Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جانباز سرحد کے پار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتھرابھٹی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    kia classical update aur sex hai jo hina aur shazia ny kya

    Comment


    • #32
      Bohat umda update,

      Comment


      • #33


        7

        میں نے فوراً اس کی بات مان لی ……… مجھے معلوم تھا کہ وہ نشے میں ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے………

        پیچھے کو گھومتے ہی میری کمر میں لگی ہوئی ریوالور اسے آ گئی ……………..وہ اگے بڑھا اور میری کمر میں لگی ہوئی ریوالور کو کھینچ لیا………

        "واپس گھوم جا ………………." وہ پھر سے غرایا……….اور میں واپس گھوم گیا ………

        اس نے میری ریوالور کو گھما پھرا کر

        چیک کیا پھر میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوا بولا اچھا………..!!! سالے، پاکستانی ریوالور استمال کرتا ہے اور اپنا آپ کو ہندوستانی بولتا ہے ………..اب میری سمجھ میں آیا ………تو وہی ہے جس کو ہم لوگ اتنے دنوں سے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں……….. اچھا ہوا جو تم خود ہی مرنے کے لیے یہاں آ گئے………….. “اس نے اپنی ریوالور جیب میں رکھ لی اور میری والی کو ہاتھ میں پکڑ لیا………….پھر میری طرف ریوالور کا

        رخ کیا اور بولا……

        "چل !!!............ اب دونوں ہاتھ ایسے ہی سر پر رکھے ہوئے نیچے بیٹھ جا۔۔۔

        میرے لیے یہ آخری موقع تھا …………..کچھ ہی دیر میں اور لوگ بھی یہاں پہنچنے والے تھے اور پھر میرا کھیل ختم………….

        میں اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھے ہوئے، اپنے پنجوں کے بل نیچے بیٹھ گیا۔۔۔۔

        ایسا ظاہر کیا جیسے میرا توازن بگڑ گیا ہو اور پھر اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے دونوں ہاتھوں کو سامنے ٹکا دیا۔۔۔

        "ابے کیا ہوا؟ صحیح سے بیٹھ………دونوں ہاتھ سر پر رکھ !! "وہ گھورتا ہوا بولا…………….

        میرے دونوں ہاتھ اب نیچے فرش پر بچھے ہوئے قالین پر …………میں نے اچانک قالین کو ہاتھوں سے پکڑا اور اپنی پوری طاقت لگا کر کھینچ دیا۔۔۔۔

        شوکت، جو کہ اسی قالین پر مجھ سے 8 فٹ دور کھڑا تھا، اس کے پاؤں زمین سے اکھڑ گئے اور وہ دھڑام سے پیٹھ کے بال گر گیا ………..

        اتنا وقت میرے لیے کافی تھا ………..میں پھرتی سے اٹھا اور سامنے زمین

        پر پڑے ہوئے شوکت کے اوپر جمپ لگا دی….. میرا پورا جسم سیدھا اسکے پیٹ اور ٹانگوں کے اوپر آ گیا اور ایک ہاتھ سے میں نے اس کے ریوالور والے ہاتھ کو دبوچ لیا………………

        اچانک ہوئی اس حرکت سے وہ ایکدم گھبرا سا گیا ……… پھر سنبھلتے ہوئے اسے اپنے دوسرے ہاتھ سے میرے اوپر وار کیا….. جسکو میں تھوڑا سا پیچھے ہو کر بچا گیا..... پھر میرا دائیں ہاتھ مکے کے روپ میں سیدھا اس کے منہ پر پڑا …………..…… میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ جوڑا اور اس کے سر کے اوپر زمین پر، اپنے ایک ہی ہاتھ سے دبوچ لیا………………میری ریوالور واپس میرے ہاتھ میں آ گئی تھی….

        میں نے ریوالور کی نال کو اس کے ماتھے پر ٹکایا………..اس کی آنکھیں ڈر کے مارے پوری پھیل گئیں …………….ایک آخری بار میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر ٹریگر دبا دیا………….

        ٹک کی ہلکی سی آواز پیدا ہوئی، سائلنسر لگا ہونے کی آواز سے کوئی دھماکا نہیں

        ہوا اور گولی اُس کے سر کے پار نکل گئی……………… اُس کے جسم نے کچھ جھٹکے کھائے …………………..میں اس کے اوپر سے اٹھ کر الگ ہو گیا اور اپنی ریوالور واپس اپنی کمر میں لگا لی……………….. اس کا جسم سب شانت ہو چکا تھا………. اور اس کے سر کے پر خون کا دریا سا بنتا جا رہا تھا …………………

        میں جلدی سے دوسرے کمرے میں گیا……. یہ اسکا بیڈروم تھا، ایک طرف سائیڈ میں ایک ڈریسنگ ٹیبل رکھی ہوئی تھی……….. میں نے ڈریسنگ ٹیبل کی دراز کھولی اور اس میں سے ایک پرفیوم کی بوتل نکالی………….

        میں واپس اسی کامرے میں آیا ………. پرفیوم کی بوتل کو کھول کر میں نے اس میں سے کچھ بُوندیں اُس کی لاش کے پاس ڈال دیں…………..پھر اپنا کمبل اٹھایا اور اسے اپنے جسم پر لپیٹ لیا …………………… میں گھر سے باہر نکلا اور دروازے کو بھیڑ کر بند کر دیا…………………..

        میں لگ بھگ بھاگتا ہوا سڑک پر آیا……… اور پھر تیزی سے گاؤں کی مخالف سمت میں چل دیا …………………… مجھے معلوم

        تھا کہ سکھی رام اگر یہاں آئے گا تو گاؤں والے راستے سے ہی آئے گا…………. تھوڑی تھوڑی دوری پر میں پرفیوم کی بوندیں گراتا ہوا چل رہا تھا………… پھر میں ایک لمبا چکر کاٹ کر نیچے کی سڑک سے ہوتا ہوا پھر ایک کچے راستے سے ہوتے ہوئے ……….. واپس گاؤں کی طرف جانے والی سڑک پر آ گیا ……………….

        میں نے اپنے کمبل کو اتارا اور پرفیوم کی پوری بوتل اس پر کھالی کر دیا………….. اس احتیاط کے ساتھ کہ میرے جسم پر پرفیوم نہ گرے…..اور پھر کمبل کو اور بوتل کو نیچے کھائی میں نے اچھال دیا…………….

        میں تیز قدموں سے واپس گھر کی طرف چل دیا …………… تھوڑا آگے جاتے ہی مجھے سامنے سے ایک گاڑی آتی دکھائی دی

        میں چھپ گیا ……………….وہ ایک فوجی جیپ تھی ،جس میں قریب 8-10 آدمی نظر آ رہے تھے…………..جیپ کے گزرنے کے بعد میں پھر جلدی جلدی گھر کی طرف بڑھ گیا ______________________________



        میں تیز چلتا ہوا… اور پھر آخری میں لگ بھگ بھاگتا ہوا گھر واپس پہنچ گیا …….. گھر کے اندر اندھیرا تھا … دونوں بہنیں

        سو رہی تھیں………….میں طبیلے کے اندر گیا، اپنے کمرے میں پہنچ کر ….. اپنی ریوالور کو نکال کر بیگ کر اندر ڈال دیا اور بیگ کو بستر کے نیچے چھپا دیا……… اور پھر بستر پر لیٹ گیا..

        جس مقصد سے میں گیا تھا وہ کام ہوتے ہوتے رہ گیا تھا……..میں سکھی رام کو ختم کرنا چاہتا تھا، پر اس تک پہنچنے سے پہلے ہی میرا کھیل بگڑ گیا ……… پر اتنا تو مجھے احساس ہو رہا تھا تھا کہ میں نے اسے ایک کراری چوٹ دی ہے……اب وہ مجھے دھونڈنے کی کوشش اور تیز کر دے گا ………اور میرا مقصد بھی تو یہ تھا…. میں اس کے پاس جاؤں یا وہ میرے پاس آئے…. دونوں ہی صورت میں وہ میرے سامنے تو آئےگا ہی…

        میں نے گھڑی میں وقت دیکھا….. 2.00 بج رہے تھے ………….میں سونے کی کوشش کرنے لگا اور جلد ہی نیند میں ڈوب گیا……..

        صبح کسی کی آواز سے میری آنکھ کھلی….. باہر طبیلے میں کچھ آہٹ سی ہو رہی تھی…….. میں نے وقت دیکھا، 10.00 بج رہے تھے……میں اٹھ کر باہر آ گیا ……….یہ شازیہ تھی ………. جانوروں کو چارا ڈال رہی تھی……….ہمیشہ کی طرح ہی، ایک وہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی….. میں نے گلے کو کھنکار کر صاف کیا…….اس نے

        میری طرف دیکھا اور مسکرا دی۔۔۔۔۔

        میں کھڑا اسے دیکھتا رہا… اور وہ اپنے کام میں لگی رہی کچھ دیر کے بعد جب اس نے اپنا کام نپٹا لیا تو ہاتھ دھوکر میرے

        پاس آ گئی ………

        "کیا حال ہیں جناب کے؟ …………..رات لگتا ہے نیند بہت گہری آئی ہے، اتنی دیر تک سوتے رہے" وہ میرے پاس آکر، اپنی صدا

        بہار مسکراہٹ کے ساتھ بولی….

