نیواپڈیٹ۔
سیزن 2۔لاسٹ اپڈیٹ۔
اگلے دن بارات تھی جب میں صبح جاگا تو میں نے دیکھا کہ سعدیہ بھابھی میرے لیے ناشتہ تیار کر کے بیٹھی ہوئی ہیں۔ میں نے ناشتہ کیا اور دیکھا کہ سبھی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں کوئی میک اپ کر رہا ہے کوئی کپڑے پہن چکا ہے اور کوئی ناشتہ کر رہا ہے۔ سعدیہ بھابھی نے میرے لیے میرا پسندیدہ ناشتہ بنایا تھا کھجور کا ملک شیک اور ساتھ دو انڈوں کا سبز مرچوں والا چیز آملیٹ۔
میں نے آدھا پراٹھا کھایا اور آملیٹ سارا کھا لیا اور ملک شیک پی کر چائے کا مگ پکڑ لیا اور ایک ایک گھونٹ چائے پینے لگا۔ سعدیہ بھابھی نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا کہ جناب آج چار چار دلہنوں کے دولہے راجہ بنیں گے۔
ہمارے بھائی صاحب!۔
میں نے کہا کہ بھابھی باقی رشتہ داروں کے سامنے تو نہ ایسی بات کہیں! کہیں ہمارا بھانڈا ہی نہ پھوٹ جائے تو بھابھی نے کہا کہ نہیں میرے بھائی ایسا نہیں ہو گا۔
اتنے میں عارفہ بھابھی آ گئیں وہ بھی اپنے بچوں کو ناشتہ دے رہی تھیں اور تیار ہو رہی تھیں انہوں نے بھی مجھے مسکرا کر دیکھا اور مبارک باد دی۔
میں نے کہا کہ خالہ امی نظر نہیں آ رہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ وہ دلہن کا جوڑا اور زیور لے کر میرے سسرال گئی ہیں۔
خیر تین گھنٹے بعد شام کو بارات تھی میں بھی تیار ہونے کے لیے اپنے روم میں چلا گیا اور نہانے کے لیے باتھ ٹب میں گھس گیا میں پانی نیم گرم کر کے کچھ فوم سوپ اس میں ڈالا ۔
آرام سے گردن تک خود کو پانی میں ڈال کر آرام سے بے سدھ لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا۔ خالہ نجمہ نے مجھے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، کس طرح سعدیہ بھابھی کو پریگننٹ کروایا، پھر عارفہ بھابھی کو پریگننٹ کروایا، پھر میرا رشتہ اور نگو آنٹی کے ساتھ سہاگ رات منائی گئی، جگنی آنٹی کو کیسے منایا اور پریگننٹ کیا، پھر عافی کو چودنا اور پھر عارفین کے ساتھ اوورل سیکس، یہ سب خیالات باری باری میرے دماغ میں ایک فلم کی طرح چل رہے تھے اور میں مزے میں ڈوبا ہونے کے باوجود أج کوچھ بے چین سا تھا۔
ایک عجیب سی بےسکونی تھی ذہن کے دریچون سے عجیب سے منظر باہر چھلک رہے تھے۔
کٹھی میٹھی اور کوچھ چھپی چھپی نمکین سہانی یادین بیقرار کر رہی تھین۔أج تقریبا تین سال بعد مجھے تجسس اور خود کو جاننے کی جستجو ہونے لگئ۔
پھر مین سوچھنے لگاکہ شایدآج سحر اور اس کی والدہ اور دونوں چھوٹی بہنوں کے ساتھ میری انوکھی سہاگ رات ہونےلگی ھے۔ اور انکی ماں اور دونوں بڑی بیٹیوں کے سامنے سب سے چھوٹی سالی کی سیل توڑی جائے گی اور اس لمحے کو بھرپور طریقے پرسے ایک بار منایا جائے پھر خود کو بھی ڈھونڈ نکالون گا۔
یہ سب سوچتے سوچتے میں اس قدر کھو گیا کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ مجھے باتھ ٹب میں گھسےدو گھنٹے ہوچکے تھے ۔ باہر سے خالہ نجمہ آئیں ۔
