Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

حسرت نا تمام

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    نیواپڈیٹ۔
    سیزن 2۔لاسٹ اپڈیٹ۔
    اگلے دن بارات تھی جب میں صبح جاگا تو میں نے دیکھا کہ سعدیہ بھابھی میرے لیے ناشتہ تیار کر کے بیٹھی ہوئی ہیں۔ میں نے ناشتہ کیا اور دیکھا کہ سبھی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں کوئی میک اپ کر رہا ہے کوئی کپڑے پہن چکا ہے اور کوئی ناشتہ کر رہا ہے۔ سعدیہ بھابھی نے میرے لیے میرا پسندیدہ ناشتہ بنایا تھا کھجور کا ملک شیک اور ساتھ دو انڈوں کا سبز مرچوں والا چیز آملیٹ۔
    میں نے آدھا پراٹھا کھایا اور آملیٹ سارا کھا لیا اور ملک شیک پی کر چائے کا مگ پکڑ لیا اور ایک ایک گھونٹ چائے پینے لگا۔ سعدیہ بھابھی نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا کہ جناب آج چار چار دلہنوں کے دولہے راجہ بنیں گے۔
    ہمارے بھائی صاحب!۔
    میں نے کہا کہ بھابھی باقی رشتہ داروں کے سامنے تو نہ ایسی بات کہیں! کہیں ہمارا بھانڈا ہی نہ پھوٹ جائے تو بھابھی نے کہا کہ نہیں میرے بھائی ایسا نہیں ہو گا۔
    اتنے میں عارفہ بھابھی آ گئیں وہ بھی اپنے بچوں کو ناشتہ دے رہی تھیں اور تیار ہو رہی تھیں انہوں نے بھی مجھے مسکرا کر دیکھا اور مبارک باد دی۔
    میں نے کہا کہ خالہ امی نظر نہیں آ رہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ وہ دلہن کا جوڑا اور زیور لے کر میرے سسرال گئی ہیں۔
    خیر تین گھنٹے بعد شام کو بارات تھی میں بھی تیار ہونے کے لیے اپنے روم میں چلا گیا اور نہانے کے لیے باتھ ٹب میں گھس گیا میں پانی نیم گرم کر کے کچھ فوم سوپ اس میں ڈالا ۔
    آرام سے گردن تک خود کو پانی میں ڈال کر آرام سے بے سدھ لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا۔ خالہ نجمہ نے مجھے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، کس طرح سعدیہ بھابھی کو پریگننٹ کروایا، پھر عارفہ بھابھی کو پریگننٹ کروایا، پھر میرا رشتہ اور نگو آنٹی کے ساتھ سہاگ رات منائی گئی، جگنی آنٹی کو کیسے منایا اور پریگننٹ کیا، پھر عافی کو چودنا اور پھر عارفین کے ساتھ اوورل سیکس، یہ سب خیالات باری باری میرے دماغ میں ایک فلم کی طرح چل رہے تھے اور میں مزے میں ڈوبا ہونے کے باوجود أج کوچھ بے چین سا تھا۔
    ایک عجیب سی بےسکونی تھی ذہن کے دریچون سے عجیب سے منظر باہر چھلک رہے تھے۔
    کٹھی میٹھی اور کوچھ چھپی چھپی نمکین سہانی یادین بیقرار کر رہی تھین۔أج تقریبا تین سال بعد مجھے تجسس اور خود کو جاننے کی جستجو ہونے لگئ۔
    پھر مین سوچھنے لگاکہ شایدآج سحر اور اس کی والدہ اور دونوں چھوٹی بہنوں کے ساتھ میری انوکھی سہاگ رات ہونےلگی ھے۔ اور انکی ماں اور دونوں بڑی بیٹیوں کے سامنے سب سے چھوٹی سالی کی سیل توڑی جائے گی اور اس لمحے کو بھرپور طریقے پرسے ایک بار منایا جائے پھر خود کو بھی ڈھونڈ نکالون گا۔
    یہ سب سوچتے سوچتے میں اس قدر کھو گیا کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ مجھے باتھ ٹب میں گھسےدو گھنٹے ہوچکے تھے ۔ باہر سے خالہ نجمہ آئیں ۔
    مجھے آواز دی کہ ظہیرسبھی تیار ہیں اور تمہارا انتظار کر رہے ہیں، خالہ آواز دیتے دیتے اندر آ گئیں اور مجھے کمرے میں نہ پا کر سیدھی باتھ روم میں گھس آئیں میں اتنی دیر میں ٹب میں کھڑا ہو چکا تھا۔
    میں ننگا ہی تھا کہ خالہ نے مجھے دیکھ کر کہا کہ ابھی تک نہا رہے ہو؟
    میں نے کہا کہ خالہ مجھے پورےدو گھنٹے ہو گے ھین یہان؟۔
    أج کوچھ عجیب و غریب خیالات اور اندیشے ستا رہے ھین مجھے۔
    أپ لوگون کے پاس رہتے ہویے تین سال گزر چکے ھین وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔
    خیر میں یہہ کہتا ھوا ٹب سے نکلا،۔
    پانی خشک کیااور ٹاول والا گاؤن پہن کر جب خالہ کے قریب سے گزرنے لگا ۔
    خالہ نے یکدم مجھے پکڑ کر سینے سے لگا لیا اور میرا ماتھا چوم کر کہنے لگیں کہ آج میرا شیر جوان شادی کے بندھن میں بندھ جائے گا۔
    کیسا ہے میرا شیر جوان؟۔
    میں نے محسوس کیا کہ گاؤن کے اندر انہوں نے ہاتھ سرکا کر میرے لوڑے پر اپنی گرفت پکی کر لی ہوئی ہے اور اسی کا حال پوچھ رہی ہیں۔
    میں نے جواب دیا کہ جی خالہ جان یہہ بالکل ٹھیک ہےاور آج تو اس کی کشتی ہے چار چار دلہنوں سے!! ۔
    خالہ ہنس کر بولیں کہ کہیں اپنی خالہ کو نہ بھول جانا۔
    میں نے کہا کہ بھول کیوں جاؤں گا؟ ۔
    آپ کی مہربانیوں اور احسانوں نے تو مجھے ہر طرح سے جکڑا ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو ابھی آپ کا شکریہ ادا کر دوں۔
    لیکن خالہ نے نیچے جھک کر میرے لوڑے کو منہ میں لیتے ہوئے کہا کہ نہیں آج نہیں بلکہ آج سہاگ رات منا لو کل میرے ساتھ رات منانا۔
    میں نے کہا کہ ٹھیک ہے
    خالہ تھوڑی دیر میرے لن کا چوپا لگا کر باہر جانے لگیں۔ تو مین نے لپک کر پھر انہین پکڑ لیا۔ خالہ جانی مین نے اپ سے کوچھ پوچھا ھے۔
    بتائے نا مین کون ہون؟۔
    ۔​​​نجمہ خالہ۔ظہیر بیٹا ہمین بلکل نہین پتا تم کون ھو۔اور پھر أچانک کسی سوچ مین ڈوب گیئن۔پھر کوچھ دیر سوچ مین ڈوبے رہنے کیبعد دوبارہ بولنے لگ پڑین۔
    ظہیر اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ کبھی بھی ہمین چھوڑ کر نہین جاؤ گے تو مین کوچھ تم کو بتاؤ ن۔
    ظہیر نے جلدی سے نجمہ کو پکر کر سینے سے لگاتے ہوئے۔میری خالہ جان تم نے مجھے اتنا پیار لزت اور مزاء دیا ہے مین چاہ کر بھی أپ لوگون کو چھوڑ نہین سکتا۔
    نجمہ تو پھر ٹھیک ھے میرے پاس تمھارا کوچھ سامان اور ایک بریف کیس پڑا ہے جس سے لازمی تم کو پتہ چل جایے گا کہ تم کون ہو۔
    ۔اور پھر نجمہ نے باہر جاتے ہویےمجھے کہا کہ تم بھی جلدی آ جاؤ اب۔ بارات کا وقت ہو گیا ہے مزید لیٹ نہیں کرنا۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور شیروانی پہنی، کھسہ پہنا اور کنگھی کر کے باہر نکلا میں نے خود کو ہمیشہ کی طرح سادہ ہی رکھا تھا۔ جیسے ہی میں مین ہال میں آیا ۔
    سبھی مجھے دیکھنے لگ گئے اور ان میں مریم بھی تھی۔ مریم تو ایک پری زاد لگ رہی تھی۔
    بہت ہی خوب صورت اور بالکل سادہ۔ مجھے دیکھتے ہیں اس نے مجھے آنکھوں آنکھوں میں سلام کیا .
    جس کا جواب میں نے بھی مسکرا کر آنکھوں آنکھوں میں دیا اور پھر میری نظر بھٹکتی ہوئی مریم کیساتھ تقریبأ اٹھارہ سالہ ایک چاند سے چہرے پر جا گری۔ جوبہت ہی حیرانگی اور روتی برستی أنکھون سے مجھےٹکٹی باندھے دیکھے جا رہی تھی۔
    مین ابھی کوچھ سو چ ھی رہا تھا کہسبھی میرے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ سبھی میری سادگی پر بہت حیران تھے کہ میں نے سفید سادہ سی سفیدپاجامہ قمیص پر کالی شیروانی پہن رکھی تھی اور نیچے سادہ سا کالے رنگ کا کھسہ پہنا ہوا تھا۔
    بارات کے لیے کاریں تیار تھیں میں نے اپنی کار کے بونٹ پر گلاب کا صرف ایک بڑا سا گلدستہ رکھوایا تھا اور میں نے یہ بھی سب کو بتا دیا تھا کہ کار میں خود ہی چلا کر لے جاؤں گا ۔
    خود ہی واپس لاؤں گا اور میری کار میں خالہ نجمہ، سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی ہی بیٹھیں گی اور واپسی پر بھی یہی خواتین ہوں گی۔
    جبکہ دلہن اور اس کی والدہ اور بہنوں کے لیے ایک لیموزین لی گئی تھی کہ وہ اس میں بیٹھ کر الگ آئیں گی۔سب حیران تھے کہ یہ کیسا فیصلہ ہے۔
    لیکن میں نے کہا کہ ہم اسی سادگی اور اسی طریقہ پر یہ سب کریں گے کیونکہ میں یہ نہیں کر سکتا کہ اپنی خالہ اور بھابھیوں کو لے کر تو اپنی کار میں جاؤں لیکن وہ واپسی پر کسی اور سواری میں بیٹھ کر آئیں۔
    میرے سسر اپنے کیس کی وجہ سے یوکے سے نہیں آ سکے تھے لیکن انہیں سارا فنکشن وقتا فوقتاً دکھایا جا رہا تھا۔
    وہ بھی بہت خوش تھے اور میری ان کے ساتھ بات بھی ہوئی تھی اور میری تعریفیں سن سن کر وہ بھی بہت خوش تھے۔ انہیں یقین تھا کہ میں ان کی بیٹی کو بہت خوش رکھوں گا۔
    اب انہیں کیا پتہ کہ میں نے ان کی بیوی اور تینوں بیٹیوں اور ایک سالی کو بھی پہلے سے ہی بہت خوش رکھا ہوا ہے۔
    خیر بارات نکلی تو سارا محلہ انگشت بدنداں تھا اور سبھی بارات میں شامل تھے۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہی ہم سب شادی ہال پہنچ گئے، جہاں زاہد خالو اور دیگر عزیز ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے انہوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا ۔
    ہم لوگ اندر بٹھائے گئے اور پھر نکاح ہوا نکاح کے بعد کھانا اور پھر تصویریں اور رخصتی ہو گئی۔
    ہمارے محلہ دار سب حیران تھے کہ دلہن اور اس کی والدہ ، خالہ، خالواور بہنوں کے لیے ایک الگ لیموزین سجائی گئی تھی اور وہ سب فیملی اس لیموزین میں بیٹھ گئی اور پھربارات واپس رخصت ہوئی۔
    ۔ دلہن کو مین ہال میں لگی سٹیج پر بٹھایا گیا جہاں سب محلہ دار خواتین دیکھنے آئی تھیں۔ سب نے کہا کہ دلہا بھی ساتھ بیٹھے لیکن میں نے کہا کہ بعض خواتین چونکہ پردہ کرتی ہیں اس لیے کوئی بھی مرد ادھر نہیں جائے گا مردوں کے بیٹھنے کا الگ انتظام دوسرے چھوٹے ہال میں تھا۔
    چنانچہ سبھی ادھر چلے گئے تاکہ خواتین آرام کے ساتھ دلہن کو دیکھ سکیں۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا اور اب سب محلہ دار خواتین اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں اور مہمانوں کو ان کے ٹھہرنے والے ہوٹلز میں پہنچا دیا گیا۔ اب گھر پر صرف گھر کے افراد باقی رہ گئے تھے۔
    اس لیے سبھی کا دل تھا کہ جلداپنے اپنے کمرے میں جائیں اور مجھے بھی میری سہاگ رات کے لیے تنہائی میسر ہو۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سبھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
    زاہد خالو جگنی آنٹی کو لے کر اپنے گھر چلے گئے ۔ اب نگوآنٹی، عافی اور عارفین نے سحر کو اٹھایا اور پکڑ کر میرے کمرے تک لے آئیں اور ادھر مجھے بھی خالہ نجمہ، سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی نے اٹھا اور میرے کمرے تک آ گئیں۔
    اب سعدیہ بھابھی نے سب سے پہلے مجھے سینے سے لگا کر مبار ک باد تھی اور میرا ماتھا چوما، عارفہ بھابھی نے بھی پیار کیا اور مبارک باد دی اور سب سے آخر پر نجمہ خالہ نے سینے سے لگایا۔
    اور پھر ایک خوبصورت سا نمبرون والااٹیچی کیس ٹائپ بریف کیس مجھ کو دے کر نہجانے کیون رونے لگیں ۔
    اور پھر گھر کی تینوں خواتین اپنے اپنے روم میں چلی گئیں اور مجھے میرے روم میں جانے کا کہا۔ میں نے جیسے ہی اپنے روم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ چار دلہنیں گھونگھٹ نکالے ایک ہی بیڈ پر بیٹھی اپنے دلہا کا انتظار کر رہی تھیں۔ میں دھڑکتے ہوئے دل اور پھڑکتے ہوئے لوڑے کے ساتھ بیڈ کی طرف بڑھنے لگا
    جہاں چار دل میرے لیے دھڑک رہے تھے اور چار پھدیاں میرے لوڑے کے یے پھڑک رہی تھیں۔
    میں نے سب سے پہلے نگو آنٹی کا گھونگھٹ اٹھایا اور انہیں منہ دکھائی میں ایک انگوٹھی پہنا دی۔
    انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہنے لگیں کہ ظہیر! آج سے میری پیاری بیٹی سحر تمہارے حوالے۔
    امید ہے کہ تم اسے ہر طرح خوش رکھو گے۔میں نے کہا کہ جی آنٹی میں سحر کو کیا آپ سب کو بھی ہر طرح سے خوش رکھوں گا۔
    اس کے بعد میں نے سحر کا گھونگھٹ اٹھایا اور اپنی پریگننٹ بیوی کا ماتھا چوما اور اس کو بھی ایک انگوٹھی منہ دکھائی میں پہنائی۔ سحر مجھ سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔
    میں نے جواباً کہا کہ سحر میں بھی تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتا ہوں۔ پھر میں نے اپنی بڑی سالی عافی کا گھونگھٹ اٹھایااور اسے ہونٹوں پر پیار کیا اور اس کی مدہوش ۔
    کردینے والی خوش بو دار سانسیں اپنی سانسوں میں اتارنے لگا اور نیچے سے اسے بھی ایک انگوٹھی منہ دکھائی میں پہنا دی۔ کافی دیر تک اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں اتارنے کے بعد میں نے اسے کہا کہ عافی! I love you۔
    عافی گرم ہو گئی تھی۔
    ساتھ ہی میں نے اس کے کان کی لو پر اپنی زبان پھیری۔ وہ مجھ سے چمٹ گئی اور کہنے لگی کہ میں کبھی آپ سے دور نہیں جاؤں گی میں نے کہا کہ جانے کون دے گا؟
    اس کے بعد میں اپنی چھوٹی سالی کی طرف بڑھا اور اس کا گھونگھٹ اٹھایا اور اس کے گلے میں سچے موتیوں سے جڑا ہوا ایک سونے کا گلوبند پہنا دیا اور ایک انگوٹھی پہنا دی۔
    میں نے سب سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی کو اعتراض تو نہیں کہ میں نے عارفین کو منہ دکھائی میں گلوبند زیادہ کیوں پہنایا ہے؟ تو سب کہنے لگیں کہ ہمیں کیوں اعتراض ہونے لگا؟ ۔
    اس کا حق بھی بنتا ہے کیونکہ اصل میں تو یہ اس کی ہی سہاگ رات ہے ہماری سیلیں تو کب کی ٹوٹ چکی ہیں اور ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کرنا بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔
    میں اس بات پر خوش ہو گیا اور عارفین تو میرے اندر گھستی جا رہی تھی میں نے اس کے منہ میں منہ ڈال دیا۔
    ادھر سحر اور عافی اور نگو آنٹی بھی میرے قریب آ گئیں اور ہم چاروں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور پیار کرنے لگے۔ پھر نگو آنٹی نے کہا کہ لڑکیو!۔
    یہ بھاری بھرکم لباس اتار دو۔ میں نے بڑی لائیٹ بجھا دیں اور کمرے میں سبز روشنی والا بلب جلا دیا تا کہ ہلکی ہلکی خواب ناک روشنی رہے ۔
    جس کے بعد چاروں خواتین نے اپنے بھاری لباس اتارنے شروع کیے اور میں سامنے جا کر صوفے پر بیٹھ کر دودھ پینے لگا جو بادام وغیرہ ڈال کر میرے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ادھر میرے سامنے چار خواتین اپنے کپڑے اتار رہی تھیں۔
    جب سب نے اپنے اپنے کپڑے اتار دئیے تو سب سے پہلے نگو آنٹی میرے پاس آئیں اور میرے کپڑے بھی اتار دیئے وہ ساتھ ساتھ مجھے چومتی جاتی تھیں ۔
    میرا لوڑا تو پہلے سے ہی تنا ہوا تھا نگو آنٹی کی دیکھا دیکھی میری پیاری بیوی سحر بھی میرے پاس آ گئی اور میرے تنے ہوئے لوڑے کو اپنے مہندی لگے ہاتھوں سے پکڑا اور پیار سے مسلنے لگی۔
    اس کے ہاتھ میں میرا موٹا اور لمبا لوڑا بہت مست لگ رہا تھا، عافی آ کر میرے دوسرے طرف بیٹھ گئی اور میرے ٹٹے اپنے منہ میں لے کر ان سے کھیلنے لگی وہ کبھی ہاتھوں میں لیتے اور کبھی چوسنے لگتی۔
    عارفین
    عارفین سے میں نے کہا کہ وہ بیڈ پر ہی بیٹھی رہے اور نگو آنٹی سے کہا کہ آپ جا کر عارفین کو تیار کریں جس کی آج سہاگ رات ہے اور بیڈٹیبل سے ایک سفید کپڑا نکال لیں جس پر آج میری پیاری سالی عارفین کی سیل ٹوٹنی تھی۔
    میں چاہتا تھا کہ اس کے خون سے رنگا ہوا کپڑا صبح سب کو دکھایا جائے۔ چنانچہ نگو آنٹی نے ایسا ہی کیا۔
    اب نگو آنٹی عارفین کے ساتھ کسنگ کر رہی تھیں اور پھر 69 کی پوزیشن پر جا کر وہ ماں بیٹی ایک دوسرے کی چوت چاٹ رہی تھیں اور کمرے میں گونجنے والی ان کی ہلکی ہلکی سسکیاں اور سیکسی آوازیں ماحول کو گرما رہی تھیں۔
    خیر ادھر عافی نے میرے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھااور سحر میرا موٹا لمبا لوڑا چوس رہی تھی۔
    کبھی ٹٹے منہ میں ڈال لیتی عافی تو میری کسنگ ایکسپرٹ بن گئی تھی اس کے ساتھ کسنگ کرنے کا بہت مزہ آتا تھا اب عافی سے میں نے کہا کہ اپنی چوت میرے منہ پر فکس کرو ۔
    اس نے اپنی چوت میرے منہ پر فکس کر دی۔ اس کی چوت سے آنے والی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے پاگل کر دیا اور میں دیوانوں کی طرح اس کی چوت چاٹنے لگا۔ وہ بھی سسکیاں لینے لگی۔
    سحر نے یہ دیکھا تو اس نے میرے لوڑے پر اپنے منہ کی گرفت مزید بڑھا دی۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا چنانچہ میں نے کہا کہ ٹھہرو اور پھر میں اپنی بیوی اور سالی کو لے کر بیڈکی طرف بڑھا جہاں نگوآنٹی اور عارفین مست ہوئی پڑی تھیں میں نے نگو آنٹی کا منہ عارفین کی چھوٹی سی پھدیا سے ہٹایا اور اس پر ایک کس دی۔
    چاروں خواتین نے میری خواہش کے مطابق چوتوں پر بالوں کی صفائی نہیں کی تھی اور سب سے بڑی جھانٹیں عارفین کی دکھائی دے رہی تھیں۔
    جس کی آج سیل ٹوٹنے والی تھی۔مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی تھی۔ میں نے ایک کس عارفین کی بالوں بھری چوت پر کی اور پھر اپنا لوڑا نگو آنٹی کے منہ میں ڈال کر خود عارفین کو کس کرنے لگا۔
    عارفین نے سسکتے ہوئے کہا کہ بھیا میں تو ماما کے منہ میں اب تک کوئی دس بار ڈسچارج ہو چکی ہوں۔
    اب جلدی سے میری سہاگ رات منا ڈالیے۔
    میں نے کہا کہ میری پیاری چھوٹی سی پھدیا والی سالی ۔
    ​​​​​​میری پیاری چھوٹی سی پھدیا والی سالی! ۔
    فکر نہ کرو ابھی تمہارا افتتاح کرنے لگا ہوں۔
    یہ کہہ کر میں نے اپنا لوڑا جب اس کی پھدیا پر سیٹ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرا لوڑا اس کی پھدیا سے کہیں موٹا تھا اور اس کی چکنی ہوئی ہوئی پھدیا کے دانے پر جب میں نے اپنا لوڑا رگڑنا شروع کیا تو عارفین کی پھدیا نے بے تحاشہ پانی چھوڑنا شروع کیا جس سے میرے لوڑے سے بھی پانی نکلنے لگا تھا۔
    تو میں نے اس کی موری پر اپنے لوڑے کا ٹوپا سیٹ کیا لیکن یہ کیا میرے لوڑے کا ٹوپا اس کی چوت کی موری سے بہت بڑا تھا یہ دیکھ کر نگوآنٹی کی تو جیسے جان ہی نکل گئی ہو وہ عارفین کو مخاطب کر کے بولیں کہ عارفین! میری پیاری بیٹی آج تیری بہت زیادہ پھٹنے والی ہے۔
    میں نے سحر سے کہا کہ میرے دراز میں سے ہومیوپیتھک دوا سٹیفی ساگریا نکال کر لے آؤ۔
    چنانچہ میں نے وہ دوا اپنے پاس رکھ لی۔ اور عارفین کی پھدیا پر اپنے لوڑے کا دباؤ بڑھا دیا جس سے میرے لوڑے کا ٹوپا تھوڑا سا اندر چلا گیا۔
    جیسے ہی میرے لوڑے کے ٹوپے کی آنکھ عارفین کی پھدی کو چیر کر اندرداخل ہوئی تو مزے سےمیرا برا حال ہو گیا۔ ابھی تک کسی کی چوت نے بھی ۔
    اِس حد تک میرے لوڑے کو گرفتار نہیں کیا تھا جس قدر عارفین کی تنگ چوت نے کر لیا۔
    میں تو مزے کے سیلاب میں بہہ رہا تھا۔ عارفین کی چوت گیلی ہو کر بہت چکنی ہو چکی تھی اس کے باوجودمیرا لوڑا اس میں گھس نہیں رہا تھا اور میں چاہتا تھا کہ میری پیاری سالی کو تکلیف بھی کم سے کم ہو اس لیے میں نے لوڑے کے ٹوپے کی آنکھ اندر کر کے تھوڑا توقف کیا،
    ادھر نگو آنٹی، سحر اور عافی نے عارفین کو پیار کرنے کی انتہا کر دی وہ اسے مختلف جگہوں سے کس کر رہی تھیں جس کی وجہ سے اس کا دھیان بٹا ہوا تھا اور اسی سے مجھے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔
    سو میں نے سحر اور عافی دونوں سے کہا کہ میرے لوڑے پر اپنا تھوک لگائیں ڈھیر سارا تو انہوں نے میرے لوڑے پر تھوک لگایا اور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عارفین کی پھدی سے اپنا لن نکالا اور ٹوپی کو ایک بار سحر کے منہ میں ڈال کر۔
    دوبارہ عارفین کی چوت پر سیٹ کیا اور دباؤ بڑھا دیا اب میرے لن کا موٹا سا ٹوپا عارفین کی پھدیا میں چلا گیا۔
    عارفین نے ایک سسکی لی میں نے تھوڑا اور آگے کیا اور لوڑا اس کے پردۂ بکارت یعنی سیل کو جا کر ٹچ ہوا۔
    میں نے عارفین کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور پھر سب سے کہا کہ یہ نظارہ کرنے کے لیے اس دن کا انتظار کر رہے تھے اب نگو آنٹی سے کہا کہ بڑی لائیٹس آن کر کے وہ میرے موبائل سے اس منظر کی ویڈیو بنائیں ۔
    سحر سے کہا کہ تم اپنے موبائل میں تصویریں بناؤ تا کہ اس منظر کو میں بھی بعد میں دیکھ سکوں۔
    سو جب یہ انتظامات ہو گئے تو میں نے کہاکہ تیار ہو جائیں کیونکہ اب سیل ٹوٹنے لگی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے عارفین کے پردۂ بکارت پر دباؤ بڑھا دیا ۔
    عارفین درد کے مارے آہیں بھر رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے عافی نے خود بخود اپنے موبائل سے میرے اور عارفین کے چہرے اور اوپر والے جسموں کی ویڈیو بنانی شروع کر دی۔ میں نے ایک منٹ کے بعد بڑے ہی آرام سے عارفین کی چوت میں لوڑا نان سٹاپ گھسانا شروع کیا ۔
    جو اُس کی سیل توڑتا ہوا اس کی یوٹرس تک اتر گیا،۔
    عارفین ماہئ بے آب کی طرح تڑپی لیکن اسے میں نے مزید ہلنے نہیں دیا ساتھ ہی وہ ڈسچارج ہو چکی تھی اس کی چوت بہت زیادہ گیلی ہونے کی وجہ سے اسے درد زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
    یہ لمحہ بہت ہی خواب ناک تھا اور اس کو تین کیمرے ریکارڈ کر رہے تھے۔ آج میری سہاگ رات منائی جا رہی تھی جو دراصل میری اور میری سالی عارفین کی سہاگ رات تھی۔
    میں نے کچھ دیرلوڑا اس کی چوت میں رکھا اور پھر آہستہ آہستہ اسے ہلانا شروع کیا اور پھر رفتار بڑھانے لگا۔ میرا خون میں لتھڑا ہوا لوڑا اندر باہر ہو رہا تھا اور اس کی ویڈیو میری ساس بنا رہی تھی ۔
    میری بیوی ہر زاویے سے تصاویر بنا رہی تھی۔ جب مجھے تسلی ہو گئی کہ عارفین کی چوت میں خون خرابہ مکمل ہو چکا ہے تو میں نے لوڑا اس کی چوت سے نکالا اور عافی کو پکڑ کر اس کی چوت میں وہ خون آلود لوڑا گھسا دیا اور بڑی تیز رفتاری سے اسے چودنے لگا۔ عارفین کو کہا کہ وہ تکیے کے نیچے پڑی دوا کے تین قطرے ایک گھونٹ پانی میں ملا کر پی لے۔
    چنانچہ اس نے وہ کام کیا اور آرام سے ایک طرف لیٹ گئی۔ اس کی اس حالت کی تصاویر اور ویڈیو بھی نگو آنٹی اور سحر مسلسل بنا رہیں تھیں ۔
    میں عافی کو مسلسل چود رہا تھا۔ کوئی سات منٹ کی دھؤاں دار چدائی کے بعد میں نے عافی کو چھوڑا اور نگوآنٹی کو لٹا کر انہیں چودنا شروع کیا آنٹی کو چودنے میں بھی مزہ آرہا تھا آنٹی کو تقریباً پندرہ
    پندرہ منٹ چودنے کے بعد میں نے عارفین کو دوبارہ پکڑ لیا اور اس بار اس کی اندھا دھند چدائی شروع کر دی دس منٹ تک اسے چودنے کے بعد مجھے لگنے لگا کہ اب میں ڈسچارج ہو جاؤں گا ۔
    اس لیے میں نے اپنا لوڑا اس کی چوت سے نکال لیااور اب میری پیاری بیوی سحر کی باری تھی اسے میں نے بڑے آرام سے سیدھا لیٹنے کو کہا اور آرام سے اس کی گیلی چوت میں لوڑا گھسیڑ دیا۔
    اور ہلکی ہلکی رفتار میں آدھا لوڑا اندر باہر کرنے لگا سحر کی چوت بہت گرم تھی لیکن میں جان بوجھ کر اس کی چوت میں آدھا لوڑا ڈال رہا تھا تا کہ اس کی کوکھ میں پلتے میرے بچے کو کوئی نقصان نہ ہو ۔
    چنانچہ میں نے سحر کو کہا کہ میں تم سے بہہہت محبت رکھتا ہوں کیونکہ جس طرح تم اور تمہاری فیملی نے میرے ساتھ پیار اور اعتماد کا طریق اپنایا ہے ۔
    یہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا اور ہم سب مل کر اس سےبھی بڑھ کر پیار محبت سے رہیں گے۔
    یہ کہتے کہتے میں اپنی بیوی کی پھدی میں اپنا لوڑا اندر باہر کرتا رہا اور اب میری بھی اخیر ہو چکی تھی اس لیے تھوڑی ہی دیر میں میں نے اپنا سارا مال سحر کی بھوکی پھدی میں انڈیل دیا۔
    سبھی تھکے ہوئے تھے اور عارفین تو پہلے ہی سو چکی تھی اور عافی نے مجھے چمٹتے ہوئے کس کیا اور پھر نگو آنٹی اور عافی دونوں دوسرے بیڈ پر چلی گئی اور میں وہیں عارفین اور سحر کے درمیان لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں ہم سب نیند کی وادی میں کھو گئے۔
    اگلے دن ولیمہ تھا اور ہم سب تیار ہو کر شادی ہال پہنچے سبھی بہت خوش تھے۔ ادھر جگنی خالہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی۔
    جس وجہ سے جگنی اور زاہد خالو ہسپتال میں تھے ان کے ڈلیوری کے دن چل رہے تھے ۔ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی میں نے دیکھا تو زاہد خالو کی کال تھی۔
    زاہدخالو پریشان تھے اور کہہ رہے تھے کہ جگنی کہہ رہی ہے کہ ظہیر کو بلائیں کیونکہ اس کے بیٹے کی پیدائش کے وقت اس کا یہاں ہونا بہت ضروری ہے۔
    میں نے کہا کہ ابھی کھانا کھلا کر میں پہنچتاہوں۔
    میں نے نگو آنٹی کو بتایا اور سحر کو بھی بتا دیا۔ مجھے عارفین نظر نہ آئی تو میں نے سحر سے پوچھا کہ جس دلہن کی سہاگ رات تھی کل رات وہ کہاں ہے؟۔
    تو سحر مسکرا کر کہنے لگی کہ جناب وہ تو سوجی ہوئی چوت لے کر لیٹی ہوئی ہے اور اسے تو بخار ہو گیا ہے میں یہ سنتے ہی پریشان ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم نے مجھے صبح کیوں نہ بتایا؟ سحر کہنے لگی کہ عارفین نے ہی منع کیا تھا کہ میری وجہ سے یہ فنکشن خراب نہ کریں اس لیے کسی کو بھی نہیں بتایا ۔
    حتی کہ امی کو بھی نہیں بتایا۔ مجھے اب جگنی اور عارفین دونوں کی پریشانی لگ گئی۔ خیر میں نے کھانا تھوڑا بہت کھایا اور افتخار اور قمر بھائی سے کہا کہ آپ مہمانوں کو سنبھالیں میں ابھی آتا ہوں۔
    ، میں سیدھا گھر پہنچا اور اپنے کمرے میں مسہری پر عارفین کو دیکھا اسے نیم گرم دودھ کے ساتھ دوا دی۔
    بخار اتنا نہیں تھا بس تھکاوٹ اور پہلی چدائی کی وجہ سے کمزوری اور بخار ہو گیا تھا۔ خیر میں نے اسے دوا دی اور تھوڑا پیار بھی کیا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اسے بتایا کہ جگنی خالہ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہونے والی ہے میں اب یہاں سے ہال میں جاؤں گا اور دوستوں سے ملنے کے بعد سیدھا ہسپتال جاؤں گا ۔
    تمہارے لیے کھانا ہال سے آ جائے گا۔ پھر اسے ایک لمبی کس دی اور سیدھاہال میں جا کر سحر کو بتایا کہ عارفین ٹھیک ہے اب۔ اب مجھے جلد ازجلد ہسپتال پہنچنا تھا جہاں میرا پیارا بیٹا جگنی خالہ کے پیٹ سے پیدا ہونے والا تھا۔کھانا کھانے کے بعد لوگ رخصت ہو رہے تھے کہ میں نے سحر کو بتایا کہ یں نگوآنٹی کو لے کر خالہ جگنی کے پاس
    ہسپتال جا رہا ہوں تم اور عافی باقی اہل خانہ کے ساتھ گھر چلی جانا اور کپڑے بدل کر بے شک ہسپتال آ جانا۔
    تا کہ ہم سب مل کر خالہ جگنی کے بیٹے کو ویلکم کر سکیں۔
    سحر کہنے لگی کہ کیوں نہیں آپ جلدی سے جائیں اور اپنے اور خالہ جگنی کے بیٹے کو دیکھیں ہم بھی آتے ہیں۔
    چنانچہ میں نے نجمہ خالہ کو بتایا اور نگوآنٹی کو لے کر سیدھا ہسپتال پہنچ گیا۔ جگنی خالہ کو لیبر روم میں گئے دو گھنٹے ہو چکے تھے اس لیے اب وقت زیادہ دور نہیں تھا۔ چنانچہ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہی ہمیں یہ خوش خبری مل گئی ۔
    جگنی آنٹی نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ زاہد اور ظہیر دونوں اکٹھے اس بچے کو دیکھیں۔ چنانچہ ہم دونوں نگو آنٹی کو لے کر اندر چلے گئے جہاں ہم نے بچے کو دیکھا میں نے بچے کو چوما اور زاہد خالو کو پکڑا کر سیدھا جگنی کے پاس پہنچا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
    جگنی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر میرا شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو ابھی ابتدا ہے ابھی تو بہت سا کام باقی ہے۔
    کم از کم تین بچے تو ہونے چاہئیں۔ جگنی کہنے لگی کہ ہاں ٹھیک ہے۔ میں ابھی وہیں تھا کہ نگوآنٹی عافی کے ساتھ وہاں پہنچ گئیں۔ جگنی خالہ نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ سب فنکشن چھوڑ کر آ گئے۔
    تو نگو آنٹی بولیں کہ سب کہاں آئے ہیں سحر اور عارفین تو آئے ہی نہیں سحر دلہن بنی بیٹھی تھی اور عارفین کی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ آسکتی۔
    جگنی خالہ نے ذومعنی انداز میں مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا کہ کل اس کی سہاگ رات تھی ۔
    بہت خون خرابہ ہو گیا اس لیے اسے تو بخار ہو گیا تھا لیکن اب بہتر ہے۔ جگنی خالہ نے مجھے ایک چپت رسید کرتے ہوئے کہا کہ بہت شرارتی اور ظالم ہے تمہارا شہزادہ جس نے چیر پھاڑ دیا ہو گا۔
    اس بے چاری معصوم کو۔ میں نے کہا کہ یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا عارفین کے ساتھ سو ابھی ہو گیا ۔
    اس کے بعد مبارک بادیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور میں عافی اور نجمہ خالہ کو لے کر ہال میں واپس آ گیا اور پھر ولیمے کے فنکشن سے فارغ ہو کر ہم سب گھر واپس آ گئے جہاں عارفین میری منتظر تھی۔
    ہم سب نے مل کر رات کا کھانا کھایا اور پھر سونے کے لیے اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میرے کمرے میں عارفین اور سحر موجود تھیں جبکہ نگوآنٹی اور عافی اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ آج کی رات بھی عارفین میرے بیڈ پر مزے کرے گی۔ یہ سوچ کر میں بہت خوش ہو رہا تھا۔
    پھر گھر کے ڈوربیل کی اواز گونج اٹھی مین دروازے پر جا کر دیکھا تو مریم اپنے ساتھ بارات والے دن والی خوبصورت ۔اداس اور سوگوار حسینہ کیساتھ کھڑی ھے۔دروازہ کھولتے ھی۔
    وہ حسینہ زور زور سے روتے ہوئے مجھ سے لپیٹ گئی اور وہ رونے کے دوران چیخ چیخ کر کہتی جارہی تھی۔
    ذوہیب بھیا ۔اپ نے ہمارے ساتھ ائیسا کیون کیا؟؟۔
    أپ کیون ہمین چھوڑ کر أتنی دور یہان پر اکر بسے ھو؟؟۔
    اب أپ اخر بولتے کیون نہین ھو۔کہ
    برہ أپی اپکے بچون اور ہم سے ایئسی کیا غلطی ہوئی ھے۔ ۔
    جس کی ہمین اپ اتنی بڑی سزا دے رہے ھو۔؟؟
    ۔(دی اینڈ)۔
    نوٹ
    پیارے دوستو سیزن ٹو کمپلیٹ ہوا ۔
    بہت جلد ملین گے أب سیزن تھری پر؟۔
    یقینأ یہہ شہوت انگیر اور مبالگہ أرائی کی انتہا کو چھوتی ہوئی یہ سرگزشت صرف اور صرف بطور انٹرٹین أپ کےمزے اور لطف کیلئے پوسٹ کی جارہی ھے۔
    حقیقت سے اسکا دور دور تک بھی کوئی تعلق نہین۔
    اسلئے اپنی پسند ناپسند سے ضرور نوازیے گا۔
    پوائنٹ 2۔
    اگر أپ لوگ کہین تو ایک اور انوکھی منفرد۔ رومینٹک بھری لو سٹوری ہلکے پھلکے سیکس کیساتھ شروع کر لی جائے تو کیئسا رہے گا۔
    انتظار رہے گا۔
    بتلائے گا ضرور؟؟؟۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #12
      حسرت نا تمام۔
      نیواپڈیٹ۔
      سیزن3۔ایک نئے ھی انداز۔ سے۔
      بانو۔
      دوستو أج تین سال سے مین نے اپنے گمشدہ ہونے والےبہنوئی ذوہیب کو باأخر ڈھونڈ ہی نکالا ہے۔اور جب تک ان کی یاداشت واپس نہین اتی أن کی رومان أور سرگشت کو اپ تک پہنچانا کی میری کوشش ھو گٔی۔
      ذوہیب میرے اس طرح رونے اور لیپٹنے سےخود کو چھڑا کر مریم سے بولے ۔ذوہیب۔مریم مین نہین جانتا کہ مین کون ہون کوچھ عرصہ پہلے ایک حادثے مین میری یاداشت چلی گئی ہے اور مین خود کو بھی نہین پہچان رہا۔
      شائید یہہ لڑکی صیح کہ رہی ہو کہ مین ان کا بھائی ذوہیب بھی ہو سکتا ہون مگر جئیسا کہ آپ جانتی ھین میری أبھی کل ہی شادی ہوئی ہے۔ اور ان کے اس طرح کرنے سے معاملات کافی بگڑ سکتے ھین۔
      اسلئے مریم تم پلییزز انہین لیکر أپنے گھر جاؤ۔مین أج ھی کوئی وقت نکال کر تم لوگون سے ملنے کے لیے تمھارے گھر آتا ہون
      پھر مریم مجھے حالات کی نزاکت کو سمجھاتے ہوئے اپنے ساتھ وہاں سے واپس گھرلے أئی۔
      گھر أ ۔کروہ اپنے بہنوئی ذوہیب بھائی کا انتظار کرتے کرتے اپنے خیالون کی نگری مین جا گھسی۔۔
      ویئسے مجھے تو أپ جانتے ہی ھین جی ہان میرا نام بانو ہے اور جیئسا کہ أپ پیچھے سٹوری مین پڑھ ہی چکے ھین کہ ھم سات بہنیں اور ھمارا ایک ہی بھائی ہے ۔
      جی دوستو اپ بلکل ٹھیک سمجھے ھین مین أپی فرح اور باجی برہ کی چھوٹی پانچوین نمبر کی سسٹر بانو ہون ۔چلین مزید لطف و مزے کیلیے تھوڑا مزید آپ کو اپنے بارے بتاتی چلون۔
      میری والدہ ذوہیب بھائی کے اچانک لاپتہ ہونے کےبعدمالی مشکلات کی ریزن سے اب دوبارہ کالج میں لیکچرر کی ڈیوٹی پر ہیں۔وہ جسمانی اعتبار سے کافی خوبصورت جوان اور ہماری أمی تو بلکل بھی نہین بلکہ دیکھنے مین بڑی بہن ہی لگتی ھین ۔
      کافی سمارٹ بدن بہت پیارا فگر اور گورا رنگ کوئی بھی ایک نظر دیکھ لے تو دوبارہ دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں ضرور جنم لیتی ہے۔اور تقریبأ ہمارا ہر کؤئی جاننے والے ایک ہی بات کہتا ہے۔
      بانو پٹھانی نے حسن و شباب اور جسمانی خوبصورتی اور نسوانی دولت اپنی مان سے ہتھیائی ھے۔
      جب مین نے ہوش سنبھالا تو گھر والوں کی شفقت میسر ہوئی کسی چیز کی بھی خواہش ہوتی فورا خواہش پوری ہو جاتی۔شہر کے ایک بڑے سے سکول میں میرا داخل کروایا گیا۔
      جب مڈل کلاس میں گئی تو مجھے بخار ہو گیا جو طول پکڑتا گیا جس سےاب میں گھر رہنےلگی تعلیم کا بہت شوق تھا اس لیے میں نے پرائیویٹ اپنی تعلیم جاری رکھی اور دسویں پاس کر لیا پھر بڑی دونون بہنون کی شادی ہو گئی اور مین گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی تھی اس وقت تک میں پیار محبت کے نام سے بالکل ناواقف تھی ۔
      مین نے تو ان کی اصلیت کے بارے میں سوچا تک بھی نہین تھا ہر دم اپنے کاموں میں مگن رھنا اور سکون سے زندگی بسر کرنا میرا کام تھا جب کبھی عزیزرشتہ داروں کے ہاں جاتی تو وہ سب مجھ سے اتنا پیار کرتے کہ مجھے جنت کا سماں نظر آتا۔
      پھر ایک دن یوں ہوا کہ میں اپنے فون جو ہمارے گھر کا تھا اس پر گانے پرانے سن رہی تھی کہ رانگ نمبر سے کال آئی میں نے اسے او کے نہین کیا بلکہ مصروف کر دیا شاید اس کو شک ہو گیا کہ یہ نمبر کسی لڑکی کا نمبر ہے اور وہ بار بار تنگ کرنے لگا میں نے اس کوایس ایم ایس کیا کہ مہربانی فرمائیں یہ ہماری فیملی کا نمبر ہے وہ تو بس ڈھیٹ تھا بار بار ایس ایم ایس کرنے لگا کہ پلیز ایک بار کال پر بات کر لو۔
      میں نے اس کے بے حد ضد پر کال او کے کر لی اور پوچھا کہ بتائیں آپ کا کیا مسئلہ ہے جناب وہ کہنے لگا کہ بس ایسے ہی دل کیا آپ سے بات کرنے کو اس طرح اس نے کال کٹ کر دی میں سوچوں میں پڑ گئی تھی کہ اب وہ روزانہ گڈ نائٹ گڈ مارننگ کے ایس ایم ایس کرتا۔
      اب میرے دل کو پتہ نہیں کیا ہوا میں بھی اس سے بات کرنے لگ گئی وہ ہمارے محلے کا ہی نکلا اس کا نام ارشدتھا ہماری اچھی دوستی ہو گئی۔
      اب وہ کہتا کہ مجھ سے ملو مگر میں تو کبھی گھر سے باہر بالکل نہیں نکلی تھی کیسے ملتی گھر سے باہر جاتی تو میری بڑی بہنین اور أمی ہر پل میرے ساتھ ہوتے وہ ہمارے گھر کے سامنے آتا تو میں ونڈوسے اسے صرف دیکھتی۔​​​​ارشدبہت خوبصورت تھا اتنا خوبصورت کہ مین اس کی شکل دیکھ کر پا گل ہو گئی تھی۔
      ارشد کیلئے اتنا پیار دل میں پیدا ہو گیا کہ میں اس کی دیوانی ہی ھو گئی ایک دن اس نے کہا کہ میں نزدیک سے آ پ کو بس دیکھنا چاہتا ہوں میں نے کہا ضد نہ کرو میں بہت مجبور ہوں وہ بہت رونے لگا ۔
      میں نے ارشد سے ملنے کیلٔے بہانہ بنایا اور امی سے کہا میں نےباجی فرح کے گھر جانا ہے مگر امی نے اکیلے جانے نہیں دیا تھا امی نے کہا کہ بانوبیٹی کل عامر نے ادھر أنا ہےمیں آپ کو عامرکے ساتھ بھیجوں گی۔
      میں نے ارشدسے ایک دن کا وقت لیا وہ بہت خوش ہوا تھا لیکن دوسرے دن امی نے پھر نہ جانے دیا میں بہت پریشان ہوئی۔ارشد بار بار ملنے کیضد کر ہی رھا تھا تم مجھ سے پیار نہیں کرتی اب میں زہر کھا لوں گا مر جاونگا۔
      امی سے میں نے کہا کے جانے دو مگر انہون نے کہا کہ وہاں کوئی شادی نہیں ہے جو اتنی ضد کر رہی ہو تم چپ کر کے اپنا کام کرو مجھے تنگ نہ کرو بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔
      اتنی بڑی ہو گئی ہو کچھ تو خیال کرو جوان بیٹی کو ایئسے ہی ادھر بھیج دوں کسی روز سب اکٹھےچلیں گے اور ملنے کے بعدواپس آ جائیں گے میں کمرے میں جا کر بہت روتی رہی تھی۔
      میرا دل توپھٹ رھا تھا امی کیا جانے مجھ پر کیا گزر رہی تھی میں ارشد کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ میرے دل کی دھڑکن بن چکا تھا میں اس کے بنا ایک پل اب نہیں رہ سکتی تھی۔
      اور پھر ذوہیب بھیا کے گمشد ہونےوالی انہونی ہو گیی۔
      وہ ایک دن اپنی کاروباری کسی میٹنگ کیلئے دوسرے شہر چلے گئےاور پھر واپسی پر لاپتہ ہو گےآپی فرح اور برہ باجی تو پاگل سی ہوگیئن اور پھر ذوہیب بھائی کو ڈھونڈتے دن ہفتے مین اور ہفتے مہینون مین بدلنے لگے ذوہیب بھائی کی جدائی مین ان کے والدین کی بہت بری کنڈیشن ہو چکی تھی اوربالاخر اکلوتےبیٹے کی جدائی برداشت نہ کرتے ہویے دونون ہی آگے پیچھے اسی سال راہ عدم سدھار گئے اور برہ باجی تقریبأ پاگلون کی سٹیج پر پہنچ گئین۔
      آپی فرح عامربھائی کے ساتھ اپنے میکے أئین ہوئی تھیں اور امی سے کہ کر کہ بانواپنی بڑی بہن کا خیا رکھے گی ۔اسی شام کو مجھےءاپنے ساتھ لے آئین ۔ پھر کوچھ دن تو ذوہیب کی گمشدگی اور برہ باجی کی حالت کی وجہ سے مجھے ارشد کا بھی خیال نہین نہ آیا۔
      کیونکہ میری بہن برہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے مین ادھر انکے ساتھ کمرے مین ہی رہنےلگی ۔
      پھر کوچھ دنون کے بعد مین نے جب اچانک کچن مین اپنا موبائل آپی فرح کے پاس دیکھا تو حیران رہ گئی مین خاموشی سےکچن کی کھڑکی کے پاس أئی اور اپی کی باتین سننے لگی وہ ارشد سے ہی بات کر رہی تھین اور وہ اپنی محبت مین ارشد کو پوری طرح سے پھنسا چکی تھین باجی فرح ارشد کے ساتھ فون پر سیکس کر رہی تھین۔أچانک پیچھے سےبرہ اپی نے مجھے پکڑا أور خاموشی سے مجھے اپنے ساتھ کمرے مین لے أئین۔
      @#۔
      اچانک باہر سے کھٹکا ہوا اور مریم ذوہیب کے ہمرا ئی کمرے مین داخل ہوئی۔
      مریم نے میرے بہانے سے اسی رات ذوہیب کو اپنےگھر بلا ہی لیا تھا ۔مریم مجھے اپنے پیار کی دیوانگی کا اچھی طرح سے بتا رکھا تھا۔
      اوریہ ان دونوں کی تہنائی مین پہلی ملاقات تھی اسنے میرے سامنے ھی ذوہیب بھائی جان کو بہت پیار کیا اور وہ مجھے بلکل فراموش کیے صوفے پر بیٹھےبہت دیر تک پیار بھری باتیں کرتے رہے درمیان مین کسنگ وغیرہ بھی کی مریم نے ذوہیب کے ساتھ نبھانے کے قول قرار کیے
      دونون کی محبت وچاہت کی خرمستیاں دیکھ کر آہستہ آہستہ مین بھی اپنے ہوش و ہواس کھونےلگی۔أور اپنے بوجھل ہوتے جزبات اور شہوت کے ہاتھون مجبور ہوکر لڑکھڑاتی ہوئی جیئسے ہی مین ذوہیب کے پاس جاکر بیٹھی ۔
      اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔ اور پھر مریم کو أنکھ سے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے۔ مریم جانو تم ابھی أرام کرو ۔مین ذرا ان سے أپنے بارے مین کوچھ باتین پوچھ لون۔
      مریم۔ جی أچھا جانو کہتے ہوئے دوسرے کمرے مین چلی گئی۔
      اس رات میں نے ایکدم ٹائٹ شلوار قمیض پہنا ہوا تھا کافی سیکسی لگ رہی تھی جس میں کسی سیکس بم سے زیادہ غضب ڈھا رہی تھی ذوہیب میری کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا تو میں نے بھی جواب میں سیکسی مسکراہٹ پیش کی اور یہ بڑی معنی خیز سی مسکراہٹ تھی ۔
      جو کہ میں اسوقت سمجھ نہ سکی اس مسکراہٹ کا شروع شروع میں علم کم ہی ہوتا ہے اور جب علم ہو جاتا ہے تب ہم مسکراہٹ میں ہی ہاں یا ناں کر دیا کرتے ہیں
      اور سامنے والے کو سوال کا جواب آنکھوں ہی آنکھوں میں مل جاتا ہے
      میں نے بھائی سے کہا چلو کھانا کھا لیتے ہیں ہم پہلے ۔
      پھر باقی باتیں کریں گے اس نے کوئی جواب نہ دیا اور میرے ساتھ کچن میں آکر کھانا گرم کرنے میں میری ہیلپ کرنے لگا اس دوران کچن میں مختلف چیزیں اٹھانے کے چکر میں گھومتے اور چلتے پھرتے میں دو تین بار ذوہبی بھیا سے ٹکرا گئی تھی
      میرے بڑے ممے بھی وہ بار باردیکھتا تھاایک بار اسکا لنڈ میری چوت اور گانڈ سے ٹکرایا مگر میں کچھ نہ بولی بلکہ مسکرا کرخاموش رہی خیر پھر ہم دونوں ٹیبل پر پہنچے کھانا لے کر اور ساتھ ہی کھانے لگے تھے
      کھانے سے فارغ ہو کر ذوہیب میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور میرا گورا ہاتھ اپنے ھاتھ میں لیا میری سانسیں تیز چل رہی تھیں مگر میں انکےپیار میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ ذوہیب کی خاطر کچھ بھی کر سکتی تھی اس نے میرا ہاتھ پکڑ کراپنے لوڑا پر رکھ لیا میں ایک دم ہوش میں آگئی ایکدم ہڑبڑااور گبھر ا کر اسے دیکھنے لگی اس نے مسکراتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھا
      اور کہا بانواگر تم مجھ سے بہت سچا پیار کرتی ہو تو خود کو میرے حوالے کر دو میں کچھ نہیں بولی اور نظریں نیچے کر لیں ذوہیب نے ہمت کر کے میرے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور میرے لپس پر ایک ہلکی سی کس کی میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی
      پھر اس نے میرے بوبز پر ہاتھ رکھ دیا میں ایکدم کسمسا اٹھی
      اب اس نے مجھے دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا میں نے بھی اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا اور اسے اپنے سینے میں بھینچنے لگی اس نے مزید وقت ضائع کیئے بغیر میری قمیض میں ہاتھ ڈالا اور میرے بوبز کو پکڑ لیا
      اور دبانے لگا میری سانسیں تیز ہونے لگی تھیں اور میرے لپس کپکپا رہے تھے میں اس کی جانب دیکھ رہی تھی میری آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھے اور میری آنکھیں آدھی کھلی اور آدھی بند تھیں اس نے ایک بار پھر میرے لپس پر اپنے لپس رکھے
      مگر اس بار اس نے ایک لمبی کس کی جس سے میں کافی گرم ہو گئی تھی تقریباً چدنے کے لیے تیار
      اس نے مجھے کہا کہ ادھر بیڈ پرچلو میں اسکو بیڈ پر لے آئی
      بیڈ کے پاس پہنچ کر اس نے مجھے کھڑا کیا اور اپنے ساتھ لپٹا لیا اور میری کمر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے میرے ملائم کولہوں تک لے گیا اور انکا مساج کرنے لگا میں نے اپنے کولہے سکیڑ کر سخت کر لیے پھر اس نے میری گالوں پر کسنگ کی میں نے جو قمیض پہنی تھی اسکی زپ پیچھے کی طرف تھی
      اس نے واپس کمر تک ہاتھ لے جاکر میری زپ کھولی
      اور میری قمیض کو ڈھیلا کردیا میری قمیض کندھوں سے ڈھلک کر نیچے آگئی اور بریزر صاف نظر آرہا تھا
      جس میں سے بڑے بڑے دودھیا رنگ کے بوبز اپنی بہار دکھا رہے تھے اس نے میری قمیض کو اسی پوزیشن میں چھوڑ کر میری شلوار پر حملہ کیا
      میں شلوار میں الائسٹک استعمال کرتی تھی عام طور پہ لڑکیاں کرتی ہیں اس نے ایک ہی جھٹکے سے میری پوری شلوار زمین پر گرا دی میں خاموش کھڑی صرف تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔
      ذوہیب بھائی ساتھ ساتھ اپنے کپڑے بھی اتار رہے تھے۔
      مگر مین انہینأنکھین بند کیے کچھ نہ کہہ پا رہی تھی اور نہ ہی اسے روک رہی تھی اب اس نے میری قمیض کو بھی میرے بدن سے الگ کیا
      میں صرف بریزر میں رہ گئی تو مجھے اس تکلف سے بھی آزاد کردیا
      اب ذوہبی بھیا اور میں پورے ننگیمےایک دوسرے کے سامنے ایک دعوت نظارہ بنے کھڑے تھے۔میری أنکھین شرم وحیا سے پوری طرح بند تھین۔
      اس نے میرے پورے چکنے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا
      میرا بدن ایکدم چکنا تھا اور کافی گرم ہو چکا تھا اس نے آہستہ آہستہ ہاتھ میری خوار پھدی کی جانب بڑھایا اور اپنی انگلی جیسے ہی میری تین سالون کی خوارزدہ پھدی میں ڈالی وہ گیلی ہوگئی تھی۔
      میں بہت ھاٹ ہو چکی تھی اب اسے اپنا کام کرنا تھا
      اس نے مجھے بیڈ پر چلنے کو کہا تھامیں خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور اسے دیکھنے لگی اس نے انتظار نہیں کیا اور بیڈ پر چڑھ گیا تھا اور میرے اوپر لیٹ کر اپنا لوڑا میری ٹانگوں کے بیچ خوار پھدی کے منہ پر پھنسا دیا اس نے بیٹھ کر میری ٹانگیں کھول دیں۔
      اور پھرذوہبی نے خواراور شہوت مین سرشار پھدی کے منہ پر لوڑا کو سیٹ کیا اسکا لوڑا میری پھدی کے پانی سے گیلا ہو کر چکنا ہوچکا تھا اور اندر جانے کو بے تاب تھا اس نے تنے ہوئے لوڑا کو ایک زور دار جھٹکا لگایا
      اورانکا لوڑا میری چھوٹی پھدی کی سیل توڑتا ہوادھندھناتا اس میں داخل ہوگیا اور اسی لمحے میرا تیزسانس ایک لمحے کو رکا اور درد سے میری فل چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔
      مگر میری تیزچیخین کوئی سننے والا نہیں تھا مریم کمینی بھی نہجانےکدھر چلی گیی تھی اور پھرمیں نے تیز تیز سانسن لینا شروع کر دیا ذوہبی نے خون میں لت پت تھوڑا سا لوڑا باہر نکالا کیونکہ پورااندر جانے کے لیے اسے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ضروری تھا اس نے تھوڑا سا پیچھے کیا لوڑا کو
      اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور پورا لوڑا خون ٹپکتی پھدی کے اندر داخل ہوگیا
      اب میرے منہ سے آہیں نکل رہی تھیں مجھے اپنے بدن میں اسکا سخت تنا ہوا لوڑا محسوس ہوا تو میں نشے میں بے حال ہونے لگی اور بے تحاشہ اسے چومنے لگی اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا
      ذوہیب بھیا برہ باجی نے کہا تھا کہ مین تمھاری سیل أپنی جان ذوہیب سے ہی کھلواؤن گئی اور أج آپ نے واقعی مین میری سیل توڑ ہی ڈالی مجھے أب پورے زور سےچودو جلدی۔
      بس یہ سننا تھا اس کے اندر بجلی دوڑ گئی اور اس نے لوڑا کو اندر باہر کرنا شروع کردیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا رہا ۔میں جلدی جلدی فارغ ھو رہی تھی
      ذوہبی بھیانے اپنی رفتار بڑھا دی اور بے تحاشہ جھٹکوں سے مجھے چودنے لگا میں بے حال ہو رہی تھی میری آہوں سے زیادہ تو چیخیں نکل رہی تھیں اور میں اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی
      مگر ذوہیب اب رکنے والا تھا بھی نہیں بہرحال میں اس دوران دوبار فارغ ہوئی میری ہمت جواب دے رہی تھی اس نے اپنا لوڑا باہر نکالا اور کہا ابھی میں فارغ نہیں ہوا ہوں جان من۔
      تم گھوڑی بنو مجھے اسکا تجربہ نہیں تھا میں اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے مجھے بتایا کیسے گھوڑی بننا ہے میں سمجھی تھی وہ شاید پیچھے کی طرف سے میری أنکھ مارتی پھدی میں لوڑا داخل کرےگا۔
      جیسے ہی میں گھوڑی بنی اس نے اپنا لوڑا میری کنواری گانڈ پر رکھا اور پوری طاقت سے اسکو اندر داخل کردیا لوڑا کسی پسٹن کی طرح چکنا اور گیلا تھا اور میری گانڈ بھی پھدی سے بہہ کر آنے والے پانی سے گیلی تھی اسکا پورا لوڑا میری گانڈ میں ایک ہی بار میں آدھا گھس گیا اور میں درد سے بلبلا اٹھی مگر وہ باز آنے والا کب تھا سالی کےخوبصورت شباب کے نشے مین ڈوبا وحشیانہ انداز مین میری گانڈ چودنے لگا تھا۔
      اس نے مجھے زور سے جکڑ لیا اور میں کوشش کرتی رہی اسکی گرفت سے نکلنے کی مگر اس نے مجھے نہیں چھوڑ تھا سالا گانڈ چودنے پہ کچھ برا لگا تھاا ذرا دیر بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی میں نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا مگر اس نے انکار کردیا تھا
      مجھے گانڈ میں وہ مزہ نہیں مل رہا تھاپھر ذوہیب بھیا نے جواب مین کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر میں میں خاموش ہوگئی میں نے خود کو پورا انکے حوالے کیا ہوا تھا اس نے میری رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیا اور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار میں ایکبار پھر سے آگیا میرے بوبز بری طرح سے ہل ہل کر میرے چہرے سے ٹکرا رہے تھے
      اور میں بھی پوری ہل رہی تھی میں نے کہا ذوہبی بھیاایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں پلیز میں تو ۔
      اس نے کہا چلو نیچے زمین پر مجھے زمین پر لاکر اس نے پیٹ کے بل مجھے بیڈ پر اسطرح لٹایا کہ میرے گھٹنے زمین پر لگے تھے اب وہ بھی اسی پوزیشن میں آگیا اور پھر سے لوڑا میری گانڈ میں داخل کیا تھا
      اب اس نے پورا لوڑا اندر ڈال کر مزید کنواری گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لوڑا کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا جس سے ایک بار پھر میری چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں بالاخر اسکا وقت پورا ہونے لگااس نے مجھ سے کہا میں تمہاری گانڈ میں ہی منی نکال رہا ہوں نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو.
