد پر فخر ہے۔
            میں نے کہا کہ میں تو آپ چاروں کو بہت خوش رکھوں گا کیونکہ اس سے پہلے میں نے نجمی آنٹی اور ان کی دونو بہوؤں کو بھی خوش رکھا ہوا ہے اب چار آپ لوگ تو یہ کل ملا کے سات ہوگئیں۔
            کہنے لگیں کہ اوئے کمینے بڑے لوڑے والے!۔
            تم نے میری دونوں چھوٹی بیٹیوں پر بھی نظر رکھ لی؟
            میں نے کہا کہ مجھے نظر رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟
            وہ ہیں ہی سکسی اب سحر کے ساتھ شادی کی شرط یہی ہو گی کہ عافیہ اور عارفین کی چدائی آپ خود مجھ سے کروائیں ورنہ یہ شادی نہ ہو گی۔
            آنٹی تڑپ اٹھی کہ یہ کیا؟۔
            میں نے کہا کہ اگر آپ ، بھابھیوں اور سحر کو بڑے اور موٹے لوڑے کی ضرورت ہے تو سحر کی چھوٹی بہنوں کو کیوں نہیں؟ اور باہر کے مرد کیوں چودیں میری سالیوں کو جبکہ گھر میں تگڑا لن موجود ہے؟۔
            آنٹی کہنے لگی کہ یہ بھی ٹھیک ہے۔ جیسے تم کہتے ہو ویسے ہی ہو گا لیکن ابھی نہیں۔ مناسب وقت پر میں نے کہا بالکل ٹھیک اور پھر ٹانگیں اٹھا کر ایک ہی جھٹکے میں نگو آنٹی کی تنگ چوت میں موٹا لمبا لوڑا ڈال دیا۔ آنٹی بلبلا اٹھی۔
            ارے کیا سحر کو بھی اس طرح ڈالا تھا؟ میں نے کیا نہیں اسے تو بہت پیار سے ڈالا تھا آپ تو بے شمار مرتبہ چُدی ہوئی ہو اس لیے ڈائریکٹ ڈال دیا۔
            کہنے لگیں کہ بے شک بے شمار بار چُدی ہوں لیکن ایسے تگڑے موڑے اور لمبے لوڑے سے تو پہلی بار چُد رہی ہوں پھر میں نے آہستہ آہستہ چدائی کی سپیڈ بڑھا دی۔ ٹاپ گیئر میں چدائی جاری تھی کہ باہر بیل ہوئی۔ (جاری ہے)
            Vist My Thread View My Posts
            you will never a disappointed

            Comment


            • #7
              ۔نیو اپڈیٹ۔
              آنٹی نے ڈرے بنا کہا کہ یہ مادر چود اس وقت پتہ نہیں کون آ گیا ہے رنگ میں بھنگ ڈالنے۔
              آنٹی بڑبڑاتی ہوئی اُٹھیں اور کپڑے پہن لیے پھر میں نے بھی کپڑے پہن لیے اور ہم باہر آ گئے۔
              میں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا اور آنٹی دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنے سے کچھ چھوٹی عمر کی، اپنی ہم شکل ایک انتہائی سمارٹ عورت کے ساتھ اندر واپس آئیں اور میرا تعارف اس سے کروایا۔ ظہیر!۔
              یہ میری چھوٹی بہن ہے تمہاری آنٹی جُگنی۔ یہ میاں بیوی اسی محلے میں رہتے ہیں اور جُگنی یہ میرا ہونے والا داماد ہے ظہیر۔ آج ہم نے کھانا پرأس کوبلایا ہے۔
              آو بیٹھو یہ کہہ کر آنٹی نگو نے ان کے ہاتھ سے ڈبہ پکڑا اور کچن میں چلی گئیں اور جُگنی آنٹی میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر مجھ سے مخاطب ہوئیں۔
              کیسے ہو ظہیر؟
              بڑی تعریف سنی ہے تمہاری۔ میں شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا بس آنٹی میں کیا ہوں ایک عاجز سا انسان۔
              پھر آنٹی نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ جیتے رہو۔ مجھے ان کی آنکھوں میں درد دکھائی دیا۔ اب اس درد کی کھوج کا حق تو بنتا تھا نا!
              اصل میں جگنی آنٹی کی شادی کو چار سال ہونے کو آئے تھے اور ابھی تک کنواری تھیں یہ بات انہوں نے بتائی کہ ان کے شوہر کا بچپن میں ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کوئی ایسی چوٹ آئی کہ وہ کسی عورت کے قابل نہ رہے لیکن ہمارے معاشرے کی بے ثباتی کی وجہ سے وہ نہ تو کسی کو کچھ بتا پائے نہ ہی جھجک کی وجہ سے علاج کروا پائے۔
              اب جگنی ان کی بیوی تو تھی لیکن ان ٹچ تھی۔ میں نے سوچا کہ کمال ہو گیا ایک اور ٹارگٹ ملنے والا ہے لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ جگنی کی آنکھوں میں ایسا کوئی جذبہ نہ دیکھا۔
              جو عموماً سیکس کی پیاسی لڑکیوں یا عورتوں میں نظر آتا ہے۔ وہ ایک نیک نظر بی بی دکھائی دے رہی تھی لیکن میں نے سوچا کہ نگو آنٹی بھی بڑی شریف لگتی تھی لیکن آج میری ساس ہونے کے باوجود میرے نیچے ہے اس لیے یہ بھی ایسی ہی ہو گی۔
              کچھ دیر میں نگو آنٹی آ گئیں اور برتن میں کچھ ڈال کر لائی تھیں اور شکریہ ادا کرنے لگیں اور کہنے لگیں کہ جگنی تم بھی ہمارے ساتھ کھانا کھا لو۔
              تو جگنی کہنے لگی کہ نہیں زاہد گھر آگئے ہیں میں ان کے ساتھ ہی کھاؤں گی تو نگو آنٹی نے کہا کہ اسے بھی یہیں بلا لیتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں کال کر دی کہ زاہد ادھر ہی آ جاؤ۔
              تھوڑی ہی دیر میں ایک بہت ہی ہینڈ سم اور خوب صورت انسان ہمارے ساتھ ٹیبل پر بیٹھا تھا۔
              مجھے دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ اس قدر سجیلا نوجوان اور عورت کے قابل نہیں پھر میں دل ہی دل میں ###کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس نے مجھے ہر طرح سے مکمل بنایا تھا۔
              مجھے زاہد انکل سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور اب میں نے سچے دل سے عہد کر لیا کہ انہیں بھی ابا بنا دوں گا۔ چنانچہ
              چنانچہ میں نے ان کے ساتھ بہت محبت اور احترام ظاہر کیا تا کہ انہیں مجھ پر مکمل اعتماد ہو جائے۔
              اس کے بعد ان کے ساتھ رابطہ دوستی میں تبدیل ہو گیا۔
              ایک دن میں جگنی سے ملنے ان کے گھر گیا تو دونوں بہت اپ سیٹ نظر آئے۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے؟۔
              زاہد نے کہا کہ میں جگنی سے کہہ رہا ہوں کہ تم مجھ سے طلاق لے لو اور کہیں اور شادی کر لو تا کہ تمہارے ارمان پورے ہوں اور بچے بھی ہو جائیں لیکن یہ نہیں مان رہی اور کہتی ہے کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں اور تمہارے ساتھ ہی رہوں گی۔
              میں نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ بچے گود لے لیں؟
              کہنے لگے کہ بچہ تو گود لے لیں لیکن اس کی جسمانی خواہش کا کیا کریں گے؟ وہ تو پوری نہیں ہو سکتی نا؟
              میں نے ہنکارہ بھرا اور کہا کہ میں آپ کو اس کا حل بھی بتا سکتا ہوں لیکن اگر آپ دونوں غصہ نہ کریں۔
              تو زاہد نے کہا کہ ہاں بولو یار! میں نے جگنی سے کہا کہ تم بھی میری دوست ہو اس لیے میری بات کا برا مت ماننا۔ مجھے تم دونوں کی بہتری عزیز ہے۔
              جب دونوں نے مجھے یقین دلایا تو میں نے بلاجھجک کہہ دیا کہ آپ کے یہ دونوں کام میں مکمل رازداری کے ساتھ کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کیسے؟
              میں نے کہا کہ آپ کی سیکس کی خواہش بھی پوری کرتا رہوں گا اور پریگننٹ بھی کر دوں گا تا کہ آپ دونوں کا بچہ ہو جائے اور میں اس بات کو مکمل راز رکھوں گا اور زندگی بھر نہیں نکالوں گا۔
              ابھی میں بات کر ہی رہا تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر پڑا۔ میں نے دیکھا کہ جگنی نے مجھے اپنی پوری جان لگا کر تھپڑ رسید کیا تھا اور مجھے دھکے دینے لگی کہ تم اسی وقت ہمارے گھر سے نکل جاؤ اور آئندہ کبھی ہمارے گھر نہ آنا۔
              کیا تم مجھے حرام کاری اور زنا کی ترغیب دلا رہے ہو اور اس سے بڑا گناہ یہ کہ میں تمہارے نطفے سے بچہ پیدا کروں؟ ۔
              چلو نکلو یہاں سے۔
              اور زاہد چپ چاپ بیٹھا تھا۔ میں فوراً ہی گھر سے نکل گیا۔ میں بہت پریشان تھا کہ کہیں یہ بات بگڑ ہی نہ جائے۔ لیکن دو تین دن کے بعد مجھے زاہد کی کال آئی اور اس نے کہا کہ میں نے بہت غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔
              کہ یا تو جگنی تم سے سیکس کرنا شروع کر دے یا پھر میں اسے طلاق دے دوں۔ چنانچہ جگنی کو میں نے آج رات تک کا وقت دیا ہے اگر وہ مان گئی۔
              تو تم تیار رہنا وگرنہ کل صبح وہ مجھ سے طلاق لے کر نگو کے گھر چلی جائے گی۔ میں نے کہا کہ زاہد یار ایسا نہ کرو۔
              لیکن زاہد نے کہا کہ یہی میرا فیصلہ ہے اور تمہیں اس لئے بتایا کہ تم ذہنی طورپر تیار رہو مجھے یقین ہے کہ وہ مان جائے گی کیوں کہ وہ مجھے کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتی۔ میں نے کہا کہ چلیں دیکھتے ہیں۔
              لیکن زاہد کا اندازہ غلط نکلا اور جگنی زاہد کا گھر چھوڑ کر نگو آنٹی کے گھر شفٹ ہو گئی اور زاہد نے جگنی کوطلاق دے دی۔
              آنٹی نگو کو بڑی حیرت تھی کہ یہ سب کیوں ہوا؟
              جگنی نے میرے ساتھ دوستی کر لی تھی لیکن وہ زنا کرنے اور میری منی سے بچہ پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کیسی لڑکی ہے؟
              آنٹی نگو کو جگنی نے ساری بات بتا دی تھی جس پر نگو آنٹی مجھ سے کچھ ناراض ہوئی لیکن وہ مجھے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے کہا کہ تم جگنی کو مزید مجبور نہ کرو۔
              میں نے کہا کہ میں نے تو مجبور نہیں کیا میں نے تو صرف ایک تجویز دی تھی کہ اگر جگنی زاہد کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتی اور بچہ بھی اپنے پیٹ سے پیدا کرنا چاہتی ہے تو میں حاضر ہوں۔
              جس پر نگو آنٹی کو تسلی ہوئی۔ جگنی نے بھی نگو آنٹی کو بتایا کہ اس کا قصور نہیں ہے اس نے ہماری ہمدردی میں یہ سب کہا تھا۔ اب تو روزانہ جگنی کے ساتھ بات و ملاقات ہونے لگی۔
              میری دلچسپی جگنی میں اس لیے بڑھ چکی تھی کہ وہ زنا کرنا تو دور کی بات ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتی تھی۔ عدت کے دن گزرتے گئے زاہد نے صلح کی ایک ہی شرط رکھی ہوئی تھی۔
              نگو آنٹی بھی سمجھا رہی تھی اور سحر نے بھی جگنی کو سمجھایا کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن جگنی نہیں مان رہی تھی۔
              جگنی اور میری دوستی بہت پکی ہو چکی تھی اور میں حقیقی معنوں میں جگنی سے مرعوب بھی تھا ۔
              اور اس کا احترام بھی کرتا تھا۔ جگنی کو معلوم ہو چکا تھا کہ نگو آنٹی مجھ سے چُدواتی ہیں اور سحر کو بھی چود چکا ہوں۔ انہیں نگو آنٹی نے بتایا بھی تھا کہ ظہیرسب کو ہی مطمئن کر رہا ہے۔
              کافی دن گزر گئے۔ زاہد بھی پریشان تھا کہ عدت کی مدت گزر رہی ہے۔ ایک دن جگنی نے مجھ سے کہا کی زاہد سے کہو طلاق واپس لے کر مجھ سے صلح کر لے میں اس کی تجویز پر غور کروں گی ۔
              ورنہ اگر عدت گزر گئی تو صلح ممکن نہیں رہے گی اور میں ساری زندگی کبھی شادی نہ کروں گی کیوں کہ میں زاہد کے علاوہ کسی کو اپنا خاوند نہیں مان سکتی میں اس سے عشق کرتی ہوں۔
              میں نے فورا ًزاہد سے کہا کہ برف پگھل رہی ہے۔بات بنتی دکھائی دے رہی ہےتم صلح کر لو۔ یوں دونو کی صلح ہو گئی اور جگنی زاہد کے گھر واپس جانے کی تیاری کرنے لگی ۔
              اسی رات دونو کی صلح ہو گئی اور طلاق والا معاملہ ختم ہو گیا۔ اس رات کو ڈنر زاہد اور جگنی کی طرف سے تھا جو ایک بڑے ریسٹورنٹ میں دیا گیا جس میں سبھی شامل ہوئے اور اس کے بعد جگنی کی دوبارہ رخصتی ہوئی۔ میں اپنی کار میں دونو کو بٹھا کر ان کے گھر لے آیا۔
              رات کو گپیں لگاتے گزارا۔ اگلے دن طے پایا کہ آج زاہد کی موجودگی میں جگنی کے منہ بولے خاوند یعنی میرے ساتھ جگنی کی سہاگ رات ہو گی
              رات ہو گی۔
              میں بھی خوشی خوشی گھر لوٹا تیاری کی اور جاب پر چلا گیا۔ واپسی پر میں نے اپنا نیا سوٹ نکالا۔
              بھابھیاں مجھے رشک کی نظروں سے دیکھ رہی تھیں اور بھائی میری خوش قسمتی پر ناز کر رہے تھے۔ جیسے سب لوگ میری بارات کےساتھ جا رہے ہوں۔
              سعدی باجی نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا کہ تین سے زیادہ بچے نہیں ہونے چاہئیں ورنہ میں تمہیں مار ڈالوں گی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں بس مزے ہی کروں گا ۔
              بچوں والی کوئی بات نہیں ہو گی۔ خیر ہم سب تیار ہو کر جگنی اور زاہد کے گھر سات بجے شام پہنچ گئے۔ وہ بھی سجی سنوری بیٹھی تھی۔
              نگو آنٹی اور ان کی تینوں بیٹیاں بھی موجود تھیں۔ آج مجھے سحر کی بہن عافیہ کی آنکھوں میں بہت پیاس نظر آئی۔
              میں بھی اس کی طرف ایسی ہی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی اس کی ٹانگیں اٹھا کر گھسیڑ دوں گا۔
              دل تو میرا یہی تھا لیکن میں جانتا تھا کہ آج کی رات عافیہ کی خالہ جگنی کی باری ہے۔ اسی اثنا میں عافیہ اٹھی اور مجھے آنکھوں سے اشارہ کر کے واش روم کی طرف چلی گئی۔ کوئی دو منٹ بعد میں بھی اٹھا اور واش روم کی طرف ٹہل گیا۔
              واش روم کا دروازہ کھلا تھا جیسے ہی میں دروازے کے سامنے پہنچا تو دروازہ کھول کے عافیہ نے مجھے اندر کھینچ لیا اور سیدھا میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور کہنے لگی کہ آج میرا دل کر رہا ہے آپ کو کھا جاؤں۔
              میں نے سنبھلتے ہوئے کہا کہ دو چار دن صبر کر لو لیکن میں بھی اس کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور کسنگ کر رہا تھا۔
              عافی کے منہ سے آنے والی سیکس کی باس نے مجھے ٹُن کر دیا تھا۔ عجیب سی شہوت انگیز بو اس کے بدن سے اٹھ رہی تھی جو اس سے پہلے مجھے کسی سے کبھی نہیں آئی تھی۔ دل کر رہا تھا کہ ابھی اسے ڈھیر کر دوں لیکن جگنی کا خیال آتے ہی۔
              میں نے اسے چھوڑ دیا۔ کوئی پانچ منٹ اسی حالت میں گزار کر میں نے عافی کو تسلی دی اور منہ دھویا۔
              اسے کہا کہ اپنی لپ سٹک ٹھیک کر کے بعد میں آ جانا۔ اور میں واپس وہاں آ گیا جہاں سب لوگ بیٹھے تھے۔
              ایک ہنگامہ سا تھا۔ خوشی کا چھوٹا سا طوفان آیا ہوا تھا سامنے زاہد اور جگنی دلہا دلہن بنے صوفہ پر اکٹھے بیٹھے تھے اور سبھی ان کی تصویریں بنا رہے تھے۔ بالکل شادی والا سماں تھا۔
              مجھے بھی تصویر کے لیے بلایا گیا اور میں جگنی کے دائیں طرف جا بیٹھا تو تصویر مکمل ہو گئی۔
              اس کے بعد سب نےکھانا کھایا اور اجازت لی۔ نگو آنٹی اپنی تینوں بیٹیوں کو لے کر اپنے گھر چلی گئیں اور میں نجمہ خالہ اور سعدی اور عارفی بھابھی کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔ انہیں گھر چھوڑ کر میں نے میڈیکل سٹور کا رخ کیا۔
              گو مجھے کسی دوا کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی میں چاہتا تھا کہ جگنی کے مارے ہوئے تھپڑ کا بدلہ ایسے لوں کہ وہ ساری زندگی کے لیے میری غلام ہو کر رہ جائے۔ چنانچہ میں نے ایک گولی ویاگرا کی خرید کے ایک کپ دودھ کے ساتھ کھا لی اور ایک خرید کر جیب میں رکھی اور زاہد کے گھر کا رخ کیا جہاں دو خاوندوں والی جگنی اپنے ٹھوکو خاوند کا انتظار کر رہی تھی۔
              میں جب زاہد کے گھر پہنچا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ دونوں میاں بیوی میرا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ میں جب پہنچا تو زاہد نے بڑی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا ۔
              لیکن جگنی کہیں نظر نہ آئی میں نے آنکھوں آنکھوں میں پوچھا تو زاہد نے مجھے اندر کا اشارہ کیا۔ میں نے کہا ٹھیک۔
              اندر جا کر میں نے جگنی کو سلام کیا اور ہاتھ بڑھایا اس نے میرا ہاتھ تھاما اورسلام کا جواب دیا۔
              وہ شرما رہی تھی۔ وہ اس قدر خوب صورت تھی کہ میں تصور ہی کر سکتاتھا۔ گولی نے اثر دکھا دیا اور اوپر سے جگنی کی خوب صورتی غضب ڈھا رہی تھی۔
              اچانک وہ ہاتھ چھوڑ کر رونے لگی۔ زاہد نے اسے تھام لیا اور چومنا شروع کیا۔ میں کمرے سے باہر چلا گیا۔ میں کچن میں آیا اور ایک گلاس دودھ لیا اس میں دو چمچ شہد ڈالا اور ویاگرا کی جو دوسری گولی خریدی تھی اسے اچھی طرح پیس کر دودھ میں حل کر دیا۔
              میں دودھ کا گلاس لیے کھڑا تھا کہ زاہد پیچھے سے آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تم کیوں باہر آ گئے؟
              آ جاؤ وہ سنبھل چکی ہے۔ میں نے زاہد سے کہا کہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ وہ کہنے لگا کہ نہیں یار! ۔
              اس سب کی خاطر تو ہم نے صلح کی ہے کہ ہمیں بچہ چاہیے۔ میں نے دودھ کا گلاس اسے دیتے ہوئے کہا کہ یہ سارا گلاس ختم کرو پھر چلتے ہیں۔ اور زاہد نے سانس بھر میں سارا گلاس حلق میں انڈیل لیا۔
              میں نے زاہد سے کہا کہ آپ جاؤ اور جگنی کو تیار کرو۔ کسنگ کرو اور اس کے کپڑے اتارو۔
              چنانچہ زاہد اندر چلا گیا اور جا کر جگنی کو پیار کرنے لگا۔ میں کوئی دس منٹ کے بعد حجلۂ عروسی میں گیا اور دیکھا کہ دونوں ننگے ہو کر بھرپور پیار کر رہے ہیں اور میں نے دیکھا کہ میری دی ہوئی گولی نے زاہد پر اثر دکھایا تھا اور ہلکی ہلکی اریکشن اس کے پانچ انچ کے لن میں محسوس ہو رہی تھی۔
              مجھے خوشی ہوئی اور میں نے فوراً اپنے کپڑے اتارے اور بیڈ پر جگنی کی دوسری طرف چڑھ گیا۔
              میں نے صرف انڈر ویئر پہنا ہوا تھا جس میں سے میرانو انچ لمبا اور ساڑھے تین انچ موٹا کالا لوڑا پھنکار رہا تھا۔
              زاہد کی آنکھوں کی چمک مجھ سے چھپی نہ رہ سکتی تھی کیوں کہ آج وہ اپنی پیاری بیوی کو اس کی بھانجی کے خاوند کے ساتھ سہاگ رات مناتے دیکھنے والا تھا۔
              بس پھر کیا تھا میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جگنی پر سوار ہو گیا۔ کسنگ کی انتہا ہو رہی تھی ہم تینوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے اور جگنی مدہوش ہوئے جا رہی تھی۔اچانک زاہد نے میرے لوڑے پر ہاتھ رکھا اور انڈرویئر نیچے کر کے میرا لوڑا اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانا شروع کر دیا کچھ ویسے ہی میرا لوڑا بہت ٹائٹ تھا کچھ گولی نے کام دوآتشہ کر دیا تھا۔
              زاہد میرا لوڑا پکڑے پکڑے جگنی کی پھدی کے دانے پر چلا گیا اور زبان سے اسے چھیڑنے لگا۔
              کبھی وہ زبان پھدی کے اندر کر دیتا اور کبھی دانے پر لگا رہتا۔ جگنی بھی حیران تھی کہ زاہد کو آج کیا ہو گیا ہے پہلے تو کبھی کسنگ سے آگے نہیں گیا تھا۔ لیکن اس بے چاری کو کیا معلوم کی زاہد پر بھی گولی اثر دکھا رہی تھی۔
              زاہد نے میرا لوڑا کھینچ کر جگنی کی چوت کے قریب کیا اورمیرے لن کا موٹا ٹوپا اس کے دانے پر گھسانے لگا اور اب اس کی زبان میرے لن پر بھی پھرنے لگی پھر اس نے میرا لوڑا اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی تو میں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ پھر زاہد نے میرا لن جگنی کی پھدی پر گھساتے گھساتے اس کی کنواری موری پر رکھ دیا اور آگے کو زور لگانا شروع کر دیا ۔
