Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جانباز سرحد کے پار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتھرابھٹی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    kamaal ki kahaani hai kia khoob andaz e bayaan hai

    Comment


    • #22
      بہت عمدہ کہانی کی شروعات ہوئی ہے

      Comment


      • #23


        سامنے والا راستہ سیدھا آگے جاتا تھا، کوئی 500 میٹر آگے جاکر ایک سڑک بائیں طرف اوپر کو گھوم جاتی تھی اور پھر 3 بار یو ٹرن لیکر سیدھی چلی جاتی تھی، یہ راستہ

        آگے جاکر ہائی وے سے ملتا تھا……

        نیچے والا روڈ تقریباً 300 میٹر آگے جاکر پہاڑ پر پر جاتا اور بند ہو جاتا تھا …………اس کے دائیں طرف پہاڑوں کے درمیان میدان تھے جس میں سیب کے باغ تھے ……….. قریب 5-6 الگ الگ باغ تھے جن کو لکڑی کی باڑ سے الگ کیا گیا تھا………. ان میں سے ہی ایک باغ حنا کا بھی تھا……

        باغ اسی سڑک پر وہاں تک تھے، جہاں سے ایک روڈ اوپر ہائی وے کی طرف جاتی تھی

        …میں حنا کے پیچھے پچھے ہی آیا اور پھر وہ اپنے باغ کی طرف چلی گئی اور میں اوپر کے راستے پر چل دیا……….. آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میں ہائی وے تک پہنچ گیا ………..

        یہ ایک 2 رویہ روڈ تھی اور جیسا حنا نے بتایا تھا کہ یہ راستہ پاکستان تک جاتا تھا ………….میں تقریباً 15 منٹ تک وہاں کھڑا رہا اور کوئی 5-6 گاڑیاں میرے سامنے سے گزریں ………..زیادہ تر ٹرک تھے جو سامان لے کر جا رہے تھے………….

        پھر میں واپس نیچے کی طرف چل دیا۔۔۔. میری ٹانگ کا زخم ابھی بھی تھا اور بہت ہلکا سا درد ہو رہا تھا ………آہستہ آہستہ چلتا ہوا میں وہاں تک آ گیا جہاں سے ایک راستہ باغ کی طرف جاتا تھا……میں کچھ دیر وہیں رک کر حنا کا انتظار کرنے لگا……..

        موسم اچانک خراب ہونے لگا تھا …….ایسا لگ رہا تھا کہ بارش کسی بھی وقت شروع ہو جائے گی……….میں نے ایک بار پھر باغ کی طرف نگاہ ڈالی……..اندھیرا ہو چکا تھا لیکن پھر بھی مجھے صاف نظر آیا کی 2 سائے سڑک سے کچھ ہٹ کر ………..اوپر کی طرف کھڑے تھے …………آسمان میں

        بجلی چمکنے لگ گئی تھی اور بجلی چمکنے سے سب کچھروشن میں ہو جاتا تھا…

        ایک بار پھر سے بجلی چمکی اور میں نے پھر اس طرف دیکھا………..اس بار مجھے بالکل صاف دکھائی دیا .... ان 2 لوگوں میں سے ایک حنا تھی اور دوسرا کوئی

        آدمی تھا ………… آدمی نے حنا کا ایک ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور حنا اس سے چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی ………….1-2 سیکنڈ تک میں نے کچھ سوچا پھر تیزی سے ان کی طرف چل دیا……..ان تک پہنچتے پہنچتے میں لگ بھگ دوڑنے ہی لگا تھا………

        وہاں کا منظر بڑا ہی عجیب تھا……..اب حنا زمین پر گری پڑی تھی …..اور وہ آدمی حنا کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا……اس نے فوجی وردی پہنی ہوئی تھی حنا کافی مزاحمت کر رہی تھی۔۔۔۔۔

        اس ہاتھا پائی میں اس نے حنا کے کرتے کے بٹن شاید توڑ ڈالے تھے اور اس کے ایک ممے کو باہر نکال کر ہاتھ سے دبانے کی کوشش کر رہا تھا……….

        اسکا دوسرا ہاتھ حنا کے پیٹ پر تھا اور تیز تیز ہل رہا تھا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو…. حنا لگ بھگ چلاتے ہوئے اس کی گرفت سے

        آزاد ہونے کی کوشش کر رہی تھی ………… میں نے 2-3 سیکنڈ تک ان دونوں کو دیکھا اور پھر تیزی کے ساتھ اس آدمی کے سر پر پہنچ گیا ………… میں نے اس کی گردن میں اپنا ایک بازو لپیٹا اور گردن کو اپنے قابو میں کر کے پوری طاقت سے اس کو کھینچا……….ایک ہی جھٹکے میں وہ حنا سے الگ ہوکر زمین پر میرے بازو کے حصار میں سے نکل کر زمین پر گر گیا ………….

        گرتے ہی اس نے مجھے ایک بار دیکھا اور پھر کچھ بولتا ہوا بڑی پھرتی اٹھ

        خدا ہوا……….. اس کی سمجھ اس لیے نہ آ سکی کہ پھولے سانس سے بول رہا تھا۔۔۔۔۔

        وہ تقریباً 40 سال کا آدمی تھا، کبھی مجھے اور کبھی حنا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

        وہ ایک بھاری جسے کا آدمی تھا اس کا وزن بھی سو کلو سے اوپر ہوگا……….

        اس نے ایک بار پھر غصے سے میری طرف منہ کیا اور بولا …………. تیری ماں کی چوت تو نے ایک فوجی پر حملہ کیا ایک لڑکی کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ تیری گانڈ میں لنڈ ڈال کر تیرے کو سب کے سامنے چودوں گا حرام کی اولاد۔۔۔۔۔۔ اس کی گالی سن کر میرا خون کھول اٹھا………….. لیکن میں اس وقت جوش سے کام نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔۔

        وہ گالیاں بکتا ہوا آگے بڑا اور مجھے گریبان سے پکڑ لیا………حنا جو اب تک دور کھڑی تھی، ایک دم سے آگے بڑھی اور اس سے کہا………………………

        یہ یہاں نیا ہے اس کو نہیں پتہ تھا اس کو معاف کر دیں۔۔۔۔۔۔

        "یہاں نیا ہے ......." وہ لگ بھگ گرتا ہوا سا، لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں مجھ سے بولا……..میں نے ہاں میں سر ہلا دیا…….

        "کیا اس لڑکی کو جانتا ہے؟ "وہ میرا گریبان چھوڑ کر بولا"

        میں نے پھر ہاں میں سر ہلا دیا….

        "کون ہے یہ تیری....؟" وہ باری باری ہم دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا… تب تک حنا میرے پاس آکر کھڑی ہو گئی تھی………..

        "میرا رشتے دار ہے یہ ……………..دہلی سے آیا ہے “میری جگہ جواب حنا نے ہی دیا…

        "اچھا!!............کیا کام کرتے ہو دہلی میں تم" وہ میرا اچھی طرح جائزہ لیتے ہوئے بولا۔۔۔۔

        "کپڑے کا کاروبار ہے میرا ……………… پر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔۔

        "میں اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا"

        ’’میں یہاں کی فوجی چوکی کا انچارج ہوں … مجھے شک ہے کہ تم‘‘

        صحیح آدمی نہیں ہو…” وہ میرے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے بولا…….. پھر آگے بڑھ کر میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اوپر کیا اور میری تلاشی لینے لگا۔۔۔۔۔

        "اور آپ جو کام اس لڑکی کے ساتھ کر رہے تھے وہ صحیح آدمی کرتے ہیں……” میں نے کہا جس پر اس نے غصے سے کچھ کہا جو میرے پلے نہ پڑا ………..

        تلاشی کے بعد اس نے میرا بازو پکڑا اور مجھے ایک طرف کو کھینچتا ہوا بولا "چل، میرے ساتھ چوکی چل ……… میں تجھے بتاتا ہوں میں کیسا آدمی ہوں “کہہ کر وہ دو ہاتھوں سے مجھے پکڑ کر کھیچنے

        کی کوشش کرنے لگا …………………

        مجھے معلوم تھا کہ اب مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا ورنہ میری ہول کھل سکتی ہے۔۔۔۔۔ میں پھر سب کی نظروں میں آ جاؤں گا۔۔۔۔

        "اور آگر نہ چلوں تو ؟؟ میں جان بوجھ کر ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔

        "تیری ماں کی چوت پھاڑ دوں گا مدر چود ماں کے لوڑے تو نے ہم کو ہیجڑا سمجھ رکھا ہے ………" اس نے گالی دی اور اپنے سیدھے ہاتھ سے مجھ پر حملہ کیا……… میں بھی پہلے سے اس کے لیے تیار تھا، میں نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی پکڑ لی……… پھر میں حنا سے بولا “تم گھر جاؤ، میں ابھی آتا ہوں"

        حنا نے ایک بار میری طرف دیکھا……….. اسکی آنکھوں میں میرے لیے ایک فکر سی

        تھی ………… پھر وہ مڑی اور تیزی سے گھر کی طرف چل دی۔۔۔۔

        اُس ہندوستانی فوجی نے میرے اوپر دوسرا حملہ کرنے کی کوشش کی …………اس بار اپنی لات سے، میں تھوڑا سا سائیڈ میں ہو کر کر اس کے وار سے خود کو بچا گیا۔۔۔۔

        اب میری باری تھی………….میں اسے کوئی موقع دوں اب میں نہیں چاہتا تھا……… میں نے اس کی سیدھے ہاتھ کی کالائی کو بائیں ہاتھ سے تھاما ہوا تھا میں نے اپنا سیدھا ہاتھ اس کی اس گردن پر جما دیا اور اس کو پیچھے کی طرف دھکیلنے لگا….

        اس کا صرف جسم کی موٹا تازہ تھا ورنہ وہ صرف گوشت کا پہاڑ تھااس کو لڑائی کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی یا پھر وہ شراب نوشی کی وجہ سے عقل سے فارغ ہو چکا تھا …………..میرے دھکلینے سے ایک دو قدم پیچھے کو ہٹ کر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ زمین پر گر گیا۔۔۔۔۔۔۔

        میں تیزی سے اس پر جھپٹا ………میں اس کے سینے پر بیٹھ گیا , اور اس کی گردن کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر پوری طاقت کے ساتھ دبانے لگا…………….وہ میرے نیچے سے نکلنے کے زور لگانے لگا تھا پر میری طاقت کے اگے اس کا زور لگانا بے کار ثابت ہوا… 2 منٹ بعد ہی اس کے ہاتھ پاؤں ہلنا بند ہو گئے………….

        میں نے اس کی ناک کے آگے اپنے دائیں ہاتھ می دو انگلیاں لگا چیک کیا………….اس کی سانس ابھی چل رہی تھی …………. اس کا زندہ رہنا میرے لیے بہت زیادہ خطرناک تھا…………..میں نے اس کی تلاشی لی ایک پرس اور پستول مجھے اس کی جیب سے ملا……………وہ دونوں چیزیں میں نے اپنی جیب میں ڈالیں……… پھر میں نے اسے دونوں ہاتھ پکڑا اور اس کو گھسیٹتا ہوا سڑک کے دوسری طرف لے گیا……………. وہاں سڑک کے بائیں طرف میں بنی ہوئی کھائی میں جھانک کر دیکھا اس میں اندھیرا ہی نظر آ رہا تھا………….مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کھائی کتنی گہری ہے

        یا اس کے نیچے کوئی اور سڑک تو نہیں ہے……….میں نے ایک بار پھر ادھر ادھر

        نگاہ ڈالی……….دور تک کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا……….میں نے اسے کندھے پر اٹھایا اور پھر کھائی میں دھکیل دیا……

        بارش شروع ہو گئی تھی…………… میری چھتری پتہ نہیں کہاں گر گئی تھی………میں نے ایک بار آس پاس نگاہیں دوڑائیں……….پھر بارش میں بھیگتا ہوا تیز تیز حنا کے گھر کی طرف چل دیا۔۔۔۔

        بارش میں بھیگتا ہوا گیا اور آخر میں لگ بھاگتا ہوا میں حنا کے گھر پہنچ گیا……. میں سیدھا طبیلے میں پہنچا اور پھر ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ………

        2 منٹ بعد حنا اور شازیہ دونوں وہاں پر آ گئیں………….لگ رہا تھا دونوں میرا ہی انتظار کر رہی تھیں…………دونوں کی آنکھوں میں سوال اور کچھ حد تک پریشانی کے نظر آ رہی تھی………..

        " کیا ہوا؟؟ کیا کیا تم نے اس لے ساتھ…..تم ٹھیک تو ہو ناں ؟ ,

        ایک ساتھ بہت سارے سوالوں کی لائن سی لگا دی حنا نے۔۔۔۔۔۔

        میں نے کچھ سیکنڈز تک ان کے چہرے کو دیکھا ………..جہاں حنا کے چہرے پر

        پریشانی تھی وہیں شازیہ حنا کے پیچھے چپ کر کھڑی تھی اور اس کے کندھے کے اوپر سے مجھے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

        "کچھ خاص نہیں ……………..تھوڑی سی لڑائی ہوئی اور میں اس کو بے ہوش کر کے

        آ گیا ……..” میں نے اس چہرے پر نظر جمائے ہوئے جواب دیا “وہ تم کو جانتا تو نہیں تھا ناں، حنا؟ ,

        "نہیں ……………….شاید نہیں جانتا تھا" وہ میری طرف دیکھ کر سر ہلاتے ہوئی بولی....

        میں نے ایک لمبی سی سانس لی اور پھر دیوار سے پیٹھ لگا لی اور سر کو بھی دیوار سے ٹکا دیا………

        تم بہت بھیگ گئے ہو………..کپڑے بدل لو………میں ابھی بھیجتی ہوں

        " یہ کہہ کر حنا پلٹی، شازیہ کو ساتھ آنے کا

        اشارہ کیا اور پھر دونوں وہاں سے نکل گئیں……………

        میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس فوجی سے چھینی ہوئی پستول اور

        پرس نکالا …………وہ ایک روسی 77b پستول تھی …………چھوٹی سی پر بات

        زبردست ہتھیار تھا……………… میں نے ادھر اُدھر دیکھا ……………….طبیلے کی چھت جو کہ گھاس پھوس سے بنی ہوئی تھی……… مجھے اچھی جگہ لگی اس پستول کو چھپانے کے لیے……….میں طبیلے کے ایک کونے میں گیا ………… اور ہاتھ اوپر بڑھا کر وہ پستول اوپر چھپا دیا……………….

        میں نے اس پرس کو چیک کیا……….کچھ بھارتی کرنسی، کچھ کاغذ تھے……… اس کے علاوہ جو سب سے اہم چیز تھی وہ ایک ڈرائیونگ لائسنس اور ایک فوجی کا آرمی کارڈ تھا …………اس آدمی کی تصویر لگا ہوا اور شنکر وسواس کے نام سے……………. میں نے پرس کو اپنے بستر کے نیچے چھپا دیا…………….

        تبھی حنا واپس آ گئی ………..اس کے ہاتھ میں کپڑے تھے وہ اس نے میری طرف بڑھا دیے ………..میں نے کپڑے اس کے ہاتھ سے لیے اور کپڑے بدلنے چلا گیا ………..وہ ایک کرتا پاجامہ تھا ……….ہمیشہ کی طرح میرے ہی سائز کا پر کچھ تنگ……

        میں نے طبیلے کے اندر ہی ایک جگہ اوٹ میں ہو کر کپڑے بدلے۔۔۔۔۔۔

        اُس نے گیلے کپڑے میرے ہاتھوں سے لیے اور واپس جانے لگی………….پھر رکی اور

        پلٹ کر بولی "شکریہ شمشیر … آج اگر تم نہ ہوتے تو نہ جانے کیا ہو جاتا …” یہ بھارتی فوجی آئے روز ایسے ہی کسی لڑکے کے ساتھ کرتے ہیں پھر جب دل بھر جاتا ہے تو اس کو پھینک جاتے ہیں۔۔۔۔

        اس نے نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا۔۔ میں نے اس کی آنکھیں پہلی بار گیلی ہوتی ہوئی دیکھیں ……

        نہیں …..شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے.جو کچھ تم لوگو نے میرے لیے کیا، اُس کے آگے یہ کچھ بھی نہیں ہے "میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا……….