        "نیند کی بات کر رہی ہو!! یہاں تو پوری رات کٹ گئی، تمھارا انتظار کرتے ہوئے………..” میں بھی اس کے ہی انداز میں بولا۔۔۔۔

        "اچھا..!! میں نے کب کہا تھا کہ میں تمھارے پاس آؤں گی….؟ "وہ میرے اور پاس آکر میرے ہاتھ کو پکڑ کر بولی………….

        "تم نے تو نہیں کہا تھا، پر مجھے تو امید تھی کہ تم ضرور آؤ گی..."

        میں نے اس کے ایک گال کو سہلاتے ہوئے کہا..

        وہ تھوڑا اور پاس آئی اور پھر مجھ لپٹ گئی……

        "دل تو میرا بھی یہی کرتا ہے کہ اب ہمیشہ تمھارے ساتھ ہی رہوں پر کیا کروں ……..” وہ میرے سے لپٹے لپٹے ہی بولی “تم باجی سے کب بات کروگے؟

        "کس بارے میں؟ "میں نے اس کے چہرے کو اوپر اٹھا کر پوچھا۔۔۔

        "میرے بارے میں، مطلب ہم دونوں کے بارے میں" وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔

        " جلد ہی ……… بلکہ کوشش کروں گا کہ آج ہی …. ویسے تمھاری باجی ابھی

        کہاں ہیں؟ "میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، وہ اس وقت میرے سینے میں منہ چھپا کر کھڑی تھی۔۔۔۔۔

        "باجی گاؤں میں گئی ہے………" وہ بولی۔۔۔

        "ارے واہ………….اسکا مطلب، یہاں صرف میں اور تم ہیں؟ "میں نے اسے کس کر اپنے ساتھ لپٹا لیا اور پھر اس کا چہرا اوپر کر کے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا………..

        جی ہاں …………….یہاں صرف ہم دو ہیں ؟ "اس نے کہا اور پھر ایک کس گال پر کر دیا میں نے جھٹ سے اسے اٹھا لیا اور اپنے کمرے کے اندر لا کر بستر پر لٹا دیا……. اور خود بھی اس کے پاس ہی لیٹ گیا …

        "ارے ………..کوئی غلط حرکت نہیں….. باجی کسی بھی وقت آ سکتی ہیں"

        وہ میرے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر مجھے پیچھے کرتی ہوئی بولی، میں اس کے

        اوپر جھک کر اسے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کر رہا تھا………..

        میں رُک گیا ………… پھر اس کے ایک گال کو اپنی ہتھیلی سے سہلاتا ہوا بولا….“

        میں بھی کہاں کوئی غلط کام کرنے والا ہوں سرف تھوڑا سا رس تمھارے ہونٹوں کا پینا چاہتا ہوں....

        اس نے ایک دو سیکنڈ میری آنکھوں میں دیکھا اور پھر مسکرا کر نظر جھکا لی۔۔۔

        میں نے جھٹ سے اپنا چہرا نیچے جھکایا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر ٹِکا دیے… کچھ دیر تک چھوٹے چھوٹے کس اس کے ہونٹوں پر کرنے کے بعد میں اپنی زبان سے اس کے ہونٹوں پر دستک دی……..اس نے اپنے ہونٹوں کو کھول کر مجھے آگے بڑھنے کی اجازت دے دی ……….میری زبان اس کے منہ کے اندر چلی گئی اور پھر ہم دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کا رس چوسنے

        میں لگ گئے…

        اگلے 10 منٹ تک کمرے میں صرف ہم دونوں کی سانسوں کی آواز ہی آتی رہی،

        جو دھیرے دھیرے بڈھتی ہی جا رہی تھی پھر میں نے ہی اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں سے الگ کیا …………….اس کی سانسیں بہت تیز ہو گئی تھیں اور سینہ تیزی سے اوپر نیچے ہو رہا تھا ………… سینے کے ابھار میری برداشت کا امتحان لے رہے تھے۔۔۔۔۔ میرا دل چاہتا تھا اس کے سینے میں چھپے کشمیری سیبوں کا رس نچوڑ لوں۔۔۔۔۔اس کا چہرہ لال ہو گیا تھا اور آنکھیں تو جیسے نشے میں ڈوب گئی تھیں………….

        میں جانتا تھا کہ اس سے آگے بڑھنا ابھی ممکن نہیں ہے ……… میں نے اس کے

        مموں کو دباتے ہوئے ہونٹوں پر چھوٹا سا کس کیا اور پھر اس کے گ ل کو چوم کر اس کے کان میں بولا میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں شازیہ"

        اس نے میری کمر کو اپنی باہوں میں کس کر جکڑ لیا، ایک پاؤں کو میری کمر پر لپٹا دیا اور اپنی ہوری طاقت سے مجھ سے لپٹ گئی ……… جیسی ڈر ہو کہ میں کہیں چلا نا جاؤں… اگلے 2 منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی لپٹے رہے ………..پھر اس نے دھیرے سے مجھے اپنے اوپر سے ہٹنے کا اشارہ کرتے ہوئے مجھے چھوڑ دیا ……….میں اس سے الگ ہوکر بیٹھ گیا اور وہ اٹھ کر کھڑی ہو

        گئی ………. اس نے اپنے کپڑوں کو ٹھیک کیا اور پھر ایک بار اور میرے گال کو چوم

        کر باہر چلی گئی۔۔۔۔ ______________________________



        شازیہ کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی میں نے دیکھا کہ حنا گھر واپس آگئی ہے… میں ابھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل سکتا تھا، اس لیے واپس اپنے بستر پر آکر لیٹ گیا….. میرے دماغ میں بار بار یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ جو کل رات میں نے کیا تھا، اس کا کیا انجام نکلا ہوگا…………..

        باہر موسم پھر سے سہانا ہونے لگا تھا……. آسمان پر بادل چھانے لگے تھے اور لگ رہا تھا کہ شام تک پھر سے بارش شروع ہونے والی ہے…….

        11.30 کے آس پاس باہر آہٹ ہوئی ……. میں سیدھا ہوکر بیٹھ گیا……کمرے کا دروازہ کھلا….یہ حنا تھی……ٹوکری میں رکھ کر میرے لیے کھانا اور چائے لیکر آئی تھی…………..

        وہ اندر آ گئی اور میرے ساتھ بیٹھ گئی….. اس نے ٹوکری میں سے کھانا اور چائے نکالی اور میرے سامنے پلیٹ میں رکھ دی ….. پھر خود دیوار سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئی …

        اس وقت ہم دونوں ہی بلکل چپ تھے…

        "ناشت کر لو ………. "اس نے کہا اور پھر باہر دیکھنے کے پیچھے دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی……….میں ناشتہ کرنے لگا گیا………

        تم کل رات وہاں گئے تھے ناں؟

        "وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ………میں کھانے میں مگن تھا، نگاہ

        اُٹھا کر اُسکی طرفف دیکھا… اُس کی آنکھوں میں غصہ اور پریشانی نظر آ رہی

        تھی ….

        "کہاں؟" میں نے انجان بنتے ہوئے کہا۔۔۔۔

        "تم جانتے ہو میں کہاں کی بات کر رہی ہوں ." اس نے تیز انداز میں کہا۔۔۔۔

        میں نے ایک بار اس کی طرف دیکھا اور پھر کھانے میں مصروف ہو گیا…….

        "کیوں کر رہے ہو تم ایسا؟ کیا صرف اس لیئے کظ وہ ہندوستانی فوج میں تھا اور تم

        ہندوستانی لوگوں سے نفرت کرتے ہو…” اس بار اس کی آواز میں درد بھی شامل

        تھا….

        میں کچھ دیر چپ رہا ………. پھر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوا بولا “ نہیں ،

        میری ہندوستانی لوگوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، اور نہ ہی میں ہندوستانی

        لوگوں سے نفرت کرتا ہوں ………… میں وہاں کسی اور مقصد سے گیا تھا …… پر وہ بیچ میں آ گیا………..اگر میں اسے نہیں مارتا تو وہ لوگ مجھے مار ڈالتے ہیں..."

        پھر تم وہاں کیوں گئے تھے؟ تم جانتے ہو میں تمھارے یہاں سے نکلنے کا انتظار کرنے میں لگی ہوئی ہوں، ابھی تک تم کسی کی نگاہ میں نہیں ہو، پر اب ضرور وہ لوگ تمہیں دھونڈنے میں لگ جائیں گے …….. وہ میری آنکھوں میں دیکھتیلے ہوئی بولے جا رہی تھی …

        تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو حنا، میں کوئی تفریح کرنے کے ارادے سے یا کسی ایڈونچر کی وجہ سے وہاں نہیں گیا تھا…… میرا مقصد صرف سکھی رام تک پہنچنا تھا، اور میں اس کے پاس کل رات ہی پہنچ جاتا، پر تھوڑی سی گڑبڑ ہو گئی… اور سارا کھیل بگڑ گیا…. "میں تمہیں سمجھتا ہوں….. تمہاری سکھی رام سے کیا دشمنی ہے۔۔۔اب اسکی آنکھوں میں اب بے چینی سی دکھائی پڑ رہی تھی میں اگلے کچھ سیکنڈ چپ رہا.. سوچتا رہا کہ کیا جواب دوں ..پھر میں بولا میری کوئی دشمنی نہیں ہے اسلم بیگ سے ……….پر جو ظلم ہمارے تمھارے اوپر اور تمھارے خاندان وپر کیے ہیں، میں اسے اس کی سزا دینا چاہتا ہوں .... بس۔"

        میں چپ ہو گیا اور وہ بھی کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی۔۔۔۔

        پھر اس نے برتن سمیٹنے شروع کر دیے…. سارے برتن اس نے ٹوکری میں ڈال لیے اور پھر اٹھا کر کھڑی ہو گئی ……….وہ باہر جانے کو مڑی ہی تھی کہ میں نے

        پہلے سے اسے آواز دی…..”رکو حنا…..!” وہ رک گئی، اور گھوم کر میری طرف

        دیکھنے لگی ………

        میں اٹھ کر اس کے پاس گیا اور پھر بولا۔۔۔

        مجھے غلط مت سمجھنا حنا …….. یقین مانو میرا کوئی نجی لینا دینا نہیں ہے اس سب سے …….جو کچھ بھی تم دونوں نے میرے لیے کیا ہے، وہ ہمیشہ میرے اوپر تمھارا قرض رہے گا ……….پر میں ایک انسان ہونے کے ناتے، تمھارے ساتھ ہوئی نا انصافی کا بدلا لینا چاہتا ہوں………..”