              میں سمجھ چکا تھا کہ اب زاہد چاہتا ہے کہ میں اپنے نو انچ لمبے اور ساڑھے تین انچ موٹے لوڑے سے اس کی پیاری چہیتی بیوی کی چوت پھاڑ دوں۔
              میں اس کا اشارہ پا کر سیدھا ہوا اور زاہد سے کہا کہ جگنی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر کسنگ کرے اور اسے اچھی طرح مضبوطی سے پکڑ لے۔
              میرے ذہن میں وہ طمانچہ گونج رہا تھا جو جگنی نے مجھے مارا تھا لیکن آج میں اس کا بدلہ لینے والا تھا۔
              جیسے ہی زاہد نے جگنی کا اوپر والا دھڑ اپنے قابو میں کر لیا تو میں نے زاہد اور جگنی کے منہ سے تھوک لے کر اپنے لوڑے پر ملا اور باقی جگنی کی پھدی پر مل دیا جس سے مزید گیلا پن پیدا ہو گیا اب میں نے لوڑے کو موری کے منہ پر رکھا اور پوری طاقت کے ساتھ بغیر جھٹکا لگائے اس کی پھدی میں دھکیل دیا۔
              اندر سے بھی مکمل گیلی پھدی اور میرا لوڑا دونوں میاں بیوی کے تھوک سے لتھڑا ہونے کی وجہ سے چکنا ہو چکا تھا لیکن پہلے بار اتنا موٹا اور لمبا لوڑا تنگ اور کنواری پھدی میں اچانک سارے کا سارا چلا جانا کسی تکلیف دہ مرحلہ سے کم نہ تھا۔
              جگنی ماہئ بے آب کی طرح تڑپ اٹھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن زاہد نے اسے چھوڑا نہیں۔
              ادھر میں نے تھپڑ کے بدلے پوری زور سے اپنا لن اس کی چوت کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔
              میں سار الن باہر نکالتا اور پھر ایک دھکے کے ساتھ واپس اندر ڈال دیتا۔ کوئی پانچ منٹ کی ریاضت کے بعد جب ہم تینوں نے دیکھا تو سفید بیڈ شیٹ لال ہو چکی تھی اور جگنی بے حال ہو چکی تھی۔
              میں نے زاہد کو پیچھے ہٹایا اور جگنی کے اوپر لیٹ کر اس کو کسنگ کرتے ہوئے لوڑا اندر ہی رکھا اور اس کے کان کی لو چوستے ہوئے پوچھا: ۔
              کیسا لگا تھپڑ کا بدلہ؟
              وہ مجھے بے تحاشا چومنے لگی اور کہنے لگی کہ اگر اتنا مزا آنا تھا تو میں پاگل تھی کہ تمہیں انکار کر دیا آج سے تم میرے بھی خاوند ہو۔ میں نے کہا زہے نصیب!۔
              اتنے میں زاہد کی آواز آئی کہ یار جگنی یہ دیکھو میرا لن بھی کھڑا ہو رہا ہے۔ شاید تم لوگوں کو اندھا دھند چدائی کرتے دیکھ کر کھڑا ہو گیا ہے۔
              میں نے کہا کہ زاہد بھائی آجاؤ میدان میں اور اپنی پیاری بیوی جگنی کو چودو۔ اتنا کہہ کر میں جگنی کے اوپر سے اترا اور زاہد کو موقع دیا۔ زاہد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جگنی پر چڑھ دوڑا۔ میں نے اپنا تھوک زاہد کے لن پر لگایا اور زاہد نے ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دیا اور لگا اندر باہر کرنے۔
              گھسے پہ گھسا مارنے لگا۔ میں نے زاہد سے کہا کہ آرام سے بھائی جگنی کی یوٹرس کو ٹھوکریں نہ مارو ورنہ اس کی پوزیشن تبدیل ہو جائے گی اور پریگننٹ کرنا مشکل ہو جائے گا۔تو زاہد نے آرام آرام سے دھکے لگانا شروع کر دیئے۔
              کوئی دس منٹ بعد میں نے دونوں سے کہا کہ اب ایک اور کھیل کھیلتے ہیں۔ جگنی بری طرح تھک چکی تھی اور اس کا علاج تھا میرے پاس میں نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک ہومیوپیتھک دوا سٹیفی سیگریا نکالی اور ایک گھونٹ پانی میں پانچ قطرے ڈال کر اسے پلا دی اور کہا کہ پانچ منٹ کا وقفہ۔
              دس منٹ بعد پھر پانچ قطرے دوا پانی میں ڈال کے پلائی جس سے جگنی کی چوت کے زخم ٹھیک ہو گئے اور وہ اس قابل ہو گئی کہ اگلا سیشن لگایا جا سکے۔
              میں ابھی تک ڈسچارج نہیں ہوا تھا۔ زاہد اور جگنی بوس و کنار کر رہے تھے مسلسل۔ میں بھی اب شامل ہو گیا اور ہم تینوں کی زبانیں آپس میں گھلنے ملنے لگیں۔
              میں نے اب ڈوگی سٹائل میں جگنی کو چودنے کا فیصلہ کیا اور زاہد کو نیچے لٹا کر جگنی کو اس کے اوپر کتیا بنا کر اوندھا کیا اور تینوں کا تھوک لگا کر اپنے موٹے اکڑے ہوئے لوڑے پر لگایا اور جگنی کی چوت میں آرام کے ساتھ اندر کر دیا۔
              اب میں تھپڑ کا بدلہ لے چکا تھا اس لیے بڑے آرام سے جگنی کے اندر باہر کر رہا تھا جگنی کے منہ میں منہ ڈالے زاہد اس کو قابو کیے ہوئے تھا۔
              اس سارے عرصہ میں میری توجہ ایک بار بھی جگنی کے چھتیس سائز کے مموں کی طرف نہیں گئی تھی کیونکہ زاہد مسلسل کسنگ اور ممے چوسنے میں مصروف تھا۔
              مصروف تھا۔
              اب میں نے جگنی کے ممےپکڑ لیے اور پیچھے سے اس کا کتا بن کر چودنے لگا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد مجھے زاہد کا لن ٹکراتا ہوا محسوس ہوا۔
              میں نے اپنا نکال کر زاہد کے لن ہر تھوک لگائی اور جگنی کے اندر ڈال دیا۔ وہ دونوں حیران تھے کہ زاہد کا کیسے کھڑا ہوا اور کیسے وہ چودنےکی پوزیشن میں آ گیا؟ بہرحال یہ تو میں ہی جانتا تھا۔
              زاہد کا لن جگنی کی چوت میں ڈال کر میں نے اپنا لن بھی جگنی کی چکنی چوت میں ڈالنے کی کوشش کی جو تھوڑی تگ و دو کے بعد اندر جانا شروع ہو گیا۔
              اب تو جگنی مزے سے چیخ ہی پڑی۔ وہ اُونچی آواز میں چلا رہی تھی۔
              رات تین چار گھنٹے مسلسل چود چود کر میں بھی تھک چکا تھا اور زاہد تو نڈھال یو چکا تھا۔ چنانچہ میں نے جگنی سے کہا کہ تیار ہو؟
              منی تمہاری یوٹرس میں ڈال دوں؟
              وہ کہنے لگی جی۔
              تو میں نے اسے سیدھا لٹایا۔ ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھا اور کولہوں کے نیچے سرہانا رکھا اور لن کو سیدھا کر کے آہستہ آہستہ اندر لے جا کر یوٹرس کے منہ پر سیٹ کیا اور ہلکا سا دھکا لگا کر اندر کر دیا اور دو منٹ ہلکے ہلکے جھٹکے مارے تاکہ ڈسچارج ہو جاؤں۔ اس طرح ایک فوارہ جگنی کی یوٹرس میں چھوڑ دیا۔ اسے بہت سکون ملا شادی سے اب تک اس کی یوٹرس میں منی کا فوارہ پہلی بار چھوٹا تھا۔
              جب میں نے جگنی کی یوٹرس میں فوارہ چلایا تو جگنی کو اتنا سکون ملا کی وہاں سے ہلے بنا ہی سو گئی اور زاہد میرا شکریہ ادا کرتا رہ گیا ہم تینوں ننگے اسی بیڈ ہر سو گئے اور صبح تقریبا آٹھ بجے میں جاگا۔
              تو جلدی جلدی تیار ہو کر آفس کے لیے نکل گیا۔
              کوئی دو گھنٹے بعد زاہد کی کال آئی کہ اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر کوئی آفس جاتا ہے بھلا؟
              میں نے کہا یار دو خاوندوں والی دلہن کے پاس اگر ایک موجود ہو تو ایک کام پر جا سکتا ہے۔
              ہم ہنستے اور باتیں کرتے رہے کہ اچانک زاہد نے مجھ سے پوچھا کہ یار تم نے دودھ میں کیا ملایا تھا کہ میں بھی جگنی کو چودنے کے قابل ہو گیا؟
              میں نے اسے بتا دیا کہ گولی ملائی تھی۔ اس نے کہا کہ آج کے لیے بھی گولی لے آنا۔ میں نے کہا کہ روز روز نہیں استعمال کرنی چاہیے اور پھر آج جو کچھ ہم نے جگنی کے ساتھ کیا ہے اسے کم از کم اڑتالیس گھنٹے آرام کی ضرورت ہے۔
              وہ کوئی بے جان مورت نہیں عورت ہے اور اس کو ساری رات میں نے اپنے موٹے لمبے لن سے اور آپ نے بھی کم نہیں چودا۔ ابھی اسے آرام کرنے دیں ہاں جب یہ خود کہے تو چودنا ہے اور ویسے بھی اس کے اندر میں نے منی ڈالی ہے اسے بھی اپنا کام کرنے کے لیے اڑتالیس گھنٹے۔
              کم از کم دینے چاہئیں ہو سکتا اسی سے جگنی پریگننٹ ہو جائے۔ زاہد نے ہاں میں سر ہلا دیا اور میں نے کہا کہ تم اس کے ساتھ کسنگ وغیرہ ضرور کرنا اگر تیار ہو جائے تو منہ سے یا زبان سے چاٹ کر اسے فارغ کر دینا لن نہ ڈالنا میں چاہتا تھا کہ جگنی پریگننٹ ہو جائے۔
              تیسری رات جب میں نے زاہد کو کال کی کہ کیا صورت ہے؟
              تو کہنے لگا کہ جگنی تمہیں یاد کر رہی تھی۔ میں نے کہا کہ میں اب اس وقت تک نہیں آؤں گا جب تک جگنی خود مجھے میسج یا کال کر کے نہ بلائے۔
              تھوڑی دیر کے بعد جگنی کے نمبر سے میسج آیا کہ کیا حال ہے؟
              کیسے ہو؟
              بھول ہی گئے تم تو؟
              کیا مجھ سے دل بھر گیا؟
              کیا صلح کروانے کے بعد یہی کرنا تھا؟
              میں اس کے میسج پڑھ کر خوش ہوا اور کہا کہ جگنی میں ساری زندگی تمہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں۔
              کہو آج اچھا سا ڈنر کریں؟
              کہیں باہر چلتےہیں۔ جگنی نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے۔
              زاہد اور جگنی تیار تھے تو میں آٹھ بجے گھر پہنچا دونوں نے میرا والہانہ استقبال کیا۔ ہم تینوں باہم لپٹ گئے اور ایک دوسرے کو کس کیا۔ پھر میں نے جگنی کا ہاتھ پکڑ کر اس پر کس کیا اور جگنی سے کہا کہ جگنی میرا مقصد ہر گز تمہیں سیکس کے لیے استعمال کرنا نہیں بلکہ میرا دل کرتا ہے کہ تمہارا دامن خوشیوں سے بھر جائے اور اس میں میرا بھی کچھ حصہ ہو۔
              جگنی نے مجھے اپنے سینے سے لگاتےہوئے کہا کہ میں تم سے بہت خوش ہوں تم ہوس پرست نہیں ہو بلکہ ہمدرد انسان ہو۔ میں نے دل میں کہا کہ میری ہوس پوری کرنے والی کتنی ہی بھابھیاں اور سالیاں ہیں جناب۔
              ہم ڈنر کے لیے نکل ہی رہے تھے کہ جگنی کی بھانجی اور میری سالی عافیہ وارد ہوئی۔ جگنی کہنے لگی لو جی یہ بھی اچھا ہو گیا کہ عافی آ گئی ہے اب ہم چار ہو گئے ہیں۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ عافی بولی زہے نصیب! ۔
              لگتا ہے کہ کہیں گھومنے جا رہے ہیں۔میں چپ رہا تو زاہد بولا ہاں بیٹا ہم ڈنر پر جا رہے ہیں تم بھی چلوگی؟۔
              عافی بولی اگر خالہ اور بہنوئی صاحب کی اجازت ہو تو بندی حاضر ہے۔۔۔۔۔ میں نے کہا کہ تمہاری خالہ نے تو تمہیں کہہ دیا آتے ہی اور رہا میں تو مجھے کیا اعتراض ہے تم میری سالی ہو ۔
              میں کیوں تمہیں منع کروں گا؟ عافی میری گردن میں باہیں ڈال کر ہگ کرتے ہوئے بولی میرے اچھے بھیا! میں نے بھی اسے گال پر تھپکی دی ورنہ دل تو کر رہا تھا کہ اس کے منہ کی مدہوش باس لوں۔
              اب عافی میرے اور جگنی زاہد کے پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ جگنی نے کہا کہ ظہیر آپ ہوٹل کا سویٹ بک کروا لو وہیں لنچ کریں گے کیونکہ سردی کافی ہو رہی ہےاور ہماری پرائیویسی بھی رہے گی۔
              میں نے عافی طرف دیکھا تو وہ معنی خیر مسکراہٹ اپنے کنوارے اور خوبصورت سیکسی لبوں پر سجائے ہوئے تھی۔
              مجھے کافی کچھ سمجھ آ چکا تھا۔ خیر میں نے اسی وقت ہوٹل کال کی اور ایک سویٹ بک کروا لیا اور ڈنر کا آرڈر بھی فون پر ہی دے دیا تاکہ وقت ضائع نہ ہو کیونکہ سردیوں کی رات بہت لمبی ضرور ہوتی ہے۔
              لیکن پیار کرنے والوں کے لیے چھوٹی سی۔ کوئی پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم ہوٹل پہنچے اور پارکنگ۔
              پارکنگ پر ہی میں نے کال کر کے سویٹ کا نمبر پوچھا اور کہا کہ اوپننگ کوڈ کارڈ سویٹ کے پاس ہی بھیج دیں۔
              ہم سیدھے سویٹ پر پہنچے تو ویٹر کو منتظر پایا۔ دروازہ کھول کر اندر گئے تو ہمارا آرڈر بھی ریڈی تھا ہم سب بیٹھ کے کھانا کھانے لگے۔ کھانے کے دوران سبھی بہت خوش تھے اور آپس میں خوش گپیاں لگا رہے تھے۔ میرے ساتھ میری سالی عافی بیٹھی تھی اور سامنے جگنی اور زاہد۔
              کھانے کے دوران عافی نے اپنا بایاںمیرے ہاتھ پر رکھا اور ٹیبل کے نیچے کھینچ لیااور دبانےلگی۔ میں نے تھوڑی دیر صبر کرنے کے بعد اس کا ہاتھ اپنی ران پر رکھ دیا۔جگنی میرے چہرے کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
              عافی نے کہا کہ خالہ آپ تو ڈنر کو فل انجوائے کر رہی ہیں۔
              بہت مزے کا کھانا ہے۔ یہ کہتے ہوئے عافی نے ہاتھ میرے لوڑے والی جگہ پر رکھ کر دبایا۔ میرا تو ٹنا ٹن بجنے لگا۔
              میں نے بھی کہا کہ زاہد اور جگنی بہت شکریہ آپ لوگوں کو دوبارہ ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔
              زاہد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بولا کہ ظہیر بھائی اگر آپ نہ ہوتے تو یہ مسئلہ حل نہ ہوتا آپ کا شکریہ۔ میں نے کہا زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں۔
              عافی کا ہاتھ اب مٹھی میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا تھا۔
              لیکن پینٹ کے اوپر سے وہ ٹھیک طرح میرا موٹا تنا ہوا لن پکڑ نہیں پا رہی تھی۔ سو میں نے کرسی پر پیچھے کو ٹیک لگائی اور ایزی ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ہاتھ اپنی گردن کے پیچھے لے گیا جس سے عافی کو میری پینٹ کی زپ کھولنے میں آسانی ہو گئی اور آن واحد میں اس نے زپ کھول دی اور انڈر ویئر میں میں ہاتھ ڈال کر لوڑا پکڑ لیا۔ اسی اثنا میں میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑا چمچ طریقے کے ساتھ نیچے پھینک کر کہا اوہو۔ چمچ نیچے گر گیا عافی بولی بھیا میں اٹھا دیتی ہوں۔
              میں بولا نہیں رہنے دو میں دوسرا لے لیتا ہوں۔ لیکن اتنے میں عافی نیچے جھک چکی تھی اور ٹیبل کے نیچے گھس کر اس نے میرا انڈر ویئر کھنچا اور لن کو آزاد کر دیا۔ میرے لوڑے نے بھی آزادی کا سانس لیا۔
              دوسرے ہی لمحے وہ عافی کے منہ میں قید ہو گیا لیکن یہ قید بہت مزے کی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چھوڑا اور ٹھیک ہو کر بیٹھ گئی۔
              کھانا جب ختم ہوا تو ہم سب چہل قدمی کے لیے نکلے۔ آئس کریم کھائی اور واپس سویٹ میں آگئے۔
              زاہد جگنی کو لے کر ساتھ والی پارٹیشن میں جانے لگا تو میں نے کہا کہ آپ لوگ آرام کریں میں عافی کو گھر لے جاتا ہوں تو جگنی بولی کہ نہیں تھوڑا آرام کر لیں پھر اکٹھے نکلتے ہیں۔
              میں نے کہا ٹھیک ہے تو وہ الگ پارٹیشن میں چلے گئے اور میں اور عافی دوسری پارٹیشن والے بیڈ روم میں۔
              تھوڑی دیر صبر کرنے کے بعد ہمیں پارٹیشن کے دوسری طرف سے شدید کسنگ اور ہاؤ ہو کی آوازیں آنے لگیں۔ ادھر عافی مجھ پر چڑھ دوڑی۔
              میرے اوپر سوار ہو کر منہ میں منہ ڈال لیا اور چوسنےلگی میں بھی تیار تھا۔ دو منٹ بھی نہیں گزرے ہوں گے ہم دونو کپڑوں کی قید سے آزاد ہو چکے تھے۔
              ۔69کی پوزیشن میں چلے گئے اور میں نے ایک اور کنواری پھدی کو چاٹنا شروع کیا۔ کیا خوشبو تھی جو عافی کے سارے بدن سے اٹھ رہی تھی اور دھیمی دھیمی مہک پھدی کی پری کم سے اٹھ کر پاگل کر رہی تھی۔ یہ پہلی پھدی تھی۔
              جسے چاٹنے کا مزا لوڑا ڈالنے سے بھی زیادہ آ رہا تھا۔ ادھر میرا پانی بھی نکل رہا تھا جو عافی پیتی جا رہی تھی۔
              مدہوش ہونے والی اور کر دینے والی 69 پوزیشن نے مجھے بےحال کر دیا۔میرا تو یہی دل تھا کہ اس چوت کو چاٹتا جاؤں لیکن آدھا گھنٹہ چوپا لگانے کے بعد میری سالی صاحبہ کا دل کر رہا تھا کہ اب میں اپنے لمبے موٹے لوڑے سے اس کی گانڈ اور چوت پھاڑ دوں
              ھاڑ دوں۔
              پس میں نے اس کے مجبور کرنے پر لوڑا چوت میں ڈالنے کے لیے پوزیشن سنبھال لی۔
              ٹانگیں اٹھائیں اور گیلے لن پر مزید تھوک لگایا اور ٹوپا عافیہ کی کنواری اور تنگ چوت پر رکھا اور ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور چوسنا شروع کر دیا لن کو عافی نے کس کر اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا۔ میں نےکہا کہ اسے چھوڑ دو اب یہ تمہارے پھدی کے علاوہ کہیں نہیں جائے گا۔
              بس پھر کیا تھا عافی نے اپنے چوتڑ اٹھائے اور میرے لن کا ٹوپا اندر لینے کے لیے تڑپ اٹھی اور میں نے مزید دیر کرنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے۔
              اپنے لن کا ہلکا سا دباؤ عافی کی پھدی پر بڑھا دیا اور اس کے منہ سے نکلا بھیا! رکنا نہیں۔ میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے منہ میں منہ ڈالا اور لوڑے کو پھدی کے اندر دباتا چلا گیا۔
              جب میرا لوڑا اس کے پردۂ بکارت کو جا کر لگ گیا تو میں کچھ دیر کے لیے رک گیا کیونکہ اب سخت اور اہم فیصلہ لینے کا وقت تھا تو میں نے عافی سے پوچھا کہ عافی میری بہن: بتاؤ خون خرابہ کر دوں؟
              تو عافی نے دونوں ہاتھوں سے میرا سر دباتے ہوئے اپنی زبان میرے منہ میں گھسیڑ دی اور آنکھوں سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ میں نے بڑے پیار سے محبت سے لن اندر کر دیا۔ عافی کو درد ہو رہا تھا لیکن حیرت تھی کہ وہ تڑپی نہیں۔
              جب میں نےلوڑا یوٹرس کےمنہ تک پہنچا دیا تو رک گیا یوٹرس کو ٹچ ہونے کے بعد لوڑا پھڑ پھڑا رہا تھا۔
              عافی کہنے لگی کہ درویش کو حجرۂ خاص میں جانے دیں بھیا! میں نے ہلکا سا پش کیا اور لوڑا اس کی یوٹرس میں گھسا دیا وہ اب تک ان گنت بار ڈسچارج ہو چکی تھی یوٹرس تک لوڑا پہنچا
              تو اس کی پھدی نے اپنے گرم پانی سے ایک بار پھر میرے لوڑے کو غسل دے دیا۔ بڑے آرام کے ساتھ میری ایک سالی کی سیل ٹوٹ چکی تھی۔
              ہوٹل کے سویٹ کی سفید چادر اس جنگ میں رنگین ہو چکی تھی لیکن میں مطمئن تھا کہ ہوٹل والوں کو علم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔
              کوئی آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا
              کوئی آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا ہماری دھواں دار چدائی کوکہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی آیا ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ زاہد تھا جو پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے اور عافی کو اس حالت میں دیکھ رہا تھا۔
              میں نے کام جاری رکھتے ہوئے پوچھا: خیریت ہے؟
              وہ گنگ رہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ پھر کہنے لگا کہ جگنی بلا رہی ہے۔ میں نے کہا چلو۔ اور عافی کے اندر سے لن نکالا اور اسی حالت میں جگنی کے پاس پہنچ گیا۔ جگنی بھی سمجھ چکی تھی کہ اس کی دوسری بھانجی کی سیل بھی ٹوٹ چکی ہے لیکن اس نے کچھ نہ کہا بلکہ مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا۔
              زاہد کی آنکھوں کے آنسو مجھے پریشان کیے ہوئے تھے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا؟ اب سیل واپس تو نہیں لگ سکتی تھی نا۔
              میں نے بھانجی کو چودنے والا لوڑا بنا صاف کیے خالہ جگنی کے اندر گھسیڑ دیا اور فورا ہی ٹاپ گیئر پر چودنا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں زاہد اور عافی ننگے ہی ادھر آ کر بیڈ پر بیٹھ گئے ۔