مجھے آواز دی کہ ظہیرسبھی تیار ہیں اور تمہارا انتظار کر رہے ہیں، خالہ آواز دیتے دیتے اندر آ گئیں اور مجھے کمرے میں نہ پا کر سیدھی باتھ روم میں گھس آئیں میں اتنی دیر میں ٹب میں کھڑا ہو چکا تھا۔
میں ننگا ہی تھا کہ خالہ نے مجھے دیکھ کر کہا کہ ابھی تک نہا رہے ہو؟
میں نے کہا کہ خالہ مجھے پورےدو گھنٹے ہو گے ھین یہان؟۔
أج کوچھ عجیب و غریب خیالات اور اندیشے ستا رہے ھین مجھے۔
أپ لوگون کے پاس رہتے ہویے تین سال گزر چکے ھین وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔
خیر میں یہہ کہتا ھوا ٹب سے نکلا،۔
پانی خشک کیااور ٹاول والا گاؤن پہن کر جب خالہ کے قریب سے گزرنے لگا ۔
خالہ نے یکدم مجھے پکڑ کر سینے سے لگا لیا اور میرا ماتھا چوم کر کہنے لگیں کہ آج میرا شیر جوان شادی کے بندھن میں بندھ جائے گا۔
کیسا ہے میرا شیر جوان؟۔
میں نے محسوس کیا کہ گاؤن کے اندر انہوں نے ہاتھ سرکا کر میرے لوڑے پر اپنی گرفت پکی کر لی ہوئی ہے اور اسی کا حال پوچھ رہی ہیں۔
میں نے جواب دیا کہ جی خالہ جان یہہ بالکل ٹھیک ہےاور آج تو اس کی کشتی ہے چار چار دلہنوں سے!! ۔
خالہ ہنس کر بولیں کہ کہیں اپنی خالہ کو نہ بھول جانا۔
میں نے کہا کہ بھول کیوں جاؤں گا؟ ۔
آپ کی مہربانیوں اور احسانوں نے تو مجھے ہر طرح سے جکڑا ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو ابھی آپ کا شکریہ ادا کر دوں۔
لیکن خالہ نے نیچے جھک کر میرے لوڑے کو منہ میں لیتے ہوئے کہا کہ نہیں آج نہیں بلکہ آج سہاگ رات منا لو کل میرے ساتھ رات منانا۔
میں نے کہا کہ ٹھیک ہے
خالہ تھوڑی دیر میرے لن کا چوپا لگا کر باہر جانے لگیں۔ تو مین نے لپک کر پھر انہین پکڑ لیا۔ خالہ جانی مین نے اپ سے کوچھ پوچھا ھے۔
بتائے نا مین کون ہون؟۔
۔نجمہ خالہ۔ظہیر بیٹا ہمین بلکل نہین پتا تم کون ھو۔اور پھر أچانک کسی سوچ مین ڈوب گیئن۔پھر کوچھ دیر سوچ مین ڈوبے رہنے کیبعد دوبارہ بولنے لگ پڑین۔
ظہیر اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ کبھی بھی ہمین چھوڑ کر نہین جاؤ گے تو مین کوچھ تم کو بتاؤ ن۔
ظہیر نے جلدی سے نجمہ کو پکر کر سینے سے لگاتے ہوئے۔میری خالہ جان تم نے مجھے اتنا پیار لزت اور مزاء دیا ہے مین چاہ کر بھی أپ لوگون کو چھوڑ نہین سکتا۔
نجمہ تو پھر ٹھیک ھے میرے پاس تمھارا کوچھ سامان اور ایک بریف کیس پڑا ہے جس سے لازمی تم کو پتہ چل جایے گا کہ تم کون ہو۔
۔اور پھر نجمہ نے باہر جاتے ہویےمجھے کہا کہ تم بھی جلدی آ جاؤ اب۔ بارات کا وقت ہو گیا ہے مزید لیٹ نہیں کرنا۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور شیروانی پہنی، کھسہ پہنا اور کنگھی کر کے باہر نکلا میں نے خود کو ہمیشہ کی طرح سادہ ہی رکھا تھا۔ جیسے ہی میں مین ہال میں آیا ۔
سبھی مجھے دیکھنے لگ گئے اور ان میں مریم بھی تھی۔ مریم تو ایک پری زاد لگ رہی تھی۔
بہت ہی خوب صورت اور بالکل سادہ۔ مجھے دیکھتے ہیں اس نے مجھے آنکھوں آنکھوں میں سلام کیا .