        "پر کیوں......؟ کیا رشتہ ہے تمھارا ہم لوگوں سے؟ " اسکی آنکھوں میں اب نمی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔

        "نام سے نہیں معلوم، پر کچھ تو رشتہ ہے…. اور اگر کچھ بھی نہیں تو انسانیت کا رشتہ تو بنتا ہی ہے، جس کے ناتے میں یہ سب کچھ کر رہا ہوں ……………… “میں اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر، اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔۔۔۔

        وہ کچھ پل میری آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر نظریں جھکا لیں……….. اگلے کچھ سیکنڈز ہم دونوں بلکل چپ چپ کھڑے رہے……… پھر اس سر اٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ……..” شام کو 4 بجے کے بعدںشازیہ گاؤں میں جائے گی…….. مجھے تم کچھ کچھ ضروری بات کرنی ہے،

        تم گھر کے اندر آ جانا"

        کہہ کر وہ مڑی، اور پھر باہر نکل گئی….میں کمرے کے دروازے پر کھڑا ہوکر اسے جاتے دیکھتے رہا………………۔۔

        دوپہر کے 2.00 بج رہے تھے……….بارش یا برفباری، کچھ بھی ہو سکتا تھا……….. تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور شازیہ اندر داخل ہوئی ……….اسکے چہرے پر وہی

        معصومیت بھری مسکراہٹ تھی، پرآنکھوں میں پریشانی دکھائی دے رہی تھی………. وہ سیدھی آکر میرے پاس بیٹھ گئی…..میں جو ابھی تک لیٹا ہوا تھا، اٹھ کر تھوڑا سا اوپر کو ہو گیا ………

        " شمشیر ………..میں نے بہت دیر تک سوچا اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ میں باجی کو بنا بتائے یہاں سے نہیں جاؤں گی"

        وہ میرے ایک بازو کو پکڑ کر بولی۔۔۔۔

        "کیوں کیا ہو گیا؟ "میں نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا"

        تم نہیں جانتے …………ایک باجی ہی تو ہیں جو میرے لیے سب کچھ ہیں……میری ماں باپ، بھائی،بہن سب کچھ یہ ہی تو ہیں اور

        میں اپنے پیار کے لیے ان کو دھوکہ دے دوں؟ ………….نہ شمشیر، یہ میں نہیں

        کر پاؤں گی……………..” وہ آگے کو ہو کر میرے سینے سے لگ گئی………….

        ایسا کچھ نہیں ہوگا ………….میں آج حنا سے بات کرنے والا ہوں……………… تم فکر نہیں کرو، ہم اسے بتا کر ہی یہاں سے جائیں گے "میں اسے دلاسہ دیتے ہوئے بولا ……..

        "اور باجی؟ وہ یہاں اکیلی رہیں گی…؟ "وہ چہرہ اٹھا کر، میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی۔۔۔۔۔

        "نہیں ……… صرف کچھ دنوں کے لیے … پھر ہم اسے بھی اپنے پاس بلا لیں گے…..” میں نے کہا اور اس کے ہاتھ کو چوم لیا….. وہ میرے سے لپٹ گئی………

        تم نہیں جانتے ………..میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں …………پر میری باجی کی قیمت پر میں تم کو نہیں پانا چاہتی……….. “واہ بولی اور پھر مجھ سے الگ ہوکر کھڑی ہو گئی ……………. "آج رات کو برفباری ضرور

        ہوگی…………کوشش کروں گی،رات میں تمہارے پاس آنے کی “…..اس نے مسکرا کر کہا اور پھر گھوم کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔

        پھر اگلے 2 گھنٹے تک میں وہیں اپنے بستر پر لیٹا رہا……..باہر موسمبدلتا جا رہا تھا.. قریب 4.30 بجے کے آس پاس شازیہ گھر سے باہر نکلی میں جھروکے سے باہر جھانک کر دیکھتا رہا…… وہ اپنے مخصوص کشمیری لباس میں تھی، سر پر اسکارف اور ہاتھ میں چھتری …..اس کے جانے کے بعد 15 منٹ تک میں نے انتظار کیا اور پھر اٹھ کر باہر آ گیا …………طبیلے کے دروازے پر پہنچ کر میں نے پہلے بہار جھانکا……. دروازے تک مجھے کوئی بھی نظر نہیں آتا……..ویسے بھی بادلوں کی وجہ سے روشنی کم ہی تھی ………میں تیزی کے ساتھ، لگ بھگ بھاگتا ہوا،سامنے گھر کے دروازے پرپہنچ گیا اور دستک دی…….

        "اندر آ جاؤ ………دروازہ کھلا ہے"……..اندر سے حنا کی آواز آئی،۔۔۔۔۔

        میں نے دروازے کو دھکیلا اور اندر داخل ہو گیا …………… پھر سے آواز آئی"دروازے کو بند کرتے ہوئے آنا" ....میں نے دروازے کو اندر سے بند کر دیا....

        میں اندر پہنچا …… حنا کچن میں کچھ کام کر رہی تھی …… میری آہٹ پر اس نے مڑ کر دیکھا اور پھر بولی “اندر کمرے میں بیٹھ جاؤ ……..میں ابھی آتی ہوں “……..

        میں اندر کمرے میں چلا گیا ………جو کہ اسکا بیڈروم تھا اور ایک لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا …………… 5 منٹ کے انتظار کے بعد حنا بھی کمرے میں آ گئی ……… ہاتھ میں ایک ٹرے پکڑے ہوئے جس میں چائے کے کپ مجھے دیکھائی پڑ رہے تھے……..

        وہ میرے سامنے بستر پر بیٹھ گئی اور چائے کی ٹرے کو وہیں اپنے پاس رکھ کر ایک کپ میری طرف بڑھا دیا………” لو، چاے پی لو “میں نے کپ اُس کے ہاتھ سے لیا اور پھر اسکی طرف دیکھنے لگا ……….. وہ کچھ سیکنڈ میری طرف دیکھتی رہی اور پھر نظریں جھکا لیں…….میں بھی چائے پینے لگا …….

        آج میں گاؤں میں گئی تھی ………..ہر جگہ شوکت کی موت کی ہی چرچا ہو رہی تھی پر ابھی تک ان لوگوں کو یہ نہیں پتہ لگا

        کہ یہ کس کا کام ہے .." وہ چائے پیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔

        جواب میں میں صرف اسکو دیکھ کر دھیمے سے مسکرا دیا…

        پھر وہ آگے بتانے لگی "وہ لوگ اپنے ساتھ کھوجی کتے بھی لے کر آئے تھے…… پر وہ بھی چوراہے کے پاس آکر راستہ بھٹک گئے…..” میں نے من ہی من میں اپنے آپ کو شاباشی دی، مجھے پہلے سے ہی شک تھا کہ وہ ایسا کریں گے اس لیے میں نے خوشبو کا استعمال کیا تھا۔۔۔۔

        پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور لکڑی کی الماری کے اوپر رکھے ہوئے ایک ہرے رنگ کے لفافے کو اٹھا لیا………. وہ لفافہ لےکر واپس بستر پر آ کر بیٹھ گئی اور پھر چائے پینے لگی۔۔۔۔

        اگلے 1 منٹ تک ہم دونوں بالکل چپ چاپ چائے پیتے رہے ……… پھر اس نے اپنا کپ ٹرے میں رکھا اور بولی…….” میرے پاس

        تمھارے لیے ایک بہت اچھی خبر ہے…..”

        میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا …………..اسے لفافہ اٹھا کر کھولا اور اس میں سے ایک پیپر نکال کر میری طرف بڑھا دیا……..میں نے پیپر ہاتھ میں لیکر دیکھا………….وہ ایک اجازت نامہ تھا، سہیل ملک کے نام سے بنا ہوا۔۔۔۔۔۔

        جس پر میری تصویر لگی ہوئی تھی۔۔۔۔

        حقیقتاً یہ میرے لیے ایک اچھی خبر تھی۔۔۔۔ میں نے خوشی بھرے چہرے سے اس کی طرف دیکھا اور پھر بولا “بہت اچھے!!…تم یہ کام کر بھی دیا۔۔۔۔

        جواب میں وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور پھر سر جھکا لیا…..

        پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی "اب تم، جب چاہو یہاں سے جا سکتے ہو"

        "شکریہ حنا ……….. پر میں تم سے ایک بات کرنے آیا تھا۔۔۔۔

        حنا نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔۔

        میں نے کہا ۔۔۔۔۔ میں یہاں سے اکیلا نہیں جانا چاہتا "میں دھڑکتے دل کے ساتھ، اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا……..