              دونوں کسنگ کر رہے تھے۔ میں مطمئن ہو گیا کہ دونو نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اب میں تسلی کے ساتھ عافی کے منہ میں منہ ڈالے جگنی کو اور زاہد جگنی کے منہ میں منہ ڈالے عافی کو چود رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم چاروں کھل گئے اور کھل کے زور شور سے چدائی اور شور ہونے لگا۔ مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔
              اچانک زاہد نے جگنی کو میرے نیچے سے نکال کر لوڑا ڈال دیا اور میں نے عافی کو کتیا بنا کر چودنا شروع کیا پھر زاہد عافی کے نیچے آیا اور میں نے تھوک لگا کر اس کا لن عافی کی پھدی میں ڈال دیا اور خود بھی اس کوشش میں لگ گیا کہ عافی کی پھدی میں اپنا موٹا لوڑا ڈال دوں۔
              کافی تگ و دو کے بعد بالآخر میں کامیاب ہو گیا۔ عافی کو درد ہو رہا تھا لیکن مزا اس سے بھی زیادہ آ رہا تھا وہ خالہ خالہ خالہ !پکارے جا رہی تھی اور اس کی خالہ نے اس کو کس کے پکڑا ہوا تھا۔
              میں اب مکمل ہونے والا تھا لیکن زاہد ابھی تک دھؤاں دار چدائی میں مصروف تھا میں بڑا حیران ہوا کہ کیا ہو گیا ہے زاہد کو؟ تو زاہد نے میرے کان میں بتایا کہ آج اس نے دو گولیاں کھائی ہوئی ہیں۔
              میں نے جگنی سے کہا کہ آ جاؤ تمہارے اندر اپنا نطفہ ڈال دوں تو وہ سیدھی لیٹ گئی۔ میں نے بڑے پیار سے اس کی چوت میں آہستہ اور سیدھا رکھ کر لوڑا یوٹرس تک پہنچایا اور پھر ہلکا سا دبا کے یوٹرس کے اندر کر دیا۔ دو چار بار اندر ہی ہلانے سے میرا فوارہ چھوٹ گیا۔
              اور جگنی کو میری منی کا نشہ چڑھ گیا کیونکہ اس کی یوٹرس کو میں نے ہی دوسری بار سیراب کیا تھا۔وہ تو وہیں ڈھیر ہو کر سو گئی۔ عافی کو زاہد نے گود میں اٹھایا اور دوسرے بیڈ پر لے گیا۔
              میں کچھ دیر تو جگنی کے ساتھ پڑا رہا پھر اٹھ کر ساتھ والی پارٹیشن میں چلا گیا جہاں زاہد اپنی بیوی کی بھانجی کو اندھا دھند چود رہا تھا۔
              زاہد بڑی بے دردی سے خون آلود بیڈ پر عافی کو چود
              بڑی بے دردی سے خون آلود بیڈ پر عافی کو چود رہا تھا کہ میں نے اپنا لن عافی کے منہ میں دے دیا اور عافی اسے لولی پوپ کی طرح چوسنے لگی۔
              لگ ہی نہیں رہا تھا کہ عافی پہلی بار چد رہی ہے حالانکہ اس کی سیل میں نے توڑی تھی اور اس کی گواہ بیڈ شیٹ بھی تھی اور زاہد اور جگنی بھی۔
              خیر زاہد تو پاگل ہوا ہوا تھا۔ کیا عجیب منظر تھا کہ ایک جانب ایک بیڈ پر خالہ اور ایک بیڈ پر بھانجی چُد رہی تھی اور اب ایک بہنوئی اور ایک خالو مل کے بھانجی کو چود رہے تھے۔ وااااہ کیا سین ہے۔
              زاہد تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور اب مجھے لگا کہ اگر عافی کو مزید چودا گیا تو وہ گھر جانے کے قابل نہیں رہے گی۔ اس لیے میں نے زاہد سے کہا کہ بس کرو یار پھر بھی چودنا ہے اسے۔
              زاہد بولا کہ اس رنڈی کو آج تو جی بھر کے چودنے دو نا یار!کل کی کل دیکھی جائے گی۔
              مزید آدھا گھنٹہ لگانے کے بعد زاہد بہت تھک چکا تھا اس لیے اس نے پانی نکال دیااور لیٹ گیا۔ میں نے ہومیودوا سٹیفی سیگریا کے چند قطرے پانی میں ڈال کر عافی کو پلا دیئے۔ اور عافی سو گئی۔
              وہ تو ہل بھی نہیں رہی تھی نہ کروٹ لے رہی تھی۔ عافی اور جگنی مسلسل آٹھ گھنٹے سوتی رہیں اور میں اور زاہد کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور پھر سو گئے۔ میں صبح آٹھ بجے وہیں سے تیار ہو کر آفس چلا گیا۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے مجھے عافی کا میسج ملا کہ بھیا کہاں ہیں؟ ۔
              دیدار کروا دیں۔ میں نے کہا کہ آفس میں ہوں دو بجے آؤں گا۔ تو عافی کا میسج آیا کہ زاہد خالو کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ کبھی مجھے اور کبھی خالہ کو چود رہے ہیں اور مسلسل چودتے جا رہے ہیں۔
              مجھے تو اب ایسی کمزوری ہو رہی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ابھی بے ہوش ہو جاؤں گی۔ مجھے فکر لگ گئی کہ زاہد کہیں کوئی گڑ بڑ ہی نہ کر بیٹھے۔
              میں نے فورًا آفس سے نکلنے کی پرمیشن لی اور ہوٹل پہنچا تو زاہد ابھی بھی دونوں کو چود رہا تھامیں نے زاہد کو سمجھابجھا کر اتارا۔۔(جاری ہے)
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #8
                ۔نیواپڈیٹ۔
                ۔
                پھر میں نے سب کو بتایا کہ جس شخص کی منی گاڑھی یا پھر ٹھیک نہ ہو تو اس کی ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے۔
                زاہد جو پہلے چود ہی نہیں سکتا تھا اب گولی کھانے کے بعد اس کو خشکی زیادہ ہو گئی اور ٹائمنگ مزید بڑھ گئی لیکن پھدیوں کا احساس بھی بہت ضروری ہے۔ زاہد کو سمجھ آ گئی اور احساس ہو گیا کہ وہ کیا غلطی کر رہا ہے لہٰذا اس نے دونو کو چھوڑ دیا۔
                میں زاہد سے کہا کہ اب چار پانچ دن دونوں میں کسی کو بھی بالکل ہاتھ نہیں لگانا ۔ زاہد نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میری یہ بات سن کر جگنی مجھے ہگ کر کے بولی کہ حامی تم بہت اچھے ہو۔
                تمہیں ہر چیز کا سلیقہ ہے۔ میری بھانجی سحر بہت خوش رہے گی تمہارے ساتھ۔میں بولا تو کیا آپ، ۔
                نگو آنٹی، عافی ہاور عارفین؟۔
                جگنی تنک کر بولی عارفین بھی؟؟؟؟؟ ۔
                میں نے کہا کہ جلد ہی اس کا بھی ٹین کھڑکا دوں گا میں سب کو خوش رکھوں گا۔
                عافی کو تو بخار ہو گیا اور دو تین میں بے چاری کُملا کر رہ گئی اس دوران وہ اپنی خالہ جگنی کے گھر پر ہی رہی اور میں، جگنی اور زاہد اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ دوا لا کر دی ڈاکٹر کو چیک اپ کروایا۔
                اسے آرام کی سخت ضرورت تھی لیکن میں تو جب اس کے پاس جاتا اس حالت میں بھی وہ مجھ سے کسنگ کرنے لگ جاتی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور وہ کہتی کہ زاہد خالو نے بہت زیادتی کی۔
                اب دوبارہ انہیں قریب بھی نہیں آنے دوں گی۔ میں کہتا کہ چھوڑو اب کیونکہ تمہیں ان کی موجودگی میں میرے ساتھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس میں تمہاری ہی غلطی سمجھتا ہوں لیکن اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔
                تین دن کے بعد جب عافیہ ٹھیک ہو کر اپنے گھر چلی گئی تو وہ اپنے گھر میں میری پہلی رات تھی اس رات خالہ نجمہ۔ عارفہ اور سعدی تینوں نے مجھ پر یلغار کر دی۔ خالہ بوڑھی تو ہو گئیں تھیں لیکن ابھی تک سیکس کی شوقین تھیں۔
                عارفہ بھابھی سینتیس اور سعدی پینتیس کی ہونے والی تھیں اور یہ عمر بڑی خطرناک ہوتی ہے۔
                عورت جلدی مطمئن نہیں ہوتی بے شک کئی بار ڈسچارج ہو جائے ۔اس کا دل یہی ہوتا ہے کہ دن رات چدتی رہے۔خیر ساری رات میں اپنے یہ فرائض ادا کرتا رہا۔ آخر پر سعدی بھابھی کی باری تھی تو اسے خوب چودا۔
                جگنی کو مینسز آ گئے تو وہ پریشان ہوگئی۔ میں نے اسے کہا کہ پریشانی والی بات نہیں کیونکہ زاہد نے میری منی اندر ٹکنے ہی نہیں دی۔مسلسل اور بار بار چدنے سے بھی پریگننسی نہیں ہو پاتی۔
                ابھی تم نہاؤ گی تو وہ تین چار دن بہت اہم ہوں گے۔ ان میں کوشش کریں گے کہ تم پریگننٹ ہو جاؤ۔ جگنی بولی تو زاہد کا کیا کریں گے؟
                میں نے کہا کہ اس کے لیے کسی رنڈی کا انتظام کر لیں گے یا بھابیوں میں سے کسی کی منت کر لیں گے لیکن عافی کو نہ چدنے دوں گا اب کیوں کہ عافیہ ابھی چھوٹی ہے تو رف سیکس سے اسے دور رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ تو ہر ایک سے چُدے گی اور پھر بھی اس کی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکے گی۔
                جب جگنی کے مینسز کو پانچ دن ہو گئے تو میں نے زاہد سے کہا کہ اگر جگنی کو پریگننٹ کرنا ہے
                تو اس مہینے اسے ہاتھ نہ لگانا ورنہ پھر اگلے مہینہ پر بات جا پڑے گی۔ زاہد کہنے لگا کہ پھر میں کیاکروں گا؟
                مجھے تو سیکس کی عادت ہو چکی ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ چلو عافی تو ہے نا۔ میں نے اسے کہا کہ نہیں اس پورے مہینے تمہیں مختلف مزے آنے والے ہیں۔ ان پانچ دن کے دوران میں نگو اور سعدی اور عارفی بھابھی سے بات کر چکا تھا اور وہ ہماری مدد کے لیے تیار تھے۔
                طے یہ پایا تھا کہ نگو جگنی کے گھر رہیں گی جبکہ ایک دن عارفی بھابھی اور ایک دن سعدی بھابھی رات رہا کریں گی۔
                میں نے ایک
                میں نے ایک بڑے چمچ شہد میں دس قطرے ادرک کے عرق اور ایک چٹکی کالی مرچ ڈال کر استعمال کرنا شروع کر دیا کیوں کہ اس سے پریگننٹ کرنے والے موٹائل سپرم کی تعداد بڑ ھ جاتی ہے۔ پانچ دن میں نے استعمال کیا۔
                کیونکہ اگلے تین دن جگنی کو حاملہ کرنے کے لیے بہت اہم تھے۔ جگنی کو میں نے کال کر کے کہا کہ میری جان!۔
                ذہنی طور پر سیکس کے لیے نہیں بلکہ پریگننٹ ہونے اور ماں بننے کے لیے خود کو تیار کرو۔
                جگنی بولی کہ تم بہت اچھے ہو۔ مجھے صرف استعمال نہیں کر رہے بلکہ میرا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہو۔
                ,. میں نے کہا جگنی مجھے تم سے بہت پیار ہے چلو ایسے ہی سہی کہ کم از کم میرے بچے تو تم پیدا کرو گی نا۔
                جگنی نے بھی کہا کہ مجھے بھی تم سے عقیدت والا پیار ہو گیا ہے اب اگر پریگننسی نہ بھی ہوئی تو میری قسمت! میں نے کہا کہ کیوں نہ ہو گی؟.
                تم ٹینشن سے آزاد رہو تاکہ ریلیکس ہو کر یہ کام کر سکیں اور اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکیں۔ اس نے کہا جی میرے اصل خاوند صاحب!
                نگو کو اس لیے جگنی کی طرف پورا مہینہ چھوڑنا تھا کہ بیچ میں اگر زاہد کو ہشیاری آ جائے کسی وقت تو اس کے لیے ایک تجربہ کار لیکن رف سیکس کے لیے پھدی موجود ہو اور وہ جگنی اور میری محنت پر پانی نہ پھر سکے۔
                دوسرے میری نظر اب عارفین پر تھی کہ اس ایک مہینہ میں میں سحر۔ عافی اور عارفین کو تسلی سے چود پاؤں گا کیونکہ ابھی عارفین کا کھاتہ کھولنا تھا۔
                مجھے کوئی جلدی نہیں تھی لیکن اب دیر بھی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ نگو آنٹی اب سحر کو رخصت کر دینا چاہتی تھیں۔ سو طے یہی پایا کہ چار دن میں جگنی کو پریگننٹ کرنے کی کوشش کروں گا اور اس کے بعد نگو آنٹی اگلے ماہ کی مینسز کی تاریخ تک جگنی کے گھر پر رُکیں گی۔
                آج جگنی نے نہا لیا تھا اس لیے آج کی رات بہت اہم تھی اور اب میں اور جگنی اکیلے چار راتیں گزانے والے تھے جن میں زاہد شامل نہیں ہو گا ۔
                لیکن زاہد کے لیے آج کی رات عارفی بھابھی اور دوسری رات سعدی بھابھی آیا کریں گی رات بھر کے لیے۔
                سو آج رات عارفی بھابھی کی باری تھی اس لیے زاہد نے خوب تیاری کی۔ دن گزرا شام ڈھلی تو رات ڈنر عارفی بھابھی نے جگنی کے گھر پر تیار کیا۔
                ڈنر کے بعد کے ہم چاروں چہل قدمی کے لیے باہر نکل گئے۔ واک کے ساتھ آئس کریم بھی کھائی اور جب ایک لمبی واک کر کے تھک گئے تو واپس گھر کا راستہ ناپا۔ گھر آ کر میں نے اور جگنی نے۔
                جگنی کے باتھ روم میں باتھ لیا اور دوسرے باتھ روم میں عارفی بھابھی اور زاہد نے باتھ لیا۔
                زاہد تو نئی پھدی کے لیے تڑپ رہا تھا سو اس نے عارفی کو وہیں ڈھیر کر لیا اور خوب آوازیں نکالیں کہ عارفی کو تو زاہد بھائی کا نشہ ہو گیا۔
                پھر بیڈ روم میں آ کر بھی دونوں نے خوب اودھم مچایا۔ میں اور جگنی ذہنی طور پر تیار تھے اور پیار کر رہے تھے۔ نہانے کے بعد ہم ننگے ہی بیڈ پر آن بیٹھے۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا نہ بند کرنے کی ضرورت تھی نہ لاک کرنے کی۔
                اس لیے عارفی بھابھی اور زاہد کی چدائی کی آوازیں دل و دماغ اور لن پھدی میں ہل چل پیدا کر رہی تھی اور ہم ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل تیار ہو چکے تھے کہ میں نے جگنی سے کہا دیکھو جگنی! ۔
                تمہارا پیارا شوہر تمہارے ہی گھر میں ایک دوسری عورت کو چود رہا ہے اور اس کی بیوی یعنی تم ایک اور غیرمرد سے چدنے اور حاملہ ہونے والی ہو اور مزے کی بات یہ کہ سب کو معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کون کس کو چود رہا ہے۔
                دیکھو تمہارا شوہر روزانہ نئی غیرمحرم عورت کو چودے گا لیکن میں صرف تمہیں۔ میری اس بات نے جگنی کے تن بدن میں آگ لگا دی اور اس نے بے ساختہ و بے تحاشا مجھے چومنا شروع کر دیا اور ہوتے ہوتے میرے لن کا چوپا لگانے لگی۔
                میں بھی اس کی پیاری پھدی چاٹنے لگا کیونکہ میں نے ہی اس کی سیل توڑی تھی۔
                جگنی
                جگنی کی پھدی اور میرا موٹا کالا لمبا ناگ پانی پانی ہو رہے تھے۔ پھر جگنی سیدھی لیٹی اور میں اس کی دونو ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ اور بڑی محبت کے ساتھ ہم ایک دوسرے سے چمٹ کر کسنگ کرنے لگے۔
                اس نے اپنی پھدی کی پری کم میرے ہونٹوں سے چکھی اور میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لوڑے سے نکلنے والی پری کم چاٹ لی۔
                اب پھدی لوڑے کےلیے بے چین ہو رہی تھی کیونکہ عارفی بھابھی اور زاہد کی ظالمانہ رف سیکس کا شور ہمیں بھی پاگل کر رہا تھا۔ میں نے بڑی محبت سےاپنا لوڑا بنا ہاتھ لگائے جگنی کی پھدی کی موری پر سیٹ کیا اور ذرا سا دباؤ بڑھایا ۔
                ابھی تک جگنی کی پھدی باوجود فل گیلی ہونے کے ٹائٹ تھی۔ میں نےلوڑا ایک بار پھر جگنی کے منہ میں ڈالا اور اسے کہا کہ اس پر اچھی طرح تھوک لگائے۔
                اس نےمنہ بھر کے تھوک میرے لوڑے پر لگایا اور باقی تھوک میں نے اس کے منہ سے چوسنا شروع کر دیا اور لوڑا اس کی تنگ موری کے اوپر رکھ کر اندر دھکیلنے کی کرنے لگا۔
                دو منٹ کی ان تھک محنت کے بعد میرا لن پورے کا پورا جگنی کے غار میں اتر چکا تھا۔ جگنی کی پھدی میرے لن نے مکمل بھر دی تھی اور اس دوران جگنی تین چار مرتبہ ڈسچارج ہو چکی تھی۔
                میں تو نہال ہو رہا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ میرے نطفے سے اب جگنی ماں بنے گی اور میرے بچوں کی تعداد میں شادی سے پہلے ہی ایک اور بچے کا اضافہ ہونے والا ہے۔
                خیر میں نے جگنی کو ہلکے ہلکے گھسے مار کر چودنا شروع کیا اور جگنی کا مزا آسمان سے باتیں کرنے لگا۔
                جگنی بھی عارفی کی طرح آوازیں نکالنے لگی جس سے میری چودنے کی سپیڈ بڑھتی گئی اور جگنی کی آوازیں مزید بلند ہوتی گئیں حتی کہ زاہد اور عارفی بھابھی سے رہا نہ گیا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پکڑے اسی بیڈ روم میں آ گئے۔
                جہاں میں جگنی کی پھدی مار رہا تھا وہ بھی اسی بیڈ پر آ گئے اور اب چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ عارفی بھابھی اور جگنی نے ایک دوسرے کو پکڑ کر منہ میں منہ ڈال دیا۔ اب زاہد ،عارفی بھابی کو کتیا بنا کر چود رہا تھا اور میں مشنری پوزیش میں اندھا دھند جگنی کی پھدی کے اندر باہر کر رہا تھا۔
                میں نے زاہد سے کہا کہ دیکھو زاہد بھائی تمہاری بیوی کو میں چود رہا ہوں دیکھ کر بتاؤ کہ ٹھیک چود رہا ہوں نا؟۔
                زاہد اپنا مناسب سائز کا لوڑا کسی ماہر چودنے والے کی طرح عارفی کی چوت میں پیل رہا تھا اور مجھے ان دونو کو دیکھ کر بہت مزا آ رہا تھا ۔ زاہد کہنے لگا کہ ہاں میرے بہن چود دوست یہ بھی دیکھ نا کہ تیری بھابھی اور تیرے بچے کی ماں کو میں تمہارے سامنے چود رہا ہوں اس سے پوچھ نا کہ کیسا چود رہا ہوں۔
                اب عارفی جگنی کے منہ پر جھکی ہوئی تھی اور اس کتیا کو زاہد بے دردی سے چود رہا تھا اور میں عارفی بھابھی کےچوتڑوں پر ہاتھ رکھے جگنی کی چدائی لگا رہا تھا۔
                اچانک عارفی بھابھی نے جگنی کے منہ سے منہ نکالا اور اس کے مموں کی طرف آئی تھوڑی دیر جگنی کےممے چوسے اور پھر پیٹ پر زبان پھیرتے پھیرتے پھدی تک پہنچ گئی اور پھر پھدی کا دانہ چاٹنے لگی۔
                عارفی بھابھی کی زبان جگنی کی چوت میں اندر باہر ہوتے میرے لوڑے کو بھی لگ رہی تھی ۔
                پیچھے سے زاہد بہت تیزی کے ساتھ عارفی کو چود رہا تھا کہ اچانک عارفی بھابھی نے میرا لن جگنی کی پھدی سے نکال کر اپنے منہ میں بھر لیا اور پھر ایک لمبا چوپا لگا کر دوبارہ جگنی کی پھدی میں ڈال دیا ۔
                اس طرح جگنی اور میرا مکسڈ پانی عارفی بھابھی نے چاٹ لیا اور اپنا تھوک تحفے میں دے دیا جو اب جگنی کی پھدی میں پہنچ چکا تھا۔
                ہم چاروں مزے سے نڈھال ہو رہے تھے کہ عارفی بھابھی نے اچانک سائیڈ بدلی اور میرا لوڑا پکڑ کر جگنی کی پھدی سے نکالا اور اس سے پہلے کہ ہمیں کچھ سمجھ آتی اپنی تر بہ تر پھدی میں ڈال لیا اور زاہد سے کہنے لگی کہ آپ بھی ڈال دو۔
                سو زاہد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عارفی کی پھدی میں اپنا لوڑا گھسا دیا۔ عارفی تو مزے سے چیخنے لگی۔
                میں گھسے نہیں ما رہا تھا بس جڑ تک اپنا ہتھیار عارفی بھابھی کی چوت میں ڈال رکھا تھا جبکہ زاہد خطرناک حد تک اپنا لن عارفی کے اندر باہر کر رہاتھا۔ اس سپیڈ اور لوڑے کی سختی سے لگ رہا تھا کہ عارفی ساری رات چدے گی۔
                کوئی دس منٹ بعد میں نے عارفی سے کہا کہ اب ہم سب کا پانی مکس ہو گیا ہے اور میں اپنے لن کے ذریعے جگنی کے اندر یہ سب مزا ڈالوں گا اور اپنی منی جگنی کے اندر ڈالنے لگا ہوں۔
                آپ لوگ دوسرے بیڈ روم میں چلے جائیں میں وہیں آ جاتا ہوں۔ وہ چلے گئے تو میں نے جگنی کو سیدھا لٹا کر اس کی یوٹرس میں اپنا لوڑا احتیاط کے ساتھ گھسیڑ ڈالا اور چند ایک گھسے لگا کر اس کی یوٹرس میں اپنا گاڑھا مال پھینک دیا۔
                اور جگنی سے کہا کہ وہ گہرے سانس اندر کو کھینچے۔ اور دائیں کروٹ لیٹ جائے۔ سو اس نے ایسا ہی کیا اور نیند اور سپنوں کی وادی میں کھو گئی۔
                میں بھی تھوڑی دیر آنکھیں موندے لیٹا رہا اور پھر اس گندے لوڑے کے ساتھ دوسرے بیڈ روم میں چلا گیا جہاں ابھی تک میرے بچے کی ماں میری بھابھی عارفی کی چدائی جاری تھی۔
                جیسے ہی میں بیڈپر لیٹا، عارفی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ میرا لتھڑا ہوا لوڑا اپنے منہ میں ڈال لیا جس سے ابھی تک منی نکل رہی تھی۔
                عارفی کہنے لگی کہ ظہیر جانی تمہارا سکڑا ہوا لوڑا بھی زاہد کے لن سے موٹا اور لمباہے۔ میں نے کہا کہ بھابھی مزے کرو۔ اور بھابھی مزے کرنے لگ گئی۔