جس کا جواب میں نے بھی مسکرا کر آنکھوں آنکھوں میں دیا اور پھر میری نظر بھٹکتی ہوئی مریم کیساتھ تقریبأ اٹھارہ سالہ ایک چاند سے چہرے پر جا گری۔ جوبہت ہی حیرانگی اور روتی برستی أنکھون سے مجھےٹکٹی باندھے دیکھے جا رہی تھی۔
مین ابھی کوچھ سو چ ھی رہا تھا کہسبھی میرے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ سبھی میری سادگی پر بہت حیران تھے کہ میں نے سفید سادہ سی سفیدپاجامہ قمیص پر کالی شیروانی پہن رکھی تھی اور نیچے سادہ سا کالے رنگ کا کھسہ پہنا ہوا تھا۔
بارات کے لیے کاریں تیار تھیں میں نے اپنی کار کے بونٹ پر گلاب کا صرف ایک بڑا سا گلدستہ رکھوایا تھا اور میں نے یہ بھی سب کو بتا دیا تھا کہ کار میں خود ہی چلا کر لے جاؤں گا ۔
خود ہی واپس لاؤں گا اور میری کار میں خالہ نجمہ، سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی ہی بیٹھیں گی اور واپسی پر بھی یہی خواتین ہوں گی۔
جبکہ دلہن اور اس کی والدہ اور بہنوں کے لیے ایک لیموزین لی گئی تھی کہ وہ اس میں بیٹھ کر الگ آئیں گی۔سب حیران تھے کہ یہ کیسا فیصلہ ہے۔
لیکن میں نے کہا کہ ہم اسی سادگی اور اسی طریقہ پر یہ سب کریں گے کیونکہ میں یہ نہیں کر سکتا کہ اپنی خالہ اور بھابھیوں کو لے کر تو اپنی کار میں جاؤں لیکن وہ واپسی پر کسی اور سواری میں بیٹھ کر آئیں۔
میرے سسر اپنے کیس کی وجہ سے یوکے سے نہیں آ سکے تھے لیکن انہیں سارا فنکشن وقتا فوقتاً دکھایا جا رہا تھا۔
وہ بھی بہت خوش تھے اور میری ان کے ساتھ بات بھی ہوئی تھی اور میری تعریفیں سن سن کر وہ بھی بہت خوش تھے۔ انہیں یقین تھا کہ میں ان کی بیٹی کو بہت خوش رکھوں گا۔
اب انہیں کیا پتہ کہ میں نے ان کی بیوی اور تینوں بیٹیوں اور ایک سالی کو بھی پہلے سے ہی بہت خوش رکھا ہوا ہے۔
خیر بارات نکلی تو سارا محلہ انگشت بدنداں تھا اور سبھی بارات میں شامل تھے۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہی ہم سب شادی ہال پہنچ گئے، جہاں زاہد خالو اور دیگر عزیز ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے انہوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا ۔
ہم لوگ اندر بٹھائے گئے اور پھر نکاح ہوا نکاح کے بعد کھانا اور پھر تصویریں اور رخصتی ہو گئی۔
ہمارے محلہ دار سب حیران تھے کہ دلہن اور اس کی والدہ ، خالہ، خالواور بہنوں کے لیے ایک الگ لیموزین سجائی گئی تھی اور وہ سب فیملی اس لیموزین میں بیٹھ گئی اور پھربارات واپس رخصت ہوئی۔
۔ دلہن کو مین ہال میں لگی سٹیج پر بٹھایا گیا جہاں سب محلہ دار خواتین دیکھنے آئی تھیں۔ سب نے کہا کہ دلہا بھی ساتھ بیٹھے لیکن میں نے کہا کہ بعض خواتین چونکہ پردہ کرتی ہیں اس لیے کوئی بھی مرد ادھر نہیں جائے گا مردوں کے بیٹھنے کا الگ انتظام دوسرے چھوٹے ہال میں تھا۔
چنانچہ سبھی ادھر چلے گئے تاکہ خواتین آرام کے ساتھ دلہن کو دیکھ سکیں۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا اور اب سب محلہ دار خواتین اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں اور مہمانوں کو ان کے ٹھہرنے والے ہوٹلز میں پہنچا دیا گیا۔ اب گھر پر صرف گھر کے افراد باقی رہ گئے تھے۔
اس لیے سبھی کا دل تھا کہ جلداپنے اپنے کمرے میں جائیں اور مجھے بھی میری سہاگ رات کے لیے تنہائی میسر ہو۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سبھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
زاہد خالو جگنی آنٹی کو لے کر اپنے گھر چلے گئے ۔ اب نگوآنٹی، عافی اور عارفین نے سحر کو اٹھایا اور پکڑ کر میرے کمرے تک لے آئیں اور ادھر مجھے بھی خالہ نجمہ، سعدیہ بھابھی اور عارفہ بھابھی نے اٹھا اور میرے کمرے تک آ گئیں۔