        وہ اگلے کچھ سیکنڈ خاموش رہی، پھر ایک لمبی سی سانس لیتے ہوئے بولی..."۔۔

        "کیا آج رات کو میرے پاس آ سکتی ہو؟ ,

        اس نے اپنی آنکھیں جھکا لیں، اسکی سانسیں بہت تیز چل رہی تھیں ……….. “کوشش کروں گی …………پر آپ میرا انتظار مت کرنا “یہ کہہ کر اس اپنے ہاتھ کو

        میرے ہاتھ سے چھوڑایا اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔۔

        میں کچھ سیکنڈ کھڑا رہا …….. پھر بیٹھ کر اپنے کٹ بیگ کو نکلا اور کھولا……

        بیگ میں موجود چیزوں کو دیکھا اور پھر بیگ بند کر دیا…………..کچھ دیر میں سوچتا رہا کہ شازیہ کا انتظار کروں یا نہیں ………….پھر بستر پر گیا اور جلدی ہی نیند میں ڈوب گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        میرے جاگتے ہوئے تو شازیہ نہیں آئے پر میرے سوتے ہی، سپنے میں وہ آ گئی……ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اور وہ بادلوں پر چل رہے ہوں………..اس نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور مجھے اپنے ساتھ کھینچتے

        ہوئے ایک طرف لے جا رہی تھی ………….. میں اس کے ساتھ ساتھ ہی چلتا رہا……. چلتے چلتے بہت دور پہنچ گئے ہم دونوں، پر ہمارے ہاتھ ابھی بھی ایک دوسرے کو تھامے ہوئے تھے پھر شازیہ بیٹھ گئی ……… ایسے جیسے وہ چلتے چلتے تھک گئی ہو، میں بھی وہیں پر اس کے پاس بیٹھ گیا… اور پھر اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا وہ پہلے تو میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتی رہی اور پھر جھک کر میرے ہونٹوں پر اپنے ملائم ہونٹ رکھ دییے………… میں نے نیچے سے اس کے گلے میں اپنی ایک باہیں ڈال دیں اور پھر اس کے ہونٹ چومنے لگا………………..

        میری آنکھ اچانک کھل گئی…………. اتنی سردی میں بھی میرا سارا جسم گرم ہو رہا تھا………… کچھ سیکنڈ تو مجھے یہ سمجھنے میں ہی لگ گئے کہ یہ ایک سپنا تھا جو میں ابھی دیکھ رہا تھا……….پر کوئی تو وجہ تھی جس سے میری نیند ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔

        میری ٹریننگ نے مجھے یہ بھی سکھایا تھا میری نیند کبھی بھی ایسی نہیں تھی کہ میں گدھے گھوڑے بیچ کر سو جاؤں۔۔۔۔

        اگر اس جگہ جہاں میں سو رہا ہوں تھوڑی سی بھی ہلچل مجھے جگانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔۔۔۔۔

        میں نے آنکھ کھولی اور سمجھنے کی کوشش کی ………….ایک بات جو مجھے عجیب لگی وہ تھا گھپ اندھیرا…….. طبیلے کے اندر جلنے والا بلب آج آف ہو

        گیا تھا، اور گھر کے باہر لگے ہوئے بلب کی روشنی بہت کم تھی……..کچھ سیکنڈ تک آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کے بعد مجھے وہ سایا دکھائی دیا جو کمرے کے دروازے پر کھڑا تھا……………….میں نے جلدی سے اٹھنے کا سوچا تبھی باہر زور سے بجلی کڑکی اور اس سائے کے جسم پر میری نظر پڑی ……………..اس کی جسمانی ساخت میری سمجھ میں آ گئی اور میرے ہونٹوں پر مسکان آگئی ………….وہ ایک لڑکی تھی اور مجھے ملوم تھا کہ وہ شازیہ ہی تھی جو میرے کہنے پر میرے پاس آئی تھی… میں نے اٹھنے کا خیال اپنے دم سے اپنے دماغ سے نکال دیا اور انتظار کرنے لگا کہ وہ اب کیا کرتی ہے ………..میں دیکھنا چاہتا ہے

        تھا کہ وہ اپنی طرف سے کیسے شروعات کرتی ہے۔۔۔۔۔

        کچھ دیر وہ وہیں دروازے کے پاس کھڑی رہی ……….شاید چیک کر رہی تھی کہ میں سویا ہوا ہوں یا جاگا…………..پھر دھیرے سے اگے بڑھی…….. جیسے کہ میں نے بتایا، کمرے میں گھپ اندھیرا تھا اور بہت کوشش کرنے کے بعد بھی میں بڑی مشکل سے ہی اس کے جسم کی حرکت کو دیکھ پا رہا تھا۔۔۔۔۔

        وہ میرے بستر کے پاس آئی اور پھر میرے پاس بیٹھ گئی ………….میرا ایک ہاتھ میری چھاتی پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا ایک طریقہ پھیلا ہوا تھا……….

        میرے نیچے لٹکتے ہوئے ہاتھ کے پاس بیٹھ گئی …… میں ابھی تک اسے نہیں دیکھ

        پا رہا تھا…… پر اس کی خوشبو اور سانسوں کی آواز سن پا رہا تھا……….

        اس نے ایک ہاتھ میرے ماتھے پر رکھا……. اور دھیرے سے سہلایا…… پھر اپنے ہاتھ کو وہ میرے گال پر لے گئی اور وہاں پر بھی اس نے دھیرے سے ہاتھ پھیرا ………….. کئی دن سے میں نے شیو نہیں کی تھی اس لیے میرے چہرے پر بڑی سخت داڑھی بڑھی ہوئی تھی ……………..وہ پھر میرے اوپر جھک گئی اور میرے ماتھے پر ایک چھوٹا سا کس کر دیا …………اس نے میرے ماتھے اور گال پر دو تین کس کیے۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میری آنکھوں پر اس کے ہونٹ آگئے۔۔۔۔ میں ۔نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔

        میری آنکھوں پر کس کرنے کے بعد اس کے ہونٹ دھیرے دھیرے نیچے کو آئے

        اور میرے دائیں گل پر سے ہوتے ہوئے میری ٹھوڑی تک آئے اور پھر میرے ہونٹوں پر اس نے ایک۔ چھوٹی سی کس کر دی………..

        اس کی حرکت سے مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے جگانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔

        وہ نہیں چاہتی کہ میری نیند خراب ہو۔۔۔۔

        اس نے میرے کرتے کے بٹن ایک ایک کر کے کھول دییے اور پھر اپنا ایک ہاتھ میرے

        کرتے کے اندر ڈال دیا …………….. پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ اپنا سر میرے کندھے پر رکھتے ہوئے لیٹ سی گئی اس کے ممے میرے ہاتھ پر تھے اور اس کا ایک ہاتھ ابھی میرے کرتے کے اندر ہی تھا، میری چھاتی پر چلنے لگا تھا ……….وہ بہت پیار سے میری پوری چھاتی پر ہاتھ پھیر رہی تھی……………….

        اگلے کچھ منٹ تک وہ ایسے ہی لیٹی رہی…………….اس کے بعد اس نے اپنا سر

        میرے ہاتھ سے ہٹا کر میرے سینے پر ہی رکھ دیا تھا اور اس نے اپنی ایک ٹانگ بھی

        میری ٹانگ پر رکھ دی تھی………..میرے پورے جسم میں خون کا ابال بڑھتا جا رہا تھا ………..اسکے جسم سے بہت مدھر سی خوشبو آ رہی تھی ……………ایک مدھوش کر دینے والی مہک………………..میں اپنے آپ کو کنٹرول کیے ہوئے اس کے اگلے قدم کا انتظار کر رہا تھا………………

        پھر اچانک ہی وہ مجھ سے الگ ہوئی … … مجھے اس کے کھڑے ہونے کی آہٹ سنائی دی اور پھر کچھ دیر تک کپڑوں کی سرسراہٹ ہوتی رہی ………..میں ابھی تک

        نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ جانا چاہ رہی ہے یا میرے پاس آنا چاہتی ہے……..

        اس نے میرے پیروں کے اوپر سے کمبل کو ہٹایا اور پھر میرے پاؤں کے پنجے پر

        اپنا ہاتھ پھیرا………….پھر مجھے اس کے ہونٹ اپنے پیروں پر محسوس

        ہوئے …………..وہ دھیرے دھیرے میرے پیروں کو چوم رہی تھی…………..کچھ

        دیر ایسے ہی چومنے کے بعد، وہ تھوڑا آگے بڑی اور اس کے ہونٹ میرے پاؤں سے ہوتے ہوئے، میرے گھٹنوں کی طرف بڑھنے لگے………….پاجامہ پہنے ہونے کے باوجود اس کے ہونٹوں کی گرماہٹ مجھے اپنے جسم پر محسوس ہو رہی تھی……………

        اس کے ہونٹ گھٹنوں سے ہوتے ہوئے میرے لن کے قریب ٹانگوں کے بیچ آ گئے …………

        وہاں آکر کچھ سیکنڈز کے لیے وہ رک گئی، شاید اگے بڑھنے کی ہمت پیدا کر رہی تھی……………… پھر اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور میری ٹانگوں کے بیچ لن کے پاس لے گئی…………..میرے جسم کا سارا خون جو اسی طرف دوڑ رہا تھا، اور تیز رفتار سے دوڑنے لگا تھا۔۔۔۔۔

        اس نے ایک بار ہاتھ پھیرا کر میرے لن کو محسوس کیا اور پھر اپنا ہاتھ سرکاتے ہوئے میرے پیٹ پر لے گئی …………………..اب وہ خود میری ٹانگوں پر بیٹھی ہوئی تھی …………… میرے پیٹ پر ٹٹول کر اس نے پاجامے کا ناڑا ٹٹولا اور پھر آہستہ سے کھول دیا………….میرے لیے یہ ایک بڑی حیرانی کی بات تھی، جو لڑکی میرے چھونے سے کانپ رہی تھی، اب میرے

        لن کو پکڑنے کو تیار تھی………….اور اگلے ہی پالل اس نے میرے پاجامے کو سامنے سے نیچے کو سرکا دیا ……………….میرے لیٹے ہونے کی وجہ سے زیادہ نیچے نہ گیا، پر اتنا تو ہو گیا تھا کہ میرا لن، جو اب اپناپھنکار رہا تھا ………. باہر آکر سیدھا کھڑا ہو گیا ……………………

        وہ شاید اب سمجھ چکی تھی کہ میں سو نہیں رہا ہوں، اس نے ہاتھ بڑھایا اور سیدھا میرے لن پر رکھ دیا………..پسینے سے بھیگ چکے ہاتھ سے پہلے لن کو سہلایا، پھر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا…2-3 بار اس نے لن کو اوپر سے نیچے تک سہلایا اور پھر جھک کر لن کی جڑ میں ایک کس کر دیا…… اس نے لن کو پکڑ کر اپنے گال پر لگایا اور

        ہونٹوں کو اس پر اوپر سے نیچے کی طرف پھیرنے لگی…………اس کی حرکتیں

        بتا رہی تھیں کہ وہ کتنی پیاسی ہے……….

        اب میری برداشت کی حد ہو چکی تھی.. میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا ………….. وہ لگاتار میرے لن کو اور اس کے آس پاس میری میری جھانٹوں پر چومے جا رہی تھی……………… میں اسے چاہیں کو ہاتھ سے پکڑ کر اوپر کیا اور وہ اپنے آپ ہی آگے کو بڑھ کر میری

        گود میں آ گئی ……………… اور میرے گلے میں دونوں باہیں ڈال کر میری گردن میں اپنا منہ چھپا لیا ……………………….

        میں ںے اس کی پوری کمر پر ہاتھ پھیرا اور ہاتھ نیچے اس کی گانڈ تک لے گیا۔۔۔۔

        وہ میرے اس طرح کرنے سے کانپ رہی تھی……….باہر بارش ہو رہی تھی، پتہ نہیں یہ اس کی وجہ سے تھا یا جوش میں آنے کی وجہ سے تھا………… جو بھی ہو

        ………..میں نے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا اور پھر دونوں ہاتھوں کو اس کے سارے جسم پر پھیرنے لگا ……………میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کظ کہاں سے شروع کروں………… میرا ہاتھ کبھی اسکی پیٹھ پر دوڑتا، کبھی اس کی گانڈ کو سہلاتا اور پھر کبھی آگے آکر جا کر اس کے ممے پکڑ لیتا۔۔۔۔۔۔۔

        جو کچھ بھی آج دن بھر میں ہوا تھا، اس کے بعد میں بھی جلدی سے جلدی اسے

        پوری طرح سے پا لینا چاہتا تھا……….. میں نے اسے اپنی باہوں میں اُٹھایا اور پھر دھیرے سے بستر پر لٹا دیا …………….اس سے الگ ہوکر میں کھڑا ہوا اور پھر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنے کپڑے بالکل اتار

        دیے…………….باہر باریش اب بہت تیز ہوتی جا رہی تھی اور اندر ہم دونوں کے جسم کی آگ بھی………

        میں اس کے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور وہ سب دوہرانے لگا جو کچھ دیر پہلے وہ میرے ساتھ کر رہی تھی ………………..میرے ہونٹ اس کے پاؤں پر کس کرتے ہوئے آگے بڑھے، اُسکی پنڈلیوں پر کچھ دیر روکے، پھر اُسکے گھٹنوں پر سے ہوتے ہیں، اُسکی ٹانگوں کے اندر کی طرف چل دیا………. اس کا ایک ہاتھ اب نیچے آکر میرے بالوں میں گھوم رہا تھا …..میرے ہونٹ اس کی رانوں پر کچھ دیر حرکت کرتے رہے اور پھر اپنی منزل کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔۔۔

        میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی پھدی کو سہلایا ………….. اس کی پھدی بالکل کلین شیو تھی……..بالوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا اس کی پھدی پر………….ایک بار

        ہاتھ پھیرنے پر ہی مجھے محسوس ہو گیا تھا کہ وہ کتنی پیاسی ہے…….

        میرے اس کی رانوں کو چھونے سے ہی، اُس کا پانی نکل کر اُس کی پھدی سے نکل رانوں پر گیا تھا…………. میں اپنے ہونٹوں کو اس کی پھدی پر لے گیا……….. میں اگلے ایک منٹ تک چومتا رہا ………….اسکی پھدی کے دونوں ہونٹوں کو اُنگلیوں سے الگ کیا اور پھر اپنی ایک اُنگلی اُسکے اندر سرکا دی ……………اس کا جسم ایک دم سے کانپ گیا …………اس کی گانڈ اوپر کو اٹھ گئی اور پھر 2-3 جھٹکے کھا کر اسکا جسم شانت ہو گیا ………………..

