Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جانباز سرحد کے پار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتھرابھٹی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    Aallaa, buhat hi shandar twist. Maza aa gaya.

    Comment


    • #52
      بہت عمدہ اپڈیٹ

      Comment


      • #53
        La jwab story hi bhi jan

        Comment


        • #54
          خبصورت سٹوری ہے اعلی لکہی ہے

          Comment


          • #55
            خبصورت سٹوری ہے اعلی لکہی ہے سسپنس کافی اچہا ہے

            Comment


            • #56
              Buhat achi story hai g shukriya

              Comment


              • #57


                10

                "اب آپ سیدھی اٹھ کر کھڑی ہو جاؤ باجی ………" شازیہ نے حنا پر ریوالور تانتے ہوئے کہا…

                حنا دو قدم پیچھے کو ہوئی اور پھر زمین

                پر بیٹھتی چلی گئی……….اس کے چہرے پر ایسے عجیب سے تاثرات تھے جیسے کسی بچے کے ہاتھ سے اس کا سب سے اچھا کھلونا چھین لیا گیا ہو……….

                میں ںے پھرتی اپنا کام پورا کیا…….پہلے اپنا دوسرا ہاتھ کھولا اور پھر اپنے پیروں کو آزاد کر لیا ………

                میں تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اوپر روشن دان پر رکھی ہوئی ریوالور نکال لی…… پھر میں بستر سے اتر کر نیچے آ گیا………….. شازیہ میرے پاس آئی اور مجھ سے لپٹ

                گئی …………….میں نے اسکے کندھے کو تھپتھپا کر اسے پھر اپنے سے الگ کیا

                اور بولا……

                "ہمیں ابھی یہاں سے نکلنا ہے"

                شازیہ ……… تم جلدی سے گاؤں کی باہر اپنے باغ کے پاس پہنچو اگر تمھاری بہن صحیح کہہ رہی ہے تو وہاں گاڑی کھڑی ہوگی…….. میں بھی تمھارے پیچھے آتا ہوں”

                شازیہ نے ریوالور مجھے دے دیا اور پھر جلدی سے کمرے سے نکل کر گھر کے اندر چلی گئی ……….

                میں حنا کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور پھر اسے ایک لکڑی کی کرسی پر بٹھادیا ……….میں نے رسی سے اس کے دونوں پاؤں کرسی کے ساتھ باندھ دیئے اور دونوں ہاتھوں کو الگ الگ کرسی کے ساتھ باندھ دیا ……..وہ اب بالکل خاموش تھی ………..اور نہ ہی میری کسی حرکت پر مزاحمت کر رہی تھی۔۔۔۔

                شازیہ واپس آئی ………اس نے کپڑے بدل لیے تھے …….اور ایک شال اوڑھ لی تھی ……اس نے میری طرف دیکھا ……..میں نے اسے اشارا کیا اور وہ گھر سے باہر نکل گئی ………میں پھر سے حنا کی طرف مڑا ………وہ سر جھکا کر بیٹھی تھی….اور اس کی آنکھوں سے اب آنسو بھی چھلکنے لگے تھے…….میں اس کے

                پاس آیا اور اُس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا…

                اس نے نظر اٹھا کر ایک بار میری طرف دیکھا اور پھر نیچے جھکا لیا……..

                "کیوں کیا تم نے ایسا حنا؟ تم جانتی ہو شازیہ تم سے کتنا پیار کرتی ہے …؟اور میں بھی تمھاری بہت عزت کرتا تھا حنا……….پر تم

                نے ایک حرکت سے وہ سب کچھ ختم کر دیا “میں اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے

                بولا……

                اس نے سر اوپر اٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی "مجھے عزت نہیں"……تمہارا پیار چاہئیے تھا شمشیر…….” اُس کی آنکھوں میں سے آنسوؤں کی ایک موٹی لکیر بہنے لگی…….

                "سچ مانو حنا ……..اگر میں شازیہ سے نہ ملا ہوتا ……..تو شاید میں تم سے ہی پیار کر بیٹھتا……..پر اس کو میری اچھی قسمت کہو یا اپنی بری قسمت …… تم سے پہلے، مجھے شازیہ سے پیار ہو گیا………. میں اپنے دل کو

                تو نہیں بانٹ سکتا ……..شاید ہماری قسمت میں یہ ہی لکھا تھا............اوپر والے سے دعا کروں گا کہ تمہیں کوئی اچھا سا جیون ساتھی مل جائے..."

