Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بے بسی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Achi story hai

    Comment


    • بھائ اتنا ظلم نہ کرو گرمی دماغ میں چڑھ جاتی ہے

      Comment


      • اسد کے والد جانے کے لیئے تیار تھے، انھوں نے جاتے وقت اسد کو کہا کہ وہ اپنی ماں کا اچھے سے خیال رکھے اور ان کو دوائی ٹائم پر دے۔ ہفتے تک وہ واپس آ جائیں گے اور کام والی بھی تھوڑی دیر میں آ جائے گی۔ اسد نے اپنے والد کو رخصت کیا تو اس کے تھوڑی ہی دیر بعد کام والی آ گئی، وہ ایک ادھیڑ عمر خاتون تھی اور اپنے کام میں ماہر تھی اس نے آتے ساتھ ہی رخسانہ سے کام کے بارے میں پوچھا اور فورا ہی کام کرنا شروع کر دیا، اسد نے کالج کے لیئے تیاری پکڑی اور ناشتے کے بعد کالج چلا گیا۔
        کالج میں بھی اسد کا دھیان اپنی ماں کے جسم پر ہی تھا یوں تو وہ پہلے بھی اپنی ہی دنیا میں مگن ہوتا تھا پر آج تو اس کی حالت بہت خراب تھی۔ جوں توں کر کے کالج سے چھٹی ہوئی تو اسد گھر آ گیا، آتے ساتھ ہی وہ رخسانہ کے پاس گیا اور اس سے اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔ اس دوران اسد کی نظر اپنی ماں کے جسم کے ہر حصے کو ٹٹول رہی تھی جسے رخسانہ محسوس نہ کر سکی۔
        اسد نے کپڑے وغیرہ بدلے تو اس نے رخسانہ کو کھانا دیا اور خود بھی کھایا۔ برتن وغیرہ کچن میں رکھ کر اسد نے مٹھ مارنے کے بارے میں سوچا اور وہ یہ سوچ کر اپنے کمرے میں آ گیا، مگر ابھی اس نے اپنے تنے ہوئے لوڑے کو ہاتھ ہی لگایا تھا کہ رخسانہ کی آواز آئی وہ اسے بلا رہی تھی۔ اسد رخسانہ کے پاس گیا تو اس نے اسے واشروم تک لے کر جانے کے لیئے کہا، اسد نے رخسانہ کو سہارا دے کر اٹھایا اور اپنا بازو رخسانہ کی کمر کی بجائے رخسانہ کے چوتڑوں پر لپیٹ لیا، اسد کا قد چونکہ رخسانہ سے چھوٹا تھا اس لیئے رخسانہ نے محسوس نہ کیا مگر اسد نے جان بوجھ کر رخسانہ کے بھارے کولہوں کو محسوس کرنے کے لیئے ان پر اپنا بازو لپیٹا تھا، رخسانہ کی گانڈ کا سائز چونکہ کافی بڑا تھا اس لیئے اسد کا ہاتھ رخسانہ کے ایک چوتڑ پر تھا، جب اسد نے رخسانہ کو واشروم میں کموڈ پر بٹھا دیا تو اسد واشروم سے باہر آ گیا۔
        رخسانہ نے مشکل سے اپنی شلوار نیچے کی اور بیشاب کرنے بعد اس نے بہت تکلیف کے ساتھ اپنا آپ صاف کیا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کا جسم تو اکڑا ہوا ہے اور وہ زیادہ حرکت نہیں کر سکتی، اس نے نیچے جھک کر اپنی شلوار اوپر کرنی چاہی تو اس سے نیچے جھکا نہ گیا، رخسانہ کے کافی کوشش کی پر وہ اپنی شلوار اوپر نہ کر سکی۔ شاید اس کے رخم ٹھیک ہو رہے تھے اس لیئے اس کا جسم اکڑ گیا تھا۔ چارو ناچار رخسانہ نے اسد کو آواز دی تو اسد واشروم میں داخل ہوا، جیسے ہی اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کموڈ پر شلوار نیچے کیئے بیٹھی ہے تو وہ گبھرا کر واپس جانے لگا، رخسانہ نے اسے روکا اور کہا اسد مجھے کھڑا کرو اور شلوار اوپر کر دو مجھے سے نہیں ہو رہی ہے۔
        اسد پریشان سا رخسانہ کی طرف بڑھا اور اس نے سائڈ میں جا کر رخسانہ کو سہارا دیا اور اسے کھڑا کر دیا، واشروم چونکہ چوڑائی کے رخ پر بنا ہوا تھا اس لیئے کموڈ اور دوسری دیوار کے درمیان صرف اتنا فاصلہ تھا کہ ایک آدمی آسانی سے گزر سکے۔ اسد نے سائڈ میں بیٹھ کر جیسے ہی رخسانہ کی شلوار کو تھام کر اوپر کی طرف دیکھا تو اسے کی نظر رخسانہ کی ٹانگوں کے بیچ میں پڑی جہاں سے رخسانہ کی بالوں سے بھری چوت نظر آ رہی تھی۔ اس نے فورا اپنی نظر چرا لی اور شلوار اوپر کرنے لگا۔ اور وہ رخسانہ کی بھاری ٹانگوں پر شلوار چڑھانے لگا، اور پہلے کی طرح اس دفعہ بھی شلوار رخسانہ کی ٹانگوں کے درمیان پھنس گئی، جس کی وجہ سے رخسانہ کے چوتڑ اور چوت پر شلوار نہ چڑھ سکی، اس نے شلوار میں ہاتھ ڈال کو صیح کیا اور شلوار چڑھا دی مگر اس دفعہ اس کا ہاتھ رخسانہ کی چوت کے بالوں سے مس ہوا جس کی وجہ سے اسد کے جسم میں سنسنی کی لہریں دوڑ گئیں۔ اسد اپنی ماں کو سہار دیتا ہوا کمرے میں لے آیا اور بستر پر بٹھا کر جانے لگا تو رخسانہ نے اس سے کہا وہ اسے دوائی دے دے، کیونکہ اس کے جسم میں بہت سخت درد ہو رہا ہے اور جسم اکڑا ہوا ہے۔ اسد اپنے کمرے سے دوائی لے آیا اور رخسانہ کو دے دی تو رخسانہ نے اس سے پوچھا کے دوائی میں کیا کوئی لگانے والا ملہم بھی ہے تو اس نے ہاں کہا رخسانہ نے کہا کہ وہ ملہم لا دے۔ اسد دوبارہ اپنے کمرے سے ملہم لے آیا اور رخسانہ کو پکڑا دیا، تو رخسانہ نے اس سے کہا بیٹا جی یہ آپ کو ہی لگانا پڑے گا۔