        میرے ہونٹ اب آگے بڑھ گئے تھے …………اس کی ناف پر سے ہوتے ہوئے میرے ہونٹ اسکی مموں پر پہنچے اور پھر اس کے ایک ممے کے نپل کو میں نے اپنے منہ میں بھر لیا …….. مجھے معلوم تھا کہ نزاکت سے اس کی پیاس نہیں بجھنے والی ایک نپل کو میں نے اپنے ہاتھ میں بھر لیا اور دوسرے کو چوسنا شروع کر دیا ………..اس کے منہ سے “سیی……….سیی…..” کی آواز نکلنے لگی ………….اس نے اپنی ٹانگوں کو پھیلا دیا تھا اور میں اسی پوزیشن میں اسے

        ٹانگوں کے بیچ میں آ چکا تھا ……………… اگلے 5 منٹ تک میں بے رحمی سے اس کے نپل چوستا رہا اور نچوڑتا رہا…………… کبھی ایک کو اور کبھی دوسرے کو…… اس کے ہاتھ کبھی میرے سر میں گھوم رہے تھے اور کبھی میری پیٹھ پر …………..پھر وہ اپنا ایک ہاتھ نیچے لائی، اور دونوں ٹانگوں کے بیچ میں لے گئی اور انگلیوں سے میرے لن کو پکڑ لیا ………………… میں اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا…………….میں تھوڑا سا اور اوپر سرکا، اور اس نے بھی

        اپنی ٹانگوں کو اور زیادہ کھول دیا……. میرے ہونٹ اب اس کے سینے سے ہوتے ہوئے، اُس کی گردن پر آئے اور پھر وہاں سے آگے چلتے ہوئے اُس کے ہونٹوں تک پہنچ گئے اسکے ہوتے کھلے ہوئے تھے …………

        میں ایک ہلکی سی کس کرنے کے بعد اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور چوسنا شروع کر دیا………………

        نیچے میرا لن اُس کی پھدی کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ……………ہم دونوں کے پانی سے اسکی پھدی کے آس پاس کی جگہ پوری طرح گیلی ہو چکی تھی………….

        میں اپنا ہاتھ نیچے لے گیا، لن کو ہاتھ سے پکڑا اور اس کی پھدی کے منہ پر پھیرا اور پھر سوراخ ڈھونڈ کر پھنسا دیا ……….. اس کے ہونٹوں کو ہونٹوں میں لیے ہوئے ہی میں نے اپنی کمر کو ہلکا سا دھکا دیا اور

        لن کا ٹوپا اس کی پھدی میں گھس گیا…

        "آہ ہاہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ ہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ……

        ایک لمبی سے سسکاری اس کے منہ سے نکلی اور پھر اس کا جسم ایک بار پھر زور سے کانپ اٹھا …………….وہ شاید سے ایک بار پھر سے فارغ گئی تھی ……. اس نے کچھ سیکنڈ لمبی لمبی سانس لی اور پھر میرے گلے میں باہیں ڈال کر میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا …………. نیچے سے اس کی کمر بار بار اوپر نیچے ہو رہی تھی …… میں جانتا تھا کہ وہ کیا

        چاہ رہی ہے پر میں ابھی اسے اور تڑپانے کے موڈ میں تھا……………4-5 بار اس نے اپنی کمر کو اوپر اٹھایا میں نے بھی ہر بار پیچھے کو ہو کر اس کی خواہش پوری نہیں ہونی دی……………..میرے لن کا صرف ٹوپا ہی اسںکی پھدی کے اندر تھا، باقی لن میں ابھی اندر نہیں جانے دے رہا تھا …………اس نے اپنے ناخن میری کمر پر گاڑھ دیئے۔۔میرے ہونٹوں کو اپنے دانتوں میں دبا لیا اور لمبی لمبی سانس لینے لگی ………..اپنا منہ میرے کان کے پاس لے جا کر بولی……..”

        جلدی سے پورا اندر ڈال دو ناں"

        میں چونک پڑا …………..باہر بجلی کڑکی، مجھے ایسے لگا جیسے وہ بجلی میرے سر کے اوپر ہی گر پڑی ہو…………………

        ایک بجلی باہر کڑکی تھی دوسری میرے اوپر گری تھی۔۔۔۔۔

        اس نے بہت دھیمے سے کہا تھا پر میں جان گیا تھا کہ یہ آواز شازیہ کی نہیں بلکہ حنا کی تھی………………………………

        بڑی ہی عجیب سی حالت تھی میری ….. میں حنا کے اوپر لیٹا ہوا تھا………. میرا لن اس کی پھدی کے دہانے میں پھنسا ہوا تھا اور اب اس ںے اپنی ایک ٹاگ کو میری کمر پر لپیٹ لیا تھا……………….

        میرے لیے یہ صورتحال بڑی ہی نازک تھی……….

        اگر میں حنا سے الگ ہوتا تو مجھے اس کو وجہ بھی بتانا پڑتی اور وہ شاید یہ برداشت نہ کرتی کہ میں رات کے 3 بجے اسبکی بہن کا انتظار کر رہا تھا……….. اور جو کچھ بھی ابھی تک اس کے ساتھ کر رہا تھا وہ شازیہ سمجھ کے کر رہا تھا…………

        میں حنا کو ناراض کرنے کا جوکھم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا، کیونکہ ایک وہی

        تھی جو اس وقت میرے یہاں سے نکلنے میں مدد کر سکتی تھی……میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اس کی پھدی بجا دیتا ہوں۔۔۔۔

        میں نے اپنا سر نیچے جھکایا ………..اپنے ہونٹ حنا کے ہونٹوں سے جوڑ دیے…… اور ایک زوردار جھٹکا اپنی کمر کو دیا……………….

        آہ آہہہہ…..”جس چیز کی تلاش میں حنا

        تھی , اس کو مل گئی …………….لن اس کی پھدی میں گھس چکا تھا اور اس کے

        منہ سے مزے بھری آہ نکل گئی………..

        میں ںے اپنا ایک ہاتھ اس کے ساتھ بستر پر جمایا ……………….دوسرے ہاتھ سے اس کے ایک ممے کو دبوچ لیا اور پھر دھیرے دھیرے کمر کو جھٹکے دینا شروع کر

        دیے……………میرے لیے یہ کوئی نیا کھیل نہیں تھا اور حنا بھی اس کو کھیلنا

        بخوبی جانتی تھی………….افففففففف

        .................... ..آہ آہ .................... اوہ ...................... "ہر دھکے پر کوئی

        نہ کوئی آواز اس کے منہ سے نکل رہی تھی ………..میں 3-4 دھکے زور سے لگاتا تھا

        اور پھر کچھ دھکے دھیمے دھیمے………. میں جانتا تھا کہ جتنا مزہ حنا کو ملے گا، اُتنے ہی دل سے وہ مجھے یہاں سے نکالنے کی کوشش کرے گی …………………….

        اب میں نے اپنی ایک کہنی کو اس کی سائیڈ میں ٹکا دیا اور اپنے جسم کا سارا بوجھ اپنی کہنی پر ڈال دیا………….میرا منہ اس کے ایک ممے پر جما ہوا تھا اور بچے کی طرح اس کو چُوسے جا رہا تھا………… لن پورا پھدی میں جاتا تھا اور پھر باہر نکل کر آتا تھا………….

        اس نے ٹانگیں ہوا میں پوری طرح سے اٹھا لیں …………..اس نے اپنے ایک ہاتھ کو اپنی ایک ٹانگ پر جما دیا………….جس سے ٹانگ کو اوپر کیئے رکھنے میں کوئی تکلیف

        نہ ہو …………………..اس پوزیشن میں اس کی پھدی پوری طرح کھل کر اوپر کو آ

        گئی تھی اور لن بڑے آرام سے اندر جا رہا تھا…………….

        اب میں تھوڑا سا پیچھے ہو کر اپنے گھٹنوں پر ہو گیا……….میں اس کی گانڈ کے نیچے دونوں ہاتھ جمائے اور اس کا وزن اپنے ہاتھ سے پر لے لیا ………….اس کی پھدی کا پانی نکل کر اس کی گانڈ تک آ گیا تھا … اس

        گانڈ کو اوپر اٹھا کر، میں نے لمبے لمبے سٹروک لگانے شروع کر دیے……… لگ بھگ ہورا لن باہر نکال رہا تھا اور پھر پورا ہی اندر واپس دھکیل دیتا تھا………………

        اُس کے منہ سے لمبی لمبی چیخیں اور ہلکی ہلکی آہیں نکل رہی تھیں………………….

        میرے ہونٹ اوپر آتے اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے کی کوشش کرتے ……………..

        بیچ بیچ میں وہ اپنے گال کو میرے گال اور گردن پر رگڑ رہی تھی ………اس کے ہاتھ میرے کولہے پر جمے ہوئے تھے اور وہ پوری

        طاقتت سے مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔۔

        مجھے نہیں معلوم تھا وہ اب تک کتنی بار پانی چھوڑ چکی تھی ……… پر اب میرے

        اندر کا لاوا پھٹنے کو تیار تھا……………میں نے پھر سے اس کو اوپر اٹھا لیا…………… اسکے نیچے والے ہونٹ کو میں نے اپنے منہ میں دبا کر چوسنا شروع کر دیا اور دونوں ہاتھ سے اس کی گانڈ کو دبوچ کر اس کو اوپر اٹھا لیا …………….میرا سارا وزن اب اس کے اوپر تھا پر اس سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا…………..اپنی باہوں میرے گلے میں ڈالے، وہ بھی میرے ہونٹوں کو چوسنے میں لگی ہوئی تھی…………ہمارے جسم اب بڑے طریقے سے اوپر نیچے ہو رہے تھے……………….

        ہم دونوں کے منہ سے لگاتار آوازیں نکل رہی تھیں ……………… دونوں اپنی اپنی منزل کو چھونے کو بے قرار تھے … …میرے دھکوں میں اب تیزی آنے لگی تھی…….اور پھر 10-15 دھکے بہت تیز لگا کر میں نے اپنا سارا لاوا اس کے اندر چھوڑ دیا……….ایک لمبی سی آہ میرے منہ سے نکلی……… اور میرے جسم نے جھٹکے کھانے شروع کر دیئے۔۔۔۔

        حنا کا جسم بھی بالکل کمان کی طرح مڑ گیا تھا ………… اسے اپنی ٹانگیں میری ٹانگوں بلکل ساتھ رکھ تھیں ………….اور لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے………….میرے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی……..

        اگلے 1-2 منٹ میں اس کے اوپر گر کر سانس بحال کرتا رہا ………….باہر موسم

        سرد ہونے کے باوجود ہم دونوں پسینے سے نہائے ہوئے تھے…

        سانس بحال ہوتے ہی میں اس کے اوپر سے ہٹ کر اس کے ساتھ الٹا ہی لیٹ گیا………

        اس نے کروٹ لی اور اپنا ایک بازو میرے پیٹ پر گزار کر مجھے پکڑ لیا اور ایک ٹانگ اٹھا کر میری کمر پر رکھ دی۔۔۔۔۔

        مجھے نہیں معلوم کب میں نیند کی آغوش میں چلا گیا ………..۔
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • #24
          Buhat hi garam aur zabardast update. Kiya khobsorti say manzerkashi ki hai. Lajawab.

          Comment


          • #25
            Bohat umda.update

            Comment


            • #26


              مجھے کوئی خبر نہیں تھی، کب حنا میرے پاس سے اٹھ کر چلی گئی …………..جب میری آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی……….میں کمبل میں لپٹا ہوا تھا اور میرے کپڑے میرے سرہانے رکھے ہوئے تھے ………… میں نے گھڑی میں وقت دیکھا، …………. میں اٹھا اور جلدی سے کپڑے پہننے لگا.۔۔۔۔.میں ابھی کپڑے پہن کر ہٹا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی..میں نے دیکھا وہاں شازیہ کھڑی ہوئی تھی……. چہرے پر سدا بہار مسکراہٹ اور ہاتھ میں چائے کا کپ ………

              "جلدی سے چائے پی لِیں، پھر ہم لوگوں کو چلنا ہے..." کہتے ہی اس نے چائے کا کپ میری طرف بڑھا دیا……

              میں نے اس کے ہاتھ سے کپ لیا اور چائے پیتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا…..باہر بارش اب رک چکی تھی، موسم اب بھی ویسا ہی بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔

              "حنا کہاں ہے.....؟ , میں نے اس کی طرف مڑ کر پوچھا….. وہ ایک دیوار کے سہارے کھڑی ہوکر میری ہی طرف دیکھ رہی تھی…

              "باجی تو صبح ہی شہر چلی گئی تھی ……. شاید دو پہر تک آ جائے گی۔"

              اس نے جواب دیا………

              "اکیلے ہی گئی ہیں....؟ "میں نے چائے ختم کر کے، کپ اُس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے پوچھا……

              "نہیں ………… حسن کو ساتھ میں لے کر گئی ہیں ….." کہہ کر وہ کپ لے کر گھر کے اندر چلی گئی۔۔۔۔۔

              میں کچھ سیکنڈز باہر کھڑا دیکھتا رہا ……………..وہ فوراً ہی اندر سے باہر آ گئی ……….. "چلیے...!! پھر جلدی لوٹ کر بھی آنا ہے………..موسم بھی خراب ہوتا جا رہا

              ہے ………” وہ میرے نزدیک آکر بولی۔۔۔۔

              میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اس سے 5 منٹ کا وقت مانگا، پھر اس سے پوچھ کر گھر میں گیا اور ضروری حاجات سے نپٹ کر 5 منٹ میں ہی باہر آ گیا…………

              وہ باہر ہی کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی… میری طرف دیکھ کر ایک بار پھر سے مسکرائی اور پھر مجھے ساتھ چلنے کااشارہ کر کے طبیلے کے پیچھے کی طرف چل دی…………. اسی طرف جس طرف سے میں پہلے دن یہاں آیا تھا………. میں بڑی پریشانی کی حالت میں تھا………کل تک جہاں میں شازیہ کے ساتھ کچھ وقت بتانے کے لیے پاگل ہو رہا تھا………..آج میں اس سے ایک دوری بنا کے رکھنا چاہ رہا تھا………….جو کل رات میرے اور حنا کے بیچ ہوا، اس کے بعد میرا اپنا ضمیر یہ گوارا نہیں کر رہا تھا کہ میں شازیہ کے نزدیک جاؤں، اس کے ساتھ کوئی بھی رشتہ بنانا، اسے دھوکا دینے کے مترادف تھا……….

              شازیہ میرے آگے آگے چل رہی تھی، اور میں اس سے 10 قدم کی دوری رکھے ہوئے پیچھے پیچھے چل رہا تھا…………

              کسی چھوٹی بچی کی طرح کا الہڑ پن سا تھا اس کی چال میں……..میں نے غور کیا کہ اس نے آج کپڑے بھی کچھ الگ طرح کے پہنے ہوئے تھے……… نارمل سا شلوار سوٹ اور اس پر ایک جیکٹ ………… سر پر اسکارف بندہ ہوا تھا……….

              ہم دونوں چلتے چلتے ندی تک آ گئے ………. یہ وہی ندی تھی جس سے ہوتا ہوا میں یہاں تک پہنچا تھا…………ندی پرپہنچ کر وہ رک گئی اور پیچے مڑ کر دیکھنے لگی…….جیسے مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کر رہی ہو…..میں جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوا اس کے پاس گیا ………

              "کیا ہم نے ندی کے پار جانا ہے؟ میں ندی کی طرف ہی دیکھتے ہوا بولا۔۔۔۔

              ندی میں آج پانی پہلے سے تھوڑا زیادہ ہی تھا ,شاید مسلسل بارش کی وجہ سے تھا۔۔۔

              "نہیں ………………. تم بس میرے ساتھ ساتھ چلتے رہو " یہ کہہ کر اس نے میرا

              ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور پھر ندی کے ساتھ ساتھ بائیں طرف میں چلنے لگی….. میں بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی چلنے لگا………….

              "کیا ہوا ………….آج بڑے چپ چپ ہو" چلتے چلتے اس نے میری طرف دیکھ

              کر پوچھا………..

