Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

زینت ایک دیہاتی لڑکی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت خوب مزا اگیا

    Comment


    • Bht out class story he

      Comment


      • بہت خوب ۔ لگتا ہے کہانی اب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

        Comment


        • ماسٹر مائنڈ صاحب ایک بہترین کہانی لکھنے پر مبارکباد قبول فرمائیں، خوش رہیں آباد رہیں اور زورِ قلم میں اضافہ ہو

          Comment


          • قسط نمبر 20

            سائقہ چند قدم چلنے کے بعد رک کے مجھے دیکھنے لگی تھی شاکرہ نے آہستہ سے کہا چلے جاؤ۔۔۔ میں اس کے ساتھ سٹیج پر چلا گیا سائقہ موجود سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اس نے ایک بڑی چادر لپیٹ رکھی تھی جا میں اس کا آدھا چہرہ چھپا ہوا تھا سائقہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھی اور انعامات وصولی کے وقت بھی مجھے دیکھتی جا رہی تھی ۔۔۔ سند ۔۔ اعزازی سرٹیفکیٹ اور بورڈ کے علاوہ کچھ کمپنیوں کے طرف سے اسے انعامی لفافوں کے ساتھ شیلڈ بھی دی گئی تھی ۔۔سٹیج سے اترتے ہوئے کچھ مقامی وےب چینلز کے لوگو آگے لہرا رہے تھے سائقہ نے اپنی کامیابی پر سب سے پہلے میرا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مانوں کی شفقت اور نگرانی کے سبب میں اس مقام پر پہنچی ۔۔۔ میرے والدین کی دعاؤں نے مجھے کامیابی کی سیڑھیوں پر چلایا اور میں اپنے والد محترم کو مس کرتے ہوئے اپنی کامیابی اس ہال میں بیٹھی اپنی امی کے نام کرنا چاہوں گی ۔۔۔ کاش آج میرے ابو میری کامیابی کو دیکھ لے۔۔۔ ۔۔۔سائقہ رو دی تھی میں نم آنکھوں سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی امی کے پاس لایا جو سر جھکائے رو رہی تھی اور باجی کے دیکھئے سے پہلے شاکرہ نے اسے اپنی باہوں میں بھرا اور پیار کرنے لگیں ۔۔۔ باجی نے اٹھ خر اسے اپنی باہوں میں لپیٹا اور دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں بہت سی لڑکیاں ان کے پاس کھڑی سلفی لینے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔ سائقہ لڑکیوں میں گھل مل گئی تھی اور باجی میرا سر پکڑ کر میرا ماتھا چومتے دعائیں دے رہی تھی ۔۔۔ باجی نے شاکرہ کو بھی بہت دیر تک گلے لگائے رکھا اور اسے چومتی رہی ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد شاکرہ نے باجی سے کہا کہ آج بھی آپ ہمارے مہمان ہیں باجی نے کہا کہ آج مجھے آپ لوگوں کی وجہ سے جو خوشی ملی اس کا احسان کبھی نہیں اتار پاؤں گی ۔۔۔ دل چاہتا آپ کے پاس رہوں لیکن گھر جانا ہے مجھے پھر کبھی آ جاؤں گی ۔۔۔۔ شاکرہ نے موبائل پر ٹائم دیکھا اور بولی مجھے امی کے گھر پہنچا دو ۔۔۔ اور آپ باجی لوگوں کے ساتھ چلے جاؤ ۔۔۔ میں نے تھوڑا آگے جا کر یوٹرن لیا اور شاکرہ کو پہنچانے کے بعد واپس ہو گیا ۔۔۔۔ رستے میں باجی نے سائقہ کو گود میں لٹا لیا اور اسے پیار کرتی جا رہی تھی ۔۔۔ مجھے بولی بھائی آج میں بہت خوش ہوں اور مجھے پکا یقین ھو گیا کہ میرے بعد کم سے کم میری گڑیا رل نہیں جائے گی ۔۔۔ میں سائقہ تمھیں دیتی ہوں بس ۔۔۔ اسے اپنا سمجھو شفقت نے جو کرنا کر لے۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے سائقہ کو سب کچھ اپنی امی کو دینے کا کہا ۔۔۔ سائقہ کو تقریباً تین لاکھ کے نقد انعامات ملے تھے لیکن باجی نے قسم اٹھا لی کہ میں نہیں لوں گی ۔۔۔۔ سائقہ سے بولی میرے بھائی کو دے دو پتا نہیں تم پر کتنا خرچ کر لیا میں نے انکار کر دیا سائقہ نے اپنی سائیڈ پر رکھ لئے ۔۔۔ بولی میں ان سارے پیسوں کی شہد لوں گی ۔۔۔ باجی بولی ڈہد کیا کرنی اتنی ۔۔۔ سائقہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئی ۔۔۔ میں نے گزشتہ روز کے شفقت کے روپے پر باجی سے معذرت کرتے ہوئے بولا کہ آج دل نہیں کر رہا پھر کبھی آؤں گا میں نے گاڑی ان کے گیٹ کے پاس کھڑی کر دی اور ان کے اترنے پہلے ڈگی کھول کر سامان نکالنے لگا تھا ۔۔۔ گزشتہ روز کے باجی کے حالات کو دیکھ کر میں غم زدہ تھا اور شام کو سائقہ کو اس مکان سے لینے جاتے ہوئے میں نے بہت سا راشن خرید لیا تھا ۔۔۔۔ باجی کے پاس کہنے کو الفاظ نہیں تھے وہ نم آنکھوں میں مجھے دیکھتی گھر چلی گئی تھی اور میں نے راشن کے سارے کاٹن ان کے گیٹ کے اندر رکھ دئیے اور میں زینت کی امی کے گھر چلا گیا تھا ۔۔ سونیا کا بیٹا ڈیڑھ سال کا ہو چکا تھا اور کچھ ماہ کی طرح سونیا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر۔میرے ہاتھ پر رکھا اور آہستہ سے بولی ابو کو سلام کرو۔۔۔۔ صرف ادھے گھنٹے بعد ہی سائقہ شہد کی بوتل اٹھا کر یہیں آ گئی تھی اور سب اس مبارکباد دینے لگے وہ گھر سے کچھ رنجیدہ ہو کر آئی تھی ۔۔۔ وہ زینت کی امی اور سونیا سے رسمی کلمات کے بعد مجھے بولی چلیں ۔۔۔۔ میں اٹھ گیا سونیا بولی آج ہمارے گھر رک جاؤ۔۔۔ سائقہ بولی مہمان نوازی کرو گی مانوں کی ۔۔۔۔ وہ چارپائی پر بیٹھ گئی اور مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں نے کہا سقی اگر رہنے کا موڈ ہے تو میں آپ کی خاطر آپ کے گھر چلا جاتا ۔۔۔ بولی نہیں ۔۔۔ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ کہ اگر امی نہ ہوتی تو مجھے قتل کر دیتے یہ دونوں ۔۔۔۔ اس نے بھائی اور بھابھی کی عکاسی کی تھی ۔۔۔۔ ہم رات نو بجے کے قریب سائقہ کے مکان میں پہنچ گئے تھے سائقہ یہاں پہنچنے تک نارمل ہو چکی تھی ۔۔سائقہ نے انعام میں ملنے والی ساری رقم اس نیلے شاپر میں ڈال دی۔۔۔ بازار سے لایا گیا کھانے میں سے برائے نام کھانے کے بعد سائقہ میرے اوپر لیٹ گئی تھی اور کچھ دیر بعد میرا لباس اتارتی مجھے بےتحاشہ کسنگ کرتی جا رہی تھی اور پھر مجھے بیڈ سے نیچے کھڑا کر کے سر کے بالوں سے پاؤں کے تلووں تک کسنگ کی اور میرے سینے پر شہد گرا کے اسے چاٹتی رہی اور بہت دیر بعد شہد کی بوتل مجھے تھما دی اور نشے بھری آنکھوں سے تکنے لگی میں نے کسنگ کے ساتھ اس کو لباس سے باہر نکالا اور شہد کی بوتل ہاتھ میں لے کر گالوں سے پاؤں تک تھوڑی تھوڑی گرا کر چاٹتا رہا ۔۔۔ میں نے اس سے فرمائش کی اور سائقہ نے بیڈ پر کھڑے ہو کر بھرپور انگڑائی لی اور مست نگاہوں سے دیکھتی کچھ بولے بغیر میرے آگے لیٹ گئی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہر دس منٹ بع میں ببلو کو باہر نکال کے پھر سے شہد چاٹنے لگتا ۔۔۔۔۔ رات دو بجے ہم بے حال ہو کر ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے سائقہ مجھے سیدھا لٹاتے ہوئے میرے سینے پر الٹا لیٹتے ہوئے کمبل کھینچ کر سو گئی ۔۔۔۔۔ دوپہر کا ایک بج چکا تھا ۔۔۔ گیٹ بجنے کی آواز پر ہم جاگ گئے تھے سائقہ اپنے جسم پر بڑی چادر لپیٹتے ہوئے مجھے دیکھ کر بولی۔۔ ماسی ۔۔۔ ہے ۔۔۔ گیٹ کھولے بغیر سائقہ نے اسے پانچ بجے شام کا ٹائم دیا اور والس آ کر میرے اوپر لیٹ گئی ۔۔۔۔ میں چار بجے اس کے پاس سے چلا آیا تھا ۔۔۔۔ سائقہ کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا تھا وہ بہت خوش تھی لیکن جب گھر جانے کا وقت آتا تو بہت دکھی ہو جاتی ۔۔۔۔ ایک دن بولا مانوں آپ نے بہت جلدی کر دی شفقت کی شادی کرانے میں ۔۔۔ زندگی اسی پگڈنڈی پر چلتی رہی تھی ۔۔۔ اس دوران میں سائقہ اور شاکرہ کے علاوہ کسی سے نہیں ملا اور میں نے خود کو محدود کر لیا تھا۔۔ زینت کبھی کال کرتی تو یہی شکوہ کرتی تھی ۔۔۔ نومبر کے وسط میں ایک رات دیر سے سائقہ کی کال آنے لگی ۔۔۔ رات کے اس پہر کال آنا بھی خطرے کی گھنٹی تھی ۔۔۔ میں موبائل اٹھانے کے ساتھ باہر آ گیا میں شاکرہ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ میں نے سائقہ کو کال کر لی ۔۔ مانوں ۔۔۔ پیٹ میں شدید درد ہے ۔۔۔ میں نے کہا اوکے میں آتا۔۔۔ میں نے ایک پرچی پر لکھا ۔۔۔ ہاسٹل سے کال آئی ہے سائقہ کی طبیعت بہت خراب ۔۔۔ اٹھ جاؤ تو کال کر لینا ۔۔۔۔ میں جلد ہی سائقہ کے پاس پہنچ گیا اور اسے لیکر ہسپتال چلا گیا ۔۔۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد سائقہ کے ٹیسٹ ہونے لگے ۔۔۔۔ پین کلر انجکشن لگنے کے بعد اس کا درد ختم ہو گیا لیکن ٹیسٹ کی رپورٹس ہمیں صبح جاکر ملیں ۔۔۔۔ شاکرہ نے صبح چار بجے کال کر لی تھی میں اس کے آگے روم اور مین گیٹ کو لاک کر کے آیا تھا ۔۔۔ وہ پھر سونے لگی تھی اور میں سائقہ سے باتیں کرتا رہا اسے صبح پانچ بجے نیند آ گئی اور میں موبائل پر گیم کھیلنے لگ گیا ۔۔۔ سائقہ نو بجے جاگ گئی اور اب وہ اس روم میں چلنے لگی تھی اور پھر بیڈ پر بیٹھ کر مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔۔۔ میڈیکل رپورٹس آ گئیں تھی اور چند ہی منٹ بعد ڈاکٹر بھی آ گیا ۔۔۔ ڈاکٹر نے سائقہ کا چیک اپ کیا اور تسلی کے بعد رپورٹس لے کر بیٹھ گیا ۔۔۔ پوچھا پہلے اس کا علاج کس ڈاکٹر سے چل رہا ۔۔۔ میں نے کہا کسی سے نہیں رات درد ہوا تھا ۔۔۔۔