Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کلی اور کانٹے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    کیا پرلطف سٹوری ہے

    Comment


    • #42
      زبردست اور لاجواب ۔۔۔بہترین

      Comment


      • #43

        قسط نمبر 6

        تحریر زاہد ملک

        بلال نے روہانسی آواز میں چیختے ہوئے کہا اسد تم کیسے دوست ہو ؟؟ میں نے تم پر اعتماد کیا ۔۔۔ اسد بولا چھوڑو گانڈو تیری میری دوستی بھی ایسی تھی تم میرے پاس بھی مروانے آتے تھے ۔۔۔ بلال رونے لگا تھا ۔۔ میرے سر میں دھماکہ ہوا کیا بلال اتنا گندا لڑکا ہے ؟؟؟ لوہے جیسے سخت راڈ نے مجھے مزہ دینا شروع کر دیا وہ پورا میرے اندر بھرا ہوا تھا میں بلال کے سامنے اس حال میں بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھی اس کے دل پر کیا بیت رہی اس کے رونے سے اندازہ ہو رہا تھا وہ ایک بڑی سفید چادر سے بندھا ہوا تھا جو شفیق تقریباً ہر وقت اپنے کندھے پر لٹکائے ہوتا تھا اگر بلال بندھا ہوا بھی نہ ہوتا تو بھی ان کے آگے کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ ان کے سامنے ایک بچہ تھا شفیق نے میرے پیچھے اپنا ببلو ڈالتے ھوئے بلال سے کہا دیکھو ایسی کرتی ہے یہ روز ہمارے ساتھ ۔۔۔ ئم اس کو کیسے جانیں دیں گے ڈبل کی اس پوزیشن میں میں بہت جلدی پانی چھوڑ دیتی تھی آج بھی پورے پورے مزے کے ساتھ میں جلدی پانی چھوڑ گئی تھی دو ہاتھیوں کے بیچ دبی میں نے سانس لینے کے لئے اپنے چہرے کو دائیں طرف سے باہر نکالا ۔۔ بلال نیم کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر مایوسی چھائی تھی اور اس کا ببلو کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔۔ وہ دونوں ہانپتے ہوئے مجھے مسل رہے تھے میں وائی وائی کے ساتھ پھر سے رونے لگی تھی ۔۔ اسد نے شفیق کو اشارہ کیا اور شفیق نے اپنا ببلو نکال کر سائیڈ پر ہو گیا اسد نے مجھے چارپائی پر لٹایا اور میری ٹانگیں اٹھا کر اپنا ببلو میری ببلی میں ڈالا اور مجھ پر لیٹ کر زور کے جھٹکے مارنے لگا۔۔ اور کچھ دیر میں ہی رک گیا اور اپنا لاوا میرے اندر چھوڑ دیا ۔۔۔ چند سیکنڈ بعد وہ اٹھتے ہوئے شفیق سے بولا آگے ڈالو۔۔۔ وہ دونوں جنگلیوں کی طرح مجھے کھینچ کھیچ کے دشمنی نکالتے ہوئے اپنی حوس پوری کر رہے تھے شفیق نے اپنے ببلو کو ایک جھٹکے میں میری ببلی میں اتارا اور اپنے بڑے پیٹ کے نیچے مجھے دباتا ہوا میرے اوپر لیٹ گیا وہ گھوٹ گھوٹ کر جھٹکے مارتا اپنا پانی میرے اندر بھر گیا میرے کانوں میں بلال کی ہلکی وائی کی آواز آئی میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کا پانچ انچ کا ببلو اس کے پیٹ کی طرف پانی گرا رہا تھا ۔۔۔ اسد اور شفیق نے ایک دوسرے کے ہاتھ سے تالی بجائی اور قہقہے لگانے لگے ۔۔۔۔ وہ بہت بے شرمی سے بلال پر طنز کر رہے تھے اس کا کپڑا کھول کر اسے آزاد کر دیا تھا یہ دونوں چارپائی کے بازو پر بیٹھ گئے اور مجھے دونوں نے اپنی ٹانگوں پر لٹا لیا تھا جیسے کسی بچے کو گود میں بھرا جاتا ہے اس کچے چھوٹے کمرے میں ہم سب ننگے تھے بلال ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر اور رو رو کر ان کی منتیں کر رہا تھا شفیق نے بھی وہی بات کی کہ آپ جا سکتے ہو ہم آپ کو جانے دیتے لیکن نازی کو نہیں جانے دیں گے یہ ہمارے پاس رہے گی ۔۔۔ اسد بولا نہیں بلال بھی یہیں رہے گا ۔۔ یہ جا۔کر کوئی مسئلہ بنا دے گا ہمارے لئے ۔۔۔ بس کام نہیں کرو ادھر گھر میں رہو۔۔۔ اپنی لیلیٰ کو پورا مزہ لیتے دیکھو۔۔۔ دن ایک بجے وہ دوبارہ سے شروع ہو گئے اس وقت بلال کو نہیں باندھا تھا بلال بے بس ہو کر بیٹھا تھا یہ دونوں میرے جسم کو نوچ رہے تھے ۔۔۔ دوسری باری میں بھی بلال کا پانی نکلتے دیکھا میں نے تو مجھے اس کے حال لر بہت رحم آیا ۔۔۔ اسد اور شفیق نے ایک روٹین بنا لی ۔۔ رات کو ایک شفیق ہمارے ساتھ ہوتا اور صبح اسد کے آنے پر وہ چلا جاتا بلال اور میں آپس میں کوئی بات نہیں کر سکتے تھے دس دنوں میں بلال کا پانی جب بھی نکلا صرف مجھے ان کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے نکلتا تھا اذیت بھرے ان دس دنوں میں ہم ہر طرح سے جائزہ لے رہے تھے اور ہمیں یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا میں جب بھی بلال سے نظر ملانے کی کوشش کرتی ہم دونوں کی نظریں جھک جاتی اسد نے صاف کہہ دیا تھا کہ پیسے زیور ختم ہو گئے ہیں اور اسی روز سے بس ہم یہاں سے بھاگنے کا رستہ ڈھونڈ رہے تھے رات کو جب میری آنکھ کھلتی یا تو بلال نیند میں ہوتا یا پھر شفیق جاگ جاتا اس رات اسد دس بجے چلا گیا تھا شفیق نے مجھے اپنے ساتھ سلا لیا آج سردی بہت زیادہ تھی باتھ روم گئی تھی تو دھند اتنی زیادہ تھی کہ وہاں سے کمرہ نظر نہیں آ رہا تھا بارہ بجے شفیق میری ببلی میں پانی چھوڑ کر لیٹ گیا اور پھر اس کے خراٹے بلند ہونے لگے بلال جاگ رہا تھا اس نے مجھے اشارہ کیا کہ بھاگتے ہیں میں نے اسے ابھی سونے کا اشارہ کیا اور آرام سے شفیق کے پاس سے اٹھ گئی میں نے اپنے کپڑے پہنے ہمارے پاس سردی سے بچاؤ کے کوئی گرم کپڑے یا کوٹ نہیں تھے بس گزارا کر لیتے دن کو بھی سردی سے بچاؤ کا واحد سہارا رضائی ہی ہوتا تھا شفیق آج مجھے کچھ گہرے نشے میں لگ رہا تھا اس کے خراٹے تواتر سے چل رہے تھے میں نے اپنا دوپٹہ لپیٹا اور آہستہ قدموں سے چلتی دروازے کے پاس جا کر کنڈی کھولی میں شفیق اور بلال کو دیکھتی باہر آنے لگی اور بلال بھی اپنی چارپائی سے آہستہ سے اٹھنے لگا تھا کمرے سے باہر آ کر میں دروازے سے تھوڑا آگے بلال کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔ وہ پانچ منٹ بعد شفیق کا موبائل اٹھائے آہستہ سے باھر آیا اور اس نے دروازے کی باہر سے کنڈی لگا دی ۔۔۔ وہ جلدی سے میرا بازو پکڑ کر مین دروازے کی طرف بڑھا دروازہ کھول کر ہم باہر آ گئے میں جہاں پر آنے کے کئی ماہ بعد اس حویلی سے باہر آئی تھی ۔۔ بلال نے ادھر ادھر سر گھما کر دیکھا اس نے شفیق کے موبائل کو آف کیا اور اپنی جیب میں ڈال کر دائیں طرف مجھے پکڑ کر چلنے لگا ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا بس ہم گھاس میں چل رہے تھے اور ہماری شلواریں گھٹنوں تک پانی پانی ہو چکیں تھی سردی ہمیں بے حال کر رہی تھی لیکن ہم دونوں ہانپتے ہوئے چل رہے تھے ہر طرف خاموشی تھی ہم اگر ایک فٹ دور ہوتے تو ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے ہم کس طرف جا رہے تھے ہمیں علم نہیں تھا بلال دکان کی طرف آتا جاتا رہتا تھا لیکن ہم اس وقت اس سے مخالف سمیت میں چل رہے تھے میرے پاؤں سردی سے پتھر بن گئے تھے ہم میں کوئی بات چیت نہیں ہو رہی تھی ہم اپنی سانسوں کی آواز سن رہے تھے اور گھاس پر گھسیٹتے پاؤں سے کچھ آواز پیدا ہو رہی تھی اچانک ہمارے سامنے اونچی اونچی لکڑیوں جیسے کچھ آ گیا بلال نے پہلی بار سرگوشی کی ۔۔ گنے کی فصل ہے ۔۔ اس کے اندر سیدھا جانا ممکن نہیں تھا کچھ لمحے بعد بلال میرے بازو کو پکڑ کر لفٹ سائیڈ پر چلنے لگا میری ٹانگیں جواب دے چکی تھیں اور میں اس گھٹن وقت میں اپنے حوصلے بلند رکھنے کی کوشش کر رہی تھی ہم ایک چھوٹی پگڈنڈی پر چل رہے تھے کبھی کبھی خشک کچی مٹی پر پاؤں سلپ ہو جاتا تھا اور بلال مجھے سنبھال لیتا اور کبھی بلال لڑکھڑا جاتا تو میں اسے پکڑنے کی کوشش کرتی میں درد بھری مدھم آواز کہ ساتھ جھکنے لگی تھی بلال نے مجھے اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے سنبھالا اور پوچھا کیا ہوا ۔۔۔ میرا بائیں پاؤں میں شدید درد تھا میں بیٹھنے لگی تھی بلال نے شاید جیب سے شفیق والا موبائل نکالا اور اس کی بیٹری نکال کے شاید سم نکال پھینکی تھی اور اس کے بعد موبائل کو آن کر دیا بلال نے اس کی ٹارچ روشن کی اور میرے پاؤں پر جھک گیا چپل کے اندر سے کانٹے نے میرے پاؤں کو بری طرح کاٹ دیا تھا پاؤں گھاس میں چلتے ہو گیلے اور سردی سے پتھر بنے ہوئے تھے اور اب کانٹے کے درد نے مجھے بےحال کر دیا تھا بلال نے کانٹا نکال پھینکا تھا اور سیدھا ہوتے ہوئے موبائل ٹارچ کو بند کر دیا تھا میری ہمت جواب دے چکی تھی ہم بہت دیر سے چل رہے تھے اور مذید کتنا چلنا تھا ہمیں معلوم نہیں تھا سردی نے میرے جسم کو کاڑ ڈالا تھا اور بلال کی حالت بھی کچھ اس طرح تھی ۔۔ میں نے بلال کو کچھ دیر رکنے کا کہا تو بولا رکنا ٹھیک نہیں ہو گا نازیہ ہمت کرو تھی ۔۔ شفیق کے موبائل پر ٹائم صحیح نہیں آ رہا تھا شاید اس کے بیٹری نکالنے کے بعد ٹائم کی سیٹنگ خراب ہو گئی تھی بلال کا اپنا موبائل ہمارے یہاں آنے کے تین دن بعد ہی اس فرنیچر دکان سے چوری ہو گیا تھا اور ان دنوں مجھے یقین ہو چلا تھا کہ وہ بھی اسد نے چرا لیا تھا تاکہ ہمارا کسی سے کوئی رابطہ نہ رہے میں اپنے پاؤں گھسیٹ کر لنگڑاتی بلال کے ساتھ چلنے لگی تھی چند قدم چلنے کے بعد ہمیں اپنے دائیں طرف سے ایک ہارن سنائی دیا آواز سے انداز ہو گیا کہ مین روڈ ہم سے ہماری دائیں طرف اب بھی کافی فاصلے پر ہے بھاری ہارن کی مدھم سی آواز ہم تک پہنچی تھی بہرحال ہم میں ایک امید کی کرن پیدا ہو گئی تھی دائیں طرف اب بھی گنے کی فصل تھی سو ہم سیدھے آگے چل رہے تھے پانی کے نالے میں بلال داخل ہو چکا تھا اور مجھے ہاتھ سے ادھر ہی روک دیا اس نے آہستہ سے دو مذید قدم اٹھائے اور پھر ایک قدم پیچھے آ کر اس نے دوبارہ سے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے آگے کھینچا پانی میرے گھٹنوں تک آ گیا اور ہم پانچ سات قدم اٹھانے کے بعد نالے سے باہر آ گیا یہ راستہ کچہ لیکن ہموار تھا اور دائیں طرف ہی جانے لگا تھا بلال نے مجھے تیز چلنے کا بولا ہم بری طرح سے ہانپتے آگے بڑھ رہے تھے تقریباً بیس منٹ بعد ہمیں ہارن کے ساتھ ایک بڑی گاڑی کی ہلکی آواز سنائی دی اور دھند میں بہت آگے یہ سائید کچھ روشن نظر آئی بلال نے سرگوشی کی کہ ہم روڈ کے قریب ہو رہے شاید یہ کچہ رستہ اسی روڈ کی طرف ہی جا رہا تھا پیچھے سے کچھ روشنی اور موٹرسائیکل کی آواز آنے لگی بلال مجھے کھینچتا ہوا پھر سے دائیں جانب بڑھ گیا شاید ہم دوبارہ اسی نالے کو عبور کر کے گنے کی فصل میں بیٹھ گئے تھے موٹرسائیکل آہستہ سے گزرتا ہوا آگے چلا گیا تھا ماسوائے اس کی لائٹ کے ہم اور کچھ نہیں دیکھ سکے ایک منٹ بعد ہی ہم اٹھ گئے اور نالے کے کنارے پر ہی چلنے لگے ۔۔۔