              " کچھ بھی نہیں ……… بس آج طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے "میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ……………

              "اچھا چلو آج میں تم کو کشمیری زبان سکھاتی ہوں ……..” یہ کہہ کر اس نے پھر میری طرف دیکھا اور مسکرا دی میں نے بھی مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا ………… اگلے آدھے گھنٹے تک ہم دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے ایسے ہی دھیرے دھیرے چلتے رہے ………………..ہم ندی کے بائیں طرف، کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے ……….. سارا وقت شازیہ مجھے کچھ عام سے کشمیری الفاظ سکھاتی رہی جیسے کوئی یہ بولے۔۔۔۔۔ ٹریٹھ پاڑے۔۔۔۔ اس کا مظلب ہے وہ بہت غصے میں اس سے بحث نہ کرنا۔۔۔۔۔

              پھر اس نے میری طرف بڑے دلربانہ انداز عے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ٹوٹھ۔۔۔۔میں نے اس سے اس کا مطلب پوچھا۔۔۔۔ وہ مسکراتی رہی۔۔۔۔

              پھر اس نے مجھے بتایا ۔۔۔۔ مازے بالائی۔۔۔

              جس کے معنی اس نے بتایا مزا آرہا ہے یہاں۔۔۔۔

              میں نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا، پھر اسے پوچھا ٹوٹھ کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔

              اس نے پھر نہ میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔ ٹھا سآ ون ۔۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔کیا مطلب ہے۔۔۔۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔چھوڑ بھی دو اب۔۔۔۔۔

              ایسے ہی ہم ہنستے ہوئے چلتے رہے۔۔۔

              اس نے یہ بھی سکھایا کے اگر کوئی راستے میں پوچھے کہ ہم دونوں

              کہاں جا رہے ہے تو اسے سمجھانا ہے کہ

              ہم اپنے جانوروں کو ڈھونڈ رہے ہیں، جو

              چلتے چلتے یہاں تک آ پہنچے ہیں………

              لیکن میرے دماغ میں ٹوٹھ بیٹھ چکا تھا میں بار بار اس سے پوچھتا رہا لیکن اس نے مجھے نہ بتایا۔۔۔۔

              ہم دونوں کو چلتے چلتے 1 گھنٹہ ہو چکا تھا………. بات کرتے رہنے سے اور موسم اچھا ہونے کی وجہ سے وقت جلدی جلدی بیت رہا تھا۔۔۔۔

              پھر شازیہ رک گئی …………..اور وہیں پر گھاس پر بیٹھ گئی ………… “میں تو ٹھک گئی ہوں ………..کچھ دیر آرام کر لیں ؟ "وہ میرا ہاتھ اب بھی پکڑے ہوئے تھی اور سر اٹھا کر میری طرف دیکھ رہی تھی………

              میں نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر اس کے پاس ہی نیچے بیٹھ گیا………. میرا ہاتھ ابھی تک اس کے ہاتھ میں ہی تھا………

              میں نے چاروں طرف دیکھا ……… ہم نیچے ڈھلوان کی طرف جا رہے تھے اور ہمارے سامنے بڑے بڑے پہاڑ تھے …………ان کے پیچھے کہیں وہ جگہ تھی جہاں سے ہم لوگ ابھی آ رہے تھے…………. پیڑوں کے پیچھے ہونے کی وجہ سے کچھ بھی دکھائی دینا مشکل تھا………… اندازہ ہی لگایا جا سکتا تھا کہ شازیہ کا گھر کہاں پر ہے۔۔۔۔۔۔

              ندی بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہی چل رہی تھی……. آگے جاکر بائیں طرف گھوم جاتی تھی اور پھر کچھ آگے جاکر ایک بڑی ندی میں مل رہی تھی……. کچھ جانور بھی دکھائی دے رہے تھے ……..وہ پالتو جانور تھے اور گھاس چرتے چرتے اس طرف آ گئے تھے…………… کچھ دوری پر 2-3 پرانے مکاں بھی دکھائی دے رہے تھے …………جو کھنڈر نما ہو گئے تھے …………شاید وہاں کوئی رہتا نہیں تھا………

              موسم پھر بدلنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔

              میں نے شازیہ کی طرف دیکھا ……….وہ ایک ٹک میرے چہرے کو ہی دیکھ رہی تھی……….نظر ملتے ہی اس نے اپنی

              نگاہیں جھکا لیں …….. اور پھر سامنے ندی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔

              "وہ دیکھو …………… یہ ندی نیچے جاکر اُس بڑی ندی میں مل جائے گی………. اس سے آگے پھر دونوں طرف کمینے ہندو فوج کے آدمی رہتے ہیں ………… مجھے تو نہیں لگتا کہ تم ان سے بچ کر یہاں سے نکل پاؤگے ………..”

              یہاں سے دیکھنے پر ندی کے آس پاس کوئی حرکت نہیں دکھائی دے رہی تھی……… پر ندی یہاں سے کافی دور تھی، اسلیے کچھ بھی کہنا مشکل تھا۔۔۔۔۔

              "تمہاری دل نہیں کر رہا نہانے کو؟ میرا دل تو کر رہا ہے کہ ندی میں نہا لوں ………” وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔

              "تو نہا لو، کس نے روکا ہے...!! "میں نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا"

              "اچھا جی، تمھارے سامنے کس طرح نہا سکتی ہوں؟" "وہ شوخی کے ساتھ مسکراتے ہوئے بولی …………اس کے چہرے پر ایک شرارت سی جھلک رہی تھی۔۔۔۔۔

              "چلو میں منہ پیچھے کر لیتا ہوں..... تم نہا کر آ جاؤ" میں نے اسی کی طرح شرارتی انداز میں کہا……………….

              اس نے ایک بار میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا………

              جیسے من کی بات پڑھنے کی کوشش کر رہی ہو……………….پھر دوبارہ مسکرا دی……

              تبھی جیسے قدرت نے بھی ہمارے من کی بات پڑھ لی ہو…………..بوندہ باندی شروع ہو گئی۔۔۔۔۔

              "چلو جلدی سے آگے چلو ……… بارش تیز ہو گئی تو پھنس جائیں گے"اتنا کہہ کر

              وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر میں بھی کھڑا ہو گیا………

              ہم دونوں تیز تیز قدموں سے آگے چلنے گے ………………..وہ جو ایک دوری سی ہمارے بیچ بن گئی تھی، وہ اب کم ہو گئی تھی… ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہم ساتھ ساتھ چل رہے تھے ……………

              تھوڑا سا ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ اچانک برف باری شروع ہو گئی ………….. موسم بھی ایک دم رومانوی سا ہو گیا تھا …… ہلکے ہلکے روئی کے گولے آسمان سے گر رہے تھے اور زمین پر بکھرے جا رہے تھے۔۔۔۔

              کچھ ہی منٹوں میں چاروں طرف سفید چادر سی بن گئی تھی ……………

              چلتے چلتے ہم ڈھلوان کے آخری سرے تک آ گئے تھے …اس کے آگے پہاڑ لگ بھگ سیدھا ہوکر نیچے جا رہا تھا،سامنے کی طرف ایک

              کھائی سی بنی ہوئی تھی ………..ندی بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی نیچے گر رہی

              تھی اور ایک جھرنے میں بدل کر پھر نیچے بڑی والی ندی میں مل رہی تھی……….. کل ملا کر ایک کمال کا منظر تھا، اس پر موسم بھی اپنا اثر دکھانے لگا تھا………. برف کے ساتھ بارش کی بوندیں بھی گر رہی تھیں۔۔

              میں نے دیکھا شازیہ اور میں، دونوں بالکل بھیگ چکے تھے……………

              چلو، کہیں پر کچھ دیر کے لیے رک جاتے ہیں ………….ایسے تو بھیگتے ہی رہیں گے "میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

              "آو، وہاں چلتے ہیں ……….." اس نے ایک طرف غار نما گھر کی طرف اشارہ کیا……. اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ

              پکڑے ہوئے، بھاگتے ہوئے….اس گھر تک پہنچ گئے.....

              وہ ایک کافی پرانا سا گھر تھا………..ہم دونوں بھاگتے ہوئے وہاں تک پہنچے تھے ……….. گھر کے آگے والے حصے میں ایک شیڈ سا بنا ہوا تھا، ہم دونوں وہاں پر کھڑے ہوکر سانس لینے لگے……….. پھر میں نے اندر جھانک کر دیکھا گراؤنڈ فلور کی حالت بہت ہی خراب تھی …………… جانور شاید یہاں آ کر آرام کرتے ہوں گے، اس وجہ سے یہاں کافی گندگی پھیلی ہوئی تھی……. اندر گھستے ہی ایک سیڑھی اوپر کی طرف جاتی تھی…………..میں سیڑھی کے راستے اوپر گیا ……………اوپر دو کمرے بنے ہوئے تھے ،کھڑکی اور دروازہ سب ٹوٹے ہوئے تھے، فرش پر گھاس پھوس پڑی ہوئی تھی….. شاید یہاں کے لوکل لوگ یا ملٹری والے کبھی کبھی رکنے کے لیے اس جگ کا استمال کرتے ہوں گے ………..

              سامنے ایک بالکونی بنی ہوئی تھی…… میں وہسں تک پہنچا ……….. وہاں سے سامنے کا میدان، اُس کے آگے ندی اور جھرنا دونوں دکھائی دے رہے تھے… “اگر اس جگہ کی صحیح طرح سے دیکھ بھال کی جائے تو ایک اچھا ریزورٹ بن سکتا ہے "میں نے اپنے من میں سوچا۔۔۔۔۔

              کیسی بیوقوفانہ سوچ تھی میری اس جگہ جو نظر آ رہا تھا، اس سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہاں قابض انڈین فوج لوگوں کے ساتھ کیسا بے رحمانہ سلوک کرتی ہوگی۔۔۔

              ایسے حالات میں ٹورسٹ کہاں سے آتے یہاں۔۔۔

              میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ پیچھے آہٹ ہوئی، میں نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے شازیہ کھڑی تھی۔۔۔۔

              وہ میرے پاس آ گئی اور باہر دیکھنے لگی……….

              ہم دونوں بارش میں پوری طرح سے بھیگے ہوئے تھے… جہاں ہم کھڑے تھے، وہاں پر پانی کی کچھ بوندیں آ رہی تھیں، پر وہ اچھی ہی لگ رہی تھیں……

              پتہ نہیں کب تک یہ برف باری اور باریش ہوتی رہے گی؟ "شازیہ نے سامنے کھلے میدان میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

              تم تو پوری طرح سے بھیگ چکی ہو …………..دیکھ لو، تمھارے نہانے کی

              خواہش پوری ہو گئی ”میں نے ہنستے ہوئے کہا …………

              جواب میں وہ بھی مسکرا دی۔۔۔۔

              میں اندر گیا اور تھوڑی سی گھاس پھوس کو اکٹھا کر کے دروازے کے پاس لے

              آیا ……… اور اسے وہاں پر رکھ کر بیٹھ گیا ……….. پھر شازیہ کو بھی اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا……………….وہ میرے

              جسم سے بالکل ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھ

              لیا، شاید ٹھنڈ کی وجہ سے اس نے ایسا کیا تھا۔۔۔۔۔

              تم کو تو معلوم ہی ہوگا کہ بارش پڑنے والی ہے، پھر چھتری ساتھ کیوں نہیں لائی “میں نے اس کی طرف دیکھ کر سوال کیا

              "مجھے پانی میں بھیگنا اچھا لگتا ہے..." وہ سامنے گرتی برف کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ "اور اگر بیمار پڑ گئی تو؟ ,

              "تم جو میرے ساتھ ہو……… مجھے میرے گھر تک تو پہنچا ہی دو گے؟ "اس بار اس نے میری طرف، میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا……….

              اُسکی آنکھوں میں مجھے اپنا پن اور بے تحاشہ پیار نظر آ رہا تھا…….میں نے ایک بازو کو پیچھے کرتے ہوئے، اسے اپنے

              جسم سے چپکا لیا ……………اس نے بھی اپنا سر میرے کاندھے پر ٹکا دیا اور

              اپنے ہاتھ میں میرا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا………………

              اگلے کچھ منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی بیٹھے رہے……….. بالکل چپ چاپ……..ایک دوسرے کو تھامے ہوئے………….. پھر کافی دیر کے بعد اس نے ہی چپ کو توڑا….

              "کیا تم واقعی یہاں سے چلے جاؤگے؟ ,

              میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا، ایک انجانا سا ڈر اور سوال اسکی آنکھیں میں تھا۔۔۔۔۔

              "تم کیا چاہتی ہو، میں یہاں سے نہیں جاؤں" میں نے اس کے ایک ہاتھ کو اپنے

              ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ “نہیں……….اور آگر جاؤ تو اکیلے مت جانا…”

              یہاں کسی ناں کسی دن میرے ساتھ کوئی ہندوستانی غلیظ فوجی زیادتی کرکے مجھے اپنی نظروں میں گرا دے گا۔۔۔۔

              اس کی آواز میں ایک عجیب سا ڈر تھا، جو شاید کشمیر میں جوان ہوتی ہر لڑکی کے دل میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔

              اس نے یہ سب نظریں نیچے جھکائے ہوئے مجھ سے نظریں ملائے بغیر کہا …….…۔

              میری سمجھ میں اسکی بات کا مطلب آ چکا تھا …………میں اس سب بچنا چاہتا تھا۔۔۔۔

              لیکن اس کا بھیگا بھیگا حسن اس سردی میں بھی آگ لگا رہا تھا۔۔۔۔

              وہ نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کے جسم کی گرمی میرے اندر سرایت کرتی جا رہی تھی۔۔۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی میرا لن ٹائیٹ ہوتا گیا۔۔۔۔ میرا ضمیر بار بار میرے اندر ہتھوڑے برسا کر مجھے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔

              لن اور ضمیر کی اس کشمکش میں میرا سر گھومنے لگا۔۔۔۔

              لن کی گرمی میرے اندر آگ لگا چکی تھی ۔۔۔

              پھر لن اور ضمیر کی اس جنگ میں لن بازی لے گیا۔۔۔

              ضمیر کو یہ کہہ پر مطمئن کر دیا کہ حنا کونسا میری محبوبہ یا بیوی ہے جو اس کے ساتھ بھی تو سیکس کر لیا تھا۔۔۔۔ پھر اس کی بہن کے ساتھ کیوں نہیں۔۔۔

              ویسے بھی حنا کو کونسا میں نے خود کہا تھا وہ تو خود آ کر مجھ سے چدوا گئی تھی ۔۔۔۔

              جب کہ شازیہ مجھے اچھی لگی تھی اس کے ساتھ میں خود کرنا چاہتا تھا۔۔۔سچا نہ صحیح کچھ نہ کچھ تو میرے دل میں اس کے لیے پیار تھا۔۔۔۔

              ویسے بھی شازیہ کے اندر جس قدر آگ لگی ہوئی ہے، اس نے آج نہیں تو کل کسی نہ کسی سے اپنی ڈیل تڑوا لینی ہے ۔۔۔۔

              اس کی پھدی میں لن تو جانا ہی ہے تو میرا کیوں نہیں۔۔۔۔ بس یہ سب سوچنا تھا ۔۔۔۔

              میں نے ایک ہاتھ سے اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا…..اس کی آنکھوں میں نمی سی دکھائی دے رہی تھی……یہ نمی دیکھ کر میں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔۔

              "یہ لڑکی مجھے سچ میں پیار کرنے لگی تھی …..پر کیا میں بھی اس سے پیار

              کرتا ہوں، یا پھر صرف اس کے جسم کی پیاس ہے جو مجھے اس کے نزدیک لا رہی

              ہے….. “میں من ہی من سوچ رہا تھا اور اس نے اپنا چہرہ میرے سینے میں چھپا لیا… ساتھ ہی ایک بازو کو بھی میری کمر پر لپیٹ کر مجھ سے پوری طرح چپک گئی….