اب سعدیہ بھابھی نے سب سے پہلے مجھے سینے سے لگا کر مبار ک باد تھی اور میرا ماتھا چوما، عارفہ بھابھی نے بھی پیار کیا اور مبارک باد دی اور سب سے آخر پر نجمہ خالہ نے سینے سے لگایا۔
اور پھر ایک خوبصورت سا نمبرون والااٹیچی کیس ٹائپ بریف کیس مجھ کو دے کر نہجانے کیون رونے لگیں ۔
اور پھر گھر کی تینوں خواتین اپنے اپنے روم میں چلی گئیں اور مجھے میرے روم میں جانے کا کہا۔ میں نے جیسے ہی اپنے روم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ چار دلہنیں گھونگھٹ نکالے ایک ہی بیڈ پر بیٹھی اپنے دلہا کا انتظار کر رہی تھیں۔ میں دھڑکتے ہوئے دل اور پھڑکتے ہوئے لوڑے کے ساتھ بیڈ کی طرف بڑھنے لگا
جہاں چار دل میرے لیے دھڑک رہے تھے اور چار پھدیاں میرے لوڑے کے یے پھڑک رہی تھیں۔
میں نے سب سے پہلے نگو آنٹی کا گھونگھٹ اٹھایا اور انہیں منہ دکھائی میں ایک انگوٹھی پہنا دی۔
انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہنے لگیں کہ ظہیر! آج سے میری پیاری بیٹی سحر تمہارے حوالے۔
امید ہے کہ تم اسے ہر طرح خوش رکھو گے۔میں نے کہا کہ جی آنٹی میں سحر کو کیا آپ سب کو بھی ہر طرح سے خوش رکھوں گا۔
اس کے بعد میں نے سحر کا گھونگھٹ اٹھایا اور اپنی پریگننٹ بیوی کا ماتھا چوما اور اس کو بھی ایک انگوٹھی منہ دکھائی میں پہنائی۔ سحر مجھ سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔
میں نے جواباً کہا کہ سحر میں بھی تم سے بہت پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتا ہوں۔ پھر میں نے اپنی بڑی سالی عافی کا گھونگھٹ اٹھایااور اسے ہونٹوں پر پیار کیا اور اس کی مدہوش ۔
کردینے والی خوش بو دار سانسیں اپنی سانسوں میں اتارنے لگا اور نیچے سے اسے بھی ایک انگوٹھی منہ دکھائی میں پہنا دی۔ کافی دیر تک اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں اتارنے کے بعد میں نے اسے کہا کہ عافی! I love you۔
عافی گرم ہو گئی تھی۔
ساتھ ہی میں نے اس کے کان کی لو پر اپنی زبان پھیری۔ وہ مجھ سے چمٹ گئی اور کہنے لگی کہ میں کبھی آپ سے دور نہیں جاؤں گی میں نے کہا کہ جانے کون دے گا؟
اس کے بعد میں اپنی چھوٹی سالی کی طرف بڑھا اور اس کا گھونگھٹ اٹھایا اور اس کے گلے میں سچے موتیوں سے جڑا ہوا ایک سونے کا گلوبند پہنا دیا اور ایک انگوٹھی پہنا دی۔
میں نے سب سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی کو اعتراض تو نہیں کہ میں نے عارفین کو منہ دکھائی میں گلوبند زیادہ کیوں پہنایا ہے؟ تو سب کہنے لگیں کہ ہمیں کیوں اعتراض ہونے لگا؟ ۔
اس کا حق بھی بنتا ہے کیونکہ اصل میں تو یہ اس کی ہی سہاگ رات ہے ہماری سیلیں تو کب کی ٹوٹ چکی ہیں اور ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کرنا بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔
میں اس بات پر خوش ہو گیا اور عارفین تو میرے اندر گھستی جا رہی تھی میں نے اس کے منہ میں منہ ڈال دیا۔
ادھر سحر اور عافی اور نگو آنٹی بھی میرے قریب آ گئیں اور ہم چاروں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور پیار کرنے لگے۔ پھر نگو آنٹی نے کہا کہ لڑکیو!۔
یہ بھاری بھرکم لباس اتار دو۔ میں نے بڑی لائیٹ بجھا دیں اور کمرے میں سبز روشنی والا بلب جلا دیا تا کہ ہلکی ہلکی خواب ناک روشنی رہے ۔
جس کے بعد چاروں خواتین نے اپنے بھاری لباس اتارنے شروع کیے اور میں سامنے جا کر صوفے پر بیٹھ کر دودھ پینے لگا جو بادام وغیرہ ڈال کر میرے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ادھر میرے سامنے چار خواتین اپنے کپڑے اتار رہی تھیں۔
جب سب نے اپنے اپنے کپڑے اتار دئیے تو سب سے پہلے نگو آنٹی میرے پاس آئیں اور میرے کپڑے بھی اتار دیئے وہ ساتھ ساتھ مجھے چومتی جاتی تھیں ۔