        Comment


        • اسد پریشان سا ہو کر اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگا تو رخسانہ نے اپنی ٹانگوں پر سے شلوار اوپر کی اور کہا وہ اس کی پنڈلیوں پر لگا دے، اسے نے نیچے بیٹھ کر رخسانہ کی پنڈلیوں پر مرحم لگانے لگا، صحت مند اور ملائم پنڈلیوں پر جیسے ہی اسد کا ہاتھ لگا تو رخسانہ کو اچھا لگا، اسد نے نہایت احتیاط کے اور آرام سے رخسانہ کی پنڈلیوں پر ٹیوب سے مرحم نکال کرمل دیا۔ رخسانہ کو تھوڑی راحت ملی تو اس نے سوچا کیوں نہ کمر اور کندھوں پر بھی مرہم لگوا لوں۔
          اسد نے جب رخسانہ کی پنڈلیوں پر مرحم مل دیا تو رخسانہ نے اس سے کہا کہ وہ اس کے کندھوں اور کمر پر مرہم سے مالش کر دے۔ اسد نے پریشان ہو کر رخسانہ کی طرف دیکھا تو رخسانہ نے کہا کچھ نہیں ہوتا تو میرا بیٹا ہے تو نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا، اسد نے اثبات میں سر ہلایا تو رخسانہ نے اس سے کہا کہ وہ اس کی قمیض اتار دے۔
          اسد نے رخسانہ کی مدد سے اس کی قمیض اتار دی تو رخسانہ نے اس سے کہا کہ وہ اس کو بستر پر لیٹ جانے دے پھر وہ اس کی کمر اور کندھوں پر مالش کر دے، رخسانہ نے ہائے ہائے کرتے ہوئے اپنی ٹانگیں بستر پر کیں اور اور پھر اوندھی ہو کر لیٹ گئی، اس نے اپنا سر تکیئے پر رکھ کر اپنے بازو اپنے سر کے دونوں طرف رکھ دیئے۔
          اسد بہت اشتیاق سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا، جس جسم کے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مار مار کر ادھ موا ہو چکا تھا وہ جسم اسے کے سامنے بستر پر تھا وہ بھی بخیر قمیض کے اور اب اس نے اس جسم کی مالش کرنی تھی۔ اس وقت اسد اندر ہی اندر فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ آج اپنی ماں کو ضرور چودے گا۔ مگر اسے معلوم تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہو گا، نہ رخسانہ اس کو چودنے کے لیئے کبھی کہے گی نہ وہ خود اسے چود سکے گا، اسے رخسانہ کو اتنا گرم کرنا تھا کہ وہ جو بھی کرے رخسانہ اسے کرنے دے۔ اسد بستر پر چڑھ گیا، اس نے مساج کی بہت سی ویڈیوز دیکھی تھیں اور اسے عورت کے جسم کے وہ حصے بھی معلوم تھے جن کو بار بار چھیڑنے سے عورت آہستہ آہستہ گرم ہو جاتی ہے اور اپنا آپ کھو دیتی ہے، اسد نے پہلے رخسانہ کی کمر سے نیچے کی طرف دیکھا جہاں رخسانہ کی گانڈ شلوار میں قید تھی، اور وہ اس وقت ایسے لگ رہی تھی جیسے بڑی بڑی دو پہاڑیاں ہوں اسد کا دل اس کے لن میں دھڑکنےلگا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ یہ زندگی کا پہلا اور آخری موقع ہے جو کچھ کرنا ہے آج ہی کرنا ہی کوئی بیواقوفی نہیں کرنی کوئی جلد بازی نہیں کرنی اور رخسانہ کو سنبھلنے کا موقع نہیں دینا۔
