Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

زینت ایک دیہاتی لڑکی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #91
    واہ بہت عمدہ اور شہوت انگیز سٹوری ھے بہت آر پڑھی ھےہر با اک الگ ہی مزہ ملتا ہے

    Comment


    • #92
      سعدیہ کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی پھر اپنی بچی کو چارپائی پر سلا کر اٹھ گئی اور کمرے کے باہر دیکھتے ہوئے ایک بکسے کا ڈھکن اٹھا کر عجلت میں اپنا ہاتھ اس میں آگے بڑھا کر پیسے رکھ کر اس کو بند کر دیا اور دوبارہ اپنی بچی کو گود میں اٹھا کر اس دوسری چارپائی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ میں نے سکوکا پوچھا تو بولی بس آٹھ تک پڑھا ہے ابو نہیں پڑھنے دیتے تھے ۔۔۔ پھر سنٹر سے سلائی کا کام سیکھا ۔۔۔۔۔ پھر وہ دانت پیستے ہوئے بولی اس گھر والوں سے میری ایک سلائی مشین تک نہیں خریدی جا سکی ۔۔۔۔ میں نے پوچھا سلائی کر لیتی ہو ۔۔ بولی بہت بہترین اور اس بستی میں تو کوئی اور سلائی والی بھی نہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ آپ کی سلائی مشین کا بھی کوئی بندوبست کر لیتے ۔۔۔ وہ خوش ہو۔کر بچی کو پھر چارپائی پر سلاتے ہوئے آہستہ سے بولی ۔۔۔ پھر آپ یہ پیسے رہنے دیں ۔۔۔ میں نے اس بازو سے ایسا پکڑا کہ میرے ہاتھ کا انگوٹھا اس کے موٹے بوبز پر دباؤ بڑھا گیا ۔۔۔۔۔ وہ میرے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے بیٹھ گئی اور دروازے کو دیکھ کر بولی خالہ بہت شکی عورت ہے ۔۔۔ میں نے کہا آرام سے بیٹھو۔۔۔ بس پیسوں کو رہنے دو ۔۔۔۔ وہ اب خاموش تھی اور مجھے لگا کہ اس کے لب ذرا کانپ رہے ہیں ۔۔۔ باہر قدموں کی آواز کے ساتھ مہوش اونچی آواز سے بولتی کہتی آ رہی تھی ۔۔۔ خیر ہے ماموں لوگ ویسے بھی لیٹ کھانا کھاتے۔۔۔ مہوش کے ڈش اٹھا کر کمرے میں آنے کے بعد باجی بھی آ گئی تھی اور میں نے موبائل کو رکھ کر چارپائی سے اتر کر اس سے ملا۔۔۔ کھانا میرے سامنے رکھ کر مہوش بولی آ جائیں ماموں ہاتھ دھو لیں ۔۔۔ میں اٹھ گیا روم سباہر آنے پر مہوش نے ایک اسٹیل کا لوٹا اٹھا کر میرے ہاتھوں پر پانی ڈالا ۔۔۔ باجی مجھ سے باتیں کرتی مہوش سے بولی آپ ماموں کے ساتھ کھانا کھا لو ۔۔۔۔۔ ہم بعد میں کھا لیں گی ۔۔۔ میں نے باجی اور سعدیہ کو بولا کہ آ جائیں ایک ساتھ کھا لیتے ۔۔۔ لیکن اس نے انکار کر دیا کہ بس آپ کھائیں ۔۔۔ ہم نے کھانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ مہوش نوالہ بنا کر کئی بار ایسا انداز اپنا گئی تھی جیسے وہ اپنی عادت کے مطابق مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی ۔۔۔۔ پھر بولی امی مالٹے ۔۔۔۔۔ باجی یہ کہتے ہوئے اٹھ گئی کہ میں لاتی ہوں میں نے کھانے پر چلتے اپنے ہاتھ کو تھوڑا آہستہ کر لیا ۔۔۔ باجی کے باہر نکلتے ہی مہوش نے اپنا ہاتھ میرے منہ کی طرف بڑھا لیا سعدیہ آہستہ سے بولی ۔۔۔ محبتیں محبتیں ۔۔۔ مہوش اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی ۔۔۔ دو تین نوالے مہوش کے ہاتھ سے کھانے کے بعد میں نے ایک نوالہ بنا کر اپنا ہاتھ سعدیہ کی طرف بڑھا لیا وہ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکا کر پھر روم کے دروازے کو دیکھتی ہوئی ۔۔۔ اپنا منہ کھول گئی ۔۔۔ مہوش مسکرا کے بولی ۔۔۔ بھابھی سے گپ شپ ہوئی ۔۔ میں نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور بولا ۔۔ گپ شپ نہیں ہوئی ۔ دوستی ہو گئی ۔۔۔ مہوش بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا سر ہلا کر بولی ۔۔۔ اب اپنی خیر مناؤ۔۔۔ سعدیہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن میں نے ایک اور نوالہ اس کے لبوں کے قریب کر دیا مہوش اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے سعدیہ کی طرف بڑھا کر بولی جلدی کھا بھی لو ۔۔۔ باجی روم میں آ گئی تھی ۔۔۔۔ کھانے کے بعد بہت دیر تک سب بیٹھے مجھ سے باتیں کرتے رہے پھر باجی ان دونوں کو دیکھ کر بولی چلو سو جاؤ اب بچی بھی سردی میں پڑی ہے ۔۔۔ بھائی کو بھی سونے دو بہت رات ہو گئی وہ دونوں چلی گئیں تھی باجی اٹھتے ہوئے بولی اچھا بھائی میں بھی سوتی ہوں آپ کنڈی لگا دیں اور پھر وہ آہستہ سے چلتی ہوئی باہر چلی گئی اور دروازے سے ایک بار پھر جھانک کر بولی کنڈی لگا دو بھائی ۔۔۔ میں نے اٹھ کر کنڈی لگا دی اور ایک طرف موٹے دھاگے میں سکڑے پردے کو دروازے پر پھیلا دیا میں نے لیٹ سے پہلے اپنی پینٹ اتار کر اسے لپیٹ کر تکیے کے دوسری طرف رکھ دیا ۔۔۔ اور انڈرویئر درست کرتا بستر پر لیٹ کر رضائی اپنے اوپر تان لی میں نے موبائل اٹھا لیا اور واٹس ایپ چیک کرنے کے بعد فیسبک کی طرف آ گیا ۔۔۔۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے بستی میں ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔۔ میں نے موبائل رکھ دیا اور آنکھیں بند کر کے سائقہ کی دن بھر کی باتوں کو اپنے ذہن میں دہرانے لگا ۔۔۔ اس دوران کھڑکی کھلنے کی آواز کے ساتھ اس پر لگا چھوٹا پردہ تنبو بنتا اٹھنے لگا اور پھر مہوش نمودار ہو گئی میں نے مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا اور آکر دروازے کی طرف چلی گئی اور کنڈی چیک کرنے کے بعد میری طرف آ گئی وہ میرے پاس بیٹھ کر مجھے کسنگ کرتے پوچھا صبح کس ٹائم جائیں گے ۔۔۔ میں نے کہا صحب نو بجے میں نے سائقہ کے پاس جاؤں گا اور شام کو آپ کے پاس آئیں گے اور پھر جہاں سے نکل پڑیں گے ۔۔۔ بولی نو بجے کیوں لیٹ چلے جانا ۔۔۔ میں نے کہا نہیں سقی سے وعدہ کیا ہے ۔۔۔ بولی آپ نے اسے بہت سر پر چڑھا لیا ہے ۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا آپ کو نہیں چڑھایا ؟؟؟ وہ ہنس کے ببلو پر کہنی مارتے ہوئے بولی مجھے صرف اس پر چڑھایا ہے اور اسے دونوں سروں پر ۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا سعدیہ کہاں ہے بولی بچی کو سکا رہی ہے ابھی بھیجتی ہوں اسے ۔۔۔ پھر وہ اٹھ گئی اور کوئی بکسہ کھول کر ایک صاف کپڑا میرے ساتھ رکھ کر بولی ۔۔ صبح امی کے سامنے کاکی کو صرف 500 روپے دے دینا میں نے اوکے کر دیا اور وہ چلی گئی کوئی دس منٹ بعد سعدیہ کمرے میں آ گئی تھی اور مسکراتے ہوئے سلام کرتی ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ گئی اور سر جھکا کر بیٹھ گئی میں نے پوچھا ننھی سو گئی ۔۔۔ بولی مہوش سلا رہی ہے اسے ۔۔۔ بولی خالہ کو مشین کا کیا کہوں گی ؟؟؟ وہ تو پھر رولا کرتی ہے میں نے مسکرا کر کہا ابھی آپ کسی کے سامنے نام نہیں لو ۔۔۔ میں کبھی شاکرہ کو ساتھ لے آؤں گا وہ آپ کو دے جائے گی ۔۔۔ اس نے فوراً کہا ہاں یہ ٹھیک ہے اس کا جسم کانپ رہا تھا ۔۔۔ میں نے کہا سردی ہے ادھر آ جاؤ۔۔۔ وہ سر جھکا کر خاموش ہو گئی میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنی طرف کھینچ لیا اور ساتھ لٹا کر رضائی لپیٹ لی ۔۔۔وہ لرز گئی تھی اور پھر اپنا سر اٹھا کر روم کے دروازے کی طرف دیکھا میں نے کہا کنڈی لگا دی ہے میں نے اس کی کمر کو پکڑ کر اپنا ساتھ ملا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی بھر کے پیار کرنے کے بعد میں نے اسے پگھلا دیا تھا اور اب وہ بار بار مجھے پکڑ کر بیتاب ہو رہی تھی قمیض اس کی پہلے اتار لی تھی ۔۔۔ میں نے اس کی شلوار کو نیچے سرکاتے ہوئے میں اس کی ہپس کو تھپکی دیتا جا رہا تھا وہ ہلکی سیٹی کی آواز سے سسک رہی تھی ۔۔ میں نے اسے کپڑوں کی قید سے آزاد کر لیا تھا اور اپنی انڈرویئر اتار کےسعدیہ کے ہاتھ کو پکڑ کر ببلو پر رکھ دیا ۔۔ اس نے ہاتھ پھیر کے فوراً مٹھی بھری اور ایک دم اٹھ کر رضائی ہٹاتے ہوئے ببلو کو دیکھ کر کھلے منہ پر ہاتھ رکھتے اففففففففف کہہ دیا اس نے آنکھیں بند کر لیں تھی میں نے اسے لٹا دیا اور اس کی ٹانگوں کو کھولتا ہوا ان کے درمیان بیٹھ گیا اس کی ٹانگیں لرز گئی تھیں اور اس نے بستر پر اپنی مٹھیاں سخت کر لیں تھی میں نے ٹوپی کو تر کیا اور ببلو کو آزاد چھوڑتا سعدیہ کے گدے جیسے بدن پر لیٹ گیا ببلو نے اپنا رستہ ڈھونڈ لیا تھا بغیر رکے نرمی سے اترتا جا رہا تھا سات انچ پر سرخ چہرے کے ساتھ سعدیہ کی۔مشکل سے آواز نکلی ۔۔۔ بسسسسسسس۔۔۔میں نے اس کے لبوں کو چوستے ببلو پر دباؤ بڑھا دیا ۔۔۔ سعدیہ کے لبوں سے وائی کی ںلند آواز نکلی اور اس نے تکیہ کی قریب ہاتھ پھیر کر اپنی قمیض اٹھائی اور اس اپنی دانتوں تلے دبا لیا ببلو کو سعدیہ کے اندر جڑ تک اتارنے کے بعد میں اس کے موٹے بوبز کے براؤن نپلز پر جھک گیا ۔۔۔۔ جل دی کا روووو۔۔۔۔۔۔ اونہہہہہہہ آئی کی ابھرنے والی سعدیہ کی آوازیں مجھے مزا دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس نے پھر اپنی قمیض کے ایک بڑے حصے کو دانتوں میں دبایا اور میں نے اپنی حرکت شروع کر دی ۔۔۔۔۔ جانے کب سے ترسی سعدیہ نے پانچ منٹ میں اپنی ببلی کو گیلا کر دیا تھا اور مجھے اپنے اوپر پکڑ لیا تھا ۔۔۔ میں نے حرکت کرنے کی کوشش کی تو بولی بسسسس ۔۔۔ اششششش بہت سخت ہے میرا اندر کٹ گیا ہے میں نے کہا بس تھوڑا سا ۔۔۔ میں ابھی پورا نہیں ہوا وہ کچھ دیر خامشی سے اپنی چہرے کی تکیہ پر سائیڈیں بدلتی پھر بولی اچھا تھوڑا کم کر لو ۔۔۔ مجھے بہت درد ہو رہا ۔۔اس دوران مہوش نے کھڑکی کا پردہ اٹھا کر دیکھا اور مسکرا کر چلی گئی تھی ۔۔۔ میں نے سعدیہ سے بولا اوکے تھوڑی کھڑی ہو جاؤ پھر آدھا جائے گا اندر ۔۔۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اٹھنا چاہا میں نے ببلو کو آہستہ سے باہر نکال لیا وہ اپنی ببلی پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر کے کچھ دیر وششش وششش۔کرتی اٹھنے لگی تھی میں نے اسے بستر پر گھوڑی بنایا اور چارپائی سے اتر کے اس کی کمر کو نیچے جھکایا اور اپنا ایک پاؤں چارپائی پر رکھ کر آدھا ببلو اندر ڈال کر جھٹکے دینا شروع کر دیئے اس کی ہپس سائقہ سے بھی موٹے تھے اور دیکھنے میں بہت دلکش نظارہ پیش کرتے مچل رہے تھے اس سٹائل میں آدھا بھی اسے بہت تکلیف دے رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ لگا کر ببلو کے آدھا اندر جانے کی تسلی کی ۔۔۔ سائقہ اور مہوش کے ساتھ سیکس کرتے اب ایسی درد بھری آوازیں سننے کو نہیں ملتی تھی اور مجھے بہت دنوں بعد سعدیہ کی درد بھری آہیں سن کے اچھا لگ رہا تھا میں آخری لمحات کی طرف بڑھنے لگا تھا اور سعدیہ کے ہپس پکڑ کر میں نے اپنے جھٹکوں کی رفتار بڑھانے کے ساتھ ببلو کو بھی آگے کرتا جا رہا تھا سعدیہ نے ایک بار پھر اپنی قمیض دانتوں تلے دبا لی تھی اب تقریباً پورا ببلو تہہ تک جا رہا تھا اور سعدیہ کے۔ہپس میرے جسم سے ٹکرا رہے تھے سعدیہ اپنے جسم کو اکڑتے ہوئے آئی آئی کی دبی آواز کے ساتھ آگے لیٹنے لگی اور میں ہپس کو پکڑتا ببلو باہر نکالنے بغیر اس کی موٹے ہپس پر بیٹھ کر تقریباً پورا ببلو اندر باہر کرتااس نظارے کے ساتھ ساکت ہونے لگا۔۔۔۔ لاوا اندر جاتے ہی سعدیہ نے اووووہ کہ دیا اور اپنا ماتھا بستر پر ٹیکا دیا ۔۔۔۔۔ میں اس کی ہپس کو سہلاتا ببلو کے خالی اور پرسکون کرنے کے بعد اسے بسہر نکال لیا اور سعدیہ کے ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔ وہ لمبی سانسوں اور ہچکیوں کے ساتھ اس کے آنسوؤں بہہ رہے تھے میں نے کسنگ کرتے ہوئے پوچھا ۔۔درد ہو رہا ۔۔ اس نے ہچکی لے۔کر ہونہہہہ کہا ۔۔۔ میں بولا ابھی ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔ بولی۔درد سے بھی برا ہو گیا ۔۔۔ میں چوکنا وہ کیسے ؟؟؟ بولی اکرم تو شاید اب بھی ایک۔سال بعد آئے گا اور اس سے پہلے دوسرا بچہ ہو جائے گا میں نے ہنس کے کہا نہیں ہو گا بےفکر ہو جاؤ۔۔۔ میں نے اس کے آنسو صاف کیئے ۔۔۔ بولی کیسے نہیں ہو گا ۔۔۔ میں نے کہ کل میں سائقہ کو جب لے کر مہوش کو لینے آؤں گا تو آپ کو گولیوں کے ساتھ کھانے کی ترکیب کی پرچی بھی بھجوا دون گا ۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔۔۔ وہ کچھ مطمئن ہو گئی ۔۔۔ پھر سیدھی ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ رنڈیاں کیسے کرتی ہیں میری تو جان نکل گئی ۔۔۔ اففففف بہت سخت ہو تم۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے کپڑے پہننے لگی ۔۔۔ اور جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔ میں نے کھڑے ہو کر اس کو گلے لگایا اور کچھ دیر تک اس کے ہپس کو اپنے ہاتھوں میں بھرنے کے ساتھ جھک کر اس کے گال چوسے ۔۔۔۔ وہ چلی گئی تھی میں نے انڈرویئر پہنا اور رضائی میں دب گیا کچھ دیر بعد ہنستی مہوش کھڑکی سے اندر آئی اور بولی۔کیوں کر دیا میری بھابھی کو ۔۔۔۔ میں نے کہا کیوں کیوں ہوا ۔۔۔ بولی توبہ توبہ کر رہی ہے ۔۔۔ بہت درد ہے اسے ۔۔۔ مہوش کچھ دیر میرے ساتھ لیٹی باتیں کرتی رہی اور پھر یہ۔کہہ کر چلی گئی سو جاؤ ۔۔۔ اور صبح سائقہ کے گھر جا کر نہا لینا ۔۔۔ ادھر نہ نہانا امی پہلے بھی بھابھی پر شک کرتی ہے ۔۔۔ میں نے اوکے کہا اور سو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح میں 9:05 بجے سائقہ کے گیٹ پر پہنچا ۔۔۔ اس نے گیٹ کھول دیا اور مجھے شیشہ کھولنے کا اشارہ کیا میں نے شیشہ نیچے اتار دیا ۔۔۔ بولی سیدھے اپنی باجی کے پاس چلے جاؤ اور پانچ گھنٹے مجھ سے بات نہیں کرنی ۔۔۔ پورے پانچ منٹ لیٹ آئے ہو ۔۔۔۔ میں مسکرا کر آگے غلا گیا باجی میرا استقبال کرنے روم سے باہر آ چکی تھی ۔۔۔۔ میں مہوش کے گھر سے جلدی نکل آیا تھا اور رستے میں ایک حمام پر نہانے اور میڈیکل سٹور سے ٹیبلیٹس لینے کی وجہ سے پانچ منٹ تاخیر سے سائقہ کی ناراضگی مول لے گیا تھا ۔۔۔۔وہ بہت دیر میرے سے نہیں بولی تھی اور باجی اس کو بار بار مسکرا کے ٹوک رہی تھی ماموں سے ایسا نہیں کرتے ۔۔۔ بولی مجھے پتا ہے ماموں کے ساتھ ایسا نہیں کرتے ۔۔۔ اس نے کھانا میرے ساتھ کھایا تھا لیکن بی نہیں تھی ۔۔۔ میں باجی سے باتیں کر رہا تھا اور پھر سائقہ ساتھ آ کر خامشی سے کھڑی رہی ۔۔۔ اور کچھ دیر بعد ایک دم سے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر بولی السّلام وعلیکم ماموں کیسے ہیں آپ۔۔۔۔ باجی بولی ہاں اب کیا ہوا ۔۔۔سائقہ بولی 2:05 منٹ ہو چکے ہیں یعنی نخرے کے پانچ گھنٹے پورے۔
