Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کلی اور کانٹے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Bohat hi aala janb maza aagya

    Comment


    • #32
      Bohat hi zayda swad aa gay

      Comment


      • #33
        بہت ۔۔۔ بہت خوب جناب مزہ آگیا

        Comment


        • #34
          ہر قدم دیکھ کر اٹھانا چاہیئے ۔۔۔کیونکہ زمانہ بہت ظالم ہے۔۔۔

          Comment


          • #35
            اسد تو بہت بٹا کمینہ نکلا ۔۔۔ نازیہ کی ببلی کا افتتاح کر دیا اسد کمینے نے اپنے ببلو سے ۔۔۔ نازیہ کی گانڈ اور کنواری ببلی کو اسد نے اصل مزہ دیا ھے۔۔۔ نازیہ اب بلال کو چھوڑ کر اسد کے ساتھ بھاگ جائے گی۔۔۔ اور بعد میں افسوس کرتی رہے گی کہ یہ کیا کر دیا۔۔۔ زبردست اور لاجواب ۔۔۔بہترین ۔۔۔

            Comment


            • #36
              اچھی اسٹوری ہے ہر بار الگ ہی مزہ آتا ہے اسکو پھڑھ کے

              Comment


              • #37
                قسط نمبر 5
                تحریر زاہد ملک

                سچ پوچھیں تو مجھے بلال سے کبھی پیار نہیں تھا سکول میں اس نے لاکھ جتن کئے تھے لیکن اس کی کوئی چال مجھے اپنی لپیٹ میں نہیں لے سکی تھی شکیلہ کی بھیجی موویز نے مجھے بہت دنوں تک پاگل کئے رکھا اور میں خود ہی بلال کی جھولی میں آ گری تھی میں چند ہی دنوں میں اس کی عادی ہو گئی تھی اور اس پاگل پن میں میں اپنا سب کچھ چھوڑ آئی تھی اسد نے پہلے روز اگرچہ مجھے زخمی کر دیا تھا اور انہی ایک دو روز میں مجھے اپنے گھر کی یاد ستانے لگی تھی لیکن بہت جلدی میرا جسم اسد کا طلبگار ہوگیا تھا اور اب مجھے بلال اچھا نہیں لگتا تھا ایک مہینے میں اسد سے میں 20 بار سیکس کر چکی تھی اور بلا ل کو صرف چار بار ہی لفٹ دی تھی میرا دن بہت اچھا گزرتا تھا اور رات بلال کے ساتھ بہت بور ہوتی وہ سیکس کرتا تھا تو میں خود کو خالی خالی محسوس کرتی تھی میں انہی دنوں سوچ رہی تھی کہ مجھے اسد سے شادی کر لینی چاہیے اور بلال کو بس یہاں سے بھگا دینا چاہیے آج ہمیں یہاں آئے ہوئے 28 دن ہو چکے تھے اسد بلال کو کام پر چھوڑنے کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک بہت موٹا آدمی بھی ساتھ تھا وہ دونوں ہنستے باتیں کرتے میرے ساتھ بیٹھ گئے تھے اسد نے بتایا کہ یہ بلال کے استاد ہیں جو ان کو فرنیچر کا کام سکھاتے اسد نے گرم دودھ لانے کا بولا میں موٹرسائیکل سے دودھ کا شاپر اتار کر اندر چلی گئی میں سوچ رہی تھی کہ اسد اس بندے کو کیوں لایا ہے میں دودھ کا۔گلاس کے کر ان کی طرف آ رہی تھی جب وہ بندہ اسد سے کہہ رہا تھا یار بہت چھوٹی ہے اسد بولا نہیں ہے چھوٹی کھل کے کھیلنا میں ان کی یہ مدھم گفتگو سن کر سب سمجھ چکی تھی اسد نے گلاس اس بندے کی طرف بڑھا کر نیلی ٹیبلیٹ دی اور اٹھ گیا مجھے بولا میں تھوڑا کام سے جا رہا ہوں شفیق کا خیال کرنا مہمان ہیں یہ آج آپ کے۔۔۔۔۔ وہ چلا گیا اور باہر سے ہی لاک لگا گیا ۔۔۔ شفیق نے مجھے ساتھ بیٹھنے کا بولا میں ذرا سی ہچکچاہٹ کے بعد اس کے پاس بیٹھ گئی وہ باتیں کرنے لگا بولا بلا تو کسی کام کا لڑکا نہیں ہے بہرحال ہم آپ کو ہر طرح سے خوش رکھیں گے کچھ دیر بعد ہم اندر آ گئے اس نے مجھے گود میں لے لیا اور کسنگ کے ساتھ میرے بوبز کو اپنے بڑے ہاتھوں میں بھرنے لگا میں صرف اسی سسپنس میں تھی کہ اس لا ببلو کیسا ہو گا میں گرم ہو چکی تھی اس نے میرے کپڑے اتار دئیے اور باہوں میں اٹھا کر بوبز چوسنے لگا وہ بار بار میری ببلی کے ہونٹ کھول کر اسے دیکھ رہا تھا شفیق نے مجھے چارپائی پر لٹایا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا اس کے بال قدرے سفید ہو چکے تھے اور 45 سال کے لگ بھگ معلوم ہوتا تھا قمیض کے بعد اس نے اپنی شلوار اتاری اس کا ببلو لمبائی میں اسد سے چھوٹا تھا لیکن موٹا زیادہ تھا یہ تقریباً سات انچ کا تھا اور اسد کی طرح سخت نہیں لگ رہا تھا وہ فوراً میری ٹانگوں کے بیچ آ گیا شفیق نے میری ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھنا چاہا لیکن میرے پاؤں اس کے سینے تک پہنچ پائے شفیق نے اپنے ببلو کی ٹوپی پر تھوک لگایا اور ببلی کی ہونٹوں پر جما کر میرے بوبز دبانے لگا اس نے آہستہ سے آگے بڑھا دیا ببلو کی ٹوپی ببلی کے۔اندر جاتے وقت مجھے تھوڑا درد ہوا پھر مجھے مزے کے ساتھ اپنی ببلی بھرتی ہوئی محسوس ہوئی وہ میرے چہرے کو دیکھتے ہوئے ببلو اندر اتار رہا تھا وہ کا جسم بہت موٹا تھا اور میں ہاتھی کے نیچے چوہی کی مثال تھی پورا ببلو میرے اندر ڈالنے کے بعد وہ مجھے اپنے بڑے پیٹ کے نیچے دباتا ہوا میرے اوپر لیٹتے ھوئے بولا میں تو تمھیں چھوٹی سمجھ رہا تھا ۔ کمال کی چیز ہو وہ آہستہ سے اپنے ببلو کو ہلانے لگا اس کا بھاری جسم مجھے چارپائی میں دبا رہا تھا اسد کے ہڈیوں بھرے جسم کے بعد آج کچھ نیا مزہ مل رہا تھا وہ آہستہ سے ببلو چلا رہا تھا اور میں اسد کے زوردار جھٹکوں کی عادی ہو چکی تھی مجھے مزہ مل رہا تھا لیکن میں تیزی چاہتی تھی ۔۔ میں نے شفیق سے بولا تیز کرو وہ مسکرا کے بولا تم تو پوری رنڈی ہو۔۔۔۔میرے پاؤں میرے سر کی طرف جھک گئے تھے شفیق کے زور کے جھٹکوں سے میری کمر میں درد ہو رہا تھا وہ تقریباً پورا ببلو اندر باہر کر رہا تھا میں مزے میں آگے بڑھتی پانی چھوڑ چکی تھی لیکن اسے روکنا نہیں چاہتی تھی ببلو بہت آسانی سے ایک ہی سپیڈ سے چل رہا تھا کچھ دیر بعد شفیق ہانپتا ہوا رک گیا اور میری ببلی کو پانی سے بھر دیا اور میں بھی دوسری بار اپنی پانی چھوڑ گئی ببلی میں میں نے پہلی بار پانی لیا تھا وہ ابھی تک میری رانوں کو پکڑے ببلو اندر ڈالے بیٹھا تھا کہ ہاہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور اسد اندر آ گیا مسکراتے ہوئے شفیق سے پوچھا کیسی لگی نازی۔۔۔؟؟ شفیق نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا کر وششششششش کیا پھر بولا بہت کمال کی چیز ہے۔۔۔۔ بس اس لونڈے کو بھگاتے ہیں ۔۔۔۔ اسد نے میری گال پر تھپکی دی اور بولا استاد نے مزہ دیا ؟؟۔ میں مسکرا دی شفیق نے مرجھایا ہوا ببلو باہر۔نکالا تو اسد نے پوچھا مڈی آگے ڈال دی ؟؟ شفیق نے محض ھمممممم کر دیا اسد نے مجھے بولا کہ دودھ لے آؤ میرے لئے اس نے گولی کھائی اور ایک بڑی چادر نیچے کچے فرش پر بچھا کر اس پر۔ایک گڈیلا بچھا دیا ان دونوں نے مجھے اپنے درمیان میں لٹا دیا اور باتیں کرتے ہوئے میرے جسم سے کھیلنے لگے اسد بولا جب پہلے دن آئی تو اس کے بوبز اتنے چھوٹے چھوٹے تھے ۔۔۔ اب دیکھو مست ہو گئے ہیں میں پچھلے چند دن سے محسوس کر رہی تھی کہ میرے ہپس اور بوبز بھاری ہو گئے ہیں اسد کا ببلو ایک بار پھر کھڑا ہو گ۔۔وہ اسد سے بولا تم کر۔لو پھر میں دوبارہ کرتا ہوں اسد اپنے کپڑے اتارتے ہوئے بولا خیر ہے اکٹھے کرتے ہیں ۔۔ شفیق نے اسد سے کہا نہیں درد ہو گا اسے اسد بولا کچھ نہیں ہوتا درد سے مزہ بھی ڈبل آئے گا اس کو مجھے پتا نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے لگے ہیں اسد نے شفیق کو لیٹنے کا بولا اور مجھے اشارہ کیا اوپر بیٹھنے میں شفیق کا ببلو پکڑ کر اس پر بیٹھنے لگی شفیق مسکرا کر بولا یار استاد ہو تم ۔۔ میں مان گیا مجھے شفیق کا بھرا ببلو اچھا لگا تھا یہ بغیر درد کے سکون بھرا مزہ دیتا تھا میں نے آرام سے سارا ببلو اپنے اندر بھر لیا اسد نے میری پیٹھ پر ہاتھ لا دباؤ ڈال کر مجھے شفیق کے اوپر لٹا دیا اور میرے ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے ببلو میرے پیچھے اتارنے لگے میرے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا مجھے درد نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسے میرا پیٹ پھٹنے لگا ہو ۔۔ اسد بغیر رکے جھٹکے مارنےگا میں درد بھری آوازوں پر دونوں مسکرا رہا تھا مجھے اس جیسا مزہ بھی پہلے نہیں ملا تھا میں نے دو منٹ میں ہی اپنا پانی چھوڑ دیا جب اسد آگے بڑھتا تو اسی لمحے شفیق بھی اپنے ہپس اٹھا کر مجھے ہلکا جھٹکا دیتا میں نے کچھ دیر بوریت محسوس کی اور پھر مزے کی طرف آنے لگی کچھ دیر بعد اسد اپنے لاوا میرے اندر گرا کر الگ ہو گیا اور چارپائی پر جا بیٹھا اور شفیق نے مجھے نیچے لٹایا اور میری ٹانگوں کو پاؤں کے قریب سے پکڑ کر زوردار جھٹکے لگائے لگا میں ایک بار پھر سے ڈسچارج ہونے لگی تھی اور عین میری وائی وائی کی آواز میں ہی شفیق نے وشششششش کی بھاری آواز کے ساتھ ندی کے بہتے پانی میں اپنا پانی شامل کر دیا ۔۔۔ وہ دونوں پانچ بجے چلے گئے تھے اب میرا کوئی دن خالی نہیں جاتا تھا اسد اور شفیق مجھے کھلونے کی طرح جب چاہتے آ جاتے شاید انہوں نے اپنی باریاں مقرر کر لےں تھی تو کبھی وہ دونوں ایک ساتھ آ جاتے مجھے کسی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا میں صرف پیاسی مچھلی بن چکی تھی اور سکیس کے بغیر میں خود کو ادھوری تصور کرتی تھی ابھی میں خود بول دیتی کہ کل اکٹھے آ جانا بلال اب بھی کبھی کرتا تو میں الٹی لیٹ جاتی اسے اس سے زیادہ کی طلب نہیں ہوتی تھی اور میں بھی اسے اس تک محدود کر کے ٹال دیتی کبھی کبھی مجھے اس کا حال دیکھ کر ترس آنے لگتا تھا لیکن وہ میری پیاس بجھانے کے لئے کافی نہیں تھا اور میں اب رک نہیں سکتی تھی میرا مہینے میں ایک ہفتہ ہی ریسٹ ہوتا تھا جب مجھے مینسز ہوتے ایک بار میرے دن اوپر ہو گئے شفیق نے پوچھا اور اگلے دن یہ دونوں ایک ساتھ آئے تھے مجھے کوئی ٹیبلیٹس کھلا دیں اور پھر دونوں باریاں لگانے لگے وہ صرف آگے زوردار طریقے سے کرتے رہے ایک ڈسچارج ہو جاتا تو دوسرا میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیتا تھا آج میں بہت بے حال ہو گئی تھی چار بجے تک ان دونوں نے تین تین باریاں لگا لیں تھی میرا نچلا دھڑ شل ہو چکا تھا اور دل متلانے لگا تھا یہ پہلا روز تھا جب مجھے اس کام سے اپنے من میں نفرت محسوس ہونے لگی تھی شام کے پہلے یہ دونوں چلے گئے تھے اور میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی اور بلال کے آنے سے پہلے مجھے نیچے سے خون جاری ہو گیا ۔۔۔ اس رات میں بار بار بلال کو دیکھ کر رو دیتی تھی اسے کچھ بتا نہیں سکتی تھی ۔۔۔ بلال مجھے پیار کرنے لگتا اور پوچھتا نازیہ ہم بری طرح پھنس چکے ہیں پانچ ماہ گزر گئے اسد ہمارا مکان بھی نہیں ڈھونڈ رہا اور نہ دوبارہ اس نے زیور یا پیسوں کی بات کی ہے میں بھی بہت نفرت کرنے لگی تھی آج ان دونوں سے میں نے کہا بلال کل اس سے بات کرتے ہیں کہ ہمارے پیسے اور زیور دے دو ۔۔۔ بلال بولا پھر کہاں جائیں گے ؟؟ میں نے کہا بس یہاں سے نکل جاؤ پھر دیکھتے ہیں ۔۔۔ ہم سو گئے تھے ۔۔۔۔ ان دنوں سردی کی شدت بڑھ گئی تھی صبح ہم جلدی اٹھ گئے تھے بلال بولا بس میں آج کام پر نہیں جاتا اور اسد سے اپنا سب کچھ لے کر نکل جاتے ہیں ۔۔۔ مجھے بھی بہت افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے ان سب حالات سے بلال کو بے خبر رکھا تھا گزرے دن کے ان دونوں کے ظلم کے بعد مجھے ان دونوں سے گھن آنے لگی تھی ۔۔۔ میں نے بلال سے کہا کہ کچھ دن کام پر جاتے رہو کچھ سوچ کے کرتے جیسے تم بولو گے میں ویسا کرونگی مجھے خطرہ تھا کہ مجھے نہیں تو کم سے کم وہ دونوں بلال کو مار دیں گے اسد کے آنے پر بلال نے صرف اس سے اتنا پوچھا تھا کہ اسد ہمارے مکان کا کیا ہوا ۔۔۔ وہ چند لمحے خاموشی سے ہمیں گھورتا رہا اور پھر بولا مکان کی بات ہو چکی ہے بس ایک ہفتے تک ہو جائے گا ۔۔۔ ہم خاموش رہے ۔۔۔۔ اسد نے آج میرے ساتھ لیٹے ہوئے پوچھا کہ مینسز رکے میں نے نفی میں سر ہلا دیا بولا کل تیار رہنا ہم دونوں آ جائیں گے میں خاموش رہی ۔۔۔ ذہن میں میں سوچ چکی تھی کہ زیور اور پیسے لے کر میں امی کے پاس چلی جاؤں گی اور اس سے معافی مانگ لونگی ۔۔۔ امی کم سے کم مجھے جان سے نہیں مارے گی اور کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ رات کو جب اسد چلا گیا تو میں نے اس خوف پر کہ کل یہ دونوں مجھے ایک ساتھ پھر بےحال کریں گے بس میں نے بلال سے کہہ دیا کہ بلال کل اس سے اپنا سب کچھ مانگتے ہیں اور نکلتے ہیں اس ہفتے کا جھوٹ بھی اس کا پورا ہو گیا اور آپ کل سے کام چھوڑ دیں بس جہاں سے نکل جائیں گے ۔۔۔۔ہم باتیں کرتے سو گئے تھے اور صبح ایک نئی امید کے ساتھ آنکھ کھل گئی آج میں اس جنگل میں مٹی کی ان کچی دیوار سے رہائی کے خواب دیکھ رہی تھی ۔۔۔ خود کو ایک بار پھر روشنیوں کے شہر کراچی میں محسوس کرنے لگی تھی میں نے آج بلال کے ہاتھ پکڑ کر دیکھے تھے یہ بہت سخت ہو گئے تھے کبھی اس کے ہاتھ گورے اور نازک ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔ اسد نو بجے آ گیا اور آتے ہی بولا بلال جلدی کرو میں آپ کو پہنچا دوں پھر میرا آج کوئی ضروری کام ہے۔۔۔۔۔ میں سر جھکائے بیٹھی تھی بلال ایک لمحے کی خاموشی کے بعد بولا اسد مکان کا تو کچھ نہیں ہوا ؟؟؟ اسد ہمیں گھورتے ہوئے بلال کہ ساتھ بیٹھ گیا بولا کیا جلدی ہے مکان کی آپ کو ؟؟؟ مل جائے گا ۔۔ بلال بولا اسد میں کام نہیں کرنا چاہتا اور ہم یہاں سے جانا چاہتے ہیں ہمیں زیور اور پیسے دے دو ہم آج واپس کراچی جانا چاہتے ۔۔۔ اسد کا چہرہ ایک دم سپاٹ ہو گیا ۔۔۔ بولا کراچی جا کر مرنے سے بہتر ہے یہیں رہو۔۔۔ وہ مجھے گھورتے ہوئے بولا ۔۔۔ نازی اسے سمجھاؤ۔ یہ پاگل ہو گیا اپنے ساتھ تمھیں بھی مروانا چاہتا ۔۔۔۔ میں نے پہلی بار اپنا سر اٹھایا اور بولی بلال ٹھیک کہہ رہا ہم گھر جا کر مرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ اسد کچھ دیر حیرانی سے مجھے دیکھتا رہا پھر اپنی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے قہقہے لگانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ بولا آپ پھر بھی سوچ لو کہ کیا کہہ رہے ۔۔۔ بلال نے کہا ہم بہت دنوں سے سوچ رہے ہیں اور یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔ اسد نے کال ملا لی اور بولا پار بس ادھر آ جاؤ ۔۔ بلال کام نہیں کرنا چاہتا اور واپس کراچی جانا چاہتے ہیں ۔۔۔ اسد نے شفیق کی بات سن کر تھوڑا مسکرایا اور کال بند کر دی ۔۔۔۔ وہ پھر بھی سمجھاتا رہا کہ بس ایک مہینہ رک جاؤ آپ کا مکان اور شادی بھی کر دیں گے ۔۔۔ لیکن ہم نے صاف انکار کر دیا شفیق کے آنے کے بعد بھی وہ ہمیں سمجھاتے رہے لیکن بلال کے مسلسل انکار پر اسد بولا اچھا پھر آپ چلے جاؤ نازی ہمارے پاس رہے گی ۔۔۔۔ بلال کے سر پر جیسے کسی نے ہتھوڑا مارا ہو وہ ایک دم اٹھا اور بولا شرم آنی چاہیے آپ کو ۔۔۔۔ اسد مسکرا کر بولا شرم کیسی یہ ہماری رنڈی ہے ۔۔ بلال نے نم آنکھوں کے ساتھ میری طرف دیکھا ۔۔ میں نے روتے ہوئے کہا بلال یہ دونوں مجھ پر ظلم کرتے رہے ہیں ۔۔۔ بلال بولا آپ نے مجھے نہیں بتایا ۔۔۔شفیق نے زور کا تھپڑ بلال کو رسید کیا اور بولا بڑا مرد بن رہا ہے آپ کو بتاتی تو بھی آپ کیا کر لیتے اسد اور شفیق نے بلال کو پکڑ کر اس کے کپڑے اتار دئیے اور اس کو چارپائی پر باندھ دیا ۔ اسد بولا اب دیکھ تیری لیلیٰ کے ساتھ ہم ایک ساتھ کیسے کرتے رہے ہیں شفیق اور اسد نے میرے کپڑے اتار دئیے میں زور سے روتی آوازیں دینے لگی اسد بولا نہ تیری آوازیں کوئی سنے گا نہ یہاں آئے گا اسد چارپائی پر لیٹتے ہوئے مجھے اپنے اوپر کھینچ گیا اسد اپنے کپڑے اتار چکا تھا اور اس کا ببلو بھی کھڑا ہو چکا تھا شفیق نے مجھے ہپس سے پکڑ کر اٹھایا اور اسد کے ببلو پر مجھے ٹھونک دیا ۔۔۔(جاری ہے )

                Comment


                • #38
                  لاجواب ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست ۔۔۔بہترین ۔۔۔

                  Comment


                  • #39
                    Kahani boht behtareen b ha or sabakamoz b nazia ki galti na us ko galat jaga pasa dya a deakhte han agye us ka sath kya hota ha

                    Comment


                    • #40
                      بہت ۔۔۔بہت شہوت انگیز اور سبق آموز تحریر ہے ۔۔۔ نازیہ جیسی لڑکیاں جوانی کے جوش میں ھوش کھو دیتی ہیں ۔۔۔ گھر سے بھاگ کر ایسے جانوروں جیسے انسانوں کے ہاتھ لگ کر اپنی زندگی برباد کر لیتی ہیں ۔۔۔ آگے بھی نازیہ کے ساتھ کچھ اچھا ھوتا نظر نہیں آ رھا۔۔۔ ایک بار پھر ماسٹر مائنڈ صاحب سبق آموز تحریر کیلئے شکریہ ۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X