        جواب میں وہ پھر مسکرا دی اور ایک اور کاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی

        تم یہاں سے اکیلے نہیں جاؤگے ……….یہ دیکھو”

        میں نے کاغذ ہاتھ میں لیکر دیکھا، اور چونک گیا….یہ حنا کے نام کا پرمٹ تھا … اسبکی تصویر کے ساتھ………

        میں نے سوالیہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا……”میں بھی تمھارے ساتھ جاؤں گی شمشیر "اس نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور پلنگ پر تھوڑا کھسک کر میرے پاس آ گئی …………… یہ سب کچھ میرے لیے ایک جھٹکے کی طرح تھا……. میں کچھ سیکنڈ تک اس پیپر کو دیکھتا رہتا پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا… تم غلط سمجھ رہی ہو حنا، میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا……”

        "پھر ؟؟؟ کیا کہنا چاہ رہے ہو تم شمشیر؟ "وہ میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی……

        میں نے اس کی طرف دیکھا……….اور پھر بولا “دیکھو غلط مت سمجھنا حنا……. میرا مطلب شازیہ سے تھا………میں اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں"

        "پاگل تو نہیں ہو گئے ہو تم ………..تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔وہ غصے میں بولی…. اسنے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور پیچھے کو ہوکر بیٹھ گئی….

        "یہ پاگل پن نہیں ہے حنا ……………..میں شازیہ کو پیار کرتا ہوں، اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں …………… “میں اس کی طرف دیکھ کر بولا، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کو کیسے سب کچھ سمجھاؤں۔۔۔۔۔

        اور شازیہ ………….وہ یہ سب جانتی ہے ؟؟ "وہ میری طرف سوالیہ انداز سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔

        " ہاں ………. وہ بھی مجھ سے پیار کرتی ہے ………….میں خود ہی تم سے آج

        بات کرنے والا تھا، پر تم نے پہلے ہی بات شروع کر دی ………..” میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا…

        وہ پلنگ سے کھڑی ہو گئی اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا اور پھر اگلے

        کچھ سیکنڈ بالکل چپ کھڑی رہی………. پھر وہ اگے بڑھی اور میرے پاس آکر میرے سامنے بیٹھ گئی………

        اور وہ سب جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا…. کیا میں صرف تمہارے جسم کی پیاس بجھانے کے لیے ہوں …………… “وہ میرے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی……

        "یہ تم بھی جانتی ہو حنا کہ اس رات کیا ہوا تھا"

        وہ تمھارے جسم کی پیاس تھی جس نے تمہیں وہ سب کرنے کے لیے مجبور کیا تھا……….. میں تو بس غلط فہمی میں تمھارا ساتھ دیتا رہا اور جب سمجھ میں آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی" میں سر جھکا کر بولا اور پھر اس کی طرف دیکھا…………….

        "غلط فہمی؟ ……….کیسی غلط فہمی ؟ "وہ لگ بھگ چیختے ہوئے بولی...

        میں 2-3 سیکنڈ چپ رہا ……… پھر بولا “ دراصل میں اس رات شازیہ کا انتظار کر رہا تھا ……….جب تم میرے پاس آئی تو میں سمجھا کہ شازیہ ہو……….” میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

        "تم سچ میں پاگل ہو گئے ہو شمشیر ….. تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اپنی بہن کو تمھارے حوالے کر دوں گی …………… مجھے معلوم ہے تم اس بیچاری کا کیا حال کرو گے……..اپنے ساتھ لے جا کر تم اس کا

        استعمال کروگے اور پھر اسے بے سہارا چھوڑ دو گے…………..نہیں شمشیر، میں ایسا

        نہیں ہونے دوں گی………” وہ غصے میں بولے جا رہی تھی، ساتھ ہی اس نے میرے

        ایک بازو کو بھی پکڑا ہوا تھا ………..

        “تم اب بھی غلط سمجھ رہی ہو………….. میں اسے دل سے چاہتا ہوں……. میں اس سے شادی کروں گا اور پھر جلدی ہی تم کو بھی وہیں اپنے پاس بلا لوں گا………” میں نے بھی اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو سمجھایا ……….جسے اس نے فوراً چھڑا لیا……

        "نہیں …شازیہ تمہارے ساتھ نہیں جائے گی………..اگر کوئی جائے گا تو میں……. تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے شمشیر ………..” یہ کہہ کر اس نے ایک بار پھر میرا

        ہاتھ پکڑ لیا ……….اس کی آنکھوں میں اب آنسو آ گئے تھے …..

        اور شازیہ یہاں اکیلی رہے گی..؟ "میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا…

        "اس کی تم فکر مت کرو……………. میں نے حسن سے بات کر رکھی ہے………..وہ شازیہ سے نکاح کر لے گا…….." وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی۔۔۔۔

        میں جھٹکے سے کھڑا ہو گیا اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا..“ تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہو، ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں، شادی کرنا چاہتے ہیں……….اور تم ہم دونوں کو الگ

        کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہو………. یہ نہیں ہو سکتا حنا، کبھی نہیں۔۔۔۔

        اور اگر میں شازیہ کو یہ بتا دوں کی تمھارا اور میرا کیا رشتہ ہے ………پھر؟……….. پھر تو وہ کبھی تم سے شادی نہیں کرے گی …؟ ,

        وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔

        "پھر تو تمہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ وہی رشتہ تمہارا حسن کے ساتھ بھی ہے ……. ہم دونوں ہی تمہارے جسم کی پیاس بجھانے کے لیے ہیں”

        میں نے بھی اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

        یہ سب سن کر اس کے چہرہ سفید پڑ گیا وہ کچھ دیر تک میرے چہرے کو دیکھتی رہی اور پھر سر جھکا لیا ………….

        میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا اور پھر بولا "تم یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لو حنا اب میں یہاں سے اکیلا نہیں جانےوالا….. اگر میں گیا تو شازیہ میرے ساتھ جائے گی….. نہیں تو میں اپنی پوری زندگی یہاں پر گُزار دوں گا ………”اتنا بول کر میں نے پھر اس کی طرف دیکھا………….اس کا چہرہ

        بالکل سفید پڑ چکا تھا ……….میں مڑا اور کمرے سے باہر نکل آیا……….

        گھر کا دروازہ کھول کر میں واپس طبیلے کی طرف چل دیا…………..حنا کی باتوں سے میرا سر چکر گیا تھا اور اسی وجہ سے میں نے یہ بھی دھیان نہیں دیا کہ طبیلے کے اندر لگا ہوا بلب نہیں جل رہا ہے ………..باہر اب بونداباندی ہونے لگی تھی اور اندھیرا سا ہو گیا تھا ……….میں تیز تیز چلتا ہوا طبیلے کے اندر داخل ہوا اور پھر تو جیسے میرے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو …………….ایک زور کا وار میرے سر پر ہوا، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں نیچے گر کر بےہوشی میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔۔

        پتہ نہیں کتنی دیر تک میں ہوش و حواس سے بیگانہ رہا ، پھر میرے اندر کچھ روشنی سی ہونے لگی۔۔۔۔

        دھیرے دھیرے میرے ہوش و حواس واپس آ رہے تھے ………….مجھے اپنے سر پر، کاندھے پر اور پسلیوں میں درد محسوس ہو رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے مجھے بےہوشی کی حالت میں بھی مارا گیا ہو………..

        میں نے آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی ………………ایک تیز روشنی میری

        آنکھوں میں پڑ رہی تھی، جس کی وجہ سے مجھے پھر سے آنکھیں بند کرنی پڑ گئیں… پھر آنکھوں کے آگے ہاتھ رکھ کر میں نے اپنی آنکھوں کو دوبارہ کھولا ……اگلے کچھ منٹ تو مجھے اپنی حالت اور حالات کو سمجھنے میں لگ گئے………

        میں گھر اور طبیلے کے بیچ میں، کھلے میدان میں پڑ گیا تھا……. میرے ساتھ ایک جیپ کھڑی تھی جس کی ہیڈلائٹس آن تھیں اور میرے چہرے پر پڑ رہی تھی…… جیپ کے بونٹ پر کوئی بیٹھا ہوا تھا، جس کی پاؤں اور جوتے ہی مجھے دکھائی پڑ رہے تھے۔۔۔۔

        میری دائیں طرف ، گھر کی دیوار سے پیٹھ لگا کر حنا بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے پاس ایک آدمی، فوجی وردی میں، کھڑا ہوا تھا………. اس آدمی کے ہاتھ میں ایک پستول تھی، جس کا رخ حنا کے سر کی طرف تھا۔۔۔۔

        میں نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی…. جیپ کے بونٹ پر بیٹھا

        آدمی آگے بڑھا اور ایک لات میرے سینے پر ماری ……….میں واپس زمین پر گر گیا…….

        اچانک جیپ کی ہیڈ لائٹ بند ہو گئیں……….. کیونکہ گھر کے ساتھ لگا ہوا بلب جل گیا تھا ....اگلے کچھ سیکنڈ میں ہی سارہ نظارہ میرے سامنے تھا………..

