Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کلی اور کانٹے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #71
    بھرپور کہانی ہے

    Comment


    • #72
      لاجواب ۔۔۔لاجواب ۔۔۔ نازیہ کو عزیز نے تو گشتی بنا دیا تھا۔۔۔ عزیز تو بڑا کمینہ نکلا ۔۔۔ ارم اور نازیہ کا رابطہ ھو گیا۔۔۔ نازیہ نے بھی ارم پر اعتماد کر لیا۔۔۔امید ھے آگے نازیہ کے ساتھ اچھا ہی ھو گا۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

      Comment


      • #73
        Zabardast update nazia ki aziyat bari zindagi ma irum us ka lya farista ha deakhte han ab yeh nazia ko nikal pati ha ka nhi

        Comment


        • #74
          بہت ہی سبق آموز تحریر ہے

          Comment


          • #75
            حقیقت کے بہت ہی قریب لکھی گئی اسٹوری نادانی میں اٹھایا گیا قدم پستی کی گہرائیوں میں لے ڈوبتاہے اب اس بیچاری کی مصیبتوں کے دن ختم ہوتے ہیں یا مزید اضافہ ہوتا ہے اگلی قسط کا انتظار ہے شکریہ

            Comment


            • #76
              bohot hi zabardast ja rhi he kahani .bohot maza arha he parh k .