              میں کچھ دیر تک ایسے ہی اسے چپکائے ہوئے بیٹھا رہا…….اس لڑکی نے صرف

              ایک ہی بات سے مجھے اندر تک ہلا دیا تھا…… ابھی تک مجھے صرف اپنے نکلنے

              کی فکر تھی، پر اب شاید شازیہ کو بھی ساتھ لے جانے کی ترکیب نکالنی پڑےگی……

              اچانک بارش کی ایک تیز بوچھاڑ، ہوا کے ساتھ اندر آئی……..اور ہم دونوں کو بھگو گئی… ہم دونوں جو ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھے تھے، اچانک الگ ہو گئے اور پھر ایک ساتھ ہی دونوں کی ایک ہنسی چھوٹ گئی…….

              میں وہاں سے اٹھ گیا اور شازیہ کو بھی ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا …..ہمارے کپڑے جو اتنی دیر میں کچھ حد تک سوکھنے لگے، ایک ہی بوچھاڑ سے پھر بھیگ گئےتھے……

              تم وہاں جاکر اپنے کپڑے سکھا لو…… "میں نے ایک بار اپنے ضمیر کی بات مانتے ہوئے اس کو خود سے دور کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔

              شاید قدرت نے ہمیں ایک اور موقع دے دیا جو بارش کی بوچھاڑ اتنا اندر تک آگئی تھی۔۔۔۔

              میں نے دوسرے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو کہا تھا۔۔۔۔۔

              اس نے میرا ہاتھ ایسے آرام سے چھوڑا جیسے ڈر رہی ہو کہ میں کہیں بھاگ نہ جاؤں ……….پھر دھیرے سے پلٹ کر، اُس کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔

              میں نے اپنی جیکٹ اور کرتا اتار دیا اور ایک دیوار کی پر سوکھنے کے لیے ڈال دیا…… میں پھر سے بالکونی پر آ کر کھڑا ہو گیا….. باہر اب بارش ہلکی ہو گئی تھی، پر برف ابھی بھی لگاتار پڑ رہی تھی…… میں نے ایک دیوار سے ٹیک لے لگا لی، …

              مجھے حیرانی ہو رہی تھی اتنی سردی میں بھی مجھے ٹھنڈ نہیں لگ رہی تھی۔۔۔

              میں ٹیک لگائے سوچنے لگا،کل رات جو کچھ بھی حنا اور میرے بیچ ہوا، اس کے بعد شازیہ سے کوئی بھی وعدہ کرنا، اصولاً اخلاقیات کے منافی تھا…… پر مجھے یہ بھی دیلکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔کہ وہ سچ میں مجھ سے پیار کرنے لگی ہے اور میرے ساتھ کسی بھی جگہ جانے کے لیے تیار تھی … مجھے لگ رہا تھا کہ شاید مجھے نہیں لگ رہا تھا بلکہ حقیقتاً میرے دل میں بھی اس کے لیے پیار کے جگنو جلنے لگے تھے……… میں اس سب پر دوبارہ سے سوچنے لگا…… کیا حنا اس کے لیے تیار ہو جائے گی کہ میں شازیہ کو اپنے ساتھ لے جاؤں،لیکن اسے اکیلے یہاں چھوڑ کر جانا بھی شاید صحیح

              نہ رہے……..پر مجھے ابھی بھی نہیں معلوم تھا کہ میں خود بھی کب تک یہاں سے نکل پاوں گا، ایک بار اگر میں واپس پاکستان پہنچ گیا تو پھر شاید ان دونوں کے بھی یہاں سے نکلنے کا کوئی بندوبست کر پاؤں۔۔۔

              میں ابھی اپنی سوچ میں ہی ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک مجھے اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی اور پھر اپنی پیٹھ پر ایک ٹھنڈا سا احساس ہونے لگا……………..یہ احساس میرے رونگٹے کھدے کر دینے والا تھا، کیوں کہ میں باخوبی اس احساس کو پہچانتا تھا ………….میرے پیچھے کوئی جسم، بنا

              کپڑوں کے موجود تھا اور وہ شازیہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا…

              شازیہ نے میری کمر سے چپک کر، اپنی باہوں سے مجھے پکڑ لیا تھا….

              اس کے مموں کی نرمی،گرمی ملی جلی میری کمر پر میں محسوس کر رہا تھا۔۔۔

              ایک منٹ میں ہی ضمیر صاحب کی چھترول بھول گیا۔۔۔۔ضمیر کو لن کی گرمی نے مار بھگایا۔۔۔

              میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑا اور پھر دھیرے سے اپنے آپ کو اس سے الگ کرتے ہوئے پیچھے گھوم گیا ……….میرا اندازہ بلکل صحیح تھا …وہ کمر کے

              اوپر بلکل ننگی حالت میں تھی ………..اپنا کرتا اور جیکٹ وہ شاید، دوسرے کمرے میں سوکھنے کے لیے ڈال آئی تھی، اور ایسے ہی نیم ننگی حالت میں میرے پاس آ گئی تھی…

              میرے پیچھے گھومنے سے اس نے نظریں جھکا لی تھیں۔۔۔۔

              " کیا ہوا ……………… ؟ "میں نے ایک ہاتھ کو اس کی کمر پر لپیٹا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے چہرے کو اوپر اٹھا کر اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا….

              اس نے کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی آنکھیں کھولیں، بس آگے بڑھ کر میرے سینے میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور اپنی باہوں کو میری کمر پر کس دیا………

              اب اس کے ننگے ممے میرے سینے میں دبے ہوئیے تھے… ایک کرنٹ سا میرے پورے جسم میں دوڑنے لگا تھا ………نا چاہتے ہوئے بھی میرے ہاتھ اس کی کمر پر پہنچ گئے اور پھر دھیرے دھیرے میں نے اس کی کمر کو سہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔

              ہم دونوں ہی کمر کے اوپر بالکل ننگے تھے…

              موسم، ہمارے جذبات کو اور بھڑکا رہا تھا.. میرے ہاتھ اسکی کمر پر اب اوپر سے نیچے تک گھوم رہے تھے اور کچھ ایسی ہی حالت شازیہ کی بھی ہو رہی تھی … وہ اپنے ہاتھ کی پکڑ سے میری پیٹھ کو کستی جا رہی تھی اور اپنے گالوں سے دھیرے دھیرے میرے سینے کو سہلا رہی تھی…

              میں نے ایک چھوٹا سا کس اس ماتھے پر کیا اور جواب میں اس نے بھی وہی حرکت میرے سینے پر کر دی……..میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کی پیٹھ سے ہٹا کر، اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا ….اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ کل جو کھیل ادھورا رہ گیا تھا وہ اس کو اب پورا کرنا چاہتی تھی………

              میں نے اس کی آنکھوں کو چوما اور اس نے خود ہی اپنے ہونٹ میری طرف بڑھا دیے… آج اس کے ہونٹ تھوڑے سے کھلے ہوئے تھے. میں نے پہلے ایک چھوٹا سا کس اس کے ہونٹوں پر کیا اور پھر اس کے نیچے والے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں دبوچ لیا………… وہ بھی اپنے ہاتھ سے میرے کمر سے ہٹا کر میرے سر پر لے آئی، اور میرے بالوں کو ہاتھ سے سہلانے لگی….

              اگلے دو منٹ تک ہم دونوں اسی پوزیشن میں رہے ………….میرے دونوں ہاتھوں نے اسے گالوں پر سے پکڑا ہوا تھا اور ہونٹ اس کے ہونٹوں کا رس چوس رہے تھے……….وہ بار بار اپنی مموں کا دباو میرے سینے پر

              بڑھا دیتی تھی ……… اور اسکی مموں کی رگڑ سے میرے سارے جسم میں چنگاریاں سی اٹھنے لگی تھیں……..

              میں نے اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں سے الگ کیا……ایک بار ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا…….پھر اس کی طرف سے سواغت بھرے پیار کا احساس پاتے ہوئے، میں نے اپنے ہونٹوں کو پھر سے آگے بڑھا دیا ……..اس بار میرے ہونٹ اس کی گردن پر تھے ……..کچھ دیر اس کی گردن پر میں اپنے ہونٹوں کو پھیرتا رہا، پھر اپنی زبان کو باہر نکالا اور اس کی گردن پر پھیرتا ہوا، نیچے کی طرف لے جانے

              لگا ………دھیرے دھیرے اپنی زبان سے ایک لکیر بناتا ہوا میں اس کھ دونوں مموں کے بیچ سے ہوتا ہوا اسکی ناف تک پہنچا … اور پھر میں اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا اور اپنی زبان اس کی ناف میں گھسا دی……….. اس کے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑتا محسوس ہوا اور اس نے اپنے ہاتھ میرے بالوں میں گھسا دیے……..اگلے کچھ سیکنڈ میں ایسے ہی اپنی زبان اور ہونٹوں سے چوستا رہا۔۔۔

              پھر میں نے اپنی زبان کو اوپر کی طرف بڑھانا شروع کیا……….ساتھ ساتھ میں کس بھی کرتا جا رہا تھا ……… میری زبان اس کے ایک ممے پر جاکر رُک گئی ………میں نے اس کے ایک ممے کی باہر اپنی زبان سے ایک دائرہ بنانا شروع کر دیا………..ہر بار جب ایک چکر پورا ہوتا تھا، دائرہ چھوٹا ہوتا جاتا تھا ………..اس کے منہ سے سسکاریاں پھوٹنے لگی تھیں ………………دائرہ چھوٹا ہوتے ہوتے میری زبان اس کے نپل تک پہنچ

              گئی………اس کے نپل کو میں نے اپنی زبان سے چھیڑا اور اس کے منہ سے ایک لمبی سی آہہہ ہہاہاہا نکل گئی……………

              پھر میں نے اس کے نپل کو منہ میں بھر لیا اور بہت دھیرے دھیرے چوسنا

              شروع کر دیا…. اس کے منہ سے اب سے ڈب لمبی سسکاریاں نکل رہی تھیں…….. اس کے ہاتھ میری کمر پر گھوم رہے تھے اور اپنی بےتابی کا احساس کروا رہے تھے …….میرا منہ اس کے دوسرے نپل پر آ گیا، اور

              میں نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو پہلے کے ساتھ کر رہا تھا……..میرے

              ہاتھ اب اسکی کمر سے نیچے، اس کی کمر پر سے ہوتے ہوئے ..اس کی گانڈ پر پہنچ گئے اور گانڈ کی پھاڑیوں کو دبوچ لیا…… گیلے کپڑوں میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ نیچے سے بھی ننگی ہی ہے..

              اچانک اس نے پورا زور لگا کر اپنے آپ کو مجھ سے الگ کیا... وہ ہانپ رہی تھی اور اس کی سانس بہت تیز چل رہی تھی........ ہر سانس کے ساتھ اس ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے……..اس نے ایک بار میری آنکھوں میں

              دیکھا اور پھر دو قدم پیچھے کو ہو گئی…. پھر وہ گھوم کر دوسرے کمرے کی طرف چل دی…………اُس کمرے کے اندر گھستے ہوئے اس نے ایک بار پھر میری طرف گھوم کر دیکھا اور پھر کمرے کے اندر چلی گئی۔۔۔

              میں کچھ سیکنڈ تک وہیں پر کھڑا سوچتا رہا کہ اچانک شازیہ کو کیا ہو گیا …….. اب میں یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ میں غلط لر رہا ہوں ۔۔۔۔بلکہ میں صرف یہ سوچ رہا تھا اب اس کو کیا ہوا ہے۔۔۔۔

              پھر اس دوسرے کمرے کی طرف بڑھ گیا …

              دوسرے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر جب میں نے اندر جھانکا تو میرے ہونٹوں پر ہنسی اور آنکھوں میں چمک آ گئی… اندر کا منظر ہی لاجواب تھا۔۔۔۔

              اس دوسرے کمرے میں بھی کافی ساری گھاس پھوس بھری ہوئی تھی ……. جس کو شازیہ نے اکٹھا کر کے ایک بستر سا بنا دیا تھا ……… اس بستر پر شازیہ لیٹی ہوئی تھی، بالکل ننگی حالت میں ……اس کی شلوار بھی اب جسم سے الگ ہوکر کھڑکی پر ٹنگی ہوئی تھی………وہ بستر پر الٹی ہوکر لیٹی ہوئی تھی اور اپنا چہرا اپنے ہاتھ سے ڈھکا ہوا تھا ……… کل ملاکر اظہار

              اور شرم کا انوکھاا سنگم دکھائی دے رہا تھا…….

              میں اس بستر کے نزدیک پہنچا اور اس کے جسم کو اوپر سے نیچے تک جی بھر کر دیکھا…..بالکل صاف اور بے داغ بدن…. پتلی کمر اور اس کے نیچے کچھ چوڑی گانڈ .... اس نے ایک ٹانگ دوسری کے اوپر چڑھائی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے دونوں گوشت سے بھری ہوئی رانیں آپس میں ملی ہوئی تھیں………

              میں نے باہر دیکھا……..برف اب بھی لگاتار پڑ رہی تھی……میں نے بھی اپنے جسم پر موجود آخری کپڑا، یعنی اپنا پاجامہ اتار کر اپنے جسم سے الگ کر دیا … اور بستر پر اس کے پاس بیٹھ گیا….

              میں نے ایک ہاتھ اس کی دودھیا ران پر رکھا تو اس کے جسم میں کپکپی کا احساس مجھے ہوا ………..میں اپنے ہاتھ کو اس کی ران پر پھیرا اور پھر ہاتھ کو اُس کی گانڈ پر لے گیا……….میرے ہاتھ پھرنے سے اُس کے جسم میں جو حرکت ہو رہی تھی اسکا احساس مجھے ہو رہا تھا..

              میں تھوڑا نیچے کو ہوا اور جھک کر اپنے ہونٹ اسکی پنڈلی پر رکھ دیے…… پھر اوپر کی طرف چلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے کس کرنے لگا، ہر کس کے ساتھ میرے ہونٹ آگے بڑھ جاتے ………اس کے گھٹنوں کے پیچھے والے حصے سے ہوتے ہیں میرے ہونٹ اس کی ران تک پہنچے اور پھر اس کی گانڈ

              تک……….ایک طرف کا سفر پورا کرنے کے بعد میں نے دوسری طرف سے نیچے کی

              طرف بڑھنا شروع کیا ………… اور میرے ہونٹ اس کی گانڈ کے ابھرے ہوئے چوتڑ سے ہوتے ہوئے، اس کی ران، پنڈلی اور پھر اس کے پنجے تک پہنچ گئے……………

              نیچے پہنچ کر میں نے اس کے دونوں پاؤں کو ہاتھ سے پکڑا اور ایک دوسرے سے الگ کر دیا …………… پھر میں نیچے جھک گیا اور دونوں پیروں کے اندرونی حصوں کو چومتا ہوا اوپر کی طرف بڑھنے لگا…….. دھیرے دھیرے، اپنے ہونٹوں کی مہر لگاتا ہوا میں اس کی رانوں کے اندرونی حصے تک پہنچ گیا………..ہر کس کے ساتھ اس کے جسم میں ایک حرکت ہوتی تھی اور اس کی ٹانگیں بھی اپنے آپ کھلنے لگی تھیں……..

              اُس کے موٹے موٹے گوشت سے بھرے ہوئے پٹوں کو میں کافی دیر تک چومتا رہا ……. بیچ بیچ میں منہ کھول کر چوس بھی لیتا تھا ……….. پھر میں دو ہاتھوں کو اس کی رانوں کے اندر والے حصوں پر رکھا اور دونوں کو الگ الگ سمت میں پھیلا دیا…. اس کی پھدی اب پوری طرح سے کھل کر میرے سامنے تھی …….اس کے لب پہلے ہی پھدی کے رس میں بھیگی ہوئی تھی اور ایک رسیلے پانی کی جھڑی سی لگی دکھائی دے رہی تھی………….