        سامنے جیپ کے بونٹ پر بیٹھا آدمی سکھی رام تھا………. آج پہلی بار میں اسے قریب سے دیکھ رہا تھا……….لمبا قد، چوڑا جسم اور چہرے پر ایک سختی تھی…….لیکن اس وقت بڑی عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر دکھائی پڑ رہی تھی ………… جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک اور آدمی بیٹھا ہوا تھا،وہ کچھ زیادہ عمر کا تھا….. ایک تیسرا آدمی، جو فوجی وردی میں ہی

        جیپ کے دائیں طرف میں اور سکھی رام سے کچھ پیچھے، کھڑا تھا اور اس نے

        شازیہ کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا……. شازیہ اس کے ایک بازو میں لپٹی ہوئی تھی اور اس آدمی ہاتھ میں ایک اے کے 47 دکھائی دے رہی تھی………..کل ملا کر میں ابھی کچھ بھی کرنے کی حالت میں نہیں تھا………..

        "کیسے مزاج ہیں آپ کے ………… فلائٹ لیفٹیننٹ شمشیر قدوائی صاحب………"

        سکھی رام کی بھاری اور سخت آواز میرے کانوں میں پڑی۔۔۔۔

        ’’آپ کو کیا لگا تھا……کہ آپ ہمارے ملک میں آکر کچھ بھی کرتے رہوگے اور ہم چپ چاپ بیٹھ کر تماشا دیکھیں گے…… "اُس نے کہا……

        میرے لیے یہ بڑی حیرت والی بات تھی کہ وہ میرا نام بھی جانتا تھا ……..

        اس کا مطلب تھا حنا یا شازیہ میں سے کسی ایک سے سب کچھ وہ معلوم کر چکے ہیں۔۔۔۔

        پھر اس نے میرے سوال کا جو میں صرف ہی رہا تھا جیسے خود ہی جواب دیا " کیا سوچ رہے ہو ..؟

        یہی کہ مجھے تیرا نام کیسے معلوم ہوا؟ ……..

        یہ تو ہمیں معلوم ہی تھا کہ کوئی پاکستانی آدمی ہوائی جہاز میں سے گرا ہے اور تو کچھ ایسا ہے………… کہ ہم نے اپنے پاکستان کے کنکشن سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ جو جہاز حادثہ ہوا تھا اس کا پائلیٹ فلائٹ لیفٹیننٹ شمشیر قدوائئ تھا، جو بیچارہ اس حادثے میں مارا گیا…….“ کچھ دیر رک کر وہ پھر بولا "اسکا مطلب، اپنے دیش والوں کے لیے تو کب کا مر چکا ہے؟" ہا ہا ہا…” ہنسنے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے رکا …………..

        پھر اس نے بولنا شروع کیا....۔​
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • #34
          زبردست لاجواب

          Comment


          • #35
            Umda update

            Comment


            • #36
              بہت خوب جناب

              Comment


              • #37
                لاجواب مزہ آگیا

                Comment


                • #38
                  شاندار ،لاجواب اپڈیٹ تھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ شمشیر کیا کرتا ہے ۔اور اس مصیبت سے کیسے نکلتا ہے ۔

                  Comment


                  • #39
                    واہ گرو کہانی ایک ڈیم ہٹ کہ ہے ایک ڈیم شاندار جبر دست مزہ آرہا ہے بس او لکھتے جاؤ ور ہم پڑھتر جایں

                    Comment


                    • #40


                      8

                      سکھی رام نے پھر کہا ۔۔۔تو نے شوکت کو مارنے کے بعد، اچھا بچنے کا اچھا منصوبہ بنایا تھا ………..ایک بار تو ہمارے کتے بھی راستہ بھٹک گئے ………. پھر ایک بات پر ہم نے غور کیا کہ ہو سکتا ہے مارنے والا گھر کے پیچھے کے راستے سے یہاں آیا ہو پھر ہم نے کتوں کو گھر کے پیچھے بھیجا اور وہ یہاں تک پہنچ گئے………”

                      وہ لگاتار بولتا جا رہا تھا "میں پہلے شاید تجھے آسان موت دیتا، مگر تم شوکت کو مار کر بہت بڑی غلطی کر دی……..اب تم تو تڑپ تڑف کر مرو گے ہی ……..ساتھ میں تیری ان دونوں چاہنے والیوں کا بھی میں بہت برا حشر کروں گا ………… اب تو ہی بتا، پہلے تجھے موت چاہیئے، یا تو ان کا حشرہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے…….."

                      میں تھوڑا سا اٹھ کر، اپنا سر اوپر کر کے، سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ……….وہ سچ کہ رہا تھا، موت بلکل میرے سامنے تھی، اور اسی بات نہیں میرے درد کو غائب کر دیا تھا… اب جو کچھ بھی مجھے کرنا تھا، وہ اگلے کچھ منٹ کے اندر ہی ہونا چاہئیے تھا۔۔۔۔

                      میری نظر سامنے جیپ کے بونٹ پر پڑی………….میرا بیگ جیپ کے بونٹ

                      پر پڑا ہوا تھا ………….اس کا مطلب میری ریوالور اب ان لوگوں کے قبضے میں

                      تھی………….ایک بار تو میرا دل بیٹھ گیا………. لگنے لگا کہ میرا کھیل اب ختم ہو چکا ہے …………… پھر کچھ دھیان کرنے پر میرے من میں ایک اخری امید جاگ گئی………….

                      میں نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی…….. بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں پڑ رہی تھیں، جو کسی بھی وقت تیز ہونے والی تھی….. سکھی رام اور ڈرائیور کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار دکھائی نہیں دے رہا تھا اسکا مطلب مجھے باقی دو لوگوں کی بندوق سے بچنا تھا ………….میں نے ایک بار شازیہ کی طرف دیکھا …………اس کے چہرے پر خوف تھا، پر ساتھ ہی ایک امید بھی کی شاید میں کچھ کر سکتا ہوں ……………….

                      "ویسے تیری آخری اچھا بھی پوری ہو گئی.. تو کل رات مجھ سے ملنا چاہتا تھا اور آج میں تیرے سامنے کھڑا ہوں………..بتا کیا چاہتا ہے تو میرے سے؟ "وہ چہرے پر ایک کمینی مسکان لا کر بولا...

                      میں نے اب ایکشن کا فیصلہ کر لیا تھا اور سوچ لیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے…. میں اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا “ تیری موت چاہتا ہوں سکھی رام کی جان لینا چاہتا ہوں………………

                      جو ظلم تم نے ان لڑکیوں پر کیا ہے …….. اسکا حساب چکتا کرنا ہے مجھے”

                      " ہا ہا ہا ہا ہا ہا………………. ماننا پڑے گا.. تو آدمی تو بہادر ہے ……… موت کے سامنے اچھے اچھو کی بولتی بند ہو جاتی ہے…….. پر تم ایسی بات کر رہے ہو جیسے میں تمہیں نہیں بلکہ تم ہی مجھے مارنے والے ہو

                      …….. اور میں تمہارے ہاتھوں مرنے والا ہوں ۔۔۔۔۔وہ تھوڑا سا سر جھکا کر، میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔

                      بس اس ہی پل کا مجھے انتظار تھا…….. میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں زمین پر سے مٹی اٹھائی اور اس کے چہرے پر پھینک دی…….. ایک گالی کے ساتھ، اپنے چہرے کو ہاتھ سے ڈھانپ کر……..وہ پیچھے کو ہو گیا ………….اس سے پہلے کہ اس کے ساتھی کچھ سمجھ پاتے………. میں بہت تیزی سے اٹھا اور بھاگتے ہوئے طبیلے کے اندر چھلانگ لگا دی ……………….

                      5 سیکنڈ سے بھی کام وقت میں میں کمرے کے اندر وہاں پہنچ گیا… جہاں پر چھت میں، گھاس پھوس کے اندر، میں نے وہ ریوالور چھپائی ہوئی تھی جو میں نے اس پولیس والے (سہیل ملک) سے چھینی تھی………اندازے سے ہی میں نے اوپر ہاتھ ڈالا اور ریوالور میرے ہاتھ میں آ گیا…….. وہ ایک چھوٹی سی کھڑکی جو سامنے کی طرف کھلتی تھی..

                      دھیرے سے باہر جھانکا………………

                      غنیمت تھی کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی اندر نہیں پہنچا تھا ………..سکھی رام جیپ کے پیچے کو ہو گیا تھا پر باقی

                      دونوں آدمی …….. دونوں بہنوں کو قبضے میں کیے ہوئے، اپنی اپنی جگہ پر ہی

                      موجود تھے………………

                      "جلدی سے باہر نکل کر آجا ……….تو بھی جانتا ہے کہ تو ہم لوگوں سے نہیں

                      بچ سکتا ہے ………….پھر کیوں ان بیچاریوں کی موت کو اور مشکل بنا رہا

                      ہے………” سکھی رام کی آواز آئی، ساتھ ہی اس کا ایک ہاتھ جیپ کے آگے سے جھانکتا ہوا نظر آیا جس میں اس نے ایک ریوالور پکڑا ہوا تھا………….

                      اب وہ سبھی لوگ میری نگاہ میں تھے، لیکن جس جگہ پر میں تھا........... اس کا اندازہ وہ لوگ شاید نہیں لگا سکتے تھے ……..نہ ہی ان کو یہ معلوم ہوگا کہ میرے پاس کوئی ہتھیار بھی ہے……………….