              Comment


              • #77
                قسط نمبر 12
                تحریر زاہد ملک

                میں نے ابھی تک ارم کو نہیں دیکھا تھا جبکہ ارم مجھے اس سوراخ سے دیکھتی رہتی تھی ارم کی تحریروں نے میرے اندر حوصلہ بھر دیا تھا اور کبھی کبھی ارم کی بتائی اس فیملی کے بارے میں سوچنے لگتی کہ اسے کیا غرض پڑی ہے اس خطرناک شخص سے ٹکرانے کی جو پولیس کے افسران کو اپنا بنا چکا ہے اور شہر میں سرعام بدمعاشی کرتا ہے لیکن میں صرف ارم کے کہنے پر ایک بار قسمت کو آزمانہ چاہتی تھی ارم نے مجھے اس فیملی کی طرف سے دیا گیا شیڈول بتایا کہ وہ صبح سویرے ہی آپ کے مکان کا تالا توڑ کر آپ کو خاموشی سے لے جائیں گے نماز سے پہلے جب اندھیرا ہو گا یہ ایسا ٹائم تھا کہ اس وقت عزیز نہیں ہوتا تھا وہ صبح نو بجے کے بعد یہاں آتا تھا اور رات کو ایک بجے یہاں سے چلا جاتا تھا کئی بار ہمارے گھر میں کوئی چیز دستیاب نہ ہوتی تو وہ ارم کے گھر کا گےٹ بجا کے وہاں سے لے آتا تھا مجھے اس بات کا پہلے علم نہیں تھا بس یہی معلوم تھا کہ وہ شاپ پر جانے کے بجائے کہیں نزدیک سے لیکر آتا تھا کئی بار نمک چائے کی پتی یا اس طرح کی کوئی چیز وہ فوراً لیکر آ جاتا ارم نے بتایا تھا کہ ہمارے رشتے داروں کی شادی ہے اور جب ہم چار روز کے لئے وہاں جائیں گے تو تیسرے دن وہ لوگ آپ کو یہاں سے لیکر جائیں گے آپ بلاخوف ان کے ساتھ خاموشی سے چلی جانا پہلے دو دن آپ کسی بھی چیز کی کمی کا بول کر عزیز کو بھیجیں گی تاکہ عزیز ہمارے گھر کا تالہ دیکھ لے اور آپ کے جانے کے بعد اس کا شک ہمارے گھر پر نہ آئے میں نے اوکے کر دیا ۔۔ میرے ذہن میں مسلسل اس فیملی کا خیال آتا تھا پھر میں نے اپنے ارادے کو پختہ کر لیا کہ کم سے کم اس سے برا نہیں ہو گا جو اب تک میں گزار چکی ہوں ارم مسلسل اس فیملی سے رابطے میں تھی اور ڈیلی کی بنیپر مجھے بھی انفارم کرتی تھی ارم نے بتایا کہ وہ بدھ کے روز شادی پر چلے جائیں گے اور سوموار کو واپس آئیں گے ہفتے کی صبح منہ اندھیرے اذان کے وقت آپ کے گیٹ کا تالاب توڑ دیا جائے گا میں نے اوکے کر دیا ارم نے آج بھی مجھے بتایا کہ وہ صبح نو بجے کے بعد چلے جائیں گے ارم نے اپنی امی کو اعتماد میں لے رکھا تھا ارم نے بتایا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ گھر سے اس وقت نکلیں جب عزیز ان کو گلی میں دیکھ سکے وہ صبح نو بجے کے قریب یہاں آتا تھا ۔۔۔ صبح میں دیر سے اٹھی تھی رات کو عزیز دو بندے لیکر آیا تھا اور دوبجے ان دونوں کے ساتھ اس گھر سے نکلا تھا اور میں اس کے بعد سوئی تھی میری آنکھ کھلی تو عزیز روم میں آ چکا تھا اور موبائل پر اپنا انگوٹھا سویپ کر رہا تھا میں بڑی عمر کی کسی خاتون کی طرح اپنی کمر کو پکڑ کر اٹھی اور باتھ روم چلی گئی میں اس عمر میں اندر سے خالی ہو چکی تھی میں باتھ روم سے واپس آئی تو عزیز نے چائے کی فرمائش کر دی میں خاموشی سے چکن چلی گئی اور چائے بنانے لگ گئی میں نے پتی کے پیکٹ کو چھپا دیا اور دودھ میں چینی ڈال کر کمرے میں آئی اور عزیز سے بولی کہ چائے کی پتی نہیں مل رہی جلدی سے لا دوگے ۔۔ وہ فوراً اٹھ گیا باہر جانے کے ایک منٹ بعد عزیز نے گیٹ کو لاک کیا اور چلا گیا میں سمجھ چکی تھی کہ وہ پہلے ارم کے گیٹ کی طرف گیا اور تالہ دیکھ کر دوبارہ گیٹ کی طرف آیا اور اس لاک کرکے پھر کہیں گیا ہے عزیز دس منٹ بعد پتی لیکر آیا تھا میں نے اس سے تاخیر کی کوئی وجہ نہیں پوچھی اور چائے بنا کر لے آئی ۔۔۔۔ دوسرے دن بھی میں نے شام کے وقت عزیز کو نمک لانے کا بولا تو وہ پھر دس منٹ بعد آیا اور جمعہ کے روز بھی میں نے چائے کی پتی کے پیکٹ کو جان بوجھ کر گرا دیا اور عین موقع پر اسے پتی لانے کا بولا رات کو عزیز کچھ تاخیر سے آیا اور اس کے ساتھ وہی بھدا ڈی ایس پی ساتھ تھا میرے کپڑوں کا شاپر بیڈ کے نیچے پڑا تھا اس گینڈے جیسے موٹے ڈی ایس پی نے اس رات مجھے بہت بےحال کیا تھا وہ بہکی بہکی باتیں کرتا رہا اور اس کے منہ سے کچھ عجیب سی بدبو آ رہی تھی جیسے وہ شراب پی کر آیا ہو ۔۔۔ رات کو تقریباً تین بجے اس نے اپنا لباس پہنا اور کسی کو کال کر کے کہا کہ مجھے لے جاؤ۔۔ عزیز نے اسے کہا صاحب آج ادھر ہی سوتے ہیں میں بھی اپنے گھر جانے سے لیٹ ہو چکا ہوں ۔۔۔۔ میرا دل دھڑام سے ٹخنوں میں جا گرا ۔۔۔۔۔ اس سرد موسم میں بھی میرے جسم پر پسینہ سا آ گیا تھا ۔۔۔ مجھے لینے کے لئے آنے والے لوگ چند گھنٹوں میں یہاں آنے والے ہیں تو کیا وہ بھی میری وجہ سے کسی مصیبت میں پھنسنے والے ہیں کیا راز آؤٹ ہونے کے بعد اس درندہ ارم لوگوں کو جینے دے گا ؟؟۔۔ ایک ہی لمحے میں کئی خیالات میرے ذہن میں گردش کر گئے ۔۔۔ ڈی ایس پی نے ایک لمحے بعد بولا نہیں میں اپنے فام ہاؤس جا کر سونا چاہتا آپ ادھر ہی سو جائیں ۔۔۔ عزیز نے اوکے بول دیا ۔۔ میں کتنی بدقسمت تھی کہ خود تو عذاب بھگت رہی تھی اور آج میرے ساتھ ہمدردی کرنے والی فیملی بھی کسی عذاب میں پھنسنے لگی تھی ۔۔ بیس منٹ بعد ڈی ایس پی کا فون بج اٹھا اس نے فون پر صرف اوکے بولا اور اٹھنے لگا تھا ۔۔۔ عزیز بھی شاید اسے گیٹ تک چھوڑنے کے لئے اٹھ گیا ۔۔۔ ڈی ایس پی نے اپنے قدم روکے اور بولا عزیز میرے ساتھ چلو تم بھی آج آپ کو سپیشل چیز پلاتا ہوں ۔۔۔ عزیز نے سوالیہ انداز میں پوچھا برانڈڈ ؟؟؟ بھدا گینڈا بولا ہممممم آ جاؤ عزیز نے ٹیبل پر رکھا اپنا سامان اٹھا کر جیب میں ڈالا اور جاتے ہوئے مجھ سے بولا تم سو جاؤ میں صبح جلدی آؤں گا کام ہے کچھ ۔۔۔۔۔ شاید عزیز نے میری دن کی بکنگ بھی کر رکھی تھی میں نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا اور کمبل میں لیٹنے لگی ٹائم شاید کم تھا اور میں ان کے جانے کے بعد اٹھ بیٹھی تھی کہ کہیں مجھے نیند نہ آ جائے کیا میں آزاد ہونے جا رہی کیا میں کراچی پہنچ پاؤں گی کیا میرے ابو امی زندہ ہونگے کیا وہ مجھے قبول کریں ؟؟؟ چلو اللّٰہ کرے وہ زندہ ہوں مجھے قبول نہ کریں اور اگر میں ان کو صرف اپک بار دیکھ بھی لوں تو بھی میری خوش قسمتی ہو گی پہلی آذان کی آواز کے ساتھ گیٹ پر ہلکی سے ٹک کی آواز آئی اور گیٹ کی کھڑکی کھل گئی میں برآمدے تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاکرہ نے بولا زاہد اتنا بڑا خطرہ مول لینے سے بہتر ہو گا آپ اقرار الحسن کو کال کر لیں اس کا نمبر تھا ناں آپ کے پاس۔۔۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور قہوے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا میرے خیال میں ہمیں کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ہم آسانی سے نازیہ کو لینے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔۔۔ اگر خطرہ بھی ہوا تو خیر ہے موت نے ویسے بھی آنا ہے اور ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ہم ایک بیٹی کو آزاد کرنے کی کوشش میں مارے جائیں ۔۔۔ اقرار کو بتانا اور نازیہ کی ٹی وی پر تہشیر کرنا درست نہیں ہو گا جو کام ہم آسانی سے کر سکیں تو اس کے لئے کسی اور کو تکلیف دینا ٹھیک نہیں ۔۔۔ ویسے بھی اقرار الحسن کا ٹھیکہ نہیں ہے ہر ٹینشن میں پڑنا ۔۔ ہر ایک کا فرض ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کرے ارم نے مجھے ایک ایک پل اور ایک ایک خطرے سے آگاہ کر دیا تھا اقبال اور دانش میری زمینوں پر کام کرنے والے بہت دلیر لڑکے ہیں ہردم چوکس اور مجھے جب بھی جس کام کے لئے ان کی ضرورت پڑی تھی انہوں نے ایک ہیرو کا کردار ادا کیا تھا سمجھو یہ حلال کمانے اور کھانے کے ساتھ پیدائشی طور پر خطروں کے کھلاڑی تھے وہ آج صبح دس بجے میانوالی پہنچ چکے تھے دن دو بجے میں نے دانش اور ارم کو کانفرنس کال پر لے لیا ارم دانش کو راستوں سے آگاہ کرتی جا رہی تھی میں صرف پر ہی ان سے بات کر رہا تھا اقبال بھی دانش کے ساتھ تھا بیس منٹ بعد وہ ارم لوگوں کے کوچے میں پہنچ چکے تھے دانش ارم کو کوچے کے بارے میں بتا رہا تھا ارم کے گھر کے سبز گیٹ کو تالہ لگا ہوا تھا اس سے اگلہ بلیو کلر کا گیٹ تھا اس کو بھی باہر سے تالا لگا تھا اقبال اپنے موبائل پر غیر محسوس انداز میں تصاویر بنا رہا تھا نازیہ کے گیٹ کے آگے لگا تالہ کافی بھاری اور مضبوط تھا اتنے تک جانے کے بعد ارم نے انہیں فوری طور پر وہاں سے نکلنے کا بولا وہ عجلت میں اس کوچے سے نکل آئے تھے ۔۔۔ اور لاری اڈے کی طرف چلے گئے تھے اقبال اور دانش نے مجھے تصاویر سنڈ کر دیں اور میں نے ارم کو واٹس ایپ کر دیں انہوں نےصحیح مقام دیکھ۔لیا تھا اب وہ اس تالے کو کھولنے کی ترکیب سوچ رہے تھے اور ضروری سامان وہاں بازار سے لے لیا تھا میں دانش اقبال اور ارم مسلسل رابطے میں تھے شام کے بعد بھی اقبال اور دانش ایک چنگ چی پر بیٹھ کر اس کوچے تک گئے تھے تاکہ اندھیرے میں ان کے لئے کوئی مسئلہ باقی نہ رہے۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے ان دونوں کو کسی ہوٹل میں آرام کرنے کا بولا اور میں سائقہ اور شاکرہ اس وقت بیٹھے صرف اس موضوع پر بات کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ شاکرہ سائقہ اور میں وقفے وقفے سے ارم اور اسکی امی سے بات کر رہے تھے رات بارہ بجے ہم نے ضروری سامان گاڑی میں رکھ دیا تھا شاکرہ نے پسٹل اپنے پرس میں رکھا تھا رات سوا ایک بجے ہم گھر سے نکل پڑے تھے ہمیں میانوالی پہنچنے کے لئے تین گھنٹے کا وقت درکار تھا یعنی ہم چار بجے وہا پہنچ سکتے تھے ارم ساری رات جاگتی رہی تھی اور ہمارے ساتھ رابطے میں تھی میانوالی بپس کلومیٹر ہم سے دور تھا ساڑھے تین بج چکے تھے میں نے اقبال کا نمبر ملایا اس نے فوراً کال ریسیو کر لی وہ دونوں جاگ چکے تھے انہوں نے گائیڈ کرنا شروع کر دیا ہم شہر کی حدود میں داخل ہو چکے تھے ایک پولیس ناکے پر ہم نے ضروری دستاویزات دیکھائی اور آگے چل پڑے اقبال اور دانش نے ہمیں ایک چوراہے پر رکنے کا بولا ہم روڈ کنارے ٹھہر گئے سائقہ دانتوں سے بادام توڑ کر مجھے اور شاکرہ کو دینے لگی دس منٹ بعد اقبال اور دانش ہمارے پاس آ گئے تھے کچھ ضروری معلومات کے بعد میں نے انہیں فوری پلان پر عمل کرنے کا کہا اور ایک کاغذ انہیں تھما دیا جس پر میں نے گھر سے نکلنے سے پہلے لکھ لیا تھا کاغذ پر میں نے اتنا لکھا تھا ۔۔۔۔ ہم نے نظام سے بچی کی شادی کی تھی اسے بیچنے کا اختیار نہیں دیا تھا ۔۔ نظام اپنے انجام تک پہنچ گیا ہے ہم بچی کو لے کر جا رہے اب تم اپنے انجام کے لئے تیار رہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