          اس نے ٹیوب سے ملحم نکالا اور اپنی ہتھیلیوں پر مل کر رخسانہ کے کندھوں پر ملنے لگا۔
          بیچ میں برا کی سٹریپس آ رہی تھیں مگر اسد احتیاط اور سکون سے رخسانہ کی مالش کر رہا تھا، رخسانہ کو بھی اچھا لگ رہا تھا اور اسے بہت آرام مل رہا تھا، اسد نے رخسانہ کے بال اس کی کمر اور گردن سے اٹھا کر سائیڈ پر کیئے اور جس جگہ گردن اور کندھے آپس میں ملتے ہیں وہا ں مالش کرنے لگا، اور آرام آرام سے رخسانہ کی گردن پر نرم ہاتھوں سے مالش کرتا رہا، رخسانہ کو نیند آنے لگی تھی، اور اسے بہت اچھا لگ رہا تھا، اسد نے دوبارہ ٹیوب سے مرحم نکالا اور اس دفعہ رخسانہ کے کندھوں سے نیچے کمر کی طرف مالش کرنے لگا، مگر اس دفعہ اس کا ہاتھ تھوڑا سخت تھا اور وہ تھوڑے زور سے رخسانہ کی مالش کر رہا تھا، برا کی سٹریپس کے نیچے ہاتھ ڈال کر بھی مالش کر رہا تھا، رخسانہ تقریباً مدہوش ہو چکی تھی، مگر اسد رخسانہ کو مدہوش نہیں گرم کرنا چا ہتا تھا، پھر اس نے رخسانہ کی کمر کی مالش شروع کر دی اور کمر پر ہی کچھ ایسے حصے ہوتے ہیں جن کو بار بار چھیڑنے سے عورت گرم ہونے لگتی ہے جیسے کے لووہک کا جوڑ، اسد احتیاط سے رخسانہ کی کمر اور سائیڈ کی مالش کر رہا تھا، دوسری طرف رخسانہ پر خماری چڑھنے لگی تھی، مگر اسد کے مالش کرنے کی وجہ سے اس کا جسم ڈھیلا اور پرسکون محسوس ہونے لگا تھا اس کی چوت میں اسے ہلکی ہلکی سنسنی محسوس ہونے لگی تھی، ایک طرف اس کا دل کر رہا تھا کہ اسد اس کی پورے جسم کی مالش کرے دوسری طرف اس کا دل یہ بھی کر رہا تھا کہ اسد کو رک جانے کے لیئے کہہ دے مگر جس جس طرح وقت گزر رہا تھا اور اسد رخسانہ کی کمر کی مالش کرتا جا رہا تھا رخسانہ اپنی شہوت کے ہاتھوں بے بس ہوتی جا رہی تھی، وہ یہ جانتی تھی کہ اس کے پاس اپنی آگ بجانے کا کوئی رستہ نہیں ہے پر جو مزا اسے آج آ رہا تھا وہ اسے کبھی نہیں آیا تھا، میٹھی میٹھی بے چینی اور سنسنی جو اس کے پورے جسم میں دوڑ رہی تھی اور وہ سکون جو اس کے دماغ پر حاوی ہو چکا تھا جس کی وجہ سے سوچنے اور کچھ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھی، کچھ وقت کے بعد اسے محسوس ہوا کہ اس کی چوت گیلی ہونا شروع ہو گئی ہے اور اس میں ہلکی ہلکی خارش ہونے لگی ہے، اس کا بہت دل کر رہا تھا کہ وہ اپنی پھدی کو ہاتھ لگا کر دیکھے اور تھوڑی سے خارش کر لے پر مجبور تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا اس اپنی چوت میں خارش کرتے ہوئے دیکھے۔​