                      میں نے ریوالور کو چیک کیا……… 5 گولیاں ابھی اس میں باقی تھیں……… اور میرے سامنے چار لوگ تھے جن سے مجھے نبٹنا تھا………..میری مسئلہ یہ تھا کہ میں

                      ایک بار میں ایک کو ہی نشانہ بنا سکتا تھا…….اور پہلی گولی چلتے ہی باقی

                      سب کو پتہ چل جانا تھا کہ میں کہاں ہوں اور میرے پاس کوئی ہتھیار بھی ہے……….

                      ڈرائیور کے علاوہ باقی 3 لوگ میرے نشانے پر تھے … … تینوں ہی طبیلے کے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے… شاید ان کو یہ امید تھی کہ میں جو بھی ایکشن لوں گا، وہیں سے لوں گا……………..پر مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پہلے کس کو نشانہ بناؤں……… میں نے سب سے پہلے اس سے نپٹنے کا فیصلہ کیا جو جیپ کی باہر،

                      شازیہ کو پکڑے کھڑا تھا ………..……. اس کا سیدھا ہاتھ شازیہ کی گردن سے لپٹا ہوا تھا……….پورا جسم شازیہ کے پیچھے چھپا ہوا تھا………..بس ایک ہاتھ،جس سے اس نے اے کے 47پکڑی ہوئی تھی،باہر تھا،………

                      اور اسکا ایک پاؤں تھوڑا سا باہر نکلا ہوا تھا………………

                      میں نے من ہی من اوپر والے کو یاد کیا…….. میری ذرہ سی چوک سے گولی شازیہ کو بھی لگ سکتی تھی …………… میں نے اس کے گھٹنے پر نشانہ باندھا اور ٹریگر دبا دیا………………….ڈھشوں…کی

                      آواز ہوئی….. نشانہ بلکہ صحیح لگا اور وہ آدمی اپنے گھٹنے کو پکڑ کر نیچے کو بیٹھتا چلا گیا………….اسںکے ہاتھ سے گن نکل گئی اور ساتھ میں شازیہ بھی............... جیسے کہ مجھے امید تھی،ٹھیک وہی کام شازیہ نے کیا ………….وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹتے ہی صحن طرف بھاگی اور طبیلے کے پیچھے والے حصے کی طرف چلی گئی………………………. میں نے دوبارا نشانہ لگایا……….اس بار اسی آدمی کے سر پر……….ایک اور دھمکا ہوا………..ایک

                      اور گولی چلی، اس بار اس کے سر میں گھس گئی…………..اس کے منہ سے آواز

                      بھی نہیں نکل پائی اور وہ اپنی جگہ پر ہی ڈھیر ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔

                      باقی دونو لوگ میرے اس حملے سے ایک دم بکھلا گئے……………… سکھی رام نے اپنے آپ کو جیپ کے اور پیچھے کر لیا………. اور دوسرا آدمی جو حنا کو کور کیے ہوئے تھا… اب یہاں وہاں دیکھ رہا تھا….. وہ اندازہ

                      لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں کہاں ہوں…. اب میں نے اس دوسرے آدمی کا نشانہ لگایا، میں نے ریوالور کو سیدھا کیا اور اس کے سر کا نشان باندھ کر ٹریگر دبا دیا ……….ڈھیشوں کی آواز ہوئی ……..پر اس بار نشانہ چوک گیا ………… گولی چلتے ہی وہ آدمی تھوڑا سا ہٹ گیا اور گولی اُس کے سر کی بجائے، اُس کی پسلیوں میں گھس گئی…………. اسکا حشر بھی پہلے والے کی طرح ہی ہوا……….وہ زمین پر گر گیا اور اپنے پیٹ کو پکڑ کر دوہرا ہو گیا………… حنا جو ابھی تک نیچے بیٹھی تھی…………. اپنی جگہ سے اٹھ کر گھر کے اندر بھاگ گئی………….

                      اب مجھے سکھی رام سے نپٹنا تھا … میں اپنی جگہ سے ہٹا اور تیز تیز بھاگتا ہوا، طبیلے کے دروازے پر آ گیا …………..

                      میں نے دھیرے سے باہر جھانکا…………جیپ کے پیچھے مجھے اس کی جھلک نظر آ رہی تھی …….اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا اور میں اب کوئی اور فائر نہیں کرنا چاہتا تھا……..کیوں کہ 3 فائر میں پہلے ہی کر چکا تھا اور گولیوں کی آواز ضرور آس پاس سنائی دے رہی ہوگی…

                      میں ایک بار نیچے جھک کر دیکھا، مجھے صحیح اندازہ نہ ہوا کہ وہ اس وقت کس پوزیشن میں ہے………..میں دھیرے سے باہر نکلا، میری ریوالور میرے ہاتھ میں بالکل تیّار تھی، اور آنکھیں جیپ پر ہی جمی ہوئی تھیں…

                      میں طبیلے کی دیوار سے پیٹھ لگا کر اپنی بائیں طرف میں بڑھا……دھیرے دھیرے بڑھتا ہوا میں جیپ کی طرف چل رہا تھا …………اچانک دو کام ایک ساتھ ہوئے……. سکھی رام اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک فائر میرے اوپر کر دیا، اس کے ہاتھ میں وہ ریوالور تھا جو اس نے میرے بیگ میں سے نکالا تھا، سائلنسر لگا ہوا………میں بالکل الرٹ تھا………اس فائر سے میں خود کو بچا گیا ………تبھی پیچھے سے کسی نے مجھے پکڑ لیا…….یہ وہی ڈرائیور تھا، جس کو میں کچھ دیر کے لیے بھول ہی گیا تھا…اس نے ایک ہاتھ سے میری کمر کو اور دوسرے سے میری گردن کو پکڑا ہوا تھا….. لیکن اس کے جسم کی طاقت میرے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی....

                      سکھی رام نے یہ سین دیکھتے ہی پھر اپنے ریوالور کو میری طرف سیدھا کیا……..… میں اپنا سیدھا ہاتھ کندھے کے اوپر سے پیچھے لے گیا، ڈرائیور کا کالر میرے ہاتھ میں آ گیا…….میں نے ایک جھٹکا دیا اور وہ میرے سامنے آ گیا………اسی وقت سکھی رام نے میرے اوپر فائر کر دیا …………… پٹ ..کی آواز نکلی اور گولی ڈرائیور کے جسم میں گھس گئی………وہ بیچارا اپنے سینے کو ہاتھ سے دبے ہوئے وہیں ڈھیر ہو گیا …………..

                      اس اچانک ہوئی گھٹنا سے سکھی رام اور بکھلا گیا ………….اس نے پھر سے میرے اوپر فائر کر دیے، پر تب تک میں اس کے اوپر جمپ لگا چکا تھا ………….اسکا پہلا فائر سے خالی چلا گیا، پر دوسری گولی میرے کاندھے کو چھیلتی ہوئی چلی گئی…. ایک درد کی لہر میرے جسم میں اُٹھی پر اُس کے بعد میں اسے اور فائر کرنے کا موقع نہیں دیا……….میں جھک کر اس پر جھپٹا……….. اپنے سر کو اس کے پیٹ پر ٹکا دیا اور پھر اس کی کمر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پیچھے کو دھکیلتا چلا گیا ………………کچھ دور تک وہ پیچھے کو ہوا اور پھر اس کے قدم زمین سے اکھڑ گئے………… میں نے ریوالور والی کلائی کو اپنے ہاتھ سے دبوچا اور دوسرے ہاتھ سے

                      لگاتار گھونسے اس کے چہرے پر برساتا چلا گیا……..4-5 وار میں ہی وہ پست ہو گیا اور ریوالور اس کے ہاتھ سے نکل گیا……

                      پھر میں ریوالور اٹھا کر، کھڑا ہو گیا…….وہ زمین پر، میرے پیروں کے پاس پڑا ہوا تھا…….. میں نے اپنی ریوالور، جو ابھی اس کے ہاتھ سے گری تھی، اس کی طرف کی اور ایک فائر کر دیا ………. پٹ کی ہلکی سی آواز ہوئی اور گولی سیدھی اس کی ران میں گھس گئی.... ایک تیز چیخ اس کے منہ سے نکلی…………….اس نے دو نوں ہاتھوں سے اپنی ران کو پکڑ لیا۔۔۔۔اتنی دور سے بھی اس کے چہرے پر درد کی لکیریں صاف دکھائی دے رہی تھیں…… صرف 5 منٹ میں ہی پوری بازی پلٹ چکی تھی……. جہاں 5 منٹ پہلے میں زمین پر پڑا تھا .... اب اس کے 2 آدمی تو مر چکے تھے یہ اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا ……….تیسرہ بےہوش تھا اور وہ خود میرے رحم و کرم پر تھا …….میں نے حنا کو آواز لگائی۔۔۔۔۔ حنا….باہر آ جاؤ………..” 1 منٹ بعد حنا گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکلی…….ساتھ ہی میری آواز شازیہ کو بھی سنائی دے چکی تھی، یا پھر شاید وہ سب کچھ چھپ کر دیکھ رہی تھی…….وہ بھی تبلے کے پیچھے سے نکل کر میرے پاس آ گئی……….. دونوں کے چہروں پر ہی خوف کے سائے ابھی تک موجود تھے…….. دونوں بہنیں دھیرےدھیرے چلتی ہوئے میرے پاس آ گئیں اور میرے دونوں طرف کھڑی ہو گئیں…… میں نے ایک نظر سکھی رام کے چہرے پر ڈالی………..اس کی آنکھوں میں اب موت کا خوف صاف دکھائی دے رہا تھا……..میں نے اپنی ریوالور کو چیک کیا……..ابھی بھی 3 گولیاں باقی تھیں …….میں نے ریوالور حنا کی طرگ بڑھا دیا اور کہا” لو حنا……….. تمھارا مجرم تمھارے سامنے ہے …….تم اپنے اوپر ہوئے سارے ظلموں کا بدلا اس سے لے سکتی ہو…"

                      حنا نے ایک دم چونک کر میری طرف دیکھا، جیسے وہ میری کہی ہوئی بات پر یقین نہ کر پا رہی ہو ……….. پھر اس کے چہرے پر اچانک سختی سی آ گئی …………..اس نے ریوالور میرے ہاتھ سے لی اور سکھی رام پر تان دی……..سکھی رام نے اٹھنے کی کوشش کی، پر میں نے ایک لات اسکے سینے پر

                      ماری… وہ پھر سے زمین پر ڈھیر ہو گیا… حنا نے دونوں ہاتھوں سے ریوالور کو تھام لیا اور ……اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے …لگ رہا تھا وہ کسی بھی پل گولی چلانے والی ہے………پھر اچانک اس کا ہاتھ نیچے ہو گیا…………..اس کی آنکھوں میں سے آنسو بہہ نکلے اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی……….