                میں نے دانش کو یہ پرچہ تھمایا اور اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا شاکرہ آگے بیٹھی تھی سائقہ گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی جبکہ یہ دونوں میرے آس پاس بیٹھ گئے میں نے دانش کو بولا کہ یہ پرچہ بیڈ پر رکھ دینا اور جلد سے جلد نازیہ کو گاڑی تک پہنچانے کی کوشش کرنا کوچے کے قریب جانے پر میں نے سیٹ کے ڈرائیونگ سیٹ۔کے ساتھ چھپا پسٹل اقبال کے حوالے کر دیا اور اسے بتایا کہ خطرے کے وقت استعمال کر دینا جب دیکھو کہ تمہاری یا نازیہ کی جان کو خطرہ ہے ۔۔۔ 4:50 بجے یہ دونوں گاڑی سے اتر گئے اور گلی میں چلتے تقریباً دو سو فٹ جانے کے بعد لفٹ سائیڈ پر مڑ گئے میں نے سقی کو گاڑی ٹرن لے کر کھڑی کرنے کا بولا اور شاکرہ سے پسٹل لے کر بیک سیٹ پر پیچھے کو منہ کرکے چوکس بیٹھا رہا سائقہ نے گاڑی کا سوئچ بند کر دیا اور یہ دونوں بھی محتاط انداز میں آس پاس کا جائزہ لینے لگی سائقہ پر اب بھی کسی خوف کا قبضہ نہیں تھا جبکہ شاکرہ اس معاملے پر روز اول سے ہی میرا پلان سن کر خوفزدہ تھی ۔۔۔ کوئی بیس منٹ بعد اسی کوچے سے چادر لپیٹے اقبال تیزی سے نکلا جس کے پیچھے شاید نازیہ تھی جو ڈگمگا کر تیز چلنے کی کوشش کر رہی تھی میں سائقہ سے گاڑی اسٹارٹ کرنے کا بولا اور ساتھ اسے کہا لائٹس آف رکھو شاکرہ کانپتی ہو،پیچھے دیکھنے لگی اقبال اور نازیہ کے گاڑی تک پہنچنے سے پہلے دانش بھی کوچے سے نکل کر گلی میں آگے پیچھے دیکھتا ہوا محتاط انداز میں آگے آ رہا تھا میں نے لفٹ سائیڈ والی کھڑکی کھول دی نازیہ کانپتی دھڑام سے سیٹ پر گر گئی وہ بری طرح ہانپ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کا بدن لرز رہا تھا شاکرہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی ہماری بیٹی ہو تم ۔۔۔ اب تم آزاد ہو ۔۔۔ بےفکر ہو جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے مجھے پسٹل تھمایا اور بولا صاحب آپ جلدی نکل جاؤ۔۔۔ میں نے دانش اور اقبال سے ہاتھ ملایا اور انہیں یہاں سے فوری نکلنے کا کہہ کر سائقہ سے چلنے کا بولا اس نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا دی وہ گلی بھول چکی تھی بہرحال میں نے اسے ایک جگہ پر اندازے سے رائٹ سائیڈ پر گاڑی موڑنے کا بولا ہم دس منٹ میں مین روڈ پر آ گئے ہم میں نے ارم کا نمبر ملانا چاہا موبائل کی سکرین پر دیکھا تو اس کی بیس کالز آ چکی تھی مین روڈ پرہم کس طرف جا رہے تھے ہمیں معلوم نہیں تھا لیکن سائقہ بہت تیزی سے گاڑی آگے بڑھا رہی ۔۔۔ ارم نے فوراً کال پک کر لی تھی میں نے آس پاس دیکھتے ہوئے اپنی لوکیشن بتائی اس سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں آگے چوک پر جہاز دیکھ کر میں نے اسے بتایا تو اس نے اس سے ایک روڈ مڑنے کا بتا دیا ہم دوبارہ اسی روڈ پر آ گئے تھے اور اب سائقہ نے گاڑی کی سپیڈ مذید بڑھا دی تھی ہم آدھے گھنٹے میں ارم کے ماموں کے گھر کے آگے رک چکے تھے اقبال اور دانش لاری اڈہ پہنچ کر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ ہم ارم سے گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہی ملے اور نازیہ نے نیچے اتر کر ارم کو گلے لگا لیا تھا اور آواز سے رونا شروع کر دیا تھا شاکرہ نے بہت مشکل سے ان کو جدا کیا اور نازیہ کو گاڑی میں بٹھایا ۔۔۔ ہم نے ارم سے پھر ملنے کا وعدہ کیا اور ارم کی بتائی ایک گلی سے مین روڈ کی طرف نکلنے لگے ۔۔۔ میں نے نازیہ سے پہلی بار بولا ۔۔۔ نازیہ ہماری بیٹی ہو تم یہ رونے کا وقت نہیں ہے نازیہ دعا کرو تمھارے ساتھ ہم بھی خیریت سے پہنچ جائیں ۔۔۔۔۔ اس وقت سورج ابھی نہیں نکلا تھا شاید یا بادل تھے بہرحال روشنی اچھی خاصی ہو گئی تھی ہم جیسے ہی مین روڈ پر آئے پولیس کی تین گاڑیاں سائرن بجاتی اسی طرف گامزن تھیں جدھر سے ہم آئے تھے ۔۔۔(جاری ہے)