      میں نے کوئی جواب نہیں دیا اس نے پورا لوڑا گانڈ میں گھسیڑا اور لوڑا نے منی اگلنا شروع کردی تھی
      اور پھر مین ذوہیب بھائی کے ساتھ ننگی بیڈ پر لیٹ گئی ذوہیب بھیاسے بہت دل کی باتیں ہوئیں۔
      آپی فرح عامر بھائی برہ باجی سب کے حالات بتانے کے باوجود بہت سی باتین رہ بھی گئین دل کی ایک بار پھر سے پیار کے عہد و پیماں ہوئے باتوں ہی باتوں میں ذوہبی اب میرے بدن کی نزاکتون کی تعریف کرنے لگا
      اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا – سچ میں بانوتم بہت خوبصورت ہووہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا ادھرپھدی گیلی ہو رہی تھی کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری چکنی ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی۔
      پھر مین ذوہبی کے پاس سےاٹھی کپڑے پہنے اور کچن سے ذوہیب بھیا کیلیےملک شیک بنا کر لے ائی۔
      میرے أنے تک بھیابھی أپنے کپڑے پہنکر جانے کیلیے تیار ہو چکے تھے ان کو ملک شیک پلانے کیبعد خود بھی پیا۔
      مین ابھی بھیا کو واپس نہین جانے دینا چاہتی تھی أس لیے بھیا کو بیڈ پر گرا کرخود بھی ان کے اوپر لیٹ کر ذوہیب کے ہونٹ چومنے لگئ۔
      اب میں شہوت مین مدہوش سی ہو رہی تھی مگر پھر بھی اپنے اوپر قابا رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ بھی سمجھ چکا تھاپھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے ریشمی بالوں میں گھس گیا میں چپ چاپ لیٹھی مست مست ہو رہی تھی اور میری سانسیں اور زیادہ گرم ہو رہی تھی
      اس کا ایک ہاتھ میری گانڈ والی سائیڈ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف پہ تعریف کئے جا رہا تھا پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا تھا میں جان گئی کیا کرنا چاہتا ہےمیں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا
      اس نے اپنے رس بھرے لپس کو میرے لپس پر رکھ دیا اور میرے لپس کا رس چوسنا شروع کر دیامجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی تھی پھر اس نے مجھے مذیداپنی طرف کھینچ لیا تھا اور مجھے اپنی مردانہ گرمی والی گود میں بٹھا لیا اب میرے دونوں نپلز اس کی چھاتی سے دب رہے تھے
      اور خواری بڑھنے لگی تھی اس کا ہاتھ اب کبھی میری چکنی گانڈ پر کبھی بالوں میں کبھی گالوں میں اور کبھی میرے بوبز پر چل رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی پندرہ سے بیس منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے چوستے چاٹتے رہے تھے
      پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈ کی درمیان کی طرف لیجانے لگا۔ اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے
      مجھے
      مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو دوبارہ سےاوپر اٹھایا اورپھر سے اتار دیا ۔
      میری بریزر میں سے میرے سفید دودھ جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے وہ بریزر کے اوپر سے ہی میرے بوبز مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا
      پھر اس کا ہاتھ میری تنگ شلوار تک پہنچ گیا جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا
      میری پجامی ٹائپ شلوار بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی مگر پجامی اتارتے ہی۔
      ذوہیب میری گول گول خوار پھدی کے أدھ کھلی درزدیکھ کر خوش ہو گیا اب میں اس کے سامنے بریزر اور پینٹی میں تھی اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیامیں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے خوارپھدی کے لپسوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا
      اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب اپنے پیار ے ذوہبی بھیاکے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورےلطف و مزے مین کیوں نہیں لیتی ۔
      بھلا میں پیچھے مڑی اور چدائی کے لیئے فل گھوڑی بن کر اس کی شلوار جہاں پر لوڑا تھا پر اپنا چہرہ اور گال رگڑنے لگی میں نے اس کی قمیض کھولنی شروع کر دی تھی جیسے جیسے میں اس کی قمیض أتار رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی
      میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی۔
      دھیرے دھیرے میں نے ان کی قمیض مکمل اتار دی ذوہیب میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا میں بہت ہاٹ مست ہوتی جا رہی تھی
      میرے ہاتھ اب بھائی کی شلوار تک پہنچ گئے تھے میں نے ان کی شلوار کھولی اور نیچے سرکا دی ۔
      ذوہبی نے اپنا بڑا لوڑا انڈر وئیر مین قید کر رکھا تھابھا۔بھائی کا لوڑا انڈروئیر میں کسا ہوا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر کو پھاڑ کر باہر آ جائے گا اب اس طرح کا لن ہی تو مین مانگ رہی تھی
      میں نے اپنی ایک اونگلی اوپر سے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کیااس سے اس کی بالوں والی جگہ جو بھائی نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی
      میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھینچاذوہبی بھائی کا ساڑھے نو انچ کا لوڑا میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے پھن پھناتے ہوئےہلنے لگا ۔
      برہ باجی نے بلکل صیح کہا تھاذوہیب بھائی کا تگڑاموٹا اور گدھے جیئسا لن ہے۔
      اور اس کا آگے والا سرا بھی کافی موٹا تھا ۔اتنا بڑا لوڑا اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی بھائی کا بڑا سا اور لمبا سا لوڑا مجھے بہت پیارابھی لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھا
      میرے لپس اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے لوڑے کے ٹوپے کو چوم لیا میرے ہونٹوں پر گرم گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی تبھی بھائی نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا
      اور میرا سر اپنے لوڑا کی طرف دبانے لگامیں نے منہ کھولا اور اس کا لوڑا میرے منہ میں سمانے لگا ۔ذوہبی بھیا کا لوڑا میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی بھائی بھی میرے سر کو اپنے لوڑا پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لوڑا گھسیڑنے کی کوشش کر رہا تھا
      تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور ان کا لوڑا میرے گلے تک اترنے لگا میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا تب مجھے سمجھ میں آیا کہ ڈوہیب بھائی فارغ ہو گیا ہے
      تبھی بھائی کے دھکے بھی رک گئے اور لوڑا بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیااس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا
      کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہےتھوڑی دیر کے بعدوہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا پھر اسنے مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری بریزر کی ہک کھول دی میرے دونوں بوبز آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے
      اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں بوبز اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا
      وہ میرےممے کو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا میری تو جان نکلی جا رہی تھی میرے ممون کا رس پینے کے بعد بھائی اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا اس نے میری پینٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹانگیں پھیلا کر کھول دیوہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری مخملی ملائم پھدی پر رکھ دی میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی
      میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا اس کا لوڑا میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا۔
      مجھے پتہ چل گیا کہ انکا بڑالوڑا پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے میں نے ذوہیب بھیا کابازو پکڑ کر اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا میری بھیاجانی میرے اوپر آ جاؤ
      وہ بھی سمجھ گیا کہ اب میری پھدی لوڑا لینا چاہتی ہے وہ میرے اوپر آ گیا اور اپنا لوڑا میری برسوں سے خوار پھدی پر رکھ دیا میں نے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا لوڑا اپنی رسیلی پھدی کے منہ پر ٹكايا اور اندر کو کھینچااس نے بھی ایک دھکا مارا اور اس کا لوڑا میری دہکتی پھدی میں گھس گیا
      میرے منہ سے آہ نکل گئی میری کھجلی زدہ پھدی میں میٹھا سا درد ہونے لگا بھیا نے میرے ہونتوں پہ اپنے لپس رکھ دیئے اور ایک اورکرارا دھکا مارا ان کا سارا لوڑا میری پھدی میں اتر چکا تھامیرا درد بڑھ گیا تھا میں نے بھیا کی گانڈ کو زور سے دبا لیا تھا کہ وہ ابھی اور دھکے نہ مارے
      جب میرا درد کم ہو گیا تو میں اپنی گانڈ ہلانے لگی ذوہبی بھیا بھی لوڑا کو دھیرے دھیرے سے اندر باہر کرنے لگا کمرے میں میری اور ان کےسينكارے اور آهوں کی آوازچارون طرف گونج رہی تھی بھیامجھے بےدردي سے پیل رہا تھا اور میں بھی اس کے دھکوں کا جواب اپنی گانڈ اٹھا کے فل اٹھا کر دے رہی تھی
      پھر اس نے مجھے گھوڑی بننے کے لئے کہا میں نے گھوڑی بن کر اپنا سر نیچے جھکا لیا ۔بھیا نے اس بارمیری بڑی گدرائی گانڈ کے سوراخ میں اپنا لوڑا ڈالا مجھے درد ہو رہا تھا مگر میں سہ گئی درد کم ہوتے ہی پھر سے دھکے زور زور سے چالو ہو گئے میں تو پہلے ہی ڈسچارج ہو چکی تھی
      اب بھیابھی چھوٹنے والا تھا اس نے دھکے تیز کر دئے
      اب تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے بھیا آج میری پھدی اور گانڈ پھاڑ کر ھی چھوڑے گا پھر ایک سیلاب آیا اور انکا سارا مال میری گانڈ میں بہہ گیا میں نے سن رکھا تھا کہ پھدی کے اندر مال جائے تو حمل ہوتا ہے اس لئے توذوہیب بھیانے جان بوجھ کر میری پھدی کو سیراب کرنے کے بجائے دونوں بار ھی میری مچلتی گانڈ مین منی میرے اندر گرا دی تھی
      اب بھیا ویسے ہی میرے اوپر گر گیا میں بھی نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور وہ میرے اوپر لیٹ گیا میری گانڈ میں سے ذوہب بھیا کا مال نکل رہا تھا پھر اس نے مجھے سیدھا کیا اور میری رسیلی پھدی کو چاٹ چاٹ کرمیری رسیلی منی بھی صاف کر دی۔
      ہم دونوں تھک چکے تھے اور بھوک بھی لگ چکی تھی بھیانے کسی ہوٹل میں فون کیا اور کھانا گھر پر ہی مگوا لیا میں نے اپنے چھاتی اور گانڈپھدی کو کپڑے سے صاف کئے اور اپنی بریزر اور پینٹی پہننے لگی ذوہیب بھیا نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور ایک گفٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
      جارہی ھے۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #13
        نیواپڈیٹ۔
        سیزن 3۔
        ایک نئے ھی انداز سے۔
        ۔أئیے دوستو پھر سے بانو کے پاس ہی چلتے چلتے ھین ۔
        ​​​
        ذوہیب بھیا نے مجھے براء اور پینٹی پہننے سے روکتے ہوئے ایک گفت میرے ہاتھ مین تھما دیا۔
        گفٹ کو پکڑے مین ذوہیب بھائی سے پوچھنے لگی ​​​
        ذوہبی بھیا اس مین کیاھے ؟؟۔
        ذوہیب۔جانو مجھے نہین پتہ کہ مین کون ہون۔اور میرا تم سے کیا رشتہ ہے مجھے بلکل یاد نہین ۔تم نے اپنا نام مجھےبانو بتایا تھا نا۔
        مین نے جب أج اپنا بریف کیس کھولا تو اس مین یہہ گفٹ پیک تمھارے نام کا پڑا تھا۔
        جسے دیکھ کر تمھین دینے کیلیےمین اپنے ساتھ اٹھا لایا۔
        مین نے پھر جلدی جلدی سے ذوہیب بھیا کاگفٹ کھولا اندر ایک بہت خوبصورت گولڈ کا سیٹ ایک انگوٹھی اورایک میکسی ٹائپ سیکس نائٹی کیساتھ ایک گفٹ کارڈ تھا۔
        مین اور ذوہیب دونون مل کر گفٹ کارڈ پڑھنے لگے۔
        کارڈ پر بڑے خوبصورت الفاظ مین لکھا تھا۔
        ذوہیب اور برہ کیطرف سے۔
        أپنی سالی بانو کو چوت کی رونمائی اور پہلی کھدائی کا تحفہ۔
        کارڈ پڑھتے ھی مین ذوہبی بھیا سے لیپٹ کر انکے ہونٹ چومنے لگی۔کوچھ دیر بعد بھیا نے مجھے علیحدہ کیا۔
        پیچھے ہٹتے ھی مین نے دیکھا ذوہبی بھیااکا بڑالنڈپھر سے اکڑ کر پہلے سے بھی بہت بڑا لگ رہا تھا
        مگر مجھے اب کی بار بھیا کے خوار لنڈ کودیکھتے ہوئے ڈر لگنے لگا ۔
        اتنے مین کمرے کے دروازے پر مریم کی أواز أئی بانو اگر تمھارا کام ھو چکا ہو تو دروازہ کھول دو۔
        مین نے جلدی سے اپنے اوپر ایک چادر اٹھا کرلے لی اور ذوہبی بھیا کو کپڑے پہننے کا اشارہ کیا۔
        مگر ذوہبی بھیا نے کپڑے پہننے کے بجائے بلکل ننگے ھی جاکر دروازہ کھول دیا۔
        مریم کمرے کے اندر داخل ہوتے ھی ذوہیب بھیا کا کھڑا لنڈ بہت شوق اور چاہت سے دیکھنے لگی۔
        مریم نےپھر میرے اوپر سے چادر کھینچتے ہویے کہنے لگئی بانو ادھر أ کر ذرا تم اس کو قریب سےدیکھو انکے لنڈ کا سائز عام لنڈ سے کتنا بڑا ھے۔
        مریم کمینی کو اس وقت فل شہوت اورخماری چڑھی ہوئی تھی اسکے سارے گھر والے دو دن کیلئےاپنے رشتے داروں کے پاس گئیےہوئیے تھے. اور مریم کا بھی فل چودائی کا پروگرام تھا۔
        مریم نے آج فل مزہ کرنے کیلئے پہلے ھی سے اپنے بڑے بھیا کےکمرے سے ایک سیکسی ویڈیو نکال رکھی تھی ۔
        اس نے سیکسی ویڈیو لگائی اور پھر میرے اور ذوہیب کے پاس آگئی ۔
        تھوڑی دیر فلم دیکھنے کیبعد وہ اٹھی اپنی ڈریسنگ ٹیبل کی دراز سے کنڈم نکال کر پھر سے ہمارے ساتھ بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔مین اور ذوہیب بھیا فلم دیکھنے کیساتھ ساتھ مریم کی عجیب و غریب حرکتین بھی دیکھے جارہے تھے۔
        ذوہیب بھیا بھی مریم کے شباب اور جوانی دیکھ کر پورےمست ہو چکے تھے۔
        پورن فلم کی اسٹوری ایک چھوٹی سیکسی لڑکی کے گرد گھوم رہی تھی۔مگر ذوہبی بھیا چلتی ویڈیو کو چھوڑ کر مریم کے مست بوبز کو پکڑ کر مسلنے لگا۔
        بھیا کو میرا اور فلم کا کوئی ہوش نہیں رہا تھا ۔
        سکرین پرلڑکی جب سیکس اسٹارٹ کرتی ہے تو مریم کی حالت اور پتلی ہو جاتی ہے پھر اس نے کنڈم کو کھولنے سے پہلے اپنے ہاتھون مین ذوہبی بھیا کا لنڈ کو پکڑا اور کوچھ دیر کیلئے لولی پوپ کیطرح چومتے ہوئے چوس ڈالا ۔جسے دیکھ کر مین بھی اپنی چوت مین فنگرنگ کرنے لگ پڑی۔
        ادھر مریم نے ذوہیب کےلنڈ کو مسلنا شروع کر دیا
        بھیا کا لنڈ فخر سےآہستہ آہستہ مزید پھولنا شروع ہوگیا جب لنڈ پوری طرح سے جوبن مین آ کرکھڑا ہوگیا تو مریم نے لنڈ پر کنڈم چڑھادیا۔
        ذوہبی بھیا نے مریم کو پکڑ کر اسکے کپڑے آہستہ آہستہ اتارنے لگےبھیا نے مریم کو ننگا کرنے کیساتھ ہی اسکے بوبز کو پکڑ کردبانا اور مسلنا شروع کر دیا مریم کی سانسیں تیز تیز ہونے لگین اور اس کے چہرے پر پسینہ آنا شروع ہوگیا تھا اور شہوت اور خماری کی شدت سے مریم کے چہرے کا رنگ بھی لال ہوگیا۔
        اس کی آواز بھی کافی سیکسی ہو گئی تھی پھر مریم نےتیز تیز کافی جوش اورشدت سے بھیا کے سٹابری فلیور والےلنڈ کو چو سنا شروع کر دیا۔
        کم از کم مریم پندرہ منٹ ذوہبی بھیا کے لنڈ کے ساتھ کھیلتی رہی۔
        مریم کا لنڈ چوسائی کا منظر دیکھ کر.میں بھی کافی گرم ہو رہی تھی۔ پھر مین بھی شہوت میں مچلتی ہو ئی اپنے رس بھرے دودھ پکڑ کر ان کو دبا نےلگی ۔جس سے مجھے بہت زیادہ مزے ملنے لگا۔
        ساتھ ہی میری نظر پھر سے بھٹکتی ہوئی چلتی سکرین پر جا پڑی۔وہان پر بھی میں نے دیکھا تو ایک اکیلی لڑکی تھی جو کہ اپنے آپ سےخود ہی سیکس کر رہی ہے وہ اپنی چوت میں انگلیاں دیتے ہوئےسا تھ مزے مزے سےسیکسی آوازیں بھی نکال رہی تھی۔میں نے ایسی پہلے بھی بہت سی پورن موؤیز دیکھ رکھی تھین ۔
        وہ انگریز لڑکی اپنی انگلیاں پہلے اپنی چوت میں دیتی اور پھر بعد میں ان کو خود ہی مزے سے چاٹتی ہیں اور مجھے یہ شہوت انگیز سین دیکھ کر کچھ ہونے لگا تھا بالآخر میں نے مجبور ہوکر أگے بڑھی اور مریم کو ذوہبی بھیا کے لنڈ سے ہٹا کر
        خود انکے لنڈ کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگ پڑی مین بھیا کے لنڈ کو ایئسےچوسا لگا رہی تھی۔جیئسے ہالی وڈ کی پورن مویز کی مین پروفیشنل ادکارہ ہون۔
        مریم ذوہبی بھیا کو پیچھے بیڈ پر لٹاھکر انکے اوپر چڑھتی ہوئی بھیا کے ساتھ فرنچ کسنگ کر رہی ہے
        بھیا نےبھی مریم کو ڈیپ کِس کی بہت دیر تک وہ اس کے کومل ہونٹوں کو اپنے دانتون مین ہلکا ہلکا دباتے اور ساتھ چاٹتے رہے ۔اور مریم بھی ذوہبی کے ہونٹوں کو چومتی رہی۔
        بھیا نے ساتھ مریم کے ممون کو پکڑ کر دبانا اور مسلنا شروع کر دیا .۔
        بھیا کافی دیر تک مریم کیساتھ یونہی کھیلتےرہے اور وہ بہت مزے اور لطف سے بےحال ہوتی ہوئی سیکسی آوازیں نکال رہی تھی ۔
        پھر ذوہبی بھیا مریم کو چھوڑتے ہوئے میری مخملی رانوں کے درمیان بیٹھ کر میری چوت تک آگیا اور نمکین رسیلے رس سے مکمل بھیگی چوت کو أپنی زبان چاٹنا شروع کر دیا۔
        ذوہبی بھیا بہت دیر تک بار بار میری چوت مین انگلی ڈال کر چاٹتا رہا ۔ساتھ ہی بھیا نے مریم کو اپنا لنڈ پھر سےپکڑایا اور مریم ذوہبی کے لنڈ کو آرم سے منہ میں لے کر چوسنے لگ گئی. وہ اتنے مزے لے لے کر چوسا لگا رہی تھی۔جس کے مزے کو الفاظ مین بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
        اس کے بعد ذوہبی بھیا نےمیری چوت میں اپنا لنڈ ڈالا مجھے اپنی باہون کی سخت گرفت میں دبا کر زور دار انداز سے لنڈ کو چوت کےاندر باہرکرتے ہوئےمجھے چودنے لگ گیا۔
        بھیانے تقریبا 15 منٹ تک میری چوت کو أپنے بڑے لنڈ سے وحشیانہ انداز سےچودا. مزے سے بے قابو ہوتے ہوئے مین نے ذوہبی بھیا کی پیٹھ میں اپنے ناخن دبانے شروع کر دیے. بھیا کی بڑے لنڈ کی مست چودائی نےمجھے لطف و مزے سے پاگل کر دیا۔ اور میں شہوت اور مستی سے مچلتی.اپنے ہونٹ کاٹنے لگی .۔
        میں ذوہبھ بھیا سے یوں ہی چودتے ہوئے بیڈ کے بڑے تکیہ سے سر کو نیچے کی جانب جھکانے کی کی کوشش کرنے لگی کہ بھیانے مجھ پر جھک کرمیری زبان چوستے ہوئے میرے نازک بدن کو ہاتھون میں پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بیڈ کیساتھ پڑے صوفے پرمجھے لے گئے۔
        اور اب میری حالت کوچھ یون ہو چکی تھی میری ٹانگیں تو صوفے کی سائیڈ سے نیچے لٹک رہی تھیں مگر میری پشت صوفےکے اوپر دراز ھوچکی تھی ۔
        ذوہبی بھیا مجھ پر جھکا ابھی تک دھنا دھن اپنے لمبے موٹے لوڑے سےمجھے چودتے ہوئیے ساتھ ساتھ میرے پنکھڑیون جیئسے لبوں سے کھیل رہا تھا أدھے گھنٹے کی لگا تار ذوہبی بھیا کی چودائی سے میری چوت تین سے چار بار أپنی رسیلی ملائی چھوڑ چکی تھی۔
        مین زندگی کی أپنی پہلی چودائی اور وہ بھی ذوہیب بھیا کے بڑے لوڑے سے ہونے اور ساتھ بار بار فارغ ہونےکے باعث میرا نازک کومل بدن اور چوت درد وتکلیف سے بے حال اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو چکی تھی۔
        مین نے بھیا کے ہونٹ چومتے ذوہبی سے کہا پلیزز أب مجھے چودنا بس کرین اور مریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کوچھ اس بیچاری کا بھی خیال کرین جو آپنی دہکتی جوانی اور بہکتے شباب کے ہاتھون کتنی خوار ہو رہی ھے۔
        اس طرح ذوہبی بھیا نے مجھے چھوڑا اوراب وہ مریم کے چمکتے دمکتے بدن پر جا لیٹا اور بھیاکا مست لمبا اور میری چوت کی ملائی سے گیلا لوڑا مر یم کی سلگتی پُھدی پر مچل مچل کر اس سے ٹکرا رہا تھا ۔
        دھواں دھار چودائی ہونےسے میری چوت زخمی ہونے کیساتھ سوجن ہونے کے باعث ائیسے لگ رہی تھی جیئسے کسی غبارے مین ہوا بھری ھو۔
        ​​​​​​​ ۔ میرا خیال تھا کہ بھیا کا لنڈ میری چوت سے نکلنے کے بعد مین فورأ سو جاؤں گی مگر ذوہبی بھیا اور مریم کے مست نظارے نے میری أنکھون کو بند ہونے روک دیا۔ اب مین بے حس وحرکت بیہوشی کی ماند صوفے سے ٹیک لگائے أپنے سامنے ہونیوالا مریم اور ذوہیب بھیا کا لائیو سیکس دیکھنے لگئی۔
        بھیا ابھی تک مریم کے ہونٹوں سے ھی اپنا دل بہلا رہا تھا ۔ مریم نے اپنا ہاتھ بڑھا کر بھیا کےنیچے سے لنڈ کیساتھ کھیلنےکی کوشش کرنے لگی اور پھرتھوڑی دیر لنڈ کو مسلنے کے بعد اس نے بھیا کا دا ئیں ہاتھ پکڑ کر ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت کے پر رکھ دیا۔ذوہبی کی شاید سمجھ میں آگیا تھا کہ مریم اب کیا چاھتی ھے۔
        اس نے اپنے دونوں ہاتھوں مریم کی چوت اور گدرائی گانڈ پر پہنچا دئیے مگر ذوہبی نے ساتھ مریم کے ہونٹوں کو اپنےہونٹوں میں دبائے رکھا تھا ۔
        اب بھیا کا لمبا تگڑالوڑا ڈائریکٹ مریم کی گیل چوت سے مس ہورہا تھا اور مریم کے تھرکتے کانپتے بدن کی وجہ سے وہ بھی ملائم رانوں اور چوت پر ادھر أدھر کبڈی کبڈی کھیل رہا تھا ۔
        جس سے مریم کی بے قراری بڑھ رہی تھی وہ لوڑے کو اسی طرح أپنی چو ت میں لینے کی کو شش کر رہی تھای مگر لوڑا چوت سے پھسل جاتا ذوہبی بھیا کےلوڑےکا ٹوپا اتنا موٹا تھا جب تک اس کو چوت پر رکھ کر زور سے دبا کرآگے نہ کیا جاتا وہ اندر جانے سے قاصر تھا ۔
        مجھے مریم کو خوار ہوتا دیکھ کر بڑا مزہ آرہا تھا جب لوڑا چوت سے ٹکراتا اور پھسل کر چوت کے دانے کو مسلتا ہوا اسکی ناف کی جانب سرکتا ۔تو دیکھ کر ھی لطف و مزے سےمیں نہال ہوجاتی۔
        آخر ذوہبی بھیا نے ھی لوڑے کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اور مریم کی چوت کے ہونٹوں پر رگڑنے لگے ۔ چوت تو لوڑے کے استقبال کے لئے آپنے ھی پانی مین بھیگ بھیگ کر نہجانے کب سے تیار تھی اور اسے اندر لینے کے بے تاب تھی ۔ مریم کی چوت کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے وہ اتنے بڑے موٹے ذوہبی بھیا کے لوڑے کا چیلنج قبول کرچکی تھی ۔
        بھیانے اب لوڑے کو پکڑ کر چوت پر رگڑنا اور پھسلانا شروع کردیا کبھی اوپر سے کبھی چوت دانے سے نیچے چکنی گیلی گلی تک ۔ ذوہبی بھیا اب تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور اپنی ٹانگوں کو کھولا ۔
        جسے دیکھ کر مجھے بھی اندازہ ہو گیا کہ بھیا أب آپنے لوڑے کو مریم کی چوت میں ڈالنے کی تیاری کر رہا ہےاور لوڑا کا نشانہ چوت کے ہونٹون مین فکس کر رہا ہے
        بھیانے مریم کی چُوت کے لب کھول کے لوڑے کے ٹوپے کو وہاں مسلنا شروع کر دیا مریم کی چوت بھی اس خوبصورت شاندار مہمان کے استقبال کے لئے گرم ہو کرمکمل تیار تھی ۔
        بھیانے مریم کے ہونٹ آذاد کئے اورمیری آنکھوں میں دیکھنے لگا جیسے مجھ سے مریم کو چودنے کی اجازت مانگ رہا ہو۔
        میں نے شرمیلے انداز سے مسکراتے ہوئے بھیا کو مریم کی چودائی کیے لئے أپنی رضامندی دے ڈالی اور بھیانے اسی پل ایک ہی جھٹکا سے لوڑے کو مریم کی چوت کی گہرائی تک پہنچا دیا ۔
        ظالم ذوہیب بھیا نے
        نے بنا کسی تردد کے ایسی مستی دکھائی کہ میری چوت کیطرح ھی مریم کی کنواری چوت کے بھی بخیئے ادھیڑ دیئے۔ درد کی لہر مریم نے اپنی کمر تک محسوس کی اگر اسکے لب ذوہبی بھیا نے اپنے منہ میں نہ دبا رکھے ہوتے تومریم کی چیخ کی آواز سارے کمرے مین گونج اٹھتی۔
        ۔ مریم نے تکلیف کے باعث جلدی سے بھیاکے چوتڑوں کو مظبوطی سے پکڑ لیا کہ کہین بھیا پھر دھکا لگانے کے لئے أپنے لوڑے کو نہ ہلائے ۔ وہ چاھتی تھی کہ پہلے بھیا کےلوڑے کو أپنی چوت میں مکمل ایڈجسٹ کرلوں ۔
        ذوہبی بھیا پہلے چوما چاٹی کے دوراں بہت سلو ٹائپ نظر آتا تھا اتنی بے دردی سے اس کی طرف سے اٹیک کرنے کا کوئی امکان نہ تھا۔
        مگر بھیا نے ایک منجھے ہوئے شکاری کی مانند شکار کے کمزور لمحات سے فائدہ أٹھایا تھا۔ درآصل ذوہبی بھیا چوت کی سیل کھولنے کے ماہر ہوچکے تھے۔ اب مریم نے بھیا کےنیچے سے اپنے چوتڑ تھوڑے آگے پیچھے کئے اور لوڑے کو أپنی خون ٹپکتی چوت کے اندرکچھ سٹ کیا ۔
        میں نے آپنی پتلی اور ایک انچ انگلی تک مریم کی چوت کو متعدد بار لطف اور مزا دلایا تھا ۔
        مگر ذوہبی بھیا کا یہ تین انچ سے زیادہ موٹا لوڑا اور اسکی اس سے بڑی ٹوپی کے ساتھ مریم کو آپنی چوت مین لینے کا حوصلہ بلکل نہیں تھا اور مجھے بھی ذوہبی بھیا کا لوڑا بغیر ناپ کئے اندازہ ہو رہا تھاتا کہ وہ نو انچ سے بھی زیادہ لمبا ہے ۔
        اب بھیانے مریم کے تیز تیز سانسون سے تھرکتے اسکے مموں کو پکڑ کردبانا شروع کردیا جو کہ نہجانے کب سے اپنے نظرانداز کئے جانے پر ذوہبی بھیا سے خاموشی کی ھی زبان سے شکواہ کناہ تھے۔
        بھیا اکا لوڑا مریم کی چوت چوت میں پھنسا ہوا تھا اور وہ مریم کے مموں کو دونؤن ہاتھون مین پکڑکرا سکے نپلز کو ہاتھ کی انگلیوں سے مسلنے لگا۔
        جسے دیکھ کر مزے کی شدت مین میری چوت میں ایکبار پھر سے چیونٹیاں سیرکتی ہوئین ساتھ کاٹ بھی رہی تھیں۔
        اور ادھرمریم اپنے بھاری گدیلےچوتڑ ہلا ہلاکربھیا کے لوڑے کو چوت مین ایڈجسٹ کرنے میں لگی ہوئی تھی ذوہبی بھیانے اچانک مریم کے بوبز کےنپل کو منہ میں لے کر چوستے ہوئے ساتھ زرا سا پیچھےہٹ کر ایک زور کا دھکا لگایا اور اسی وقت لوڑے کو پیچھے چوت کے منہ پر لا کر ایک زور دارجھٹکے کے ساتھ پھر چوت کے اندر داخل ہوا ۔
        اگرچہ بھیا کا حملہ شدید اور اچانک تھا مگر ایک طرح سے مریم کے حق مین اچھا ہی ہوگیا کہ اسکی چوت کی چُولیں کچھ ڈھیلی ہو گئیں اور لوڑے سے مکمل ملاپ کے قابل ہوگئی ۔
        اب مریم کو درد کے ساتھ اچھا بھی لگ رہا تھا اوراسکی چوت کی باچھیں خوشی سےکِھلنا شروع ہو گئیں کہ وہ اتنے بڑے أجگر سانپ کو اپنے اندر ہمت سےبرداشت کر رہی ہے۔
        اب ذوہیب بھیاباری باری اسکے مموں کو منہ میں لیتا اور ساتھ ہاتھوں سے دباتا اور اکا دکا گاہے بگاہے چوت کے اندردھکا بھی لگا دیتا۔
        جسے دیکھ دیکھ کرمجھے ذوہیب بھیا کے لوڑے پر بے تحاشا بہت پیار آرہا تھا یوں لگتا تھا میری چوت کی ساتھ ساتھ بھیا کے لوڑے نے مریم کی چوت کے وہ مسل بھی چھو لئے جن کو آج تک مین بھی چھو نہیں پائی تھی۔
        اب بھیا اپنے تگڑے لوڑے کو کبھی آہستہ اور کبھی زور
        کے دھکے کے ساتھ مریم کی چوت میں اندر باہر کرتا جا رہا تھا ۔ واقعی مین برہ أپی نے سہی کہا تھا کہ ذوہیب بھیا کو چوت چودنے کا فن اچھی طرح سے آتا ہے۔
        انہین آچھی طرح سے معلوم ہےکس وقت کس جگہ کو رگڑکے گذرنا ہے اور کس وقت کس ہدف کو چوٹ لگانی ہے ۔
        بھیا کو أچھی طرح سے اندازہ تھا ۔ اوروہ مریم کی طلب کو بھی سمجھ رہے تھےکہ مریم أپنی چوت کے جس حصہ کو کھجانے کی حاجت محسوس کرتی تو ۔
        ذوہیب بھیا وہی جگہ آپنے لن سے کھجارہا ہوتا مریم کا من کرتا کہ بھیاہٹ کے زرا زور سے جھٹکا لگائے ۔بھیا سی ٹائم ایسا ہی کرتا ۔
        مریم کی چوت اور کومل بدن کو مزے پے مزہ آرہا تھا یوں لگ رہا تھا کہ اسکی چوت کے سارے مسام حرکت مین ہیں اور آہستہ أہستہ رِس رہے ہیں۔
        مریم کی چوت کی تو آج لاٹری ھی نکل آئی تھی ۔ ذوہبی بھیا اب اسکے ممے منہ میں ڈالے چوپا لگا رہا تھا اور اب مریم نے أپنےے چوتڑ تھوڑے اٹھا کرو اپس پیچھے کھینچے اور پھر فورا آپنی ٹانگیں بھیا کی مظبوط کمر کے آس پاس کرتے ہوئے زور سے کس دئین ۔
        اوربھیانے اپنے دونوں ہاتھوں کو مریم کے بازووں کے نیچےسے گذار کراسکے دونوں نازک شانوں کو سختی سی پکڑ لیا اورساتھ مریم کے ہونٹ چومنے لگا پھر نیچے جاتے گردن چومتے ہوئے پھر سے مموں کو منہ میں ڈال لیا ۔
        اس کے ساتھ ھی ذوہبی بھیا بڑے پیار سے ہولے ہولے دھکے لگانے لگا اور جس لوڑے سے مریم سٹارٹنگ مین ڈر رہی تھی اب وہ بڑی أسانی کے ساتھ چوت مین آگے پیچھے ہو رہا ۔
        بھیا کی مست چودائی دیکھ کر مجھے مزے کی لہر پر لہر آرہی تھی ۔مریم نے بھی اب بھیا
        ​​​​​کےدھکوں کا ساتھ دینے لگی اور ذوہبی کا لوڑا مریم کی چوت میں پھسلتا سرکتا چوت کی دعائیں لےرہا تھا ۔ ذوہبی کے دھکوں میں شدت أنے لگ گئی تھی ۔
        چونکہ ا س نے مریم کو شانوں سے پکڑ رکھا تھا اس لئے وہ بھیاکی گرفت مین جکڑی ہوئی بغیر کسی حرکت کے أپنی چوت کو اچھی طرح چُدا رہی تھی۔
        ذوہبی بھیا نے بیڈ کیساتھ سیدھا کھڑے ہو کرہو کر مریم کےے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر آسے اپنی طرف کھینچا اس طرح اسکی چوت اور بھیا کا لوڑا دونوں ھی کشتی کے پہلوانوں کی طرح پھر سے بالمقابل آگئے تھے ۔ مریم ابتک نہجانے کتنی بار اس مست چودائی سے بیڈ کی شیٹ پر خون کے ساتھ ساتھ رسیلی ملائی بھی گرا چکی تھی
        ذوہیب بھیااسکی ٹانگوں کے بیچ مین کھڑا
        ہوگیا اور مریم کی دونون ٹانگوں کو پکڑتے ہوئے بھیا نے أپنی کندھوں پر رکھ لیا ۔
        جسے دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ اب مریم کی خیر نہین ھے کیونکہ بھیا اب جم کے مریم کی چودائی کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔
        اب بھیا نے أپنے لوڑے کو مریم کی چوت کے دہانے پر رکھا اورمریم بھی ٹھٹکتی ہوئی سنبھل گئی کہ وہ بھی جان چکی تھی کی بھیااب پھر سے ایک ہی جھٹکے سے اندر کردے گا ۔
        مگر بھیا نے لوڑے کو چوت پر مسلنا شروع کر دیا اور مسلتے مسلتے لوڑے کا ٹوپا اندر کر دیتا اور باہر کھینچ کر پھر سے چوت کولوڑامساج شرو ع کردیتا ۔ ذوہیب بھیا کافی دیربڑے اطمینان اور آرام سے اپنے اسی شغل میں لگارہا اور مریم مزے کے دھارے میں بہتی رہی پھر ذوہبی نے مریم کی ٹانگوں کو شانوں سے اتار دیا ۔
        مریم کے پاؤں بیڈ سے لٹگتے ہوئے اب فرش کے اوپر بچھے کارپیٹ پر تھے اور ذوہیب نے اسکی ٹانگوں کے بیچ کھڑے ہو کر اس کی چوت میں ہولے ہولے لوڑا داخل کرنا شروع کیا اور بھیا لن کو کچھ چوت کےاندر ڈال کے رک گیا اور مریم کی چوت کے دانے کو انگھوٹھے سے مسلنے لگا۔
        اس شہوت بھرے منظر کو دیکھ کر ھی میں تو نہجانے کہاں پہنچ گئی تھی ایک سرور کی وادی تھی جس میں مین مزے سے نڈھال ہوتی ہوئی ڈگمگا رہی تھی دیکھتے سوچتے میری چوت ایکبار پھرے سے گھبراتی ہوئی پیار کا امرت رس پھینکنے لگی۔
        ادھر مریم کی چوت نے بھی سکڑ کر بھیا کے لوڑے کو مظبوطی سے بھینچنا شروع کردیا جیسے جیسے بھیا مساج کرتا رہا اسکی چوت کے مسل ذوہبی کے لوڑے کو زور سے جپھی ڈالتے رہے۔
        بھیابھی مریم کی چوت کی اس کیفیت سے محظور ہو رہا تھا اورمریم بھی خوش تھی کہ ذوہیب اسے نازک بدن سے مکمل مزہ لے رہا ہے ۔
        ذوہبی نے دونوں ہاتھوں سے مریم کے مموں کو پکڑا اور اچانک ہی پورا لوڑا اندر کردیا اس بار مریم کو زیادہ تکلیف نہیں ہوئی بلکہ جب بھیا نے چوٹ لگائی تو اسےمزا دوگنا آیا۔
        ذوہبی بھیا نے ہولے ہولے دھکے لگانے شروع کر دئیے اور اسے چوت کے اندر اٹھتی لہروں سے مزے پے مزا انے لگا ۔ مریم بھی نیچے سے چوتڑ ہلا کر بھیا کو جواب دینے لگی جس سے ذوہیب کو اور جوش آیا اور وہ مست ہوکر جوش سے زور زور سے دھکے لگانے لگا ۔
        مریم کی چوت کے سارے چُول ڈھیلے ہو چکے تھے اس میں اتنا پانی رِس چکا تھا کہ اب لوڑا کے کسی دھکے کا کوئی خوف نہ تھا بلکہ اب چوت زیادہ زور کی رگڑ کی خواہشمند تھی۔
        ذوہیب کے دھکوں سے اسکی اب ہر سانس کے ساتھ لذت بھری آہیں نکلتی بھیا کا ہر دھکا ہی مریم کو زیادہ مزیدار لگتا کہ بھیانے پھر سے مریم کےبازووں کے نیچے سے اسکے شانوں کو ھاتھوں میں پکڑا اور چھوٹے مگر بڑی شدت کے ساتھ دھکے لگانے شروع کر دئیے ۔
        ذوہبی بھیاکی سپیڈ کے بڑھنے سے چوت کو زور سے رگڑا لگنے سے مریم کو سواد چوکھا آرہا تھا ۔ مریم کی چوت کی تو آج لاٹر ی نکل آئی تھی کئی بار ڈھیلی اور کئی بار پھر تیار ہونے کی وجہ سےوہ اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوتی رہی اور اپنی طرف سےاس نے بھی لوڑے کو بڑی گرمجوشی دکھائی تھی ۔
        لوڑے کی تیز رفتاری کا ساتھ دینے کی کوشش میں چوت کچھ زیادہ ہی ایکٹیو ہونے لگی تو ایک دو بار لوڑا چوت کے باہر نکل آیا کیونکہ جب لوڑا چوت کے منہ پر تھا تو چوت نے آگے ہونے کی بجائے پیچھے ہٹ کر آگے ہوئی۔
        اور اتنے میں لوڑا باہر نکل کے چوت دانے کو رگڑتا آگے پھسل گیا جس کی وجہ سےچوت کی جلد چھل گئی اور لوڑا واپس ہٹ کر چوٹ لگانے لگا تو مریم نے جلدی سے لوڑے کو ہاتھ سے پکڑ کر أسے اندر داخل ہونے کی راہ دکھائی ۔ اب بھیا نے تو مریم کو اپنے ہاتھوں میں جکڑ رکھا تھا اس کے ہونٹ مریم کے نپلز چوسنے میں مگن تھے ذوہبی بھیا کا لوڑا شاہد أفریدی کی طرح کبھی بہت تیزی دکھاتا تو کبھی آہستہ خرامی سے چوت کو چھیڑتا ۔
        مریم کا ایک ہاتھ بھیاکے بالوں میں پھررہا تھا اور دوسرا ہاتھا ن کی پیٹھ کو سہلا رہا تھا ۔جسے دیکھ کرمجھے مریم اور بھیب دونؤن پر بے انتہا پیار رہا آرہا تھا ۔
        جس خوبی سے بھیا میری جان سے پیاری سہیلی کی چوت کی کھدائی کر رہا تھا۔بھیا کے اس پیار کے لئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھی ۔
        اب بھیا بہت زیادہ جارحانہ انداز میں دھکے لگانے لگا اور ان میں تیزی بھی آگئی تھی جسے دیکھ کر مین سمجھ گئ کہ ذوہیب بھیا اب دوسری بارآپنی منزل کے قریب پہنچ چکا تھا۔
        بھیا کی سانسیں کافی تیز ہو گئں اور مریم کی گردن پر جاتی محسوس ہو رہی تھیں مریم نے بھی آپنی ٹانگوں کو ذوہیب کی کمر کے گرد کس لیا اور اپنے بازو بھیا کی کمر کے گردرکھ کر اور ذوہیب کو زور سے بھینچنے لگی بھیا بھی اب زور لگاتے ہو ئے ہانپنے لگا تھا۔
        اور اس خنکی میں بھی پسینہ انکے سارے جسم پر نمودار ہو چکا تھا میرے ساتھ مریم بھی کب کی کئی بار آپنی منزل پاچکی تھی مگر بھیا کو مزہ کی انتہائی بلندی پر دیکھتے مریم کا لاوہ ایک بارپھر سے أبل ٹھا اور ذوہبی بھیانے آخری دو چار جھٹکوں میں اسے رگڑ کر رکھ دیا اور آخری دھکا مار کر وہ مریم پر گرتا چلا گیا اس کے ساتھ ہی اس کے گرم مادہ کا ایک سیلاب مریم کی چوت کے کونے کونے مین فوارے کی مانند بکھرنے لگا۔ساتھ ہی میری أنکھین سرور اور مستی سے بند ہونے لگئین اور مین سہانے خوابون مین ڈوپتی چلی گئی۔
        اب ذوہیب بھیا اور مریم کی چودائی کی باقی سرگزشت مریم کی زبانی۔۔
        ذوہیب کے لن کے مادے سے مجھے اپنی چوت مین ایک گونا گوں راحت کا احساس ہوا جیسے میری چوت کی ٹکور ہو گئی ہو میں نے ٹانگوں کو انکی کمر سے ہٹا لیا اور ذوہیب کی کمر پر اپنے ہاتھوں سے مساج کرنے لگی ۔ ہاتھ پھیرنے لگی اور ساتھ ساتھ اس کو چومنے لگی۔
        ذوہیب میری جان کی سانسیں ابھی تک بے ترتیب تھیں ۔ اس کے ہاتھ ابھی تک میرے شانوں کو پکڑے ہوئے تھے۔اور انکالوڑا اپنی آخری حدوں کو چھو کر وہیں ٹک گیا تھا ۔
        اس کے چہرے کی بوسے لیتے ہوے میں نے ہاتھ سے ذوہیب کے بالوں میں کنگھی کی اس کے بال ایسے گیلے تھے جیسے وہ ابھی نہا کرآیا ہو اب ذوہیب نے بھی مجھے چومنا شروع کردیا میرےچہرے اور گردن پر ۔ ابھی تک اس کا لوڑا میری چوت میں تھا حیرت کی بات کہ ابھی تک اکڑا ہوا تھا ۔ آدمی جب ریلیز ہوتا ہے تو لن اسی وقت ڈھیلا ہو جاتا ہے مگران کا لوڑا پوری ایستادگی کے ساتھ کھڑامیری چوت کو محسوس ہو رہا تھا
        ذوہیب میرے اوپر سے پیچھے ہٹھا اور جب کھڑا ہونے لگا تو لوڑا بھی پھڑک کر چوت کے باہر آگیا وہ اپنے مادہ اور میرے رس سے لپٹا ہوا تھا ۔ ذوہیب نے بیڈ پر سے بانو کی پینٹی بور براء اٹھائی پہلے اپنا لوڑا سے میرا خون اور ملائی کے مکسچر کوصاف کیا اور پھر میری چوت کو بھی بہت محبت اور چاہت سے صاف کیا ۔
        خون اور رسیلا مواد بانو کی براء اور پینٹی نے اپنے اندر سمو لیا۔ مین بھی أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ میری بدن کی گرمی أج مکمل نکل چکی تھی اور اب کچھ شرم وحیا کیساتھ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی مگر ذوہیب کا لوڑا دیکھا تو حیران رہ گئی اور خود سے پوچھنے لگی ارے مریم تو نے واقعی مین أپنی کنواری چوت مین اتنا بڑا مونسٹر کو کیسے جھیل لیا ۔ وہ شیش ناگ دکھنے میں بھی بڑا پیارا لگ رہا بڑا کیوٹ ۔
        ذوہیب کے چودنے سے پہلے میں اور بانو نے أیئسے اجگر سانپون کو صرف مویز مین ھی دیکھا تھا۔ چھوئا اور پکڑا تو آج پہلی بار تھا مگر ۔ اب جو بدن کی گرمی نکلنے کے بعد پوری تسلی سے دیکھا تو اتنا پیارا لگا کہ دوبا را اس سے چود انےکے لئے چوت ہمک ہمک کر تیار ہو گئی ۔
        بالکل سیدھا لمبا لال سرخ رنگ کا ایک موٹا تازہ لوڑا جو ہر عورت کا ھی خواب ہوتا ہے ۔ میرا دل کر رہا تھا میں اسے چومتی ھی رھوں وہ پیارا ہی اتنا تھا اور بڑی بات ابھی تک وہ سر اٹھائے کھڑا تھا ۔
        میں نے لوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ذوہیب میرے ساتھ آ کر بیڈ پر ہی لیٹ گیا اور میرے گلے میں بازو ڈال کر میرا چہرہ اپنی طرف کر کے میرے لبوں کو چومنے لگا میں نے لوڑے کو ہاتھ میں لیا اور اسے مُسلنے لگی۔
        ذوہیب کے ہاتھ میرے مموں سے کھیل رہے تھے اور وہ دیوانہ وار مجھے چومےجا رہا تھا ۔ صاف ظاہر تھا وہ مجھے دوسری بار کے لئے تیار کر رہا تھا ۔ جب کہ میں تو پہلے ہی موڈ بنا بیٹھی تھی ۔
        اب میرا دل چاہا لوڑے کو پیار کروں تو میں نے جلدی سے سر نیچے کرکے اسے چوم لیا اور پھربار بار چومنےگی تو ذوہیب نے مجھے بالوں سے پکڑ کےمیرا چہرہ اوپر اٹھا کے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دئے ۔ میں ہاتھ میں اس کے پیارے لوڑے کو لئے ہوئے تھی اور سوچ رہی یہ مرجھایا نہیں حالانکہ اس بیڈ پر یہ بانو اور میری جوت مین دوبار منی نکال چکا تھا اور اسےکچھ ریسٹ تو کرنی تھی مگر وہ کھڑا تھا اور چودنے کے لئے تیار تھا۔
        ادھر میری چوت چودوانے کے لئے بیقرار ہو رہی تھی مجھے اچانک ایک خیال آیا تو میں ذوہیب کی طرف دیکھنے لگی کہ اتنے بڑے موٹے لوڑے کے مالک کی اس وقت کیا کیفیت ہے ۔
        بہت ہی کم مرد اس قابل ہوتے ہیں ایک ہی ایرکسن میں دو بار ریلیز ہوں ہم عورتیں زیادہ بار ، بار آور ہوتی ہیں مگر اس نعمت سے سو میں سے کوئی ایک مرد ہی مالا مال ہوتا ہے ۔ یہ پڑھ بھی رکھا تھا ۔ بانو اورمین اس پر کئی باربحث بی کرتیں کہ جس کا خاوند یا یار دوبارایک ہی ہوشیاری میں ریلیز ہوتا ہے تو وہ واقعی خوش نصیب ہوتی ہیں ۔
        دل چاہا ذوہیب سے پوچھ لوں مگر ابھی مجھے بہت شرم آرہی تھی۔ اور مین گندی اور سیکسی بات مین میں ذوہیب سے پہل نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
        اور اب میں ذوہیب سے دوبارا چودوانا چاہتی تھی ادھر مجھےڈر تھا کہ کہیں بانو اٹھ کر دوبارہ سے شروع ہی نہ ھو جائے وہ کمینی مجہھسے کہین زیادہ گرم تھی۔
        ذوہیب کو ہمارے گھر آئے تقریبا چار گھنٹے ہونے والے تھے اور وہ کسی ٹائیم واپسی کیلئے کہ سکتا تھا ۔
        اسلئے میں أٹھ کھڑی ہوئی ذوہیب کی گود میں اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی میں لوڑے کےاوپر بیٹھنا چا رہی تھی مشکل تو تھا مگر میں ان کی مدد سے لوڑے کو اندر لینے میں کامیاب ہو گئی ۔
        لوڑا زبردستی چوت کے اندر پھنس گیا تھا اب مسلہ یہ ہوا کہ میں ہلوں کیسے پہلے تو میں نے دونوں ہاتھ ذوہیب کے گھٹنوں پر ٹکا کر اوپر نیچے ہونے کی کوشش کی مگر وہ نہ ہو سکا پھر اس کی رانوں پر ہاتھ جما کر میں اوپر نیچے ہونے لگی۔
        تو اب میں اچھل کود کرنے لگی مگر ذوہیب کی رانوں پر زور پڑ رہا تھا میرا خیال بنا کہ کیوں نہ اس کی طرف رخ کر کے اس کی گود میں دونوں ٹانگیں بیڈ کےاو پر رکھ کر بیٹھ جاؤں اس طرح ذوہیب مجھے چوم بھی سکے گا اور مین بھی اپنی مرضی سے ہل جُل بھی سکونگی۔
        مجھے یہ گیم اپنے کنٹرول میں لے کر کھیلنےکا بہت شوق تھا ۔ اس سے پہلے کہ میں ایسا کرتی ذوہیب نے مجھے ٹانگوں کے نیچے ہاتھ ڈال کے اس طرح اٹھایا کہ اس کا لوڑا میری پھدی کے اندر ہی رہا اور اس نے مجھے بیڈ پرتکیون کی طرف رخ کرکے بینڈ کر دیا اور میں نے اپنے ہاتھ بیڈ کے اوپر رکھ کےگھوڑی بن گئی اس کو ڈوگی اسٹائل بھی بولتے ہیں۔
        جوکہ مجھےلگا ذوہیب کا پسندیدہ اسٹائلز میں سے ایک ہے ۔ مگر یہ گھوڑی سٹائل ہی تھا اب اس نے میرے کولہوں پر ہاتھ رکھے میری پوزیشن درست کروأئی اور لوڑے کو آہستہ آہستہ دھکے لگانے لگا میری ٹانگیں کیونکہ اس کی ٹانگوں کے درمیان آگئی تھیں۔
        اس طرح میری چوت زرا تنگ ہو گئی اور ذوہیب کا لوڑا بھی پورا اندر تک مار نہیں کررہا تھا میں نے ٹانگوں کو چوڑا کیا اور پھیلایا تو وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اس طرح اب میرے کولہے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ رہے اورچوت کے لب بھی مزید کھل گئے ۔
        اب ذوہیب اپنی مرضی سے دھکے لگا سکتا تھا اس نے ایک ہاتھ میری کمر کی طرف سے ڈال کے میری چوت کے دانے کو مسلنا شروع کر دیا اور دھکے لگانے لگا ۔ وہ بڑے ارام سے چودائی کر رہا تھا کبھی کبھی زور کا جھٹکا لگاتا تو میری کمر میں بل ا جاتا میں پوری طرح لطف اندوزہو رہی تھی اس کے چودنے کا انداز مثالی تھا اور میرا لاوا پھر ابل رہا تھا ۔
        ذوہیب میرے مموں کو ہاتھ میں لے کر دھکے پے دھکا لگا رہا تھا میرا دل کر رہا تھا کہ وہ مجھے چُومے میں نے سر پیچھے موڑ کر منہ اس کی طرف کیا ۔
        تو ذوہیب نے اگے ہو کے میرے ہونٹ چوم لئے میں پھر آگئی تھی اور اس کو بھی میرے کانپنے اور چوت کے بھینچنے سے اس کا احساس ہو گیا تھا ذوہیب نے ہاتھ لگا کر چوت کے دانے کو چھوا تومیری سسکی نکل گئی۔
        اب میں تھوڑی سی اٹھ کر کھڑی ہوئی یعنی بیڈ سے ہاتھ ہٹا کر تھوڑی سی اوپرہوئی تو لوڑا مزید گہرائی تک جانے لگا جس سے مزہ دوبالا ہو گیا اور ذوہیب کو دھکے لگانے میں اسانی ہوگئی ۔
        ہم جس پوزیشن میں تھے اس سے ہم دونو ں کی پیٹھ بانوکی طرف تھی اور آگر وہ أٹھ جاتی تو مجھےمعلوم نہ ہو پاتا مگر کیا کرتی ہم مزہ لینے اوردینے میں لگے ہوئے تھے اور اس کو ادھورا چھوڑنا میرے لئے ناممکن تھا ذوہیب اب میری پیٹھ بھی چومتااور دھکے بھی زور سے لگاتا میرے مموں کو بھی دبا لیتا اور چوت کے دانےکو مسل لیتا اور میری پیٹھ کو سہلا بھی لیتا ۔
        آستہ آہستہ اس کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی اور جس طرح وہ واہلانہ میری پیٹھ کو چوم رہا تھا وہ آنے کے قریب تھا اب تھوڑا نیچے ہو کے دھکے مار رہا تھا میری چوت کا رس اسکےلوڑے کو بھگو رہا تھا میری اور اس کی سانسیں بے ترتیب ہوچکی تھیں اس کی گرفت میری کمر پر سخت ہوتی گئی او اس کے جھٹکے مجھے مزہ کے نئے راستے دکھا رہے تھے۔
        آج اس کے لوڑے نے میری چوت کی ان جگہوں کو بھی چھوا ڈالا جن کے بارے مین مین پہلے صرف خواب ھی دیکھا کرتی تھی۔ ۔ ایسا لگتاتھا چوت کے مسام رِس رہے ہیں مزا کی بارش ہو رہی ہے ۔ آج چوت کے کچھ ایسے پرت بھی برتے گئے جن کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا تھا ۔
        ذوہیب نے چند جھٹکے اتنی زور سے لگائے کہ میں اس کو دل ہی دل میں دعائیں دینے لگی کہ ظالم نے کہاں پہنچادیا تھا مزہ کی آخری سرحد کو چھو چکی اور اب چوت لوڑےکی اور مساج کے قابل نہ تھی ۔ اس نے دھکا زور سے لگایا اس کے ساتھ ہی اس کی آواز بھی اونچی نکلی اور وہ اپنی لذت بھرے لمحات میں اپنی آہ اور واہ کو دبا
        نہ
        سکا اور میں خوش ہوئی کہ میری وجہ سے ذوہیب کو اتنا لطف آیا اس کی آہ اور واہ میں میں نے بھی پانی چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو اس کے حوالےکردیا جیسےکہ مجھ میں جان نہ رہی ہو اس نے مجھے سنبھالا اور گلے سے لگا لیا ۔
        اس بار بھی ا س کا پرنالہ پھر کافی سے زیادہ چوت کے اندر گرا مگر اب چوت سے باھر رس کر میری ٹانگوں کو بھگو گیا میں ذوہیب کی جانب مُڑ کر اس کے گلے لگ گئی کچھ دیر یوں ہی ایک دوسرے کے لپیٹ کر گلے لگے رہے۔
        پھر جا کر مجھے خیال آیا کہ مووی ختم نہ ہو گئی ہو تو میں شلوار پینٹی کو اٹھا کر پہننے کے لئے جھکی تو دیکھا لوڑا مہاراج سر جھکائے لٹک رہے ہیں ۔
        میں نے جھکتےجھکتے اسے ایک بوسہ دیا تو ذوہیب ایک طرف ہوکے اپنے پاؤں میں پڑیےہوئے اپنے کپڑے اٹھا کر انہین پہننے لگ پڑا ۔
        ذوہیب کپڑے پہننے کے بعد آپنے گھر چلا گیا اور مین بھی بیڈ پر گرتے ہی سو گئی۔
        صبح بانو کی چہکتی ہوئی آواز سے میری آنکھ کھلی۔بانو کہ رہی تھی ہاں ہاں برہ آپی مین سچ کہ رہی ہوں مجھے ذوہیب بھا ئی مل چکے ھین۔
        جاری ھے​​​​​​​​​​​​۔
        Vist My Thread View My Posts
        you will never a disappointed

        Comment


        • #14
          ۔۔نیو اپڈیٹ۔
          ​​
          دوسرے دن شام آٹھ بجے تک ذوہیب کا انتظار کرتے کرتے تنگ آ کر بانو پھر سے اس کے گھر پہنچ گئی۔
          اسنےوہاں ذوہیب کے بیڈروم مین دیکھا کہ سحر کے پاس عارفین پہلے ہی وہاں موجود تھی اور ڈرنکس لے رہی تھیں۔ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا۔
          بانو کو مریم کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں تھا وہ صبح سے أپنی ایک کزن ڈاکٹر راحیلہ سے ذوہیب کی دماغی حالت موجودہ کنڈیشن یاداشت کے گم ہونے وغیرہ کا ڈسکس کرنے گئی تھی۔
          راحیلہ کے گھر پر فون کرنے پر معلوم ہوا کہ مریم تو وہان سےکب کی واپسی کیلیے نکل چکی ہے۔ اب بانو اس کو دل ہی دل مین خوب کوس رہی تھی۔ عارفین نے اٹھ کر بانو کو بھی ڈرنکس دی۔اس نے ابھی چند سپ ھی لیے تھے کہ ذوہیب بھی گھر پہنچ گیا۔
          اس نے بھی گلاس میں ہلکی سی ڈرنک لی اور بانو کیساتھ صوفے پر بیٹھ کرآہستہ آہستہ پینے لگا .چند لحمون بعدبیڈ کی طرف جاتی عارفین کی پیٹھ اور گدازکولہوں پر ذوہیب نے ہلکا سا ہاتھ مارا۔
          " کیا ہوا بھیا؟۔
          کیا تم نے میری معصوم گانڈ کو سبق سکھانے کا اب من بنایا لیا ہے کیا؟۔عارفین نے سوال کیا۔
          بانو کی موجودگی مین اتنا ڈائریکٹ جواب سن کرتو ایک بار ذوہیب پہلے جھینپ گیا۔ پر جلدھی آپنی ازلی ہمت جٹا کر کہا کہا کہ’’ صرف تمہاری گانڈ کو ہی نہیں، میں تو تمسب کو از سرے نو ۔ایک نئی ٹریٹ دینے کےلئے گھر آیا ہوں۔ "
          جانو’’بس پھر دیر کس بات کی جلدی سے أ جاؤ نا ‘‘، سحرنے لقمہ دیا اور بیڈ پر بیٹھے بیٹھے ذوہیب کیلیے بڑی چاہت سے أپنے باہین کھول ڈالین۔
          ذوہیب نے ڈرنک میز پر رکھی اورفریش ہونے کا بول کر باتھ روم چلا گیا۔اسنے ایک بار پھراچھی طرح شاور لیا اور بس ایک تولیہ نیچے لپیٹ کر باہر نکلا۔
          اسکی غیر موجودگی مین بیڈروم کے مریم پہنچ چکی تھی۔
          ذوہیب نے واش روم سے باہر آتے ھی دیکھا کہ سحراور عارفین بیڈپر چھ اور نو کی پوزیشن بنائے ہوئی ایک دوسرے کی چوت کو چاٹ رہی ہیں اور ساتھ انگلی کو بھی چوت مین اندر باہر کر رہی ہیں۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی کھیل شروع ہو جائیگا۔ سحرکی گانڈ بیڈ کے ایج پر تھی اور نیچے سے اسکی چوت کو عارفین چاٹ رہی تھی۔
          کمرے مین موجود چاروں لڑکیاں ھی اسکا انتظار کرتے کرتےکپڑوں سے بے نیاز ھو چکی تھیں۔
          مریم اور بانونے ذوہیب کے ہاتھ سے تولیہ لیکر دور پھینک دیا اور ایستادہ لنڈ کو ہاتھ میں لیکر باری باری چوسنا شروع کر دیا۔ کبھی وہ دونوں اپنی زبانیں نکا ل لنڈ کو اوپر سے نیچے تک پھیر کر جیسےبرش کرتی تھیں، پھر دنوں ایک دوسرے کی زبانوں کو چوستی تھیں۔ اسکے لنڈ کے ننھے سوراخ سے جوںہی رطوبت کا قطرہ نمودار ہوتا تھا، وہ اسکو زبان پر لینے کےلئےریسلنگ کرتی تھیں۔ ذوہیب کا پورا لنڈ ان کے تھوک اور مذی سے لتھڑا ہوا تھا۔
          ایک بار جب بانواسکے لنڈ کی نوک سے مذی کو زبان کی نوک پر لینے میں کامیاب ہوئی، تو مریم کو چڑانے کےلئے زبان باہر نکال کر چڑانے لگی۔ زبان کی نوک پر میری مذی تارکی طرح لگی ہوئی تھی اور اسکا ایک سرا ذوہیب کے تمبو کے سوراخ سے ابھی جڑا تھا۔
          مریم نے اسکے لنڈ کو چھوڑ کر بانو پر چڑھائی کی اور اسکی پوری زبان کو تقریبا نگل کر اسکو چوسنے لگی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے آوپر ریسلنگ کرتے ہوئے آگئین۔
          دوستوایک بات پھر سے بتا تاجاوٗں، جس کا أپ لوگون کو پہلے سے ادراک ہوا ور جانکاری ھےکہ ذوہیب کوفارغ ہونے میں کافی ٹائم لگتا ہے۔ سحر سےشادی کے بعد تو رات ، رات بھر اس نے سیکس کیا ہے اور پھر کہین جاکرصبح فارغ ہوتا ہے۔
          ذوہیب نے ان دو لڑکیوں بانو اور مریم کو لڑتے ہوئے اور ایک دوسرے کے مزے لوٹنے کےلئے چھوڑ کرسحر اور عارفین کی طرف متوجہ ہوگیا۔
          وہ دونوں ایک دوسرے کو شدت سے چومنے اور چاٹنے میں مصروف تھیں۔ سحر کی گانڈ بیڈ کے کنارےسے دعوت دے رہی تھی۔ ذوہیب نے بھی اسکی گانڈ کو تھوڑا اوپر کرکے عارفین کے منہ سے آزاد کرالیا اور انگلی سے اسکی چوت کا جائزہ لینے لگا۔ اسکی چھوٹی چوت کے لب ذوہیب کی چودائی کے باعث کافی موٹے ھو چکےتھے۔
          اور اسکو عارفین کے تھوک نے کافی گیلا کر دیا تھا۔ چوت سے بھی رطوبت خارج ہو رہی تھی۔اسکی چوت عارفین کے منہ سے اوپر ہوگئی۔ اب عارفین نے ذوہیب کے لنڈ کو منہ میں لیکر چوسا۔ مگر ڈوہیب کو اب چوت کی اشد ضرورت محسوس ھو رھی تھی۔
          اسلئے اس نے لنڈ کو عارفین کے منہ سے الگ کرکے سحرکے چوت کے سوراخ پر فٹ کردیا۔ جس مین عارفین نے لنڈ کو سحر کی چوت کےسوراخ پر فٹ کرنے میں مدد دی۔ کیونکہ وہ نیچے سے یہ ساری کاروائئ دیکھ رہی تھی۔ وہ ساتھ ذوہیب کے ٹٹے سہلا رہی تھی اور انکو کس کرتےہوئے منہ میں لے رہی تھی۔
          سوراخ پر لنڈ کو فٹ کرکے ذوہیب نے ایک زور دار جھٹکہ دیکر پورا لنڈ ایک ہی باری میں چوت کی اندر کی تہہ تک پہنچادیا۔سحر کا منہ جو عارفین کی چوت پر فٹ تھا، اسنے زور کی چیخ ماری۔ ذوہیب تھوڑی دیر رک گیاْ۔
          مگر سحر نے اسے آواز دی، میرے حرامی، کتے سجنا ۔رک کیون گیے ھو، لنڈ اندر باہر کرو میری چوت کے۔۔۔۔یہ سحر کی خوشی کی چیخ تھی۔۔اسے بہت مزا آرہا تھااسے۔۔
          ذوہیب نے پہلے آہستہ اور پھر زور زور سے لنڈ اندر باہر کرنا شروع کردیا۔ بانو اور مریم بھی اب ذوہیب کے دونوں طرف کھڑی ہوکر دھنا ۔دھن چوت کے اندر لنڈ کا نظٓارہ دیکھ رہی تھی۔ اور ساتھ اسکے سینے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔
          مریم اور بانو باری باری آگے بڑھ کر ۔کبھی ذوہیب کی زبان چوس رہی تھین اور کبھی اپنی زبان اسکے منہ میں دے رہی تھین۔ اب پوزیشن یہ تھی، کہ ذوہیب کے لنڈ نے ڈوگی پوزیشن میں سحر کی چوت میں محشر برپا کیا ہوا تھا۔ نیچے سے عارفین اسکا بھر پور نظارہ کر رہی تھی۔ اور وہ ساتھ اسکے ٹٹوں کو زبان سے سہلا رہی تھی اور اسکی چوت کے اوپرسحر کا منہ تھا۔
          بانوذوہب کے دائیں طرف کھڑی تھی اور اسکی انگلیاں بانو کے نیچے اسکے شگاف کا طواف کر رہی تھیں اور اسکے دانہ کو سہلا رہی تھین اور بانوکے سوراخ سے رطوبت بائیں طرف کھڑی مریم کے منہ میں دے رہا تھا۔ جو اس جوس کو بری طرح چاٹ رہی تھی ۔
          سحر کے منہ سے آج شہوت اور مزے کے باعث پنجابی اور اردو گالیوں کا طوفان نکل رہا تھا۔ مادر چود، بہن چود۔۔مار سالے چود۔۔۔زور سے دھکا مار، حرامی ، بھوسڑی کے۔۔۔۔۔سحر بس فارغ ہونے کےلئے تیار تھی کہ ڈور بیل کی آواز آئی۔ عارفین نے لقمہ دیا کہ لگتا ھے میری آنٹی جگنی بھی آگئی ہے۔۔۔
          عارفین ھی تولیہ لپیٹ کر دروازہ کھولنے پہنچی۔۔۔اور یہاں بیڈ پر سحر نے واشگاف آواز میں زور دار آواز میں اوووو۔۔۔۔آااآاآااا۔۔ای ای ای۔ ہااااہاااا کرکے اپنے فارغ ہونے کا اعلان کر دیا۔۔۔
          سحر کی چوت بری طرح ایگزاسٹ ہوچکی تھی۔
          سحربیڈ پرمریم کے سامنےگر گئی۔ مشکل سے مریم نے اسکو اپنے سے تھوڑا الگ کیا اور اسکے پاس سے اٹھ کر ذوہیب کے ساتھ لپیٹ گئی۔
          اسی دوران عارفین ، جگنی کو لیکر اندر آئی اورآتے ہی جگنی نے اپنے کپٹرے اتار کر باتھ روم میں چلی گئی اور واپس آکر ذوہب کے لنڈ سے سحر کے چوت کے ٹپکتے ہوئے جوس کو زبان سے چوسنے لگی۔ ڈولی کے چوت سے نکلنے والے جوس سے اسکا لنڈ لتھڑا ہوا تھا۔ سحر جگنی أنٹی سےکہہ رہی تھی، کہ زاہد انکل کو بھی ساتھ لے آنا تھا
          جگنی انٹی کہنے لگین نہین ان کی طبعیت خراب ہے اور وہ گھر پر أرام کر رھے ھین۔
          آب عارفین بیڈ پر سحر کی جگہ پیٹ کے بل لیٹ گئی تھی اور ذوہیب سے کہا کہ اب اسکی باری ھے اس کی چوت کا تیا پاچہ ایک کردے۔ ذوہیب نے اسکو بیڈ کے سائیڈپر ہی رکھا، تاکہ چوت کا اچھی طرح معائنہ ہو۔ عارفین نے أپنی ٹانگیں اٹھا کر خود ہی ذوہیب کے شانوں پر رکھ دیں۔ وہ بیڈ کے ساتھ ھی کھڑا تھا۔ اس نے لنڈ سے عارفین کی چوت کے دانہ کو سہلایا اور پھر سوراخ پر رکھ کر ہلکا سا دباو بنا کر آہستہ آہستہ اسکی چوت کی وادیوں میں گھساتا گیا۔
          بانو اور مریم پہلے کی طرح ذوہیب کے عطراف کھڑی تھیں۔ سحرفارغ ہوکر دور صوفے پر بیٹھ کر اپنے لئے کوکٹل ڈرنک بنا رہی تھی۔
          عارفین کو چودتے ہوئے ذوہیب جگنی أنٹی کے فٹ بال جیسے بوبس سے کھیل رہا تھا اور نپلز منہ میں لیکر ان سے نکلنے والی رطوبت پی رہا تھا۔ جگنی نے عارفین کے بوبس پر شہدکے قطرے گرائے اور پھر کتیا کی طرح اسکو چاٹنے لگی۔
          کمرے مین شہوت کا بازار گرم ہو چکا تھا جیسے ایک چلتی پھرتی لائیو بلیو فلم چل رہی تھی۔
          ذوہیب کے تھرسٹ میں تیزی آرہی تھی اور عارفین بس فک، فک، فک می ہارڈ کے نعرے بلند کر رہی تھیَ اسی دوران اسنے زور سے آٓٓٓ ااااااا ہوووو اووووو اور پھر وہ اپنے ہونٹ بھینچ کر اور بیڈ کے شیٹ کو مسل کر اپنے آرگیزم کا اعلان کر کے بے حس ہوگئی۔ ۔۔۔۔
          جسے دیکھتے ہی مریم کی حیرانگی بھری آواز آئی۔ذوہیب۔۔’’او مین کیا تم ہیومن ہو؟۔
          ابھی تک قائم ہو۔ابھی تک ایستادہ ہو؟۔‘‘ سحر کمرے کے ایک کونے پر صوفے سے ہی بول اٹھی، کہ ذوہیب کے بعدانکل زاہد کا سٹیمنا اچھا تھا مگر اب تو وہ بھی مشکل سے ایک منٹ لگا کر پھر دوبارہ ایستادہ ہونےکا نام ہی نہیں لیتا ہے۔
          اب ذوہیب بھی پیٹھ کے بل بیڈ پر لیٹ گیا۔ اور مریم نے اس کے اوپر آکر اسکے اوپر ٹانگیں پھیلا کر کھڑےلنڈ کوچوت میں لے لیا۔ بانو نے اسی طرح ٹانگیں پھیلا کر اپنی چھوٹی چوت ذوہیب کے منہ پر فٹ کر دی۔ بانو اور مریم دونوں لڑکیاں آمنے سامنے تھیں۔ ایک کے اندر ذوہیب کا لنڈ تھا۔ دوسری کی چوت کے اندر اسکی زبان اسکے ٹشوز کو دریافت کر رہی تھی۔ ذوہیب کی زبان کسی کتے کی طرح باہر تھی اور بانو کی چوت کے ہونٹوں اور دانے کا مزا لے رہی تھی۔
          مریم کے بوبس چھوٹے ہی تھے، مگر اسکی باڈی بلکل ایشوریہ رائے جیسی تھی۔ اس کی باڈی بڑی مین ٹین تھی۔ وہ کمرے مین سب سے سلم اور نازک گڑیا سی دکھتی تھی۔
          بانوکی چوت ایک بند سیپی کے ماند چوت تھء۔ اسکے بھرے بھرے باہری اور اندرونی لب پورے شیپ میں تھے۔ اس کی چوت کا دانہ بھی بڑا تھا ایک طرح سے چھوٹے بچے کے بغیر ختنہ کی للی جیسا تھا۔ اسکو منہ میں لینے سے وہ سسکاری بھرتی تھی۔
          پچھلے چند سالوں میں، ذوہیب نے لاتعداد لڑکیوں کی چوت لی ہے، مگر اس طرح کا چوت اور کسی کی نہیں دیکھی ۔ اسکا دانہ لنڈ کی طرح استادہ تھا۔ اس کا ننھا سا سر ذوہیب کے منہ میں تھا۔ وہ وقفوں کے دوران اسکورٹنگ یعنی پانی کی پچکاری بھی چھوڑ رہی تھی، جو ذوہب کے چہرے کو بھگو رہا تھا۔
          دوسری طرف مریم اسکے لنڈ کے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ بڑی مشکل سے ذوہیب نے کنٹرول کر رکھا تھا۔ اس نے آپنی آنکھیں بند کر کے دماغ کو کہیں اور سوچنے پر لگادیا تھا۔ اور زور زور سے سانسیں لے رہا تھا۔ یہ ٹیکنیک اس نے پہلےکئی دفعہ آزمائی ہے۔ اس سے لنڈ کی استادگی برقرار رہتی ہے اور ٹائمنگ خاصی بڑھ جاتی ہے۔ ذوہیب نے اس تکنیک سے کئی لڑکیوں کو پانچ بار بھی آرگیزم دلوایا ہے۔
          دونوں لڑکیاں اب آرگیزم کے قریب تھیں۔ وہ دونوں آپس میں بھی کسنگ کر رہی تھیں۔ اور ایک دوسرے کے بوبس کو مساج کر رہی تھیں۔ وہ ایک دوسرے کی زبانیں اور نپلز چوس رہی تھیں۔۔ مریم ذوہیب کے لنڈ کے اوپر کسمسا رہی تھی۔ بانو کی چوت کے اندر اسکی زبان اندر باہر ہو رہی تھی۔
          اووووو ، ہووووووو، ھ ھھ ھھووووووووو ہہہہہہہہ جیسے مہمل آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔۔۔۔دونوں تقریبا ایک بڑی آہ کے ساتھ ایک ہی ساتھ فارغ ہوکر اسکے اوپر ہی گر گئیں۔
          صاف لگ رہا تھا وہ بانو کو الگ سے اکیلے ہی کسی ڈسٹربنس کے بغیر چودنا چاہتا ھے اسی لئے پہلے اسکو أپنی زبان سے ھی فارغ کردیا۔
          سامنے بغیر کسی شارٹ کے جگنی آنٹی کے ہلتے ہوئے فٹ بال جیسے بوبس کو دیکھ کر ذوہیب کی آہیں نکلنے لگی تھین۔۔
          باقی تینون لڑکیان اور جگنی آنٹی فارغ ہونے کے بعد ڈرائینگ روم میں ڈنر اور دودھ گرم کرنے چلی گئی تھیں اور وہاں ہی گپ شپ کر رہی تھیں۔ ذوہیب نے بانو کو گود میں لیکر بیڈ پر مشینری پوزیشن میں لٹا دیا۔ اور اسکے بوبس کو مسلنے اور چاٹنے لگا۔ اسنے لنڈ اسکے بوبس کے درمیان فٹ کیا اور اس کو رگڑنے لگا۔ ذوہیب کے لنڈکی کیپ اسکے بوبس کے درمیان گذر کراسکے ہونٹوں کو ٹچ کرتی تھی ۔بانو زبان نکال کر اسکے سوراخ کو چاٹتی تھی۔ کنٹرول کرنا اب نہایت ہی مشکل ہو رہا تھا۔ ذوہیب اپنے دماغ کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
          اسنے اسکے چوتڑوں کے نیچے تکیہ رکھ کر اسکے ٹانگوں کو پھیلا کر لنڈ اسکی چوت میں گھسا دیا۔
          بانوکی زبان اسکی زبان سے سے ٹچ ہو رہی تھی۔ ایک بار اسنے ذوہیب کی زبان کو اس زور سے چوسا کہ اسے وہ جڑ سے ہلتی محسوس ہوئی۔ بانوکے گلاب جیسے ہونٹوں کو ذوہیب چومتا ہواچوس رہا تھا۔بانو کے بوبس ذوہیب کے منہ میں آہی نہیں رہے تھے۔
          چند زوردار جھٹکوں کے بعد بانونے اسے زور سے بھینچ لیا اور اسکی ٹانگوں سے جوسز کا ایک سیلاب نکل رہا تھا۔ شڑپ شڑپ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ذوہیب کے لنڈ کے جوس اور اسکے چوت کا جوس خلط ملط ہوکر چوت کے اندر أبشار کی آوازیں نکال رہا تھا۔
          ذوہیب کے لنڈ پر اسکے چوت کا دباوٗ محسوس ہو رہا تھا ور اسکے ساتھ ہی وہ فارغ ہوگئی۔۔۔ذوہیب نے لنڈ نکال کر دوبارہ اسکے بوبس کے درمیاں فٹ کیا اور ایک دو جھٹکوں سے، ذوہیب کے بالز ٹائٹ ہونا شروع ہوگئے۔ منی نکلنے کے قریب تھی، کہ بانونے لنڈ منہ میں لے لیا اسنے ذوہیب کے چوتڑوں کو مضبوطی سے پکڑا کر منی کا آخری قطرہ منہ میں گرالیا۔ ۔
          جب لنڈ تھوڑا ڈھیلا ہوگیا، تبھی اسنے اسکو چھوڑدیا۔
          جس طرح دو دن قبل نگو آنٹی عافی سحر اور عارفین کے درمیان کھیلنے والےمیچ نے اسے ڈرین کیا تھا، اسی طرح آج بھی وہ بے حس سا ہو گیا تھا۔ اسکے لنڈ سے اتنی منی بانو کے منہ مین نکل گئی تھی کہ پینے کے باوجود اسکے ہونٹوں سے منی کے قطرے باہر نکل کر ٹھوڈی پر گر ے ہوئے تھے۔ ذوہیب نے منی سے لتھرے اسکے ہونٹوں اور ٹھوڈی کو اپنی زبان سے صاف کر کے خشک کر دیا۔ اسطرح پہلی بار منی کو ٹیسٹ کیا۔
          اسی دوران باہر سے سحر نے آواز دی کہ ڈنر لگ چکا ہے اور سیکس کا کام روک کو کھانے کا کام شروع کیا جائے ۔ کھانے کھاتے ہوئے کسی نے بھی کپڑنے پہننے کی زحمت نہیں کی تھی۔
          سحرنے مٹن، مٹر بریائی، سبزی اور گوشت کی الگ ڈشز کہیں سے آرڈر پر بنوائی تھی۔ مریم بانو اور عارفین تو جییسے کھانے پر ٹوٹ ہی پڑین ۔
          مگر سحر اور جگنی آنٹی تو بس برائے نام ہی کھا رہی تھین۔ جگنی آنٹی تو زیرو سائز باڈی مین ٹین کرنے کےلئے تو بس سلاد پر ہی گذارہ کرتی تھین۔ اس دن مشکل سے ہماری درخواست پر اسنے چند لقمےمٹر بریانی کے کھائے۔
          مریم نے سحرکی طرف رخ کرکے لقمہ دیا ، کہ آنٹی تو باڈی میں ٹین کرنے کےلئے ویجی ٹیرین بنی ہوئی ھین ہے، تم آخر کسی لئے آج ویجی ٹیرین ہو۔ سحر آپنے پھولتے ہویے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر وہ مجھے متلی ہو جاتی ہے ۔" ذوہیب نے اپنے لنڈ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس زندہ گوشت کو تم اوپر اور نیچے دونوں سوراخوں سے لیتی ہو، مگر گوشت سے تمھین متلی محسوس ہو جاتی ھے۔‘‘
          سب ہنس پڑے، ۔
          ۔ خیر انہیں اٹھکیلوں کے درمیان ڈنر چل رہا تھا۔
          جگنی آنٹی ذوہیب کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر کھانا کھا رہی تھی اور کبھی کبھی اپنی ٹانگیں کھول کر چوت کا نظارہ کروا رہی تھی۔ جسے دیکھ کر اسکا لنڈ توکب کا دوبارہ استادہ ہو چکا تھا۔۔
          اورل کرتے ہوئے ذوہیب نے تو زبان سے اسکے چوت کی سبھی پرتیں دیکھی تھیں۔ اسکی چوت میں ایک عجیب سی کششش تھی۔
          اب اسکی برداشت سے کام باہر ہو رہا تھا۔ اس نے پلیٹ رکھ کر باتھ میں جاکر ہاتھ اور منہ صاف کیا اور واپس آتے ہی جگنی کو گود میں اٹھا کر بیڈ روم میں لے جا کر بیڈ کے پر لٹا دیا۔ ذوہیب نے نیچے دوزانوں بیٹھ کر اسکی ٹانگیں کھولی اور اسکے مٹرجیسے دانے کو چھیڑنے لگا۔
          جیسا میں نے پہلے کہا تھا، اسکے مسلز کو نیچے کرنے سے اسکا ننھا سا سر باہر آتا تھا۔ وہ اسکو کسی لڑکی کے سوراخ میں بھی آرام سے داخل کرسکتی تھی۔
          ذوہیب نے جگنی کو مذاق سے چھیڑتے ہوئے کہا کہ’’ آنٹی جگنی شاید تمہیں اوپر والا لڑکا بنانا چاہتا تھا اور آخر وقت اسنے اردادہ بدل دیا۔ تمہارا چوت کے اوپر تو باضابط ایک لنڈ ہے، گوکہ چھوٹا ہی سہی۔۔‘‘
          جگنی آنٹی ہنس کر کہنے لگی ’’شکر ہے کہ لڑکا نہیں بن گئی، جو اٹنشن لڑکی کو ملتا
          ہے، وہ لڑکے کو کہاں۔
          اس دن ذوہیب کو معلوم ہوا کہ لڑکیوں کو لنڈ چوسنے میں مزا کیوں آتا ہے؟
          کیونکہ اسے بھیجگنی آنٹی کی چوت کی دانہ نما للی چوسنے میں ایک انوکھا مزاء آ رہا تھا۔ ۔
          سیکسی چوت کے علاوہ جو منفرد چیز جگنی میں تھی کہ وقفہ وقفہ سے اسکی چوت سے یا اسکے اوپر سوراخ سے پانی کی دھار پھوارے کی طرح نکل رہی تھی۔ جو ذوہیب کے چہرے کو دھو دیتی تھی۔
          ذوہیب نے اب لنڈ سے اسکے دانے کو سہلانا شروع کیا۔ لنڈ کے ٹچ سے پانی کی دھاریں نکلنے کا وقفہ اور بھی کم ہوگیا۔ دانے کو سہلاتے سہلاتے ہی اس نے لنڈ نیچے کرکے جھٹکے سے اسکے پانی سے بھری چوت میں ڈال دیا۔ لنڈ پھسلتے ہوئے اندر چلا گیا۔ ایک اور پانی کی دھار نکل کر لنڈ اور نیچے شیٹ کو بھگو گئی۔
          ذوہیبنے اند باہر کرنے کی اسپیڈ بڑھادی۔ کہاں سے اسکے جسم میں اتنا پانی جمع تھا۔ ذوہیب نے اسکو کہا کہ تمہیں فائیر برگیڈ جوائین کرنا چاہئے۔ آگ کی صورت میں پانی کی ٹینکی لے جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بس تمہارے چوت کے ساتھ پایئپ جوڑنا پڑے گا۔
          خیر ذوہیب نے اسپیڈ بڑھادی اور چند زور دار جھٹکوں کے بعد جگنی کی چوت نے اکڑنا شروع کیا۔ اسکی چوت تو کرکٹ پچ جیسی لگ رہی تھی۔ اس کے مسلز اتنے اکڑ رہے تھے کہ وہ لنڈ کو باہر کی طرف دھکیل رہے تھے اور ذوہیب پوری طاقت لگا کر اندر رہنے کی کوشش کر رہا تھا۔
          لگتا تھا کہ وہ باولنگ کر رہا ہے اور جگنیءآنٹی بیٹ سے باول کو باونڈری سے باہر پھینکنے کےدرپے ہے۔ اس طرح کی کنٹریکشن اور اسکورٹنگ ذوہیب نے کسی اور چوت میں نہیں دیکھی تھی۔
          جگنی کی چوت کا منہ مسلسل بند اور کھل رہا تھا۔۔وہ لنڈ کو باہر پھینک رہا تھا اور ذوہیب دوبارہ زور دار جھٹکوں کے ساتھ اسکو اندر کررہا تھا۔ پانی کا ایک لمبا فوارہ برآمد ہوا، جو کئی سیکنڈوں تک پانی پھینکتا رہا۔ اسی کے ساتھ جگنی نے اسے اپنے اوپر گرا کر زور سے بھینچ لیا اور۔۔
          آااااااااااوووووو ہووووووو کی آوازیں نکال کر فارغ ہونے کا اعلان کردیا۔ نہ صرف بیڈ شیٹ بلکہ ذوہیب کا پورا جسم اور بیڈ کے نیچے ہر طرف جگنی کے پانی سے چیزیں گیلی ہو گئی تھیں۔
          ایک اندازہ کے مطابق اسکے جسم سے کم از کم بالٹی پھر پانی نکل گیا ہوگا۔
          جب دونون کےہوش و حواس بحال ہوگئے، تو انہون نے دیکھا کہ باقی چاروں لڑکیاں صوفے پر بیٹھ کر نظارہ دیکھ رہی تھیں۔
          عارفین نے تولیہ لیکر اسکے لنڈ کو صاف کیا اور اسپر شہد ڈال کر چاٹ لی۔ اسکی دیکھا دیکھی دوسری لڑکیوں نے بھی مکھن ملائی اور شہد باری باری ذوہیب کے لنڈ پر ڈال کو چوسنا شروع کیا۔
          اب تقریبا نصف رات ہو چکی تھی۔ اس کھیل کے بعد جگنی اور سحر صوفے پر ہی اونگھنے لگی۔عارفین اور مریم، اپس مین باتیں کر رہی تھی۔
          مردوں کی بڑے بوبس اور بمب کی کمزوری ۔جگنی کا منفرد چوت بھی پواینٹ آف ڈسکشن تھا۔
          بانونے انہین بتایاکہ کہ اسکا بوائے فرینڈارشد سب سے پہلے اینل یعنی گانڈ میں سیکس کرنا چاہتا ہے مگر وہ ہر بار اس سے انکار کردیتی ہے۔ مریم اور عارفین اسکو بار بار اینل ٹرائی کرنے کی ترغیب دے رہی تھی۔
          بانو نہ نہ کر رہی تھی۔۔
          انہوں نے اسکو لٹا کر اسکی گانڈ کو کھول کر فنگرینگ کرنی شروع کردی۔ شاید کسی نے اسکے اوپر کوئی کریم یا ویسلین لگادی تھی۔ کیونکہ دونوں کی انگلیاں باری باری اسکے گانڈ کے سوراخ سے اندر باہر ہو رہی تھی۔ مریم چھ اور نو کی پوزیشن میں بیٹھ کر اسکی چوت اور دانے کو سہلا رہی تھی اور عارفین نے اس کی گانڈ کے اوپر دونوں پٹوں کو کھول کر، اسے دعوت دے ڈالی۔