                      میں نے اس کے نیچے ہوئے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے پکڑا ……….اور پھر دوبارہ

                      ریوالور سکھی رام پر تان دیا………….. کیوں کیا ہوا……؟ کیا تم بھول

                      گئی ہو کہ اس نے تمھارے ساتھ کیا کیا تھا……….تمھارے شوہر کی موت، تمھارے بھائی کی موت اور تمھارے بچے کی موت…….سب کچھ ایک بار پھر سے یاد کرو "اس کے چہرے پر پھر سے وہی غصہ اور سختی آ گئی ….اس کا ہاتھ ریوالور پر کس گیا … مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر بھی

                      گولی نہیں چلا پائے گی……… باقی کا کام میں نے پورا کر دیا… ریوالور کے ٹریگر کو میں نے اپنی انگلی سے دبایا اور پھر ایک کے بعد ایک، 3 گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں……….اس کا جسم کچھ سیکنڈ تک تڑپا اور پھر شانت ہو گیا…… حنا کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری تھے اور شازیہ نے ڈر کے ماتے میرے پیچھے خود کو چھپا لیا تھا…………۔۔۔

                      صحن میں اب بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا، 3 مردہ جسم اور ایک ادھ مرا آدمی پڑے ہوئے تھے......... حنا روتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئی تھی اور شازیہ اس کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی….

                      ایک دوسرے سے لپٹ کر رو رہی تھیں… مجھے اسی بات کا ڈر تھا کہ کہیں سکھی رام نے مرنے سے پہلے اپنے ساتھیوں کو کوئی پیغام نہ دے دیا ہو … اگر ایسا ہوا تو، بہت ہی جلد یہاں اور بھی لوگ پہنچنے والے ہوں گے……

                      اب میرا دھیان اپنے کندھے پر بھی گیا.....

                      جہاں سے ایک گولی چھو کر گزر گئی تھی.. وہاں ایک اچھا خاصا زخم بنا دیا تھا ... ہلکا ہلکا خون لگاتار بہہ رہا تھا اور میرے بازو کو بھگو رہا تھا... میں نے ادھر اُدھر دیکھا پھر شازیہ سے بولا " شازیہ، ذرہ ایک کپڑا لاکر میری کندھے پر باندھ دو۔۔۔ میری اس بات سے دونوں بہنوں کا دھیان میری طرف گیا ……….

                      پھر حنا جلدی سے اٹھ کر گھر کے اندر چلی گئی……..میں نے سارے ہتھیار اٹھا کر جیپ میں اکٹھے کر دیے ……….اپنے دونوں ریوالور واپس جاکر کنرے میں بستر کے نیچے چھپا دیے..... اتنی دیر میں حنا واپس لوٹ آئی….اس کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی …….میرے پاس آئی اور اس نے مجھے نیچے بیٹھنے کا کہا اور پھر شیشی میں سے کوئی لیکوڈ لیکر کپڑے پر ڈالا، اور اس کپڑے کو میرے کندھے کے زخم کے اوپر رکھ دیا…..ایک تیز جلن میرے زخم سے ہوکر پورے جسم میں دوڑ گئی. اگلے کچھ سیکنڈ کے لیے میرا پورا جسم ہی سن پڑ گیا……. پھر اس نے ایک کپڑے کی پٹی اس جگہ پر باندھ دی……

                      میرے پاس اب آرام کرنے کا وقت نہیں تھا … میں نے چاروں کے جسم ایک ایک کرکے اٹھا کر جیپ کے اندر ڈال دیے ………………. پھر ان کے ہاتھوں کو خالی کر کے واپس جیپ کے پچھلے حصے میں ڈال دیا بارش اب تیز ہونے لگی تھی………. شاید اوپر والا بھی میرا ساتھ دے رہا تھا ……… ان چاروں کا خون , جو زمین پر بکھرا پڑا تھا ……

                      بارش کے پانی سے دھلتا جا رہا تھا…….. میں جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور جیپ کو سٹارٹ کر دیا .... پھر میں جیپ کو گھمایا اور واپس گاؤں کی طرف جانے والی پگڈنڈی کی طرف بڑھا دی………. کچھ آگے جاکر پھر میں ایک لمبا یو ٹرن لیا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر ندی کی طرف چل دیا…. ندی کے پاس پہنچ کر میں بائیں طرف میں مڑ گیا اور ندی کے ساتھ ساتھ ہی چلنے لگا ………..

                      بارش اب بھی ہو رہی تھی اور اب ساتھ ہی ساتھ برف باری بھی شروع ہو گئی تھی… میرے لیے یہ اور بھی اچھی بات تھی……. میں جیپ کو قریب 3 کلومیٹر آگے لے گیا اور پھر گاڑی کا رخ نیچے ڈھلان کی طرف کر دیا ……..اس کے اگے ایک تیکھی ڈھلوان نیچے جا رہی تھی …………کل ملاکر یہاں سے گاڑی آگے جا کر سیدھی کھائی میں ہی گرنی تھی………

                      میں نے ایک بار پھر اوپر والے کو یاد کیا… پھر میں گاڑی کو آگے بڑھانا شروع کیا …. کلچ کو دبا کر گیئر ڈالا اور ایکسلریٹر کو پورا دبا دیا ....... پھر جھٹکے سے کلچ کو چھوڑ دیا ................گاڑی پوری رفتار سے آگے بڑی اور میں گاڑی سے باہر کُود گیا……. گاڑی نیچے کھائی کی طرف جا رہی تھی… اگلے کچھ سیکنڈ تک میں اسے نیچے جاتے دیکھتا رہا ……….پھر واپس چل دیا……. کچھ دیر پہلے تک خون بہنا بند ہو چکا تھا لیکن اب پھر سے جسم کو گرمی مل گئی تھی اور خون بہنے لگا تھا ……..میں اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے کندھے کو دبائے ہوئے آگے بڑھتا رہا ………ایک ایک قدم اٹھانا مجھ پر بہت بھاری پڑ رہا تھا، پر میرے سامنے کوئی اور راستہ نہیں تھا……… میرے لیے صرف ایک ہی جگہ سب سے زیادہ محفوظ تھی اور میں جلد سے جلد وہاں پہنچنا چاہ رہا تھا………….

                      اگلے آدھے گھنٹے تک میں ہوں ہی خود کو گھسیٹ کر چلتا رہا ……..اب میں گھر سے صرف 200 میٹر کی دوری پر تھا ………… برف لگاتار پڑ رہی تھی پر میرا پورا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا ………خون میرے بازو سے ہوتا ہوا میری ہتھیلی سے ہوکر نیچے گر رہا تھا ……… پھر میرے جسم نے جواب دے دیا……….میری آنکھوں کی سامنے اندھیرا چھا گیا اور میرے پاؤں نے میرا بوجھ اٹھانے سے انکارکر دیا………میرے قدم لڑکھڑائے اور میں نیچے گر پڑا…. نیچے گرتے ہی میں اپنے ہوش کھوتا چلا گیا۔۔۔

                      مجھے دھیرے دھیرے ہوش آنے لگا تھا….. میں نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی، پر پھر بند کرنی پڑیں…آنکھ کھولتے ہی میرے سر میں بہت تیز درد ہوا تھا…میری آنکھیں بند تھیں،پر دماغ کام کر رہا تھا…میں سوچ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا……میں تو میدان میں بے ہوش ہو گیا تھا… معلوم نہیں میں اس وقت کہاں ہوں۔۔میں نے اپنے ہاتھوں کو ہلایا… میں کسی ملائم بستر پر لیٹا ہوا تھا پھر دھیرے دھیرے میں نے اپنی آنکھیں کھولیں…..کچھ سیکنڈ لگ گئے مجھے اپنی آنکھوں کو پوری طرح سے کھول کر دیکھنے میں….. پھر مجھے معلوم ہوگیا کہ میں بالکل محفوظ ہوں…….جی ہاں، میں وہیں پر تھا جہاں مجھے ہونا چاہئیے تھا ..شازیہ کے گھر میں ان کے گھر میں ،بستر پر لیٹا ہوا تھا…. میں نے اپنے آس پاس نظر گھمائی اور میرے سر کا درد پورا غائب ہو گیا....