      سائقہ کچھ دیر میرے سے باتیں کرتی رہی اور پھر اپنی امی کی چائے بنانے چلی گئی سائقہ کے جانے کے باجی بولی بھائی آپ مے اسے بہت لاڈلا بنا لیا ہے ۔۔۔ اب مجھے لگتا ہے کہ یہاں اب اس کا دل بھی نہیں لگتا ۔۔۔ میں نے فوراً کہا نہیں باجی ایسا نہیں ہے میں ان کو زبردستی روک لیتا ہوں ورنہ یہ ہر ہفتے آنا چاہتی ۔۔۔ کل بھی میں نے کہا کہ میں بزی ہوں تو رونے لگی ۔۔۔۔ باجی مسکرا کر خاموش ہو گئی اور اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔ سائقہ اپنی امی کو چائے دیتے ہوئے بولی جلدی سے کڑوی چائے پی لو پھر آپ کو ایک بات بتاتی ہوں ۔۔ وہ مسکرا رہی تھی ۔۔ باجی شوگر کی وجہ سے چائے میں میٹھا بالکل استعمال نہیں کرتی تھی ۔۔۔ میں نے سائقہ سے کہا آپ باجی کو مزے کی بات ضرور بتاؤ لیکن ساتھ تیاری بھی کر لو بس نکلتے ہیں ۔۔۔ بولی کچھ دیر تو مجھے امی کے پاس رہنے دو ۔۔۔ شام کو چلے جائیں گے ۔۔۔ باجی چائے پینے کے بعد بولی ۔۔۔ تیاری کر لو بس شام کو اندھیرے کے دھکے کھانے سے بہتر ہے وقت پر پہنچ جاؤ۔۔۔۔ سائقہ نے بولا امی باہر آؤ تو ۔۔۔ باجی بولی ادھر بتا دو کیا مسئلہ ہے بولی نہیں امی مسئلہ کوئی نہیں ہے ۔۔۔ آپ باہر آؤ ۔۔۔ سائقہ نے مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے ۔۔۔ دوسری چارپائی پر پڑے تکیہ کو اٹھایا اور امی کا ہاتھ پکڑ کر باہر جانے لگی میں سمجھ چکا تھا کہ وہ کیا کرنے والی ہے ۔۔ میں صحن میں بچھی ایک چارپائی پر بیٹھ گیا سائقہ اپنی امی کو گاڑی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آئی ہے تکیہ رکھ کر بیٹھ گئی اور گاڑی اسٹارٹ کر کے اس بڑے صحن میں گھمانے لگی باجی بہت حیرت زدہ اسے دیکھتی جا رہی تھی پھر سائقہ نے گاڑی روکی اور اپنی امی کو دیکھ کر ہنسنے لگی باجی مسکراتے ہوئی نیچے اتر آئی تھی اور میرے پاس آتے ہوئے بولی آپ نے اس چھوکری کو میرے ہاتھ سے نکال دیا بھائی ۔۔۔ میں خاموش بیٹھا رہا ۔۔۔ شام سے کچھ قبل ہم وہاں سے نکل پڑے تھے بستی کی گلی سے نکلنے وقت بار بار گزری شب والا سین مجھے کچھ سنجیدہ کر رہا تھا اور میں خود کو کنٹرول میں لاکر صرف سائقہ تک محدود ہونا چاہتا تھا میری سنجیدگی دیکھتے ہوئے سائقہ بولی مانوں۔۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولا نہیں تو ۔۔۔ بولی اتنے سنجیدہ کیوں بیٹھے ہو۔۔۔۔ سوری لیکن پانچ منٹ کی انتظار میں میں نے جو تکلیف برداشت کی وہ تم نے پانچ گھنٹے میں نہیں خر سکے ۔۔۔ میں نے بولا میں کسی اور وجہ سے سنجیدہ ہو گیا تھا ۔۔ پوچھا کس وجہ سے ۔۔۔ میں کچھ دیر خاموشی سے سامنے کچے رستے کو دیکھنے کے بعد گہری سانس لیکر بولا ۔۔۔ سقی میں بہت بڑھ گیا ہوں اور اب صرف تمھارے تک محدود ہونا چاہتا ہوں ۔۔۔ پوچھا یہ اچانک خیال کیسے آ گیا ۔۔۔۔ میں نے چند لمحے کی خامشی کے بعد پینٹ کی جیب سے چھوٹا لفافہ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا سائقہ اسے ٹٹولتی ہوئی بولی اس میں کیا ہے ؟؟ میں نے کہا یہ لفافہ سعدیہ کو دے دینا ۔۔۔ اس میں پین اور وقفے کی گولیاں ہیں ۔۔۔ سائقہ نے لمبی سی اووووو کی اور اپنا سر سیٹ سے ٹکرا کر کچھ دیر مسکراتے چہرے کے ساتھ باہر دیکھتی رہی مکن روڈ پر آنے کے بعد میں نے پوچھا ۔۔ چلاؤ گی ؟؟۔ بولی مہوش کو لینے کے بعد چلاؤں گی ابھی برقعہ اتارو پھر ان کی بستی میں جا کر پہن لو پھر اتارو۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ مہوش کے گھر میں چلی گئی تھی اور میں گلی کی نکر سے گاڑی موڑ کر واپس آ گیا تھا کچھ دیر یہ دونوں باتیں کرتی آئیں اور پیچھے بیٹھ گئیں مین روڈ سے سائقہ نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہمیں شہر پہنچا دیا تھا رات ان کے ساتھ سو گیا اور صبح ان کے کالج جانے کے بعد میں نے الیکٹریشن کو بلوا کر گیزر اور کچھ دیگر مرمت کر دی گھر۔کی چابیوں کے تین سیٹ بنا۔