          مریم نے نیچے سے ذوہیب کے لنڈ کو اورل سے گیلا کردیا۔ اسکی ٹپ پر عارفین نے کریم یا ویسلین لگاکر اسکو بانوکے سوراخ کے اوپر رکھ دیا۔
          ذوہیب نے ہلکا دباو جو بنایا کہ بانوکی تیز چنگاڑتی ہوئی چیخ نکل گئی۔ مگر اسکو نیچے سے مریم نے جکڑ کر رکھا ہوا تھا۔ ٹوپہ تھوڑا اندر تھا۔
          بانو بار بار رحم کی درخواست کر رہی تھی کہ بہت درد ہو رہا ہے۔ اگلے کسی ٹائم اینل کریگی۔ ۔۔مگر اسکی درخواست کون مانتا۔ اور ان معاملوں میں اگلا ٹائم بھی کہاں ہوتا ہے۔
          عارفین نے اسکے گانڈ کے دونوں پٹوں کو کھول کر ذوہیب کو پورا اندر کرنے کا اشارہ کیا۔ نیچے سے مریم نے اسکو جکڑا تو تھا ہی، ذوہیب نے بھی اسکے چوتڑوں کے ارد گرد ہاتھ ڈال کو اسکو مضبوطی سے پکڑ کر پوری طاقت صرف کرکے ایک جٹکا دیکر پور نوا انچ کا لنڈ اسکے مقعد میں گھسا دیا۔ بانو تڑپ رہی تھی۔
          مگر ہماری مضبوط پکڑ کے سامنے بے بس تھی۔ لڑکیوں کو اسکا تڑپنا اور چلانا اچھا لگ رہا تھا۔ مقعد کے اندر اسکی انتڑیاں لنڈ کے ارد گرد دباو بنا رہی تھی ۔
          اسکے ٹشوز ذوہیب کے لنڈ کوفارن اوبجکٹ گردان کر باہر پھنکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ذوہیب اسکو اندر رکھنے کی جستجو کر رہا تھا۔اس نے تب تک کوئی حرکت نہیں کی، جب تک بانوکا چلانا بند نہیں ہوا۔ چونکہ نیچے مریم مسلسل اسکی چوت چاٹنے میں مصروف تھی۔
          ، اسلئے وہ اب کچھ کچھ انجوائے کر رہی تھی۔ مگر ساتھ ہی مغلظات بک رہی تھی۔ ذوہیب نے بھی اب آہستہ آہستہ جھٹکےمارنے شروع کئے۔ اسکے گول گول بمب تو کمال کےتھے۔ اسکی رانیں تو شہتیر جیسی تھیں۔ ذوہیب نے اب بازوں کی پکڑ ڈھیلی چھوڑ دی۔ بانوکی انتڑیاں اسکا لنڈ فیل کر رہی تھی۔
          تھوری دیر میں، ذوہیب نے جھٹکےتیز کردئے اور چند لمحوں میں اسکےٹٹے سخت ہوتے گئے اور ایک لہر سی ذوہیب کے بدن میں دوڑ گئی۔ وہ بانو کے اندر فارغ ہو رہا تھا۔ منی کے قطرے اسکی گانڈ سے نکل کر نیچے مریم کے چہرے اور ہونٹو ں پر بھی گر رہے تھے۔
          جب اس نے لنڈ باہر نکلا تو دیکھا کہ اسکے ٹوپے پر بانو کی چوت پھٹنے کا خون موجود ہے۔ اس نے فورا باتھ روم جاکر صابن سےلنڈ کو صاف کردیا۔
          تھوڑی دیر بعد بانو بھی لنگڑاتے ہوئے باتھ روم میں آگئی اور کموڑ پر بیٹھ کر پاخانہ کیا۔ اسکے ساتھ منی کی ایک دہار بھی باہر نکل گئی۔
          بانو گانڈ کے سوراخ کو صاف کرنے لگ گئی۔ وہ کافی ایگزاسٹ لگ رہی تھی، واپسی پر اسنے اپنی ڈرنک ایک ہی گھونٹ میں پی کر فرش پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ابھی اانو کی أنکھ لگی ہی تھی کہ ذوہیب دوبارہ سے اسکے اوپر چڑھ گیا۔بانو ذوہیب کی گرفت سے خود کو چھڑاتے ہویے دھڑام سے بیڈ سے نیچے جا گری۔
          او شٹ؟؟؟۔
          کیا مین خواب دیکھ رہیءتھی کیا بانو تیز أواز سے بڑبڑائی۔یہ مریم کمینی بھی نہجانے کہاں رہ گئی ھے۔
          ۔*@۔
          ڈاکٹر راحیلہ۔مریم مین نے ذوہیب کے تمام حالات۔ ٹیسٹ۔ ذہنی کنڈیشن اور مکمل چیک آپ کر لیا ھے۔ذوہیب کے برین پر چند قطرے خون کے دھبون کی مانند پڑھے ہوئے ھین جو مین ایک چھوٹےلیزر أپریش کے ذریعے أپریٹ کرکےچند گھنٹون مین ہی ذوہیب کی یاداشت واپس لا سکتی ہون ۔
          مگر اس کیلیۓ تمھارے ساتھ ذوہیب کو میرا ایک کام کرنا پڑے گا؟
          ۔باجی أپ کتنی اچھی ھین ہمین منظور ہے پلیزز اپ جلدی سے ذوہیب کو ٹھیک کردین۔
          ڈاکٹر راحیلہ۔میری پیاری کزن پہلے میری بات تو سن لو ذوہیب کو مجھے اور قمر کو ٹھیک ہونےسے پہلے ایک ساتھ اکٹھے چودنا ھو گا۔
          باجی آپ یہہ کیا بول رہی ہیں؟۔ آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہین۔ مریم تو أپنی کزن ڈاکٹر راحیلہ کی بات سن کر ہی تڑپ اُٹھی تھی۔
          بات تھی ھی کچھ ایسی ہی کے اُس کا تڑپنا اتنا بے وجہ بھی نہیں تھا۔
          دوستو ڈاکٹر راحیلہ کی اس بات کو سمجھنے کیلیئے أپ کو ڈاکٹر راحیلہ کے بارے مین کچھ تفصیل جاننا پڑے گئی۔
          ڈاکٹرراحیلہ کی فیملئ میں صرف وہ اور ایک اُس کے شوہر کا چھوٹابھائی قمر ہی تھے راحیلہ کےوالدین کچھ سال پہلے ایک کار اکسیڈنٹ مین چل بسے تھے۔ انکی کی زندگی میں ہی راحیلہ کی شادی اُپنےایک کولیگ ڈاکٹر جس کا نام شاہد تھا اور جو راحیلہ کاہم عمر ہی تھا اُس کے ساتھ ھوگئی تھی اتفاق یہ تھا کہ ڈاکٹر شاہد کے بھی اماں ابا اب اس دنیا میں نہیں تھے اور اُن کا قمر کے علاوہ بہن بھائی بھی کوئی نہیں تھا یعنی اُن تینوں کی کل ملا کر فیملی بس وہی تھےڈاکٹر شاہد صاحب پچھلے چھ سال سے امریکہ گیۓ تھے اور واہاں سے واپس آنے کا نام ہی نہین لے رہے تھے۔ ڈاکٹرراحیلہ ایک سکن اسپیشیلٹ۔
          مردانہ ہارمونز پر ایم او سی کرنے کے بعدپچھلے کچھ عرصے سے چوہےبلیاں خرگوش اور کتون پر مختلف تجربات کرتی رہتی تھی ۔
          درآصل اپنی تہنائی سے تنگ أکر وہ نئے نئے دوائیون سے کھیل کھیلنے مین مگن ہو چکی تھی۔اور پھر قسمت کے کارن وہ ایک ایئسی دوائی بنانے مین کامیاب ہو گئی جومونث کو مذکر اور مذکر کو مونث کرنے مین معاون ھو گئی دوائی کےتجربات اوراستعمال کرنے کے بعد بقایا تبدیلی کی کمی بیشی کو وہ أپریشن کے ذریعے مکمل کر لیتی۔
          نہجانے راحیلہ کے ان تجربات کا مین کارن کیا تھا؟وہ اس طرح کے تجربات کیون کر رھی تھی؟؟۔
          بہرال؟۔
          چند جانورون پر دوائی کا کامیاب تجربہ کرنے کے بعد ڈاکٹر راحیلہ نے کچھ سوچ کروہ دوائی أپنے شوہر کےچھوٹے بھائی قمر کو بھی کھلا ڈالی۔جس سے قمر کی آہستہ أہستہ جنس چینج ہوتی گئی۔
          پھر ڈاکٹر راحیلہ نے دوائیون کے ذریعے سے کوچھ عرصہ پہلے أپنے دیورقمر کی للی غائب کی اور أپریشن کے ذریعے اسے مکمل لڑکی بنا ڈالا۔
          اب راحیلہ درآصل دیکھنا یہہ چاہ رہی تھی کہ کیا قمر پریگنٹ بھی ہوتی ہے ۔
          یہان صرف نام کی ھی لڑکی بنی ھے یہہ ڈاکٹر راحیلہ کی گڈلک اور قسمت تھی کہ اسکی کزن مریم ذوہیب کی یاداشت جانے کی وجہ سے اسے ڈاکٹر راحیلہ کے پاس لے آئی۔
          اور اس کے چیک أپ کے دوران جب ڈاکٹر کو ذوہیب کے بڑے لوڑے اور گاڑھے سپرم کا معلوم ہو ا۔ذوہیب کے لوڑے کیلئے اسکی أپنی چوت بھی مچل اٹھی اور ساتھ قمر کو پریگنیٹ کرنے کا سہرا بھی بھی اسنے ذوہیب کے سر پر باندھنے کا فیصلہ کیا۔
          مریم نے راحیلہ کی بات سننے کے بعد سوچنے کیلیے کچھ وقت مانگااور ذوہیب کے ساتھ گھر واپس أگئی۔
          ۔ پھرہوا کچھ یوں کہ ذوہیب نے جیئسے ہی أپنے گھر آنٹی بھابھیون اورسحر وغیرہ سے أپنی یاداشت کے بارے مین اور راحیلہ کے علاج کرنے کی شرط بتائی۔ توکچھ د یر کیلیے سارے گھر میں تو مانو سانپ سونگھ گیا تھا۔
          وہ سب لوگ تو سمجھ رہے تھے کہ ذوہیب کا اس دنیا میں اُن کے علاوہ کوئی نہیں ھے۔ سحر سے اس کی شادی بھی اس لیے کر دی تھی۔
          اگر اس کی یاداشت واپس نہ أیے تووہ جاتا بھی تو کدھر ۔؟۔
          اور اب ڈاکٹر کی عجیب وغریب شرط کیساتھ مسٔلہ سحر کے کا بھی تھا ۔
          مگر سحر سے زیادہ اُدھم عارفین نے مچا رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ذوہیب بھی تو
          پریشا ن تھا ہی لیکن باقی گھر والےبھی کافی پریشان تھے۔ بچوں کو ابھی تک کچھ پتہ نہیں تھا لیکن گھر کا ماحول دیکھ کر وہ بھی کافی سہمے ہوئے تھے
          ۔ پھر سب لوگون نے مل جل کر مشورہ کیا تھا کہ ایک بار ذوہیب کی یاداشت تو واپس أنی چاہیے پھر باقی بھی کوئی حل نکال لین گئے۔
          عارفین۔کیا یہ ذوہیب بھائی کے لیے یہ سب ٹھیک ہو گا۔اور سحر أپی کیا یہ سب برداشت کر پائے گی کیا؟۔
          ذاہد انکل ۔ سحرسے مین نےبات کر لی ہےوہ ذوہیب سے بہت پیار کرتی ھے۔اور وہ اسکی خوشی کیلئے بلکل راضی ہے۔
          عارفین عجیب بے چارگی سے أپنےہاتھ کو دونون بوبز پر رکھ کر بے چین سے ہوتی ہوئی بولی پتہ نہیں ۔اپ لوگ کیا چاہتے ہو جو سب کے دل میں آتا ہے کرو أپ۔اور روتی ہوئ باہر نکل گی۔
          کچھ دیر کےبعد ذوہیب اسکے پیچھے اندر کمرے مین أیا تو سحر کے پاس آیا عارفین بیڈپرکولہون کو اوپر اٹھائے پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی۔
          ذوہیب نےجاتے ہی اپنا ایک ہاتھ عارفین کی گہری کھائی مین گھسیڑا اور خود بھی اسکے ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔
          عارفین بولی ۔ ذوہبی بھیا اب ایئسے پیار جتانے کا کیا مطلب۔؟؟۔
          سحر غصے سے۔عارفین تمیز کرو میں نے تم کو سب سمجھایا بھی تھا پھر بھی؟۔
          عارفین کو بھی غصہ آ گیا وہ آواز کو دباتے ہوئے بولی ۔ باجی تم نے سمجھ کیا رکھا ہے مجھے ۔؟؟تم کیا چاہتی تھی مجھ سے یاد ھے أپکو۔ تمھاری خوشی کیلیے مین نے تمھاری سہاگ رات پر اپنی چوت کی سیل کھلوا ڈالی۔ اب میں کیا کروں ۔ مین پیار کر بیٹھی ہون ان سے۔ اور جب ذوہبی بھیاکے دور جانسے کا سوچتی ہون تو میرا دل بند ہونے لگتا ہے۔
          اور اب أپی تم کیاچاہتی ہو کہ میں ان کو بھول ؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عارفین نے آگے بات اُدھوری چھوڑ دی ذوہیب بھی اُس کی مشکل سمجھ گیا تھا اس نے عارفین کو کروٹ دلائی اور أپنے سینے سے لگا لیا اور بہت چاہت اور محبت سے عارفین کے خوبصورت مکھڑے پر أپنے پیار کی مہر لگانے لگا۔
          سحر تو سالی اور بہنوئی کے پیار کی میٹھی چھیڑ چھاڑ دیکھتے دیکھتے نہجانے کب نید کی وادیون مین گم ہو گئی۔
          مگر ذوہیب ساری رات عارفین کے کومل گداز بدن کو أپنے پیار کا یقین دلاتا رہا۔دوستو سیانے بزرگ لوگ ٹھیک ھی کہ گئے ھین کہ عورت سے کوچھ بھی منوانا ھو تو پیار کا استعمال کرو تو جیت جاؤ گے ورنہ عورت بہت ٹیڑھی ھے؟؟۔
          صبح خود عارفین أپنے ہاتھون سے ذوہیب کو تیار کرکے ہسپتال ڈاکٹر راحیلہ کے پاس چھوڑ أئی۔
          اب ہسپتال مین چودائی کا پہلاقرہ فال ڈاکٹر راحیلہ نے قمر کے نام نکالا۔ رات ہوئی اور راحیلہ نے قمر اور ذوہیب کو آپریشن تھیڑ والے روم مین بند کردیا۔
          ہسپتال کے بیڈ اور سٹریچر۔دوایؤن اور خون کی بدبو۔قمر کابھدا بےکشش بےڈھنگا سانوالا بدن۔بغیر ملائمت آپریشن ذدہ گہرے کنوین کی مانند اسکی چوت۔
          ممون سے عاری سپاٹ قمر کی چھاتی۔سخت کھردرے بالون سے مزین چہرے والےغیر کشش ذدہ ہونٹ نہجانے کون کونسے اسباب اکٹھے ہوچکے تھے ۔ذوہیب کی ہر کوشش اور جتن کے باوجود اسکا وحشی گھوڑا قمر کے چوت مین گھسنے سے انکاری تھا۔
          دن پر دن گزرتے چلے جارہے تھےمگر نتیجہ کچھ بھی نہین نکلا۔ اور پھر ایکدن ڈاکٹر راحیلہ خود ذوہیب اور قمر کے ساتھ رات کو رک گئی۔جب اس نے یہ سارا منظر خود أپنی انکھون سے دیکھا تو ذوہیب اور قمرکو لے کر اپنے گھرچلی آئی ۔
          راحیلہ نے سوچا کہ ماحول بدلے گا تو ذوہیب کے لیے قمر کی چودائی کرنا آسان ہو جائے گا ۔
          ​​​​​​ رات کو جب ذوہیب کمرے مین سونے کیلیےپہنچاتو کمرے میں ہسپتال کی نسبت کافی سردی تھی کچھ تو موسم بھی اچھا تھا اور اُوپر سے کمرے مین اے سی چل رہا تھا ۔ اب کمرے مین جہازی سائز بیڈ پر کمبل بھی ایک ہی تھا۔
          ذوہیب کپڑے بدل کر ڈاکٹر راحیلہ اور قمر سےجھجک کے باعث بغیر کمبل کے ہی صوفے پر لیٹ گیا ۔
          قمر تو لیٹتے ھی روزہ مرہ کی روٹین اور جنس تبدیل ہونے والی متواتردوایئان کھانے کے باعث گہرئی نید مین ڈوپتی چلی گئی ۔مگر ڈاکٹر راحیلہ کوچھ دیر کروٹین بدلنے کے بعد ذوہیب سے بولی ۔
          کمرے مین کافی سردی ہورہی ہے ادھر ہی تم بھی بیڈ پرآ جاؤ۔
          ذوہیب کو بھی محسوس ہو چکا تھا کے کمبل کے بغیر گزارا نہیں وہ اُٹھا اور بیڈ کی قمر والی سائیڈ پر کمبل کے اندر لیٹ گیا ۔ ساتھ ھی وہ سوچ رہا تھاکہ اب کیا کرے اُس کو سالی گمشدہ یاداشت نے عجیب حالات میں پھنسا دیا تھا اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔ پھر اُس نے کچھ سوچ کر جاکر کمرے کی لائیٹ بند کر دی۔
          اور پھر دوسرئ طرف سے آ کر ڈاکٹر راحیلہ والی سائیڈ سے وہ بھی کمبل میں گھس گیا پھر کچھ دیر رکنے کے بعد اُس نے جان بوجھ کر اپنے اٹھتے ہوئے گھوڑاکا اگلا حصہ راحیلہ کی مست بیک کے ساتھ لگا دیا۔
          کچھ دیر تک جب ڈاکٹر کی طرف سے کو ئی ریکشن نہ آیا تو اُس نے ایسے جیسے سوتا بندہ کروٹ لیتا ہے ویسے ہی مزید آگے کروٹ لی اور راحیلہ کو پیچھے سے گلے لگا لیا اب اُس کے گھوڑے کا اگلا حصہ راحیلہ کے بڑے چوتڑوں کے پچھلے حصہ سے ہوتا ہوا چوت اور گانڈ کے سوراخون پر چپکا ہوا تھا ۔
          ذوہیب کاایک بازو ءڈاکٹرکے ملائمت بھرے بھاری گداز ابھار کے اُوپر تھا دوسری طرف ڈاکٹر راحیلہ بھی شہوت کی آگ مین جلتی ہوئی ذوہیب کی مذید پیش قدمی کا شدت سے انتظار کر رہی تھی۔ اب جوبھی تھا ۔
          اب ذوہیب جوان ہونے کے باوجود ڈاکٹر راحیلہ کے ساتھ مذید أگے بڑھنے سے جھجک رہا تھا اور ڈاکٹر راحیلہ کے لیے اب یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا ۔اسنے ایک جھٹکے سے کروٹ لی اور ذوہیب کا ہاتھ پکڑ کر ننگی لیٹی قمر کی چوت پر رکھ کربولی۔
          ذوہیب تم اتنی دیر کیوں کر رہے ہو جب تم کو پتہ ہے کے تم کو یہ سب کرنا ہی پڑے گا تمھارے لئے اس کی چودائی کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔
          ذوہیب نے جلدی سےأپنا ہاتھ قمر کی چوت سے اٹھایا اوردوسری طرف منہ کر کے بولا۔ ڈاکٹر صاحبہ مجھے بلکل سمجھ نہین آرہی مین۔؟؟۔۔۔ذوہیب بےبسی سےشائید کہتے کہتے رک گیا تھا ۔
          ڈاکٹر راحیلہ بھی اسکی ذہنی کنڈیشن سمجھ گئی وہ اس سے بولی ۔
          ذوہیب جب تک ہمارے درمیان ہوئی ڈیل کے مطابق تم ہم دونون کو پریگنیٹ نہین کر دیتےمین تمھارا علاج بلکل نہین کرون گئی۔
          لیکن مجھ سے قمر کے بے جان بے ہوش لڑکون والے جسم کیساتھ کچھ نہیں ہو پائے گا ۔ ذوہیب نے راحیلہ کو جواب دیا۔
          ڈاکٹر راحیلہ۔ اچھا تم ایک منٹ ہمارے درمیان مین لیٹ جاو ۔راحیلہ نے اُس کو قمر سےلیپٹاتے ہوئے کہا ۔پھر ذوہیب خود پر جبر کرتے ہوئے راحیلہ اور قمر کے درمیان لیٹ گیا تو راحیلہ نے اُس کے ساتھ لگ کر ایک ہاتھ اُسکے سینے پر رکھا اور ایک ٹانگ اُس کی ٹانگوں پر اور ذوہیب سےبولی۔ تم کیا سمجھتے ہو میرے لیے یہ سب کرنا کیا آسان ہے لیکن اب جب حالات نے تم کو اس چکر میں ڈال دیا ہے تو تم قمر کی چودائی کرنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہو۔
          راحیلہ نے یہ بولا اور ذوہیب کو کروٹ دلاتے ہوئے قمر کے اوپر لے گئی ۔ذوہیب کے تو جیئے اچانک کانٹے نکل آئے ہوں بیڈ پر سے وہ ایک دم اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔
          ڈاکٹر راحیلہ غصے سے اٹھ کر أسے کوسنے کیساتھ ساتھ گالیان دینے لگئ​​​​۔ اُس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرے کیوں کے اُس نے اپنی سارے ہتھ کنڈے اور چالاکیان أزما لی تھین۔اور آج اتنی ہمت کر کے اپنا أخری قدم بڑایا تھا لیکن اب تو وہ اپنی نظروں میں بھی گر گئ تھی ۔
          ذوہیب قمر کے ساتھ ساتھ اُس کو بھی ٹھکرا کر چلا گیا تھا۔ وہ ابھی غصے اور جھنجھلاہٹ سے بڑبڑا ہی رہی تھی کہ کمرے کا دروازہ واپس کھلا اور ذوہیب اندر واپس آیا وہ سیدھا بیڈ کی طرف آیا اور آتے ہی اُس نے راحیلہ کو پکڑا اور لیٹا کر چومنا شروع کر دیا۔ پھر اُس نے اس کی شلوار کو ہاتھ ڈالا اور شلوار کو بھی کھینچ کر نیچے کر دیا پھر اپنی شلوار بھی بھی تھوڑا نیچے کر دی۔
          راحیلہ کو ذوہیب کا بڑالن اپنی چوت پر مچلتا محسوس ہوا کچھ بھی تھا دونوں ھی جوان تھے اب اُن کی سانسوں مین شہوت اور جلتے بدن کی خواری اور حدت بڑھنے لگی تھی اب ذوہیب اور اسکا لوڑا دونوں ہی تیار تھے کیونکہ نیچے قمر نہین تھی بلکہ ڈاکٹر راحیلہ کامست پرشباب بدن تھا۔ نہجانے کتنے دنون کے خوار ہوتے ذوہیب اور اس کے لوڑے کواس لمحے ڈاکٹر کے بدن سےصرف ایک ھی چیز چاہتے تھے اور وہ تھی اس کی چدائی۔
          ذوہیب نے اپنا لن پکڑ کرراحیلہ کی چوت پر رگڑا ڈاکٹر راحیلہ کی چوت کافی گیلی ہو چکی تھی ۔
          ذوہیب نے لن کو سوراخ پر اندازے سے رکھا اور ذور سے جٹھکا مارا لن پھسل کر سائیڈ پر ہو گیا کمرے میں اندھیرہ تھا اور ویسے بھئ ذوہیب نے کمبل اُوپر لے لیا تھا ۔ذوہیب نے پھر ایک ٹرائی کی لیکن پھر ناکام ہوا وہ شہوت جسم مین جذبات کی گرم سےکانپ رہا تھا ۔
          ڈاکٹر راحیلہ نے اُس کو روکا پھر اُس نے ہاتھ اندر کر کے ذوہیب کا لن پکڑا اور چوت کے سوراخ پر رکھ دیا ۔ ذوہیب نے اس بار دھکا مارا تو لن گہرائی میں آُترتا چلا گیا ۔
          راحیلہ کے منہ سے درد کی شدت اور مزے کے باعث ایک سسکاری نکل گئی ڈاکٹر کو أپنی چوت جیئسے چیرتی ہوئی محسوس ھو رہی تھی ۔
          ڈاکٹر شاہد نےشادی کے بعد راحیلہ سےبہت کم سیکس کیا تھا اور اب تو وہ پچھلے کتنے سالون سے باہرتھا۔
          راحیلہ کو ذوہیب کے موٹےتگڑےلن نے بڑی شان سےزبردستی دھاندلی کیساتھ چوت مین گھستے ہوئےسہا گ رات کی یاد دلانے لگا۔
          جب اُس کی ڈاکٹرشاہدکے ساتھ نئی نئی شادی ہوئی تھی۔شاہد کا چھوٹا لوڑا شائید راحیلہ کی چوت کی سیل کو مکمل نہین کھول پایا تھا اور کم لمبائی اور جسامت کے باعث چوت کی گہرائیون کے درشن کرنے سے بھی محروم رہا تھا۔
          ذوہیب اب متواتردھکے مار رہا تھا اور راحیلہ نے اُس کو اپنے کومل بازون میں گھیرا ہوا تھا پورےروم میں اُن دونوں کی آوازیں اور پچک پچک دھک دھک کی آواز گھو نج رہیں تھی ڈاکٹر راحیلہ نے مزے کی شدت مین اپنی ٹانگوں کو اُٹھایا اور اور اس کی کمر پر رکھ دیا ۔ذوہیب اب زور زور سے چدائی کر رہا تھا ۔
          راحیلہ نے ذوہیب کو زور سے جکڑا اور اُس کے کندھے کو دانتوں سے کاٹ لیا راحیلہ کو جب بھی اُرگیزم ہوتا تھا وہ یا تو ناخن مارتی تھی شاہدکو ۔یا کاٹ لیتی تھی لیکن اب تو بہت ہی عرصہ ہو گیا تھا اس بات کو پچھلے پانچ سالوں سے شائید ہی ڈاکٹر راحیلہ کو کبھی آرگیزم ملا ہو اسی لیے تو وہ چڑچڑی ہو کر الٹے سیدھے تجربات کرنے مین مشغول ھو چکی تھی۔
          جب راحیلہ فارغ ہو گئی تو ا اُس نے ذوہیب کو چھوڑا وہ ابھی بھی وحشیانہ انداز سے لگا ہوا تھا اُس کا لن اب راحیلہ کی چوت مین بہت ہی پھسل رہا تھا کیوں کے آرگیزم کے بعد اس کی چوت میں اور زیادہ پانی آ گیا تھا ۔
          ڈاکٹر راحیلہ نے اُس کو روکا اور پھر اُس کو تھوڑا اُوپر کر کے اپنی پوری شلوار جو اب صرف ایک ٹانگ پر تھی کھینچتے ہوئے اُتار دی۔
          اور پھر بہانے سے ذوہیب کو مزید پیچھے کرتے ہوئے اسکے بھی سارے کپڑےاُتار دیاےجس میں ذوہیب نے خود بھی راحیلہ کی مدد کی لیکن راحیلہ ذوہیب سے ڈبل چالاکی کھیل گئی ایک تو اس نے کمبل کو آپنےجسموں پر سےاترنے نہین دیا۔اور پھر جب ذوہیب نے راحیلہ کے چوت پر دوبارہ لن رکھنے سے دھکا دیا تو اسے فورا پتہ چل گیا کہ۔
          ڈاکٹر راحیلہ بہت چالاکی سے اسکے لن کو قمر کی چوت مین گھسوا چکی ھے۔ قمر کی چوت کنارون سے کھلی ہونے کے باوجود اندر سے بہت تنگ تھی۔
          ذوہیب کو ایئسے لگ رہا تھا جیئسے لوڑے کے آگے والے حصے کو کسی نے پلاس سے سختی سے چکڑ رکھا ہوا۔
          کمرے میں فل اندھیرہ تھا اور ذوہیب کو یہہ بھی اندازہ کرنا مشکل تھا کہ لنڈ کے أگے قمر کی چوت ھی ھے یہان۔وہ اس کی گانڈ مین جا گھسا ھے نہجانے راحیلہ قمر کو کس قسم کی دوائیان دے رھی تھی۔
          ذوہیب کے بڑے لوڑے سے اتنی بے رحمی اور وحشیانہ انداز کیساتھ چودنے کے باوجود قمر کے جسم مین کوئی حرکت نہین تھی۔پتہ نہین وہ گہرئ نید مین تھی یہاں بے ہوش؟؟۔
          کوچھ دیر ذوہیب نے لذت و مزا نہ أنے کی باوجود قمر کی بینڈ بجائی اور پھر سرگوشی مین راحیلہ سے بولا ڈاکٹر صاحبہ قمر کے مصنوحی سوراخ مین لذت و مزاءنام کا بھی نہین ھے ۔بلکہ الٹا میر لن درد کرنے لگا ھے مجھے چودائی تمھاری کرنی ھے اور اسکا سارا مال قمر کے اندر ہی نکالو گا۔
          راحیلہ نے ذوہیب کی بات سن کراپنی شلوار سے اپنی چوت صاف کی ۔ اور ذوہیب کو واپس لن أپنی چوت مین ڈالنے کااشارہ کیا۔
          ذوہیب نے ایک بار پھر اپنا لن اُس کی چوت میں ذور دار گھسے سے گھسا دیا۔ وہ اب کی بار کوئی اگلے دس پندرہ منٹ تک لگاتار ڈاکٹر راحیلہ کی چوت چودتا رہا جس کے دوران راحیلہ ایک بار اور فارغ ہو چکی تھی پھر ذوہیب نے راحیلہ کی چوت سے اپنا گھوڑا باہر نکالا اور لیس دار جوس قمر کی چوت کی گہرائی مین گھوڑے کو گھسا کر اسکی چوت میں چھوڑنا شروع کر دیا ۔
          تھوڑی دیر بعد ذوہیب دوسری طرف کو منہ کر کے بیڈ پر لیٹ گیا اُس کو ڈاکٹر راحیلہ کو چودنا اچھا لگا تھا اورمزا بھی بہت زیادہ آیا تھا ۔
          لیکن ساتھ قمر کو چودنے سےاُس کو عجیب شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی۔ دوسری طرف ڈاکٹر راحیلہ ذوہیب کی چودائی سے بہت ہی سکون میں تھی اُس بہت عرصہ بعد جسمانی خوشی نصیب ہوئی تھی اب وہ سوچ رہی تھی کل قمر کو وہ واپس ہاسپٹل چھوڑ دے گئ اور جب تک موقع ملتا ھے وہ ذوہیب کے لن سےاکیلی ہی مزے لے گی۔
          سوچتے سوچتے نہجانے کب وہ گہری نید مین چلی گئی صبع اسکی آنکھ کھلی تو ذوہیب روم میں نہیں تھا اور راحیلہ کے موبئیل کی بیل بج رہی تھی۔ اُس نے نمبر دیکھا مریم کا فون تھا مریم نے ڈاکٹر راحیلہ سے پوچھا باجی آج ہوا کچھ ۔
          ڈاکٹر راحیلہ نے کچھ سوچتے ہو ئے بولا۔ نہیں آج تو کچھ نہیں ہوا لیکن مریم تم فکر نہیں کرو ذوہیب سے میری بات ہو گئی ہے وہ مان گیا ہے اور جلد ہی وہ قمر اور مجھے پریگنیٹ کر دے گا ۔
          مریم باجی پلیزز جو بھی کرنا ھےجلدی کرو۔ ذوہیب کی وائف اور اسکے گھر والے بہت پریشان ھین۔
          ڈاکٹر راحیلہ ۔ مریم تم اچھی طرح سے جانتی ہو پریگنیٹ ہوجانا ۔ ہمارے لیے اتنا آسان نہیں ہے ۔اس کیلئے لگاتار بار بار چودائی کرنا پڑتی ھے۔اگر اتنی جلدی ہے تمھین تو خود ذوہیب کو فون کر بولو کہ ہمین جلدی پریگنیٹ کر دے۔
          مریم۔ اچھا اچھا باجی چلو غصہ کرناچھوڑو لیکن پلیز اب پریگنیٹ ھوکر ہی واپس ہاسپیٹل آنا اگر ۔اب نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہو گا ۔
          راحیلہ بولی۔ مریم مین اپنی ساری کوشش کر رہی ہو ن تم بے فکر رہو۔ ساتھ اُس نے فون بند کر دیا۔ ڈاکٹر راحیلہ اٹھی اور پھر اس نے قمر کو بھی اٹھایا قمر جیئسے ہی اٹھ کر فریش ہونے کیلیے واش روم جانے لگی۔ بیڈ سے اترتے ہی وہ بری طرح سے کراہتے ہوئے گرنے لگی ۔
          راحیلہ نے بہت تیزی سے اٹھ کر قمر کو سنبھالا۔ اور واپس بیڈ پر لٹا دیا۔قمر بہت عجیب اندازسے راحیلہ کو دیکھتے ہوئے۔ أہ بھابھی تم بہت بڑی کمینی ہو بالآخر تم نے اپنا بدلہ بھیا اور مجھ سے لے ہی ڈالا؟۔
          ڈاکٹر راحیلہ طنزیہ انداز سے قمر کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولنے لگی۔ میری جان تم لوگون کے ظلم کے سامنے تو یہہ کچھ بھی نہین ھے۔ پھر ساتھ پڑے أپنے میڈیکل باکس سے ایک انجیکشن بنا کر قمر کو لگاتے ہوئے میرے قلیجے مین ٹھنڈک تب پڑے گی جب تم ایک ننھے منےبچے کو پیدا کرو گی۔
          راحیلہ کے انجکیٹ کرتے ہی قمر ہوش وہواس سے بیگانی ہوتی چلی گئی۔ پھر راحیلہ نے قمر کے ساتھ بیٹھ کر أسے دھکیلتے ہوئ ہوئی بیڈ کے دوسرے کنارے پر لے گئ۔
          راحیلہ پھر بیڈ سے واپس اُٹھی اور پھر اُس نے کمبل اٹھا کر قمر کے اوپر ڈال دیا اور اپنی شلوار ڈھونڈ کر پہنی ۔ تبھی ذوہیب بھی کمرے کے اندر چلاآیا ۔
          وہ راحیلہ کو دیکھ کر عجیب سے انداز سے مسکرادیا تھا۔راحیلہ اسکو دیکھ کر فورأ سنھبل گئی تھی۔ اور ذوہیب سے پوچھنے لگی کدھر گیے تھے تم۔ ذوہیب بولا ۔ ڈاکٹر صاحبہ أپکا بنگلہ دیکھ رہا تھا۔
          راحیلہ ۔اچھا جانو تم فریش ہو جاؤ مین ناشتے کا آرڈر دے کر آ تی ہوں۔ اور ساتھ اسے بتانے لگی ۔ مریم کا فون آیا تھا اور میں نے بولا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ہمارے درمیان کچھ نہیں ہوا ۔
          ذوہیب نے سر ہلا دیا جس سے راحیلہ خوش ہو گئی یعنی ذوہیب بھی وہی چاہتا تھا جو وہ چاہتی تھی۔
          حالانکہ ذوہیب کو دکھ بھی ہوا کے راحیلہ نے مریم سے جھوٹ کیون بولا ھےلیکن اس نے ڈاکٹر راحیلہ کو یہہ بات بلکل محسوس نہین ہونے دی۔
          ۔ادھر راحیلہ بھی سوچ رہی تھی اگروہ اپنے جسم کی آگ کو کچھ اور دن ٹھنڈا کر سکتی ہے تو اس مین ذوہیب کی فیملی اور مریم کومسلئہ کیا ہے۔آخر وہ بھی تو ذوہیب کا اتنا مہنگا علاج فری مین کر رھی ھے۔
          ویئسے تو راحیلہ ایک انتہائی شریف عورت تھی اُس نے آج تک اپنے شوہر سے بے وفائی نہیں کی تھی حالانکہ بہت سے مردوں کی طرف سے اُس کو بہت بار اشارہ ملا تھا لیکن اُس نے ہمشہ اپنے شوہر کو ہی اپنے جسم کا مالک سمجھا تھا اور اپنی ہر چیز کو وہ شوہر کی امانت سمجھتی تھی۔ اُس نے زندگی میں پہلی بار اپنے شوہر ڈاکٹر شاہدکے علاوہ کسی دوسرے مرد کا لن اپنی چوت کی اندر لیا تھا۔
          اور وہ بھی اپنے سے دس سال چھوٹے ایک گمشدہ یاداشت والےمریض کا اُس کے لیے یہ تجربہ بہت ہی زبردست تھا اور وہ بہت خوشی تھی۔ اُس کی جنسی تسکین ایسی کبھی نہیں ہوئی تھی جیسی اُس کو کل رات کے ایک جلدی جلدی کے سیکس نے دی تھی ۔
          اب یہ بات کم از کم اُس نے پکی اپنے دماغ میں طےکر لی تھی کہ اُس نے پریگنیٹ ہونے تک اپنی زندگی کے اگلے سارےدن ذوہیب کے گھوڑے سے مزا کرنا ہے اُس کو اپنی زندگی ان دنوں میں کھل کر جینا ہے۔ اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا کیونکہ ذوہیب سے ایک بار چودنے کے بعد اب وہ اس کیلیے کوئی انجان نہیں تھا بلکہ اُس کے خوبصورت نازک بدن کا وہی اب مالک تھا۔
          دوسری طرف ذوہیب کے لیے ڈاکٹر راحیلہ کے ساتھ یہ سب کرنا سے مزا تو بہت آیا تھا لیکن قمر کی وجہ سے نہجانے کیون ہلکی سی شرمندگی شرمندگی سی ہو رہی تھی۔
          وہ ڈاکٹر راحیلہ سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا ۔لکین جب صبح اسنے ذوہیب کو بتایا کہ اب وہ قمر کو واپس ہاسپٹل چھوڑ دے گی اور ذوہیب کو بھی بول دیا ہے کہ اسے قمر کو دوبارہ بلکل نہین چودنا ہے وہ اسکے منی کے سپرم ایک ٹیسٹ ٹیوب مین محفوظ کرکے انہین قمر کی کوکھ مین مناسب وقت اور پراپرانداز سے انجکیٹ کرلے گئی اب ذوہیب کو صرف اوذ صرف راحیلہ کو ہی چودنا تھا۔
          تو اس کو دل میں بہت خوشی ہوئی تھی کیونکہ رات کے بعد وہ بھی چاہتا تھا کے اُس کو راحیلہ کے ساتھ بلکل تہنائی مین کچھ اور وقت ملے۔
          ذوہیب اب تک نہجانے کتنی آنٹیاں اور لڑکیون کو کئی کئی بار چود چکا تھا ۔ لیکن جو مزا اُس کو رات کے تاریکی میں اور تھوڑے سے وقت کے لیے ڈکٹر راحیلہ کو چود کر آیا تھا۔
          ایسا مزا آج تک کبھی بھی کسی کو بھی چود کر نہیں آیا تھا۔ اس کی وجہ شاید کچھ نفسیاتی تھی یا کچھ اور لیکن وہ رات کا واقعہ اُس کو آج دن میں بھی گرما رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کب رات ہو اور کب وہ دوبارہ ڈاکٹر کو چودے۔
          ذوہیب توشاید دن میں بھی کرنے سے باز نہ آتا لیکن وہ راحیلہ کو زبردستی نہین چود سکتا تھا۔ ایک تو ڈاکٹر سے اُس کو آپنا علاج کروانا تھا اور دوسرا ابھی کمرے مین قمر بھی لیٹی ہوئی تھی۔
          راخیلہ ناشتے کے فورا بعد ہی اُس کو لے کر أپنا گھرگھومانے لگی تھی۔ بنگلے کے لان مین ایک ساتھ چلتے چلتے راحیلہ نے اپنی کمر پر ذوہیب کا ہاتھ پایا جو اُس کی کمر پر آہستہ آہستہ ہل رہا تھا وہ چپ کر کےاس کے ساتھ چلتی رہی اُس کی جسم میں گرمی آنے لگی تھی ۔
          ذوہیب نے تھوڑی دیر بعد ہاتھ ہٹا لیا پھر راحیلہ انتطار کرتی رہی کہ ذوہیب دوبارہ سے کچھ کرے لیکن اس نے واپس کچھ نہیں کیا ۔ سارے لان مین چکر کاٹتے ہوئے ایک گھنٹے سے بھی زیادہ گزر گیا ۔
          راحیلہ کواب جسم کی بھوک تیز ہوتی
          سا نسوں سے ظاہر ہونے لگی۔
          ۔ لیکن ذوہیب اُس کی بھوک جگا کر خود پتہ نہیں کہاں سو چکا تھا۔ راحیلہ نے سوچا کیوں نہ مین خودچیک کروں کہ ذوہیب کیا چاہتا ہے أؤ ذوہیب جانو ادھر گیسٹ روم مین چلتے ھین ۔
          راحیلہ جی کیاہوا۔؟ ادھر کیون جانا ہے ساتھ ذوہیب نے شہوت بھری سرگوشی کر ڈالی۔ ذوہیب راحیلہ کے ساتھ لگ کر چلتا ہوا کافی بے چین تھا۔
          اس کامطلب تھا وہ بھی اُسی آگ میں جل رہا تھا جس میں راحیلہ جل رہی تھی۔
          کیا ہوا کا کیا مطلب ھے۔کیا تم نہین سمجھ رہے ہمین اب کیا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر راحیلہ نے واپس اُس کو پوچھا۔
          جیساآپ کہین۔ جواب مین ذوہیب بولا پڑا
          پھر چلتے چلتے راحیلہ نے ذوہیب کے گھوڑے کو مظبوطی سے پکڑ لیا اور اور اپنا منہ بھی ذوہیب کی طرف کر لیا۔ پھر بولی جانوکیا سوچ رہے ہو۔
          ذوہیب۔ مین جو سوچ رہا ہوں وہ مجھے بہت عجیب لگتا ہے۔
          راحیلہ نے ایک لمبی آہ بھری اس کا اندازہ سہی تھا وہ بھی اُتنا ہی بے چین تھا جتنی وہ بیقرارتھی، ۔
          بات سمجھ میں بھی آتی تھی ڈاکٹر راحیلہ کے بنگلے پر اکیلےتھے دونوں۔اور اب تو گیسٹ روم مین وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ چکے تھے جہاں اُن کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا اور سیکس کی بھوک دونوں کے اندر جاگ چکی تھی۔
          لیکن دیوار صرف ایک تھی صرف پہلے شروعات کون کرے۔ ڈاکٹر مریض والا تعلق ہی ایئسا تھاجو اُن کو سب حدیں پار کرنے سے روک رہا تھا۔
          پھر راحیلہ کا صبر جواب دے گیا اُس نے ذوہیب کا ہاتھ پکڑا اور اپنی کمر پر رکھ کر اُس کے پاس ہو کر اُس کو اپنے ساتھ لگا لیا ۔ذوہیب بھی گھوڑے کی اٹھان اوراپنے اندر کی جنگ سے ہار چکا تھا اور اُس نے بھی دیر نہیں لگائی اور ڈاکٹر کو پکڑ کر اپنے ساتھ لیپٹا لیا۔
          اسنے اپنے تپتےہونٹوں کو راحیلہ کے ہونٹوں پر رکھ کر اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا ۔شہوت اور جزبات کی مدہوشی میں وہ صرف ایک دوسرے کی سانسوں کی آوازیں ہی سن سکتے تھے۔ان کیلئے اب رکنا بہت مشکل تھا ۔
          ذوہیب کوکچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا اسکی آنکھون مین صرف راحیلہ کی چوت کا عکس ہی نظر آ رہا تھا ۔
          اس نے اپنا ایک ہاتھ ڈاکٹرکے گداز تنے ممے پر رکھ دیا راحیلہ کے ممے بہت بڑے تھے۔ اُتنے ہی بڑے جتینے ایک صحتمند مٹیارکے ہو سکتے تھے۔وہ دیکھنے میں کافی خوبصورت تھی گوری چٹی الہڑ مٹیار ۔ شادی کے وقت وہ کافی سمارٹ بھی تھی لیکن جیسے جیسے شادی کے بعد سال گزتے گے اور عمر بڑھتی گئی ۔
          اُس کا وزن بھی برھتا گیا اور اب راحیلہ کا فگر کافی بڑا تھا ۔ وہ 40 کا برا پہنتی تھی اُس کی کمر البتہ32 انچ کی تھی اور ڈاکٹر راحیلہ کی پرکشش گانڈ کی اٹھان تو تباہی والی تھی اُس کی یہہ خوبصورت دلکش وادی 42 انچ کی تھی۔
          ویسے تو کافی مردوں کو بڑی عمر کی موٹی عورتوں میں کشش محسوس ہو تی ہے ۔ لیکن ڈاکٹر راحیلہ کے چہرے میں اتنی معصومیت جازبیت اور کشش تھی کے اگر کسی کو موٹی عورت پسند نہیں بھی تھی تو اُس کو بھی راحیلہ ضرور پسند آ جاتی تھی۔ ڈاکٹر راحیلہ کا بدن تھوڑا فربہ ضرور تھا لیکن تھا قیامت کی کشش والا اور لٹکا ہوا تو بلکل نہیں تھا ۔
          سخت کسا ہوا جاذبیت بھرا نازک جسم تھا یعنی وہ موٹی صحت مند ہونے کی وجہ سے تھی۔ کسی بیماری کی وجہ سے موٹاپا نہیں تھا۔ اور قد لمبا ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ موٹی بھی لگتی نہیں تھی اُس کا جسم انڈین حسین اورچنچل ادکارہ مادھوری ڈکشیٹ کی طرح کا تھا۔
          ذوہیب کو اُس کے تربوز جیئسے ممے کو ہاتھ میں لے کر بہت مزا آیا اور راحیلہ کے لیے بھی یہ بہت خوش کن احساس تھا ۔ ذوہیب اُس کے ممے کو دباتا رہا اور اُس کے ہونٹوں کو چوستا اور کاٹتا رہا ۔ کچھ دیر جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ایسی حالت میں رہے تو ۔
          ڈاکٹر راحیلہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنا ہاتھ اس کے لن پر رکھا تو وہ تنا ہوا تھا ۔ ذوہیب نے گھر مین ہی رہنے کے لیے ڈھیلی ڈھالی شلوار پہنی ہوئی تھی۔ اس نے شلوار کے اُوپر سے ہی اُس کا لن ہاتھ میں لیا ۔ کل شائید جوش کی وجہ سے یا جلد بازی کی وجہ سے ڈاکٹر راحیلہ نے اپنی چوت کے اندر لینے کے باوجود محسوس نہیں کیا تھا لیکن آج ہاتھ میں لینے کے بعد اس کو احساس ہو رہا تھا کے ذوہیب کا لن کافی بڑا تھا شاہدسے اور موٹا بھی بہت لگ رہا تھا اُس کے دل میں شدید تمنا ہوئی اُس کا لن دیکھنے کی لیکن نسوانی شرم نے اُس کو روکے رکھا ۔
          ڈاکٹر کی لن پکڑنے والی حرکت نے ذوہیب کی رگوں میں خون کی رفتار تیز کر دی تھی ۔
          وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور راحیلہ کے اُپر آگیا اُس نے اسکے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کی گردن کو چومتا ہوا اُس کی سینے کی طرف آ گیا پھر اُس نے ڈاکٹر کے مموں کو قمیض کے اُپر سے ہی چومنا شروع کیا ۔ راحیلہ کو جب اُس کی گرم سانسیس اور اُس کے ہونٹوں نرم لمس اپنے مموں پر محسوس ہوا تو اُس کی منہ سے بلکل ہلکی آواز میں ایک سسکاری نکل گئی اور اُس کی سانسسوں کی رفتار اور بڑھ گئی۔
          سانس تیز ہونے کی وجہ سے اُسکے مموں نے بھی واضع طریقے سےباونس ہوتے ہوئے اُوپر نیچے ہونا شروع کر دیا۔ اب عاطف نے چومتے ہوئے اُس کے پیٹ کی طرف جانا شروع کیا ۔ تب ہی ڈاکٹرکی ہمت جواب دے گئی ۔ وہ شہوت سے بوجھل أواز سےبولی۔ جانو اب شروع کرو پلیز۔
          ذوہیب نے اپنا منہ اُس کے پیٹ سے اُٹھایا اور پھر ہاتھ نیچے کر کے اُس نے راحیلہ کی شلوار اُتار دی اس نے اپنا جسم اُٹھا کر اُس کا ساتھ دیا تھا۔ ڈاکٹر کا بہت دل چاہا کے وہ اسکی قمیض بھی اُتار دے لیکن اُس نے سوچا پتہ نہیں میرا خود سے کہنا ذوہیب کو برا نہ لگے ۔ اس لیے وہ اپنی خواہش کے باوجود اس سے بولنے سے باز رہی ۔
          ذوہیب نے اسکی شلوار بیڈ پر رکھنے کیبعد اپنے کپڑے آتار نے شروع کیے ۔آج اُس نے اپنی شلوار کے ساتھ ساتھ اپنی قمیض بھی اُتار دی تھی۔ذوہیب خود ہی پورا ننگا ہو گیا تھا۔ اور پھر وہ شہوت سے مچلتی راحیلہ کے اُوپر آگیا۔
          ڈاکٹرنے اُس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیا ۔ ذوہیب اپنا لن اُس کے چوت کے لبوں مین رگڑ رہا تھا ۔ڈاکٹر اُس کی ہر رگڑ پر اپنی چوت کا منہ کھولتی تھی اور ساتھ اُس کے جسم کو اپنے بازوں میں دبا ڈالتی ساتھ راحیلہ کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔ اس کی گیلی چوت اپنے پانی سے مکمل تر تھی۔
          ذوہیب کا لن بھی اُس کی چوت کے پانی میں بھیگ چکا تھا لیکن وہ اُس کی حالت کا مزا لے رہا تھا ۔ وہ اپنے لن کو بار بار اُس کے چوت کے لبوں پر اور اُس کے کلیٹ(چھولے) پر رگڑتا تھا لیکن چوت کے اندر نہیں ڈالتا تھا ۔ أہ جانو۔
          آج کیا مار دو گے؟ ۔
          کیوں تڑپا رہے ہو مجھے۔
          راحیلہ کی ہمت جواب دے گئی۔
          کیا کروں مین۔ اُپ مجھے بولو گی تو کروں گا نہ۔ ذوہیب بھی ڈاکٹر کی حالت سے مزا لینے کے موڈ میں تھا۔
          اوف جانو وہی کرو جو کل تم نے کل کیا تھا۔ راحیلہ نے سسکاری لیتے ہو ئے بولا۔
          کل کیا۔ کیا تھا مین نے۔ مجھے تو یاد نہیں کچھ بھی۔ ذوہیب اُس کے گال کو چومتے ہوئے بولا ۔
          پلیز جانو اندر ڈالو۔ ڈاکٹر راحیلہ اس بار چلا اُٹھی۔
          ذوہیب مسکرا پڑا یہی وہ سننا چاہ رہا تھا اُس نے اپنا لن چوت کے منہ پر رکھا اور ایک زور کا دھکا مارا ۔ لن گھڑپ کر کے چوت کی گہرائی میں اُترتا گیا ۔ ڈاکٹرکے منہ سے ایک لمبی سسکاری نکل گئی ۔
          لن سیدھا جا کر اُس کی بچے دانی پر لگا تھا ۔ جس سے اُس کو تھوڑا درد بھی ہوا تھا کیوں کے ذوہیب نے بہت زور سے ڈالا تھا ۔مگر سسکاری درد کی نہیں اُس مزے کی تھی جو ڈاکٹر راحیلہ کو ملا تھا۔
          ذوہیب نے اب آگے پیچھے ہونا شروع کر دیا اُس کی سپیڈ آج سٹارٹ سے ہی بہت تیز تھی ۔ وہ ٹھک ٹھک اندر باہر کر رہا تھا اور ڈاکٹربھی اُس کا پورا ساتھ نیچے سے ہل ہل کر اور چوت کو گھول گھول گھوما کر دے رہی رتھی ۔
          ذوہیب نے آج نوٹ کیا تھا ۔ پہلے کی جو بھی چودی ہوئی کنواری اور جوان لڑکیان بھابھیون أنٹیون اور ڈاکٹر راحیلہ میں کیا فرق ھے۔ سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ وہ سب چدوا کر مزا لینا چاہتی تھین۔ جب کے ڈاکٹر راحیلہ اپنی چودائی سے مرد کو مزا دے کر پھر اس سے ڈبل مزا واپس لینا جانتی تھی۔
          ​​​​​​ڈاکٹر کی نیچے سے ہلنے کی رفتار بڑھنے لگی اور اُس کی گرم سانسوں نے بھی اور تیز چلنا شروع کر دیا اُس نے اچانک ذوہیب کے سر کو پکڑا اور اُور اُس کو اپنے ساتھ لگا کر اُس کے کندھے میں اپنے دانٹ گاڑھ دئے ۔جس سے ذوہیب بھی سمجھ گیا وہ فارغ ہو رہی ہے اُس نے بھی دھکوں کی رفتار اور تیز کر دی ۔
          وہ پورا لن باہر کی طرف کھینچتا اور پھر فل رفتار سے اندر ڈالتا راحیلہ کچھ دیر بعد نارمل ہو گئی اُس کو پہلا ارگیزم ہو گیا تھا ۔ راحیلہ نے اس کو رُکنے کا بولا۔ذوہیب اُس کے اُوپر ہی لیٹا رہا اُس نے اپنا لن باہر نکال لیا تھا ڈاکٹرنے تھوڑی دیر بعد اُس کو ایک طرف ہونے کا بولا اور پھر اُس نے اپنی چوت سائیڈ ٹیبل پر پڑے ایک ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر صاف کی ۔
          آج وہ گیسٹ روم میں بلکل اکیلے تھے۔ اس لئے ذوہیب آج کل سے تھوڑا زیادہ ایزی تھا۔ اس لیے وہ کافی اگے پیچھے حرکت کر رہاتھا۔ بلکہ دونون ھی تھوڑی بہت بات چیت بھی آپس مین کر رہے تھے۔
          ڈاکٹر راحیلہ نے چوت صاف کر کے ذوہیب سے بولی۔ آ جاؤ جانو۔
          ذوہیب ۔ ڈاکٹر اب آپ اُلٹا لیٹو۔
          راحیلہ بولی ۔ کیوں جانو کیا پیچھے سےکرنا ہے۔
          ذوہیب بولا۔ نہیں ڈاکٹر صاحبہ آگے سے ہی کرو گا لیکن پیچھے سے۔ راحیلہ اُلٹا لیٹ گئی ۔
          ذوہیب اُس کے پیچھے آ گیا اُس نے ڈاکٹر کی ملائم ٹانگوں کو کھولا اور پھر اپنا آپ اُن کے درمیان اڈجیسٹ کیا اور پھر اپنا لن اُس کی چوت کو ڈھونڈ کر اُس پر رکھا اور جٹھکا مارا لن اندر گھس گیا ۔
          راحیلہ کے منہ سے سسکاری نکلی اس بار یہ سسکاری درد کی ہی تھی کیوں کے اُلٹا لیٹ کر لن اُس کئ چوت کے اگلے حصے سے رگڑ کر گیا تھا اور چوت نے ابھی پانی نہیں چھوڑا تھا کیونکہ ابھی صاف کی تھی تو اُس کو تھوڑی تکلیف ہوئی تھی۔
          ڈاکٹر راحیلہ کی گانڈ کیونکہ کافی بڑی اور نرم تھی اور پھیلی ہوئی بھی تھئ اس لیے ذوہیب کو بہت اچھی محسوس ہو رہی تھی وہ راحیلہ کی گانڈ کو واضع طور پر دیکھ تو نہیں پا رہا تھا ۔ لیکن اسکی پرکشش گانڈ کی جاذبیت اور گرمائش محسوس اچھی طرح سے کر رہا تھا۔
          ذوہیب نے اپنے لن کو اُس کی چوت میں تھوڑی دیر رُوک دیا اور راحیلہ کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔پھر اُس نے ہاتھ پھیرتے ہوئے ڈاکٹر کی گانڈ کی لائن میں اپنی انگلی پھیری۔
          راحیلہ کو اُس کی اس حرکت نے بہت مزا دیا اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تکیے کو مظبوطی سے جکڑ لیا۔ اُس کی چوت پھر سے گیلی ہو گئی تھی۔
          ذوہیب نے پھر اُس کی گانڈ سے ہاتھ اُٹھائے اور بیڈ پر راحیلہ کے دونوں طرف رکھ کر دھکے مارنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر راحیلہ نے ٹانگوں کو اور کھول دیا اب وہ ایسے لیٹی تھی جس سے ذوہیب بہت ہی آسانی سے آگے پیچھے ہو سکتا تھا اُس نے ایک ہاتھ سے ڈاکٹر کے بالوں کو پکڑا اور اُس کے سر کو ایک طرف کیا اب اُس کے منہ کا ایک طرف یعنی ایک گال ذوہیب کے منہ کے بلکل نیچے تھا ۔
          ذوہیب نے اُس کے کان کو منہ میں لیا اور چوما اور ہلکا ہلکا کاٹا ۔راحیلہ ایک بار پھر آرگیزم کی طرف بڑھ رہی تھی اُس نے تکیے کو بری طرح سے اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہو تھا اور سانسسوں کی آواز بہت تیز نکل رہی تھی ۔
          ذوہیب نے اپنی رفتار اور تیز کر دی وہ بھی انزال کے قریب ہی تھا اُس نے راحیلہ کے کان میں کہا۔ میں چھوٹنے والا ہوں۔ ڈاکٹر راحیلہ کے منہ سے ٹوٹے الفاظ نکلے۔جانو اندر نکالو گے تو ہی مین پریگنیٹ ہون گئی راحیلہ کی سانس اتنی تیز تھی کہ ذوہیب اُس کے الفاط تو نہ سمجھ سکا لیکن وہ اسکی بات اور مدعاسمجھ گیا ۔
          راحیلہ نے بولا تھا ۔مجھےپریگنیٹ ہونا ھے اندر ہی چھوٹ جاؤ۔ میں بھی قریب ہی ہوں۔
          ذوہیب اب بہت زیادہ تیز ہو گیا اُس نے دونوں ہاتھوں کو واپس بیڈ پر رکھا ہوا تھا اور فل رفتار سے اندر باہر کر رہا تھا اچانک راحیلہ نے اپنی گانڈ کو ایسے اُوپر کو اُٹھایا جیسے اگر کسی کو آگے کی طرف کو کچھ مارا جائے تو وہ پیچھے کو ہوتا ہے۔
          ڈاکٹر راحیلہ کے اس انداز سے اور اس کی چوت نے جیسے ذوہیب کے لن کو جکڑا تھا اُس سے ذوہیب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ راحیلہ چھوٹ گئی تھی۔
          ڈاکٹر راحیلہ کےکے چھوٹنے کے ساتھ ہی وہ بھی اپنا پانی اُس کی چوت میں پھنکنے لگا ۔پھر وہ اُس کی بیک پر اُس کے اُپر ہی لیٹ گیا دونوں ہی بہت لمبے سانسس لے رہے تھے۔ ڈاکٹر آپ کا ارگیزم بہت ظالم ہوتا ہے۔
          ذوہیب نے تھوڑی دیر بعد اس کوبولا۔ جواب مین راحیلہ کچھ بولی نہیں صرف شرمندہ سی ہو گئی۔
          ذوہیب کو اُس کا ارگیزم یعنی انزال پر پہنچنے پر جو ردعمل اُسکی طرف سے آتا تھا واقعہ ہی دلچسپ لگا تھا اُس نے کل اور آج پہلی بار اُس کے کندھے کو جس طرھ کاٹا تھا جس وقت وہ کاٹتی تھی اُس وقت تو اس کو بھی محسوس نہیں ہو تا تھا مگر بعد میں پتہ چلتا تھا اور پھر آج دوسری بار میں ڈاکٹر راحیلہ نے جس طرح سے گانڈ اُٹھائی تھی اور جس طرح اُس نے اپنے جسم کو حرکت دی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کے جسم سے جان نکل رہی ہو۔
          ​​​​​​​ ذوہیب جان گیا تھا کہ ڈاکٹر راحیلہ بہت ہی گرم عورت تھی ۔ اُس نے مختلف عورتون کے ساتھ کافی دفعہ سیکس کیا تھا خاص طور پر سحر کی فیملی کی ساری عورتون کے ساتھ اور اُس سے پہلے بھی کئی بار کیا تھا لیکن ڈاکٹر جیسی گرم عورت کوئی نہیں ملئ تھی ۔ یا شائید پہلے کبھی کوئی ایئسی گرم ہی نہیں تھی کیونکہ دونون أنٹیون کے سواوہ سبھی لڑکیاں ہی تھیں شائید یہی فرق تھا۔
          ڈاکٹرصاحبہ أپکے ہسبینڈبہت خوش قسمت ہے کہ آپ اُن کو ملیں۔ ذوہیب بہت ہی عجیب کیفیت مین کچھ دیر بعد بولا مگر اس حساب سے تو تم بھی کم خوش قسمت نہین ہو کیونکہ میں ابھی تمہارے نیچے ہوں۔
          راحیلہ نے ہنس کر جواب دیا تو ءذوہیب بھی ہنس پڑا اور پھر اس کے اُوپر سے اُتر کر ایک طرف لیٹ گیا۔
          دن کے بارہ بجے ذوہیب کی آنکھ پھرکھل گئی تو کمرے مین باہر سے روشنی اندر آرہی تھی دن أدھا نکل چکا تھا ۔ ڈاکٹر راحیلہ ابھی تک مدہوش سو رہی تھی ۔ذوہیب نے اُس کو غور سے دیکھ اُس کو اسپر بہت پیار آیا وہ بڑے مطمین انداز میں چوتڑ اٹھائےألٹی سو رہی تھی ۔
          ذوہیب اُٹھا اور واش روم میں چلا گیا ۔ ہاتھ منہ دوھونے کے بعد جب وہ واش روم سے باہر آیا تو اُس کی نظر دوبارہ بیڈ پر سے ہوتے ہوئے راحیلہ پر جاپڑی ۔ وہ ابھی تک سو رہی تھی ۔
          مگر اُس نے اپنا رُخ بدلا ہوا تھا اُسکی ٹانگوںاور چوتڑون پر سے کمبل بھی ہٹا ہوا تھا اُس کی سڈول بھاری رانیں ننگی تھی اُس کی گداز ٹانگوں پر بال نام کی کوئی چیز نہیں تھی بلکل صاف گوری مخملی ٹانگیں تھییں راحیلہ کی۔
          ذوہیب کا لن اُس کی ٹانگوں کو دیکھ کر ہی کھڑا ہو گیا۔ اسنے پہلی بار روشنی میں راحیلہ کےآدھے ننگے بدن یعنی رانوں اور ٹانگوں کو دیکھا تھا ۔ وہ ذوہیب کی سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ۔اسکے دل میں آیا کے کیوں نے اُس کی گانڈ کےدونون پٹون کو علیحدہ ۔ہٹا کر گانڈ اور چوت کے سوراخ کو بھی دیکھا جائے ۔
          لیکن پھر وہ اپنی اس کمینی سوچ پر خود ہی شرمندہ ہو گیا جب اُس کو یاد آیا کےوہ اس کی ڈاکٹر ہے اور اگر وہ اس سے ناراض ہو گئی تو ذوہیب کیلئے ایک نئی مشکل کھڑی ہو جائے گئی ۔
          ذوہیب نے اپنے کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر لنچ کرنےنکل گیا ۔جب وہ کھانا کھانے کیبعد گیسٹ روم مین ے واپس آیا تو ءڈاکٹربیڈ پر نہیں تھی اور واش روم میں پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی اس کا مطلب وہ نہا رہی تھی، خیر ذوہیب بیڈ پر بیٹھ کر ڈاکٹر راحیلہ کا انتظار کرنے لگا۔
          راحیلہ فریش ہو کر کمرے مین آئی اوراُن دونوں نے کچھ دیر بیٹھ کر آئندہ کے لیے پلان ترتیب کیا اور پھر ڈاکٹر راحیلہ قمر کوساتھ لیے کر ہسپتال چھوڑنے
          کیلئےنکل گئی ۔
          ذوہیب راحیلہ کے جانے کے بعد مریم کو فون کر کے گپ شپ لگانے لگا۔مگر جیئسے ھی مریم کو پتہ لگا کہ ذوہیب راحیلہ کےگھر پر اکیلا ھے۔
          مریم فون بند کرکے پندرہ منٹ مین ذوہیب کے پاس پہنچ گئ اس وقت دوپہرکےدو بج رہے تھے ۔مریم اور ذوہیب کو پتہ تھا کہ راحیلہ کبھی بھی واپس آ سکتی ھے ۔اسلیے اُن دونوں میں سے کوئی بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
          اس لیے کچھ ہی دیر میں وہ کپڑے اتار کر ایک دوسرے کی بانہوں میں تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے منہ میں اپنا منہ ڈال کر ایک دوسرے کی زبانوں کو اور ہونٹوں کو چاٹتے ہویے ساتھ چوس رہے تھے ۔
          ذوہیب اپنا ہاتھ بیقراری سے مریم کے جسم پر اوپر سے نیچےکی طرف مسلسل گھوما رہا تھا اور اُس کی گانڈ سے لے کر اُس کے بیک نیک تک پھیر رہا تھا ۔ مریم نے بھی اپنے بازو اُس کے گرد جکڑے ہوئے تھے اور ایک ہاتھ ذوہیب کے سر کے پیچھے اُس کے بالوں میں پھیر رہی تھی۔۔
          ​​​​​​​ اچانک کمرے کا دروازہ تیز أواز سے کھلااور مریم کمرے کے دروازہ پر کھڑے شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئ۔چند لمحون کے بعد ہی مریم اٹھی اور ننگی ہی اٹھ کر میرا بھائی أ گیا ھے وہ اٹھ کر دوڑتی ہوئی ارشد ارشد میرا ویر میرا بھائی کہ کر اس سے لیپٹنے کی کوشش کرنے لگئی۔
          پھر جیئسے ہی ارشد کے پیچھے سےکوئی نکل کر سامنے آیا مریم پریشان ہو گئی۔
          @#۔
          برہ اپنے گمشدہ شوہر کے واپس آنے کا انتظار بہت شدت سےکر رہی تھی۔
          بانو کے دئے گئے پیغام کے مطابق وہ آج شام کو گھر آنے والے تھے۔ برہ نے اپنے تینوں بیٹون کو نئے کپڑے پہنا رکھے تھے برہ کی باجی فرح نے بھی برہ کی دیکھا دیکھی أپنی تینون ننھی کلیوں اور چھوٹےبیٹے کو تیار کر دیا تھا۔فرح کی بڑی بیٹی گوری چٹی بلکل باربی ڈول تھی جبکہ دوسری دونون بچیان موٹے نقوش والی سانولے رنگ کی تھین ۔
          ۔جارھی ھے۔۔
          ​​​​​​​
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • #15
            ۔نیو اپڈیٹ۔
            نئی کروٹ۔
            برہ اپنے محبوب شوہر ذوہیب کے واپس آنے کا انتظار بہت شدت سےکر رہی تھی۔
            بانو کے بتائے گئے پیغام کے مطابق تو اسے اب تک واپس گھر آ جانا چاہیے تھا۔برہ نے وہ دن تو جییسے تیئسے کرکے انتظار کی شدید کوفت مین گزارا۔
            مگر رات کو بستر پر لیٹتے ہی بیقراری حد سے بڑھ گئی اور برہ سے وقت نکالنا مشکل ہو گیا۔اس نے رات کو ہی فیصلہ کر لیا۔کہ وہ صبح پہلی گاڑی سے ہی نکل کر ذوہیب کے پاس پہنچ جائے گئی۔
            صبح فرح کو جب برہ کے جانے کا پتہ چلا تو وہ بھی ساتھ جانے کو تیار ہو گئی اور اس نے ساتھ سبھی بچون کو بھی کپڑے پہنا کر ساتھ جانے کیلئے تیار کیا۔مگر عامر نے کاروباری میٹنگ کا بہانہ کرکے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے۔وہ جلدی سے اٹھا اور فورا ہی گھر سے نکلتا ہوا دفتر چلا گیا۔
            عامر کو درأصل اج کل ایک دفتر کی لڑکی کو سیٹ کرنے کا جنون ہو رہا تھا۔
            برہ اور فرح حیرانگی پریشانی سے ایک دو سرے کا منہ دیکھنے لگین۔پھر کچھ سوچ کر فرح کا چہرہ چمکا اٹھا۔جب اسے بانو کے بوائے فرینڈ ارشد کی یاد أئی(بانونے ذوہیب کے جس جگہ ملنے کا بتایا تھا وہی گاون تو ارشد کابھی تھا۔ فرح نے بہت چالاکی سے بانو کے فرینڈ ارشد کو اپنے دام مین پھنسا رکھا تھا اور ہفتہ مین دو تین بار تو لازمی عامر اور ارشد سے اکٹھے چدواتی تھی۔ذوہیب جاتے جاتے فرح مین چدائی کی انوکھی پیاس جگا گیا تھا فرح اب جتنا بھی چدائی کروا لیتی اسکی پھدی کی أگ مٹنے مین نہین أتی تھی)۔
            فرح اس سے بولی برہ تم فون کرکے چاند گاڑی منگواؤ مین ارشد کو فون کرکے بلا لیتی ہون۔ اور اسے ہم ساتھ لیکر جاتے ھین اورچند دن اپنےساتھ رکھین ھی گےاسکو بھی۔ فرح دل ہی دل مین ذوہیب اور ارشد سے ایکساتھ چدائی کا پروگرام بنانے لگی تھی۔
            اور پھر ایک گھنٹے بعدارشد کےآجانے پر وہ گھر سے ذوہیب کے پاس جانے کیلیے روانہ ہوگئے۔
            وہ لوگ دوپہر کے بعد گھر سے نکلے تھےاور ادھے گھنٹے مین لاری اڈا پہنچ گئے جہاں اے سی بس میں برہ چند پہلے ہی سیٹین ایڈوانس بکنگ کرواچکی تھی۔
            فرح کے بچون اور ارشد کے ساتھ جانے کا اسے پہلےاندازہ نہیں تھا کہ ایسا ہوگا ورنہ برہ انکی بھی ایڈوانس بکنگ کروالیتی۔ خیر انکے لئےسیٹیں نہ ملنے کی وجہ سے ان لوگوں نے نان اے سی بس میں ایک ساتھ ہی جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے سٹاپ پر پہنچ گئے جہاں پر بہت ہی رش تھا ایسا لگ رہا تھا کہ سارا لاہور ہی انکے ساتھ جانے کے لئے یہاں امڈآیا ہے۔
            سٹاپ پر برہ اور فرح کے علاوہ کوئی بھی خاتون نہیں تھی تمام مسافر مرد تھے جس کو دیکھ کر فرح اور برہ دونوں پریشان ہوگئین کہ اس رش میں کیسے سفر کریں گی خیر اب کیا ہوسکتا تھا انہین جانا تو ہر صورت ہی تھا ۔
            فرح ارشد سے بولی ہم لوگ اس رش میں کیسے جائیں گے‘ فرح نے ارشد سے جب فکر مند ہوکر پوچھا تو جواب مین ارشد کے بجائے برہ بول اٹھی ۔
            فرح آپی یہان تو ارشد اورآپ بچون کو لیکر واپس گھر چلی جائین۔ورنہ ہمیں اسی رش میں ہی ہر صورت جانا پڑے گا ہمارے پاس اور کوئی چوائس نہین ہے۔؟
            یہہ اس روٹ کی أخری بس ہے ارشد نے بھی برہ کے بعد فرح کو جواب دیے کرانکی پریشانی کو مزید بڑھایا۔
            کافی دیر انتظار کے بعد بس سٹاپ پر آگئی ابھی بس سٹاپ پر رکی ہی نہیں تھی کہ لوگ اس کی طرف لپک پڑے۔فرح اور برہ دونوں بچون کے جھرمٹ اور ارشد کےساتھ بس کی طرف روانہ ہوئے ارشد نے برہ کے ساتھ بچون کو بھی بہت مشکل سے بس میں سوار کرایا اور خود بھی دروازے پر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا اسی اثناءمیں باہر سے مسافروں کا ایک دھکا لگا اور ارشد اور برہ دونوں بچون کیساتھ بس کے اندر پچھلی سائیڈ پرپہنچ گئے اس دھکے کی وجہ سے فرح ان سے علیحدہ ہو کر بس کی فرنٹ سائیڈ پر چلی گئی۔
            چند سیکنڈ میں ہی بس مکمل فل ہوگئی اب بس میں کسی کے پیر رکھنے کی بھی گنجائش نہین تھی برہ نے فرح کو ڈوھنڈنے کیلئےادھر ادھر نظر دوڑائی تو وہ بس کے دروازے سے کچھ آگے چند آدمیون کے درمیان میں ایک ہاتھ چھت کے ساتھ لگے ہینڈل کو پکڑے کھڑی تھی جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ سامنے والی سیٹ کی پشت پر تھا اس نے دونوں ہاتھوں سے سیٹ اور اوپر والے ہینڈل کو پکڑ رکھا تھا۔فرح کو اس طرح اجنبی لوگون مین پھنسا دیکھ کر نہجانے کیون ۔
            برہ کو بہت کمینی خوشی نصیب ہوئی
            جبکہ ارشد فرح سے کافی دور بس کے عقبی حصہ میں ہی برہ اور بچون کے پاس تھا۔وہ فرح کو اس حالت مین دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
            اسنے وہاں سے حرکت کرکے فرح کے پاس پہنچنے کی کوشش کی لیکن اسکے آگے کھڑے مسافر چلانے لگے جس پر مجبورأ ارشد کو بھی وہیں برہ اور بچون کے پاس ہی کھڑا ہونا پڑا۔
            ادھر برہ نے فرح کی طرف دیکھتے ہویے نوٹ کیا کہ اس کے پیچھے ایک بھاری بھر کم شخص کھڑا ہوا ہے جس کا قد لمبا اور کپڑے کافی میلے کچیلے تھے اس نے ڈریس پینٹ اور شرٹ پہن رکھی تھی فرح کا سر اس کی چھاتی پر آرہا تھا اس شخص نے فرح کے ہاتھ کے پاس ہی ایک ہاتھ سے چھت والے ہینڈل کو پکڑا ہوا تھا ۔
            جبکہ فرح کے اگلی سائیڈ پر بھی ایک شخص کھڑا ہوا تھا جو دیکھنے میں سلجھا ہوا لگ رہا تھا ان دونوں کے درمیان میں کھڑی فرح بچی لگ رہی تھی۔
            برہ کو فرح کی حالت دیکھ کر سینڈوچ کی یاد آ گئی۔ فرح اس وقت دونون أدمیون کے درمیان ایئسے تھی جیسے۔سینڈوچ کی بریڈ کے درمیان کریم لگاتے ھین
            ارشد نے ایک بار پھر سے حرکت کرکے اس کے پاس پہنچنے کی کوشش کی لیکن اپنی جگہ سے ایک انچ بھی آگے نہ جاسکا بلکہ الٹا پاس کھڑے مسافروں کی بدتمیزی کا سامنا اسےکرنا پڑا ۔
            وہ بھی دیکھ رہا تھا کہ فرح کے پیچھے کھڑا ہوا شخص فرح کے مموں کی طرف بہت غور سے دیکھ رہا ہے اسے اپنی ”پراپرٹی“ کی طرف گھورنے پر اس اجنبی شخص پر بہت غصہ آرہا تھا لیکن وہ اس سیچوئشن مین کچھ بھی نہیں کرسکتا تھااسلئے وہ چپ چاپ وہیں کھڑا رہا۔
            اور بے بسی کی حالت میں گرفتار۔ہوکر واپس مڑا اور برہ کی طرف دیکھ کر بولا برہ آپی فرح باجی تو ادھر اگے بندون کے درمیان بہت بری طرح سے پھنس چکی ھین۔برہ نے ہنستے ہوئے ارشد کے کانون مین سرگوشی کی۔تم کیون اتنا پریشان ہو رہے ھو۔تم اچھی طرح سے جانتے ہو نا اسے ہر روز نئے اور دو دو لوڑؤن سے کھیلنے کا بہت شوق ہے۔وہ آج اچھی طرح سے انجوائے کرے گی تم ریلیکس رہو۔اور فرح اپی کو دیکھ کر تم بھی مزے کرو۔
            تھوڑی دیر بعد ایک جھٹکے کے ساتھ ہی بس چل پڑی اور فرح کے پیچھے کھڑا ہوا شخص اس کے بالکل ساتھ لگ گیا فرح نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا کیوں کہ بس میں رش کی وجہ سے ہر شخص کی یہی حالت تھی سڑک کی حالت بہت خراب تھی اور اس کے علاوہ بس بھی کوئی انگریزون کے دور کی کھٹارہ حالت میں تھی جو کہ رش کی وجہ سے سڑک پر آگئی بس سڑک پر جھٹکے لے کر چل رہی تھی ہر جھٹکے کے ساتھ پیچھے کھڑا ہوا شخص فرح کے ساتھ پیچھے سے مزید جڑنے کی کوشش کررہا تھا اور اس کے ساتھ رگڑین کھارہا تھا جبکہ رش کی وجہ سے فرح کو معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
            ارشد نے ایکبار پھر سے غصے سے اس شخص کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اسکا دل کیا کہ وہ فوری طورپر فرح کے پاس پہنچ جائے اور اس آدمی کو پکڑ کر فرح سے ہٹا کر پیچھے کردے مگر اس رش میں وہ ایسا بلکل بھی نہین کرسکتا تھا اورابھی دوسرے مسافروں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ شخص کیا حرکت کررہا تھا۔
            ارشد نے ایک مرتبہ اونچی آواز میں بول کر اس شخص کو پیچھے ہونے کے لئے کہنے کا بھی سوچا لیکن پھر سوچا کہ تمام مسافروں کی توجہ اپنی معشوقہ کی طرف کروانے میں مزید بے عزتی ہوگی اس لئے وہ خاموش ہی رہا ۔
            رش کی وجہ سے فرح کا دوپٹہ بھی اس کے سر سے نیچے اتر گیا اور کندھوں پر آگیا تھا جس کی وجہ سے اس کے بڑے مموں کا نظارہ مزید بہتر انداز سے ہورہاتھا جس سے وہ شخص بھی خوب انجوائے کررہا تھا تھوڑی دیر بعد اس شخص کا حوصلہ مزید بڑھ گیا اور بس کے جھٹکے کے ساتھ ہی اس نے خود کو مزید آگے کرلیا اور فرح کے ساتھ مزید جڑ گیا۔
            برہ ادھر ادھردیکھ رہا تھی کہ کیاکوئی دوسرا مسافر بھی اس کی اس گندی حرکت کا نوٹس لے رہا ہے۔ مگر ساری بس مین تلاش کرنے کے باوجود برہ کوکوئی بھی فرح باجی اور اس شخص کی طرف متوجعہ نظر نہین آیا۔
            جبکہ بس جھٹکے لے لے کر چل رہی تھی جس پر وہ شخص فر ح کے نازک بدن کے ساتھ اپنے جسم کو رگڑنے کی کوشش کررہا تھا ۔
            اب اس شخص نے ایک بار آگے پیچھے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کوئی دوسرامسافر تو اس کی ان حرکتون کو نہیں دیکھ رہا اس نے جیسے ہی مڑ کر عقبی طرف نگاہ کی برہ اور ارشد نے غیر ارادی سے اپنی نظر ین دوسری طرف کرلین۔
            اور پھر چند سیکنڈ کے بعد دونون ہی پھر سےاسی طرف دیکھنے لگےاچانک بس کہ ایک اور جھٹکا لگا اور اس شخص نے خود کو مزید آگے کرنے کی کوشش کی اور یک دم فرح نے غصے کے ساتھ اس شخص کی طرف دیکھا ۔
            لیکن اس کو کہا کچھ نہیں۔
            برہ اور ارشد کو بلکل معلوم نہیں ہوا کہ اس نے کیا حرکت کی تھی فرح نے نیچے جس ہاتھ سے سیٹ کو پکڑ رکھا تھا اس سے اپنے دوپٹے کو ٹھیک کیا اسی دوران بس کو ایک اور جھٹکا لگا اورفر ح تھوڑا سا آگے کی طرف کو کھسک گئی لیکن وہ شخص بھی اس کے ساتھ ہی آگے ہوگیا۔
            اب فرح اپنے آگے اور پیچھے کھڑے دونوں افراد کے درمیان واقعی مین
            سینڈ وچ بن گئی تھی اب اس کے کھڑے ہونے کا بیلنس بھی تھوڑا سا خراب ہوگیا تھا اس نے دونوں ہاتھوں سے چھت کے ساتھ لگے ہینڈل پکڑ لئے جس کے ساتھ ہی اس کے جسم کے خدوخال مزید عیاں ہوگئے اور پیچھے کھڑا شخص تھوڑا سا آگے کو ہونے کی کوشش کرنے لگا چند سیکنڈ کے بعد اس شخص نے اپنے دونوں ہاتھ چھت پر لگے ہینڈل سے ہٹائے اور انہیں فر ح کے مخروطی گدازکولہوں پر رکھ دیا جس سے فرح چونک اٹھی۔
            مگر عورت کی فطری شرم و حیا کی وجہ سے اس نے کچھ نہ کہااس شخص نے چند لمحے کے لئے اپنے ہاتھ ایک جگہ پر ساکت رکھے اورپھر اپنے ہاتھوں کو اس کے پیٹ کی طرف بڑھا دیا اور برہ نے غور سے دیکھا تو اس نےفرحی آپی کے دونوں ممون کو ہاتھون سے پکڑ لیا۔
            فرح نے ایک بار پھر غصے کی حالت میں اس کی طرف دیکھا مگر کچھ نہ بول سکی اس وقت وہ بے بس نظر آرہی تھی پیچھے کھڑے ہوئے شخص نے تھوڑی دیر بعد اس کے ممے دبانے شروع کردیئے جبکہ فرح بدستور دونوں ہاتھوں سے اوپر والا ہینڈل پکڑے آگے کی طرف دیکھنےکی ایکٹنگ کرتی رہی ۔
            پانچ چھ منٹ کے بعد اس شخص نے اپنے ہاتھ نیچے کی طرف لایا اورفر حی کی کمر پر لاکر روک دیئے اور اس کی کمر کا سائز لینا شروع کردیا پھر اس نے اپنے ہاتھوں کو تھوڑا سا مزید نیچے کیا اور پیچھے سےفر ح باجی کی قمیض اوپر کو کردی۔
            برہ چلتی ہوئی بس مین فرح کی شہوت انگیز درگت بنتے دیکھ کر خود بھی گرم ہونے لگ پڑی۔
            فرح نے ایک بار پھر پیچھے کو گردن کرکے اس شخص کو غصے بھری نظروں سے دیکھا اور اپنا ایک ہاتھ نیچے کر کے تھوڑا سا اپنی جگہ سے کھسکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی وہ ساری کوشش کے باوجودایک سینٹی میٹر بھی آگے پیچھے نہ ہوسکی۔
            اس وقت فرح کی قمیض پیچھے سے اس کے چوتڑوں سے کافی زیادہ اوپر ہوگئی تھی اور اس شخص نے اپنے دونوں ہاتھ قمیض کے نیچے سے فرح آپی کے ملائم پیٹ پر رکھ دیئے تھے اور فرحی کا نازک اور نرم جسم چھو رہا تھا اچانک بس نے ایک اور جھٹکا لیا اور اس شخص نے بھی فورأ جھٹکے کا فائدہ اٹھاتے ہوئےاپنے ہاتھ اوپر کرکے فرح کے بریزیئر کے نیچے ڈال کر اس کے ممے براہ راست پکڑ لے اور ان کو دبانا شروع کردیا۔
            برہ کے ساتھ ساتھ اب ارشد بھی بہت مگن ہو کر اس چلتی ہوئی بس کا یہہ دلکش لائیو سیکس کا نظارہ بہت شوق سے مدہوش ہو کر دیکھنے لگا
            ادھرفرحی کے ہونٹوں کو تھوڑی سی جنبش آئی اور وہ منہ میں کچھ بڑبڑائی لیکن اس نے کچھ نہ کہا وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اس نے اگر اسے کچھ کہا تو ساری بس کے مسافروں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوجائے گی اور وہ لوگ جان جائیں گے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا تھا جو کہ اس کے لئے بہت شرمندگی اور شرمساری کی بات تھی۔
            ویئسے فرح نے خود کو آگے پیچھے کرتے ہوئے اس شخص سے جان چھڑانے کی کوشش کی مگر وہ ہل بھی نہ سکی ۔
            ارشد کی فرح پر جمی نظرون سے اسکی بے چینی سے اپنے جسم کو ادھر ادھر حرکت کر کے بچنے کی کوشش چھپ نہ سکی ۔
            لیکن فرحی اپنی ساری مزاہمت کے باوجود وہیں پر کھڑی ہی رہ گئی۔
            اب اس نے اپناایک ہاتھ چھت والے ہینڈل سے ہٹایا اور اسے نیچے کرلیا یقینا وہ اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کررہی تھی اس کے چہرے سے عیاں ہورہاتھا کہ وہ کچھ کرنے کی کوشش کررہی ہے اس کے چہرے سے یہہ بھی خوب عیاں ہورہاتھا کہ اگر دوسرے مسافروں کو معلوم ہوگیا تو اس کی بہت بے عزتی ہوگی۔
            اس شخص نے اپنا چہرہ تھوڑا سا نیچے کو کیا اور روحی کے کان میں کہا سالی آرام سے کھڑی رہو اور مزے کروورنہ؟؟۔
            جسے سن کر فرح ایک لمحے کے لئے ساکت ہوگئی اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑتے ہوئے خود بھی مزے لینے کا فیصلہ کر لیا اور ساتھ ہی اس نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی نیچے کرلیا اور اس سے اس شخص کے بازو مضبوطی سے پکڑ لئے ۔
            اور بظاہر انہیں پیچھے کرنے کی جدوجہد کرنے لگی فرحی باجی کا چہرہ آگے کی طرف تھا اور اس کے چہرے پر ہلکی ناگواری کے تاثرات ابھی بھی عیاں تھے ۔برہ نے اپنی نظر تھوڑی سی نیچے کی طرف کی تو محسوس کیا کہ اس شخص کا ایک ہاتھ نیچے حرکت کررہا تھا اسے بخوبی معلوم ہوگیا کہ اس شخص کا ہاتھ باجی فر حی کی پھدی پر ہے اور وہ اپنی انگلی اس کی پھدی کے اندر باہر کررہاہے۔
            حیرت کی بات یہ ہوئی کہ یہ سین دیکھ کر ارشدکی پینٹ میں بھی حرکت شروع ہوگئی اور اسکا لن کھڑا ہونا شروع ہوگیا جس پر وہ خود کو قصور وار ٹھہرانے لگا کہ ہمین کوئی پرائیویٹ گاڑی ارینج کرلینی چاہئے تھی ۔
            چند سیکنڈ تک باجی فر حی کی آنکھیں بند رہیں اور وہ اپنے دانت چٹختی رہی پھر اچانک اس نے اپنی آنکھیں کھول لیں جیسا کہ اس کو کچھ یاد آگیا ہو اس نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی شائد وہ بر ہ اور ارشد کو ڈھونڈ رہی تھی۔ فرح کی گھومتی نظرین انکو تلاش کرتے ہوئے برہ پر جا پڑین۔
            فرح نے برہ سے نظریں ملائیں اور سوالیہ انداز سے اسکی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ مجھے اس شخص سے نجات دلاﺅ مگر برہ نے اس کو ایسے ظاہر کیا جیسا کہ اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے اس نے اپنی نظروں ہی نظروں میں کچھ کہنا چاہا مگر وہ جان بوجھ کر لاعلم بن گی ۔
            فرح باجی نے اپنی نظر تھوڑی سی نیچی کرکے میری توجہ نیچے کرانے کی کوشش کی جہاں اس کی فرنٹ سائیڈ پر قمیض کے نیچے اس شخص کا ہاتھ حرکت کررہا تھا مگر برہ نے نظر نیچی نہ کی اور اپنی نظر سے ہی اس کی توجہ ہینڈ ل کی طرف متوجہ کرائی اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنا بیلنس برقرار رکھے ۔فرح اب بے بسی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اس کی مدد کی آخری امید بھی ختم ہورہی تھی وہ بہت ہی خوف زدہ اور ڈری ہوئی لگ رہی تھی ۔
            ارشد بھی یہ ساری صورت حال کو دیکھ کراس وقت شرم اور ندامت کے مارے پانی پانی ہورہا تھا کہ وہ اپنی بے بس معشوقہ کے لئے کچھ نہیں کرپارہا تھا ۔فرحی کے پیچھے کھڑا ہوا شخص تھوڑا سا نیچے ہوا اور اس نے اپنے ہاتھ مزید نیچے کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ فرح اب ارشدکی طرف نظرین کیے بے بسی اور لاچاری سے دیکھ رہی تھی۔
            ادھر وہ شخص شائد سمجھ چکا تھا کہ یہ خاتون
            بے بس ہوگئی ہے اب کسی کی توجہ بھی اپنی طرف نہیں کرواسکتی جس پر اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا اس نے اپنا ایک ہاتھ اس کے ممے پر رکھ دیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی پھدی میں انگلی اندر باہر کررہا تھا جبکہ فرح باجی اب بھی اپنی تمام تر قوت نیچے سے اس کا ہاتھ اوپر کرکے اپنی پھدی سے ہٹانے کی کوشش کررہی تھی۔
            اس شخص نے غصے سےنیچے سے اپنے ہاتھ سے فرحی کا ہاتھ جھٹک دیا اور فرح باجی حیرانگی سے ششدر رہ گئی اس نے اپنے اوپر والے ہاتھ سے فرحی کو اپنے ساتھ ٹچ کرلیا فرحی کھسک کر آگے ہوگئی پھر اس شخص نے اپنا اوپر والا ہاتھ نیچے کو کیا اور سانس اپنے اندر کو کھینچا اور نیچے سے اپنے جسم کو تھوڑی سی حرکت دی۔
            فرح آپی کو دیکھتی برہ کو ایسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ہاتھ سے نیچے کسی چیز کو ایڈجسٹ کررہا تھا ۔وہ فورأسمجھ گی کہ اس نے اپنی پینٹ کی زپ کھول لی ہے اور اپنا لن باہر نکال رہا ہے برہ نے نیچے کو دیکھا تو اسے بس کے مسافرون کے درمیان سے اس کے لن کی ایک جھلک نظر آئی وہ اس کے لن کی موٹائی دیکھ کر اندازہ کررہی تھی کہ وہ بہت لمبا ہوگا اچانک ایک جھٹکا لگا اور مسافر ادھر ادھرہوئے۔ اور برہ آگے کا سین اب دیکھنے سے قاصر ہوگی تھی اسنے فورا ارشد کی توجعہ فرح باجی اور اس شخص کے نیچے کی طرف مبذول کروائی۔