              میں پوری طرح نیچے لیٹ گیا، میں نے اپنا سر نیچے کیا اور اپنے ہونٹوں کو اس کی پھدی پر رکھ دیا ……… ایک عجیب سا سواد میرے ہونٹوں کو محسوس ہوا جو میرے لیے تو انجانا نہیں تھا ………..

              اپنے دونوں ہاتھوں کو اس کی گانڈ کی پھاڑیوں پر جما کر میں نے اسے پکڑ لیا اور پھر اپنی زبان کو اس کی چھوٹی سی پھدی کی لکیر پر اوپر سے نیچے پھیرنے لگا…..اسکی پھدی پر ملائم سے، ہلکے سنہرے رنگ کے بال تھے جو میرے اندر ایک جوش بڑھا رہے تھے………………میں اس کی پھدی کو دیکھ کر جوش میں آ رہا تھا ۔۔۔۔

              ابھی تو پیچھے سے پھدی کی جھلک دیکھی تھی تو یہ حال تھا اگر سامنے سے دیکھ لیتا تو ، میں پھدی کو کھانے لگ جاتا۔۔۔۔

              میں نے اپنی دو انگلیوں سے اس کی پھدی کے ہونٹوں کو الگ کیا اور پھر اپنی زبان کو

              تھوڑا سا اندر گھسا دیا ………… میری اس حرکت سے اس کے اندر جوالا مکھی بھڑک اٹھی……. اس کا پورا جسم زور سے کانپا اور پھر گیلا پن مجھے اپنی زبان پر محسوس ہوا……….

              میں اس کے اوپر سے اٹھا ………….اس کو کندھے سے پکڑ کر گھمایا اور سیدھا

              لیٹا دیا ……..اب وہ بالکل سیدھی میرے سامنے لے گئی تھی، بالکل ننگی حالت میں، اس کے ممے اس کے سینے پر اپنے جلوے بکھیر رہے تھے، وہ شرما رہی تھی، اس کے چہرے کا رنگ لال سرخ ہو چکا تھا، اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھک لیا تھا……..

              میں نے اس کی دونوں ٹانگوں کو الگ کیا اور ان کے بیچ میں بیٹھ گیا……… پھر اس کے اوپر ڈھ سا گیا پر اپنا سارا وزن اس کے ایک طرف میں ایک کہنی رکھ کر اس پر ڈال دیا۔۔۔۔۔

              دوسرے ہاتھ سے میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑا اور اس کے چہرے پر سے ہٹا دیا… اسںکی آنکھیں بند تھیں..میں نیچے کو جھکا اور اسکی آنکھوں کو چوم لیا۔۔۔۔۔

              "آنکھیں کھولو شازیہ ……" میں نے اس کے گال کو چومتے ہوئے کہا……….

              اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔

              "تم جانتی ہو ناں کہ تم کیا کرنے جا رہی ہو...." میں اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا……..جواب میں اس نے دھیرے سے سر ہلایا اور اپنا چہرہ میری بغل میں چھپا لیا ………..

              تم یہ بھی جانتی ہو کہ شاید میں یہاں سے چلا جاؤں پھر واپس نہیں آ پاؤں گا……… "میں اس کو سچ بتایا…. اس نے اپنا چہرہ میرے سامنے کیا اور میری آنکھوں میں دیکھنے لگی

              "میں بس اتنا جانتی ہوں کہ میں تم کو چاہتی ہوں، اور مجھے یقین ہے"

              کہ تم مجھے کبھی دھوکا نہیں دو گے“….. اتنا کہہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور چوم لیا……

              اس کی اس بات سے میرے دل میں اس کے لیے سارے جہاں کا پیارامڈ آیا……. میں نے من ہی من فیصلہ کر لیا کہ اب میں یہاں سے شازیہ کو ساتھ لےکر ہی جاوں گا………..

              میں نے اپنا ہاتھ نیچے کیا ……….اس کی دونو ٹانگوں کو تھوڑا سا اور پھیلایا اور پھر اپنے آپ کو تھوڑا سا آگے سرکا دیا…. میرے لن کی ٹوپی اپنی پھدی پر پاتے ہی اس کے منہ سے ایک بار پھر سِسکاری نکل

              گئی… اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور انتظار کرنے لگی میری اگلی حرکت کی…….

              میں نے اپنا ہاتھ اس کی پھدی پر اوپر سے نیچے کی طرف پھیرا……..اپنے رس میں بھیگی ہوئی اس کی پھدی لن لینے کے لیے بالکل تیار تھی……..میں نے اپنے لن کو

              ہاتھ میں پکڑا اور پھر اس کے سوراخ پر ٹکا دیا ………..میں نے دونوں ہاتھوں کو اس کی بغل سے نکال کر اس کے کندھوں سے پکڑ لیا … مجھے معلوم تھا کہ اس پر اب کیا بیتنے والی ہے…….. پھر میں نے اپنا سر نیچے جھکایا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں سمیٹ لیا……….اس نے بھی اپنے ہونٹ کھول کر میرا سواگت کیا……… کچھ سیکنڈ تک ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے اپنی کمر کو جھٹکا دیا اور اپنا لن جو ابھی تک اس کی پھدی کے منہ پر ہی تھا……..اندر دھکیل دیا

              آہ ہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ

              اسکے مجھ سے ایک چیخ نکلی ,جو اپنے منہ کے اندر ہی دب گئی ……… اپنے لن پر گرم سا احساس مجھے ہوا ، شاید اس نے اپنا کنوارا پن کھو دیا تھا …….اسںکے چہرے پر درد کی لکیر صاف دکھائی دے رہی تھی… میں نے ایک ہاتھ کو اس کی ٹانگ کے ساتھ پھیرا اور پھر اس کے گال کو

              چومنے لگا ……..سرد موسم میں بھی اس کے چہرے پر پسینہ دکھائی دے رہا تھا…. میں نیچے جھکا اور اس کے ایک ممے کو منہ میں بھر کے چوسنا شروع کر دیا……..

              اس نے اپنے ہاتھ کو میری کمر پر لے جاکر مجھے پکڑ لیا……….اب میں نے اپنی کمر کو ہلکے جھٹکے دینا شروع کر دیے…….10-12 جھٹکوں کے بعد ہی مجھے لگنے لگا کہ

              اب وہ میرا ساتھ دینے کو تیّار ہے میں نے سر اٹھا کر اس کے چہرے پر دیکھا……. اس کی نظر میری ہی طرف دیکھ رہی تھی……. میرے دیکھتے ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر میرا چہرہ اپنا پاس کر لیا اور پھر اپنا منہ میری بغل میں چھپا دیا ………… میں اس کے بولو چومتے ہوئے جھکے لگنے لگا....

              میرے دھکوں میں اب تھوڑی تیز آتی جا جا رہی تھی ………..کچھ تو میرا بے صبرا

              پن اور کچھ اس کی تنگ پھدی کی وجہ، مجھے لگ رہا تھا کہ میں زیادہ دیر تک اپنے اوپر کنٹرول نہیں کر پاؤں گا…

              میں اب اس کے اوپر سے اٹھ کر، گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا……..اس کی ایک ٹانگ کو

              اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا اور پھر لمبے ہٹ ہٹ کر دھکے مارنے شروع کر دیے………

              ہر دھکے کے ساتھ اب اس کے منہ سے آواز نکل رہی تھی، مستی بھری آواز جس میں درد کا احساس بہت کم تھا ……یا شاید مزہ درد پڑ حاوی ہو گیا تھا….

              میرے ہر دھکے کے ساتھ اس کی کمر بھی حرکت کرنے لگی تھی…….. میں نےاس کے گھٹنوں کو پورا موڑ کر، ٹانگوں کو کھول دیا….اور ایک ہاتھ کو اس کی کمر کے نیچے ڈال کر اسکی گانڈ کو تھوڑا اوپر اٹھا لیا…. پھر میں نے اپنے گھٹنوں کو بستر پر جما کر زوردار دھکے لگانے شروع کر دیے……….

              آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ ہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہ……………………….رک جاو ہاااااااں …………….ایسے ہی۔۔۔۔

              کچھ اس طرح کی آوازیں اس کے منہ سے لگاتار نکل رہی تھیں ……………اس پھدی پانی بہا رہی تھی اور جس سے میرے لن کے لیے راستہ اور آسان ہوتا جاںرہا تھا……… میں نے دوسرے ہاتھ کو بھی اسںکی کمر کے نیچے لگا دیا اور پھر اپنے منہ کو اس کے ممے پر جما دیا ……….اس نے بھی دونوں ہاتھ سے میری گردن کو پکڑکر مجھے سینے

              سے بھینچ لیا ………..اس نے اپنی دونوں ٹانگیں جتنی اوپر ہو سکتی تھیں، ہوا میں اٹھا رکھ تھیں ………………………

              آہہہہاہہہہاہہہہہ………….کی تیز آواز میرے منہ سے نکلی اور اپنے جسم کا گرم لاوا میں نے اس کی پھدی میں چھوڑ دیا……….. اس نے بھی اپنی کمر کو اٹھا کر جیسے مجھے اپنے اندر سمیٹ لیا ہم دونوں کے ہی جسم اگلے 10-15 سیکنڈ تک کانپتے رہے پھر میں اپنا سر اس کے سینے پر رکھ کر اس کے اوپر ہی لڑھک گیا………….

              باہر برفباری اب رک چکی تھی اور اندر بھی جو ایک طوفان سا اٹھا تھا، وہ شانت ہو گیا تھا...........کمرے میں صرف ہم دونوں کی تیز سانسوں کی آواز ہی سنائی پڑ رہی تھی…..۔۔
              جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
              ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

              Comment


              • #27
                یعنی کہانی پر گرفت اچھی ہے

                Comment


                • #28
                  بوہت زبردست اپڈیٹ تھی ۔دونوں بہنوں کے ساتھ سیکس سین نے مزہ دوبالا کر دیا۔

                  Comment


                  • #29


                    کافی دیر تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے پڑے رہے…..پھر میں نے اسے باہوں میں بھر کر اپنے ساتھ مزید سمیٹ لیا ……… تھوڑی دیر تک وہ میرے سینے سے لگ کر لیٹی رہی،...

                    پھر اس نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔"اب ہمیں چلنا چاہیئے………"

                    میں نے بھی باہر دیکھا …………برف باری اب رک چکی تھی، اس لیے ہم دونوں نے

                    جلدی سے کپڑے پہنے اور وہاں سے باہر کی طرف چل دیے……….

                    باہر برف کی موٹی چادر بچھی ہوئی تھی ………….ہم دونوں نہ ہی باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے اس لیے سردی لگ رہی تھی اور دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                    جب ہم یہاں آئے تھے تو ایک دوسرے سے الگ الگ تھے ………پر پچھلے کچھ ہی گھنٹوں میں ہمارے بیچ ایک نیا رشتہ قائم ہو چکا تھا……..………..جتنے نزدیک ہمارے جسم آ چکے تھے، اس سے کہیں زیادہ قریب

                    ہمارے دل تھے….

                    ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہم چلے جا رہے تھے ……..میں سارا راستہ اس کو اپنے بارے میں بتاتا رہا………..اپنے گھر کے بارے میں، اپنے گھر والوں کے بارے میں اور اپنے پاکستان کے بارے میں…….

                    جب پاکستان کے بارے میں بتایا تو اس نے حسرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ کتنا سکون کی نیند ہوتے ہوں گے وہاں کے لوگ، کیسا اچھا لگتا ہے جب کسی قسم کا کوئی ڈر نہ ہو، ہر طرف سے بے فکر سکون کی نیند آتی ہوگی، وہاں کی لڑکیوں کو اپنی بے آبروئی کا کوئی خوف نہ ہوتا ہوگا۔۔۔۔

                    کاش میں بھی وہاں پیدا ہوئی ہوتی، کاش جس وقت پاکستانی مجاہدوں نے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروایا تھا، ہمارا علاقہ بھی آزاد ہوجاتا۔۔۔۔

                    وہ بولتے بولتے چپ سی ہو گئی تھی، اس کی باتیں سن کر میرے دماغ میں اپنے پیارے پاکستان کے حالات گھومنے لگے۔۔۔۔

                    کتنے بےحس ہوتے جارہے تھے ہم لوگ، اس کی بے بسی دیکھ کر ، اس کے اندر ہر لمحہ دل کی جگہ دھڑکتا خوف کہ پتہ نہیں کب ہندوستانی فوجی اس کی پھدی میں اپنے لن گھسا دیں گے۔۔۔۔

                    نہ جانے کب کتنے ہندوستانی فوجی اس کے ساتھ کتنے دن تک حیوانیت کا کھیل کھیلتے، یہ سب سوچ کر اپنے وطن کے اندر پھرتے کچھ کمینہ صفت لوگ، کچھ وقوع پذیر ہونے والے وقعات گھومنے لگے۔۔۔۔

                    کیسے چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ بے غیرتی کا کھیل کھیلتے ہیں۔۔۔

                    جب کوئی آپ کو پھدی نہیں دے رہی تو اس کے ساتھ زبردستی کیوں، کسی اور کے ساتھ کوشش کر لو، لیکن نہیں اپنی ضد میں اپنی ہوس کی پیاس اسی کی پھدی میں اپنا پانی ڈال کر بجھانی ہے۔۔۔

                    میں اپنی سوچوں میں گم ہوچکا تھا، شازیہ نے میرا بازو کھینچ کر اپنے مموں کے درمیان دبا کر مجھے ہلایا۔۔۔۔۔ میں ہوش کی دنیا میں واپس آ گیا۔۔۔اردگرد دیکھنے لگا۔۔۔

                    جیسے جیسے ہم گھر کے نزدیک پہنچ رہے تھے، برف کی تہہ موٹائی کم ہوتی جا

                    رہی تھی……………اسکا مطلب اس طرف کم برف پڑی تھی……….موسم کچھ حد

                    تک کھل چکا تھا، حالانکہ آسمان پر ابھی

                    بھی کالے بادل چھائے ہوئے تھے…………

                    واپس لوٹتے ہمیں چڑھائی چڑھنا پڑ رہا تھا۔

                    اسلیے دیر لگ رہی تھی…….لیکن پھر بھی باتیں کرتے ہوئے، اور ایک دوسرے کا ہاتھ

                    تھامے ہوئے ہم گھر کے نزدیک پہنچ گئے………

                    اس بار ہم نے دوسرا راستہ استعمال کیا….. جہاں پہلے دن میں نہانے کے لیا گیا تھا، یعنی کہ ان کے گھر کے دائیں طرف سے ہوتے ہوئے … اور ہمارا یہ اقدام صحیح ثابت ہوا ابھی ہم لوگ گھر سے 100 میٹر دور ہی تھے کہ گھر کے سامنے کچھ دیکھ کر ہم دونوں ہی چونک گئے اور جلدی سے ایک درخت کے پیچھے چھپ گئے اور پھر وہاں سے سرک کر ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے پہنچ کر اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔۔۔۔

                    سامنے جو دکھائی دے رہا تھا وہ ہماری دھڑکنیں بڑھانے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔

                    اس جگہ سے گھر کا دروازہ اور گھر کے سامنے کا میدان دیھائی دے رہا تھا……. وہاں ایک جیپ، جو کہ ہندوستانی فوج کی تھی، کھڑی تھی …………… گاڑی کے اندر، ڈرائیونگ سیٹ پر ایک ڈرائیور تھا اور اس کے پاس ہی، گاڑی کی باہر ایک دوسرا فوجی کھڑا تھا… اس دوسرے فوجی کے ہاتھ میں اے کے 47 دور سے ہی دکھائی دے رہی تھی………….میں نے آس پاس نگاہ دوڑائی، کوئی اور مجھے دکھائی نہیں دے رہا تھا…

                    پھر گھر کا دروازہ کھلا اور گھر کے اندر سے 3 لوگ باہر نکلے، حنا اور اس کے ساتھ دو آدمی ………. دونوں آدمی فوجی وردی میں تھا…………ایک فوجی کے ہاتھ میں اے کے 47 تھی اور دوسرا، جو کہ افسر کی وردی میں تھا….خالی ہاتھ تھا ……….وہ افسر حنا سے کچھ کہہ رہا تھا اور حنا کا سر کبھی ہاں اور کبھی نہ میں ہلتا دکھائی دے رہا تھا………

                    میں یہ سب دیکھ کر بجائے ڈرنے کے غصے سے بھر گیا تھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ غلط حرکت کرتا۔۔۔۔

                    میرے کندھے پر اچانک مجھے شازیہ کا ہاتھ محسوس ہوا….میں نے سر گھما کر دیکھا، وہ میرے بالکل پاس آ گئی تھی………..اور میرے ہاتھ کو کس کر پکڑ لیا تھا……….. اس نے بھی ایک بار میری تراف دیکھا اور پھر وقت دیکھتے ہیں بولی …………..” یہ سکھی رام ہے ………….. ہندوستانی فوج کا ایریا کمانڈر”

                    میں نے ایک بار پھر دیکھنا ………….وہ لوگ ابھی بھی کچھ بات کر رہے تھے ……………

                    "یہی ہے جو باجی کے شوہر کو اپنے ساتھ لے گیا تھا ………..اور اسی کی وجہ سے اُنکا بچہ………. کہتے ہوئے اسکا گلا بھرا گیا اور پھر اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے……….