                میرا لوڑا چاٹ چاٹ کر صاف کر دیا اور ساتھ ہی وہ کھڑا ہو گیا۔
                مجھے نیچے لٹا کر عارفی بھابھی میرے اوپر بیٹھ گئی اور لوڑا اندر لے لیااور اچھلنا شروع ہو گئی میں جگنی کے بیڈ روم کا دروازہ اس لیے بند کر آیا تھا کہ ہمارے اودھم مچانے کی وجہ سے اس کی آنکھ نہ کھل جائے۔
                اس لیے اب میں بھی آوازیں نکال نکال کر عارفی بھابھی کو داد دے رہا تھا۔ادھر زاہد نے میرے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا اور میری زبان چوسنے لگا۔
                میں نے اسے کہا کہ عارفی بھابھی کو کتیا بنا لو اور اپنا لن بھی ڈال دو اس کے اندر اور پھر تینوں منہ جوڑ لیتے ہیں چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔اب میں نیچے لیٹا ہوا تھا اور میرے اوپر عارفی بھابھی کتیا بنی ہوئی تھی اور زاہد اسے کتا بن کر چود رہا تھا ۔
                مجھے ہلنے کی ضرورت نہیں پڑ رہی تھی۔ میں اسی طرح پڑا ہوا تھا اور ہم تینوں کی زبانیں باہم گتھم گتھا ہو رہی تھیں۔ زاہد کبھی میری زبان چوستا اور کبھی عارفی بھابھی کی۔ یہ کام تقریباً رات دو بجے تک چلتا رہا تو میں نے زاہد سے کہا کہ بھائی اب بس کر دیں اور سو جائیں۔
                کل سعدی بھابھی کو بھی تم نے چودنا ہے۔ زاہد بولا تمہیں نیند آ رہی ہے تو تم سو جاؤ میں ابھی آدھا گھنٹہ اور لگاؤں گا میں نے کہا ٹھیک ہے۔
                میں جگنی کے ساتھ سو جاتا ہوں۔زاہد مجھے گالی دیتے ہوئے بولا کہ جا بہن چود میری بیوی کے ممے چوستے ہوئے سو جا۔
                میں جا کر جگنی کے پاس لیٹ گیااور جلد ہی مجھے نیند آ گئی اور سو گیا۔ صبح میں اپنے وقت پر بیدار ہو اور تیار ہو کر آفس کے لیے نکل گیا۔ ۔
                بھابھی عارفی بھی گھر چلی گئی اور نگو آنٹی وعدے کے مطابق جگنی کے گھر پہنچ گئیں کہ کہیں زاہد جگنی کو چود نہ سکے اور بنا بنایا کام بگڑ نہ جائے۔
                اب زاہد بھی کھل چکا ہوا تھا اور اسے معلوم ہو چکا تھا کہ عورت کو چدائی سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اس لیے جہاں بھی ملو عورت کو چود دو۔
                نگو جب جگنی سے ملی تو جگنی نے کہا کہ ظہیر تو بہت سمجھ دار ہے اور اس نے مجھے غلط استعمال نہیں کیا اب وہ چاہتا ہے کہ میں اسی مہینہ حاملہ ہو جاؤں اور ماں بن جاؤں جبکہ زاہد کی کوشش ہے کہ وہ جو بھی پھدی اسے مل جائے۔
                اسے مار کر رکھ دے۔ یہ سن کو نگو آنٹی ہنسنے لگیں کہ اچھا ایسا ہے؟
                تو جگنی نے سہاگ رات سے لے کر اب تک کا سارا قصہ سنا دیا لیکن اپنی بھانجی عافیہ کی بات گول کر گئی۔
                جگنی، زاہد اور عافی سے بھی میں نے یہ وعدہ لیا تھا کہ یہ بات راز رہے کہ ہم نے جگنی کی بھانجی عافی کو چود ڈالا ہے اور ایک وقت تک یہ بات راز رہنی چاہیے ۔
                کیونکہ اس کا نگو آنٹی پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس لیے جگنی نے بڑی خوبصورت سے یہ بات گول کر دی اور نگو آنٹی کو محسوس نہ ہونے دیا۔
                اب نگو آنٹی دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی اور زاہد سویا ہوا تھا۔ شام کو جگنی کا میسج آیا کہ میری جان! کب تک آؤ گے؟
                ڈنر میں نے تمہارے ساتھ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ پریشان نہ ہوں میں بس سعدی بھابھی کو لے کر آ ہی رہا ہوں کیوں کہ آج زاہد کے ساتھ سعدی بھابھی کی باری تھی۔
                میں نے رستے سے سعدی بھابھی کو کال کر دی ۔
                کہ تیار رہیں اور باہر نکل آئیں۔ وہ باہر نکل آئیں اور میں انہیں لے کر ایک جوس کارنر پر رکا اور وہاں سے اپنے لیے کھجور کا ملک شیک اور سعدی بھابھی کے لیے ان کی پسند کا فریش جوس لیا ۔
                پھر پیتے پیتے زاہد اور جگنی کے گھر کو کار بڑھا دی۔ میں نے سعدی بھابھی سے کہا کہ بھابھی!۔
                زاہد بڑے جوش میں ہے اور آپ کو آج رات بہت چودے گا۔ کل ساری رات اس نے عارفی بھابھی کو بے تحاشا چودا ہے آپ کو عارفی بھابھی نے بتایا ہو گا؟
                سعدی
                سعدی بھابھی بولی جانی تم جانتے ہو کہ تم سے زیادہ اچھا اور لمبا سیشن چدائی پروگرام کا کوئی نہیں لگا سکتا۔
                میں بولا کہ بھابھی جی زاہد رف سیکس پسند کرتا ہے۔ سعدی بولی پھر تو خوب مزا آئے گا۔
                تم تو بہت پیار سے کرتے ہو جیسے پھدی کی بہت عزت کر رہے ہو لیکن اب اس عمر میں رف سیکس کا مزا بھی لینا چاہیے۔ چلو دیکھتے ہیں کہ زاہد بھائی کیا کرتے ہیں مجھے تو وہ شروع سے ہی بہت ڈیسنٹ اور ہینڈ سم لگتے تھے۔
                لیکن ان کی شخصیت کے رعب کی وجہ سے ان سے دور رہی اب آج رات دیکھتے ہیں کہ وہ میری پھدی کو مطمئن کرنے کے لیے کیسے کیسے ظلم توڑتے ہیں ؟۔
                میں تو سعدی بھابھی کا یہ جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔
                خیر ہم گھر پہنچے تو نگو آنٹی ڈنر تیار کر کے اپنے گھر جا چکی تھیں اور زاہد اور جگنی تیار بیٹھے تھے کہ ڈنر کیا جائے۔
                ہم پہنچے تو سیدھے ڈائننگ ٹیبل پر اور کھانا لگا دیکھ کر بہت خوش ہوئے بھوک مجھے بھی شدید لگی ہوئی تھی۔
                سعدی نے جگنی اور پھر زاہد سے سلام کیا کہ زاہد بھائی کیسے ہیں آپ؟
                زاہد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھابھی بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کا انتظار ہو رہا تھا آیئے ڈنر کر لیں۔ ہم سب نے بیٹھ کر ڈنر کیا اور کیا اعلیٰ کھانا پکا ہوا تھا۔
                سب نے کھایا اور پھر واک کے لیے باہر نکل گئے۔ لمبی واک کے بعد آئس کریم کھائی اور واپس گھر کو لوٹے۔
                گھر لوٹتے ہی زاہد اپنے بیڈ روم میں چلا گیا وہ سعدی سے کچھ جھجک رہا تھا کیونکہ سارے رستے سعدی اسے زاہد بھائی زاہد بھائی کہہ کر بات کرتی رہی تھی اور مجھے بھی ظہیر بھائی ظہیر بھائی کہتی رہی تھی جس وجہ سے مجھے لگا کہ زاہد کچھ پریشان ہو گیا کہ پتہ نہیں سعدی اس کے ساتھ سیکس کرے یا نہ کرے۔
                میں زاہد کے پیچھے گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہے ہو؟
                کہنے لگا کہ یار یہ سعدی تو مجھے بھائی بھائی کی گردان سنائے جا رہی ہے؟
                میں نے ہنس کر کہا کہ یار اس کا تکیۂ کلام ہے چلو آج اصل میں بہن چود بن جانا اور خوب چودنا اپنی بہن سعدی کو۔
                اور یہ بھی بتایا کہ سعدی رف سیکس کو لے کر بہت اُتاؤلی ہو رہی ہے اس لیے آج تم اپنی ساری انرجی لگا کر اسے جیسے چاہے چودنا وہ ذہنی طورپر رف سیکس کے لیے مکمل تیار ہے۔
                یہ سن کر زاہد کی جان میں جان آئی۔ میں نے کہا کہ میں جاتا ہوں اور سعدی باجی کو بھیجتا ہوں۔
                میں باہر چلا گیا اور دیکھا کہ سعدی باہر دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی اور باریک نائٹی بھی پہن رکھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی مجھ پر پل پڑی اور کسنگ کرنے لگی۔ دو چار منٹ کی کسنگ کے بعد میں نے کہا سعدی بھابھی اندر جاؤ اور خوب چدائی کرواؤ۔ اور سعدی مجھے چھوڑ اندر چلی گئی ۔
                بس دو منٹ کے بعد ہی اندر سے بھیانک قسم کی سیکسی آوازیں آنا شروع ہو گئی جنہیں سنتے ہیں میں اور جگنی جو آرام سے کسنگ کر رہے تھے ہشیار ہونا شروع ہو گئے۔
                جگنی نے میرے لن پر چوپا لگانا شروع کر دیا اور میں اس کی پھدی کا امرت پینا شروع کر دیا۔ میں پھدی میں دور تک زبان گھسا دیتا اور جگنی تڑپنے لگتی۔
                وہ بھی اب ایک ماہر رنڈی اور گشتی کی طرح میرے لوڑے کا چوپا لگا رہی تھی جیسے اس کام میں بہت مہارت رکھتی ہو۔ واقعی وہ چند دن میں ہی ماہر ہو چکی تھی۔
                میں نے اس کے کان میں کہا کہ دوسرے بیڈ روم میں تمہارا خاوند میری باجی سعدی کو بے دردی سے چود رہا ہے اور لگتا ہے کہ آج سعدی بھابھی کی گانڈ بھی پھاڑ دے گا۔ اور میں تمہیں حاملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
                میں نے سیدھا لٹا کر جگنی کی پھدی میں لن ڈال دیا اور آہستہ آہستہ یوٹرس تک پہنچا دیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جگنی کی یوٹرس کو کوئی بھی ضرب لگے اور اسے کوئی تکلیف ہونے کے ساتھ ساتھ کوئی خرابی پیدا ہو جائے۔ میں سچے دل سے چاہتا تھا کہ جگنی اسی ماہ حاملہ ہو جائے اور نو ماہ کےاندر اندر والدہ بن کر مجھے اپنے بچے کا باپ بنا دے۔ مجھے ایک عجیب نشہ سا تھا۔
                باپ بننے کا کیونکہ اب تک میں شادی کے بغیر ہی دو بچوں کا باپ بن چکا تھا اور یہ تیسرا بچہ تھا جو میرے نطفے سے تیسرے پیٹ میں پروان چڑھنا تھا اور میں نے تین بچوں کا باپ بن جانا تھا۔
                دونوں بھابھیوں کے بچے مجھے چھوٹے پاپا کہتے تھے جس سے مجھے بہت تسکین ملتی تھی۔
                میں نے یہ ٹرم نکالی تھی تا کہ بچے مجھے اپنا پاپا ہی سمجھیں اور میں نے تمام بچوں کے ساتھ اتنا پیار ڈالا تھا کہ وہ سب اپنے باپوں سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے تھے۔
                اسی سوچ میں گم جگنی کی چوت مار رہا تھا کہ گزشتہ رات کی طرح زاہد سعدی کو اٹھائے ہوئے اسی بیڈ پر آ گیا اور میں نے دیکھا کہ سعدی بھابھی تو مارے خوشی اور جوش کے بجائے چدنے کے ایسا لگ رہا تھا کہ زاہد کو چود رہی ہے
                زاہد کو دانتوں پسینہ آ رہا تھا۔ ہمارے والے بیڈ پر آتے ہی انہوں نے بیڈ کی چولیں ہلا کر دکھ دیں اور سعدی تھی کہ زاہد کو اپنے اندر تک کھینچ رہی تھی۔
                سعدی نے اپنا منہ میرے منہ کو لگا دیا اور زاہد نے جگنی کے منہ میں منہ ڈال دیا اور چدائی زور و شور سے ہونے لگی۔ سعدی نے مجھ سے کہا کہ ایک بار آپ دونو میرے اند لوڑے ڈالو۔
                میں نے کہا ٹھیک ہے اب زاہد نیچے لیٹ گیااور سعدی اس کے اوپر کتیا بن گئی اور میں سعدی باجی کا کتا بن کر اس کے اوپر چڑھ دوڑا۔
                تھوڑی تگ و دو کے بعد میرا لن بھی سعدی باجی کی پھدی میں گھس گیا اور میں نے گھسے مارنا شروع کر دیئے اب ہم تینوں کی زبانیں آپس میں مس ہو رہی تھیں کہ جگنی بھی اس کوشش میں لگ گئی کہ اس کی زبان بھی شامل ہو جائے۔
                چنانچہ وہ بھی شامل ہو گئی کبھی سعدی اور زاہد اور جگنی کی زبانیں باہم مل جاتیں اور کبھی میری زاہد اور جگنی کی اور کبھی میری سعدی اور جگنی کی اور کبھی میری زاہد کی اور جگنی کی۔
                یہ سلسلہ ایک گھنٹہ چلتا رہا تو میں نے کہا کہ اب جگنی کے اندر اپنی منی ڈال دوں اس لیے زاہد اورسعدی تم دوسرے بیڈروم میں چلے جاؤ میں ابھی ادھر ہی آ جاتا ہوں۔ یہ سنتے ہی زاہد نے سعدی کو اٹھایا اور گود میں اٹھائے اٹھائے لن اندر ہی رکھ کر اسے لے کر دوسرے بیڈ روم میں چلا گیا۔
                میں نے جگنی کی یوٹرس میں لن ڈالا اور کچھ دیر وہاں رکھا اور چند ایک بار آگے پیچھے کیا اور پھر فوارہ چھوڑ دیا۔ آج میں نے جگنی کے اندر کافی دیر اپنا لوڑا رکھا اور جب وہ بالکل سکڑ گیا تب نکالا۔
                جگنی میری ہدایات کے مطابق دائیں کروٹ لے کر وہیں سو رہی۔ میں نے اسے کس کیا اور ساتھ ہی لیٹ گیا اور یوں دوسری رات کا کام خیریت سے انجام پذیر ہو گیا۔ میری بھی آنکھ لگ گئی تھی۔
                سو میں بھی وہیں سو گیا۔
                کافی دیر گزر گئی تو مجھے لگا کہ میرا لوڑا کوئی چوس رہا ہے۔میں نے اٹھ کر دیکھا تو وہ سعدی بھابھی تھیں جو میرے لوڑے کا چوپا لگا رہی تھیں۔
                میں نے حیرانگی سے پوچھا زاہد کہاں ہے؟ کہنے لگی کہ وہ تو ہار مان گیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چلیں ادھر چلتے ہیں جگنی کو سونے دیں۔
                میں جب سعدی بھابھی کے ساتھ دوسرے بیڈ روم میں آیا تو دیکھا کہ زاہد گہری نیند سو رہا تھا۔
                سعدی کہنے لگی ۔حالانکہ آج تو میں نے اس کا لن اپنی گانڈ میں بھی ڈالا تھا۔ میں ہنسنے لگ گیا کہ اسی وجہ سے وہ ہار گیا وہ آپ کی گانڈ کی گرمی برداشت نہیں کر پایا۔
                خیر سعدی نے میرے لوڑے پر جمی میری اور جگنی کی منی چاٹنا شروع کی یہاں تک کہ لوڑا چکنا ہو کر کھڑا ہو گیا۔
                سعدی کہنے لگی زاہد کا لن بے شک چھوٹا ہے لیکن چدائی ٹھیک کرتا ہے زاہد۔ بہت جان مار قسم کی چدائی لگائی ہے اس نے میری۔ میں نے سعدی باجی کو بتایا نہیں کہ اصل میں وہ گولی کھاتا ہے۔
                پھر میرا اور سعدی کا سیشن شروع ہوا اور ہم نے ہر طرح کا مزا کیا۔
                اس دن میں نے سعدی باجی کی گانڈ بھی ماری اور گانڈ تو ایسی تھی جیسے تنور میں آگ بھڑک رہی ہو۔
                ہم نے صبح چار بجے تک بہت مزا کیا اس دوران زاہد کو جاگ آ گئی لیکن وہ کچھ نہ کر سکا کیونکہ سعدی باجی اس کی گرمی نکال چکی تھی۔
                سچ کہتے ہیں سیانے کہ جو آگ یکدم بھڑک جائے وہ یکدم ہی بجھ جایا کرتی ہے زاہد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کیونکہ اگلا پورا ہفتہ وہ نہ تو سعدی باجی کو چود سکا نہ ہی عارفی کو۔ اس لیے وہ دونو تو جگنی کے گھر نہ آئیں البتہ نگو آنٹی رات وہیں ٹھہر جاتیں اور میں جگنی کو سلا کر نگو آنٹی کو چودتا اور دو تین گھنٹے ان کو بھی لگا دیتا تھا تاکہ میری ساس مجھ سے خوش رہے۔
                نگو آنٹی بہت مست خاتون تھیں۔ جگنی کو منی ڈالتے ہوئے چار دن ہو چکے تھے۔ اب اس کے بعد میرا دل تھا کہ دو تین مزید کام ڈالا جائے اور زاہد کی تو بس ہو چکی تھی کیونکہ اس نے مسلسل گولیاں کھا کھا کر اپنا بیڑہ غرق کر لیا تھا۔
                نگو آنٹی اپنے بہنوئی کو میرےکہنے پر دودھ پلائے جا رہی تھی تاکہ اس کی کمزوری دور ہو۔
                لیکن ابھی تک وہ اپنے حواس میں نہیں تھا۔ جسم کانپنا شروع ہو گیا تھا۔ پانچویں رات بھی میں نے جگنی کو بےحد مزا کروایا اور پھر اس کی یوٹرس میں بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی گاڑھی منی ڈالی اور اس کے دو گھنٹے بعد دوسرے بیڈ روم میں آنٹی نگو کو جی بھر کر چودا۔
                آنٹی مجھ سے بہت خوش تھیں اور اب کافی ٹھنڈی ہو چکی تھیں۔ اگلی رات کے لیے میں نے سحر سے کہا کہ تم بھی آنٹی کے ساتھ آجانا رات مزا کریں گے تو اس نے کہا آ گئی میری یاد؟
                میں بولا سحر تم ہی تو میری زندگی کی ساتھی ہو لیکن تمہاری خالہ کا گھر بچانا بھی بہت ضروری تھا اور اس کی گود ہری کرنا بھی نہایت لازمی تھا۔
                اصل میں تو تم ہی میری اور میں تمہارا ہوں جانم! میری باتیں سن کر اسے تسلی ہوئی اور کہنے لگی کہ۔
                آپ بہت اچھے ہیں میں جانتی ہوں آپ نہ ہوتے تو عارفی اور سعدی بھابھیاں طلاق لے چکی ہوتیں اور میری والدہ بھی چکلے میں بیٹھی ہوتی اور خالہ جگنی بھی طلاق لے چکی ہوتی۔ آپ نے بڑے اچھے طریقے سے سب کو سنبھالا ہے۔
                میں نے کہا
                میں نے کہا سحر کل کا ڈنر ہم اکٹھے کریں گے۔ ابھی میں سحر سے بات کر رہا تھا کہ بیچ میں عافی کے نمبر سے میسج آ گیا۔ جناب بہنوئی صاحب! اپنی اس چھوٹی بہن کو بھول تو نہیں گئے؟
                کیونکہ آج پانچ دن ہوگئے۔ خالہ جگنی والا کام مکمل نہیں ہوا ابھی؟ میں نے کہا کہ بھائی کی جان فکر کیوں کر رہی ہوں پرسوں تمہاری ہو گی ساری رات۔
                اس نے کہا کہ کیسے؟ میں نے کہا کہ تمہاری امی اور سحر جگنی خالہ کے گھر سوئیں گی اور میں تمہارے اور عارفین کے ساتھ۔ وہ تنک کر بولی عارفین کیوں؟ میں نے کہا کہ وہ بھی تو گھر ہو گی نا؟
                بس اس لیے کہا ورنہ ایسی کوئی بات ہمارے درمیان نہیں۔
                وہ ہنسنے لگی کہ اگر ہو بھی تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ بھی تو لڑکی ہے اسے بھی لوڑے کی ضرورت ہے نا اوراگر لوڑا گھر کا اور دیکھا بھالا ہو تو پھر کیا کہنے اور آپ کا تگڑا لوڑا تو ہم سب کا سانجھا ہے نا!
                میں نے کہا یہ بات تو آپ سب کی بہت اچھی ہے کہ کسی کو کسی سے کوئی حسد نہیں۔ہر کوئی دوسرے کا خیرخواہ ہے اور اب ان میں جگنی اور زاہد کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ آپ بھی تو سب کے ساتھ بہت پیار کرتے ہیں نا!
                کافی باتیں ہوئیں اور پھر پرسوں کا وعدہ کر کے میں جگنی کے ہاں پہنچ گیا۔ زاہد ابھی تک پوری طرح سنبھل نہ پایا تھا لیکن کافی بہتر تھا۔
                ابھی تک اس کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے اور اب اگر اسے کہا جاتاکہ پھدی مارو گے تو کانوں کو ہاتھ لگانے لگ جاتا۔میں نے کہا کہ میں نے سمجھایا تھا کہ یکدم ایسے نہ اُڑو لیکن تمہیں تو یہ تھا کہ ساری پھدیاں چیر پھاڑ کر رکھ دوں۔
                لیکن میرے بھائی پھدی کو جتنا مارو یہ اتنا ہی زندہ ہو جاتی ہے اور قاتل بن جاتی ہے۔ یہ لوڑے کو مار دیتی ہے۔ خود نہیں مرتی۔ جوان سے جوان کو بھی چوس جاتی ہے ۔ اس لیے ہر کام میں اعتدال ضروری ہے اور تم تو پھدیوں کے پیچھے ہی پڑ گئے دوست! اب جب ٹھیک ہو جاؤ گےتو میرے کہنے کے مطابق چلنا تاکہ مزا کر سکو اور کوئی مسئلہ بھی نہ ہو۔
                زاہد نے کیا کہ ٹھیک ہے آئندہ میرے باپ کی بھی توبہ۔ میں نے کہا کہ چھوٹی عمر کی لڑکی کو چودنا آپ کے لیےمناسب نہیں ہے۔
                سحر،عافی یا عارفین تو آپ کو فارغ کر دیں گی حتی کہ سعدی نے آپ کو فارغ کر دیا دیکھ لیں۔
                اصل میں سعدی بے چاری کا تو نام لگ گیا اس سے پہلے جس طرح عافی کو آپ نے چودا اور پھر عارفی کو ہائے ہائے!آپ کی عمر اب پچاس کے قریب ہے اس لیے اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی کو چودیں گے تو ایسا ہی ہو گا۔ آپ بس عارفی اور سعدی اور نگو آنٹی تک محدود رہیں تو بہتر ہے ورنہ آپ کو ایسا نقصان ہو گا کہ گردے اور دل کی تکلیف شروع ہو جائے گی۔
                زاہد بھائی نے میری باتیں سن کر وعدہ کیا کہ جیسے کہو گے آئندہ میں ویسا ہی کروں گا۔
                اگلی رات نگو آنٹی اور سحر دونو جگنی کے گھر آ گئیں۔
                نگو آنٹی کھانا وغیرہ کھا کھلا کر واپس اپنے گھر چلی گئیں اور سحر کو وہیں چھوڑ دیا۔ اس رات زاہد تقریباً ٹھیک تھا ۔
                اس لیے جب میں جگنی کو کام ڈال رہا تھا تو اس نے سحر سے چھیڑ خانی شروع کر دی اس نے سحر کو چوما چاٹا تو ضرور اور اس کی پھدی کو بھی چوسا۔
                لیکن اس کا لن اس حد تک کھڑا نہ ہو سکا کہ سحر کی پھدی میں ڈال سکے۔ بعد میں میں نے زاہد پر غصہ کیا کہ تمہیں سحر لوگوں سے منع کیا تھا تو کہنے لگا کہ لن تو نہیں ڈالا نا!