میرا لوڑا تو پہلے سے ہی تنا ہوا تھا نگو آنٹی کی دیکھا دیکھی میری پیاری بیوی سحر بھی میرے پاس آ گئی اور میرے تنے ہوئے لوڑے کو اپنے مہندی لگے ہاتھوں سے پکڑا اور پیار سے مسلنے لگی۔
اس کے ہاتھ میں میرا موٹا اور لمبا لوڑا بہت مست لگ رہا تھا، عافی آ کر میرے دوسرے طرف بیٹھ گئی اور میرے ٹٹے اپنے منہ میں لے کر ان سے کھیلنے لگی وہ کبھی ہاتھوں میں لیتے اور کبھی چوسنے لگتی۔
عارفین
عارفین سے میں نے کہا کہ وہ بیڈ پر ہی بیٹھی رہے اور نگو آنٹی سے کہا کہ آپ جا کر عارفین کو تیار کریں جس کی آج سہاگ رات ہے اور بیڈٹیبل سے ایک سفید کپڑا نکال لیں جس پر آج میری پیاری سالی عارفین کی سیل ٹوٹنی تھی۔
میں چاہتا تھا کہ اس کے خون سے رنگا ہوا کپڑا صبح سب کو دکھایا جائے۔ چنانچہ نگو آنٹی نے ایسا ہی کیا۔
اب نگو آنٹی عارفین کے ساتھ کسنگ کر رہی تھیں اور پھر 69 کی پوزیشن پر جا کر وہ ماں بیٹی ایک دوسرے کی چوت چاٹ رہی تھیں اور کمرے میں گونجنے والی ان کی ہلکی ہلکی سسکیاں اور سیکسی آوازیں ماحول کو گرما رہی تھیں۔
خیر ادھر عافی نے میرے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھااور سحر میرا موٹا لمبا لوڑا چوس رہی تھی۔
کبھی ٹٹے منہ میں ڈال لیتی عافی تو میری کسنگ ایکسپرٹ بن گئی تھی اس کے ساتھ کسنگ کرنے کا بہت مزہ آتا تھا اب عافی سے میں نے کہا کہ اپنی چوت میرے منہ پر فکس کرو ۔
اس نے اپنی چوت میرے منہ پر فکس کر دی۔ اس کی چوت سے آنے والی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے پاگل کر دیا اور میں دیوانوں کی طرح اس کی چوت چاٹنے لگا۔ وہ بھی سسکیاں لینے لگی۔
سحر نے یہ دیکھا تو اس نے میرے لوڑے پر اپنے منہ کی گرفت مزید بڑھا دی۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا چنانچہ میں نے کہا کہ ٹھہرو اور پھر میں اپنی بیوی اور سالی کو لے کر بیڈکی طرف بڑھا جہاں نگوآنٹی اور عارفین مست ہوئی پڑی تھیں میں نے نگو آنٹی کا منہ عارفین کی چھوٹی سی پھدیا سے ہٹایا اور اس پر ایک کس دی۔
چاروں خواتین نے میری خواہش کے مطابق چوتوں پر بالوں کی صفائی نہیں کی تھی اور سب سے بڑی جھانٹیں عارفین کی دکھائی دے رہی تھیں۔
جس کی آج سیل ٹوٹنے والی تھی۔مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی تھی۔ میں نے ایک کس عارفین کی بالوں بھری چوت پر کی اور پھر اپنا لوڑا نگو آنٹی کے منہ میں ڈال کر خود عارفین کو کس کرنے لگا۔
عارفین نے سسکتے ہوئے کہا کہ بھیا میں تو ماما کے منہ میں اب تک کوئی دس بار ڈسچارج ہو چکی ہوں۔
اب جلدی سے میری سہاگ رات منا ڈالیے۔
میں نے کہا کہ میری پیاری چھوٹی سی پھدیا والی سالی ۔
میری پیاری چھوٹی سی پھدیا والی سالی! ۔
فکر نہ کرو ابھی تمہارا افتتاح کرنے لگا ہوں۔
یہ کہہ کر میں نے اپنا لوڑا جب اس کی پھدیا پر سیٹ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرا لوڑا اس کی پھدیا سے کہیں موٹا تھا اور اس کی چکنی ہوئی ہوئی پھدیا کے دانے پر جب میں نے اپنا لوڑا رگڑنا شروع کیا تو عارفین کی پھدیا نے بے تحاشہ پانی چھوڑنا شروع کیا جس سے میرے لوڑے سے بھی پانی نکلنے لگا تھا۔
تو میں نے اس کی موری پر اپنے لوڑے کا ٹوپا سیٹ کیا لیکن یہ کیا میرے لوڑے کا ٹوپا اس کی چوت کی موری سے بہت بڑا تھا یہ دیکھ کر نگوآنٹی کی تو جیسے جان ہی نکل گئی ہو وہ عارفین کو مخاطب کر کے بولیں کہ عارفین! میری پیاری بیٹی آج تیری بہت زیادہ پھٹنے والی ہے۔
میں نے سحر سے کہا کہ میرے دراز میں سے ہومیوپیتھک دوا سٹیفی ساگریا نکال کر لے آؤ۔
چنانچہ میں نے وہ دوا اپنے پاس رکھ لی۔ اور عارفین کی پھدیا پر اپنے لوڑے کا دباؤ بڑھا دیا جس سے میرے لوڑے کا ٹوپا تھوڑا سا اندر چلا گیا۔
جیسے ہی میرے لوڑے کے ٹوپے کی آنکھ عارفین کی پھدی کو چیر کر اندرداخل ہوئی تو مزے سےمیرا برا حال ہو گیا۔ ابھی تک کسی کی چوت نے بھی ۔