اب ہماری رفتار اس غیر ہموار نالے کے کنارے پر تھی بہت آہستہ ہو گئی تھی کیا یہ اسد کا موٹرسائیکل تھا ؟؟ میں نے بلال سے سرگوشی کی ۔۔۔ تیز لمبی سانسوں کہ بیچ بولا لگتا ایسا ہی ہے ۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا شفیق روم سے باہر آ گیا تھا ؟؟ مگر کیسے ہمیں وہاں سے نکلے شاید دو گھنٹے سے زیادہ وقت ہو چکا تھا ۔۔۔کچھ ہی دیر بعد موٹرسائیکل واپس آنے لگا تھا ہم ایک بار پھر گنے کی فصل میں بیٹھ گئے تھے اس بار اس کی سپیڈ کچھ زیادہ تھی موٹرسائیکل ایک بار پھر سے پیچھے ا گیا تھا بلال بولا یہ اسد ہی ہے بس اٹھو جلدی چلیں ۔۔۔۔ ہم نالے کے کنارے چلتے آگے بڑھ گئے نالہ بائیں جانب مڑا اور ایک پل میں سے ہوتا ہوا آگے جا رہا تھا پل پر چڑھنے کے بعد بلال نے یہ جگہ پہچان لی تھی وہ روز اس پل پر سے گزر کر دوسری طرف دکان پر جایا کرتا تھا روڈ یہاں سے نزدیک ہے بلال نے سرگوشی کی اور قدرے تیز قدم اٹھانے لگا۔۔۔۔ میں کیسے چل رہی تھی مجھے معلوم نہیں تھا حالانکہ ان چند مہینوں میں میرے ہپس بہت بھاری ہو گئے تھے اور میرا اندر مجھے خالی لگتا تھا جیسے ساری انرجیاں ختم ہو چکی ہوں روشنی اس گاڑی کی آواز نے ہماری ہمت بڑھا دی تھی اور ہم تقریباً بھاگتے ہوئے اس طرف بڑھنے لگے ہم پانچ منٹ میں روڈ پر پہنچ چکے تھے کہیں دور سے روشنی کا آلاؤ محسوس ہونے لگے ہمارا دھیان پیچھے کی طرف بھی تھا یہ اہم اس خطرناک پوائنٹ تھا ہم روشنی کی طرف روڈ کنارے بڑھنے لگے تھے اور اپنی رفتار بڑھا دی تھی روشنی شاید ہماری ہی طرف بڑھ رہی تھی اور ہم اسی طرف بھاگ رہے تھے گیلے کپڑوں کےباوجود بھی ہمارا سردی کا احساس کم ہو گیا تھا ہمیں یہاں سے نکلنا تھا مجھے اس جگہ کے ہوا اور مٹی سے بھی نفرت ہو گئی تھی جس پر میری زندگی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟ ہم کیا کریں گے کچھ معلوم نہیں تھا ھمارے پاس ایک روپے کی نقدی موجود نہیں تھی ہم کیسے جائیں گے ہمارے ذہن میں اس پر کوئی سوال نہیں تھا بس ایک ہی جستجو تھی کہ ہمیں یہاں سے نکلنا ہے اور بس۔۔۔ دھند میں لائٹس قریب آ رہی تھی اور گاڑی کا آواز بھی بڑھ رہا تھا سپیڈ اتنی نہیں تھی گاڑی کے قریب آنے پر ہم تقریباً روڈ کے درمیان کھڑے ہو گئے بلال نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دئیے گاڑی کی رفتار ایک دم کم ہو گئی اور اگلے لمحے ہی وہ تھوڑا کٹ کر کے ہمارے پاس سے ایک ٹرک گزر گیا اور ہم مایوس ہو گئے لیکن بلال نے ایک بار پھر میرا ہاتھ پکڑا اور ہم اسی سمت بھگنے لگے میرے پاؤں بہت درد کر رہے تھے چپل بار بار پھسل رہے تھے گیلے ہونے کے ساتھ ان میں مٹی بھر آئی تھی جس سے کیچڑ سا بن گیا تھا ۔۔۔ ایک روشنی کے ساتھ ہم میں امید بھر آئی اس بار بھی ہم نے اسے روکنے کی کوشش کی وہ آہستہ ہونے کے ساتھ ہم سے گزر گیا اور پھر تھوڑا آگے جا کر رک گیا یہ بھی ٹرک تھا اور اس کی بریک کی آواز سن کر ہم نے اس کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔(جاری ہے)