                Comment


                • #78
                  حقیقت کے بہت ہی قریب لکھی گئی اسٹوری

                  Comment


                  • #79
                    بہت ۔۔۔ بہت ھی اعلی ۔۔۔ لاجواب اپڈیٹ ھے بھائی ۔۔۔ نازیہ آخر کار عزیز کے گھر سے نکل آئی ھے۔۔۔ نازیہ اور ارم کی ملاقات بھی ھو گئی۔۔۔ اب امید ہی کرتے ہیں کہ اب نازیہ کے ساتھ اچھا ہی ھو گا۔۔۔بہترین ۔۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

                    Comment


                    • #80
                      قسط نمبر 13
                      تحریر زاہد ملک

                      پولیس وینوں کو دیکھ کر شاید سائقہ بھی ڈر گئی تھی وہ ایک دم سے سپیڈ بڑھا گئی تھی میں نے اسے گاڑی سائیڈ پر روکنے کا بول دیا وہ اپنے سر کے اوپر لگے اس آئینے میں مجھے دیکھ اور گاڑی روڈ کنارے روک دی میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی اور میں نیا پلان ترتیب دینا چاہتا تھا پہلے حالات نارمل تھے اور ارم لوگوں کی گلیوں سے نکل کر ہم الٹی سائیڈ پر چلے گئے تھے اور ہمارا بہت سا وقت ضائع ہو گیا تھا اگر ہم صحیح راستے پر آتے تو ارم سے مل کر کب کے شہر سے نکل چکے ہوتے ۔۔۔ میں نے نازیہ سے نارمل ہونے کا بولا اور اس سے پوچھا کہ کیا عزیز اس ٹائم مکان پر آ سکتا ہے ؟؟ بولی کبھی آیا تو نہیں ۔۔۔ لیکن ایک بات میرے ذہن میں آنے لگی ہے کبھی عزیز رات کو میرے ساتھ ہوتا تو نماز کے کے بعد جب تھوڑی روشنی ہوتی تو اسے اکثر ایک کال آتی تھی اور عزیز اسے کہتا کہ میں خود مکان میں موجود ہوں ۔۔۔۔ میں نے لمبی سے ھھھممم کی اور گاڑی سے اترے ہوئے شاکرہ کو پیچھے آنے کا بولا میں نے اپنے پاؤں کے نیچے سے سٹک نکالی اور اس کا سہارا لیتے ہوئے باہر آ گیا میں اس وقت بھی ایک اسٹک کے سہارے چلتا تھا ۔۔۔ میں آس پاس کا جائزہ لیتے اور دکانوں کے سائن بورڈ اور شٹر بکس پڑھتا دوسری طرف سے گھوم کر فرنٹ سیٹ پر آنے لگا تھا اب ہم تقریباً 95 فیصد خطرات میں تھے پولیس افسران کے لئے نازیہ کو پکڑنا نہیں مارنا لازمی تھا اور کیونکہ وہ ان کے سیاہ کرتوتوں کی گواہ تھی ۔۔۔۔ میں نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے ایک دکانیں کا شٹر بکس پڑھا عباس ڈیکوریشن سنٹر ۔۔ (سیج کار سجاوٹ ۔۔وغیرہ ) میرے ذہن میں کوئی خیال آیا اور میں نے اس کا نمبر ڈائل کر دیا آخری لمحات میں کال ریسیو کر لی گئی تھی میں نے دکان کا پوچھا تو بولے 9 بجے کھولیں گے میں نے التجا کی کہ اگر جلدی آ جائیں تو ہم نے کار سجانی ہے اور بہت دور جانا ہے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اور میری التجا پر صاحب بولے دکان کے ساتھ رستہ ہے اس میں جاکر دکان کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دیں میں بیس منٹ میں آتا ہوں میں نے شکریہ ادا کیا اور سائقہ کو گاڑی ادھر لے جانے کا بولا دکان کے پیچھے دو دکانوں جتنا پلانٹ پڑا تھا اور اس پر ہماری گاڑی محفوظ ہو گئی تھی اور روڈ سے نظر نہیں آ رہی تھی میں نے ارم کو کال ملا دی اور اسے صورتحال سے آگاہ کیا بولی واپس ادھر آ جاؤ ۔۔۔ ہم ابھی اس شادی والے گھر سے دو گلیوں کے فاصلے پر ہی تھی میں نے اس سے کہا کہ کوئی دلہن ٹائپ کا لباس بھیج سکتی ؟؟؟ ارم نے پانچ منٹ میں دوبارہ کال کرنے کا بولا میں اس سے پوچھا کہ آپ کے کوچے میں کسی کے سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ؟؟؟ بولی کوچے کے بالکل سامنے والے مکان کے لگے ہوئے ہیں مین گلی میں ۔۔۔ میں نے ارم کی کال بند کر دی اور فوراً دانش کا نمبر ڈائل کر دیا ۔۔۔ دانش نے بتایا کہ۔انھوں نے ٹکٹ خرید لی ہے اور گاڑی کے انتظار میں مسافر خانے میں بیٹھے ہیں میں نے انہیں آہستہ سے نکلنے کا بولا وہاں سے اور کہا کہ اپنی چادریں یہیں چھوڑ دو اور الگ الگ ہو کر جہاں سے نکل جاؤ اور کوئی اور ترتیب سوچو ۔۔۔ دانش نے اوکے کہہ دیا اور کال بند کر دی گاڑی میں سکوت تھا اور سب کے چہرے اترے ہوئے تھے سائرن کی آوازیں ایک بار پھر سے گونجنے لگیں اور گاڑیاں روڈ پر آگے چلی گئیں دکان والا بیس منٹ سے پہلے آ گیا تھا میں اتر کر اس کی طرف چلا گیا اس سے ہاتھ ملایا اور اسے جلدی سے گاڑی سجانے کی اپیل کر دی اس نے پوچھا کہ فل سجانی یا میں نے کہا ہاں فل سجا دو بھر دو گاڑی کو ایک ہی بھائی ہے میرا اور آج تو خرچے کا دن ہے وہ خوش ہوتے ہوئے بولا سر میں نے پہلے اس جیسی صرف ایک کار سجائی سے اگر کہیں تو ۔؟؟؟ خرچہ تھوڑا زیادہ ہے ۔۔۔ میں نے اس کی بات کاٹ دی کہ خرچے کی فکر چھوڑو بس آپ جلدی کر دو سائقہ اور شاکرہ کو دیکھ کر وہ کچھ زیادہ اکڑ دکھاتے ہوئے ہیرو بننے کی کوشش میں جلدی سے ہاتھ چلا رہا تھا ارم اپنے کسی عزیز کے ساتھ موٹرسائیکل پر ادھر آ گئی تھی اور روڈ پر کھڑی ہو کر کال کر کے پوچھنے لگی میں نے اسے دکان کا پتا دیا کہ ہم اس کے پیچھے ٹھہرے ہیں وہ دو منٹ میں ہی آ گئی اور شاپر اٹھائے گاڑی کے اندر چلی گئی ۔۔ ارم کے ساتھ آنے والا شخص میرے ساتھ باتیں کرنے لگا اور میں اسے گاڑی سے تھوڑا فاصلے پر لے گیا کوئی بھی بات کار سجانے میں مصروف اس شخص کو مشکوک بنا سکتی تھی ۔۔۔ اقبال نے کال کر کے بتایا کہ وہ ٹرکوں والے اڈے میں ہیں اور اپنے ایک جاننے والے ٹرک ڈرائیور کے ساتھ کچھ دیر میں نکلنے والے ہیں ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا اور مسلسل رابطے میں رہنے کا بولا ۔۔۔۔ گاڑی سج چکی تھی اپنے ساتھ ٹھہرے اس بندے کے آگے میں فرضی کہانی گھڑ چکا تھا جو ارم کے ساتھ آیا ۔۔۔ گاڑی کو اس بندے نے پھولوں میں ایسا بھر دیا تھا کہ اس کا اوریجنل رنگ بھی کہیں نہیں دکھ رہا تھا میں نے شاکرہ کو کال کرکے کہا کہ ہم دکان میں بیٹھ رہے نازیہ کا لباس بدل دیں۔۔ شاکرہ نے بتایا کہ وہ اپنا کام شروع کر چکے ہیں ۔۔۔ شاکرہ ہمیشہ سے ہی میرے بتانے سے پہلے کام کر دیا کرتی تھی میں نے عباس نامی اس شخص کو چائے کی فرمائش کر دی حالانکہ کہ میں چائے نہیں پیتا لیکن کچھ وقت گزارنے کا یہ اچھا بہانہ تھا ہم ابھی چائے پی رہے تھے کہ شاکرہ نے اوکے کا مسیج کیا روڈ پر پولیس کی گاڑیوں کی نقل وحمل ضرورت سے زیادہ تھی شاید ضلع بھر کی پولیس جاگ چکی تھی ۔۔۔ میں نے کار سجاوٹ کا بل پوچھا تو عباس نے اتنا بتایا کہ اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو اب تک دکان میں لڑائی شروع ہو چکی ہوتی ۔۔ بہرحال میں نے اس کی بتائی رقم اسے تھما دی اور اٹھ گیا ۔۔۔ میں گاڑی سے تھوڑے فاصلے پر تھا کہ ارم گاڑی سے نکل کر میری طرف آ گئی اور مجھے سائیڈ پر لے جا کر کہنے لگی کہ زاہد میں آپ سے گلے ملنا چاہتی ۔۔۔ میں نے مسکرا کر اسے کہا کہ آپ پاگل ہو چکی حالانکہ یہ مجھے ہونا تھا ۔۔۔ بولی سچ میں پاگل ہو گئی ہوں۔۔۔ آپ کی کہانی پڑھنے اور اب آپ سے رائل ملنے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا جیسے میں بہت بڑے لوگوں سے مل رہی ہوں اور اتنے ۔۔۔۔ میں نے ارم کی بات کاٹ دی اور اس سے وعدہ کیا کہ میں شاکرہ اور سائقہ کے ساتھ آپ سے ملنے ضرور آؤں گا ۔کیونکہ تم بہت عظیم لڑکی ہو اور تمھارے احساس اور نیک دلی نے وہ کام کر دیا جو شاید آج تک کسی لڑکی نے اتنا بڑا رسک لینے کا سوچا بھی نہ ہو جیسے ہم آج خطرہ لینے آ گئے ہیں ویسے آپ کی محبت لینے بھی آ جائیں گے ۔۔۔ وہ راضی ہو گئی اور محبت بھری نظروں سے دیکھتے دو قدم پیچھے ہٹ کر گہری سانس لے گئی میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا مجھے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی تھی اور میں بیک سیٹ پر ٹانگیں پھیلا کے بیٹھتا تھا بہرحال میں نے اس پر گزارا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان سب کو کچھ پڑھنے کا بول کر سائقہ سے گاڑی نکالنے کا بولا ۔۔۔ مین روڈ پر ہماری سجی گاڑی سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی میں نے سائقہ سے نارمل سپیڈ میں گاڑی بڑھانے کا کہا ۔۔ نازیہ دلہن بن چکی تھی ہماری گاڑی نے لفٹ سائیڈ پر موڑ۔کاٹا سامنے پولیس ناکہ لگا ہوا تھا سائقہ کانپ گئی میں نے سب کو ریلکیس کا آپشن دیا اور سائقہ سے گاڑی نارمل انداز میں بڑھانے کا بولا ۔۔۔۔ ہم سے آگے ٹھہری گاڑی کی مکمل تلاشی لی جا رہی تھی شاکرہ اور سائقہ کچھ پڑھ رہی تھی میں نے اپنا بٹوہ نکال لیا اور اس سے ایک ہزار کا نوٹ نکال لیا ۔۔ جیسے ہی سائقہ نے گاڑی چند قدم آگے بڑھا کر اگلی گاڑی والی جگہ پر روکی میں نے گاڑی کی کھڑکی کھول کر اس بزرگ حوالدار کو مسکراتے ہوئے سلام کیا اور ہزار کا نوٹ آگے چھپانے والے انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے کہا بارات اور دولہے والی گاڑیاں پیچھے ہیں ان سے مٹھائی نہیں لینی اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولا صاحب پانچ نوٹ نکالیں خوشی کے دن کنجوسی اچھی نہیں ہوتی ۔۔۔ میں نے بھی مسکرا کر کہا لالے بہت سے پیچھے بھی دے کے آ رہے اور آپ کے دوست آگے بھی ہوں گے ۔چلو دوہزار لے لو۔۔۔۔ ایک اور اہلکار بھی آ گیا تھا حوالدار بولا نہیں صاحب پورے پانچ نوٹ۔۔ میں نے کہا او بزرگوں آگے بھی آپ کے دوست ہونگے انکا بھی منہ میٹھا کرنا ہے بولا ہاں آگے بھی ناکہ لگا ہے چلو تین کر دو ہم بندے زیادہ ہیں ۔۔۔ میں نے تین نوٹ اسے تھمائے حوالدار نے مسکرا کر سیلوٹ جیسا مجھے سلام کیا اور میں نے سائقہ کو گاڑی آگے بڑھانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ ایک کلومیٹر سے پہلے ایک اور ناکہ لگا تھا ۔۔۔ پولیس کے دو اہلکار مسکراتے ہوئے ہماری طرف لپکے ۔۔۔ میں نے پہلے سے ہاتھ میں پکڑا نوٹ اس کی طرف بڑھایا اور اس کے بولنے سے پہلے ہی خیر مبارک بھائی خیر مبارک ۔۔۔ ایک بولا پیچھے تین نوٹ اور ہمیں ایک ۔۔۔ میں نے لمبی سی اوووو کی اور بولا بھائی اب تو جیب بھی خالی ہو گئی ۔۔ بولے خوشی والے دن سوٹ کیس کھولے جاتے صاحب جیبیں کام نہیں آتی میں نے مسکرا کر تین نوٹ ان کو تھما دئیے ۔۔۔ ہم نے دوسرا ناکہ بھی کراس کر لیا تھا ۔۔۔۔ ہم نارمل رفتار سے چلتے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے تھے پیچھے سے ایک پولیس موبائل سائرن بجاتی آن دھمکی ۔۔۔۔ ہم بوکھلا گئے ۔۔۔۔ ہمارے آگے رکتی پولیس وین میں موجود اہلکاروں کے مسکراتے چہرے دیکھ کر میں نے ہلکی آواز کہا ۔۔ پیسے لینے آئے ہیں ۔۔۔ سائقہ نے گاڑی روک دی ۔۔۔ بھاگ کر آنے والا پولیس اہلکار بولا صاحب کی مٹھائی ۔۔۔ میں نے پیچھے بیٹھی شاکرہ سے اپنی اسٹک لی اور اس پولیس اہلکار سے باتیں کرتا میں پولیس وین کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے صاحب کو میں نے مسکرا کر سلام کیا بولے ہماری مٹھائی بغیر جا رہے میں نے کہا صاحب آپ کے سب چہیتوں کو دے۔کر آئے ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں بکرا بھی دیں گے اور مٹھائی کے ٹوکرے بھی ۔۔۔۔ بولے بس ادھر دے دو ۔۔۔ آج ایمرجنسی لگی ہے ۔۔ میں نے بٹوے سے پانچ ہزار کا آخری نوٹ نکالتے ہوئے پوچھا خیریت سر کیسی ایمرجنسی ؟؟؟ بولے ہاں ایک لڑکی اغواء ہوئی ہے ۔۔۔ میں نے اوہو کہا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا سر پلیز آپ دوہزار مجھے دے دیں میری جیب خالی ہو گئی ۔۔۔اس نے اکھڑے لہجے میں کہا دس ہزار نکالو دس۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا سر آپ مجھے دوہزار دے دین بارات اور دولہا پیچھے آ رہے آپ ان سے پورا دس ہزار لے لینا میرا پرس خالی ہو گیا اس نے میرے ہاتھ سے پانچ ہزار کا نوٹ کھینچا اور اپنے ڈرائیور سے بولا چلو یار ۔۔۔ یہ کوئی سب انسپکٹر تھا ۔۔۔ وین تھوڑا آگے جاکر پیچھے کو ٹرن لے رہی تھی میں نے سائقہ کو گاڑی لانے کا اشارہ کیا ۔۔۔ شاکرہ نے میرے ہاتھ سے اسٹک لیتے ہوئے پوچھا ۔کیا کہہ رہے تھے ۔۔۔ میں مسکرایا اور بولا پتا نہیں کوئی لڑکی اغواء ہو گئی ہے ۔۔۔ سائقہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسی اور بولی اللّٰہ اس لڑکی کے حال پر رحم کرے دن کے بارہ بج چکے تھے اور ہم اس ضلع کی حدود کراس کر آئے تھے اب میں نے سائقہ سے گاڑی روکنے کا کہا اور نازیہ کو فرنٹ سیٹ پر آنے کا بولا اور میں بیک سیٹ پر شاکرہ کی گود میں اپنا سر شاکرہ کی گود میں رکھ کر قدرے لمبا ہو گیا سائقہ گاڑی کی سپیڈ بہت بڑھا چکی تھی اس دوران گاڑی تھوڑی لہرائی لیکن سائقہ نے اسے کنٹرول کر لیا اور سپیڈ ایک دم کم کردی ۔۔ شاید سائقہ کو نیند کا جھٹکا لگا تھا ہم گزشتہ تقریباً 36 گھنٹوں سے جاگ رہے تھے میں نے آواز دی میں آ جاؤں سائقہ ؟؟۔ آپ پیچھے سو جاؤ ۔۔۔۔ سائقہ بولی حکومت نے آپ کی ڈرائیونگ پر پابندی لگائی ہے سائقہ نے شاکرہ سے پانی کی بوتل مانگی اور گاڑی روک کر اپنا ماسک اتارا اور چہرے کو گاڑی سے باہر نکال کر دھونے لگی آس پاس ویرانی تھی میں نے شاکرہ سے کہا گاڑی پر سے پھول کلیاں اتار پھینکو۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ نے دو منٹ میں ان پھولوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ۔۔۔ سائقہ نے فل والیم میں میوزک لگایا اور اس پر اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتی ڈرائیونگ کرنے لگی ہمیں بھوک لگ رہی تھی کیونکہ رات سے اب تک ہم نے پانی پر گزارا کیا تھا اور کچھ دانے بادام کھائے تھے .,. لیکن رستہ کوئی بھی اچھا ہوٹل نہیں مل رہا تھا سو ہم نےشہر جا کر وہیں کھانے کا فیصلہ کیا سائقہ اور شاکرہ وقفے وقفے سے نازیہ سے گفتگو کرتے اس کو زندگی کی طرف لٹانے کی کوشش کر رہے تھے میں نے نازیہ کو بولا کہ وہ بڑی چادر اتار دے سائقہ سے بولا کہ نازیہ کو ماسک دے دو۔۔۔ نازیہ حیرت سے ہمیں اور آس پاس دیکھ رہی تھی ہم شہر میں پہنچے تو سائقہ نے گاڑی بریانی ہاؤس کی طرف موڑ دی ۔۔۔(جاری ہے)

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X