                اگلے کچھ سیکنڈ خاموشی سی چھائی رہی ……… پھر میں کھڑا ہو گیا……..میں نے آگے بڑھ کر اس کی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چابی اور لفافہ نکال لیا……..پھر میں جلدی سے اس کے کمرے میں گیا اور اس کی الماری میں سے اپنے لیے ایک جیکٹ نکالی …….اور پہن لی ….چابی اور لفافہ میں نے

                جیکٹ کی جیب میں ڈال لیا اور جو ریوالور ابھی حنا کے ہاتھ سے چھینی تھی ..اس کو اپنے کپڑوں میں چھپا لیا……..میں نے ایک کاغذ پر کچھ لکھا اور پھر سے حنا کے پاس آ گیا ………وہ بلکل سپاٹ نگاہوں سے ایک دیوار کو دیکھے جا رہی تھی……

                میں اس کے پاس گیا اور کاغذ کو اسکی جیکٹ کی جیب میں ڈال دیا…… اس نے

                سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا……

                "ایس پیپر پر میں نے اپنے گھر کا پتہ لکھ دیا ہے …….میں ابھی شازیہ کو لےںکر یہاں سے جا رہا ہوں، اور جو کچھ بھی ہو جائے….. مین پاکستان ضرور پہنچ جاؤں گا………میں جانتا ہوں، جو کچھ بھی تم نے آج کیا وہ جذبات میں آکر کیا ………اگر تمہیں اس بات کا احساس ہو جائے تو مجھے ایک خط لکھ دینا…….میں تمہیں بھی یہاں سے لے جانے کی کوشش کروں گا……”….میں نے اسے سمجھایا اور پھر بولا” الوداع حنا……..معلوم

                نہیں پھر کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو"اتنا کہہ کر میں پلٹا اور کمرے سے باہر کی طرف چل دیا ……..اس نے پیچھے سے مجھے آواز دی………” رکو شمشیر…….!!”

                میں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا………”

                جاؤ "وہ بولی ……..اسکی آنکھوں میں ایک امید سی نظر آ رہی تھی …….

                "بولو؟؟ "میں نے پوچھا" یہ ریوالور یہاں چھوڑ جاو..." اس نے میرے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا…….میرے ہاتھ میں وہ ریوالور تھی جو میں نے روشن دان سے نکالی تھی ……

                میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔ ,

                " شازیہ سے کہنا ………اس کی باجی اب ایسی دنیا میں نہیں ہے ……….مر گئی حنا “کہتے ہوئے اس کی آنکھیں پھر سے بھیگ گئیں …………

                میں کچھ سیکنڈ کھڑا سوچتا رہا ....... پھر اسکے پاس آیا اور ریوالور اس سے کچھ دور

                پلنگ پر رکھ دیا ……….. پھر میں نے ایک ہاتھ آگے بڑھا کر اس کے ایک ہاتھ کی رسی کو کھول دیا اور تیزی سے پلٹ کر کمرے سے اور پھر گھر سے باہر نکل آیا..اور تیز قدموں سے گاؤں کی طرف جانے والے راستے پر چل دیا….

                میں ابھی شاید 50 میٹر دور ہی جا پایا تھا کہ ایک آواز نے میرے پیروں کو بریک لگا دی……….گھر کے اندر سے ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی تھی …….

                میں جانتا تھا کہ یہ ریوالور سے گولی چلنے کی آواز ہے۔۔۔۔

                دھماکے کی آواز نے میرے پیروں کو روک لیا تھا…….یہ سوچ کر گھر کے اندر کیا ہوا ہوگا، ایک بار تو میرا دل بھی ہل کر رہ گیا….میں واپس مڑا، اور گھر کی طرف چلنے کو ہی تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی موٹر سائیکل کی آواز پڑنے لگی .....جو ہر پل نزدیک آتی جا رہی تھی ……

                میں نے اس آواز کو اب اچھی طرح پہچانتا تھا…….

                میں نے اُدھر اُدھر دیکھا اور پھر جلدی سے ایک پیڑ کے پیچھے چھپ گیا………موٹر سائیکل نزدیک آتی چلی گئی اور پھر میرے سامنے سے ہوتی ہوئی نکل گئی ……..میرا اندازہ بالکل صحیح تھا، وہ حسن ہی تھا جو اب گھر پہونچنے والا تھا…….