                میں بولا کہ دل تو تمہارا تھا کہ تم سحر کو بھی چود ڈالو لیکن تمہارے لن نے تمہارا ساتھ نہیں دیا اور یہ کہہ کر میں ہنس دیا اور وہ بھی ہنس دیا۔
                سحر ہماری یہ باتیں سن رہی تھی۔ میں نےجگنی والا کام مکمل کر دیا تھا۔ اب دوسرے بیڈ روم میں سحر اور زاہد کے ساتھ جا کر لیٹ گیا۔
                تھوڑی دیر بعد ہی سحر نے میرے ساتھ کسنگ شروع کر دی میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور زاہد کو بھی ساتھ کھینچ لیا ہم تینوں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ اب سحر نے میرا لن منہ میں ڈالا اور چوپا لگانا شروع کر دیا۔
                میں اور زاہد کسنگ کر رہے تھے اور سحر باری باری ہم دونو کا چوپا لگا رہی تھی۔ زاہد کا لن نیم کھڑا تھا جبکہ میرا شہزادہ پھٹنےکے قریب تھا۔
                زاہد نے مجھے کہا کہ تم اپنی ہونے والی بیوی کی سیل توڑ کر سہاگ رات منا ہی چکے ہو اور میری بیوی کی سیل میرے سامنے توڑ کر اس کے ساتھ بھی سہاگ رات منا چکے ہو تو کیا مجھے اجازت نہیں دو گے کہ میں بھی تمہارے سامنےتمہاری بیوی کو ایک بار چود ہی لوں؟
                میں نے کہا کہ جب اس کی پھدی چاٹ لی اس نے تمہارا لوڑا بھی چوس لیا تو پھر اب پیچھے رہ کیا گیا؟
                میرے دوست ہماری ہر چیز سانجھی ہے یہ کہہ کر میں نے سحر کی ٹانگیں اٹھا کر زاہد کے لوڑےپر اپنا تھوک لگایا اور ڈھیلا لوڑا ہی سحر کی چوت میں ڈالنے کی کوشش کی پیچھے سے زاہد نے دھکا لگایا اور اس کا نیم کھڑا لن سحر کی پھدی میں چلا گیا۔
                زاہد کی تو خوشی کے مارے چیخیں ہی نکل گئیں اور دو تین بار اندر باہر کرنے سےاس کا لن کافی حد تک کھڑا ہو گیا تھا اب پھدی میں لن ڈالے سحر کے چھتیس سائز کے ٹائٹ ممے چوس رہا تھا اور زاہد سحر کو زبردست طریقے سے چود رہا تھا۔ پھر میں سحر کی پھدی پر آ گیا اور دانہ اپنی زبان سے چھیڑنے لگا۔
                سحر کو اور زیادہ ہشیاری آنے لگی۔ بیچ بیچ میں میں زاہد کا لن سحر کی پھدی سے نکال کر چوپا بھی لگا لیتا تاکہ زاہد کا لن بیٹھ ہی نہ جائے۔
                کوئی آدھے گھنٹےکی زبردست چدائی کے بعد زاہد تھک گیا اور لن نکال کر ایک طرف لیٹ گیا ۔
                سحر میرےلوڑے کے اوپر آن بیٹھی۔ زاہد تو جلدی نیند کی وادی میں کھو گیا اور میں سحر کو پیار کرتے کرتے چودنے لگا۔
                i۔ love you۔ i love you
                ۔ کے نعروں سےسارا گھر گونج رہا۔ تھا آدھے گھنٹے کا سیشن لگا چکے تھے کہ جگنی کی آواز آئی میں نے سحر کو لوڑا ڈالے ڈالے اٹھایا اور جگنی کے پاس لے گیا۔ وہاں بیٹھ کو سحر کو گود میں ہی بٹھائے چودتا رہا اب خالہ بھانجی آمنے سامنے تھیں اور جگنی نے سحر سے کہا کہ تم بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں ظہیرجیسا خاوند ملا یہ تمہارے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی بہت خوش رکھے گا
                ا۔
                سحر نےجذباتی انداز میں خالہ کہہ کر جگنی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر چوسنا شروع کر دیئے۔
                جگنی نے بھی اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا پھر میں نے جگنی کےمنہ میں منہ ڈال دیا اور سحر جگنی کے ممے چوسنے لگی اور میں دیکھ رہا تھا کہ خالہ کے ممے بھانجی کے مموں سے چھوٹے ہیں
                ۔ کروٹ لے دونوں ایک دوسری کے ممے چوس رہی تھیں اور میں سحر کو لن پیل رہا تھا۔
                کوئی ایک گھنٹہ ہم نے پیار کیا اور اس کے بعد میں نے سحر سے کہا کہ اب میں تمہاری خالہ جگنی کے اندر اپنا مادہ ڈال دوں؟
                سحر کہنے لگی کہ مجھے کب پریگننٹ کرنا ہے؟ ابھی کر دیں۔ لیکن میں نے کہا کہ نہیں رخصتی سے ایک ماہ پہلے کوشش کریں گے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب تمہاری رخصتی ہو تو تم ماں بننے والی ہو چکی ہو اور دل میں سوچا کہ اس رات میں عافی اور عارفین کو اکٹھے چود کر سہاگ رات منا سکوں۔
                جگنی بولی سحر تمہاری ساری زندگی بہت رنگین گزرنے والی ہے۔
                اب میں سحر کو چھوڑ جگنی کے اوپر آ گیا اور اس کو لوڑا گھسا کر سحر کے ممے چوسنا شروع کیے۔
                سحر کے ممے بہت ٹائٹ تھے۔
                اب سحر میرے سامنے کتیا بن کر اپنی خالہ جگنی کے کبھی ممے چوس رہی تھی تو کبھی زبان اور ہونٹ۔
                ہم تینوں کا تھوک بھی مکس ہو گیا تھا اور لوڑے اور پھدیوں کا پانی بھی۔ میں نے جگنی کو لوڑا ڈالا ہوا تھا جبکہ پیچھے سے مجھے سحر کی بُنڈ اور پھدی دعوت دے رہی تھی سو میں نے کسی کتے کی طرح اس کی پھدی اور گانڈ چاٹنا شروع کر دی۔
                مزے سے سحر کی چیخیں نکل رہی تھیں کہ میں بھی ڈسچارج ہونے والا ہو گیا تو میں نے لوڑا آرام سے یوٹرس کے منہ پر سیٹ کر کے اندر کر دیا اور دو تین گھسے مار کر جگنی کی یوٹرس میں منی کا فوارہ چھوڑ دیا۔ سحر اب اپنے شوہر سے چدی ہوئی اپنی سگی خالہ جگنی کےایک طرف لیٹ گئی اور میں اس کے اوپر لیٹ کر کسنگ کرنے لگا۔ پھر سحر نے میرے اوپر آ کر میرا لوڑا چاٹنا شروع کیا جس پر میرا۔
                سحر اور اس کی خالہ جگنی کا پانی اور تھوک لگا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ وہیں پڑی پڑی سو گئی اور میں بھی سو گیا۔
                صبح جب میں جاگا تو زاہد سحر سے چمٹا ہوا تھا اور اس کے ممے چوس رہا تھا اور نیچے اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال رکھا تھا میں نے دونو سے پیار کیا اور تیار ہو کر آفس کے لیے نکل گیا۔
                آفس پہنچتے ہی میسج آ گیا ۔عافی نے پوچھا تھا کہ سحر آپی کا کام رات کو آپ نے کر دیا۔ میں نے کہا شرم کرو وہ تمہاری آپی ہے۔ وہ بولی: آپ کی تو میں بھی دیوانی ہوں۔
                سیل تو ہم دونو بہنوں اور خالہ جگنی کی آپ نے ہی توڑی ہے نا۔ میں بولا اچھا مجھے کام کرنے دو رات کو تمہیں بتاؤں گا
                وہ بولی اچھا بہنوئی صاحب۔ میں نے کہا کہ میں تو تمہاری والدہ اور تم تینوں بہنوں کا خاوند ہوں۔
                وہ تنک کر بولی ہیں عارفین بھی؟ میں نے کہا کہ ابھی اس کی سہاگ رات منانا رہتی ہے۔ لیکن ایک بات بتاؤں؟
                میں نے سبھی کو بڑے پیار کے ساتھ چودا ہے لیکن جو کشش اور خوش بو تمہارے سانسوں۔
                جسم اور پھدی سے آتی ہے وہ کسی اور سے نہیں آئی۔ مجھے تمہاری اس خفیہ خوش بو سے بھی بہت پیار ہے وہ خوش بو کبھی کسی سے نہیں آئی۔
                خیر اتنے میں اس نے کہا کہ کالج جا رہی ہوں واپس آ کر بات کرتی ہوں۔ میں نے کہا اوکے ۔ کہہ کر وہ کالج کو سدھاری اور میں کام پہ لگ گیا۔
                شام کو جب میں گھر جا رہا تھا تو غیر ارادی طور پر فارمیسی پر رکا اور دو تین گولیاں ویاگرا کی لے لیں حالانکہ اس سے پہلے میں نے کبھی گولی استعمال نہیں کی تھی لیکن آج میرا دل تھا کہ ساری رات عافی پر لگاؤں۔ اس لیے چوتھا حصہ گولی میں نے کھا لی۔ اپنے گھر گیا اور نہا دھو کر سلیپنگ سوٹ پہن رہا تھا کہ باتھ کا دروازہ کھلا اور نجمہ آنٹی اندر آ گئیں اور سیدھا میرے لن پر پل پڑِیں۔
                چوپا چوپا چوپا اور پھر جلدی سے میں نے اُن کے پھدے میں لوڑا گھسیڑ دیا۔ میں جلدی جلدی ان سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور مجھے علم تھا کہ وہ پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں کروا سکیں گی۔
                چنانچہ میں نے ان کی دھؤاں دھار قسم کی چدائی شروع کر دی پھر بھی وہ آدھے گھنٹے کی چدائی لے ہی گئیں جس کے بعد وہ تھک گئیں۔
                میں نے انہیں بیڈ پر لٹایا اور خود دوبارہ نہا کر سلیپنگ گاؤن پہن کر باہر آ گیا۔ کار نکالی اور سیدھا جگنی کے گھر پہنچاجہاں میری ہونے والی بیوی سحر اور سالی عافی میرا انتظار کر رہی تھیں۔
                کھانا کھایااور لمبی واک پر نکل کھڑے ہوئے میں ۔سحر۔ عافی۔ ان کی خالہ جگنی اور خالو زاہد۔
                سبھی نے آئس کریم کھائی اور واپسی ہوئی۔ واپسی پر جگنی کو چکر آ رہے تھے تو اس نے میرا سہارا لے لیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کو کچھ حرارت ہے جو مجھے اس بات کی علامت لگی کہ اس کو حمل ہو چکا ہے۔
                گھر کے رستے سے میں نے فارمیسی سے پریگننسی ٹسٹ کی ایک سٹرپ خریدی اور اپنی جیب میں رکھ لی۔
                گھر پہنچ کر میں نے کہا کہ جگنی کو آرام کرنے دیا جائے۔
                چنانچہ جگنی کو اس کے بیڈ روم تک میں نے پہنچا دیا اور اس کے ساتھ لیٹ کر پیار کرنے لگا۔
                میں نے جگنی کو بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ اسے حمل ٹھہر چکا ہےاس لیے اب اسے رف چدائی سے پرہیز کرنا ہو گا اور زاہد کو تو بالکل قریب نہ پھٹکنے دینا کیونکہ وہ رف چدائی کرے گا۔
                جس سے بچہ ضائع ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ میں آرام آرام سے اندر باہر کر کےتمہاری گرمی نکال دیا کروں گا یوں تم آرام سے بچہ پیدا کر سکو گی۔ جگنی کو میری باتیں سن کو بہت جوش آگیا اور وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگی اور میرے ہونٹ چومنے لگی۔ باتوں اور کسنگ سے ہم دونوں کو ہوشیاری آ چکی تھی میرا بھی کھڑا تھا اور جگنی بھی گیلی ہو چکی تھی۔
                چنانچہ میں نے لیٹے لیٹے بڑے آرام سے لن جگنی کی پھدی میں ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگا۔
                اوپر سے گرم گرم کسنگ جاری تھی کہ تھوڑی دیر میں ہی جگنی ڈسچارج ہو گئی اب وہ تھک چکی تھی اس لیے ڈسچارج ہوتے ہی سو گئی۔
                میں نے آرام سے اس کی پھدی میں سے اپنا لن نکالا اور اسی طرح دوسرے بیڈ روم میں چلا گیا جہاں زاہد، سحر اور عافی تھے۔ ۔(جاری ہے)۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #9
                  ۔نیواپڈیٹ۔
                  ۔
                  جیسے ہی میں نے دوسرے بیڈ روم کا دروازہ کھولا تو وہاں ایک دائرے میں سحر، زاہد اور عافی کو لیٹے دیکھا
                  جو ایک دوسرے کو چوس رہے تھے۔ عافی کی پھدی پر زاہد کا منہ تھا، سحر کی پھدی عافی چاٹ رہی تھی اور سحر کا منہ زاہد کے لوڑے پر تھا .
                  تینوں مست اور سیکسی آوازیں نکال رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی عافی نے سحر کی پھدی سے منہ ہٹایا اور جگنی کے پانی میں لتھڑا ہوا میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا اب دائرہ ذرا وسیع ہو گیا تھا اور میرا منہ سحر کی پھدی پر چلا گیا۔
                  پھر سب نے پوزیشن بدلی اور زاہد کا لن سحر چوس رہی تھی جبکہ میرا لن عافی چوس رہی تھی اور میں اور زاہد آرام سے لیٹے ہوئے تھے کہ میں نے سب کو خوش خبری سنائی کہ خواتین و حضرات ہمارا جگنی مشن کامیابی سے ہم کنار ہو چکا ہے اور ٹھیک نو ماہ بعد جگنی اور زاہد ماما پاپا بن جائیں گے جگنی کو حمل ٹھہر چکا ہے ۔
                  اس لیے اب زاہد جگنی کی چدائی نہیں کرے گا اور اگر جگنی کو چدائی کی طلب ہوئی تو میں کروں گا تا کہ وہ سکون سے بچہ پیدا کر سکے۔ اس وقت تک زاہد کے پاس عارفہ بھابھی، سعدیہ بھابھی، سحر اور عافی کی آپشن موجود رہے گی۔
                  سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور سب کا جوش اس بات سے مزید بڑھ گیا۔ میں نے عافی کے ساتھ 69 کی پوزیشن بنا لی کیونکہ میں عافی کی پھدی کی مہک لینا چاہتا تھا۔
                  ہم بہت زیادہ مگن ہو گئے۔ پھر میں نے کچھ دیر بعد دیکھا کہ زاہد اور سحر چدائی پوزیشن سنبھال چکے ہیں جبکہ میں اور عافی ابھی ایک دوسرے کو چاٹ رہے تھے۔ ہم نے بھی پوزیشن سنبھال لی اور میں نے آرام سے عافی کی پھدی میں لن ڈال دیا۔ اب چدائی کا زور اور سحر اور عافی کا شور پڑھ گیا تھا۔ میں اور زاہد اپنے اپنے انداز میں دونوں بہنوں کو چود رہے تھے کہ سحر مجھے مخاطب کر کے بولی سرتاج! ۔
                  مجھے نہیں چودیں گے؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں اور میں نے عافی کو چودنا چھوڑ کر زاہد کے سپرد کیا جبکہ عافی ایسا نہیں چاہتی تھی اس نے مجھے کان میں کہا کہ میں زاہد خالو سے نہیں چُدنا چاہتی میں نے کہا کہ اب مصلحت اسی میں ہے کہ ایک بار چدائی کروا لو اور اسے کہتے ہیں کہ آرام سے چودے۔ چنانچہ زاہد سے میں نے کہا کہ اپنی بھانجی کو آرام سے چودنا یار پچھلی بار کی طرح نہ کرنا۔ تو زاہد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھانجی! آجاؤ اپنے خالو کے نیچے اور وعدہ رہا کہ آرام سے چودوں گا مزہ لوں گا اور مزہ دوں گا۔ اس کے بعد میں نے سحر کی پھدی میں لن ڈالا ۔
                  تو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اسے آدھے گھنٹے سے کوئی اور چود رہا تھا پھدی بہت تنگ اور فریش لگ رہی تھی۔میں تو سحرکو اچھی طرح چود رہا تھا اور عافی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے خالو زاہد سے چدوا رہی تھی لیکن لگ رہا تھا کہ زاہد اسے بہت پیار سے چود رہا تھا اس لیے وہ بھی اب مطمئن ہی لگ رہی تھی ۔ دو تین گھنٹے کی اس پیار بھری چدائی کے اختتام کا وقت آن پہنچا تھا کہ اچانک بیڈ روم کا دروازہ کھلا اور ہم نے دیکھا کہ جگنی وہاں کھڑی ہے۔
                  صبح کا وقت ہو گیا تھا تو جگنی کے ہاتھ میں پریگننسی ٹسٹ سٹریپ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس نے میری ہدایت کے مطابق جاگتے ہی خود ہی اپنا پیشاب ٹسٹ کر لیا ہے اور سٹریپ دکھانے آئی ہے
                  دکھانے آئی ہے۔
                  چنانچہ وہ وہیں میرے پاس ہی بیٹھ گئی جہاں میں اس کی بھانجی سحر کی پھدی میں لن ڈالے گھسے پر گھسہ مار رہا تھا۔ آتے ہی جگنی نے میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے پھر سحر کو ایک کس دی اور پھر زاہد اور عافی کو باری باری کس دی اور کہنے لگی کہ مبارک ہو۔
                  میں اور زاہد ماما پاپا بننے والے ہیں اور مجھے کس پر پکڑ لیا اور کسنگ کرتے کرتے شکریہ ادا کرنے لگی کہ تمہاری وجہ سے آج یہ خوشی ہمیں ملی ہے۔
                  میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں مل جل کر ہی یہ کام ہو سکتا تھا۔ اب ہم نے آسودگی کی ہر منزل طے کر لی اور اب مادہ نکالنے کا کام باقی تھا سو ہم نے سوچا کہ یہ مال جگنی کی چوت میں نکالا جائے۔
                  چنانچہ پہلے زاہد نے آرام سے جگنی کی چوت میں لن ڈال کر اپنی منی انڈیل دی اور پھر میں نے جگنی کی چوت میں لن ڈال کر اپنی منی اس کی پھدی میں ڈال دی اور ہم پانچوں وہیں ڈھیر ہو گئے۔
                  اگلا دن عید اور جشن کا سا سماں تھا جب نگو آنٹی اور نجمہ خالہ نیز سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی اور ان کے خاوندوں کو معلوم ہوا کہ جگنی خالہ والا مشن کامیاب ہو گیا ہے اور وہ بھی ماں بننے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ اس خوشی میں ایک زبردست دعوت کا اہتمام کیا گیا۔
                  اس دعوت میں میں نے نگو آنٹی سے کہا کہ میری سب سے چھوٹی سالی عارفین اور جگنی کھانے پر آئیں گی ۔
                  لیکن اس کے بعد دونوں نگو آنٹی کی طرف چلی جائیں گی اور میں انہیں چھوڑ آؤں گا اور باقی ہلّہ گُلّا بعد میں کریں گے تو نگو آنٹی سمجھ گئی کہ عارفین چونکہ ابھی سیل بند تھی اور میں نے اسے سہاگ رات کے لے بچا کر رکھا ہوا تھا۔
                  جبکہ جگنی نئی نئی حاملہ ہوئی تھی اس لیے دونوں کو بچانے کے لیے ایسا اقدام ضروری تھا ۔
                  شام بہت رنگین ہونے والی تھی اس لیے صبح سے ہی افتخار اور قمر بھائی نیز سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی اور خالہ نجمہ خوب تیاریوں میں لگے ہوئے تھے میں نے سب سے کہہ دیا تھا کہ کھانا ہم آرڈر کر لیں گے بس آپ سارے گھر کو سجائیں اور خود کو تیار کریں۔ سبھی بہت خوش تھے اور بچے بھی بہت پھولے نہیں سما رہے تھے۔
                  اب سبھی ذہنی طورپر تیار تھے کہ آج رات گھر میں جشن چدائی ہو گا اور ساری رات سبھی مل کر گروپ چدائی کریں گے اور سب مردوں اور عورتوں کو اجازت ہو گی کہ جس کے ساتھ چاہیں چدائی کریں اور ساتھی بدل بدل کر بھی چدائی کر سکتے ہیں اس نئی قسم کے چدائی ایکشن کا مزہ لینے کے لیے سبھی بے چین تھے۔
                  میں نے کھانے اور آئس کریم کا آرڈر دے دیا تھا اور اب بس رات کا انتظار تھا۔ شام ہوئی تو سبھی کھانے کے لیے جمع ہو گئے ایک بہت ہی خوبصورت سٹیج تیار کیا گیا جہاں جگنی خالہ اور زاہد خالو پوری تیاری کے ساتھ بیٹھے ۔
                  خالہ نجمہ اور نگو آنٹی دونوں نے ان کا صدقہ اتارا اور بچوں نے پھول برسائے۔ نیا مہمان آنے والا ہے کی خوشی جگنی کے چہرے کو بہت دمکا رہی تھی اور سبھی بہت خوش تھے اور مجھے بھی مبارک بادیاں دی جا رہی تھیں۔
                  سب نے خوب مزہ کیا اور پھر کھانا کھایا گیا اور اس کے بعد آئس کریم کا دور چلا۔ گیارہ بج گئے اور بچے اب تھک چکے تھے اس لیے سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی انہیں لے کر سلانے چلی گئیں۔
                  اب سبھی خاموش ہو گئے تاکہ بچے تسلی سے سو جائیں اور اس کے بعد اگلا راؤنڈ شروع ہو۔ میں نے جگنی خالہ اور اپنی سب سے چھوٹی سالی عارفین سے کہا کہ وہ بھی اٹھیں تاکہ میں پلان کے مطابق انہیں نگو آنٹی کے گھر پہنچا دوں۔
                  چنانچہ وہ دونوں تیار ہوئیں اور باہر نکل گئیں۔
                  ۔ میں نے جگنی کو پیچھے اور عارفین کو آگے بٹھایا اور لے کر سیدھا نگو آنٹی کے گھر آ گیا۔ وہاں اتر کر ہم تینوں اندر گئے۔ عارفین جگنی خالہ کو شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور جگنی کو میں نے نگو آنٹی کے بیڈروم میں پہنچا دیا۔
                  جگنی نے مجھے وہیں پکڑ لیا اور لگی کسنگ کرنے میں نے اسے کس کرنا شروع کر دیا تھوڑی ہی دیر بعد جگنی اور میں کپڑوں سے آزاد ہو چکے تھے اور میں جگنی کو آرام کے ساتھ چود رہا تھا۔
                  جگنی کو یہ معلوم تھا کہ آج نجمہ خالہ کے گھر پر گروپ چدائی کا پروگرام ہونے والا ہے اور اس میں نگو آنٹی اور ان کی دونوں بڑی بیٹیاں بھی شامل ہونے والی ہیں اور جگنی کا شوہر زاہد بھی شامل ہو گا۔
                  دونوں بھابھیاں اور ان کے شوہر بھی اس پارٹی میں شامل ہوں گے پھر جگنی نے پوچھا کہ مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ میں کیوں شامل نہیں کی جارہی لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ عارفین کو اس پارٹی میں کیوں شامل نہیں کیا ؟
                  تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جناب عارفین ابھی سیل بند ہے اور میں نے اسے اپنی سہاگ رات کے لیےاسے بچا کر رکھا ہوا ہے۔
                  کیونکہ میں اپنی ہونے والی بیوی کی سیل توڑ چکا ہوا ہوں اور اسے اس کا خالو زاہد بھی استعمال کر چکا ہے اور آج افتخار اور قمر بھائی بھی استعمال کریں گے اور اسی طرح عافی بھی استعمال ہو چکی ہے اور رہی سہی کسر آج نکل جائے گی۔
                  اس لیے انہیں چدائی پارٹی میں شامل کیا جا رہا ہے اور عارفین کو اس لیے نہیں کیا جارہا کہ میں اپنی سہاگ رات کو ایک عدد سیل توڑنا چاہتا ہوں۔
                  مجھے علم نہ ہوا کہ جگنی کی چدائی اور یہ سب باتیں عارفین چھپ کر دیکھ اورسن رہی ہے۔
                  یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس نے ساری باتیں سن لی ہیں۔ خیر جب میں جگنی کی تسلی کروا کر باہر نکلا اور عارفین کے کمرے کے دروازے کے آگے سے گزرنے لگا تو مجھے اندر سے عارفین کی مدھر آواز آئی کہ بہنوئی صاحب اپنی سب سے چھوٹی سالی سے بھی مل کے جائیں نا!۔
                  میں عارفین کی آواز سن کر ٹھٹکا اور دوسرے ہی لمحے عارفین میرے سامنے تھی .