            اس شخص نے اپنے ہاتھ سے نیچے کچھ کیا اور پھر ایک جھٹکا لگا ۔
            ارشد نے جیئسے ہی بغور دیکھا تواسے نظر آیا کہ فرحی کی قمیض پیچھے سے اس کے چوتڑوں سے اوپر ہوگئی ہے اور شلوار کولہوں سے نیچے ہوچکی ہے وہ شخص اپنے ہاتھ سے اپنے لن کو ایڈجسٹ کررہا تھا ایک لمحے کے بعد اسکی بھی نظرون سے یہ سین آﺅٹ ہوگیا ۔
            ادھر اس سخص نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کئے اور فرح کی کمر پر رکھ دیئے یقینا اس نے اپنا لن کہیں فٹ کردیا تھا اچانک پھر سے جھٹکا لگا اور فرحی کا بیلنس خراب ہوگیا اور اس کا اوپر ہینڈل سے ہاتھ چھٹ گیا اب وہ پیچھے کی طرف جھک گئی تھی اس کا سارا وزن اس شخص کی چھاتی پر آگیا تھا اس نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور نیچے سے خود کو تھوڑا سا آگے کو کردیا ۔
            فرح نے اپنا منہ کھول لیا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس شخص کی طرف دیکھنے لگی جسے دیکھ کر برہ اور ارشد دونون ہی باآسانی سمجھ گئےکہ اس شخص نے اپنا لن پیچھے سے فرحی کی پھدی میں داخل کردیا ہے اچانک ایک اور جھٹکا لگا اور اس شخص نے کمر سے پکڑ کر فرح کو تھوڑا سا اوپر اور پھر اپنی طرف کیا فرحی باجی کا منہ تھوڑا سا اور کھل گیا اور اس نے اپنا جسم مکمل طور پر ڈھیلا چھوڑ دیا ۔
            شائد اب وہ بخوبی سمجھ چکی تھی کہ اب وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی اس لئے چپ چاپ لطف و مزا لینے کیلیےاس نے اپنا سر پیچھے کھڑے شخص کی چھاتی کی طرف ڈھلکا دیا بس مسلسل جھٹکے لے رہی تھی جس کی وجہ سے اس کا بیلنس خراب ہورہا تھا جبکہ اس شخص نے نیچے سے اس کو کمر سے پکڑ رکھا تھا اور وہ اسے مسلسل آگے پیچھے اور اوپر نیچے کررہا تھا ہر بار آگے پیچھے ہونے پر فرحی اپنے ہونٹوں کو تھوڑا سا کھولتی اور پھر بند کرلیتی اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی۔
            اور پیچھے کھڑی برہ دیکھ رہی تھی کہ شہوت اور جزبات کی حدت سے فرح باجی کی آنکھین اور چہرہ لال سرخ ہو چکا ہے اس شخص نے ایک بار پھر آگے پیچھے دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر اس نے اپنا کام شروع کردیا ۔
            اس نے ایک بار پھر فرحی کے کان میں کچھ کہا اور اس نے آنکھیں بند کئے کئے ہی اپنے جسم کو تھوڑا سا اس طریقہ سے نیچے کیا جیسا کہ اپنی ٹانگوں کو کھول رہی ہویک دم فرحی کے آگے کھڑے شخص نے پیچھے مڑ کر دیکھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی شائد وہ جان چکا تھا کہ یہاں اس کے پیچھے کیا ہورہا ہے اس نے اپنی سمت چینج کی اور اپنا منہ فر حی باجی کی طرف کرلیا اس نے بھی اپنے دونوں ہاتھ چھت والے ہینڈل سے ہٹا لئے اور نیچے کرکے ان سےفر حی کے ممے دبانے لگا۔
            فر ح نے ایک بار آنکھیں کھول کر اس کو بے بسی سے دیکھا اور حیرت زدہ رہ گئی پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اس کے چہرے سے حیرت ‘ خوف اور شرمندگی کے آثار تھے وہ کچھ بھی کہہ یا کرنہیں سکتی تھی اوپر سے اس کے کپڑے ٹھیک دکھائی دے رہے تھے مگر اگر کوئی نیچے دیکھ لے تو اس کی قمیض اوپر کو اور شلوار کولہوں سے نیچے تھی پیچھے سے ایک لن اس کی ٹانگوں کے درمیان میں آگے پیچھے ہورہا تھا۔
            اس نے آج تک کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ بھری بس کے درمیان میں اپنے پیچھے کھڑے شخص سے چد رہی ہوگی اور اس کے آگے کھڑا شخص اس کے ممے دبا رہا ہوگا اورآس پاس کے سبھی مسافر لوگ بے خبر ہوں گے۔
            فرح اب چپ چاپ آنکھیں بند کئے کھڑی تھی ۔ برہ اور ارشدبس کے آخری حصہ میں یعنی اس سے چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے اس دلفریب شہوت انگیز منظر سے لطف اندوز ہو رھے تھے۔
            اسی دوران فرح نے ایک بار پھر ان کی طرف بے بسی سے دیکھا اور نظروں ہی نظروں میں بہت کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن دونون نے ہی اس کو ایسے ہی ظاہر کیا کہ ا نہیں معلوم ہی نہین کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے ۔
            فرحی ا ب اپنی شہوانی کیفیت سی مجبور ہوہکراپنا پورا جسم ساکت کئے کھڑی تھی ساتھ اس نے اپنا جسم مکمل ان دونوں کے حوالے کردیا تھا۔ اور گزرے حالات سے بے پرواہ ہو کر لطف و سرور مین مدہوش ہونے لگئ
            پیچھے سے اب ایک شخص اپنا لن اس کی ٹانگوں کے درمیان ڈال کر آگے پیچھے کررہا تھا اور اس نے سا تھ فرح کی کمر مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی جبکہ سامنے والا شخص اس کے ممے دبار رہا تھا اب فرحی کی موجودہ صورت حال میں بیقراری اور شہوت بہت بڑھ گئی تھی اب پیچھے والے شخص نے اپنے جسم کا نیچلا حصہ تیزی سے آگے پیچھے کرنا شروع کردیا تھا۔
            جسے دیکھ کر ارشد بھی خود پر ہوش کھو بیٹھا اور ساتھ کھڑی برہ کے حسین مدہوش نازک بدن سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔مگر نتیجہ وہی پچھلے تین سال والا ہی رہا۔
            برہ نے اسکے ہاتھ اپنے بدن کےساتھ لگنے سے پہلے ہی پکڑ لیے اور غصے سے جھٹکتے ہوئے ارشد کے قریب ہو کر سرگوشی مین پھنکاری۔
            میری بات ایکبار پھر سے غور سے سنو۔ ارشد مجھے تمھارے دل مین بانو کےلیے چھپے جزبات اور تمھارے عامر اور باجی فرح کے درمیان تین سال ہر واقعات کا مکمل خبر ہے۔مگر جئیسا کہ مین تم سب کو پہلے بھی کئی بار بتا چکی ہون۔ آپنی جان پیارے محبوب شوہر ذوہیب کے ملنے تک مین خود پر ہر لطف و مزاء اور آسائش حرام کر چکی ہون۔
            اور آج تک بہت خوش اسلوبی سے اس مین کامیاب بھی رہی ہون۔اب تم یون بس مین سرعام یہ گھٹیا اور غلیظ حرکت کر کے مجھے میری منزل سے بھٹکانے کی کوشش مت کرو۔
            ارشد برہ کی بات سن کرتھوڑی دیر سوچنے کےبعد بجائے برہ جواب مین کچھ کہنے کے فرح کی طرف دیکھنے لگا۔
            فرحی نے چوادئی کی بے پناہ لزت کے باعث پھر سے آنکھیں بند کرلی تھین اور ساتھ وہ اپنے ہونٹ کھول اور بند کررہی ہے اور ساتھ ساتھ اب وہ اپنے جسم کو پیچھے والے شخص کی حرکت کے ساتھ موو بھی کررہی ہے ۔
            جسےدیکھ کر ارشد کو اپنی آنکھوں دیکھے سچ پر بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ فرح کنواری لڑکیون جیئسی شرمیلی سی نظر آنے والی اسکی معشوقہ حقیقت مین۔اس بس میں حادثاتی چدائی کوپورے دل ودماغ سے انجوائے کررہی ہے۔
            اسکے دماغ کے کسی نکر سے خیال آ یا کہ شائید فرح چاہتی ہو کہ وہ دونون شخص جلدی سے جلدی سے اپنا کام مکمل کرکے اسکی جان چھوڑین مگر فرح کے چہرہ پر دکھائی دینے والی شہوت اور لزت کی دوڑتی لہرین کو دیکھ کر اس کا جنونی دل بلکل ماننے کو تیار نہین تھا۔
            مگر کچھ بھی ہو یہ شہوت بھرا منظر دیکھ کر اسےاپنی پینٹ گیلی لگنے لگی اسکے لن سے ہلکا ہلکا سا پانی رستا ہوانکل رہا تھا ۔
            وہ دیکھ رہا تھا کہ پیچھے والے شخص کے آگے ہوتے ہی فرحی اپنے ہونٹ کھول لیتی اور پیچھے کی طرف حرکت کرنے پر منہ بند کرلیتی اب پیچھے والے شخص نے نیچے سے تیزی کے ساتھ ہلنا شروع کردیا اور پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ آگے کو ہوا اور اس نے فرح کو چھاتی سے پکڑ کر اپنے ساتھ سختی سے لگا لیا۔
            برہ بھی اسکی کیفیت سےسمجھ گی کہ وہ شخص اسکی آپی فرح کی چوت مین فارغ ہورہا ہے پھر اس شخص کے جسم نے ایک دو جھٹکے لئے اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔
            اس لمحے فرحی نے ہلکا سا مڑ کربرہ کی طرف دیکھا ۔اور برہ نے بے اختیار ہونٹون سے أپی فرح کو چومنے کا اشارہ کیا اور شہوت بھری ادا سے آنکھ مار دی ۔جس سے فرح کو فورا اندازہ ھو گیا کہ برہ اس پر گزرنے والے حالات سے مکمل باخبر ہے اور ساتھ اسے مزیدانجوائے کرنے کی ترغیب بھی دے رہی ہے۔فرح نے ساتھ ہی ارشد کی طرف نظر گھما ڈالی
            مگر ارشد نے حسب معمول اس کی طرف لاعلموں کی طرح دیکھنے لگا جیسا کہ اس کو کہہ رہا ہوں بس بہت جھٹکے لے رہی ہے اپنا بیلنس برقرار رکھنا پھر فرح نے اپنی آنکھیں دوسری طرف موڑ لیں۔
            ایک منٹ تک پیچھے کھڑے شخص نے اس کو اپنے ساتھ لگائے رکھا اور پھر فرحی نے اپنے جسم کو پہلے کی طرح تھوڑا سا نیچے کیا جیسا کہ اپنی ٹانگوں کو مزید کھول رہی ہو ‘ پھر پیچھے کھڑے شخص نے سامنے والے شخص کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر غبیصانہ مسکراہٹ تھی دونوں کی نظریں ملیں اور پھر پیچھے والے شخص نے فرحی کا چہرہ اپنی طرف موڑ لیا اور دوسرے شخص نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کر کے کچھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور پھر اس نے بھی نیچے سے اپنے جسم کو حرکت دینا شروع کردی۔
            فرحی مسلسل آنکھیں بند کئے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑے اور اپنا وزن پہلے والے شخص کی چھاتی پر ڈالے ہوئے تھی دس منٹ تک ایسے ہی رہنے کے بعد دوسرے شخص نے اپنے جسم کو پیچھے کی طرف کیا اور پھر سے ایک ہاتھ سے نیچے کچھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور پھر مسکرا کر پیچھے والے شخص کی طرف دیکھا جس نے ایک ہاتھ سے فرحی کا چہرہ اوپر کو کیا اور اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا ۔
            فرحی نے اپنے ہاتھ نیچے کی طرف کئے جیسا کہ وہ بھی کچھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کررہی ہو اچانک بس نے جھٹکا لیا مسافر ادھرادھر ہوئے۔
            اور نیچے کا منظر ارشد اور برہ کی آنکھوں کے سامنے ایک لمحہ کے لئے واضع ھو آیا ۔باجی فرحی اپنی شلوار اوپر کررہی تھی پھر دوساجھٹکا لگا اور منظر پھر سے غائب ہوگیا اسی وقت بس انکے مطلوبہ گاؤن کی حدود میں داخل ہوچکی تھی۔
            کنڈیکٹر نے ایک نواحی علاقے کے سٹاپ کا نام لے کر آواز دی ۔
            ارشد نے فرح کی طرف دیکھ کر اسےآواز دی اور پھر جیئے ہی فرح نے پیچھےکی طرف دیکھا ارشد نے اس کو نیچے اترنے کے لئے اشارہ کیا اور بس رکنے پر ارشد اوربرہ دونوں بچون کو لے کرنیچے اتر گئے ۔بس سےاتر کر ارشد نے کنڈیکٹر کو کرایہ ادا کیا اور کھیتوں کے درمیان والی ایک پگڈنڈی پر سبھی ایک ساتھ چلنے لگے۔
            فر ح باجی کی چال میں پہلے والی روانی بلکل نہیں تھی ۔برہ نے دیکھا کہ اس کی قمیض پر آگے اور پیچھے بڑے بڑے گیلے سپاٹ پڑے ہوئے تھے۔
            ارشد نے بھی کھوجتی نگاہون سے فرح کی طرف کافی دفعہ دیکھا۔مگروہ عجیب سی کیفیت مین نظریں نیچی کئے چلی جارہی تھی۔
            بالآخر ارشد نے ہی بیقرا ہو کر اسے مخاطب کر ہی ڈالا۔فرح آپ کچھ ڈھیلی ڈھیلی سی لگ رہی ہین کیا خیریت تو ہے ۔اس نے شائید اسکی چپ توڑنے کے لئے سوال کیا ہاں میں ٹھیک ہوں‘۔
            فرحی اگر ٹھیک ہو تو پھر اتنی تھکی تھکی کیوں لگ رہی ہوں ۔
            نہیں کچھ نہیں بس سفر کی وجہ سے ہی تھکن ہو رہی ھے
            ​​​​​​ پھر وہ ارشد کے گھر جا پہنچے۔ گھر مین اس وقت کوئی بھی نہین تھا وہ سبھی ہاتھ منہ دھو کر ​​​​​​فریش ہوئے کھانا کھایا ۔
            برہ نے آپنے اور بچون کےلئے علیحدہ کمرے کےبندوبست کا کہا تھا وہ سبھی بچون کو لیکر گیسٹ روم مین چلی گئی۔
            ادھر دوسر کمرے میں ارشد نے جاتے ہی کمرے کا دروازہ بند کیا اور فرحی پر پل پڑا اس کے کپڑے اتروائے جس وقت فرحی کپڑے اتار رہی تھی۔
            ارشدنے دیکھا کہ قمیض اور شلوار پر بڑے بڑے سفید داغ ہیں ۔انہین دیکھ کرارشد نے جب فرح کی طرف دیکھا تو فرحی نے نظریں دوسری طرف کرلیں۔
            دونون نے کپڑے سائیڈ پر رکھ دیئے ارشدنے اس کو پکڑ کر لٹا دیا اور اس کے ساتھ چھیڑ خوانی کرنے لگا ۔اس نے فورا نیچےغور کیا کہ فرحی کی پھدی پر چھوٹے چھوٹے بال تھے جن پر سفید رنگ کی کوئی چیز لگی ہوئی تھی۔
            وہ سمجھ گیا کہ یہ انہی دونوں شخصون کی منی ہے ۔ارشد نے فرحی کو گرم کیا اور پھر اس کی پھدی کے اندر اپنا لن ڈال دیا ارشد کوآج ایسا محسوس ہورہا تھاکہ جیئسے اس نے ایک ایسے تالاب میں اپنا لن ڈال دیا ہے جو مختلف مردوں کی منی سے بھرا ہوا ہے
            فر حی آنکھیں بند کئے مکمل انجوائے کررہی تھی ۔
            پھر آدھے گھنٹے کی لگاتارمسلسل ارشد کی چوادئی کے باعث فرح دوبار جھڑ گئی۔ارشد تو اب فرح کی گانڈ مارنے کے چکر مین تھا مگر بمشکل اپنی دلفریب اداؤن سے اسے رات کیلئے روک پائی۔
            پھر دونون نے واش روم جا کر خود صاف کیا اور کمرے سے باہر نکل آئے ۔
            برہ بچون کے ساتھ گیسٹ روم مین سو چکی تھی ۔ارشد نے برہ کی خوشنودی اور اسکوسرپرائز ڈدینے کیلئے ذوہیب کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ۔اور اپنی ایک کزن ڈاکٹرراحیلہ کے ہسپتال پرپہنچ گیا۔
            مگر ڈاکٹر راحیلہ اپنے ہسپتال کے کچھ سیرئیس مریض کےکیئسون مین کافی مصروف تھی۔ و ہ بس تھوڑی دیر کیلئے ان کے پاس آئی اور ملنے اور ہیلو ہائے کے بعد سرسری طور پر ارشد کی بات سنی۔
            جب ڈاکڑ راحیلہ کو پتہ چلا کہ ارشد اور فرح ذوہیب نامی شخص کی تلاش مین اس کے پاس آئے ھین تو اسے فورأ اپنے بنگلے پر موجود ذوہیب کی یاد آگئی۔وہ خود تو ابھی گھر جانہین سکتی تھی اس لیے ارشد کو آپنے گھر بیچتے ہوئے بولی۔
            ارشد جانو میرے گھر مین ایک میرا پرسنل مریض ہے اسکا نام بھی ذوہیب ہے۔
            تم گھر پر چکر لگا کر اسے بھی دیکھ لو اور اگر وہ تمھارہ مطلوبہ شخص نہین نکلا تو پھر اسے کل مل کر تلاش کر لین گے۔
            پھر ایک گھنٹے کےبعد جونہی ارشد اپنی کزن سسٹرڈاکٹر راحیلہ کی کوٹھی مین داخل ہوا تو وہان پر ذوہیب کو کمرون مین تلاش کرنے لگا۔
            فرح بھی آہستگی سے چلتے ہوئے ارشد کے پیچھے پیچھے تھی۔
            کچھ دیر بعد جیئسے ہی ارشد نے ایک بیڈروم کا دروازہ کھولا تو سامنے نظر آنے والے عجیب منظر سے بری طرح سے بوکھلا اٹھا۔اور حیرانگی اور پریشانی سے گم سم دیکھتا ہی رہ گیا۔
            چند لمحات کے بعد سامنے نظر آنے والے منظر مین اچانک تبدیلی آنے لگی اور وہ ننگی لڑکی بہت جوش وخروش سے چلاتی۔اور دوڑتی ہوئی آکر ارشد کےسینے سے لپیٹ گئی۔
            ۔نیو اپڈیٹ ۔
            سرپرائزنگ اور اسپیشل۔
            پرت در پرت۔
            دوستو اب ذوہیب کی کچھ داستان حیات اور ارشد کی سٹوری۔
            ارشد ھی کی زبانی سنتے ھین۔
            ننگی مریم آپی کو ذوہیب کے ساتھ اس حالت مین دیکھ کر مجھے سخت ذہنی شاک سا لگا حالانکہ گھر چھوڑنے سےپہلے مین اور مریم نے سوائے چدائی کرنے کے ہر طرح سے انجوائے کیاتھا۔اسی لیے تو مریم بجا ئے شرمندگی اور شرمساری کے مجھ سے آکر لپیٹ گئی تھی۔
            اتنے مین فرح بھی پیچھے سے آ کر میرے ساتھ کھڑی ہو کر اپنے بہنوئی ذوہیب کو دیکھنے لگی ۔مگر یادشت گم ہونے کے باعث جیئسے ذوہیب کو فرح کے آنے سے کوئی فیلنگ ہی نہین پیدا ہو رہی تھی۔
            مگر پھر بھی فرح بہت شوق چاہت اور جنون سے اگے بڑھ کر لحمون کے اندر بے لباس ہوتی ننگے پڑےذوہیب کے اوپر جالیٹی اور بہت جوش خروش سے ذوہیب کے ساتھ لیپٹتے ہوئے اسکے ہونٹ چومنے اور چوسنے لگی ۔
            مریم جو کہ مجھ سے لیپٹی ہوئی تھی فرح کو دیکھ یکدم پریشان سی ہوگئ کیونکہ اس نے مجھے ارشد بھائی کہ کر پکارہ تھا اور وہ سوچ رہی تھی شائید فرح میری وائف ہے ۔مگر جئیسے وہ ننگی ہو کر ذوہیب سے لیپٹی۔(اس نے سوچا جو بھی ہے جائے بھاڑ مین)۔ مریم نے بھی بہت جنون سے مجھے ننگا کرناشروع کر دیا۔پھر جیئسے ہی میرا آٹھ انچ لمبا اور ڈھائی انچ پھنکارتا لنڈ مریم کے سامنے آیا وہ میرے قدمون مین بیٹھ کر بہت بیقینی سےلنڈ کو پکڑتے ہوئے دبانے اور مسلنے لگی۔
            دباتے دباتےحیرانگی سے مریم کی آنکھین پھٹتی ہوئی کانوں سے جا لگین۔کیونکہ جب مین چند سال پہلے رات کے اندھیرے مین اپنا گھر چھوڑ کر بھاگا تھا میری تقریبأ چند انچ لمبی اور سوا ایک انچ موٹی للی ہوتی تھی۔
            بب بھیا یہ کک کیا ہے؟؟؟۔مریم حیرنگی سے پوچھنے لگئ۔
            مین نے مریم کو پکڑ کر اپنے سینےسے لگا کر اسکے مدہوشیانہ لبون کو چوم کر دلفریب گولائیون والے مریم کے چوتڑون کو دونون ہاتھون سے مسلتے ہوئے اس سے بولا۔
            سویٹ بہنا اور کیا ہونا ھے تیرے بھیا کا لنڈ ہے یہ؟؟۔
            مگر بھیا اس وقت تو یہہ؟؟؟۔
            مریم کہتے کہتے رک سی گئ اور سوالیہ نظرون سے مجھے دیکھنے لگی۔
            مین بھی مریم کی کی جھیل سی گہری نشیلی آنکھون مین دیکھتے ہوئے کچھ حسین میٹھی​​​​​​​​​​​​​​۔تلخ اور خوش گوار یادون کی نگری مین بہنے لگا۔
            ماضی کی بھل بھلیان چند سال پہلے؟؟؟
            دوستو۔
            آئے میرے ساتھ مین آپ کو کچھ اپنے بارے مین ہی بتا ڈالون ۔
            میرے والد کا نام ماجھا کھوکھر ہے اور میری والدہ کا نام پروین ہے۔ میرے والد کی عمر کافی زیادہ ہے یعنی میری والدہ ان سے تقریبأ بیس سال چھوٹی ہیں۔ ہم تین بہن بھائی یعنی میری دو بہن اور مین انکا اکلوتا بھائی ہون،۔
            افراء میری بڑی بہن ہے جس کی عمر 20 سال ہو چکی ہے اور پھر میری دوسری بہن مریم کی عمر18 سال ہے اور مین دونون بہنون سے چھوٹا میں ہوں اور میری عمر 16 سال ہے۔اور میری والدہ کی عمر 38 سال ہے۔
            والد صاحب اپنا ذاتی زمینون پر کھیتی باڑی کا کام کرتے ھین۔ہمارے گاون مین دو گھر ہیں ایک گھر گاؤن کے تقریبآ درمیان مین ھے اور دوسرا گھر گاون کے باہر زمینون کے درمیان میں بنایا ہے جسے دوستو اپ گھر یہان ڈیرہ بھی سمجھ سکتے ھین ۔میرے والد کا اس گھر کو بنانے کا مقصد سٹوری سننے کے ساتھ اپ لوگ سمجھ جائینگے۔ ابا کی شادی گاون کے ساتھ دوسرے ایک چھوٹے سے شہر ٹائپ گاؤن مین ہوئی تھی۔اور ہمارا یہہ علاقہ ضلع شیخوپورہ کا وسطی عللاقہ ہے ابا شادی کے فورنا بعد کچھ سال والدہ کے پاس انکے گھر میں شفٹ ہو گیے تھے۔کیونکہ میری والدہ اپنے مان باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور میرے والد سدا کے لالچ انسان ٹہرے ھین۔والدہ کے کاروبار روپیے پیئسے اور مکان وغیرہ پر انکی نظرین جم چکی تھین۔ والد کے ایک رشتے کے بھائی جمال بھی اسی گھر مین رہتے ھین اور ابا بھی ،امی اور انکل جمال کے ساتھ اسی گھر مین رہنے لگے۔
            کچھ عرصہ قبل انکل جمال لاہور مین رہتے اور وہین اپنا کاروبار کرتےتھے۔ انکل جمال ہماری پیدائیش کے بعد لاہور سے واپس آکر ہمارے گھر میں ساتھ رہنے لگے۔
            انکل جمال بہت زندہ دل انسان تھے گو وہ ابا سے تو کافی چھوٹے اور امی سے چند سال بڑے ھین لیکن میری امی ان سے بہت پیار کرتی ھے نہجانے انہون نے انکل جمال کو چھوڑ کر میرے والد سے شادی کیون کی ھے۔
            ۔ایک اور بات جو میں بتانا بھول گیا کے انکل جمال نے ابھی تک شادی نہیں ھی کی ۔
            میں مریم اور افراء تینو ہی ان سے بہت پیار اور انکے ساتھ بہت خوش رہتے تھے ، وہ ہم کو اکثر لاہور مین سیر کروانے لیجاتے رہتے ھین۔
            جب ابا اپنے گاون مین جاتے ھین تو وہ بھی ہمم سب کو ساتھ لے کرجاتے ھیں۔
            ہمارا گھرکوئی اتنا زیادہ بڑا تونہیں تھا، دو کمرے نیچے ،ایک کچن،غسلخانہ ، اور ایک بڑا صحن ھے جس مین ہماری چھوٹی سی فیملی رہتی ھے اور دوسری منزل پر ایک کمرہ جسے انکل نے اپنا بیڈروم بنا رکھا تھا،دوسری منزل کو ایک راستہ گھر کے اندر سے اور ایک گھر کے باہر سے جاتا ہے ،باہر والا راستہ انکل کے دوستوں کے لیا تھا جو اکثر شام کو ان سے ملنے گھر اتے رہتے تھے اور رات کو دیر تک وہین رہتے ھین۔ان کے دوستوں میں زیادہ تر ان سے کم عمر کے ھی دوست لوگ ہوتے ھین۔
            ہمارا گھر اس چھوٹے شہر کی ایک پرانے گنجان آبادی میں تھا جہاں لوگ کم رہتے تھے ۔ میں اور میری بہنین ایک ہی اسکول میں پڑتے تھے، ہمارا اسکول بس مٹیرک تک تھا۔ ہمارے گھر اور اسکول کے بیچ امرود اور مالٹے کے باغات تھے۔۔
            اب والد صاحب مہینے کے زیادہ دن گاؤن میں گذارنے لگ پڑے تھے وہ ہمارے پاس صرف کچھ دن رہنے کیلے آتے تھے انہین شائید انکل جمال اور امی کے درمیان مین تعلق کا شک تھا کیونکہ دونون کے درمیان اس بات کو لے کر اکثر بحث شروع ہو جاتی تھی۔
            جب ابا گاون مین ہوتے تھے تو ہم بہت مزے کرتے تھے۔رات کو انکل جمال کے ساتھ دیر تک جاگنا ،فلمین دیکھنا ، سیر کرنا ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور امی بھی ہمارے ساتھھی ہوتیں تھیں۔ امی انکل جمال کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔
            انکل جمال کے گھر اب کچھ عرصے سے ایک لڑکا جس کی بھی عمر 18 سال تھی اور نام جواد تھا روز اتا تھا اور جب وہ اتا تھا تو انکل ہم کو نیچے بھیج دیتے تھے۔جواد ہمارے گھر کے پاس ہی رہتا تھا اور وہ کافی بدنام تھا اپنے علاقے میں۔جواد کے کچھ دوست اور بھی تھے جو انکل جمال کے گھر جواد کے ساتھ اتے تھے اور ان میں ایک لڑکا قمر تھا۔ جو امی کے دور کے رشتہ سے ہمارا کزن لگتا تھا اس کا ایک بڑا بھائی تھا جو لاہور مین ڈاکٹر کا کورس کر رہا تھا۔
            دوستوں میں یہ داستان اپنی 25 سال کی عمر مین اچانک اپنی چھوٹی بہن مریم کو سامنے دیکھ کر سنانے لگا ہون۔کیونکہ مین چند سال پہلے گھر سے بھاک کر لاہور چلا گیا تھا۔اور اب جب کچھ سال گزارنے کے بعد اچانک مریم کی حالت دیکھ کر مجھے بھولی ہوئی یادین اور ایئسا کونسا حادثہ ہوا جس سے مین گھر چھوڑا اپ دوستون کو سنا رہا ہوں۔
            اور جو واقعیات میں آپ کو بتاؤں گا وہ اس وقت کے ہیں جب میری عمر 16 سال کی تھی۔
            یہ ایک ہفتے کی رات تھی اور سارے شہر میں بارش ہو رہی تھی،۔
            ابو چند چند دن پہلے ھی دو دن کا چکر لگا کر گاون واپس جا چکے تھے۔اور انکل جمال اپنے کسی کام سے لاہور گئیے ہوے تھے۔ جب وہ دیر تک واپس نہیں آئے تو امی ہمیشہ کی طرح بہت پریشان ہو گیئں پھر انکل جمال کا فون آگیا
            اور انہوں نے بتایا کے جب بارش روکے گی وہ تب گھر میں آئین گے۔ بارش اور تیز ہو گی تھی۔ میں مریم اور افراء امی کو بتا کر اوپرانکل کے روم میں چلے گیے اور وہان ٹی۔وی دیکھنے لگے۔ امی اپنے روم میں چلی گیئں اور انکل جمال کا انتظار کرنے لگیں
            افراء مریم اور مجھ میں دو دو سال کا فرق تھا ،وہ مجھ سے بڑی تو تھیں لیکن نہجانے کیون وہ دونون ہی مجھ سے کافی بڑی لگتیں تھیں،ان کا اونچا قد،گورا رنگ، بھرا بھرا جسم ، اور کالے لمبے بال ان کی عمر زیادہ بتاتے تھے۔ مختصرأ وہ دونون ھی بہت خوبصورت تھیں اور دیکھنے والے لوگ ان کو اکثر امی کی چھوٹی بہنین سمجھنے لگے۔
            خیر ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے کے باہر والے راستے کی گھنٹی بجی، میں سمجھا کے جمال انکل آ گئے ہیں۔ میں نے فورا دروازہ کھول دیا لیکن وہان قمر کھڑا تھا میں اسے اندر لے آیا۔ وہ بارش کے پانی سے بھیگ چکا تھا۔
            افراء اس سے بولی؛؛قمر تمارا دماغ خراب ہے جو اس بارش میں تم ادھر چلے آئے ہو۔
            قمر بولا؛؛؛ افراءباجی مجھے انکل سے کام تھا ۔۔کہاں ہیں وہ؟
            میں بولا؛؛ وہ تو لاہور میں ہیں اور جب بارش روکے گی تو ھی واپس آئین گے۔
            تو قمر نے کہا کہ کیا میں انکی واپسی کا انتظار کر لوں
            افراء آپی نے کہا کر لو لیکن اپنے کپڑے تو بدل لو بلکل بھیگ چکے ہیں اور مجھے کہا کے اپنا کوئی لباس قمر کو دے دوں اور مجھ سے کہ کر افراء مریم امی کے پاس نیچے چلیں گیئں اور جاتے جاتے مجھ کو بھی کہ گیئں کے جب انکل جمال آییں تو میں ان کو بتا دوں۔
            میں نے قمر کو اپنے کپڑے لا کر دیے جو اس کے جسم پر کچھ تنگ لگ رہے تھے
            رات کے نو بج چکے تھے اور ابھی تک انکل جمال کا کوئی پتا نہیں تھا۔ہم دونوں ٹی وی دیکھنے لگے اور ساتھ ساتھ باتیں کرتے رہے
            میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کے جواد، قمر اور شارق
            کی دوستی انکل جمال سے کیوں ہے لیکن اس کا جواب مجھے نہیں پتا تھا۔لیکن دل میں خواہش تھی کے اس کی وجہ معلوم کروں۔
            خیر قمر مجھے گھورکر دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے گھورنے سے کچھ گھبرا سا گیا،اور اس سے نظریں چرانے لگا۔میں نے شلوار اور قمیض پہنی هوئی تھی جب کے اس نے پینٹ اور ٹی شرٹ اور وہ مجھ سے زیادہ صحت مند تھا اور اسی لیے مرے کپڑے اس کو تنگ تھے۔اس کی کمر پر بیلٹ نہیں بندھی تھی کیونکہ اس کے چوتربھی موٹے موٹے تھے۔
            قمر نے مجھے کہا کے آو باہر بارش کا مزہ لیتے ہیں تو میں اور وہ چھت پر آگیے،ہم دونوں بارش میں جلد ہی بھیگ گیے۔میں چھت کی دیوار کے ساتھ کھڑا سڑک کو دیکھ رہا تھا اور تیز بارش بوندوں سے اپنے اپ کو بچا رہا تھا۔
            ہم دونوں کے کپڑے گیلے ہو کر جسم سے چپکے ہوئے تھے۔ اتنے میں زوردار بجلی چمکی اور میں ڈرکے پیچھے ہوا تو قمر سے ٹکرا گیا۔ اور اس کا گیلا بدن مرے جسم سے چپک گیا اور کوئی سخت چیز میرے چوتڑوں میں گھس گی،۔
            میں نےہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ چیز قمر کا لن تھا۔ میں نے غصّے سے اس کو دھکا دیا لیکن اس نے مجھے پیار سے اپنے جسم کے لپیٹ لیا۔ پھر قمر نے اپنے ہاتھ سے میری للی کو پکڑ لیا اور اس کو اہستہ سے ہلانا شروع کردیا
            ۔اس کا لنڈ ابھی تک میرے چوتروں کی درمیان گھسا ہوا تھا، مجھے بھی یہ سب اچھا لگنے لگا اور میں نے قمر سے خود کو چھڑانے اور مدافعت کرنا ترک کر دی ۔ میری شلوار پوری طرح بھیگ کر میری ٹانگون سے چپک گئی تھی۔
            قمر متواتراپنے لنڈ کو میری گانڈمیں گھسا رہا تھا لیکن شلوار کے اوپر سے۔ اس کا لنڈ بہتت لمبا اور موٹا محسوس ہو رہا تھا۔خاص طور پر اس کے لنڈ کا ٹوپا کافی بڑا تھا۔
            مجھے اس کام کا زیادہ پتا نہیں تھا ،لیکن اتنا معلوم تھا کے لڑکے لڑکے آپس میں کچھ کرتے ہیں اور مجھ بھی پہلےکافی لوگوں نے اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی، ہمارے گھر کے پاس ایک سبزی والے کی دوکان ہے اور اس نے کئی دفع مجھے پیار وغیرہ کیا تھا اور اپنی دوکان کے ساتھ والے کمرے میں لے جا کر میری گانڈ مارنے کی کوشش بھی کی تھی مگر میں وہاں سے بھاگ آیا تھا ،۔
            اس کے علاوہ اور کافی لوگوں نے مرے ساتھ اوپر اوپر سے پیار کیا تھا۔، بس جواد سے میرا دل لگتا تھا کیونکہ وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ قمر نے مجھے کہا کے میں نیچے کا دروازہ بند کر دون۔
            میں نے جا کر دروازہ بند کر دیا تو قمر میرا ہاتھ پکڑ کر انکل کے کمرے میں آگیا اور مجھے پیار کرنا لگا ،اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور چوسنے لگا،اور اپنا ایک ہاتھ میری شلوار کے اندر ڈال کر میرے چوتروں کو ملنے لگا جس کی وجہ سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔پھر قمر نے اپنا لنڈ پینٹ سے باہر نکالا اور مجھے پکڑا دیا۔میں نے اس کا لنڈ پکڑ کر اوپر نیچے ہلانے لگا۔
            تھوڑی دیر گزارنے کے بعد اس نے انکل جمال کی الماری کھولی اور وہاں سے ایک کریم کی ٹیوب نکالی اور مجھے کپڑے اتارنے کو کہا جو میں نے اتار دیے۔اور اپنی انگلی سے میری گانڈ کے جھید پر کریم لگائی۔
            میں بولا۔قمر بھائی آپ یہ کیا کر رہے ہو
            قمر بولا؛؛ارشد اس کریم سے تمہاری گانڈ کا سوراخ بہت نرم ہو جائیے گا۔
            قمر نے کافی کریم میری گانڈ پر ملی اور اپنی انگلی بھی اندر کرنے لگا جس سے مجھے بےانتہا درد ہوا اور میرے منہ
            سے چیخ نکل گی، تو قمر نے انگلی کرنا بند کردی لیکن میرے لنڈ کو ہلانا بند نہیں کیا جس کی وجہ سے میں گرم ہوتا رہا اور جب کچھ دیر بعد دوبارہ قمر نے میری گانڈ میں انگلی کی تو میں اس درد کو برداشت کرتا رہا۔جب قمر نے یہ محسوس کیا کے میری گانڈ نرم ہو گی ہے تو اس نے مجھے کھڑکی کے پاس لیجا کرمیز کے کونے پر الٹا لٹا دیا۔ میرے پاؤں فرش پر تھے اور پیٹ میز پر ٹکی هوئی تھی۔قمر نے اپنے لنڈ پر تھوک لگائی اور اپنا چھ انچ لمبا اور موٹا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ سے اندر کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ هوئی۔مجھے ابھی درد ہو رہا تھا اور میری گانڈ بھی بہت ٹائیٹ اور تنگ تھی
            پھر قمر نے اپنے لنڈ اور میری گانڈ پر تیل لگایا اور اپنے لنڈ کو دوبارہ میری گانڈ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔
            اس نے مجھے میرے کندھوں سے پکڑ لیا اور اپنا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا۔پھر اس نے ہلکے ہلکے اندر کیا لیکن مجھے درد ہوا اور مرے آنسو نکل پڑے پر میں نے سوچ لیا تھا کہ میں یہ سب برداشت کر لوں گا۔ میری گانڈ کا سوراخ اب کچھ کھل گیا تھا اور جب قمر نے دیکھا کے میں تیار ہوں تو اس نے اپنے لنڈ کا ٹوپا میری گانڈ میں داخل کردیا۔میری تو سانس رک گیی اور آنکھیں باہر کو آگیں اور میں نے اپنی گانڈ بھینچ لی تاکہ قمر اپنا لنڈ اور اندر نہ کر سکے، مگر قمر نے مجھے پوری طرح اپنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا اور میں ہل بھی نہیں سکتا تھا۔
            اس نے اب اپنا ٹوپا میری گانڈ میں ایک جھٹکے کے ساتھ اندر کر دیا ،میں درد سے بےحال ہو گیا لیکن قمر نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں پورا گھسا دیا اور پہلے ہلکے اور پھر پوری طاقت سے میری گانڈ مارنے لگا، وقت کے ساتھ مرے درد میں بھی کمی ہوتی جا رہی تھی اور میں بھی مزے لے رہا تھا
            اور میں نے اپنی گانڈ کو اب ڈھیلا چھوڑ دیا تاکہ قمر کا لنڈ پورا اندر جا سکے۔
            مرے اندر کچھ ہو رہا تھا ،میرا لنڈ بھی میز سے ٹکرا ٹکرا کر پورا تن گیا تھا اور اوپر سے قمر کے طاقت وار جھٹکے مجھے اور پاگل بنا رہے تھے،، مجھے لگا کے مرے لنڈ سے کچھ نکلنے والا ہے اور پھر سفید رنگ کا گھاڑا پانی میرے لنڈ سے نکلا تو مجھے سکون ملا ۔۔
            قمر اب بھی اسی رفتار سے میری گانڈ مار رہا تھا ،، میں نے اس کو کہا ؛؛ اب بس کرو قمر بھائی ، لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور میری گانڈ مارتا رہا جب تک اس کے لنڈ نے پوری پانی میری گانڈ میں نہ ڈال دیا۔
            مجھے پہلی دفع گانڈ مروانے کا جو مزہ آیا میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
            اتنے میں باہر کی گھنٹی بجی تو ہم نے جلدی سےاپنے اپنے کپڑے ٹھیک کیے ، پھر میں نے دروازہ کھولا تو انکل جمال تھے۔ ان کے ساتھ جواد بھائی بھی تھے ،وو دونوں جلدی سے کمرے کے اندر آگئے، بارش ابھی تک نہیں رکی تھی۔
            انکل جمال نے مجھے کہا کہ جا کر اپنی امی کو بتا دو کے میں آگیا ہوں۔
            میں نے نیچے اکر امی اور افراء کو بتا دیا کے انکل آگئے ہیں تو امی اور افراء دونوں نے اطمینان کا سانس لیا اور امی انکل کے لیے کھانا بنانے لگ گیئں
            میرے پیٹ اور گانڈ میں بہت درد ہو رہا تھا اس لیے میں باتھ روم چلا گیا ۔۔ جب واپس صحن میں آیا تو امی نے کہا کے کیا بات ہے ،تمہاری چال کیوں بگڑ گی ہے تو میں نے بہانہ بنایا کے میں بارش میں پھسل گیا تھا،
            پھر امی نے انکل جمال اور جواد اور قمر بھائی کو نیچے بلوایا اور انھوں نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور کھانے کے بعد وو تینوں دوبارہ واپس اوپر چلے گیے۔
            میں اپنے کمرے میں اکر لیٹ گیا کیوں کے میری گانڈ بہت بری طرح دکھ رہی تھی اور سوراخ بھی کافی سوجھا ہوا تھا اور میں الٹا لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کے انکل کے کمرے میں گانڈ کے سوراخ کو ڈھیلا کرنے والی کریم اور پھر قمر بھائی کو اس کا پتا ہونا ۔ میری عقل اور سمجھ کام نہیں کر رہی تھی ۔
            کیا انکل جمال کا جواد اور قمر بھائی کے ساتھ کوئی غلط رشتہ ہے ،، کیونکہ قمر اور جواد بہت خوبصورت تھے لیکن دونوں کافی بدنام تھے ، پھر میں نے سوچ لیا کے میں معلوم کر کے رہوں گا کے ان تینوں کے درمیان کیا رشتہ ہے۔
            کوئی دس بجے کے قریب انکل نے آواز دی کے ابو کا ٹیلیفون آیا ہے تو امی،افراء مریم اور میں اوپر چلے گیے ۔
            وہاں پر انکل جمال تھے اور ان کے ساتھ جواد تھا اور قمر بھائی اپنے گھر چلے گئیے تھے
            پہلے میں نے ابا سے بات کی اور نیند کی وجہ سے نیچے آگیا ۔ امی مریم اور افراء وہیں تھیں اور ابھی ابا سے بات کر رہیں تھیں
            تھوڑی دیر کے بعد افراء باجی غصّے سے بھری ہوئی کمرے میں واپس آئی اور اپنے سینڈل اتار کر دیوار پر مارے اور بستر پر گر پڑیں۔اور بولیں میں سب کو دیکھ لوں گی
            میں نے حیران ہو کر پوچھا ؛؛؛ باجی کس کو دیکھ لو گی،، کسی نے کچھ کہا ھے تم کو کیا؟ ۔
            میں اور افراء آپی آپس میں فری تھے اور دوستوں کی طرح باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے ہر قسم کی باتیں شیر کر لیتے تھے
            فراء بولی ؛؛راشد یار تم ہر بات میں کیوں بولتے ہو
            مجھے فراء کا رویہ کچھ عجیب لگا مگر میں کچھ نہیں بولا۔
            مریم باجی بہت سادہ اور گھریلو ٹائپ کی تھی مگر میری بہن فراء کی شخصیت میں اتنی کشش تھی کے جو بھی اسے ایک بار دیکھ لیتا تھا اسے بار بار گھورتا تھا ۔خاص طور پر اسکول کے لڑکے سب کے سب افراء کے گرد پروانوں کی طرح مڈلاتے تھے اور جو چیز اسے ممتاز کرتی تھی وو اس کے چوتر یعنی گانڈ تھی۔گول گول اور ابھری هوئی ، خمدار کمر ، مناسب مگر ذرا بڑے بریسٹ، لمبا قد تقریبآ امی کے برابر،،
            ان سب کے ہوتے ہوئے کیا کوئی ان کو نظر انداز کرنے کی بیوقفی کر سکتا ھے۔
            پھر میں نے افراء سے کچھ نہیں پوچھا کے وہ کس کو دیکھنے کا کہ رہی ہے۔
            افراء کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو اس نے مجھ سے کہا کے کیا میں نے کمپوٹر استعمال کرنا ہے ،تو میں نے اس کو کمپوٹر چلا کر دے دیا۔ (یہ کمپوٹر انکل جمال نے افراء کو اس کی ضد پر لیکر دیا تھا اور ساتھ میں مائیک اور کیمرہ بھی دیا تھا) فرح کسی سے باتیں کرنے لگی ۔اور جب قمر کا ذکر آیا تو پتا چلا کے وہ قمر کی ہونے والی بھابھی راحیلہ سے باتیں کر رہی ہے۔ وہ اپنی کچھ پرسنل باتیں بہت اہستگی سے راحیلہ سے کر رہی تھی۔مجھے مکمل آواز تو آ نہین رہی تھی اس لیے میں نے کوئی خاص خیال نہیں کیا۔
            مریم بھی افراء باجی کےساتھ ھی واپس آ کر دوسرے کمرے مین سوچکی تھی۔ مگر میری امی ابھی تک انکل کے کمرے میں تھیں اور میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔بارش ابھی تک رکی نہیں تھی بلکہ اس کی شدّت میں اور اضافہ ہو رہا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد انکل جمال نیچے آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے۔
            میں نے انکل سے امی کا پوچھا تو انہوں نے کہا کے وہ تو ابا سے بات کر رہیں ہیں اور تم فکر نہ کرو میں خود ان کو چھوڑ جاؤں گا ۔ اور پھر وہ ایک تکیہ اور کمبل لیکر یہ کہتے ہوئے چلے گے کے آج جواد بارش کی وجہ سے ان کے کمرے میں سوئے گا۔انہوں نے مجھے اور افراء کو پانچ پانچ سو روپے بھی دیے۔
            افراء کو نیند آ رہی تھی اس لیا وو جلد سو گئی
            میں بھی سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا۔پھر میں اٹھ کر باہر صحن میں چلا آیا اور تیز ہوتی هوئی بارش کو دیکھنے لگا۔اوپر جانے والی سیڑیوں کی لائیٹ جل رہی تھی اور انکل جمال کا کمرہ بھی روشن تھا۔ میں یہ سوچ کر کے امی کو سیڑیوں کی چابی دے دوں ،میں اوپر چلا گیا ۔۔ اوپر کی چھت کا صحن کافی بڑا تھا اور کمرے کے دو طرف سے کھڑکیاں تھیں جو عام طور کھلی رہتی تھیں۔ میں دروازے کی طرف گیا تو وو بند تھا۔ کمرے میں امی اور انکل جمال کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔میں نے امی کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیا ، کیونکہ بارش کی تیزی اور ہوا کی آواز کا شور کافی تھا۔میں اس کھڑکی کی طرف گیا جو کھلی هوئی تھی۔اندر امی اور انکل جمال لوڈو کھیل رہے تھے اور دونوں مسہری کے کنارے پر گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے اور دونوں کے گھٹنوں پر کمبل ڈالا ہوا تھا اور اس کے اوپر لوڈو کی بساط رکھی هوئی تھی۔امی کے پیچھے جواد بھائی مسہری کے نیچے قالین پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
            امی کی پشت یعنی کولہے مسہری سے باہر نکلے ہوئے تھے امی کا سینہ ان کی رانوں پر تھا اور وو جھک کر کھیل رہیں تھیں
            ان کے اس سٹائل کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کے چلو انکل جمال کی بات تو ٹھیک ہے لیکن جواد بھائی تو غیر ہیں۔ امی بہت ماڈرن تھیں وو زمانے کے مطابق چلتی تھیں ۔ ان کے کپڑے بھی ماڈرن ہوتے تھے ۔ آج انہوں نے ہرے رنگ کی چھوٹی اور تنگ قمیض اور پیلے رنگ کی اونچی شلوار زیب تن کی هوئی تھی
            امی اور انکل جمال کے سر تقریبأ ملے ہوئے تھے اس طرح امی کی گردن سے نیچے کا حصہ یعنی سینہ عریاں تھا۔اور وو اس عریانیت سے لاپرواہ ہو کر کھیل میں مصروف تھیں۔
            کچھ دیر کے بعد انکل جمال بولے ؛؛؛ جواد تم کہاں مصروف ہو
            جواد ؛؛؛ انکل میں ٹی وی دیکھ رہا ہوں ، بہت اچھی فلم چل رہی ہے
            انکل جمال؛؛ تم بور تو نہیں ہو رہے ہو ، تم بھی آجاؤ ،ہم تینوں مل کر کھیلتے ہیں اور امی سے بولے کیوں پارو،
            امی بولیں ؛؛ مجھے کوئی اعتراض نہیں
            جواد ؛؛ نہیں آنٹی ، آپ کھیلیں میں اپ کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں ۔
            اور جواد امی کی چوتڑوں کے قریب ہو کر زمیں پر بیٹھ گیاور وہ اس طرح بیٹھا کہ اس کا ایک کندھا امی کے چوتڑوں میں گھس رہا تھا۔
            امی نے اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا بس وہ اپنے کھیل میں مصروف رہیں۔ کوئی دس منت کے بعد جواد نے اپنے کندھے پر ہاتھ سے خارش کی تو امی نے مڑ کر جواد کی طرف دیکھا تو جواد نے اپنا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا لیا۔
            جواد نے اس حرکت کو کئی دفع دوہرایا تو پھر امی نے کوئی حرکت نا کی۔ جب امی نے جواد کو کچھ نہیں کہا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے امی کے چوتڑوں کو سہلانا شروع کردیا۔
            انکل جمال نے امی سے کہا کے میں واش روم سے ہو کر اتا ہوں بس یہی کوئی دس منت میں۔ اور وہ یہ کہ کر کمرے سے باہر آگیا
            جس وقت جواد امی کے چوتروں پر ہاتھ پھر رہا تھا تو ان کا جسم مرے سامنے آگیا تھا اس لیا مجھے سب کچھ جو انہوں نے کیا تھا نظر نہیں آیا۔جیسے ہی انکل جمال باہر گیے تو جواد نے تھوڑی سی حرکت کی تو میں نے دیکھا کے اس کا کندھا میری امی کی گانڈ میں گھسا ہوا ہے۔ امی بولیں ؛؛ جواد یہ کیا کر رہے ہو تم۔
            جواد بولا ؛؛ سوری آنٹی مجھے خیال نہیں رہا۔اپ لوگوں کا کھیل دیکھنے میں مشغول تھا۔
            امی اور جواد دونوں انجاں بنے رہے اور اسی طرح بیٹھے رہے ،خاص طور پر امی اسی طرح گھٹنوں کے سہارے بیٹھی رہیں
            امی بولیں؛ جمال ابھی تک نہیں آیا
            جواد بولا؛؛ آنٹی میں دیکھ کر اتا ہوں
            امی؛ نہیں نہیں وو خود آجائے گا، اور تم مجھ کو آنٹی مت کہا کرو
            جواد بولا ؛؛؛ پھر آپ کو کس نام سے مخاطب کیا کروں
            امی بولیں پروین یہان باجی کہا کرو
            جواب بولا ؛؛ مجھے پروین اچھا لگتا ہے
            امی ہنستے ہوئے بولیں ؛؛ جواد تم مجھے جس نام سے پکارو مجھ کو اچھا لگے گا۔ کیا تم اسکول نہیں جاتے
            جواد ؛؛ نہیں پروین، میں گھر پرہوتا ہوں یہان پھر جب انکل جمال اتے ہیں تو ادھر آجاتا ہوں
            امی بولیں ؛؛ میں بھی اکیلی ہوتیں ہوں گھر میں شام تک، اور اگر تم فری ہوتے ہو تو مارننگ میں آجایا کرو
            جواد خوشی سے بولا ؛؛؛ میں آجاؤں گا پروین
            امی ؛ جاو اب ذرا جمال کو دیکھ کر آو
            جواد اٹھا تو میں نے دیکھا ،اس کا لنڈ تنا ہوا تھا، امی نے بھی اس کے لنڈ کی طرف ایک نظر ڈالی اور بولیں ؛؛ جواد کل تم جلدی آجانا ۔
            اتنے مین انکل جمال بھی واپس کمرے میں آگے، تو امی بولیں ؛؛ جمال اب میں جاتی ہوں رات کے 12 بج گیئیں ہیں۔انکل جمال امی کو چھوڑنے نیچے سیڑیوں تک آگئے۔ میں وہان پر چھپ کر کھڑا تھا کہ جب امی نیچے اور انکل اپنے روم میں واپس آییں تو میں اپنے کمرے میں واپس جاؤں۔
            لیکن میری آنکھیں اس وقت حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گیئیں جب امی نے انکل جمال سے لپیٹ کر ان کو پیار کیا اور کہا کے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں جب جواد سو جائے تو تم میرے کمرے میں آجانا ،میں دروازہ کھلا رکھوں گی۔
            انکل جمال بولے؛؛؛ پارو ، جواد جیسے ہی سوتا ہے میں اسی وقت آجاؤں گا۔
            پھر امی نیچے چلیں گیں اور انکل جمال اپنے روم میں آگے، اور میں اپنے روم میں جانے ھی لگا تھا کہ انکل جمال اور جواد ایک دوسرے سے لپٹ کر پیار کرنے لگے۔اور جواد نے انکل جمال کی گانڈ کو دبانا شروع کر دیا ،، مجھے اب یقین ہوا کے انکل یہان تو گانڈو ہیں یا لونڈے باز ہیں
            پھر میں وہاں سے چلا آیا اور اپنے بستر پر لیٹ گیا،اور میرے ماضی کے سین ایک فلم کی طرح مرے سامنے چلنے لگے۔
            انکل جمال کا اپنے سے چھوتی عمر کے لڑکوں سے دوستی ،امی کا روز رات کو ان کے کمرے میں جانا جب ابا گاؤن ہوتے تھے،امی کے پاس روپیوں کا بہت زیادہ ہونا،افراء اور مریم کا ان کے ساتھ دوستانہ اور اس کو جیب خرچ دینا وہ بھی ٥٠٠٠ ہزار روپے ماہانہ ۔۔۔
            یہہ سب باتیں میرے ذہن میں سوار تھیں اور میں ان سب باتوں کا جواب چاہتا تھا۔
            میری آنکھوں میں نیند غائب ہو چکی تھی اور میں بیچنی سے انکل جمال کے انے کا انتظار کر رہا تھا،۔ تقریبأ ایک بجے سیڑیوں کا دروازہ کھلا اور انکل اور جواد غسل خانے میں گئیے اور تھوڑی دیر کے بعد جواد انکل کے روم میں چلے گئیے ۔ میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔ میں نے اپنا کمرہ بند کر کے لائیٹ بھی بجھائی هوئی تھی۔ امی کے کمرے کی بتی روشن هوئی اور امی باہر آییں اور غسل خانے کا دروازہ کھٹکایا۔انکل نے دروازہ اوپن کیا اور امی کو اندر کھینچ لیا ، میں فورا صحن کے راستے امی کے روم میں گیا اور وہ دروازہ جو میرے کمرے میں کھلتا تھا وہ کھول کر اس میں سے اپنے روم میں آگیا
            اب میں رات کو کسی وقت بھی امی کے کمرے میں دیکھ سکتا تھا۔غسل خانے سے امی اور انکل جمال کی ہنسنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہیں تھیں، وو دونوں باہر آئے اور امی انکل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیئیں
            انکل جمال بلکل ننگے تھے اور امی کے کپڑے بھی پانی سے بھیگے ہوئے تھے
            جب انکل اندر کمرے میں داخل ہوئے تو امی نے صحن کا دروازہ بند کر دیا اور ایک دم انکل سے لپٹ گیئیں۔اور انکل کے ہونٹ چومنے لگیں ، پھر امی نے انکل کو دھکا دے کر بستر پر گرایا اور اپنے کپڑے اتار کر انکل کے اوپر بیٹھ گیئیں
            اور انکل کے دونوں بازوں کو پھیلا کر ان کے ہونٹوں کو چومنے لگیں، وہ انکل کے لنڈ پر بیٹھی تھیں اور اپنی چوت کو انکل جمال کے لنڈ پر رگڑ رہیں تھیں۔
            میں سکتے میں یہ سب دیکھ رہا تھا،اور یہ سوچ رہا تھا کے نہجانے کب سے ہو رہا ہے۔یہ حرامی پن۔,
            میرے کمرے میں میری بڑی باجی افراء سوئی هوئی تھی اور امی اپنے کمرے مین اپنے کزن بھائی سےخودکی چودئی کروا رہی تھین۔ خیر امی اوپر سے انکل کے لنڈ کو اپنی چوت پر رگڑرہیں تھیں اور انکل جمال امی کی مست گانڈ میں ہاتھ پھر رہے تھے۔ پھر امی اوپر سے ہٹ گیئں اور انکل جمال کے ساتھ بیٹھ گیئں ،اور ان کے لنڈ کو ہاتھوں میں پکڑکر چوسنے لگیں ،یوں لگتا تھا کہ وو اس کام میں بہت ماہر ہیں وہ انکل کا لنڈ اور انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کر رہے تھے۔
            امی کی گانڈ میرے دروازے کے بلکل قریب تھی۔ جہاں سے میں دیکھ رہا تھا وہان سے کوئی تین فٹ دور تھی اور جب انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کرتے تھے تو امی اپنی گانڈ اور کھول دیتی تھیں
            اور پھر انکل جمال کی پوری انگلی امی کی گانڈ کر اندر تک جاتی تھی ،انکل جمال بھی کبھی ایک اور کبھی دو انگلیاں ڈالتے تھے۔
            امی مزے سے انکل جمال کا لنڈ اور ٹٹون کو دیوانہ وار چوس رہی تھیں اور ساتھ ساتھ انکل جمال کی گانڈ تک کو چوم رہی تھیں۔
            میرا لنڈ یہ چودائی کا منظر دیکھ کر تن گیا تھا اور میں نے بھی اپنے پاجامے کا الاسٹک نیچے کر کے اپنی مٹھ مارنے لگا۔
            امی بولیں؛؛ جمال جان، اب تم بھی میری چوت کو چاٹو
            یہ کہ کر امی بسٹر پر لیٹ گیئں اور انکل جمال کو اوپر انے کو کہا
            انکل جمال بسٹر پر کھڑے ہوے تو مجھے ان کا لنڈ نظر آیا ، ان کا لنڈ کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا یہی کوئی ساڑھے چار انچ میری للی سے دوانچ بڑا ہو گا لیکن موٹا بہت تھا ۔
            انکل جمال میری امی کے اوپر لیٹ کے امی کے ممے چوسنے لگے اور اپنا لنڈ امی کی چوت پر رگھڑنے لگے امی کی حالت قابل دید تھی، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے انکل جمال ان کی پھودی میں اپنا لنڈ جلدی سے ڈال کر ان کو چود دین۔لیکن جمال انکل تو امی کے مممے چوسنے میں مصروف تھے۔ امی نے انکل جمال کو کہا ؛جانو اب مجھ سے صبر نہیں ہوتا ،تم اپنے لنڈ کو میری چوٹ میں ڈال دو اور میری آگ ٹھنڈی کر دو۔
            انکل جمال نے جب دیکھا کے میری امی بہت گرم ہو گیئں ہیں تو انھوں نے اپنا لنڈ میری امی کی چوت میں ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگے۔
            جیسے جیسے انکل نے اپنی رفتار بڑھائی امی کی تیز آوازیں نکلنے لگیں
            اور امی نے اپنی ٹاگوں کو انکل جمال کی کمر کے گرد لپٹا لیے
            انکل جمال بولے''' پارو
            اپنی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ لو تو پھر میرا لنڈ تمہاری چوت میں اندر تک جائیے گا،
            امی نے اپنے سر کا تکیہ اپنی گانڈ کے نیچے رکھ کر جمال کو کہا ؛؛ اب تم ڈال دو اپنا لنڈ
            انکل جمال نے اپنا چھوٹا سا لنڈ امی کی پھدی سے نکالا اور پھر پوری طاقت سے اندر گھسسا دیا ۔اور دھکے لگانے لگے ۔ امی بھی پورا پورا انکل جمال کا ساتھ دے رہیں تھیں اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف اپنی گانڈ کو ہلا رہیں تھیں
            امی کی ٹانگیں چھت کی طرف اٹھی تھیں اور تکیہ نیچے ہونے کی وجہ سے انکل جمال کا لنڈ امی کی چوت کے اندر تک آ اور جا رہا تھا،اور امی بھی پوری طرح لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر اسی طریقے سے چدوانے کے بعد امی نے انکل کو کہا کے میں گھوڑی بن جاتی ہوں تم پیچھے سے میری چوُت مارو،
            پھر امی گھوڑی بن گیئن اور انکل جمال نے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر امی کے چتڑوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول لیا اور ان کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر چودنے لگے
            جب انکل کا جسم امی کے موٹے چتڑوں سے ٹکراتا تھا تو تھب تھب کی آوازیں اتی تھیں اور انکل پوری قوت سے امی کی چوت ماررہے تھے؛؛انکل جمال نے امی کو بولا کہ میں نکلنے کے قریب ہوں
            اور انہوں نے اپنے دھکوں کی شدّت میں اضافہ کر دیا ،ادھر امی نے اپنی چوت کے دانے کو زور زور سے مسلنے لگین تاکہ وہ انکل جمال کے ساتھ ہی اپنا پانی نکال لین،اور ایک زوردار جھٹکے کے انکل جمال نے اپنی منی امی کی چوت میں اگل دی اور کچھ ہی سیکنڈ کر بعد امی کی چوت کا پانی بھی نکل گیا،
            دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے سے لپٹ کر خاموش لیٹے رہے
            میرا برا حال تھا اور میں برابر مٹھ مارنے میں لگا ہو تھا۔تھوڑی دیر میں میں بھی فارغ ہو گیا اور کمرے کے پردوں سے اپنا لنڈ صاف کیا اور پھر امی اور انکل جمال کا تماشا دیکھنے واپس آگیا
            انکل جمال ابھی تک امی کے اوپر تھے اور امی الٹی لیٹی ہوی تھیں،جب انکل جمال نے امی کی چوت میں سے اپنا لنڈ نکالا تو وہ امی کی منی اور ان کی منی سے لت پت تھا۔ جیسے امی نے اپنے ہونٹوں سے صاف کیا۔
            رات کے دو بج چکے تھے۔امی اور انکل جمال ننگےھی لیٹے ہوئے تھے۔امی کا سر انکل جمال کی گود میں تھا اور انکل جمال کے ہاتھ امی کے سینے پر رکھے ہوئے تھے اور وہ امی کی چوچیوں کو دبا رہے تھے۔مجھے یوں لگ رہا تھا کے امی اور انکل جمال ایک دفع اور چدوائی کرنے کے موڈ میں ہیں،امی اب سمٹ کر انکل کے سینے تک آگیئں تھیں اور انھوں نے انکل جمال کا ایک ہاتھ پکڑ اپنی گندی چوت پر رکھ لیا اور ان کے ہاتھ کی ایک انگلی کو اپنی چوت کے اندر اور باہر کر رہی تھیں،اور اپنے دوسرے ہاتھ سے انکل جمال کا لنڈ ہلا رہی تھیں۔
            انکل جمال بولے؛؛؛؛ جانی ایسا مت کرو ، اب یہ کھڑا نہیں ہوگا
            امی بولیں؛؛؛ جمال میرا دل ایک دفع اور کرنے کو دل چاہ رہا ہے
            انکل جمال ؛؛؛ یار اب نہیں کھڑا ہو گا میرا لنڈ ،میں نے مارننگ میں پھر شہر جانا ہے ، اب مت کرو
            یہ کہ کر انکل جمال اٹھ گئے اور امی کو پیار کیا اور اپنے کپڑے بدلے اور اپنے روم میں اوپر چلے گیے۔امی کچھ دیر تک یون ھی لیٹی رہیں پھر اٹھ کر نہائی اور اکر بستر پر سو گیئں۔
            میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو تین بجنے والے تھے اور پھر میں بھی بستر پر جا کر سو گیا۔
            صبح میری آنکھ مریم کے جگانے سے کھلی ،اور سامنے گھڑی پر نظر پڑی تو نو بج رہے تھے اور افراء اسکول جا چکی تھی اور مریم بھی جانی کے لیے تیار تھی۔ میں نے ابھی ناشتہ بھی کرنا تھا اور انکل جمال کو شہر جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی، اوپر سے امی ابھی تک سو رہیں تھیں۔سو میں نے باجی مریم کو کہا کے آج میں اسکول نہیں جاؤں گا۔
            مریم بولی؛ارشد بھائی امی ابھی تک سو رہیں ہیں اور انکل جمال میرا انتظار کر رہے ہیں۔مجھے سکول چھوڑنے کیلیے۔مجھے آج اسکول میں دیر تک رکنا ہے ۔ میری دو ایکسڑا کلاسین ہیں ، اور تم امی کو یہہ بھی بتا دیناکہ مجھے آج ابو اپنے ساتھ گاؤن لیجانے کیلیے وہین پر آ رہے ھین اور واپسی پر اسکول سے مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔
            میں بولا۔؛؛؛ٹھیک ہے باجی مریم تم فکر نا کرو مین امی کو بتا دون گا۔
            پھر مریم انکل جمال کے ساتھ اسکول چلی گئی
            میں نے ناشتہ کیا اور امی کے کمرے میں آیا تو امی ابھی سو رہیں تھیں
            میں نہانے چلا گیا ۔ جب میں نہا رہا تھا تو مجھے گھنٹی کی آواز آئی، میں نے دروازہ سے جھانکا تو مجھے جواد نظر آیا ، میں نے اس کو کہا کے وہ روکے ،میں کپڑے بدل کر اتا ہوں
            جب میں غسل خانے سے باہر آیا تو جواد صحن میں تھے اور امی کے روم کا دروازہ کھٹکا رہے تھے ، مجھے دیکھ کر وہ کچھ گھبرا سے گئے اور بولا ۔؛؛ ارشد تم آج اسکول نہیں گئے کیا
            میں بولا ؛؛؛ جواد آج میں دیر سے اٹھا ہوں اس لیے اسکول نہین جا سکا
            میری بات سن کر وہ کچھ پریشان سے ہو گیے
            اتنے میں امی بھی اٹھ کر باہر صحن میں آگیئں
            جواد نے امی کو سلام کیا ؛؛ کیا حال ہے آنٹی۔
            امی بولیں؛؛جواد میں ٹھیک ہوں بیٹا
            پھر امی نے مجھ سے پوچھا؛؛تم اسکول کیوں نہیں گیے
            میں نے ان کو وجہ بھی بتادی
            وہ غصّے سے بولیں ۔ تم رات دیر تک جاگتے ہو اور پھر اسکول نہیں جاتے
            جواد جلدی سے بولے ؛؛؛ کوئی بات نہیں آنٹی ، آپ فکر نا کریں میں ارشد کو سمجھا لوں گا۔
            پھر امی نہانے چلی گیئں اور میں غصّے سے اوپر انکل جمال کے روم میں چلا گیا۔
            مرے پیچھے پیچھے جواد بھی اوپر آگیا اور بولا؛؛؛
            ارشد کیا تم نے قمر سے کل گانڈ مروائی تھی
            میں جواد کی یہ بات سن کر ہکہ بکہ رہ گیا ،،
            جواد بولا؛؛ تم تو پکّے گانڈو ہو ،مجھے قمرنے سب بتا دیا ہے اور میں یہ سب تمھارے ابا کو،امی کو اور انکل جمال کو اور اسکول میں سب کو بتا دوں گا۔
            میں ندامی اور پریشانی سے رونے لگا تو جواد میرے پاس اکر بولے؛؛ گانڈو پہلے گانڈ مرواتا ہے پھر روتا ہے
            پھر بولے ؛؛ ایک شرط اگر تم پوری کرو تو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔
            میں بولا ؛؛ آپ جو بھی کہیں میں مان لوں گا ، مگر اپ کسی کو یہ بات نہیں بتانا
            جواد بھائیی نے مجھے گندی گندی گالیاں دیں اور بولے؛مادر چود، تیری بہن کی چوُت میں لنڈ ماروں۔۔تو خاموشی سے انکل جمال کے روم میں رہنا ،، مجھے تیری رنڈی امی سے کام ہے۔ تم نیچے مت انا جب تک میں نا کہوں
            میں بولا ؛؛ اچھا جواد ٹھیک ہے۔
            میں انکل کے روم میں چلا گیا اور جواد نیچے چلا گیا
            سیڑیوں پر ایک روشندان تھا جو بیک وقت صحن اور امی کے روم میں کھلتا تھا
            جواد کے جانے کے بعد میں سوچنے لگا کے امی اور جواد اب کیا کریں گے ۔ میں جواد سے بہت ڈرتا تھا میں کیا سارا محلہ کی ہی ان سے گانڈ پھٹتی تھی۔ میں نے حوصلہ کیا اور روشندان کے پاس چلا گیا ۔ امی اور جواد صحن میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔
            جواد ایک مظبوط جسم اور اونچا قد کا مالک تھا۔کیونکہ وہ باڈی بلڈر بھی تھا۔اس وقت جواد نے پتلوں/جینز اور بغیر آستینوں کی
            ٹی شرٹ پہنی هوئی تھی، امی ٹیبل پر ناشتہ کر رہیں تھیں اور ساتھ والی کرسی جواد ٹاگین پھیلا کر بیٹھا ہوا تھا۔
            امی نے سفید رنگ کا ململ کا کرتا اور ململ کا اسی رنگ کا چست پاجامہ زیب تن کیا ہوا تھا۔اور اپنے گیلے بالوں کو تولیہ میں لپٹایا ہوا تھا ۔ میں نے ایک اور چیز نوٹ کی کے امی نے بریزیر نہیں پہنا ہوا تھا اور ان کے گلے کے بٹن بھی کھولے ہوئے تھے
            ناشتہ کرنے کے بعد امی نے جواد کو کہا کے یہاں تو بہت گرمی ہے چلو اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔دونوں کمرے مین اندر چلےگیے
            امی جب اٹھیں تب میں نے دیکھا کے ان کی قمیض چھوٹی اور بڑے چک والی تھی اور ان کا پاجامہ بھی بہت ٹائیٹ تھا۔
            جب وو اندر کمرے میں گیے تو میں بھاگ کر اپنے کمرے میں آگیا اور امی کے کمرے کی ساتھ والی کھڑکی پر کھڑا ہو گیا ، جہاں سے میں امی کے روم میں دیکھ سکتا تھا۔ امی قالین پر صوفے کے سہارے بیٹھ گئیں اور جواد بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گیے
            امی بولیں؛؛ جواد ارشد کہاں ہے
            جواد بولا؛؛؛ وہ قمر کے گھر گیا ہے
            امی اطمنان سے بولیں ؛؛ یہ تو اچھا کیا اس نے ،، جواد میں ارشد کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔، اس کے دوست اچھے نہیں ہیں
            جواد بولے ؛؛؛ پروین ، میں دیکھ لوں گا اس کے دوستوں کو ،آپ فکر نا کریں ،، تم یہ بتاؤ کے تم نے مجھے کیوں بلایا ہے۔
            امی بولیں ؛؛ ہاں لیکن تم پہلے باہر کا اور سیڑیوں کا دروازہ بند کر کے آؤ،وگرنہ بلی آجاتی ہے۔
            جواد دروازہ بند کرنے گیے تو امی صحن مین میں کھلنے والی کھڑکی پر جا کر کھڑی ہو گیئیں۔کھڑکی تھوڑا سا نیچے بنی هوئی تھی اور امی اس کی چوکھٹ پر کہنیاں ٹیک کر اور کافی جھک کر کھڑی تھیں اور اس طرح ان کے چوتر باہر کی طرف نکل گیے۔ امی کے ٹائیٹ پاجامہ میں سے ان کی گانڈ صاف نمیان ہو گی تھی۔ اب امی کی پشت میری طرف تھی۔
            جب جواد کمرے میں واپس ایے تو امی کو کھڑکی کے کھڑا دیکھ کر وہ بھی ان کے پاس ہی کھڑے ہو گیے اور امی سے پوچھنے لگے کے ان کو کیوں بلوایا ہے ۔
            امی بولیں؛؛ تم قمر کو جانتے ہو ، وہ جو ہمارا دور کا رشتہ دار اورہمارے پڑوس میں رہتا ہے
            جواد۔؛؛؛ہاں جانتا ہوں
            امی بولیں ؛؛ وہ میری بڑی بیٹی افراء کو تنگ کرتا ہے
            جواد ؛؛؛ میں اس کے سارے خاندان کو جانتا ہوں ؛؛ خاص طور پر اس کے بھائی اور اس کی بھابھی راحیلہ کو، اس سالے نے اپنے بھائی بھابھی کی شادی پر اپنے ہی بھائی کو بیہوشی کی دوائی کھلا کر اپنی بھابھی ڈاکٹر راحیلہ سے سہاگ رات خود منا ڈالی اور زبردستی اس کی گانڈ بھی ماری ھے۔حالانکہ وہ سالا خود بھی گانڈو ھے اس کا تقریبأ سارے محلے کے لڑکون سے چکّر ہے اور اس کی ماں بلقیس کو بھی جانتا ہون ، اور تم پرواہ نا کرو میں سب ٹھیک کر دوں گا ، بس تم اتنا کرنا کے افراء کو کہنا کے جب قمر اس کو تنگ کرے تو وو مجھے فون کر دے ۔۔
            امی بولیں ؛؛ نہیں جواد میں افراء کو کچھ نہیں کہوں گی سارا کام تم ہی نے کرنا ہے۔
            میں نے اندازہ لگایا کے جواد کی نظریں امی کے گریبان پر تھیں جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ امی نے پھر اپنی گانڈ پر ہاتھ پھیرا اور کھجاکر جواد کو دکھاتے ہوئے۔جواد نے اپنے لنڈ پر ہاتھ پھیرا اور امی کی طرف اپنا رخ کر لیا ۔ امی بدستور اپنی گانڈ کھجانے میں مصروف تھیں۔
            آج مارننگ سے ہی مطلع ابرآلود تھا۔آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ۔پھر ایک دم بارش شروع ہو گی۔
            امی بولیں ؛؛ جواد دیکھو بارش شروع ہو گیی
            جوادامی کے پیچھے آکر اور امی کے ساتھ اپنا جسم لگا کر کھڑے ہو گیے ۔ ان کا لنڈ امی کی گانڈ پر اور ان کے ہاتھ امی کی کمر پر تھے۔ امی کی خاموشی ان کی زبان بن گیی اور جواد بھی نے اس خاموشی کو امی کا اقرار سمجھ لیا
            پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے امی کا کرتا ہٹایا اور اپنی انگلی سے امی کے چوتڑوں میں انگلی کرنے لگے ، شاید امی یہی چاہتیں تھیں اسلئیے انہوں نے جواد کو روکنے کی کوئیی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی کمر میں اور خم کر لیا۔
            جواد کی ہمّت اور بڑھ گیی اور انہوں نے اپنا لنڈ اپنی پتلون سے نکالا اور امی کے پاجامے کے اوپر سے ان کی گانڈ کے چھید پر رکھ کے کافی زوردار دھکے لگائے۔ اور امی کو بالوں سے پکڑ لیا۔جواد بڑے ہی بےغیرت اور بدتمیز لڑکا تھا ،ان کی زبان بہت گندی تھی اور کسی کا خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اس لیہ سب کی ان سے گانڈ پھٹتی تھی۔
            جواد نے امی کو سیدھا کیا اور اپنے سینے سے لپٹا لیا ،امی بھی بیتاب ہو کر ان سے لپٹ گیئیں اور جواد نے امی کے ہونٹ چوسنے اور کاٹنے شروع کر دیے۔ امی نے مست ہو کر جواد کے لنڈ کو پکڑ لیا جو تقریبأ ساڑھے سات انچ کا تھا۔
            میں نے آج تک اتنا لمبا لنڈ نہیں دیکھا تھا ۔ میرا دل دھڑکنے لگا اور میں حیران ہو گیا کے میری اپنی امی اس طرح کی حرکتیں کرتی ہیں جب ابا گھر پر نہیں ہوتے۔ اور یہ سب کچھ نجانے کب سے ہو رہا ہے۔
            اور مرے ذہن میں امی کی حرکتوں کی ایک ریل سی میری آنکھوں میں گھومنے لگی اور وہ ساری باتیں یاد انے لگیں جو اس وقت میں سمجھ نا سکا تھا۔وہ امی کا بازار جانا ، اور مختلف دوکانداروں سے ادھارگھر کا سامان خریدنا اور ان کے پیسے واپس نا کرنا ۔اور بہت سی باتیں جن کا ذکر اگر اپ لوگ چاہو گے تو پھر کسی کہانی اور میں کروں گا، اس وقت تو جواد امی کی چوُت کے مزے لے رہے تھے؛
            امی ابھی تک جواد سے لپٹی هوئی تھیں اور جواد ممی کے مممے چوس رہے تھے اور ان کا ایک ہاتھ امی کی گانڈ میں گھسا ہوا تھا ۔
            کبھی کبھی جواد امی کی چوت میں بھی اپنی انگلی ڈالتے تھے اور امی ان کی اس حرکت سے بہت لطف اندوز ہوتی تھیں۔ اس طرح کرتے کرتے جواد نے امی کا پاجامہ ان کی گانڈ سے نیچے اتار دیا اور امی کی گانڈ اپنی طرف کر لی؛ اب انہوں نے امی کی ننگی گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان رکھ کر امی کی گانڈ چاٹنا شروع کر دی ،
            امی کا برا حال ہو گیا ،ان کے منہ سے سسکاریاں نکال رہی تھیں اور جب ان کو اس گانڈ چاٹنے میں زیادہ مزہ انے لگا تو انہوں نے اپنے دونوں چوتر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ان کو اور کھول دیا تاکہ جواد کی زبان امی کے گانڈ کے سوراخ کے اندر تک چلی جائے۔یہ عمل کوئی دس منت تک جاری رہا ،پھر امی سے مزید ضبط نا ہو سکا اور انہوں نے کہا ؛؛؛
            امی ؛؛جواد تم اب مجھے زیادہ مت ترپاؤ، اپنی لنڈ میری گانڈ میں ڈال دو
            جواد جو کہ شاید نشے میں تھے امی کی بیقراری دیکھ کر بولے؛
            جواد ؛؛ ماں کی لوڑی، تم سارے جہاں سے چدواتی ہو ، کتیا ،رانڈ گشتی رنڈی ابھی جلدی کس بات کی ہے تمھین۔
            اور جواد نے امی کی گانڈ میں اپنی زبان ڈالنا جاری رکھی،
            اور انہوں نے اپنی دو انگلیاں امی کی چوت میں گسهیڑ دین۔ امی کا اب تو اور بھی برا حال ہو گیا ، انہوں نے کچھ اور برداشت کیا پھر جواد سے التجا بھرے لہجے میں ان سے کہا
            امی؛ جواد میری گانڈ میں اپنا لنڈ ڈال دو نا ، مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا۔
            جود نے دیکھا کے امی کی گانڈ کا چھید سکڑنے اور کھلنے لگا ہے تو وو کھڑے ہو گیے اور اپنا لنڈ امی کی تھوکوں بھری گانڈ پر رکھ دیا اور امی کو کندھوں سے پکڑ لیا۔
            اور امی سے کہا ؛؛ پروین میرے لنڈ کو ٹھیک اپنی گانڈ کے چھید پر رکھ لے اور اچھی طرچ اپنی گانڈ پر تھوک لگا ۔
            امی نے اپنی تھوک سے اپنی گانڈ گیلی کی اور اپنی گانڈ کو اور جھکا لیا۔اور جواد کے لنڈ کو اپنی گانڈ کے چھید پر ٹیک دیا
            جواد نے جب دیکھا کے امی اب بلکل گرم اور سیٹ ہیں تو انہوں نے ایک زوردار جھٹکے سے اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں گھسا دیا۔
            درد کے مارے امی کی چیخ نکل گیی اور انہوں نے جواد کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن جواد نے امی کو اچھی طرح قابو کیا ہوا تھا۔اور وہ پوری رفتار سے امی کی گانڈ مارنے میں مصروف رہے ،امی کی چیخیں اب ہلکی ہونے لگیں تھیں لیکن جواد کے زوردار جھٹکے کم نہیں ہوئے تھے ۔
            پہلے دس منت تو جواد نے اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں سے نکالا نہیں اور یونہی اپنے لنڈ کو باہر نکالے بغیر اندر ہی اندر دھکے لگاتے رہے۔پھر جب امی کی گانڈ رواں ہو گیی تو جواد اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں پورا باہر نکال کر اندر گھسنے لگے ،جواد امی کے مممے دبا رہے تھے اور امی اب اپنی ہی چوت میں انگلی کر رہیں تھیں،
            میں نے بھی اپنا لنڈ شلوار میں سے باہر نکال لیا تھا۔ اور مٹھ مارنے لگا ، یہ سب دیکھ کر میرا دل یہی کرنا چاہ رہا تھا۔
            ادھر جواد امی کی گانڈ مارنے میں مصروف تھے اور جہاں تک میرا اندازہ تھا کے امی کی چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا تھا ،وہ اس لیے کہ امی اب جواد کے جھٹکوں کے جواب میں وہ گرمجوشی سے نہیں دے رہی تھیں۔ مگر جواد تو بس کھچا کھچ کر کے امی کی گانڈ مار رہے تھے تقریبا ایک گھنٹے سے اور وہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔بلآخر جواد نے اپنی منی میری امی کی گانڈ میں چھوڑ دی اور کرسی پر بیٹھ گیے ۔ امی کی گانڈ منی اور غلاظت سے بھری هوئی تھی ، وہ اٹھیں اور جواد کا ہاتھ پکڑ کر غسل خانے میں لے گیئیں اور کوئی دس منٹ کے بعد وہ دونوں ننگے واپس کمرے میں اگیے اور مسہری پر لیٹ گیے۔
            جواد بولا ؛؛ پارو تیری گانڈ بہت ٹائیٹ ہے ۔ کیا جمال تیری گانڈ نہیں مارتا
            امی بہت مزے سےجھوٹ بولتے ہوئے؛؛؛ نہین جواد بیٹا پہلی دفع تم نے ھی میری گانڈ مین اپنا لن اندر کیا ہے ، جمال نے کبھی میری گانڈ نہیں ماری۔
            جواد بولے؛؛؛ بلکل جھوٹ رہی ھو تم تو۔ کیا قمر کے باپ سے تیرا آنکڑا فٹ نہیں ہے۔وہ تو بہت لونذے باز مشہور تھا اس کے تو سالے ماتھے پر پہلے گانڈ مارنا ھی لکھاتھا گانڈ مارنا اور مروانا ۔۔۔
            امی بولیں ؛؛ نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا مرے ساتھ تم تو بلاوجہ ھی شک کرتے ہو