                اس کے گزرتے ہی میں درخت کے پیچھے سے نکلا اور لگ بھگ دوڑتے ہوئے گاؤں کی سمت چل دیا…….میں جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا……حالانکہ جو کچھ بھی ابھی پیچھے ہوا،اس کے بعد میرا فرض بنتا تھا

                کہ میں واپس جاکر دیکھوں …….پر میرا ایک دوسرا فرض مجھے واپس لوٹنے سے روک رہا تھا ………میں تیزی سے چلتے ہوئے گاؤں تک پہنچ گیا اور پھر میں نے دھیرے دھیرے گاؤں کو پار کیا، میں نہیں چاہتا تھا کوئی میرے اوپر شک کرے .... گاؤں پار کرتے ہی میں نے اپنی چال پھر سے تیز کر دی اور پھر آخری 300 میٹر لگ بھگ بھاگتے ہوئے، میں باغ کے پاس پہنچ گیا ………..

                دور سے ہی دیکھائی پڑ رہا تھا ……….باغ کے پاس والی سڑک پر ایک چھوٹا سا ٹرک کھڑا ہوا تھا………ایک کافی پرانا سا ٹرک تھا……. میں اس کے پاس پُہنچا اور پھر اُدھر اُدھر نظریں دوڑائیں ……..باغ کی طرف سے شازیہ میری طرف ہی آ رہی تھی ………اس کے چہرے پر ایک خوشی سی نظر آ رہی تھی……… شاید اسے اب امید ہو گئی تھی کہ ہم یہاں سے صحیح سلامت نکل جائیں گے……

                میں ٹرک کے پاس پہنچا اور دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا…….جیکٹ کی جیب سے چابی نکال کر میں نے اگنیشن ہول میں لگائی اور اوپر والے کا نام لیکر اس کو گھما دیا……….اور پھر ایک تیز آواز کے ساتھ

                ٹرک کا انجن جاگ اٹھا……..میرے اپنے ہونٹوں پر بھی ایک مسکراہٹ آ گئی اور میں نے نیچے کھڑی شازیہ کو اوپر آنے کا اشارہ کیا……..وہ دوسری طرف کا گیٹ کھول کر ٹرک میں چڑھ گئی اور میرے پاس والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی ………

                میں نے اپنے کپڑوں میں سے ریوالور کو نکالا اور اپنی سیٹ کے پیچھے نظر آنے والے ایک سوراخ میں چھپا دیا……… پھر میں نے گیئر ڈالا اور ٹرک کو آگے بڑھا دیا……ڈرائیونگ میرے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی……. دھیرے دھیرے گاڑی کو چلاتا ہوا میں اوپر کو جانے والی سڑک پر لے آیا اور پھر

                2 منٹ بعد ہی ہمارا ٹرک ہائی وے پر دوڑ رہا تھا………..

                میرے دل کی دھڑکن اب کافی تیز ہونے لگی تھی………میں جانتا تھا کہ میرا کام ابھی پورا نہیں ہوا ……… ابھی بارڈر پر اور اس سے پہلے ، کئی بار چیکنگ ہو سکتی تھی، جس کو صحیح سلامت پار کرنا ایک ٹیڑھی کھیر تھا…..

                میں پوری توجہ سے، لیکن تیز رفتاری سے ٹرک چلا رہا تھا………جیسا کہ مجھے حنا نے بتایا تھا……..یہ سڑک سیدھا بارڈر تک جاتی تھی……عام پہاڑی راستے کی طرح ہی گھماؤدار روڈ تھا …..اور پھر کل ہوئی برفباری کی وجہ سے بھی راستہ کافی تنگ ہو گیا تھا……..میں بہت آرام سے سرحد کی طرف

                بڑھتا چلا جا رہا تھا….

                میں نے ایک نظر شازیہ پر ڈالی ………وہ اپنے سر کو سیٹ پر ٹکائے باہر کی طرف دیکھ رہی تھی…..اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس کا دماغ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے……میں جانتا تھا کہ اس کے لیے یہ سب آسان نہیں ہے……

                دوبارہ ملنے کی امید بھی نہیں ہے …….کیا گزرے گی شازیہ پر جب اس کو معلوم ہو گا کہ اس کی بہن کیا انجام ہوا ہے ………..میں نے طے کر لیا کظ ابھی اسے کچھ بھی نہیں بتاؤں گا یہ سب سوچتا ہوا میں گاڑی چلاتا جا رہا تھا ……… اب قریب ایک گھنٹہ

                ہو چکا تھا، اور میرا اندازہ تھا کہ ہم لوگ 30 کلومیٹر کے آس پاس راستہ طے کر چکے ہیں ………….. پھر میرا دھیان آگے سڑک کی طرف گیا تو مجھے چونک جانا پڑا…… تھوڑا آگے سڑک پر ٹریفک رکی ہوئی تھی اور گاڑیوں

                کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی ………صاف ظاہر تھا کظ آگے یا تو راستہ بند تھا یا پھر چیکنگ ہو رہی تھی……

                میرے دل کی دھڑکن اچانک تیز ہو گئی … شازیہ کا دھیان بھی سامنے کی طرف ہی تھا……اس نے ایک بار میری طرف دیکھا……جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیا ہونے والا ہے……میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے دلاسا دیا اور اپنی گاڑی ایک طرف کر کے روک دی…….