                  اس کا روشن چہرہ اور شبنمی ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ بکھری ہوئی دعوت تعام دے رہی تھی۔
                  میں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور پیار کرنے لگا۔ پیار کرتے کرتے ہم اس کے بیڈ روم میں آ گئے اور اسے اس کے بیڈ پر بٹھا کر میں نے بہت پیار سے سمجھانا شروع کیا کہ ابھی وہ چھوٹی ہے اور اسے میں ان سب باتوں سے دور رکھنا چاہتاہوں۔
                  لیکن جلد ہی وہ وقت آ جائے گا کہ وہ بھی ان سب پارٹیوں کا حصہ بنا کرے گی اور خوب مزے کیا کرے گی۔
                  اس نے کہا کہ بھائی جان میں تو صرف آپ کے ساتھ مزے کرنا چاہتی ہوں کسی اور کے ساتھ نہیں نہ ہی مجھے خواہش ہے کہ میں ہر ایرے غیرے مرد کے نیچے ہو یا اس کا لن چوسوں اور اس سے پھدی مرواؤں۔ اس کی یہ بولڈ باتیں سن کر میرا لن تو پینٹ اور انڈرویئر کے اندر ہی پھنکارنے لگا جبکہ عارفین نے اپنا نرم و نازک ہاتھ میرے لن کے ابھار پر رکھ دیا ۔
                  میں نے اس کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ گاڑ دیئے۔
                  کسنگ اپنے عروج پر تھی۔
                  دل تو میرا کر رہا تھا کہ آج ہی عارفین کی سیل توڑ دوں لیکن میں نے یہ کام سہاگ رات کے لیے بچا رکھا تھا۔
                  بھینی بھینی خوشبو میں بسی میری سب سے چھوٹی سالی عارفین کی زبان اور ہونٹوں کا رس چوس چوس کر میں پاگل ہو رہا تھا اور یہی حالت عارفین کی تھی وہ مدہوش ہو گئی تھی اور میرا لن پینٹ کی زپ کھول کر باہر نکال چکی تھی اب میرے لن اور اس کے ہاتھ کے درمیان کچھ نہ تھا اور اس کا گورا گورا نرم و نازک ایک ہاتھ میرے لن کی ٹوپی پر تھا اور دوسرا ہاتھ میرے چہرے پر تھا۔
                  میرا ایک ہاتھ اس کے چہرے پر تھا اور دوسرا اس کے 34 سائز کے مموں کو ٹٹول رہا تھا۔ پھر پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم نے اپنے کپڑے اتار دیئے اور ننگے ہو کر کسنگ کرنے لگے۔
                  ۔ 69 پوزیشن میں جاتے ہوئے بھی دیر نہ لگی اور جیسے ہی میں نے عارفین کی پھدی پر اپنی زبان لگائی تو اسے ایک کرنٹ لگاادھر وہ کوشش میں تھی میں کہ میرا نوانچ لمبا اور ساڑھے تین انچ موٹا لن اپنے چھوٹے سے منہ میں لے لے لیکن میرے لن کی ٹوپی ہی اس کے چھوٹے سے بابِ دہن سے اندر نہیں گھس رہی تھی۔
                  کچھ کوشش کے بعد اس نے بہتر یہی سمجھا کہ میرے لن کی ٹوپی پر ہی زبان پھیرتی رہے اور میں اس کی پھدی کا نمکین جوس پی رہا تھا۔
                  حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ اس کی پھدی سائز میں بہت ہی چھوٹی سی تھی اور اس کا سوراخ بھی نہایت تنگ تھا میں نے اپنی سب سے چھوٹی انگلی گھسانے کی کوشش کی تو وہ تڑپ اٹھی۔
                  چنانچہ میں نے بھی یہ کوشش سہاگ رات کے لیے اٹھا رکھی۔ اب عارفین پندرہ منٹ میں کوئی پانچ بار ڈسچارج ہو چکی تھی اور میں تو ابھی ٹھیک طرح سے تیار بھی نہیں ہوا تھا لیکن میں نے ڈسچارج ہونے کی کوشش نہیں کی۔
                  کیونکہ ابھی تو پارٹی شروع ہونی تھی۔ عارفین کو سکون مل گیا تھا اس لیے میں نے اسے کہا کہ میری پیاری سالی!۔
                  تم اب آرام سے سو جاؤ کیونکہ پارٹی میں بہت سے لوگ میرے لن کا انتظار کر رہے ہیں۔
                  چنانچہ عارفین وہیں سو گئی اور میں نے کپڑے پہنے اور باہر نکل کر اس کے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بڑے دروازے کو آٹو لاک لگا کر چابی سے دوسرا ڈبل لاک لگایا اور اپنی کار میں بیٹھ کر واپس گھر کو چلا جہاں میرے اندازے کے مطابق اب تک پہلا راؤنڈ شروع ہو چکا تھا۔
                  جیسے ہی میں گھر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہاں چدائی کا ایک طوفانِ بدتمیزی برپا تھا۔ ہر کوئی دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں نکال رہا تھا اور ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہا تھا۔ بھابھیاں تو پاگل ہوئی پڑی تھیں اور افتخار اور قمر بھائی بھی بہت چھوچھورے پن پر اترے ہوئے تھے۔
                  نگو آنٹی، سحر اور عافی کی گاہکی زیادہ تھی کیونکہ افتخار اور قمر بھائی نے پہلی بار انہیں چودنا تھا لہٰذا وہ دونوں بھائی ان تینوں کو باری باری چود رہے تھے۔
                  میں سمجھ گیا کہ ان بہن چودوں نے ٹائمنگ بڑھانے والی گولیاں کھا رکھی ہیں ورنہ ان تازہ دم اور گرما گرم پھدیوں کے سامنے دو منٹ بھی نہ نکال سکتے تھے۔
                  خیر میں بھی اب پارٹی کا حصہ بن گیا اور سحر اور میری سالی عافی میری طرف متوجہ ہوئی اور میں بھی سیدھا ان کی طرف گیا میری ہونے والی بیوی اور سالی پر میرے بھائی افتخار اور قمر اپنے چار چار انچ کے چھوٹے چھوٹے لوڑوں سے حملہ آور تھے اور لڑکیوں کو صرف اس بات کا مزہ آ رہا تھا کہ وہ تیز تیز چدائی کر رہے تھے ب۔
                  اقی ان کی پھدیوں میں ابھی بہت گنجائش تھی کہ ایک ایک اور لوڑا گھسا دیا جائے۔ خیر میں آگے بڑھا اور دونوں کو کس دی۔ اس کے بعد نگو آنٹی اور نجمہ خالہ کو بھی کس دی اور پھر سعدیہ اور عارفہ بھابھی کی طرف بڑھا ۔
                  سعدیہ بھابھی نے مجھے دبوچ لیا جو عارفہ بھابھی کے ممے چوس رہی تھی کیونکہ زاہد سعدیہ بھابھی کو اندھا دھند چود رہا تھا۔ نگو آنٹی اور نجمہ خالہ آپس میں 69 کی پوزیشن والا کھیل کھیل رہی تھیں۔
                  اب افتخار بھائی نے سحر کو چھوڑ کر عافی کو چودنا شروع کر دیا تھا اور قمر بھائی نے سحر کی پھدی میں اپنا منا ڈال دیا تھا۔ چوہے بلی کا یہ کھیل بہت شدت سے جاری تھا ہر بلی زیادہ سے زیادہ چوہے کھانا چاہتی تھی اور ہر چوہا ہو ایک بلی کے منہ میں جانے کے لیے بے قرار تھا۔
                  یوں سبھی اس کمرے میں پورے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کو مزہ دے رہے تھے۔ میں بھی اب نگو آنٹی اور نجمہ خالہ کے پاس رک گیا اور اپنا لوڑا نکال لیا دونوں میرے لوڑے پر پل پڑیں اور میرا لوڑا دونوں کے دہنوں کی باری باری سیر کرنے لگا
                  میرا لوڑا سب لڑکوں سے بڑا اور موٹا تھا اس لیے سبھی کو اس کی حاجت تھی لیکن جلدی اس لیے نہیں تھی کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ ظہیر کا حرامی لوڑاسب کی پیاس بجھا کر بھی تنا رہ سکتا ہے۔
                  میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ بھائی اور زاہد خالو فارغ ہو جائیں تو میں لڑکیوں کی طرف جاؤں
                  اس وقت تک میں بھی آنٹی نگو اور خالہ نجمہ کے پاس رہنا چاہتا تھا۔ اب دونوں نے میرا لوڑا باری باری چوسنا شروع کیا اور نجمہ خالہ میرے بڑے بڑے ٹٹوں کو منہ میں لے کر چوسنے لگی
                  نگو آنٹی نے میرا راڈ اپنے منہ میں حلق تک اتار لیا۔
                  پھر جلد ہی میں نے نگو آنٹی کو سیدھا کیا اور دھڑام سے اپنا چوہا ان کی بلی میں پیل دیا اور آنِ واحد میں زور دار چدائی شروع کر دی۔ نگو آنٹی کی ہائے ہائے سے کمرہ گونج اٹھا اور سب کا شہوت بھرا دھیان ان کی طرف اٹھ گیا۔
                  سبھی ان کی خوش قسمتی پر رشک کر رہے تھے کہ میرا تگڑا لوڑا سب سے پہلے ان کی چوت میں گیا تھا
                  حالانکہ انہیں معلوم نہ تھا کہ میرا لوڑا آج کی رات بھی سب سے پہلےجگنی آنٹی کی چوت سر کر کے، عارفین کے منہ کی سیر کرتاہوا آیا ہے۔
                  پندرہ بیس منٹ کی مسلسل چدائی کہ وجہ سے نگو آنٹی کوئی چھ بار ڈسچارج ہو چکی تھیں اور اب تھک گئی تھیں تو میں نے انہیں ایک لمبی فرنچ کس دی اور انہیں چھوڑ کر جلدی سے اپنا چوہا نجمہ خالہ کی چوت میں گھسا دیا۔نجمہ خالہ کی عمر اب چونکہ ساٹھ کے قریب تھی۔
                  اس لیے مجھے معلوم تھا کہ وہ جلدی تھک جائیں گے چنانچہ میں نے پوری قوت کے ساتھ نجمہ خالہ کو چودنا شروع کیا اور دھپ دھپ دھپ۔۔۔۔ آہ۔۔۔
                  ۔ آہ۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ۔۔۔۔ کی آوازوں کے مابین ایک ردھم قائم ہو گیا۔ دس منٹ کی دھؤاں دار چدائی نے خالہ نجمہ کو نڈھال کر دیا اور میں نے خالہ کو چھوڑ دیا۔ اب زاہد اپنی سالی نگو آنٹی کو چود رہا تھا اور اس نے سعدیہ اور عارفی بھابھی کو چھوڑ دیا اور انہوں نے مجھے وہیں دبوچ لیا۔
                  ادھر افتخار کو جوش آیا اور اس نے بے سدھ پڑی اپنی ماں نجمہ کو چودنا شروع کیا اور گشتی ماں گشتی ماں کہتے ہوئے اس کی زوردار چدائی شروع کر دی۔
                  خالہ نجمہ افتخار کو حرامی بچہ کہ رہی تھیں اور وہ انہیں گشتی ماں کہہ رہا تھا لیکن خالہ نجمہ کو جس طرح میں نے چودا تھا اس کی وجہ سے ان میں ہلنے کی ہمت نہ تھی اس لیے بغیر ہلے جلے وہ گالیاں بکتی جا رہی تھی اور اس بات کا مزہ لے رہی تھی کہ جس پھدی سے اس کا بیٹا نکلا تھا ۔
                  اسی میں آج وہ واپس لوڑا گھسیڑے جا رہا تھا۔ ادھر عارفہ اور سعدیہ بھابھی نے مجھے پکڑا ہوا تھااور مجھے سیدھا لٹا کر سعدیہ میرے اوپر چڑھی ہوئی تھی ۔
                  عارفہ نے میرے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا۔ اب قمر بھائی کبھی سحر اور کبھی عافی کو چود رہا تھا اور افتخار اور زاہد نے بھی پارٹنر بدل لیے تھے۔
                  ادھر میں نے سعدیہ بھابھی کو نیچے لٹایا اور اس کے اوپر چڑھ کر زور دار چدائی شروع کر دی میں چاہتا تھا کہ میں ان سب کی تسلی کروا کر اپنی ہونے والی بیوی سحر اور سالی عافی کے پاس چلا جاؤں۔
                  پھر باقی رات وہیں ان کے ساتھ گزاروں سو میں نے سعدیہ کی مزید زور شور سے چدائی شروع کر دی اور چند منٹوں میں ہی سعدیہ ہانپنے لگی کیونکہ اب سعدیہ بھابھی کی عمر بھی چالیس سے اوپر تھی اب سعدیہ بھابھی کے ہانپنے کی دیر تھی کہ میں نے عارفہ بھابھی کو کو پکڑا ۔
                  وہ گھوڑی تو پہلے ہی بنی ہوئی تھی میں نے لوڑے کو تھوک لگایا اور سیدھا ان کی چوت میں پیل دیا۔
                  ادھر میں نے پارٹنر بدلا ادھر قمر بھائی نگو آنٹی پر آ گئے اور زاہد خالو سحر اور عافی کے پاس چلے گئے۔
                  اب سعدیہ بھابھی بے سدھ پڑی تھیں اور افتخار اور قمر نگو آنٹی اور نجمہ خالہ کو چود رہے تھے، میرا لوڑا عارفہ بھابھی کی چوت کی سیر کر رہا تھا اور زاہد خالو اپنی بھانجیوں سحر اور عافی کی ٹھکائی کر رہے تھے۔ میں جلد از جلد عارفہ بھابھی کو نڈھال کر کے سحر اور عافی کے پاس پہنچنا چاہتا تھا ۔
                  چنانچہ میں نے مزید زور لگا کر عارفہ بھابھی کو چودنا شروع کیا ادھر افتخار نے اپنی گشتی ماں نجمہ کی گانڈ میں لوڑا پیل دیا تھا اور پانچ منٹ بھی نہ نکالے اور اس کے لوڑے نے اپنی ماں کی گرم گانڈ کے آگے ہار مان لی اور اپنا لاوا اگل دیا۔
                  اب افتخار تو اپنی ماں کے اوپر ہی ڈھیر ہو گیا اور قمر ابھی تک نگو آنٹی کو چود رہا تھا کہ اچانک اس نے بھی نگو آنٹی کی گانڈ پر ہلہ بول دیا لن اس قدر چھوٹا اور پتلا تھا کہ نگو آنٹی کو پتہ بھی نہ چلا کہ کس وقت قمر بھائی کا لن ان کی چوت سے نکل کر ان کی گانڈ میں چلا گیا اور نگو آنٹی کی گرم گرم گانڈ نے قمر بھائی کی لُلّی کو شکست سی دی اور قمر بھائی بھی نگو آنٹی کے ساتھ لیٹ کر بے سدھ ہو گئے اب یہ چاروں تو فارغ ہو کے تھے۔
                  زاہد خالو نے عافی کی گانڈ پہلے بھی ماری تھی آج پھر وہ عافی کی گانڈ میں لوڑا پیل کر دھکم دھکا ہو رہے تھے وہ بھی عافی کی جوان گانڈ کی گرمی برداشت نہ کرپائے اور اچانک ان کے لوڑے نے بھی گانڈ کے اندر ہی الٹیاں شروع کر دیں اور وہ بھی فارغ ہو گئے۔ اِدھر سعدیہ بھابھی نے اپنے کپڑے اٹھائے اور کہنے لگی ۔
                  میں تو چلی اپنے روم میں اُدھر نجمہ خالہ نے افتخار اور قمر بھائی سے کہا کہ اب تم لوگ بھی اپنے اپنے روم میں جاؤ اور خود بھی چدائی پارٹی روم سے نکل گئیں۔
                  نگو آنٹی نے دیکھا کہ زاہد خالو فارغ ہو چکے ہیں تو ان سے کہا کہ چلو زاہد ہم تمہارے گھر چلتے ہیں میں وہیں سو لوں گی اور جگنی اور عارفین کو ڈسٹرب نہ ہی کروں تو بہتر ہے یہاں بھی ان لڑکیوں کو اب اپنے اصلی لوڑے کے ساتھ مزے کرنے دیتے ہیں۔ یہ سن کر زاہد خالو اٹھے اور نگو آنٹی کو لے کر اپنے گھر چلے گئے۔
                  اب چدائی پارٹی میں آخری تین کھلاڑی بچے تھے جن میں سے عافی تو بہت نڈال ہو چکی لیکن اپنے بہنوئی یعنی میرے لن کی منتظر تھی ۔
                  سحر کی آنکھیں بھی نشے سے بند ہو رہی تھیں آج افتخار، قمر بھائی اور زاہد خالو نے دونوں کوبھی خوب چودا تھا اس لیے دونوں کی پھدیاں سوجی ہوئی تھیں اور مجھے سحر کی چوت میں لوڑا گھساتے ہوئے بہت دقت محسوس ہو رہی تھی اور اسے بھی درد ہو رہا تھا۔
                  کہ عافی نے اپنے اور میرے منہ سے تھوک لے کر میرے لوڑے پر لگایا اور کچھ سحر نے اپنا تھوک اپنی چوت پر لگایا اور اور دھکم پیل کر کے میں نے اپنا نو انچ لمبا اور ساڑھے تین انچ موٹا لوڑا اس کی چوت میں بالآخر ڈال ہی دیا۔
                  اب میں سحر کو چود رہا تھا اور عافی سحر کی چوت سحر کے منہ پر تھی جسے وہ چاٹ رہی تھی اور عافی کا منہ میرے منہ میں تھا اور ہم تینوں کی آوازیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔
                  تھوڑی دیر بعد سحر نے کہا کہ ظہیر جانی۔ میری جان اب اپنی سالی اور میری بہن عافی کو میرے سامنے چودو تا کہ مجھے بھی پتہ چلے کہ میرا ہونے والاشوہر اپنی سالی سے کتنا پیار کرتاہے۔
                  چنانچہ میں نے کہا کہ نوکر کیا اور نخرہ کیا اور عافی کو سحر کے اوپر ہی کتیا بنا کر ڈوگی سٹائل میں اپنا لوڑا سحر کی پھدیا سے نکالا اور عافی کی پیاری سی تنگ چوت میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔
                  اور
                  اور سحر عافی اور میری مشترکہ کوششوں نے بالآخر عافی کی تنگ چوت کو سر کر ہی لیا اور میرا موٹا لمبا لوڑا عافی کی چوت میں داخل ہو گیا۔
                  میں نے آہستہ آہستہ اسے چودنا شروع کیا اور ساتھ اس کے منہ میں منہ ڈال دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پہلی بار عافی کو چود رہاہوں۔ کیونکہ اس کی چوت کو تین مردوں نے مار مار کر اچھا خاصا سُجا دیا تھا جس سے مجھے اپنا لوڑا آزادی سے اندر باہر کرنے میں دشواری ضرور ہو رہی تھی لیکن سوجی ہوئی پھدی میں لن ڈال کر رواں کرنے تک بہت ہی زیادہ مزہ آ رہا تھا۔
                  تھوڑی تھوڑی دیر بعد سحر اپنی بہن کی پھدیا میں سے میرا لن نکال کر اس پر تھوک لگا رہی تھی جس سے لن آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔
                  عافی اب بہت تھک چکی تھی اس لیے میں نے اس کی چوت سے اپنا لوڑا نکالا اور سحر کی چوت میں ڈال دیا۔
                  ہم دونوں بے تحاشا کسنگ کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ دھؤاں دار قسم کی چدائی جاری تھی۔
                  عافی اب آرام سے ہمارے ساتھ ہی سو رہی تھی۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد میں نے دیکھا کہ نگو آنٹی اندر آئیں اور ہم دونوں کو پیار سے چمکارتے ہوئے بولیں کہ واہ کیا بات ہے میرے داماد کی ابھی تک میری بیٹیوں کی دھلائی کر رہا ہے۔
                  یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک لمبی فرنچ کس دی جس سے میرا جوش بڑھ گیا اور میں نے سحر کی پھدی سے اپنا لن نکال کر نگو آنٹی کے منہ میں دے دیا اور ساتھ ہی سحر نے اپنی امی کی شلوار اتار دی اور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کی گانڈ میں تھوک لگا کر ان کی گانڈ میں اپنا لوڑا ڈال دیا جسے انہوں نے آسانی سے اپنی گانڈ میں سما لیا۔
                  اب میں نے زور زور کے جھٹکے مارنے شروع کر دیئےسحر نے میرے اندر باہر ہوتے ہوئے لن پر تھوکنا شروع کیا اور پھر اپنی ماں کے منہ سے بھی کچھ تھوک لے کر میرے لوڑے پر مل دیا جس سے لوڑے کے لیے اندر باہر ہونے میں آسانی ہونے لگی۔
                  آنٹی نگو اونچی اونچی چلا رہی تھی کہ مار اپنی ساس کی پھدی، میرے پیارے داماد اپنی ساس کی گانڈ پھاڑ دے،۔
                  اپنی بیوی اور سالیوں کو بھی چود تجھے آزادی ہے ہم چاروں تیرے لیے ہی بنی ہیں، ہماری پھدیاں اور گانڈیں چود چود کر نڈھال کر دے۔۔۔۔۔ ۔
                  وہ چلا رہی تھیں اور عافی تو بے چاری تھک کر چور ہو چکی تھی اس لیے وہ چدائی سے بے خبر گہری نیند کی آغوش میں جا چکی تھی اور سحر اپنی والدہ کو اپنے ہونے والے خاوند سے چدوا رہی تھی۔
                  میں نے بھی نگو آنٹی مزید زور اور مزے سے چودرہا تھا اور ادھر کبھی سحر اور کبھی نگو آنٹی کے منہ میں منہ ڈال رہا تھا۔
                  ہم تینوں مزے کی انتہا پر تھے اور اب میرا بھی وقت ہو گیا تھا اور نگو آنٹی چونکہ تجربہ کار عورت تھی اسے معلوم ہو گیا کہ ان کا داماد اپنا مادہ نکالنے والا ہے تو انہوں نے کہا کہ میرے اندر نہ نکالنا میں تمہارا مادہ کھانا چاہتی ہوں۔
                  اس لیے میرے منہ میں نکالنا۔ ۔ میں نے کہا کہ جی میری پیاری ساسو ماں ایسا ہی کروں گا۔ سحر بولی کہ میرے پیارے شوہرظہیر حرامی جی اپنی اس قیمتی دولت سے مجھے بھی حصہ دینا۔
                  ، میں نے کہا کہ اچھا زانی ماں کی گشتی بیٹی صاحبہ آپ اپنی والدہ کے منہ سے جتنا حصہ چاہے لے لینا اور یہ کہتے ہوئے مجھے اتنا جوش آیا کہ میں نے دو تین گھسے زور زور سے آنٹی نگو کی گانڈ میں مارے اور لوڑا نکال کر ساتھ لیٹی ہوئی سحر کی پھدی میں ڈال دیا اور نگو آنٹی سے کہا کہ اپنا منہ اپنی بیٹی کی پھدیا کے قریب لائیں تا کہ میں آپ کے منہ میں اپنی دولتِ مشترکہ ڈال سکوں۔ جیسے ہی نگو آنٹی نے اپنا منہ سحر کی پھدیا کے قریب کیا میں نے اپنا لن ایک بار سحر کی پھدی سے نکال کر سار ااس کی پھدی میں دوبارہ جڑ تک ڈال دیا اور پھر نکال کر نگوآنٹی کے منہ میں ڈال کر پچکاریاں مارنی شروع کر دیں کوئی ڈیڑھ منٹ میرا لوڑا نگو آنٹی کے منہ میں پچکاریاں مارتا رہا .
                  جب اسے سکون ہو گیا تو ڈھیلا لوڑا ان کے منہ سے باہر کھینچ کر سحر کے منہ میں ڈال دیا اور سحر مزے لے لے کر میرا لوڑا چاٹنے لگی اس نے میرا لوڑا منہ سے صاف کر دیا تھا اور میں ساتھ لیٹی ہوئی اپنی سالی عافی کو جپھی ڈال کر لیٹ گیا اور اب نظارہ کرنے لگا کہ دونوں ماں بیٹی دیکھیں میری منی کے ساتھ کیا کرتی ہیں نگو آنٹی کے منہ سے دونوں طرف میری منی بہہ رہی تھی جسے سحر چاٹنے میں مصروف تھی اور دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے مموں پر تھے اور دونوں میری منی چاٹنے اور ضائع ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش میں جُٹی ہوئی تھیں۔
                  یہ نظارہ دیکھتے دیکھتے میں نے عافی کو کس کیا اور آنکھیں بند کر کے نیند کی وادی میں اتر گیا۔
                  رات تو گزر چکی تھی اور ساری رات ہی چدائی پارٹی چلتی رہی جس کی وجہ سے سبھی تھکے ہوئے اور چور چور تھے اس لیے سبھی سو رہے تھے۔ میں نے بھی آفس سے رخصت لے لی ہوئی تھی اس لیے سو رہا تھا اور مجھے عافی کی کسنگ نے جگایا .
                  وہ مجھے بے تحاشا چوم رہی تھی۔ نگو آنٹی زاہد کے ساتھ جا کر ایک بار پھر واپس آئی تھیں اور مجھ سے گانڈ مروا کر دوبارہ زاہد کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی تھیں۔ میرے کمرے میں.