                    اُسکی بات سنتے ہی میرے سارے جسم میں ایک بجلی سی دوڑ گئی …………….جی

                    چاہا کہ ابھی جا کر سکھی رام کو گولی مار دوں ……… میں ایسا کر بھی سکتا تھا، پر مجھے معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں اور ایسا کرنے کے بعد میں اپنے لیے، اور ان دونوں بہنوں کے لیے مصیبت ہی نہیں کھڑی سکتا تھا……..

                    میں نے شازیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے دلاسہ دینے لگا…………….. پھر میں نے دیکھا، سکھی رام جیپ میں بیٹھ چکا

                    تھا…………اور پھر جیپ گھوم کر واپس چلی گئی………..

                    ہم دونوں آگے 5 منٹ تک وہیں پر چھپے رہے اور پھر دھیرے دھیرے اگے بڑھتے ہوئے گھر تک پہنچ گئے………….شازیہ بھاگتی ہوئی گھر میں چلی گئی اور میں اپنے کمرے میں

                    آکر بستر پر بیٹھ گیا ………..میں نے گھڑی میں وقت دیکھا………دوپہر کے 3.30 بج رہے تھے……………. میں کچھ دیر بیٹھا رہا اور پھر بستر پر لیٹ گیا………………

                    جیسے کہ مجھے امید تھی……….10 منٹ بعد حنا وہاں پر آ گئی ………….وہ سیدھی کنرے میں آئی اور بستر کے پاس کھڑی ہو گئی…میں اسے دیکھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا……

                    "تم نے مجھے پوری بات کیوں نہیں بتائی تھی ………؟ اس کی آواز میں کچھ ناراضی اور غصہ تھا "کون سی بات؟ "میں ابھی بھی پوری بات سمجھ نہیں پا رہا تھا..

                    تم نے اس آدمی کو مار دیا تھا جو اس رات میرے ساتھ بد تمیزی کر رہا تھا……کیوں صحیح ہے ناں؟ "وہ میرے سامنے بیٹھ گئی اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی…

                    میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا…….. وہ زندہ رہتا تو ہم دونوں کو پکڑوا سکتا تھا…” میں نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بولا.... "لیکن یہ سکھی یہاں کیا کرنے آیا تھا....؟"

                    اس آدمی کی لاش نیچے ایک سڑک کے کنارے پڑی ہوئی ملی، پولیس نے

                    اندازہ لگا لیا کہ کسی نے اسے مار کر اوپر سے نیچے پھینکا ہے……… پھر اس طرف کے

                    لوگوں سے اور گاؤں میں لوگوں سے پوچھا تو اس کو پتہ چلا کہ اس رات میں اس اپنے باغ میں گئی تھی ……اس لیے وہ مجھ سے پوچھ گچھ کرنے یہاں آیا تھا………… تم جانے ہو ناں کہ وہ پولیس والا تھا؟ " اس کے چہرے سے صاف پریشانی جھلک تہی تھی۔۔۔

                    "پر تم صاف انکار کر سکتی تھی تم کچھ نہیں جانتی..." میرے اس سوال کو ان سنا کرتے ہوئےاس نے کہا۔۔۔۔۔تم اس چھتری کو بھول رہے ہو جو تم وہاں چھوڑ آئے تھے….

                    چھتری اب پولیس کے پاس ہے……”وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی…….

                    میں چپ ہی رہا ………….چپ چپ اس کے چہرے کو دیکھتا رہا……

                    "فلحال تو وہ لوگ چلے گئے ہیں ………..پر سکھی رام بہت چالاک آدمی ہے ………. اس کو پورا یقین ہے کہ اس کے پیچھے اس آدمی کا ہاتھ ہے۔۔۔۔۔۔۔

                    جسکا ایئر کرافٹ کا یہاں حادثہ ہوا تھا…… وہ ضرور اس گھر پر نظر رکھ رہا ہوگا"

                    اگلے کچھ سیکنڈ ہم دونوں چپ رہے، پھر بات میں نے ہی شروع کی"میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تم لوگ کسی پریشانی میں پڑو" ……….میں یہاں سے بہت جلد ہی چلا جاؤں گا …………” میں نیچے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا "ابھی تو فلحال تم یہاں پر چھپ کر رہو، یہاں سے باہر نکلوگے تو ان"

                    لوگو کی نگاہ میں آ جاؤگے………..میں بہت جلد تمہارے نکلنے کا انتظام کر دوں گی "کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر وہاں سے چلی گئی……………….. میں نے کمرے کی دیوار میں بنے چھیدوں سے باہر جھانکا………………

                    مجھے دور تک کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا …لیکن ہو سکتا ہو کہ وہ لوگ چھپ کر نگاہ رکھ رہا ہو …………..میں نے اٹھ کر دروازے کو اندر سے بند کر لیا اور پھر سے آکر بستر پر بیٹھ گیا ………..

                    5 منٹ بعد ہی شازیہ میرے لیے کھانا لےکر وہیں آ گئی …………..ہمیشہ کی طرح آج کھانا پلیٹ میں نہیں بلکہ ایک ٹوکری کے اندر رکھ کے لائی تھی ……………اس لیے کہ آگر کوئی ہمارے اوپر نگاہ رکھ رہا ہو اس کو یہ نہ ملوم ہو سکے میرے لیے یہ کھانا آ رہا ہے…

                    اس نے جلدی سے کھانا لگایا اور پھر اٹھ کر جانے لگی ………..

                    “سنو شازیہ………!! مجھے کچھ چیزیں چاہیں "میں نے اس سے کہا..

                    اس نے مڑ کر سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا……

                    "ایک بلیڈ، ایک قلم، گوند اور چپکنے والی ٹیپ" ……………….. "میں اپنی ضرورت کی چیزیں اس کو بتائیں……..

                    اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے ہی کہا…. “ ابھی دیکھتی ہوں………….شاید ساری چیزیں مل جائیں “کہہ کر وہ وہاں سے چلی

                    گئی اور میں نے کھانا کھانا شروع کر دیا۔۔۔

                    10 منٹ بعد ہی وہ پھر سے واپس آ گئی….. اس کے ہاتھ میں وہ سب چیزیں تھیں جو میں مانگی تھیں ………………..سب میرے ہاتھ میں دینے کا بعد اس نے برتنوں کو سمیٹا اور پھر کچھ بولے بغیر واپس چلی گئی………

                    اس کے جانے کے بعد میں نے پھر سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور اپنے بستر پر آ کر بیٹھ گیا …………… میں نے اپنے بیگ میں سے اپنا بٹوہ نکالا اور اس کے اندر سے شنکر وسواس کا شناختی کارڈ یا لائسنس نکالا اگلے 1/2 گھنٹے میں سر جھکا کر اپنے کام میں لگا رہا …………… 1/2 گھنٹے کی محنت کے بعد میں نے ان دونوں چیزوں پر (شناختی کارڈ اور لائسنس) سے شنکر وسواس کی تصویر ہٹا کر اپنی تصویر لگا دی………. اور جہاں ضرورتروت تھی وہاں پر پین سے دستخط اور اسٹامپ کو بھی میچ کر دیا …………

                    کوئی بہت غور سے دیکھنے پر ہی پکڑ سکتا تھا کہ دونوں کارڈز میں کسی نے ہیرا پھیری کی ہوئی ہے………. میں نے من ہی من اپنے آپ کو شاباش دی اور دونوں کارڈز کو اپنے بٹوے میں ڈال لیا….اور پھر سے بستر پر جا کر لیٹ گیا…………….

                    شام ہو گئی تھی…..میں کمرے کے اندر ہی لیٹا ہوا تھا……باہر نکل نہیں سکتا تھا کیوں کہ وہ میرے لیے اور ان دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا……….

                    6 بجے کے آس پاس حنا پھر سے طبیلے میں آئی…..اس بار جانوروں کو چارہ ڈالنے کے لیے آئی تجی…….میں اپنے بستر سے اٹھ کر کمرے کے دروازے پر آ گیا اور کچھ اس طرح کھڑا ہو گیا جس سے وہ مجھے دیکھ سکے لیکن کوئی اور باہر سے نہ دیکھ سکے...

                    "یہ سکھی رام رہتا کہاں ہے؟" "میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا…….. وہ نیچے بیٹھی ہوئی کچھ کام کر رہی تھی اس نے اچانک چونک کر میری طرف دیکھا اور پھر دھیرے سے ہنستے ہوئے بولی “کیوں !!……….کیا کرنے والے ہو؟ ,

                    "کچھ نہیں …………… بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا……..تمہیں معلوم ہے؟ ,

                    میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پھر سے پوچھا ..

                    اگلے کچھ سیکنڈ وہ چپ رہی، پھر ایک لمبی سانس لے کر بولی معلوم نہیں…… ویسے تو ہائی وے پر آگے چوکیاں بنی ہوئی ہیں …رات کو وہیں پر ہی رہتا ہے……….آس پاس کا سارا علاقہ ہی اس کے انڈر میں ہے،

                    اس لیے یہاں وہ گھومتا بھی رہتا ہے" پھر کچھ دیر رک کر آگے بولنا شروع کیا….

                    "میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بہت بڑا عیاش آدمی ہے"

                    ویسے سنا ہے کچھ ایسے ٹھکانے ہیں اس کے……. جہاں وہ اکثر رات گُزارنے کے لیے جاتا رہتا ہے …………..” کہہ کر اس نے ایک بار میری طرف دیکھا اور پھر اپنے کام میں لگ گئی…

                    تم کو معلوم ہے کوئی ٹھکانہ؟ "میں نے پھر سے سوال کیا "نہیں………. اپنا کام روک کر وہ بولی ……….. پھر کچھ سیکنڈ تک سوچتی رہی اور پھر بولی.... "اس کی جیپ کا ڈرائیور ہے، ….میں نے سنا ہے کہ وہ اسکا رازدار ہے……….وہ کہاں جاتا ہے، کیا کرتا ہے……….سب یہ جانتا ہے ………..

                    اور یہ ڈرائیور کہاں ملے گا؟ "میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔

                    "دن بھر تو وہ سکھی رام کے ساتھ ہی رہتا ہے ……….لیکن رات میں اکثر اسی گاؤں میں رہتا ہے ……..اس گاؤں میں ہی اس کا گھر ہے . "وہ اب سیدھی بیٹھ کر میری طرف دیکھتے ہوئے بتا رہی تھی………. "ویسے تم کرنا کیا چاہتے ہو؟"

                    "کچھ خاص نہیں………. تم تو کوشش کر ہی رہی ہو، میں سوچا میں بھی کچھ کوشش کرنا یہاں سے جلدی نکلنے کی……. ویسے ایک بات بتاو، رات میں گاؤں کے اندر جانا ٹھیک ہے کیا؟ ,

                    اگر گاؤں میں گھومنا ہے تو جا سکتے ہو، پر دھیان رکھنا کہ کسی کی نظر میں نہ آؤ…. اس ڈرائیور جس کا نام شوکت ہے اس کا گھر نیچے جاکر ہے ………”

                    پھر وہ مجھے شوکت کے گھر کا راستہ سمجھانے لگی، میں نے پورا نقشہ اپنے دماغ میں اتار لیا….پھر آخر میں وہ بولی…….”

                    “جو بھی کرنا ہو…….دیکھ کر کرنا، تمہارے نکلنے کا انتظام شاید کل تک ہو ہی جائے گا، پر اپنا اور ہمارا خیال ضرور رکھنا…”اس کی آواز میں اور آنکھوں میں اپنا پن اور چنتا جھلک رہی تھی …اگلے کچھ سیکنڈ ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، پھر اسے اپنی نظریں جھکا لیں اور وہاں سے چلی گئی……….میں پھر سے آکر اپنے کمرے میں

                    بیٹھ گیا اور اپنے منصوبہ پر سوچنے لگا……….

                    رات 8 بجے ہوں گے…………….دروازے پر دستک ہوئی……..میں نے دروازہ کھولا… شازیہ سامنے کھڑی تھی…. ہاتھ میں ایک ٹوکری لیے، جس میں میرے لیے کھانا تھا….۔

                    وہ کمرے کے اندر آ گئی …………… میں نے ایک بار باہر جھانکا …….

                    دروازے کو بھیڑ کر بند کر دیا…………. شازیہ نیچے بیٹھ کر،بستر پر میرے لیے کھانا لگا رہی تھی………کھانا لگا کر جیسے ہی وہ اٹھی، میں نے اس کو پیچھے سے اپنی باہوں میں جکڑ لیا………

                    "کیا کر رہے ہو ………….. چھوڑو مجھے، باجی آ جائیں گی "اسکی باتوں میں

                    صرف ہلکا سا انکار تھا ، کوئی مزاحمت نہیں تھی…….

                    میں نے اسے اپنی طرف گھمایا …………… پھر اس کے چہرھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اس نے میرا اشارا سمجھ کر اپنے ہونٹ میری طرف بڑھا دیا، جن کو میں نے اپنے ہونٹوں میں لے لیا…..

                    اگلے 2 منٹ تک ہم ایسے ہی ایک دوسرے کے ہونٹوں کا رس چوستے رہے …….. پھر اس نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر، مجھے اپنے آپ سے الگ کیا ……..اس کی سانسیں بھاری ہو گئی تھیں اور ہر سانس کے ساتھ اسکی چھاتیاں اوپر نیچے ہو رہی تھیں ………..وہ ایک ثک میری آنکھوں میں ہی دیکھے جا رہی تھی………..

                    سنو شازیہ ……….تم بالکل تیار رہنا …….. ہم لوگوں کو کبھی بھی یہاں سے بھاگنا پڑ سکتا ہے "میں نے اس کے گال کو تھپتھپا کر کہا اور پھر بستر پر بیٹھ گیا ………..