          Comment


          • بہت ہی کمال اور گرم کہانی ہے

            Comment


            • بہت شاندار

              Comment


              • Bht hi zabardastttt ab rukhsana garam hona shuru ho gai hy bht jald iska beta ussy thandakar dy ga

                Comment


                • اسد کو رخسانہ کی مالش کرتے ہوئے تقریباً بیس منٹ ہو چکے تھے، اور اس کا لوڑا اس وقت تن کا لوہے کا راڈ بنا ہوا تھا، مگر وہ اس وقت اپنے لوڑے کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ رخسانہ کی شلوار اتارے اور اس کی چوت اور گانڈ میں گھس جائے، اس نے آہستہ سے رخسانہ کو آواز دی اور پوچھا کیا وہ کی ٹانگوں کو دبا دے تو رخسانہ نے کچھ سوچے سمجھے بخیر کہہ دیا کہ دبا دو۔
                  اسد نے زندگی میں پہلی بار کسی عورت کی ران کو ہاتھ لگایا بھاری موٹی اور شاہتیر جیسی ران، اسد نے نہایت احتیاط سے رخسانہ کی رانوں کو دبانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ دباتا رہا وہ دبانے کے سا تھ ساتھ رخسانہ کی رانوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا جس کی وجہ سے رخسانہ بہت گرم ہوتی جا رہی تھی، پھر رخسانہ نے خود ہی اپنی ٹانگوں کو تھوڑا کھول دیا، جسے دیکھ کر اسد کے لوڑے نے جھٹکا مارا اسد آرام سے آٹھا اور رخسانہ کی ٹانگوں کے بیچ میں جا کر بیٹھ گیا، اب اس کے دونوں ہاتھ رخسانہ کی دوںوں رانوں پر تھے اور نظر رخسانہ کی موٹی اور اٹھی ہوئی گانڈ پر، اس کو بہت دل کر رہا تھا کہ رخسانہ کی شلوار اتار دے اور رخسانہ کی دونوں پہاڑیوں کو کھول کر بیچ میں لن گھسا دے، مگر وہ کوئی جلدی میں بیواقوفی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے دباتے دباتے اہستہ آہستہ رخسانہ کے چوتڑوں کی طرف بڑھنا شروع کر دیا اور وہ رخسانہ کی رانوں کی اندرونی حصے کو بہت شدومد کے ساتھ دبارہا تھا جس کی وجہ سے رخسانہ کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی اور اس کی چوت میں پانی جمع ہونا شروع ہو چکا تھا۔
                  اسد نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے اپنے ہاتھ اس طرح کر لیئے تھے کہ اس کے ہاتھ کے انگوٹھا اندر کی طرف تھے اور وہ نہایت آرام سے رخسانہ کی چوت اور گانڈ کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے ہی اس کا انگوٹھا رخسانہ کی چوت سے لگا تو رخسانہ کے منہ سے بے ساختہ ایک لمبا سانس اور ہائے کی آواز نکل گئی، جسے سن کر اسد نے رخسانہ سے پوچھا، امی درد ہو رہا ہے تو رخسانہ یہ کہہ نہیں سکتی تھی کہ مزا آ رہا ہے تو اس نے کہا ہاں بہت درد ہو رہا ہے، اسد نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا امی مرحم سے مالش کر دوں تو رخسانہ جو اپنی گرمی میں تڑپ رہی تھی اس نے کہا ہاں کر دو کچھ تو سکون ملے، اسد نے کہا امی شلوار اتارنی پڑے گی، تو رخسانہ نے جواب دیا تو اتار دو پہلے بھی تو تم ہی نے پہنائی ہے۔
                  یہ سن کر اسد کا دل اس کے گلے میں آ گیا اور کی کنپٹیاں بجنے لگیں۔
                  اسد نے نہایت آرام سے رخسانہ کی شلوار اتاری، اب رخسانہ صرف برا میں اسد کے سامنے الٹی لیٹی تھی، اور اس کی چوت میں آگ لگی ہوئی تھی اور اسد اس آگ میں ایندھن ڈال رہا تھا، اسد کے من کی مراد پوری ہو چکی تھی مگر ابھی بہت کچھ باقی تھا، اور اسد وہ سب کچھ کرنا چاہتا تھا اور اسے پتہ تھا کہ یہ ہی موقع ہے، جزبات میں آ کر یا جوش میں بہک کر اگر اس نے تھوڑی سی بھی جلدبازی کر دی تو پوری زندگی اسے مٹھ پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔​

                  Comment


                  • sir bhut hi allaw bhut hi allaw alfaz nai hy kia kamal manzar kashi ki hy sir bhut khoob aisi jan dali hy lafazon nay kay biyan nai krskta bhut hi allaw bhut hi allaw

                    Comment


                    • Boht shandar update thi, or story bhi boht achi hai

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X