            جواد ہنستے ہوئے بولے ؛؛؛ ہاں ہاں تو تو بڑی معصوم ہے کتیا تیرے تو جمال بھائیی ، قمر کا باپ ،بیکری والے بابا فضل اور وہ تمھارے بیٹے کے دوست کا بھائیی اور میرے ابا وہ سب تو تجھے سلام کرنے اتے ہیں۔
            امی کچھ نہیں بولیں ۔۔۔ لیکن اندر اندر سے بہت غصّے میں لگ رہیں تھیں، مگر جواد سے سب کی گانڈ پھٹتی تھی اس لیے ان کی بھی اب بولتی بند تھی
            جواد نے امی کے پیٹ پر پیار اور چوسنا شروع کیا ، وہ کبھی کبھی امی کی چوت کی اوپر والی جگہ پر اپنے دانت گھاڑدیتے تھے کہ امی کی چیخ نکل جاتی تھی۔ امی سیدھی لیتی ہوئی تھیں اور ان کی ٹاگین کھلی ہوئیی تھیں ۔ ان کے اوپر پیٹ پر جواد کا منہ تھااورجواد امی سے خرمستیان کر رہے تھے۔امی کی چوت میں انگلی کرنا ، ان کے مموں کو کاٹنا اورامی کی بڑی بڑی کالی چوچیوں کو اپنے دانتوں سے کاٹنا ،،۔
            یہ سب امی کو گرم کر دینے کے لیے کافی تھا۔امی نے جواد کا لنڈ پکڑ لیا اور اسے ہاتھ سے ہلانے لگیں تو وہ ایک دم کھڑا ہو کر تن گیا۔
            امی پیار بھرے لہجے سے بولیں؛جواد تمہارا لنڈ پھر کھڑا ہو گیا ہے۔
            جواد جو امی کی چوت چاٹ رہے تھے بولے؛؛؛ جان یہ پھر تمہین چودنے کے لیے تیار ہے۔
            امی بولیں ؛؛ پھر انتظار کس بات کا ہے چود لو ورنہ کوئی نا کوئی آ جایے گا۔
            جواد بولے؛؛؛ پارو آج تم مجھ کو یہ بتانا ھے کہ تم کو کس کس نے چودا ہے۔
            امی مزے سے سرشار لہجے میں بولیں ؛؛؛ ہاں بتا دوں گی لیکن پہلے میری آگ تو ٹھنڈی کر دو ، میں تو بیتاب ہوں تمہارا لنڈ اپنی چوت میں لینے کے لیے۔
            جواد بھائیی ؛؛تو یہ لو ابھی تمہاری چوت میں ڈال دیتے ہیں
            یہ کہ کر جواد امی کی ٹاگوں کے درمیان آ گیے اور اپنا لنڈ امی کی گیلی گیلی چوت میں گھسسا دیا ۔۔
            امی کی آہ نکل گی اور انہوں نے اپنی ٹانگوں کو جواد کی کمر کے لپیٹ لیا اور اپنی باہوں سے جواد کی گردن کو کس کر پکڑ لیا ۔ پھر انہوں نے جواد کے گھسسوں کا جواب اپنے زوردار گھسسوں سے دیا۔دونوں ایک دوسرے کو پوری طاقت سے گھسسے لگا رہے تھے اور امی جواد کے ہونٹوں کو چوس رہیں تھیں ۔
            پھر جواد نے امی کی ٹاگین اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور امی کے چوتروں کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا اور امی کے اوپر آکر امی کو چودنے لگے ،اس طرح چودائی سے امی کے گھٹنے امی کی گردن کے پاس چلے گیے۔ اور جواد کا لنڈ امی کی چوت میں پورا آ جا رہا تھا ۔۔ کوئی دس منٹ کی چودائی میں امی تو فارغ ہو گئیں لیکن جواد کا مست لنڈ امی کی پھودی کو پڑھتا رہا ۔۔ پھر جواد بھی نکلنے کے قریب ہو گیے ،تو انہوں نے اپنا اپنا لنڈ امی کی چوت سے نکال لیا اور امی کے منہ میں ڈال دیا اور امی کے منہ میں چھوٹ گیے ۔ امی لنڈ کی منی کا ایک ایک قطرہ پی گیں ۔
            جواد تھک کر امی کے ساتھ ہی لیٹ گیے اور امی بھی ان کے ساتھ لیٹ گئیں۔
            افراء کے اسکول سے واپس انے کا ٹائم ہو گیا تھا ۔ امی نے اٹھ کر وہی لباس پہن لیا اور جواد نے بھی کپڑے پہن لیے ۔دونوں باہر صحن میں اکر بیٹھ گیے۔
            آسمان پھر سےگہرے بادلوں سے بھر گیا تھا،
            امی بولیں ؛؛؛ جواد اگر بارش ہو گی تو افراء کیسے گھر آئی گی۔وہ تو چھتری بھی نہیں لے کر گیی ہے۔
            جواد بولے ؛؛ انکل جمال تو ہیں اس کے لیے وہ اس کو چھوڑ جائییں گے؛
            اتنے میں تیز بارش شروع ہو گیی ۔ وہ دونوں اندر اگیے۔
            جواد نے امی کو پھر سے پکڑ لیا ،
            امی؛؛ جواد اب نا تنگ کرو، افراء انے والی ہو گی
            جواد؛؛ تو کیا ہوا ، کیا تم سمجھتی ہو کے افراء کو تمھارے کرتوت کا علم نہیں ہو گا۔
            امی؛؛ پھر بھی میں اس کے سامنے کچھ نہیں کرتی۔
            جواد ؛؛ ہاں وہ بھی تمھارے سامنے کچھ نہیں کرتی ہو گی۔
            امی؛ کیا بکواس کر رہے ہو تم ، ابھی میری بیٹی چھوٹی اور شریف ہے؛
            جواد بولے ؛؛ تمھین کیا پتا کس کی ہے وہ۔
            امی غصّے سے بولیں ؛؛ تم نے کیا سمجھ رکھا ہے مجھے
            جواد ہنستے ہوئے بولے؛؛؛رنڈی اور گشتی۔
            امی بولیں؛؛ اپنے گھر کی بھی تم کو کوئی خبر ہے ؛؛
            اب جواد بھی غصّے میں بولے؛؛کتیا تو اپنے گھر میں کیا کیا کرتی ہے مجھ کو سب معلوم ہے۔قمر کے باپ ، بابا فضل ، ارشد کے دوست کا بھائی اور اس کے ابا ،رمضان دودھ والا ، اور پتا نہیں کون کون ہیں انکل جمال کے علاوہ جو تجھ کو چود چکے ہیں۔اوپر سے افراء بھی کوئی کم رنڈی نہیں ہے ،محلے کے دسوں مردوں سے مزے لیتی ہے۔
            امی نے اب کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہیں۔
            میں یہ سب سن کے حیران ہو گیا ۔ افراء بھی ایسی ہے یہ مجھ کو آج پتا چلا ۔۔جواد جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
            بارش تیز ہو گیی تھی، اتنے میں گھنٹی بجی ، جواد نے دروازہ کھولا تو افراء بھاگتی هوئی اندر آگی۔ وہ پوری طرح سے بھیگی هوئی تھی ۔
            فرح ؛؛ ھیلو جواد بھائی
            جواد۔ نے کوئی جواب نہین دیا مگر ان کی نظریں افراء کے جسم کا طواف کر رہیں تھیں
            افراء نے اپنا دوپٹا اتار کر امی کے بستر پر پھینک دیا تو اسکے سفید رنگ کے چست لباس میں سے اس کا سارا بدن نظر انے لگا۔
            امی بولیں ؛؛ افراء تم باورچی خانے میں جا کر کھانا گرم کر کے کھا لو اور ارشد کو بھی بلالینا۔
            پھر امی نے جواد سے کہا؛ جواد ہم اوپر جمال کے کمرے میں چلتے ہیں
            میں ڈر گیا کے اوپر اگر جواد نے مجھے نا پایا تو مجھ کو مارین گے۔
            میں نے دیکھا کے جب فرح آئی تھی تو جواد نے باہر کا دروازہ بند نہیں کیا تھا ، میں موقعہ دیکھ کر باہر آیا اور پھر واپس گھر میں آگیا ۔ اور پھر امی کے کمرے میں آگیا
            جواد مجھے دیکھ کر بولا ؛؛ لو ارشد بھی آگیا ہے اور میں اب اوپر جا رہا ہوں اور انٹی آپ افراء کو کہ دو کے مرے لیے بھی کھانا بنا لے۔
            امی نے افراء کو کہا ؛؛ افراء آج ارشد کا دوست بھی کھانا یہیں کھاۓ گا
            ہمارا کچن برآمدے میں تھا ایک باہر کی دیوار تھی،دوسری طرف غسل خانے کی دیوار اور تیسری طرف میرا اور افراء کے کمرے کی دیوار تھی ۔ اور ایک طرف کوئی دیوار نہیں تھی اس لیہ جو بھی کچن میں ہوتا تھا سب کو نظر اتا تھا۔
            افراء کچن میں جا کر روٹیاں پکانے لگی موھڑے پر بیٹھ کر ،انہوں نے اپنی آستینوں کو چڑھا لیا تھا اور اپنی شلوار کے پہنچوں کو بھی گھٹنوں تک چڑھا لیا تھا۔۔ کم گھیرےکی شلوار ،چھوٹی قمیض ،کھلے دامن میں افراء کے ممے اور چوتر بہت نمیان ہو رہے تھے ،اس کے جسم کا ہر حصّہ کسی کو بھی پاگل کر دینے کے لیے کافی تھا۔
            امی غسل خانے میں چلیں گیئیں ،امی کے جانے کے بعد جواد برآمدے میں اکر کھڑے ہو گیے اور افراء سے ہلکی آواز میں باتیں کرنے لگے۔۔ میں صرف اتنا ہی سن سکا جو افراء نے جواد کو کہا کے آپ جب امی سے بات کرلیں تو مجھے اشارہ کر دینا ۔۔ یہ موبائل پر بل دیدینا ۔پھر جب میری امی نیچے آجایں گی تو میں اوپر آجاؤں گی۔
            امی نہانے کے بعد غسل خانے سے نکلیں تو جواد نے ان کو اوپر چلنے کا اشارہ کیا جس پر امی نے سر ہلا دیا تو جواد اوپر جمال انکل کے کمرے میں چلے گیے
            پھر امی بولیں ؛؛ ارشد جب افراء کھانا بنا لے تو تم اوپر اکر دیدینا
            اور خود اوپر چلی گیں۔ میں افراء کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔
            میں بولا؛؛ افراء تم کو جواد بھائیی کیسے لگتے ہیں
            افراء بولی؛؛ مجھے تو ٹھیک لگتے ہیں اور تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؛
            میں گڑبڑا گیا اور بولا؛؛ کچھ نہیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہا ہوں، کیونکہ یہ تو انکل جمال کے دوست ہیں پھر جب انکل گھر پر نہیں ہوتے تو وہ کیوں اتے ہیں ، اور امی ان کا اتنا خیال کیون رکھتی ہیں
            اور دیکھو کہ اب امی نے اپنے بالوں پر تولیہ لپیٹا ہوا تھا اور ڈریئسنگ گون پہنا ہوا تھا اور وو اسی لباس میں اوپر چلیں گیئیں۔
            افراء بولی ؛؛ تم تو پاگل ہو ، کچھ نہیں ہوتا امی کے اوپر جانے میں ، جواد امی سے بہت چھوٹے ہیں۔ اور تم اپنے کام سے کام رکھا کرو ۔
            میں چپ چاپ افراء کی باتیں سنتا رہا
            افراء بولی؛؛ تم دو منٹ یہاں بیٹھو میں کپڑے بدل کر آتی ہوں ، پھر تم کھانا اوپر دے انا۔
            جب وو واپس آئی تو اس نے باریک لون کی قمیض اور کپری پہنی هوئی تھی ،جس میں سے اس کی کالی برا اور لال رنگ کی پینٹی صاف نظر آرہی تھی۔
            افراء نے مجھے کھانا دے کر انے کو کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کے امی کو جلدی نیچے لے انا
            میں جلدی سے اوپر چلا گیا اور انکل جمال کے روم میں جا کر جواد کا کھانا ان کو دے دیا۔امی اور جواد م باتیں کر رہے تھے ؛ امی صوفے پربیٹھی تھیں اور جواد ان کے ساتھ قالین پر نیچے بیٹھے تھے، امی کے پاؤں میز پر تھے اور جواد اس میز کے ساتھ تھے ۔
            میں نے امی کو کہا کے افراء باجی آپ کو بلا رہی ہے ، امی نے کہا ٹھیک ہے تم چلو میں آتی ہوں
            جواد بولے ؛؛ آنٹی تم نے جانا ہے تو جاؤ، میں اب سونے لگا ہوں ،بس کھانا کر آرام کر لوں گا
            امی اٹھیں اور میرے ساتھ نیچے آگئیں اور اپنے بستر لیٹ گئیں ، چونکہ وہ رات کو بھی اچھی طرح سے نہیں سوئی تھیں اور دن کو بھی آرام نہیں کیا تھا،بسترپر لیٹتے ہی ان کو نیند آگیی
            افراء آپی بار بار اپنے موبائل کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر ایک گھنٹی بجی
            افراء نے میری طرف دیکھا اور کہا ؛؛ارشد میں نے انکل جمال کے کمپیوٹرپر اسکول کا کام کرنا ہے۔تم ادھر ہی رہنا
            میں سمجھ رہا تھا کے اب میری بہن کی باری ہے
            افراء کے اوپر جانے کے کچھ ہی دیر کے بعد جواد بھائی نیچے ایے
            اور مجھ سے کہا ؛؛ ارشد تم اوپر مت انا
            میں بولا ؛؛ اچھا
            پھر وہ اوپر چلے گیے
            میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر میں بھی اوپر چلا گیا اور دیکھا کہ
            افراء انکل کے کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی۔ جواد بھائی اس کے پاس کھڑے تھے
            پھر باجی افراء کھڑی ہو گئی اور جواد سے بولی؛؛ جواد تم میرا ایک کام کر دو گے؛؛
            جواد نے پوچھا کیا ؛؛
            افراء ؛؛وہ نا قمر مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔میرا باہر جانا مشکل ہو گیا ہے
            جواد۔ نے شیخی ماری اور بولے ؛؛ افراء جی اس مادر چود کو میں تمھارے سامنے ماروں گا ، اسکے بھائی اور بھابھی راحیلہ کی سب کے سامنے بے عزتی کر دوں گا ۔ تم فکر نا کرو ، بس تم ایک دفع میرا اس سے ٹاکرا کروا دو پھر دیکھو میں تمھارے لیے کیا کیا کر سکتا ہوں
            افراء بولی؛؛ مجھے معلوم ہے کے تم نڈر اور بہت بہادر ہو
            جواد بولے؛؛ تم میرے ساتھ رہو میں سب ٹھیک کر دوں گا
            فرح ؛؛ جواد میں تمھارے ساتھ ہوں ، بس تم میرا یہ کام کر دو ، ہم دونوں اچھے دوست ثابت ہوں گے
            جواد بولے ؛؛ قسم سے ،، اور افراء کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگے
            افراء نے کسی قسم کے غصّے کا اظہار نہیں کیا بلکے جواد کو بڑھاوا دیتی رہیں ۔
            افراء نے جواد کو بولا ؛؛ جواد تمہاری باڈی بہت ورزشی اور سخت ہے ، کیا تم باڈی بلڈنگ کرتے ہو
            جواد بولے ؛؛ ہاں میں نے جم جوائن کیا ہوا ہے
            جواد بولے؛؛ افراء تم بھی بہت خوبصورت جسم کی مالک ہو
            اور تماری نازک پتلا بدن کسی اچھی ماڈل ادکارہ سے کم نہیں ہے
            افراء ؛؛ مجھے ماڈل بنے کا بہت شوق ہے اور میں روز اپنےآپ کو شیشے میں دیکھتی ہوں اور اداکاری کرتی ہوں جیسے کوئی ماڈل کرتی ہے
            جواد بولے ؛؛ افراء میرا ایک فوٹوگرافر جاننے والا ہے ، اور اس کا ایک سٹوڈیو بھی ہے۔ اگر تو چاہو تو میں اس سے بات کر لیتا ہوں ،وہ تمہارا فوٹو سیشن کر لے گا ۔
            افراء ؛؛ مگر میرے ابو امی نہیں مانے گیں
            جواد ؛؛ ان کو پتا بھی نہیں چلے گا
            افراء بولی ؛؛مگر وہ کیسے۔؟؟؟
            جواد ؛؛ تم اسکول سے واپس آتے ہوئے ،ہر روز ایک گھنٹہ اس کے سٹوڈیو میں آجایا کرو۔ اور امی کو کہ دینا کے اسکول میں زیادہ کلاسین ہوتیں ہیں
            افراء بولی ؛؛ اسکول میں ارشد اور مریم بھی ہوتی ھین ،وہ امی کو بتا دین گی۔
            جواد بولے؛؛ مریم اب گھر پر نہین ہے۔وہ تو آج کچھ عرصے کیلئے تمھارے باپ کےپاس گاؤن چلی گئی ہےاور ارشد کی تم بلکل فکر نا کرو میں اس کو دیکھ لوں گا
            اور اگر وہ نا مانا تو ایک اور راستہ ہے مرے پاس مگر اس کے لیے تم کو تھوڑا بہادر بننا ہو گا
            افراء بولی ؛؛ وہ کیا راستہ ہے جواد۔
            جواد تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے ؛؛؛ تم سن نہیں سکو گی ،تمہاری امی کے مطالق ہے ، اور تم شاید اسے جھوٹ سمجھو۔
            اگر تم ہمت کرو تو تمہاری امی ایک سیکنڈ میں مان جایئیں گی
            فرح بولی ؛؛ جواد صاف صاف بات کرو ، میں ماڈل بننے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں
            جواد بھائی افراء کو پکّا کر رہے تھے انکی چودائی کرنے کیلئے ۔ان کی خواہشوں کو ہوا دے رہے تھے
            جواد بولے ؛؛ یار تم ایک مکمّل ماڈل ہو اور تم میں ہر وہ بات ہے جو ایک اچھی ادکارہ میں ہو سکتی ہے
            افراء بہت خوش هوئی جواد بھائی کی باتیں سن کر اور وہ کھڑی ہو گیی
            اور بولی ؛؛ جواد تم کتنے اچھے ہو ، گھر میں تو سب مجھ کو پاگل سمجھتے ہیں۔لیکن انہین کیا پتا میں اس دنیا میں کیا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
            افراء اور جواد بھائی کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور افراء اس دوران جواد بھائی سے بڑی پیار سے باتیں اور ان کے ساتھ چپٹی رہی۔
            جواد بولے ؛؛ کل تمہاری امی نے بازار جانا ہے ، وہ انکل جمال کے ساتھ جاین گیں ، کیا تم بھی جاؤ گی
            افراء بولی ؛؛ نہیں وہ جب بازار جاتیں ہیں تو مجھ کو نہیں لیکر جاتیں
            جواد بھائی بولے ؛ پھر کل دوپہر کو میں آجاؤں گا۔ میرا دوست ہے ایک جس کے پاس کیمرہ ہے ۔ اس سے تمہاری فوٹو کھینچوں گا
            افراء بولی ؛؛ ٹھیک ہے ۔اب میں نیچے جا رہی ہوں
            جواد بھی کھڑے ہو کر بولے ۔۔اچھا۔
            اورا فراء کی کمر پر ہاتھ رکھ دیا ،افراء نے بھی ان کے ہاتھ کو دبا دیا
            جواد بھائی بولے ؛؛ افراء تم بہت سیکسی اور خوبصورت ہو اور تمہارا جسم بھی مست ہے
            افراء مسکراتے ہوئے بولی ؛؛؛ کل جب تم میری تصویریں بناؤ گے تو میں دیکھون گی کے میں کیسی ہوں
            مجھے یوں لگتا تھا کے افراء نے جواد بھائی کو قابو کر لیا ہے اور وہ ان سے کوئی خاص کام لینا چاہتیں ہیں،اور جواد بھائی یہان تو الو بن رہے ہیں یا وہ امی کی طرح افراء کی چوت کے مزے لینا چاہتے ہیں ۔
            میں نیچے چلا آیا اور امی کے روم مین جھانکا تو امی الٹی لیٹے ہوئے اپنے چوتر دبا رہیں تھیں
            میں نے امی سے پوچھا؛؛ امی جان اپ کو کیا ہوا ہے
            امی بولیں ؛؛ارشد میری کمر میں درد ہو رہا ہے۔ میں غسل خانے میں پھیسل گیی تھی۔
            میں بولا؛؛ کیا میں دبا دوں
            امی بولیں ؛؛ نہیں ، بس تو مجھے کھڑا ہونے میں مدد کر دے
            میں نے فورا امی کو ان کے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اس عمل میں میرا بیٹھا ہوا لن امی کے چوتروں کو لگا تو میرے بدن میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا ۔ امی اٹھ کر چلیں تو وہ اپنی ٹاگین کھول کر چل رہیں تھیں، اتنے میں باجی افراء بھی خوش خوش کمرے میں آگیی
            امی افراء باجی کو بولیں ؛؛ تو کہاں سے آرہی ہے اس طرح سے بن ٹھن کے
            افراء بھی غصے سے بولی ؛؛ امی میں نے کبھی آپکو پوچھا ہے کہ اپ ہر وقت ادھر ادھر کیا کیا کرتیں ہیں
            امی بولیں ؛؛ کیا بول رہی ہے تو ، تیری زبان بہت چلنے لگی ہے ، مجھ کو سب معلوم ہیں تیرے کرتوت
            افراء بولی ؛؛ میں بھی جانتیں ہوں سب کچھ اپ کے بارے میں ، میرا منہ مت کھولوایں تو اچھا ہے۔
            امی غصّے سے بولیں ؛؛ آلینے دے تیرے باپ کو ، میں ان سے تیری ٹھوکائی کرواتی ہوں اور تیرے سارے یاروں کی بھی۔
            افراء بولی؛؛ ہاں ہاں آپ بھی بتانا اور میں بھی بتاؤں گی آپکے لچھن اور اپ کے کرتوت جو اپ کرتی ہو
            امی اب ٹھنڈی آواز میں بولیں؛؛ افراء شرم کرو کوئی بیٹی اپنی ماں سے ایسے بولتی ہے۔ اچھا مجھے معاف کر دے ،تو تو بہت سونی لڑکی ہے ۔
            پھر امی نے مجھے باہر جانے کو کہا اور میں کمرے سے نکل گیا
            امی مرے نکلتے ہی افراء پر برس پڑیں اور اسے کہا کے ارشد کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کرو
            افراء غصّے میں اپنے کمرے آگیی ۔
            شام ہو چکی تھی امی بھی کپڑے بدل کر باہر صحن میں اکر بیٹھ گئیں۔
            امی نے صحن کا دروازہ کھلا رکھا تھا اور وہ کسی کا انتظار کر رہی تھیں ۔ اتنے میں پڑوس مین رہنے والی ماریہ باجی جن کی عمر کوئی تیس سال کی ہو گی ہمارے گھر میں آگئیں۔ ماریہ باجی امی کی خاص دوست تھیں۔ اور امی سے کافی بے تکلّف تھیں۔ وہ اپنے بھائی نظام اور اپنی بھابی شانی کے ساتھ ہمارے محلے میں ہی رہتیں ہیں۔ان کا کردار بھی کوئی خاص اچھا نا تھا۔ ان کی شادی نہیں هوئی تھی مگر ان کے چرچے سارے محلے میں مشور تھے۔وہ ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھیں۔اور وہ ہزارہ کی رہنے والی تھیں۔
            خیر وہ امی کے پاس اکر بیٹھ گئیں اور بولیں ؛؛ پروین کیا بات ہے بڑی خوش نظر آرہی ہو کیا بھائی صاحب اگۓ ہیں۔
            امی بولیں ؛؛ نہیں ماریہ ایسی کوئی بات نہیں
            ماریہ باجی بولیں ؛؛
            یہ کھلے کھلے سے گیسو یہ اڑی اڑی سی رنگت۔
            اری بنو بتا رہی ھےتیری چودائی کا افسانہ
            امی بولیں ؛؛ کچھ نیا نہیں ہوا ہے۔ تم بتاؤ تمھارے عاشق الطاف کا کیا حال ہے۔
            ماریہ باجی بولیں ؛؛ وہیں سے آرہی ہوں ،مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی اور میں نے اس سے لے لیے ہیں۔
            امی نے کہا ؛؛ کتنے لئیے
            ماریہ باجی بولیں ؛؛ پانچ ہزار، اچھا تم نے فلم دیکھنے چلنا ہے
            امی بولیں ؛؛ ہاں چلو میں تیار ہوں
            میرا دل بھی چاہ رہا تھا فلم دیکھنے کو ۔میں نے امی کو کہا کے مجھے بھی ساتھ لے چلیں ۔امی نے انکار کر دیا مگر ماریہ باجی نے کہا ۔پروین لے لو ارشد کو بھی اپنے ساتھ ،وہ بھی دیکھ لے گا۔
            پھر ہم رکہ پکڑ کر صدر اگیے ۔ ماریہ باجی نے ٹکٹ لیے ۔ہال تقریبا خالی تھا۔ہم گیلری میں جا کر بیٹھ گیے ،ابھی فلم شروع نہیں هوئی تھی۔ہال میں بہت سی سیٹ خالی تھین ۔ہماری والی لائن تو بلکل خالی تھی۔امی پہلے پھر ماریہ باجی اور پھر میں بیٹھا تھا۔ ہم ایک کونے میں بیٹھے تھے ۔
            ماریہ باجی نے ٹکٹ خریدے نہیں تھے انہین ایک بڑی بڑی موچھوں والے ایک آدمی نے ٹکٹ دیے تھے ۔
            امی نے ماریہ باجی سے پوچھا ؛؛ ماریہ یہ آدمی کون تھا جس نے تم کو ٹکٹ دییں ہیں۔
            ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین یہ میرا ایک دوست ہیں جو میری محبّت میں پاگل ہے ۔اور یہ مرے بھائی کا دوست بھی ہے اور ہمارے گھر اس کا انا جانا ہے۔ ایک شادی شدہ آدمی ہے لیکن اپنی بیوی سے نفرت کرتا ہے۔اس لیے میں اس کا بہت خیال کرتی ہوں اور یہ میرا بھی اتنا ہی خیال رکھتا ہے۔(اور پھر امی کے کان کے پاس ،ہلکی آواز میں بولیں کے یہ بھی ہمارے ساتھ فلم دیکھے گا۔)
            امی بولیں ؛؛ ٹھیکہ ہے ، کیا یہ مال دار آدمی ہے
            ماریہ باجی بولیں ؛؛؛ ہاں بہت مال دار ہے ۔ اس کی بازار مین ایک مارکیٹ ، اور چار گھر ہیں اور یہ سینما بھی اس کا ہے ۔ تم کو ابھی پتا چل جائے گا جب وہ ہماری خاطر مدارات کرے گا۔
            سنیما ہال میں بہت کم لوگ تھے ،ہمارے آگے اور پیچھے کی دو دو لائن خالی تھیں۔
            اتنے میں ایک آدمی اکر ہمین کھانے پینے کی چیزیں دے گیا۔
            پھر فلم شروع ہو گیی اور ہم سب کھاتے ہوئے فلم دیکھنے لگے
            مجھے فلم نظر نہیں آرہی تھی اس لیہ میں امی اور ماریہ باجی کے درمیان والی سیٹ پر آگیا
            امی اور ماریہ باجی نے اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھ لیں تھیں
            پھر وو آدمی جس نے ماریہ باجی کو ٹکٹ دیے تھے آیا اور امی اور ماریہ باجی کو سلام کیا اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔
            ماریہ باجی نے ہمارا تعارف کروایا ۔ اس کا نام سرور تھا اور ماریہ ان کو صاحب جی کہ کر مخاطب کر رہیں تھیں
            ماریہ اور سرور باتیں کرتے رہے اور ان کی باتوں سے میں ڈسٹرب ہو رہا تھا۔ میں نے ماریہ باجی سے کہا کے اپ امی کے ساتھ بیٹھ جائیں اور انہوں نے فورا اٹھ کر اپنی سیٹ بدل لی ،اب میں امی کے ساتھ اور سرور امی اور ماریہ باجی کے درمیان میں تھے ۔ امی اور ماریہ باجی نے بدستور اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھیں هوئی تھیں اور شلواروں کے پہنچے ان کے گھٹنوں تک ننگے تھے ۔
            تھوڑی سے فلم دیکھنے کے بعد میں نے ماریہ باجی کی طرف چور نظروں سے دیکھا تو وہ سرور کو پیار کر رہیں تھیں
            اور امی کن انکھیوں سے ان کو دیکھ رہیں تھیں
            امی اس سے سرگوشی سے بولیں ؛؛ ماریہ ذرا خیال سے ارشد ساتھ ہے
            ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین تم ذرا اپنی کمر ہماری طرف کر لو تاکہ ارشد کو کچھ نظر نہ ایے
            امی نے اپنا منہ میری طرف موڑ لیا اور اپنی پشت سرور کی طرف کرلی اور سیٹوں کے درمیان جو ہاتھ رکھنے والی جگہ (ہنیڈہولڈر ) اس کو بھی ہٹا دیا اور اس طرح امی کی سیٹ اور سرور کی سیٹ ایک ہی ہو گین۔ ادھر سرور جی نے بھی ماریہ باجی والی سیٹ کا ہنیڈ ہولڈر ہٹا دیا ۔ ماریہ باجی اور سرور دونوں اپنی اپنی ٹانگیں سیٹ کے اوپر کر کے بیٹھ گیے۔
            میں اور امی فلم دیکھنے میں مگن تھے ۔ سرور اور ماریہ باجی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے رہے۔
            میں اب ان کو صاف نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ امی بیچ میں تھیں اور میں کوشش کے باوجود ان دونوں کو دیکھنے میں ناکام رہا۔ بس ان کے باتیں کرنے ،ہنسنے کی یہان پھر ماریہ باجی کی ہلکی ہلکی سسکاریاں اور چوما چاٹی کی آوازیں آرہیں تھیں۔
            میرے پاس چپس ختم ہو گئے تو میں نے امی کو کہا
            امی بولیں تم میرے چپس میں سے لےلو
            امی نے چپس کا بڑا لفافہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔ میں نے بیٹھے بیٹھے اپنا ہاتھ بڑھا کر چپس لیتا رہا۔اندھیرے کی وجہ سے میرا ہاتھ ہر دفعہ امی کے پیٹ پر رانوں سے ٹکراتا رہا
            اور لفافے میں سے چپس لے کر مین کھاتا رہا۔
            پھر فلم اتنی اچھی تھی کے میرا پورا دیھان فلم پر ہی مگن رہا ۔
            پھر انٹریول ہوا تو روشنی میں میں نے سب کو دیکھا ، ماریہ باجی ،سرور اور امی ٹھیک طرح بیٹھے ہوا نظر آئے
            سرور جی نے بیرے کو آواز دی تو اس نے کھانے کی کچھ اور چیزیں ہم کو لا کر دین۔ امی سرور جی سے بہت متاثر نظر آرہی تھیں۔
            انٹرول ختم ہوا اور میں نے دیکھا تو امی نے پھر سےاپنی ٹانگیں اگلی سیٹ پر رکھ لیں اور اپنے چوتر سیٹ سے آگے کر لیے۔ وہ اب فلم کم دیکھ رہیں تھیں بس ان کی نظریں سرور جی اور ماریہ باجی پر گھڑی ہوئییں تھیں۔ میں نے بھی ان کو دیکھنے کی کوشش کی مگر اندھیرے کی وجہ سے مجھے کچھ دکھائی نا دیا ۔
            میں مایوس ہو کر فلم دیکھنے لگا ۔ فلم میں اب مار دھاڑشروع ہو گئی جو مجھے پسند نہیں تھی ۔ یوں لگتا تھا کے فلم اب ختم ہونے والی ہے ۔
            میرا دل چپس کھانے کو چاہا تو میں امی کی گود میں پڑے ہوئے لفافے میں ہلکے سے ہاتھ ڈالا تو وہاں کسی اور کا ہاتھ تھا۔میں نے فورأ اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔اور امی کی طرف آگے ہو کر دیکھا تو امی کی آنکھیں بند تھیں اور سرور جی اپنے ہاتھ سے امی کی چوت میں انگلی کر رہے تھے ۔میں نے غور سے دیکھا تو سرور کا لنڈ ماریہ باجی چوس رہیں تھیں اور سرور جی ان سے چھپا کر امی سے مستیاں کر رہے تھے۔ میرے اندازے میں سرور جی کی منی نکل گی تھی ، کیوں کے اب وہ گرمجوشی کا اظہار نہیں کر پا رہے تھے۔امی کی شلوار گھٹنوں تک اتری هوئی تھی اور وہ ابھی فارغ نہیں ہوئیں تھیں اس لیے انہوں نے سرور کا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا۔جب ماریہ باجی سیدھی ہویں تو سرور جی نے اپنا ہاتھ امی کی چوت پر سے اٹھا لیا۔ تو میں نے یہہ جان کر اپنا ہاتھ امی کی گود میں ڈالا اور ظاہر یہ کیا کے میں چپس لے رہا ہوں۔ میرا ہاتھ سیدھا امی کی ننگے جسم سے ہوتا ہوا ان کی چوت پر چلا گیا۔
            امی نے گھبرا کر میرا ہاتھ ہٹایا اور اپنی شلوار اوپر کر لی۔
            میں بولا؛؛ امی چپس کہاں ہیں
            امی نے چپ چاپ چپس کا لفافہ مجھے دے دیا ۔
            پھر گھنٹی بجی اور فلم ختم هوئی
            ہم باہر نکلے تو دس بج چکے تھے ، سرور جی نے پہلے ماریہ باجی کو ان کے گھر چھوڑا پھر ہمین ہمارے گھر اتارا۔
            گاڑی سے اترتے ہوئے سرور صاحب جی بولے ؛؛ کیا اپ کو فلم اچھی لگی
            امی ؛؛ ہاں سرور بہت مزہ آیا
            سرور صاحب بولے ؛؛ اپ سے پھر کب ملاقات ہو گی
            امی مجھے دیکھتے ہوئے بولیں ؛؛ کیوں کیا ماریہ آپ کے لیے کافی نہیں ہے۔
            سرور۔ جی ۔ سوری ، آپ کو برا لگ گیا کیا۔
            امی نے مجھے کہا ؛؛ارشد تم اندر جاؤ
            میرے جانے کے بعد امی نے سرور سے کچھ کہا جو مجھے سنائی نہیں دیا ۔ بس میں نے یہ دیکھا کے سرور جی نے امی سے ہاتھ ملایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلے گیے۔
            میں نے چابی سے دروازہ کھولا اور میں اور امی گھر میں داخل ہوئے تو افراء اور ہمارے ساتھ والے گھر کی پڑوسن کرن جو عمر میں افراء کے برابر تھی دونوں لوڈو کھیل رہی تھین۔
            افراء بولی ؛؛ آپ لوگوں نے بہت دیر کر دی
            امی بولیں؛ فلم کافی لمبی تھی ،اور دس بجے تو ختم هوئی تھی
            افراء ؛؛ امی انکل جمال گوجرانوالہ گیے ہیں ،وہ آج گھر نہیں آیںن گے ۔
            امی کے چہرے پر اداسی چھا گیی۔۔ اچھا ، تم نے کھانا کھایا کیا ۔
            افراء ؛؛ جی کھا لیا ہے
            میں بولا ؛؛ مجھے تو بھوک نہیں ہے
            امی بولیں ؛؛ میں نے بھی کھانا نہیں کھانا ہے۔
            افراء بولی ؛؛ امی کرن کے گھر آج اس کی امی اکیلی ہیں ، اور انہوں نے مجھے بولا ہے کرن کے ساتھ سونے کو ۔ میں آج رات کو اس کے گھر جاؤں گی۔ اور یہ کہ کر افراء اور کرن چلیں گیئیں۔
            امی میرے ساتھ اپنے کمرے میں آگئین
            امی مجھ سے نظریں نہیں ملا رہی تھیں ۔ اور ان کا چہرہ بھی پیلا ہوگیا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ ایسا کیوں ہے ، میں نے ان کی چوری پکڑ لی تھی اور وہ میری طرف سے پریشان تھیں
            میں اپنے کمرے چلا گیا اور کپڑے تبدیل کیے ۔ گرمیوں کے دن تھے اور حبس بھی ہو گیا تھا ۔ میں نے نیکر اور بنیان پہن لی اور برآمدے میں آگیا ۔ امی نے بھی کالے رنگ کی کاٹن کی باریک نائیٹی پہن لی تھی اور ٹی وی دیکھ رہیں تھیں۔ اتنے میں امی کے موبائل کی بل بجی۔
            امی نے فون اٹھایا اور بولیں ؛؛ھیلو کون
            پھر بولیں ؛؛ سرور صاحب جی کیا حال ہیں-- اچھا آپ گھر پہنچ گیے ہیں -- کیوں دل نہیں لگتا --- مجھ میں ایسا کیا ہے--- کیا ماریہ سے بھی زیادہ --- تو میں کیا کروں---- میں شادی شدہ ہوں اور میرے تین بچے ہیں---- تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کے میں صرف ایک دوست بناتی ہوں اور دوسرون کی شراکت مجھے پسند نہیں ہے۔----- سرور جی آپ میری بات کا برا نہیں ماننا --- میرے ایک کزن بھائی میرے ساتھ رہتے ہیں ۔۔۔۔ جی---- آپ مجھے مجبور نا کریں------سرور صاحب جی ابھی تو میں تھک گیی ہوں ،ہم کل بات کریں گے ۔۔۔ جی مارننگ میں میں گھر پر ہوتیں ہوں --- جی کل کر لیں کسی وقت بھی -- اوکے بائے۔اور پیسوں کا شکریہ ۔
            ( یہ امی کی باتیں تھیں ، مجھے شاہ جی کی آواز نہیں آرہی تھی)
            پھر میں امی کے روم میں آکر ٹی وی دیکھنے لگا۔
            امی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا ؛؛ ارشد تمہاری اسٹڈی کیسی چل رہی ہے۔
            میں بولا ؛؛ امی جان ٹھیک چل رہی ہے۔
            امی بولیں ؛؛ تم کو اب جیب خرچ کم پڑتا ہو گا
            میں بولا ؛؛ ہاں کم تو پڑتا ہے
            امی بولیں ؛؛؛ جا میرا الماری سے میرا پرس نکال لا
            میں نے امی کی الماری سے ان کے پرس کو نکال کر ان کو دیا ۔تو انہوں نے مجھے ایک ہزار روپے دئیے۔ میں نے خوشی سے وہ ان سے لے لیے۔
            پھر امی نے مجھے پیار کیا اور کہا ؛؛ تو میرا چاند بیٹا ہے ؛
            اور مجھے تجھ پر بڑا مان ہے۔ تو اپنی امی کا بہت خیال رکھتا ہے۔ اور تجھے جب پیسوں کی ضرورت پڑے تو مجھ سے پوچھے بغیر میرے پرس سے لے سکتا ہے۔
            میں نے امی کو کہا ؛؛ امی آپ بہت اچھی ہیں ۔
            امی کے دل کو اب ذرا اطمنان ہوا تھا ۔اور اب وہ آرام سے باتیں کر رہیں تھیں۔کچھ دیر ان سے باتین کرنے کے بعد مین اپنے کمرے مین آ کر لیٹ گیا۔اور چند دن کے یہہ سارے واقعات دوبارہ سے یاد کرنے لگا۔میرے دل اور دماغ مین دو طرح کے خیال آ رہے تھے۔ایک تو افراء باجی اور امی کے مست مدہوش بدن کو خود بھی چودنے کا بار بار خیال گردش کر رہا تھا۔
            اور دوسراخود گانڈ مروانے کے باوجود انکے نئے نیے لوڑے لینے کی وجہ سے میرے دماغ مین غم و غصے اور اشتیعال سا جمع ہوتا جا رہا تھا ۔
            میرا دماغ کہ رہا تھا مجھے پہلے کچھ ائیسا کرنا چاہیے کہ یہہ دونون ھی کسی اور کے پاس جانا تو کیا سوچنا بھی چھوڑ دین۔
            پھر اچانک مجھے افراء باجی اور جواد کے درمیان ہونے والی باتین یاد آ گیین خاص طور پر باجی افراء ماڈلنگ کے ساتھ قمر بھائی کو جواد کے ہاتھون سبق سکھانے کی باربار تاکید کرنا۔
            اس لیے مین قمر بھائی کو باجی افراء اور جواد کی سب باتین بتا کر جواد اور قمر بھائی کو آپس مین لڑانے کی پلاننگ بنانے لگے۔
            پھر کچھ دنون کے بعد موقع محل دیکھ کر مین جیئسے ھی قمر بھائی سے اکیلے تہنائی مین ملا​​​​​​​۔
            تو انہون نے میری بات سننے سے پہلے میری گانڈ کی دوبار خوب اچھی طرح سے ٹھکائی کی میرے نہچاہنے کے باوجود مجھے قمر بھائی سےگانڈ مروا کر بہت مزاء آیا۔اس کے بعد جب مین نے انہین افراء اور جواد کی باتین ساتھ اپنی پلاننگ بتائی پھر جو انہون نے اگے جو کچھ ؟؟؟۔
            ۔اپڈیٹ۔
            ۔میری گانڈ کو خوب تسلی سے چودنے کے بعد قمر بھائی نے بہت غور سے میرے بات سنی اور پھر کہنے لگے۔
            ارشد یہہ بہت ھی گھمبگیر اور خطرناک صورت حال ھے۔اسکے لئے ہمین اپنے سے کسی بڑے شخص کو بتانا پڑے گا۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہم سے حل ہونے والا نہین ھے۔
            ھم دونون ھی کافی دیر مختلف اشخاص کو بتانے کے بارے مین سوچتے رہے مگر کسی بھی شخص پر متفق نہین ہو پا رہے تھے۔ بلآخر قمر بھائی ھی بولے۔ارشد یار کیون نہ ہم تمھارے باپ کے پاس چلے جائین اور انہین ساری حقیقت تفصیل سے بتاین۔اچھی طرح سوچنے کے بعد مین نے بھی قمر بھا ئی کو اوکے بولا اور پھر
            میں واپس گھر آ گیا۔ دوسرے دن کو دس بجے میں نہا دھو کر گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ قمر بھائی بائیک لے کر گھر مین آگیا۔ وہ پھر میری گانڈ مارنے آیا تھا۔وہ آتے ھی کہنے لگا۔راشد میرا آج صبح سے ہی بڑا موڈ ہورہا تیری گانڈ مارنے کو۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی پینٹ اتار دی۔ اس کا سات انچ کا لن مکمل جوبن مین آ کر پورا کھڑا تھا اور لوہے کی طرح سخت بھی ہورہا تھا۔دوستو نہجانے کیون میں کھڑے لن کو کبھی نہ نہیں کرپاتا اس لئے فورا گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کا لنڈ منہ میں لے لیا اور مزے سے اس کا لن چوسنے لگا۔ تھوڑی دیر لن چوسوانے کے بعد اس نے مجھے کھڑا کیا اور مجھے کپڑے اتارنے کو کہا۔ میں نے کپڑے اتارے اس نے مجھے بیڈ پر دھکا دیا اور میری ٹانگیں اٹھا کر میرے کندھوں سے لگادیں۔ اب اس کا سخت لن میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا تھا۔ اس نے میری گانڈ کے سوراخ پر تھوکا اور اپنے لن سے اس تھوک کو میرے سوراخ پر رگڑا۔ پھر ایک ہی زوردار جھٹکے سے اس نے اپنا پورا لن میری گانڈ میں اتار دیا۔ پھر اس نے مجھے بھرپور طریقے سے چودنا شروع کردیا۔ اس کے زوردار جھٹکوں سے بیڈ بری طرح ہلنے لگا۔
            اس کا لن میری گانڈ میں اندر باہر ہوتا رہا اور مجھے بہت مزا آنے لگا۔ قمر بھائی مجھے ایئسے چود رہا تھا جییسے اس نےکافی دن سے کسی کی گانڈ نہیں ماری ھو۔ اس نے بہت بے رحمی سے میری گانڈ کو أدھے گانٹے تک چودا اور پھر وہ فارغ ہونے لگا تو قمر بھائی نے لنڈ میری گانڈ سے نکالا اور میرے چہرے پر اپنی منی چھوڑ دی۔ میں انگلیوں سے اس کی گرم گرم منی چاٹنے لگا۔
            کچھ دیر بعد مین منہ دھو کر دوبارہ سے تیار ھو کر گھر سےباہر نکلا ۔توقمر بھائی گھر سے کچھ دور ایک بیکری کے پچھلے گیٹ کے ساتھ میرا انتظار کر رھا تھا۔مین تیزی سے چلتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا۔اور پھر ھم دونون بائک پر بیٹھ کر بپنے گاؤن کیلئے نکل پڑے۔
            تقریبأ تین گھنٹے بعد میں نے اپنے گاؤن والے گھر کادروازہ کھٹکایا تو اندر سے میرےابے ماکھے کھوکھر نے دروازہ کھولا وہ اس وقت صرف ایک چیک والی دھوتی پہنے ہوا تھا۔ اس کا سخت جسم بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ابا قمر بھائی اور مجھے اپنے ساتھ گھر مین سے ہوتے ہوئے اندر پیچھے زمینون والی سائیڈ پرلے آیا۔ ہمارے اس ڈیرے والے گھر کے پیچھے ایک بڑا کمرہ تھا جس میں دو چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ اور ان دو چارپائیوں پر ابے کے دو مہمان دوست بیٹھے تھے۔ جو شکل وصورت سے ہی بدماش اور کچھ غنڈےٹائپ لگ رہے تھے۔ قمر بھائی ان لوگون کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔اور مین پانی پینے کے بہانے سے ابے کیساتھ باہر ٹیوب ویل کی طرف آنکلا۔ اور پھر اپنی نظرین جھکائے انکل جمال امی ۔اپنی افراء باجی اور جواد کے درمیان تعلق اور جو کچھ بھی مجھے معلوم تھا سب کچھ تفصیل سے مین نے ابے ماکھے کو بتا ڈالا۔جسے سن کر انکی غم وغصے سے بری حالت ھو گئی تھی۔وہ کافی دیر خاموشی سے خود پر قابو پاتے رھے۔اور پھر آہستہ اور دھیمی آواز سے ابا مجھ سے کچھ پوچھنے لگا۔مین بھی شرمندگی اور شرمساری سے سر کوجھکائے۔مگر تفصیل سے انہین بتاتا رہا۔پھر ابے نے مجھ سے قمر بھائی کے متعلق پوچھا۔تو مین قمر کے بارے مین بھی انہین سب کچھ بتا ڈالا۔
            ابے ماکھے نے مکمل حالات جاننے کے بعد وہین سے اکیلے مجھے واپس گھر جانے کو کہا۔
            تومیں سمجھ گیا کہ اب قمر بھائی کو ابے کیساتھ ساتھ ان دو افراد سے بھی اب گانڈ مروانا ہوگی۔
            یہ دونوں آدمی شائد میرے اپے کے پاس یہاں کام کرتے تھے یہان ان سے ملنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ ابا مجھے واپس جانے کا کہ کر ادھر کمرے مین چلا گیا۔ مین بھی بہت خاموشی سے بغیرکوئی آواز نکالے انکے پیچھے تھا
            ابا اندر کمرے مین جا کر ان غنڈون سے بولا۔ اس لڑکے کا نام قمر ھے اور اسکی اب ہمین اکٹھے گانڈ مار کراسے کچھ سبق سکھانا ھے۔ان دونوں آدمیوں کے نام مجھے بعد میں پتہ چلے ان میں ایک کا نام بشیر اور دوسرے کا ماجد تھا۔ ابے کی بات سن کر بشیر بہت جوش سےاٹھا اور قمر کوپکڑ کر بولا۔اؤئے چکنے لڑکے جلدی سے اپنے کپڑے اتار اور مجھے خوش کرو۔
            ویئسے تو اپ دوست جانتے ہی ھین قمر بھائی بھی بہت بڑے گانڈو تھے۔اس نے بظاہرمجبوری مین اٹھ کر اپنے کپڑے اتارے اور چارپائی پر لیٹ گیا مگر وہ دل ہی دل مین اپنی دھوان دھار طریقے سے گانڈ بجتی دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا۔
            اسکو ننگےدیکھ کر میرے ابے نے اپنی دھوتی کھولی۔ تو میں حیران رہ گیا۔ اس کا لن فل کھڑا تھا اور بہت بہت بڑا تھا۔ کم سے کم بھی اس کا لن نو انچ کا تھا اور بہت موٹا تھا۔ کسی راکٹ کی طرح اس کا موٹا لن سیدھا تنا ہوا تھا۔میرے ابے کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے اس لئے اس کا سخت بدن اور اس کے مسلز بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ابے نے قمر بھائی کو پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنے لوڑے کی طرف اسکا چہرہ جھکا دیا قمر بھائی بھی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گیا اور اس کا لن اپنے منہ میں لے لیا۔
            اتنے میں بشیر اور ماجد نے بھی کپڑے اتار دئے۔ بشیر کا جسم بھرا بھرا اور بہت مضبوط تھا اور اس کے سینے پر بہت بال تھے۔ اس کی رنگت گندمی تھی اور لن کوئی سات انچ کا تھا۔ اس کا قد بھی کافی لمبا تھا اور سینہ بھی بہت چوڑا تھا۔ اس کی ٹانگیں بہت بہت مضبوط تھیں۔ ماجد کا جسم دبلا پتلا تھا اور سینے پر ہلکے سے بال تھے رنگت اس کی گوری تھی اور لن آٹھ انچ کا اور بہت موٹا تھا ماکھے سے بھی زیادہ موٹا مگر لمبائی میں اس سے کم۔ اور تھوڑا سا نیچے کی طرف مڑا ہوا تھا۔
            وہ دونوں قمر بھائی کے برابر میں آکر کھڑے ہوگئے اور اپنے لن ہاتھ میں پکڑ لئے۔ قمر کے منہ میں میرے ابے ماکھے کھوکھر کا لن اندر باہر ہورہا تھا اور اسکےدونوں ہاتھوں میں ان دونوں کے لن تھے۔ پھر بشیر نے اسے بالوں سے پکڑا اور قمر بھائی کا سر ماکھے کے لن سے ہٹاکر اپنا لنڈ اسکے منہ میں ڈال دیا۔بشیرا بہت زور زور سے اسکے منہ کو چودنے لگا۔ اس کا لن پورا قمر بھائی کے حلق تک جارہا تھا۔ اس کی جھانٹون کے بال شیو نہیں تھے وہ زور سے اپنا لن قمرکے منہ میں ڈالتا اور قمر کی ناک اس کی جھانٹ کے بالوں سے جاکر لگ جاتی جس سے قمرکا سانس جیئسے رکنے لگاتھا۔ اسکی آنکھوں سے مسلسل پانی بہنے لگا۔قمر بھائی نے اپنے سر کو ہٹانے کی کوشش کی مگر بشیر نے مضبوطی سے اسکے بال پکڑے ہوئے تھے۔ کافی دیر چوپا لگوانے کے بعد اس نے قمر بھائی کو بالوں سے کھینچ کر ہٹایا اور اسکے بال کھینچتا ہوا قمر کا سر ماجد کے لن پر لے گیا اور بولا۔ اب اس کا لن منہ میں ڈال لے۔
            ایک فرمانبردار گانڈو کی طرح قمر بھائی نے ماجد کا لن چوسنا شروع کردیا۔تھوڑی دیر لن چوسوانے کے بعد ماجد نے اسکے منہ سے لن نکالا اور قمر بھائی کا منہ اپنے ٹٹوں پر رکھ دیا۔ اب وہ بھی بہت مزے سے ماجد کے ٹٹے چوسنے لگا۔ اس کے ٹٹے بڑے بڑے تھے۔مجھے اپنے سامنے یہ سب مست مدھوش کن نظارے دیکھ کر خود پر کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔للی تو کھڑی تھی ہی مگر میری گانڈ مین کچھ علیحد سی سنسی خیز خارش ہونے لگی۔اور پھر مین نے بے اختیار اپنے ہاتھون مین تھوک لگا کر للی کو مسلنے لگا
            ادھر میرے ابے نے قمر بھائی کے ہاتھ پکڑ کر اسے اوپراٹھایا اور چارپائی پر گھوڑی بنادیا۔ اتنے میں بشیر سرسوں کے تیل کی شیشی لے آیا۔
            مگر ماجد نے انہیں کہا کہ میں لیوبریکنٹ جیلی کل شہر سے لایا تھا اور وہ میری قمیض کی جیب میں ہے۔ ابے نے اسکی قمیض کی جیب سے جیلی کی ٹیوب نکالی اور بشیر نے بہت ساری جیلی قمر بھائی کی گانڈ کے سوراخ پر لگانی شروع کردی۔
            قمر بھائی اتنی دیر تک ماجد اور ماکھے کے لن اور ٹٹے کو چوستا رہا۔
            پھر بشیر قمرکے اوپر چڑھ گیا اور اس نے ایک ہی جھٹکے میں اپنا بڑا سا لنڈ قمر بھائی کی گانڈ میں ڈال دیا۔بشیر کے اچانک سخت جھٹکے سے اسکی چیخ نکل گئی۔ مگر قمر بھائی ایک بہت تجربہ کار گانڈو تھے اور اسے بڑے لن کو برداشت کرنا بھی آتا ہے۔
            مگر لگتا ہے بشیر کو گانڈ مارنے کا اتنا تجربہ نہیں تھا اس نے لنڈ اندر ڈالتے ہی دھواں دھار جھٹکے مارنا شروع کردئیے۔ تھوڑا درد تو ہوا مگر پھر قمر بھائی کو بھی مزہ آنے لگا۔ اور اسکی گانڈ کا سوراخ بشیر کے لگاتار دھکون اور أنے والے خوبصورت لمحات کا سوچ کر اسکی گانڈ کا سوراخ خود بخود کھل کر بڑا ہونے لگا۔
            ویسے تو مین بھی قمر بھائی سے گھر سے گانڈ مروا کر ہی نکلا تھا تو میری گانڈ کا سوراخ بھی کافی کھلا ہوا تھا۔
            مگر بشیر کے مسلسل لگاتار جھٹکون مین سے قمر بھائی کی گانڈ کاسوراخ دیکھ کر مین حیران رہ گیا۔مجھے وہ سوراخ کسی بڑی غار کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ جس مین بے یک وقت شائد تینون کے لنڈ ایکساتھ لینے کا جذبہ جنون دکھائی دے رہا تھا۔
            بشیر کے تابڑ توڑ جھٹکے اتنے زوردار تھے کہ ماجد اور ماکھے کے لن قمر کے منہ سے باہر کو نکلے جارہے تھے۔
            ماجد اور میرا ابا ساتھ ساتھ مسلسل بشیر کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔
            "اوئے زبردست بشیرے شاباش میرا شیر بنڈ پھاڑ دے اس پین چود دی سالا یہہ بہت حرامی ھے ۔
            یہ سن کر بشیر اور زور زور کے جھٹکے مارنے لگا اور تھوڑی دیر بعد وہ بولا مم مین فارغ ہونے والا ہون۔
            اندر ہی چھوٹ جا۔ ماجد نے اسے مشورہ دیا اور دو تین زوردار جھٹکے مارکر بشیر نے اپنی گرم گرم منی قمر بھائی کی گانڈ میں چھوڑ دی۔
            وہ اترا تو ماجد نے ماکھے سے کہا یار تو نے اس سے اپنا کوئی بدلہ لینا ہے اب تو اس کی بنڈ مار۔
            اور پھر ماکھے نے اپنے شاندار نو انچ کے لوڑے کے ساتھ قمر بھایی کی گانڈ پر سوار ہوگیا۔مجھے ایئسے لگنے لگا جیئسے میرے ابے ماکھے کو گانڈ مارنے کا بہت تجربہ تھا حالانکہ اب قمر کی گانڈ کافی کھلی ہوئی تھی اور اس میں بشیر کی منی بھری ہوئی تھی پھر بھی ماکھے نے اپنا بڑا لن آہستہ سے اسکی گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور دھیرے دھیرے اندر ڈالنا شروع کیا۔ اس کا لن نہ صرف بڑا تھا بلکہ موٹا بھی بہت تھا اور بہت سخت بھی تھا۔
            قمربھائی کی گانڈ کا سوراخ تھوڑا اور کھلنے لگا اور ابے کا لنڈ اسکی گانڈ چیرتا ہوا اندر جانے لگا۔ ماکھے کے لنڈ سے قمر کی گانڈ میں مزے کی لہریں دوڑنے لگیں اور وہ مستی بھری مدہوش آوازیں نکالنے لگا۔ جب ماکھے کا لن پورا اندر چلا گیا اور اسے کی جھانٹیں قمر بھائی کی گانڈ سے جا ٹکرائیں۔ تو نہجانے کیون مجھے بھی دیکھ کر ایئسا لگا ابے کے لنڈ سے جیئسے میری گانڈ بھر گئی ہو۔
            اب ادھر صورتحال یہ تھی کہ قمر کی گانڈ میں ماکھے کا نو انچ لمبا اور بہت موٹا لن تھا اور اسکےمنہ میں ماجد کے ٹٹے تھے۔
            ماکھے کھوکھر نے آہستہ آہستہ قمر بھائی ک گانڈ مارنا شروع کی۔ ہر بار اس کا لنڈ ٹوپی تک پیچھے گانڈ کے سوراخ پر جاتا اور پھر زور سے اندر واپس چلے جاتا تو قمرکے منہ سے أہ اوف جیئسی آوازیں نکل جاتیں۔
            بشیر فارغ ہوکر ایک کونے میں لیٹا مزے سے یہ شہوت زدہ چدائی دیکھ رہا تھا۔قمر بھائی ماجد کا لن اور اس کے ٹٹے اپنے منہ مین ڈالے ہویےچوس رہا تھا اور ماکھا کھوکھر اسکی پیچھے سے گانڈ مار رہا تھا۔ میرا ابا اب آہستہ آہستہ قمر بھای کی گانڈ بجاتے ہوئےاسپیڈ پکڑ رہا تھا۔ جب وہ زور سے اسکی گانڈ میں لنڈ ڈالتا تو اس کے ٹٹے اچھل کر قمرکی گانڈ سے ٹکرا رہے تھے اس کی سخت بھالون بھری رانیں بھی قمر کی رانوں سے ٹکرا رہی تھیں جس سے بہت زور کیدھپ دھپ کی آوازیں پیدا ہورہی تھیں۔ماکھے کے جھٹکوں کی شدت سے قمرکی گانڈ کے چھوٹے چھوٹے سڈول پہاڑیون نما کولحے اچھل کر تھرک رہے تھے۔ اب ماکھے کے جھٹکے تیز ترین ہوتے جارہے تھے اور ساتھ قمر بھایی کی گانڈ پھی فل موشن میں اس کے ہر جھٹکے کو اپنے اندر سمورہی تھی۔ ایک دم ابے نے اسکی گانڈ سے اپنا لنڈ باہر نکالا اور قمربھائی کے منہ کے پاس لایا۔اس نے بھی جلدی سے ماجد کا لن چھوڑا اور اپنا منہ کھول کر ماکھے کے لن کی طرف کردیا۔ابے ماکھےکے لن سے منی کا تیزفوارہ نکلا اور قمر کے چہرے آنکھوں اور منہ کو منی سے بھر گیا۔
            ماجد نے ایک منٹ بھی ضائع نہ کیا اور ماکھے کے پیچھے ہٹتے ہی قمر کی گانڈ میں اپنا سات انچ کا لوڑا ڈال دیا۔ ماجدکا لن قمر بھائی کافی دیر سے چوس رہا تھا اور وہ فل گرم ہوچکا تھا اس لئے ماجد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور زور زور سے اسکی بنڈ مارنا شروع کردی۔ اتنے میں بشیر کا لن واپس کھڑا ہوگیا تھا اور اس نے اپنا لن قمر کے منہ میں ڈال دیا۔ ماجد کا لن ماکھے اور بشیر دونوں سے چھوٹا تھا مگر وہ دونوں سے زیادہ بے رحمی سے قمر کی گانڈ کو چود رہا تھا۔ جلد ہی اس نے ایک زور کی آواز نکالی اپنےحلق سے
            اور اس کی منی کا فوارہ بھی قمر کی گانڈ میں چھوٹ گیا۔ اس نے دو تین جھٹکے اور مارے اور اسکی گانڈ سے لن نکال لیا۔
            اس کے لن کے پیچھے ہٹتے ھی قمر بھائی کی گانڈ سے اس کی اور بشیر اور ماکھے کی منی بہنے لگی۔
            اب بشیر نے اسے اگے بڑھ کر چارپائی پر چت لٹایا اور قمر کی ٹانگیں اٹھالیں۔ اس کا آٹھ انچ کا بہت موٹا لن ایک بار پھر قمر بھائی کی گانڈ مارنے کو تیار تھا۔
            اسکی گانڈ ویسے ہی فل کھل گئی تھی اور منی سے بھری ہوئی تھی اس لئے بشیر کے لن کو اندر جانے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہوا اس نے ایک ہی موشن میں اسکی گانڈ میں اپنی مردانگی کا نیزہ اتار دیا۔ اب وہ بہت جوش وخروش سے قمر بھائی کو چودنے لگا تو ساجد نے آکر اسکے ایک چہرے کو پکڑا اور قمر کے ہونٹ چوسنا شروع کردیا ۔ تین بھرپور مردوں کے نیچے آکر قمر بھائی کا جسم پورا تن گیا تھا۔ بشیر کے لن سے مزے کی بے پناہ لہریں اسکے بدن میں دوڑ رہی تھیں
            اوریہہ شہوت انگیز مزے اور لزت سے بھر پور منظر دیکھنے سے ایک دم میری چھوٹی سی للی سے بھی منی کا فوراہ چھوٹ پڑا۔
            ادھر اندر کمرے مین قمر بھائی کی مدہوشیانہ گانڈ بھی بشیر کے ہر دھکے سے واپس لپک کر اسکے لوڑے کو پھر سے نگلنے کو تیار ھو جاتی تھی۔
            جسے دیکھ کر بشیر کےچہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی کہ اس نے اپنے لنڈ سے اسے مکمل تسکین دی۔ وہ اب اور زور سے قمر بھائی کو چودنے لگا۔ پھر اس نے اپنا لن اسکی گانڈ سے نکالا اور قمر کے اوپر آگیا اور پھر اس نے اپنی منی قمر بھائی کی چھاتیوں اور چہرے پر ڈال دی۔
            اب قمربھائی کی گانڈ میں بشیر کی پہلی چدائی کی منی، اورماجد کی منی تھی اور ساتھ ماکھے کی منی اور بشیر کی دوسری چدائی کی منی اسکے چہرے اور چھاتیوں پر تھی۔ اور پھر اس نے جئیسے ہی مڑ کر دیکھا تو ماکھا اپنا لن اسکے سوراخ پر رکھ رہا تھا۔
            اس طرح وہ تینوں تو قمر بھائی کے جسم کا مزہ لوٹتے رہے۔ مگر میری اب برداشت ختم ہو چکی تھی۔اسلئے مین بائک پکڑی اور گھر سے کافی دور تک بایک کو بغیر سٹارٹ کیے ھی چلتا رہا۔پھر راستے مین بایک پنچر ھو گئی۔ نہجانے کتنی دیر بعد جب میں اپنےگھر پہنچا تو سامنے والا خوفناک منظر دیکھ کر حیران رہ گیا ۔میرے گھر مین پولیس کے ساتھ جیئسے پورا شہر ہی اکٹھا ھو کر چلا أیا تھا۔
            مین جیئسے ہی لوگون کی بھیڑ سے گزرتا ہوا درمیان مین پہنچا تو میری خوف اور دہشت سے روح تک کانپ گئی۔کیونکہ وہان میرے سامنے آٹھ سے دس لاشین خون مین لت پت کپڑون سےڈکی ہوئی پڑی تھین۔
            ۔۔نیواپڈیٹ۔
            بہت ہی خوفناک اور دہشت انگیز منظر میری آنکھون کے سامنے تھا مجھے خراب بائیک کو سارے راستے گھسیٹنے کے سفر کی تھکاوٹ او پھر اس نئی پریشانی کے باعث میرا اچانک دماغ ماؤف ہونے لگا اور مین دھڑام کی آواز سے نیچے زمین پر جا گرا۔
            مجھے کوئی خبر نہین کہ پھر میرے ساتھ اور بیہوش ہونے کے بعد مین میرے گھر مین کیا کیا ہوا۔
            تقریبا دو دن گزرنے کے بعد مجھے ہسپتال کے اسٹریچر پر جا کرہوش آیا ۔جیئسے ہی میری آنکھ کھلی تو مین نے خود کو چند ڈاکٹرز اور انکے ساتھ فی میلز سٹاف کے درمیان خود کو گھرے پایا وہ میرے بارے مین ہی گفت وشنید کیے جا رہے تھے ایک سینیرز ڈاکٹرز انہین میری دماغی کنڈیشن کے متعلق بہت باریکی سے گائیڈ کیے جا رہا تھا۔
            انکی باقی ساری باتین تو میرے سر کے اوپر سے گزر گئین مجھے صرف اتنا ہی سمجھ آیا کہ میرے گھر کے حادثے کی وجہ سے مجھے بہت شدید نروس بریک ڈاؤن اٹیک ہوا ہے پھر انہون نے مجھے کچھ انجکیشنز وغیرہ لگائے اور مین دوبارہ سے ہوش وہواس سے بیگانہ ھو گیا۔
            قصہ مختصر دوستو یہ ھے کہ مین دس دن تک ہسپتال مین زیر علاج رہا۔ہسپتال مین نہ تو میرے مان اور باپ أئے اور نہ ھی کوئی بہن۔مین بتا نہین سکتا کہ کس طرح کی اذیت اور تکلیف سے میرے یہہ دن گذرے۔ ایک ایک لمحہ برسون کی مانند سوچ و بیچار مین ڈوبے نکلا۔
            پھر کہین جا کر مجھے ہسپتال سے صحت مند قرار دے کر وہان سے ڈسچارج کیا گیا۔
            چونکہ ہسپتال کے میرے تمام دن انتہائی بورنگ اور پریشانی اور مختلف سوچ وبچار مین گزرے تھے ۔
            مگر مین آپ دوستون کو مذید بوریت سے بچاتے ہوئے مین سیدھا ہسپتال سے باہر پہنچ جانے کے بعد آپنی سٹوری پر ہی لاتا ہون۔
            اس دن میرے گاؤن کے گھر سے نکلنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی اس دن قمر بھائی کی گانڈ مارتے مارتے ماکھے کھوکھر نے بشیر اور ماجد کو بولا آؤ دوستو اس چکنے لونڈےکو اب یہین چھوڑتے ھین اور ایک بہت ہی خوبصورت لونڈیا کو جا کر چودتے ھین۔
            وہ دونون بھی لونڈیا کا سن کر خوشی خوشی ماکھے کے ساتھ ہو لئے۔
            ماکھے نے ان دونون کو ساتھ لیا اور مجھ سے تین گھنٹے پہلے ہی گھر پہنچ گیا تو اس وقت وہان امی اکیلی گھر مین جواد کو بلا کر اس سے چدائی کروا رہی تھی ۔اور افراء آپی انکل کے ساتھ شابنگ کرنے گئی ہوئی تھی۔
            ماکھے نے بشیر اورماجد کیساتھ گھر مین گھسنے سے پہلےچورون اورڈکیتون کی طرح پہلے اپنے چہرون کو چادرون کے نقاب کرکے چھپایا اور گھر مین اندر گھستے ہی جواد اور امی کو پکڑ کر رسیون سے باندھ دیا۔
            پھر تینون نےمل کر نہایت بیدردی اور وحشیانہ طریقے سے پہلے پورے ایک گھنٹے تک امی کی چوت اور گانڈ اور ساتھ جواد کی بھی گانڈ مارتے رہے۔اسکے بعد ماکھے کے کہنے پر انہون نے جواد کو گلا گھونٹ کر مار دیا اور پھر امی سے پوچھ کر انکے سبھی عاشقون کو امی سے ہی فون کروا کر باری باری گھر بلاتے رہے اور جو بھی وہان پہنچتا اس کو فورأ گلا گھونٹ کر مار دیتے ۔
            سب سے آخر مین افراء آپی کے ساتھ انکل جمال بھی گھر واپس آ گئے ۔انکل جمال تو باہر سے ہی سیدھا اوپر اپنے کمرے مین چلے گیے اور آپی افراء گھر مین داخل ہوئی۔
            جب بشیر اورماجد نے افراء کو دیکھا تو وہ سب کچھ بھول کر افراء کو پکڑ کر اسکی چدائی کرنے کیلئے اسے کو زبردستی اندر کمرے مین دھکیل کر لیجانے لگے۔
            ماکھا اپنی بیوی کی چوت کی گرمی نکالنے کیلیےتو خود ان دونون کو آپنے ساتھ لے کر آیا تھا مگر یہہ دونون کمینے اسکے سامنے ہی اسکی بن بیاہی بیٹی کو چودنے کے لیے بیقرار ہو رہے تھے۔
            بس یہین سے ماکھے کھوکھر ۔ بشیر اور ماجد کے درمیان تو تڑاک سے بات شروع ہو کر پھر ان مین گالی گلوچ اور لڑائی ہونے لگئ۔جو بڑھتے بڑھتے ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن گئی۔ ساتھ والے سبھی گھرون مین بھی انکی لڑائی کے شوروغل کی آوازین پہنچنے لگئین اور اوپر والے کمرے سے بھی شور سن کر انکل جمال نے پہلے تو خود نیچے گھر مین جھانک کر دیکھا اور جب تین اجنبی آدمیون کو گھر کے صحن مین أپس مین لڑتے ہوئے دیکھا تو وہ اپنا پسٹل لے کر جلدی سے نیچے اترا اور انہین چند ہوائی فائر کر کے ڈرانے دھمکانے لگا انکل جمال کو یہی اندازہ تھا کہ شائید یہہ میری امی اور افراء کے عاشق چند ٹھوکھو ھین جو نہجانے کیون أپس مین لڑ بیٹھے ھین۔وہ یہ بلکل نہین جانتے تھے کہ انکے سامنے حقیقتأ بدمعاش اور چور ڈکیت ھین۔ جو پہلے ہی اس گھر مین خاموشی سے کئی قتل کرچکے ھین۔
            بشیر نے یہ صورت حال دیکھتے ہی اپنا پستول نکالا اور ان پر سیدھا فائر کردیا جو انکل جمال کو کندھے مین جا لگا انہون نے بھی بغیر کوئی دیر کیئے واپسی فائر کیا جو بشیر کے سر مین آ لگا۔ادھر ماجد نے اپنا ماوؤزر نکالا اور اسکا پورا برسٹ انکل جمال کے سینے پر فائر کر ڈالا۔ماکھے کھوکھر نے جب اس طرح سے حالات بدلتے دیکھے تو انہون نے گرے پڑے بشیر کاپسٹل پکڑ کر تین چار فائر ماجد کی کنپٹی پر رکھ کر دئے۔اس طرح چند ہی لمحون مین اب اس گھر مین ماکھے امی اور افراء کے علاوہ سبھی افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ماکھے نے بھی حالات کی نزاکت کو سمجھا اور بہت آہستگی اور خاموشی سے گھر سے نکل کر فورأ اپنے گاؤن واپس چلے گئے۔
            دوستو یہ تمام واقعہ مجھے بہت بعد مین جا کر پتہ چلا تھا مگر أپ لوگون کو ترتیب سے پہلے ہی بتا ڈالا۔
            مین جب دس دن ہسپتال رہنے کے بعد وہان سے نکل کر گھر واپس آیا تو میرے گھر پر تالا لگا ہوا تھا۔
            اور ماکھا کھو کھر پولیس سے بھاگ کر پتہ نہین کہان روپوش ہو چکا تھا افراء باجی اورمریم آپی قمر بھائی کے گھر انکی بھابھی کے پاس چھپی ہوئی تھین۔ان سے ملنے کے ساتھ ہی مجھے امی کی بہت یاد آئی اور
            مین امی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جواد کے ایک انکل۔​نعیم کے گھر پہنچ گیا۔اتنے دنوں سے میری امی انکے پاس چھپی ہوئی تھین۔
            انکل نعیم جب دوپہر کو اپنے گھر واپس آئے تو میں انکے گھر پر پہلےہی موجود تھا اور
            میرےساتھ میں صرف امی ھی گھر پرتھین اور انکل نعیم کے گھرکا کوئی بھی افراد گھر پر موجودنہین تھا۔
            انکل کے.گھر کے زیادہ تر افراداسکول یا کالج وغیرہ میں گئے ہوئےتھے تو؟۔
            میں نے ہی انکی آمد پردروازہ کھولا اور پِھر کچھ دیر تووہ ہمارے پاس بیٹھےاور بات چیت ہوئی اور مین اس وقت کوئی ناول پڑھ رہا تھا اور
            چونکہ بلکل فری تھا تو میرا پسندیدہ ترین مشغلہ فارغ وقت میں ناولزوغیرہ ہی پڑھنے کا تھا تو میں وہ پڑھنے لگا مگر ۔امی اور انکل نعیم۔​​​کےدرمیان میں نے کچھ مخصوص قسم کی۔
            اشارے بازی ہوتی دیکھی لیکن۔میں اگنور کرتا رہا اور۔ان کے درمیان آنکھ مچولی۔
            ہونے دی کیوں کہ اب میں۔نے سوچا کہ پچھلی دفعہ بھی۔
            سارا نظام میری وجہ سےخراب ہوا ھے۔
            ظاہرہے میرا دل اگر سیکس کو ۔کرتا ہے تو انکا بھی تو کرتا ہو گا نا اِس لیے بھی اور یہ۔بھی سوچا کہ پتا تو چلے کہ ان مین۔ہوتا کیا ہے یہان یہہ صرف میراشک ہی ہے تو میں نے یوں ظاہر کیا ۔کہ جیسے میں ناول۔پڑھنے میں مصروف ہوں
            مگر میرا پُورا دھیان اُدھر ہی
            تھا .
            ۔ان لوگوں کی طرف تو اِس لیے میں ان کو کن اکھیوں سے دیکھ رہا تھا تاکہ۔ ان کو پتا نا چلے کہ میں ان کے اشاروں کو دیکھ رہا۔ ہوں اور سمجھ بھی رہا ہوں
            اور وہ بھی شاید میری وجہ سے تھوڑا ڈرےہوئے تھے اِس لیے کھل کر کوئی بات یا اشارے نہیں کر رہے تھے . مجھے کچھ کچھ تو ان کے اشاروں کی سمجھ۔۔۔آ رہی تھی اور کچھ نہیں بھی آ رہی تھی ..۔
            میں جہاں تک سمجھا تھا وہ۔یہی تھا کہ ان کا اِرادَہ مجھے۔یہاں سے نکالنے کا تھا تا کہ وہ کھل کے بات چیت یا اگر۔کچھ اور کرنا چاہیں تو وہ۔بھی کر سکیں مگر اب ظاہر ہے ۔میں تو باہرنہیں جانا چاہتا۔تھا اور نا ہی میرا ابھی باہر جانے کا کوئی اِرادَہ تھا ۔
            اور اگر مین باہرچلا جاتا تو مجھے۔کیسے پتا چلتا کہ کیا ہوا ہے۔
            اِس لیے میں ُچپ چاپ لیٹا۔بظاھر ناول پڑھنے میں۔مشغول تھا مگر دھیان مسلسل انہی کی طرف تھا تو پتا نہیں پِھر ان میں کیا پروگرام بنا لیکن تھوڑی دیر۔بَعد انکل نعیم نے مجھے کہاکہ ارشد یار ایک کام تو ۔کرو میرا یہ جوتا تھوڑا ٹوٹ۔گیا ہے اِس کو تو کسی موچی سے ٹھیک کروا کے لا دو۔لیکن میں نے صاف انکار کر۔دیا کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ جو بھی ہو میرے سامنے ہو۔مگر یہ تو مجھے یہاں سےبھیجنا چاہتے تھے مگر میں جانا نہیں چاہتا تھا ۔
            اِس لیے انکار کر دیا مگر۔ امی اور انکل کا اصرار۔برقرار رہا تو مجھے ماننا ہی پڑا لیکن ساتھ میں میرے۔ذہن میں ایک آئیڈیا بھی آیا۔ کہ میں بظاھر تو ان کےسامنے سے چلا جاؤں مگر
            باہر والے گیٹ ۔ سےچپکے سے واپس آجاؤں اوراسی وجہ سے میں۔مان گیا اور باہر جانے کی حامی بھر لی تو۔انکل نے کہا کہ جوتا شہر۔کے کسی موچی سے مرمت کروانا یہاں کے موچی سے۔نہیں ٹھیک ہوتا اور لے کے ہی آنا کیوں۔کہ میں نے ابھی واپس چلےجانا ہے۔
            تو میں انکا سارا۔آئیڈیا سمجھ گیا کہ وہ چاھتے ہیں کہ میں زیادہ سے زیادہ۔دیر تک باہر رہوں مگر میں۔۔۔اب اتنا بھولا بھی نہیں تھا کہ ساری باتیں آرام سے مان۔جاتا مگر میں نے ان کے۔سامنے حامی بھر لی اور ان سے جوتا لیا جوواقعی ٹوٹا۔ہوا تھا اور شاپر میں ڈال کے باہرلے گیا اورانکے گھر سے شہر بھی زیادہ دور نہیں تھا پیدل ہی جا سکتے تھےبلکہ پیدل ہی زیادہ ۔۔مناسب تھا ورنہ بائیک۔وغیرہ پہ تو اُوپر سے چکر
            نکال کے آنا پڑتا تھا۔لیکن پیدل شارٹ کٹ چل۔جاتا تھا تو میں پیدل ہی چل پڑا مگر میں چپکے سے انکل کے گھر کی باہر والےگیٹ۔کی چابی ( کی ) لینا نہیں بھولا تھا اور میں نے فورا
            ہی جوتا ساتھ والی گلی کے ۔۔۔موچی کو مرمت کے لیے دیا ۔اور تیزی سے واپس گھر کی طرف آ گیا۔میں نے چپکے سے دروازہ۔چابی کے ساتھ کھولا اوراندر داخل ہوا اور میری فل۔کوشش تھی کہ ذرا بھی آواز۔پیدا نا ہو اور میں اپنی
            کوشش میں تقریبا کامیاب۔بھی رہا اور چپکے سے گھر
            میں داخل ہوا اور کچھ دیر۔۔۔کھڑا رہا تاکہ کوئی آوازوغیرہ۔سنوں تا کہ پتا چل جائے کہ امی انکل نعیم کے ساتھ کہان ہے یعنی کس کمرے۔مین ہے اور آخر کار میں اسی۔کمرے کی طرف واپس آیا۔جہاں ان کو چھوڑ کے گیا تھا
            اور وہ اُدھر ہی تھے تو میں
            فورا دوسرے کمرے میں۔گیاجو اس کے ساتھ اٹیچ تھا۔۔۔تو وہاں پونہچا کیوں کہ دونوں کمروں کےدرمیان۔ایک دروازہ تھا جس میں۔سے میں ادھر کا منظر بغیر
            ان کو پتا چلے دیکھ سکتا
            تھا۔
            اِس لیے میں بھاگم بھاگ ۔مگر فل احتیاط کے ساتھ اس کمرے میں پہنچا۔۔اوردروازے کےساتھ آنکھ۔لگا دی اور میں تو اندر کا۔منظر دیکھ کے ششدر ہی رہ۔گیا کیوں کہ امی اپنی قمیض ۔فل اُتار چکی تھی اور اب اپنی شلوار کا
            ناڑا کھول رہی تھین اور۔انکل نعیم امی کے ِاوپر والے.جسم کو جو کہ ننگا تھا گھور رہے تھے اور میں تو۔ امی کے ننگے چمکیلے بدن کو دیکھ کر پھر سےحیران ہو گیا کہ میری امی۔ گھر مین اتنے بڑے حادثے کے بعد بھی۔ابھی ایسی ہی ھین ہر وقت چدائی کیلئے تیار۔ جیسے جب بھی کوئی ملے بس لن لینے والی کرو؟۔
            اور میں انہین بغوردیکھنے لگا اوردیکھا کہ امی نےاپنی شلوار۔بھی اُتار دی ہے اور چونکہ
            امی کا منہ دوسری طرف تھا۔تو مجھے امی کی مستانی گانڈ.کی جھلک۔مجھےنظر آئی جو کہ کافی بڑی تھی اور میں نے اتنی بڑی گانڈ اور وہ بھی ننگی زندگی میں اپنی امی کے علاوہ ابھی کسی کی نہین دیکھی تھی اِس ۔۔۔لیے میں تو اپنی ہی ماں کی ننگی گانڈ دیکھ کے پورا مست ہو۔گیا واو کیا نظارہ تھا میری قیامت خیز متوالی گدرائی گانڈ کا۔
            امی کے پرشہوت اور مدہوش بدن کا رنگ ۔ اورامی کی گانڈ کا بھی رنگ گورا ہی ہے تو مجھے۔انکی کمرااور چکنی گانڈ اور۔ٹانگیں مدھوش کر رہی تھیں
            اور میرا ِدل چاہتا تھا کہ میں یہ نظارہ یونہی کرتا رہوں ۔۔اور وقت تھم جائے مگر ۔ظاہرہے دوستو۔ہر خواہش تو پوری نہیں۔ہوتی اور یہ تو کسی بھی
            صورت نہیں ہو سکتا تھا کہ ۔وقت تھم جاتااس ی لیے وقت۔آگے بڑھتا رہا اور میری امی۔اور نعیم کے بہکتے کرتوت
            بھی آگے بڑھتے رہے جو کہ ۔۔۔میں آپکو بتاتا ہوں مگر اس۔سے پہلے میں اپنی امی کا تعارف مزید ڈیٹیل سے کروا دوں
            کیوں کہ یہ انکی فل۔انٹری ہے .
            جیسا کہ میں پہلے بھی بتا۔چکا ہوں کہ میر ی امی کا نام پروین ہے ان کے36 سائز کے ممے۔کمر 32 اور گانڈ 38 ہے توآپ سائز سے ہی انداذہ کر ۔سکتے ہیں کہ کیامست شہابی گانڈ۔ہو گی میری امی کی اور میرا۔تو مست نظارے سے برا حال ہو
            گیا اور نعیم بھی امی کو ۔کچھ دیر گھورتے رہے تو۔
            امی بولی کہ ایئسے آج کیا دیکھ رہے ہو تو ۔انکل نعیم کہنے لگے کہ تمہارا جِسم بہت مست ہے ِدل کرتا ہے کہ بس یونہی اسےدیکھتا ہی رہوں
            تو امی بولی کہ بعد میں دیکھ لینا۔ابھی جو بھی کرنا ہےجلدی سےکر لو ارشد کا کوئی پتا نہیں کب واپس آجائے تو نعیم بولے کہ ہاں یار بڑی مشکل سے مانا ہے۔بہت تیز ہے مان ہی نہیں رہا تھا۔
            ہان یہ بہت تیز ھو گیا ھے۔امی بھی بولی اس دفعہ میرے گھر مین جو اتنا بڑا ہنگامہ ہوا ھے مجھے اسی پر شک ھے کہ اِس نے میرا بنا بنایا سارا کام خراب کیا ھے۔پتا نہیں اب کیسے مان گیا۔اور ہَم دونوں کو اکیلے چھوڑگیا ۔تو انکل بہت ہی عجیب انداز سے ہنس پڑے ۔اور مین بھیءسوچنے لگا کہ۔واقعی یہ بات تو ہے مگر نہجانے کیون مجھے امی کی یہ بات انکل نعیم کو بتانا اچھی نہین لگی۔ مجھے ایئسے لگ رہا تھا جیئسے اب کوئی نیا کھیل میرے خلاف رچنے لگا ھے۔
            امی انکل سے بولی اب۔ٹائم ویسٹ نہ کرو تو میں ان کی بیتابی اور۔دونوں کی باتوں پہ ہنس پڑا۔جو سمجھ رہے تھے کہ
            انہوں نے مجھے ٹال دیا ہے۔اور میں ان کو نہیں دیکھ رہا۔ہوں اور۔میں بھی اپنی چالاکی پہ بہت۔خوش ہوا کہ اگر یہ آئیڈیا نا ۔آتا میرے ذہن میں تو مجھے۔تو پوری بات کا پتا ہی نہیں
            چلنا تھا ظاہر ہے اب انہوں۔نے میرے سامنے تو کچھ۔نہیں کرنا تھا .
            اِس کے بَعد نعیم انکل اُٹھے اور
            کھڑ ے ہو کے انہوں نے امی کے سر کے پیچھے ہاتھ ڈالا اور اپنےقریب کر کے امی کوچومنے لگے اور امی بھی ۔۔۔مست ہو کے کسسنگ کا بھرپور جواب دینے لگی اور کافی دیر تک انکل امی کو کس کرتے رہے اور پِھر وہ نیچے کی طرف آئے اور امی کی گردن پہ کسسنگ کرنے لگے پِھر میری امی کے بوبز پہ آئے اور انہیں ُچوسنے لگے اور کافی دیر تک بوبز کےنیپل چوستے رہے جیسے پتا نہیں ۔۔۔کتنے دنوں سے بھوکے ہوں اور کبھی لیفٹ بوبز اپنے منہ میں لیتے اور کبھی رائٹ مجھے یہ سب انکی حرکات سکنات سے ۔پتا چل رہا تھا
            اور پِھر وہ نیچے کی طرف آئے اور امی کے پیٹ پہ کسسنگ کرنے لگے اور ساتھ اپنا ایک ہاتھ پیچھے امی کی مست گانڈ پہ بھی ۔پھیرتے جا رہے تھے اور پِھر انہوں نے امی کو گھمایا
            اور امی کی گانڈ اپنی طرف کی تو میں نے امی کے
            مموں کا اور پھدی کا زندگی
            میں پہلی دفعہ فل کھل کر نظارہ کیا واو کیا ممے تھے زبردست اِس عمر میں بھی امی کے ممے لٹکے ہوئے نہیں تھے اور انکی پھدی کی توکیا بات تھی ۔۔۔
            مجھے امی کی پھدی کی ایک لکیر ہی نظر آ رہی تھی کیوں
            کہ وہ کھڑی تھیں مگر میرے
            لیے یہ بھی بہت تھابلکہ میری اوقات سے بڑھ کے تھا اور امی کی پھدی بالوں سے بالکل پاک تھی جیسے تازہ تازہ ہی صاف کی ہو اور میری للی تو امی کی پھدی کو دیکھ کے اور ٹائیٹ ہو گی۔۔اور میرا ہاتھ بالا اِرادَہ
            اپنی للی پہ چلا گیا اور میں اس کو سہالنے لگا اور اُدھر انکل نعیم امی کی گانڈ کےساتھ کھیل رہے تھے کبھی
            اس پہ ہاتھ پھیرنے لگتے کبھی چومنے لگتے اور کبھی ہلکی ہلکی تھپڑ مارنےلگتے کافی دیر وہ اسی طرح سے امی کی گانڈ کے ساتھ۔۔کھیلتے رہے۔ لگتا تھا کہ امی کے 38 سائز کی گانڈ انکل کو بھی بہت پسندآئی تھی اور ان کی حرکتون سےصاف لگ رہا تھا کہ انہیں بھی امی کی گانڈ مست کافی دیر بَعد نظر آرہی تھی .