اِس حد تک میرے لوڑے کو گرفتار نہیں کیا تھا جس قدر عارفین کی تنگ چوت نے کر لیا۔
میں تو مزے کے سیلاب میں بہہ رہا تھا۔ عارفین کی چوت گیلی ہو کر بہت چکنی ہو چکی تھی اس کے باوجودمیرا لوڑا اس میں گھس نہیں رہا تھا اور میں چاہتا تھا کہ میری پیاری سالی کو تکلیف بھی کم سے کم ہو اس لیے میں نے لوڑے کے ٹوپے کی آنکھ اندر کر کے تھوڑا توقف کیا،
ادھر نگو آنٹی، سحر اور عافی نے عارفین کو پیار کرنے کی انتہا کر دی وہ اسے مختلف جگہوں سے کس کر رہی تھیں جس کی وجہ سے اس کا دھیان بٹا ہوا تھا اور اسی سے مجھے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔
سو میں نے سحر اور عافی دونوں سے کہا کہ میرے لوڑے پر اپنا تھوک لگائیں ڈھیر سارا تو انہوں نے میرے لوڑے پر تھوک لگایا اور میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ عارفین کی پھدی سے اپنا لن نکالا اور ٹوپی کو ایک بار سحر کے منہ میں ڈال کر۔
دوبارہ عارفین کی چوت پر سیٹ کیا اور دباؤ بڑھا دیا اب میرے لن کا موٹا سا ٹوپا عارفین کی پھدیا میں چلا گیا۔
عارفین نے ایک سسکی لی میں نے تھوڑا اور آگے کیا اور لوڑا اس کے پردۂ بکارت یعنی سیل کو جا کر ٹچ ہوا۔
میں نے عارفین کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور پھر سب سے کہا کہ یہ نظارہ کرنے کے لیے اس دن کا انتظار کر رہے تھے اب نگو آنٹی سے کہا کہ بڑی لائیٹس آن کر کے وہ میرے موبائل سے اس منظر کی ویڈیو بنائیں ۔
سحر سے کہا کہ تم اپنے موبائل میں تصویریں بناؤ تا کہ اس منظر کو میں بھی بعد میں دیکھ سکوں۔
سو جب یہ انتظامات ہو گئے تو میں نے کہاکہ تیار ہو جائیں کیونکہ اب سیل ٹوٹنے لگی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے عارفین کے پردۂ بکارت پر دباؤ بڑھا دیا ۔
عارفین درد کے مارے آہیں بھر رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے عافی نے خود بخود اپنے موبائل سے میرے اور عارفین کے چہرے اور اوپر والے جسموں کی ویڈیو بنانی شروع کر دی۔ میں نے ایک منٹ کے بعد بڑے ہی آرام سے عارفین کی چوت میں لوڑا نان سٹاپ گھسانا شروع کیا ۔
جو اُس کی سیل توڑتا ہوا اس کی یوٹرس تک اتر گیا،۔
عارفین ماہئ بے آب کی طرح تڑپی لیکن اسے میں نے مزید ہلنے نہیں دیا ساتھ ہی وہ ڈسچارج ہو چکی تھی اس کی چوت بہت زیادہ گیلی ہونے کی وجہ سے اسے درد زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
یہ لمحہ بہت ہی خواب ناک تھا اور اس کو تین کیمرے ریکارڈ کر رہے تھے۔ آج میری سہاگ رات منائی جا رہی تھی جو دراصل میری اور میری سالی عارفین کی سہاگ رات تھی۔
میں نے کچھ دیرلوڑا اس کی چوت میں رکھا اور پھر آہستہ آہستہ اسے ہلانا شروع کیا اور پھر رفتار بڑھانے لگا۔ میرا خون میں لتھڑا ہوا لوڑا اندر باہر ہو رہا تھا اور اس کی ویڈیو میری ساس بنا رہی تھی ۔
میری بیوی ہر زاویے سے تصاویر بنا رہی تھی۔ جب مجھے تسلی ہو گئی کہ عارفین کی چوت میں خون خرابہ مکمل ہو چکا ہے تو میں نے لوڑا اس کی چوت سے نکالا اور عافی کو پکڑ کر اس کی چوت میں وہ خون آلود لوڑا گھسا دیا اور بڑی تیز رفتاری سے اسے چودنے لگا۔ عارفین کو کہا کہ وہ تکیے کے نیچے پڑی دوا کے تین قطرے ایک گھونٹ پانی میں ملا کر پی لے۔
چنانچہ اس نے وہ کام کیا اور آرام سے ایک طرف لیٹ گئی۔ اس کی اس حالت کی تصاویر اور ویڈیو بھی نگو آنٹی اور سحر مسلسل بنا رہیں تھیں ۔
میں عافی کو مسلسل چود رہا تھا۔ کوئی سات منٹ کی دھؤاں دار چدائی کے بعد میں نے عافی کو چھوڑا اور نگوآنٹی کو لٹا کر انہیں چودنا شروع کیا آنٹی کو چودنے میں بھی مزہ آرہا تھا آنٹی کو تقریباً پندرہ
پندرہ منٹ چودنے کے بعد میں نے عارفین کو دوبارہ پکڑ لیا اور اس بار اس کی اندھا دھند چدائی شروع کر دی دس منٹ تک اسے چودنے کے بعد مجھے لگنے لگا کہ اب میں ڈسچارج ہو جاؤں گا ۔