                "اگر کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو تم یہ کہہ دینا کہ میں تمہیں زبر دستی ساتھ لے جار آہا ہوں ……..” اس نے میری طرف بڑے ہی غصے بھری نظروں سے دیکھا ……….. پھر بولی “ کیوں ؟ ایسا کیوں کہ رہے ہو؟۔۔۔۔

                "ایسے کام سے کام وہ لوگ تمہیں تو کچھ نہیں کہیں گے ……….میرے ساتھ جو کچھ ہوگا میں بھگت لوں گا…….پر تمھارے ساتھ کچھ برا ہو، یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوگا……”میں نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہا ……….

                وہ میرے اور نزدیک آ گئی .... پھر اپنے دوسرے ہاتھ سے میرے ہاتھ کو پکڑ لیا اور بولی……… "اب جو کچھ ہوگا …….دیکھا جائے گا ………اگر ہم ساتھ ساتھ نہیں جی

                سکتے، ساتھ ساتھ مار تو سکتے ہیں “کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نم سی ہو گئیں ………..

                میں کچھ سیکنڈ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر من ہی من میں ایک فیصلہ کیا…….اگر مرنا ہی ہے تو اور کو بھی مارکر ہی مروں گا……اور اپنی سیٹ کے ساتھ رکھی ریوالور نکال لی… ریوالور کو چیک کرنے کے لیے

                میں نے اس کی میگزین کو نکالا تو میرے دماغ میں ایک دھماکا سا ہوا…….وہ جو کچھ میرے سامنے تھا میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا …… ریوالور بالکل خالی تھا….

                شازیہ اور میں، کبھی ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہے تھے اور کبھی میرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی خالی ریوالور کو……

                میرے آگے گاڑیوں کی لائن دھیرے دھیرے اگے کو بڑھتی جا رہی تھی ……..اس وقت بس کچھ ہی گاڑیاں یہاں سے پاس ہو رہی تھیں….آگے سڑک پر لائن لگ بھگ ختم ہی ہونے والی تھی……..

                میں نے ریوالور کو واپس سی جگہ پر چھپا دیا اور گیئر ڈال کر اپنے ٹرک کو آگے بڑھا دیا…… پھر اپنی جیکٹ کی جیب سے وہ سبز والا لفافہ نکال کر شازیہ کی طرف بڑھا دیا …………شازیہ نے لفافہ میرے ہاتھ سے

                لیا اور اُس کو کھول کر اُس میں رکھے ہوئے کاغذات کو باہر نکالا ………… جیسے ہی اس نے کاغذات کو دیکھنا شروع کیا، ایک ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکل گئی……. میں نے چونک کر اپنی رفتار کم کر دی اور اسبکی طرف دیکھا…….وہ بڑے ہی غور سے پیپرز کو دیکھ رہی تھی ……اس کا ہاتھ اس کے منہ پر تھا اور آنکھوں میں سے خوشی جیسے ٹپک رہی تھی ………..میں نے پھر سے گاڑی کو سائیڈ میں لگاکر روکا …اور پیپرز کو اس کے ہاتھ سے لیا……….

                پیپرز کو دیکھ میرا بھی وہی حال ہوا جو اسکا ہوا تھا ………… اس لفافے میں سے جو کاغذات نکلے تھے وہ اجازت نامہ تھا ………ایک سہیل ملک کے نام کا، میری تصویر لگی ہوئی تھی…..اور دوسرا شازیہ پروین کے نام کا…….شازیہ کی تصویر کے ساتھ....