            انکل نعیم نے امی کو پِھر اپنی طرف گھمایا اور کھڑے کھڑے ہی امی کی پھدی کو کسسنگ کرنے لگے اور اپنا۔۔۔ایک ہاتھ امی کی گانڈ پہ رکھا ہوا تھا
            کبھی کبھی اس سے بھی امی
            کی گانڈ کوسہالتے اور پِھر
            انکل نعیم نے امی کو نیچے لٹایا
            اور انکی پھدی کو چاٹنے لگے اور امی تو مکمل مست ہو کےسسکاریاں بھرنے لگی
            اور امی کی شہوت بھری آواز کافی بلند ۔۔۔تھی شاید ان کے خیال میں ان دونوں کےعلاوہ گھر میں کوئی نہیں تھا اور میری امی کی سیکسی آوازیں جیسے کہ
            آہ آہ اوئی آہ ہاے آہ اوہ آئ آہ پوری زبان اندر ڈالو ناآہ آہ آہ کیا کر رہے ہو نعیم تم بہت برے ہو اتنا مزہ دیتے ہو کہ بس اور اِسطرح کی باتوں اور سیکسی آوازوں نے۔۔مجھے بھی مست کر دیا اور میں نے بھی للی کو اپنی شلوار سے باہر نکال لیا اور ہاتھ میں پکڑ کےسہلانے لگا اور
            اُدھر امی بھی اپنی ٹانگیں اٹھا اٹھا کے مار رہی تھی
            شاید وہ مزے سے نہال ہو رہی تھین اور اب وہ آؤٹ آف کنٹرول ہونے کی کوشش کر
            رہی تھیں اور انکل نعیم بھی۔۔۔امی کی چکنی پھدی ایسےچوس رہے تھے جیسے کہ
            زندگی میں پہلی دفعہ پھدی
            دیکھی ہو حالانکہ ان کی حرکتون سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ تو عورتوں کےشکاری ھین
            انہوں نے میرا خیال سے کوئی
            لڑکی اور عورت چودے بنا نہیں چھوڑی ہو گی جن پہ ان کا ِدل آیا ہو اور وہ اِس معاملے میں جواد کی طرح بہت مشہور ہیں۔۔مگر یہاں پر تو ان کا جوش اور ڈیڈیکیشن دیکھ کے لگتا تھا کہ جیسے انہیں زندگی
            میں پہلی دفعہ کوئی پھدی ملی ہے یا دنیا میں ان کو پھدی چاٹنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہے اور میرا اور امی دونوں کا مزے سے برا حال ہو رہا تھا اور میری للی سے اب تو منی بھی ۔۔نکلنی شروع ہو گی تھی. اِس سے آپ میری حالت کا انداز لگا سکتے ہیں مگر انکل نعیم نے کافی دیر بَعد امی کی پھدی کی جان بخشی کی اور پِھر اپنی شلواراتاری اور
            میں تو دیکھ کے حیران ہو
            گیا کہ نعیم انکل کالن کافی تگڑا لمبا اور موٹا تھا یعنی صحت مند بھی کافی تھا اور لمبا بھی کافی تھا اور۔پِھر نعیم نے امی کا سر پکڑ کے اپنےلن کی طرف موڑا اور امی نے بلا کسی جھجھک کے ان کالن منہ
            میں لے لیا اور بڑے مزےُچوسنے لگی اور وہ کیا چوپا لگا رہی تھین میری گشتی ماں ونڈر فل انداز میں۔
            جسے دیکھ کرتو مین عش عش کر اٹھا یہ منظر۔دیکھ کے اور میرے ہاتھ کی سپیڈ میری للی پہ تیز ہو گئی
            اور اُدھر نعیم نے بھی مزے سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور شاید جنت کے نظارے کرنے لگے مگر میرا تو بہت ہی برا حال تھا میرا ِدل کر رہا تھا کہ میں فورا اس کمرے میں جاؤں اور
            اپنالن اپنی امی کی پھدی میں۔ڈال دوں مگر یہ ممکن نہیں
            تھا آپ لوگ جانتے ہی ہیں اِس لیے صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور اپنے ہاتھ کےاستعمال کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اسی لیے میں ِدل کڑ ا کر کے رہ گیا اور اپنے ہاتھ سے کام چلاتا رہا
            اور اُدھر میری امی فل گشتیوں کی طرح انکل کےلن کو ُچوستی رہین یعنی چوپا لگاتی
            رہین اور پِھر نعیم نے امی کو ڈوگی اسٹائل میں کیا اور وہ بھی اِسطرح کہ امی کے ہاتھ چارپائی پہ تھے اور پاؤں نیچے زمین پہ تھے اور اپنا لوڑ ا امی کی پھدی میں پیچھے سے ٹھونس دیا اور وہ بھی ایک ہی جھٹکے میں۔اورامی کی تو چیخ ہی نکل گئی مگر انکل نعیم رکے نہیں اور تیز تیز جھٹکے لگانے لگے اور امی کی چیخیں بلند ہونے لگیں آہ آہ اوئی آہ ہاۓ آہ مر گئی ہاۓ میری پھدی پھاڑ دی ہاۓ میری پھدی کا بھوسڑا بنا ڈاال ہاۓ آرام سے کرو مگر انکل اب کہاں سنتے اور امی کی باتیں سن کے۔۔۔شاید ان کو اور جوش چڑھ رہا تھا اور چارپائی کی
            چیخیں الگ تھیں مجھے تو
            خدشہ ہوا کہ کہیں انکی آوازیں باہر گلی میں نہ پہنچ جائیں مگر یہ شکر ہے کہ وہ اندر والے روم میں تھے اِس لیے ایسا خدشہ کم ہی تھا اور ادھر میری للی کا بھی برا حال تھا اور وہ بھی۔۔۔فل ٹائیٹ تھی اور تھوڑی دیر بَعد انکل نعیم نے اپنالن باہر نکالا اور امی کو سیدھا لٹایا اور ٹانگیں اپنی کمر کے گرد لپیٹ کر پِھر سے امی کی چوت مین لن کو ڈَالا ایک ہی جھٹکے میں اور چودنے لگے مگر اِس دفعہ تھوڑا آرام آرام سے اور پِھر ساتھ ساتھ بوبز بھی ُچوسنے لگے اور امی کو بھی مزہ آنے لگا ۔۔۔اور پِھر تھوڑی دیر بَعد امی نے کہا تیز چودو اور تیز چودو تو میں سمجھ گیا کہ امی اب اپنی منزل کے قریب ہیں یعنی چھوٹنے والی ہیں اور پِھر انکل بھی شاید اب قریب ہی تھے تو انہوں نے بھی اپنی سپیڈ بڑھا دی اور تیز تیز جھٹکے مارنے لگے ۔ اور پھرامی کی لگاتار سیکسی آوازیں نکلنی شروع ہو گئین۔مگر اِس دفعہ وہ صرف مزے والی آہ آہ آہ یاہ آہ میں گئی آہ واو آہ ہاۓ اور تیز آہ آہ اِسطرح کی آوازیں آنے لگیں اور پِھر ایک مزے کی آہ کے ساتھ امی فارغ ہو گئی اور انکل بھی ساتھ ہی چھوٹ گئے امی کی پھدی کے اندر ہی اور پِھر امی کے اُوپر ہی گر گئے اور کچھ دیر دونوں ایسے ہی لیٹے رہے ۔۔اور اُدھر میں بھی فارغ ہونے والا تھا۔بلکہ بالکل اینڈ پر
            پہنچ چکا تھا مگر میں نے بڑی مشکل سے خود کو کنٹرول کیا اور شلوار پہنی پِھر دیکھا تھوڑی دیر بَعد نعیم پِھر امی کو کسسنگ کرنے لگے اور شاید پِھر انکا موڈ بن رہا تھا مگر امی نے منع کر دیا کہ ارشد ابھی واپس آتا ہی ہو گا۔ مین بھی بہت خاموشی سے گھر سے باہر نکل گیا۔اور جب کچھ دیر کے بعد مین واپس پہنچا تو نعیم انکل گھر سے جا چکے تھے
            ۔۔۔۔۔ ۔۔
            پھر نعیم انکل کے گھر مین
            بھی امی کے ساتھ رہنے لگا۔ دن بہت تیزی سے گزرنے لگا۔مین نے مختلف مواقع پر کئی دفعہ امی کو یہان سے اپنے گھر چلنے کیلیے بولا۔مگر وہ تو انکل نعیم کے بڑے لن کی شیدائی ہو چکی تھین۔اور مکمل طور پر خود کو نعیم انکل کی رکھیل سمجھنے لگی تھین۔ دن ہو یہان رات جب بھی انہین موقع ملتا وہ دونون چدائی کرنے لگتے۔ پھر ایک دن اچانک قمر بھائی نعیم انکل کی غیر موجودگی مین امی کے پاس پہنچ گئے۔ دوستو آپ لوگ جانتے ہی ھین کہ وہ بھی امی کے پرانے عاشق اور انکے خوبصورت بدن کے شیدائی ھین۔
            امی نے بھی فورا موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔قمر بھائی کے کپڑے اتارنے کیساتھ خود بھی ننگی ہو گیئن اور پھر جلدی سےقمر کے لنڈ سے کبڈی کھیلنے لگ پڑین۔
            قمر بھائی امی کو چودتے چودتے اچانک میرا اور اپنا مل کر ہمارے گاؤن والے گھر مین جانے اور ماکھے کھوکھر کو ساری باتین بتانے لگے۔
            امی کو تو پہلے ہی مجھ پر شک تھا۔ مگر قمر بھائی کے ساری تفصیل بتانے سے انہین یقین ھو گیا۔کہ اس دن گھر مین آنے والے ان چورون ڈکیتون مین ان کا اپنا خاوند ھی ملوث ھے۔
            مین اس وقت حسب معامول ساتھ والے کمرے مین چھپ کر امی اور قمر بھی کی شہوت انگیز چدائی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اوپر سے قسمت کے کارن نعیم انکل بھی گھر مین پہنچ کر کمرے کے دروازے پر کھڑے ان کی چدائی دیکھنے کیساتھ ساتھ دونون کی باتین بھی سن رہے تھے۔انہین جیئسے ہی پتہ چلا کہ انکے بھتیجے جواد کے قتل مین ماکھے کھوکھر کے ساتھ مین بھی برابر کا شریک ہون۔وہ فورأ کمرے مین داخل ہوئے اور غصے کے عالم مین امی اور قمر بھائی کو لاتون اور گھونسون سے مارنے لگے۔انکل نعیم غصے سے چلاتے ہویے ایک بات ہی بار بار کہے جارہے تھے۔
            سالی گشتی رنڈی مین تمھارے خاندان کے تمام افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سبھی کو مار دون گا۔مین بہت زیادہ ڈر گیا۔اور فورا خاموشی سے انکے گھر سے باہر نکل آیا۔پھر مین وہان سے لاہور کئیسے پہنچا اور کیئسے مصیبتون اور تکلیفون سے گزرتے ہوئے چند سال گزارے یہ صرف مین ہی جانتا ہون۔أج پانچ سال کےبعد مین پھر سے آپنی چھوٹی سسٹر کے سامنے تھا۔مین ابھی مریم سے اپنی امی ابو اور افراء باجی کے متعلق پوچھنے ہی والا تھا کہ ہمارے پیچھے سے بہت ھی تیز دھکے سے دروازہ پھر سے کھلا۔
            جاری ھے۔۔
            Vist My Thread View My Posts
            you will never a disappointed

            Comment


            • #16
              نیواپڈیٹ۔
              سخت اور تیز دھکے سے دروازہ کھولنے والی ڈاکٹر راحیلہ تھی۔
              اور اسکے ساتھ ذوہیب کی سالی یعنی برہ اور فرح کی چھوٹی بہن بانو تھی۔ جو ذوہیب کی خیر خریت دریافت کرنے راحیلہ کے پاس ہسپتال آئی تھی۔ڈاکٹر راحیلہ ہاسپٹیل سے فارغ ھو کر گھر کیلئے نکل رہی تھی۔وہ بانو کو بھی ساتھ لئے گھر پہنچ گئی۔
              پھر جیئسے ہی ذوہیب کو تلاش کرتے تیزی سے ڈاکٹر راحیلہ اپنے گیسٹ روم کے قریب پہنچی۔ کمرے مین سے سیکسی اور شہوت انگیز آتی ہوئی آوازون سے وہہ سمجھ گئی۔کہ روم کے اندر شہوت بازار اچھی طرح سے لگ اور سج چکا ھے۔ڈاکٹر راحیلہ چونکہ ابھی ذوہیب کے تگڑے اور مست لنڈ سے اکیلے تہنائی مین مذید مستفید ہونا چاہتی تھی۔اسلیےاس نے جلدی سےاپنے ذہن مین ایک پلان تشخیص کرتے ہویے تیزی سے روم کا دروازہ کھول دیا۔ کمرے کے اندر فرح اور ذوہیب بلکل ننگے آنکھین بند کیے فرنچ کسنگ کرنے مین مشغول تھے۔ اور مریم بھی ننگے ہو کر گھوڑی بنی ہوئی سامنے کھڑے آپنے بھائی ارشد کے لن سے منہ چدا رہی تھی۔ارشد مریم کے حلق تک اپنے لن کو اندر باہر کرتے ہؤیے ساتھ مریم کی گدارائی گانڈ پر ہاتھون سے تھپکیان سی لگا رہاتھا۔جیئسے وہ مریم کو اپنا لن جڑ تک منہ مین نگلنے پر حوصلہ بڑھا رھا ھو۔ڈاکٹر راحیلہ نے اپنے بنائے شیطانی منصوبے کے تحت کمرے کے اندر داخل ہوتے ھی بولی۔ذوہیب تم جلدی سے اپنے کپڑے پہن کر تیار ھو جاؤ۔مجھے آج اور ابھی تمھاری یاداشت واپس لانے کیلئے لیئزر اپریشن کرنا ھو گا۔کیونکہ مین کل صبح ایک سیمنار مین شرکت کیلئے انگلینڈ جارہی ھون۔
              ڈاکٹر راحیلہ کی بات سن کرسبھی خوش ھو گئے اور بہت تیزی کپڑے پہنتے ہوئے ڈاکٹر راحیلہ کے ساتھ ہسپتال جانے کیلئے تیار ھو گئی۔
              مگر راحیلہ ڈاکٹر نے یہ کہ کر کہ ذوہیب کے ساتھ صرف ایک ھی فرد میرے ساتھ جا سکتا ھے۔ انکی بے پناہ امیدون اور خوشیون پر جییسے پانی پھیر دیا۔
              کچھ دیر بعد ڈاکٹر راحیلہ ذوہیب اورفرح کو اپنے ساتھ لیکر ہسپتال چلی گئی۔
              اب پیچھے گھر مین ارشد اپنی بہن مریم اور اپنی معشوق بانو کیساتھ اکیلا تھا۔ارشد نہجانے کتنے برسون سے ان دونون کو ھی چودنے کا خواہش مند تھا۔ وہ اس حادثاتی اچانک ملنے والے اتفاق سے لمحون مین ھی شہوت اور جزبات کے سمندر سے مدہوش ہونے لگا۔
              مریم بانو سے زیادہ صحت مند بھی تھی اور اسکا رنگ بھی اس سے کافی گورا تھا اور اسکی گانڈ بھی کافی بڑی تھی مگر ارشد کوبانو کےبوبز اپنی بہن سے بڑے ہی لگے کیوں کہ وہ یہان سے مریم سے زیادہ صحت مندتھی شاید اِس لیے . پھر مریم نے ہمارا آپس مین تعارف کروایا اگرچہ ہَم پہلے بھی ایک دوسرے کو ملے ہوئے تھے مگر
              صرف دور دور سےدعا سلام تک کبھی ۔۔تفصیلی تعارف یہان ملاقات ہماری نہیں
              ہوئی تھی اِس لیے میری بہن
              نے ہمارا تعارف کروا دیا اور
              پِھر بانو نے ہم سے کہا کہ میں کچھ کھانے پینے کے لے کے آتی ہوں ہَم نے منع بھی کیا مگر وہ نہیں مانی اور کہنے لگی کہ ارشد جانو ھم نے کون سا روز روز اسطرح سے ملنا ھے۔ اِس لیے وہ ہمارے انکار کے باوجود اٹھ گئی اور پِھر ہماری لیے جوس چپس اورکولڈ ڈرنک۔۔۔وغیرہ ڈاکٹر راحیلہ کے کچن سےلے آئی اور ہَم کھانے لگے مگر نہجانے میں کیون تھوڑا سا نروس ہو رہا تھا۔جسے دیکھ کر بانو شرارت سےکہنے
              لگی کہ ارشد بھائی ریلکس
              ہو کےبیٹھیں مجھے بھی مریم کی طرح اپنی بہن ہی سمجھیں یہاں ھم کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی
              تو میں نے کہا کہ نہیں ایسی
              تو کوئی بات نہیں بانو ڈارلنگ میں بالکل ٹھیک ہوں مگر میں اندر۔۔۔سے پِھر بھی تھوڑا ڈرا ہوا تھا لیکن میری بہن مریم بالکل شاید اِس لیے مطمئن تھی.کہ وہ اسکی سہیلی اور کزن ڈاکٹر راحیلہ کا گھر تھا اور وہ تو مسلسل ادھر آتی جاتی رہتی تھی مگر میں گھر کےاندر چند سالون کے بعد
              آیا تھا.
              اِب میں نے مریم سے
              اپنی امی ابو اور افراء باجی کا پوچھا۔ تو مریم تھوڑیھافسردہ سی ھو کر کہنے لگی امی اور باجی افراء نعیم انکل کے گھر مین ھین۔
              اسکے بعد جب کافی دیر تک مریم کھچ نہین بولی۔تو میں نے دوبارہ اس سے پوچھا
              کہ ہمارے ابو کہاں ہے۔ تو وہ میری أنکھون مین انکھین ڈال کر کہنے۔۔۔لگی کہ وہ اشتہاری ہونے کے بعد اپنے کسی دوست
              کے پاس سندھ مین چلے گئے ھین
              میں نے پھرپوچھا کہ وہ کیون؟؟۔مریم نےبتایا کہ تمھارے اس دن گھر سے بھاگنے کے بعد نعیم انکل نےافراء آپی کی شادی اپنے چار سال کے چھوٹے سے بیٹے سے کر رکھی ھے۔ اور اس نے ہم سب کو وارنگ دے رکھی ہے کہ وہ ماکھے کھوکھر یہان تمھارے بھائی ارشد کے سامنے خود باجی افراء کی چوت کی سیل توڑ کر ہی ہم سے جواد کے قتل کا بدلہ لے گا ۔
              ارشد۔ مگر وہ اب رہتا کہاں ھے؟؟۔
              تو مریم کہنے لگی ارشد بھائی آپ اس کی فکر نا
              کریں وہ کچھ دن پہلے کسی دوسرے شہر مین اپنے کسی کام کے سلسلے مین گیا ہوا ہے۔ تو تب جا کر مجھے کچھ
              تسلی ہوئی۔اور پِھر میں نے نعیم انکل کےباقی گھر والوں کا پوچھا تو کہنے لگی کہ ہماری امی افراء اور اس کا أٹھ سال کا شوہر فہیم ھی اس کے گھر مین رہتے ھین ۔باقی لوگون کو نعیم انکل نے دبئی بجھوا رکھا ھے۔افراء باجی نے ایک اسکول ۔ گھر مین ہی بنا رکھا ھے اور وہ اس۔میں خود بھی ٹیچر ھیںن اسی وجہ سے وہ اس گھر مین کبھار اکیلی بھی ہوتی ھین. پِھر کچھ دیر تک ہم لوگون کے درمیان ادھر اُدھر کی نارمل باتیں ہوتی رہین۔
              مگر میں تو انکی چودائی کرنے کیلئے بہت بے تاب ہو رہا تھا
              تو مین نےاپنی بہن کو ھی اشارہ کیا کہ اِس سے پہلے کہ کوئی اور مسئلہ ہو جائے۔اب اپنا کام شروع کریں تو اس
              نے بانو سے کہا کہ پِھر اب تمہارا کیا پروگرام ھے ۔تو وہ ہنس کے بولی کہ جو آپ لوگوں کی مرضی ہو تم لوگ کر لو۔ مگر میری ایک شرط تو اپنے بھائی کو بتا دو تم؟؟۔
              مریم۔کک کونسی شرط ہے تمہاری؟؟۔ بانو۔تم دونون ابھی بھی میرے سامنے چدائی کرو گے اور پھر تم میرے بہنوئی ذوہیب سے اپنے بھائی ارشد کے سامنے پھدی بھی مرواؤ گئی۔ ۔
              تو میں نے مریم کے بولنے سے پہلے بانوسے کہا کہ ہاں مجھے
              تمھاری دونوں شرطیں ہی منظور ہیں۔
              تو بانو پھی فورأ شوخی اورھشرارت سے کہنے لگی کہ ارشد بھائی تھینکس۔۔
              تو میں نے اسے جواب مین کہا کہ بانو ڈارلنگ کوئی بات نہیں تم بھی تو ہمارا اتنا بڑا کام کر رہی ہو۔
              پِھر میں نے مریم سے پوچھا کہ کیا تم نے ہمارے اِپنے بارے میں بانو کو پہلے سے ھی بتایا ہوا ہے تو مریم کہنے لگی ۔
              کہ نہیں مین نے اس کمینی کو تو آج کےمتعلق کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔اسی لیے تو یہہ تمھین تنگ کر رھی ھے۔
              تو میں نے چونک کر کہا اوہ اچھا۔تو یہ بات ھے۔
              تو بانو مسکرا کر کہنے لگی۔جی بھیا بلکل یہی بات ھے۔
              مریم ۔ارشد بھائی۔ مجھے تو بانو نے بتایا تھا کہ اس کی تم سے فرینڈشپ۔ ھو گئی تھی لاہور مین۔پھر تم بانو کو چھوڑ کر اس کی بڑی شادی شدہ بہن فرح سے تعلق قائم ۔کرلیا ھے۔
              ارشد۔ ہاں بہنا میری آج بھی گرل فرینڈ یہی ھے فرح
              تو بس اچانک درمیان مین ٹپک پڑی ھے۔ مین اس کئی دفعہ کہ چکا ہون کہ مجھے بانو سے بہت پیار ھے اور مین بانو سے شادی کرنا چاہتا ہون۔اور وہ بھی مجھ سے ہر دفعہ چودائی کرواتے ہوئے کہتی ہے کہ جلد ہی ہماری شادی کروا دے گئی۔ مگر اب یہ بات بانو مانتی ھی نہیں۔
              یہ تو اب مجھے ملنے سے بھی ہردفعہ منع کر دیتی ھے؟ ۔
              مر یم ۔بھیا مین نے اِس بارے میں اس سے بات کرلی ھے۔ ذوہیپ بھائی کو تلاش کرنے اور انکے علاج کرنے کے بدلے مین۔۔؟
              میں نے اسے یہ بھی کہ دیا تھا کہ پِھر تم نے میرے بھائی سے بھی دوستی کرنی ھے تو پھر ہی مین تمہارا کام کرون گئی ۔۔
              تو یہ اب یہ مان گئی ھے .
              واؤ میری سویٹ بہنا کیا بات ہے تمھاری ۔ارشد. نے خوش ہو کر کہا۔ اور پھر بانو سے کہنے لگا
              بانو ڈارلنگ چلو اب تو تم مان گئی ہو نا تو مل کر انجوائے کرین۔
              تو مریم ہنس پڑ ی اور مجھ سے کہنے لگی کہ بہت کمینی ہے یہہ ابھی بھی اپنے مطلب کے لیے ہی مانی ہے اور میں بھی ہنس پڑا۔
              اِس طرح ہمارے درمیان ذرا
              فرینکنس بھی ہو گئی اور ۔پِھر بانو نے ھی کہا کہ چلو اپ پِھر تم شروع بھی کرو یہ نا ہو کہ ڈاکٹر راحیلہ پھر پہلے کی طرح واپس آ جائے۔اور ابھی صرف تم دونون ہی چدائی کرو گے مین تم لوگون بیٹھ کر دیکھون گئی
              تو میں نے مریم آپی سے کہا
              کہ مریم بہنا ہاں بانو یہہ بالکل ٹھیک کہ رہی ہے.
              بانو نے کہا کہ آپ لوگ شروع کریں میں یہ خالی برتن رکھ کر آتی ہون ابھی آتی ہوں۔۔۔اس کے بَعد وہ اٹھ کے چلی
              گئی اور میں نے مریم سے کہا
              کہ بہناچلو بھی شروع کریں تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی میں نے اسکو پکڑا اور کسسنگ شروع کر د ی اور خوب ُچوما چاٹا اسکی زبان چوسی اور اس کے ہونٹ بھی چوسے اور مجھے بہت مزہ آ رہا تھا ۔مگر ساتھ تھوڑی فکر بھی تھی کہ
              کسی کو پتا نا چل جائے مگر
              یہ سوچ اب ہمارا راستہ نہیں
              روک سکتی تھی۔ اِس لیے ہَم
              جی بھر کے کسسنگ کرتے
              رہے اور میری بہن بھی بہت
              جوش سے کسسنگ کر اور
              کروا رہی تھی اور پِھر کچھ
              5 منٹ کے بَعد میں نے اس
              کے سر سے ہاتھ اٹھایا اور ۔۔اسکی کمر پہ پھیرنے لگا
              اور پِھر اپنا ہاتھ اسکی گانڈ
              پہ لے گیا اور وہاں پھیرتا رہا
              اور اتنی دیر میں بانو واپس آتی ہوئی مجھے نظر آئی تو میں اپنی بہن کو چھوڑ کے پیچھے ہٹ گیا تو وہ مسکرائی اور شوخی سے بولی
              ارشد بھائی شرما کیوں
              رہے ہیں اب جاری رکھو تو میں
              نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے۔۔۔دوبارہ مریم کو پکڑ لیااوروہیں سے اسٹارٹ ہو گیا اورپھر کسسنگ کے ساتھ ہاتھ پھیرتا ہوا آگے اس کے بوبز پہ لے آیا اور ان کو دبانے لگا اور مجھے بہت مزہ آ رہا تھا اور اب میری
              جھجھک بھی تھوڑی ختم ھونا شروع ہو گئی تھی اور میں نے کن اکھیوں سے بانو۔۔کی طرف دیکھا تو وہ صوفے پر بیٹھی
              بڑے غور سےہماری طرف دیکھ رہی تھی اور جب اس نےمجھے اپنی طرف دیکھتے پایا تو ہلکا سا مسکرا دی اور میں نے تھوڑا جھجکتےشرماتے ہوئے آنکھیں
              پھیر لیں اور پِھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور پِھر میں نے اپنی بہن کی قمیض ۔کے اندر ہاتھ ڈالا اور اس کے مست ملائم بوبز دبانے لگا اور تھوڑی دیر بَعد جب خوب ساری کسسنگ کر کے کچھ میرےِدل کو تسلی ہوئی تو میں رکا
              اور اپنا ہاتھ بھی باہر نکالا
              اور اپنی بہن کی قمیض اُتار
              دی واؤ کیا مست نظارہ تھا
              یار اپنی سگی بہن کو ننگا دیکھنے کا جو اب پوری طرح سےجوان ہو ۔۔چکی تھی تو مین تو بہت بیقراری سے اس کے بوبز پہ ٹوٹ پڑا اور فورا
              ایک مما منہ میں لے لیا اور
              ُچوسنے لگا اور میری بہن بھی مست ہونے لگی مگر ابھی بھی شاید وہ اپنی سہیلی کی موجودگی کی وجہ سے اپنی
              آوازیں کنٹرول کر رہی تھی .
              کافی دیر میں اس کے بوبز باری باری چوستا رہا اور اسکی ننگی کمر پہ ہاتھ پھیرتا رہا اور پِھر میں نے اب اپنی شلوار بھی ہمت کر کے اُتار دی اور بانو کو دیکھا تو وہ بھی بڑے غور سے میرےلن کو دیکھ رہی تھی اور مجھے اپنی طرف متوجہ پا کے تھوڑی سی نظریں اس نے چرائیں مگر میرے پاس بھی
              زیادہ ٹائم نہیں تھا اِس لیے۔۔۔میں نے مریم بہن کو نیچے
              بٹھایا اور اپنالن اس کے منہ
              میں داخل کر دیا اور وہ میرے لن کو ُچوسنے لگی اور میں نے دیکھا کہ وہ بھی
              کبھی کبھی درمیان میں مریم
              کی طرف دیکھتی اور دونوں
              کی نظریں ملتی تو وہ دونون ہی مسکرا دیتیں ھین اور پِھر مجھے اپنا لن چوسوا کے بہت مزہ آیا اپنی ۔۔بہن سے اور پِھر خاص طور پہ اِس بات سے کہ میری بہن کی سہیلی بھی ساتھ بیٹھی یہ نظارہ دیکھ
              رہی تھی .
              ہَم دونون کافی دیر ایئسے ہی لگے رہے اور جب میری ہمت جواب دینے لگی اور میں نے محسوس کیا کہ میں چھوٹنے واال ہوں تو میں نے مریم کو روکا اور اسےپکڑ کے کھڑا کیا اور اسکی شلوار بھی اُتار دی ۔۔اور پِھر ادھر اُدھر دیکھا
              جہاں پہ مریم کو لیٹا سکون تو مین اسکو لے کے بیڈ پہ چلا گیا اور وہاں مریم بہن کولٹا دیا مگر بانو کہنے لگی
              کہ نیچے کوئی کپڑا بچھا لو تا کہ بیڈ شیٹ خراب نا ہو اس نے ہمیں وہین سے ایک پر انا کپڑا لا دیا۔
              اور بانو اور مریم نے مل کے
              وہ کپڑا بیڈ کے اُوپر بچھا دیا اور میں نے پِھر اس پر جلدی سے مریم کو لٹایا اور اپنی۔۔قمیض بھی اُتار دی اورپھر سے اپنی بہن کی پھدی کا دلنشین منظر دیکھنے لگا.
              وائو کیا مست نظارہ تھا۔کیا
              پھدی تھی میری بہن کی بالوں سے بالکل پاک جیسے اس نے اس پر سے بال آج یا کل ہی صاف کیے ہوں تو میں اس پہ ٹوٹ پڑا اور خوب ُچوما اور پِھر تھوڑی دیر کسسنگ کے بَعد اس کے پورے جسم کو ُچوما اور پِھر اسکی پھدی کی طرف آ گیا اور اسکی پھدی کو کس کیا اور پِھر چاٹنے لگا اور مریم بھی تھوڑی ہی دیر بَعد مکمل گرم ہو گئی اور لگتاتھا کہ شاید اب اسکی ہمت جواب دے گئی ہےاور اب اس سےآوازیں کنٹرول نہیں ہو رہی تھیں اور اس نے سیکسی آوازیں نکلنا شروع کر دی۔تھیں اور آہ آہ اوئی آہ ہاۓ آہ مم وغیرہ کر رہی تھی مگرمیں اسکی آوازوں کو نظر انداز کر کے مریم بہن کی پھدی چاٹنے میں مصروف رہا اور مجھے خوب مزہ آ رہا تھا ۔
              مجھے اپنی سگی بہن کی پھدی چاٹنے میں۔ اور اسکی سیکسی آوازیں مجھے اور بھڑکا رہی تھیں اور بانو بھی ہمیں ۔دیکھنے میں فل محو تھی اور مجھےپتا نہیں اس نے اپنے اپ پر کیسے کنٹرول کیا ہوا تھا۔بغیر کوئی حرکت کیئے کہ صرف ہمیں ھی دیکھے جا رہی تھی۔
              کافی دیر میں مریم کی پھدی
              چاٹتا رہا اور پِھر میں نے اپنالن تھوک لگا كے اپنی بہن کی پھدی کے سوراخ پہ رکھا اور تھوڑا سا زور لگایا تو لن چوت کے اندر چلا گیا اور آپی مریم کی۔ہلکی سی چیخ نکل گئی مگر وہ اسے برداشت کر گئی اور پِھر میں نے آہِستَہ آہِستَہ لن اندر ڈال دیا اور میرا پُورالن میری سگی بہن مریم کی پھدی میں پہلی دفعہ ہی چلا گیا. اور میرے بے قابو ہوتےجذبات کا آپ لوگ اندازہ نہیں کر سکتے یہ تو وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے کبھی اپنی سگی بہن کو چودا ہو ۔۔۔کیوںکہ کسی گرل فرینڈ کو اور اپنی سگی بہن کو چودنے میں زمین آْسمان کا فرق ہے . یہ فیلنگز ہی حیرت انگیز تھیں کہ میرالن اِس ٹائم میری سگی بہن کی
              پھدی میں ہے۔ اوراور واہ کیا
              بات تھی میری بہن کی پھدی
              کی اندر تو جیسے آگ کی بھٹی دہک رہی تھی اور۔۔۔۔میرےلن کو زور شور سے مسلسل بھینچ رہی تھی
              اور پِھر میں نے ہلکے ہلکے دھکے لگانے شروع کر دیے اور مریم بہن کو چودنے لگا۔
              میں اپنی بڑی بہن مریم کو فل مزے کے ساتھ بہت آہستہ آہستہ دھکوں کے ساتھ چود رہا تھا۔
              اور مجھے بہت شہوت ناک لزت انگیز مزہ آ رہا تھا
              اور اسکی سہیلی اور میری گرل فرینڈ بانو ہَم بہن بھائی کی چدائی کو مزے سے ۔دیکھ رہی تھی اور پِھر تھوڑی دیر بَعد وہ یعنی بانو اپنی جگہ سے اٹھی اور ہماری سائیڈ پہ بیڈ پر آ کے اس پذ بیٹھ کر دیکھنے لگی شاید اسکووہاں جہاں وہ پہلےبیٹھی ہوئی تھی
              صاف طرح سے نظر نہیں آ رہا تھا اِس لیے وہ پاس آ گئی تھی تا کہ وہ سب کچھ کلئیرلی دیکھ سکے اور اب وہ میرالن۔۔میری بہن کی پھدی میں جاتے آتے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور اسکو دیکھتے پا کے میرا جوش بھی دوبالا ہو رہا تھا اور میرےلن میں بھی جوش آ گیا تھا جسکی وجہ سے وہ اور
              تن گیا تھا اور پِھر تھوڑی
              دیر بَعد میں نے اپنالن باہر
              نکالا اور اپنی بہن کو ڈوگی۔اسٹائل میں ہونے کے لیے
              کہا اور جب وہ ڈوگی اسٹائل
              میں ہو گئی تو میں تو یہ
              نظارہ دیکھ کے اور بھی
              مست ہو گیا کیوں کہ اسکی
              گانڈ اور پھدی دونوں میرے
              سامنے تھیں اور میں نے مریم
              کی گانڈ پہ ہلکے ہلکے تھپڑ
              لگائے اور اسکی گانڈ ریڈ سرخ ہو گئی لیکن مجھے مریم نے مزید مارنے سے منع کر۔دیا کہ بھائی نا کرو بہت دردہو رہا ہے تو میں رک گیا اور پِھر میں نے آگے جھک کر اسکی گانڈ کو کس کیا اور پِھر اپنالن پیچھے سے اسکی پھدی میں ڈال دیا اور آہستہ آہستہ چودنے لگا اور میں نے اب جو بانو کی طرف دیکھا تو وہ ہماریطرف ہی دیکھ رہی تھی اور جب ہماری نظریں ملیں تو۔۔وہ بے اختیار۔۔مسکرادی اورمیں نےبھی اسکی طرف ایک مسکراہٹ اچھالی اور پِھر سے اپنی بہن کی طرف متوجہ ہو گیا اور کچھ دیر اسکو آہستہ آہستہ چودنے کے بَعد ہلکے ہلکے اپنی سپیڈ بڑھانے لگا اورپِھر میری بہن دوبارہ گرم ہو کے اور مست ہو کے مستی میں آوازیں نکالنے لگی اور۔۔۔پِھر تھوڑی دیر بَعد میں اپنا کنٹرول کھونے لگا اور اب۔
              مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا
              تو میں نے اپنی سپیڈ فل بڑھا
              دی اور پورے زور سے مریم
              بہن کو چودنے لگا اور میری
              تیز رفتاری کی وجہ سے بیڈ
              بھی ہلنے لگا اور میری بہن
              بھی مزے سے آوازیں نکالنے لگی آہ آہ اوئی مم آہ۔۔۔ہاۓ آہستہ چودوبھائی آہ مم
              آئی اور میں ان آوازوں کو
              سن کے اور جوش میں آ کے
              اسکو چودنے لگا اور آخر
              کار میرا جب چھوٹنے کا وقت
              بالکل قریب ہو گیا تو میں نے
              جلدی سے لن باہر نکالا اور
              اسکی گانڈ پہ ساری منی
              نکال دی اور ساتھ ہی مریم کے اوپر لیٹ گیا اور پِھر مریم بھی الٹی ہو کے پیٹ کے بل نیچے بی بیڈ پہ لیٹ گئی
              اور میں بھی اس پہ تھوڑی
              دیر لیٹا رہا اور بانو جا کے
              پہلی والی جگہ پہ بیٹھ گئی
              اور پِھر کچھ دیر بعد میں نے کپڑا اٹھا
              کے مریم کی گانڈ صاف کی اور پھر پانی وغیرہ پیا ہَم دونوں نے اور جو کہ اسکی سہیلی بانو نے ہی
              لا کے دیا تھا ہمین . پِھر کچھ دیر آرام کرنے کے بَعد میں نے۔۔مریم سے کہا کہ چلو ایک بار
              اور کرتے ہیں مگر وہ نہیں
              مانی اور کہا کہ بھائی مین کافی تھک گئی ہوں باقی اگلی دفعہ کر لینا اب تو ہمیں فل مزے مل جائین گے اور میر ی سہیلی بھی ساری زندگی ہر وقت ہماری مدد کرنے کو
              تیارہے تو میں بھی مان گیا
              مگر بانو کہنے لگی کہ آپ
              لوگوں کو اپنا وعدہ یاد ہے نا تو میں نے کہا کہ ہاں بالکل
              یاد ہے ڈونٹ وری تو وہ
              مسکرا دی اور کہنے لگی کہ
              پِھر کب میرے بھائی ذوہیب سے ملوا رہے ہو اپنی بہن کو میں نے کہا کہ جب کہو تو کہنے
              لگی کہ اچھا میرے بہنوئی کی ایک بار یاداشت واپس آنے دو پھر مین موقع دیکھ کے بتاؤں گی۔تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اور پِھر مریم اور مین نے ۔۔کپڑے پہنے اور تھوڑی دیر
              گپ شپ لگا کے وہان سے اپنے گھر آ گئے اور بانو وہین پر رک کر ڈاکٹر راحیلہ کا انتظار کرنے لگئ۔
              راستے میں میں نے اپنی بہن مریم سے پوچھا
              کہ مریم یار جب مین یہان سے گیا تھا۔اس وقت تم تو کنواری تھی اور تم نے مجھ سے وعدہ بھی کیا تھا کہ اپنی چوت کی سیل مجھ سے ہی کھلواؤ گئی۔ جب کہ اِب تمہیں جب میں نے چودا تو تم کنواری نہیں تھی اور نا ہی کوئی خون نکلا ھے۔ تو مریم بے اختیار ہنس پڑ ی .
              میں نے کہا کہ مریم باجی بتاؤ نا کیا میرے بَعد بھی تم نے کسی کے
              ساتھ ُچودائی کی ھے تو
              مریم کہنے لگی کہ ہاں بھیا جانی۔؟ .
              مین نےپوچھا کہ بہنا کس کے ساتھ ۔؟
              تو
              مریم کہنے لگی کہ ذوہیب کے ساتھ ہی انہوں نے ہی میری چوت کی سیل توڑی ھے۔
              تو مجھے بہت شاک لگا اور
              میں نے کہا کہ مریم ایئسا کب ہوا ھے اور مجھے تم نے وہان پہلے کیون نہین بتایا۔
              تو مریم کہنے۔۔لگی کہ تم تو یہان تھے ہی نہیں چند دن پہلے ذوہیب نے ایک ساتھ بانو اور میری چوت کی سیل توڑنے کے ساتھ جم کر ہماری چودائی کی ھے۔
              مریم باجی کی بات سنکر تو میں اپنے ہاتھ ملنے
              لگا کہ میں نے ادھر لاہور مین ذوہیب کی کزن اور سالی کو
              چودا وہاں تو۔ وہ ایک ساتھ میری
              بہن اور میری ہونے والی وائف دونوں کی کنواری چوتون کی سیلین کھولتے ہوئے انہین چود گیا۔ مین دل ہی دل مین سوچنے لگا سالا ذوہیب قسمت کا کتنا دھنی ہے یاداشت غائب ہونے کے باوجود مجھے مات دے گیا۔اور اسکی خوبصورت بیوی برہ نے بھی مجھے خود کو ٹچ نہین کرنے دیا۔
              مگر اب کیا ہو سکتا تھا اب تو جو ھونا
              تھا ہو چکا تھا اب تو مریم کی
              سیل دوبارہ واپس نہیں آ۔سکتی تھی اِس لیے پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا اور میں ِدل کی حسرتیں ِدل میں ہی دبا کے رہ گیا اور آج کی پے پناہ خوبصورت یادوں کو ہی تازہ کر کے مزے لینے لگا اور سوچنے لگا کہ یار کتنا مزہ ہے اپنی ہی بہن کوچودنے میں .
              پھر مین نے اپنی مریم بہن کا شکریہ ادا کیا اور اسکو اسکی پسند کا ایک۔سوٹ گفٹ کرئے کے طور پہ لے کے دیا تا کہ وہ آیندہ بھی مجھ سے چودواتی رہے اور تاکید کی کہ کسی سے بھی ُچدوائو تو مجھے ضرور بتانا مجھ سے اب چوری مت کرنا میں کچھ نہیں کہوں گا تو مریم میری بات مان گئی۔
              بلآخر چند گھنٹے جب گزر گئے تو بانو کی مجھے کال آ گئی اور وہ مجھ سے کہنے لگئی ذوہیب بھائی کو ہوش آ گیا ھے اور وہ اس وقت ڈاکٹر راحیلہ کے گھر پر میرے ساتھ اکیلے ھین۔
              اگر مجھ سے شادی کرنی ہے تو تم اپنے وعدے کے مطابق اپنی بہن کو خود لے کے یہان چلے آؤ۔
              مین مریم آپی کو اچھی طرح سے تیار کر کےذوہیب سے
              ملوانے چل پڑا ۔ایک بار پھر سے ڈاکٹر راحیلہ کے گھر کی طرف اور تھوڑی دیر بَعد ہی ہَم دونون بہن بھائی وہاں پہنچ گئے اور اسی لڑکے
              نے یعنی کہ بانو کے کے بہنوئی۔ذوہیب۔۔ نے ھی دروازہ
              کھولا اور ہمیں باہر دیکھ کے
              ایک خوبصرت سمائل دی اور پِھر تھوڑا سائڈ میں ہو کے اندر آنے کا راسته دیا اور ہَم دونوں بہن بھائی اندر آ گئے اور وہ
              ہمیں ایک روم میں لے گیا
              اور وہاں بٹھایا اور اتنی دیر
              میں اس کے پیچھے بانو بھی وہاں پہنچ گئی اور پِھر بانو کے ساتھ۔۔ھیلو ہائے ہوئی اور. ذوہیب
              سے بھی خوب تعارف ہوا اور ہم نےایک دوسرے کی خیریت وغیرہ دریافت کی اور پِھر باتیں وغیرہ کرنے لگے ۔
              . مجھے آج بانو مریم اور ذوہیب بہت خوش
              دکھائی دیے تھے لگتا تھا کہ
              ان سب کی آج ِدلی مرادبھر آئی
              ہے اور سبھی کے چہرون کی
              چمک دیکھنے والی تھی لگتا ؟؟۔
              ۔جارہی ھے۔
              دوستو اور ساتھیو۔
              اب ذوہیب کی یاداشت واپس آ ہی گئی ھے تو آنے والی سٹوری کی اپڈیٹ ذوہیب کی ھی زبانی آئے گئی۔ ۔۔
              ۔آپریشن تھیڑ۔
              ڈاکٹر راحیلہ نے ذوہیب کا لیئزر آپریشن کرنے کے بعد ہوش و ہواس سے بیگانے ذوہیب کے تگڑے لن کو آخری دفعہ اپنی چوت کی سیر کروانے کیلئے اس سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔
              اورادھراچانک سے میرے ماؤف ہوئے دماغ مین کچھ سرسراتی لہرین سی دوڑنے لگئین۔
              اندھیرے کے جمے پردےآہستہ أہستہ دماغ اور ذہن کے دریچون سےبکھرتے ہوئے تحلیل ہونے لگ پڑے۔
              اور پھر کچھ ہی لمحون کے بعد مین نے أنکھین کھولین تو سامنے نظر والے منظر سے حیران ذدہ ھو گیا۔ مجھے یاد آیا ۔مین تو شیخوپورہ سے لاہور جا رہا تھا۔پھر غنڈون سے بچتے ہوئے سیدھا نہر مین جا گرا۔ ؟؟
              مین بس چند پل یہان چند گھڑیان ہی پرانی یادون مین کھویا تھا۔کہ راحیلہ کے پر شباب بدن دلفریب رعنایون اور گداز ہاتھون کی میٹھی چھیڑ چھاڑ نے مجھے واپس پھر وہان حاضر ہونے پر مجبور کردیا۔
              راحیلہ نے اپنے ہاتھوں میں میرے کھڑے لن کو زور سے بھینچ لیا تھا۔
              اور کپڑے سمیعت ہی تھوری دیر تک لن کی ٹوپی کو لبون کے اندر باہر کرنے لگی ۔ڈاکٹرراحیلہ کی شہوت بھری تیز گرم سانسوں کی آواز سارے آپریشن تھیٹر میں گونج رہی تھی،۔
              پھر کچھ دیر بعد مین اُٹھا اور ہسپتال کا سفید پاجامہ اُتارا اور راحیلہ کو اسٹریچر کے ساتھ قالین پر الٹا لٹاتے ہوئے اس کے اُوپر آگیا ۔
              مین نے اپنے ہاتھوں سے راحیلہ کے دونون اطراف میں سے جھانکتے بڑے اور بھاری ممون کو پکڑا اور ساتھ اپنا لن بلکل ننگی راحیلہ کی چمکتی گانڈکی گہری کھائی کے اُوپر سےدرمیان مین رکھ دیا ۔
              پھر مین ایسے ہی بغیر کوئی حرکت کیے راحیلہ کے گداز بدن پر لیٹ گیا اور آہستہ ہلکےسےہلنے لگا
              کچھ دیر تک اسی طرح مستی بھری حرکت کرنے کے بعد مین نے اسکےدائین ممے کو چھوڑ کر اس ہاتھ سے راحیلہ کی گردن سے بالوں کو ہٹایا اور جھکتے ہوئے اُس کی صراحی دار گردن پر چومنے لگا۔
              راحیلہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اُٹھا کر پیچھے سے اُوپر کیا اور میری کمر کو زور سےتھام لیا ۔ اچانک اس نے زور زور سے گہری سانسیں بھی لینا شروع کر دیا۔
              اُس کے فراغت کے آخری لمحات تھے اسلئے وہ اپنے ہاتھوں سے مجھ کو مظبوطی سے جکڑ رہی تھی۔ اُس کے منہ سے اُونچی آواز میں سسکاریاں نکلنے لگیں وہ تیز جھٹکون سے چھوٹ رہی تھی
              ڈاکٹر راحیلہ میرے نیچیے ایسے تڑپنے لگی جیسے کوئی مچھلی پانی کے باہر تڑپتی ہے پھر کچھ دیر کےبعد وہ رُک گئی اُس کی سانسیں اب بھی تیز تھیں۔
              مین اُس کے اُوپر سے اب ایک طرف سائیڈ پر ھو گیا۔ وہ کچھ دیر تک ایسے ہی پڑی رہی پھر جب تھوڑی سانس بحال ہوئی تو اُس نے اپنے چہرے کا رُخ بدل کر میری طرف کیا اور اپنے ہونٹ میرے ہو نٹوں پر رکھ دئیے۔
              ایک گہری لمبی ڈیپ کس کرنے کے بعد راحیلہ نے اپنے ہونٹ ہٹائے اور بولی۔ ذوہیب جانو تم نے لن کو اندر کیوں نہیں ڈالا۔
              ذوہیب۔ راحیلہ سے بولا۔ میری جان بغیر کوئی جان پہچان کے مین یکدم اچانک اندر کیئسے ڈال دیتا۔
              پہلے تم مجھے ساری صورت حال بتاؤ۔کہ
              تم کون ہو؟ ۔
              مین تمھارے پاس ادھر کیئسے آیا ھون۔پھر اسکے بعد ھی مین پوری تسلی سے تمھاری چدائی کرون گا۔
              ڈاکڑ راحیلہ نے ذوہیب کے خاموش ہوتے ہی جلدی سے مگر مختصر سے انداز سے اسے سارے حالات بتا ڈالے۔اور پھر ذوہیب سے کہنے لگی۔
              راحیلہ بولی ۔ذوہیب شائید یہ آخری چودائی ھو ہماری اس لئے۔ تم نے ابھی میرے اندر تو نہیں ڈالا لیکن مجھے بہت مزا دیا ھے۔
              اب شکریہ کے طور پر۔
              پھر راحیلہ کچھ دیر رُک کر بولی
              اب میری باری ھے ۔
              اب میں تم کو کچھ نیا ھی مزا دوں گی۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور ذوہیب کے اُوپر آکر رانوں پر بیٹھ گئی۔ اُس نے میرے لن کو جو ابھی بھی فل تن کر اکڑا ہوا تھا ہاتھ میں لیا اور اپنی چوت اُس پر رکھ کر لن کو چوت کے اندر لے لیا ۔
              پھر واقعی جیسے ڈاکٹر راحیلہ نے گانڈ گھما گھما کر اور جس جس انداز سے اُوپر نیچے ہو کر مجھ کو مزا دیا ۔
              اس اندازسے میری زندگی میں کبھی پہلے سیکس کا اتنا کسی اور نےمزا نہیں دیا تھا۔
              ڈاکٹر راحیلہ نے لن پر اُس ترنگ میں سواری کرتے کرتے اچانک سے کچھ یاد آنے پر ذوہیب کے لن سے اٹھ کر راحیلہ اپریشن تھیڑ کے ویٹنگ روم والی سائیڈ کے مین ڈور کے پاس چلی آئی۔
              اور ذوہیب بھی فورأ اسکے ساتھ ہی اٹھ کر جھومتے لن کے ساتھ چلتے ہوئے ڈاکٹر راحیلہ کے پیچھے پیچھے ادھر آگیا تھا ۔
              راحیلہ درازے مین سے بنے ایک چھوٹے سے سوراخ سےباہر کی طرف جھانکنے لگی۔
              اور ساتھ لوہے کے ہینڈلون پر اپنے ہاتھ رکھ کر تھوڑی جھکی کھڑی تھی۔
              ذوہیب نے اُس کو پیچھے سے دیکھا ۔ اسکی بھاری بھر کم گانڈ جو کے بہت ٹائیٹ تھی ۔وہ گدرائی گانڈ جھکنے سے بہت واضع نطر آ رہی تھی اور اُبھر کر تھوڑا مذید باہر کو نکلی ہوئی تھی ۔
              اُس کی گانڈ کے سوراخ کے ساتھ چوت بھی جیئسےچپکی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔
              ذوہیب سے بلکل بھی رہا نہیں گیا اُس نے راحیلہ کو پیچھے سے جاکر اپنے ساتھ لگا لیا ساتھ اُس نے اپنے بازو اس کے گرد لپیٹا دیئے اور اُس کی پشت سے خود بھی چپک گیا۔
              پھر راحیلہ سے بولا۔ ڈاکٹر صاحبہ آپ کے سامنے لڑکیاں کیا چیز ہیں دل تو میرا بھی نہیں کر رہا آپ کو چھوڑنے کا لیکن شائید اپ کی ھی کوئی مجبوری ہے۔ جو ہمارے اس سیکس کو آخری چودائی کہ رہی ھو تو پھر مین ھی اپنے
              دل کو سمجھا لیتا ہوں۔
              راحیلہ نے اپنے ممون پر رکھے اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور بولی۔
              خیر ہے ذوہیب تم تو اب دو دو بیویان رکھنے کے باوجود بھی میرے ساتھ بہت رومنٹک اور اتاؤلے ہو رہے ہو۔
              أہ ڈاکٹر اب کیا بتاو۔؟آپ بہت خوبصورت اور قیامت خیز بدن رکھتی ہو قسم سے۔ ذوہیب نے آہستہ آواز میں کہا۔
              ارے تم کو کیسے پتا تم نے تو ابھی میرا مکمل حسن دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ابھی۔ ڈاکٹر راحیلہ نے بھی ذوہیب کو مسکراتے ہوئے بولا۔
              ذوہیب اُس کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا لیکن اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتا دروازے پر دستک ہوئی ۔ ذوہیب نے راحیلہ کو چھوڑا اور واپس جا کر اسٹریچر پر بیٹھ گیا۔
              ڈاکڑر احیلہ نےدروازہ مین سے اپنے چہرے کے سامنے سےچھوٹا سا بلیک شیشہ نما خانہ نیچے کو کھولا۔اور باہر کو دیکھنے لگی۔دروازے کے سامنے ہاسپیٹل کے وینٹگ روم سروس فیمیل سٹاف کے ساتھ ذوہیب کی سالی فرح وہان پر کھڑی تھی۔
              ڈاکٹر راحیلہ نے اپریشن مین اچانک چند ٹیکنلی پوانٹس( جھوٹ موٹ سے) بننے کا بتانے کیساتھ دوبارہ انہین ڈسٹرب نہ کرنے کی تاکید کر کے پہلے کی طرح شیشہ کو بند کرکے لاک کرتے ہوئے ذوہیب کے پاس آ گئی۔
              ذوہیب نے راحیلہ کو اپنے پاس بیٹھایا اور پھر اُس کے ہونٹون پر چوما اور بولا آپ سے زیادہ خوبصورت اور سیکسی بدن واقعی مین نے پہلے نہیں دیکھا ہے۔ بلکہ اس دنیا میں آپ سے زیادہ خوبصورت کوئی اور عورت یا لڑکی ھو ھی نہیں سکتی ہے۔
              راحیلہ نے بھی اُس کے لہجے میں سنجیدگی محسوس کی تھی کہ وہ دل کی گہرائون سے بول رہا ھے۔
              راحیلہ ذوہیب کی بات سےبہت خوش ہو گئی عورت کو ویسے بھی تعریف ہمشہ ہی اچھی لگتی ہے چاہے وہ جھوٹی ہو یا سچی۔ وہ اُس کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے مصنوعی غصہ سے بولی اب مکھن مت لگاو مجھے۔
              ذوہیب نے اُس کو اور بھی قریب کیا اور پھر اُس کو تھوڑا اوپراُٹھایا اور اپنی گود میں بیٹھا لیا راحیلہ کی نرم نرم ننگی گانڈ اپنی گود میں اُس کو بہت اچھی لگی۔
              اُس نے راحیلہ کے پیروں کو بھی فرش سے اُٹھا کر اسٹریچر پر اپنے ساتھ رکھا اور پھر راحیلہ کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔
              ڈاکٹر راحیلہ نے بھی اپنے بازو اُس کے کندھوں کے گرد لپیٹ دئیے۔ ذوہیب بولا۔ جانو مین مکھن تو نہیں لگا رہا سچ بولا رہا ہوں ۔
              تمھارے اس گدرائے بدن کی قسم۔
              راحیلہ نے اُس کے سینے پر سر رکھ لیا اور بولی یہ تم مجھے اتنی عزت سے کیوں بلاتے ہو اب۔
              میرا نام لو نا جانو میں اس وقت تمھارے ساتھ ننگی تمہاری بیوی جیسی ہوں۔بلکہ اک رکھیل یہان بدن کی شہوت سے چور خوبصورت گشتی۔
              ذوہیب نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا میرا اس طرح نام لینا کیا تم کو اچھا لگے گا۔
              ڈاکٹرراحیلہ بولی ۔ ہاں جانو مجھے بہت ھی اچھا لگے گا اگر تم میرا نام لو گے تو۔
              ذوہیب اب لن کے ہاتھوون شہوت سے چور ہوتے ہوئے لڑکھڑاتی آواز میں بولا اچھا جانو جی ۔
              یہ تماری آواز کو اچانک سے کیا ہوا۔
              راحیلہ نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا. وہ تمہاری گانڈ کے نیچے دبے لنڈ نے مجھے تنگ کر رکھا ھے ذوہیب کی لفظ لن بولتے ہوئے زبان پھر سے لڑکھڑا گئی۔
              جس سے راحیلہ چلا اُٹھی تم نے پھر مجھے بتایا کیون نہین پہلے ۔
              ذوہیب کو سچ میں بہت راحیلہ کے بھاری بدن کے نیچے دبے اکڑے لن سے مشکل پیش آرہی تھی۔
              ذوہیب جلدی سے بولا ۔ سوری بابا اب بتا تو دیا ھے نا تم کوئی جلدی کوشش کرو نا ۔ پھر بولنے کے ساتھ ساتھ ہی ذوہیب نے مزید برداشت نہ کرتے ہوئے۔ اپنا ایک ہاتھ راحیلہ کی ٹانگوں کے نیچے سے ڈالا اور ایک ہاتھ اُس کی کمر کے گرد اور اُس کو اُٹھا کر اسٹریچر سے بیڈ پر لے آیا۔
              اُس نے جیئسے ہی راحیلہ کو بیڈ پر لیٹایا۔اور اس سےبولا اگر تم کہو تو ابھی مین اپنے انداز سے تمھاری چودائی کروں کیا اب۔
              اُس نے جس طرح راحیلہ سے پوچھا تھا۔ڈاکٹر راحیلہ کو شرم تو بہت آئی لیکن ساتھ اُس کی ہنسی بھی چھوٹ گئی ۔
              ذوہیب اس سے ایسے پوچھ رہا تھا جیسے کلاس مین کوئی ٹیچیر سے واش روم جانے کا پوچھ رہا ہو۔
              ذوہیب بھی شرارت سے مسکراتا ہوا اُس کے پاس لیٹ گیا۔پھر اُس کو اپنی بانہوں میں لیتا ہوا بولا۔ ڈاکٹر پھر تم نے مجھےاجازت نہیں دی خود کو چودنے کی۔
              راحیلہ اُس کے ساتھ لپٹتے ہوئے بولی۔ابھی کس بات کی اجازت چاہیے تم کو۔
              ذوہیب بولا سیکس کرنا چاہتا ہوں تمارے ساتھ۔ راحیلہ نے بھی مزا لیتے ہوئے مکاری سے بولا۔ وہ کیا ہوتا ہے۔
              ذوہیب بولا جب مین کرو گا تو تمھین اچھی طرح سے پتہ چل جائے گا ۔
              ڈاکٹر راحیلہ بولی۔ تم پچھلے دو دن سے لگا تار مجھ سے چودائی کر رہے ھو تھکے نہیں ھو ابھی تک۔نہجانےکتنی بار تو تم نے کیا تھا ۔
              ذوہیب مرد کبھی تھکتا نہیں جانے من چودائی کرنے سے۔
              راحیلہ ہنس پڑی اُس کو ذوہیب کی بیقراری سے کہنے پر۔
              سن کر ہنسی آگئی تھی پھر وہ بولی ابھی مجھ سےچودائی کر لو گے تو اپنی دونون بیویون کے پاس جا کر کیا کرو گے۔
              ذوہیب بولا مین ان کو بھی کر لون گا میرا بس چلے تو میں چوبیس گھنٹے جو بھی خوبصورت لڑکی مجھے دیکھائی دے مین اس کے ساتھ چودائی کرتا رہوں
              راحیلہ بولی مرنے کا ارادہ ہے کیا تمہارا۔
              ذوہیب بولا جانو مجھےپتہ ہے سیکس کرنے سے مین بلکل مروں گا نہیں ۔
              راحیلہ اپنی ننگی ٹانگ کو اُس کی ٹانگوں پر رکھ کر بولی۔ تو جان جی پھر میری اجازت کی کیا ضررورت ہے تم کو میں تو پہلے ہی تمھین کہ چکی ہون کہ آج کی میری چودائی یادگار بنا دو بس۔
              مین اپنے بدن کی ہر چیز تمارے نام کر چکی ہوں۔ تم جب چاہے جیئسے چاہے انہین استمعال کرو اب۔
              ذوہیب نے اپنا ہاتھ اُس کی کمر پر رکھ دیا اور اُس کے جسم پر پھیرنے لگا اور اپنے ہونٹ اُس نے راحیلہ کے ہونٹوں پر رکھ دئیے۔ وہ آج راحیلہ کے خوبصورت بدن کا ایک ایک انچ کا حصہ دیکھنا چومنا اور چوسنے کے ساتھ زور سے رگڑتے ہویے مسلنا چاہتا تھا۔
              اپریشن روم مین دن ہونے کے باوجود باہر کی روشنی کے آنےکا کوئی چکر نہین تھا مگر جو کمرے میں اندر کی لائیٹین جل رہی تھین اس سے پورا کمرا بہت روشن ھو رہا تھا وہ اُسی کا فائدہ تو اُٹھانا چاہتا تھا۔
              ذوہیب نے اپنے دل مین سوچ لیا تھا کے آج ہسپتال مین ڈاکٹر راحیلہ کی چودائی کو دھوان دھار طریقے سے ہی کرنا ھے۔۔ ذوہیب کافی دیر تک باتوں کے ذریعے راحیلہ کو پھر گرم کر چکا تھا ۔وہ اب بلکل چدنے کیلیے تیار تھی۔
              ذوہیب نے اپنا ہاتھ اس کی چوت پر رکھا تو چوت والی جگہ اب ارد گرد سے بھی کافی گیلی تھی۔
              ذوہیب اُس کی چوت کے لبون کو اُوپر سے ہی مسلنے لگا۔راحیلہ ذوہیب کی زبان کو پتلے ہونٹون میں لے کر چوس رہی تھی ۔
              راحیلہ نے ساتھ اپنا ایک ہاتھ اس کے لن پر رکھ دیا اس نے ذوہیب کے لن کو پکڑا اور ہاتھ میں لے کر دبانے لگی۔
              ذوہیب لذت کی وجعہ سے راحیلہ کے ساتھ لپیٹ گیا اور اب راحیلہ اپنا ایک ہاتھ ذوہیب کئ ننگی کمر پر بھی پھیرنے لگی
              اور ذوہیب اُس کے ہونٹوں کو چومنے لگا اور اپنا ہاتھ واپس اُس کی چوت پر رکھ دیا۔ پھر کچھ دیربعد ذوہیب نے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں سے الگ کیے اور بولا۔ میرے جان اب تم بیڈ پرسیدھا ہو کر لیٹ جاو۔ ذوہیب نے ا ب جا کر اسکا روشنی میں چمکتا ھوا ننگا بدن دیکھا ۔
              راحیلہ کا نرم ملائم گورا پیٹ اور بازو اُس کے بڑے بڑے تھرکتے ممے گویا اُس کے بدن سے جییسے اچھل کر باہر کو نکل رہے ھون۔
              ذوہیب نے اُس کے پیٹ پر اپنی زبان رکھ دی اور راحیلہ نے اپنا ہاتھ اُس کے سر پر رکھ دیا ۔
              ذوہیب راحیلہ کی ناف کے سوراخ جو کے بہت بڑا اور کھلا تھا اُس کے گرد اپنی زبان پھیرنے لگا اور اپنے ہاتھ سے ساتھ اسکی ٹانگوں کو کھولا اور اپنی انگلیوں کو اُس کی چوت اور گانڈ پر لیجاکر پھیرنے لگا۔
              کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عورت کو چوت سے زیادہ گانڈ کو چھونا اچھا لگتا ہے اس لیے وہ چوت سے زیادہ اپنی انگلیوں کو اُس کی گانڈ کے سوراخ پر پھیر رہا تھا۔
              راحیلہ کی سانسوں کی رفتار بڑھنے لگی تھی وہ اُس کے پیٹ پر زبان پھیرتا ہوا اُوپر کی طرف آنے لگا ۔
              اُس نے اُس کے مموں کے اُوپر والے اکٹرے نیپل کو چومنا شروع کر دیا۔ پھر ذوہیب نے اُس کے دونون مموں کو ہاتھون مین جکڑ کر مسلنے لگا ۔وہ راحیلہ کے بڑے بڑے مموں کودیکھ کر بہت خوش ہو گیا اُس نے جیسا سوچا تھا اُس سے بھی زیادہ راحیلہ کےخوبصورت ممے نرم و ملائم تھے ۔۔
              وہ سائز میں کیونکہ بہت بڑے تھے اس لئے اُن کے نپل بھی کافی بڑے تھے ۔
              گلاپی پنکش کلر کے نپل بہت ہی کوبصورت تھے ۔
              ذوہیب نے اپنا منہ راحیلہ کے ایک ممے پر جھکا دیا ۔اوراُس کا ایک ہاتھ مسلسل اس کی چوت اور گانڈ پر ھی تھا ۔
              اُس نے دوسرا ہاتھ ایک ممے پر رکھ دیا۔ وہ راحیلہ کے ممے کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا ۔
              ذاکٹر راحیلہ کے ہاتھ اُس کے سر کو مظبوطی سے تھامے ہوئے تھے اور اُس کی چوت مسلسل پانی بہا رہی تھی ذوہیب اپنی انگلیوں پر بڑھتے گیلے پن کو محسوس کر رہا تھا ۔ ذوہیب کافی دیر تک اُس کے مموں کو چوستا رہا کبھی وہ ایک ممے کو منہ میں کر چوسنے لگتا کبھی اسکو چھوڑ کر دوسرے کو۔
              پھر کافی دیر بعد راحیلہ کی ھی ہمت جواب دے گئی اور وہ بیقراری سے بول اُٹھی ذوہیب جلدی کرو پلیز اس نے اُس کے ممے سے منہ اُٹھایا اور اُس کے ہونٹوں کو چوما پھر وہ نیچے کی طرف آیا۔
              راحیلہ کا پورا جسم بہت ہی گورا تھا لیکن اُس کی ابھری چوت کے ہونٹ براون اور بہت ہی پتلے تھے لیکن اندر کا گلابی پن اُس کی چوت کے براؤن ہونٹوں سے نظر آ رہا تھا ۔
              راحیلہ کی چوت کے تھوڑا ہی نیچے اُس کی گانڈ کا سوراخ تھا وہ بھی کافی بڑا تھا ۔ اس کی چوت کے اُوپر اُس کا دانہ بہت بڑا تھا۔
              اوہ اوف راحیلہ کی چوت کے ہونٹوں میں سے دونوں اطراف کافی بڑی بڑی گوشت کی پتلی سی دیواریں تھی ۔
              ذوہیب نے اُس کے چوت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اُس کو مسلنے لگا اُس کے دانے کو انگھوٹے کی مدد سے مسل رہا تھا اور اپنی ہتھیلی کو اُس کی چوت کے منہ پر پھسل رہا تھا۔ پھر ذوہیب نے راحیلہ کو اُلٹا ہونے کا اشارہ کیا۔ وہ فورأ ھی اُلٹی ہو گئی۔
              ذوہیب نے اپنے ہونٹ اگے جھکتے ہوئے اُس کی گانڈ پر رکھ دئیے جیسے ہی اس نے اپنئ زبان کو راحیلہ کی گانڈ کی لکیر کے اندر ڈالا ۔اس کا جسم ایک دم اکڑا اور راحیلہ کے منہ سے شہوت بھری سسکاری نکل گئی
              اُس نے اپنے ہاتھوں میں بیڈ کی چادر کر جکڑ لیا ۔
              ذوہیب اُس کی گانڈ کی لکیر میں اپنی زبان کافی دیر تک چلاتا رہا ۔ پھر اُس نے اپنا منہ ہٹایا اور راحیلہ کو سیدھا ہونے کے لیے بولا وہ پھر تیزی سے سیدھی ہو کر لیٹ گئی راحیلہ اب جیئسے ہی ذوہیب کے پھنکارتے ہویے لنڈ کو دیکھا اسے ایئسا لگا کہ جیئسے وہ پہلی بار اُس کے لن دیکھ رہی ھو۔کیونکہ وہ سے پہلے سے بھی کافی بڑا لگ رہا تھا ۔
              اور ساتھ موٹا بھی تھا راحیلہ اُس کے لن کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی
              جب ذوہیب کی نظر راحیلہ پر پڑی ۔ وہ بےاختیار اسکے پیٹ کے اُوپر ایا اور راحیلہ کے پیٹ پر بیٹھ گیا۔
              اُس کا لن اب راحیلہ کے مموں کے اُوپر تھا اُس نے راحیلہ کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا ۔
              راحیلہ نے ذوہیب کے لن کو پکڑ کر ہاتھ میں لے کر ہلانے لگی ۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنا لن اُس کے ہاتھ سے نکالا اور واپس نیچے آگیا۔
              پھر اُس نے راحیلہ کی ٹانگوں کو اُٹھایا اور اپنے کندھوں پر رکھا اور اُس کے اُوپر جھک کرلیٹ گیا پھر ہاتھ نیچے لے جاکر اُس نے اپنا لن راحیلہ کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور ایک زور دار قسم کا دھکا مارا لن مکمل اندر اُترتا چلا گیا۔
              ڈاکٹر راحیلہ کے منہ سے آہ کی چیخ نکل گئی ۔
              راحیلہ کے گھٹنے اُس کے سینے سے لگ رہے تھے اور اُوپر ذوہیب لیٹا تھا راحیلہ کے ہاتھ اس کی کمر پر تھے۔اب ذوہیب زور زور سے لن کو گانڈ کےاندر باہر کرنے لگا۔
              راحیلہ کی منہ سے آہ آہ آو ہون ۔ جیسی آوازیں آرہی تھی۔ ذوہیب کو ابھی اندر باہر کرتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کے راحیلہ کی حالت نے اُس کو بتا دیا کے وہ چھوٹنے والی ہے ۔ذوہیب نے اُس کی ٹانگوں کو چھوڑا اور پیچھے ہٹ کراُس کے ساتھ لیٹ کرچپک گیا اور لن کو اندر باہر کرنے لگا ۔
              راحیلہ نے اپنے ٹانگوں کو اُس کی کمر کے گرد لپیٹا لیا اور اب ٹانگوں کی مدد سے وہ بھی ذوہیب کا ہر دھکے پر نیچے سے اُپر کو اُٹھتی تھی ۔
              پھر اُس نے ذوہیب کے بالوں کو مظبوطی سے پکڑا اور اپنے لبون کو ذوہیب کے ہونٹون میں گاڑ دیا۔
              ساتھ ہی اُس کے منہ سے ایک لمبی لیکن ہلکی آواز میں آہ نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں راحیلہ واپس نارمل ہو گئی تھی۔
              ذوہیب اُس کے اُوپر سے اُٹھا اور بولا۔راحیلہ جانو تم اب گھوڑی بن جاو میں پیچھے سے کروں گا۔
              تو راحیلہ اُٹھی اور اپنے گھٹنوں پر بیڈ پر گھوڑی بن گئی۔اسکے پیچھے ذوہیب کھڑا ہو گیا اپنے پیروں پر وہ اس کے پیچھے آیا اور اُس نے اپنے ہاتھ راحیلہ کے کندھوں پر رکھے اور پیروں پر کھڑے کھڑے ہی وہ تھوڑا سا جھکا اور اپنا لن دوبارہ سےاُس نے اب گانڈ کے سوراخ پر فٹ کیا اور اندر ڈال دیا ۔
              اب وہ راحیلہ کے کندھوں کو پکڑ کر اپنے پاوں پر کھڑا لن گانڈ مین ڈالے اُس کے اندر باہر کر رہا تھا۔
              پیچھے سے اُس کا لن اندر باہر ہوتا صاف نظر آ رہا تھا ۔ ذوہیب مسلسل اپنی پوری ظاقت سے لن کو گانڈ کے اندر کی طرف جڑون تک گھسا رہا تھا ۔وہ پورا لن باہر نکالتا اور پھر زور سے اندر ڈالتا تھا۔
              راحیلہ اُس کے ہر جٹھکے پر چلا رہی تھی لیکن آواز بلکل مدھم ہی تھی۔کہ اس اپریشن روم سے باہر بھی نہ جا سکے۔کچھ بیس منٹ کی چودائی کی دیر میں راحیلہ کی گانڈ ذوہیب کے لن کو پھرسے جکڑنے لگی اور اس کی آوازوں سے ذوہیب کو سمجھ آ گئی کے وہ پھر سے چھوٹنے والی ہے۔
              لیکن اس بار بھی ذوہیب ہمیشہ کی طرح اپنی منزل سے ابھی دور ہی تھا۔
              وہ پھر بھی زور زور سے جٹھکے مارتا رہا پھر تھوڑی دیر بعد راحیلہ اُس کے زور دار جٹھکوں کے نتیجے میں بیڈ پر اگے ھو کر گر گئی کیونکہ ذوہیب کا پورا وزن بھی راحیلہ کے اُوپر ہی تھی۔
              اس لیے وہ بھی اُس کے اُوپر ہی گر گیا راحیلہ کو اُس نے گردن سے پکڑا اور اپنا لن جو گرنے کے باوجود گانڈ کے اندر ہی تھا۔پھر سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہی دیر میں راحیلہ ایک بار پھر فارغ ہو گئی ۔
              ذوہیب نے اُسی وقت اپنا لن باہر نکالا اور اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد راحیلہ نے اپنی بکھرتی تیز سانسون پر قابو پانے کےبعد سیدھے ھو کر۔اُس نے پھر سے ذوہیب کا کھڑا تگڑا لن پکڑ لیا تھا اور اُس کے ساتھ اب راحیلہ وفور شوق سے کھیل رہی تھی ۔اور ذوہیب اُس کے مموں میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔
              راحیلہ کے چہرے پر ایک شرارتی مگر پرسکون مسکرہٹ امڈ آئی اور وہ ذوہیب سےبولی۔ جانوجی! کیاہوا تم کو فارغ کیون نہین ہوئے تم؟۔اور اب ایئسے کیون بیٹھ گئے ھو۔۔
              ذوہیب نے جواب دیا ایک بات بتاو گئی مجھے۔
              راحیلہ کے چہرے پر وہی شرارتی مسکراہٹ تھی ہاں پوچھو۔
              ذوہیب بولا تم کو اپنی گانڈ مین میرا لن لینے میں زیادہ مزا آیا ہے کہ اپنے دیور قمر کے لنڈ لینے کا؟؟ ۔
              میری جان میرا شوہر اور۔وہ میرا دیور کمینہ قمر مجھے بیہوشی اور نشئے کی دوائیون دے کر مچھے چودتے اور گانڈ مارتے تھے۔اور تم سے تو خوشی اور اپنی چاہت سے مین چودا رہی ھون ۔
              راحیلہ نے تھوڑا افسردگی مگر پھر بھی مسکراتے ہوئے کہا اُس کا سر ابھی بھی ذوہیب کے سینے پر ہی رکھا تھا۔
              ذوہیب اُس کی بات سن کر چونک پڑھا اُس کو اس طرح کے راحیلہ کے ساتھ ظلم و ستم ہونے کی اُمید نہیں تھی۔ مگر یہہ بھی تو سچ ہی تھا کہ کسی بھی لنڈ کو اپنے نیچے کوئی بھی عورت مل جائے۔امیر ہو یہان غریب اپنی ھو یہان پرائی۔لنڈ نے تو پھر اسکی مرضی کے خلاف بھی صرف اندر گھس کرچودائی کرنا ہی سیکھا ھے۔
              اور وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے راحیلہ اسطرح کھل کر اپنی گھر کی بات اُس طرح سے بتا ڈالے گی۔
              راحیلہ ذوہیب جانو اب تم مجھے۔بتاؤ۔مین تمھین کیئسی لگی ھون۔
              ک ک کیا مظلب ؟ ۔ اُس نے اٹک آٹک کر راحیلہ سے پوچھا ۔
              کیا ہوا شرما کیوں رہے ہو ۔ سیدھی سی بات تو پوچھی ہے۔ تم کو میری چوت مارنے کا زیادہ مزا آتا ہے یہان برہ اور فرحی کی چوت کا؟؟۔راحیلہ پھر سے بولی۔
              راحیلہ کی اس بات نے ذوہیب کو پہلے سے بھی زیادہ حیران کر دیا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا جواب دے ۔ ایسی بات تو کبھی اُس سے پہلے کسی نے بھی چودائی کے دوران اسطرح ڈئرایکٹ کسی نے نہیں پوچھی تھی۔
              مگر راحیلہ کی باتون سے اس کے ہاتھ میں اُس کا اکڑا ہوا لن مستی سے جھومنا شروع ہو گیا تھا۔
              جس سے راحیلہ کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ بھی بڑھ گئی ۔ وہ ذوہیب کی حالت کا مزا لے رہی تھی۔
              جب ذوہیب نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو وہ پھر بولی۔ کیا ہوا جانو بتا کیوں نہیں رہے ہو۔
              ذوہیپ بولا۔ أہ اب مین کیابتاؤو؟۔
              میری بات کو جواب دو نا تم کو میری چوت لینے میں زیادہ مزا آیا ہے یہان مریم اور بانو کی کنواری چوتون کا؟۔
              ڈاکٹر راحیلہ نے اس بار پھر سے بات بدل کر کہا۔ ویسے وہ خود بھی حیران تھی کے کیسے وہ یہ سب اتنی آسانی سے بول رہی تھی اسطرح کی بات آج تک اُس نے مریم اورقمر سے یہان اپنے خاوند سےبھی کبھی نہیں کی تھی۔
              نہجانے وہ کوئی مزاء لے رہی تھی یہان شائید ذوہیب کو چیک کر رہی تھی کہ گم شدہ یاداشت کا عرصہ اسے یاد بھی ھے کہ نہین۔
              ذوہیب اب تھوڑا سنمبھل چکا تھا وہ بولا۔ تمھاری چوت کا۔
              کیوں۔؟؟ راحیلہ نے پوچھا۔
              اب اس بات کا میں تمھین کیا جواب دوں بس تمھاری چوت لینے کا زیادہ مزا آیا ہے۔ ذوہیب نے آہستہ اور دھیمی آواز میں بولا۔
              اچھا چلو یہ توبتائو اُن کی چوتون میں اور میری چوت میں تم کو کیا فرق محسوس ہوا ہے۔راحیلہ نے ذوہیب کو جھجھکتے دیکھ کر مذید اسکا چیلا لگایا۔
              اب یہ تم کسطرح کے سوال کر رہی ہو مجھ تمھاری بلکل سمجھ نہین آ رہی۔ ذوہیب بالأخرچڑ کر بولا۔
              کیوں کیا ہوا۔اب بتانے مین شرم کیون آرہی ہے۔چوت مین لنڈ لن ڈالنے مین تو کبھی تمھین شرم نہین آتی۔
              راحیلہ نے پھر ہنستے ہوئے پوچھا۔
              شرم تو واقعی مجھے نہیں آتی پر مجھے اچھا بھی نہیں لگ رہا اسطرح سے تمھارا یہ باتین کرنا۔ذوہیب نے جواب دیا۔
              اچھا نہیں لگ رہا تو یہ کیوں جھوم رہا ہے پھر۔ ڈاکٹر راحیلہ نے اُس کے لن کو دباتے ہوئے پوچھا۔
              نہیں میرا مطلب کے ایزی فیل نہیں کر رہا میں یہ سب باتین تمھارےمنہ سے سن کر۔ ذوہیب نے روکھے انداز سےجواب دیا۔
              اچھا چلو نہین پوچھتی اب۔ راحیلہ نے ہنس کر کہا۔ پھر وہ دونوں کچھ دیر تک جپ چاپ لیٹے رہے۔
              کچھ دیربعد راحیلہ نے اپنا منہ اُوپر کیا اور ذوہیب کی ہونٹ کو چومتے ہو ئے اُس کے کانوں کے پاس اپنا چہرہ لے جا کر بولی۔
              جانو تم کو لن چسوانا اچھا لگتا ہے کیا۔
              ذوہیب نے سر ہلا کے جواب دیا ۔ہان ہان بہت۔
              راحیلہ کیا میں چوسون؟۔
              ذوہیب نے اُس کے کان کے قریب اپنے ہونٹ لے جاکر اُس کے کان میں آہستہ سے بولا۔ ہاں چوس لو ۔
              ذوہیب کو راحیلہ کا انداز مدہوش کر رہا تھا۔
              راحیلہ نے اُس کے گال کو چو ما پھر اُس نے اپنی زبان اُس کی گردن پر پھیرنا شروع کر دی۔ پھر اُس نے پوچھا پورا منہ میں لوں یا صرف ٹوپی۔؟؟
              سارا چوسو۔ ذوہیب کی سانسوں کی رفتار بڑھ گئی تھی۔
              اچھا ۔راحیلہ نے اُس کو بولا اور پھر اُس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور چوسنے لگی۔
              پھر اُس نے اپنا منہ اُس کے ہونٹوں سے اُٹھایا اور نیچے اُس کی ٹانگوں پر آگئی اور اُس کے کھڑے لن کو ہاتھ میں لے لیا اور اُس کو ہاتھ میں لے کر مساج کرنے لگی۔
              وہ لن کی پوری لمبائی کو ہاتھ میں لے کر مساج کر رہی تھی۔ وہ جس طرح سے ہاتھ چلا رہی تھی ۔
              ذوہیب مزے میں پاگل ہو رہا تھا ۔
              پھر راحیلہ نے اپنا منہ نیچے کیا اور اپنی زبان نکال کر اُس نے لن کی ٹوپی کے نیچے والے حصے پر پھیرنی شروع کر دی ۔ ذوہیب کے لن سے ایک قطرہ نکل آیا تھا ۔
              راحیلہ نے اپنی زبان اُس قطرے پر پھیری اور اُس کو چاٹ لیا ۔ ذوہیب ڈاکٹر راحیلہ کا یہ روپ دیکھ کر حیران تھا ۔
              اُس کو لگ ہی نہیں رہا تھا کے یہ اس ہسپتال کی مالک اور ساتھ ایک پروفیشنل اور ماہر ترین برین سرجن اور ڈاکٹر بھی ھے۔ ذوہیب تو کیا ؟؟۔
              راحیلہ کو کبھی بھی کوئی بھی اس کو دیکھ کر ایسا اندازہ نہیں لگا سکتا کے اس کے اندر ایک ایسی چودائی کی پیاسی عورت بھی چھپی ہے۔
              راحیلہ اُس کے لن کو نیچے سے لے کر ٹوپی تک اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی۔ پھر اُس نے سر اُٹھا کر پوچھا ۔ جانو مزا آرہا ہے یا نہیں۔
              مین نے اکھڑتی سانسوں کے درمیان مدہوشی سے بولا آج تو پاگل کر رہی ہو تم۔
              راحیلہ نے ایک بار پھر منہ نیچے کر لیا اس بار اُس نے سارے لن کو منہ میں لے لیا ذوہیب کے ہاتھ اُس کے سر پر آگئے تھے اور وہ بہت نرمی کے ساتھ اُس کے سر کو اپنے لنڈ پر دبا رہا تھا ۔
              راحیلہ کچھ دیر تک اُس کی ٹوپی منہ میں لے کر چوستی رہی ۔ پھر اُس نے پورا لن منہ میں لے کر منہ کو اُوپر نیچے کرنا شروع کر دیا ۔
              ذوہیب اُس کے منہ کی نرمی اور گرمی اپنے لن پر محسوس کر رہا تھا اور جس طرح سے راحیلہ اپنا منہ اُس کے لن پر اُوپر نیچے کر رہی تھی وہ بھی ذوہیب کے لیے بہت ہی مزے کا باعث تھا۔
              جیئسا کہ دوستو اپ جانتے ھین میری یہ پہلی بار نہیں تھی جب کوئی عورت میرے لن کو چوس رہی تھی ۔
              میری زندگی میں پہلے بھی ایسا بہت بار ہو چکا تھا لیکن اج مین ڈاکٹر راحیلہ کی ہنر مندی کا فین ہو گیا تھا کیوں کے مجھ کو اس کے منہ میں اپنا لن دے کر جو منفرد اور انوکھامزا مل رہا تھا ۔وہ پہلے کبھی اج تک نہیں ملا تھا ۔
              شاید یہ کوئی نفسیاتی وجہ تھی یا راحیلہ کے چوسنے کا طریقہ۔ لیکن مزا بہت ہی زیادہ مجھ کو آیا تھا۔
              پھر کافی دیر تک راحیلہ اُس کے لن کو منہ میں لیےچوستی رہی وہ مختلف طریقوں سے منہ کو لن کے اوپر گھوما گھوما کر اُس کی ٹوپی کے گرد اپنے ہونٹوں کو چلا رہی تھی ۔
              پھر راحیلہ نے اپنی آنکھین اٹھا کر ذوہیب کی طرف دیکھا پھرلن کو چھوڑ کر اپنے ہونٹ اُس کے منہ پر رکھ دئیے اپنی زبان اُس کے منہ میں گھسا دی ۔ کچھ دیر کی گہری کس کرنے کے بعد منہ ہٹا کر بولی۔ ذوہیب میں تم کو بہت زیادہ پیار کرنے لگئی ہوں اب تمھارے بغیر میرے لیے رہنا مشکل ھو جائے گا۔
              راحیلہ یہ بول کر اُٹھنے لگی تو مین نے اُس کو بازو سے پکڑ کر واپس گرا لیا اور بولا کہاں جارہی ہو جانم۔
              راحیلہ مسکرا کر بولی۔ چھوڑو مجھے کو واش روم تو جانے دو ۔پچھلے تین گھنٹون سے تم نے مجھے ننگا کر رکھا ہے۔
              اور شہوت چاہت اور اپنےلن مین ایئسے جکڑا ہواھے
              میں تو یہہ بھی بھول ہی گئی ہوں کہ مین کون ہون اور کیا کر رہی تھی۔
              مین بھی مسکرا کر بولا ۔ چلی جانا واش روم مین بھیءتم۔پہلے ایک بار میری پیاس تو بجھا دو۔
              پھر ذوہیب نے اس کو پکڑ کر بہت پیار سے بیڈ پر ایک طرف پھینکا اور اُس کی چوت کی طرف آگیا اُس کی چوت پھرخشک ہو چکی تھی ،۔
              ذوہیب نے اپنی زبان اُس پر رکھ دی اور اپنی ایک انگلی اُس کے گانڈ کے سوراخ کے گرد گھمانے لگا پھر اُس نے تھوڑا تھوک اُس کی گانڈ کے سوراخ پر بھی ڈالا اور اپنی انگلی کواندر ڈال دیا ۔ راحیلہ کی چوت گیلی ہونا شروع ہو گئی ۔ ذوہیب اپنی زبان کو اُس کے دانے پر اور انگلی کو اُس کی گانڈ میں مسلسل چلاتا رہا۔
              کچھ دیر بعد وہ اُٹھا اور اُس نے ڈاکٹر راحیلہ کی ٹانگوں کو پکڑ کر اپنے کندھوں پر رکھا اور اُس پر جھک کرلیٹ گیا ۔
              اپنا لن اُس نے ایک ہاتھ نیچے کر کے اُس کی چوت کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک زور کا بھر پوردھکا مارا ۔موٹا اور تگڑالن گہرائی میں اُترتا چلا گیا۔
              راحیلہ کے منہ سے اُف کی آواز نکلی اور پھر کمرے میں تھپ تھپ شڑپ شڑپ آہ آہ کی آوازیں گونجنے لگیں ۔ ذوہیب اُس کو پندرہ منٹ تک لگاتار چودتا رہا اور راحیلہ بھی اُس دوران گانڈ اٹھا اٹھا کرمکمل ذوہیب کا ساتھ دیتے ہوئے ایک بارفارغ ہو چکی تھی۔
              ذوہیب نے مذید پندرہ منٹ بعد راحیلہ ڈاکٹر کی جان توڑ چودائی کرتے ہوئے اُس کی چوت کو پہلی بار اپنے پانی سے سیراب کر دیا اور پھر ایک طرف گر گیا۔
              راحیلہ اپنی جگہ سے اُٹھی اُس نے ایک طرف پڑے بکس مین سے ڈھیر سارے ٹشوزاُٹھایے اور ذوہیب کا لن صاف کیا اور پھر اُس نے اپنی چوت کے نیچے رکھا تاکہ اندر سے منی باہر نہ گر جائے اور اُٹھ کر واش روم کی طرف چلی گئی۔
              راحیلہواش روم میں آکر باتھ ٹب میں بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کے اُس کو کیا کرنا چاہیے ۔ ذوہیب کے تگڑے لن کی طلب اسکے بدن مین بیدار ھو چکی تھی ۔
              جو مسلسل اُس کو ذوہیب کی طرف کھنیچ رہی تھی لیکن اُس کو اپنا ڈاکٹری کا پروفیشن اور سٹیٹس کا پیار بھی یاد تھا وہ سوچنے لگی کے وہ اس اُلجھن مین مریم۔اور ساتھ قمر اور خود کو پریگنیٹ کروانے کی وجہ سے ہی پھنسی ہے پھر وہ کچھ سوچ کر واش روم سے باہر نکل آئی۔
              جیئسے ھی وہ باہر نکلی سامنے نظر والے دلکش خوبصورت نظارے سے راحیلہ اور اس کی گدرائی رسیلی چوت پھر سے للچا اٹھی وہ بیقراری سے آگے بڑھ گئی۔
              ذوہیب صوفے پر آڑھا ترچھا ہو کر نیم دراز ھوچکاتھا اُس نے اپنی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا رکھا تھا اور سر صوفے کی پشت پر ٹکا رکھا تھا۔مگر ذوہیب کااکڑا لن پھر سے مستی مین جھول رہا تھا۔
              راحیلہ اب اُس کی ٹانگوں کے درمیان زمین پر بیٹھی تھی اور ذوہیب کے لن کو پھر سے منہ میں لے کر چوس رہی تھی ۔
              ذوہیب کی انکھیں بدستوربند ھی تھیں ۔
              کچھ دیر تک راحیلہ ایسے ہی بیٹھے اُس کا لن چوستی رہی۔
              پھر راحیلہ مدہوش ہوتی اُٹھی اور اُس نے واش روم مین سے پہنا ہوا اپنا ڈاکٹری گاؤن کو اُتار دیا۔
              نیچے شلوار قمیض تو اسنے پہلے ہی نہیں پہنی تھی۔اسلئے وہ بلکل ننگی ہو گئی تھی۔ وہ جھک کر ذوہیب کی ٹانگوں کے اُوپر آگئی اور اپنی ٹانگوں کو کھول کر اُس کے لن کے اُوپر اپنی چوت کو فٹ کیا اور آہستگی سےبیٹھ گئی اور تگڑالن چوت کی گہرایئوں میں غائب ہو گیا۔
              ذوہیب بھی تھوڑا سے اُٹھا اور اُس نے اپنے ہاتھوں کو اُس کے پہاڑیون جیئسے چوتٹروں کے نیچے رکھ کر اُس کو اُوپر نیچے ہونے میں مدد کرنے لگا ۔
              راحیلہ کے بڑھے بڑھے خربوزے ذوہیب کے منہ کے آگے اُچھل کر لڑھک رہے تھے ۔ راحیلہ نے اپنے ہاتھوں سے ذوہیب کاہاتھ پکڑا اور کھینچ کر ذوہیب کا منہ اپنے مموں کے ساتھ لگا دیا۔
              مین نے اسکےایک ممے کے نپل کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا ۔کمرہ راحیلہ کی آواز سے گونج رہا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد اس کی شہوہت ناک آواز میں اور اُس کی رفتار میں تیزی آنے لگی ۔
              ذوہیب نے بھی نیچے سے ہلنا شروع کر دیا ۔ پھر جلد ھی میرے لن سے نکلنے والے پانی نے راحیلہ کی چوت کو ایک بار پھر سے بھرنا شروع کر دیا۔
              مین نے واپس اپنے جسم صوفے پر گرا دیا اور سر کو صوفے کی پشت پر ٹکا دیا۔ راحیلہ بھی میرے اُوپر لیٹ گئی ۔ پھر ھم دونوں کوکچھ وقت لگا اپنی سانسوں کو نارمل کرنے میں۔
              جاری ھے۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #17
                ۔اپڈیٹ۔
                انکے چہرون کی چمک دمک دیکھنے لائق تھی ائیسا لگ رہا تھا جیئسےامید برخلاف انہون نے کوئی خزانہ پالیا ھو۔
                مریم ذوہبی بھیا جلدی کرین ۔​​​​۔
                ب​​​​​​انو ۔چلین ذوہبی بھیا ھو جائین شروع اب۔
                ذوہیب: اچھا سالی جی۔ٹھیک ھے کر لیتے ھین مگر تم بھی تو آؤ نا میرے پاس ایک ساتھ مل کر انجوائے کرتے ہیں .