                    وہ کچھ سیکنڈ ایسی ہی کھڑی رہ کر میری طرف دیکھتی رہی پھر بولی "کیا مطلب میں سمجھی نہیں؟؟ "" میں نے کہا ..ہم دونوں کو کبھی کبھی یہاں سے بھاگنا پڑ سکتا ہے……..تم بالکل تیار رہنا”

                    "کہاں بھاگنا پڑ سکتا ہے؟ کہاں جا رہے ہیں ہم؟ "وہ الجھن میں پڑ گئی اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔

                    "پاکستان……….کیا تم میرے ساتھ نہیں چلوگی؟ "میں نے کھانا کھاتے ہوئےکہا۔۔۔

                    وہ کچھ دیر چپ رہی ………..پھر بولی “ چلوں گی ………لیکن ایسے نہیں …….کیا

                    ہم باجی کو نہیں بتائیں گے؟؟؟ ,

                    کوشش کریں گے کہ ہم حنا کو بھی اپنے ساتھ لے جا سکیں…….لیکن ہو سکتا

                    ہے کہ ابھی ہم دونوں کو ہی نکلنا پڑے …. پھر ہم حنا کو بعد میں اپنے پاس بلوا لیں گے "میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے سمجھایا

                    "میری تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے... ہم باجی کو یہاں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں ……….نہیں شمشیر، ہم ان کو ساتھ ہی لے کر جائیں گے”

                    وہ میری طرف دیکھتے ہوئے منت بھرے انداز میں بولی۔۔۔۔۔"ضرور ……….. ہم کوشش سے یہی کریں گے، لیکن ہو سکتا ہے کہ سب کچھ ہمارے مطابق نہ ہو، اس لیے میں نے تم سے تیار رہنے کے لیے کہا ہے۔۔۔

                    میں نے اس کو سمجھایا ،میں نے اپنا کھانا ختم کر چکا تھا…….

                    پلیٹ کو ایک طرف رکھ کر میں اس کے پاس آ گیا، اور اس کے دونوں کاندھوں پر

                    ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا "میں اب یہاں سے اکیلا"

                    نہیں جانے والا ………… کم سے کم تم تو میرے ساتھ ہی جاؤ گی…….حنا کو

                    ہم کچھ دنوں کے بعد بھی بلا سکتے ہیں"

                    اس نے اپنا سر ہلایا، جیسے میری بات اس بات سمجھ میں آ گئی ہو.... پھر آگے

                    کو جھک کر اسے میری گال پر ایک کس کیا، برتن سمیٹے اور پھر دھیرے سے اٹھا

                    کر باہر چلی گئی۔۔۔۔۔

                    رات کے قریب 10.00 بج رہے تھے…….میں نے اپنے بیگ میں سے اپنا ریوالور نکالا اور اس پر سائلنسر فٹ کر لیا…… گولیاں چیک کیں، ریوالور کی میگزین فل تھی….. ایک اضافی میگزین میں نے اپنی جیب میں ڈال لی………….اپنے آپ کو میں کمبل میں لپیٹ لیا اور پھر دھیرے سے اٹھ کر باہر آ گیا۔۔۔۔

                    باہر آکر میں طبیلے کے دائیں طرف سے ہوتا ہوا پیچھے جنگل کی طرف چلا گیا……… پھر ایک لمبا چکر لگاتے ہوئے میں گھر سے کافی دور، قریب 500 میٹر آگے جا کر، واپس اسی راستے پر آ گیا جو گاؤں کی

                    طرف جاتا تھا…….آگے جا کر یہ راستہ دو طرف کٹ جاتا تھا…….جیسا کہ حنا نے مجھے سمجھایا تھا …….ایک کچا راستہ وہیں پر پہنچتا تھا، جہاں میں جانا چاہ رہا تھا……….

                    میں اندھیرے میں اندازے لگانے کی کوشش کر رہا تھا……جس مقصد سے میں

                    نکلا تھا، ہو سکتا ہے کہ میں اس میں کامیابی ہو جاؤں، اور ہو سکتا ہے کہ

                    ناکامی کا سامنا کرنا پڑے ……..لیکن میں ایک بار یہ کوشش ضرور کرنا چاہتا تھا……آگے جا کر ایک طرف کچا راستہ جا رہا تھا…….میں دھیرے دھیرے آگے بڑھتا

                    رہس ………….جھاڑیوں سے ہوتا ہوا، پتھروں کے اوپر سے ہوکر مجھے نیچے

                    کی طرف جانا تھا …….یہ اایک دم سیدھا خاردار راستہ تھا ………جس پر پاؤں

                    فیصلوں کا مطلب تھا کہ زوردار چوٹ کھانا…….

                    میں اپنے پاؤں جما کر دھیرے دھیرے چلتا رہا……… پھر قریب 20 منٹ چلنے کے بعد میں وہاں پہنچ گیا جو ابھی فلحال میری منزل تھی ……یعنی شوکت کا گھر

                    وہ جگہ رستے سے تھوڑا ہٹ کر تھی……. ایک میدان کے چاروں طرف کچھ مکان بنے ہوئے تھے …….جس میں سب سے آخری مکان، جو کی سڑک سے سب سے

                    دور تھا……شوکت کا تھا……میں اس گھر کے پیچھے والے حصے میں پہنچ گیا………پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا…….میں ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے، گھر کے سامنے آ گیا اور چیک کیا، دروازے پر تالا لگا ہوا تھا……..اسکا مطلب شوکت ابھی گھر نہیں لوٹا تھا……………اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ واپس بھی آنے والا ہے یا نہیں…….

                    میرے پاس اس کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا، اور مجھے نہیں

                    معلوم تھا کہ کتنی دیر مجھے انتظار

                    کرنا پڑے گا………

                    میں واپس گھر کے پیچھے والے حصے میں آ گیا …………اس کے پیچھے ایک پہاڑ اوپر جا کر بیٹھ گیا (جہاں سے میں ابھی نیچے آیا تھا) اور سامنے گھر ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا…… پھر بھی میں گھر سے تھوڑا دور ہٹ کر، ایک چھوٹے سے درخت کے پاس پہنچ گیا اور اس کے آگے ایک پتھر سے کمر ٹکا کر بیٹھ گیا…….

                    اگلے ایک گھنٹہ تک میں ایسے ہی بیٹھا رہا مجھے اب لگنے لگا تھا کہ شاید وہ آج گھر واپس نہیں لوٹنے والا…………. جب میں اس کے لوٹنے کے بارے سوچ ہی رہا تھا کہ کسی گاڑی کی آواز آنے لگی………میں اٹھ کر، درخت کے پیچھے کھڑا ہو گیا ………جہاں میں تھا، وہاں سے مین روڈ اور

                    گھر کے سامنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا………

                    وہ ایک جیپ تھی جو شوکت کے گھر کے سامنے آکر رکی …………… ایک آدمی، جو شوکت ہی ہونا چاہیئے، اس میں سے اترا اور پھر گھر کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا……میں اپنی جگہ پر کھڑا انتظار کرتا رہا….. دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر بند ہونے کی ……….پر مجھے ابھی کچھ دیر اور

                    انتظار کرنا تھا……………

                    10 منٹ میں وہیں پر انتظار کرتا رہا … پھر اپنی جگہ سے باہر نکلا اور گھر کے سامنے والا دروازہ کھٹکھٹایا ………..اندر سے ایک دو آوازیں آئیں اور پھر کچھ سیکنڈ بعد دروازے کے پیچھے سے کسی کی آواز آئی…….. “کون ہے

                    , "(یہ سوال مقامی زبان میں پوچھا گیا تھا)

                    میں چپ ہی رہا ………10 سیکنڈ بعد پھر وہی سوال ہوا "ابے کون ہے؟"

                    "دروازہ کھولیے صاحب، میں ہوں..." میں نے اپنے لہجے کو کشمیری کرتے ہوئے کہا………

                    دروازہ کھلا ………..وہ ایک لمبے سے قد کا آدمی تھا، تقریباً میرے ہی برابر………..عمر

                    35 سال کے آس پاس ہوگی……..

                    "کیا ہوا ……… کون ہو تم؟ "اسے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا، اس کے منہ کھولتے ہی شراب کی تیز بدبو میری ناک کے نتھنوں سے ٹکرائی ………… میں نے غور کیا کہ

                    وہ دروازے کا سہارا لے کر کھڑا تھا ……..اور آنکھیں کھولنے میں بھی اس دقت ہو رہی تھی……………

                    “صاحب، آپ کو سمجھ نہیں آئی……..میں وسیم ہوں………

                    گورڈیری گاؤں کا "میں نے اپنی آواز کو پتلی کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

                    گاوں کا نام مجھے حنا نہ ہی بتاتا تھا………

                    اس نے ایک بار پھر سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھنے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنے آپ کو کمبل میں لپیٹا ہوا تھا، اس وجہ سے میرا صرف چہرہ ہی اسے نظر آ رہا

                    تھا ….. اور ساتھ ہی یہ بھی لگ رہا تھا کہ نشہ اس کے اوپر پوری طرح سے سوار تھا………….

                    "ابے کون وسیم؟ ,

                    "کیا صاحب میں وسیم ہوں…….. سکھی رام سر کا خبری”

                    "بولو کیا کام ہے؟" وہ جھلاتا ہوا بولا….

                    "صاحب سے ملنا ہے……سکھی رام سر

                    میں اپنی آواز میں ادب لاتے ہوا بولا ………

                    "جاکر چوکی پر مل لے………… یہاں کیوں آیا ہے “وہ گھورتا ہوا سا بولا………….

                    "صاحب، میں سیدھا ہی یہاں تک آیا ہوں… چوکی تک کیسے پہنچ پاوں گا ………….. سب بولے، کبھی میرے پاس آنا ہو تو آپ کو ساتھ لے آؤ…”میں پوری عزت سے بات کر رہا تھا…

                    "کوئی خاص کام ہے کیا..؟ اب اسکی آواز میں نرمی تھی۔۔۔۔

                    "ہاں صاحب …………ایک بہت ضروری خبر دینی ہے"

                    "مجھے بتا دو، میں پہنچا دوں گا .... وہ دروازے سے ہٹ کر اندر کی"

                    طرف چلتے ہوئے بولا۔…………….اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ……میں اس کے پیچھے اندر کی طرف چل دیا………….

                    "صاحب، لگتا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے… آپ مجھے بتا دو کہ صاحب کہاں پر ملیں گے، میں خود ہی جاکر مل آؤں گا "میں من ہی من خوش ہوتے ہوا بولا….. “تو جاکر چوکی پر مل لو نا” اب وہ کمرے کے

                    اندر پہنچ گیا تھا………..ساتھ میں میں بھی۔۔۔۔

                    "صاحب……….سکھی رام سر اس وقت چوکی پر کہاں ملتے ہیں………. گاؤں میں ہی کہیں موج میلہ چل رہا ہوگا ………” مین آنکھ دباتے ہوئے دھیمی سی

                    آواز میں بولا……..

                    جواب میں اسے جوڑ کا ٹہوکا لگا ……….. وہ ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور پھر بولا " ابے یار ….میری حالت تو نہیں ہے ابھی جانے لائق ………یا تو تم خود ہی چلا جا، یا صبح تک انتظار کر لو…….میں ساتھ لے جاوں گا……”

                    "آپ مجھے ہی بتا دو سب"… اگر گاؤں میں ہی ہیں تو میں خود جاکر مل لیتا ہوں ………” میں اس کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا………اندر ہی اندر میں بہت خوش تھا، میرا کام اتنی آسان سے ہو جائے گا، مجھے

                    امید نہیں تھی؟

                    وہ لڑکھڑاتا ہوا کرسی سے اٹھا …….پھر بولا “تو بیٹھ …میں ابھی آتا ہوں “کہہ کر وہ کمرے کے اندر چلا گیا………………..

                    میں کچھ دیر بیٹھا رہا........... 2 منٹ انتظار کرنے کے بعد میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور وقت کاٹنے کے لیے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔۔۔

                    اس کے گھر میں وہ ہر چیز موجود تھی جو عیش و آرام کے لیے چاہیئے ہوتی ہے، بہت اچھے ڈھنگ سے سنبھال رکھا تھا اس نے اپنے گھر کو ……ایک طرف دیوار پر کچھ تصویر لگی ہوئی تھی……کچھ گروپ

                    فوٹوز تھیں …….میں ان کو دیکھنے کے لیے نزدیک چلا گیا اور یہیں پر میں غلطی کر گیا……..

                    میں کچھ سیکنڈ کے لیے بھول گیا تھا کہ میں کہاں پر ہوں ………یاد

                    تب آیا جب پیچھے سے آواز آئی………….

                    "اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر پیچھے گھوم جاو ……………….. "پہلے تو میں چونک گیا……. پھر صورتحال کو سمجھ کر دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے اور آواز کی سمت میں گھوم گیا …………سامنے شوکت کھڑا تھا اس کے ایک ہاتھ میں ریوالور تھی جو میری طرف ہی تانی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک وائرلیس ہینڈ سیٹ تھا ………..

                    "تمہیں کیا لگا تھا کہ تم مجھے بیوقوف بنا سکتے ہو؟ ………….. تم نے یہ سوچا ہوگا کہ میں نشے میں ہوں اور جو کچھ تم کہو گے چپ چاپ مان لوں گا …………” وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا، اس کے چہرے پر کھنچاؤ تھا،آنکھوں میں غصہ دکھائی دے رہا تھا………….وہ اب بالکل

                    سیدھا کھڑا ہوا تھا، کوئی لڑکھڑاہٹ نہیں تھی………..کوئی نہیں کہہ سکتہ تھا کہ

                    ابھی 10 منٹ پہلے یہ آدمی نشے میں بالکل بے ہوش لگ رہا تھا………….

                    " کیا ہوا صاحب ………….کوئی غلطی ہو گئی کیا مجھ سے ؟؟ "میں نے ایک آخری بار

                    کوشش کر کے دیکھی ……… پر اس کے چہرے سے مجھے یہ صاف دکھائی دے رہا

                    تھا کہ اب وہ میری کسی بات میں نہیں آنے والا۔۔۔۔

                    تبھی اسے وائرلیس پر کسی کی آواز آئی…………..دوسری طرف سے بھی کچھ

                    کہا گیا وہ میری سمجھ میں نہیں آیا……. پھر جواب میں شوکت ایک بار زور سے ہنسا اور پھر اپنی مقامی زبان میں کچھ کہنے لگا…….اس بار بھی سب کچھ میری سمجھ سے باہر تھا………………… بیچ بیچ میں

                    وہ میری طرف دیکھ رہا تھا، جس سے مجھے یہ اندازا تو ہو ہی رہا تھا میرے

                    بارے میں ہی بات ہو رہی ہے ……………….. پھر اس نے بات بند کر دی اور میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔

                    "ابھی تھوڑی دیر میں پتہ چل جائے گا کہ تم نے کیا غلطی کی ہے……….اور تیری

                    سر سے ملنے کی تمنا بھی پوری ہو جائے گی............................. چل، دونو ہاتھ

                    اپنے سر پر رکھ لے…. ,

                    میں سمجھ گیا تھا کہ سکھی رام جلد ہی یہاں پہنچنے والا ہے ………اور ساتھ میں ضرور کچھ اور بھی آدمی ہوں گے….میں ان سب سے ایک ساتھ نہیں نپث سکتا تھا یہ مجھے معلوم تھا ……….مجھے اگلے کچھ

                    منٹ میں ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا…….

                    اس نے اپنی ریوالور میری طرف ہی تانی ہوئی تھی اور پوری طرح سے مستعد

                    نظر آ رہا تھا................ وہ 2 قدم آگے بڑھا اور ہاتھ بڑھا کر میرے جسم پر سے کمبل کھینچ لیا اور پھر پیچھے ہو گیا……۔۔۔​
                    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                    Comment


                    • #30
                      اس سٹوری میں سیکس اور سسپنس مار کٹائ سب ایک ساتھ
                      شاندار اپڈیٹ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X