        Comment


        • #44
          ye kahaani 1 baar pwhly bhi parhi hai bohat afsosnaak story hai

          Comment


          • #45
            اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریر لاجواب ہے ۔۔۔ بلال کے سامنے نازیہ کی پھدی اور گانڈ مار کر اسد اور شفیق نے اچھا نہیں کیا۔۔۔ لیکن جب انسان جانور بن جاتا ہے اور حوس سر پر سوار ھو تو اچھے برے کا پتہ نہیں ھوتا ۔۔۔ بلال اور نازی کی مشکل ابھی ختم نہیں ھوئی۔۔۔ اب ٹرک والا کیا گل کھلاتا ھے پتہ نہیں ۔۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

            Comment


            • #46
              انتہائی سبق آموز کہانی

              Comment


              • #47
                واہ کیا زبردست سٹوری ہے مزہ آگیا

                Comment


                • #48
                  قسط نمبر 7
                  تحریر زاہد ملک

                  بلال اور میں بھاگتے ہوئے ٹرک کے پاس پہنچے تو ایک بندہ اس سے پہلے اتر چکا تھا اندھیرے میں اس کا چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا ہم دونوں سردی اور خوف سے تھرتھرا رہے تھے وہ پٹھان تھا پشتو لہجے میں بولا کون ہو آپ اور کدھر جانا ہے ۔۔ میں نے بلال سے پہلے بولا انکل پلیز ہمیں یہاں سے لے جائیں ہماری جان کو خطرہ ہے ہم آپ کو سب سچ بتا دیں گے اس آدمی نے ٹرک کے اندر بیٹھے کسی شخص سے پشتو میں بات کی اور کچھ دیر اس سے باتیں کرتا رہا پھر اس نے کھڑکی کھولی اور ہمیں اندر جانے کا بولا بلال کو میں نے آگے جانے کا اشارہ کیا وہ لرزتے جسم کے ساتھ اوپر چڑھنے لگا وہ اندر چلا گیا تھا اور میں اس کھڑکی کے ہینڈل کو پکڑ کر اوپر چڑھنے لگی لیکن میرے ہاتھ اور ٹانگیں میرا وزن اٹھانے سے بے بس ہو چکے تھے دو بار کی کوشش کے بعد بھی میں اپنے کولہے اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو پیچھے کھڑے اس پٹھان نے میرے ہپس کو پکڑ کر مجھے اوپر اٹھایا اس کے سخت بڑے ہاتھ میرے ہپس میں پیوست ہو کر کرنٹ چھوڑ گیا ۔۔۔ پٹھان نے وخ خ خ خ خ کی آواز کے ساتھ گہری سانس لی میں اندر آ چکی تھی اور اس پٹھان کے کھڑکی میں آنے کے ساتھ ہی ٹرک چل پڑا تھا ہمارے کپڑے گیلے تھا اور یہ دیکھتے ہوئے ڈرائیور اور دوسرا بندہ پشتو میں کوئی بات کرتے ہوئے اس بڑی سیٹ کے پیچھے لیٹے کسی تیسرے بندے کو جگانے لگے وہ آنکھیں ملتا حیرت سے ہمیں دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کوئی بات کرنے لگا تھا اور پھر ہماری طرف آنے لگا اندر جلتی لائٹ میں ان سب کی سرخ آنکھیں اور ڈرونے چہرے دیکھ کر ہم کچھ زیادہ پریشان ہو گئے تھے لیکن تقریر اب ہمارے ساتھ کیا کرنے جا رہی ہے ہمیں معلوم نہیں تھا اور ہم بےبسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا ۔۔ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے اور ان گیلے کپڑوں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے ۔۔۔ ان لوگوں نے ہم دونوں سے بولا کہ آپ پیچھے چلے جاؤ۔۔۔ میرے بعد بلال بھی اس تنگ گلی نما جگہ میں آ گیا تھا اس آدمی نے ہمیں کمبل لپیٹنے کا بولا اور ہم فوراً کمبل لپیٹ کر بیٹھ گئے ٹرک کے اندر اتنی ہیٹ تھی کہ ہمیں رفتہ رفتہ سکون ملنے لگا ۔۔۔۔ وہ بہت دیر تک ہمیں دیکھ کر آپس میں باتیں کرتے رہے پھر اسی پٹھان نے جس نے ہمیں ریسیو کیا تھا ہم سے بات کرتے ہوئے بولا کہ آپ ہمیں سچ سچ بتاؤ گے تو ہم آپ کی مدد کریں گے ورنہ آگے ہم آپ کو پولیس کے حوالے کر دیں گے ۔۔۔۔ میرے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی اور میں نے آہستہ سے بلال کو کہنی مار کر اسے بولنے کا اشارہ کیا بلال نے ان کو اتنا بتا دیا کہ ہم پیار کرتے ہیں اور شادی کے لئے کراچی سے نکل آئے تھے اور جہاں دوست کے پاس آئے تو اس نے ہمارا چھ لاکھ اور دس تولے سونا لوٹ لیا اب ہمیں مارنا چاہتا تھا تو ہم بھاگ آئے ۔۔۔ پٹھان نے پوچھا اب آپ کہاں جاؤ گے ؟؟ بلال نے بولا ہم کراچی واپس جانا چاہتے ۔۔۔۔ وہ بہت دیر تک آپس میں لڑنے جیسے انداز میں باتیں کرتے رہے پھر ہمیں بولا کہ ہم باجوڑ جا رہے دو دن بعد واپس کراچی جائیں گے تو آپ کو وہاں چھوڑ دیں گے اگر آپ کہیں اترنا چاہو تو اتر سکتے لیکن آپ پولیس یا کسی اور کے ہتھے چڑھ گئے تو پھر خود ذمے دار ہوں گے ۔۔۔ پٹھان کے اس آپشن پر ہم دونوں مطمئن ہو گئے کہ ہم کہیں اترنا چاہیں تو اتر سکتے ۔۔۔ بلال بولا اگر آپ ن، واپس کراچی جانا ہے تو دو دن کی کوئی بات نہیں ہے ہم آپ کے ساتھ چلیں گے پٹھان نے ہمیں سونے کا بولا دیا کہ آپ کمبل لپیٹو اور سو جاؤ ہمارے کپڑے گیلے تھے لیکن کمبل لپیٹ کر ہم لیٹ گئے اور ہمیں نیند آ گئی۔۔۔۔۔ جب میری آنکھ کھلی تو بلال بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا باہر ہلکی سی دھند اب بھی موجود تھی لیکن صاف معلوم ہو رہا تھا کہ دن کافی چڑھ چکا ہے میرے اٹھ بیٹھنے پر سب میری طرف متوجہ ہو گئے بلال نے مسکرا کر میری طرف دیکھا حالات نارمل لگ رہے تھے ہم اس مصیبت زدہ علاقے سے کافی دور آ چکے تھے مجھے ان تینوں پٹھانوں کی نگاہوں میں حوس صاف نظر آ رہا تھا لیکن میں پریشان نہیں ہو رہی تھی یہ سب کچھ میں گزار چکی تھی اور میرے دل میں تھا کہ یہ دو تین دن بعد اگر ہمیں کراچی پہنچا دیں تو بھی ان تین کے ساتھ سودا مہنگا نہیں تھا میں بہت عرصے بعد اس قید سے باہر آ چکی تھی اور میں اپنی آنکھوں سے ہر لمحے بدلتے سین دیکھ کر دل میں بہت خوش ہو رہی تھی چھوٹے شہروں اور بستیوں سے گزرتے یہ ٹرک جانے کہاں جا رہا تھا ہمیں معلوم نہیں تھا ہم نے یہ علاقے کبھی خوابوں میں بھی نہیں دیکھے تھے بلال اور میں اس خوش فہمی میں خوش تھے کہ ہم ایک قید سے نکل کر آزاد ہو گئے ہیں اور بس دو چار روز میں کراچی پہنچ جائیں گے ۔۔ کراچی پہنچ کر ہم نے کیا کرنا ہے کہاں جانا ہے ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا ٹرک روڈ کنارے ایک جنگل میں رک چکا تھا آسمان پر سورج اب بھی کچھ دھند کی لہروں میں نظر آ رہا تھا سب اس جنگل میں ادھر ادھر پھیل چکے تھے بلال مجھے بھی اتار کر لے گیا تھا کچھ دیر میں واپس آئی اور بلال اور میں ان لوگوں کا انتظار کرنے لگے باری باری یہ تینوں بھی آ گئے تھے۔۔ مجھے ڈرائیور سمیت ان تینوں کی نظریں اپنے ہپس پر چبھتی محسوس ہو رہی تھی اور وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے ٹرک ہمارے سمیت منزل کی جانب چل پڑا تھا ہم دونوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ جب پولیس ناکہ آ جائے تو ہم کمبل لپیٹ کر سو جائیں کوئی اےک گھنٹے بعد ٹرک ایک ہوٹل پر رک چکا تھا ڈرائیور نے اسے باقی گاڑیوں سے الگ تھلگ کھڑا کیا تھا ہمیں اندر رہنے کا بول کر وہ تینوں چلے گئے تھے کچھ دیر بعد ان میں ایک بندہ ہمیں کھانا دے کر واپس چلاگیا تھا ہمیں بھوک لگی ہوئی تھی اور کھانا بھی اچھا تھا سو ہم نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور آپس میں باتیں کرنے لگے میں نے بلال سے پوچھا کہ کراچی جا کر کیا کریں گے بولا بس اپنے گھروں کو جائیں گے باقی دیکھا جا گا یا ہمیں مار دیں گے یا ہم دونوں کی۔شادی کر دیں گے اگر مر بھی گئے تو اس ستم بھری دنیا میں ذلت سے روز روز کے مرنے سے بہتر ہے ۔۔۔ میں بھی یہی چاہتی تھی سو خاموش رہی شام سے کچھ پہلے پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا تھا نہ تو ہم کسی علاقے خو جانتے تھے اور نہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے بس خاموشی سے دیکھتے آگے بڑھ رہے تھے رات دیر سے انہوں نے ٹرک ایک ہوٹل پر روک دیا اور ہمیں بھی اتار کر اس ہوٹل کے ایک کمرے میں لے گئے اس کا اٹےچ باتھ روم بھی تھا ہم فریش ہونے کے بعد یہی بیٹھے رہے اور ایک لڑکا ہمیں کھانا دے گیا ٹرک کا عملہ کہاں تھا ہمیں معلوم نہیں تھا ۔۔۔ کھانے کے کچھ دیر بعد ہم ایک بار پھر سے اپنے انجان سفر کی جانب روانہ ہو گئے رات دیر سے بلال نے مجھے سونے کا کہا اور مجھ پر کمبل ڈال دیا وہ ٹرک کے عملے سے باتیں کر رہا تھا ہمیں اسد کی اس قید سے نکلے تقریباً چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے کمبل میں جسم کے گرم ہونے کے ساتھ مجھے نیند آ گئی ۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو میں ایک چھوٹے کمرے میں نیچے سوئی ہوئی تھی مجھے چکر آ رہے تھے اور میں نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں بند کر گئی جب میں نیند سے پوری طرح بیدار ہوئی تو رات ہی تھی وہی راٹ جس میں میں سوئی تھی یا اس کے بعد والی رات ؟؟ مجھے معلوم نہیں تھا میں نے سر اٹھا کر دیکھا میں قالین پر رضائی میں سوئی ہوئی تھی جبکہ میرے آس پاس تین اور لوگ بھی سو رہے تھے جنہوں نے رضائیاں لپیٹ رکھی تھی ۔ان میں بلال کونسا تھا میں رضائی اٹھا کر کسی کو دیکھ نہیں سکتی تھی میں لیٹ گئی مجھے اب بھی چکر آتے محسوس ہو رہے تھے بہت دیر بعد دور کہیں سے آذان کی آواز آ رہی تھی ۔۔ میں اس چھوٹی کوٹھڑی کے کونے میں لگے ایک سنگل دروازے کی طرف بڑھ گئی یہ باتھ روم تھا میں اس سے واپس آنے کے بعد کچھ پریشان سی ہو گئی تھی آس پاس لیٹے ان تینوں کے جسم بلال سے بہت بڑے لگ رہے تھے اگر بلال ان میں نہیں تھا تو پھر کہاں تھا راستے میں ان لوگوں نے بولا تھا کہ ہم کل دوپہر کو اپنی منزل پر پہنچیں گے میں سو گئی تھی کیا میں میں تھوڑی دیر بعد یعنی فجر سے پہلے اٹھ گئی تھی ؟؟ کیا دوپہر کے پہنچنے کے بجائے ہم ایک گھنٹے میں اسی رات پہنچ گئے تھے ؟؟ یا یہ اس سے اگلی رات ہے کیا میں چوبیس گھنٹے سوتی رہی تھی ؟؟ تو میں ٹرک کے اندر سے یہاں کیسے پہنچی تھی ؟۔ بلال کہاں تھا ۔۔ کیا میں پہلے سے بھی زیادہ مصیبت میں پھنس گئے تھی ؟؟؟ کیا میں ان وحشی شکل والے پٹھانوں میں اکیلی رہ گئی تھی ؟؟؟ افففففف سب کچھ غلط ہو گیا تھا بلال ان میں نہیں تھا تو بلال کہاں رہ گیا میں بیٹھتے ہوئے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی پردہ ہٹایا تو بھاری تالے نے میرے منہ پر جیسے طمانچہ مارا ۔۔ میں اس کوٹھڑی ک، دھندلے مناظر میں اپنی جگہ پر واپس آنے لگی تھی میں نے اپنے اوپر رضائی تان لی اور بغیر آواز کے اپنی قسمت پر رونے لگی تھی ۔۔۔ بہت دیر بعد کمرے میں کچھ موومنٹ محسوس ہوئی میں نے اپنی آنکھیں صاف کر لیں اور رضائی سے اپنا چہرہ نکال کر باہر کے مناظر دیکھنے چاہیے سرخ آنکھوں اور بکھرے بالوں والا ڈرائیور رضائی سے اپنا چہرہ نکال کر میری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ میں نے باقی دو کی طرف دیکھا تو وہ ابھی سو رہے تھے اس نے مجھے اشارہ کر کے اپنے پاس بلایا میری آنکھوں میں نمی آ گئی اس نے میری رضائی کھینچ کر غصے سے دیکھتے ہوئے کہا اےےےےےے ادھر آ ۔۔۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی اور میں کانپتی اس کے پاس چلی گئی اس نے مجھے اپنی رضائی کے اندر کھینچ لیا اس بندے سے کچھ عجیب سی بو آ رہی تھی میں نے پوچھا بلال کدھر ہے وہ میری بات کا جواب دینے کے بجائے مجھے کسنگ کرنے لگا میں نے لرزتے جسم اور کانپتی آواز میں پھر وہی سوال دھرایا ۔۔۔ بولا آ جائے گا ادھر دوسرے کمرے میں ہے وہ وحشیوں کی طرح میرے نرم بھرے ہپس کھینچ کر ہلکی آواز میں وخ خ خ خ خ وخخخخججج کرنے لگا اس نے ایک دم میں قمیض اوپر کر دی اور میرے بوبز سے اپنے منہ کو بھرنے لگا وہ مسلسل میرے ہپس سے اپنے بہت سخت ہاتھوں سے مٹھیاں بھرے جا رہا تھا پھر اس نے میری پیٹھ اپنی طرف پھیر لی اور میری شلوار کو گھٹنوں تک نیچے کیا اور اپنے آپ کو سیٹ کرتا ہوا کوئی بہت موٹی گرم اور سخت چیز لوہے کی طرح میرے ہپس کے درمیان دبانے لگا افففففففف یہ کیا ہے کیا یہ اس کا ببلو ہی میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرکے اس کو پکڑنا چاہا لیکن اس گندے پٹھان نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگے کیا اور میرے ہلس کو پکڑتے ہوئے لوہے کا موٹا راڈ میرے ہول کے اندر دبانے لگا ۔۔ اممممھھھھ اونہہ آئی آئی آئی کی میری آوازیں اس چھوٹی کوٹھڑی میں گونج رہی تھی وہ خود آگے آنے کے بجائے مجھے کھینچ رہا تھا ساتھ میں وخخخخخ آہاہا ووووی وووی وووی کرتا جا رہا تھا اس کا ببلو اسد سے بھی کہیں زیادہ بڑا موٹا اور سخت تھا اور آگے آنے پر میری آوازیں گلے میں پھنس گئیں میری زبان اور آنکھیں باہر آنے لگی لیکن وہ پورا اندر کرنے کے بعد جھٹکوں کی صورت مجھے ہلانے لگا تھا میرا جسم لٹ رہا تھا اور بے حال اس کے ہاتھ کی سخت پکڑ کے ساتھ اچھل کر اس کے ببلو کو اپنی برداشت سے بےقابو ہوتے اندر باہر کر رہی تھی بہت وقت گزر چکا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں پانی چھوڑ چکی تھی یا۔نہیں لیکن ستم کا شکار بنے اس کا کھلونا بنی ہوئی تھی اتنی دیر میں تو اسد بھی اپنا لاوا نکال فیتا تھا لیکن یہ انسان تھا یا کچھ اور ابھی تک ویسی ہی سپیڈ میں مجھے کاٹتا جا رہا تھا پھر وہ رک گیا اور اپنی لفٹ ٹانگ میرے اوپر پھیرتا ہوا مجھے الٹا کر گیا اور میرے اوپر لیٹ کر زور کے جھٹکے مارنے لگا مجھے لگ رہا تھا کہ میری ہڈیاں سرمہ بن جائیں گی میں کچھ بول نہیں سکتی تھی میری آنکھیں مسلسل دکھوں کی وجہ سے اب خشک ہونے لگیں تھی جو چند آنسو بہانے کے بعد خشک ہو جاتی تھیں ۔۔۔ بہت دیر بعد اوی اوی اوی کی آواز کے ساتھ اس نے بہت گرم اور عجیب سی چیز میرے اندر گرا دی تھی اور ساکت ہو گیا تھا اس کا جسم بھٹی کی طرح گرم تھا اور وہ بری طرح ہانپ رہا تھا ساتھ والی رضائی کے اندر سے آنے والی آواز پر وہ پشتو میں الفاظ کو لمبا کر کے مزے سے اسے کچھ بتا رہا تھا میں کیا کروں مجھے کیا کرنا ہے میں نے کروٹ لے کر اپنے ٹوٹے بدن کو سیدھا کیا اور روتے ہوئے ان سے ایک بار پھر پوچھا بلال کہاں ہے ۔۔۔ وہ ہنسنے لگے ۔۔ ہائے او لیلیٰ مجنوں کو بلا لاؤ۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے پھر میرے قریب والی رضائی سے بھاری آواز میں کسی نے اووووممممم کیا وہ دونوں اس سے ہنس کر ماما او ماما ۔۔ کہہ کر کوئی بات کرتا اور ماما پھر اوووووھھھھم کہہ دیتا اور یہ دونوں پھر سے ہنسنے لگتے ۔۔ جس وحشی نے مجھے اپنی درندگی کا بہت ظلم سے نشانہ بنایا تھا اس نے مجھے تھپڑ مارا اور بولا جاؤ ماما کے پاس جاؤ ۔۔ ماما اس کو مجنوں کا بتاؤ۔۔۔ماما نے پھر سے زیادہ بھاری آواز میں اووووھھھھھمممم کہہ دیا میں رونے لگی اور اسی وحشی نے مجھے اٹھا کر ماما کی رضائی میں بھر دیا تھا ۔۔۔(جاری ہے )

                  Comment


                  • #49
                    نازیہ جیسی کلی کی زندگی میں کانٹے بڑھتے ہی جا رھے ہیں ۔۔۔ نازیہ اب پٹھانوں کے ہاتھ لگ گئی ھے۔۔۔ یہ تو اب نادیہ کی مار۔۔۔مار کر حالت خراب کر دینگے ۔۔۔ کیا الفاظ استعمال کیے ہیں وخخخخ۔۔۔ ووووئ ووووئ۔۔۔ مزہ آ گیا جناب ۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

                    Comment


                    • #50
                      Boht undah kahani ha nazia asad or shafiq ka shungul sa nekli or pathano ka pas a gye us ki taqleef kam nhi hue ab deakhte han mazeed kya hota ha us ki zindagi ma

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X