لئے تھے جن میں ایک میرے پاس اور باقی دو ان کے پاس تھے میں ایک بجے سے پہلے شاکرہ کو لیکر گھر آ گیا تھا زینت کو بیٹا تین ماہ کا ہو چکا تھا لیکن ہم نہیں جا سکے تھے رات دیر تک شاکرہ اور میں باتیں کرتے بیٹھے رہے تھے سونے سے قبل شاکرہ بولی میرا آجکل کہیں جانے کو دل کر رہا ہے ۔۔۔ میں نے کہا چلتے ہیں جہاں بولو ۔۔۔وہ کچھ سوچتے ہوئے خاموش رہی پھر بیڈ پر لیٹے ہوئے بولی زینت کے گھر چلیں صبح ؟۔۔ میں نے کہا ہاں کل ہفتہ ہے اور زینت سے ہوکر آگے بھی چلے جاتے ۔۔۔ میں نے اسے بتایا کہ مہوش کی بھابھی سلائی کا کام اچھا کر لیتی لیکن اس کے پاس سلائی مشین نہیں ہے اور اس کا ہاتھ تنگ ہوتا ۔۔۔ بولی جاتے وقت بازار سے لیتے جائیں گے پروگرام فائنل ہونے کے بعد میں نے سائقہ کو میسج کر دیا کہ صبح کالج نہیں جانا اور گھر جانے کی تیاری کر لینے شاکرہ اور میں آپ کو ہاسٹل والی گلی سے کچھ پہلے پک کر لیں گے ۔۔ میں صبح آپ کو ٹائم بتا دونگا ۔۔۔۔ ہم سو گئے ۔۔۔۔ صبح ہم زینت کے گھر سے دو بجے کھانا کھا کر آگے چل پڑے مہوش کے گھر شاکرہ نے چائے پی اور اسے سیونگ مشین گفٹ کر دی شاکرہ اور میں شام سے کچھ قبل نکل پڑے تھے ۔۔ اگلے روز میں شام سے قبل سائقہ اور مہوش کو لے کر آ گیا تھا اور انہیں مکان میں چھوڑنے کے بعد گھر آ گیا تھا ۔۔۔۔۔ ان کے امتحانات شروع ہونے لگے تھے یہ دونوں بہت محنت کر رہی تھی اور جب ان کے دماغ پر گرمی چڑھنے لگتی تو سائقہ مسیح کر دیتی آ جاؤ مانوں آ جاؤ ۔۔۔ ان کو ریفریش کرنے کے بعد میں واپس آ جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے بہت اچھے نمبر لئے تھے جبکہ مہوش بمشکل پاس ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ امتحانات کے بعد ہماری پرانی روٹین بحال ہو گئی گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے انھوں نے گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ وہ چھٹیوں میں ٹیوشن اکیڈمی کھول کر بچیوں کو پڑھائیں گی ۔۔۔ سو چھٹیاں ان کی بہت اچھی گزر رہی تھیں وہ ایک گھنٹہ محلے کی بچیوں کو پڑھا لیتی تھی ۔۔۔ سائقہ کے ابو سے میری ہفتے دس دن میں بات ہو جاتی تھی انہوں نے ستمبر میں گھر آنا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن آگست کے پہلے ہفتے میں قطر کے ایک نمبر سے مجھے کال موصول ہوئی اور مجھ سے سائقہ کے ابو کا پوچھا گیا کہ آپ کے کون ہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا بھائی ہیں ۔۔۔اطلاع دی گئی کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں ۔۔۔۔ میں بہت دیر پریشان بیٹھا کچھ سوچتا رہا اور پھر اطلاع دینے والے اسی نمبر پر کال کر کے اس سے میت پاکستان تک پہنچانے میں مدد طلب کی ان صاحب کی فرمائش پر میں نے فوری عمل کر لیا اور انہوں نے مسلسل رابطے میں رہنے کا عہد کرکے فون بند کر لی ۔۔۔ میں نے سائقہ کے ابو کا نمبر ملایا تو وہ بھی ان صاحب نے ریسیو کر لیا یہ بدھ کا دن تھا اور میں ایک بجے ان کے پاس پہنچ گیا اور ان سے باتیں کرتا ہوا انہیں کہا کہ چلو بستی چلتے ہیں سائقہ نہ چاہتے ہوئے بھی میری بات پر فوراً تیاری کرنے لگی شاکرہ کو میں پہلے بتا چکا تھا اور اسے اپنی امی کے پاس پہنچا آیا تھا ۔۔۔ جیسے میں نے پہلے بتایا کہ سائقہ نے ابو نے پسند کی شادی کی تھی اور اس کے اس کی بیوی کے خاندان کا برتاؤ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا ۔۔۔ ادھر میرا حال بھی کچھ ایسا تھا شاکرہ سے شادی کے بعد میرے خاندان نے جو پےدرپے مجھ پر اور شاکرہ پر حملے کئے ان کو برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی ۔۔۔۔ سائقہ رستے کئی بار پوچھ چکی تھی کہ مانوں آپ پریشان اور الجھے ہوئے کیوں ہیں میں ہر طرف سے اعصاب کو مضبوط کر چکے تھا اور ویسے بھی میں ایک مضبوط اعصاب کا۔مالک ہوں اور 19 برس کی ایک لڑکی کا جان جانا اس کی مجھ سے محبت کی نشانی تھی ۔۔۔۔۔۔ ہم سائقہ کے گھر پہنچ گئے تھے اور اس سے قبل مہوش کو بھی اس کے گھر چھوڑ آئے تھے ۔۔۔میں نے ان کو دوسرے دن سہہ پہر کے وقت کسی طور بتا گیا اور اس کے بعد میں اٹھ کر زینت کی امی کے گھر آ گیا کیونکہ سائقہ کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی اور ممکن تھا کہ میں اس کو گلے لگا کے رو دیتا ۔۔۔۔ قطر والے صاحب سے میں مسلسل رابطے میں ۔تھا اور کل اس نے وہاں سے میت روانہ کرنی تھی ۔۔۔ اس وقت میں نے سائقہ کے بھائی شفقت کو کال کر کے اطلاع دی ۔۔۔۔ اور شفقت سے میں جنازے والے دن پہلی بار ملا تھا ۔۔۔۔ چالیسویں کے قبل وہ کراچی ا گیا تھا اور سب کو اس کے اس روپے کا بہت افسوس تھا ۔۔۔ کالج کھلنے کے دس روز بعد میں مہوش کو لے آیا تھا اور مسلسل اس کے ساتھ رہ رہا تھا ۔۔۔ سائقہ چالیسویں کے ایک ہفتہ بعد آئی تھی زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آنے لگی میں ایک روز سائقہ کی امی کے گھر قریبی شہر سے فرنیچر کے کاریگر کے ساتھ پہنچ گیا ۔۔۔اور اس سے شفقت کے کمرے لکڑی کے فل کام کا بول دیا وہ دوسرے دن سے کام پر لگ گیا اور ایک ہفتے بعد ایک بہترین کام کر کے غلا گیا تھا شفقت کی بچپن میں منگنی ہو چکی تھی لیکن اب وہ اس کے روپے کی وجہ سے بیک فٹ پر آ گئے تھے میرے جانے کے بعد معاملہ میں نے اپنے طور پر سب کچھ بہتر بنا کرشفقت کی جنوری کے آخر میں شادی کرا دی تھی شادی کے دنوں میں میں پورا ہفتہ وہیں اس چھوٹی کوٹھڑی میں رہا اور ہر رات سائقہ میرے سینے پر آ کر سوتی تھی ۔۔۔۔ شادی کے بعد سائقہ کی امی کی تنہائی ختم ہو گئی تھی اور میں سائقہ کو ساتھ لے لیکر شہر آ گیا تھا امتحانات کے دن قریب آ رہے تھے ۔۔۔ شفقت کی فرمائش پر میں نے اسے چنگ چی خرید دی جو وہ بستی سے مین روڈ پر چلا کر اپنے اخراجات پورے کر رہا تھا ۔۔ شفقت کی شادی اور اس کی خوشی کے ساتھ سائقہ کی امی کی صحت بہتر ہونے لگی تھی اور وہ اب مجھے سلام کرتے وقت میرا ہاتھ چوم کر مجھے دعائیں دیتی ہویہ کہتی میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں کہ میں آپ کے ہزاروں احسانات میں سے کوئی ایک احسان اتار سکوں ۔۔۔ سائقہ شفقت کی شادی کے بعد کچھ سنجیدہ ہو گئی تھی اور مجھے کئی بار بولا مانوں میں امی سے کسی دن خود کہہ دونگی شادی کا ۔۔۔ اور اگر ممکن ہوا تو شاکرہ سے بھی کہہ دونگی ۔۔۔ پھر دیکھا جائے گا ۔۔۔۔۔ بولی میں آپ کے سوا کسی قابل بھی نہیں رہوں گی ۔۔۔ مرنا ہی ہے مجھے اور کیوں نہ کوشش کرکے مرا جائے ۔۔۔۔۔ میں اس کی باتوں سے بہت پریشان ہو جاتا تھا ۔۔۔ شاکرہ سے دوسری شادی کے بارے میں میں نے دو بار اپیل کی کہ مجھے بچوں کی ضرورت ہے لیکن اس کے آنسوؤں کہ سیلاب میرا دل ڈبو دیتے تھے اور آخری بار اس سے یہ بات کہے مجھے تقریباً چار سال ہو گئے تھے اور اب میں خاموش ہو گیا تھا ۔۔۔ مہوش کے والدین نے بولا تھا کہ امتحانات کے بعد وہ اس کی شادی کر دیں گے ۔۔۔ سائقہ نے ایک دن میرے سے پوچھا میں کیا کروں گی ۔۔۔ میں نے اگر آپ کے نمبر اچھے آ گئے تو ایم بی بی ایس۔۔۔۔ وہ اس روز سے کچھ زیادہ محنت کر رہی تھی ۔۔۔۔ میرے ان کے پاس جانے پر بھی وہ اکثر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر پڑھنے لگتی اور کبھی کبھی مجھے اس کی گود میں بےوقت نیند آ جاتی تھی ۔۔۔۔ امتحانات سے ایک ہفتہ قبل میں نے ان کو اپنے گھروں کا چکر لگوایا اور ان سے کہا کہ بس اب پیپر کے بعد جانا ہے ۔۔۔ امتحانات کے ان دنوں میں ایک مہینے میں ہم نے صرف ایک بار سیکس کیا جیسے جیسے پیپر ختم ہوتے جا رہے تھے مہوش بہت پریشان ہوتی جا رہی تھی گوکہ میں اس میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور میں سائقہ کی خاطر سب کر رہا تھا لیکن وہ جہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی وہ چاہتی تھی کہ میں کسی طریقے اس کی شادی رکوا کر اسے اپنے ساتھ رکھوں ۔۔۔ لیکن میں صرف سائقہ تک محدود ہوتا جا رہا اور اور مجھے اس سے خوشی ملتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ پیپر ختم ہو چکے تھے لیکن مہوش نے اپنے گھر والوں کو پہلے سے ہی ایک ہفتے کا اضافی ٹائم دے چکی تھی سو ایک ہفتہ بھی ایک لمحے میں ختم ہو گیا اور اس ہفتے سائقہ کے کہنے پر میں نے اسے زیادہ وقت دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے میرے ساتھ واپس آنا تھا اس روز ہ؟ الٹو میں نکلے تھے اور سائقہ گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی مہوش رستے بھر میری گود میں سر رکھ کر روتی رہی تھی ۔۔۔۔ کہ آپ کے احسانات اور پیار کا بدلہ نہیں چکا پائی سائقہ کی وہ چنچل سی باتیں اب رک گئی تھی اور مہوش کی شادی کی تاریخ کے بعد سے تو وہ بجھ گئی تھی ۔۔۔۔ وہ مہوش کی شادی کے خلاف نہیں تھی اور نہ اسے یہ غم تھا کہ مہوش کے بعد وہ اکیلی ہو جائے گی ۔۔۔۔ اسے غم یہ تھا جو سوال بن کر اکثر اس کے لبوں پر آ جاتا کہ میرا کیا ہو گا ۔۔۔۔ اسے میڈیکل کالج میں داخلے کی بات یہ حوصلہ تو دے گئی تھی کہ وہ ابھی مجھ سے جدا نہیں ہو رہی تھی لیکن اسے وہم اٹھنے لگتے تھے اور بولنے لگتی ۔۔۔ مانوں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ایک پل میں ہمارا سب کچھ ٹوٹ جائے گا ۔۔۔ نہ میں جینے کے قابل رہوں گی اور نہ آپ جی سکو گے ۔۔۔۔میں مہوش کے سر پر ہاتھ رکھے سائقہ کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر اس کی باتیں سوچے جا رہا تھا ۔۔۔۔ مہوش کو اس کی گھر پہچایا ۔۔۔ اور کچھ کچھ دیر بعد واپس آنے لگے تھے سعدیہ بولی آپ شادی پر ضرور آنا آپ صرف میرے مہمان ہونگے ۔۔۔۔ سائقہ نے ایک لمحے کو سنجیدہ رہنے کی کوشش کی اور پھر مسکرا کے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔مہوش بھی اپنے دکھ کو کہٹدبا کے مسکرانے لگی تھی

      ۔۔۔(جاری ہے )

      Comment


      • #93
        عمدہ کاوش ہے مزہ آ رہا ہے

        Comment


        • #94
          نہایت خوبصورت اور لاجواب اپ ڈیٹ

          Comment


          • #95
            بہت عمدہ اور شہوت انگیز سٹوری ھے

            Comment


            • #96
              بہترین اپڈیٹ

              Comment


              • #97
                اس سٹوری کو دوبارا سے اس فورم پر دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ نہایت ہی شہوت انگیز کہانی

                Comment


                • #98
                  یار گرم سٹوری ہے جب ب اپڈیٹ پڑتا ہوں مزا اجاتا ہے

                  Comment


                  • #99
                    سائقہ اور مہوش کی امیوں کا بھی کچھ کریں رائٹر بھائی

                    Comment


                    • بہت اچھی کہانی، پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔​

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X