اس لیے میں نے اپنا لوڑا اس کی چوت سے نکال لیااور اب میری پیاری بیوی سحر کی باری تھی اسے میں نے بڑے آرام سے سیدھا لیٹنے کو کہا اور آرام سے اس کی گیلی چوت میں لوڑا گھسیڑ دیا۔
اور ہلکی ہلکی رفتار میں آدھا لوڑا اندر باہر کرنے لگا سحر کی چوت بہت گرم تھی لیکن میں جان بوجھ کر اس کی چوت میں آدھا لوڑا ڈال رہا تھا تا کہ اس کی کوکھ میں پلتے میرے بچے کو کوئی نقصان نہ ہو ۔
چنانچہ میں نے سحر کو کہا کہ میں تم سے بہہہت محبت رکھتا ہوں کیونکہ جس طرح تم اور تمہاری فیملی نے میرے ساتھ پیار اور اعتماد کا طریق اپنایا ہے ۔
یہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا اور ہم سب مل کر اس سےبھی بڑھ کر پیار محبت سے رہیں گے۔
یہ کہتے کہتے میں اپنی بیوی کی پھدی میں اپنا لوڑا اندر باہر کرتا رہا اور اب میری بھی اخیر ہو چکی تھی اس لیے تھوڑی ہی دیر میں میں نے اپنا سارا مال سحر کی بھوکی پھدی میں انڈیل دیا۔
سبھی تھکے ہوئے تھے اور عارفین تو پہلے ہی سو چکی تھی اور عافی نے مجھے چمٹتے ہوئے کس کیا اور پھر نگو آنٹی اور عافی دونوں دوسرے بیڈ پر چلی گئی اور میں وہیں عارفین اور سحر کے درمیان لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں ہم سب نیند کی وادی میں کھو گئے۔
اگلے دن ولیمہ تھا اور ہم سب تیار ہو کر شادی ہال پہنچے سبھی بہت خوش تھے۔ ادھر جگنی خالہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی۔
جس وجہ سے جگنی اور زاہد خالو ہسپتال میں تھے ان کے ڈلیوری کے دن چل رہے تھے ۔ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی میں نے دیکھا تو زاہد خالو کی کال تھی۔
زاہدخالو پریشان تھے اور کہہ رہے تھے کہ جگنی کہہ رہی ہے کہ ظہیر کو بلائیں کیونکہ اس کے بیٹے کی پیدائش کے وقت اس کا یہاں ہونا بہت ضروری ہے۔
میں نے کہا کہ ابھی کھانا کھلا کر میں پہنچتاہوں۔
میں نے نگو آنٹی کو بتایا اور سحر کو بھی بتا دیا۔ مجھے عارفین نظر نہ آئی تو میں نے سحر سے پوچھا کہ جس دلہن کی سہاگ رات تھی کل رات وہ کہاں ہے؟۔
تو سحر مسکرا کر کہنے لگی کہ جناب وہ تو سوجی ہوئی چوت لے کر لیٹی ہوئی ہے اور اسے تو بخار ہو گیا ہے میں یہ سنتے ہی پریشان ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم نے مجھے صبح کیوں نہ بتایا؟ سحر کہنے لگی کہ عارفین نے ہی منع کیا تھا کہ میری وجہ سے یہ فنکشن خراب نہ کریں اس لیے کسی کو بھی نہیں بتایا ۔
حتی کہ امی کو بھی نہیں بتایا۔ مجھے اب جگنی اور عارفین دونوں کی پریشانی لگ گئی۔ خیر میں نے کھانا تھوڑا بہت کھایا اور افتخار اور قمر بھائی سے کہا کہ آپ مہمانوں کو سنبھالیں میں ابھی آتا ہوں۔
، میں سیدھا گھر پہنچا اور اپنے کمرے میں مسہری پر عارفین کو دیکھا اسے نیم گرم دودھ کے ساتھ دوا دی۔
بخار اتنا نہیں تھا بس تھکاوٹ اور پہلی چدائی کی وجہ سے کمزوری اور بخار ہو گیا تھا۔ خیر میں نے اسے دوا دی اور تھوڑا پیار بھی کیا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اسے بتایا کہ جگنی خالہ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہونے والی ہے میں اب یہاں سے ہال میں جاؤں گا اور دوستوں سے ملنے کے بعد سیدھا ہسپتال جاؤں گا ۔
تمہارے لیے کھانا ہال سے آ جائے گا۔ پھر اسے ایک لمبی کس دی اور سیدھاہال میں جا کر سحر کو بتایا کہ عارفین ٹھیک ہے اب۔ اب مجھے جلد ازجلد ہسپتال پہنچنا تھا جہاں میرا پیارا بیٹا جگنی خالہ کے پیٹ سے پیدا ہونے والا تھا۔کھانا کھانے کے بعد لوگ رخصت ہو رہے تھے کہ میں نے سحر کو بتایا کہ یں نگوآنٹی کو لے کر خالہ جگنی کے پاس
ہسپتال جا رہا ہوں تم اور عافی باقی اہل خانہ کے ساتھ گھر چلی جانا اور کپڑے بدل کر بے شک ہسپتال آ جانا۔