                ہم دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا……… پھر میں نے پیپرز شازیہ

                کو دے دیئے اور گیئر ڈال کر ٹرک کو تیزی کے ساتھ اگے کی طرف بڑھا دیا……… اب ہمارا کام بہت آسان ہو گیا تھا………

                گاڑی دھیرے دھیرے آگے کو بُڑھتی رہی…..اور پھر لائن کے ساتھ ساتھ ہماری گاڑی چیک پوسٹ تک پہنچ گئی ………….چیک پوسٹ پر 4-5 لاگ تھے ……..پولیس کے اور ایک گاڑی کھڑی تھی جس میں ہندوستانی فوج کے جوان بیٹھے دکھائی دے رہے تھے …….چیک پوسٹ پر ایک آدمی نے گاڑی کے پیچھے چڑھ کر سامان چیک کیا ……جیسا کہ حنا نہ کہا تھا….اس میں سیب کے ڈبے بھرے ہوئے تھے……

                دوسرا آدمی میرے پاس آیا اور کاغذات مانگے ………میں نے پرمٹ والے کاغذات اس کی طرف بڑھا دئیے…………اس نے کاغذات کو دیکھا اور ہم دونوں کی صورت کو دیکھ کر میچ کیا ……….پھر اس نے 2-3 سوال کیے……….ہمارے جانے کی وجہ پوچھی، سب باتوں کا جواب میں نے سوچ سوچ کر دیا……..میں جان بوجھ کر اپنے لہجے کو بدل کر بول رہا تھا…….جس سے اسے لگے کہ میں بھی کشمیری ہی ہوں میری شیو بھی کافی بڑی ہوئی تھی، جس وجہ سے ان کو میری صورت سے کچھ بھی اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا……….

                پھر اس نے واپس مڑ کر گاڑی کو آگے بڑھانے کا اشارہ کیا…..میں نے ٹرک کو دھیرے دھیرے اگے بڑھا کر چیک پوسٹ کو پار کیا اور تیز کے ساتھ ٹرک کو آگے بڑھا دیا……..ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر دھیرے سے دبا دیا……….

                شازیہ نے بھی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور پھر خود سے سر باہر نکل کر،باپر دیکھنے لگی ……..

                جیسے آزاد ہوا میں سانس لے رہی ہو…………..

                میں ڈرائیونگ کر رہا تھا، پر میرے دماغ میں اب یہ سوال دوڑ رہا تھا کہ کاغذات بدل کیسے گئے… جب حنا نے مجھے لفافہ دکھایا تھا تب اس میں یہی کاغذ تھے……….

                اس کا مطلب حنا کا مقصد ہی یہی تھا وہ ہمیں ہی بھیجنا چاہ رہی تھی………….

                یہ سوچتے سوچتے دوسرا چیک پوسٹ آ گیا اور پھر وہی ساری چیکنگ اور پوچھ تاچھ شروع ہو گئی …………..اگلے 15 کلومیٹر میں کل ملاکر 4 چیک پوسٹ ور آئیں اور سب میں وہی ساری روٹین کی چیکنگ ہوتی رہی ……… اور آخر میں ہماری گاڑی ایل او سی سے گزر کر پاکستان میں پہنچ گئی۔۔۔۔

                پاکستان کی سرحد میں آتے ہی میں نے سب سے پہلے … ٹرک کو ایک طرف میں روک

                کر کھڑا کیا اور پھر ٹرک سے اتر کر زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا…….پھر میں نے اپنے مادر وطن کی سر زمین پر سار رکھ کر اسے سلام کیا اور واپس ٹرک میں بیٹھ گیا……… پھر گیئر ڈال کر ٹرک کو آگے بڑھا دیا………….

                میں اب ٹرک کو پاکستان کی سرحد کے اندر دوڑا رہا تھا…… مجھے معلوم تھا کہ میری منزل قریب آ رہی ہے …..جو سب سے نزدیک کا شہر ہے وہ ہی میری منزل ہے…… میرے پاس نوکری کی دستاویزات نہیں تھیں اس سے میں اپنے آپ کو پاکستانی ثابت کر سکتا تھا…….میرا بیگ اور پرس،وہیں پیچھے رہ گئے تھے۔۔۔۔ ,

                اگلے 2 گھنٹے تک لگاتار ڈرائیونگ کرنے کے بعد ہم قریبی شہر پہنچ گئے………میں وہاں سیدھا ایئر فورس اسٹیشن پہنچا اور گیٹ پر کھڑے گارڈ کو اپنا تعارف کروایایا……….پہلے تو اس کو میری بات کا یقین ہی نہیں

                ہوا کہ میں ایئر فورس کا افسر ہوں ……… میرا لباس اور میرا حلیہ میری بات کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ……….. پھر میرے سمجھانے کے بعد اس نے اندر اسٹیشن میں فون کیا اور مجھے اندر بھیج دیا ………… شازیہ میرے ساتھ ہی تھی۔۔۔۔

                اندر جاکر میں اسٹیشن کے کمانڈنگ آفیسر سے ملا اور ان کو پوری بات سمجھائی ………میرے غائب ہونے کی خبر ان کے پاس بھی تھی…….