                      میں جس بستر پر لیٹا ہوا تھا …… اُسی پر، میری دائیں طرف میں … پلنگ کے

                      سرہانے سے لگ کر شازیہ بیٹھی ہوئی سو رہی تھی…..وہ جس پوزیشن میں تھی،

                      اسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ میرے پاس بیٹھی ہوگی اور پھر بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی…

                      میں نے تھوڑا سا اٹھ کر اپنے آپ کو سیدھا کرنے کی کوشش کی…….پھر اپنی کہنیوں پر وزن ڈالتے ہوئے میرے منہ سے ایک ہلکی سی کراہ نکل گئی….اور میرے کندھے میں ایک درد کی لہر سی دوڑ گئی…..میں بھول ہی گیا تھا کہ میرے بے ہوش ہونے کی وجہ میرے کندھے کا زخم تھا … مجھے پھر سے آنکھیں بند کر کے لیٹنا پڑ گیا۔۔۔۔

                      میری آواز شازیہ کے بھی کانوں تک پہنچ گئی تھی اور اس نے جھٹ سے آنکھیں

                      کھول دیں ....کچھ دیر تک وہ میرے چہرے کو دیکھتی رہی پھر اچانک اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ گئی اور وہ اٹھ کر دوسرے کمرے کی طرف دوڑ کر گئی ..

                      "باجی…..باجی…….دیکھو…..ان کو ہوش آ گیا…….” اس کی آواز میرے کانوں میں پڑ رہی تھی ……….میں نے پھر سے آنکھیں کھولیں….اب دونوں بہنیں واپس کمرے میں آگئی تھیں……..حنا پلنگ پر ہی بیٹھی ہوئی تھی اور شازیہ اس کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی…. دونوں کے چہروں پر ہی خوشی نظر آ رہی تھی …

                      "کیسے ہو شمشیر؟" میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر حنا نے پوچھا…….جس کا جواب میں نے اپنا سر ہلا کر بڑی مشکل سے دیا…..

                      میں نے دونوں کے چہرے کو باری باری سے دیکھا اور پھر پوچھا "میں یہاں پر"

                      کیسے آ گیا……..؟ ’’میرا سوال ہی بیوقوفی بھرا تھا…….ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی مجھے یہاں اٹھا کر لای ہوں گی۔

                      "جب تم کافی دیر تک نہیں آئے تو ہم تمہیں دھونڈنے گئی تھیں …….تم وہاں میدان میں بے ہوش پڑے تھے ……… شکر کرو کی برف باری کی وجہ سے تمھارا خون بہت زیادہ نہیں بہا پھر بھی جتنا بہہ چکا تھا، وہی کافی تھا تمہیں بے ہوش کرنے کے لیے……‘‘ آخری بات کہتے ہوئے وہ مسکرائی اور پھر اٹھ کر باہر چلی گئی……….شازیہ کچھ دیر

                      تک میری طرف دیکھتی رہی…… میں نے بھی اسے دیکھتے ہوئے مسکرانے کی کوشش

                      کی … پھر وہ بھی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔

                      میں مشکل سے باہر دیکھنے کی کوشش کی باہر ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی……. اسکا مطلب دن نکل آیا تھا……پر موسم کی کیا صورتحال تھی، یہ مجھے نہیں معلوم تھا…….. میں نے پھر سے ایک بار سارے جسم کی طاقت کو اکٹھا کیا اور پھر اپنی کہنیوں کے بل اٹھ کر بستر کے سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا………

                      تھوڑی ہی دیر میں شازیہ پھر سے واپس آ گئی …….وہ میرے لیے دودھ لے کر

                      آئی تھی….میں نے گلاس اس کے ہاتھ سے لیا اور پھر دودھ پینے لگا…….وہ پلنگ پر ہی بیٹھ کر میری طرف دیکھتی رہی…… “باہر موسم کا کیا حال ہے "میں نے اس سے پوچھا …….

                      کل رات سے ہی لگاتار برفباری ہو رہی ہے….. اب تو باہر اچھی خاصی برف اکٹھی ہو گئی ہے……….. “اس نے بتایا…….. پھر میرے ہاتھ سے خالی گلاس لے کر باہر چلی گئی….

                      میں پھر سے آنکھ بند کر کے لیٹ گیا …… “لو…………… دوائی کھا لو” اس بار حنا کی آواز آئی میں نے آنکھ کھولی ……….وہ میرے پاس پلنگ پر ہی بیٹھی تھی…….. اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا………میں نے اسکے ہاتھ سے دوائی لے لی……3-4

                      گولیاں تھیں……..میں نے منہ میں ڈال لیں اور پھر اس کے ہاتھ سے پانی گا گلاس

                      لے کر پی لیا ………. پھر اس نے ایک اور گلاس میری طرف بڑھایا ………. میں نے

                      سوالیاں نظروں سے اس سے پوچھا………..

                      "پی لو ………..تمہارے درد میں کمی ہو جائے گی "اس نے کہا اور پھر میں نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر ہونٹوں سے لگا لیا۔۔۔ اور ایک ہی سانس میں پورا گلاس

                      کھالی کر دیا………….جو کچھ بھی تھا، کافی کڑوا تھا……..پھر میں دوبارہ

                      سے لیٹ گیا اورآنکھیں بند کر لیں ………. کچھ ہی دیربعد میں پھر سو گیا …………

                      دوبارہ میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو پہلے سے کافی بہتر محسوس کر

                      رہا تھا ……….میرے کندھے میں بھی اب درد پہلے سے کم محسوس ہو رہا

                      تھا………… میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور پھر باہر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا…….. باہر دھند دکھائی پڑ رہی تھی….اسکا مطلب ابھی بھی موسم پہلے جیسا ہی تھا…..یہ میرے لیے اچھی بات تھی کیوں کہ جس جیپ کو کل رات میں کھائی میں دھکیل کر آیا تھا، وہ برف کی وجہ سے جلدی کسی کی نگاہ میں نہیں آ پائے گی……….

                      میں نے بستر سے اٹھنے کی کوشش کی……. مجھے اپنے جسم میں کمزوری کا احساس ہوا پھر میں بستر سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا………دھیرے دھیرے چل کر میں کمرے سے باہر آیا ……..سامنے کچن میں دیکھا، وہاں کوئی بھی نظر نہ آیا… میں اور آگے چلنے ہی والا تھا کہ شازیہ وہاں آ گئی…….

                      "ارے...! آپ باہر کیوں آ گئے ………… چلیں اندر بستر پر جاکر آرام کریں…………”اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر واپس کمرے کے اندر لے آئی……..اور پلنگ پر بٹھا دیا..

                      "میں اب ٹھیک ہوں"

                      شازیہ………….لیٹے لیٹے بور ہونے لگا تھا، سوچا تھوڑا گھوم لوں………”

                      میں نے کہا، پھر پوچھا "حنا کہاں ہے؟ ,

                      "باجی گاؤں تک گئی ہیں ……….. "کہہ کر وہ مسکرائی اور پھر بولی "آنے ہی

                      والی ہوگی …………… تو اتنی دور کیوں کھڑی ہو، آو میرے پاس آو ناں" میں نے

                      مسکراتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا…… جسے اس نے تھام لیا اور میرے نزدیک آ گئی میرے پاس کھڑے ہوکر میرے گلے میں اپنی باہیں ڈال لیں اور پھر بولی “، باجی آنے ہی والی ہوں گی………کوئی غلط حرکت کرنے کی کوشش مت کرنا “کہہ کر وہ ادا سے مسکرا دی۔۔۔۔ اس کی مسکراہٹ پر میں سب کچھ لٹا سکتا تھا ………..

                      میں نے اس کو کمر سے تھاما اور اپنے اوپر کھینچ لیا ……….وہ بنا کسی مزاحمت کے میری گود میں آکر بیٹھ گئی ……اس کی باہیں ابھی بھی میرے گلے میں ہی تھیں…

                      میں نے اس کے چہرے اپنے ہاتھ سے اپنی طرف گھمایا اور ایک کس اس کے گال پر کر دیا………جواب میں اس نے بھی وہی حرکت میرے ساتھ کی…….پھر تو ایک کھیل سا ہم دونوں کے بیچ شروع ہو گیا……. ہم دونوں ایک دوسرے کو

                      باری باری سے چومنے لگے …….ہمارے چومنے کا عمل ایک دوسرے کے چہرے تک ہی محدود تھا………پر دل کی دھڑکن

                      بڑھانے کے لیے یہ بھی کافی تھا………

                      پھر میں نے اسے گھما کر بستار پر لٹا دیا… اور خود کے اوپر آ گیا ………… اب وہ بستر پر ٹانگیں نیچے لٹکائے لیٹی ہوئی تھی اور میں اس کے اوپر تھا ………….میں نے اپنا سارا وزن اپنی ایک کوہنی پر ڈالا ہوا تھا میں نے اپنا سر نیچے جھکایا اور پھر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ٹکا دیے ………..ہمیشہ کی طرح اس نے اپنے ہونٹوں کو کھول کر میرا سواگت کیا………..اور پھر ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں الجھ کر رہ گئے…….. ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹوں کا رس چوسنے میں لگے ہوئے تھے……….……… میرا

                      ایک ہاتھ بستر پر ٹکا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ کو میں نے نیچے سے اس کی قمیض میں ڈال دیا۔۔۔۔۔۔۔۔

                      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X