                بانو : مم مجھے آج نہین انا ہے۔پیرڈ ھین۔ بھیا تم جلدی سے مریم سےکرو نا ۔پھر ہمین واپس بھی جانا ہو گا۔ڈاکٹر راحیلہ اور فرح آپی کبھی بھی واپس آ سکتی ھین۔
                پھر بانو شرارت سے ارشد سے مخاطب ہوئی: ارشد بھائی لگتا ہے ۔یہ دونون ہَم سے شرما رہے ہیں ۔
                آئیں ہَم دوسرے روم میں چلتے ہیں جب یہ تھوڑے. آپس مین
                فری ہو جائیں گے تو ہم بھی واپس آ جائیں۔۔گے ورنہ انہوں نے تو پُورا دن باتوں میں ہی گزار دینا ہے اور ساتھ ہی بانو نے ا رشد کا ہاتھ پکڑا اور اسے اٹھا کے دوسرے کمرے میں اپنے ساتھ لے گئی
                اور جاتے ہوئے مڑ کر ہم سے پھر کہنے لگی۔
                اب جلدی سے آگےبڑھو یہ نا
                ہو کہ ہمارے آنے تک بھی ابھی
                باتیں ہی چل رہی ہوں
                ذوہیب۔ شرارت سے جی اچھا.
                اِس دوران ارشد اور بانو کمرے سےباہر نکل گئے ۔
                اور بانو اسکا ہاتھ پکڑ کے
                ساتھ والےدوسرے کمرے میں لے گئی
                اور ارشد سے بولی کہ ذرا ان کو فری ہو لینے دو پِھر چل کے دیکھیں گے
                ارشد نے بانو کوکہا کہ اوکے .
                ٹھیک ہے اور بانو سےپوچھا کہ
                بانو یار تمھارے بھائی۔کو ہمارے اس دن کے سیکس کے ۔۔۔۔بارے میں پتا ہے کیا۔تو بانو کہنے لگی کہ ہاں میں نے ہی انہین بتایا ھے
                تو ارشد نے بانو سے پوچھا کہ
                کیوں بتایا ھے انہین۔؟
                تو بانو کہنے لگی کہ ویسے ھی۔؟؟
                ارشد نے کہا کہ بانو یار کیوں
                ویئسے ہی بتایا ھے۔کیا
                اِس طرح سے تمھین اچھا لگا ہے اپنے بھائی کو ہمارے بارے مین بتانا۔؟
                تو بانو کہنے لگی۔ارشد جانو کچھ نہیں ہوتا اور ویسے بھی میں تمھارے اور اپنے تعلق کے بارے مین پھر بھیا کو کیسے بتاتی کہ مین تمھارے ساتھ شادی کرنا۔؟؟
                اور پھر تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد۔تم خود ہی سوچو۔ اگر تم دونو کی چدائی کا نہین بتاتی تو ۔یہ کییسے کہتی کہ۔تم اپنی بہن کو کسی سے چودوانے خود اپنی رضا مندی سے لے کے آ رہے ہو ۔
                جب کہ اب ذوہیب بھیا ہی ہماری شادی کروائین گے۔جو پہلے فرح أپی مان ھی نہیں رہی تھی اور ڈونٹ وری اب میرے بھیا سب سنبھال لین گے۔خود ہی۔ڈرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے یہ بات ہَم چاروں کے بیچ ہی مین رہے گی ۔۔
                ارشد نے بھی بانو کی بات سمجھ کربولا او کے۔ تب تو پھر ٹھیک ھے۔ اور
                پِھر کہا کہ یار انکی باتیں سننے میں بھی تو مزہ آ رہا تھا۔ تو بانوکہنے لگی کہ اچھا میں سناتی ہوں تمھین انکی باتیں بھی اور اسے لے کے ہمارے کمرے کے ساتھ والے روم کی
                ایک کھڑکی کے پاس چلی
                آئی۔ جس میں مین اور ارشد کی بہن بیٹھے اپ آپس مین چھیڑ چھاڑ کر رھے تھے .
                وہ کھڑکی کھلی۔۔۔ہوئی تھی اس میں سے انہون نے ہمین
                دیکھنا شروع کردیا ۔
                انکے کھڑکی کے پاس آنے تک ہماری باتیں ختم ہو چکی
                تھیں اور بات کافی آگے بڑھ چکی تھی۔
                بانو اور ارشد کے کمرے سے جانے کے بعد مین نے بیٹھے بیٹھے ہی مریم کی طرف کھسک۔۔۔کے مریم کو پکڑ کر اپنی باہون مین لے کر اس سےکسسنگ کرنے لگ پڑا تھا
                اور پھر ہم دونوں ھی بہت مزے سے ایک دوسرے کے ہونٹ اور زبان چوسنے لگے اور
                پھر مین نے ایک ہاتھ مریم کے رائٹ ممے پر رکھ کر اس کے ممے سے کھیلنےلگا یہ سچویشن دیکھ کے باہر کھڑے ارشد کا لن بھی انگڑائی لینے لگا اور اس کے ساتھ کھڑی بانو اس کے سر اٹھاتے لن کو دیکھ کر اس نے بھی ارشد کے چہرے کی طرف مڑ کے۔دیکھا اور دھیمے انداز سے مسکرا دی۔ اور وہ دونوں پِھر ہماری طرف کھڑکی میں سے دیکھنے لگے .
                مریم اور مین دونوں ہی فل مستی میں تھے اور مکمل انجوائے بھی کر رہے تھے مگر مین اس سب کے باوجود اپنی سالی اور ارشد کی طرف مکمل دھیان رکھے ہوئے تھا۔مگر وہ دونون شائید سمجھ چکے تھے کہ مریم کے بدن کی مستی میں مین انہین بھول گیا ھون . ۔۔مریم بھی میری باہون مین بہت خوش لگ رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بَعد. مین نے مریم کا دائین ہاتھ پکڑ کے اپنے لن پر رکھا اور ساتھ ساتھ مریم کے ہونٹون پرکسسنگ بھی کرنا جاری رکھی اور مریم میری پینٹ کے اُوپر سے ہی اپنے ہاتھ سے لن کو
                سہلانے لگی اور پھر تھوڑی دیر یہ کھیل جاری رہا ۔یعنی وہ کھڑے دونون کھڑکی سے ہمین دیکھتے رہے مین مریم کے ممے مسلتے ہویے ساتھ اسکے ہونٹ چوستا رہا۔اور مریم میرالن ہاتھون مین جکڑے ہوئے پکڑ کر دباتی رہی۔ پِھر۔۔کچھ دیر بعد مریم نے میری پینٹ کی ذپ کھول کے اپنا ہاتھ اندر ڈالا اور اندر سے لن کو ڈائرکٹ پکڑ کرسہلانا شروع کر دیا
                پھر.میری مستی اور خواری بھی مزید بڑھنے لگی مین
                نے بھی اپنا ایک ہاتھ مریم
                کی قمیض کے اندر ڈالا اور
                اسکی کمر کو اندر سے۔سہلانے لگا ۔اور ساتھ کن آنکھیون سے کھڑکی پر کھڑے بانو اور ارشد کو دیکھنے لگا میرا تو یہ سین سوچ کے ھی مزے سے برا حال ہو گیا
                کیونکہ وہان پر ارشد اپنی بہن کو پہلی دفعہ ایک انجان اجنبی شخص کے ساتھ سیکسی حرکات کرتے ہوئے کھڑا دیکھ رہا تھااگرچہ اسکی بہن مریم اور اپنی سالی بانو سے مین پہلے بھی سیکس کر چکا تھا۔مگر وہ تو پہلے کی بات تھی۔ اورارشد شائد یہ بات جان بھی چکا تھا
                مگر یہ تو ایک۔۔بالکل انجان اور انوکھی کیفیت تھی کہ مین ارشد کی آنکھون کے سامنے اسکی بہن کی چوت کی دھجیان اپنے تگڑے لن سے اڑاؤن گا۔ جس سے میرا جوش اور بڑھ رہا تھا اور میں اب ارشد اور بانو کو اندر بلا کے
                انجوائے کرنا چاہتا تھا اور
                میں نے آہستگی سے مریم سے کہا بھی کہ چلو اب ان دونون کو آواز دے کر اندر بلاتے ہیں مگر مریم نے مجھے منع کر دیا کہ ابھی نہیں ورنہ پھر مجھے شرم آ جائے گئی۔ارشد بھائی کے سامنے۔اورھم دونوں پِھر سے رک جائیں گے انہین۔اپنے پاس ۔دیکھ کے تو اِس لیے
                مجھے بھی صبر کرنا پڑا۔ اور وہ دونون بھی وہیں کھڑکی میں سے ہی کھڑے کمرے کے اندر جھانکتےنظارے کرنے لگے.
                پِھر تھوڑی دیر بَعد مین کھڑا ہوا اور اپنی پینٹ پکڑ کر اُتاردی اور ساتھ ہی ایک ہاتھ سےانڈرویئر بھی کھینچ کر اُتار دیا۔مریم اور بانو تو میرے لن سے خوب واقف تھین لیکن ارشد بہت بیقراری سے اندر جھانکتا ہوادیکھنے لگا
                درآصل اسے میرا لن نظر نہیں آیا
                کیونکہ میری گانڈ کھڑکی کی۔طرف تھی اور منہ مریم کی
                طرف تھا اور پِھر مین نے مریم کو کھڑا کیا اور اسکی قمیض
                بھی اُتاردی اور مریم
                نے اپنے بازو اُوپر اٹھا کے
                قمیض اتروانے میں میری ہیلپ
                کی۔
                اس نے نیچے بلیک برا پہنی
                ہوئی تھی اور پِھر مریم نے
                بھی میری قمیض ۔۔ پکڑ کر۔۔ُاتاردی۔ اب مین بلکل ننگا ان کے سامنے ننگا کھڑا تھا
                مگر ارشد کی بہن مریم نے ابھی شلوار اور برا بھی پہنی ہوئی تھی.
                اب مجھ سے صبر نہیں ہوا اور مین نےاسی طرح مریم کے
                ممے پکڑ کے دبانے شروع
                کر دیے اور ساتھ اس سے فرنچ کسنگ بھی ۔۔کرنے لگا ۔
                دوستو مریم سے سیکس کرنے کے دوران مجھے اچانک ایک خیال آیا کہ اگر مریم کی چدائی کی سٹوری مین ارشد کی زبانی ہی آپ دوستون کو سنائو تو شائید أپ لوگ کو زیادہ لطف و مزاء أئے۔لہذا اب آگے کی سٹوری ارشد کی ھی زبانی سنیے۔
                اور اگر اچھی لگے تو کمنٹس اور لائک سے اظہار ضرور کیجئے گا۔
                اب ارشد کے انداز مین۔
                اُدھر میری بہن
                بھی ذوہیب کا لن پکڑ کے
                سہلانے لگی تو اتنے میں بانو نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کہا کہ آؤ اب اندر چلتے ہیں اب انہوں نے
                کپڑے اُتار دیے ہیں تو میں
                اور بانو اندر داخل ہوئے تو
                وہ دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ چومتے ہوئے ہمیں دیکھ کے۔۔چونک پڑ ے اور پیچھے ہٹنے لگے۔
                میری نظر اتنے میں ذوہیب کے لن پہ پڑی جو کہ جوش میں فل تنا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ اسکا لن کافی موٹا تھا اور
                لمبا بھی کافی تھا ۔
                لن کی لمبائی تو بانو اور مریم کی آپسی باتون سے میں نے بھی سن لی تھی۔۔مگر موٹائی اب دیکھی تھی
                اور وہ میرے لن سے کافی موٹا
                تھا اور تین انچ لمبا بھی تھا تو میں نے سوچا کہ آج مریم آپی کو خوب تگڑے لن سے مزہ
                ملے گا اور اُدھر بانو ان دونوں کو پیچھے ہٹتے دیکھ کے بولی کیا ہوا بھیا لگے رہو نا تم لوگ۔
                ہَم تو جسٹ دیکھ کر انجوائے کرنے آئے۔۔ہیں اور یہ دیکھنے کہ تم لوگون کی پروگریس ٹھیک جا رہی ہے ۔یہان ہمین ہی آپ کی مزید ہیلپ کرنی پڑ ے گی
                اُدھر میں نے بھی کہا کہ
                شاباش مریم بہنا پِھر سے شروع ہو جاؤ اور .ذوہیب کو آج اتنا مزا دو کہ یہ ہمہیں کبھی بھول نہ پایے ۔
                تو ان دونوں نےہمار ی باتوں پہ سمائل دی اور پِھر شروع ہو
                گئے جہاں سے انہوں نے چھوڑا تھاوہیں سے اور مریم اور ذوہیب پِھر ڈٹ کے کسنگ کرنے لگے ۔
                شاید ذوہیب کا اِرادَہ تھا کہ آج فل تسلی کے ساتھ ۔۔انجوائے کیا جائے کیوں کہ اس کو نا ہی کوئی جلدی تھی اور نا ہی کسی قسم کا کوئی خطرہ تھا تو ظاہرہے پِھر تسلی تو کرنی ہی تھی اس نے اور پِھر کافی دیر تک وہ میری بہن کے سیکسی اور جوسی ہونٹ چوستا رہا اور ساتھ بوبس بھی دباتا رہا پِھر اس نے کسنگ کرتے کرتے ۔ہی اپنے ہاتھ میری بہن مریم کے پیچھے لے گیا اور برا کی ہُک کھول دی اوراسکو وہیں نیچے پھینک دیا اور میں اور بانو بت بنے کھڑے۔
                بانو کے بہنوئی ذوہیب اور میری بہن مریم کےدرمیان سیکس ہوس اور جسمانی کھیل کا نظارہ کر رہے تھے اور کیا نظارہ تھا کہ ہَم پلک جھپکنا بھی۔۔بھول گئے تھے اور شاید
                بانو بھی پہلی دفعہ اپنے بہنوئی کو کسی لڑکی کے ساتھ ہوس بھرا کھیل کھیلتے ہوئے
                دیکھ کے اپنا ہوش کھو بیٹھی تھی کہ وہ بھی ارد گرد کو بھول گئی اور اتنا بھی ہوش نہیں رہا کہ ہَم کہیں۔۔۔۔بیٹھ جاتے اور
                تسلی سے یہ سب دیکھتے .
                دراصل ہَم نہیں چاہتے تھے
                کہ اِس سیکس کے کھیل کا
                ایک بھی سین ہماری نگاہوں
                سے اوجھل ہو اِس لیے ہَم
                بیٹھنا بھی بھول چکے تھے
                اور مسلسل ان دونوں کے
                جسمانی کھیل کا نظارہ کرنے ۔میں مشغول تھے اور وہ دونوں بھی یہ کھیل کھڑے کھڑے ہی کھیل رہے تھے
                برا کھولنے کے بَعد ذوہیب نے میری بہن کے لیفٹ ممے کو پکڑا اور اپنے ہاتھ سے دبانے لگا اور پِھر دوسرا مما پکڑا اور
                اسکو دبانے لگا اور تھوڑی
                دیر بَعد شاید اس کے صبر کا۔۔۔پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ
                ہونٹوں سے کسنگ کرتے
                ہوئے نیچے کی طرف آیا اور
                گردن پہ کسسنگ کرنے لگا
                اور پِھر اور نیچے آیا اور
                آخر کار مریم کے بوبز پہ پہنچ گیا
                اور پِھر میری بہن کے ایک
                ممے کو پہلے کس کرنے لگا
                اور پِھر منہ میں ڈال لیا اور۔۔میرا تو یہ دیکھ کے براحال
                ہو گیا میرا ِدل کر رہا تھا کہ
                میں بھی آگے بڑھ کر اِس کھیل میں شامل ہو جاؤں مگر مجھے شرم بھی آ رہی تھی
                اور میں یہ بھی چاہتا تھا کہ
                وہ دونوں خاص طور پہ
                ذوہیب کھل کےانجوائے کر لے تا کہ بانو اور میرا سکوپ بھی اس کے گھر بنا۔۔رہے اِس لیے مجھے صبر کرنا پڑا اور اُدھر میرے لن کی حالت
                بری ہوتی جا رہی تھی وہ
                شلور سے باہر آنے کو تڑپ
                رہا تھا مگر کیا کیا جا سکتا
                تھا سوائے صبر کے ۔؟
                ذوہیب اب مسلسل میری
                بہن کے ممے چوس رہا تھا۔۔کبھی وہ لیفٹ مما اور کبھی
                رائٹ والا اپنے منہ میں ڈالتا
                اور چوستا اور پِھر ہلکے
                ہلکے مریم کے مموں کو کاٹ
                بھی رہا تھا جو کہ میری بہن
                کی سسکیوں سے پتا چل رہا
                میرا تو یہ دیکھ کے برا
                حال ہو گیا تھا اور میں زیادہ دیر تک اپنی ٹانگوں پہ کھڑا نا
                رہ سکا اور سامنے جا کے۔۔صوفے پہ بیٹھ گیا اور
                مجھے دیکھ کے بانو بھی آ
                گئی اور ساتھ والے صوفے
                پہ بیٹھ گئی اور پِھر مجھے
                کہنے لگی کیوں ارشد بھیا کیسا ریسپونس جا رہا ھے تمھاری بہن کیساتھ میرے ذوہیب بھیا کا
                میں ہنس پڑا .
                اور کہا کہ بہت زبردست لگتا ہے تم نے خوب ٹریننگ دی ہے ۔میں نے مذاق کیا تو بانو کہنے لگی کہ چل بے شرم نا ہو۔ تو۔
                ہَم پِھر ان دونوں کی طرف
                دیکھنے لگے تو اب میری
                بہن نیچے بیٹھ کے ذوہیب کے لن کو سہلا رہی تھی اور ساتھ بہت شوق اور غور سے دیکھ رہی تھی۔
                بانو نے اس سے پوچھا کیوں مریم کیسا ہے میرے
                بھائی.کا لن تو ۔۔میری بہن مریم بولی کہ بہت زبردست ہے لگتاہے کہ خوب مزا آیا گیا۔
                بانو بولی میں
                نے تو تمھین پہلے ہی بتایا تھا کہ میرے بھائی سے دوستی کر
                لو اور پھر ساری زندگی بڑے لن کا مزہ بھی لے سکتی ھو
                تو مریم کہنے لگی کہ بس مین ڈرتی تھی کہ کسی کو پتا نا چل جائے مگر اب بھائی کو۔۔۔راز دار بنایا ہے تو تھوڑا حوصلہ ہوا ہے . اور پِھر اپنا
                سر جھکا کے۔ذوہیب کے لن کی ٹوپی پہ ایک کس دی اور ساتھ ہی میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ ماری تو میں مسکرا دیا اور پِھر وہ اس کے لن پہ اپنی زبان پھیرنے لگی۔۔۔جیسے کہ لن کو گیلا کر رہی
                ہو اور پِھر جب وہ کافی حد
                تک گیلا ہو گیا تو لن کو منہ
                میں ڈال لیا اور ُچوسنے لگی
                اور ساتھ ہی ذوہیب کےٹٹوں کو اپنے ہاتھ سے سہالانے لگی
                اور میرا ہاتھ پتا نہیں اسی
                دوران کب میرے لن پہ چلا
                گیا کہ مجھے خود معلوم نہین
                ہوا ورنہ شاید میں ایسی۔۔حرکت نہ کرتا کیوں کہ بانو
                میرے پاس قریب بیٹھی ہوئی تھی .
                مجھے پتا تب چلا جب بانو
                نے کہا کہ لگتا ہے بہن کو لن چوستے دیکھ کے برداشت نہیں ہوا تو میں نے کہا کہ کیوں کیا ہوا تو اس نے ہنس کے میرے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا اور تب مجھے احساس ہوا اور میں۔۔نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے ہٹایا
                مگر وہ کہنے لگی کوئی بات
                نہیں بھیا یار شرماتے کیوں ہو
                لگے رہو اور کھل کے انجوائے کرو دونوں بہن بھائی۔
                یہاں ڈرنے اورشرمانے کی کوئی بات نہیں ہے اور اُدھر میری بہن مریم بہت مزے کے ساتھ .ذوہیب کا لن ُچوسنے میں مصروف تھی اور اب اس کی کوشش تھی کہ اسکا پُورا لن اپنے منہ میں ڈالے مگر ابھی تک وہ اِس کوشش میں کامیاب نہیں ہوئی تھی مگر جتنا زیادہ سے زیادہ لن وہ اپنے منہ میں لے سکتی تھی لے رہی تھی اور اُدھر .ذوہیب بھی مزے کی انتہا کو چھو۔رہا تھااور اس نے مزے میں آ کے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور کافی دیر بْعد
                ذوہیب نے خود ہی میری بہن کو پیچھے ہٹایا شاید وہ چھوٹنے والا تھا مگر ابھی چھوٹنا نہیں چاہتا تھا تو اِس لیے اس نے اپنا لن
                میری بہن مریم کے منہ سے باہر نکال لیا اور میں نے دیکھ۔۔۔۔کہ اسکا لن میر ی بہن کے تھوک سے پوری طرح گیلا
                ہو چکا تھا اور تھوک کی وجہ سے فل چمک رہا تھا .
                پِھر ذوہیب نے میری بہن
                کوکھڑا کیا اور مریم کی شلوار
                بھی نیچے اُتاردی اوروہیں فرش پہ پھینک دی اور اس
                کی پھدی کو گھورنے لگا جو
                کہ بالوں سے بالکل پاک تھی۔اور لگتا تھا کہ مریم نے آج ہی
                صاف کیے ہیں یعنی کہ وہ ُچدوانے کی فل تیاری کے ساتھ آئی تھی پِھر اس نے پکڑ کے میری بہن کو گھمایا اور اسکا منہ دوسری طرف کر دیا اور اسکی گانڈ کو دیکھنے لگا اور کہا کہ مریم یار تمہاری پھدی اور گانڈ دونوں ہی بہت مست اور۔سیکسی ہیں جتنی میں نے سوچا تھا اس سے بھی زیادہ
                اور تم تو بہت مست مال ہو۔میرے ساتھ ساتھ تمہارا بھائی بھی بہت خوش نصیب ہے
                جو تمہیں چود چکاہے
                تو مریم مسکرانے لگی اور
                پِھر اس نے پیچھے سے ہی
                مریم کے ساتھ جپھی ڈال لی
                اور اپنا لن مریم کی ٹانگوں۔۔میں سے گزارا اور پِھر دوسری طرف سے مریم کے بوبز پکڑ کے دبانے لگا اور اپنا لن بھی میر ی بہن کی ٹانگوں میں آگے پیچھے کرنے لگا جیسے کہ چود رہا ہو اور تھوڑی دیر بَعد اس
                نے اپنا لن باہر نکالا اور میری بہن کےچوتڑوں پہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کے۔۔۔۔لنڈ کو پھیرنے لگا
                اسکو میری بہن کی گانڈ سب
                سے زیادہ پسند آئی تھی جو
                اس نے پیچھے سے ہی جپھی ڈالے اور اب اپنا لن بھی اسکی گانڈ پہ پھیر رہاہے اور کیوں نا پسند آتی آخر میری بہن تھی اور اسکی گانڈ تو تھی ہی مست اور فرسٹ کلاس پِھر۔۔اس نے مرءم کو گھمایا اور
                آگے سے جپھی ڈالی اور تھوڑی دیر وہ ایسے ہی آگے پیچھے ہوتا رہا پِھر وہ پیچھے ہٹا اور اس نے میری بہن کو اپنے بازؤں میں اٹھایا اور لے جا کے بیڈ پہ لٹا دیا اور خود اس پہ چڑھ گیا اور کسنگ کرنے لگا اور کچھ۔۔۔دیر کسنگ کرتا رہا اور پِھر کسنگ کرتا کرتا نیچے کی طرف آنے لگا اور پِھرگردن بوبز کو کو چوستا ہوا نیچے ناف پہ آیا اور کچھ دیر میری بہن کی ناف میں اپنی زبان کے جوہر دکھا نے کے بَعد پھدی پہ آ رکا اور اسکو کسنگ کرنے کے بَعد اپنی
                زبان اس پہ پھیرنے لگا اور۔۔۔پِھر دونوں ہاتھوں سے میری
                بہن کی ٹانگیں کھولی اور
                اپنی ُزبان سے اسکی کلٹ کو
                چھیڑنے لگا اور میری بہن
                بھی اِس سے مست ہونے لگی اور تھوڑی ہی دیر میں کمرا میری بہن کی آہوں،سسکیوں اور مزے میں ڈوبی ہوئی آوازوں سے گونجنے۔۔۔لگا آہ آہ اوہ اوئ ی آہ ہاے اوئی ماں بہت مزہ آ رہا ہے کیا پھدی چاٹتے ہو ذوہیب جانو اور زور سے چاٹو اور زور سے فل زبان
                اندر ڈال دو اوراسی طرح کی
                آوازوں اورباتوں نے میرا جوش بھی بڑھا دیا اور میرا ہاتھ بھی اپنے لن کو تیزی
                سے سہلانے لگا اور میں۔۔بے حال ہونے لگا اور پِھر
                کافی دیر کے بَعد مڑیم کی
                آوازوں میں اور تیزی آ گئی
                اور وہ اپنی پھدی کو اُوپر
                اچھالنے لگی اور اُدھر ایک
                ہاتھ سے ذوہیب کے سر کو اپنی پھدی پہ دبانے لگی اور پِھر ایک دم سست ہو کے نیچے گر پڑی شاید وہ فارغ ہو گئی تھی۔۔۔یعنی کہ مریم چھوٹ گئی تھی تو
                ذوہیب نے اپنا سر اٹھایا اور میری بہن کی آنكھوں میں دیکھا تو میری بہن شرما گئی اور اس نے اپنی آنكھوں پہ بازو رکھ لیا مگر ذوہیب نے بازو اٹھایا اور پوچھا کہ مریم مزہ آیا تو۔۔۔میری بہن مدھم سی آواز میں بولی کہ ہاں جانو بہت مزہ آیا تو پِھر اس نے میری بہن کی ٹانگیں کھولی اور اپنا لن
                میری بہن کی پھدی کے سوراخ میں رکھا اور ہلکا سا جھٹکا دیا اور شاید اس کے لن کی ٹوپی اندر چلی گئی اور میری بہن نے ایک ہلکی سی آہ بھری اور پِھر ایک دو۔۔اور جھٹکو ں میں ذوہیب نے اپنا پُورا لن اندرکر
                دیا مگر میری بہن بڑے صبر کے ساتھ اسکو برداشت کر گئی حلانکہ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسکو َدْرد ہوا ہے مگر اس نے برداشت کیا اور پِھر۔۔ذوہیب میری بہن کو ہلکے ہلکے چودنے لگا اور
                جلدی ہی میری بہن کی پھدی
                اس کے لن کے ساتھ ایڈجسٹ کر گئی اور .ذوہیب اب آگے ہو کے اس کے اُوپر لیٹ گیا اور ہلکے ہلکے جھٹکوں سے اسکو چودنے لگا اور پِھر تھوڑی ہی دیر بَعد مریم کے چہرے پہ رونق۔۔۔بحال ہو گئی اور اسکو بھی مزہ آنے لگا اور آہستہ آہستہ .اس نے اپنی چودنے کی
                سپیڈ بڑھادی اور تیزی سے
                میری بہن کو چودنے لگا اور
                اُدھر میری بہن پِھر مزے میں آنے لگی اور اسکی سسکیاں پِھرگونجنے لگی
                اور مگر۔۔ذوہیب شا ید بہت زیادہ جوش میں تھا اورگرم بھی بہت تھا اور سب سے بڑی
                بات کہ شاید میر ی بہن کو وہ
                پہلی دفعہ سمجھ کر چود رہا تھا اِس لیے وہ اپنے اُوپر کنٹرول نہیں رکھ سکا اِس لیے جلدی ہی چھوٹنے والا ہو گیا اور اس سے رکا بھی نہیں گیا
                اِس لیے جب وہ بالکل ۔چھوٹنے پہ آ گیا تو اس نے اپنا لن میری بہن کی چوت سے باہر نکالا اور اس کے پیٹ کے اُوپر اپنی منی نکال دی اور پِھر اپنے ہاتھ سے
                اپنی منی کو میری بہن کے
                پیٹ پہ مالش کرنے لگا اور
                اپنی ساری منی جو کہ میری
                بہن کے پیٹ پہ گرائی تھی
                اس کے پیٹ پہ مل دی اور ۔۔پِھر بانو اٹھی اور اس نے ذوہیب کے ہونٹون چومتے ہوئے
                اسے ایک ایک کپڑا لا کے دیا
                جس سے دونوں نے اپنی
                صفائی کی اور پِھر ذوہیب نے میری بہن کو نیچےلیٹا دیا شاید ابھی اسکا ِدل مکمل نہیں بھرا تھا اور اس کے منہ پہ آ کے اپنا لن اس کے منہ میں ڈال دیا اور اسکا لن جلد ۔ہی پِھر کھڑا ہونے لگا اور میرا خیال ہے بمشکل پانچ منٹ میں ہی اسکا لن پِھر سے اپنی اصلی حالت میں آ گیا اور وہ پِھر سے میری بہن کو چودنے کے لیے تیار تھا اور اِس دفعہ وہ خود نیچے لیٹا اور میری بہن کو اُوپر آنے کے لیے کہا اور میری بہن مریم ہماری طرف منہ۔۔کر کے اس کے اُوپر آئی اور اسکا لن پکڑ کے اپنی پھدی کے سوراخ پہ رکھا اور
                آہستہ آہستہ نیچے آنے لگی اور پِھر پُورا لن اپنی پھدی میں لے لیا اور میں دیکھ کے حیران رہ گیا کہ میری بہن کی پھدی میں اتنی گنجائش ہے کہ پُورا ساڑھے9 انچ کا لن نگل گئی۔اور ڈکار بھی نہیں لیا اور پِھر مریم اُوپر نیچے ہونے لگی
                اور تھوڑی دیر بَعد اس نے
                اپنی سپیڈ آہستہ آہستہ بڑھائی اور جوش میں اپنی پھدی
                کے ساتھ ذوہیب کے لن کی
                چدائی شروع کردی اور اب دونوں کی سسکیاں سننے والی تھیں ذوہیب اور میری بہن مریم دونوں ہی مسلسل سسکیاں بھر رہے تھے اورفل مزے میں تھے اور ذوہیب تو کہہ رہا تھا آہ مریم میری جان اور تیز چودو میرے لن کو اس کا پانی نکال دو اہ آہ آہ کیا پھدی ہے جان تمہاری آہ اوہ آہہ اۓ مم مم آہ جو جو بھی اسکو چودے گا جنت کا مزہ لے گا اور خود۔۔۔بھی نیچے سے ہلنے لگا
                جوش میں آ کے اور اُدھر مریم
                بھی آہ آہ آہ اوئی آہ کر رہی
                تھی ہر جھٹکے کے ساتھ اور مسلسل آواز یں نکال رہی تھی اور پِھر تھوڑی دیر بَعد ذوہیب نے میری بہن کو ڈوگی اسٹائل میں کیا اور پیچھے سے اپنا لن اسکی چوت میں ڈال دیا اور مزے سے اسکی۔۔۔پھدی چودنے لگا اور اِس دفعہ وہ کافی دیر تک میری بہن کی ٹھوک کے چدائی کرتا رہا
                جسے میرا دیکھ دیکھ کے برا حال ہوتا رہا اور میں بھی اپنے لن کو اُوپر سے ہی مسل مسل کے مزہ لیتا رہا اور بانو بھی میری حالت دیکھ۔۔۔۔کے ہنستی اور مسکراتی رہی اور وہ دونوں اپنے جوش میں لگے رہی اور آخر کار آہوں اور سسکیوں
                کےدرمیان دونوں اپنی منزل
                کے قریب پہنچ گئے اور
                میری بہن مریم چھوٹ گئی اور تھوڑی ہی دیر بَعد ذوہیب بھی چھوٹنے لگا تو اسنے لن باہر نکال کے میری بہن کی ۔گانڈ پہ اپنا مال اس نے ڈھیر کر دیا اور پِھر میری بہن کی گانڈ پہ اسکی مالش کردی اور اب میری بہن کا برا حال ہو گیا تھا
                اس میں اٹھنے کی طاقت۔بھی نہیں رہی تھی اِس لیے
                پھر بانو اٹھی اور کپڑا لے کے
                میری بہن کی گانڈ صاف کر دی ۔ پھر مین اور بانو نے ملکر مریم کو کپڑے پہنائے اورذوہیب اور اسے اپنے ساتھ لیکر ڈاکٹر راحیلہ کے آنے سے پہلے ھی وہان سےاپنے گھر جانے کیلئے نکل آئے۔
                ۔۔
                بانو نے مریم کے گھر پہنچ کر۔ذوہیب اور مریم دونوں کو ھی ایک جگ مین دودھ لا کر دیا اور
                اسے​​​​​​پی کے ھم دونوں کے جسم مین پھر سے جان میں
                کچھ جان آئی اور پِھر تھوڑی
                دیر سب نے بیٹھ کر باتیں وغیرہ کی اور پِھر بانو اور مریم نے مل کے۔کھانے کا انتظام کیا اور پِھر
                برہ فرح اور ذوہیب اور سارے بچون کے ساتھ ساتھ سبھی نے مل کے كھانا کھایا اور کچھ۔دیر مزید بیٹھ کے گپ شاپ۔لگا کے اور یہ وعدہ کر کے
                کہ جب بھی آپ لوگ بلاؤ۔گئے اور موقع ہو گا ھم توضرور ملنے۔آئیں گی۔
                میں اپنی بیوی اور ساتھ اسکی دونوں بہنون کو لے کے
                واپس لاہور آ گیا یا یوں کہہ لیں کہ۔اپنی تینون بیویون کے ساتھ۔واپس لاہور آگیا اور میرا آئندہ بنے والےمزے کا سوچ کے ابھی
                سے ھی برا حال تھا میر ِادل کر۔رہا تھا کہ میں ا بھی ھی ان تینوں بہنون۔کو ایک ساتھ پکڑ کے فوری چود ڈالوں۔مگر مجھے پتا تھا کہ ابھی اس مین بہت رسک ھے مجھے اب کچھ عرصے صبر وتحمل کیساتھ حالات کو سمجھ کر ہی کچھ کرنا ھو گا۔ اِس لیے مین صبر کر
                کے رہ گیا .۔
                برہ نے اپنی بہن بانو کے کان مین بہت أہستگی کیساتھ اس سے۔راستے میں پوچھا کہ ذوہیب سے چوت کی سیل کھلوا کرمزہ آیا
                تو بانو کہنے لگی کہ ہاں باجی۔بہت مزہ آیا میرا تو ِدل کر رہا
                تھا کہ بھیا سے ابھی اورچدواؤں مگر کافی تھک
                گئی تھی اور ٹائم بھی بہت ہو۔ گیا تھا۔ اس لیے بس صبر کر کے رہ گئ۔! وہ سبھی آپسی باتون مین لگے رہے مجھے نید أرہی تھی تو مین أرام سے سو گیا۔
                دوسرے دن لاہور مین ذوہیب اور عامر کے آفس جانے کے بعد فرح نے بانو کو آپنے بیڈروم مین بلایا اور اس سے پوچھنے لگئی۔
                فرح باجی نے کہا ۔بانو تمہارا سائز کیا ہو گیاہے مموں کا۔
                بانو نے کہا آپی36 ہے
                تو فرح کہنے لگی مجھےذرا دکھاؤ تو اور پِھر اس نے بانوکا ایک دودھ پکڑ لیا اور اس سے کھیلنے لگی اور پِھر تھوڑی دیر بعداس نے دوسرا بھی پکڑ لیا اور پِھر بانو كی قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کے مما پکڑ لیا اور اس کو دبانے لگی۔
                تو بانوبھی گرم ہونے لگی اور اسکو بھی مزہ آنے لگا اور پِھر بانو نے بھی باجی فرح كے قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کے اس كے ممے پکڑ لیے اور دبانے لگی اور دونوں خوب گرم ہو گئیں . باجی نے اس سے پوچھا مزہ آ رہا ہے توتو بانو نے کہا ہاں۔
                باجی فرح نے کہا اگر تو کسی لڑکے کے ساتھ کرو تو اور بھی زیادہ مزہ آئے گا . بانونے آپی سے پوچھا تم کرتی ہو تو ۔
                فرح باجی کہنے لگی میری تو شادی ہو چکی ہے اور شادی کے بَعْد یہی کچھ تو کرتے ہیں اگر تم نے کرنا ہے تو بتاؤ تو اسکی بہن نے کہا کس کے ساتھ تو کہنے لگی کہ برہ کے ہسبینڈ ذوہیب کے ساتھ .اسکا لنڈ کافی بڑا ہے تمھین بہت مزا آئے گا۔
                بانو نے انجان بنتے ہوئےپوچھا کیا مطلب برہ آپی مجھے ان سے کروا لینے دین گی اور کیا بھیا بھی مان جائے گا ۔
                تو کہنے لگی اسی لیے ہی تو تمہیں میں نے اپنے گھر آج سونے کے لیے کہا ہے کیونکہ مجھے کل واپس آتے ہوئے راستے مین لگا کہ تمھارے بھیا بھی تمہیں بہت پسند کرتے ہیں ، تم ان کو بہت اچھی لگتی ہو اور وہ تمہیں چود نا چاہتے ہیں۔اور پھر رات ان کے کہنے پر ہی تو میں نے تمہیں اپنے ساتھ سونے کے لیے کہا تھا . تو بانونے کہا نہیں میں نے نہیں ذوہیب بھیا کے ساتھ چُودائی کرنی مجھے ڈر لگتا ہے اور وہ مجھ سے کافی بڑے بھی ہیں .۔
                اِس میں شک نہیں کہ بانو کہ ذوہیب تم سے کافی بڑے ہیں مگر ابھی بھی وہ ینگ لگتے ھین.
                پھر مذید فرح نے اس کہا لو پِھر کیا ہوا اگر بڑے ہیں تو تم نے تو مزہ لینا ہے اور پِھر وہ تمہیں پسند بھی کرتے ہیں اور تمہاری چدائی بھی کرنا چاہتے ہیں بس تمہاری ہاں کی دیر ہے . بانونا کرتی رہی اور نا مانی کیوں کہ میں نے اُسے پہلے ھی سے سمجھا دیا تھا اِس لیے بھی اور پِھر گھر میں اور لوگ بھی تھے اِس لیے بھی .۔
                بانو نے بالآخر اس کے زیادہ اصرار کرنے پرباجی سے پوچھا کہ کہاں چدائی کریں گے وہ تو کہنے لگی جب سب سو جائیں گے تو ہَم ان کے پاس کمرے میں چلے جائیں گے اور کمرے میں ہی چدائی کر لیں گے .
                مگر بانو کو ڈر لگ رہا تھا اِس لیے مان نہیں رہی تھی مگرفرح نے بہت منتیں کی اور کہا کہ اگر وہ نا مانی تو ذوہیب اُسے ماریں گے کیوں کہ وہ تمھارے بہت بری طرح سے عاشق ھو چکے ہیں اور وہ بھی کافی عرصے سے . بانونے کہا کہ اُسے ڈر لگتا ہے اس نے کبھی کسی سے نہیں کیا اور اُسے بہت دَرْد ھوگا تو باجی کہنے لگی کہ نہیں ھوگا اگر زیادہ ہوا تو بے شک نا کرنا اور پِھر مزہ بھی تو بہت آئے گا . آخر کار بانو کو اس کے اصرار کے سامنے حامی بھرنی ہی پڑی اور کہا کہ او کے ٹھیک ہے .۔
                پِھر فرح باجی نے اپنے ہونٹ بانو كے ہونٹوں پر رکھ دیے اور فرح بھی اپنی بہن کے ہونٹ چوسنے لگی اور اپنا ایک ہاتھ اس کی شلوار میں ڈال دیا اور بانو کی پُھدی كے ہونٹوں سے کھیلنے لگی ۔
                بانو بہت گرم ہو گئی تھی . اس نے بتایا كہ وہ ساری نصیحتیں بھول کر پھر سے ذوہیب سے چدائی کرنے کو بالکل تیار ہو گئی تھی .
                وہ اب دیکھنا چاہتی تھی کہ فرح آپی کیساتھ ذوہیب کےلن کا مزاء کیسا ہے اور پِھر اس سے صبر نہیں ہوا تو اس نے باجی سے پوچھ ہی لیا کہ باجی انکل کا لن کتنا بڑا ہے تو باجی نے بتایا كے چھوٹا سا ہی ہے تاکہ بانو ڈر نا جائے اُسے کیا معلوم تھا کہ بانو تو پہلے بھی ا اس لن کا مزہ چکھ چکی ہے اور ذوہیب کالن اس کے لیے نئی چیز نہیں ہے . خیر فرح باجی اپنی بہن کی پھدی سے کھیلتی رہی اور پِھر اپنی ایک انگلی اسکی پھدی میں بھی ڈال دی اور بانو سے کہا کہ وہ اس کے دودھ چوسے تو بانو نے بھی فٹ سےباجی کی قمیض اُوپر کی اور اسکا ایک مما اپنے منہ میں لے لیا جو کہ دودھ سے بھرا ہوا تھا کیوں کہ باجی کا ابھی چھوٹا اڑھائی سال کا بچہ تھا اِس لیے اس کہ مموں سے دودھ بھی نکل رہا تھا تو بانو خوب انجوئے کرنے لگی .
                پِھر بانونے بھی ایک انگلی باجی فرح كے پھدی میں ڈال دی جو کہ بڑی آسانی سے چلی گئی اور دونوں خوب انجوئے کرنے لگیں ایک دوسرے کو انگلی سے چود کر اور دونوں نے جلد ہی پانی چھوڑ دیا اور ٹھنڈی ہو گئیں مگر کہاں ان کے اندر تو آگ بھڑک اٹھی تھی . پِھر دونوں باتیں کرنے لگی اور بانوکو نیند آنے لگی تو اس نے کہا کہ باجی مجھے تو نیند آ رہی ہے تو فرح نے کہا چلو تم سو جاؤ جب اندر چدائی کرنے جانا ہو گا تو میں تمہیں جگا دوں گی .
                بانو نے کہا او کے اور وہ سو گئی اسنے کہا او کے اور وہ سو گئی . کوئی دو گھنٹے بَعْد بانو کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ باجی جھنجھوڑ جھنجھوڑ کے اٹھا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ آؤ اندر چلیں مگر چونکہ بانواب سو چکی تھی اور اسکی آگ ایک دم بجھ چکی تھی تو پِھر اسکے ذہن میں میری باتیں آئیں اور اس نے چدائی کا اِرادَہ بَدَل دیا اور آرام سے لیٹی رہی جیسے کچھ بھی نا پتہ ہو اور آنکھ بالکل نا کھولی . فرح باجی جگاتی رہی مگر وہ ٹس سے مس بھی نا ہوئی اور آخر کار باجی کو ہار ماننا ہی پڑی اور بانو کو سوتے ہوئے چھوڑ کے اندر چلی گئی ذوہیب کے پاس اور اُسے بتایا کہ بانو نہیں اٹھ رہی . بانو پِھر سو گئی اور صبح کو اُٹھی تو باجی بڑی ناراض ہوئی کہ تم نے اچھا نہیں کیا اور اٹھی کیوں نہیں تو وہ کہنے لگی اچھا تم نے جگایا تھا مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا میں تو سمجھی کہ آپ نے جگایا ہی نہیں اور اِس طرح باجی رام ہوئی اور پِھر کہنے لگی کہ اچھا چلو پِھر آج رات تیار رہنا تو بانو نے کہا او کے مگر امی نے اگر آج ادھر سونے نا دیا تو باجی نے کہا وہ میں اِجازَت لے لوں گی تم بس ریڈی رہنا تو بانو نے کہا او کے . پِھر وہ ناشتہ کرنے کے بَعْد اپنے گھر آ گئی . دوپہر کو اُسے مجھ سے بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ رات کو کیا ہوا تھا اور کہنے لگی کہ اگر تم نے منع نا کیا ہوتا تو دونون بہنین مل کر میرے ساتھ بہت انجوئے کرتی مگر صرف میری وجہ سے اس نے رات برباد کی .
                بانو مجھ سے پوچھنے لگی کہ تمہیں فرح آپی کا کیسے پتہ ہے کہ وہ ایسی ہیں تو میں نے بتایا كے وہ خود ھی تمھین ایسی ساری باتیں بتائی گئی اور میں نےبا نو کو بتایا کہ اب اسکی غیر مردون سے برہ نےغیر مردؤن سے چدائی کرتے ہوئے ساتھ گانڈبھی مرواتے ہوئےدیکھا ہے تو وہ تو بالکل حیران رہ گئی اور بہت ایکسائیٹڈ بھی ہو گئی اور مجھ سے تفصیل پوچھنے لگی جو میں نے بتا دی تو بانو اور بھی جوش میں آ گئی اور کہنے لگی اسکا تو اب بہت دِل کر رہا ہے ابھی میرا لن دیکھنے کو اور گانڈ مین بھی لینے کو ۔
                جس سے مین نے اسے بتایا کہ مین نے ایک ساتھ برہ اورفرح کی بھی چدائی کر ر کھی ہے اور گانڈ بھی چودی ھے ھانو کہنے لگئی وہ بھی اس لن کو ضرور اپنی گانڈ مین لے کردیکھے گی . اور مجھ سے کہنے لگی بھائی پلیز مجھے بھی سب سے مل کرأپکے ساتھ چدائی کرنے دو نا . مجھے اسکی حالت دیکھ کے بڑا دکھ ہوا کہ میں نے اُسے کیوں منع کیا اور میں بھی ایکسائیٹڈ ہو گیا تھا۔
                رات کی باتیں سن کے اور میں بھی فرح کے ہاتھوں سے بانو کو چود کر اسکی چدائی کا مزہ لینا چاہتا تھا تو میں نے کہہ دیا مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔
                بس یہ خیال رہے کہ فرح کسی کو بَعْد میں بتائے نا جو اسکی عادت بن گئی ہے ۔ اگر ایئسا کچھ ہو گیا تو پھر ارشد سے تمھاری شادی ہونا بہت مشکل ہو جائے گا
                تو بانوکہنے لگی میں باجی سے کہوں گی کہ میں صرف ذوہیب بھیاکے ساتھ اسی شرط پر چدائی کرواؤں گی کہ وہ کسی سے بَعْد میں اس کا تذکرہ نا کریں . میں نے کہا چلو ٹھیک ہے پھر فرح کیساتھ مل کر پروگرام بناؤ اور مل کرانجوائے کرین۔
                مگر تم کچھ ایسا کرو کہ عامر بھی یہ چدائی ہوتی دیکھ سکے اور ہَم پلاننگ سوچنے لگے . بہت سارے طریقے ذہن میں آئے مگر کوئی ایسا نہیں تھا جو قابل عمل ہو . آخرکار ہمیں ان کو رد کر کے مجھے صبر کرنا پڑا اور بانونے پرامس کیا کہ وہ چدائی سے پہلے بننے والی ساری تفصیل ایک ایک کر کےخود بتاتی رہے گی۔
                اپذیٹ۔
                مین أپنی بیوی برہ کی تقریبأ تین سالون کے بعد جوش خروش سے مست اور دھوان دھار چودائی کیبعد ہم دونوں ہی تھک کر ننگے ہی بیڈ پر مدہوش ھو کر سوگئے۔پھر تقریبا رات دو بجے کا وقت ہو گا کہ میری کچھ عجیب سی فیلنگ کیساتھ أنکھ کھل گئی ۔
                ننگی فرح اور عامر میرے پیرون کے قریب جھکے دونون اپنے ہونٹون سے پیرون کو چومتے مجھے جگانے کی کوشش کر رہے تھے۔فرح عامر کو دیکھتے اور انکی عجیب حرکت محسوس کرتے مین پیر چھڑا کر بیٹھ گیا۔اور غصے سے پوچھنے لگا۔
                ذوہیب۔ عامر۔یار یہ کیا حرکت ہے تم اتنی رات اور اس طرح سے کیون۔؟؟؟؟
                عامر۔(روتے ہوئے)ذوہیب بھیا مین أپکا مجرم ہون۔ کچھ پیسون کیلئے ایک بہت بڑی غلطی کر چکا ہون۔جو ناقابل معافی ہے۔مگر أپکی اعلی ظرفی اور رحم دلی کو دیکھ کر دیکھ کر أپکو یہ سب بتانے کیساتھ ساتھ معافی یہان اپنے گناہون کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ھو کر ہم دونون أئے ھین۔
                مجھے عامر کی اس حرکت کا پتہ تو بہت پہلے ہی چل چکا تھا۔
                مگرمین نے کھلے دل سے اعلی ظرفی اور رحمدلی دیکھاتے ہوئے۔
                ذوہیب۔عامر بھیا مین نے اس غلطی کیلئے پہلے ہی أپ کو تہہ دل سے معاف کر دیا ہے۔اور پھر ننگی کھڑی فرح کو أپنی بازون کی آغوش مین لیتے ہوئے۔اب أپ جلدی سے یہان سے جائین تاکہ مین أپنی سالی کی مست گانڈ اور رسیلی پھدیا کی تسلی اور سکون سے چودیا کر سکون۔
                بہت بہت شکریہ ذوہیبی بھیا آپ واقعی بہت اچھے ہو ساتھ ہی بیڈ کے پاس بیٹھ کر میرے نیم مرجھائے لنڈ کو عامر نے أپنےہاتھ سے پکڑ کر ٹوپی کو دوتین دفعہ چومتے ہوئے اٹھتے لوڑے کو مکمل منہ مین بھر کر چوسا اور پھر اٹھ کر کمرے سے جاتے ہوئے عامر کہنے لگا شکریہ مہر بانی بھیا أپ جی بھی کے اب اسکی پھدی اور گانڈ کو چود کر اسکی دھجیان اڑاؤ۔
                فرح اور مین دونون حیرانگی کے شدید شاک سے بغیر پلکین جھکائے بس عامر کی اس انوکھی حرکت کو دیکھتے ہی رہ گئے۔۔
                ______. . . . . . //////..... _______........//////______. .
                فرح۔ ذوہیب جانو جیسے کہ میں نے آپکو بتایا تھا کہ میری چھوٹی بہن بانو بھی اب أپ سے چدوانا چاہتی ھے اور میں تم دونون کے ساتھ رہ کریہ دلکش حسین نظارہ لائیو دیکھنا چاہتی ہون۔ پہلے تو مین نے کچھ دیر رسمی سے انداز سے انکار کیامگر آخر کار مین بانو کو چودنے کی بات مان ہی گیا۔
                دوسرے دن۔
                تو دوستو پھر رات آ ھی گئی بانو کی پھر سے چدائی کئی اور پلان کے مطابق فرح کی بہن بانو اپنی باجی برہ کے گھر اس کے ساتھ چند دن رہنے کیلئے چلی آئی اور پِھر فرح اور بانو نے پلان مکمل بنایا۔
                پچھلی رات کی طرح اور پہلے ایک دوسرے کے ممے خود چوسے اور پِھر انگلی سے ایک دوسرے کو چودا اور گندی باتیں بھی کرتی رہیں اور پِھر رات کے تقریباً ڈیڑھ بجنے پر فرح نے کہا اب میرا خیال ہے برہ عامر اور سب بچے بھی سو چکے ہیں اب ہَم تمہارے بہنوئی کے پاس چلتی ہیں وہ بھی بہت بےصبری سے ہمارا انتظار کر رہے ھونگے تو بانو نے مصنوعی شرم دکھاتے ہوئے کہا باجی مجھے ڈر لگ رہا ہے اور شرم بھی آ رہی ہے آپ کے سامنے چودائی کرانے مین۔
                تو باجی فرح نے کہا ارے ڈونٹ وری ہَم دونوں بہنین مل کر چودائی کریں گی تمہارے ذوہبی بھیا کے ساتھ اب ٹھیک ہے۔
                اِس پر بانو خوشی سے مان گئی اور پہلے باجی فرح اٹھ کر اندر ہمارے پورشم مین آ گئی اور ادھر اُدھر دیکھا کے کوئی جاگ تو نہیں رہا اور تسلّی کرنے کے بَعْد بانو کو اٹھا کے اسے اندر آنے کو کہا اور پِھر وہ دونوں برہ اور میرے بیڈ روم کے ساتھ والے دوسرے کمرے مین اندر آ گئین جہان مین پہلے ہی پلان کے مطابق اکیلا سو رہا تھا
                بدن کی بیقرار شہوت اور گرم ہوتے ہوتے جذبات سے بانو کا دِل تیزی سے دھک د ھک کر رہا تھا اِس خیال کے ساتھ کے آج وہ ایک بار پھر سے ذوہبی بھیا کے بڑے لنڈ لنڈ کا مزہ چکھے گئی اور وہ بھی اس لنڈ کا جسکا اسکی دونون بڑی بہنین بھی سواد چکھ چکی ہین . وہ دل مین تھوڑا تھوڑا ڈر بھی رہی تھی کہ کسی کو پتہ نا چل جائے مگر اندر سے ایکسائیٹڈ بھی تھی .۔
                جب وہ کمرے میں پہنچی تو دیکھا کہ انہین کے انتظار مین جاگ رہا ہون۔
                اندر جاتے ہی باجی فرح نے دروازہ بند کر دیا اور چٹخنی لگا دی تا کہ باہر سے کوئی اندر نا آ سکے . مین نے دیکھتے ہی بانو سے کہا آؤ میری جان تم نے تو بہت تڑپایا ہے اور آخر آج آ ہی گئی ہو مگر بانو کچھ نا بولی کیوں کے وہ بہت شرما رہی تھی مجھ سے کیونکہ مین اس کی چوت کی سیل تو یاداشت گم ہوتے وقت ہوش ہواس بھلائے کھولی تھی مگر آج باجی فرح کے سامنے ہی بانو کی چودائی جو کرنے والا تھا .
                اِس کے بَعْد باجی فرح نے کہا بانو اب جلدی کرو ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے کہین کوئی اٹھ نا جائے تو چلو اب شروع کریں . فرح باجی نے یہ کہتے ہوئے جب بانو کو کہا کے چلو اپنے کپڑے اُتارو تو بانو نے کہا باجی پہلے آپ اُتارو .۔
                فرح باجی نے میری طرف دیکھا اور پِھر تیزی سے کپڑے اتارنے لگی اس نے اپنی قمیض اتاری تو نیچے بریزیئر وغیرہ کچھ نہیں تھا شاید اسی لیے نہیں پہنا تھا کے آج چدائی کرنی ہے اسکا فگر تھا 36 : 30 : 36 . پِھر مین نے بھی اپنی قمیض اتار دی اور بانو سے بھی کپڑے اتارنے کو کہا مگر وہ اب بھی شرما رہی تھی تو فرح نے بانو کو بازو سے پکڑ لیا اور اسے اپنی طرف کھینچا اور پِھر اسکی قمیض اتارنے لگی اور بانو نے بھی اپنے بازو اُوپر اٹھا دیے تاکہ آسانی سے قمیض اتر سکے۔
                اور اب بانو نے اُوپر صرف برا پہنی ہوئی تھی اور اسکا فگر تھا 32: 28 : 32 . مین نے جب بانو کو دیکھا تو تعریف کیے بنا نا رہ سکا اور کہنے لگا واہ بانو کیا گورا گورا جِسَم ہے دِل کرتا ہے تجھے کچا ہی کھا جائوں۔
                تو بانو شہوت سے مسکرا دی . باجی فرح اب اپنی شلوار بھی کھول چکی تھی اور بالکل ننگی تھی اس نے نیچے بھی کچھ نہیں پہنا ہوا تھا اور اسکی پھدی پر ہلکے ہلکے بال بھی تھے جو کے بہت پیارے لگ رہے تھے . باجی نے آگے بڑھ کے میری شلوار کو بھی کھول كے اتار دیا اور میرا کھڑا اور جھومتا ہوا لنڈ دیکھ کر بانو حیران رہ گئی کیوں کے وہ کافی بڑا تھا کم اَز کم 9 انچ کا تو ہو گا۔
                پھر بانو نے تھوڑا انجان بنتے ہویے فرح سے کہا باجی آپ تو کہہ رہی تھیں ذوہبی بھیا کا لنڈ چھوٹا سا ہے اور یہ تو موٹا بھی کم اَز کم 3 انچ ہے اور کافی بڑا بھی ھے تو باجی ہنس پڑی اور کہنے لگی تمہیں بتا دیتی تو پِھر تم میرے ساتھ چلی آتی کیا ؟۔۔۔
                پِھر باجی میرا لنڈ پکڑ کے سہلانے لگی اور پِھر لنڈ کو آگے پیچھے کرنے لگی جسے دیکھ کر بانو بھی جوش میں آنے لگی اور آگے بڑھ كے اس نے بھی اپنے نازک ہاتھون سے میرا لنڈ پکڑ لیا اور اُسے گھوما گھوما کر ہلانے لگی .
                بانو نے ابھی تک شلوار پہنی ہوئی تھی .
                باجی نے میرا لنڈ چھوڑ دیا اور وہ بانو كے مموں سے کھیلنے لگی اور ان کو دبانے اور چوسنے لگی جسے مین بھی دیکھ كے مزے لینے لگا . پِھر باجی نے اپنی بہن بانو سے کہا کہ اب تم ذوہیب کا لنڈ چوسو تو بانو نے کہا نہیں میں نے نہیں چوسنا یہ گندا ہوتا ہے۔
                تو باجی فرح نے کہا بہت مزہ آتا ہے دیکھو ایسے چوستے ہیں اور پھر ذوہیب کا لنڈ پکڑ کے چُوسنے لگی اور پِھر بانو سے کہا اب تم چوسو تو وئیسے ہی بانو کے لیے میرا لنڈ چوسنا کوئی نئی بات تو نہیں تھی اِس لیے وہ بھی بہت جوش سے چوسنے لگی اور پہلے اس نے میرے لنڈ کا ٹوپا منہ میں لیا اور اس پر زُبان پھیرتی رہی پِھر پُورا لنڈ اپنے چھوٹے سے منہ لینے کی کوشش کرنے لگی مگر میرا لنڈ چونکہ کافی بڑا تھا اسلیے وہ پُورا اسکے منہ میں نہیں جا رہا تھا۔ اِس لیے جتنا بھی جا سکا اسکو ہی بانو چوسنے لگی۔
                مین اب ایک ہاتھ سے بانو كے مموں سے کھیل رہا تھا اور جوش میں آ کے اہ اوف کی آوازیں بھی نکال رہا تھا۔
                جیسے آ ہ اوف اوئی ہائے بانو اییسے ہی اوف مزہ آ گیا جان اتنے دنوں سے کہاں چھپی ہوئی تھی۔
                میری جان وغیرہ ؟
                اب برہ کی چھوٹی اور پیاری بہن بانو بہت مزے سے اپنے بہنوئی ذوہیب کا لنڈ چوس رہی تھی اور ذوہیب بھی اس کے مخملی گداز مموں کو مسلسل سہلا رہے تھے اور باجی فرح یہ سب دیکھ رہی تھی پِھر اس نے بانو کی شلوار کا ناڑا کھولا اور اسکی ٹانگوں سے شلوارنکال كے اتار دی جو کہ بانو نے بھی ٹانگیں اٹھا کے اتارنے میں مدد کی .
                پِھر فرح باجی بانو کی پھدی سہلانے لگی۔بانو کی چھوٹی سی پھدیا بالکل صاف شفاف تھی ایک بھی بال اوپر نہیں تھا کیونکہ بانو کو شروع سے ہی اپنی پھدی صاف رکھنے کی عادت ہے اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ میں بھی چوت کو صاف ہی دیکھنا پسند کرتا ہوں اور جب مین نے بانو كے پُھدی دیکھی تو اپنا ہوش ہی کھو بیٹھا۔
                اور بانو کو بالوں سے پکڑ كے اسکا منہ کو اپنے لنڈ سے زور زور سے چودنے لگا .
                پِھر جیئسے ذوہیب فارغ ہونے کے قریب پہنچا ۔ ا س نے بانوکے منہ سے اپنا لنڈ نکال لیا اور اسکے لیفٹ ممے کو اپنے منہ میں لے کے چوسنے لگااور پِھر تھوڑی دیر بَعْد دوسرا مما یعنی رائٹ والا منہ میں لیا اور چوسنا شروع کیا اور بیچ بیچ میں بانو کے نپل کو کاٹ بھی لیتا۔
                جس سےبانو مستی سےسسکیاں بھرتی اور پِھر اور جوش میں آ جاتی اور ذوہیب بھیا کے سر کو پکڑ كے آگے پیچھے کرنے لگتی اور ادھر فرح باجی بانو کی چوت سے کھیل رہی تھی ۔
                پِھر ذوہیب تھوڑی دیر کے بعد بانو کے مموں کو چوسنے کے بَعْد اُسے کس کرنے لگے اور ہونٹوں کو خوب چُوما اور اپنی زبان برہ کی بہن بانوکے منہ میں ڈال دی اور بانو بھی پورےجوش میں آ كے ریسپونس دینے لگی اور اسنے بھی اپنی زُبان اپنے بہنوہی کے منہ میں ڈال دی اور پِھر تقریباً پانچ منٹ تک وہ دونوں کسسنگ کرتے رہے اور اس کے بَعْد ذوہیب نے بانو کی گردن پر کسسنگ کی بوچھاڑ کر دی اور پِھر نیچے کی طرف اسکے مموں سے ہوتے ہوئے ناف پر آ گئے اور اُسے کس کرنے لگے ۔
                پِھر آہستہ آہستہ نیچے لڑھکتے بالأخر اسکی چوت پر پہنچ ہی گئے اور اسکو چومنے لگے اور پِھر کافی دیر تک بانو کی چوت کو چاٹتے رہے اور پِھر اپنی ایک انگلی بھی بانو کی چوت میں ڈال دی۔
                اور اسکو اپنی انگلی سے اور زُبان سے چودنے لگے اور کافی دیر تک ایسے ہی کرتے رہے اور بانوجوش میں آ كے آوازیں نکا لنے لگی اور کافی مزے لینے لگی اور پِھر فرح باجی نے مجھے کہا چلو اب بانو کی چوت کی چدائی کرو۔اب یہ بلکل تیار ہو چکی ہے اور ذوہیب اٹھ کر پیچھے ہٹے تو بانو نے کہا نہیں باجی مجھے ڈر لگ رہا ہے اتنے بڑے لنڈ سے بہت درد ھوگا .۔
                باجی نے بہت سمجھایا کچھ نہیں ہوتا مگر بانو نہین مانی اور کہنے لگی نہیں پہلے باجی آپ کرو میں دیکھوں گی کہ کتنا درد ہوتا ہے پِھر کروں گی . ۔
                دراصل یہ سب تو بہانہ تھا اصل میں تو بانو دیکھنا چاہتی تھی باجی کی چدائی ہوتے ہوئے اور انجوئے کرنا چاہتی تھی مگر باجی نے کہا کہ وہ تو کرتی ہی رہتی ہے آج تم مزے لے لو مگر بانو نا مانی اور کہا اچھا چلو بھیا ایک بار ھی ڈال کے نکال لیں دو تِین جھٹکے ما رنے کے بَعْد تا کہ بانو کو اندازہ ہو جائے کے کتنا درد ہوتا ہے اور باجی مان گئی . پِھر مین نے فرح باجی کو لٹایا اور اپنا لنڈ ایک ہی جھٹکے میں باجی فرح كی پھدی کی گہرائی میں ڈال دیا اور اُسے ھی چودنے لگا پڑا۔
                اور یہ دیکھ کے بانوکو بھی جوش چڑھ گیا اور پِھر تھوڑی دیر بعد خود ہی اس نے کہہ دیا چلو بھیا اب میری چدائی کرو تو مین نے اپنا لنڈ باجی کی چوت سے نکا ل لیا مگر فرحی سے کہا کہ ذرا بانو کی چوت کو چاٹ کے گرم اور گیلی کر دو تاکہ میرا 9انچ لمبا لنڈ بانوکی ٹائیٹ اور چوٹی سی پھدی میں آسانی سے جا سکے تو باجی بانوکی چوت کو چاٹنے لگی اور اپنی ایک انگلی پِھر دو انگلیاں بھی ڈال دیں اور مجھ کو بھی یہ دیکھ کے جوش آ گیا اور باجی سے کہا اب پیچھے ہٹ جاؤ . پھر میراا لنڈ باجی نے آپنے ہاتھ سے پکڑ کر بانو كی چوت پر رکھا اور اپنے ہونٹوں سے مین بانو کو چومنے لگاور اُسے کس کرنے لگاور اسی دوران ایک جھٹکا مارا تو میرے لنڈ کا ٹوپا سیدھا ایک ہی جھٹکے میں بانو کی چھوٹی چوت کے اندر تھا اور بانو کی چیخ نکل گئی مگر چونکہ ذوہیب کے ہونٹ بانو کے ہونٹوں پر تھے اِس لیے آواز زیادہ بلند نا ہوئی اور پِھر مین بانو کے ہونٹوں کو چومنے لگ اور اسی دوران ایک اور جھٹکا مارا تو آدھا لنڈ بانو کی چوت میں گُھس چکا تھا اور بانو ایک دم تڑپ اُٹھی کیونکہ ایک تو ذوہیب کا لنڈ کافی بڑا اور موٹا تھا اور دوسرا ابھی بانو نے ایکءدو بار کے علاوہ اتنی زادہ چدائی بھی نہیں کروأ ئی تھی اور ویسے بھی اُسے چُودائی کیے ہوئے بھیھ کافی دن ہو چکےتھے اِس لیے بھی اسکی چوت واپس أپنی جگہ پر جاچکی تھی . پِھر باجی نے اپنا ہاتھ بانوكے ایک دودھ پر رکھا اور اس کو پکڑ کردبانے لگی تاکہ اُسے راحت ملے اور کچھ دیر بَعْد ایسا ہی ہوا اور مین بھیھابھی آہستہ آہستہ آہستہ بانوکی چدائی آدھے لنڈ سے ہی کرنے لگ اور بانوبھی چودائی کے مزے سےمست ہو گئی ۔
                اور خوب انجوئے کرنے لگی۔
                اور پِھر اسی دوران مین نے ایک اور جھٹکا مارا اور اپنا پُورا لنڈ جڑ تک بانوکی چوت کے اندر پہنچا دیا اور بانو یکدم جیئسے تڑپ اُٹھی مگر برداشت کر گئی کیوں کہ وہ بھی بھیا کہ اِس لمبے اور موٹے لنڈ کا مزہ لینا چاہتی تھی جس سے کہ اسکی دونون بہنین بھی بہت خوشی سے گانڈ اور چوت کی چُودائی کرواتی ھین۔
                کچھ دیر بَعْد بانوکو کچھ راحت محسوس ہوئی تو مین نے پِھر چُودائی کرنی شروع کی اور اپنا لنڈ کبھی برہ کی بہن بانو کی چوت کے اندر لے کے جاتا اور کبھی ہلکے جھٹکے سے واپس کنارے تک باہر لے کے آتا اور باجی فرحی بانو كے مموں کو مسلسل دبا رہی تھی اور پِھر کچھ دیر بعد پھر سے بانو جوش میں آ گئی اور مزے سے مدہوش ہو کے آوازیں نکا لنے لگی ہاۓ بھیا ذرا زور سے چودو ہاۓ پھا ڑ دو میری چوت کو اور اندر گہرائی تک کرو ۔اوف بھیا ہاۓ باجی بہت مزہ آ رہا ہے ہاۓ . ۔
                ​اور مین بھی بہت دِل جمعی کے ساتھ بانو کی چدائی کرتا رہا اور پِھر ذوہبی بھیا جب تھوڑے تھک گئے تو انہوں نے بانو سے کہا اب تم میرے اُوپر چڑھ کے چدائی کرواو اور خود بیڈکے اوپر پیٹھ کے بل لیٹ گئے تو باجی نے پھر سے انکےلنڈ کوپکڑا اور بانوکی چوت کا رستہ دکھایا اور پِھر آہستہ آہستہ سارے کا سارا لنڈ دوبارہ سے بانوکی چوت میں داخل ہو گیا ۔
                اب بانو مزے سےاُوپر نیچے ہو كے چُودائی کرنے لگی اور اسکے ممے بھی ساتھ اچھل رہے تھے اور بھیا اپنے ہاتھون سے ان سے کھیلنے لگے اور پِھر باجی بانو کی گانڈ کی طرف آ گئی . بانو کا منہ ذوہیب كی طرف تھا تو باجی اس کی گانڈ سہلانے لگی اور پِھر اپنی انگلی پر تھوک لگا کے باجی نے بانو کی گانڈ کے سوراخ میں ڈال دی اور بانو حیران ہو گئی مگر اُسے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی کیوں کہ وہ بہت مزے سے چُودائی کر رہی تھی .۔
                اب بانو پورے جوش سے اپنی چوت اور گانڈ کی چدائی اچھل اچھل کے کرنے لگی اور اسی دوران بانو سے مین نے کہا کے وہ چھوٹنے والا ہے تو بانونے بھی کہا کہ وہ بھی چھوٹنے والی ہے اور پِھر اور بھی جوش میں اچھلنے اور چُودائی کرنے لگی اور کچھ دیر کے بعد ذوہیب کےلنڈ کو بانوکی پھدی نے زور سے جکڑ لیا اور پِھر پہلے بانو اور پِھر مین آگے پیچھے چھوٹے اور بانو فارغ ہوتے ھی کپکپاتے بدن کیساتھ میرے اُوپر گر پڑی ۔۔
                تو ذوہیب اُسے بہت جوش سے أپنے ساتھ لیپٹا کر چومنے لگے اور اس کے مست جسم کی تعریف کرنے لگے کہ اسکی ہر چیز پرفیکٹ ہے اسکے ممے ، پھدی ، گانڈ ، چوتڑر ، ہونٹ اور اسکا رنگ بھی بڑا گورا ہے اور پِھر چدا ئی بھی جم كے کرواتی ہے وغیرہ . ۔
                اتنی دیرمیں مین پِھر گرم ہونے لگا اور اسکے مموں کو بہت جوش سےچوسنے لگ پڑا اور پِھر باجی فرحی کے کہنے پر اسکی بہن بانواور مین69 پوزیشن میں آ گئے اور بانو اپنے بہنوئی کا لنڈ اور وہ اس کی چوت چوسنے اور چاٹنے لگے اور جلد ہی ذوہیب کا لنڈ پِھر تن گیا اور اس نے کہا کہ اب وہ بانوکی گانڈ ماریں گے .۔
                لیکن بانونے ذوہبی کومنع کردیا
                اسنے منع کر دیا اور کہا پِھر کبھی صحیح ابھی بس چوت کی پیاس بھجاؤ جو بڑے عرصے سے پیاسی ہے کیوں کہ فرح اور ذوہیب یہی سمجھتے تھے کہ بانو ابھی کنواری ہے . اِس دفعہ پِھر مین نے بانوکو گھوڑی بنایا اور ڈوگی اسٹائل میں اپنا لنڈ پیچھے سے اس کی چوت میں ڈال دیا اور ساتھ فرح كے مموں سے کھیلنے لگا۔
                اور پھر کچھ دیر بانو کی چدائی کرنے کے بعد مین نے باجی سے کہا کہ وہ اگلی طرف آ جائے تاکہ بانو بھی اپنی باجی کی چوت چاٹ سکے اور پِھر باجی آگے آ گئی اور اپنی پھدی بانو کے منہ کے پاس کر دی اور پھر وہ باجی کی چوت چاٹنے لگی اور باجی بھی مزے سے مدہوش ہو گئی اور وہ بھی مزے میں آ کے آوازیں نکا لنے لگی اور اہ ذوہبی ہایے بانومزہ آ گیا آج چدائی کا کہنے لگی۔
                اور مین یہ مدہوش باتیں اور آوازیں سن کے زور زور سے چودنے اور اسٹروک ما رنے لگا اور پِھر فرحی اور بانوبھی جوش میں آ گئین۔
                اب مین اپنا پُورا لنڈ بانو کی چوت سے نکا ل کے ایک ہی جھٹکے میں اندر ڈال دیتا اور بانوبھی مستی چوتڑ ہلا ہلا کے چدوا رہی تھی . کچھ دیر بَعْد ھبانو پھر سے فارغ ہونے والی تھی تو مجھ سے کہنے لگی زور سے بھیاپھا ڑ ہی ڈالو آج میری چوت اور زور سے جھٹکے لگاؤ بہت مزہ آ رہا ہے اور چودو میری چوت اور آوازیں نکا لنے لگی اور زور سے چودو مجھ کو بھیا۔
                ذوہیب اب پورےجوش اور طاقت میں اسٹروک ما رنے لگے اور پِھر بانونے اپنی پُھدی سے لنڈ کو ایک مرتبہ پِھر جکڑ لیا اور فرحی اور ذوہیب سمجھ گئے کہ اب بانو پھر سے بالکل چھوٹنے کے قریب ہے تو مین نے جھٹکوں میں اور بھی تیزی کر دی اور پِھر بانو چھوٹ گئی اور پر سکون ہو گئی ۔
                مگر ذوہیب اب بھی مسلسل دھکون سے لگاتار چُودائی کر رہے تھے اور نہیں چھوٹے تھے .۔
                پِھر انہوں نے اپنا لنڈ نکا ل لیا اور فرح سے کہا کے وہ لنڈ چوسے اور لنڈ اسکے منہ میں ڈال دیا
                اور فرحی باجی ایکسپرٹ رنڈی کی طرح میرے لنڈ کو چوسنے لگی .