                انہوں ںے فوراً میرے بیس اسٹیشن سے رابطہ کیا اور میری دستاویزات مانگیں…….5 منٹ میں ہی میرے اسٹیشن سے میری تصویر اور باقی ساری تفصیلات بذریعہ ای میل پہنچ گئیں………..…….میں نے ان کو شازیہ کے بارے میں سمجھایا اور پھر انہوں نے میرا میرے بیس اسٹیشن لوئر ٹوپہ مری پہنچنے کا بندوبست کر دیا………..

                1 گھنٹے بعد ہی ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے لوئر ٹوپہ روانہ کر دیا ……..

                ہمارا ہیلی کاپٹر لوئر ٹوپہ ایئر فورس اسٹیشن میں ہی لینڈ ہوا اور پھر کچھ ہی دیر میں اپنے اسٹیشن کے اندر .... اپنے ساتھیوں کے سامنے تھا …….. مجھے زندہ دیکھ کر وہاں ایک کہرام سا مچ گیا تھا ………….میرے ساتھی اور

                سینئرز تو مجھے دیکھ کر حیران ہی رہ گئے تھے ……..اُن سب نے مان لیا تھا کہ میں جہاز حادثے میں مارا گیا ہوں……….. پھر میں نے سب کو شارٹ کٹ میں ساری بات سمجھ دی شازیہ سے بھی ملوایا…………..تھوڑی ہی دیر بعد میں پی اے ایف کی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھر، شیخوپورہ کی طرف چل دیا…….………..شام ہونے سے پہلے پہلے میں اپنے گھر پہنچ گیا………

                جو کچھ ایئر فورس سٹیشن میں ہوا …….. کچھ کچھ ویسا ہی یہاں بھی ہوا…….مجھے واپس دیکھ کر سب لوگ پاگل سے ہو گئے……. میرے ممی،پاپا اور میری بہن کا تو مارے خوشی کے کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ……..

                وہ سب لوگ ایک امید کے سہارے ہی تھے، کیونکہ میری ڈیڈ باڈی نہیں ملی تھی، اس لیے ان کو امید تھی کہ شاید میں زندہ ہوں… اور مجھے زندہ دیکھ کر ان کو جیسے ساری خوشیاں واپس مل گئی تھیں۔۔۔۔

                میرے گھر والے اور سارے پڑوسی، سارے دوست……. سبھی لوگ مجھے واپس

                زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے……..سبھی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے…. 2-3 گھنٹے تک پورے گھر میں اور آس پاس میں ہلا گلا ہوتا رہا اور جب سب کچھ شانت ہوا … اور جب ہم گھر کے لوگ ہی رہ گئے تو …میں نے ان سب کو شازیہ سے ملوایا…..اور بتایا کہ میں اس سے شادی کرنا

                چاہتا ہوں ……..میری بات سن کر کچھ دیر کے لیے تو میرے گھر والے سن ہو گئے…..ایک کشمیری لڑکی اور وہ بھی بھگا کر لائی ہوئی. اس کو میری دلہن کے روپ میں کیسے منظور قبول کر سکتے تھے …….

                میں ان سب کو منانے میں جت گیا….. پھر اگلے کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا ……. میں ان کو یقین دلاتا رہا کہ شازیہ ایک بہت اچھی لڑکی ہے،میں نے جب دیکھا کہ مما پاپا ڈر رہے ہیں یا کچھ اور سمجھ رہے ہیں۔۔۔۔۔ وہ نہیں مان رہے تو میں نے ایموشنل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔

                میرے پاپا نے بڑی عجیب سی باتیں کیں ان کشمیری لڑکیوں اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں۔۔۔۔۔

                یہاں تک کہ میری ماما نے کہا دیکھو بیٹا وہاں کی لڑکیوں کے ساتھ جو کچھ ہندوستانی فوج کرتی ہے وہ دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔۔۔۔

                ہر کوئی جانتا ہے کہ وہاں کی لڑکیوں کو ان کے گھر میں گھس کر ہندوستانی فوجی زیادتی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔۔۔۔

                تم ایک ایسی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہ رہے ہو جس کے ساتھ پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟۔مما اتنا کہہ کر چپ ہو گئیں مجھے دلی طور ان کی سوچ پر افسوس ہوا۔۔۔

                میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ شازیہ کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا لیکن وہ نہ مانیں، میں ان کو یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس کی چوت کا افتتاح میں نے اپنے لن سے بارش کے موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے کیا تھا۔۔۔۔

                جب کہیں دال گلتی نظر نہ آئی تو میں نے اپنی بہن کو سمجھایا ویسے بھی اس کی شازیہ کے ساتھ کافی بننے لگی تھی، وہ مان گئی اور اس نے میرا ساتھ دینا شروع کر دیا۔۔۔۔

                پھر میری بہن کے ساتھ ساتھ میرے کچھ دوست بھی میرا ساتھ دینے لگے…..اور پھر میری ضد اور باقی لوگوں کے اصرار کے آگے ہار کر میرے پاپا ممی ہماری شادی کے لیے راضی ہو گئے…….

                میں نے مقامی پولیس اسٹیشن اور اپنے پی اے ایف اسٹیشن کو بھی شازیہ کے بارے میں

                مطلع کر دیا …………… پھر ایک ساتھ کے اندر ہی وہاں سے منظوری نامہ بھی آ گیا اور 1 ماہ کے بعد ہم دونوں شادی کر کے ہمیشہ کے لیے ایک ہو گئے……….

                2 ماہ بعد ………

                آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ

                آفف……….آ آااااان…کی آوازیں کمرے میں گونج رہی تھیں …………یہ ساری آوازیں شازیہ کے منہ سے نکل رہی تھیں، جو اس وقت ایک بڑے سے ڈبل بیڈ پر الٹی ہوکر لیٹی ہوئی تھی……..اسکا سر پلنگ کے کنارے پر تھا اور تھوڑا سا نیچے کو بھی لٹکا ہوا سا تھا……

                اس کے بازو پلنگ سے نیچے لٹکے ہوئے تھے ….

                میں اس کے اوپر تھا…… اس کے پیروں کے درمیان میں اپنے گھٹنوں کے بل لیٹا ہوا تھا… اسکا ایک پاؤں بلکل سیدھا تھا اور دوسرا پاؤں مڑا ہوا تھا ……… دونوں ٹانگیں جتنی کھلی ہو سکتی تھیں اتنی کھلی کر رکھ تھیں ……………. میں نیچے کو جھکا اور اس کے گال پر اپنا گال رگڑتے ہوئے اس کے کان کی لو کو منہ میں لے کر چوسنے لگا …….…….ظاہر

                تھا کہ ہم دونوں ہی اس وقت بلکل الف ننگی حالت میں تھے ……… بلکل ننگے تھے …………میرا لن اسکی پھدی میں پورا گھسا ہوا تھا……. اور میں اپنی کمر کو دھیرے دھیرے ہلا کر……..لن کو اندر باہر کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔

                ہماری شادی کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور ہم سہاگ رات کے لیے یہاں مری میں آئے ہوئے تھے...کل شام کو ہی ہم یہاں پہنچے تھے….. پی اے ایف کے آفیسر گیسٹ ہاؤس کے اس کمرے میں پہلے پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد

                ہی ہم دونوں ایک دوسرے کی باہوں میں پڑ گئے تھے ……..اور تب سے اب تک یہ تیسری بار تھا جو میں اس کی چدائی کر رہا تھا…….. ابھی صبح ہوئی تھی اور اٹھتے ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے جسم کو ناپنے میں لگ گئے

                تھے ……………

                "آہہہہہہہہہہہ آہہہہہہہ............آہہہہہہہہ ........... آئییییی........ آفففففففف......... سییییییییی..ہائئئئئئے

                شازیہ نے سر کو تھوڑا سا اٹھا کر میری طرف دیکھا ……….اس کے چہرے پر ایک بناوٹی سا غصہ تھا……… میں اپنا چہرہ تھوڑا سا آگے کو جھُکایا اور اس کے ہونٹ چومنے لگا …….