                  اب میں میری ہونے والی بیوی سحر اور عافی تینوں ہی سوئے ہوئے تھے۔اب عافی جو جاگ چکی تھی مجھے بیڈ کافی پلانے کی بجائے بیڈ کسنگ دے رہی تھی جس کا مجھے لامحالہ مزہ آ رہا تھا کیونکہ اس کے منہ سے اُٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو کا تو میں دیوانہ تھا۔ ادھر میری بیوی ننگی ہی بے سدھ پڑی تھی میں نے عافی سے کہا کہ بیڈ سے اتر کر صوفے پر چلتے ہیں .
                  سحر کو آرام کرنے دیتے ہیں۔ چنانچہ میں عافی کو گود میں اٹھا کر صوفے پر لے گیااور ہم باہم لپٹ کر کسنگ کرنے لگے کپڑوں کی قید سے تو ہم دونوں ہی آزاد تھے اس لیے میرا لوڑا کھڑا ہونے کا علم تو عافی کو ہو ہی چکا تھا۔
                  لوڑے کے الارم پر عافی نے کسنگ چھوڑ لوڑے کو منہ میں لینے کو ترجیح دی میں نے بھی اس کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا پھدی چاٹتے ہوئے میں نے اپنا تھوک اس کی پھدی میں ڈالنا شروع کیا تا کہ اس کی پھدی کی تنگ موری میں میرا لمبا موٹا لوڑا آسانی سے گھس سکے۔
                  اب اس کی پھدیا کچھ اپنے اندر سے نکلنے والے پانی کی وجہ سے اور کچھ میرے تھوک کی وجہ سے چپ چپانے لگی اور اس کی پھدی کا دانہ بھی موٹا ہو کر چمکنے لگا .
                  اب تک وہ دو تین مرتبہ ڈسچارج ہو چکی تھی اور اپنا پانی نکال کر میرے منہ میں انڈیل چکی تھی۔
                  ادھر وہ میرے لوڑے سے نکلنے والے نمکین پانی سے لطف اندوز ہو رہی تھی اور میرا لوڑا اب مکمل تن چکا تھا۔ میری سالی عافی نے اک منٹ بھی نہیں لگایا اور دھپ سے میرے اوپر لیٹ گئی اور میرے منہ میں منہ ڈال کر میرا لوڑا پکڑا اور اپنی تنگ اور جوان پھدیا پر سیٹ کیا اور پوری قوت کے ساتھ اپنی پھدی میں ڈال کر اوپر نیچے ہونے لگی۔
                  اب میرا لوڑا مکمل طورپر اس کی پھدی کی حراست میں تھا اور وہ کبھی اسے آزادی دیتی اور پھر قید کر لیتی.
                  اسی طرح مسلسل پندرہ منٹ وہ میرے اوپر لیٹی مجھے چودتی رہی اور پھر میں نے اسے اٹھا لیا اور کھڑے ہو کر اس کی بجانے لگا۔ وہ بھی اتاولی ہو کر چدوا رہی تھی اور مست ہو چکی تھی۔
                  کوئی پانچ منٹ بعد میں نے اسے کہا کہ میری سالی میری کتیا بن میں تجھے اج اچھی طرح سے چودوں لیکن وہ کہنے لگی کہ بہنوئی صاحب أب آپ یہ نہ کہیں دین کہین کہ آپ کتا بن کر مجھے چودیں گے بلکہ مجھے تو لگ رہا ہے کہ جیسے ایک گدھا کسی کتیا کو چودے گا۔
                  میں نے کہا ایسے ہی سمجھ لو تو بن جاؤ میری کتیا۔ عافی کتیا بن گئی اور میں اس کا گدھا بن کر پیچھے آ گیا ۔
                  اس کی تنگ چھوٹی سی پھدیا میں پہلے تھوکا اور پھر لوڑا ڈال کر دھکے پر دھکا دینے لگا وہ بھی چلانے لگی کہ پیارے بہنوئی اپنے لمبے اور موٹے لوڑے سے اپنی سالی کی پھدیا کو بجاؤ۔۔۔۔۔ آآآآآآہ۔۔۔۔ اووووووووووہ۔۔
                  آآآہ۔۔۔۔ اووووووووووہ۔۔۔۔۔ خوب بجاؤ بہنوئی صاحب۔۔۔۔
                  ۔ میں نے کہا کہ ابھی تو میری ایک سالی رہتی ہے بہن چود جسے میں نے سہاگ رات کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے۔۔۔۔
                  یہی باتیں کرتے کرتے میں نے عافی سے کہا کہ میں نے رات کو تیری ماں کی گانڈ ماری تھی تو کیا تو اپنی گانڈ اپنے بہنوئی سے مروانا پسند کرے گی؟۔
                  تو عافی کہنے لگی کہ میرے خالو نے میری گانڈ ماری تھی تو میرے بہنوئی صاحب کا بھی حق کیا فرض ہے کہ میری گانڈ ماریں لیکن آپ کا لوڑا میرے خالو کے لوڑے سے بہت موٹا اور لمبا ہے لیکن میں برداشت کر لوں گی کیونکہ میں اپنے بہنوئی کو ناراض تو نہیں کر سکتی نا!!۔
                  میں نے کہا کہ وہ کیوں؟
                  تو کہنے لگی کہ کہیں آپ میری بہن کو طلاق ہی نہ دے دیں۔
                  میں نے کہا کہ یہ تو نہیں ہو سکتا میری جان کیونکہ تم سب اب میری ذمہ داری ہو میں تم سب کو خوش رکھنے کا پکا ارادہ کر چکا ہوا ہوں۔
                  اس لیے تم گانڈ میں لوڑا ڈلواؤ یا نہ ڈلواؤ تمہاری بہن اور تم لوگوں کو کبھی نہ چھوڑوں گا۔ یہ کہتے کہتے میں نے بہت سا تھوک نکال کر اس کی گانڈ کی موری پر لگایا اور اپنی انگلی اس کی گانڈ میں ڈال دی .
                  جو آسانی سے اندر چلی گئی پھدی میں دھکے لگاتے لگاتے میں نے اس کی گانڈ پر بھی اپنی انگلی سے کام جاری رکھا پھر دو انگلیاں ڈالیں جو تھوڑی دقت کے بعد اندر باہر ہونے لگیں اور پھر میں اس سے کہا کہ اپنی گانڈ کے لیے کچھ تھوک دو تو اس نے میرے ہاتھ پر تھوک دیا ۔
                  جو میں نے اس کی گانڈ پر لگایا اور کچھ اپنے لوڑے پر اور اس کی گانڈ کی موری پر رکھ کر لوڑا آگے دھکیلنے لگا اسے درد تو ہو رہا تھا لیکن میں نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا ہوا تھااور ہم دونو ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رہے تھے۔ مجھے اس کے ساتھ کسنگ کا بہہت مزہ آتا تھا کیونکہ اس کے اندر سے ایک مدہوش کردینے والی خوش بو اٹھتی تھی جو مجھے اور میرے لوڑے کو پاگل کر دیتی تھی۔
                  گانڈ میں آرام سے آدھا گھسانے کے بعد میں نے اسے اندر باہر کرنا شروع کر دیا تو درد اور مزے کی وجہ سے عافی میری سالی تو پاگل ہی ہو گئی وہ کتیا بھونکنے لگی کہ میرے گدھےبہنوئی صاحب
                  گدھےبہنوئی صاحب!۔
                  اپنی کتیا سالی کی گانڈ میں پورا ڈال کر اندر باہر کرو ورنہ میں تمہیں اپنی بہن سے طلاق دلوا دوں گی۔۔۔۔
                  نوکر کیا اور نخرہ کیسا؟ ۔
                  میں نے تو زور کا دھکا دھیرے سے لگایا اور لوڑا صاحب کتیا کی گانڈ کے اندر پورا اتار دیا۔ اب تو مزے کی شدت سے سالی چلانے لگی اور میں بھی جکڑے ہوئے لوڑے کی وجہ سے مزے سے بے حال ہو گیا تھا اور اب مجھ سے مزید برداشت نہ ہو رہا تھا کہ میرا لوڑا اس کی گانڈ کی قید میں ہی رہے چنانچہ میں نے دھکے پر دھکا لگانا شروع کیا اور دو تین منٹ میں ہی میں جھڑنے کے قریب پہنچ گیا تو میری کتیا سالی نے بھی میری گشتی ساس کی طرح فرمائش کر ڈالی کہ بھیا میرے منہ میں اپنا قیمتی مال ڈالنا چنانچہ میں نے پوری قوت سے لوڑا جڑ تک اپنی کتیا کی گانڈ میں اتار دیا اور پیچھے سے مزید دھکا لگا دیا تا کہ اچھی طرح میری منی نکلنے کے قریب ہو جائے پھر ایک جھٹکا دے کر سارا لوڑا یک دم نکالا اور اپنی سالی کے منہ کے اندر کر دیا میرا لوڑا اب جھٹکے لے لے کر میری سالی کے منہ میں فارغ ہو رہا تھا۔
                  جب تک وہ خود ڈھیلا ہو کر اس کے منہ سے ہیں نکلا میں نے اسے اس کے منہ میں دبائے رکھا اور اپنی کتیا سالی کو اس کی زندگی کا بہترین ناشتہ کروا دیا۔ وہ بھی ساری منی نگل گئی۔۔
                  (جاری ہے)۔
                  Vist My Thread View My Posts
                  you will never a disappointed

                  Comment


                  • #10
                    ۔نیو اپڈیٹ۔
                    ​​​
                    عافی کو اس طرح اندھا دھند اور گانڈ میں چودنے کے بعد مجھے بھوک محسوس ہوئی اور میں نے ٹراؤزر پہنا اور فریج سے دہی نکالا اور اس میں دودھ اور ملائی ڈال کر کھانے لگا۔
                    اتنے میں نجمہ خالہ آ گئیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگیں کہ اٹھ گیا میرا شیر؟
                    میں نے کہا کہ جی اور اٹھتے ہی اپنی سالی کی چوت اور گانڈ کا شکار بھی کر لیا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ کھاؤ میرے شیر اور دودھ بھی پیو تا کہ سب کی چوت اور گانڈ کو اپنے لوڑے سے سکون دے سکو کیونکہ ہم سب خواتین تمہارے لوڑے کی دیوانی ہو چکی ہیں۔
                    تمہارے لوڑے جیسے تین چار لوڑے اور تیار ہو رہے ہیں ہمارے گھر میں یعنی تمہاری منی سے پیدا ہونے والے سبھی بچے۔ مجھے لگتاہے کہ ان کے لوڑے بھی تمہارے لوڑے کی طرح زبردست ہوں گے۔ میں نے کہا کہ خالہ یہ تو ہے۔یہ باتیں کرتے کرتے خالہ نے میرے لیے ایک روٹی پکائی اور میں نے دہی کے بعد وہ روٹی کھائی اور اوپر سے ایک کپ دودھ پی لیا تا کہ کھوئی ہوئی انرجی بحال ہو سکے۔
                    میں کھا پی کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو دیکھا کہ سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی بھی اپنے کمروں سے نکل کر کچن کی طرف آ رہی ہیں۔
                    ان کی آنکھوں میں رات والی چدائی پارٹی کا خمار ابھی تک نظر آ رہا تھا۔دونوں نے مجھ سے پیار کیا اور جپھی لگا کر شکریہ بھی ادا کیا میں نے بھی دونوں بھابھیوں کا شکریہ ادا کیا اور دونوں کو سینے سے لگا کر باری باری کس کیا اور کہا کہ میں ذرا نہا کر فریش ہو جاؤں پھر دن کا کوئی پروگرام بناتے ہیں۔ اتنے میں خالہ نجمہ نے کہا کہ نگو کہہ رہی تھی کہ اب ظہیر اور سحر کی شادی کو پلان کیا جائے۔ چنانچہ ان کی یہ بات سن کر میں نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے۔
                    لیکن میں نے اور سحر نے یہ پلان کر رکھا ہے کہ پہلے وہ پریگننٹ ہو گی اور اس کے بعد ہماری رخصتی کا سین ہوگا۔ سب نے یک زبان کہا کہ بالکل ٹھیک ہے اور یہ پریگننسی بھی ہمارے سامنے ہو گی۔میں نے کہا جی بالکل اب تک جو کچھ ہوا ہے سب کے سامنے ہوا ہے یہ بھی سب کے سامنے ہو گا فکر نہ کریں۔
                    یہ کہہ کر میں اپنے روم میں چلا گیا جہاں عافی اور سحر سو رہی تھیں۔ میں دیکھا کہ سحر بیڈ پر موجود نہ تھی اور عافی گھوڑے گدھے بیچ کر بے سدھ پڑی تھی۔
                    میں نے دیکھا کہ سحر باتھ روم میں ہے کیونکہ پانی گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں تو میں سیدھا باتھ روم میں چلا گیا جہاں سحر باتھ ٹب میں لیٹی ہوئی گرم پانی میں خود کو ٹکور کر رہی تھی کیونکہ رات کو چار مردوں نے اس کی اندھا دھند چدائی کی تھی اب وہ سب کی باس اپنے بدن سے اتار رہی تھی کیونکہ اس کے جسم پر جگہ جگہ سب بھائیوں کی اور اس کے خالو کی منی لگی ہوئی تھی میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ٹراؤزر اتار کر باتھ ٹب میں جا گھسا ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور کسنگ کا ایک طویل دور چلا میں نے سحر کو بتایا کہ نجمہ خالہ نے الٹی میٹم دے دیا ہے ۔
                    اب ظہیراور سحر کی شادی کر دی جائے تا کہ ان کے بھی بچے ہوں اور سب ہنسی خوشی زندگی کی دوڑ میں بھاگیں۔ تو سحر کہنے لگی کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک تو میرے پریگننٹ ہونے کا وقت آ گیا اور دوسرے عارفین کی سیل ٹوٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں اور پھر اسے بتایا کہ کس طرح رات کو میں نے عارفین کو چاٹا اور اس نے میرا لوڑا چوسا لیکن ابھی اندر نہیں کیا کیونکہ میں وعدہ کے مطابق سہاگ رات اس کے ساتھ مناؤں گا ۔
                    تا کہ میں یہ نہ کہہ سکوں کہ سہاگ رات کو میں نے کوئی سیل نہیں توڑی۔ سحر کہنے لگی تو پھر سنیں کہ مجھے دو تین دن بعد مینسز آ جائیں گے
                    تو پھر سنیں کہ مجھے دو تین دن بعد مینسز آ جائیں گے
                    مینسز کے بعد کے تین چار دن پریگننسی کے لیے بہترین ہوتے ہیں تو کیوں نہ اسی مہینے ہم یہ اناؤنس کر دیں اور کوشش کریں کہ مجھے پریگننسی ہو جائے۔
                    میں نے کہا ٹھیک پھر ہم نے وہیں ٹب میں چدائی کی ایک لمبی بازی لگائی اور پھر سحر کہنے لگی کہ بھوک سے اب میری جان نکل رہی ہے اس لیے میں تو چلی۔
                    میں بھی باہر نکلا اور اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس دن ہم نے سب کو بتا دیا کہ اس ماہ ہم کوشش کریں گے کہ سحر پریگننٹ ہو جائے اور اگر اس ماہ پریگننسی ہو گئی تو اگلے ماہ رخصتی ہو گی۔
                    یہ سن کر سبھی بہت خوش ہوئے اور سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور گلے لگ لگ کے سحر کو سب نے پیار کیا اور مجھے بھی پیار کیا اور دونوں کے لیے اچھی تمناؤں کا اظہار کیا ۔
                    آباد ہونے کی دعا دی۔
                    بھابھیاں کہنے لگیں کہ جس طرح تم نے ہمارے گھر آباد کیے ہیں تمہارا گھر بھی آباد ہو اور آباد رہے۔ میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور سب اپنے اپنے کاموں پر لگ گئے۔
                    تین چار دن بعد ہی سحر کو مینسز آ گئے نگو آنٹی اور جگنی خالہ کو بھی بتا دیا گیا کہ اب سحر کے پریگننٹ ہونے کی باری ہے اور اس کے بعد رخصتی ہو گی۔
                    جگنی خالہ اور زاہد خالو بھی بہت خوش تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ پریگننسی سب کی موجودگی میں ہو گی اور ان ایام میں سحر کو حامی کے علاوہ کوئی نہیں چود پائے گا لیکن بشمول عافی باقی سب لڑکیاں تو سب لڑکوں سے چدنے والی تھیں ۔
                    خیر میں نے اب سحر کے مینسز والے ایام میں کسی کو بھی نہیں چودا تا کہ میرے سپرم زیادہ سے زیادہ جمع ہو جائیں اور سحر کو پریگننسی ہو سکے۔
                    میں نے چلغوزے،بادام، اخروٹ اور موصلی سفید اور سیاہ نیز ثعلب مصری کا ایک مرکب بنایا اور ایک چمچ صبح اور ایک شام کو دودھ کے ساتھ استعمال کرنے لگا تاکہ منی مزید گاڑھی ہو جائے اور اسی مہینے سحر پریگننٹ ہو جائے۔
                    کیونکہ اب مجھ سے عارفین کو دیکھ کر مزید انتظار نہیں ہوتا تھا اور یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں عارفین گرم ہو کر کسی اور سے نہ چدوا بیٹھے یا خالو زاہد پر جنون ہو گیا تا پھر کیا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔
                    بڑے انتظار کے بعد آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا انتظار تھا اور میں نے سحر سے کہا کہ تم نہا دھو کر فارغ ہو جاؤ لیکن اپنی چوت پر بال صاف نہ کرنا کیونکہ مجھے بالوں والی چوت زیادہ پسند ہے ۔
                    یہی بات میں نے عارفین سے کہہ دی کہ وہ بھی اب چوت کے بال صاف نہ کرے کیونکہ مہینے بعد اگر اس کے ساتھ سہاگ رات منانی پڑی تو میں اپنی پسندیدہ چوت بالوں کے ساتھ چاٹنا اور پھاڑنا چاہوں گا۔ میری اس خواہش کو عجیب سمجھا گیا لیکن سب نے میری بات مان لی اور وعدہ کر لیا کہ اب وہ دونوں بہنیں چوت پر سے بال صاف نہیں کریں گی۔
                    جس دن سحر نہائی اس رات کو میں اسےاور عافی کو اپنے گھر اپنے کمرے میں لے گیا۔ میں نے جو تیاری کی ہوئی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ میں فل ایکشن پروگرام کرتا اور عافی کو اس لیے ساتھ لیا تھا کہ ایک بار سحر کی یوٹرس میں منی ڈالنے کے بعد رات کو اگر پھدی مارنے کو دوبارہ میرا دل کرے تو سحر پر ٹائم لگانے کی بجائے عافی پر ٹائم لگا لوں اور اس کی گانڈ مار لوں گا اور منی پھر آرام سے سحر کی چوت میں گرا دوں گا تا کہ اس کے اندر ڈالی ہوئی منی دوسری بار چوت مارنے کی وجہ سے ضائع نہ ہو جائے کیونکہ میں ہر حال میں چاہتا تھا کہ اسی مہینے سحر پریگننٹ ہو جائے۔
                    چنانچہ رات کو ہم نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا اور ہم تینوں اور سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی ایک لمبی واک کے لیے نکلے اور رستے میں آئس کریم کھائی اور واپس آ گئے۔ واپس آ کر دونوں بھابھیوں نے سحر اور مجھے مبارک باد دی ۔
                    اپنی تمنا کا اظہار کیا کہ اسی ماہ پریگننسی ہو جائے۔ پھر عافی کو نصیحت کی کہ اپنی بہن اور بہنوئی کااچھی طرح خیال رکھنا۔ یوں ہم اپنے روم میں آ گئے۔ روم کو لاک کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ سبھی جانتے تھے اور کسی کا کسی سے کوئی پردہ بھی نہیں تھا۔
                    ہم تینوں بیڈ تک پہنچتے پہنچتے کپڑوں کی قید سے آزاد ہو چکے تھے۔ سحر اور عافی کی بالوں بھری چوتیں میری دسترس میں تھیں۔ ہم تینوں ایک دوسرے سے لپٹے لپٹے اور ایک دوسرے کے منہ سے منہ لگائے بیڈ پر لیٹ گئے ۔
                    پھر میں نے عافی کے منہ میں منہ ڈال دیا اور اس کے 34 کے مموں سے کھیلنے لگا۔ سحر سمجھ گئی کہ اسے میرا لوڑا چوسنا ہے جو پہلے ہی سخت تنا ہوا تھا۔ سو سحر نے میرا لوڑا چوسنا شروع کر دیا میں اور عافی اس وقت منہ میں منہ ڈالے مزہ کر رہے تھے
                    ۔ مجھے کسنگ کرنے کا سب سے زیادہ مزہ عافی کے ساتھ آتا تھا اور اس کے بعد عارفین کے ساتھ آیا تھا لیکن وہ اس کے بعد میری سہاگ رات منانے والی تھی ابھی تو عافی اور سحر کا وقت تھا اور ہماری کوشش تھی کہ سحر اس ماہ پریگننٹ ہو جائے۔
                    ہم تینوں ایک دوسرے کے نشے میں مدہوش ہو گئے اور پتہ ہی نہیں چلا جب عافی نے میرا لوڑا اپنی چوت میں ڈال لیا اور میرے اوپر بیٹھے بیٹھے آرام آرام سے لن کو اندر باہر کرنے لگی۔
                    سحر نے میرے منہ میں منہ ڈال دیا اور عافی کے منہ کو اپنی چوت لگا دی جسے وہ خوشی خوشی چاٹنے لگی۔اب سحر میرے اوپر لیٹی تھی اور میرا لوڑا اس کی چوت میں اندر باہر چل رہا تھا ۔
                    جبکہ سحر کی میرے منہ پر بیٹھی تھی اور میں اور عافی اس کی چوت چاٹ رہے تھے۔ اچانک عافی نے پینترہ بدلا اور میرا لوڑا اپنی چوت سے نکال کر اپنی گانڈ میں ڈال لیا مجھے ایسا لگا کہ میرا لوڑا عام حوالات سے کال کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا ہو۔ اب عافی نے آرام آرام سے میرا لوڑا جڑ تک اپنی گانڈ میں لے لیا تھا اور میں مزے کے ساتویں آسمان پر اڑ رہا تھا۔
                    ادھر سحرمیرے منہ میں منہ ڈال چکی تھی اور ساتھ ساتھ کہہ رہی تھی کہ میری جان میرے سرتاج آج مجھے پریگننٹ کر دیں۔۔۔۔
                    تاکہ میں اپنی بہنوں کے لیے آپ جیسا ایک اور لوڑے والا جوان پیدا کر سکوں۔۔۔ میں نے کہا کہ سعدیہ اورعارفہ بھابھی کے بھی بیٹے ہیں جن کے لوڑے تیار ہو رہے ہیں چند سال میں دیکھنا وہ بھی تم سب کی چوتوں اور گانڈوں میں جانا شروع ہو جائیں گے۔۔۔۔ میرے بیٹوں کے لوڑے بھی تم سب کی گانڈ اور چوت میں جایا کریں گے۔۔۔۔ سحر کہنے لگی کہ میں تو اپنے بیٹے کا لیا کروں گی۔۔۔
                    میں نے کہا کہ بیٹے پر سب سے پہلا حق اس کی والدہ کا ہی ہوتا ہے۔
                    جیسا کہ میری ماں سمان خالہ نے میرے لوڑے پر قبضہ کر لیااور پھر اپنی دونوں بہوؤں کی چوتوں اور گانڈوں کی بھی سیر کروا دی۔۔۔۔
                    پھر تمہاری امی نگو آنٹی کی پھدی بھی میں نے ماری اور جگنی آنٹی کو بھی ماں بننے میں مدد دی۔۔۔۔
                    تمہاری اور عافی کی بھی میں نے ہی سیل توڑی اور اب میری سب سے لاڈلی اور چھوٹی سالی عارفین کی تنگ اور چھوٹی سی چوت کی سیل توڑنا باقی رہ گئی ہے بس اس کی بھی اگلے ماہ کسی رات کو سہاگ رات منائی جائے گی۔۔۔
                    بس تمہارے پریگننٹ ہونے کی دیر ہے کہ اس کا بھی کھاتہ اپنے اس لوڑے سے کھول دوں گا۔۔۔۔
                    ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ عافی نے اپنی گانڈ سے میرا لوڑا نکال کر چوپا لگانا شروع کر دیا۔۔۔۔
                    میں نے سحر سے کہا کہ آؤ میری پیاری ہونے والے پیاری بیوی۔۔۔۔ اب تمہاری چوت کی بار ہے۔۔۔۔