یہاں آ گئے تھے ۔۔۔ بولا درد کا مسئلہ اتنا نہیں ہے ۔۔۔ بچے نہ ہونے کا مسئلے کا علاج چل رہا ۔۔۔ میں ڈولنے لگا اور خود کو سنبھال کر مشکل سے ڈاکٹر سے ڈیٹیل پوچھی ۔۔۔ بولا اس کے بچے نہیں ہو سکتے کراچی میں علاج ہے ایک ۔۔۔ لیکن اس سے بھی امکان بیس فیصد ہیں ۔ڈاکٹر میڈیسن لکھ کر جانے کب کا جا چکا تھا ۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں بیٹھا ہوں ۔۔۔۔ ایک نرس نے میرا کندھا پکڑ کر ہلایا اور پوچھا صاحب آپ ٹھیک ہیں میں نے اسے تکتے ہوئے مشکل سے کوئی لفظ ادا کر دئیے اگلے لمحے اس نے کاغذ تھماتے ہوئے ہوئے کہا ۔۔۔ آپ کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے ۔۔۔ کاغذ میرے ہاتھ سے کبوتر کی طرح نکل کر بیڈ کے نیچے چلا گیا تھا ۔۔۔ بہت دیر بعد میں نے آنکھوں کو راف کیا اور سائقہ کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ بت بنی دیوار کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ میں اس کے قریب جاتا چاہتا تھا لیکن میں جسم میں سکت باقی نہیں تھی اور بدن کا انگ انگ ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔ میڈیکل عملے کے ایک اہلکار نے آ کر ریکوسٹ کی کہ صاحب ہم پورے دوگھنٹے سے آپ کا ویٹ کر رہے ۔۔۔ ہم نے یہاں ایک اور مریض کو لانا ہے ۔۔۔ میں بیڈ کو پکڑتے ھوئے بینچ سے اٹھ گیا تھا ۔۔۔۔ میں نے سائقہ کا کندھا پکڑ کر اسے اٹھنے کو کہا وہ مجھے پاگلوں کی طرح گھورنے لگی تھی ۔۔۔ میں نے اپنے اعصاب کو بحال کرتے ہوئے سائقہ کی ٹانگوں کو پکڑا اسے بیڈ سے نیچے لٹکا کر ان میں شوز پہنائے اور اسے اٹھا کر پکڑے ہوئے روم کے دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا میں سائقہ کو اٹھانا چاہا رہا تھا لیکن آج یہ بہت بھاری ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ صدیوں کی مریضہ کی طرح قدم گھسیسٹے گیلری میں چل رہے تھے کہ پیچھے نرس نے آ کر کچھ کاغذ ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا سر یہ آپ کے میڈیکل ٹسٹ اور کاغذات ۔۔۔۔ گاڑی کی کھڑکی پتا نہیں کیوں نہیں کھل رہی تھی ۔۔۔ ایک بزرگ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے چھوٹے بھائی یہ میری گاڑی ہے ۔۔۔ میں نے سوری کرتے ہوئے تھوڑا آگے کر ادھر ادھر دیکھنے لگا سائقہ زمین پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اس گاڑی کو غور دیکھا ۔۔۔ اور چابی لگائی تو گیٹ کھل گیا میں نے جیسے تیسے سائقہ کو پچھلی سیٹ پر سلا دیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بہت دیر خود کو سیٹ کرتا رہا ۔۔۔ بوتل اٹھا کر دو گھونٹ پانی کے حلق سے اتارے اور گاڑی اسٹارٹ کرنے ہی والا تھا کہ مجھے محسوس ھوا کہ موبائل ویبریشن کر رہا ہے میں نے موبائل نکال کر دیکھا شاکرہ کی کال تھی میرے اعصاب بحال کرنے اور ذہن میں پلان بنانے تک اس کی گھنٹی بند ہو گئی اور میرے نمبر ڈائل کرنے سے پہلے اس کی پھر کال آ گئی میں نے مشکل سے ہیلو کہا ۔۔۔ بولی کہاں ہیں آپ زاہد ۔؟؟۔ آپ ٹھیک ہیں اور سائقہ کیسی ۔۔۔ میں دوگھنٹے سے کالیں کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے گلے کو صاف کیا اور بولا ۔۔۔ سائقہ ٹھیک ہے ہاسٹل چلی گئی تھی اور میرے دوسکا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اس کے ساتھ بزی تھا ۔۔۔ سوری آپ کی کال کا علم نہیں ہوا۔۔۔۔ بولی ابھی کہاں ہو ۔۔۔ میں نے کہا ہسپتال ۔۔۔ لیکن ڈاکٹر اسے ملتان لے جانے کا بول رہ۔۔۔ اوہ ہ ہ گارڈ ۔۔۔ اوکے اگر ملتان جاؤ تو مجھے بتا دو ۔۔۔ امی آئی ہے پھر میں ان کے ساتھ چلی جاتی ۔۔۔۔ میں نے اوکے کہہ کر کال منقطع کر دی ۔۔۔بہت دیر بعد میں نے آس پاس کا جائزہ لیا اور چیونٹی کی رفتار گاڑی کو ایک سائڈ پر لے جانے لگا ہسپتال سے نکلنے کے بعد میں نے ایک سائیڈ پر رکتے ہوئے شاکرہ کو بتا دیا کہ ہم ملتان جا رہے اور کال بند کرتے مکان کی طرف آنے لگا یہ پررونق شہر ویران ہو چکا تھا دھند نے اسے اپنی لپیٹ میں لے۔لیا تھا اور رستہ دکھنا مشکل ھو رہا تھا ۔۔۔ جانے کس ٹائم ہم سائقہ کے مکان میں پہنچے گاڑی کو باہر گلی میں لاک کیا اور سائقہ کو پکڑ لیا بیڈ تک لے آیا ۔۔۔ میں نے اسے لٹا دیا اور اس کے شوز اتار کر نیچے پھینک دئیے ۔۔۔میں اس کے ساتھ لیٹ گیا اور اس کے گالوں کو سہلانے لگا ۔۔۔۔بہت دیر بعد اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور میں نے اٹھ پانی کا گلاس بھتا اور سائقہ کا سر اپنی جھولی میں رکھا اور اس کو دوبارہ اپنے ہاتھ سے اٹھا کر پانی پلایا ۔۔۔ سائقہ نے مجھے تکتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے شروع ہو گئے ۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ وہ جی بھر کے رو پڑے ۔۔۔ آہستہ آہستہ اس کی ہچکیاں بندھنے لگیں اور وہ بہت دیر تک روتی رہی ۔۔۔ میں نے اس کو کسنگ کرنا شروع کر دی اور پھر کچھ باتیں کرتے ہوئے سائقہ کے ساتھ لیٹ گیا اور اسے اپنے سینے پر الٹا لٹا کر اس کے ہپس پر اہستہ سے تھپکی دینے لگا بہتر دیر بعد سائقہ سو گئی تھی اور میری آنکھیں بھی بند ہونے لگیں تھیں

            ۔۔۔۔ (جاری ہے)

            Comment


            • ہائے زندگی کس موڑ پہ لے آئی ظالم۔۔۔۔ کوئی بات نہیں غیر قانونی حیثیت سہی اولاد تو ھے ماموں کی ۔ سونیا سے۔ زینت سے ۔مہوش اور اسکی بھابھی سے ۔

              Comment


              • انتہائی عمدہ اور لاجواب سٹوری

                Comment


                • عمدہ انداز میں کردار کو بیان کیا گیا ہے

                  Comment


                  • بہت اچھی کہانی، پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔​

                    Comment


                    • اب ماں نہ بن سکنے پر شاکرہ کو کیسے راضی کیا جائیگا۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X