                میری کمر بدستور ہل رہی تھی …….اور اس کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکیاں بھی نکل رہی تھیں………. میں نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا……….پھر ہم دونوں

                ایک دوسرے کے ہونٹوں کا رس چوسنے میں مصروف ہو گئے۔۔۔۔ ,

                میں نے تھوڑا سا پیچھے کو ہوکر اپنا لن اس کی چوت میں سے باہر نکالا اور پھر اس کو کمر سے پکڑ کر پلٹ دیا…….اب وہ اپن پیٹھ کے بل لیٹی ہوئی تھی …….میں پھر سے اس کی ٹانگوں کے بیچ آیا اور پھر دونوں رانوں کو سہلاتے ہوئے اس کے اوپر آ گیا………….. اپنا منہ کھول کر میں نے اس کے ایک ممے کو منہ میں بھر لیا ………..سیییی … ایک سسکاری کی آواز اس کے منہ سے نکلی اور میں نے اپنا ہاتھ نیچے لے جا کر اپنا لن پکڑ کر پھر سے اسکی چوت کے منہ پر لگا دیا…… میں نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں بند تھیں ……..شاید میرے اگلے ایکشن کا انتظار تھا اسکو ……….پھر میں نے اپنی کمر کو ہلا کر لن واپس اس کی چوت میں گھسا دیا۔۔۔۔

                اس نے اپنے ہاتھ میری پیٹھ پر کس لیے اور اپنی دونوں ٹانگوں کو میری کمر پر لپیٹ کر مجھے جکڑ لیا …………..اس کے ہاتھ بار بار میری پیٹھ سے میری گانڈ تک کا سفر طے کر رہے تھے ……….وہ اب اپنی گانڈ کو اوپر کو اچھال رہی تھی ……….ساتھ ہی میرے دھکوں میں بھی تیز آنے لگی تھی……. ہم دونوں ایک ایسے کھیل میں لگے ہوئے تھے …جس کے آخر میں ہم دونوں کو ہی ہارنا تھا اور جیت بھی دونوں کی ہی ہونی تھی………..

                پورا کمرہ ہم دونوں کی سانسوں کی آواز سے گونج تھا… میں اب اس کے ہونٹوں کو چُوستے ہوئے، ایک ہاتھ کو اُسکی کمر کے نیچے لے گیا تھا اور پھر اس کی گانڈ کے نیچے لگا کر اس کو تھوڑا اوپر اٹھا لیا………….آہ ……………افففففف …………کرتی رہی………..ایسے ہی ……….. ہاں آاانننن………….اوہہہممممم

                ……………..کی آوازیں لگاتار اس کے منہ سے نکل رہی تھیں ………….ہم دونوں ہی اپنی منزل کے نزدیک پہنچنے لگے تھے ………..میں اب لن کو پورا باہر نکال کر واپس اندر دھکیل رہا تھا…….اسکے ہاتھ بھی اب میرے کولہوں پر ہی جم گئے تھے …… وہ میرے چوتڑوں کو ایسے دبا رہی تھی،جسے ہاتھ کی طاقت سے مجھے پورا اندر لے لینا چاہتی ہو…………

                باہر مری کی ٹھڈی فضا میں برف کے گولے گر رہے تھے ……..لیکن کمرے کے اندر ہم دونوں کے جسم پسینے سے نہائے ہوئے تھے………….. پھر آہوں کی آوازیں منہ سے نکالتے ہوئے اسکا جسم اکڑ گیا ………اس نے گانڈ پوری اوپر کو اٹھا کر اپنی پھدی کو میرے ساتھ سے چپکا دیا ………… میں سمجھ گیا کہ وہ ایک اور بار فارغ ہو چکی ہے ………. پھر میں نے بھی 10-12 دھکے تیزی سے لگائے اور پھر اپنے لن کا گرم گرم لاوا اس کی پھدی کے اندر ہی نکال دیا ………..ہم دونوں کے جسم پر سکون ہوتے چلے گئے ……………… میں اس کے اوپر سے اٹھا اور اسکی سائیڈ میں ہو کر اس کے مموں پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گیا…اس نے ایک بار میری طرف دیکھا اور پھر مجھ سے لپٹ گئی

                ……. اپنا سر میرے سینے پر رکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں…….میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پھر ہم دونوں ہی کچھ دیر کے لیے نیند میں ڈوبتے چلے گئے ………..​
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • #58
                  آخر کار ملن ہو ہی گیا

                  Comment


                  • #59
                    بوہت ہی آعلیٰ اپڈیٹ تھی۔ ۔۔۔۔مصنف نے کہانی کے ساتھ بڑا اچھا انصاف کیا ہے ۔۔۔۔ایک ایک لفظ بہترین طریقے سے لکھا گیا ہے ۔اور من موجی جی آپ کی انفرادیت ہمیشہ کی طرح قائم ہے ۔۔۔یعنی بہترین کہانی شئیر کرنے کی ۔۔۔۔

                    Comment


                    • #60
                      Bohat umda, Acha shahkar

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X