تا کہ ہم سب مل کر خالہ جگنی کے بیٹے کو ویلکم کر سکیں۔
سحر کہنے لگی کہ کیوں نہیں آپ جلدی سے جائیں اور اپنے اور خالہ جگنی کے بیٹے کو دیکھیں ہم بھی آتے ہیں۔
چنانچہ میں نے نجمہ خالہ کو بتایا اور نگوآنٹی کو لے کر سیدھا ہسپتال پہنچ گیا۔ جگنی خالہ کو لیبر روم میں گئے دو گھنٹے ہو چکے تھے اس لیے اب وقت زیادہ دور نہیں تھا۔ چنانچہ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہی ہمیں یہ خوش خبری مل گئی ۔
جگنی آنٹی نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ زاہد اور ظہیر دونوں اکٹھے اس بچے کو دیکھیں۔ چنانچہ ہم دونوں نگو آنٹی کو لے کر اندر چلے گئے جہاں ہم نے بچے کو دیکھا میں نے بچے کو چوما اور زاہد خالو کو پکڑا کر سیدھا جگنی کے پاس پہنچا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
جگنی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر میرا شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ یہ تو ابھی ابتدا ہے ابھی تو بہت سا کام باقی ہے۔
کم از کم تین بچے تو ہونے چاہئیں۔ جگنی کہنے لگی کہ ہاں ٹھیک ہے۔ میں ابھی وہیں تھا کہ نگوآنٹی عافی کے ساتھ وہاں پہنچ گئیں۔ جگنی خالہ نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ سب فنکشن چھوڑ کر آ گئے۔
تو نگو آنٹی بولیں کہ سب کہاں آئے ہیں سحر اور عارفین تو آئے ہی نہیں سحر دلہن بنی بیٹھی تھی اور عارفین کی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ آسکتی۔
جگنی خالہ نے ذومعنی انداز میں مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا کہ کل اس کی سہاگ رات تھی ۔
بہت خون خرابہ ہو گیا اس لیے اسے تو بخار ہو گیا تھا لیکن اب بہتر ہے۔ جگنی خالہ نے مجھے ایک چپت رسید کرتے ہوئے کہا کہ بہت شرارتی اور ظالم ہے تمہارا شہزادہ جس نے چیر پھاڑ دیا ہو گا۔
اس بے چاری معصوم کو۔ میں نے کہا کہ یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا عارفین کے ساتھ سو ابھی ہو گیا ۔
اس کے بعد مبارک بادیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور میں عافی اور نجمہ خالہ کو لے کر ہال میں واپس آ گیا اور پھر ولیمے کے فنکشن سے فارغ ہو کر ہم سب گھر واپس آ گئے جہاں عارفین میری منتظر تھی۔
ہم سب نے مل کر رات کا کھانا کھایا اور پھر سونے کے لیے اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میرے کمرے میں عارفین اور سحر موجود تھیں جبکہ نگوآنٹی اور عافی اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ آج کی رات بھی عارفین میرے بیڈ پر مزے کرے گی۔ یہ سوچ کر میں بہت خوش ہو رہا تھا۔
پھر گھر کے ڈوربیل کی اواز گونج اٹھی مین دروازے پر جا کر دیکھا تو مریم اپنے ساتھ بارات والے دن والی خوبصورت ۔اداس اور سوگوار حسینہ کیساتھ کھڑی ھے۔دروازہ کھولتے ھی۔
وہ حسینہ زور زور سے روتے ہوئے مجھ سے لپیٹ گئی اور وہ رونے کے دوران چیخ چیخ کر کہتی جارہی تھی۔
ذوہیب بھیا ۔اپ نے ہمارے ساتھ ائیسا کیون کیا؟؟۔
أپ کیون ہمین چھوڑ کر أتنی دور یہان پر اکر بسے ھو؟؟۔
اب أپ اخر بولتے کیون نہین ھو۔کہ
برہ أپی اپکے بچون اور ہم سے ایئسی کیا غلطی ہوئی ھے۔ ۔
جس کی ہمین اپ اتنی بڑی سزا دے رہے ھو۔؟؟
۔(دی اینڈ)۔
نوٹ
پیارے دوستو سیزن ٹو کمپلیٹ ہوا ۔
بہت جلد ملین گے أب سیزن تھری پر؟۔
یقینأ یہہ شہوت انگیر اور مبالگہ أرائی کی انتہا کو چھوتی ہوئی یہ سرگزشت صرف اور صرف بطور انٹرٹین أپ کےمزے اور لطف کیلئے پوسٹ کی جارہی ھے۔
حقیقت سے اسکا دور دور تک بھی کوئی تعلق نہین۔
اسلئے اپنی پسند ناپسند سے ضرور نوازیے گا۔
پوائنٹ 2۔
اگر أپ لوگ کہین تو ایک اور انوکھی منفرد۔ رومینٹک بھری لو سٹوری ہلکے پھلکے سیکس کیساتھ شروع کر لی جائے تو کیئسا رہے گا۔
انتظار رہے گا۔
بتلائے گا ضرور؟؟؟۔
Comment