                ذوہیب بھی خوب انجوئے کر رہے تھے اور مدہوش کن آوازیں نکال رہے تھے آہ آہ آہ اوہ اور رنڈی زور سے چوسو اپنے بہنوئی کا لنڈ زور سے چوپو اور چوپو بہت ترسایا اور تڑپایا ہے تم نے گشتی کی بچی بہت اور پِھر بالوں سے پکڑ كے زور زور سے جھٹکے ما رنے لگے
                تو بانو اور فرحی سمجھ گئی کہ اب وہ چھوٹنے والے ہیں اور پِھر کچھ ہی دیر بَعْد انہوں نے اپنا پانی فرحی کے منہ میں نکال دیا جس کو بانو اور ذوہیب کے منع کرنے کے باوجود فرحی نے مکمل أپنےءپیٹ مین اتار لیا ۔
                پِھر ذوہیب نے بانو کو مظبوط سے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور پیار کرنے لگے . . کچھ دیر بَعْد جب انکا جوش ٹھنڈا ہوا تو ٹائم دیکھا تو صبح ہونے والی تھی تو انہوں نے کپڑے پہنے اور پِھر بانو نے بھیا سے پوچھ ہی لیا ذوہبی سے کہ کیا آپ نے میری ممی کی بھی چدائی کی ہے۔
                تو وہ پہلے توہنس پڑے اور پھر پوچھا کیوں تم سے کس نے کہا تو بانونے کہا۔
                نہین بھیا ویسے ہی پوچھ رہی ہوں آپ نے ابھی باجی فرحی کو گشتی كی بچی جو کہا تھا ۔
                تو ذوہیب نے کہا ہاں بانو کئی دفعہ مین انہین بھی چودا ہے۔اور یہ بات برہ اور فرح کو بھی معلوم نہین تھی۔آج . ۔میں نے تمھاری چوت کے مزے سے مدہوش ہو کے اتنی دیر سے چھپایا ہوا راز خود اگل دیا اور فرحی کوگشتی کی بچی کہ دیا ۔ تمہاری مان کو پتہ ہے کی برہ کیساتھ فرح بھی مجھ سے چودائی کرواتی ھے اور میرے ھی بچے کی ہی مان بنی ھے۔
                اب مین اُسے بتاوں گا کہ اسکی تیسری بیٹی کی بھی مین نے چدائی کر ہی دی آخر میں نے مگر بانو نے کہا پلیز بھیا ممی کو نا بتانا ورنہ وہ مجھے بہت بہت ماریں گی . ارے نہین مارین گی ذوہیب نےبانو سے کہا نہیں ما رتی وہ بھی تومجھ سے اپنی چوت ٹھنڈی کرواتی ہے نا مگر پِھر بانو كے کہنے پر مان گئے کہ نا ہی ممی کو اور نا ہی کسی اور کو اِس چُودائی کا بتائیں گے . پِھر وہ تینون ایک ساتھ ہی ایک گھنٹے کے لیے بیڈ پر ننگے سو گئے
                اور سب سے پہلےبانو نے اٹھ کر ناشتہ بنانے کے بَعْد برہ آپی کےکمرے مین آ گئی اور پِھر برہ کو اٹھانے کے بَعْد
                اسے اپنی رات کی چودائی بتائی مکمل تفصیل کے ساتھ ایک ایک بات اور دلفریب منظر کی باریکون کے ساتھ۔
                مگر جب برہ کو آپنی مماکا ذوہیب سے چدنے کا پتہ چلا تو وہ أچانک؟؟؟؟۔
                ۔نیو اپڈیٹ۔
                ۔ارشد کی زبانی۔
                دوستواور ساتھیو۔آپ سبھی کا
                کیا حال ہے۔ امید کرتا ہوں آپ سب خیریت سے ہوں گے
                ذوہیب کی یاداشت واپس آنے کے بعد وہ آپنی فیملی اور سالیون بانو .فرح آپی کو لے کر لاھور واپس چلا گیا تھا۔
                اس لئے مین اب آپنی کہانی آپ کو مزید آگے سنانے جا رہا ہوں۔۔
                ان کے جانے کے بعد مریم اور مین ھم دونوں بھی آپنے گھر واپس چلے آئے۔پھر مین جب آپنی مان سے ملا تو انہون نے مجھے بتایا کہ میرے ابو ان قتلون کے کیسزز کیوجعہ سے پکڑنے سے جیل میں قید ھو چکے ھین۔ اور اس دشمنی کے پیدا۔ ہونے کی وجہ سے افراء آپی بھی نعیم کے گھر پر رہنے پر پابند ھے۔ جس سےسب کافی پریشان رہتے آئے ھین ۔
                دوستو جیئسا کہ آپ جانتے ہی ھین کہ میں نے 16سال کی عمر میں ہی گانڈ مروانا شروع کر دی تھی۔ اور اب بھی مجھے مروائے بنا چین کہاں ملنا تھا۔ اسی لئے مین پھر سے أپنی پرانی روٹین مین چلا گیا
                ایک دن میں اپنے ایک پرانے دوست سے گانڈ مروا رہا تھا تو اس نے کہا یار تمہاری ماں تو اب بہت بڑی رانڈ بن چکی ہے اس نے مجھے مزید بتایا کہ تمہاری ماں کا بہت لوگوں کے ساتھ افیئر چل رہا ہےتو میں نے اس کو جھٹلاتے ہوئے جواب دیا کہ میری ماں اب ایسی عورت بلکل نہیں رھی ہےتو اس نے مجھے کہا تمہاری ماں تم سب کو نیند کی گولی کھلا کر سلا دیتی ہے اور پھر بعد میں خود مزے کرتی ہے۔
                پھر اس نے کہا اگر تمھین میری بات آزمانا ھے تو تم کوشش کرنا کہ آج رات کو کچھ بھی نہیں کھانا اور ماں کو پتہ نہ چلے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کھایا۔
                پھر میں اس دن میں رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ رات کو میں نے کھانا وغیرہ کچھ نہ کھایا اورنہ ہی چائے اوردودھ پیااور پھر ہم دونوں مریم اور مین اکٹھے بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگ گئے
                پھر تقریبأ دو گھنٹوں کے بعد موم آئی اور ٹی وی اور لائٹ دونوں بند کر دی اور ھم سے کہا آپ سو جاؤ میں اور میریم ایک ہی کمرے مین ہم دونوں لیٹ چکے تھےمیریم تو بہت جلد سو گی اور مجھے نیند نہیں آ رہی تھی میں تو بہت بے چین ہو رہا تھا وہ سب کچھ دیکھنے کے لئے جو کچھ میں نے اس دوست سی سنا تھا۔اور پھر دو گھنٹوں کے بعد آمی نے واپس آ کر لائٹ آن کی اور ہم دونوں بہن بھائی کو غور سے دیکھا توبظاہر ہم دونوں سو رہے تھے میں تو سونے کا بس ناٹک کر رہا تھا پھر امی نے لائٹ آن کرکے ادھر ھی اپنے کپڑے چینج کیے۔
                اس دن میں نے امی کوپھر سے مکمل ننگا دیکھا اور امی کو ننگا دیکھ کر میں تو حیران رہ گیا۔وہ اب پہلے سے بھی زیادہ شہوت انگیز شباب کی مالک ہو چکی تھین۔
                پھر امی نے برا پہنا اور پینٹی بھی آدھے گھنٹے بعد امی نے جب دروازہ کھولا تو اس دن۔سینمے ہال مین ملنے والا وہ سیٹھ سرور کمرے کے اندد چلا آیا۔
                امی نے دروازہ بند کیا اور لائٹ بھی بند کردی پھر دونوں ادھر ہی ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔
                امی اور سرور ایک دوسرے کو فرنچ کس کرنے لگ گئے۔پھر امی نے شہوت جزبات سےگرم ھو کر اس کے سارے کپڑے اتارے اور اسے أپنے ہاتھون سے مکمل طور پرفل ننگا کر دیا۔
                اب امی پورے جنون اور رغبت سےاس کا جسم چومتے اور چوستے ہوئے اس کے لنڈ تک آ گئی۔
                امی نے اس کے لنڈ کو ہاتھون مین جکڑتے ہوئے چوپے لگانے شروع کر دیے۔15منٹ بعد امی اٹھی اور اپنے کپڑے بھی اتار دیے۔جیئسے ھی امی کا گدرائا بدن ننگا ہوا سرور نے میری امی کو پاگلوں کی طرح پکڑ کر انہین چومنا شروع کر دیا۔
                تقریباً آدھا گھنٹہ وہ وحشیانہ انداز سے انہین چومتا اورچاٹتا رہا
                اس کے بعد سرور نے جھک کر میری امی کی رستی ہوئی چوت چاٹنا شروع کی امی بھی بہت گرم ہو گئ اور سیکسی آوازیں نکالنا شروع کر دی آہ جانو بہت مزہ آ رہا ہے
                آہ زور سےچاٹو پلیززززز
                میری پھدی کی آج بھڑکتی آگ ختم کرو
                آہ افففففففف جانو
                مزہ آگیا جانو
                اففففففففففف
                آہہہہہہہہہہہہ
                پھر اس نے میری امی کو ڈوگی اسٹائل سے کتیا بنایا اور اپنا 6 انچ کا لمبا لن امی کی پھدی پے رکھا دیا۔
                اب سرور میری امی کی پھدی کے اوپر اپنا لن سے چھیڑ چھاڑ کررھا تھا جس سےمیری امی گرم ہو کر تڑپنے لگی اور میری امی سرور سے اصرار کرنے لگی پلیز جانو اسے اندرڈالو پلیززز اندر ڈالو پلیزززز
                ایک سخت ترین جھٹکے سے پھدی کو چیر کر اندر ڈال دو نب جانو پلیزززز
                مگر سرور پھر بھی یونہی امی کی پھدی پر لن کو رگڑتا ر ھا اب امی نے زور شور سےچلانا شروع کی سرور پلیززز اندر ڈالونا پلیز آپنے لن کواندر ڈالو اب سرور نے آہستہ آہستہ امی کی پھڈی کے اندر لن کو ڈالنا شروع کردیا مگر امی نے اب بھی اسی طرح چلانا جارھی رکھا۔
                پھر سرور نے یکدم اچانک سے پورا لن باہر نکال اور سخت ترین جھٹکے سے سارے لن کو اندر ڈال کر جھٹکے مارنا شروع کردیا۔
                جس سے امی اب مزے سے سسکنے تڑپنے لگ گئی اور ساتھ سرور سے امی کہے جا رہی تھی ہان میرے دل کے بادشاہ مجھے چود مجھے اسی طرح سےچود اب سرور نے اپنے جھٹکوں کی رفتار بہت تیز کردی جس سے امی کو بہت مزہ آ رہا تھا امی کہہ رہی تھی جانو اور تیز کرو بہ اوف اھ اوفف اورتیز جھٹکے مارو۔
                سرور کی مسلسل تیز دھوان دھار چودائی سے بیس منٹ کے بعد جب اس کا پانی نکلنے لگا تو اس نے امی کو بولا کہ جانو میرا پانی نکلنےوالا ہے کیا کرنے ہے اسے اندر ڈال دوں یا اسکو پینا ہے تو امی نے کہا کہ آپ فارغ ہونے کے پعد میرے منہ مین پھینک دینا۔
                پھر سرور کا جییسے ہی پانی باہر نکلا تو اس نے اپنا پانی امی کے منہ پر پھینک دیا اور امی نے اپنی زبان سے وہ سب پانی چاٹ لیا۔
                پھر وہ دونوں ھیءشانت ھو کراکٹھی لیٹ گئے۔
                تو امی نے سیٹھ سرور سے کہا کہ اب ہمیں کچھ دن کا وقفہ کرنا چاہیے کیونکہ کہ ہم پچھلے 2 مہینے سے لگاتار چودائی کیے جا رہے ہیں۔اور اب میرا بیٹا ارشد بھی لاہور سے واپس آچکا ھے کہین وہ ہمین دیکھ ھی نہ لےاس نے کہا ہاں ٹھیک ہے ہمیں اب کچھ دن دور رہنا پڑے گا۔
                اور پھر سرور نے امی کو کہا کہ تیرے بیٹے کو اگر ابھی پتہ چل گیا توامی نے کہا نہیں پتہ چلے گاپریشان نہ ہو مین نے سب پکا کام کیا ہوا ھےاب میں کوسش کر رہی ہوں کہ آپنی چھوٹی بیٹی کی کہین شادی کر دون وہ اب مجھے بہت تنگ کرتی ہے۔میرا بیٹا تو بہت بھولا بھالا اور سادا ٹھیک ہے۔بس آپ سے کچھ پییسون کی ضرورت پڑے گی۔ سیٹھ سرور نے مان کو پیئسے دینے کا وعدہ کیا اور پھر ایک بار مما کی جم کر زور دار چودائی کر کے وہ واپس چلا گیا۔
                پھر ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد امی نے پھر اپنے ایک اور عاشق کو کال کی۔
                امی نے اس کو کال کرکے بتایا کہ جانو جلدی سے میرے گھر آ جاؤ اور اس بار جی بھر کے میری چودائی کر لینا کیوں کہ یہ ہمارا اس سردیوں کا آخری سیکس ہوگا پھر اس کے بعد اگلی ہی سردیوں میں ہمیں موقع ملے گا۔
                اس نے امی کو جواب دیا کہ اس بار مین واقعی مین ایسا ہی کروں گا کہ تم کو پوری گرمیاں یہ سیکس نہیں بھولے گا اگر کہو تو مین ایک آدمی مذید ساتھ لے آؤں تو تم کو کوئی پرابلم تو نہیں ہوگی۔
                امی نے اسے کہا کہ مجھے دو آدمیون سے بھی کوئی پرابلم نہیں۔بلکہ تم دو کیا بیشک دس آدمی ساتھ لے آؤ لیکن پرابلم یہ ہوگی کہ وہ کسی کو بتا نہ دے تو اس نے آگے سے امی کو کہا کہ وہ میرا بہت پکا آدمی ھے وہ کسی کوکچھ نہیں بتائے گا تم بلکل پریشان نہ ہو ہم دو لوگ آئیں گے اور آپ کے ساتھ وہ سبھی کچھ کریں گے جو کچھ تم چاہو گی تو امی نے کہا ٹھیک ہے میں ابھی کچھ دیر تک تم کو بتاؤں گی کس ٹائم آنا ہے۔
                اس نے امی کو کہا کہ ٹھیک ہے میں آپ کی کال کا انتظار کر رھا ھوں۔
                میں أپنی آنکھین بند کئے یہ سب کچھ سن رہا تھا
                اور یہ سب کچھ سننے کے بعد میرا دماغ بہت خراب ہوا میں نے آپنے دل مین کہا کہ امی کتی چھنال اورچوداسی ھین نہجانے انکی پھدی مین اتنی کیوں آگ بھڑک رہی ھے ۔
                میں سوچنے لگا کہ امی کے اندر اتنی سیکس کی ہوس ہے اتنی چودائی ہونے کے بعد بھی وھ مزید دو دو آدمیوں سے چدوانے کیلیے انتظام کیے جا رہی ھین.
                ساتھ ہی میںرے ذہن مین یہ خیال دوڑنے لگا کہ ابھی اور بھی بہت سے امی کے عاشق ہونگے جنہوں نے امی کو چودا ہوا ہے۔مجھے اب ان سبھے کے بارے مین سب کچھ پتہ کرنا ہی ھو گا
                یہ سب کچھ پتہ کرنے کے لئے میں خاموش تماشہ دیکھ رہا تھا کہ امی کس سے اور کب کہاں اور کیسے چدوا تی ہے لیکن مجھے یہ نہیں تھا پتا کہ کتنے آدمی ہے
                پھر امی نے آدھے گھنٹے بعڈ اس أدمی کو کال کی اور کہا کہ أدھے گھنٹے کو آجانا مین نے سب انتظام کر لیا ھے اس لیے تم جو چاہے کر لینا۔
                امی نے اسے مزید کہا کہ اس دفعہ تم کچھ ایسا کرنا کے مجھے یہ سکس زندگی بھر یاد رہے تو اس نے کہا پریشان نہ ہو اس دفعہ ہم دو آدمی ہوں گے اور تم جیسے چاہو گے ہم کریں گے اور تم کو مکمل خوش کر کے ہی واپس جائیں گے
                امی نے کہا تو ٹھیک ہے جانو جتنا جلدی ہو سکے پہنچنے والی بات کرو کیونکہ تمھاری باتون سے میری پھڈی مین بہت خارش اٹھ چکی ھے اور میرا دل یہی کر رھا ہے کہ آپ مجھ کو تین سے چار گھنٹے مسلسل لگاتارچودو۔
                تو انہوں نے امی کو کہا کہ کیا تم نے اپنے بچوں کو سلا دیا ھےتو پھر ہم جلدی سے ہی آجاتے ہئیں
                تو امی نے اس سے کہا جانو تم یہ کیا بتا کر رہے ھو۔
                ایئسے کیوں پریشان ہو رہے ہو میرے بچوں نےپہلے تم کو کبھی پریشان کیا ہے جو ابھی پریشان کریں گے میرا بیٹا اور بیٹی نیند کی گولیاں کھا کر سو جاتے ہیں اور پھر صبح ہونے پر بہت مشکل سے اُٹھتے ہیں۔
                اور میں نے ان کو آج بھی پہلے سے ہی گولیاں کھلائی ھوئی ھین۔بس تم اب جلدی سے آ بھی جاؤ۔ساتھ ھی امی نے کال بند کر دی۔
                پھر تقریبأ آدھے گھنٹے بعد امی اٹھین پھر سے لائٹ ان کی اور لائٹ آن کر کے میری طرف چلی آئین اور مجھے چیک کرنے کیلیے تھوڑا سا ہلایا لیکن میں نہیں اٹھا کیوں کے میں تو بہت بیقراری سے انتظار کر رہا تھا ان دونوں آدمیون کا کہ وہ کب آتے ھین اور امی کے ساتھ اپنے رنگین سنگین تماشہ کو شروع کریں۔
                امی نے جب مجھے دیکھا کہ میں گہری نید سویا ہوں تو امی نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دئیے۔اب مین آنکھون کی ہلکی سی جھری بنا کر انہین دیکھنے لگا۔
                امی کا جسم بہت ہی مست تھا مومے گول گول اور گانڈ کافی بڑی تھی
                امی کو اگر کوئی بھی دیکھ لے تو وہ امی کا دیوانہ ھوجائے چاہے وہ میں ہی کیوں نہ ہون کیونکہ میرا بھی بہت دل کرتا تھا کہ میں بھی اپنی امی کو چودوں۔۔امی نے پھر ایک سیکسی سا ڈریس پہنا اور میک اپ بھی کرنے لگین۔
                اور پھر رات ڈیڑھ بجے وہ دونوں آدمی بھی آگئے اور اندر آتے ہی انہوں نے امی کے ایک ساتھ دبوچ کر انکے گالوں پر کس کی اور چارپائی پر بیٹھ گئے
                تو پھر امی نے دروازہ لاک کیا اور پوچھا کہ بتاؤ کیا خدمت کروں آپ کی کھانے پینے میں تو انہوں نے امی کو کہا کہ خدمت ہمیں یہی چاہیے جو آپ چاہتی ہوں اور کھانے پینے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں بس آپ کا پر شہوت جسم چاہیے بس۔
                امی نے کہا میرا جسم تو آپ کا ہی ہے آپ کیوں پریشان ہو رہے ہو پہلے کچھ کھا پی تو لو۔
                پھر جی بار کر چودائی بھی کر لینگے لیکن ان دونوں نے منع کردیا کہ ہم کچھ نہیں کھائین پئین گے
                پھر امی نے اپنی چارپائی اوپر اٹھائی اور چارپائی کو ایک دیوار کی سائیڈ پرکھڑا کر دیا اور پھر نیچے بچھائی قالین کے اوپر امی نے ایک رضائی ڈال دی اور پھر امی نے اپنی قمیض اتار کر امی ان کے درمیان لیٹ گئی۔اور وہ دونوں بھی امی کے مست جسم کے ساتھ کھیلنا شروع ہوگئے پہلے باری باری امی کے گالوں کو چوم رہے تھے
                پھر ان دونوں نے میری امی کو ممون کوچاٹنا شروع کر دیا جس سے میری امی کو بہت مزا آ رہا تھا میری امی گدرائے ممون پر انکے کھردرے ہونٹون کی گردش سے گرم ھوکر مست ہو رہی تھی اور میں یہ سب نظارہ دیکھ رہا تھا۔
                انہوں نے آہستہ آہستہ میری امی کے ممون کے نپلز کو تیزی سے چوسنا شروع کردیا۔
                تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ابھی بھی ایک آدمی مسلسل میری امی کے گدرائے ممے ھی چوس رہا تھا اور دوسرا میری امی کی پھدی پر پہنچ کر اسے چاٹ رہا تھا۔
                جس سے میری امی بہت زیادہ گرم ہوگین تو میری امی نے انکے کپڑے بھی اتارنے کی کوشش کرنے لگئین ۔
                جس پر ان دونون نے بھی جلدی سے کپڑے اتارتے ہوئے ننگے ہونے لگے۔
                کپڑے اتار کرانہوں نےاپنے کھڑے لن آگے کیے تو امی نے فورأ ایک لن ہاتھ میں پکڑا اور ایک لن منہ میں ڈال لیا جس آدمی کا لنڈ امی نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا وہ میری امی کی پھدی کو چاٹنے لگا ۔
                اور مجھے آپنی امی کے سیکس کا یہ شہوت انگیز نظارہ دیکھ کر بہت اچھا لگنے لگا ۔
                میری امی نے لن کا چوپا لگانے میں اپنی رفتار بڑھا دی اور دوسرا آدمی امی کے ہاتھون سے لن چھڑا کر میری امی کی دونون ٹانگین اٹھا کر ان کی چوت کو چودنے لگا
                اس نے پھر کافی دیر اپنے وحشیانہ دھکون سے لگاتار میری مان کوچودا پھرا سنے اپنا لن پھدی سے نکالا اور میری امی کے منہ کے قریب لے گیا اور اپنا سارہ پانی امی کے منہ کے اوپر گرا دیا
                پھر جس نے پہلے میری امی کے منہ مین اپنا لن رکھا ہوا تھا اس نے بھی انکی پھدی پر پہنچ کر ایک زور دار جھٹکا مار کر لن پھدی کےاندر ڈال دیا اور زور زور سے چودنے لگا
                اب وہ میری امی کو گھوڑی بنا کر انہین زور سے چود رہا تھا جس سےمیری امی کو بہت مزہ آرہا تھا ۔
                اتنی دیر مین پہلے والے آدمی کا لن پھر سے کھڑا ھو گیا اسنے پھر سےآگے بڑھ کر میری امی کے منہ میں اپنا لن ڈال دیا
                اوردوسرے آدمی نے میری امی کی پھدی میں لن ڈالا ہوا تھا اور لگاتار دھنا دھن انہین چودے جا رھا تھا ۔پھر وہ بھی مسلسل چودائی کرنے سےفارغ ہو گیا۔
                کچھ دیر کے آرام کرنے کے بعد پھر امی نے انہین کہا کہ اب ایسا کرو تم دونوں ایک ساتھ مجھے آگے اور پیچھے سے چودو تو پھر امی کی بات سن کر ایک نے امی کی پھدی میں لن کو ڈال دیا اور دوسرے نے امی کی گانڈ میں اپنا لن ڈال دیا۔اور دونوں ھی زور زور سے میری امی کو چودنے لگ پڑے اس بار ان کو فارغ ہونے میں 20 سے بائیس منٹ لگ گئے کیونکہ پہلے انہوں نے ٹائمنگ والی گولی کھایی ہوئی تھی اس لیےاب جلدی فارغ ہو گئے امی بولی جبنو اب کچھ دیر کیلئے ایسے ہی رہنا مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔
                پھر وہ تینون ھی اسی طرح سے لیٹ کر باتیں کرنے لگے اور ممی کا عاشق بولا اگر آپ کے بیٹے کو پتہ چل گیا تو پھر کیا ہوگا تو ماں بولی کے میرے بیٹے کو پتہ نہیں چلے گا اگر پتہ چل بھئی کیا تو میں سنبھال لوں گی آپ پریشان نہ ہوں
                اس پر وہ بولا جانو کیا تمھین پتہ ھے کہ آپ کا بیٹا بہت بڑا گانڈو ہے وہ بھی گانڈو مروآتا ہے اور جو بھی آپ کے بیٹے کی گانڈ مارتا ہے وہ آپ کے بیٹے کو یہی بتاتا ھو گا کہ تمھاری ماں بھی بہت بڑی گشتی ہے
                امی نے کہا ٹھیک ہے صبح میں اس سے پوچھو گی کس کس سے اس نے آپنی گانڈ مروائی ہے۔
                اورہتم بھی مجھے ان سب کا نام بتاؤں تو ممی کے عاشق نے انہین دو تین لڑکوں کا نام بتایا تو امی نے کہا ٹھیک ہے اب میں ارشد صبح اٹھے گا تو اس سے پوچھو گی۔
                اس پر اس أدمی نے امی کو کہا کہ جانو تم اس پیار سے معلوم کرنے کی کوشش کرنا اسے مارنا مت اور بس اس سے اتنا ھی پوچھنا کہ وہ کیوں گانڈ مروآتا ہے
                امی نے کہا میری جان میں اس کو کیون ماروں گی مین تو بس اس سے آرام سے ھی پوچھو گی اگر اسنے صحیح بتا دیا تو کچھ نہیں کہوں گی اور میں اس کو بس یہی کہوں گی کہ بیٹا یہ کام اچھا نہین لہذا تم گانڈ مروانا چھوڑ دو تو۔
                اس آدمی نے نے پھر سے کہا اگر اس کو پتہ چل گیا نا کہ تم بھی چدواتی ہو تو یہہ بھی سوچو لو پھر کیا ھو گا۔
                امی نے کہا۔ارے جانو اگر اس کو پتہ چل گیا تو پھر بھی کچھ نہیں ہوگا کیونکہ وہ خود گانڈو ہے اور ہوسکتا ہے اس کے بعد وہ میری مدد کرنا شروع کر دے تم لوگون سے مجھے چدوانے میں؟؟۔
                ۔نیو اپڈیٹ۔
                آپنی امی کی یہ بات سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں بھی توچاہتا تھا کہ میں امی کے ساتھ اس کام میں مل جاؤں۔
                اب میں سوچ رہا تھا کہ امی نے جب پوچھا تو کیا بتاؤں خیر میں نے پھر سوچا جو کچھ امی نے پوچھا ٹھیک ٹھیک بتا دوں گا
                ادھرامی کے عاشق کےساتھ جو آیا ہوا تھا اس نے اٹھ کر میری امی کو پھر سے چودنا شروع کر دیا میری امی نے کہا آہ اب بس کرو بہت ہوگیا لیکن اس نے امی کی چوت مین زور کےجھٹکے مارنے شروع کر دیے پھر دس منٹ کے بعد وہ فارغ ہو گیا مگر پھر ساتھ ہی دوسرا اٹھ کھڑا اور اس نے میری امی کی گانڈ میں لن ڈال دیا اور دس منٹ تک وہ بھی انکی گانڈ کو لگاتار چودتا رہا اور وہین امی کی گانڈ مین فارغ ہو گیا پھر دونوں اٹھے اور انہون نے کپڑے پہنے
                اور اس عاشق کے جو ساتھ آیا ہوا تھا اس نے میری امی کو پانچ ہزار روپیہ دیا میری امی نے اتنے کم پیئسے دیکھ کر لینے سے انکار کر دیا
                لیکن ا می کے عاشق نے کہا لے لو جانو کوئی بات نہیں یہ مت سوچنا کے تمہیں یہ اس لیے دے رہا ہے کہ اس نے تم کو چودا ہے تو یہ اسکے پیئسےدے رھا ھے اور نہ ہی آپ کو یہ دوبار تنگ کرے گا کبھی چودنے کیلئے۔
                میری جان تمھارا أصل حساب کتاب تو مجھ سے ھے۔ جسے مین ہی پورا کرؤن گا۔
                پھر امی نے وہ پیئسے لے لیے
                اور پھر وہ دونوں واپس چلے گئے تو امی نے انکے جانے کے بعد پیسے سنبھال لئے۔
                اب میں نے پھر سے سوچا کہ صبح میں امی کو کیا جواب دوں گا ؟
                کیونکہ امی صبح اٹھ کر مجھ سے ضرور پوچھے گی خیر
                میں یہی سوچتے سوچتے نہجانے کب سو گیا۔
                مین جب صبح اٹھا تو امی پہلے سے ہی اٹھ گئی ہوئی تھی امی نے اٹھ کر مجھے بھی اٹھایا اور امی نے ابھی تک کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے وہ بالکل ہی ننگی تھی۔
                باہر سے آتی أوازون سے لگ رہا تھا کہ مریم آپی کچن مین کام کرنے مین مصروف ھین۔
                امی نے مجھے اٹھا کرکہا کہ ارشد بیٹا آپ ایسا کرو کہ تیل لے کر آؤ اور میرے جسم کی مالش کرو آج میرا جسم بہت درد کر رہا ھے۔
                ان کی بات سن کرمیں اٹھا اور اٹھ کر تیل لا کر امی کے پاس گیا اور امی کے ننگے جسم کی مالش کرنے لگا۔
                جب مین امی کے جسم کی مالش کر رہا تھا تو امی نے مجھے کہا کہ بیٹا تم مجھے ایک بات تو بتاؤ ۔
                مجھے یقین ہو گیا کہ اب امی وہی رات والی بات مجھ سے پوچھیں گی میں نے دھیمے لہجے میں امی سے کہا کہ جی امی ضرور پوچھیئے۔
                تو امی نے کہا کہ بیٹا مجھےسچ بات بتانا جھوٹ نہیں بولنا پھر میں تم کو کچھ نہیں کہوں گی۔
                میں نے امی کو کہا امی جی آپ پوچھئے نا۔میں آپ کو سب سچ سچ بتاؤں گا اور جھوٹ تو بلکل نہیں بولوں گا۔
                امی نے کہا کہ ارشد بیٹا کیا آپ اپنے دوستوں سے گانڈ مرواتے ھو ۔
                انکی بات سن کر میں تھوڑا سا شرما گیا ۔جج جی امی مگر آپ کو یہ کس نے بتایا ہے۔
                تو امی نے کہا بیٹا یہ بات بہت غلط ہے تم جو کچھ کر رہے ہو یہ انتہائی گندہ غلیظ اور گھناؤنا فعل ہے۔
                میں نے امی کو پھر سے پوچھا مگر امی آپ کو یہ سب کس نے بتایا ہے۔
                امی نے کہا بیٹا جس نے بھی بتایا ھو تم اس بات کو چھوڑو کیا تم یہ جانتے ھو کہ یہ سب غلط کر رہے ہو۔؟
                تو پھر میں نے امی کو کہا سوری امی جی میں آئندہ کسی سے اپنی گانڈ نہیں مرواؤن گا۔
                امی نے کہا۔اوکے ٹھیک ہے بیٹا اب اگے سےاحتیاط کرنا یہ بات بلکل اچھی نہیں ہے۔
                اگرکسی اور کو پتہ چلے گا تو پھر ہمارے لیے بہت مسئلہ ہوگا
                آپ کے ابو تو پہلے ہی جیل میں ہیں اور تھاری بڑی آپی فرواء اس کمینے نعیم کے چنگل مین پھنسی ہوئی ھے۔
                اب اگر تم بھی ایسا کرو گے تو پھر یہ سارے محلے والے مل کر ہمارے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھیں گے۔
                میں نے امی کو کہا ٹھیک ہے امی آئندہ کسی سے بھی نہیں کرواوں گا ۔اب آپ بلکل پریشان نہ ہوں ۔
                تو پھر امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹا آپ میرے جسم کی مالش کرو اور دل بھی تیل زیادہ لگا لینا میں نے کہا ٹھیک ہے امی میں آپ کے سارے بدن کی اچھی سی مالش کرتا ہوں۔
                میری بات سنتے ہی امی نے ساتھ ہی کہا کہ ارشد بیٹا آپ ایسا کرو کہ اپنے کپڑے بھی اتار لو کیونکہ آپ کے کپڑوں کو تیل لگ جائے گا۔
                میں نے کہا۔اوکے ٹھیک ہے امی مین اپنے کپڑے اتار کر انڈروئیر پہن لیتا ہوں تو امی نے کہا ۔بیٹا اس کی بھی ضرورت نہیں ھے۔ میں بھی تو تمھارے سامنے بلکل ننگی لیٹی ہوئی ہوں۔اب اگر آپ بھی کپڑے اتار دو گے تو اس سے کچھ نہیں ہوگا۔
                پھر میں نے امی کی بات سمجھ کر کپڑے اتارنا شروع کیے اور سارے کپڑے اتار کر میں امی کی مالش کرنے لگا۔
                امی کے مست مدہوش بدن کو دیکھ کر میرا لنڈ بھی کھڑا ہو چکا تھا اور ساتھ ہی میرا لنڈ امی کے ننگے جسم کو ٹچ بھی ہورہا تھا ۔
                جب میرا گرم لنڈ امی کے نرم وملائم ٹھنڈے جسم کو ٹچ ہوتا تو امی کے جسم کو ایک کرنٹ سا لگتا۔
                میں امی کی سارے جسم کی مالش کرتے ہوئے اب انہین الٹا لٹا کر کندھون کو دبائے جا رہا تھا اور میرا کھڑا لنڈ امی کی گانڈ کی گہری دراڑ مین پھنسا ھوا ساتھ چوت کے اوپر ٹچ ہو رہا تھا۔جس سے وہ مدہوش ہوتی ہوئین مخمور سحر انگیز أہین بھرنے لگین۔
                پھر کچھ دیر گزرنے کے بعد امی نے مجھے کہا بیٹا اب ایک بار ایسا کرو کہ ٹانگوں سے لیکر میری گردن تک اچھی طرح تیل لگاؤ اور پھر انکی أرام سے مالش کرو ۔
                مین انکی اس بات مین چھپے مقصد کو فوری طور پر جان گیا۔امی کا دل کر رہاتھا کہ مین اب انکی مست دلفریب گانڈ اور رستی چوت کا اچھی طرح سے نظارہ دیکھون۔
                پھر میں نے امی کی ٹانگوں سے لے کر گدرائی گانڈ کی پہاڑیون کو بھی دونون ہاتھون سے دبا کر مسلتے ہوئے انہین اچھی طرح تیل لگایا ۔
                اب امی نے پھر سےسائیڈ چینج کی اور مین نے انکے آگے والے سبھی حصون کو یعنی چکنی ملائم رانوں اور پھولے ہونٹون والی پھدی کو بھی تیل لگایا ھی تھا۔ کہ امی پھر سے الٹی لیٹ چکی تھین۔ درآصل وہ میرے لنڈ کی خرمستیون سے شہوت وجزبات مین آکر بہت زیادہ گرم ہوگئی تھین۔
                رستی ہوئی چوت کی کجھلی اورخارش انہین کہین بھی سکون و چین سے لیٹنے نہین دے رہی تھی۔
                میں پھر سے موم کے جسم کی مالش کرنے لگا امی کے کندھون کی مالش کرتے کرتے میں نے جلدی سے اپنے لنڈ کے اوپر بھی تیل لگا لیا میرا لنڈ ایک دم کڑک ھو کر کھڑا ھو چکا تھا کیونکہ میرا دل کہ رہا تھا کہ آج کچھ نہ کچھ ضرور ھو گا۔
                پھر میں نے جونہی موم کی صراحی دار گردن کی مالش کرنا شروع کی تو موم کی گانڈ پر تیل لگنے کی وجہ سے میرا لنڈ سلپ ھوکر موم کی گانڈ کے سوراخ کو چیرتے ہوئے ان کی گانڈ کے اندر آہستہ آہستہ سے جانے لگا تھا۔
                میرے لنڈ کی اس حرکت سے بھی موم بالکل خاموش تھین وہ مجھ سےکچھ نہیں بولی کہ بیٹا تم یہ کیا کر رہے ہو۔
                میں بھی پیچھے سے ہلکے ہلکے جھٹکے مارنے لگا اور ساتھ ساتھ امی کو اب بھی مالش کیے جا رہا تھا۔
                مالش کرتے کرتے مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب میرا سارا لنڈ ھی جڑؤن تک موم کی گانڈ میں چلا گیا۔ تب جا کر موم مجھ سے مصنوعی غصے سےبولین ارشد بیٹا تم نےیہ کیا کر دیا ھے؟۔
                میں نے ڈرتے ہوئے تیزی سے امی کو کہا کہ امی جی ویری سوری مجھے پتا ہی نہیں چلا ۔کہ کب میرا لنڈ سلپ ہو کر آپ کی گانڈ میں چلا گیا۔
                اب آپ ھی مجھے بتائین کہ مین بھی کیا کرتا۔ آپ بھی تو میرے سامنے بلکل ننگی لیٹی ہوئی ہو اور آپنےساتھ مجھے بھی فل ننگا کیا ہوا ہے لن تو کھڑا ہوگا ھی تو امی نے کہا ۔
                ارے ارے بیٹا تم اتنا ڈرتے کیون ہو یہ تو اتنی کوئی خاص بات نہیں ہوئی ھے۔ بیٹاجہاں اتنے زیادہ لن اسکے اندر چلے گئے ہیں ایک تمہارا بھی چلا گیا ہے۔
                تو کیا ہوا تمہارا بھی تو مجھ پر حق بنتا ہے ۔تمھاری امی کی گانڈ پہ جہاں سارے محلے والے چڑھتے ھین ۔اور تمہاری مست امی کی چدائی کرتے ہیں آج تم بھی کر لو گے تو کیا ہوگا اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
                امی کی یہ بات سن کر میں بہت خوش ہوا کیوں کہ مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ امی بہت سے لوگوں سے چدوا چکی ہے اور ویئسے تو میرا دل تو ابھی بلکل نہیں تھا امی کو چودنے کا۔
                کیونکہ میرا دل تھا کہ اپنی امی کو مین تب چودوں جب خود امی کا دل بھی مجھ سے چدوائی کروانے کا ہو۔
                لیکن مجھے امی کی چدائی کا اسی وقت موقع مل گیا۔
                پھر انکی گانڈ کی گہرائیون مین ہی لنڈ گھسائے بہت أرام اور سکون سےامی کے اوپر ھی لیٹ گیا ۔
                اب امی نے مجھ سے کہا اوپر لیٹنے کا اب کیا فائدہ بیٹا ابھی آپ جلدی سے اپنا پانی نکالو اپنی امی کی گانڈ میں۔
                میں نے رات کو اپنی گانڈ مین دو بڑے بڑے لنڈ لئے ھین اور اب آپ کا بھی لے لوں گی تو مجھے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔بس تم تھوڑا جلدی کرو کہین مریم ہی اندر نہ آ جائے۔
                پھر میں نے یہ بات سن کر اپنی امی کی چدائی شروع کردی زور زور سے لنڈ کے گانڈ مین جھٹکے مارنے لگا تو امی نے کہا کہ لگتا ھے بیٹا تم تو چدائی کے بہت بڑے ماسٹر ہو کس طرح سے مجھے وحشیانہ اندازسے چود رہے ہو ۔
                میں نے کہا نہیں امی یہ سب کچھ تو آپ کی چدائی دیکھتے ہوئے مین نےسیکھا ہے کیوں کہ آپ نے بہت سے لوگوں سے چدوایا ہے۔
                حالانکہ مجھے نہیں پتہ آپ نے کتنے لوگوں سے چدوایا ہوا ہے تین چار کے ساتھ آپ کو چدوائی کرواتےتو میں نے بھی دیکھ لیا ہے۔
                تو امی نے کہا بیٹا وہ تین چار کون کونسے ہیں تو میں نے امی کو کہا ایک وہ سینمے والا ٹھیکدار سرور ایک آپ کا کزن جمال اور ایک فرواء آپی کو یرغمال بنانے والا انکل نعیم اور ایک قمر بھائی ان چاروں نے آپ کو میرے سامنے ھی آپ کو چودا ہے اور میں نے آپ کی وہ شہوت انگیز چودائی کے مست نظارے کو خود دیکھا ہے باقی لوگون کا مجھے ابھی نہیں پتا۔
                تو امی نے کہا اوکے بیٹا باقی سبھی لوگون کا میں آپ کو خود بتا دوں گی آپ پریشان نہ ھو۔
                آپ کو مین سب کچھ تفصیل سےبتاؤں گی ۔کہ کس کس سے کب کہاں اور کیسے مین نے چدوایا مین پوری ڈیٹیل سے آپ کو سب کچھ بتاؤں گی آپ ابھی اپنا کام پورا کرو۔
                پھر میں نے امی کی گانڈ مین گھسے لنڈ کو زور زور سے جھٹکے مارنا شروع کر دیے پھر پانچ منٹ کے بعد میرا پانی نکل آیا
                میں نے اپنے لنڈ کا لیسدار پانی اپنی امی کی گانڈ کے اندر ہی نکال دیا۔
                تو امی بہت خوش ہوئی بول اٹھین بیٹا جہاں بہت سے لوگوں نے یہاں پانی پھینکا ہوا ہے یہاں تیرا بھی نکل گیا تو یہ بہت ہی اچھا ہوا۔
                اب پھر میں امی کے ممے منہ میں لے کر چوسنے لگ گیا تو امی بولی بیٹا کیا اب دودھ بھی پیو گے اپنی ماں کا ۔
                میں نے کہا امی جہاں اتنے سارے لوگون نے پی لیا ہے تو تو پھر مین کیون نہین۔؟؟
                آپ میری ماں ہین اور میں نے تو یہ پہلے بھی پیا ہوا ہے اور آب بھی پی لونگا تو کیا ہوگا تو امی بولی اچھا بیٹا چلو جتنا مرضی ہے پی لو۔
                لیکن بیٹا یہ بات کسی کو نہیں بتانا۔
                میں نے امی سے کہا کہ میں یہ سب کیون کسی کو بتاؤں گا آپ پریشان نہ ہوں؟؟.۔
                ۔نیواپڈیٹ۔
                امی کے مست ملائم ممون کو چوستے ہوئے. میرا لنڈ پھر سے کھڑا ہو گیا ۔
                میں نے امی کو کہا کہ اب میں اب اپنے لنڈ کو تمہاری پھدی میں ڈالون گا تو امی بھی بول پڑین اوکے بیٹا تم بھی اسے ڈال لو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ھے۔
                پھر میں نے ایک سخت ترین جھٹکے سے امی کی پھدی میں جب اچانک سے لنڈ ڈالا تو امی چیخ اٹھین اور میں حیران ہی رھ گیا۔
                جسے دیکھ کر امی نے کہا کہ کیا ہوا بیٹا تو میں نے امی سے کہا امی رات کو آپ نے دو اتنے بڑے بڑے لنڈ اپنی پھدی مین لے لیے تھے پھر بھی آپ کی پھدی کا سوراخ اتنا تنگ کیوں ہے ۔
                امی نے کہا بیٹا میرے پاس ایک دوائی ہے میں جب بھی کسی سے چدواتی ہون تو اسے پھر سےلگا لیتی ہوں پھر اسکا سوراخ واپس خود ہی تنگ ہو جاتا ہے۔
                اور جو بھی مجھے پہلی دفعہ چودتا ہے تو یہی بات مجھ سے کہتا ہے کیاآپ نے پہلے کبھی کسی سے نہیں چدوایا جو آپ کی پھدی کا سوراخ اتنا ٹائٹ اور تنگ ہے۔
                امی کی تنگ پھدی کا راز جاننے کے بعد پھر میں نے اس مین لنڈ کے تیز جھٹکے مارنا شروع کردیئے ۔
                جس کی وجعہ سے ہماری چارپائی مکمل طور پر ہل رہی تھی جس کی وجعہ سے امی پھی مجھے بولی بیٹا جلدی کرو۔ تیری بہن مریم فارغ ہو کر کہین ادھر کمرے مین ہی نہ چلی آئے۔
                مجھے لگتا ھے اس کا سارا کام پورا ہونے والا ہے میں نے کہا جی امی مجھے بھی پتا ہے اور مریم بھی تو بہت بڑے بڑے لنذ اپنی پھدی مین لے لیتی ھے اگر وہ آ بھی گئی تو ہمارے ساتھ ھی چدائی مین مل جائے گی۔
                امی بولی مجھے سب پتا ہے میں نے کچھ دن پہلے جب مریم نے اپنے کسی یار سے پھدی کی سیل کھلوائی تھی تبھی اسے واش روم مین زخمی پھدی پر کریم لگاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
                تبھی مجھے پتہ چلا کہ وہ بھی جوان ھو چکی ھے اور میری چدائی کو بھی چھپ کر دیکھتی ہے۔
                پھر میں نے تیزی سے جھٹکے مارنا شروع کر دی میرے لنڈ کا پانی نکلنے والا تھا اور میں نے پھر وہ امی کی پھدی میں ہی نکال دیا۔
                کچھ دیر کے بعد میں نے لنڈ پھدی سےباہر نکالا اور منی سے لتھڑا لنڈ امی کے منہ میں ڈال دیا جسےامی چوپے لگاکرصاف کرنے لگی۔
                پانچ منٹ بعد ہی میرا لن پھر سےکھڑا ہو گیا میں نے امی کو کہا کہ میں نے پھر کرنا ہے تو امی بولی بیٹا اب مین آپ کے پاس ہی ہوں۔تمھین کس بات کی فکر ہے ۔
                مگر میں نے پھر بھی امی کی ٹانگیں اٹھائیں اور امی کی گانڈ میں لنڈ کو ڈال کر تیزترین سے جھٹکے مارے اور اب مجھے تقریبا تین منٹ فارغ ہونے مین لگے پھرر میرے لنڈ سے پانی باہر آگیا ۔جس سے امی بہت خوش ہوئی۔
                واہ بیٹا تمھاری چدائی کی تو کیا بات ہے تم نے تورات والے دونوں آدمیون سے بھی زیادہ مجھےخوش کیا۔
                اس کے بعد میں نے بھی اپنے کپڑے پہنے اور امی نے بھی تیزی سے اپنے کپڑے اٹھا کر پہن لئے۔
                اتنی دیر مین مریم آپی ناشتہ بنا کر لے آئی۔ پھر ناشتہ کرنے کے دوران امی نے میری کان مین آہستگی سے سرگوشی مین کہا۔ہمین آج دوپہر کو ٹائم ملے گا تو اس وقت بھی تم میری چدائی کر لینا۔
                میں نے امی کو کہا ٹھیک ہے ممی مگر دوپہر کو ٹائم نہ ملا تو پھررات کو لازمی کچھ کر وں گا۔
                اگر آپ نے کسی اورکو نہ بلایا تو؟۔
                میری بات سمجھتے ہوئےامی نے جواب دیا۔بیٹا میں آپ کو دوپہر کوہی بتا دؤں گی کہ رات کو مین نے کسی کو بلانا ہے یہان نہیں۔؟؟
                ناشتے کے بعد مریم نے برتن اٹھا کر کچن مین رکھے اور ہمین بتا کر ذوہیب کا پتہ کرنے سحر کے گھر چلی گئی۔
                مین امی کو پکڑ کر آپنی گود مین بٹھاتے ہوئے انکے ممے دبانے لگا
                تو امی نے مجھے کہا بیٹا اب چھوڑ دو ابھی کوئی گھر مین آ گیا ۔تو ہمین یہ سب کرتےدیکھ لے گا تو پھر پرابلم بن جائے گی پلیز چھوڑ دو نہ کرو رات کو کر لینا۔
                جس پر میں نے امی سے کہا کہ مما باہر بہت زیادہ سردی ہے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلے گا آپ پریشان نہ ہوں اگر کوئی چلا بھی آیا تو دروازے کھلوائے بغیر تو اندر نہیں آئے گا۔
                آپ پلیز مجھے ابھی کرنے دو کیوں کہ میرا بہت دل کر رہا ہے ابھی آپ کو چودنے کے لیے پلیز میری پیاری امی مجھے ابھی کرنے دونا بیشک پورے کپڑے آپ نہ اتارو آدھے کپڑے ہی اتار لو۔
                بس اپنی شلوار نیچے کر دو میں پیچھے سے آپ کی مست گانڈ مار دیتا ہوں۔تیری پھدی میں رات کو ھی بہت سکون سے ماروں گا۔
                تو امی پھر بھی بولی پلیززز نہین نا بیٹاابھی رہنے دو رات کو ھی تم سب کچھ کر لینا ابھی اس سے کیا فائدہ ہوگا اگر تم گانڈ مین کر بھی لو گے تو میرا کام تو پورا نہیں ہوگا تو گانڈ کی چودائی سےپھر میرے لئے پرابلم بڑھے گی آپ پلیز رات کو جی بھر کے ساری حسرتین پوری کر لینا۔
                مگر میں نے جب اپنی ضد جاری رکھ تو امی مان ھی گئین مگر امی نے مجھے کہا تم نی پورے کپڑے نہیں اتارنے اور میں بھی سارے کپڑے نہیں اتاروں گی اگر کوئی آ بھی جائے گا تو ہم جلدی جلدی سے کپڑے پہن لیں گے ۔
                چونکہ باہر کا دروازہ ہمارا بند تھا ۔اس لیےامی مجھے کھڑکی کے پاس لے گئین۔اور امی نے میرے کھڑے لن کو پکڑا اور اسے منہ میں لے کر چوپے لگانے لگین۔پھر 5 منٹ امی نے لنڈ کو چوپے لگائے اور پھر امی نے تھوڑی کھڑکی کھول کر باہر دیکھا ابھی ادھر کوئی بھی نہیں تھا۔
                امی نے کہا۔ارشد بیٹا چلو اب جلدی جلدی فارغ ہو جاؤ تو میں نے امی کی گانڈ میں لن کوڈال کر تیزی سے جھٹکے لگانا شروع کر دیا۔ پھر 10 منٹ تک مین نے ایسے ہی تیز طوفانی جھٹکے لگائے۔کہ امی نے تنگ آ کر مجھے پیچھے ہونے کا کہا پھر جییسے ہی میں انکی گانڈ سے پیچھے ہوا ۔
                تو امی نے اپنے کپڑے فورأ اتار دیے اور مجھے بھی کہا ارشد بیٹا تم بھی اتارو۔ایسے چدائی کروانے سے تو بلکل مزا نہین آرھا مجھے۔
                پھر میں نے بھی کپڑے اتار دیے اور امی کی دوبارہ گانڈ مارنا شروع کر دی
                چونکہ امی فل گرم ہو چکی تھین اس لئے شہوت انگیز سسکیون مین بولی چل رنڈی کے بچے اب سارے زور سے چود اپنی ماں کو جی بھر کے چود کمینے۔
                اگر کوئی آجائے گا تو اسے بھی دیکھ لون گیمین۔ اب مجھے اپنی پھدی میں سے پانی نکالنا ہے تو بھی اپنے لنڈ کا پانی نکال لے اب۔
                میں نے امی کی ٹانگیں اٹھا کر ان کو تیزی سے چودنا شروع کر دیا۔جس سے امی کو بہت مزہ آ رہا تھا۔
                امی تڑپتے سسکتے ہوئی بولی ارشد بیٹا اور تیزی سے اپنی ماں کو چود اپنی امی کو رنڈی بنا کہ چود لے مادرچود۔
                پھر دس منٹ بعد میں فارغ ہوا اور امی کے منہ میں لنڈ کو ڈالتے ہوئے پانی نکال دیا۔اور امی وہ سارا پانی شوق سے پی گئن۔
                امی نے میرا لنڈ اپنے منہ میں ڈال کر لنڈ کو اتنے زبردست چوپے لگائے کہ 20 منٹ بعد پھر سے میرا پانی نکل گیا امی وہ پانی پھرپی گین
                اب امی نے مجھ سے کہا ارشد بیٹا رات کو کس کو بلاؤ جس کو آپ کہو گے اس کو بلاؤ گی میں نے کہا امی آپ سب کےنام بتاؤ تب ھی میں ان مین کوئی سلیکٹ کروں گا۔
                امی نے تقریبأ بیس لوگوں کے نام ھی لیے تھے کہ ان میں سے دو لڑکوں کے نام میں نے امی کو بتادیے جن دونوں نے میری بھی گانڈ پہلے سے ماری ہوئی تھی۔
                امی نے کہا۔مگر بیٹا یہ دونوں پہلی دفعہ میرے پاس آرہے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ سیٹنگ تو بن چکی ہے لیکن کبھی ٹائم نہیں ملا۔مگر آج تم کہتے ہو تو انہی کو بلا لیتی ہوں۔
                میں نے امی کو کہا ٹھیک ہے مماان دونوں کو بلا لو۔اور آج جی بھر کے تم ان سے چدوا لو انکا بھی دل خوش کر دوں تاکہ یہ بھی اپنے حسرتین پوری کر سکیں۔
                کیونکہ مجھے پتہ ہے آپ کو ہمارا پورا گاؤں چودنا چاہتا ہے لیکن ہماری لڑائی کی وجہ سے کوئی بھی ہمارے گھر کے نزدیک نہیں آتا۔
                امی نے کہا ٹھیک ہے آج رات کو میں ان دونوں سے چدواوں گی تم بس سونے کا ناٹک کرتے رہنا تھا تاکہ ان کو پتہ نہ چلے گئے تمھین بھی یہ سب معلوم ہے کہ میں باہر کے لوگوں سے چدواتی ہون۔
                میں نے کہا ۔اوکےٹھیک ہے امی تم جی بھر کے چدوا لینا۔مگر انکے جانے کے بعد پھر میری باری آئے گی۔
                امی نے کہا۔ارشد بیٹا پتا نہیں ان دونوں کے لنڈ بڑے ہوں گے یا چھوٹے ہوں گے لیکن آج ان سے چدوانے مین مجھے بہت مزہ آئے گا کیونکہ بیٹا آپ اپنی امی کی چدائی دیکھ رہے ہوں گے اور مجھے بھی پتہ ہوگا نا کہ میرا بیٹا میری چدائی دیکھ رہا ہوگا
                اہ یہ بہت ہی حسین دلکش نظارہ ہوگا جب ماں بیٹے کے سامنے چدوا رہی ہوگی اور بیٹا دیکھ رہا ہو گا اور بعد میں بیٹا بھی اپنی ماں کو اسی انداز میں چودے گا
                پھر امی نے ان دونوں کو کال کرکے بتایا کہ آج رات کو تم دونوں ہمارے گھر آجانا۔۔۔
                امی نے کہا ارشد بیٹا اب تم سو جاؤ کیونکہ تم نے رات بھر جاگنا ہے اور وہ سب کچھ ھی دیکھنا بھی ہے جو کچھ ساری رات کو میرے ساتھ ہوگا
                میں نے امی کو کہا ٹھیک ہے مما میں ابھی سو جاتا ہوں اور آپ مجھے رات کو نو بجے اٹھانا اسی وقت میں اٹھ کر کھانا بھی کھاؤں گا اور اس وقت رات کا پلان بھی بنائیں گے کیسے تم نے ان سےچودوانا ہے کیسے میں نے دیکھنا ہے
                پھر امی نے میرے ہونٹوں پہ ایک گہری فرنچ کس کی اور کہا اوکے بیٹا تم اب سو جاؤ تو میں نے امی کو کہاکہ امی پلیز جاتے ہوئے ایک بار میرے لنڈ کو منہ مین تو لیتی جاؤ تو امی نے کہا ٹھیک ہے پھر امی نے میرے لنڈ کو ایک مست چوپا لگایا اور کہا ارشد بیٹا اب سو جاؤ ۔اس وقت دن کے تین بج چکے تھے پھر میں گہری نید سو گیا۔
                امی نے میرے سونے کے بعد مریم کے ساتھ ملکر کھانا بنایا اور کھانا بنا کر امی بھی میرے پاس آکر لیٹ گئی۔
                اور مریم آپی کو آج کی رات ڈاکٹر ریحانہ کے پاس بھیج دیا۔
                پھر رات کے نو بجے میری آنکھ خوبخود کھل گئی ۔
                کیونکہ امی نے اپنے موبائل پہ الارم لگایا ہوا تھا جب میں اٹھا تو امی ننگی دوسری چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی
                میں جلدی سےاٹھا اور اٹھ کر امی کو بولا کہ وہ دونوؤ ابھی آئے نہیں۔
                تو امی نے کہا نہیں بیٹا ابھی نو کا ٹائم ہوا ہے وہ گیارہ بجے آئیں گے اور پھر امی نے مجھ سے کہا ارشد تم جاؤ اپنا منہ دھو کر آو۔
                میں نے کہا اوکے مما ٹھیک ہے میں باہر گیا منہ دھو کر آیا اور پھر آکر کھانا کھایا کھانا کھانے کے بعد ہم دونوں ماں بیٹا بیٹھ کے باتیں کرنے لگے
                پھر میری امی مجھ کو اپنی سکس سٹوری سنانا شروع کر دی میں نے امی سے پوچھا۔امی آپ نے سب سے پہلے کس سے چدوایا تھا تو امی نے کہا میں نے تمہارے پاپا سے شادی کرنے سے بھی پہلے تمھارے انکل جمال سے چدوایا تھا جس کی عمر اس وقت بیس سال تھی تو میں نے اس کے کالج جاکر چدوایا تھا۔
                اس نے اپنے کالج کے ہاسٹل میں ایک کمرہ لیا ہوا تھا میں اس کے کمرے میں گئی تھی میں پورے دو دن ادھر ہی رہی اس کے پاس۔اور پھر دن رات اس سے چدوایا۔
                پھر شادی کے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس نے مجھے دوبارہ ٹائم دیا اور ساتھ ہی کہا اس دفعہ میرے ساتھ میرے دو دوست بھی ہوں گے تو میں پھر تمہارے ابو کو ملنے کے بہانے چلے گئی اور وہاں اس سے اوراس کے دوستوں سے دن بھر چدوایا ان سب نے مجھے 2 2 بار چودا ۔
                امی نے مجھے بتایا کہ پھر دو سال میں کم سے کم میں نے 50 دفعہ ان لوگوں سے جا کر وہاں چدوایا تھا ۔
                پھر میں آپ کے انکل لاہور چلے گیے تو مین نے ان سے چدوانا چھوڑ دیا مگر میں انکے دونوں دوستوں سے پھر بھی اکثر چدواتی تھی۔
                اور وہ بھی مجھے بہت ہی مزا دیتے تھے وہ مجھے اپنے گھر لے جاتے تھے اور وہاں جی بھر کہ چودتے تھے اور ساتھ مجھے پیسے بھی دیتے تھے
                پھر میں نے امی کو کہا کہ یعنی ھم آپ کے چدائی ہونے کے پیسوں سے عیاشی کرتے تھے
                تو امی نے کہا بیٹا تم نے بلکل ٹھیک کہا آپ کے پاپا مجھے بہت کم خرچہ دیتے ہیں میں ان لوگوو سے چدوا کر مجھ کو مزا بھی آتا اور ساتھ پیسے بھی ملتے تھے۔
                پھر میں نے امی سے پوچھا کہ وہ ہمیشہ دو لوگ ہی ہوتے تھے یا اور لوگ بھی ساتھ ہوتے تھے تو امی نے کہا کہ پہلے تو وہ دو ہی تھے پھر مجھ سے پوچھ کر انکے تین دوست اور شامل ہو گے۔
                وہ پانچون اکٹھے ہو کر مجھے بہت چودتے اور مجھے بہت مزہ آتا ہے۔جب ان کے پاس سے ہو کر مین واپس گھر آتی تھی پھر جا کر مجھے آرام ملتا تھا حالنکہ میرا دل بلکل نہیں کرتا تھا کہ انکے پاس مین سے واپس آؤن۔
                وہ مجھے بہت زیادہ مزہ دیتے تھے ساری ساری رات جی بھر کر میری پھدی اور گانڈ چودتے تھے۔
                ۔پھر امی نے مجھےمزید بتایا کہ انکی تعلیم مکمل ہونے کےبعد ہمارا ملنا ممکن نہیں تھا تو پھر میں نے ادھر گاؤں میں ہی نئے دوست بنالیے جو مجھے گھر آ چودتے تھے۔
                پھر یہاں پر بھی بہت زیادہ میرے دوست بنے ہیں جنہوں نے مجھے کھل کر مزے سے بھر پورچودا ہے میں آپ کو باری باری وہ سبھی دکھاؤ گی اور ان سے چدواوں گی بھی آپ کے سامنے۔
                پھر میں نے مما سے کہا یہ جو دو لوگ آج آ رہے ہیں۔کیا ان دونوں نے پہلے آپ کو چودا ہوا ہے تو امی نے جواب دیا۔
                ارے نہیں بیٹا ان دونوں سے چدوائی کروانے کا مجھے موقعہ نہیں ملا۔
                لیکن مجھے جب یہ لوگ باہر ملے تھے تو میرے بہت ترلے کر رہے تھے کہہ رہے تھے کہ ہمیں بھی کبھی موقعہ دو۔
                امی نے مزید بتایا پھر میں نے انکو بولا ٹھیک ہے اپنا نمبر دے دو وقت آنے پر آپ کو بھی بلا لوں گی۔
                ویسے آپ کو یہ سب کس نے بتایا ہے تو انہوں نے کہا ہمیں کسی نے بھی نہیں بتایا کہ تم کسی سے چدوائی کرواتی ہو۔ لیکن آپ کا جسم کہہ رہا ہے کہ آپ بہت بڑی مست چدکڑ عورت ہو۔
                میں نے امی کو کہا ٹھیک ہے آج پھر ان کو بھی بہت مزہ دینا تاکہ یہ آپ کے دیوانے ہوجائیں اور پھر آپ کی ہر بات مانیے تو امی نے کہا میرا بیٹا تم پریشان نہ ہو میں ان کو اپنا دیوانہ بنا کر ھی بھیجون گی۔
                پھر میں نے امی کے ممے پکڑ کر مسلنے شروع کیے تو امی نے کہا بیٹا ابھی زیادہ کچھ نہیں کرنا کہ کہین میں گرم نہ ہو جاؤں اور پھر تیرے لنڈ کی مجھے ابھی ہی ضرورت پڑ جائے۔پہلے ان لوگوو کو مجھے چود کر واپس جا لینے دو پھر تم بھی کر لینا۔
                ہمیں آپس میں باتیں کرتے ہوئے تقریبا ایک گھنٹے سے اوپر ٹائم ہوگیا تھا تو ان لوگوں نے امی کو مس کال دی۔
                امی نے ان کو واپسی کال کی اور کہا۔ارےاگر تمھین زادہ جلدی ھے تو آ جاؤ اگر ابھی آ سکتے ہوتے۔
                انہوں نے کہا ہم آپ کے دروازے کے باہر ھی کھڑے ہیں۔
                امی نے کہا۔تو پھر ایسا کرو دیوار پھلانگ کر اندر آ جاو اور روم کہ دروازے کہ پاس آکر دستک دینا۔
                کچھ دیر کے بعد وہ روم کہ پاس آ گئے اور آ کر دستک دی انہوں نے۔
                مجھے امی نے سونے کا اشارہ کر دیا میں جلدی سے جاکر چارپائی پہ لیٹ گیا اور امی نے دروازہ کھولا تو وہ دونوں اندر چلے آئے ۔جب انہون نے مجھے دیکھا تو امی کو بولا۔کیا یہ ارشد تو سویا ہوا ہے نا تو امی نے کہا ہان مین نے اس کو نیند کی گولیاں کھلائی ہیں یہ سو گیا ہے
                میری امی ننگی کھڑی تھی میری امی کا ننگا جسم دیکھ کر وہ دونوں پاگل سے ہوگئے اور فورا میری امی کو اپنی باہوں میں لے لیا ۔
                میری امی کو انہوں نے چارپائی پر لٹا کر امی کا جسم چاٹنا شروع کر دیا
                میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا مجھے بہت مزہ آرہا تھا کیونکہ بعد میں میں نے بھی یہی کچھ تو کرنا ہے ان دونوں کے وشال لنڈ بہت بڑے سے تھے۔ کیونکہ میں انہین بہت اچھی طرح سے جانتا تھا میں نے ان دونوں سے ھی اپنی گانڈ جو مروائی ہوئی تھی۔
                ان میں سے ایک کا لن نو انچ سے بھی بڑا تھا امی نے جب اس کا بڑا لن دیکھا تو فورأ سے اس کا لنڈ پکڑ کر اپنے منہ میں لے لیا اور دوسرے کا ہاتھ میں پکڑ کر مسلنے لگی۔
                جس کالنڈ بڑا تھا۔اس نے میری امی کے ممے منہ میں لے کر چوسنے شروع کردیئے اور وہ امی کے ممے چوستا ہوا نیچے امی کی رستی پھدی تک چلا گیا ۔
                اور ساتھ بہت جوش خروش سے میری امی کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا مگر میری امی کا دل کر رہا تھا کہ پہلے یہ میری پھدی میں اپنا لنڈ ڈالے لیکن دوسرے آدمی کا دل تھا پہلے میں کروںگا ۔
                میری امی نے اس کے لن کو پکڑ کر اپنے منہ کے پاس لے گئی اور اس کہ لن کو چوپے لگانے شروع کر دیے
                پھر امی نے بڑا لن اپنی پھدی پے رکھ کہ رگڑا ۔جب امی نے اس کا لنڈ اپنی پھودی کے سوراخ پر سیدھا کیا تو اس نے پھدی کےاندر کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ۔
                امی کو بہت مزہ آرہا تھا کیونکہ امی پہلی دفعہ اتنا بڑا لنڈ لینے لگی تھی جیسے ہی وہ اندرکرتاگیاتو امی نے ایک مست مدہوش چیخ ماری اور بولی واؤ کتنا بڑا لنڈ ہے اہ مزہ ھی آگیا ھے۔
                پھر اس کے بعد اس نے میری امی کی چدائی کرنا شروع کردیں اور دوسرے نے میری امی کے منہ میں لنڈ ڈالا ہوا تھا میں یہ مست نظارہ دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا کہ میرے ایک ٹھوکو کا لن میری امی کی پھدی میں تھا اور ایک کا لن میری امی کے منہ میں تھا
                جو اس سے میری امی کوچود رہا تھا۔
                پھر اس نے اپنی رفتار بڑھا دی اور میری امی کوجب بہت مزہ آیا تو میری امی نے بھی چوپے لگانےکی رفتار بڑھا دی جس کو مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔
                وہ دونوں میری امی کی چدائی میں مست ہو چکے تھے میری امی نے میری طرف دیکھا تو میری آنکھیں کھلی ہوئی تھی میں نے امی کو آنکھ ماری اور امی نے مجھے بھی آنکھ ماردی اورساتھ مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
                اس کے بعد امی بھی ان کے ساتھ چدوانے میں مست ہو گئی ادھر میں بھی فل گرم ہو گیا تھا میرا دل کر رہا تھا کہ میں بھی اٹھ کر امی کو ان کے ساتھ مل کر چودوں لیکن امی کے کہنے پر میں خاموش لیٹا یہ سب کچھ دیکھنے لگا
                وہ دونوں میری امی کو اپنی رکھیل بنا کر چود رہے تھے جس نے میری امی کے منہ میں لنڈ ڈالا ہوا تھا اس نے اب میری امی کے ممے چوسنے شروع کر دیے
                میری امی اتنے بڑے لنوں سے چدوا کر بہت مزہ لے رہی تھی
                پھر جو امی کی پھدی کو چود رہا تھا اس نے میری امی کی دونوں ٹانگیں اوپراٹھائیں اور امی کی بڑی گانڈ میں اپنا لمبا لن ایک سخت جھٹکے سےڈال دیا۔دوسرا میری امی کا اب جسم چاٹ رہا تھا
                پھران دونوں نے مست انداز سے ایکساتھ پوا کہ جانو ہم دونوں نے بہت سی عورتوں کو اکٹھے چودا ہے لیکن جو مزہ آپ میں ہے وہ کسی اور میں نہیں۔
                میری امی نے بھی کہا فکر نہ کرو آپ کو ایسی سیکسی گرم رنڈ اور گشتی کہیں نہیں ملے گی۔
                امی نے کہا مجھے پورا گاؤں چود چکا ہے۔بس آپ دونوں سے نہیں چدوایا تھا اس لئے آج آپ کو بھی موقع دے کر دیکھ لیا ہے میری امی کہا ناصر تم نے آج مجھے بہت مزہ دیا ہے تمہارا لنڈ بہت بڑا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے تم کو کبھی دوبارہ پھر موقع ملے۔
                تو نصیر بولا۔تو کیا مجھے نہیں ملے گا تو امی نے کہا آپ دونوں ایک ہی ساتھ آو گے مین جب ناصر کو بلاؤ گی تو آپ کو بھی بلاؤں گی میں یہاں جوڑا جوڑا بلاکر چدواتی ہوں ایک اکیلے بدمی کو مین کبھی نہیں بھلاتی۔
                ناصر کو میری امی کی چدائی کرتے ہوئے جب بیس منٹ گذرے تھے تو نصیر بولا آب تھوڑا پیچھے ہٹو مجھے بھی مزہ لینے دو اس رنڈی کا امی نے کہا ہاں نصیر تم بھی آؤ تم بھی دیکھ لو میری چوت کتنی گرم ہے۔
                تو پھر ناصر آگےآیا اس نے امی کی مست پھدی میں لنڈ کو ڈال کرجھٹکے مارنا شروع کردیئے لیکن نصیر کالن تھوڑاچھوٹاتھا مگر پھر بھی امی کو مزہ آرہا تھا پھر امی نے ناصر کا پورا لنڈ منہ میں لے لیا۔
                جسے دیکھ کر میں حیران ہو گیا کہ اتنا لمبا لن امی نے منہ میں کیسے لے لیا ھے
                20 منٹ کی چدائی کے بعد نصیر امی کو بولا کہ اب ہم دونوں اکٹھے ہی فارغ ہوں گے
                تو امی بولی ۔چلو پھراب ایسا کرو کہ تم دونوں اکٹھے ایک ساتھ لنڈ میری پھدی اور گانڈ میں ڈالو
                پھر ان دونوں نے ایسا ہی کیا اور اکٹھے ہی لنڈ ڈال دیے امی کی پھدی اور گانڈ تنگ ہونے کی وجہ سے وہ دونوں جلدی ہی فارغ ھو گئے۔
                جس پر امی نے کہا کہ لن کو باہر نہیں نکالنا۔ابھی انہین اندر ہی رکھناوہ دونوں میری امی کے اوپر اور نیچے لیٹ گئے ایک اوپر تھا ایک نیچے۔
                وہ دونوں میری امی کو لگاتار چود چود کہ تھک گئے تھے ایک میری امی کے اوپر لیٹ گیا اور ایک نیچے تھا دونوں کا لنڈ میری امی کی پھودی میں ہی تھا تو پھر ناصر نے پوچھا کہ جانو تم نے کتنوں سے چدوایا ہے تو امی نے اس کو کہا تم اپنے کام سے کام رکھو ان باتوں میں دلچسپی نہ لو۔
                پھر ناصر نے میری امی کو سوری کیا اور کہا کہ جانو غصہ نہیں کرنا میں تو ویسے ہی پوچھ رہا ہوں۔
                تو امی نے کہا میں غصہ نہیں کروں گی اور میں آپ کو بتاؤں گی بھی نہیں سب لوگ مجھ پر شک کرتے ہیں۔
                مجھے سب پتا ہے لیکن کسی کے پاس کوئی بھی ثبوت نہیں کہ میں لوگوں سے چدواتی ہوں آپ لوگوں کے پاس بھی کوئی ثبوت نہیں کہ آپ مجھے چود چکے ہو اس طرح ان کے پاس بھی کوئی ثبوت نہیں۔
                پھر نیچے سے نصیر نے میری امی کی گردن پہ کس کرنی شروع کر دیں میری امی پھر گرم ہو رہی تھی اور ان لوگون کالن بھی پھر سےاٹھ رہا تھا جو میری امی کی پھدی اور گانڈ میں پھنسا ہوا تھا۔
                تو امی نے انہین بولا ۔اوکےٹھیک ہے اب جلدی سے دوبارہ کرو اور جانے کی تیاری کرو۔
                کیونکہ ٹائم کافی زیادہ ہوگیا ہے کوئی تمھین ادھر دیکھ نہ لے۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کوئی ہمارےدروازے کو ہی آکر دستک دے ڈالے۔
                انہوں نے پھر حرکت کرنا شروع کردی اور دونوں ہی مل کر چدائی کرنے لگے دونوں کا لنڈ چونکہ کھڑا ہو گیا تھا اورانہون نے وہین اندر ہی چدائی شروع کردی۔
                امی کو بھی پھرمزہ آرہا تھا
                لیکن اب امی جلدی ہی فارغ ہوگین مگر وہ ویسے ہی چدائی کر رہے تھے پھر امی کو دوبارہ مزہ آنا شروع ہو گیا اور انہوں نے بھی ویسے ہی اپنی وحشیانہ چدائی جاری رکھی اب میری امی کچھ زیادہ ہی گرم ہو گئین۔اور ساتھ سیکسی آوازین نکالنے لگین۔
                پھر ان دونوں نے لگاتار 1415منٹ جم کہ چدائی کی تو۔ امی نے کہا اب جب فارغ ہونے لگو تو پانی میرے منہ کے اندر ڈالنا ہے۔
                انہوں نے کہا ٹھیک ہے پھر ناصر اٹھا اور اپنا پانی امی کے منہ میں نکال دیا پھر اس کے پیچھے نصیر بھی پانچ منٹ بعد اٹھا اور اسنے بھی امی کے منہ میں پانی نکالا۔
                پھر امی نے دونون کے لنڈ کو مزے سے بھرپور چوپے لگائے اسکے بعد پھر امی نے ان سے کہا ٹھیک ہے اب کپڑے پہن لو اور میری اگلی کال کا انتظار کرنا ۔
                جب بھی مین کال کروں گی تو آجانا انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم ضرور حاضر ہوں گے۔
                ناصر نے جاتے ہوئے امی کو پانچ ہزار روپیہ دیا امی نے لینے سے انکار کیا تو نصیر نے بھی فورا پانچ ہزار نکال کر دیا اور ساتھ انہوں نے کہا تم کوئی رکھیل نہیں ہو تم تو ہماری دوست ہو اس لیے تمہاری مدد کر رہے ہیں۔
                پھر امی نے دروازہ کھولا باہر دیکھا کوئی نہیں تھا اور امی نے ان دونوں کو وہان سے نکال دیا
                وہ دونوں جب چلے گئے تو میں بھی اٹھ کر امی کے پاس چلا گیا اور امی کی ملائی سے لتھڑی پھدی پر کپڑا مارا اور امی نے وہ دوائی پھر سے لگائی جس سے پھدی کا سوراخ تنگ ہوتا تھا۔
                میں اب امی کے پاس لیٹ گیا تو امی نے کہا بیٹا اب تم بھی کپڑے اتار دو۔
                ابھی تک تم نے کیوں پہنے ہوئے ہیں۔ تمھاری رنڈی ماں تو بالکل ننگی تمھارے پاس سوئی ہوئی ہے ۔
                میں نے کہا امی میں بھی کپڑے اتار دیتا ہوں لیکن آج مزہ بہت آیا آپ کو چدواتے ہوئے دیکھ کر
                پھر میں نے امی کو کہا امی آپ کو پتہ ہے میں نے ان دونوں کے آج آپ کو نام کیوں دیے تو امی نے کہا نہیں بیٹا بتاؤ کیوں دیے تو۔
                میں نے کہا میں نے ان دونوں سے گانڈمروائی ہوئی ہے تو امی نے کہا تم نے ناصر کا پورا لنڈ لیا ہوا ہے۔
                تو امی نے کہا۔ارشد بیٹا اس کا مطلب ہے کہ تم بھی بہت بڑے گانڈو ہو۔بلکل اپنی گشتی ماں کی طرح۔
                میں نے کہا جی امی مجھے بھی گانڈ مروانے میں بہت مزہ آتا ہے۔
                امی نے کہا تو ٹھیک ہے بیٹا پھر آئندہ دونوں ماں بیٹے مل کر اکٹھی چدائی کروائیں گے تو میں نے امی کو کہا نہیں مما ایسے ٹھیک نہین ھے۔
                مین پھر جب بھی باہر جاؤں گا تو سب لوگ مجھے حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
                تو امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹا مگرجب تمہارا دل کرے اور جس سے دل کرے چاہے چدوا لینا ۔
                میں نے کہا مما اگر آپ ایسے ہی سبھی لوگوں کواپنی تنگ پھدی دیتی رہوں گی تو مجھے باہر کون ملے گا
                تو امی نے کہا۔ارشد بیٹا اسھبات سے تم پریشان نہ ہو اب آگے مجھے گھر میں چدوانے کا بہت کم موقع ملے گا کیونکہ گرمی آنے والی ہے۔
                اوراب میرے پاس بہت کم لوگ آئیں گے اب تجھے پر ہی مزے لیں گے۔پھر میرے ذہن مین ایک انوکھا اور منفرد خیا ل آیا تو مین مما سے فورأ کہا۔
                امی اگر مریم فرواء آپی مین اورأپ بھی لاہور چے جائئن تو کیا خیال ھے۔
                امی بولین بیٹا کیا مطلب ہے تمھارا۔؟
                ممی مریم کا ایک دوست ذوہیب ادھر لاہور مین رہتا ہے جس کا بہت ہی بڑا اور مست لنڈ ہے مجھے اس سے بہت گانڈ مروانے کا شوق ہے۔اور مریم کا وہ عاشق بہت پیئسے والا بھی ہے۔اگر ھم سب وہین چلےجائین تو ہم فرواء آپی کو نعیم کے چنگل سے بھی نکال پائین گے۔امی بولی ٹھیک ہے ارشد بیٹا مگر دیکھنا کوئی مسلہ ہی نہ ھو جائے
                ممی سے باتیں کرتے کرتے میرا لنڈ بھی کھڑا ہوگیا اور میں نے امی کی پھدی کے آگے ٹچ کیا تو امی نے کہا بیٹا اب تم میری گانڈ مین ہی ڈال لو کیونکہ پھدی کو تنگ ہونے میں کافی ٹائم لگے گا۔
                ابھی پھدی میں ڈالنے سے آپ کو مزہ نہیں آئے گا میں نے کہا ٹھیک ہے امی میں تمھاری گانڈ ہی مار لوں گا۔
                آج تو مزہ ویسے بھی مجھے بہت آیا اپ کو چدواتے ہوئے دیکھ کر تو امی نے کہا ابھی بارشوں کا موسم ہے۔
                ابھی تین چار دن لگاتار چدائی ہوتی رہے گی میری تم جی بھر کہ دیکھ لینا۔۔
                اور پھر اسکے بعد لاہور جانے کی پلاننگ کر لینا۔
                جاری ھے۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #18
                  نیو اپڈیٹ۔
                  ۔میں بہت ہی رغبت اور جنون سےاپنی امی کے ممون کو چوسنے لگا جس سے امی کو مزہ آرہا تھا ۔
                  ادھرامی نے بھی میرا لنڈ ہاتھ میں پکڑ کر اسکو مٹھ مارنی شروع کر دی۔
                  پھر میں نے امی کو کہا کہ ہاتھ میں سے میرا لنڈ نکال دو کیوں کہ ایئسے تو میرا پانی ادھر ہی نکل جائے گااور میں نے یہ پانی آپ کی مست گانڈ میں ھی ڈالنا ہے ۔
                  تو امی نے کہا ۔ارشڈ بیٹا جب بھی تمھارا پانی نکلے جہاں مرضی ہو تم اسکو پھینک ڈالو لیکن مجھے ابھی اس کی ہاتھ سے ہی سیوا کرنے دو۔
                  انکی بات سن کر میں نے اپنی امی کا ملائم جسم کو دبادبا کر مسلتے ہوئے ساتھ چومنا چاٹنا شروع کر دیا۔ پیرؤں سے لے کر مکمل سر تک میں نے امی کے جسم کو چاٹا ۔ جس سے وہ بھی بہت زیادہ گرم ہو گئین۔اس لیے
                  پھر امی نے مجھے بالوں سے پکڑا اور میرا منہ اپنی پھدی کے پاس لے گئی۔
                  اور پھر امی نہایت شہوتانہ انداز سے گشتیون کی طرح پھنکاری ارے دلے مادر چود یہ پھدی بھی تیری ماں کی ہے سالے گانڈو بہن چود اس کو بھی تو چاٹ اسے کیون چھوڑ رھا ھے۔ گشتی ماں کے گانڈ بیٹے تم بہت ہی پہن چود ھو تم نے میری پھدی کی کھجلی بڑھا دی ہے۔
                  امی نے شہوت جزبات سے گرم ہوتے ہوئے مجھے نہایت گندی اور غلیظ ترین گالی دینا شروع کر دیں ۔
                  تو میں نے امی کو کہا۔مما میں کیسے بہن چود ھوں؟؟ تو امی نے ہنس کر کہا تم فکر نہ کرو بیٹا تیرے ابو تو اب باہر آنے والے نہین ہیں۔
                  ارشد بیٹا جب بھی مجھے کوئی مناسب موقعہ ملا تو دونون کو ہی تم سے چود وا ڈالو گی۔
                  جسے سن کر مین دل ہی دل مین ہنسنے لگ پڑا۔کہ امی کو ابھی کیا پتہ مین مریم کو چود بھی چکا ہون بس افراء کی پھدی مارنا باقی ھے۔
                  ویئسے مین دل مین سوچنے لگا کہ مجھے کچھ ایئسے پلان کرنا پڑے گا میری دونون بہنین جب بھی ماں بنے تو میرے ہی پانی سے وہ پریگنیٹ ھون۔
                  کیونکہ تب ھی وہ ہر وقت مجھ سے چودنے کیلیے بے تاب رہین گی۔
                  اور پھر مین بھی تینون مان بیٹیون کو ایک ساتھ چودا کرون گا ۔ ادھر مما بھی کہنے لگین۔
                  ارشد بیٹا مین تیرے لن کو خود پکڑ کر تیری بہنون کی پھدیون میں ڈالون گی نا ۔
                  تم کیون پریشان ہوتے ھو بیٹا جب موقعہ ملے گا تو تیرا لنڈ ضرور ان کے اندر کی سیر کرے گا۔
                  اب میں امی کی پھدی پھر سے چاٹنے لگا تو امی نے کہا چل بیٹا اب جلدی سے اپنی ماں کی گانڈ کو مار اور اپنی ماں کو بھی گانڈو بنا لے۔
                  اس سے میں نے کہا مگر امی آپ تو پہلے سے ہی بہت بڑی گانڈو اور بہت بڑی گشتی بنءچکی ہو تیرے جیسا چودکڑ تو کوئی ھو بھی نہیں سکتا۔
                  پھر میں نے امی کو ساتھ مزید کہا کہ مما تیری مست چوت اور بڑی گانڈ کو دیکھ کر میرا دل کرتا ہے کہ تمہاری پھدی اور گانڈ میں مین کسی کھوتے کا لما اور موٹا کالا لنڈ ڈالوں۔
                  جس سن کر امی نے ہنس کر کہا ارے واہ بیٹا تمھارا خیال کتنا عمدہ مست اور شہہت انگیز ہے ۔ارشد بیٹامجھے تو کھوتے کا لمبا لنڈ اپنی چوت مین لینے سے بھی کوئی پرواہ یا مسٔلہ نہیں ھے۔
                  لیکن بیٹا یہ سب کچھ کہنا تو آسان ہے مگر کرنا ممکن نہیں تم کیسے کسی کھوتے کا لنڈ میری پھدی میں ڈالو گے۔
                  امی کی بیقراری دیکھتے ہوئے میں نے کہا امی بات تو آپ کی بھی ٹھیک ہے کیونکہ ہمارا ایٔسے کرنے سے اگر کوئی ہم کو دیکھ لے گا تو پھربہت پرابلم ہو جائے گی ۔
                  مگر مما مریم کے عاشق ذوہیب کا لنڈ کسی کھتونگڑے جیئسا ہی لمبا موٹا اور تگڑا ھے۔ درآصل مین اپنی ممی کے سامنے باربار ذوہیب کے لنڈ کی تعریفین کر کے انہین لاہور جانے کو تیار کر رھا تھا۔
                  پھر میں نے اپنی امی کی پھدی کوچاٹنا بند کیا اور اپنے لنڈ کو امی کی گانڈ کے مدھر سوراخ کے اوپر رکھا امی نے خود ھی فوراجھٹکا لگایا اور پورا لنڈ انکی گانڈ کے اندر چلا گیا۔جس سے میری امی نے کہا۔ارشد بیٹا مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اب تمہارا لنڈ بھی رفتہ رفتہ بڑا ہو رہا ہے ۔
                  میں نے کہا۔نہین امی جی ایئسی کوئی بات نہین ھے آپکو بس وہم ھی لگ رہا ہے۔
                  بس بات یہ ھے کہ میرا مکمل لنڈ جڑون تک تمھاری گانڈ مین چلا گیا ہے ۔
                  میری بات سن کر امی نے پھر سے کہا ارشد بیٹا مگر مجھے یقین ہے کہ تم جتنی اپنی امی کی چدائی کرو گے تمہارا لنڈ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔
                  پھر کچھ دیر کے بعد لنڈ کے سلپ ہو کر باہر نکلنے کے بعد جب میں امی کے گانڈ میں اسکو دوبارہ سےڈالنے لگا تو امی نے مجھے ایک گولی کھلائی اور ساتھ پانی پلا کر بولا بیٹا آپ یہ ٹیبلٹ کھا کر مجھےچودو۔
                  یہ تیس منٹ کے ٹائمنگ کی گولی ہے اس لیے اس30 منٹ کی گولی میں تم نے جس طرح کا پوز بناکر مجھے چودنا ہو ذوق وشوق سےچود لینا ۔کیونکہ بعد میں۔ مین تھک جاؤ گی اور تم بھی تقریبآ تھک چکے ھو گامے
                  پھر نہ تو تم مجھے چود سکو گے اور نہ ھی میں مذید چودائی کروا پاؤن گی۔
                  اب میں نے امی کی دونون ٹانگیں اوپراٹھائیں اور اپنی لنڈ کوامی کی مست گانڈ میں ڈال کر انہین چودنے لگا۔
                  پھر 10منٹ کی لگاتار تابڑ توڑ دھکون سے میں نے امی کو چودا۔
                  میرے مسلسل زوردار ڈھکون سے امی کی گانڈ بج بج کر لال سرخ ھو چکی تھی
                  پھر میں نے امی کو گھوڑی بنایا اور پھر پیچھے سے امی کی گانڈ میں پھر سے لنڈ ڈال دیا ۔جب مجھے بمانکو چودتے ہوئے تقریبآ 25 منٹ ہوگئے تو امی نے کہاارشی بیٹااب مجھے اپنے لنڈ کوذرا چوسنے تو دے نا تو پھر مین امی کی گانڈ سے لنڈ کو نکال کر انکے منہ میں ڈال دیا ۔
                  پھر امی کے مست چوپون سےجب میں فارغ ہونے لگا تو
                  امی نے کہا بیٹا اب یہ پانی میری گانڈ میں ڈالنا ھے یاپھدی میں؟۔
                  ویئسے بیٹا مین نے پہلے ہی پھدی مین کافی پانی جمع کیا ہوا ہے اس مین اب اور جگہ نہیں ہے۔اگر تم یہ اپنا پانی میری گانڈ میں ڈالو تو ہی بہتر ھے۔
                  میں نے کہا بوکے ٹھیک ہے امی جی۔
                  اب امی لنڈ کے لمپے لمبےچوپے لگا رہی تھین تو مجھے اس سے بہت مزہ آرہا تھا۔
                  پھر میں نے امی کو بولا اب میرا پانی نکلنے والا ہے۔تو امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹا۔اب لنڈ کو میری گانڈ میں ڈالو۔
                  میں نے لنڈ کو امی کی گانڈ میں ڈال کر دو منٹ لمبے اور گہرے جھٹکے مارے ۔اور مین نے پھر اپنی امی کی گانڈ میں ہی پانی نکال دیا۔
                  اور ساتھ ہی میں امی کے اوپر لیٹ گیا۔
                  امی نے کہا ارشڈ بیٹا
                  اب رضائی کو بھی اپنے اوپر لے لو اور ھم ایسے ہی اکٹھے سو جاتے ہیں تومیں نے بھی امی سے کہا ٹھیک ہے جانو جی۔
                  جاری ھے۔
                  Vist My Thread View My Posts
                  you will never a disappointed

                  Comment


                  • #19
                    جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں رائٹر نے مختلف کہانیوں کو ایک ہی سیریز میں لکھ دیا ہے، اچھی کاوش ہے رائٹر کی ۔۔

                    Comment


                    • #20
                      ساقی صاحب کمال کر دیا ۔۔۔ یہ تحریر بھی پرانی شراب کی طرح لگ رھی ھے ۔۔۔ اس کا نشہ تو بہت دم دار ھے۔۔۔ بہترین ۔۔۔لاجواب ۔۔۔کمال ۔۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X