                    یہ کہہ کر میں نے سحر کو لٹا لیا اور بڑے آرام سے اس کی پھدی میں عافی کی چوت اور گانڈ سے نکلنے کے بعد اس کی تھوک میں لتھڑا ہوا لوڑاسحر کی چوت میں ڈال دیا۔ میں نے بہت ہی آرام کے ساتھ لوڑا آہستہ آہستہ اندر کیا اور پھر اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ عافی نے میرے ٹٹے چوسنے شروع کر دیئے تھے اور جب میرا لوڑا سحر کی پھدیا سے باہر آتا اس پر بھی زبان پھیر دیتی۔۔۔ میرا
                    دیتی۔۔۔
                    میرا لوڑا مکمل تنا ہوا تھا۔۔جیسے ہی پورا لوڑا سحر کی پھدیا میں گھسا سحر کی پھدیا نے پانی چھوڑ دیا اور اب تک وہ کئی بار ڈسچارج ہو چکی ہوئی تھی۔۔۔
                    اب وہ مکمل ہو چکی تھی اور میں بھی عافی کی گرم گانڈ میں قریب قریب تھا لیکن ڈسچارج نہیں ہوا تھا اب میں بھی اپنی جمع شدہ منی سحر کی چوت میں موجود یوٹرس میں ڈالنے کو تیار تھا سو میں نے دونوں بہنوں کو الرٹ کر دیا کہ تیار ہو جاؤ میں پہلا فوارہ اپنی منی کا سحر کی پھدیا میں چلانے لگا ہوں۔ میں نے آرام سے سحر کے پیٹ پر ہاتھ رکھا، لوڑا باہر نکالا، اسی طرح پیٹ پر ہاتھ رکھے رکھے دباؤ تھوڑا سا بڑھا کر لوڑا سیدھا آرام سے پورا اندر کرنے لگا اور جب مجھے لوڑے نے کاشن دے دیا کہ وہ سحر کی یوٹرس کے اندر چلا گیا ہے۔
                    تو میں نے ہلکے ہلکے انداز میں وہیں کچھ زور لگا کر آگے کو دھکیلتے ہوئے لوڑے کو منی اندر پھینکنے کی اجازت دے دی۔۔۔ ادھر میری سالی عافی نے میرے چوتڑوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور آگے کو دھکیلنے لگی تو کہ میرا لوڑا مکمل طورپر جڑ تک اس کی بہن کی پھدی میں اتر جائے اور ایک چھوٹا سا ننھا قطرہ بھی باہر نہ رہ جائے۔۔۔
                    عافی نے بھی دبا کے رکھا اور خود میں نے بھی دبا کر رکھا ۔
                    حتی کہ میرا لوڑا سکڑ کر خود بخود باہر پھسل گیا کیونکہ سحر کی چوت میں بہت زیادہ پھسلن ہو چکی تھی۔ میرا لوڑا باہر نکلا تو عافی نے اسے چاٹنا شروع کر دیا۔ میں تو جیسے نڈھال ہو چکا تھا اس لیے میری آنکھیں بند ہونے لگیں بس میں اتنا دیکھ سکا کہ میرے روم کا دروازہ کھلا اور اس میں سے افتخار بھائی اپنے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے اندر آ رہے تھے۔ یقیناً ان کی نظر میری سالی عافی پر تھی لیکن مجھے کوئی اعتراض نہ تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ عافی خود ہی ان سے نمٹ لے گی۔
                    میں جب جاگا تو دیکھا کہ افتخار بھائی اور عافی دونوں اندھا دھند چدائی لگا رہے تھے، عافی بھی بھرپور انجوائے کر رہی تھی۔۔۔ کتیا بن کر افتخار بھائی سے چدوا رہی تھی اور میرا لوڑا اس کے منہ میں تھا۔۔۔
                    اس نے میرا لوڑا کھڑا کر لیا ہوا تھا اور سختی سے تنا ہوا میرا لن اب اس کے ہاتھوں اور منہ کا شکار بنا ہوا تھا جبکہ افتخار بھائی کا مناسب سے سائز کا لوڑا اس کی چوت میں تھا۔ میں نے لیٹے لیٹے عافی کو اپنے اوپر کیا اور نیچے سے اس کی چوت میں لوڑا گھسانے لگا اور افتخار بھائی سے کہا کہ آپ بھی اس کتیا کی پھدیا میں اپنا لن ڈالے رکھیں۔
                    کیونکہ میں اب چاہتا تھا کہ دو لوڑے ایک ہی وقت میں میری سالی کی پھدیا کی گرمی دور کریں۔۔۔چنانچہ افتخار بھائی نے میری بات مانی اور عافی بھی بہت پرجوش ہو گئی اور اس طرح میں نے نیچے سے عافی کی پھدیا میں اپنا لوڑا ڈال دیا ۔
                    پھر افتخار بھائی سے کہا کہ آپ بھی ڈالیں تھوڑی سی تگ و دو کے بعد افتخار بھائی کا لوڑا بھی عافی کی پھدی میں اتر گیا اور پھر دھپ دھپ کی آوازیں شدت اختیار کرگئیں ساتھ ساتھ عافی کی پرجوش آوازیں بھی اونچی ہو گئی تھی۔
                    تھوڑی دیر بعد سعدی بھابھی بھی آگئیں اور کہنے لگیں کہ میں بھی کہوں کہ کہ افتی کہاں چلا گیا ہے۔۔۔۔ تو یہ حرامی یہاں مزے کر رہا ہے۔۔۔۔
                    اتنا کہہ کر سعدیہ بھابھی بھی ننگی ہو کر سیدھی میرے پاس آئی اور میرے منہ میں اپنا مما ڈال دیا اور افتخار سے کہنے لگی کہ بہن چود یہ دیکھو میں بھی اپنے دیور سے چدواتی ہوں تیرے سامنے۔۔۔
                    تو افتخار بھائی نے اپنی بیوی کے چوتڑ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا کہ اچھی بات ہے نا ہر ایک سے چدوا کیونکہ چوت چدوانے کے لیے ہی بنی ہے اور لوڑا چودنے کے لیے۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ تمہارے بیٹے کا لوڑا بھی اب تیار ہے ۔
                    اس سے بھی میرے سامنے چدوا اب۔۔۔۔ اور اپنی ان بھانجیوں کو بھی چدوا۔۔۔۔ سعدیہ بھابھی تو بہت گرم ہو گئی اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ میرا لوڑا عافی کی پھدیا سے بار کھینچا اور اس پر بیٹھ گئی بھابھی کے 38 کے ممے اچھل کود کرنے لگے اور بھابھی دو منٹ کی اندھا دھند چدائی سے بری طرح جھڑ گئی۔
                    پھر سعدیہ بھابھی نے میرے لوڑے پر تھوک لگایا اور اپنی گانڈ میں ڈال لیا اور لگی شور مچانے کہ ہائے میرے دیور نے میری گانڈ پھاڑ دی۔۔۔۔
                    ہائے ایسا ظالم دیور ہے کہ ذرا بھی ترس نہیں کھاتا نہ اپنی بھابھیوں پر نہ اپنی خالہ پر نہ اپنی ساس پر اور نہ اپنی سالیوں پر۔۔۔ ہائے بہن چود دیور اپنی باجی کو چود۔۔۔۔ چود دے اپنی باجی کو۔۔۔۔ پھاڑ دے اپنی باجی کی گانڈ۔۔۔۔
                    پتہ نہیں سعدیہ بھابھی کو اتنا جوش کیسے اور کیوں چڑھ گیا وہ شور مچاتی میرے لوڑے پر اپنی گانڈ کا دباؤ بڑھاتی چلی گئی۔۔۔۔ میں نے بھی اب عافی کو چھوڑ کر بھابھی سعدیہ کو پکڑ لیا اور افتخار بھائی سے کہا کہ آؤ میرے بے غیرت بھائی اپنی بیوی کی گانڈ میں دوسرا اپنا لوڑا ڈالو اگر ہمت ہے ۔۔
                    افتخار بھائی نے بھی عافی کو چھوڑا اور اپنی بیوی سعدیہ کی گانڈ میں میرے لوڑے کے ساتھ اپنا لوڑا گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ عافی نے اپنا تھوک اپنے انکل افتخار کے لوڑے پر لگایا اور سعدیہ بھابھی کی گانڈ میں اس کے خاوند کا لوڑا گھسانے میں مدد کرنے لگی
                    جبکہ میرا لوڑا پہلے ہی سعدیہ بھابھی کی گانڈ میں پھنسا ہوا تھا تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد بالآخر افتخار بھائی کا لوڑا بھی ان کی بیوی سعدیہ کی گانڈ میں چلا ہی گیا لیکن دو تین گھسے مارنے کے بعد ہی افتخار بھائی کی اپنی گانڈ کی چیخیں نکل گئی کیونکہ گانڈ تو چوت سے تنگ اور بہہہت زیادہ گرم ہوتی ہے اس لیے افتخار بھائی برداشت نہ کر پائے اور اندر ہی فوارہ چھوڑ دیا ۔
                    جس سے گانڈ چکنی ہو گئی اور میرا لوڑا آسانی سے سعدیہ بھابھی کی گانڈ میں اندر باہر ہونے لگا۔
                    تھوڑی دیر بعد ہی میں نے اپنا لن نکالا اسے اچھی طرح وائپ سے صاف کیا اور پھر سحر کی پھدی میں ڈال کر آرام سے ساری منی اس کی یوٹرس میں انڈیل دی۔
                    اب مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں سعدیہ بھابھی اور افتخار بھائی سے کہا کہ وہ اب اپنے روم میں چلے جائیں اور سحر اور عافی کو آرام کرنے دیں۔ عافی بھی گانڈ اور چوت مروا مروا کر تھک چکی تھی۔
                    لیکن گرمی ابھی بھی اس کی دور نہیں ہو رہی تھی۔خیر ابھی تھک کر عافی بے سدھ پڑی تھی ۔
                    افتخار بھائی سعدیہ بھابھی کو لے کر روم سے باہر نکل گئے میں نے بھی ٹراؤزر پہنا اور کچن کا رخ کیا۔
                    سحر کو مینسز نہائے آج پانچواں دن تھا اور پانچ دن سے مسلسل میں اس کی یوٹرس میں اپنی منی ڈال رہا تھا اور اب مجھے تسلی ہو گئی تھی کہ اسی کوشش میں سحر حاملہ ہو جائے گی اور اگلے ڈیڑھ دو ماہ میں جب اس کا ریزلٹ آ جائے گا تو رخصتی رکھی جائے گی۔ گھر میں میری اور سحر کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
                    بچے سب سے زیادہ خوش تھے کہ ماموں کی شادی ہو رہی ہے۔ بھابھیاں بھی چہکتی پھر رہی تھیں۔ میں نے نگو آنٹی سے کہا کہ عارفین کا خاص خیال رکھیں کیونکہ مجھے زاہد خالو کی طرف سے اندیشہ تھا کہ وہ ضرور عارفین کو چودنے کی گھٹیا کوشش کریں گے۔
                    ادھر میں نے عارفین سے بھی کہہ دیا کہ یاد رکھنا اگر تم میری سہاگ رات تک کنواری سیل بند نہ رہیں تو میں تمہاری بہن کو چھوڑ دوں گا۔
                    اس لیے اپنی سیل کسی اور سے نہ تڑوانا۔ عارفین نے کہا کہ پیارے بھیا! یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے میری سیل توڑ دینے کے بعد بھی میں کسی اور کو چوت کا مزہ دوں میں تو صرف آپ کی اور پھر اپنے خاوند کی رہوں گی ۔
                    بس مجھے شوق نہیں ہے کہ میں نت نئے لوڑے اپنی چوت اور گانڈ میں لیتی رہوں۔ میں اس کا یہ جواب سن کر مطمئن ہو گیا۔
                    سحر میرے پاس پانچ دن گزار کر اپنے گھر چلی گئی اور اب ہم سب اس انتظار میں تھے کہ سحر کی طرف سے کب خوش خبری سننے کو ملے گی۔
                    خیر اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا لیکن سحر کو اگلے ماہ مقررہ تاریخ پر مینسز نہ آئے جس پر سبھی نے خوشی منائی لیکن ابھی یقین نہیں تھا اس لیے سبھی کو مزید انتظار کرنا تھا۔ ادھر جگنی بھی اب آخری دنوں میں تھی اور اس کے ہاں بھی بیٹے کی ولادت ہونے والی تھی اور دن بہ دن اس کا رنگ روپ نشیلا ہوتا جا رہا تھا۔
                    اگلے پندرہ بیس دن گھر میں جشن کا سماں رہا کیونکہ سب کو یقین ہو چکا تھا کہ سحر پریگننٹ ہو چکی ہے۔ سعدیہ اور عارفہ بھابھی تو آتے جاتے مجھے چھیڑتی تھیں اور میں بھی خوش ہو رہا تھا۔ گھر میں ہر وقت چہل پہل رہنے لگی تھی کیونکہ ابھی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے۔
                    ۔ میں نے اپنے لیے کپڑوں اور جوتوں کا انتخاب شروع کر دیا اور خالہ نجمہ کا کہنا تھا کہ یہ شادی بہت ہی دھوم دھام سے ہونی چاہیے۔
                    کیونکہ اپنی نوعیت کی یہ پہلی شادی تھی۔ میں نے اپنے کمرے کے لیے سحر، عافی، عارفین اور آنٹی نگو کی پسند کا فرنیچر پینٹ اور پردے وغیرہ بنوانے کا آرڈر دے دیا۔ میں چاہتا تھا کہ میری سہاگ رات کا سماں ایک خواب ناک سماں ہو اور میری سہاگ رات نگو آنٹی کی پوری فیملی کے ساتھ ہوجس میں میں اپنی سب سے چھوٹی سالی عارفین کی سیل سب کے سامنے توڑ سکوں۔ اس اعتبار سے یہ ایک انوکھی قسم کی شادی اور سہاگ رات ہونے جا رہی تھی اور میں ان سب انتظامات کو لے کر بہت پُرجوش تھا۔
                    اسی گہما گہمی میں پندرہ بیس دن مزید گزر گئے اور ایک دن میں نے سحر کو پریگننسی چیک کرنے والی سٹرپ لا کر دی اور کہا کہ چیک کرو جب اگلی صبح اس نے چیک کیا تو سبھی کو خوش خبری سنا دی گئی کہ سحر ماں بننے والی ہے ۔
                    اسی خوشی میں نجمہ خالہ نے نگو آنٹی سے کہا کہ اب رخصتی کی تاریخ طے کر لیں۔ نگو آنٹی نے حساب لگایا کہ عارفین اس مہینے کی آخری تاریخوں میں نہا کر فارغ ہو جائے گی تو اگلے ماہ کی چار تاریخ رکھ لیں۔ خیر دسمبر کی چار تاریخ کو رخصتی رکھ دی گئی اور اس کے لیے ہال بک کروا دیا گیا۔ شادی کارڈز کا ذمہ افتخار بھائی نے لیا اور بہترین قسم کے کارڈ چھپوائے گئے۔ سب کو اجازت تھی کہ اپنے اپنے دوستوں کو بلائیں۔ خواتین کو بھی کھلی اجازت تھی کہ اپنی تعلق والیوں کو بلائیں اور سحر، عافی اور عارفین کو بھی کہا گیا کہ اپنی کلاس فیلوز اور دوستوں کو بلا سکتی ہیں۔
                    چنانچہ سبھی نے اپنے اپنے تعلق والوں کو بلانے کا ارادہ ظاہر کیا سو اس حساب سے کھلا انتظام کرنے کے لیے میں نے شادی ہال والوں کو تخمینہ دیا کہ آپ ایک ہزار لوگوں کا انتظام کر دیں تا کہ عین وقت پر کوئی چیز بھی کم نہ پڑے نہ ہی کسی کو پریشانی ہو۔ خالہ نجمہ اور ان کے دونوں بیٹے بھی کھل کر اس شادی پر خرچہ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ سحر کے والد نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا لیکن افسوس کا بھی کہ وہ اس شادی میں شامل نہ ہو سکیں گے ۔
                    لیکن انہوں نے کہا کہ کسی قسم کی کنجوسی نہیں کرنی بلکہ شادی ایسی ہو کہ دنیا مدتوں یاد رکھے۔
                    تیاریاں جاری تھیں کہ ایک دن عارفین کا میسج آیا کہ میرے پیارے بھیا! میرے لیے عروسی جوڑے اور زیور کا بندوبست بھی کیا ہے یا نہیں؟۔
                    تو میں نے اسے کہا کہ نگوآنٹی کے ساتھ مل کر ان کے لیے اور تم تینوں بہنوں کے لیے ہم ایک جیسے عروسی جوڑے اور زیورات کا ہم انتظام کر چکے ہیں جس پر عارفین خوش ہوکر کہنے لگی کہ اس کا مطب ہے کہ دولہا ایک ہو گا اور دلہنیں چار؟
                    میں نے کہا کہ ہاں میرے یار!!! لیکن اصل دلہن تو تم ہو گی نا میری سب سے چھوٹی اور چھوٹی سی چیز والی سالی جی!
                    شادی کا دن
                    شادی کا دن جیسےجیسے قریب آ رہا تھا سب کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ سبھی بہت خوش تھے۔ چار دسمبر میں چار دن رہ گئے تھے۔ تیاریاں آخری مراحل میں تھیں عروسی کمرے کی زیبائش مکمل ہو چکی تھی اور وہ کسی خوب ناک محل سے کم نہ دکھتا تھا۔ ہیٹر سسٹم بھی لگا دیا گیا تھا ۔
                    مسہری بھی بہت خوب صورت لگائی جا رہی تھی۔ گھر میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی اور دور دراز سے آنے والے رشتہ دار بھی آنا شروع ہو چکے تھے۔
                    شام کے بعد چائے کافی کا دور اور ڈھولک کی تھاپ پر رقص بھی شروع ہو چکا تھا۔ محلہ کی لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت اور جوان آ جاتی تھیں۔ ہمارا گھر محلہ میں بہت اچھا سمجھا جاتا تھا جس میں نہ کبھی کسی کی لڑائی نہ تو تکار نہ کسی قسم کا کوئی شورشرابہ ہوتا تھا ۔
                    بلکہ محلہ میں ہمارا گھر آئیڈیل سمجھا جاتا تھا کہ اس گھر سے کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
                    بلکہ یہ لوگ بہت دھیمے مزاج کے ہیں اسی لیے سبھی ہم پر بہت اعتماد کرتے تھے ہماری طرف سے بھی کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی تھی۔
                    کیونکہ ہم تو اپنے گھر کی چاردیواری میں ہی ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے والی فیملی تھی اس لیے باہر کے لوگوں پر ہماری نظر ہی نہیں ہوتی تھی اس اعتبار سے ہمارا گھر اچھا اور سلجھا ہوا پڑھا لکھا گنا جاتا تھا۔ بہرحال محلہ بھر کی خواتین آتیں اور ان کی بہت عزت کی جاتی ۔
                    احترام کے ساتھ انہیں چائے پانی پیش کیا جاتا اور گھر کے مرد حضرات کو اس طرف جانے کی اجازت نہ تھی تاکہ ہمارا بھرم قائم رہ سکے۔ خواتین پوری آزادی کے ساتھ ڈھولک بجا رہی تھیں اور لڑکیاں ناچ گانا کر رہی تھیں۔
                    مہندی کی رات جب میں بیٹھا تھا تو محلہ کی کچھ لڑکیاں مجھے بہت اچھی لگیں اور وہ بھی مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں میں نے بھی انہیں تاڑتا دیکھ کر مسکرایا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سے باتیں بھی ہوئیں اور میں ان کی نظر اچھی طرح پہچانتا تھا کہ وہ سیکس کی بھوکی تھیں اور مجھ پر ڈورے ڈال رہی تھیں۔
                    خیر میں نے کہا کہ بعد میں دیکھی جائے گی۔ ان میں سے ایک لڑکی ذرا زیادہ ہی بولڈ تھی وہ مجھے مہندی لگانے آگے آئی اور بالکل میری کان میں پھسپھسائی کہ میں نے آپ کی جیب میں اپنا فون نمبر ڈال دیا ہے مجھے کال ضرور کیجیے گا۔ اور مہندی لگا کر چلتی بنی۔ میں بھونچکا رہ گیا۔
                    رات گئے تک مہندی کا ہنگامہ چلتا رہا اس کے بعد جب سب چلے گئے اور میں بھی سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا اور کپڑے بدلے تو مجھے یاد آیا کہ اس لڑکی نے مجھے کان میں کہا تھا کہ اس نے اپنا فون نمبر میری جیب میں ڈالا ہے تو جھٹ میں نے فون نمبر والی پرچی نکالی اور اسے کھول کر دیکھا۔
                    تو اس میں واقعی ایک نمبر اور نیچے مریم لکھا ہوا تھا میں نے فورًا اس نمبر پر کال کی اور آدھی بیل پر ہی اس نے فون اٹھا لیا اور بڑی مدہوش کر دینے والی آواز میں کہنے لگی ہیلوووو! ۔
                    میں نے بڑے احترام سے بہت نرم لہجے میں کہا کہ ظہیر بول رہا ہوں۔ ادھر سے مریم بولی: جانتی ہوں۔ میں نے لہجے میں مزید نرمی پیدا کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا حرکت کی کہ میری جیب میں اپنا نمبر ڈال دیا کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ اس کا مقصد کیا ہے؟
                    مریم بھی نہایت شستہ اور مؤدب لہجہ میں بولی: ۔ کہ مجھے آپ بہت پیارے اور اچھے لگتے ہیں اور میں بہت عرصے سے آپ کو دیکھ رہی ہوں کہ آپ نے کبھی ادھر ادھر نہیں دیکھا اور اپنے دھیان پر چلتے رہتے ہیں آج تو میری حد ہی ہو گئی تھی کہ آپ سے ضرور بات کروں گی۔
                    اس لیے آپ کی جیب میں نمبر ڈال دیا۔ آج آپ بہت پیارے لگ رہے ہیں ۔میں نے کہا کہ مریم صاحبہ شکریہ آپ کا ،بہت خوشی ہوئی جان کر کہ آپ بھی ہمارے ہمسائے میں رہتی ہیں۔
                    مریم بولی: حیرت والی با ت ہے کہ آپ کا گھرانہ سب ہمسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور آپ لوگوں کی نہ آپس میں کبھی کوئی کھٹ پٹ سنی ،نہ ہمسائیوں کے ساتھ۔ میں نے کہا: کہ مریم جی ہم ہر ایک کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور کسی کو تکلیف اور تنگی دے کر راضی نہیں ہوتے اس لیے بھی اور اس لیے بھی کہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
                    اس لیے بھی ہم سب کو اچھے لگتے ہیں۔ مریم سے باتیں ہوتی رہیں اور اس نے کھل کر مجھ سے اپنی محبت کا بھی اظہار کر دیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب تو میری شادی ہو رہی ہے محترمہ!۔
                    تو مریم کہنے لگی کہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس سے محبت ہو اس کے ساتھ شادی بھی ہو اس لیے مجھے آپ کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں نہ ہی آپ کو پریشان کرنا میرا مقصد ہے بلکہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو کبھی کبھی مجھے بھی کال کر لیا کریں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اور پھر گڈ نائٹ کہہ کر فون بند کر دیا۔
                    اگلے دن بارات تھی اس لیے میں نے سونے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا۔ بیڈ پر لیٹتے ہی مریم کا خیال آیا کہ یہ تو قسمت پڑی نکل آئی۔
                    ادھر مجھے اپنی چار دلہنوں کا خیال آ گیا کہ کل اس وقت اس بیڈ پر میری چاروں دلہنیں میرے ساتھ ہوں گی اور سب سے چھوٹی دلہن کی سیل بڑی تینوں دلہنوں کی موجودگی میں توڑوں گا تو مزہ آ جائے گا۔انہی خیالات کی یلغار میں نیند نے بھی یلغار کر دی اور میری آنکھ لگ گئی۔۔
                    ۔(جاری ہے)۔۔
                    Vist My Thread View My Posts
                    you will never a disappointed

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X